سلیمانی

سلیمانی

غاصب صہیونی رژیم کے خلاف برسرپیکار قوتوں پر مشتمل اسلامی مزاحمتی بلاک خطے کی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ ایک زمانہ تھا جب فلسطین میں سرگرم اسلامی مزاحمتی قوتوں کے پاس سب سے بڑا ہتھیار پتھر تھا۔ دھیرے دھیرے خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی بلاک طاقتور ہونے کے نتیجے میں فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ آج فلسطینی مزاحمتی گروہ جدید ترین فوجی ہتھیاروں سے لیس ہیں جن میں ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے میزائل اور مختلف قسم کے ڈرون طیارے شامل ہیں۔ حال ہی میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے ملٹری ونگ "سرایا القدس" نے ایک نئے قسم کا ڈرون طیارہ متعارف کروایا ہے جس کا نام "جنین" رکھا گیا ہے۔ حماس کا دعوی ہے کہ یہ ڈرون طیارہ مکمل طور پر مقامی سطح پر تیار کیا گیا ہے۔
 
اس ڈرون طیارے کی نقاب گشائی کے بعد غزہ میں "القسام بریگیڈز" کے بعد سرایا القدس دوسری بڑی ڈرون طاقت بن کر سامنے آئی ہے۔ حماس کے اس اعلان کے بعد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو درپیش خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے اور اب اسے مستقبل کی ممکنہ جنگوں میں اسلامی مزاحمت کی میزائل طاقت کے ساتھ ساتھ ڈرون طاقت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ گذشتہ برس بھی سیف القدس معرکے میں اسلامی مزاحمت نے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف ڈرون طیاروں کا استعمال کیا تھا۔ اگرچہ اسلامی مزاحمتی گروہوں کے پاس موجود یہ ڈرون طیارے ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ابتدائی نوعیت کے ہیں لیکن اس کے باوجود صہیونی دشمن کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ یہ ڈرون طیارے غاصب صہیونی رژیم کے سکیورٹی نظام کو شدید چیلنجز سے روبرو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
 
العربی الجدید نیوز ویب سائٹ نے اسلامی مزاحمتی گروہوں کے پاس موجود ڈرون طیاروں کی تیاری کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے: "اگرچہ گذشتہ برس سیف القدس معرکے کے دوران اسلامی مزاحمتی گروہوں نے صہیونی دشمن کے خلاف ان ڈرون طیاروں کا بھرپور استعمال کیا تھا لیکن اسلامی مزاحمت کی جانب سے ڈرون طیاروں کی تیاری کا سلسلہ 2006ء سے شروع ہوا۔ اس سال حماس نے ڈرون طیاروں کی تیاری کیلئے پہلا قدم اٹھایا۔ 2008ء میں فلسطینی انجینئرز کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی جس کی سربراہی تیونس کے شہری محمد الزواری کر رہے تھے۔ یہ ٹیم فلسطین سے باہر رہ کر 30 ڈرون طیارے تیار کرنے میں کامیاب ہوئی۔ 2016ء میں صہیونی جاسوسی ادارے موساد نے تیونس کے انجینئر محمد الزواری کو صفاقس میں واقع ان کے گھر کے سامنے شہید کر ڈالا۔"
 
العربی الجدید اس بارے میں مزید لکھتا ہے: "فلسطینی سرزمین کے اندر تیار ہونے والے پہلے ڈرون طیارے کا نام "ابابیل" تھا۔ یہ ڈرون طیارہ 2014ء میں غاصب صہیونی رژیم کے خلاف جنگ میں بروئے کار لایا گیا۔ اس سال القسام بریگیڈز نے سرکاری طور پر اعلان کیا کہ اس کے پاس تین ابابیل ڈرون طیارے کے تین مختلف ماڈل موجود ہیں۔ ایک ماڈل جارحانہ، دوسرا خودکش اور تیسرا جاسوسی مقاصد کیلئے ہے۔ حماس کی جانب سے اس سال جو خبر دنیا والوں کی حیرت کا باعث بنی وہ "الکریاہ" میں واقع غاصب صہیونی رژیم کی وزارت جنگ کی عمارت کو کامیابی سے اس ڈرون طیارے سے نشانہ بنانا تھا۔ اسلامی مزاحمت نے ڈرون طیاروں کی تیاری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ حالیہ سیف القدس معرکے میں بھی القسام بٹالینز نے ایک نئے قسم کا ڈرون طیارہ تیار کرنے کا اعلان کیا جس کا نام "شہاب" ہے۔"
 
