قال رسول الله صلى الله علیه و آله و سلم:لو يعلم العبد ما فى رمضان لو ان يكون رمضان السنة
رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اگر بنده «خدا» کو معلوم ہوتا کہ رمضان کا مہینہ کیا ہے، (اور یہ کن برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے) وه چاہتا کہ پورا سال ہی روزہ رمضان ہوتا.[1]
رمضان رحمت کا مہینہ۔
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلمو هو شهر اوله رحمة و اوسطه مغفرة و اخرہ عتق من النار.
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:رمضان وہ مہینہ ہے جس کا آغاز رحمت، درمیانے ایام مغفرت اور انتہا دوزخ کی آگ سے آزادی ہے[2]
قرآن اور ماه مبارک رمضان۔
قال الرضا علیه السلام
من قرا فى شهر رمضان اية من كتاب الله كان كمن ختم القران فى غيره من الشهور.
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:
جو شخص رمضان کے مہینے مین قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے گویا اس نے دوسرے مہینوں میں پورے قرآن کی تلاوت کی ہے[3]
*روزه کی اہميت۔*
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم :الصوم فى الحَرِّ جہاد
رسول خدا صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمایا: گرمی میں روزه رکهنا جہاد ہے[4]
مؤمنوں کی بہار۔
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم: الشتاء ربيع المؤمن يطول فيه ليلہه فيستعين به على قيامه و يقصر فيه نهارہ فيستعين به على صيامه.
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: سردیوں کا موسم مؤمن کی بہار ہے جس کی طویل راتوں سے وہ عبادت کے لئے استفادہ کرتا ہے اور اس کے چهوٹے دنوں مین روزے رکهتا ہے[5]
روزه بدن کی زكواة۔
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم :لكل شيئى زكاة و زكاة الابدان الصيام.
رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہر چیز کے لئے زکواة ہے اور بدن کی زکاة روزه ہے[6]
روزه آتش دوزخ کی ڈهال۔
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم :الصوم جنة من النار.
رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: روزه جہنم کی آگ کے مقابلے میں ڈهال کی حیثیت رکهتا ہے. «يعنى روزه رکهنے کے واسطے سے انسان آتش جہنم سے محفوظ ہو جاتا ہے[7].»
روزے کی جزا۔
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم: قال اللہ تعالى الصوم لى و انا اجزى به
رسول خدا نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: روزہ میرے لئے ہے (اور میرا ہے) اور اس کی جزا میں ہی دیتا ہوں[8]
خوشا بحال صائمین۔
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم :طوبى لمن ظما او جاع للہ اولئك الذين يشبعون يوم القيامة
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: خوش بخت ہیں وہ لوگ جو خدا کے لئے بهوکے اور پیاسے ہوئے ہیں یہ لوگ قیامت کی روز سیر و سیراب ہونگے[9]
طعام و شرابِ جنت نوش کرنے والے۔
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم:من منعه الصوم من طعام يشتهيه كان حقا على اللہ ان يطعمه من طعام الجنة و يسقيه من شرابها.
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جس شخص کو روزہ اس کی مطلوبہ غذاؤں سے منع کرکے رکهے خدا کی ذمہ داری ہے کہ اس کو جنت کی غذائیں کهلائے اور انہیں جنیتی شراب پلا دے[10]
جنت اور روزہ داروں کا دروازہ۔
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم :ان للجنة بابا يدعى الريان لا يدخل منه الا الصائمون.
رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے اور اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی داخل ہونگے[11]
ماہ رمضان کی فضيلت۔
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم:ان ابواب السماء تفتح فى اول ليلة من شهر رمضان و لا تغلق الى اخر ليلة منه
رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ و سلم فرمود: آسمان کے دروازے ماه رمضان کے پہلی رات کو کهلتے ہیں اور آخری رات تک بند نہیں ہوتے[12]
روزه اور قيامت کی یاد دہانی۔
قال الرضا علیه السلام:انما امروا بالصوم لكى يعرفوا الم الجوع و العطش فيستدلوا على فقر الآخر.امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:لوگوں کو روزہ رکهنے کا امر ہؤا ہے تا کہ وه بهوک اور پیاس کے دکھ کو جان لیں اور اس طرح آخرت کی ناداری اور حاجتمندی کا ادراک کریں[13]
اعضا و جوارح کا روزه۔
عن فاطمة الزهرا سلام الله علیها:ما يصنع الصائم بصيامه اذا لم يصن لسانه و سمعه و بصره و جوارحه.
