سلیمانی

سلیمانی

امام خمینیؒ نے نہ صرف ایران میں اسلامی انقلاب برپا کیا بلکہ اُن کی اس جدوجہد اور عظیم فکر کی روشنی نے دنیا کے کونے کونے میں مظلوموں کیلئے اُمید کی راہیں متعین کر دیں۔ اب پوری دنیا کے مظلومین امام خمینیؒ کی اسی فکر کو سنگ میل بناتے ہوئے اپنی جدوجہد آزادی کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ کشمیر کی تحریکِ آزادی ہو یا فلسطین کا مسئلہ، یمن میں آلِ سعود کی تباہ کاریاں ہوں یا عراق و شام پر امریکی جارحیت، ہر جگہ فکرِ امام خمینیؒ کو مدِنظر رکھتے ہوئے مقاومت کی تحریکیں اپنی منزل کی جانب گامزن ہیں۔ یہ تحریکیں ان شاء اللہ بہت جلد کامیابی سے ہمکنار ہوں گی، بالکل ایسے ہی جیسے امام خمینیؒ نے ایرانی قوم کو امریکی تسلط سے نجات دلائی۔

شاہِ ایران کے اقتدار میں موجودگی پر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شاہِ کیخلاف بھی کوئی آواز بلند کرنے کی جرات کرسکتا ہے، مگر امام خمینیؒ نے یہ کارِ زینبی انجام دیا اور صدائے حسینؑ بلند کرکے میدان میں اُتر آئے۔ انہوں نے دشمن کو للکارا، اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کو، وقت کے یزید کو، کہ جس کے پاس اقتدار سمیت ہر طرح کے وسائل اور مضبوط فوج تھی۔ لیکن یہ سب کچھ، امام خمینیؒ کے مضبوط ارادے کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ دشمن آج بھی امام خمینیؒ کے نام سے بھی لرزتا ہے۔ امام خمینیؒ کے انقلاب نے صرف ایران میں روشنی نہیں پھیلائی، بلکہ اس انقلاب نے اپنے ساتھ ساتھ اسلام کی روشنی کو دنیا بھر میں پھیلا دیا۔

دشمن نے انقلاب کی راہ میں بہت سے روڑے اٹکانے کی کوشش کی، اسے اسلامی انقلاب کی بجائے شیعی انقلاب کا لیبل لگانے کی بھی سازش کی گئی، مگر خوشبو کو کہاں روکا جا سکتا ہے، اسلام کی دل آویز خوشبو پوری دنیا تک پہنچی اور دنیا کے مظلوموں نے اس انقلاب سے استفادہ کیا۔ امام خمینیؒ نے واضح اور واشگاف الفاظ میں فرما دیا تھا کہ یہ انقلاب مظلوم کی حمایت اور ظالم کیخلاف ہے اور آج تنتالیس برس بعد بھی یہ انقلاب ویسے ہی منور و روشن ہے، جیسے پہلے روز اس نے اپنی تابناک روشنی سے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا، یہ انقلاب ان شاء اللہ انقلابِ امام زمانہ سے مربوط ہوگا۔ عالم انسانیت میں کچھ شخصیات صرف ایک قوم کا سرمایہ نہیں ہوتیں، بلکہ ان کا تاریخ ساز کردار انہیں پوری انسانیت کا افتخار بنا دیتا ہے۔ امام خمینی بھی انہی شخصیات میں سے سب سے نمایاں شخصیت ہیں۔ ان کی انقلابی شخصیت نے صرف ایران کو ہی اسلامی رنگ میں نہیں ڈھالا بلکہ پوری دنیا میں آپ کے انقلاب الہیٰ کی روشنی پہنچی اور دنیا نے اس سے استفادہ کیا۔

امام خمینیؒ نے نہ صرف مکتب تشیع کو دنیا میں نئی پہچان دی بلکہ اسلامِ حقیقی کی روشنی سے بھی دنیا کو منور کیا۔ اسلام کی اصل شکل پیش کرکے وقت کے شیطان کو للکار دیا اور بتا دیا کہ اسلام حقیقی کبھی بھی استعماری و شیطانی قوتوں کا آلہ کار نہیں ہوسکتا، اس انقلاب نے جہاں ایران کو عزت و افتخار بخشا وہیں، اسلام کا بول بھی بالا کیا۔ دنیا پہلے آل سعود کے جعلی اسلام کو ہی اسلام حقیقی سمجھ رہی تھی، لیکن انقلاب اسلامی ایران کے آفتاب کی چکا چوند نے جعلی اسلام کی قلعی کھول کر رکھ دی اور اسلام حقیقی کا پرچم بلند کرکے پوری دنیا کو بتا دیا کہ ہم ہی فکرِ محمدی کے حقیقی امین اور پاسدار ہیں۔ یہ اس انقلاب کی برکت ہے کہ مظلوم بھی ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔

امام خمینیؒ نے دین کو سیاست سے جدا رکھنے کی استعماری سازش کو بھی ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔ استعمار نے اپنی حاکمیت کے قیام کیلئے جمہوریت کا پودا لگایا، یہ جمہوریت دو سو سال پہلے فرانس میں پیدا ہوئی، جس کو پوری دنیا میں نافذ کرنے کا پلان لے کر استعمار نے پہلے مسیحیت کو لتاڑا، پھر اسی آڑ میں اس کا ہدف اسلام تھا، آج جمہوریت جیسے نظام کو پوری دنیا میں نافذ کرنے اور اس ’’مقدس ترین‘‘ قرار دینے کا پروپیگنڈہ، دراصل سرمایہ دارانہ نظام کا شاخسانہ ہے، لیکن نبی کریم (ص) جمہوریت سے بھی بہت پہلے، چودہ سو سال قبل جو نظام امامت دیا، امام خمینیؒ نے اس نظام کو نہ صرف زندہ کیا بلکہ وہ 43 برسوں سے جاوید بھی ہے اور ان شاء اللہ رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گا اور امام زمانہؑ کے انقلاب سے متصل ہوگا۔

