سلیمانی

سلیمانی

یکنا نیوز کے مطابق گذشتہ روز ہونے والے خطاب میں انصار اللہ کے رہنما کا کہنا تھا یمن پر ہونے والی ناگہانی جارحیت سے واضح ہوتا ہے کہ کن افواج نے یہ  جارحانہ حملے انجام دیئے ہیں اور کن لوگوں پر یہ جارحیت انجام دی گئی. واشنگٹن کی طرف سے اس جارحیت کا اعلان کیا گیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس تجاوز کی نظارت کرنے والے اور انجام دینے والے کون ہیں! اس اتحاد کو بنانے والے امریکی، برطانوی اور اسرائیلی ہیں اور امریکہ اس کی نظارت کرنے والا ہے. شروع میں اس وحشیانہ بمباری پر فقط مقاومتی گروہوں نے ہی اس غیر انسانی عمل کی مخالفت کی باقی سارے جھان کی خاموشی کی وجہ سے اس اجتماعی قتل عام کا سلسلہ جاری رہا حتی کہ بعض افراد  کی طرف سے اس جنایت کو انجام دینے پر مبارک باد بھی پیش کی گئی۔

انکا کہنا تھا کہ جارح افواج کی جانب سے شروع سے ہی یہ کوشش کی گئی کہ یمنی تیل کے ذخائر پر قبضہ کیا جائے اور اس ملت کو ان کے اپنے ذخائر سے محروم کیا جائے متجاوز اتحاد کی جانب سے سات کھرب ڈالر کا تیل چوری کیا گیا۔

 سید عبد الملک کا مزید کہنا تھا کہ ہماری فوجی صنعت کی پایداری کی ایک وجہ جارحین سے مقابلے کا جذبہ تھا مختلف اقسام کے میزائل جس میں السرخہ ،ذوالفقار، قدس2 ،برکان2  شامل ہیں سے اس کا آغاز ہوا تھا اور اب جدید میزائل بنانے کا یہ سلسلہ جاری ہے ہمارا ملک فوجی ساز و سامان تیار کرنے میں خود کفیل ہے اور ہم اب غیر نظامی چیزیں بنانے کی طرف گامزن ہیں. یہی موضوع ہمارے دشمنوں کے غصہ کا باعث بن رہا ہے ہمارے میزائل یمن میں تیار کردہ ہیں اور اس حقیقت کو دشمن بھی جانتا ہے۔ ہماری عوام نے میزائل کی صنعت میں ہماری حمایت کی اور یمنی خواتین نے اپنا سونا اور مال مویشی بیچ کر اس میں اپنا حصہ شامل کیا اور میں جارحین کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس جارحیت سے باز آ جائیں اور اس محاصرے کو ختم کریں اور یمن پر قبضے سے پیچھے ہٹ جائیں اگر یہ نام نہاد اتحاد چاہتا ہے کہ اس دلدل سے نکلے تو پہلے اپنے حملوں کو بند کرے اور اس ظالمانہ محاصرے کو ختم کریں۔

سید کا کہنا تھا کہ ہم نے جنگ کے آٹھویں سال میں خدا پر توکل کرتے ہوئے ایک بڑی تعداد میں مجاہدین کے لشکر کے ساتھ آئیں گے ہم اس آٹھویں سال میں بیلسٹیک میزائلوں اور ڈرونز کے ساتھ آئیں گے ہم نے ان اقتصادی اور عسکری چلینچز کے ذریعے یہ سیکھا ہے کہ کیسے بحرانوں کو فرصت کے طور پر استعمال کریں اور تمام دنیا جانتی ہے کہ یہ یلغار آج تک ناکام ہوئی ہے اور اس کا نتیجہ بھی ناکامی کی صورت میں ہی نکلے گا۔انشاءاللہ

 
 
 

یمن کے خلاف آل سعود کی سربراہی میں عرب اتحاد کی جارحیت کو آٹھواں سال شروع ہو چکا ہے۔ اگرچہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے یمنی عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی کے بارے میں بے شمار رپورٹس شائع کی ہیں لیکن عالمی سطح پر شدید بے حسی طاری ہے اور امریکہ، مغرب اور مغرب نواز اسلامی ممالک نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں بچوں اور خواتین کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ اقوام متحدہ سے وابستہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یمن میں شدید غذائی قلت پائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں 1 کروڑ 74 لاکھ شہریوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے جبکہ سال کے آخر تک یہ تعداد 1 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔
 
دوسری طرف عالمی برادری نے یمن کی صورتحال پر آنکھیں موند رکھی ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف جارح سعودی اتحاد کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کی آشیرباد حاصل ہے بلکہ یہ طاقتیں اس جارحیت میں برابر کی شریک ہیں۔ یمنی عوام کو درپیش انتہائی مشکل حالات کے بارے میں غذا اور پانی کے عالمی اداروں "فا" اور "یونیسف" نے بھی رپورٹس جاری کی ہیں جس کے بعد برطانوی وزیراعظم بوریس جانسن نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ ان کا یہ دورہ ایسے وقت انجام پایا جب کچھ ہی دن پہلے ایک ہی دن میں 81 مخالفین کو دہشت گرد قرار دے کر ان کی گردنیں اڑائی جا چکی تھیں۔ اس کے باوجود خود کو انسانی حقوق کا علمبردار ظاہر کرنے والے مغربی ممالک خاص طور پر برطانیہ کی جانب سے ہلکا سا احتجاج بھی نہیں دیکھا گیا۔
 
