سلیمانی

سلیمانی

کائنات کا حسین ترین جوان!

یہ نوجوان اپنے باپ کے پاس آیا۔علی اکبر(ع‌)کی عمر اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان لکھی گئی ہے۔ یعنی کم از کم اٹھارہ سال اور زیادہ سے زیادہ پچیس سال۔ وہ کہتا ہے: "علی ابن الحسین باہر آئے” علی ابن الحسین لڑنے کے لیے خیمہ گاہ سے نکلے۔ یہاں ایک بار پھر راوی کہتا ہے: "یہ نوجوان کائنات کے خوبصورت نوجوانوں میں سے ایک تھا۔” خوبصورت،رشید اور بہادر۔ اس نے اپنے باپ سے جا کر لڑنے کی اجازت مانگی، امام نے بغیر تاخیر کے اجازت دے دی۔

 

 

 

علی اکبر(ع)کو اذن جنگ!

قاسم ابن الحسن کے معاملے میں،پہلے امام نے اجازت نہیں دی،اور پھر قاسم ع نے کچھ دیر تقاضا کیا یہاں تک کہ امام نے اجازت دے دی۔لیکن "علی اکبر بن الحسین” جیسے ہی آئے،کیونکہ وہ انکا اپنا بیٹا تھا،جیسے ہی اس نے اجازت مانگی،امام نے کہا کہ جاؤ۔پھر امام ع نے اپنے نوجوان کو مایوس نظروں سے دیکھا جو میدان کی طرف جا رہا ہے اور اب واپس نہیں آئے گا۔امام ع نے اپنی آنکھیں موند لیں اور بلند آواز سے رونے لگے۔یہ رونا بے صبری کے باعث نہیں تھا بلکہ یہ شدتِ جذبات کی عکاسی کررہا تھا۔اسلام ان جذبات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

 

 

شبیہ پیغمبر،اکبر!

پھر امام فرماتے ہیں: "جب بھی ہمیں نبی(ص) کی یاد آتی، ہم اس نوجوان کی طرف دیکھتے۔” لیکن یہ نوجوان بھی اب میدان کی طرف گیا۔ "پھر امام نے بلند آواز سے عمر سعد کو بد دعا دی اور کہا اے ابن سعد خدا تیری نسل قطع کرے جس طرح تو نے میری نسل قطع کی”۔

 

 

 

 

 

رسول اللہ،ساقی اکبر!

پھر راوی بیان کرتا ہے کہ علی اکبر میدان میں گئے اور بہت بہادری سے جنگ کی اور دشمن کی ایک بڑی تعداد کو قتل کیا۔ پھر وہ واپس آئے اور کہا کہ مجھے پیاس لگی ہے۔ وہ پھر میدان کی طرف پلٹے۔ جب انہوں نے اپنی پیاس کا اظہار کیا تو امام نے فرمایا: میرے عزیز! تھوڑی دیر اور لڑو اب زیادہ دیر نہیں کہ تمہیں تمہارے جد نبی ص سیراب کریں گے۔جب امام حسین نے یہ جملہ علی اکبر ع سے کہا تو علی اکبر نے آخری لمحے میں اپنی آواز بلند کی اور کہا: "اے بابا علیک السلام” بابا خدا حافظ ” رسول اللہ آئے ہیں اور آپ(ع)کو سلام دے رہے ہیں”۔ اور وہ آپ سے فرماتے ہیں کہ جلدی کرو اور ہمارے پاس آؤ۔

 


اسلام میں سیدالشہداء کا لقب کئی شخصیات کے لیے استعمال ہوا ہے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو شخصیات کو بعد از شہادت یہ لقب دیا۔ پہلی شخصیت حضور ؐ کے پیارے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ تھے۔ جنگ ِ احد میں شہادت کے بعد ان کے بارے میں آپ ؐ نے فرمایا "سیدالشہداء عنداللہ یوم القیامۃ حمزۃ" یعنی "اللہ کے ہاں قیامت کے دن حمزہ بن عبدالمطلب شہیدوں کے سردار (سیدالشہداء) ہیں۔" (مستدرک علی الصحیحین کتاب الجہاد حدیث نمبر ۷۵۵۲)۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت حمزہ ؓ کے جنازے کے ساتھ دوسرے شہداء کے جنازے رکھے گئے اور ہر شہید کے ساتھ حضور ؐ نے حضرت حمزہ ؓ کا جنازہ بھی پڑھایا، اس طرح حضرت حمزہ ؓ کا جنازہ ستر مرتبہ پڑھا گیا۔(طبقات ابن سعد)