انقلاب اسلامی ایران دراصل انقلاب امام زمانہؑ کا آغاز اور اس کی بنیاد ہے۔ امام خمینیؒ وہ مرد حریت ثابت ہوئے جنہوں نے پوری دنیا میں ہدایت کے نئے چراغ روشن کئے۔ علامہ محمد اقبالؒ  بھی ’’جدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ جیسے پیغامات دے کر قوم کو جگانے کی مسلسل کوشش کر رہے تھے، لیکن انہیں بھی ملت کی بیداری تہران میں نظر آئی اور بے ساختہ کہہ اُٹھے کہ
تہراں ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شائد کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
اسی وجہ سے تو ’’چون چراغِ لالہ سوزم در خیابان شما‘‘ میں کہتے ہیں کہ ’’می رسد مردی کہ زنجیر غلاماں بشکند دیدہ ام از روزنِ دیوان زندانِ شما‘‘ اور بالآخر یہ مردِ تہران امام خمینیؒ مشرق سے طلوع ہوا اور اس نے اپنے افکار سے ایک ہزار چار سو برسوں سے بنے استعمار و استکبار کے نظام کو توڑ ڈالا اور پوری دنیا کو بیداری کا درس دیا۔ یقیناً امام خمینیؒ اپنی روشن فکر کی بدولت ہمیشہ ہمارے درمیان زندہ رہیں گے۔ جن کی فکر اعلیٰ و ارفع ہو، وہ مرتے نہیں، وہ امر ہو جاتے ہیں اور ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید رہتے ہیں۔
وے بلھیا، اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور
(اے بُلھے شاہؒ، ہم نے نہیں مرنا، ہماری قبر میں جسے دفن کیا گیا ہے، وہ کوئی اور ہے)
 
 
تحریر: تصور حسین شہزاد
اسلام ٹائمز

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے چیئرمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے امام خمینیؒ کی تینتیسویں برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا عالمی استکباری قوتوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے امام خمینیؒ کے جرات مندانہ طرز عمل کو مشعل راہ بنانا ہو گا۔ خمینیؒ بت شکن کی ذات سامراجی قوتوں کے اسلام دشمن عزائم کے خلاف مضبوط ڈھال تھی۔انہیں اس حقیقت کا بخوبی ادارک تھا کہ امریکہ مختلف ممالک کو اپنا غلام بنا کر انہیں امریکی مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔جس نے بھی امریکہ پر اعتماد کیا وہ ہمیشہ دھوکے میں رہا۔امام خمینی نے امریکہ کو بدترین مکار قرار دے کر یہ واضح کیا کہ انسانیت اور عوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ مسلم حکمران امریکہ پر انحصار ختم کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے وہ حکمران جو اپنے آپ کو کمانڈو کہتے تھے امریکی وزیر خارجہ کے ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو گئے۔ پاکستان کو امریکی جنگ میں جھونک کر قوم کو ایک دلدل میں پھنسایا گیا۔ہمیں اس احساس اور حقیقت کو فروغ دینا ہو گا کہ پاکستانی قوم کسی کی غلامی کو برداشت نہیں کرے گی۔پاکستان اس وقت تاریخ کے مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ استعمار اور اس کے حواری اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

علامہ راجہ ناصر نے کہا کہ ہر محب وطن پر فرض ہے کہ وہ آزادی کی حفاظت کے لئے قوم کے اندر شعور پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔اگر ہم اس منحوس امریکی بلاک سے الگ نہ ہوئے اور غلامی کی زنجیروں کو نہ توڑا گیا تو ملک ناقابل برداشت نقصان سے دوچار ہوگا۔ہمیں تقسیم کرکے امریکہ اور اس کے حواری ملک کی سالمیت کی خلاف وار کرنے کی مکمل تیاری میں مصروف ہیں۔ اتحاد بین المسلمین ہی استعماری سازشوں سے مقابلے کا اصل ہتھیار ہے۔ امریکہ نے جو طبقہ ہم پر مسلط کیا ہوا ان کے خلاف خاموشی ملک کو ایک ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کردے گی۔پاکستان میں کمزور اور غلام حکمران امریکہ کی خواہش ہے تاکہ وہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کر سکے۔پاکستانی قوم کو استعماری قوتوں سے نجات دلانے کے لئے طویل جدوجہد کی ضرورت ہے۔یہ دنوں یا مہینوں کا کام نہیں بلکہ جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔

انہوں نے یہ بات زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا پایہ تخت اس وقت اسلام باد میں نہیں واشنگٹن میں ہے۔ ہم پر استعماری فیصلے مسلط ہو رہے ہیں۔اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے یہ مغربی غلام سرگرم ہے،ہم اس عمل کو کسی صورت برداشت نہیں کرینگے۔ہمارے پاس کھونے کو اب کچھ نہیں۔ ہم سب کچھ قربان کرینگے لیکن ان وطن فروشوں کو تسلیم نہیں کریں گے۔ہم ایک آزاد قوم ہے آزاد جئیں گے آزاد مریں گے۔ لیکن امریکی غلامی کو قبول نہیں کریں گے۔