برطانیہ اور سعودی عرب کے درمیان ہمیشہ سے انتہائی قریبی تعلقات برقرار رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ برطانیہ سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، لہذا آل سعود کے جنگی جرائم سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے اسے اسلحہ کی فروخت جاری رکھنے کو باہمی اتحاد کی مضبوطی تصور کیا جاتا ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ چند ماہ کے دوران لندن نے 18 ارب پاونڈ سے زیادہ سعودی عرب کو اسلحہ بیچا ہے۔ آج نہ صرف یمنی عوام کی مدد اور حمایت نہیں کی جا رہی بلکہ مختلف بہانوں سے وہاں انجام پانے والے سعودی جنگی جرائم پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔ سعودی عرب عالمی اداروں کو بھاری رشوت دے کر ان کا منہ بند کر دیتا ہے اور تسلی سے یمنی عوام کی نسل کشی میں مصروف ہے۔
 
یمن جنگ میں مرکزی کردار ادا کرنے والے ممالک میں سے ایک امریکہ ہے۔ امریکہ، فرانس اور جرمنی واضح طور پر متضاد رویہ اپناتے ہوئے ایک طرف تو انسانی حقوق کے دفاع کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف عالمی سطح پر اسلحہ فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔ اسٹاک ہوم میں واقع تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ امریکہ کی جانب سے فروخت ہونے والے اسلحہ کا ایک چوتھائی حصہ سعودی عرب کے پاس پہنچتا ہے جس سے وہ یمنی عوام کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ نے ایک طرف یمن پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور حتی غذائی مواد اور ادویہ جات کی ترسیل بھی روک رکھی ہے جبکہ دوسری طرف انجلینا جولی جیسے فنکار بھیج کر خود کو یمنی عوام کا نجات دہندہ ظاہر کرتا ہے۔
 
انسانی حقوق کے عالمی ادارے بارہا یمن کے بارے میں وارننگ دے چکے ہیں کہ وہاں موجود انسانی بحران کی شدت ناقابل تصور ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گاتریش صرف اظہار افسوس پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور یمنی عوام کا محاصرہ توڑنے کیلئے کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیتے۔ یمن سے متعلق اقوام متحدہ کی کوتاہی اس قدر شدید ہے کہ خود مغربی شخصیات نے بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق خصوصی رپورٹر اور پرنسٹن یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر رچرڈ فالک کہتے ہیں: "اقوام متحدہ خود بھی ایک سیاسی کھلاڑی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ امریکہ جیسے ممالک اپنے سیاسی مقام کے ذریعے اقوام متحدہ میں لابیاں بنا کر رکھتے ہیں اور اس کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ لہذا وہ یمن کے بارے میں موثر فیصلہ انجام دینے سے قاصر ہے۔"
 
آج یمنی عوام کی قتل و غارت کو سات سال مکمل ہو چکے ہیں۔ عالمی برادری کو اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ جو اسلحہ دن رات یمنی عوام کے خلاف بروئے کار لایا جا رہا ہے وہ آل سعود رژیم نے کن ممالک سے حاصل کیا ہے؟ اور کیوں اقوام متحدہ اور خاص طور پر سلامتی کونسل جیسے عالمی ادارے اس بارے میں غیر جانبدارانہ پالیسی اپنائے ہوئے ہیں؟ اگر عالمی برادری یمن کے مسئلے پر منصفانہ متفقہ موقف اختیار نہیں کرتی تو اس کے نتیجے میں وہاں قحط اور غذائی قلت کے باعث مزید انسانی جانیں ضائع ہونے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ یوکرین کی جنگ بھی یمن جنگ پر یوں اثرانداز ہو رہی ہے کہ جارح سعودی اتحاد عالمی میڈیا کی توجہ تقسیم ہونے کا غلط فائدہ اٹھا کر یمن میں جنگی جرائم جاری رکھے ہوئے ہے۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے آج (منگل کو) کہا کہ امریکہ پر روسی سائبر حملے کے بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ریمارکس کے جواب میں ماسکو ڈاکہ نہیں ڈال رہا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کی صبح روس پر آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے پر روسی سائبر حملے کے امکان سے خبردار کیا۔

ٹاس نیوز ایجنسی کے ذریعہ پیسکوف کے حوالے سے کہا گیا کہ "بہت سے مغربی ممالک کے برعکس، جیسا کہ ریاستہائے متحدہ، روسی فیڈریشن ریاستی سطح پر قزاقی میں ملوث نہیں ہے۔"

دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اس سے قبل ماسکو پر امریکی کمپنیوں پر سائبر حملوں کے الزامات کو بکواس قرار دیا تھا۔

ماسکو نے اپنے مطالبات کی دستاویزات کیف کو پیش کر دی ہیں۔

روس یوکرین مذاکرات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یوکرین کے ساتھ مذاکرات میں روس کے موقف کی زبانی اور تحریری وضاحت کی گئی ہے، کیف کو متعلقہ دستاویزات موصول ہو چکی ہیں اور انہیں عام کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

پیسکوف نے کہا کہ یوکرین روس کے مطالبات سے بخوبی واقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں۔ ماسکو کی پوزیشنز زبانی اور واضح طور پر تحریری طور پر مقرر کی جاتی ہیں۔ "دستاویزات کا مسودہ چند روز قبل یوکرینیوں کو دیا گیا تھا۔"

کریملن کے ترجمان نے کہا کہ یوکرین نے کچھ دستاویزات کا جواب دیا ہے۔

روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کا عمل سست روی کا شکار ہے۔

پیسکوف نے روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور کے بارے میں کہا، "یہاں پروگرام کافی لچکدار ہے، اس لیے میں تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔" "یہ عمل جاری ہے، لیکن ہم یقینی طور پر زیادہ گہری اور بامعنی بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔"

انہوں نے مذاکرات کی پیش رفت کو سست قرار دیتے ہوئے کہا: "یوکرین ایک خودمختار ملک ہے اور اس کا گھریلو سیاسی طریقہ کار ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے۔ لیکن ان معاملات کے علاوہ دو وفود بھی مذاکرات کر رہے ہیں۔ "میں تفصیلات میں نہیں جا سکتا، لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر یہ مسائل اب عام ہو گئے تو اس سے مذاکراتی عمل میں خلل پڑ سکتا ہے، جو کہ ہماری خواہش سے بہت سست اور کم ہے۔"