ایک اور مقام پر دوسری شخصیت حضرت جعفر ابن ابی طالب ؑ کو بھی سیدالشہداء کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ قال رسول اللہﷺ "سیدالشہداء جعفر بن ابی طالب" رسول اللہ نے فرمایا کہ "جعفر ابن ابی طالب شہیدوں کے سردار ہیں۔"(کنزالعمال ۷۳۹۶۳)۔ اسی طرح مسند امام ابی حنیفہ میں عکرمہ مولی ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا: "سیدالشہداء یوم القیامۃ حمزۃ بن عبدالمطلب و رجل قام الی امام جائر فامرہ و نھاہ فقتلہ"یعنی "پر وہ شخص جو ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے کی وجہ سے قتل کیا جائے، وہ سیدالشہداء کہلا سکتا ہے۔"

نبی اکرم ؐ کی اس حدیث نے ایک اصول اور فارمولا طے کر دیا۔ حدیث ِرسول ؐ کی حقیقت و ماہیت اور اس کا حقیقی معانی و مفاہیم صرف وہی جان سکتا ہے، جو رسول ؐ کا حقیقی جانشین بھی ہو اور معصوم عن الخطا امام بھی ہو۔ نبی اکرم ؐ کے بعد سیدالشہداء جیسے منصب کی وضاحت بھی یہی امام کرے گا اور اس لقب کی وضاحت یہی امام دے گا، جبکہ اس لقب کے صحیح مصداق کے بارے میں یہی امام طے کرے گا۔ واقعہ کربلا کے بعد جب یہ سوال اٹھا کہ اب سیدالشہداء کون قرار پائے گا۔؟ اس کا جواب جانشین ِ رسول ؐ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرما دیا۔ اس سے پہلے کہ ہم اس جواب کی طرف جائیں، ہم پہلے امام حسین علیہ السلام کی قربانی اور شہادت کو  قرآنی حکم کے آئینے میں دیکھ لیتے ہیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالےٰ نے سورہ الصفت آیت ۷۰۱ اور ۸۰۱ میں جس ذبح عظیم کا تذکرہ فرمایا ہے، اس کے مصداق کے حوالے سے آئمہ اہل بیت ؑ اور فقہاء و علماء نے تشریح و تفاسیر کی ہیں۔ خصال صدوق، بحارالانوار اور عیون اخبار الرضا کی روایات اس امر کی شہادت دے رہی ہیں کہ حضرت امام حسین ؑ ہی اس ذبح عظیم کے مصداق ہیں۔ انسانی عقل و شعور اور فہم و علم کے معیار بھی یہی دلیل قبول کرتے ہیں کہ ذبح عظیم کا اشارہ کسی جانور کی طرف تو ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی بکرے یا دنبے یا مینڈھے کو ہم کبھی بھی ذبح عظیم کا مصداق نہیں کہہ سکتے۔ حتی کہ کسی انسان یا چند انسانوں کی انفرادی قربانی یا جنگ کی حالت میں شہید ہونے کو بھی ذبح عظیم کا مصداق نہیں کہا جا سکتا۔

اگر ایسا ہوتا تو شہدائے بدر، شہدائے احد  اور دیگر جنگوں کے شہداء کے بارے میں خود رسول اکرم ؐ فرما دیتے کہ یہ شہداء ہی ذبح عظیم کے مصداق ہیں۔ رسول اکرم ؐ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کائنات میں سب سے افضل ترین انسان ہیں اور وہ بھی پوری زندگی جہاد میں گزار کر بالآخر محراب مسجد یعنی اللہ کے گھر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے، لیکن کسی امام یا کسی صحابی نے امیرالمومنین ؑ کو ذبح عظیم کا مصداق قرار نہیں دیا۔ ان کے بعد حضرت امام حسن علیہ السلام بھی ساری زندگی امتحان اور مصیبت کے ساتھ بسر کرکے دشمن کی سازش کے تحت زہرِ قاتل سے شہید ہوئے، لیکن کسی نے انہیں ذبح عظیم کا مصداق قرار نہیں دیا۔

اسلام کے تمام شہداء کے خون سے اگرچہ اسلام کو تقویت حاصل ہوئی اور اسلام کا بول بالا ہوا، لیکن جب حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے اقرباء و اصحاب کے ساتھ میدان کربلا میں تین دن کی پیاس کے بعد چھ ماہ کے اصغر سے لے کر خود تک درجہ شہادت پر فائز ہوئے تو ان قربانیوں کے طفیل اسلام قیامت تک اور رہتی دنیا تک قائم و دائم اور مضبوط و مستحکم ہوگیا۔ کیونکہ ان قربانیوں کی نوعیت ہی اس قسم کی تھی کہ جس کی نظیر چودہ صدیاں گذرنے کے بعد بھی نہیں ملی اور لاکھوں صدیاں گذرنے کے بعد قیامت تک نہیں ملے گی۔ کیونکہ دوبارہ کسی حسین ؑ نے نہیں آنا، جو نواسہ رسول ؐ بھی ہو۔ فرزند ِعلی ؑ و بتول ؑ بھی ہو اور اس کے ساتھ رسول ؐ کے خاندان کے لوگ اور رسول ؐ کے اصحاب بھی شریک ہوں۔ اس سطح کی با وزن قربانیاں اب کبھی ہو ہی نہیں سکتیں۔ لہذا اب تا قیام ِقیامت صرف حسین ؑ کی ذات ہے، جو ذبح عظیم کا مصداق رہے گی۔