ہندوستان کے زیر انتظام جموں و کشمیرمین انجمن شرعی شیعیان کے صدر نے بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی ؒ کو انکی 33ویں برسی پر شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ امت مسلمہ کو حضرت امام خمینی (رہ) کے کردار و عمل کو مشعل راہ بناتے ہوئے سامراجی طاقتوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے زیر انتظآم جموں و کشمیرمین انجمن شرعی شیعیان کے صدرحجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن موسوی نے بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی ؒ کو انکی 33ویں برسی پر شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ امت مسلمہ کو حضرت  امام خمینی (رہ) کے کردار و عمل کو مشعل راہ بناتے ہوئے سامراجی طاقتوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ انجمن شرعی شیعیان کے صدر حجت الاسلام والمسلمین آغا سید حسن الموسوی الصفوی نے حضرت امام خمینی ؒ کو خراج  عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ موصوف ایک عرفانی روحانی اور الہامی شخصیت تھی جس نے اسلام کی حقیقی فکر اور نصب العین کو اجاگر کیا اور ایرانی قوم کو ایک ایسی شہنشاہیت کے خلاف فیصلہ کن مزاحمت کے لئے آمادہ کیا جس شہنشاہیت کی پشت پر دنیا کی تمام سامراجی قوتیں تھی یہ امام خمینی ؒ کی قائدانہ صلاحیتوں کا نتیجہ تھا کہ ایران میں نہ صرف صد سالہ شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا بلکہ ایک اسلامی نظام حکومت قائم ہوا آغا صاحب نے کہا کہ امام خمینی ؒکی سب سے بڑی دین نظام ولایت فقیہ ہے جس کی بیخ کنی کے لئے اسلام مخالف قوتیں مدتوں سے مصروف عمل ہیں اس موقعہ پر آغا صاحب نے وادی میں کشمیری پنڈتوں اور غیر ریاستی مزدوروں کی ہلاکتوں کے سلسلے کو انتہائی تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہلاکتیں قابل مذمت ہیں انہوں نے کہا کہ ان ہلاکتوں سے وادی میں صدیوں سے قائم مذہبی بھائی چارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔آغاصاحب نے کہا کہ اس نازک مرحلے پر جموں و کشمیر انجمن شرعی شیعیان کشمیری پنڈتوں کے ساتھ کھڑی ہے اور مہلوک افراد کے لواحقین کے غم و ماتم میں برابر کی شریک ہے ۔

سحر نیوز/ایران: گزشتہ شب معمار انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تینتیسویں برسی کی مناسبت سے انکے مزار پر ایک عزائیہ پروگرام منعقد ہوا جسے صدر ایران سید ابراہیم رئیسی نے خطاب کیا۔ اس موقع پر صدر ایران نے کہا کہ امام خمینی کے قائم کردہ اسلامی و سیاسی مکتب میں مظلوم اور دبے کچلے لوگوں کی نجات کا مسئلہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے اور اسی بنیاد پر تمام مظلومینِ عالم انہیں اپنے مقتدیٰ اور پیشوا کے طور پر دیکھتے تھے۔

سید ابراہیم رئیسی نے امام خمینی کے معروف جملے "امریکہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا" کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ آج ہم اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس کے ترجمان یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ایران کے خلاف حد اکثر دباؤ کی پالیسی ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں سیاستداں تو بہت ہیں مگر معنویت سے عاری سیاست نے دنیائے بشریت کو بڑے مصائب و آلام سے روبرو کر دیا ہے اور گزشتہ ستر سال کے دوران معنویت و اخلاق سے عاری سیاست کا نتیجہ فلسطینی عوام پر آشکارا ظلم اور عالمی سطح پر ایٹمی اسلحوں کو لے کر ہونے والی مقابلہ آرائی ہے۔

اُدھر حزب اللہ لبنان نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران کو فلسطینی کاز کا اولیں مدافع قرار دیا ہے۔ بانی انقلاب کی برسی کے ایک پروگرام کو خطاب کرتے ہوئے حزب اللہ لبنان کی مرکزی کمیٹی کے رکن شیخ حسن البغدادی نے کہا کہ ایران کو مظلوموں کے دفاع کے میدان میں ظالم طاقتوں کے مقابلے میں ہمیشہ بالادستی حاصل رہی ہے اور وہ ہر اُس فریق کی حمایت کرتا ہے جو اپنے ملک کے تحفظ اور اُسے دشمن سے آزاد کرانے کے لئے جدو جہد میں مصروف ہے۔

رہبر  انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج بروز ہفتہ (4 جون) کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی (رہ) کی 33 ویں برسی کی مناسبت سے انکے مزار پر عوام کے عظیم الشان تعزیتی جلسہ عام سے خطاب کیا۔ انہوں نے حاضرین کو سلام پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح کے عظیم الشان اجتماع کی کافی یاد آتی تھی اور خدا کے فضل و کرم سے اس طرح کا اجتماع ایک بار پھر منعقد ہوا ہے۔

