
سلیمانی
جناب هاجر
گرم ہوا چل رہی تھی اور ہاجرہ کا معصوم فرزند اسماعیل پیاس کی شدت سے تڑپ رہا تھا ادھر ماں اطراف خانہ کعبہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑرہی تھی۔ صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں سرگرداں و حیران ہاجرہ جب بھی دور سے بیایان کی طرف دیکھتیں تو انہیں پانی کا چشمہ نظر آتا تھا لیکن جب قریب پہنچتیں تو وہ سراب نکلتا ہاجرہ سات مرتبہ پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑیں مگر انہیں پانی میسر نہ ہوا لیکن پروردگارعالم نے ان کی سعی و کوشش کو ضائع نہیں کیا بلکہ اس کا اجر انہیں عظیم طریقے سے دیا ۔جب آپ تھک ہار کر اسماعیل کے قریب پہنچیں تاکہ انہیں بہلائیں تو اچانک ان کی نگاہ اس چشمے پر پڑی جو اسماعیل کے پیروں تلے جاری تھا آپ فورا سجدہ شکر بجا لائیں اور حضرت ابراہیم کی دعا کے بارے میں سوچنے لگیں کہ انہوں نے بیایان میں چھوڑ کر جاتے وقت انہیں اور اسماعیل کو خدا کے سپرد کیا تھا اور خداسے دعا کی تھی کہ خدایا لوگوں کے قلوب کو ان کی طرف موڑ دے اور پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم کی دعا کو قبول کرلیا تھا اور پھر یہی چشمہ آب ” زمزم ” کے نام سے مشہور ہوگیا ۔
تاریخ انسانیت میں بہت سی ایسی خواتین گذری ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی صلاحیتوں ، تقوی و ایمان ، تہذیب نفس اور خود سازی کے ساتھ کامیاب زندگی بسر کی ہے۔انہیں عظیم و گرانقدر خواتین میں سے ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریک حیات اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مادر گرامی جناب ہاجرہ ہیں اگر چہ ابتدائی دور میں وہ قصر میں ایک کنیز کے عنوان سے زندگی بسر کررہی تھیں لیکن عیش و عشرت کی زندگی کی خواہشمند نہ تھیں کیونکہ ان کا دل معنوی اور الہی جلوؤں سے سرشار تھا اسی لئے آپ دنیاکی زرق و برق سے بیزار تھیں وہ دنیا کی فریبی اور فانی چمک دمک کو معنوی درجات کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ تصور کرتی تھیں گویا اس مادی زندگی سے نکلنے کے لئے لمحات شمار کررہی تھیں اور ایک دن ان کی امیدوں میں بہار آگئی اور ان کے نصیب جاگ اٹھے اور انہیں خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھروالوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم ہوگیا اور پھر انہیں پیغمبر خدا حضرت ابراہیم کی شریک حیات بننے کا موقع بھی نصیب ہوا آپ اپنے شوہر نامدار کی پاکیزہ زندگي کی پیروی کرتے ہوئے ہدایت و کامرانی کی اعلی منزلوں پر فائز ہوئیں۔
جناب ہاجرہ ایک متقی و پرہیزگار ، سیاہ فام کنیز تھیں کہ جنہیں مصر کے ایک حاکم نے حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ کو بطور تحفہ دیا تھا ۔ جناب سارہ جو بے اولاد اورحضرت ابراہیم کے وارث نہ ہونے کی بناء پر مضطرب و پریشان تھیں انہوں نے حضرت ابراہیم سے خواہش ظاہر کی کہ آپ اس متقی و پرہیزگار کنیز سے شادی کرلیں اور پھر اس طرح حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی سارہ کی خواہش کا احترام کرکے ہاجرہ سے عقد کرلیا اب ہاجرہ ایک کنیز نہ تھیں بلکہ وہ اللہ کے خلیل ابراہیم کی شریک حیات بن چکی تھیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑھاپے کا سکون و سہارا بن گئیں۔ وقت گذرتا رہا ، ہاجرہ کے یہاں ایک معصوم بچہ پیدا ہوا حضرت ابراہیم نے اس کا نام اسماعیل رکھاایک دن جناب سارہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے درخواست کی کہ ہاجرہ اور ان کے فرزند کو کسی دوسری جگہ منتقل کردیں ۔
خداوندعالم نے حضرت ابراہیم کو وحی فرمائی کہ اسماعیل اور ان کی ماں کو شام سے باہر لے جائیں حضرت ابراہیم نے کہا “خدایا میں انہیں کہاں لے جاؤں ؟” ارشاد ہوا اے ابراہیم انہیں امن و امان کی جگہ یعنی میرے حرم اور کرہ ارض کے پہلے مرکز پر لے جاؤ جسے میں نے خلق کیا ہے اور وہ مکہ ہے حضرت ابراہیم نے پیغام وحی الہی اور اس بے آب و گیاہ صحرا میں حضرت ہاجرہ نے اور اسماعیل کے محل سکونت کے بارے میں ہاجرہ کو خبر دی ہاجرہ جو اس سے پہلے سرسبز وشاداب اور بہترین آب وہوا سے سرشار سرزمین پر رہ چکی تھیں بغیر کسی چوں چرا کے مشیت الہی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور خدا پر مکمل یقین و اعتماد رکھتے ہوئے شدید مصیبت و آلام کی وادی میں قدم رکھنے پر راضی ہوگئیں جب حضرت ابراہیم نے ہاجرہ میں صبر واعتماد کا مشاہدہ کیا تو ان کے خلوص و اعتماد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے چنانچہ حضرت ابراہیم اپنے اہل وعیال کے ساتھ سرزمین مکہ پر پہنچے تو وہاں ایک درخت موجود تھا جناب ہاجرہ نے اپنی عبا اس درخت پر ڈال دی اور اپنے بچے کو اس کے سائے میں لے کر بیٹھ گئیں جب حضرت ابراہیم نےوہاں سے واپس جانے کا ارادہ کیا تو ہاجرہ نے کہا : اے ابراہیم آپ ہم لوگوں کو ایسی جگہ چھوڑ کر جارہے ہیں جہاں نہ پینے کے لئے پانی ہے اور نہ ہی کو ئی مونس و ہمدم بلکہ یہ تو ایک بے آب وگیاہ صحرا ہے ؟ ابراہیم نے کہا ” جس خدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کو یہاں چھوڑ دوں وہی خدا تمہاری مشکلیں آسان کردے گا ” ابراہیم نے اتنا کہہ کر دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور اپنی بیوی اور معصوم بچے کو مکہ کے بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑ کر شام واپس چلے گئے ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کوہ ذی طوی پر پہنچے تو انہوں نے بارگاہ خداوندی میں اس طرح دعا کی ” پروردگارا میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ دیا ہے تا کہ نمازیں قائم کریں اب تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑ دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تا کہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جائیں۔” ( ابراہیم :۳۷)
اب اس گرم تپتی ہوئی زمین پر صرف دو انسان موجود ہیں ایک عورت اور دوسرا چھوٹا سا بچہ، ماں اور بیٹے کو پیاس لگی۔ ماں صفا اور مروہ پہاڑوں کے درمیان پانی کی تلاش میں بھاگ دوڑ کر رہی ہیں ارشاد رب العزت ہوتا ہے۔ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ مِنْ شَعَائِرِ اللہ “بے شک صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔” (بقرہ :۱۵۸)
ہاجرہ اور اسماعیل سرزمین وحی پر رہنے لگے ہاجرہ معنویت و پاکیزگی میں اس درجے پر فائز تھیں کہ ایسے حالات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ذرہ برابر بھی خوفزدہ نہیں ہوئیں کیونکہ آپ جانتی تھیں کہ پروردگار عالم کا وعدہ بر حق ہے اور فرشتہ وحی نے جس چیز کی خبر دی ہے کہ نسل ابراہیمی میں اضافہ ہوگا تو وہ یقینا پورا ہوگا کسی طرح رات گذری اور صبح ہوگئی اسماعیل کو شدید پیاس لگی اور ہاجرہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑنے لگیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا ادھر پروردگار عالم نے اسماعیل کے قدموں تلے چشمہ جاری کردیا جو ہزاروں برس گذرنے کے باوجود آج بھی اسی طرح جاری اور رحمت الہی کی عظیم نشانی ہے اور پھر رفتہ رفتہ پرندے ، جانور اور مختلف قبیلوں کے لوگ اس کے اطراف میں رہنے لگے اور ہاجرہ اور اسماعیل سے مانوس ہو گئے جب حضرت ابراہیم ان سے ملنے کے لئے تشریف لائے تو دیکھا کہ بہت سے لوگ وہاں آباد ہوگئے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔
روایات کے مطابق جب حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو حضرت ابراہیم نے اللہ کے حکم اور ان کی مدد سے خانہ کعبہ کی تعمیر کی ۔فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ابراہیم ، کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے اور اسماعیل کوہ ذی طوی سے پتھر لاتے تھے اور جب ابراہیم و اسماعیل کعبہ کی تعمیر کرچکے تو جناب ہاجرہ نے اپنی عبا کعبہ کی دیوار پر آویزاں کردی “