حضرت زهرا سلام اللہ علیھا نے فرمایا:وه روزه دار جس نے اپنی زبان، کان، آنکھ اور اعضاء و جوارح کو (گناہوں سے) محفوظ نہیں رکها ہے اس کا روزه کس کام کا ، جس کی کوئی قیمت نہیں[14]
شب قدر کا احياء۔
عن فضيل بن يسار قال:كان ابو جعفر علیه السلام اذا كان ليلة احدى و عشرين و ليلة ثلاث و عشرين اخذ فى الدعاء حتى يزول الليل فاذا زال الليل صلى.
فضيل بن يسار کہتے ہیں:امام باقر (علیہ السلام) ماہ رمضان کے اکیسیویں اور تئیسویں کی راتوں کو دعا اور عبادت میں مصروف ہوجایا کرتے تهے حتی کہ صبح ہوجاتی اور جب رات گزرجاتی نماز فجر ادا فرمایا کرتے[15]
روزے کےفوائد۔
٭ روزے کے طبی فوائد میں سب سے اہم یہ ہے کہ روزے دار مختلف بیماریوں سے دور رہتا ہے۔
٭ کم کھانا اور کم سونا اس کے اندر رمضان کے علاوہ باقی مہینوں کے حوالے سے اہم تبدیلی پیدا کرتا ہے۔
٭روزے سے جسم میں کمزوری واقع نہیں ہوتی بلکہ روزہ رکھنے سے صرف دو کھانوں کا درمیانی وقفہ ہی معمول سے کچھ زیادہ ہوتا ہے۔
٭ روزے سے انسانی نظام ہاضمہ کو آرام ملتا ہے اور جگر کو بھی آرام کا موقع ملتا ہے جس سے وہ مزید فعال ہوجاتاہے۔
٭ روزہ کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے یہ اثر دل کو نہایت فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔
٭ روزہ پھیپھڑوں کو آرام مہیا کرتا ہے اور اس سے پھیپھڑوں میں جما ہوا خون بھی صاف ہوجاتا ہے۔
٭ روزے کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ بلڈ شوگر کو کنٹرول کرتا ہے یعنی معمول پر لاتا ہے۔
٭ روزہ سردرد، گھبراہٹ اور ڈپریشن دور کرتا ہے، اس سے طبیعت تازگی پیدا ہوتی ہے۔
٭ روزہ جسم کی اضافی چربی کو پگھلاتا ہے اور وزن کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
٭ جدید تحقیق کے مطابق روزہ انسان کی جلد اور بینائی کو بھی بہتر کرتا ہے۔
٭ روزہ جلد کو پھٹنے سے بچاتا ہے، آنکھوں کوروشن کرتاہے، بصارت کو تیز کرتا ہے۔
*روزے کے اثرات ۔*
مختلف بیماریوں میں روزے کو بطور ایک طریقۂ علاج استعمال کیا جارہا ہے جن میں لوگ کمزور ہو جاتے ہیں، خواہ وہ آنتوں کی بیماری ہو یا سانس کی، دل و دماغ کی بیماری ہو یا شریانوں کی۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ خود ایک طریقۂ علاج ہے۔
روزہ رکھنے سے انسانی جسم میں گلوکوز کی سطح گر جاتی ہے، جسم کو گلوکوز کی متواتر ضرورت ہوتی ہے، اور جب جسم کو یہ باہر سے نہیں ملتا تو جسم اپنے اندر ازخود گلوکوز بنانا شروع کر دیتا ہے۔ جسم کے اندر محفوظ چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین گلوکوز میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ جسم کے اندر میٹا بولزم (Metabolism) کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جسم گلوکوز جمع کرنا شروع کرتا ہے، لیکن جن لوگوں کے خون میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، روزے سے ان میں شوگر کی سطح کم ہو جاتی ہے، اس کے نتیجے میں جسم کے اندر شوگر کی سطح متوازن ہو کر نارمل ہو جاتی ہے۔