جب یہ طے ہوگیا کہ حضرت امام حسین ؑ کی ذات ذبح عظیم کا اولین اور تنہاء مصداق ہیں تو دنیا میں جتنے بھی شہداء یا سیدالشہدا ہوں گے، وہ امام حسین ؑ کے مقام کو نہیں چھو سکتے، کیونکہ حسین ؑ صرف سیدالشہداء ؑ نہیں بلکہ ذبح عظیم کے مصداق بھی ہیں۔ انہیں سیدالشہداء کہنا خود شہادت کے لیے باعث ِفخر ہے۔ عالم ِاسلام اس بات پر متفق ہے کہ جس بڑی قربانی کا اللہ تعالےٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے، اس سے یقینی مراد حضرت امام حسین ؑ کی ذات ہے۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کو اللہ تعالےٰ نے فقط صبر سے آزمایا، یعنی حقیقت میں نہ ابراہیم نے بیٹا ذبح کیا یا کرایا اور اسی طرح حقیقت میں حضرت اسماعیل بھی ذبح نہیں ہوئے، اللہ تعالےٰ نے خواب کے ذریعے انہیں آزمایا۔ اگرچہ صبر کے معاملے میں وہ پورا اترے، لیکن نہ ابراہیم نے بیٹا ذبح کیا اور نہ اسماعیل خود ذبح ہوئے، لیکن کربلا میں تو منظر ہی مختلف ہے کہ جہاں حقیقت میں امام حسین ؑ نہ صرف بیٹے، بھتیجے، بھانجے، بھائی، رشتہ دار اور اصحاب و انصار کو ذبح کرا رہے ہیں، بلکہ آخر میں خود بھی ذبح ہوگئے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ذبح عظیم کو مصداق کون ہوگا۔؟

امام حسین ؑ نے اسلام کے دفاع اور دین کے استحکام کے لیے جو جدوجہد اور جہاد کیا، اس کے اثرات چودہ صدیوں سے مرتب چلے آرہے ہیں اور قیامت تک چلے جائیں گے۔ شہدائے کربلا نے اپنے خون سے جہاں 61 ھجری میں یزید کے ناپاک ارادوں کے سامنے بند باندھا، وہاں قیامت تک ہر یزید کے سامنے کلمہ حق کہنے اور اس کے نتیجے میں شہادت پانے کا حوصلہ عطاء کر دیا۔ ویسے بھی حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت امام حسین ؑ باہم متصل ہیں، ایک ہی ذریت اور ایک ہی نسل سے ہیں۔ منصب اور ذمہ داریاں بھی ایک جیسی ہیں۔ لہذا اسماعیل کا قرض ہو یا فدیہ سب حضرت امام حسین ؑ کے ذریعے اگر ادا ہو تو اس میں کسی حیرت کے بات نہیں۔ چودہ سو سال سے کربلا کی یاد کی شکل میں اسلام کے استحکام کی جدوجہد جاری ہے اور ساری دنیا کے انسان حضرت امام حسین ؑ کو بلحاظِ سیدالشہداء ؑ یاد کرتے ہیں۔ چودہ صدیوں کی یہ تازگی ہی بذاتِ خود حضرت امام حسین ؑ کے سیدالشہداء ہونے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالےٰ ہمیں سیدالشہداء کے ساتھ متصل فرما کر انہیں کے ساتھ ہی محشور فرمائے اور ہم دامن ِحسین ؑ سے وابستہ ہو کر دنیا سے اٹھیں اور اگلی دنیا میں پہنچیں۔

تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان

امریکی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرکے غزہ میں تل ابیب کی وحشیانہ جارحیت کو، دفاعی عمل قرار دیا ہے۔ اس بیان میں واشنگٹن کی جانب سے غاصب صیہونی حکومت کی مکمل حمایت اور صیہونیوں کی بمباری کو نظرانداز کرتے ہوئے فریقین سے کشیدگی سے دور رہنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے بھی غزہ پٹی پر غاصب اسرائیلیوں کے حملے کو اپنی حفاظت اور حق کا دفاع قرار دیا تھا۔

ادھر، روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے غزہ پر بمباری کے سلسلے کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان کی جانب سے جاری شدہ بیان میں زور دیکر کہا گیا ہے کہ غزہ پر صیہونی حکومت کے حملوں کا کوئی جواز نہیں ہے اور اسے فورا روکنے کی ضرورت ہے۔

دریں اثنا، غزہ کی صورتحال کے پیش نظر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بعض ارکان نے اس ادارے کی ہنگامی نشست کا مطالبہ کیا ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل رکن چین بھی ان ممالک میں شامل ہے جس نے اس نشست پر زور دیا ہے۔ فرانس، آئرلینڈ، ناروے اور چین سمیت متحدہ عرب امارات نے بھی ہنگامی نشست کا مطالبہ کیا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق سلامتی کونسل کی یہ نشست پیر کے روز متوقع ہے ۔