جناب ہاجرہ فضائل و کمالات کے اعلی مقام پر فائز تھیں وہ حلیم و بردبار ، متقی و پرہیزگار، مادیات سے مبرہ اور صرف خالق کائنات سے لو لگائے تھیں اسی وجہ سے آپ نے وطن اور شوہر سے دوری اور ہر طرح کی سختی و آلام کو برداشت کیا اور اپنے معصوم بیٹے اسماعیل کے ساتھ برسہا برس زندگی بسر کی ۔ہاجرہ نے پرودگار عالم کے خاص بندے اور اس کے پیغمبر کی اپنے آغوش عطوفت میں پرورش کی اس دوران حضرت ابراہیم کبھی کبھی انہیں دیکھنے آیا کرتے تھے اس کے علاوہ ان کا کوئی مونس و ہمدم بھی نہ تھا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جناب ہاجرہ کی لیاقت و صلاحیت دیکھتے ہوئے جناب اسماعیل کی تربیت کی ذمہ داری کہ جو مشیت الہی تھی کہ انہی کی ذریت طاہرہ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا ہوں گے انہیں سپرد کردی جناب ہاجرہ نے اپنے فرزند کی تربیت و پرورش بڑے ہی اچھے طریقے سے کی ۔ حضرت اسماعیل ابھی جوانی کی تیرہویں بہار ہی میں تھے لیکن معرفت الہی میں اس قدر غرق تھے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کے بارے میں حکم پروردگار سنایا تو اسماعیل نے حکم الہی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ۔خداوند عالم سورہ صافات کی آیت نمبر ایک سو دو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اسماعیل نے اپنے بابا کو مخاطب کرکے کہا: بابا آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے”
اگر اسماعیل نے امر الہی کو ہر چیز پر مقدم کیا تو یہ ان کی ماں جناب ہاجرہ کی صحیح تربیت کی بہترین دلیل ہے ۔
جناب ہاجرہ راہ خدا کی وہ عظیم مسافر ہیں جنہوں نے مصر سے فلسطین اور وہاں سے حجاز کی طرف ہجرت کی اور اس دوران بہت زیادہ اور ناقابل تحمل سختی و پریشانی سے دوچار ہوئیں یہاں تک کہ خدا پر ایمان و عقیدہ راسخ کے ساتھ اپنے بیٹے اسماعیل کے لئے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان ان کی سعی وکوشش ، شعائر الہی کا جزء اور واجبات حج کے اعمال کا ایک اہم حصہ قرارپائی اور وہ چشمہ جو ان کے فرزند اسماعیل کے پیروں کے نیچے جاری ہوا تھا وہ لوگوں کے قلوب کے لئے شفا اور نجات دہندہ قرار پایا ۔
خلاصہ یہ کہ پروردگار کی کنیز خاص ہاجرہ اس دار فانی سے ملک جاودانی کی طرف رخصت ہوگئیں اور انہیں جوار خانہ خدا میں دفن کردیا گیا جب کہ یہ امر بھی مشیت الہی سے انجام دیا گیا تھا تاکہ قیامت تک تمام خداپرست افراد اور طواف خانہ خدا کرنے والے اس عظیم کنیز کے ایثار و جذبے اور خدا پر توکل واطمینان کو ہمیشہ یاد رکھیں اور جان لیں کہ خدا کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو سب سے زيادہ متقی و پرہیزگار ہو چنانچہ پروردگارعالم سورہ حجرات کی تیرہویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے :” تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔”
مزاحمتی گروہوں نے جدید میڈل ایسٹ کا نقشہ بدل دیا
ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک کے مطابق سید حسن نصر اللہ نے خطاب میں عید کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے جدید اپ ڈیٹ کے تناظر میں کہا کہ جولائی 2006 کی جنگ کے اہم نتائج میں سے ایک لبنان اور صیہونی وجود کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے۔
سید نصراللہ نے اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز کومخاطب کرتے ہویے کہا: آپ لبنان کو دھمکی دے رہے ہیں جب کہ آپ کی فوج ناکہ بندی ہونے کے باوجود غزہ میں چند میٹر آگے بڑھنے میں ناکام رہی ہے۔
سید نصراللہ نے صیہونی وزیرِ دفاع گانٹز کو کہا: بیروت، سیڈون اور صور پر حملہ کرنے کی آپ کی دھمکی کھوکھلی ہے۔
اھل سنت اور واقعہ غدیر
اھل سنت و الجماعت کی ان وجوھات کو بیان کریں جن کی بنا پر وہ حدیث غدیر کے امیر المومنین علیہ السلام کی امامت اور بلافصل خلافت پر
واضح اور آشکار نص ھونے کو قبول نھیں کرتے۔ اور منصفانہ طور پر یہ فیصلہ کریں کہ آیا یہ حدیث جیسا کہ شیعہ دعویدار ہیں واقعا علی علیہ السلام کی خلافت پر دلالت کرتی ہے یا نھیں؟
سب سے پھلے ھم احادیث کی ان کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں حدیث غدیر بیان ھوئی ہے۔ اس کے بعد حدیث غدیر ، اسکے بارے میں نظریات اور ان کے اشکالات بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
حدیث غدیر امام حنبل کی نگاہ میں
امام احمد حنبل نے اپنی مسند میں یوں بیان کیا ہے:
حدثنا عبد اللہ، حدثنی ابی، ثنا عفان، ثنا حماد بن سلمہ، انا علی بن زید، عن عدی بن ثابت ، عن البراء بن عازب، قال: کنا مع رسول اللہ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فی سفر فنزلنا بغدیر خم فنودی فینا: الصلاۃ جامعۃ، و کسح لرسول اللہ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)تحت شجرتین فصلی الظھر و اخذ بید علی(رضی اللہ عنہ) فقال: الستم تعلمون انی اولی بکل مومن من نفسہ؟ قالوا: بلی ، قال فاخذ بید علی فقال: من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ۔ قال فلقیہ عمر بعد ذلک فقال لہ: ھنیئا یابن ابی طالب اصبحت و امسیت مولی کل مومن و مومنۃ"۔ (۱)
براء بن عازب کا کھنا ہے: ایک سفر میں ھم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے غدیر خم کے مقام پر پھنچے ایک آواز دی گئی: الصلاۃ جامعۃ، ( نماز جماعت کے لیے تیار ھو جاو) دو درختوں کے نیچے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے انتظام کیا گیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز بجا لائے اور پھر حضرت علی علیہ السلام کا ھاتھ پکڑ کر فرمایا کیا میں سب کی جان و مال کا مالک نھیں ھوں؟ سب نے کھا ھاں آپ ھماری جان و مال کے مالک ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا جس جس کا میں مولا ھوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھےاور اس سےد شمنی رکھ جو علی سے دشمنی کرے۔ پھرعمرآپ کے گلے ملے اور کھا مبارک ھو اے ابو طالب کے بیٹے تم نے صبح وشام کی ہے اس حالت میں کہ تم ھر مومن مرد و عورت کے مولا ھو۔
یہ روایت(مسند احمد ) میں مختلف مقامات پربھت زیادہ سندوں کے ساتھ نقل ھوئی ہے۔(۲)
حافظ ابن عبداللہ نیشاپوری نے بھی مستدرک میں مختلف الفاظ میں مختلف مقامات پر حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔منجملہ:
حدثنا ابوالحسین محمد بن احمد بن تمیم الحنظلى ببغداد، ثنا ابوقلابة عبدالملک بن محمد الرقاشى، ثنا یحیى بن حماد، وحدثنى ابوبکر محمد بن احمد بن بالویه وابوبکر احمد بن جعفر البزاز، قالا ثنا عبدالله بن احمد بن حنبل، حدثنى ابى، ثنا یحیى بن حماد و ثنا ابونصر احمد بن سهل الفقیه ببخارى، ثنا صالح بن محمد الحافظ البغدادى، ثنا خلف بن سالم المخرمى، ثنا یحیى بن حماد، ثنا ابوعوانة، عن سلیمان الاعمش، قال ثنا حبیب بن ابى ثابت عن ابى الطفیل، عن زید بن ارقم ـ رضى اللّه عنه ـ قال: لمّا رجع رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله وسلم ـ من حجة الوداع ونزل غدیرخم امر بدوحات فقممن فقال: کانّى قد دعیت فاجبت. انى قد ترکت فیکم الثقلین احدهما اکبر من الآخر: کتاب اللّه تعالى وعترتى فانظروا کیف تخلفونى فیهما فانّهما لن یفترقا حتى یردا علىّ الحوض. ثم قال: ان اللّه ـ عزّ وجلّ ـ مولاى وانا مولى کل مؤمن. ثم اخذ بید علی ـ رضى اللّه عنه ـ فقال: من کنت مولاه فهذا ولیّه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه. و ذکر الحدیث بطوله. هذا حدیث صحیح على شرط الشیخین ولم یخرجاه بطوله.(۳)
اسی کتاب میں اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد دوسری سندوں کے ساتھ اسی روایت کو تکرار کیا ہے دونوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ جملہ" من کنت مولاہ " سے پھلے کھتے ہیں:
ثم قال: أن تعلمون انى اولى بالمؤمنین من انفسهم ثلاث مرات قالوا: نعم فقال: رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله ـ من کنت مولاه فعلى مولاه۔(۴)
حدیث غدیر سنن ابن ماجہ اور ترمذی میں
ابن ماجہ لکھتے ہیں:
حدثنا على بن محمد، ثنا ابوالحسین، اخبرنى حماد بن سلمه، عن على ابن زید بن جدعان، عن عدىّ بن ثابت، عن البراء بن عازب، قال: اقبلنا مع رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله ـ فى حجّته التى حجّ فنزل فى بعض الطریق فامر الصلاة جامعة فأخذ بید علی فقال: ألست اولى بالمؤمنین من انفسهم؟ قالوا: بلى قال: الست اولى بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا: بلى. قال: فهذا ولىّ من أنا مولاه، اللهم وال من والاه اللهم عاد من عاداه۔(۵)
ترمذی بھی " سنن" میں اسی مضمون کے ساتھ اس حدیث کو نقل کرتے ہیں۔(۶)
اس مقالہ میں ھم شیعوں کے منابع سے حدیث کو نقل نھیں کریں گے تاکہ ھمارا مقصد جو اھلسنت کے منابع سے حدیث غدیر کا اثبات ہے پورا ھو جائے ورنہ شیعہ منابع میں تو حدیث غدیر تواتر کے ساتھ نقل ھوئی ہے۔
شیعوں کا نظریہ
شیعہ معتقد ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد لوگوں کی دنیاوی اور دینی رھنمائی کا اھم مسئلہ خود لوگوں کے انتخاب پر نھیں چھوڑ دیا گیا۔ بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی طرف پھلی دعوت ( دعوت ذوالعشیرہ) سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک جگہ جگہ اس مسئلہ کی طرف اشارہ فرمایا اور امیر المومنین علی علیہ السلام کو اپنا بلافصل خلیفہ اور جانشین مقرر فرمایا۔ حدیث غدیر انھیں روایات میں سے ایک ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے۔
دوسرے مذاھب کا نظریہ
دوسرے اسلامی مذاھب شیعوں کے نظریہ کے مقابلہ میں استدلال لاتے ہیں اور معتقد ہیں کہ یہ روایت حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کو ثابت نھیں کر سکتی۔ ھم یھاں پر ان کے نظریات کے بارے میں بحث و تحقیق کرتی ہیں۔
۱۔ایک روایت سے استدلال کرنے کے لیے سب سے پھلی شرط یہ ہے کہ اس کی سند صحیح ھو دوسرے الفاظ میں، صرف اس روایت کو اس مسئلہ میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جس کا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم] سے صادر ھونا یقینی ھو۔ خاص کر کے شیعہ عقیدہ کے مطابق جو مدعی ہیں کہ امامت کے مسئلہ میں ایک شخص کی روایت پر عمل کرنا کافی نھیں ہے۔ بلکہ اس مھم مسئلہ پر دلالت کرنے والی دلیل کو متواتر ھونا چاھیے۔ اس اعتبار سے بعض اھل سنت کے علماء نے حدیث غدیر کو غیر متواتر سمجھتے ھوئے اسے استدلال کے قابل نھیں سمجھا۔ جیسے قاضی عضد الدین ایجی مواقف میں کھتے ہیں:
ہم اس روایت کی صحت کا انکار کرتے ہیں اور اس کے متواتر ھونے کا دعوی، بے دلیل ہے۔ کیسے یہ روایت متواتر ہے جبکہ اکثر اصحاب نے اسے نقل نھیں کیا ہے۔(۷)
ابن حجر ھیثمی کا کھنا ہے: شیعہ فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ جو چیز امامت کے اوپر دلیل کے عنوان سے پیش ھونا چاھیے اسے متواتر ھونا چاھیے۔ حالانکہ اس حدیث کا متواتر نہ ھونا معلوم ہے۔ جیسا کہ اس حدیث کی صحت کے بارے میں اختلاف پھلے گزر چکا ہے بلکہ وہ جنھوں نے اس حدیث کی صحت میں اشکال کیا ہے علماء حدیث میں سے ابو داود سجستانی، ابو حاتم رازی اور دوسرے لوگ ہیں پس یہ " خبر واحد" ہے جس کی صحت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔(۸)
ابن حزم اور تفتازانی نے بھی یھی بات کھی ہے۔(۹)
جواب:
یہ اشکال ھر اس شخص کی نظر میں جو تھوڑی بھت تاریخ اسلام اور احادیث سے آشنائی رکھتا ہے واضح ہے کہ تعصب اور کینہ کی وجہ سے ہے۔ ورنہ حدیث غدیر کا انکار کرنا ان سوفسطائیوں کی طرح ہے جنھوں نے واقعیت کے موجود ھونے کا انکار کیا، یا ان لوگوں کی طرح ہے جنھوں نے جنگ بدر اور احد کا انکار کیا۔ جو اسلام کے مسلمات میں سے ہیں۔
ھم مختصرا یھاں پر اس روایت کے مصادر اور اس کی صحت کے اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کی تفصیل کوجاننے کے لیے تین تحقیقی کتابوں "الغدیر" علامہ امینی، " عبقات الانوار، علامہ میر حامد حسین اور " احقاق الحق و ملحقاتہ" شھید قاضی نور اللہ شوشتری کی طرف ارجاع دیتے ہیں۔
کتاب احقاق الحق میں علماء اھل سنت کے چودہ افراد پر مشتمل ایک فھرست نقل ھوئی ہے جن میں علامہ سیوطی، جزری، جلال الدین نیشاپوری، ترکمانی ذھبی شامل ہیں ان سب نے حدیث غدیر کے تواتر کا اعتراف کیا ہے۔(۱۰)
ابن حزم نے بھی منھاج السنہ میں یھی کھا ہے۔(۱۱)
علامہ امینی " الغدیر" میں اھل سنت کے تینتالیس بڑے اور بزرگ علماء (منجملہ: ثعلبی، واحدی، فخر رازی، سیوطی، قاضی شوکانی) کی عبارتوں کو نقل کرتے ہیں جو حدیث غدیر کے صحیح السند ھونے پر دلالت کرتی ہیں۔ (۱۲) نیز اھل سنت کے تیس بڑے مفسرین( منجملہ: ترمذی، طحاوی، حاکم نیشاپوری، قرطبی، ابن حجر عسقلانی، ابن کثیر، ترکمانی) کی عبارتوں کو ان کے ناموں کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ ان سب نے اس آیت "یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک و ان لم تفعل۔۔۔" کے ذیل میں حدیث غدیر کو ذکر کرتے ھوئے اس آیت کو اس حدیث سے واضح ربط دیا ہے۔ (۱۳)
کتاب " احقاق الحق" میں حدیث غدیر کو اھلسنت کے پچاس معتبر مصادر اور منابع سے نقل کیا ہے۔جیسے سسن المصطفی، مسند احمد، خصائص نسائی، عقد الفرید، حلیۃ الاولیاء وغیرہ۔(۱۴)
یھاں پر ھم اھل سنت کے بعض بزرگان کے حدیث غدیر کے بارے میں اقوال کو الغدیر سے نقل کرتے ہیں:
ضیاء الدین مقبلی کا کھنا ہے: اگر حدیث غدیر قطعی اور یقینی نھیں ہے تو کچھ بھی دین اسلام میں قطعی اور یقینی نھیں ہے۔
غزالی کھتے ہیں: جمھور مسلمین کا اجماع ہے حدیث غدیر کے متن پر۔
بدخشی کھتے ہیں: حدیث غدیر صحیح حدیث ہے کوئی اس کی صحت پر شک نھیں کرتا مگر یہ کہ اس کے اندر تعصب کی آگ جل رھی ھو کہ ایسے شخص کی بات کا کوئی اعتبار نھیں۔
آلوسی کا کھنا ہے: حدیث غدیر، صحیح حدیث ہے جس کی سند میں کوئی مشکل نھیں ہے اور ھمارے نزدیک اس کی صحت ثابت ہے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی اور حضرت علی علیہ السلام سے بھی تواتر کے ساتھ نقل ھوئی ہے۔
حافظ اصفھانی کھتے ہیں: حدیث غدیر صحیح حدیث ہے کہ صحابہ میں سے سو افراد نے اسے نقل کیا ہے اور " عشرہ مبشرہ" بھی انھیں سو آدمیوں میں سے ہیں۔(۱۵)
حافظ سجستانی کا کھنا ہے کہ حدیث غدیر ایک سو بیس صحابیوں کے ذریعے نقل ھوئی ہے اور حافظ اب العلاء ھمدانی نے ایک سو پچاس افراد کو بیان کیا ہے۔(۱۶)
حافظ ابن حجر عسقلانی " تھذیب التھذیب" میں حدیث غدیر کے بعض راویوں کو بیان کرنے کے ضمن میں اس کے طرق کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کھتے ہیں:
ابن جریر طبری نے حدیث غدیر کی اسناد کو ایک کتاب کے اندر جمع کیا ہے اور اسے صحیح السند حدیث شمار کیا ہے اور ابو العباس ابن عقدہ نے بھی اسے صحابہ میں سے ستر افراد کے ذریعے سے نقل کیا ہے۔ (۱۷)
نیز کتاب" فتح الباری بشرح صحیح البخاری" میں آیا ہے:
حدیث" من کنت مولاہ فعلی مولاہ" کو ترمذی اور نسائی نے نقل کیا ہے اور اس کے نقل کے راستے اور سندیں بھت زیادہ ہیں کہ ان سب کو ابن عقدہ نے ایک مستقل کتاب میں ذکر کیا ہے اور اس کی بھت ساری سندیں صحیح اور حسن ہیں۔ اور ھمارے لیے امام احمد حنبل سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کھا: جو کچھ علی علیہ السلام کے فضائل کے سلسلے میں مجھ تک پھنچا ہے صحابہ میں سے کسی ایک کے بارے میں نھیں ملتا۔ (۱۸)
قندوزی حنفی حدیث غدیر کو مختلف اسناد سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
محمد بن جریر الطبری نے حدیث غدیر کو پچھتر طریقوں سے نقل کیا ہے اور ایک مستقل کتاب بنام " الولایۃ" اس کے بارے میں تالیف کی ہے۔ نیز ابو العباس احمد بن محمد بن سعید بن عقدہ نے ایک کتاب تالیف کی جس میں ایک سو پچاس طریقوں سے حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔(۱۹)
حافظ محمد بن محمد الجزری الدمشقی نے امیر المومنین علیہ السلام کے حدیث غدیر سے احتجاج کرنے کو نقل کرتے ھوئے یوں لکھاہے:
یہ حدیث حسن ہے اور یہ روایت تواتر کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل ھوئی ہے جیسا کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی تواتر کے ساتھ نقل ھوئی ہے بھت سارے گروہ نے بھت سارے دوسرے گروھوں سے اس حدیث کو نقل کیا ہے پس جو لوگ اس حدیث کی سند کو ضعیف کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی باتوں کی طرف توجہ دینا فضول ہے۔ اس لیے کہ وہ علم حدیث سے بے خبرہیں۔(۲۰)