روزے کے نتیجے میں دوسری تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ بلڈ پریشر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے، بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لیے پانی چاہیے ہوتا ہے، جب جسم کو دو چار گھنٹے پانی نہیں ملتا تو اس کے بلڈ پریشر میں کمی آنا شروع ہوتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جسم میں ایسے ہارمونز خارج ہونے لگتے ہیں جو بلڈ پریشر کے اس عمل کو بہتر کرتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہوتا ہے ان کو روزہ رکھنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کا بلڈ پریشر قابو میں آجاتا ہے۔ دنیا میں اب یہ ایک مستند طریقہ علاج ہے کہ جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہو اور کنٹرول نہ ہو رہا ہو ان کو روزہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کا بلڈ پریشر کنٹرول ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
انسانی جسم میں تیسری بڑی تبدیلی چربی کی سطح میں رونما ہوتی ہے۔ جسم میں محفوظ چربی عموماً استعمال نہیں ہورہی ہوتی کیونکہ انسان مطلوبہ توانائی اپنی غذا سے حاصل کررہا ہوتا ہے۔ روزے کی حالت میں بڑا فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ چربی کا ذخیرہ توانائی میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ جسم کے اندر چربی کم ہونا شروع ہوجاتی ہے، اور کولیسٹرول کم ہونے لگتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ چربی انسانی جسم کے اندر بیماریاں پیدا کرتی ہے۔ چربی سے جسم میں کولیسٹرول بڑھتا ہے، موٹاپا بڑھتا ہے، خون کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں۔ یہ روزے کے اثرات ہی ہیں جن کی وجہ سے چربی پگھلتی ہے، کولیسٹرول کم ہو جاتا ہے اور زائد چربی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم میں زہریلے مادے ختم ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جسم میںطرح طرح کے مادے پیدا ہوتے ہیں جن میں بعض زہریلے بھی ہوتے ہیں۔ روزے کے نتیجے میں جسم کا پورا میٹابولزم تبدیل ہو کر ایک مختلف شکل میں آجاتا ہے، جسم کے اندر ڈی ٹاکسی فکیشن (Detoxification) کا عمل شروع ہوتا ہے، جسم کو اپنے بہت سے زہریلے مادوں سے نجات حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور یہ بڑی تبدیلی ہے جو انسان کو صحت مندی کی طرف لے جاتی ہے۔ روزے سے جسمانی قوتِ مدافعت بھی بڑھتی ہے، روزہ رکھنے سے مدافعت کا نظام فعال ہوجاتا ہے، اس فعالیت کے نتیجے میں جسم کے اندر مدافعتی نظام میں بڑھوتری پیدا ہوتی ہے۔ پھر خون میں ایسے مدافعتی خلیے پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو نہ صرف بیماریوں سے بچاتے ہیں بلکہ اگر جسم میں بیماریاں موجود بھی ہوں تو ان کو دور کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔حوالہ جات۔۔۔۔
[1]بحار الانوار، ج 93، ص 346
[2]بحار الانوار، ج 93، ص 342
[3]بحار الانوار ج 93، ص 346
[4]بحار الانوار، ج 96، ص 257
[5]وسائل الشیعة، ج 7 ص 302، ح 3
[6]الكافى، ج 4، ص 62، ح 3
[7]الكافى، ج 4 ص 162
[8]وسائل الشیعة ج 7 ص 294، ح 15 و 16 ; 27 و 30
[9]وسائل الشیعة، ج 7 ص 299، ح2
[10]بحار الانوار ج 93 ص 331
[11]وسائل الشیعة، ج 7 ص 295، ح31. معانى الاخبار ص 116
[12]بحار الانوار، ج 93، ص 344
[13]وسائل الشیعة، ج 4 ص 4 ح 5 علل الشرايع، ص 10
[14]بحار، ج 93 ص 295
[15]وسائل الشیعة، ج 7، ص 260،
تحریر :علی احمد بھشتی