رہبر  انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام خمینی (رہ) اس اسلامی نظام کے روح رواں تھے اور اگر اس روح کو اس نظام سے دور کیا جائے اور آپ کی ہستی پر غور نہ کیا جائے تو یہ بے جان ہو کر رہ جائیگا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای  نے فرمایا کہ امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا لیکن اس کے باوجود بہت سی ایسی باتیں ہیں جو نہیں کہی گئیں اور اب بھی امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بہت سے پہلو لوگوں کو معلوم نہیں ہیں اور ہمارے نوجوان اب بھی امام خمینی (رہ) کو صحیح طور پر نہیں پہچانتے اور امام خمینی (رہ) کی عظمت سے ناواقف ہیں۔

رہبر  انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بہت سے لوگ امام خمینی (رہ) کی شخصیت کا میری شخصیت سے موازنہ کرتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے، اس لئے کہ ان کی شخصیت بہت بلند اور عظیم ہے اور وہ ایک ممتاز شخصیت کے مالک تھے اور نوجوانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ مستقبل میں ملک چلانے کیلئے امام خمینی (رہ) کی صحیح شناخت حاصل کریں، کیوں کہ امام خمینی (رہ) کا تعلق صرف گزشتہ کل سے نہیں تھا بلکہ آنے والے کل سے بھی ہے۔

 آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ دنیا میں بہت سے انقلابات آئے اور ان انقلابات میں روس اور فرانس کا انقلاب زیادہ معروف ہے، لیکن ایران کا اسلامی انقلاب ان سے بھی عظیم تر ہے، اس لئے کہ روس اور فرانس کا انقلابات بھی عوام کے ذریعے آئے لیکن عوام آہستہ آہستہ ان انقلابات سے دور ہوتے گئے اور یہ انقلابات اپنے راستے سے ہٹ گئے اور فرانس کا انقلاب تو صرف 13 سے 15 سال تک ہی چل سکا اور اس کے بعد نہ فقط یہ کہ یہ انقلاب ناکام ہو گیا بلکہ جس شاہی نظام کے خلاف انقلاب آیا، اس انقلاب کے خاتمے کے بعد وہی شاہی نظام دوبارہ بر سر اقتدار آگیا، جبکہ روس کے انقلاب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور اسٹالن اور ان کے دوستوں نے ایسی ڈکٹیٹرشپ قائم کی اور استبدادی نظام کو رائج کیا کہ حتی بادشاہی نظام میں بھی ایسا نہیں ہوا تھا۔

آپ نےاسلامی انقلاب کو تمام انقلابات عالم سے الگ اور ممتاز قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایران کا اسلامی انقلاب بھی عوام کے ذریعے آیا اور انقلاب ‏عظیم الشان طریقے سے کامیاب ہوا اور اس عوامی انقلاب کی کامیابی کے صرف 50 دن بعد عوامی ریفرنڈم کرایا گیا اور عوام کی بھاری اکثریت نے اسلامی انقلاب کے حق میں ووٹ دیا اور پھر اس کے ایک سال بعد پہلا صدارتی ایلیکشن ہوا اور اس کے بعد پارلیمنٹ کے انتخابات ہوئے اور پھر اس دن کے بعد سے آج تک تقریبا 50 انتخابات ہوئے اور اس سے اس اسلامی انقلاب کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

رہبر  انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام خمینی (رہ) عوام پر اعتماد کرتے  تھے اور عوام کی مجاہدت کے وہ قدرداں تھےاور انہوں نے اسلامی انقلاب کیلئے لاشرقیہ اور لا غربیہ کا نعرہ بلند کیا۔

 آیت اللہ العظمی خامنہ ای  نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے ہر شعبے میں کافی ترقی کی اور اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں ۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا اسلامی نظام ظلم کے خلاف ہے اور ہم مستکبر اور ظالم کے خلاف ہیں اور جس نظام میں اس قسم کا نظریہ پایا جائے یقینی طور پر دشمن کی جانب سے اس کی مخالفت کی جائے گی ۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے امریکہ نے اپنے جنرل کو ایران بھیجا لیکن اسے اس میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہم نے اسرائیل کے سفارتخانے کو فلسطینی سفارتخانے میں بدل دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مغرب والوں نے تین سو سال تک لوٹ مار مچائی اور جنوبی امریکہ میں بھی انہوں نے لوٹ مار کی جبکہ ان کے نام نہاد روشن فکر حضرات انسانی حقوق کی باتیں کر رہے تھے اور یہ مغرب کے شاہکار! نمونے ہیں اور یہ سب تاریخ کا حصہ ہیں۔