واضح رہے کہ اب تک ایران، عراق، سعودی عرب، ترکی، الجزائر، تونس، اردن، قطر اور کویت نے غزہ کے مظلوم عوام پر صیہونیوں کے بھیانک حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔امریکہ اور بین الاقوامی اداروں کی خاموشی کی آڑ میں غاصب صیہونی حکومت نے غزہ پر حملے جاری رکھے ہیں۔ صیہونی فضائیہ کے حملوں میں مظلوم فلسطینی عوام کے گھر مسمار اور عام شہری اور معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران اور برصغیر پاک و ہند سمیت پوری دنیا میں نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری عروج پر پہنچ چکی ہے۔

کربلائے معلی سے ہمارے نمائندے نے بتایا ہے کہ نواسہ رسول حضرت امام حسین اور علمدار کربلا حضرت ابوالفضل العباس علیہم السلام کے روضہ ھای مبارک ، بین الحرمین اور اطراف کی سڑکیں ماتمی دستوں، زائرین اور عزاداروں سے مملو ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر سے بہت بڑی تعداد میں زائرین کربلائے معلی پہنچے ہیں جن میں ہندوستان اور پاکستان کے ہزاروں زائرین بھی شامل ہیں۔

ایران اسلامی میں آج اتوار کو نو محرم ہے اور اس مناسبت سے مشہد مقدس، قم اور دارالحکومت تہران سمیت پورے ملک میں مجالس اور نو محرم کے مخصوص جلوسہائے عزا نکالے جانے کا سلسلہ جاری ہے ۔

دوسری جانب پاکستان اور ہندوستان میں آج آٹھ محرم کے مخصوص ماتمی دستے اور جلوس برآمد ہورہے ہیں ۔

کراچی، لاہور، ملتان، کوئٹہ، اور پشاور سمیت پاکستان کے تقریبا سبھی چھوٹے بڑے شہروں میں آٹھ محرم کے مخصوص ماتمی جلوس برآمد ہوئے ہیں جو اپنے مخصوص راستوں سے ہوتے ہوئے، مختلف امام بارگاہوں اور مساجد کی جانب رواں دواں ہیں جہاں پہنچ کے یہ جلوس عظیم الشان حسینی اجتماع میں تبدیل ہوجائیں گے ۔

ادھر ممبئی، حیدرآباد، بنگلور، دہلی، لکھنؤ، پٹنہ اور کولکتہ سمیت ہندوستان کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں سے بھی آٹھ محرم کے مخصوص جلوس برآمد کئے جارہے ہیں ۔ ہندوستان کے مختلف شہروں میں آٹھ محرم کے ماتمی جلوسوں میں بہت بڑی تعداد میں غیر مسلم عزاداروں کے دستے بھی شامل ہیں۔

سپاہ پاسداران نے اتوار کے روز اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ناجائز صیہونی ریاست کی غلط فہمی فلسطین کی اسلامی مزاحمت کو مضبوط اور قابض صہیونیوں کے خاتمے کو مزید قریب تر بنا دے گی۔

بیان میں اسرائیل کو جعلی، نسل پرست اور بچوں کی قاتل حکومت قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ نئی فوجی کارروائی اور فلسطینی مزاحمتی کمانڈروں کے قتل، جو کہ امریکہ اور دیگر غیر انسانی حکومتوں کی حمایت سے ہو رہے ہیں، نے ایک بار پھر صیہونیوں اور ان کے حامیوں کی خطے اور اس سے باہر جارحانہ نوعیت، مجرمانہ اور غیر انسانی حکومتوں کا بے نقاب کر دیا ہے۔

سپاہ پاسداران نے اپنے بیان میں غزہ کے خلاف جاری اسرائیلی جارحیت کو ایک غلط اندازہ اور اقدام قرار دیا ہے جس کا مقصد مزاحمت کی طاقت اور فلسطینی قوم کے خلاف ہمہ گیر جنگ کی صورت میں اس کے ردعمل کے معیار کا جائزہ لینا ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جرائم کا تسلسل بعض عرب ریاستوں کی جانب سے حکومت کے ساتھ روابط کو معمول پر لانے اور استکباری طاقتوں کی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا نتیجہ ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ معمول پر آنا نہ صرف ناجائز صیہونی ریاست کی سلامتی کو یقینی بنانے میں ناکام رہے گا بلکہ اس سے فلسطین کے غاصبوں کے خلاف مسلم ممالک کی مزاحمت میں بھی اضافہ ہوگا۔

سپاہ پاسداران نے القدس شہر کی آزادی کے ساتھ ساتھ تمام گروہوں کی شرکت والی ایک آزاد فلسطینی حکومت کی تشکیل کے لیے ایرانی قوم سمیت عالم اسلام کی طرف سے ہر طرح کی حمایت کی اہمیت پر زور دیا۔