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ اسرائیل کا وجود مشرق وسطیٰ میں ناجائز اور قابض و ظالم سے زیادہ کچھ نہیں، اب ایک نئے دھوکے اور عیاری کے انداز میں اس کے مصداق کہ ”نیا جال لائے پرانے شکاری“ نام نہاد معاہدہ ابراہیمی کے عنوان سے مسلم ممالک اور باالخصوص مسلم امہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں کہ تل ابیب کے اطراف میں مساجد و حلال فوڈ کے انتظامات اور بیت المقدس میں نماز کی سہولیات بارے دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کہتا ہے کہ دروازے کھول رہے ہیں، مگر افسوس اس ناجائز ریاست نے پہلے انبیاء کی مقدس سرزمین پر بسنے والے اس کے حقیقی ورثاء پر انہی کی زمین کو استعمار کی پشت پناہی سے تنگ کیا، انہیں شدید ذہنی و معاشرتی اور معاشی الجھنوں کا شکار کیا اور پھر ظلم کی تمام حدیں پار کرکے قبضہ کیا، مساجد سے لے کر گھروں تک مسمار کر دیئے، مرد و خواتین سمیت بزرگ و بچوں تک پر بھی رحم نہ کیا۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ بیت المقدس سے مسلمانوں کو بے دخل کر دیا اور آج مظلوموں کے خون پر کھڑے ہوکر پھر ”پارسائی“ کے دعوے، یہ کھلا دھوکہ ہے، بین الاقوامی دنیا اور سنجیدہ فکر حلقے کبھی بھی اس دھوکہ بازی میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بین الاقوامی سطح پر اعتماد کھو چکا، مگر نئے انداز میں دھوکہ دینا چاہتا ہے، جسے تمام باضمیر انسان ناصرف ناکام بنائیں گے، بلکہ اسے آنے والے وقت میں مزید بے نقاب بھی کرینگے۔ علامہ ساجد نقوی نے اسرائیل کے حوالے سے بین الاقوامی دوہرے معیار پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی طاقتوں کا دوہرا معیار عالمی امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
 
 
 

رہبر انقلاب اسلامی نے ہجری شمسی کیلنڈر کے نئے سال 1401 کے پہلے دن ٹی وی چینلوں سے براہ راست نشر ہونے والی اپنی تقریر میں، نوروز اور نئي صدی کے آغاز کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے، نئے سال کے نعرے کی تشریح کی اور مساوات کے ساتھ اقتصادی ترقی اور غربت کے مسئلے کے حل کی واحد راہ، نالج بیسڈ معیشت کی راہ پر آگے بڑھنا بتایا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے افغانستان، یوکرین اور یمن میں جاری مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارے واقعات، سامراج سے مقابلے میں ایرانی قوم کی حقانیت اور اس کے موقف کی درستگی کو عیاں کرتے ہیں۔

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نوروز کی قومی عید کے موقع پر ذکر خدا، دعا، مناجات اور معنویت کی تقاریب کو ایرانی نوروز کی اہم خصوصیت بتایا اور کہا:  موسم بہار امید کا مظہر اور طراوت و روئیدگي کے پیغام کا حامل ہے اور اس سال، پندرہ شعبان کے ایام کی ہمراہی کی وجہ سے جو تاریخ اور انسانیت کی بہت بڑی امید کے جنم لینے کا دن ہے، یہ امید دوبالا ہو گئي ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امید، تمام کاموں اور ترقی و پیشرفت کا سرچشمہ ہے، کہا: جو لوگ عوام سے وابستہ رہتے ہیں، یا کچھ لکھتے ہیں یا انھیں پیغام دیتے ہیں، وہ لوگ جہاں تک ممکن ہو، عوام کے اندر امید پیدا کریں کیونکہ امید، پیشرفت کا اہم عنصر ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے پچھلے ایک عشرے میں مختلف برسوں کے نعروں اور اسی طرح سنہ 1401 کے نعرے کے لیے معاشی عناوین کے انتخاب کی وجہ بتاتے کہا: اس سال کے لیے اور سال کے نعرے کے لیے معاشی عنوان کے انتخاب کی وجہ، معیشت کے مسئلے کی کلیدی اہمیت اور اسی طرح پچھلے عشرے کے معاشی چیلنجز ہیں جن سے چھٹکارے کے لیے تدبیر اور صحیح عمل و اقدام کی ضرورت ہے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آج ملک کے عہدیداروں اور ملک کا نظام چلانے میں دخیل افراد کا سب سے اہم مسئلہ، معیشت ہے، کہا: البتہ عوامی سطح پر بھی کچھ سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں جو مناسب طریقے سے جاری رہیں تو بڑی امید افزا ہیں۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ معاشی ترقی حاصل کرنے کا واحد راستہ، نالج بیسڈ معیشت کی سمت میں آگے بڑھنا ہے، کہا: نالج بیسڈ معیشت سے مراد، سبھی میدانوں میں پیداوار کو سائنسی اور تکنیکی نظر سے دیکھنا ہے جس کا نتیجہ، پیداوار کے اخراجات میں کمی، فائدے میں اضافہ، پروڈکٹس کی کوالٹی میں بہتری، عالمی منڈیوں میں پروڈکٹس کا کمپیٹیشن کے لائق بننا اور ملک کے اندر مصنوعات کی تیاری کی قیمت میں کمی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں متعدد عالمی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن کے لیے تدبیر اور صحیح حرکت، فیصلے اور اقدام کی ضرورت ہے، کہا: جب دنیا کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو سامراجی محاذ کے مقابلے میں استقامت پر استوار ایرانی قوم کے موقف کی حقانیت مزید واضح ہو جاتی ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ استکبار کے مقابلے میں ایرانی قوم کا انتخاب، 'استقامت، ہتھیار نہ ڈالنے، عدم انحصار، خود مختاری کی حفاظت اور نظام اور ملک کی داخلی تقویت' تھا، کہا: یہ قومی فیصلے تھے جو بالکل صحیح تھے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے مظلوم مسلمان ملک افغانستان کے حالات، اس ملک پر ہونے والے ظلم اور بیس سال کے مظالم و جرائم کے بعد امریکیوں کے انخلاء کے طریقے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یوکرین کے واقعات بھی ایک دوسرا نمونہ ہیں کہ اس ملک کا صدر، جسے خود مغرب والوں نے اقتدار میں پہنچایا ہے، آج ان سے سخت لہجے میں بات کر رہا ہے۔