حدیث غدیر کو بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحوں میں نقل نھیں کیا لیکن یہ چیز یعنی ان کا اپنی کتابوں میں نقل نہ کرنا ھر گز حدیث غدیر کی سند کے ضعیف ھونے پر دلالت نھیں کرتا۔ اس لیے کہ بھت ساری روایتیں جو خود بخاری اور مسلم کی نظر میں صحیح ہیں اور ان کی سندوں میں کوئی مشکل نھیں ہے انھوں نے اپنی صحیحوں میں نقل نھیں کیا۔ اسی وجہ سے ان کی کتابوں کے بعد کئی مستدرک لکھی گئیں۔ اگر تمام صحیح روایات صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں نقل ھو جاتی تو صحاح ستہ کی ضرورت نہ تھی۔ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ کوئی عالم اور دانشمند اپنے پاس صحیح بخاری اور صحیح مسلم رکھنے کے بعد دوسری صحاح سے بے نیاز نھیں ھو جاتا۔
دوسری طرف سے خود بخاری اور مسلم نے بیان کیا ہے کہ جو کچھ ھم ان کتابوں میں لائے ہیں وہ صحیح ہے نہ یہ کہ جو کچھ صحیح تھا ھم نے ذکر کر دیا۔ بلکہ بھت ساری صحیح احادیث کو دوسری وجوھات کی بنا پر ذکر نھیں کیا۔(۲۱)
مذکورہ مطالب کے علاوہ، علامہ امینی (رہ) حدیث غدیر کو بخاری اور مسلم کے اساتید اور بزرگان میں سے انتیس افراد سے نقل کرتے ہیں۔(۲۲)
گفتگو کے اس حصہ کے آخر میں اس سلسلے میں کئے جانے والے ایک اشکال کو ذکر کرتے ہیں:
ابن حجر لکھتے ہیں:
حدیث غدیر، صحیح حدیث ہے کہ جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نھیں پائی جاتی۔ اور اسے ترمذی، نسائی او احمد حنبل جیسوں نے نقل کیا ہے اور بھت سارے طریقوں سے یہ حدیث نقل ھوئی ہے منجملہ اصحاب میں سے سولہ افراد نے اسے نقل کیا ہے اور احمد بن حنبل کی روایت میں آیا ہے کہ اسے تیس صحابیوں نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا اور جب امیر المومنین کی خلافت پر جھگڑا ھوا تو انھوں نے گواھی دی۔(۲۳)
پھر دوسری جگہ تکرار کرتے ھوئے کھتے ہیں:
حدیث غدیر کو تیس صحابیوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے اور بھت سارے اس کے نقل کے طریقے صحیح یا حسن ہیں۔(۲۴)
پس خود اشکال کرنے والوں کی نظر میں جیسے ابن حجر غیرہ کہ جنھوں نے اس حدیث کی صحت پر اشکال کیا ہے توجہ نھیں کرنا چاھیے اس لیے کہ ابن حجر خود دوسری جگہ کھتے ہیں: "ولا التفات لمن قدح فی صحتہ"۔(۲۵)( اس شخص کی بات پر کوئی توجہ نھیں کی جائے گی جو حدیث غدیر کے صحت پر شک کرے)۔
استاد محمد رضا حکیمی اپنی کتاب " حماسہ غدیر" میں اھل سنت کے ۱۵ معاصر علماء کے نام بیان کرتے ہیں جنھوں نے حدیث غدیر کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں: احمد زینی دحلان، محمد عبدہ مصری، عبد الحمید آلوسی، احمد فرید رفاعی، عمر فروخ۔(۲۶)
قابل توجہ ہے کہ شیعہ امامت سے مربوط روایات میں تواتر اور یقینی ھونےکو شرط سمجھتے ہیں اور حدیث غدیر شیعہ کتب روائی میں متواتر اور قطعی ہے۔ جیسا کہ بھت سارے سنی مصادر میں بھی اس کا قطعی الصدور ھونا ثابت ہے۔ اور سنی علماء کے عقیدہ کے مطابق کسی حدیث سے امامت کو ثابت کرنے کے لیے دوسرے فروع دین کی طرح اس کا صحیح السند ھونا کافی ہے اس کے تواتر کو ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نھیں ہے۔ لھذا یہ اشکال خود بخود رفع دفع ھو جاتا ہے۔
دوسرا اشکال جو قاضی عضد الدین ایجی نے اپنی کتاب " مواقف" میں بیان کیا ہے یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام غدیر کے دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نھیں تھے، لکھتے ہیں:
علی علیہ السلام حجۃ الوداع میں غدیر کے دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ھمراہ نھیں تھے بلکہ وہ یمن میں تھے۔(۲۷)
بھتر ہے اس اشکال کو بیان کرنے سے پھلے " مواقف" کی شرح لکھنے والے کی بات کو بیان کریں۔ سید شریف جرجانی نے مواقف پر شرح لکھتے ھوئے اس مقام پر بیان کیا ہے:
یہ اشکال مردود ہے اس لیے کہ حضرت علی علیہ السلام کا غائب ھونا حدیث کے صحیح ھونے کے ساتھ منافات نھیں رکھتا۔ مگر یہ کہ روایت میں یہ آیا ھو کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی کو اپنے پاس بلایا یا ان کا ھاتھ پکڑا۔ بھت ساری روایات میں یہ جملہ نقل نھیں ھوا ہے۔(۲۸)
ابن حجر ھیثمی اس شبہ کے جواب میں لکھتے ہیں:
وہ شخص جو یہ کھتا ہے کہ حدیث غدیر صحیح نھیں ہے یا یہ اشکال کرتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام یمن میں تھے اس کی بات غلط ہے اس لیے کہ حضرت علی علیہ السلام یمن سے واپس آچکے تھے اور حج کو انھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ بجا لایا تھا۔(۲۹)
اگر چہ تاریخی اعتبار سے امیر المومنین کا یمن سے واپس لوٹنا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ھمراہ حج کے ارکان کا بجا لانا مسلم ہے لیکن پھر بھی نمونہ کے طور پر چند ایک نکات کو ان لوگوں کے حوالے سے جنھوں نے اس مسئلہ کو چھیڑا ہے بیان کرتے ہیں:
طبری ( تاریخ طبری، ج۲، ص۲۰۵) ابن کثیر( البدایہ و النھایۃ ، ج۲ ص۱۸۴ اور نیز اسی جلد کے صفحہ ۱۳۲ )پر مفصل طور پر امیر المومنین کے یمن سے واپس پلٹنے کی بحث کو بیان کرتے ہیں اور آپ کی واپسی کو ثابت کرتے ہیں، ابن اثیر ( الکامل ، ج ۲ ص ۳۰۲)۔
۳: تیسرا اشکال جو زیادہ اھم اور مضبوط ہے وہ ہے کلمہ "مولا" کے بارے میں کہ یہ کلمہ مختلف معنی پر دلالت کرتا ہے جیسے ''چچا کا بیٹا''، "غلام کو آزاد کرنے والا"، "پڑوسی" " دوست" ، " اولی بالتصرف" "ولی اور سرپرست" وغیرہ۔ شیعہ حدیث غدیر کے شواھد و قرائن کو مدنظر رکھتے ھوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس حدیث میں لفظ مولا ولی، سرپرست اور اولی بالتصرف کے معنی میں ہے۔ لیکن بعض سنی علماء کلمہ مولا میں شبھہ ایجاد کرتے ھوئے کھتے ہیں کہ یھاں پر مولا دوست وغیرہ کے معنی میں ہے بظاھر یہ شبھہ فخرالدین رازی نے کتاب " نھایۃ العقول" میں ایجاد کیا اور دوسروں جیسے قاضی عضد الدین ایجی، (۳۰)] ابن حجر(۳۱) اور فضل بن روزبھان(۳۲) نے فخر رازی سے اسے نقل کیا ہے۔
قاضی عضد الدین ایجی کتاب مواقف میں لکھتے ہیں:
کلمہ " مولا" سے مراد "ناصر" ہے اس لیے کہ حدیث کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دعائیہ جملہ سے یھی معنی سمجھ میں آتے ہیں اور مولا سے مراد "اولی" نھیں ہے اس لیے کہ کبھی بھی مفعل کا وزن افعل کے معنی میں نھیں آتا ہے۔ (۳۳)
ابن حجر ھیثمی نیز کہتے ہیں:
ھم اس چیز کو قبول نہیں کرتے کہ " مولا" کے معنی وھی ھوں جو شیعہ کھتے ہیں بلکہ اس کے معنی "ناصر" کے ہیں اس لیے کہ مولا کے معنی متعدد ہیں جیسے " آزاد کرنے والا"، " امور میں تصرف کرنے والا"، " ناصر" " محبوب" ۔ ھم اور شیعہ دونوں معترف ہیں کہ اگر اس روایت میں مراد " محبوب" ھو اس کے معنی صحیح نکلیں گے اس لیے کہ علی علیہ السلام ھمارے اور ان کے محبوب ہیں ۔ لیکن یہ کہ مولا کے معنی " امام" ھوں نہ شریعت میں یہ معنی ہیں اور نہ لغت میں۔ شریعت میں یہ معنی بیان نھیں ھوئے اس کے بارے میں بحث کرنے کی ضرورت نھیں ہے یہ واضح ہے لیکن لغت میں بھی یہ معنی نھیں آئے ہیں یہ بھی لغت کی کتابوں سے معلوم ھوتا ہے کہ کسی بھی عرب لغت دان نے "مفعل" کے معنی ''افعل" بیان نھیں کئے ہیں۔(۳۴)
بعض دوسرے لوگوں کی باتیں بھی انھیں الفاظ کے ساتھ تکرار ھوئی ہیں۔
اشکال کا جواب:
اس اشکال کے جواب میں ھم یہ کھتے ہیں کہ شیعہ معتقد ہیں کہ اگر فرض کریں یہ قبول کر لیتے ہیں کہ کلمہ "مولا" چند معنی میں مشترک ہے اور عربی لغت دانوں نے بعد والے زمانے میں مولا کے معنی اولی نھیں کئے لیکن رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اور اس حدیث کو بیان کرتے وقت مخاطبین نے ان معنی کو اس کلمہ سے سمجھا ہے۔ اس مدعی پر ھمارے پاس کئی دلیلیں ہیں:
۱: حسان بن ثابت کہ جو صدور حدیث کے وقت موجود تھے کہ جن کے ادبی مقام کا انکار کرنے والا کوئی نھیں ملتا، (۳۵) انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اجازت چاھی تاکہ اس واقعہ کو اپنے منظوم کلام میں بند کرے ان کے منجملہ اشعار میں سے ایک شعر یہ ہے:
فقال لہ قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماما و ھادیا
علامہ امینی نے ان اشعار کو اھل سنت کے بارہ مآخذ اور اھل تشیع کے چھبیس مآخذ سے نقل کیا ہے۔(۳۶)
قیس بن سعد بن عبادہ نے بھی اپنے اشعار کے اندر یوں کھا:
و علی امامنا و امام
لسوانا اتی بہ التنزیل
یوم قال النبی من کنت مولاہ
فھذا مولاہ خطب جلیل
علامہ امینی نے ان اشعار کو بارہ مآخذ سے نقل کیا ہے۔(۳۷)
عمر عاص نے بھی اپنے اشعار میں کھا:
و فی یوم خم رقی منیرا
یبلغ و الرکب لم یرحل
الست بکم منکم فی النفوس
باولی؟ فقالوا: بلی فافعل
فانحلہ امرۃ المومنین
من اللہ مستخلف المنحل
و قال فمن کنت مولا لہ
فھذا لہ الیوم نعم الولی
ان اشعار کو بھی علامہ امینی نے شیعہ سنی آٹھ مصادرسے نقل کیا ہے۔ (۳۸)
اس کے علاوہ علامہ امینی الغدیر میں بھت سارے شعراء اور عرب ادبا کے کلمات کو بیان کرتے ہیں جو کلمہ مولا سے امامت اور ولایت کے معنی سمجھتے پر دلالت کرتے ہیں۔(۳۹)
خود مولا علی علیہ السلام نے ایک شعر کے اندر جو معاویہ کو لکھا ہے اس بات کی تائید کے طور پر لکھا ہے:
و اوجب لی ولایتہ علیکم
رسول اللہ یوم غدیر خم
علامہ امینی نے اسے شیعوں کے گیارہ منابع اور سنیوں کے چھبیس منابع سے نقل کیا ہے۔(۴۰)
نیز اس حدیث سے ولی کے معنی سمجھنے پر بھترین دلیل حضرت ابوبکر اور عمر کا مبارک باد دینا ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خطبہ کے تمام ھونے کے بعد انھوں نے علی علیہ السلام کو مخاطب کر کے مبارک باد دی:
"بخ بخ لک یا بن ابی طالب اصبحت مولای و مولی کل مومن و مومنۃ"۔
علامہ امینی نے شیخین کی تبریک کو ساٹھ سنی مصادر سے نقل کیا ہے ( منجملہ: مسند احمد، تاریخ الامم و الملوک، تاریخ بغداد، مصنف ابن ابی شیبہ ہیں)۔ (۴۱)
سچ مچ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مولا سے مراد ناصر اور محبوب ھوتی تو علی علیہ السلام کو مبارک باد دینے کی کون سی جگہ تھی؟ اس کے علاوہ بعض لوگوں کا غدیر خم کے مقام پر شدید اعتراض کرنا (جیسے حارث بن نعمان فھری) اور خدا سے عذاب کی درخواست کرنا اور اللہ کی طرف سے اس پر عذاب کا نازل ھونا یہ سب کس لیے تھا؟ صرف اس لیے کہ علی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ناصر اور محبوب ھو گئے؟ وہ تو پھلے بھی تھے بغیر کھے انھوں نے اپنی زندگی نصرت اسلام اور رسالت کے لیے وقف کر دی تھی۔
علامہ امینی نے اس واقعہ کو اھل سنت کے تیس منابع سے نقل کیا ہے جن میں الکشف و البیان، دعاۃ الھداۃ اور احکام القرآن شامل ہیں۔(۴۲)
انصاف سے بتائیں کہ کیا اگر حدیث غدیر میں مولا کے معنی ناصر اور محبوب کے ھوتے تو کیا یہ اتنے غضب اور انکار کی جگہ تھی حارث بن نعمان فھری جیسوں کو آتش غضب میں جلایا جاتا؟ اس حدیث کے علاوہ بھت ساری دوسری حدیثیں حتی قرآن کی آیتیں موجود ہیں جو صریحا امیر المومنین کی محبت اور نصرت پر دلالت کرتی ہیں کیوں جب وہ صادر ھوئی تو کسی نے اعتراض نھیں کیا؟
یہ چیز بھی ھمارے دعوے پر دلیل ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حدیث غدیر کو بیان کرنے سے خوف کھا رھے تھے اور اس مسئلہ کو تاخیر میں ڈال رھے تھے یھاں تک کہ آیہ کریمہ نازل ھوئی اور کھلے الفاظ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت کا وعدہ دیا " واللہ یعصمک من الناس" خدا آپ کو لوگوں کے شر سے بچائے گا۔ آپ کو جو حکم دیا گیا ہےاسے انجام دیں۔
تو کیا یہ علی علیہ السلام کی محبوبیت اور ناصریت کا اعلان تھا جو منافقین کے مزاج سے سازگار نھیں تھا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جن سے خوف کھا رھے تھے۔ واضح اور آشکار ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی محبوب یا ناصر ھونے کے اعلان سے منافقین کی صحت پر کوئی اثر پڑنےوالا نھیں تھا اس لیے کہ روز اول سے وہ اس اعلان سے واقف تھے اور جگہ جگہ آپ کی مدد اور نصرت کے کرشمہ ملاحظہ کر چکے تھے۔ لھذا اگر دسیوں بار پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی علیہ السلام کے ناصر ھونے کا اعلان کردیں تو ان کی پیشانی پر کوئی بل نہ نھیں آئے گا۔ لھذا اتنے سارے شواھد و قرائن ملاحظہ کرنے کے بعد یہ کھنا کہ مولا سے مراد ناصر اور محبوب ہے انصاف سے دور اور تعصب کے نزدیک ہے۔ غدیرخم میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عظیم انتظام اورانصرام یہ بتا رھا ہے کہ مسئلہ بھت حساس موڑ پر ہے اور جو بات وہ کھنے جا رھے ہیں وہ معمولی سی بات نھیں ہے وہ اسلام کے مستقبل کی تقدیر ہے۔ لھذا حدیث غدیر میں مولا سے مراد صرف اور صرف اولی بالتصرف ، ولی و سرپرست ہے۔
یھاں پر اس نکتہ کی طرف متوجہ کر دوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی جان کا خطرہ اور خوف نھیں تھا کہ منافق ان کی جان لے لیں گے بلکہ آپ دین میں اختلاف اور امت میں پراکندگی سے خوف کھا رھے تھے لیکن پرورگار عالم نے انھیں اطمینان دلایا کہ اعلان ولایت اختلاف سے بڑھ کر ہے اگر سلسلہ ولایت کا اعلان نھیں ھو گا تو دین خطرے میں پڑ جائے گا اس لیے کہ اس کا محافظ نھیں رھے گا۔ اور ایسا خوف کھانا کوئی عیب بھی نھیں ہے حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں بھی خدا فرماتا ہے: "فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسی"۔(۴۳)
اور مزید عرض کر دوں کہ علامہ میر حامد حسین نے حدیث غدیر کو مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے کہ بعض جگہوں میں بجائے "من کنت مولاہ" کے حدیث " من کنت اولی بہ من نفسہ فعلی ولیہ" کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔(۴۴)ان الفاظ کے بعد یہ بحث کہ مولا کے معنی کیا ہے خود بخود ختم ہو جاتی ہے اس لیے کہ حدیث نے خود واضح طور پر بیان کر دیا کہ جس طریقے سے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمانوں کے نفوس پر اولویت اور حاکمیت رکھتے ہیں علی بھی ویسے ہی تصرف اور حاکمیت کا حق رکھتے ہیں۔ حموینی نے بھی اپنی کتاب " فرائد السطین" میں انہیں کلمات کے ساتھ حدیث غدیر کو نقل کیا ہے: من کنت اولی بہ من نفسہ فعلی اولی بہ من نفسہ۔ فانزل اللہ تعالی ذکرہ: الیوم اکملت لکم دینکم۔(۴۵)
اس بات پر بھی ایک نگاہ کرنا ضروری ہے کہ آیا لغت میں کلمہ مولا اولی کے معنی میں استعمال ھوتا ہے کہ نھیں؟ چلبی مواقف پر حاشیہ کے دوران قاضی عضد الدین سے نقل کرتے ھوئے لکھتے ہیں کہ:
اس اشکال کا جواب دیا جا چکا ہے کہ مولا کا " متولی"، "صاحب امر"، " اولی بالتصرف '' کے معنی میں استعمال کرنا عربی لغت کی اندر شایع ہے اور عربی لغت دانوں کے ذریعے یہ استعمال نقل ھوا ہے۔ ابو عبیدہ کا کھنا ہے " ھی مولاکم ای اولی بکم" اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے: ایما امراۃ نکحت بغیر اذن مولاھا؛ یعنی اس شخص کی اجازت کے بغیر جو اس پر اولی بالتصرف ہے۔ پس یہ کھنا صحیح نھیں ہے کہ مولا کے معنی اولی کے نھیں ھو سکتے اس لیے کہ مولا بر وزن مفعل ہے اور ولی فعیل کے وزن پرہے۔ مولا اسم ہے جو اولی کے معنی میں استعمال ھوتا ہے نہ اولی کی جگہ استعمال ھوتا ہے۔(۴۶)
علامہ میر حامد حسین نے ایک مکمل جلد کو اس بات سے مخصوص کیا ہے کہ مولا اولی کے معنی میں استعمال ھوتا ہے یا نھیں، وہ لوگ جنھوں نے یہ دعوی کیا ہے مولا " اولی" کے معنی میں استعمال نھیں ھوتا ان کے بارے میں تفصیل سے انھوں نے اس کتاب کے اندر بیان کیا ہے۔(۴۷)
مزید جانکاری کے لیے ان کی کتاب عبقات الانوار کی طرف رجوع کریں۔
۱۔ امدي، علي بن محمد؛ الاحكام؛ بيروت: مؤسسه النور، 1387ق.
۲۔ ابن ابي الحديد؛ شرح نهجالبلاغه؛ بيروت: داراحياء الكتب العربيه، (بيتا)۔
۳۔ ابن ابي شيبه كوفي؛ لامصنف؛ بيروت: دارالفكر، (بيتا)۔
۴۔ ابن اثير، علي؛ اسدالغابه؛ تهران: اسماعيليان، (بيتا)۔
۵۔ ابن الجارود نيشابوري؛ المنتقي؛ بيروت: مؤسسه الكتب الثقافيه، (بيتا)۔
۶۔ ابن الدمياطي، المستفاد؛ بيروت: دارالكتب العلميه، (بيتا)
۷۔ ابن حبان، عبدالله؛ البداية و النهاية؛بيروت: دارالحياء التراث العربي، (بيتا)۔
۸۔ تقريب التهذيب؛ بيروت، دارالمكتبة العلميه، 1995م.