شہاب ڈرون طیاروں کے ذریعے اسلامی مزاحمت نے مختلف کاروائیاں انجام دی ہیں جن میں سے النقب صحرا میں "نیر عوز" قصبے میں صہیونی آئل ریفائنری پر حملہ قابل ذکر ہے۔ فوجی ماہرین کے مطابق شہاب ڈرون طیارہ، ابابیل ڈرون طیارے سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ یہ ڈرون طیارہ دشمن کے دفاعی نظام اور ریڈار سے بچ نکلنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ شہاب ڈرون طیارے کی تیاری کے کل اخراجات صرف 300 ڈالر ہیں جس کی بدولت ضرورت پڑنے پر ایسے ہزاروں ڈرون طیارے بنائے جا سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے صہیونی رژیم سے وابستہ سکیورٹی ذرائع نے اس بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس امکان کا اظہار بھی کیا ہے کہ ممکن ہے اسلامی مزاحمت کے پاس ایسے سینکڑوں ڈرون طیارے موجود ہو سکتے ہیں۔
 
غاصب صہیونی رژیم اور خطے کے امور کے ماہر مصنف اور تجزیہ نگار حسن لافی اس بارے میں کہتے ہیں: "غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے شدید فضائی دفاعی اقدامات کی بدولت اسلامی مزاحمت کے پاس ترقی یافتہ ڈرون طیاروں کی موجودگی فوجی میدان میں ایک اہم پیشرفت جانی جاتی ہے۔ اس بارے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت ان ڈرون طیاروں کو مقامی سطح پر ہی تیار کر رہی ہے اور خود فلسطینی جوان ان کی تیاری میں مصروف ہیں۔ یوں یہ ڈرون طیارے غاصب صہیونی رژیم کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ اسلامی مزاحمت کی جانب سے فوجی شعبے میں جدید ٹیکنالوجیز کی جانب گامزن ہونا ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہر قیمت پر غاصب صہیونی رژیم کی فوجی برتری کا مقابلہ کرنے کا عزم کر چکی ہے۔"

تحریر: علی احمدی

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شام کے صدر بشار اسد اعلی وفد کے ہمراہ تہران کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ملاقات کی ۔ صدر سید ابراہیم رئیسی نے شام کے صدر بشار اسد کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ خطے کے مستقبل کا تعین مذاکرات کی میز پر نہیں بلکہ علاقائی قوموں کی مزاحمت اور استقامت پر مبنی ہوگا۔

صدر رئیسی نے شام اور ایران کے شہداء خاص طور پر شہید سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی مزاحمتی شہداء نے عالمی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور آپ بھی اپنے باپ کی طرح مزاحمتی محاذ کی اہم شخصیت ہیں۔

ایرانی صدر نے خطے کے سیاسی اور سکیورٹی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی مجاہدین نے ثابت کردیا ہے کہ وہ خطے کی ناقابل انکار طاقت ہیں اور وہ شام اور خطے میں امن و صلح برقرار کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

شام کے صدر بشار اسد نے اس ملاقات میں شامی حکومت اورعوام کی حمایت پر ایرانی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ شام ایران کے ساتھ تمام شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔ بشار اسد نے کہا کہ ایران واحد ملک ہے جس نے امریکہ ، مغربی ممالک اور وہابی دہشت گردوں کی مسلط کردہ جنگ میں ہمارا ساتھ دیا ، بشار اسد نے کہا کہ شام پر مسلط کردہ جنگ میں عالمی دہشت گردوں کی شکست کے بعد ثابت ہوگيا ہے کہ اسلامی مزاحمت کا خطے کے امن و سلامتی میں اہم کردار ہے۔ بشار اسد نے کہا کہ ہم ایرانی حکومت اور عوام کے شکر گزار ہیں جنھوں نے مشکل حالات میں ہمارا ساتھ دیا۔