انھوں نے اسی طرح یمن کے واقعات اور اس ملک کے مزاحمت کار عوام پر روزانہ ہونے والی بمباری اور دوسری طرف 80 نوجوانوں اور بچوں کی گردن کاٹنے کے سعودی عرب کے اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ ساری باتیں، دنیا پر حاکم ظلمت اور خونخوار بھیڑیوں کی عکاسی کرتی ہیں جن کے ہاتھوں میں دنیا ہے۔

 رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ یوکرین کے واقعات کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس سے مغرب کی نسل پرستی عیاں ہو گئی۔ آپ نے کہا: سیاہ فاموں کو سفید فاموں سے الگ کرنا، انھیں ٹرین سے نیچے اتار دینا یا مغربی میڈیا میں مغرب والوں کا اس بات پر افسوس ظاہر کرنا کہ جنگ، مشرق وسطی کے بجائے یورپ میں ہو رہی ہے، مغرب کی کھلی نسل پرستی کے کچھ نمونے ہیں۔

انھوں نے ملکوں میں ظلم و ستم سے نمٹنے کے طریقۂ کار میں، مغربی دنیا کے دوغلے پن کا ایک اور نمونہ بیان کرتے ہوئے کہا: اگر ان کے کسی فرمانبردار ملک میں ظلم ہوتا ہے تو وہ کوئي بھی ردعمل ظاہر نہیں کرتے اور اتنے ظلم و ستم کے بعد انسانی حقوق کا دعوی بھی کرتے ہیں اور اس جھوٹے دعوے کے ذریعے خودمختار ملکوں سے غنڈہ ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے زور دے کر کہا: یہ ظلم و استکبار کے میدان میں عصر حاضر کا سب سے شرمناک دور ہے اور دنیا کے عوام ان مظالم اور دوغلے رویے کو براہ راست دیکھ رہے ہیں۔

انھوں نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں، پچھلے سال، سال کے پہلے دن کی تقریر کا حوالہ دیا جس میں آپ نے ملکی معیشت کو امریکی پابندیوں سے جوڑنے اور یہ بات کہنے سے منع کیا تھا کہ جب تک پابندیاں رہیں گي، صورتحال یہی رہے گي۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: بحمد اللہ ملک میں نئي پالیسیوں نے دکھا دیا ہے کہ امریکی پابندیوں کے باوجود ترقی و پیشرفت کی جا سکتی ہے، خارجہ تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، علاقائی معاہدے کیے جا سکتے ہیں اور تیل اور دیگر اقتصادی امور میں کامیابیاں حاصل کی جا سکتی .taghribnews

شام کے مشرقی علاقوں پر قابض امریکی دہشتگردوں کے ایک اڈے پر ڈرون حملہ ہوا ہے۔

فارس نیوز نے عراقی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ شام کے شمال مشرقی علاقے دیرالزور میں واقع العمر آئل فیلڈ کہ جہاں امریکی دہشتگرد قبضہ جمائے ہوئے ہیں، ایک ڈرون طیارے سے حملہ کیا گیا ہے۔

یہ علاقہ عراق و شام کی سرحد پر واقع ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے امریکہ کے باوردی دہشتگرد شام کے قومی سرمائے کو لوٹنے کی غرض سے اس علاقے پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ ابھی تک اس حملے کے سلسلے میں مزید تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔

شام میں امریکی آلۂ کار دہشتگرد ٹولے داعش کی شکست کے بعد اب خود امریکی میدان میں آگئے ہیں اور شامی عوام اور خطے کے استقامتی محاذ کے خلاف برسر پیکار ہیں ۔شام کے مختلف علاقوں میں امریکی موجودگی کے خلاف عوامی ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے اور لوگ آئے دن دہشتگردی سے جنگ کے بہانے شام میں موجود امریکہ کے باوردی دہشتگردوں کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں۔

شام کی حکومت نے بھی بارہا اقوام متحدہ میں امریکہ کی سرکردگی میں اپنے ملک میں موجود غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی کو غیرقانونی اور جارحیت قرار دیتے ہوئے اُس پر سخت اعتراض درج کرایا ہے۔

خیال رہے کہ عراق میں موجود امریکی دہشتگردوں پر حملے روز کا معمول بن چکے ہیں جبکہ شام میں بھی امریکی فوجیوں اور انکے اڈوں پر حالیہ مہینوں کے دوران بارہا حملے کئے جا چکے ہیں۔