۹۔ تهذيب التهذيب؛ بيروت: دارالفكر، 1984م.
۱۰۔ طبقات المحدثين؛ بيروت: مؤسسه الرساله، 1992م.
۱۱۔غريب الحديث؛ بيروت: دارالكتب العلميه، (بيتا)
۱۲۔ ابن حبان، علي بن بلياني؛ صحيح ابن حبان؛ الطبعة الثانيه، (بينا)،(بيتا) 1993م.
۱۳۔ ابن حجر عسقلاني، شهابالدين؛ فتح الباري؛ بيروت: دارالمعرفة، (بيتا)۔
۱۴۔ ابن حزم، ابومحمد علي؛ الفصل في الملل والاهواء؛ بيروت: (بينا)۔( بی تا) ۔
۱۵۔ ابنخلدون؛ تاريخ ابن خلدون؛ بيروت: مؤسسه الاعلمي، (بيتا)۔
۱۶۔ ابن خلكان، احمد بن محمد؛ وفيات الاعيان؛ بيروت: داراحياء التراث العربي، 1397م.
۱۷۔ ابن سعد، محمد؛ الطبقات الكبري؛ بيروت: دار صادر، (بيتا)۔
۱۸۔ ابن عساكر، ابوالقاسم؛ تاريخ مدينه دمشق؛ بيروت: دارالفكر، 1995م.
۱۹۔ ابن قتيبه دينوري؛ الامامة والسياسة؛ قم: شريف رضي، (بيتا)۔
۲۰۔ ابن كثير، اسماعيل؛ تفسير القرآن الكبير؛ بيروت: دارالمعرفة، 1992م۔
۲۱۔ ابن ماجه، محمد بن يزيد قزويني؛ سنن ابن ماجه؛ بيروت: دارالفكر، (بيتا)۔
۲۲۔ ابن نجار، محمد؛ ذيل تاريخ بغداد؛ بيروت: دارالكتب العلميه، (بيتا)۔
۲۳۔ ابن هشام، محمد؛ سيرة النبي؛ مصر: مكتبة محمد، (بيتا)۔
۲۴۔ ابن مزاحم منقري، نصر؛ واقعة الصفين؛ قاهر: مدني، (بيتا) ۔
۲۵۔ ابي داوود، ابن اشعث؛ سنن ابي داوود؛ بيروت: دارالفكر، (بيتا)۔
۲۶۔احمد بن حنبل؛ فضائل الصحابه؛ بيروت: دارالكتب العلميه، (بيتا)۔
۲۷۔ مسند احمد؛ بيروت: دار صادر، (بيتا) ۔
۲۸۔ اسكافي، ابوجعفر؛ المعيار والموازنه؛ قم: تحقيق محمدباقر محمودي، (بينا) (بيتا)۔
۲۹۔ اصفهاني، ابينعيم؛ ذكر اخبار اصبهان؛ ليدن: بريل، 1934م.
۳۰۔ الباني، محمدناصر؛ ارواءالغليل؛ بيروت: مكتبالاسلامي، (بيتا)
۳۱۔اميني، عبدالحسين(علامه)؛ الغدير؛ بيروت: دارالكتاب العربي، 1379ق.
۳۲۔ بخاري، محمد بن اسماعيل؛ تاريخ الكبير؛ دياربكر: مكتبةالاسلاميه، (بيتا)۔
۳۳۔ بلاذري، احمد؛انساب الاشراف؛ بيروت: مؤسسه الاعلمي،(بيتا)۔
۳۴۔ فتوح البلدان؛ مصر: لجنة البيان العربي، (بيتا)۔
۳۵۔ بيهقي، ابوبكر؛ سنن الكبري؛ بيروت: دارالفكر، (بيتا) ۔
۳۶۔ ترمذي، محمد بي عيسي؛ سنن ترمذي؛ بيروت: دارالفكر، (بيتا)۔
۳۷۔ حاجي خليفه؛ كشف الظنون؛ بيروت: دار احياءالتراث العربي، (بيتا)۔
۳۸۔ حاكم حسكاني، عبيدالله بن احمد؛ شواهد التنزيل؛ ايران: مجمع احياء الثقافة الاسلاميه، 1411ق.
۳۹۔ حاكم نيشابوري، محمد بن عبدالله؛ المستدرك؛ بيروت: دارالمعرفه، (بيتا) ۔
۴۰۔ معرفة علوم الحديث؛ بيروت: دارالافاقالجديد، (بيتا) ۔
۴۱۔ حموي، ياقوت؛ معجم البلدان؛ بيروت: داراحياء التراث العربي، 1979م.
۴۲۔ خطيب بغدادي، احمد بن علي؛ تاريخ بغداد؛ بيروت: دارالكتب العلميه، (بيتا)۔
۴۳۔ سورہ طہ،آیت ۔۶۷۔
۴۴۔ دينوري، ابن قتيبه؛ تأويل مختلف الحديث؛ بيروت: دارالكتب العلميه، (بيتا)۔
۴۵۔ ذهبي، ابوعبدالله؛ تذكرة الحفاظ؛ بيروت: داراحياء التراث العربي، (بيتا)۔
۴۶۔ سير اعلام النبلاء؛ بيروت: مؤسسه الرساله، (بيتا)۔
۴۷۔ رازي، محمد بن عمر؛ المحصول؛مؤسسه الرساله، (بيتا).
منبع: فصلنامہ علوم حدیث۔
عید غدیر…۔۔ تمدنی پھلو
تمدن یعنی مل جل کر رھنا، تعلقات انسانی کو نبھانا۔ تخلیق کائنات سے ھی اللہ تعالٰی نے کائنات کی تمام مخلوقات کو جوڑا جوڑا خلق فرما کر ایک تمدنی مرکز قائم کیا اور آدم (ع) کو اسی کی مرکزیت عطا کی۔
لھذا ایک مسلمان اپنے تمدن و فرھنگ میں مطلق العنان نھیں ہے بلکہ وہ اپنے خالق کی رھنمائی کا محتاج ہے۔ اسی لئے خداوند متعال نے اپنے خاص لطف سے انسان کی عملی رھنمائی کے لئے حضرت آدم (ع) کو تمام انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا۔ پس اس سے معلوم ھوا کہ ابتداء انسان سے لے کر ھر دور میں چاھے ایک مختصر سا گروہ ھی سھی، مگر اس کی ھدایت و رھنمائی کے لئے خدا نے ایک نمونہ عمل خلق کیا ہے۔
یاد رھے کہ خدا کی یھی سنت حضرت آدم (ع) سے لے کر حضرت خاتم (ص) کے نظام ھدایت میں جاری و ساری رھی۔ حتٰی کہ ھر زمانے میں خداوند متعال نے جو بھی نبی مبعوث کیا، حتماً اسکے کے بعد اس کے لئے اس کا جانشین بھی قرار دیا، تاکہ اس نبی کے بعد اسکی امت بے وارث و بے یار ومددگار نہ رھے۔
خداوند متعال کی یہ روش فقط سابقہ ادیان کے ساتھ مخصوص نھیں تھی، بلکہ اس کی یہ سنت اسلام میں بھی کارفرما ہے اور ایسا ھرگز نھیں ہے کہ خدا کی یہ سنت باقی ادیان میں تو ھو، مگر دین اسلام میں یہ سنت باقی نہ رھی ھو، بلکہ جانشین و رھبر کی جتنی ضرورت حضرت خاتم (ص) کے بعد کے زمانے کو تھی، شاید ھی ایسی ضرورت کسی اور زمانے میں پیش آئی ھو، کیونکہ حضرت خاتم (ص) کے بعد دین کے اکمال کا مرحلہ تھا۔ کیونکہ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ھونے کے ناطے عالمگیر حاکمیت کا بھی خواھاں ہے اور جب اسلام نے انسان کی رھبری کی ذمہ داری اٹھائی ہے تو ضروری ہے کہ اسلام کے قوائد و ضوابط کے نفوذ کے لئے ایک مرد کامل موجود ھو۔
اب یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ایک ناقص کسی کامل کا انتخاب نھیں کرسکتا تو پھر یہ کسے ممکن ھوسکتا ہے کہ وہ انسان کہ جو خود ھدایت و رھنمائی کے محتاج ہیں، وہ اپنے لئے کسی مناسب ھادی و رھنما کا انتخاب کریں اور اگر ایسا ھوتا بھی تو یہ ھرگز ممکن نھیں تھا کہ چند افراد کے انتخاب پر تمام امت کا اتفاق ھوتا، کیونکہ فطرتاً ھر انسان دوسرے سے مختلف ہے۔
لھذا اس بناٗ پر امت میں بعد از رسول (ص) رھبر و جانشین کے انتخاب کی ذمہ داری یا تو خود رسول اکرم (ص) کے ذمہ تھی یا پھر حاکم شارع خود خداوند متعال کے ذمہ۔ جبکہ صاحبان قرآن اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ رسول خدا (ص) نے اپنی پوری زندگی میں اپنی مرضی سے نہ ھی کوئی قدم اٹھایا اور نہ ھی کبھی اپنی مرضی سے کوئی کلام کیا۔ لھذا اس بنا پر فقط ایک ذات یعنی ذات خدا وندی ھی ہے کہ جو بعد از رسول خدا (ص) انسانوں کے لئے مناسب رھنما کا انتخاب کرے۔
تاریخ سے آشنائی رکھنے والے افراد اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں یہ کام خود خدا وند متعال نے ھی اپنے رسول (ص) کے توسط سے مقام غدیر خم میں انجام دیا کہ جس پر اکثر علماء اسلام کا اتفاق ہے۔ اس پر قرآن کی صریح آیت (یاایھا الرسول بلغ ما انزل۔۔۔۔۔۔) دلالت کر رھی ہے اور وہ مسئلہ، مسئلہ رھبر و امامت ھی تھا کہ جس کی خاطر خداوند متعال نے اپنے حبیب سے اس لھجے میں بات کی کہ اے رسول (ص) اگر آپ نے یہ پیغام نہ پھنچایا تو گویا اپنی تمام رسالت کو انجام نھیں دیا اور یھی وہ حقیقت ہے کہ جس کو پھچاننے و سمجھنے میں امت مسلمہ نے خطا کی۔
اب سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ وہ تمام واقعہ کہ جو مقام خم میں رونما ھوا، آیا کیا وہ تمام کا تمام اتفاقی تھا؟ اور اس واقعہ سے پھلے رسول خدا (ص) کا تمام علاقائی و قبائلی سرداروں کو خطوط لکھ کر اس سال حج کی دعوت دینا، آیہ غدیر کا نازل کا ھونا، مقام خم میں اگلوں کو پیچھے جبکہ پچھلوں کا انتظار کرنا، کیا یہ سب اتفاقی تھا؟ پھر ایک بڑے انتظام کے بعد گرمی کی اس شدت میں، پھلے اپنی ولایت کا اقرار لینا اور پھر علی کو بلند کرکے لوگوں کے سامنے لانا، کیا یہ سب فقط اس لئے تھا کہ رسول خدا (ص) فقط یہ بتانا چاھتے تھے کہ "جس جس کا میں دوست ھوں، آج سے علی بھی اسکے دوست ہیں؟ اور پھر موقع پر تمام صحابہ اکرام (رض) کا علیؑ کو مبارک دینا، کیا دوستی کے سبب تھا؟
لمحہ فکریہ ہے کہ انتے سال گزرنے کے باوجود بھی امت مسلمہ نے غدیر کو اس زاویے سے کیوں نہ سوچا۔ اس کے دو سبب ھوسکتے ہیں یا تو واقعہ غدیر امت مسلمہ کی نظر مورد اھمیت ھی نھیں یا پھر آج تک غدیر کے معاملے میں خیانت سے کام لیا گیا ہے۔
تحریر: اشرف سراج گلتری
ایرانی انیمیشن The sprayer کو امریکی میلے کی بہترین شارٹ فلم کے ایوارڈ سے نوازا گیا