بیان میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ناجائز صیہونی ریاست کے جرائم پر بے عملی کو روکیں اور فلسطینی عوام کے حقوق کی پاسداری میں مدد کریں۔

سپاہ پاسداران نے ناجائز صیہونی ریاست کے خلاف فلسطینیوں کی بغاوت کی حمایت کا اظہار کیا جسے انتفاضہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اور کہا کہ فلسطینی عوام بلاشبہ نسل پرست صیہونیوں کے خلاف فتح حاصل کر کے ابھریں گے اور اپنی سرزمین کو آزاد کرائیں گے۔

توحید کا عقیدہ صرف ایک مسلمان کے ذہن اور فکر پر ہی اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ یہ عقیدہ اس کے تمام حالات شرائط اور تمام پہلوؤں پر اثر ڈالتا ہے۔ خدا کون ہے؟ کیسا ہے؟ اور اس کی معرفت و شناخت ایک مسلمان کی فردی اور اجتماعی اور زندگی میں اس کے موقف اختیار کرنے پر کیا اثر ڈالتی ہے؟ ان تمام عقائد کا اثر اور نقش مسلمان کی عملی زندگی میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
ہر انسان پر لازم ہے کہ اس خدا پر عقیدہ رکھے جو سچا ہے اور سچ بولتا ہے، اپنے دعووں کی مخالفت نہیں کرتا ہے جس کی اطاعت فرض ہے اور جس کی ناراضگی جہنمی ہونے کا موجب بنتی ہے ۔ ہر حال میں انسان کے لئے حاضرو ناظر ہے، انسان کا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اس کے علم و بصیرت سے پوشیدہ نہیں ہے.... یہ سب عقائد جب ”یقین “ کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں تو ایک انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ مؤثر عنصر بن جاتے ہیں۔ توحید کا مطلب صرف ایک نظریہ اور تصور نہیں ہے بلکہ عملی میدان میں” اطاعت میں توحید “ اور” عبادت میں توحید“ بھی اسی کے جلوہ اور آثار شمار ہوتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام پہلے ہی سے اپنی شہادت کا علم رکھتے تھے اور اس کے جزئیات تک کو جانتے تھے۔ پیغمبر نے بھی شہادت حسین علیہ السلام کی پیشینگوئی کی تھی۔ لیکن اس علم اور پیشین گوئی نے امام کے انقلابی قدم میں کوئی معمولی سا اثر بھی نہیں ڈالا اور میدان جہادو شہادت میں قدم رکھنے سے آپ کے قدموں میں ذرا بھی سستی اور شک و تردید ایجاد نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ سے امام کے شوق شہادت میں اضافہ کیا،امام اسی ایمان اور اعتقاد کے ساتھ کربلاآئے اور جہاد کیا اور عاشقانہ انداز میں خدا کے دیدار کے لئے آگے بڑھے، جیسا کہ امام سے منسوب اشعار میں آیا ہے :
ترکت الخلق طرّا فی هواکا
واٴیتمت العیال لکی اراکا
کئی موقعوں پر آپ کے اصحاب اور رشتہ داروں نے خیرخواہی اور دلسوزی کے جذبہ کے تحت آپ کو عراق اور کوفہ جانے سے روکا اور کوفیوں کی بے وفائی اور آپ کے والد اور برادر کی مظلومیت اور تنہائی کو یاد دلایا گرچہ یہ سب چیزیں اپنی جگہ ایک معمولی انسان کے دل میں شک و تردید ایجاد کرنے کے لئے کافی ہیں لیکن امام حسین علیہ السلام روشن عقیدہ، محکم ایمان اور اپنے اقدام و انتخاب کے خدائی ہونے کے یقین کی وجہ سے ناامیدی اور شک پیدا کرنے والے عوامل کے مقابلے میں کھڑے ہوئے آپ فقاء الٰہی اور مشیت پروردگار کو ہر چیز پر مقدم سمجھتے تھے، جب ابن عباس نے آپ سے درخواست کی کہ عراق جانے کے بجائے کسی دوسری جگہ جائیں اور بنی امیہ سے ٹکر نہ لیں تو امام حسین نے بنی امیہ کے مقاصد اور ارادوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ” انی ماض فی امر رسول اللهصلی الله علیه وآله وسلم و حیث امرنی وانا لله وانا الیه راجعون“ اور یوں آپ نے رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی پیروی اور خدا کے جوار رحمت کی طرف بازگشت کی جانب اپنے مصمم ارادہ کا اظہار کیا، اس لئے کہ آپ کو اپنے راستے کی حقانیت اور خدا کے وعدوں کے صحیح ہونے کا یقین تھا۔
” یقین“ دین خدا اور حکم شریعت پر محکم اعتقاد کے ظہور کا نام ہے گوہر یقین جس کے پاس بھی ہو اس کو مصمم اور بے باک بنا دیتا ہے عاشورہ کا دن جلوہ گاہ یقین تھا اپنے راستہ کی حقانیت کا یقین، دشمن کے باطل ہونے کا یقین ،قیامت و حساب کے برحق ہونے کایقین، موت کے حتمی اور خدا سے ملاقات کا یقین، ان تمام چیزوں کے سلسلے میں امام اور آپ کے اصحاب کے دلوں میں اعلی درجہ کا یقین تھا اور یہی یقین ان کو پایداری، عمل کی کیفیت ،اور راہ کیانتخاب میں ثابت قدمی کی راہنمائی کرتا تھا۔
کلمہ ”استرجاع“ ( انا لله وانا الیه راجعون) کسی انسان کے مرنے یا شہید ہونے کے موقع پر کہنے کے علاوہ امام حسین کی منطق میں کائنات کی ایک بلند حکمت کو یاد دلانے والا ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ ” کائنات کا آغاز و انجام سب خدا کی طرف سے ہے “ آپ نے کربلا پہونچنے تک بارہا اس کلمہ کو دہرایا تا کہ یہ عقیدہ ارادوں اور عمل میں سمت و جہت دینے کا سب بنے۔