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو یقین تھا کہ فرعون اور اس کا لشکر اس نومولود بچے کو قتل کر دیں گے، حضرت موسی ع کی والدہ یہ سوچ رہی تھی کہ اب کیا کیا جائے!؟ خدا کی جانب سے الہام ہوا: "ڈرو مت اسے دودھ پلاؤ" جب خطرہ بڑھ جائے اور آپ کو خوف ہو کہ بچہ دشمن کے ہاتھ میں پہنچ جائے گا تو اس وقت آپ بچے کو دشمن کے حوالہ نہ کرے بلکہ بچے کو دریا میں پھینک دو۔ آخر ایک ماں اپنے بچے کو صندوق میں ڈال کر اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا میں پھینکنا کیسے برداشت کرتی؟ الہام ہوا اور ماں سے کہا :ہم آپ کے بچے کو واپس لوٹا دیں گے اور ہم اسے رسول بنادیں گے چنانچہ ہم نے اس بچے کو اس کی ماں تک لٹا دیا۔ تاکہ اس ماں کی آنکھیں روشن ہوجائیں اور وہ اداس نہ ہو- حضرت موسیٰ ع کی والدہ نے اللہ کے وعدے کو پورا ہوتے ہوے دیکھا۔ اللہ کے قطعی وعدوں میں سے ایک وعدہ امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ہے۔ یہ ایک ایسا وعدہ ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے تمام انبیاء اور اولیاء کو دیا ہے۔ پیامبر گرامی اسلام ص نے فرمایا: "اے لوگو ! تمہارے لیے امام مہدی (عج) کے ظہور کی خوشخبری دیتا ہوں جو ایک اٹل حقیقت اور خدا کا وعدہ ہے خدا اپنے کیے ہوے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور وہ اپنے فیصلے کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا، بیشک خدا حکیم اور باخبر ہے اور خدا کی فتح اور آسائیش قریب ہے۔(1)
جی ہاں! یقینا امام زمانہ ع ضرور ظہور فرمائیں گے، جس طرح حضرت موسیٰ کو ان کی والدہ کے پاس واپس لوٹا دیا اور نبوت پر فائز ہوگئے۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کہاں ٹہرے ہوئے ہیں؟ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جب تک ہم اپنی اصلاح نہیں کرتے اپنے آپ کو نہ بنائیں اور امام زمانہ ع کے ظہور کے لیے راہ ہموار نہ کریں ہم امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی منتظرین میں شمار نہیں ہونگے! پس اگر ہم امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی اصحاب و اعوان میں سے شمار ہونا چاہیں تو ہمیں چاہیے ہم سب سے پہلے امام زمان علیہ السلام کے اصحاب کی خصوصیات اور صفات سے آشنا ہوجائیں،ان خصوصیات اور صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس عظیم الہی وعدے کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ امام زمانہ علیہ السلام کے اصحاب اور ناصرین کی کچھ خصوصیات ہیں ہم یہاں مختصر طور پر کچھ صفات اور خصوصیات محترم قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

1۔خدا اور بندوں کی باہمی محبت:

امام زمان علیہ السلام کے اصحاب کی پہلی خصوصیت سورہ مائدہ کی آیت نمبر 54 میں مذکور ہے جو دیگر صفات کے لئے سرچشمے کی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ "یہ لوگ خدا سے محبت اور عشق کرتے ہیں اور خدا کی رضا اور خشنودی کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے ہیں یہ خدا کو چاہتے ہیں اور خدا سے محبت کرتے ہیں اور خدا بھی ان سے محبت کرتے ہیں(یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ)

کون سے لوگ خدا سے محبت کرتے ہیں؟

منتظرین حقیقی امام زمانہ علیہ السلام خدا سے محبت کرتے ہیں،امام کے بتائے ہوے اصولوں اور احکام کی پیروی کرتے ہیں اور امام کی اطاعت کرتے ہیں۔
(إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِی)
اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے(پیغمبر) پیروی کرو(2)
افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ بعض اوقات، اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کام امام زمانہ علیہ السلام کو خوش کرتا ہے اس کے باوجود ہم اس کام سے غفلت برتتے ہیں اور اسے انجام نہیں دیتے اسی طرح بعض اوقات ہم جانتے ہیں کہ یہ کام امام زمانہ علیہ السلام کو ناراض کرسکتا ہے اس کے باوجود ھم اس کام کو انجام دیتے ہیں اور اپنے آپ کو شیطان کے دھوکے کی وجہ سے روک نہیں سکتے ہیں۔ امیر المومنین ع سے روایت ہے کہ آپ ع نے فرمایا:
الْقَلْبُ‏ الْمُحِبُ‏ لِلَّهِ‏ یُحِبُّ کَثِیراً النَّصَبَ لِلَّهِ وَالْقَلْبُ اللَّاهِی عَنِ اللَّهِ یُحِبُّ الرَّاحَةَ
خدا سے محبت کرنے والا دل خدا کی راہ میں مصائب اور مشقت کو برداشت کرتا ہے اور وہ دل جو خدا کی یاد سے بے خبر ہو وہ سکون اور راحت طلب ہوتا ہے۔(3)

انسان اگر کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ اس کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور اس کی خاطر زحمتیں اور مشقتیں برداشت کرلیتا ہے،جس طرح ایک ماں اپنے بچے کے لیے زحمت اور مشقت برداشت کرکے اپنی نیندیں اس بچے پر قربان کر کے لطف اندوز ہوتی ہے اسی طرح منتظر واقعی بھی امام زمانہ علیہ السلام کی خاطر مختلف مشکلات اور سختیاں برداشت کرتا ہے یہ روایت اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہے: جو دل خدا سے محبت کرتا ہے وہ خدا کی راہ میں مشقتیں اور زحمتیں برداشت کرتا ہے لیکن وہ دل جو خدا کی محبت سے غافل اور عاجز ہے وہ سکون طلب اور سستی کا طالب ہوتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے ایک خوبصورت روایت میں اس دوستی کا معیار یوں بیان کیا ہے:
فَإِنَّ کُلَّ مَنْ خُیِّرَ لَهُ أَمْرَانِ: أَمْرُ الدُّنْیَا وَ أَمْرُ الْآخِرَةِ، فَاخْتَارَ أَمْرَ الْآخِرَةِ عَلَى الدُّنْیَا فَذَلِکَ الَّذِی یُحِبُّ اللَّهَ
جس شخص کو دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا جایے ، ایک دنیا ہے اور دوسری آخرت، اگر وہ آخرت کو ترجیح دے تو واضح ہو جائے گا کہ وہ اللہ سے محبت کرتا ہے۔لیکن اگر وہ دنیاوی معاملات کو آخرت پر ترجیح دے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس کے نزدیک خدا کی کوئی اہمیت نہیں ہے نعوذ باللہ اور خدا کی مرضی اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہے کہ ہماری محبت خدا کی نسبت کتنی گہری ہے؟ اور ہم اللہ تعالی کی کتنی قدر کرتے ہیں؟
حضرت امام مہدی عج کے اصحاب امام حسین (ع) کے اصحاب کی طرح خدا کی رضا اور آخرت کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں اور دنیا کے عہدوں، اور وقتی لذتوں کی خاطر اپنی آخرت کو برباد نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ انتہائی مشکل حالات میں بھی، وہ اپنے محبوب کی رضایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں پس امام مھدی ع کے اصحاب اس آیت کا مصداق تام ہے (یحبھم و یحبونه)