 آیت اللہ العظمی خامنہ ای  نے فرمایا کہ امام خمینی (رح) مغرب سے واقف تھے اسی لئے انہوں نے عوام کو تیار کیا اور ایرانی قوم کو استقامت و مزاحمت کا سبق سکھایا اور انہیں ایک مستحکم اور پائیدار قوم میں بدل دیا اور یہ امام خمینی (رح) کی برکات میں سے ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے خلاف دشمنوں کی سازشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا اہم مقصد اور ہدف ایران کو نقصان پہنچانا ہے اور وہ سوشل میڈیا اور اسی طرح دھوکے اور فریب کے ذریعے عوام کو اسلامی نظام کے خلاف لا کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جس طرح وہ اسلامی انقلاب کے شروع میں پروپگنڈہ کر رہے تھے کہ یہ اسلامی انقلاب  6 ماہ کے اندر ختم ہو جائیکا لیکن اسلامی انقلاب اب پودے سے تناور درخت میں بدل گیا اور اب تک اسی چھے ماہیاں گزر چکی ہیں، دشمنوں کے اندازے پہلے بھی غلط تھے اور آج بھی غلط ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ امریکی حکام کے مشیر وہ خیانت کار ایرانی ہیں جو انہیں غلط مشورہ دیتے ہیں اور وہ اپنے ملک سے تو خیانت کر ہی رہے ہیں تاہم وہ ان کے ساتھ بھی خیانت کر رہے ہیں اور انہیں غلط مشورہ دے رہے ہیں اس ل‏ئے کہ ان کا کہنا ہے کہ آپ ایرانی عوام پر کام کریں اس  لئے کہ عوام، نظام اور انقلاب سے دور ہو گئے ہیں اور سادہ لوح حکام امریکی حکام ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں اور اس قسم کے اندازے سو فیصد غلط ہیں، اس لئے کہ لوگوں کا اعتماد اسلامی نظام سے دن بدن زیادہ سے زیادہ ہو گیا ہے اور شہید قاسم سلیمانی، آیت اللہ گلپائگانی اور آیت اللہ بہجت کے جلوسہائے جنازہ میں عوام کی شرکت نے ثابت کردیا کہ عوام انقلاب اور اسلامی نظام کے ساتھ ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ قاسم سلیمانی نے اپنی جان اسلامی انقلاب اور نظام پر نچھاور کی۔ آپ نے مزید فرمایا فرمایا کہ امام زمانہ (عج) کیلئے جو ترانہ (سلام فرماندہ) پڑھا جا رہا ہے اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ کیا عوام، اسلامی و انقلابی اقدار سے دور ہو رہے ہیں یا اُن کے ساتھ ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے انقلاب کے ساتھ جڑے رہنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ انقلاب مخالفوں کو اپنی صفوں میں داخل نہ ہونے دیں جو وہ انقلاب کے خلاف پروپیگنڈہ اور انقلاب کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں اور نہ ہی رجعت پسندوں کی باتوں میں آئیں۔ آپ نے فرمایا کہ  انقلاب مخالفین مختلف روپ میں آتے ہیں اور جو مغربی طرز زندگی کا پرچار کریں وہ رجعت پسند ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن کی نفسیاتی جنگ اور جھوٹ و فریب سے بھی لوگوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے اور اُسے نفسیاتی جنگ کی اجازت نہ دیں۔ آپ نے دشمن کے مقابلے میں سوشل میڈیا کی اہمیت و افادیت پر بھی زور دیا۔

آپ نے فرمایا کہ امریکی حکام نے یونان کی حکومت کو حکم دیا اور انہوں نے ایرانی کے آئل ٹینکر کو پکڑا اور چوری کی اور ہمارے جوانوں نے اسے واپس لیا اور اپنے مال کو چوروں سے واپس لینا چوری نہیں ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای  نے آخر میں فرمایا کہ آپ دشمنوں کے اس پروپگنڈے میں نہ آئیں کہ اسلامی انقلاب اپنے آخری مرحلے میں پہنچ چکا ہے اور عوام کو مایوس نہ کریں اس لئے کہ یہ صرف دشمن کا پروپگنڈہ ہے کہ اسلامی نظام بند گلی میں پہنچ چکا ہے۔

 

آج مسلم قائدین، صدور اور سلاطین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ  جزئی اور موسمی اختلافات کو دور کریں، اسلام میں عرب و عجم اور ترک و فارس کی کوئی اہمیت نہیں ہے،  اخوت اور بھائی چارہ کا ہاتھ آگے بڑھائیں، مسلم ممالک کی سرحدوں کی مشترکہ طور پر حفاظت کریں کیونکہ ہمارے درمیان کلمہ توحید ایک مشترک اصل ہے اور اسی طرح اسلامی دنیا کے مصالح اور مفادات مشترک ہیں۔

 مسلم اتحاد کی طاقت اور استعمار

اگر اسلامی دنیا کے حکمران اور قائدین باہمی اتحاد قائم کرنے لگیں تو پھر یہودیوں کو  فلسطین کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنے کی کبھی جرات نہیں ہوگی، ہندوستان کشمیر کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکے گا۔

لیکن  استکباری قوتیں آپ کو متحد ہونے نہیں دیتی۔  اسلامی دنیا کے قدرتی ذخائر اور قومی دولت پر ہاتھ صاف کرنے والی طاقتیں نہیں چاہتی ہیں کہ ایران اور عراق آپس میں متحد ہوجائیں۔ یہ طاقتیں نہی چاہتیں کہ مصر، ایران، ترکی  اور دیگر مسلم دنیا متحد ہوجائے۔

 

بیرونی دشمنوں کے خلاف متحد ہوں

اسلامی دنیا کے راہنماوں کو باہمی افہام و تفہیم اور اتحاد کے ذریعے اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔ بیرونی دشمنوں کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔ اگر مسلم حکمران متحد ہوجائیں تو مٹھی بھر قابض صیہونیوں کو فلسطین سے باہر نکال پھینک سکتے ہیں۔ مٹھی بھر صہیونی ڈاکو فلسطینوں کو کیسے بے گھر کر سکتے ہیں  اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلم حکمران تماشائی بنے رہیں اور فلسطینیوں کی کوئی مدد نہ کر سکیں!