آپ نے مقام ثعلبیہ پر مسلم اور ہانی کی خبر شہادت سننے کے بعد مکرر ان کلمات کو دوہرایا اور پھر اسی مقام پر خواب دیکھا کہ ایک سوار یہ کہہ کر رہا ہے کہ ” یہ کاروان تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور موت بھی تیزی کے ساتھ ان کی طرف بڑھ رہی ہے“ جب آپ بیدار ہوئے تو خواب کا ماجرا علی اکبر کو سنایا تو انھوں نے آپ سے پوچھا ” والدگرامی مگر ہم لوگ حق پر نہیں ہیں؟ “ آ پ نے جواب دیا ” قسم اس خدا کی جس کی طرف سب کی بازکشت ہے ہاں ہم حق پر ہیں“ پھر علی اکبر نے کہا ” تب اس حالت میں موت سے کیا ڈرنا ہے؟ “ آپ نے بھی اپنے بیٹے کے حق میں دعا کی۔[1]
طول سفر میں خدا کی طرف بازگشت کے عقیدہ کو بار بار بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اپنے ہمراہ اصحاب اور اہل خانہ کو ایک بڑی قربانی وفداکاری کیلئے آمادہ کریں، اس لئے کہ پاک و روشن عقائد کے بغیر ایک مجاہد حق کے دفاع میں آخر تک ثابت قدم اور پایدار نہیں رہ سکتا ہے۔
کربلا والوں کو اپنی راہ اور اپنے ہدف کی بھی شناخت تھی اور اس بات کا بھی یقین تھا کہ اس مرحلہ میں جہاد و شہادت ان کا وظیفہ ہے اور یہی اسلام کے نفع میں ہے ان کو” خدا“ اور ”آخرت“ کا بھی یقین تھا اور یہی یقین ان کو ایک ایسے میدان کی طرف لے جارہا تھا جہاں ان کو جان دینی تھی اور قربان ہونا تھا جب وہب بن عبد اللہ دوسری مرتبہ میدان کربلا کی طرف نکلے تو اپنے رجز میں اپنا تعارف کرایا کہ میں خدا کی پر ایمان لانے والا اور اس پر یقین رکھنے والا ہوں۔[2]
مدد و نصرت میں توحید اور فقط خدا پر اعتماد کرنا، عقیدہ کے عمل پر تاثیر کا ایک نمونہ ہے اور امام کی تنہا تکیہ گاہ ذاکردگار تھی نہ لوگوں کے خطوط، نہ ان کی حمایت کا اعلان اور نہ ان کی طرف آپ کے حق میں دیئے جانے والے نعرے، جب سیاہ حر نے آپ کے قافلہ کا راستہ روکا تو آپ نے ایک خطبہ کے ضمن میں اپنے قیام یزید کی بیعت سے انکار اور کوفیوں کے خطوط کا ذکر کیا اور آخر میں سے گلہ کرتے ہوئے فرمایا ” میری تکیہ گاہ خدا ہے اور وہ مجھے تم لوگوں سے بے نیاز کرتا ہے ” سیغنی اللہ عنکم“[3] آگے چلتے ہوئے جب عبد اللہ مشرقی ملاقات کی اور اس نے کوفہ کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگ آپ کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تو آپ نے جواب میں فرمایا ” حسبی الله ونعم الوکیل“[4]
عاشور کی صبح جب سیاہ یزید نے امام کے خیموں کی طرف حملہ کرنا شروع کیا تو اس وقت بھی آپ کے ہاتھ آسمان کی طرف بلند تھے اور خدا سے مناجات کرتے ہوئے یوں فرمارہے تھے ”خدایا! ہر سختی اور مشکل میں میری امید اور میری تکیہ گاہ تو ہی ہے، خدایا! جو بھی حادثہ میرے ساتھ پیش آتا ہے اس میں میرا سہارا تو ہی ہوتا ہے، خدایا! کتنی سختیوں اور مشکلات میں تیری درگاہ کی طرف رجوع کیا اور تیری طرف ہاتھ بلند کئے تو تو نے ان مشکلات ک دور کیا“[5]
امام کی یہ حالت اور یہ جذبہ آپ کے قیامت اور نفرت الٰہی پر دلی اعتقاد کا ظاہری جلوہ ہے اور ساتھ ہی دعا و طلب میں توحید کے مفہوم کو سمجھاتا ہے۔
دینی تعلیمات کا اصلی ہدف بھی لوگوں کو خدا کے نزدیک کرتا ہے چنانچہ یہ مطلب شہداء کربلا کے زیارتناموں خاص کر زیارت امام حسین میں بھی بیان ہوا ہے ۔ اگر زیارت کے آداب کودیکھا جائے توان کا فلسفہ بھی خدا کا تقرب ہی ہے جو کہ عین توحید ہے امام حسین کی ایک زیارت میں خدا سے مخاطب ہو کے ہم یوں کہتے ہیں کہ ”خدایا! کوئی انسان کسی مخلوق کی نعمتوں اور ہدایا سے بہرہ مند ہونے کے لئے آمادہ ہوتا ہے اور وسائل تلاش کرتا ہے لیکن خدایا میری آمادگی اور میرا سفر تیرے لئے اور تیرے ولی کی زیارت کے لئے ہے اور اس زیارت کے ذریعہ تیری قربت چاہتا ہوں اور انعام وہدیہ کی امید صرف تجھ سے رکھتا ہوں۔[6]
اوراسی زیارت کے آخر میں زیارت پڑھنے والا کہتا ہے ! خدایا! صرف تو ہی میرا مقصود سفر ہے اور صرف جو کچھ تیرے پاس ہے اس کو چاہتا ہوں ” فالیک فقدت وما عندک اردت“
یہ سب چیزیں شیعہ عقائد کے توحیدی پہلو کا پتہ دینے والی ہیں جن کی بنا پر معصومین علیہم السلام کے روضوں اور اولیاء خدا کی زیارت کو خدا اور خالص توحید تک پہونچنے کے لئے ایک وسیلہ اور راستہ قراردیا گیا ہے اور حکم خدا کی بنا پر ان کی یاد منانے کی تاکید کی گئی ہے۔
[1] بحار الانوار،ج/۴۴،ص/۳۶۷
[2] بحار الانوار،ج۴۵،ص/۱۷، مناقب،ج/۴،ص/۱۰۱
[3] موسوعہ کلمات امام حسین،ص/۳۷۷
[4] موسوعہ کلمات امام حسین،ص/۳۷۸
[5] بحار الانوار،ج/۴۵،ص/۴
[6] تہذیب الاحکام، شیخ طوسی،ج/۶،ص/