2.مؤمنين کے سامنے عاجز اور دشمنوں کے سامنے سرسخت ہونا:

منتظرین اور اصحاب امام زمانہ ع کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ مومنین کے آگے حلیم اور مہربان ہوتے ہیں اور کافروں کے لیے سرسخت ہوتے ہیں۔‘‘
أَذِلَّةٍ عَلَى المُؤمِنینَ أَعِزَّةٍ عَلَى الکافِرینَ
امام زمانہ علیہ السلام کے منتظرین اور اصحاب مومنین کے ساتھ تکبر، اور غرور سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں۔لیکن کفار اور منافقین کے سامنے نرمی سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں۔

3۔خدا کی خاطر جہاد کرنے والے:

امام ع کے اصحاب اور منتظرین ہمیشہ جہاد کے لیے تیار رہتے ہیں۔
(یجاھدون في سبيل للہ)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: امام مہدی کے اصحاب خدا کی راہ میں شہید ہونا چاہتے ہیں۔(4)
البتہ جہاد سے مراد جہاد اصغر اور جہاد اکبر دونوں ہیں-امام علی (ع) فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم (ص) نے اصحاب کے ایک گروہ کو کہیں فوجی آپریشن کے لئے بھیجا اور جب وہ واپس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا: "مبارک ہو تم لوگوں نے جہاد اصغر کوتو انجام دیا ہے لیکن جہادِ اکبر ابھی باقی ہے۔ اسی دوران اصحاب میں سے ایک صحابی نے پوچھا: یا رسول اللہ، جہاد اکبر سے کیا مراد ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنا سب سے بڑا جہاد ہے۔(5)
دینی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی سرزمین اور مسلمانوں کی جان ومال کی حفاظت اور دفاع اگرچہ واجب ہے ؛ لیکن اسے جہاد اصغر سے تعبیر کیا گیا ہے اور اپنے ھوا و ہوس کے خلاف لڑنے اور اپنی شہوتوں پر کنٹرول کرکے اپنے نفس سے لڑنے کو جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جی ہاں، امام زمانہ علیہ السلام کے حقیقی منتظرین ہمیشہ شياطين کا مقابلہ کرتے ہیں اور ہمیشہ عبادت الہی میں مشغول رہتے ہیں -امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: میں امام زمانہ علیہ السلام کےاصحاب کو دیکھ رہا ہوں گویا وہ سب سجدے میں ہیں وہ راتوں کو شب بیداری کرتے ہیں، عبادت الہی میں گزارتے ہیں اور دن کو جہاد میں مشغول رہتے ہیں یعنی جہاد بالنفس ۔(6)

4۔اچھے اخلاق کا مالک ہونا:

امام زمانہ ع کے اصحاب اور منتظرین کی ایک اور خصوصیت اچھے اخلاق کا حامل ہونا ہے۔
مختصر کروں امام زمانہ علیہ السلام کے اصحاب اور منتظرین کا تقویٰ، علم اور ان کی معرفت ایسی ہوتی کہ تمام کائنات ان کے آگے سر تسلیم خم کر دیتی ہے اور زمین و آسمان ان کے وجود پر فخر کرتے ہیں۔ خدا اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے نزدیک کسی بھی شخص کا مقام اس کے علم اور اخلاص کی وجہ سے ہی بلند ہوتا ہے لیکن چونکہ امام مہدی ع کے اصحاب کو کوئی نہیں جانتا، اس لیے ہر کوئی اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرسکتا ہے کہ وہ امام مہدی ع کے اصحاب میں شامل ہو جائے۔

منابع و ماخذ
(1)۔امالی صدوق، ص352.
(2)۔آل عمران/31.
(3)۔مجموعه ورام، ج2، ص87.
(4)۔بحارالانوار، ج52، ص307.
(5)۔معانی الاخبار، ج 1، ص160.
(6)۔بحارالانوار، ج 52، ص 386.

تحریر: عرفان حیدر بشوی
بشکریہ:حوزہ نیوز ایجنسی

ایکنا نیوز کے مطابق برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں انسانی حقوق کی صورتحال کا اندازہ ہے لیکن یہ ملک دنیا میں چونکہ تیل کا سب سے زیادہ پروڈیوسز ہے، اس لئے وہ اس کے ساتھ تعلقات بنائے رکھنے پر مجبور ہیں۔

 

سنیچر کے روز سعودی عرب میں 81 لوگوں کو موت کی سزا اور اس کے لندن – ریاض تعلقات پر ممنکنہ اثرات کے بارے  جب  برطانوی وزیر صحت ساجد جاوید سے سوال کیا گیا تو انہوں نے آل سعود کے سامنے اپنی کمزوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ روابط میں ہم پوری طرح صاف ہیں لیکن یہ بھی اہم ہے کہ ہم مانیں یا نہ مانیں ریاض دنیا میں تیل کی پیداوار کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔

 

ساجد جاوید نے کہا کہ روس یوکرین جنگ کے سبب جو عالمی پیمانے پر توانائي کے شعبے میں بحران پیدا ہوا، اس کے حل کے لئے برطانوی وزیر اعظم سمیت دنیا کے دوسرے لیڈروں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ معقول طریقے سے تعاون کریں۔

 

قابل ذکر ہے کہ برطانوی وزیر اعظم اسی ہفتے سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں جس کا مقصد سعودی ولیعہد کو تیل کا پروڈکشن بڑھانے کے لئے تیار کرنا ہے تاکہ عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمت کو قابو میں کیا جا سکے۔

سوال یہ ہے کہ کیا قرآن میں امام مہدی (ع) کا ذکر آیا ہے؟

جواب یہ ہے کہ شخصیات کو کبھی براہ راست متعارف کرایا جاتا ہے جس طرح سورہ آل عمران کی آیت 144 میں رسول اللہ (ص) کو متعارف کیا گیا ہے؛ کبھی اعداد کے ذریعے، جیسے سورہ مائدہ کی آیت 12 جیسے میں بارہ نقباء کو متعارف کیا گیا ہے، یا صفات و خصوصیات کے ذریعے متعارف کرایا جاتا ہے جس کی مثال سورہ اعراف کی آیت 157 ہے؛ یا سورہ مائدہ کی آیت 55 جس میں امیرالمومنین (ع) کی ولایت کا اعلان ہے لیکن یہ کام صفات و خصوصیات کے ذریعے انجام دیا گیا ہے-

موخرالذکر روش ـ جو صفات کے ذریعے کسی شخصیت کو متعارف کرایا جاتا ہے ـ شاید بہترین اور موثرترین روش ہے- کیونکہ یہ روش موقع پرستوں اور منفعت پرستوں کا راستہ روک لیتی ہے؛ کیونکہ نام کو جعل کیا جاسکتا ہے لیکن کسی کو خاص صفات سے متصف کرنا اور خصوصیات کا حامل بنانا آسان نہیں ہے-  چنانچہ خداوند متعال سورہ بقرہ کی آیت 247 میں طالوت کا تعارف نام لے کر کراتا ہے اور بعد کی آیت میں اس کی صفات اور نشانیاں بیان کرتا ہے-

ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مہدی (ع) کا نام بھی صریحا قرآن میں ذکر نہیں ہوا ہے جس طرح کہ امیرالمومنین (ع) اور دوسرے ائمہ (ع) کے نام بھی قرآن میں صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوئے ہے اور ناموں پر عدم تصریح مصلحتوں پر استوار ہے جو صرف اللہ کو معلوم ہیں؛ تاہم جان لینا چاہئے کہ نام ذکر کرنا شخصیات کے تعارف کا ذریعہ نہیں ہے اور صفات و خصوصیات سے بھی تعارف کرایا جاسکتا ہے؛ چنانچہ امیرالمومنین اور ائمہ معصومین (ع) کی طرح امام مہدی (ع) کو بھی صفات و خصوصیات کے ذریعے متعارف کرایا گیا ہے-

 


قرآن میں حضرت مہدی (ع) کو بعض خصوصیات اور صفات کے ذریعے متعارف کرایا گیا ہے؛

خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:

{وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ}- (1)  

"اور ہم نے ذکر (تورات) کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ اس آیت میں زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے"-

حافظ سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی امام باقر اور امام صادق (علیہما السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ "اس آیت میں خدا کے صالح بندوں سے مراد مہدی (عج) اور ان کے اصحاب ہیں"- (2)

مجموعی طور پر مہدویت کے تفکر کی جڑیں کلام الہی میں پیوست ہیں جو انسانی معاشرے کی، تمام پہلووں میں، عدل تک رسائی سے عبارت ہے- مہدویت کے محققین کی رائے کے مطابق قرآن کی 250 سے زائد آیات کا تعلق حضرت مہدی (ع) سے ہے اور اور رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومین (ع) سے مروی پانچ سو احادیث و روایات ان آیات کریمہ کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں- (3)  

لیکن ہم یہاں ان آیات کریمہ اور احادیث شریفہ کو بوجہ اختصار، ذکر کرنے سے معذور ہیں؛ شائقین ذیل کے منابع سے رجوع کرسکتے ہیں:

1- محمد عابدین زادہ ، مہدی در قرآن، ناشر: لاہیجی، چ 1380-

2- فروز رضا، مہدی در قرآن، ناشر رایحہ، چ 1376-

3- حسینی شیرازی، موعود قرآن، ناشر موسسہ امام مہدی-

4- حسینعلی سعدی، فصلنامہ تخصصی انتظار، شمارة 6، نام مقالہ: شناخت وصایای خورشید پنہان، ص 299-

5- گوردی یزدی، انتظار، ناشر سیمای ولایت، چ 1380-

6- علی اکبر تلافی، آیین انتظار، ناشر موسسہ فرہنگی نبا، چ 1378

7- علی اکبر مغیثی پور، انتظار فرج، نشر ایستا، چ 1380-

8- تحقیقات جمران، وظایف منتظران، نشر مسجد جمکران، چ 1379-

9- محمد جواد مولوی نیا- سیمای مہدویت در قرآن، ناشر: امام عصر، چ 1381-

 

مآخذ:

1- سورہ انبیاء (21) آیت 105-

2- ینابیع المودہ ـ ج 3 ص 243- عقد الدرر مقدس شافعی، باب 7، ص 217-

3- معجم احادیث المہدی، شیخ علی کورانی، ص 150-

 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ سید محمد علی علوی گرگانی (رہ) 1940ء میں نجف اشرف میں حضرت صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایام ولادت میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت سے آپ کے والد گرامی بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ سے پہلے ان کے ہاں چند بیٹوں کی پیدائش ہوئی تھی لیکن وہ بچپن میں ہی فوت ہو جاتے تھے۔ آپ کے والد گرامی نے بارگاہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام میں توسل کیا اور حضرت سے عالم و صالح فرزند کی درخواست کی۔

آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) کے والد گرامی آیت اللہ سید سجاد علوی ایک رات عالم خواب میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ حضرت نے انہیں عنقریب ایک بیٹے کی ولادت کی خوشخبری سنائی اور ان سے کہا کہ اس کا نام "علی" رکھنا۔

جب ان کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تو باپ نے پہلے سات دن کے مستحب کی رعایت کرتے ہوئے "محمد" نام رکھا اور پھر حضرت علی علیہ السلام سے وعدہ نبھاتے ہوئے ان کا نام "علی" نام رکھا۔

آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) کی عمر جب 7 سال ہوئی تو آپ اپنے باپ کے ہمراہ ایران آگئے اور قرائت اور قرآن کریم کی تعلیم کے بعد اپنے باپ کے پاس علوم عربی کی تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا اور کتاب مغنی، مطوّل اور کتاب اللمعہ کا کچھ حصہ اپنے باپ کے پاس ہی پڑا۔

جب ان کی عمر 16 سال ہوئی تو آپ اپنے والد اور علاقہ کے کچھ افراد کے ہمراہ زیارات عتبات عراق، بیت اللہ الحرام، بیت المقدس اور شام کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ وہ اس سفر کے دوران اپنے ہمسفر افراد کو شرعی اور دینی مسائل سے بھی آگاہ کرتے رہے۔

سفر حج کے بعد آپ نجف اشرف میں دینی تعلیم کے حصول کے لئے رہنا چاہتے تھے لیکن مرحوم آیۃ اللہ العظمی حکیم رحمتہ اللہ علیہ جب آپ کے والد بزرگوار سے ملنے کے لئے آئے اور آپ کے ارادے سے آگاہ ہوئے تو فرمایا "اگر یہ حوزہ علمیہ قم میں دینی تعلیم حاصل کریں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ حوزہ علمیہ قم فنِ تدریس اور فن خطابت دونوں سکھاتا ہے"۔ پس آپ حوزہ علمیہ قم آگئے اور

یہاں آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری، آیت اللہ شیخ ابوالقاسم قمی، آیت اللہ شیخ محمد علی حائری قمی، آیت اللہ مجاہدی تبریزی، آیت اللہ طباطبائی، آیت اللہ میرزا محمد فیض قمی، آیت اللہ شیخ محمد علی حائری قمی جیسے نامور اساتذہ کے سامنے زانوی تلمذ تہہ کیا اور چار سال کے مختصر عرصہ میں باقی ماندہ سطوح کی تعلیم حاصل کی۔

آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) نے اپنے دینی تعلیم کے دوران جن بزرگ اور نامور اساتذہ سے استفادہ کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں: آیت اللہ العظمی بروجردی(رہ) ، حضرت امام خمینی (رہ)، آیت اللہ العظمی سید محقق داماد(رہ)، آیت اللہ شیخ علی شاہرودی (رہ)، آیت اللہ شیخ محمد علی اراکی(رہ)، آیت اللہ مرتضیٰ حائری یزدی (رہ)۔

اس کے علاوہ آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) حوزہ علمیہ قم میں تعطیلات کے ایام میں موسم گرما میں نجف اشرف میں زیارات سے مشرف ہونے کے علاوہ سات سال تک جن بزرگ اساتذہ کے درس میں جاتے رہے وہ یہ ہیں: حضرت امام خمینی (رہ)، آیت اللہ العظمی خوئی (رہ)، آیت اللہ العظمی شاہرودی (رہ)، آیت اللہ العظمی باقر زنجانی (رہ)۔

آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) نے اپنی چالیس سالہ تدریس کے دورانیہ میں بے شمار فاضل علماء کی تربیت بھی کی جو اس وقت ملک کے مختلف علاقوں میں خدمت دین میں مشغول ہیں۔

آیت اللہ علوی گرگانی (رہ) نے زمانۂ طالب علمی کے اوائل سے ہی تبلیغ دین پر خصوصی توجہ دی اور ماہ مبارک رمضان کے ایام میں لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے تبلیغ دین کے لیے جاتے رہے۔ آپ 18 سال کی عمر تک ہر جمعرات اور جمعہ کو تہران میں مسجد فاطمیہ میں معارف اسلامی کے بیان کے لیے جاتے رہے۔

آپ نے فقہی، اصولی، حدیثی، رجالی اور دیگر دینی موضوعات پر متعدد کتب بھی تحریر کی ہیں۔ جن میں سے کچھ کتابیں جو شائع بھی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

المناظر الناضرة فی احکام العترة الطاهرة (ج ۱، بخشی از کتاب طهارت)

لئالی لاصول (۶ج. مباحث الفاظ و اصول عملیه)

نور الهدی فی التعلیق علی العروة الوثقی

التعلیقة علی تحریر الوسیلة (۲ ج)

اجوبة المسائل (۲ ج) –جوابات استفتائات از طهارت تا دیات.

انوار اخلاقی یا ره توشه پارسایان (۳ ج).

توضیح المسائل (عربی و اردو میں ترجمه ہو چکی ہے).

مناسک حج (عربی و اردو میں ترجمه ہو چکی ہے).

استفتائات و مناسک و ادعیه حج

احکام جوانان

احکام بانوان

کلید سعادت (خواتین کے لئے احکام و استفتائات و نصایح اخلاقی). تحریر:سید مجتی فاطمی

گلچینی از درسهای اخلاق

احکام کسب و کار

استفتائات حج و عمره

احکام خمس

روزه سپر مؤمن۔

اس کے علاوہ ان کی دسیوں کتابیں ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئی ہیں۔