مسلم معاشرے کے قائدین کی ذمہ داری

 ان مسائل پر مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا، آج اسلام کے نفاذ کی ذمہ داری تمہارے کاندھوں پر ہے۔ اسلامی زعماء، ممالک کے صدور ، شیوخ  اور  وہ لوگ اسلامی جو سربراہی رکھتے ہیں یہ جان لیں کہ خدا وند متعال نے یہ منصب اور مقام انہیں بخشا ہے تا کہ وہ لوگ اسلامی ممالک کے مسائل کو باہمی اتحاد کے ذریعے حل کریں۔

کسی قوم کا لیڈر ہونا اس قوم کو درپیش مسائل اوران کی ن زندگی سے متعلق ایک نہایت سنگین ذمہ داری اور مسئولیت ہے، اسلامی دنیا کے حکمران اپنی قوم اور ملت کو جوابدہ ہیں، قوم اپنے مسائل میں ان کی محتاج ہے۔

 

ترجمہ و اقتباس از کتاب: صحیفہ امام خمینی رح ص 32  33 – 34

تہران، ارنا- فلسطینی خبررساں ذرائع نے مغربی کنارے کے الخلیل شہر کے شمال میں صہیونی فوجیوں کی فائرنگ سے ایک فلسطینی لڑکی کی شہادت کی خبر دی ہے۔

فلسطین الیوم نیوز ویب سائٹ کے مطابق، اسرائیلی فوج نے "غفران وراسنہ" نامی 31 سالہ فلسطینی لڑکی کو آج صبح الخلیل شہ کے شمال میں العروب کیمپ کے داخلی دروازے پر گولی مار کرکے شہید کر دیا۔

رپورٹ کے مطابق صہیونی غاصبوں نے دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی لڑکی ان پر حملے کا ارادہ رکھتی تھی۔

 

اس حوالے سے فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی کا کہنا تھا کہ قابض فوج نے فلسطینی لڑکی کو العروب کیمپ کے داخلی دروازے پر 20 منٹ تک مدد نہیں کرنے کی اجازت نہیں دی لیکن آخر کار اسے فلسطینی ہلال احمر کے حوالے کر دیا گیا اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا تاہم وہ دیر سے پہنچنے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں ہی شہید ہو گئیں۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان "سعید خطیب زادہ" نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نئی رپورٹ کے مطابق فرانس کی وزارت خارجہ کے موقف کے جواب میں کہا کہ جیسا کہ سب نے پہلے کہا ہے، اگرچہ  آئی اے ای اے کی نئی رپورٹ کسی بھی طرح سے ایران اور اس بین الاقوامی ادارے کے درمیان بات چیت کی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تاہم، اس طرح کے عجلت اور سیاست پر مبنی تبصرے، جو آئی اے ای اے کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے وسیع اور تعمیری تکنیکی تعاون کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہیں، دخل اندازی اور بیکار ہیں۔

خطیب زادہ نے کہا کہ آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاسوں کے موقع پر نفسیاتی کارروائیوں کو انجام دینے اور اسلامی جمہوریہ ایران پر دباؤ فراہم کرنے کے لیے ہم اس قسم کے بیانات اور اقدامات کی نوعیت اور نوعیت سے بخوبی واقف ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلاشبہ جعلی صیہونی ریاست کی حالیہ تحریکوں کے ساتھ اس طرح کے بیانات کا اتفاق اور مطابقت؛ اس طرح کے اقدامات میں صہیونی ریاست کے کردار کو مزید ظاہر کرتے ہیں۔

خطیب زادہ نے مزید کہا کہ جیسا کہ ہم نے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کو ہمیشہ تکنیکی تعاون کے راستے پر وفادار رہنے کا مشورہ دیا ہے، ہم فرانس جیسے ممالک کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ایسی پوزیشنیں لینے اور مداخلت کرنے سے گریز کریں جو تعاون کو اس کے صحیح راستے سے ہٹانے کا سبب بنیں اور اس کے بجائے، انہیں جوہری تخفیف اسلحہ کے لیے اپنے تحفظات کے مطابق رہنا ہوگا اور اسرائیل کی نسل پرست ریاست کو جوابدہ ہونا ہوگا، جس کے پاس سینکڑوں جوہری وار ہیڈز ہیں۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پُرامن ہے اور یہ معمول کی بات ہے کہ ہم بورڈ آف گورنرز میں کسی بھی غیر تعمیری اقدام کا سخت اور مناسب جواب دیں گے اور جو لوگ بورڈ آف گورنرز اور ڈائریکٹر جنرل کی رپورٹ کو ایران کے خلاف سیاسی کھیل کا فائدہ اٹھانے اور اوزار کے طور پر دیکھتے ہیں وہ ان اقدامات کے نتائج کے ذمہ دار ہیں۔

خاتون، معاشرے کی تربیت کنندہ

معاشرے میں خواتین کا کردار مردوں کے کردار سے زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ خواتین ، تمام پہلوؤں میں ایک متحرک گروہ ہونے کے علاوہ ، اپنے دامن میں فعال گروہوں کی تربیت کرتی ہیں۔ معاشرے میں ماں کی خدمت اساتذہ کی خدمت سے بالاتر ہے ، اور سب کی خدمت سے بالاتر ہے۔

انبیاء الہی اور معاشرے میں خواتین کا کردار

یہ وہی کام جو انبیاء کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ خواتین کی طرح کا ایک طبقہ بنیں کہ وہ معاشرے کو تعلیم دیں ، اور معاشرے میں شجاع خواتین اور مرد تربیت کریں۔