امام مظلوم(ع) کی مجالس عزا کہ جو عقل کے جہل پر، عدل کے ظلم پر، امانت کے خیانت پر اور اسلامی حکومت کے طاغوتی حکومت پر غالب آنے کا ذریعہ ہیں کو حتی المقدور پورے ذوق شوق کے ساتھ منعقد کیا جائے۔ عاشورا کے خون سے رنگین پرچموں کو ظالم سے مظلوم کے انتقام کی علامت کے طور پر بلند کیا جائے۔
آئمہ اطہار علیھم السلام اور خاص کر کے امام مظلوم سید الشھداء (ع) کی عزاداری کے پرگراموں سے ہر گز غفلت نہیں کی جائے۔
مجالس عزا کو اسی طریقے سے جیسے اس سے پہلے انجام پاتی تھی برپا کیا جائے۔
مجالس عزا کو ، ماتمی دستوں کو جیسا سزاوار ہے محفوظ رکھا جائے۔
آئمہ اطہار (ع) کی مجالس عزا کی حفاظت کریں۔ یہ ہمارے مذہبی شعائر بھی ہیں اور سیاسی شعائر بھی، ان کو محفوظ رکھا جائے۔ یہ اہل قلم آپ کو بازیچہ نہ بنائیں۔ یہ لوگ آپ کو بازیچہ نبائیں اپنے مختلف انحرافی مقاصد کے ذریعے ، یہ لوگ چاہتے ہیں آپ سے ہر چیز کو چھین لیں۔
مجالس کو اپنی جگہ پر ہی برپا ہونا چاہیے۔ مجالس کو عمل میں لانا چاہیے اور اہل منبروں کو چاہیے کہ شہادت امام حسین (ع) کو زندہ رکھیں۔ قوم کو ان دینی شعائر کی قدر جاننا چاہیے۔ خاص کر کے عزاداری کو زندہ رکھیں عزاداری سے ہی اسلام زندہ ہے۔
ہمیں ان اسلامی سنتوں کی، ان اسلامی دستوں کی کہ جو روز عاشورا یا محرم اور صفر کے دوسرے دنوں میں سڑکوں پر نکل کر عزاداری کرتے ہیں حفاظت کرنا چاہیے۔ سید الشھداء کی فداکاری اور جانثاری ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا ہے۔ عاشورا کو زندہ رکھنا اسی پرانی اور سنتی روایتوں کے ساتھ، علماء اور خطباء کی تقاریر کے ساتھ، انہیں منظم دستوں کی عزاداری کے ساتھ بہت ضروری ہے۔ یہ جان لو کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری تحریک باقی رہے روایتی عزاداری کو محفوظ رکھو۔
علماء کی ذمہ داری ہے کہ مجالس پڑھیں۔ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ منظم دستوں میں گھروں سے باہر نکلیں۔ اور ماتم سید الشھدا کریں۔ البتہ جو چیزیں دین کے خلاف ہیں ان سے پرہیز کریں۔ لیکن ماتم کریں اپنے اجتماعات کی حفاظت کریں یہ اجتماعات ہیں کہ جو ہماری حفاظت کر رہے ہیں یہ آپسی اتحاد ہے جس نے ہمیں زندہ رکھا ہے۔
وہ لوگ ہمارے پاک دل جوانوں کو دھوکہ دیتے ہیں ان کے کانوں میں آکر کہتے ہیں اب رونے کا کیا فائدہ؟ اب گریہ کر کے کیا کریں گے؟
یہ جلوس جو ایام محرم میں سڑکوں پر نکلتے ہیں انہیں سیاسی مظاہروں میں تبدیل نہ کرنا۔ مظاہرے اپنی جگہ ہیں۔ لیکن دینی جلوس سیاسی جلوس نہیں ہیں بلکہ ان سے بالاتر ہیں، وہی ماتم، وہی نوحہ خوانی،وہی چیزیں ہماری کامیابی کی علامت ہیں۔
پورے ملک میں مجالس عزا برپا ہونا چاہیے، سب مجلسوں میں شریک ہوں سب گریہ کریں۔
انشاء اللہ روز عاشورا کو لوگ گھروں سے نکلیں گے امام حسین (ع) کے تعزیانے اٹھائیں اور جلوس میں صرف عزاداری کریں گے۔
خدا ہماری قوم کو کامیابی عطا کرے کہ وہ اپنی پرانی روایتوں کے ساتھ عاشورا میں عزاداری منائے۔ ماتمی دستے اپنے زور و شور کے ساتھ باہر نکلیں اور ماتم اور نوحہ خوانی بھی شوق و ذوق کے ساتھ ہو اور جان لو کہ اس قوم کی زندگی اسی عزاداری کے ساتھ ہے۔