ارنا رپورٹ کے مطابق، ایرانی مرکز برائے بچوں اور نوعمروں کی فکری نشو ونما نے کہا ہے کہ امریکہ میں منعقدہ چوتھے انڈیکس فلم فیسٹیول کے جیوری نے جون مہینے کی بہترین شارٹ فلم کے شعبے کے خصوصی ایوارڈ کو ایرانی ساختہ انمیشین The sprayerکو دے دیا۔
انڈیکس فلم فیسٹیول ہر مہینے میں دنیا کی منتخب فلموں کے درمیان نومینیٹس اور فاتحوں کا اعلان کرتا ہے۔
اس میلے کے ہر دور میں دو اصل فاتح (تمام سیکشنز کے درمیان منتخب شدہ) کیلئے بطور بہترین شارٹ فلم اور غیر ملکی زبان میں بہترین شارٹ فلم کے علاوہ دو خصوصی ایوارڈز کا تعین کیا جاتا ہے۔
انیمیشن The sprayer کی کہانی ایک ایسی سرزمین کے بارے میں ہے جس میں ہر قسم کے پھول اور پودے اگانے پر پابندی ہے اور سپرے کرنے والی نامی فوج وہ پودے اور ان افراد جن کی حفاظت کرتے ہیں، کو شکار کرنے پر ذمہ دار ہیں۔ کہانی میں سائنس فکشن کا ماحول ہے اور اس میں کھنڈرات کے مقابلے یوٹوپیا ہیں؛ اس کھنڈارت کے ماحول میں کوئی روشن مستقل کا تصور نہیں کیا جا سکتا تا ہم ایک فوج کی ایک پودے سے ملاقات سے اس کی زندگی کا راستہ بدل جاتا ہے۔
واضح رہے کہ چوتھے انڈیکس فلم فیسٹیول 19 اگست 2022 کو اپنے حتمی فاتحین کا اعلان کرے گا۔
بائیڈن کے علاقائی دورے کا تلخ پھل بغاوت، جنگ، برادرانہ قتل اور سازش ہے: نائب ایرانی وزیر خارجہ
تہران، ارنا – نائب ایرانی وزیر خارجہ برائے مغربی ایشیا نے کہا ہے کہ بائیڈن کے علاقائی دورے کا تلخ پھل بغاوت، جنگ، برادرانہ قتل اور سازش ہے۔
یہ بات محمد صادق فضلی نے اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ میں کہی۔
انہوں نے جو بائیڈن کے دورہ مغربی ایشیائی کے آغاز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سفر کا تلخ پھل بغاوت، فتنہ، جنگ، برادرانہ قتل اور سازش ہے۔
فضلی نے کہا کہ بائیڈن کے اس بدقسمت قدم کا مقصد کینسر زدہ حکومت(اسرائیل) جو خطے میں تمام بد امنی اور خطرات کی جڑ ہے ، کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ جیسا کہ خدا نے وعدہ کیا ہے فتح اسلامی مزاحمت کے لیے ہوگی۔
قربانی اور ہم
|قال امیر المومین علی ابن ابیطالب علیہما السلام : لَيُغْفَرُ لِصَاحِبِ اَلْأُضْحِيَّةِ عِنْدَ أَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا
ترجمہ : قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ جب زمین پر گرتا ہے تو صاحب قربانی کے گناہ بخش دئے جاتے ہیں ۔
قربانی کا لغوی معنی ۔فدا کرنا ، نثار کرنا اور نزدیک ہونے کے ہیں ۔اور اصطلاح میں قربانی یعنی انسان خدا سے قریب ہونے کے لئے اپنی کسی پسندیدہ چیز کو اسکی راہ میں فدا کردے ۔
قربانی ایک ایسا وسیع مفہوم ہے جسکے بہت سارے مصادیق ہیں اُن میں سے ایک دس ذی الحجۃ کو کسی جانور کا ذبح کرنا ہے جو حاجیوں کے لئے واجب اور غیر حاجیوں کے لئے مستحب تاکیدی ہے ۔ زمین پر سب سے پہلی قربانی جو تقرب خدا کے لئے دی گئی تھی قابیل و حضرت ھابیل علیہ السلام کی قربانیاں تھیں جن میں سے خداوندمتعال نے حضرت ھابیل ؑ کے خلوص اور انکے تقوی کیوجہ سے اُنکی قربانی کو قبول فرمایا جیسا کہ اس کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے ۔وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَأَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّکَ ۖ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ (مائدہ ۔ آیت ۲۷)( ترجمہ : اے رسول (ص)! تم ان لوگوں سے آدمؑ کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کا سچا قصہ بیان کردو کہ جب ان دونوں نے خدا کی درگاہ میں نیازیں چڑھائیں تو ان میں سے ایک ( قابیل) کہ نہ قبول ہوئی تو حسد کے مارے ( ہابیل) سے کہنے لگا میں تو تجھے ضرور مار ڈالوں گا اُس نے جواب دیا کہ ( بھائی ) اس میں اپنا کیا بس ہے خدا تو صرف پرہیزگاروں کی نذر قبول کرتا ہے ۔ ترجمہ فرمان علی صاحب
اسی طرح طول تاریخ میں یہ عمل سلسلہ وار چلتے ہوئے خلیل خدا حضرت ابراھیم علیہ السلام تک پہونچا اور آپ کو خداوندمتعال کی طرف سے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم ہوا جسے قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔
فلمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّی أَرَی فِی الْمَنَامِ أَنِّی أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی ۚ قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِی إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِینَ (صافات، آیت ۱۰۲) (ترجمہ : ہم نے اُن کو بڑے نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی پھر جب اسماعیل علیہ السلام اپنے باپ کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے لگا تو (ایک دفعہ) ابراہیم علیہ السلام نے کہا بیٹا ! میں خواب میں (وحی کے ذریعہ کیا) دیکھتا ہوں کہ میں خود تمہیں ذبح کر رہا ہوں تو تم بھی غور کرو کہ اس میں تمہاری کیا جائے ہے ، اسماعیل علیہ السلام نے کہا بابا جان ! جو آپ کو حکم ہوا ہے اسکو ( بی تامل) کیجئے اگر خدا نے چاہا تو مجھے آپ صبر کرنے والوں میں سے پائے گا ۔فرمان ۔۔
دور جاہلیت میں قربانی دینے کا انداز یہ تھا کہ وہ لوگ جب کسی جانور کی قربانی دیتے تھے تو اسکے خون کو خانہ کعبہ کی دیواروں پر لگاتے تھے اور اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ قربانی میں جانور کا گوشت و خون وغیرہ خدا تک پہونچتا ہے لہٰذا خدا نے قرآن میں اس طرح کے اعتقادات و تصورات کو غلط قرار دیتے ہوئے تقوی اور خلوص عمل کو قربانی کا اصل مقصد قرار دیا اور فرمایا کہ خدا سے قریب ہونے کا معیار تقوی ہے جو جتنا زیادہ خدا کی معرفت اور خوف خدا اپنے دل میں رکھتا ہوگا اتنا ہی وہ خدا سے قریب ہوتا جائےگا ۔
لَن یَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَکِن یَنَالُهُ التَّقْوَی مِنکُمْ ۔ اور تقوی جس طرح قربانی کی قبولیت کی شرط ہے اسی طرح تمام اعمال کی قبولیت کی بھی شرط ہے اور بغیر تقوی کے کوئی بھی عمل بارگاہ خدا میں قابل قبول نہیں ہے اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ (مائدہ ، آیت ۲۷) (ترجمہ : خدا تو صرف پرہیزگاروں کی نذر قبول کرتا ہے لہٰذا ہمیں اور بالخصوص وہ افراد جنہیں خدا نے قربانی دینے کی توفیق دی ہے چاہیے کہ جانور کے ذبح کے وقت اپنی نیت پر توجہ دیتے ہوئے خدا کی راہ میں اس نیک کام کو خلوص کے ساتھ انجام دے کر تقرب الٰہی حاصل کریں اور مقصد قربانی سے غافل ہوکر ذاتی مفاد میں گم نا ہوں لہٰذا مقصد قربانی (جو کہ خدا کی مرضی حاصل کرنا اور کمالات کی بلند ترین منزلوں کو طے کرنا ہے ) کو ذھن میں رکھتے ہوئے اپنی عزیز ترین چیز کو خدا کی راہ میں فدا کرنے کا جذبہ پیدا کریں یہ پسندیدہ چیز چاہے مال ہو ، چاہے وہ اولاد اور چاہے وقت آنے پر جان کی قربانی ہی کیوں نا ہو ، اُسی مقصد کے لئے جب انسان خدا کی راہ میں جان کی قربانی دیتا ہے تو خدا اُسے ذبحِ عظیم سے تعبیر فرماتا ہے اور انسان اگر قربانی کو اس کے تمام مفاہیم کے ساتھ عملی طور پر دیکھنا چاہے تو کربلاء کے شہداء علیہم السلام کی قربانیاں دیکھ لے ۔
قربانی کی مصلحتوں میں سے ایک مصلحت یہ ہے کہ انسان معاشرہ میں موجود تنگدست ، ضرورت مند اور مساکین کا خیال رکھتے ہوئے انہیں قربانی میں سے حصہ دے اور ان کی زندگی کے تمام حالات میں اُن کا ساتھ دے کر اللہ کی خوشی حاصل کرے اور اُسی بات کی طرف قرآن و روایات میں کثرت کے ساتھ تذکرہ ہوا ہے ۔
فَکُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِیرَ (حج۔ آیت ۲۸)۔
( تم لوگ ( قربانی کے گوشت ) خود بھی کھاو اور بھوکے محتاج کو بھی کھلاو۔ ترجمہ فرمان صاحب
فَکُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ (حج، آیت ۳۶)۔ ( ان میں سے تم خود بھی کھاو اور قناعت پیشہ فقیروں اور مانگنے والے محتاجوں کو بھی کھلاو ۔ ترجمہ فرمان صاحب ۔۔
اسی طرح مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اسلام (ص) نے مجھے قربانی کے گوشت کو تقسیم کرنے کا حکم دیا تو میں نےان کے حکم کے مطابق قربانی کے پورے گوشت یہاں تک کہ جانور کے چمڑے کو بھی فقراء کے درمیان تقسیم کیا۔ فَأَمَرَنِى فَقَسَّمْتُ لُحُومَها ثُمَّ امَرَنِى فَقَسَّمْتُ جَلالَها وَ جُلُودَها۔
پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں کہ :۔اِنَّما جَعَلَ اللَّهُ الْأضْحَى لَيشْبَعَ مِنْهُ مَسَاكِيْنَكُمْ مِنَ اللَّحْم فَاطْعِمُوهم۔ ( ترجمہ : اللہ نے قربانی اس لئے رکھا ہے کہ اس کے گوشت کو تمہارے ضرورت مند بھائیوں کو کھلا کر شکم سیر کرو۔ )مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ج ۱۰، ص ۱۱۰
پس مذکورہ آیات و روایات سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قربانی کے گوشت کو اپنے شکم سیری کے لئے رکھنے کے بجائے فقراء و پڑسیوں کا خیال رکھتے ہوئے تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیئے۔ ۱۔ خود کے لئے ۔۲۔ فقراء کے لئے ۔۳۔ مومنین و پڑوسیوں کے لئے۔۔ یہی عمل انسان اگر ذاتی غرض و مفاد سے ہٹ کر خدا کی رضایت کے لئے انجام دے اور مستحق لوگوں تک اُن کا حق پہونچا کر اُن کے دلوں کو خوش کرے تو یہ حقیقت میں قربانی کہلایا جاسکتا ہے لیکن اگر یہی عمل تقوی اور خلوص سے خالی ہو اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے انجام دے تو یہ قربانی نہیں ہوگی اور خدا ، رسول اور آل رسول علیہم السلام کی نگاہ میں بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ عمل میں دکھاوا اور ریاکاری شامل ہوجائے تو مقصدِ قربانی کے بالکل خلاف ہے اور قابل ثواب بھی نہیں ہے ۔
تحریر: ڈاکٹر سید نثار حسین ( حیدر آقا) صدر کل ہند شیعہ مجلس علماء و ذاکرین حیدرآباد
امت مسلمہ کو اپنے مشترکہ مفادات کے حصول کے لئے مغربی طاقتوں کی فکری غلامی سے نجات حاصل کرنا ہوگی، علامہ امین شہیدی
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے حج بیت اللہ اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ حج اور عید کے روحانی اور عظیم لمحات میں سے ایک اللہ سے دعا کرنا ہے کہ امتِ مسلمہ کو بیداری اور ابراہیمی قربانی کا شعور، امت کے رہنماؤں کو نمرودِ وقت کی شناخت اور سنتِ ابراہیمی کے مطابق اپنے اسماعیل کو قربان کرنے کا حوصلہ عطا کرے اور اسلام کے مشترکہ مفادات کے دفاع اور حفاظت کے لئے متحد ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
علامہ امین شہیدی نے فلسفۂ حج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حج، اللہ کی طرف سے مسلمانوں پر مخصوص شرائط کے ساتھ واجب قرار دیا گیا ہے؛ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ حج کے پس منظر میں موجود فلسفے کے مطابق اسےانجام دیں۔ حج کے دوران خدا تعالیٰ کے حکم مطابق حجاج کرام بہت سی حلال اشیاء سے خود کو روک دیتے ہیں؛ اس مشق کا مقصد خدا کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ اسی طرح شیطان کو کنکریاں مارنے کا فلسفہ یہ ہے کہ کنکر مارنے والا ہر شخص شیطان کی شیطانیت سے برأت و بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حقیقی بیزاری یہی ہے کہ حج سے واپس آنے کے بعد تمام حجاج ابلیسی مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی زندگی کا آغاز اللہ کی اطاعت اور مظلوم انسانوں کی مدد سے کریں۔
امت واحدہ پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ حج سے مراد خود کو شیطان کے شر سے آزاد کرنا ہے۔ اس کے بعد جب حجاج کرام کعبة اللہ کی طرف لوٹیں تو "لبیک اللھم لبیک” کہہ کر اس بات کا اعلان کریں کہ ہم اللہ کی طرف پلٹ آئے ہیں اور دوبارہ شیطان کی طرف نہیں جائیں گے۔
علامہ امین شہیدی نے امت مسلمہ کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ مسلمان حکمرانوں اور عوام کو مشترکہ مفادات کے حصول کے لئے مغربی طاقتوں کی فکری غلامی سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ مسلمان حکمرانوں کی اپنے ہم مذہب و ہم عقیدہ لوگوں کے ساتھ اللہ کے گھر میں ایک ساتھ نماز کی ادائیگی کافی نہیں۔ اسلام تہذیبِ نفس کا دین ہے، جو اللہ اور بندوں کے درمیان پاکیزہ رابطہ کو برقرار رکھنے کا درس دیتا ہے۔ اللہ کے گھر کی طرف آنے والے تمام انسان اللہ کے مطیع ہیں اور ظلم سے نفرت کرتے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ امتِ مسلمہ کے مفادات کو اپنے اقتدار پر ترجیح دیں اور جہاں جہاں طاغوت نے مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس کے خلاف مسلمان عوام کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ اگر مسلمان حکمرانوں نے امہ کے مسائل کی طرف توجہ نہ دی تو حج جیسی اہم اور اجتماعی عبادت اصل روح سےخالی رہے گی۔
ایرانی حکومت کے ترجمان؛ بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی پر انسانی حقوق کی عالمی برادری کی خاموشی تاریخ کی یادداشت سے مٹ نہیں جائے گی
ارنا رپورٹ کے مطابق، "علی بہادری جہرمی" نے پیر کو ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ پچھلے 27 سالوں میں اور ایسی دنوں میں 8 ہزار سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو "موت کا راستہ" جس پر سلامتی علاقے کا نام رکھا گیا تھا، میں قتل عام کردیا گیا؛اب اسی جرم کے ملے گئے 50 نئے اجساد سپرد خاک کیے جائیں گے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس منظم یافتہ نسل کشی پر انسانی حقوق کی عالمی برادری کی سنگین خاموشی، کبھی بھی قوموں کی تاریخی یادداشت سے مٹ نہیں جائے گی۔
واضح رہے کہ جولائی 1995 کو سرب فورسز نے مشرقی بوسنیائی قصبے سربرینتسا کے آس پاس آٹھ ہزار سے زائد بوسنیائی مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا تھا اور اب اس جرم میں قربان ہونے والے 50 نئے اجساد مل گئے ہیں جن کی پہچان کے بعد سپرد خاک ہوجائیں گے۔
اپنے اسلامی ممالک کے ہم منصبوں کے نام میں ایگ الگ پیغامات میں؛ ایرانی اسپیکر نے عیدالاضحی کی آمد پر مبارکباد دی
ارنا رپورٹ کے مطابق، "محمد باقر قالیباف" نے اپنے اسلامی ممالک کے ہم منصبوں سمیت دنیائے اسلام کے بعض مذہبی اور سیاسی شخصیات کے نام میں الگ الگ پیغامات میں ان کو عیدالاضحی کی آمد پر مبارکباد دی۔
ایرانی پارلیمنٹ کے پیغامات میں کہا گیا ہے کہ میں عیدالاضحی کی آمد پر سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں۔
قالیباف نے کہا ہے کہ عیدالاضحی؛ دنیاوی رشتوں کو ذبح کرنے، اللہ رب العزت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے، عبادت کا شاندار مظہر، کسی بھی رنگ و نسل، مذہب اور نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کرلیا کہ اس عظیم دن کی برکت سے تمام اسلامی ممالک میں قیام امن اور استحکام برقرار ہوجائے گا اور مسلمانوں کے درمیان برادرانہ اور دوستانہ تعلقات مزید مستحکم ہوجائیں گے۔
ایرانی اسپیکر نے مزید کہا کہ ان کا عقیدہ ہے کہ پارلیمانوں کے نمائندوں کے درمیان مشاورت اور گفتگو؛ دنیائے اسلام کے موجودہ مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوگی اور اس سلسلے میں ایرانی پارلیمنٹ باہمی تعلقات کی تقویت اور توسیع پر تعاون کیلئے اپنی تیاری کا اظہار کرتی ہے۔
قالیباف نے اسلامی ممالک کے اسپیکرز اور ان کے عوام اور حکومت کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرلیا۔