مغرب اور حقوقِ نسواں کا ہنگامہ

لیکن وہ لوگ جو کسی ملک کو اسلامی ، اخلاقی ، نیک سمت سے محروم اور بدعنوانی کے مراکز کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ، وہ لوگ دیکھتے ہیں کہ اب جبکہ آپ معاشرے میں داخل ہوچکی ہیں اور معاشرے کی خدمت کر رہی ہیں [اور] خواتین اور مردوں کے لئے ان کے منصوبے کالعدم ہو چکے ہیں ، لہذا ان کا چیخیں بلند ہے کہ کچھ تبدیل نہیں ہوا اور یہ دور بھی سابقہ دور کی طرح ہے۔

دنیا سے لگاؤ یا دنیا سے اجتناب کا موضوع قدیم زمانے سے محتلف ادیان و مذاہب اور انسانی ثقافتوں میں زیر بحث رہا ہے۔ بعض انسانی مکاتب فکر یا الہیٰ ادیان نجات اور سعادت کو دنیا سے اجتناب، تہجد اور زہد میں تلاش کرتے ہیں۔ حتی کہ ریاضت اور عبادتگاہ میں رہنے کو دین داری، خود سازی، عرفان اور تزکیہ نفس قرار دینے لگے۔ اس کے مقابلے میں بعض آئيڈیالوجیز اور ثقافتوں مثلاً سرمایہ داری میں دنیا پرستی کو سراہا گيا ہے اور یہی چیز ان سماجوں کے زوال کا سبب بنی ہے۔ دین اسلام کی ایک ممتاز اور منفرد خصوصیت دنیا سے متعلق اس کا زاویۂ نگاہ ہے۔ دنیا کے بارے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا پرستی سے بھی اجتناب کیا جائے اور رہبانیت سے بھی۔ اسلام کا ایسے مکاتب فکر سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو انسانوں کو خانقاہوں اور عبادتگاہوں تک محدود اور انہیں انسانی زندگی کے امور اور سماجی ذمے داریوں سے دور کر دیتے ہیں۔ اسلام اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ تمام انسانوں اور مومنین کی ذمے داری ہے کہ وہ دنیوی امور پر توجہ اور ان کو اہمیت دیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ دنیا اور مادیات کی چمک دمک کو انسان کے تکامل اور اس کی پیشرفت سے مانع جانتا ہے۔

قرآن کریم کی مختلف آیات میں تاکید کی گئی ہے کہ دنیوی نعمتوں سے وابستگی اور دنیا پرستی انسان کے اخلاقی زوال کا سبب ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے بارے میں اسلام کا نظریہ افراط و تفریط سے پاک اور ایک جامع نظریہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ دنیوی نعمتوں سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہیئے، لیکن ان کے ساتھ لگاؤ نہیں ہونا چاہیئے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں اور مومنین کو سب سے پہلی تاکید یہی کی ہے کہ وہ دنیوی نعمتوں سے بہرہ ور ہوں۔ اسلام کے نزدیک الہیٰ نعمتوں سے ہمکنار ہونا انسان کے معنوی تکامل کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ اس نظریئے کی اہمیت اس وقت کھل کر سامنے آتی ہے، جب ہم اس بات کو جان لیں کہ صدر اسلام میں اور بعض سابقہ ادیان الہیٰ مثلاً عیسائیت کی پیروی میں یا صوفیا کی ثقافت سے متاثر ہو کر بعض مومنین رہبانیت اور الہیٰ نعمتوں سے استفادہ نہ کرنے کو اللہ تعالیٰ سے قرب کا راستہ سمجھتے تھے۔

ایک مسلمان رات دن عبادت میں مصروف رہتا تھا اور عبادت کی وجہ سے وہ زندگی اور گھر والوں کے امور سے غافل ہوچکا تھا، رسول اکرم (ص) نے اس سے فرمایا کہ جان لو کہ خدا نے مجھے رہبانیت کے لئے نہیں بھیجا ہے۔ میری شریعت فطری اور آسمانی شریعت ہے۔ میں خود نماز پڑھتا ہوں، روزے رکھتا ہوں، اپنی زوجہ کے ساتھ ہمبستری کرتا ہوں۔ جسے میرے دین کی پیروی کرنی ہے، اسے میری سنت کو قبول کرنا ہوگا، شادی اور میاں بیوی کی ہمبستری میری سنت میں سے ہے۔" قرآن کریم نے الہیٰ نعمتوں سے استفادہ کرنے کو خدا کو نہ بھلانے اور شیطان کی پیروی نہ کرنے سے مشروط کیا ہے اور مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے: "اور جو اس نے رزق حلال و پاکیزہ دیا ہے، اس کو کھاؤ اور اس خدا سے ڈرتے رہو، جس پر ایمان رکھنے والے ہو۔" ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے: "اے انسانو! زمین میں جو کچھ بھی حلال و طیب ہے، اسے استعمال کرو اور شیطانی اقدامات کی اتباع نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔"