منبع: قيام عاشورا در كلام و پيام امام خمينى، (تبيان، آثار موضوعى امام، دفتر سوم) تهران: مؤسسه تنظيم و نشر آثار امام خمينى، چاپ دوم، 1373.

source : www.tebyan.net

یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے سینیئر رکن محمد علی الحوثی نے فوجی تربیت کے ایک کورس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سعودی جارح اتحاد کو مخطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دسیوں ہزار بہادر فوجی سعودی، اماراتی اور امریکی طاغوتیوں کی جانب سے کسی بھی قسم کی جارحیت یا نئے حالات مسلط کر نے کے لئے ہونے والی تمام تر کوششوں کا میدان جنگ میں سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ 

الحوثی کا کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ ہم شکست قبول کرلیں۔ جنگ کو روکنا اور محاصرہ ختم کرنا ہوگا، بصورت دیگر ہم اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے تیار ہیں اور کسی بھی چیز سے اور اسی اسلحے کے ساتھ مقابلہ کرنے سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے جسے جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہاتھوں میں اٹھا کر مقابلہ کیا تھا۔  

المسیرہ کی رپورٹ کے مطابق اس تقریب میں فوجی پریڈ کا اہتمام کیا گیا تھا اور تربیت یافتہ فوجی جوانوں نے اپنی عسکری مہارتوں کا مظاہرہ کیا۔ محمد علی الحوثی کے علاوہ تقریب میں مرکزی عسکری علاقے کے کمانڈر محمد خالق الحوثی، قومی حکومت کے وزیر اعظم عبد العزیز بن حبتور، وزیر دفاع ناصر العاطفی، صنعا کے میئر حمود عباد اور یمنی مسلح افواج کے ترجمان یحی سریع بھی موجود تھے۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ ایٹمی جنگ میں کوئی فریق کامیابی حاصل نہیں کرسکتا اور ایسی جنگ کبھی نہیں چھڑنی چاہیے۔

 معاہدہ جوہری عدم پھیلاؤ کانفرنس کے شرکاء سے خطاب میں پیوٹن نے کہا کہ ایٹمی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوسکتا، ایسی جنگ کبھی نہیں چھڑنی چاہیے، ہم عالمی برادری کے تمام ارکان کے مکمل اور غیر منقسم سکیورٹی کے لیے پرعزم ہیں۔