مہر خبررساں ایجنسی نے العہد کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اسرائيلی فوجیوں نے آج صبح مغربی پٹی کے بعض علاقوں پر وحشیانہ حملہ کرکے متعدد فلسطینیوں کو زخمی کردیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق مغربی پٹی پراسرائیلی فوجیوں کے حملے کے بعد اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینی شہریوں کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی ہےجس کے نتیجے یمں متعدد فلسطینی شہری زخمی ہوگئے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق بعض فلسطینیوں کو اسرائیلی فوجیوں نے گرفتاربھی کرلیا ہے۔

کل رات بھی اسرائیلی فوجیوں نے مغربی پٹی میں 2 فلسطینی جوانوں کو شہید کردیا تھا جبکہ مقبوضہ فلسطین بھی میں اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کرکے ایک فلسطینی جوان کو شہید کردیا۔ ذرائع کے مطابق فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور عرب ممالک کے حمکراں خاموش تماشائي بنے ہوئے ہیں۔

بررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شام کے صدر بشار اسد تہران کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے ساتھ ملاقات کی ۔  رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شام کے صدر بشار اسد کے ساتھ ملاقات میں فرمایا: شام آج جنگ سے پہلے کا شام نہیں ہے۔ شام کا اعتبار اور احترام پہلے کی نسبت مزید بڑھ گيا ہے۔ آج دنیا شام کو ایک طاقتور ملک کی حیثیت سے دیکھ رہی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شام کی سیاسی اور عسکری میدانوں میں کامیابیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شام آج جنگ سے پہلے کا شام نہیں ہے۔ شام کے اعتبار اور احترام پہلے کی نسبت کئی گنا اضافہ ہوگيا اور سبھی شام کو ایک طاقتور ملک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقائی اقوام میں شامی قوم کی سربلندی اور سرافرازی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے اور آپ کے بعض ہمسایہ ممالک غاصب صہیونی حکومت کے رہنماؤں سے قریبی دوستی برقرار کئے ہوئے ہیں اور ایکدوسرے قہوہ پلا رہے ہیں لیکن انہی ممالک کے عوام نے عالمی یوم قدس کے موقع پر ریلیوں پر بھر پور شرکت کی اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے۔ حقیقت میں خطے کی موجودہ صورتحال یہ ہے۔  

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شام پر مسلط کردہ عالمی جنگ میں شامی عوام کی کامیابی کے علل و اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شام پر مسلط کردہ عالمی دہشت گردانہ جنگ میں کامیابی کا ایک اہم سبب جنابعالی کا عظیم اور پختہ عزم و حوصلہ ہے اور ان شاء اللہ آپ اسی پختہ عزم و حوصلہ کے ساتھ نئے شام کو تعمیر کریں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شام کے بارے میں  شہید سلیمانی کی محبت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شہید سلیمانی کو شام اور شامی عوام سے خاص محبت تھی اور انھوں نے شام کی آزادی اور ارضی سالمیت کے متعلق فداکاری کے شاندار جلوے پیش کئے۔ ایران کے آٹھ سالہ دفاع مقدس اور شام کے دفاع میں شہید سلیمانی کی رفتار یکساں تھی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: شہید سلیمانی ، شہید ہمدانی اور سپاہ کے دیگر ممتاز شہداء کی شام کے دفاع پر خاص توجہ مرکوز تھی اور انھوں نے اس سلسلے میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

اس ملاقات میں ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی بھی موجود تھے۔شام کے صدربشار اسد  نے اس ملاقات میں شہید سلیمانی اور دیگر شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا اورایرانی حکومت اور عوام کی طرف سے شامی حکومت اور عوام کی بے دریغ مدد اورحمایت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے گذشتہ 4 دہائیوں میں علاقائی مسائل اور مسئلہ فلسطین کے بارے اپنےٹھوس مؤقف سے واضح اور ثابت کردیا ہے کہ ایران کا مؤقف اور ایران کا راستہ درست اور اصولی راستہ ہے۔

صدر بشار اسد نے کہا کہ جنگ کی تباہی کو درست کیا جاسکتا ہے لیکن اصول اور عقائد کی تباہی اورویرانی کو تعمیر کرنا بہت مشکل ہے۔ بشار اسد نے کہا کہ بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ ایران مزاحمتی محاذ کی ہتھیاروں سے مدد کررہا ہے حالانکہ ایران کی سب سے بڑی حمایت  مزاحمتی محاذ کے حوصلوں کو بلند کرنا اور پختہ عزم کے ساتھ آگے قدم بڑھانا ہے۔ بشار اسد نے کہا کہ شام اور ایران نے ملکر خطے میں اسرائيل کی بڑھتی ہوئی حاکمیت کو روک دیا ہے۔

ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بنادے گا

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مرحوم نادر طالب زادہ کے انتقال پر تعزیتی پیغام ارسال کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام ميں مرحوم نادر طالب زادہ کی ثقافتی اور ہنری شعبوں میں خدمات کو گرانقدرقراردیا اور مرحوم کے پسماندگان اور دوستوں کو تعزیت اور تسلیت پیش کی اور اللہ تعالی کی بارگاہ سے مرحوم نادر طالب زادہ کے لئے رحمت اور مغفرت طلب کی۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام "محمد تقی سیفایی" نے کہا کہ القدس کے مسئلہ پر "اتحاد اور مزاحمت کے اجلاس" میں ملک کے 4000 سے زیادہ شیعی اور سنی علماء نے فلسطین کی آزادی کے لیے حکمت عملیوں پر اتفاق کیا اور ایک معاہدے پر دستخط کیے۔

معاہدہ قدس کا متن درج ذیل ہے؛

اے قدس اے عبادت گزاروں کے شہر

اے مسلمانوں کے قبلہ اول اور اے ہمارے دلوں کے کعبہ۔ اللہ رب العزت جانتا ہے کہ اس مبارک سرزمین میں نماز پڑھنے کی بے تابی میں ہمارے دل کتنے دھڑکتے ہیں، اور آپ آنسو بھری آنکھیں آپ کے تئیں ہماری عقیدت اور خلوص کو ظاہر کرتی ہیں!

آج بھی جب آپ کے شیاطین امریکہ سے اپنی پست دنیا کو اغوا کرنے کے درپے ہیں اور جعلی صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہوئے اپنی سانسیں ہلا رہے ہیں، ہم دنیا کے اس روحانی مرکز پر قبضہ کرنے والوں کی رنجشوں سے کبھی محروم نہیں ہوں گے۔

ہم آپ کے بارے میں عرب اور نام نہاد اسلامی ریاستوں کی خیانت کو جتنا دیکھیں گے، نہ صرف آپ کو بچانے کی ہماری خواہش کم نہیں ہوگی، بلکہ ہمارے دل مزاحمت کی راہ میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں گے۔

ہم ایران میں شیعی اور سنی اشرافیہ اور کارکنان کا ایک گروہ، اس مقدس مہینے میں اور خدا کی بارگاہ میں قسم کھاتے ہیں کہ ہم قدس کو غاصبوں کے چنگل سے بچانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور ہم ان لوگوں سے دوستی نہیں کریں گے جس نے مسجد الاقصی سے غداری کی۔

ہم آپ کے دیدار کے منتظر ہیں اور ہم یہ نہیں بھولتے کہ ہماری پہچان ہمارا دین ہے اور قدس ہمارا قبلہ اول ہے۔

ایکنا نیوز- معروف مذہبی اسکالر اور استاد ناصر رفیعی نے سورہ عنکبوت کی آیت کا ذکر کیا ہے: «بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ» (عنکبوت/ 49).

اس آیت میں تاکید کی گیی ہے کہ قرآن سمجھنے والوں کے لیے واضح بات کرتا ہے مگر ناسمجھ نہ صرف ان آیات سے استفادہ نہیں کرتے بلکہ آیات کا ہی انکار کرتے ہیں۔

پہلی ذمہ داری قرآن بارے پہلی نسبت قرآن سیکھنے اور درست پڑھنے کی ہے؛ دوسری ذمہ داری دوسری ذمہ داری تلاوت قرآن کی ہے؛ تلاوت کی کوشش کرنی چاہیے.

تیسری ذمہ داری تیسری ذمہ داری قرآن سننے کی ہے رب کا فرمان ہے کہ جب تلاوت ہوتی ہے تو خاموش رہیے اور قرآن سنیئے. (اعراف/ 204)

چوتھی ذمہ داری یہ ہے کہ قرآن کا احترام کیا جائے، بری بات ہے کہ قرآن بارے احترام نہ ہو یا قرآن کو غیرمناسب جگہ دیا جائے۔

پانچویں ذمہ داری قرآن میں تدبر کرنا ہے. * علامه طباطبایی فرماتے ہیں کہ میں روزانہ ۱۰ جزء قرآن پڑھتا ہوں تاہم ایک آیت میں غور و فکر کرتا ہوں.

چھٹی ذمہ داری قرآن مجید کی نسبت عمل کرنا ہے؛ روایت میں ہے کہ  قرآن کافی افراد پڑھتے ہیں جنکو قرآن لعنت کرتا ہے کیونکہ یہ عمل نہیں کرتے۔

ساتویں ذمہ داری یہ ہے کہ قرآن، کو حفظ کیا جائے؛  اپنی حد تک حفظ قرآن کی کوشش کریں.

واضح رہے کہ سید محمدحسین طباطبایی جو علامه طباطبایی (1981 - 1904) کے نام سے معروف ہے عالم اسلام کے نامور مفسر، فلاسفر، فقیه اور اسلام شناس ہے جنکی تفسیر المیزان جاودانی اثر ہے اور  اصول فلسفه و روش رئالیسم انکی معرکہ الاراء تصنیف ہے۔

 
 
Sunday, 01 May 2022 08:21

احکام فطرہ

فطرہ کس پر واجب ہے ؟

تمام وہ لوگ جو ھنگام غروب شب عید  فطر یعنی ماہ مبارک رمضان کے اخری دن ، مندرجہ ذیل شرائط رکھتے ہوں گے وہ اپنا اور تمام ان لوگوں کا جن کا نفقہ ان کے اوپر ہے فطرہ ادا کریں گے ، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ تمام افراد اپنا اور ان لوگوں کا جو اقتصادی لحاظ سے ان کی سرپرستی میں ہیں اور ان کی زندگی کے اخراجات ان کے دوش پر ہیں ، فطرہ کی معینہ مقدار کو ادا کریں گے ۔

شرائط :

1- بالغ ہو ۔

2- عاقل  ہو ۔

3- غلام نہ ہو ۔

4- فقیر نہ ہو ۔  (۱)

نکتہ: اگر کسی کے پاس فطرہ ادا کرنے کے شرائط موجود ہوں یعنی بالغ ہو ، عاقل و ہوشیار ، فقیر اور غلام نہ ہو اور غیر مسلمان اس انسان کی اقتصادی سرپرستی میں ہیں تو اس کا فطرہ بھی ادا کرے گا !

فقیر سے مراد وہ کون لوگ ہیں جو فطرہ ادا کرنے سے معاف ہیں ؟

فطرہ ادا کرنے سے معاف افراد میں سے ایک فقیر ہے یعنی فطرہ فقیروں پر واجب نہیں ہے بلکہ لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اپنا فطرہ فقیروں کو دیں ۔

فطرہ کے استعمال اور اس کے تقسیم کرنے میں کچھ باتوں پر توجہ ضروری ہے !

۱: فطرہ فقیروں کو ہی دیا جائے اور بے نیاز افراد کو فطرہ دینے سے پرھیز کیا جائے یعنی ھرگز انہیں فطرہ نہ دیا جائے ۔

لہذا اگر کوئی کسی کو فطرہ دینے کے بعد متوجہ ہوا کہ فطرہ لینے والا فقیر نہیں تھا تو اس سے فطرہ واپس لیکر فقیر کو دے ، اور اگر اس نے فطرہ کی رقم خرچ کر ڈالی ہے یا کسی بھی بنیاد پر فطرہ کی وصولی ہوئی رقم واپس نہیں کرنا چاہتا ہے تو دوبارہ فطرہ کے بمقدار رقم فقیروں کو ادا کرے ۔

۲: شراب خوار کو فطرہ نہ دیا جائے چونکہ صحیح نہیں ہے کہ جو شراب پیتا ہو اسے فطرہ کی رقم دی جائے چاہے وہ فطرہ کی رقم سے شراب نہ خریدے پھر بھی اسے فطرہ نہ دیا جائے ۔

۳: گناہگار کو بھی فطرہ نہ دیا جائے لہذا اگر کوئی اس بات سے اگاہ ہو کہ فقیر فطرہ کی رقم کو گناہ کے راستہ میں صرف اور خرچ کردے گا تو ھرگز اسے فطرہ نہ دے اور اگر ایسے انسان کو فطرہ دے دیا ہے تو دوبارہ فطرہ کے بقدر رقم کسی اور فقیر کو دے ۔

نکتہ:  بعض علما بے نمازی کو بھی فطرہ دینا صحیح نہیں جانتے ہیں ۔ !

دین اسلام میں فقیر کیسے کہتے ہیں ؟

دین اسلام کے لحاظ سے فقیر وہ ہے جس کے پاس اپنا اور جن لوگوں کا نفقہ اس کی گردن پر ہے  ایک سال تک کا خرچ موجود نہ ہو ، البتہ اگر کسی کے پاس شب عید فطر میں ایک سال کا خرچ موجود نہ ہو مگر نوکری پیشہ ہو ، ملازمت کرتا ہو اور ہر ماہ اسے مناسب تنخوہ ملتی ہے تو وہ فقیر شمار نہیں ہوگا نیز اگر کسی کی نوکری یا ملازمت چھوٹ گئی ہو مگر اس کے پاس ایک سال کا خرچ موجود ہو تو ایسا انسان بھی فقیر محسوب نہیں ہوگا ، البتہ ایسا بے ملازمت انسان جس کے پاس ائندہ ایک سال کا خرچ نہ ہو تو وہ فقیر شمار ہوگا ۔ (۲)

فطرہ کی مقدار

فطرہ ادا کرنے کے شرائط پائے جانے کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ فطرہ کی مقدار کتنی ہے ؟

کلی طور پر فطرہ کی مقدار تین کیلو گیہوں ، خرما، چاول ، کشمش، بھٹُا ( مکئی) ہے البتہ ان تمام چیزوں میں سے جس کا زیادہ استعمال ہے اسے فطرہ کے طور پر نکالے ۔ (۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: امام خمینی، روح اللہ الموسوی ، توضیح المسائل، مسئلہ نمبر 1991
۲: فلاح زادہ ،  http://ijtihadnet.ir/
۳: ایت اللہ سیستانی ، توضیح المسائل، استفتائات ، https://www.sistani.org/persian/qa/0991/

 

اس سال یوم القدس ماضی کے تمام سالوں سے بہت مختلف صورتحال میں منعقد ہوا ہے۔ مسئلہ فلسطین نہ صرف عالمی سطح پر مزید ابھر کر سامنے آ چکا ہے بلکہ مقبوضہ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کا دائرہ بھی غزہ کی پٹی سے نکل کر فلسطین کے مرکزی علاقوں تک وسعت اختیار کر چکا ہے۔ آج مغربی کنارے میں مسلح مزاحمت آرزو نہیں رہی بلکہ حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ ان تمام مثبت تبدیلیوں کی روشنی میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے رہنما غاصب صہیونی رژیم کے مکمل زوال اور خاتمے کو یقینی امر قرار دے رہے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ فلسطین کی آزادی کیلئے فیصلہ کن ٹکراو اور حتمی فتح انتہائی قریب ہے۔

اس سال یوم القدس کے موقع پر غاصب صہیونی رژیم کو درپیش خطرہ صہیونی وزیراعظم نیفتلی بینت کے گھر کے قریب تک جا پہنچا ہے۔ اسی ہفتے منگل کے روز بینت کو ایک گولی کے ساتھ دھمکی آمیز خط موصول ہوا جس کے بعد صہیونی وزیراعظم کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ صہیونی سکیورٹی اداروں نے وزیراعظم اور اس کے اہلخانہ کی سکیورٹی مزید بڑھا دی ہے۔ وائی نیٹ نامی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق گولی سمیت دھمکی آمیز خط پر مشتمل یہ پیکٹ صہیونی وزیراعظم کے ایک قریبی رشتہ دار کو دیا گیا تھا۔ اس خط میں صہیونی وزیراعظم اور اس کے اہلخانہ کو رعنانا میں واقع ان کی رہائش گاہ میں قتل کر دینے کی دھمکی دی گئی ہے۔ صہیونی رژیم کی انٹیلی جنس ایجنسی شاباک نے اس بارے میں تحقیق شروع کر دی ہے۔

صہیونی پولیس نے اس دھمکی آمیز خط کی تفصیلات شائع کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے اور اعلان کیا ہے کہ اس بارے میں شاباک کے تعاون سے تحقیق جاری ہے۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کی صورتحال انتہائی متزلزل اور عدم استحکام کا شکار ہو گئی ہے۔ خود صہیونی وزیراعظم نے اپنے بیانئے میں کہا ہے کہ سیاسی مقابلہ بازی جس قدر بھی شدید ہو جائے شدت پسندی کی جانب بڑھنے اور قتل کی دھمکیاں دیے جانے کی اجازت ہر گز نہیں دینی چاہئے۔ اس کے بقول سیاسی میدان میں اختلافات ایک فطری امر ہے لیکن قتل کر دینے کی دھمکی سیاسی مقابلہ بازی میں “ناقابل قبول” امر ہے۔ دوسری طرف یوم القدس کے موقع پر مغربی کنارہ ایک آتس فشان کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

امید کی جا رہی ہے کہ عنقریب مغربی کنارہ بھی غزہ کی پٹی کی مانند تل ابیب کے مقابلے میں شدید اسلامی مزاحمت شروع کر دے گا۔ تل ابیب اور یافا کے علاقے میں فلسطینی مجاہدین کی جانب سے شہادت پسندانہ کاروائیاں انجام پانے کے بعد، جن میں کم از کم 12 صہیونی ہلاک ہو گئے ہیں، اب معلوم ہوا ہے کہ ان مجاہدین میں سے دو افراد کا تعلق مغربی کنارے کے شہر جنین سے تھا۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران صہیونی سکیورٹی فورسز نے مغربی کنارے خاص طور پر جنین شہر میں بھرپور جارحانہ کاروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ کل ہی اس جارحیت کے نتیجے میں جنین کیمپ میں ایک 18 سالہ فلسطینی جوان شہید ہوا ہے جبکہ 4 دیگر جوان زخمی ہو گئے ہیں۔ شہید ہونے والے جوان کا نام احمد مساد تھا اور وہ جنین کے قصبے برقین کا رہائشی تھا۔

منگل کی رات خطے میں اسلامی مزاحمت کے 11 قائدین نے “منبر قدس” نامی سالانہ اجلاس میں شرکت کی اور اظہار خیال کیا۔ تمام رہنماوں کی تقاریر کا مرکزی نکتہ عنقریب غاصب صہیونی رژیم کے زوال کا یقینی ہونا تھا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اس اجلاس کو “محور قدس” کا نام دیتے ہوئے کہا: “آج غزہ میں قدس شریف کی ایک شمشیر موجود ہے جو اس کا دفاع کر رہی ہے جیسا کہ گذشتہ برس سیف القدس معرکہ رونما ہوا ہے۔” اسلامک جہاد فلسطین کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے بھی تقریر کرتے ہوئے کہا: “ہم حتمی فتح تک ہر گز پیچھے نہیں ہٹیں گے اور سازباز نہیں کریں گے۔” انہوں نے مزید کہا: “سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی قدس فورس کے سربراہ شہید قاسم سلیمانی شہید قدس تھے۔”

انصاراللہ یمن کے سربراہ عبدالملک الحوثی نے بھی اس اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے غاصب صہیونی رژیم کے وجود کو چند دن کا مہمان قرار دیا اور کہا کہ اس رژیم کا خاتمہ یقینی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے واضح، اصولی اور دینی موقف پر ثابت قدم رہیں گے اور ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقوق کا دفاع کرتے رہیں گے۔ فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے بھی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مغربی کنارے اور فلسطین کے مرکزی حصوں میں اسلامی مزاحمتی کاروائیاں اس اہم حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ فلسطینی عوام اسلامی مزاحمت کا انتخاب کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران اپنی پوری طاقت سے اسلامی مزاحمت اور عرب دنیا خاص طور پر فلسطین میں جاری مزاحمت کی حمایت کر رہا ہے۔

تحریر: علی احمدی