رہبانیت اور دنیا سے دوری کے مقابلے میں اسلام نے اپنے پیرووں کو زہد کی دعوت دی ہے۔ بعض افراد نے زہد کا ترجمہ دنیا سے اجتناب کیا ہے جبکہ اس کا صحیح ترجمہ دنیا سے اجتناب کرنا نہیں ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک زاہد انسان دنیا پر توجہ تو دیتا ہے لیکن اسے اپنا منتہائے مقصود نہیں سمجھتا ہے، بلکہ اسے ایک اہم ذریعے جتنی اہمیت دیتا ہے۔ راہب اور زاہد دونوں ہی تارک الدنیا ہوتے ہیں، جبکہ زاہد جس دنیا کو چھوڑتا ہے، اس سے مراد نعمتوں اور دنیوی آسائشوں میں منہمک رہنا اور انہی امور کو اپنی آرزو قرار دینا ہے اور جس دنیا کو راہب چھوڑتا ہے، وہ کام، فعالیت اور سماجی ذمے داری سے عبارت ہے۔ لہذا ایک زاہد، راہب کے برخلاف اپنے تمام سماجی کام اور اجتماعی ذمے داریوں کو انجام دیتا ہے اور زہد نہ صرف سماجی ذمے داریوں کے منافی نہیں ہے بلکہ وہ ذمے داریوں سے عہدہ برا ہونے کا مناسب ذریعہ ہے۔ دنیا میں زہد کا ایک اثر معنویات کے ساتھ انسان کی محبت ہے۔ انسان جس قدر مادیات میں اپنی دلچسپی کم کرتا ہے اور دنیا سے اس کی محبت میں کمی واقع ہوتی ہے، اسی قدر اس کی معنویات کے ادراک کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو شخص مادیات اور دنیوی امور میں جکڑا رہتا ہے، وہ معنویت کے بحر بیکراں کے بارے میں نہ سوچ سکتا ہے اور نہ ہی اس سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔

امام خمینی (رہ) ایسے انسان تھے، جنہیں زہد کی صفت کا حامل قرار دے سکتے ہیں۔ آپ نہ صرف زبانی طور پر اور عقیدے کے اعتبار سے بلکہ اپنے عمل اور کردار میں بھی زہد کا مکمل نمونہ تھے۔ آپ دوسروں کو بھی اسی کی دعوت دیتے تھے۔ آیت اللہ جعفر سبحانی کا کہنا ہے کہ "جب امام خمینی (رہ) درس اخلاق دیتے تھے تو وہ دنیا پرستی کی بہت مذمت کرتے تھے، بعض اوقات درس ختم ہونے کے بعد انسان دنیا سے اس قدر بے اعتنا ہو جاتا تھا کہ دنیا اس کے نزدیک ایک ٹوٹے ہوئے کوزے جیسی ہوتی تھی، جس پر کوئی شخص توجہ ہی نہیں دیتا ہے۔" امام خمینی (رہ) نے آیت اللہ بروجردی کے انتقال کے بعد دنیوی امور کے بارے میں پریشان ہونے والے طلاب کو بلند ہمتی سے کام لینے، دنیا کو غیر اہم جاننے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی نصیحت فرمائی۔ حجۃ الاسلام زین العابدین باکویی اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ آيت اللہ بروجردی کے انتقال کے بعد حوزہ علمیہ قم میں چالیس دن تک چھٹیاں کر دی گئیں۔ تعطیلات کے بعد پہلے دن جب درسوں کا سلسلہ شروع ہوا تو امام خمینی (رہ) نے مسجد اعظم میں طالب علموں کو نصیحت کی کہ اپنے رزق کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں، طالب علموں نے کہا کہ آیت اللہ بروجردی وفات پاچکے ہیں، اب ہم کیا کریں؟ تو امام خمینی (رہ) نے فرمایا: "آپ لوگوں کی ہمت اس قدر بلند ہونی چاہیئے کہ دنیا کی اہمیت گھاس کے ایک پتے کے برابر بھی نہ ہو۔"

امام خمینی (رہ) نے دنیا کے غیر اہم ہونے کی وضاحت کرنے کے لئے اس کے لغوی معنی کی جانب اشارہ کیا اور اپنے اساتذہ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: "دنیا کی اس قدر مذمت کی گئی ہے کہ اس کا نام تک ذکر نہیں کیا گيا بلکہ کنائے سے کام لیتے ہوئے لفظ دنیا یعنی پست کے ساتھ اسے تعبیر کیا گيا ہے۔ بالکل ان برے مقامات کی طرح کہ جن کا نام نہیں لیا جاتا ہے بلکہ کنائے کے ساتھ ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔" امام خمینی (رہ) دنیا پرستی سے اجتناب کرتے ہوئے طالب علموں کو تاکید کیا کرتے تھے کہ نہ صرف اپنی آخرت کو دنیا پر قربان نہ کریں بلکہ اپنے دین کو بھی دوسروں کی دنیا پر قربان نہ کریں۔ آیت اللہ بنی فضل اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ مقدس اسلامی تحریک کی ابتدا میں جن دنوں امام خمینی (رہ) کی مرجعیت اور قیادت اپنے عروج پر تھی، آپ نے اپنے گھر کے بعض افراد کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر دنیا اور قیادت ہو بھی تو وہ تمہارے لئے نہیں ہے۔ اگر تم عقلمند ہو تو میری دنیا کے لئے اپنا دین داؤ پر نہ لگاؤ۔ اپنے دین کو مستحکم اور مضبوط رکھو. امام خمینی (رہ) طالب علموں کو زہد کی رغبت دلاتے ہوئے انہیں متنبہ کرتے تھے کہ دینی طالب علموں کا دنیا کی جانب رجحان دین پر ضرب لگنے کا سبب بنتا ہے۔ آیت اللہ حسین مظاہری نے اس سلسلے میں نقل کیا ہے کہ امام خمینی (رہ) ہمیشہ طالب علموں سے فرماتے تھے کہ اس بات کا خیال رکھنا کہ اسلام کو تم لوگوں سے کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی