سلیمانی

سلیمانی

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 6 مارچ 2022 کو یوم شجرکاری اور ہفتۂ قدرتی ذخائر کی مناسبت دو پودے لگانے کے بعد مختصر خطاب میں شجرکاری کو، پوری طرح سے ایک دینی و انقلابی قدم بتایا اور کہا: درختوں کی نگہداشت اور حفاظت بھی بہت اہم کام ہے جس پر عمل کیا جانا چاہیے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے تین شعبان کی مناسبت سے ایرانی قوم کو سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کی۔ خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمدللہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ‌ الطّاہرین و لعنۃ اللہ علی اعدائہم اجمعین.

سب سے پہلے میں پوری ایرانی قوم اور ان سبھی کی خدمت میں حضرت سید الشہداء علیہ الصلاۃ و السلام کے یوم ولادت باسعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، جو ہماری یہ بات سن رہے ہیں۔ حسین ابن علی سلام اللہ علیہ و صلوات اللہ علیہ کا مقدس وجود، ایرانی قوم اور شیعہ و غیر شیعہ سمیت تمام مسلم اقوام کی محبت و الفت کا مرکز ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ دن، ایرانی قوم کے لیے مبارک دن ہوگا اور ان شاء اللہ، رسول اکرم، امیر المومنین اور صدیقۂ طاہرہ سلام اللہ علیہم، ایرانی قوم اور تمام مسلم اقوام کو آج عیدی دیں گے۔

آج یوم شجرکاری ہے؛ بحمد اللہ گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی دو پودے لگانے اور اس سلسلے میں ہم سے جو کام ہو سکتا تھا، اسے انجام دینے کی توفیق حاصل ہوئي۔ ہمارے تمام برادران و خواہران عزیز یہ بات جان لیں کہ، درخت لگانا ایک دینی اور انقلابی کام ہے، ایک ایسا کام ہے جس کا منبع دین و انقلاب ہے اور آج جو بھی اس سلسلے میں سرگرم عمل ہے، اسے جان لینا چاہیے کہ وہ ایک انقلابی کام کر رہا ہے اور ایک دینی کام انجام دے رہا ہے۔ البتہ پودا لگانا، پہلا مرحلہ ہے، اگلا مرحلہ اس کی دیکھ بھال ہے؛ یعنی درختوں کی نگہداشت اور درختوں کی حفاظت بھی بہت اہم ہے، جس پر عمل کیا جانا چاہیے۔

خداوند عالم نے زندہ پودے کو بنی نوع انسانی کے لیے ہمہ گیر رزق کا منبع قرار دیا ہے؛ یعنی پودا، غذا کا بھی منبع بھی، دواؤں کا بھی منبع ہے، سانس لینے کا بھی منبع ہے، قدرت کے حسن و جمال کا بھی منبع ہے، دلنواز اور چشم نواز بھی ہے، روح کے لیے فرحت بخش اور انسانی جسم کا محافظ بھی ہے؛ پودا ایسا ہوتا ہے۔

بنابریں زندہ پودے لگانا اور زندہ پودے کی حفاظت کرنا، تمام انسانوں کی ایک اجتماعی اور عمومی ذمہ داری ہے کیونکہ سارے انسان، پودوں پر منحصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں تاکید کر رہا ہوں اور میں نے ہمیشہ تاکید کی ہے کہ جنگلوں کو کاٹنا، ماحولیات کو نقصان پہنچانا، سبزہ زاروں، درختوں اور پودوں کو تباہ کرنا، قومی مفادات کی تباہی اور معاشرے کے عمومی مفادات پر ضرب ہے؛ سبھی کو یہ جان لینا چاہیے کہ مثال کے طور پر ایک عمارت کی تعمیر یا ایک مرکز کی تعمیر کے لیے جنگل کے بعض حصوں کو کاٹنا، قطعی طور پر نقصان دہ ہے۔ البتہ بعض ایمرجنسی حالات میں یہ کام کیا جا سکتا ہے، لیکن بلاشبہ یہ کام، قوم اور قومی مفادات کے نقصان میں ہے۔

اس بات پر ہم سبھی کو توجہ رکھنی چاہیے کہ ماحولیات کا مسئلہ کوئي دکھاوے کا اور زینتی مسئلہ نہیں ہے؛ بعض لوگ سوچتے ہیں کہ ماحولیات کا مسئلہ، ایک سجاوٹی اور زینی مسئلہ ہے اور ملک کے بنیادی کاموں کے ذیل میں دوسرے درجے کا مسئلہ ہے؛ ایسا نہیں ہے۔ ماحولیات کا تحفظ ملک اور ملکی اداروں کے سب سے بنیادی اور ضروری کاموں میں سے ایک ہے۔

ماحولیات کے تحفظ میں سب سے سنجیدہ کاموں میں سے ایک، پانی اور مٹی ہے۔ بہت سے لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ پانی اور مٹی، دو عظیم قومی سرمایہ ہیں، تمام ا قوام کے دو حیاتی ذخیرے ہیں اور دنیا کے تمام ممالک میں ان کے سلسلے میں اسراف و فضول خرچی سے کام نہیں لینا چاہیے اور مٹی کو تباہ و برباد نہیں کرنا چاہیے۔ بنابریں پانی اور مٹی کے سلسلے میں فضول خرچی والا رویہ یقینی طور پر، قومی مفادات پر ضرب ہے۔ البتہ اس معاملے میں عہدیداروں کو ماہرین کی رہنمائیوں پر توجہ دینی چاہیے۔ البتہ پانی کے صحیح استعمال اور مٹی کے صحیح استعمال کے لیے بہت سے طریقے اور پالیسیاں ہیں؛ یہ چیز، اس فیلڈ کے ماہرین کے لیے واضح ہے؛ جو لوگ اس سلسلے میں مہارت رکھتے ہیں، انھیں عہدیداروں کی رہنمائي کرنی چاہیے، مدد کرنی چاہیے اور عہدیداروں کو اس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے۔

ایک اور موضوع جو ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میں پیش نظر ہے، وائلڈ لائف کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔ وائلڈ لائف اور پورے ملک کے جنگلوں، بیابانوں اور صحراؤں میں پھیلے ہوئے جانوروں کی طرف سے بے خبری، یقینی طور پر قومی مفادات کے لیے نقصان دہ ہے۔ غیر قانونی شکار کے مسئلے سے سنجیدگي سے نمٹنا چاہیے۔ اسلام کی مقدس شرع میں، شکار صرف اسی صورت میں جائز ہے جب کسی کو پیٹ بھرنے کے لیے شکار کی ضرورت ہو؛ اس کے علاوہ کسی بھی صورت میں شکار جائز نہیں ہے، شرعی طور پر شکار کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ آپ فقہی کتابوں میں دیکھیے، ان میں کہا گيا ہے کہ شکار کے لیے کیے جانے والے سفر میں نماز (قصر نہیں ہوگي بلکہ) پوری پڑھی جائے گي؛ یعنی یہ سفر، حرام سفر ہے؛ اس کے معنی یہی تو ہیں؛ یعنی یہ کام، ایک ناجائز کام ہے۔ اس پر توجہ ہونی چاہیے؛ وائلڈ لائف کا معاملہ بہت اہم ہے۔

ایک اور بات جو تحفظ ماحولیات کے ادارے سے متعلق ہے، زرعی زمینوں کی (دوسرے استعمال کے لیے) تبدیلی سے روکنا ہے، سننے میں آتا ہے کہ شہروں کے اطراف میں، شہروں کے قریب، بعض میدانی علاقوں میں بہت سی زرعی زمینوں کو، دوسرے کاموں کی زمین میں تبدیل کر دیا جاتا ہے؛ اس کام کو روکا جانا چاہیے، یہ یقینی طور پر قومی مفادات کے نقصان میں ہے۔ زرعی زمینوں کو بڑھایا جانا چاہیے اور یہ کام صرف تحفظ ماحولیات کے ادارے کا نہیں ہے؛ زرعی جہاد کی وزارت اور بعض دیگر ادارے بھی اس معاملے میں مؤثر ہیں۔

ماحولیات سے ہی متعلق ایک اور موضوع، نان فوسل یا غیر روایتی توانائيوں کا فروغ ہے؛ یعنی وہ توانائیاں جو تیل پر منحصر نہیں ہیں، جیسے ایٹمی توانائي جو آج دنیا میں روز بروز پہلے سے زیادہ رائج ہوتی جا رہی ہے اور ہمارے اطراف میں مختلف ممالک ایٹمی توانائي کی سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ شمسی توانائي، ہوائي توانائي (ونڈ انرجی) وغیرہ بہت ضروری چیزیں ہیں اور ماحولیات کا ادارہ اس سلسلے میں مؤثر ہے لیکن وزارت توانائي جیسے دوسرے اداروں کا بھی اس مسئلے میں بڑا اہم کردار ہے اور سبھی کو اس ذمہ داری پر عمل کرنا چاہیے۔

بنابریں ماحولیات سے متعلق مسائل پر کام، ایک بنیادی کام ہے، ایک ملکی کام ہے، ایک ایسا کام ہے جو قومی مفادات سے متعلق ہے اور سبھی کی ذمہ داری ہے۔ سرکاری عہدیداروں کو بھی اس پر توجہ دینی چاہیے اور ان شاء اللہ وہ یہ کام کریں گے۔ البتہ تمام اہم کام، قوم کی پشت پناہی سے انجام پاتے ہیں۔ آج یوم شجرکاری ہے اور قوم کے تمام افراد حقیقی معنی میں اس سلسلے میں مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں؛ یعنی درخت لگائيں، درختوں کی حفاظت کریں، شہروں میں یا شہروں کے اطراف میں موجود درختوں اور باغوں کو تباہ ہونے سے روکیں اور مدد کریں کہ یہ پیڑ پودے، مفید سبزہ اور ہریالی ان شاء اللہ ملک میں روز بروز بڑھتے جائيں۔ یہ کام، عوام کا کام ہے؛ وہ بھرپور انداز میں شریک ہو سکتے ہیں، پوری طرح سے حکومت اور عہدیداروں کی مدد کر سکتے ہیں اور ان شاء اللہ وہ یہ کام ضرور کریں گے۔

میں ایک بار پھر اپنے تمام عزیز عوام کو، اس بات کے تمام مخاطبین کو اور یہ بات سننے والے تمام سامعین کو اس روز عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور خداوند عالم سے سبھی کے لیے صحت و سلامتی کی دعا کرتا ہوں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 امریکہ-سعودی-متحدہ عرب امارات کے جارح اتحاد کی طرف سے ایندھن کے جہازوں کی مسلسل حراست کے نتیجے میں متعدد اداروں، دیہی اور مرکزی حکام اور ہسپتالوں نے اپنے داخلے کام کو ایک نازک صورتحال میں قرار دیا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ انہیں اقوام متحدہ کے اجازت نامے مل چکے ہیں۔

صبا کو دیے گئے بیانات میں انتباہ کیا کہ تیل سے ماخوذ کی کمی کے نتیجے میں کام رک گیا ہے، جس سے ہزاروں مریضوں کی زندگیاں موت کے منہ میں جا رہی ہیں۔

اعداد و شمار نے جارحیت اتحاد کو ایندھن کے برتنوں کی مسلسل حراست کے نتائج اور صحت کے شعبے پر ان کے اثرات، اور شہریوں کو طبی اور علاج کی خدمات کی کم سطح کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہرایا۔

ناکہ بندی کے جاری رہنے اور تیل سے نکلنے والے جہازوں تک رسائی سے انکار نے صحت کی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے، جس سے ہزاروں مریضوں کی موت واقع ہو گئی ہے، خاص طور پر توجہ مرکوز کیئر رومز، نرسریوں، آپریشنز، ڈائیلاسز سینٹرز اور دیگر میں۔

بیانات میں بین الاقوامی برادری، اقوام متحدہ، اور انسانی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پابندی ہٹانے، جارحیت کو روکنے اور تیل کی مصنوعات اور انسانی اور ادویات سازی کی امداد کے داخلے کی اجازت دینے کے لیے کام کریں۔

اس نے یمنی عوام کے خلاف ریاستوں کی جارحیت کے اس پیچیدہ جرم پر خاموشی اختیار کرنے پر اقوام متحدہ اور اس کی تنظیموں کی جان بوجھ کر انتہائی منفی سوچ کی مذمت کی۔

اس نے مرکزی اور دیہی اداروں اور ہسپتالوں سے کہا کہ وہ صف بندی اور ہم آہنگی کو مضبوط کریں اور بحری قزاقی میں جارحیت کرنے والی ریاستوں کے من مانی طریقوں اور تیل سے مشتق جہازوں کی حراست کے بارے میں دنیا کو پیغام دینے کے لیے احتجاج اور مارچ کریں۔

taghribnews.

صیہونی فوج نے ایک بار پھر دمشق کے مضافات پر میزائیل حملہ کیا جسے شامی فوج کے ایئر ڈیفنس سسٹم نے ناکام بنا دیا۔

نیوز ایجنسی سانا کے مطابق، پیر کی صبح صیہونی فوج نے دارالحکومت دمشق کے مضافات پر میزائل حملہ کیا جسے شام کی فوج کے ایئرڈیفنس سسٹم نے ناکام بنا دیا۔

صیہونی فوج نے گزشتہ کچھ ہفتوں میں کئی بار شام پر حملہ کیا ہے۔

صیہونی بمبار جہاز، لبنان کی فضائیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جولان ہائٹس سے آئے دن شام پر میزائل حملے کرتے ہیں ۔

لبنان میں تعینات اقوام متحدہ کی امن فورسز، متعدد رپورٹوں میں اس بات کا ذکر کر چکی ہے کہ صیہونی فوج ہر دن اقوام متحدہ کی قراراداد کی حلاف ورزی کرتی اور اسی طرح لبنان کی فضائیہ کی بھی خلاف ورزی کرتی ہے۔

مبصرین کی نظر میں شام پر صیہونی فوج کے آئے دن حملے خطے کو سنگین خطرات سے دوچار کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
http://www.taghribnews.com/vdcfjydtyw6djya.k-iw.html

یوکرین کی حکومت کی جانب سے یوکرین میں لڑنے کے لیے مختلف ممالک کے 16 ہزار کرائے کے فوجیوں پر مشتمل ایک "انٹرنیشنل کور" تشکیل دینے کے فیصلے اور شام میں التنف اڈے سے داعش کے کچھ افراد کو یوکرین منتقل کرنے کی امریکی سازش کے انکشاف کے بعد، امریکہ یہ خیال یوکرین میں لڑنے کے لیے کرائے کے فوجیوں اور داعش کے جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کے نتیجے میں رائے عامہ کے صدمے کو دور کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

وال اسٹریٹ جرنل ، جس کا مشن اس طرح کے امریکی خیال کا پرچار کرنا ہے، نے امریکی حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ ماسکو نے شامی افواج کو یوکرین میں لڑنے کے لیے 200 ڈالر میں استعمال کیا تھا ۔

قابل ذکر ہے کہ امریکی حکام نے وال سٹریٹ جرنل کے حوالے سے شامی جنگجوؤں کے لیے مختص کی گئی رقم 200 سے 300 ڈالر بتائی تھی، جس میں جنگجوؤں کی صحیح تعداد یا مقام کا حوالہ دیا گیا تھا۔

ہم نہیں جانتے کہ شامی افواج یوکرین میں کیسے لڑنے جا رہی ہیں، جب کہ ان کا ملک 11 سال سے امریکی اور تکفیری اتحاد سے لڑ رہا ہے۔ ایک ایسا اتحاد جس نے شام میں افراتفری اور عدم تحفظ پھیلانے کے لیے پوری دنیا سے دسیوں ہزار تکفیریوں اور کرائے کے فوجیوں کو بھرتی کیا ہے۔

ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ایک سپر پاور کے طور پر سب سے طاقتور فوج اور کھلے عام اور براہ راست یوکرین کے ساتھ جنگ ​​میں شریک روس کو یوکرین میں لڑنے کے لیے "بے شمار شامی جنگجوؤں" کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟!

ظاہر ہے کہ اس امریکی اخبار میں یہ دعویٰ خطے میں تکفیریوں اور دیگر اوزاروں کو بھرتی کرنے کے امریکی اقدام کو جواز فراہم کرنے اور داعش اور "انٹرنیشنل کور" کی منتقلی کے نتیجے میں عوامی رائے عامہ کو پہنچنے والے صدمے کو درست ثابت کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

.taghribnews.

Monday, 07 March 2022 21:40

پشاور سے التنف اڈے تک

پاکستان کے معروف اخبار جنگ نے اپنے ادارئیے میں لکھا ہے کہ سانحہ پشاور کی جو تفصیلات اب تک سامنے آئی ہیں، ان سے واضح ہے کہ یہ کارروائی عین اسی طریق کار کے مطابق انجام دی گئی، جو بالعموم مذہبی بنیادوں پر قائم دہشت گرد تنظیموں کے مختلف دھڑے ماضی میں اختیار کیا کرتے تھے۔ عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ سیاہ لباس میں ملبوس بمبار نے پہلے سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی، پھر منبر کے سامنے آکر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکے میں 5 سے 6 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا، جبکہ دھماکے سے متعلق کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ وقوعہ سے ڈیڑھ سو کے قریب بال بیئرنگ بھی ملے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے۔ اس بات کا درست ہونا خاصا قرینِ قیاس ہے، کیونکہ افغانستان میں بھی طالبان حکومت کے قیام کے بعد داعش کی جانب سے دہشت گردی کی کئی بڑی کارروائیاں کی جا چکی ہیں۔ داعش کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہ ایک پُراسرار مقاصد کی حامل مسلح تنظیم ہے، عالمی تکفیری دہشت گرد تنظیم داعش نے پشاور حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اور ان کی سائٹ پر اس حوالے سے باقاعدہ رسمی بیان جاری ہوا ہے۔

عجیب اتفاق ہے یا اس کے پیچھے کوئی سربستہ راز ہیں کہ جس روز پشاور میں یہ دلخراش سانحہ ہوا، اسی دن روس کے خفیہ ادارے نے ایک اہم خبر لیک کی۔ روس کی غیر ملکی انٹیلی جنس سروس نے جمعے کے روز ایک بیان میں کہا کہ امریکہ شام میں التنف اڈے پر داعش کے دہشت گردوں کو تربیت دے رہا ہے، تاکہ انہیں یوکرین بھیجا جا سکے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شام میں امریکہ کے زیر کنٹرول التنف اڈے میں داعش سے وابستہ دہشت گردوں کی تیاری اور تربیت کو یوکرین منتقل کرنے اور مشرقی یوکرین (ڈونباس) میں استعمال کرنے کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ 2021ء کے آخر میں، امریکیوں نے روس اور روس کی آزاد ریاستوں سے داعش کے درجنوں دہشت گردوں کو رہا کیا اور انہیں امریکہ کے زیر کنٹرول التنف اڈے پر بھیج دیا، جہاں وہ تخریب کاری کی کارروائیوں کی تربیت سمیت خصوصی کارروائیاں کریں گے۔

"روسی انٹیلی جنس سروس نے کہا ہے ان دہشت گردوں کو حصوصی طور پر یوکرین کے لئے تیار کیا جا رہا ہے اور ان کی توجہ ڈونیٹسک کے علاقے پر ہے۔" بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی اور امریکی مسلح افواج کی اسپیشل آپریشنز کمانڈ مغربی ایشیاء اور افریقی ممالک میں داعش کے نئے یونٹس بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہیں نیٹو انٹیلی جنس سروسز کے تعاون سے یوکرین منتقل کیا جانا ہے۔" "پولینڈ کے ذریعے یوکرین میں تخریب کاری اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شرکت داعش کے دہشت گردوں کے لیے نیا امریکی پروگرام ہے۔"

امریکہ کی طرف سے داعش سمیت تکفیری دہشت گردوں کی شام اور دیگر جگہوں سے یوکرین میں تربیت اور منتقلی کے بارے میں روس کا انتباہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنے مزموم مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردوں کی حمایت اور ہتھیاروں کے استعمال کے اپنے سابقہ ​​طرز عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سے پہلے امریکہ نے 2011ء میں شام میں بدامنی کے بعد دہشت گرد گروہوں کی حمایت اور مسلح کرنے کی پالیسی پر براہ راست عمل کیا تھا، جس کا مقصد شام کی جائز قانونی حکومت کا تختہ الٹنا اور مزاحمت کے محور کو کمزور کرنا تھا۔ جہاں تک عراق کا تعلق ہے، واشنگٹن نے وہاں بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا اور اب بھی حشد الشعبی نے بار بار داعش کے لیے امریکی حمایت اور اس کی جگہ کی منتقلی کے بارے میں خبردار کیا ہے۔

افغانستان کے معاملے میں، واشنگٹن نے ملک چھوڑنے سے پہلے اسی عمل کو دہرایا اور اپنے حریف اور افغانستان کے پڑوسی ملکوں پر حملہ کرنے کے لیے داعش کے دہشت گردوں کی حمایت کی۔ درحقیقت امریکہ کی عمومی پالیسی یہ ہے کہ دہشت گردوں کو اپنے دشمنوں پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اب یہ پہلا موقع ہے کہ جب براعظم یورپ میں روسی افواج اور ڈونیٹسک اور لوہانسک ملیشیا سے لڑنے کے لیے مشرقی یوکرین کے التنف اڈے پر تربیت یافتہ داعش دہشت گردوں کو بھیج کر ایسا کیا گیا ہے۔ بلاشبہ اس میں امریکہ اکیلا نہیں ہے اور نیٹو کا ایک اور رکن ترکی، جو پہلے تکفیری دہشت گردوں کو لیبیا اور قره باغ بھیجنے میں ایسے ہی تجربات کا حامل تھا، اب دہشت گردوں کو یوکرین بھیجنے کے درپے ہے۔
 
شام کے اسٹریٹجک تجزیہ کار سعید فارس السعید نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ ترکی کی انٹیلی جنس سروس (MIT) کی سرپرستی میں سینکڑوں دہشت گرد یوکرین میں داخل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ فارس السعید نے کہا کہ شام کے صوبے ادلب میں موجود 2500 دہشت گرد روس کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں۔ ترک انٹیلی جنس سروس ان دہشت گردوں کی پولینڈ اور پھر یوکرین منتقلی کی نگرانی کرے گی اور ان دہشت گردوں میں سے زیادہ تر کے پاس شامی، عرب یا چیچن شہریت ہے۔ ترکی دہشت گردوں کے پولینڈ اور وہاں سے یوکرین منتقل کرنے کے لیے ایک مثالی ملک ہے۔

اس طرح ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی جنہوں نے دہشت گردی کے معاملے پر ہمیشہ دوہرا معیار اپنایا ہے اور اپنے مفادات میں جہاں کہیں دہشت گردوں کو تقویت دی ہے، اب یورپ کے دل میں بھی ایسا ہی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یقیناً اس بار روس اور یوکرائن میں یہ کھیل کھیلا جائیگا۔ شام اور عراق میں تکفیری دہشت گردوں کے ماضی کے تجربات اور جرائم بتاتے ہیں کہ انہوں نے جنگ میں کسی بھی اخلاقی اور انسانی معیار کی کبھی پاسداری نہیں کی اور یقیناً اس بار دنیا یوکرین میں ان کے جرائم کا مشاہدہ کرے گی۔ پشاور کے واقعے اور روسی خفیہ ادارے کی رپورٹ دونوں کو ساتھ رکھ کر غور و خوض کیا جائے تو امریکی سائے میں انجام پانے والے بہت سے اقدامات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

مہر خبررساں ایجنسی نے روسیا الیوم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتین نے یوکرائن پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرائن نے 2014ء سے اب تک ڈونسک اور لوہانسک میں 14 ہزار شہریوں کو قتل کیا گیا، دونوں علاقوں میں 500 بچوں کو ہلاک یا معذور کیا گیا۔ روسی صدر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نام نہاد مہذب مغرب کی 8 برس سے اس پر خاموشی ناقابلِ برداشت ہے، ممکن ہے یہ سخت لگے مگر آوارہ کتے لوگوں پر حملہ کر رہے ہیں، وقت آتا ہے جب لوگ آوارہ کتوں کو زہر دیتے یا گولی مار دیتے ہیں۔ پوتین نے کہا کہ حد یہ ہے کہ یوکرائنی حکام صاف کہہ رہے تھے کہ 2 منسک معاہدوں پر عمل نہیں کریں گے، یوکرائن نے  منسک معاہدے پر عمل سے انکار کیا، جبکہ موردِ الزام روس کو ٹھہرایا گیا، سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کہنے پر اصرار بے معنی ہے۔

ایکنا نیوز کے مطابق پاکستان سنی تحریک کے سربراہ محمد ثروت اعجاز قادری نے کہا ہے کہ پشاور کی امامیہ مسجد میں خودکش حملہ کھلی دہشتگردی ہے، جس کی شدید مذمت کرتے ہیں، قصہ خوانی بازار کی امامیہ مسجد میں خودکش دھماکا ملک کے خلاف سازش ہے، درجنوں افراد کی شہادت پر پوری قوم افسردہ ہے، دہشتگردوں کے بزدلانہ حملوں سے خوفزدہ ہونے والے نہیں ہیں، شہداء کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں، حکومت اسپتالوں میں زخمیوں کو م سہولیات فراہم کرے۔

 

اپنے مذمتی بیان میں ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ دہشتگرد کسی معافی کے لائق نہیں، انہیں انہی کی زبان میں ہی جواب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نماز جمعہ کے دوران دہشتگردانہ کاروائی ملک کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک دشمن قوتوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ملک کیلئے مرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، تو ملک بچانے کیلئے تمہیں عبرت کا نشان بنانا بھی جانتے ہیں۔

 

 ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ دہشتگردی اور آخری دہشتگرد کے خاتمے تک قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان کو جو بھی کمزور کرنے کی ناپاک جسارت کرئے گا، پاکستان کا بچہ بچہ سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے پیچھے بھارت اور ملک دشمن قوتوں کا ہاتھ ملوث ہے، دہشتگرد ملک میں فرقہ وایت پھیلانا چاہتے ہیں، دہشتگردوں اور ملک دشمن قوتوں کی سازشوں کو اتحاد و یکجہتی سے ناکام بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے آخری سانس تک جدوجہد جاری رکھیں گے، پاکستان ہماری شان پہچان ہے، اس کیلئے قربان ہونا ہمارے لئے سعادت ہوگی.

ایکنا نیوز کے مطابق ایران میں اٹھتیسویں بین الاقوامی، ساتویں طلبا بین الاقوامی اور پانچویں اسپشل افراد کے مقابلوں کی اختتامی تقریب تھران آرٹ گیلری کے اندیشہ ہال میں منعقد ہوئی۔

«ایک کتاب، ایک امت»  کے نعروں سے شروع ہونے والے مقابلوں میں حفظ کل قرآن، قرائت تحقیق و ترتیل

مردوں، خواتین، طلبا اور بصارت سے محروم قرء میں منعقد ہوئے۔

 

ایکنا نیوز نے مقابلوں میں شامل خاتون جج سے گفتگو کی ہے جو حاضر خدمت ہے:

بلقیس حرب جعفر جو جامعة المصطفی(ص) العالیمه سے فارغ التحصیل ہے انہوں نے حفظ اور جج کا کورس ایران سے مکمل کیا ہےاور اس وقت لبنان میں سرگرم عمل ہے۔

 

لبنانی جج کا کہنا ہے کہ سات سالوں سے حفظ بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرتی رہی ہوں اور چار سال سے بطور جج فرائض انجام دیں رہی ہوں اور وقف و ابتدا کے حوالے سے نظارت کرتی ہوں اور میرے لیے خوشی کا باعث ہے کہ ایران میں بطور جج شریک ہوں۔

 

انکا کہنا تھا کہ حفظ و تجوید کے شعبے میں لبنان میں کافی پیشرفت ہوئی ہے اور لبنان کے کافی شہروں میں اس طرح کے مراکز کام کر رہے ہیں جنمیں «جمعیة القرآن الکریم» ہے جس کے مختلف برانچیز موجود ہیں اور میں خود اس مرکز سے پڑھ چکی ہوں، یہ مرکز مختلف مواقعوں جیسے بعثت حضرت رسول(ص) اکرم اور دوسرے مواقعوں پر پروگرامز منعقد ہوتے رہتے ہیں۔

 

بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کی اہم ترین بات «ایک کتاب، ایک امت»

 

انہوں نے اٹھتیسویں بین الاقوامی مقابلوں کے حوالے سے کہا: اس سال کورونا کی وجہ سے صورتحال بدل چکی ہے تاہم مشکلات کے باوجود مقابلے عیوب سے پاک تھے۔

 

انہوں نے مقابلوں کے انتظامات کے حوالے سے کہا: ججز کا ائیرپورٹ پر بہترین استقبال کیا گیا اور مجموعی طور پر بہترین ٹریٹمنٹ دی گیی۔

 

انہوں نے مقابلوں کے تمام مراحل کو بہترین قرار دیتے ہوئے کہا: ایران میں مقابلوں کا معیار اچھا تھا اور شیعہ سنی سے ہٹ کر بلاتفریق رویہ رکھا گیا اور یہ بہترین عمل تھا۔

انہوں نے ایرانی مقابلوں میں وحدت کی اہمیت کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا: اسی وجہ سے مقابلوں میں

«ایک کتاب ایک امت» کا عنوان رکھا گیا ہے ۔

بلقیس حرب نے بعثت رسول اکرم(ص) کے موقع پر مقابلوں کو منعقد کرانے کے حوالے سے کہا: کہ ایک امت ایک کتاب رکھنے سے ایران نے یہ پیغام دیا کہ ہم سب ایک ہیں اور قرآن کریم کریم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

 

انہوں نے آخر میں تمام منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور کہا: ہم پورے مقابلے دوران یوں محسوس کرتے رہیں کہ ہم اپنے ہی گھر میں موجود ہیں۔/

پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کے شہر اسکردو میں سانحہ پشاور کے شہید ہونے والے ایک نوجوان کا جلوس جنازہ تکفریت کے خلاف عظیم الشان احتجاج میں تبدیل ہوگیا۔

ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق، شہید مرتضی علی شاد کے جلوس جنازہ میں ہزاروں سوگوار مرد و خواتین نے شرکت کی اور تفکیری دہشت گردوں سے اپنی شدید نفرت و بیزاری کا اعلان کیا ۔ مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں ایسے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پرمسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کے حق میں نعرے درج تھے۔

مظاہرین بڑے پرجوش انداز میں لبیک یا حسین کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ مظاہرین، سانحہ پشاور میں ملوث عناصر اور سیکورٹی میں کوتاہی برتنے والے عناصر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔

واضح رہے کہ جمعہ کی نماز کے دوران پشاور کی جامع مسجد میں خونی واقعہ رونما ہوا جس میں63  افراد شہید اور 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
.taghribnews.
 

حضرت عباس علیہ السلام جو "ابوالفضل" اور "علمدار کربلا" کے نام سے مشہور ہیں حضرت علی علیہ السلام اور حضرت ام البنین کے فرزند ہیں۔ حضرت عباس (ع) شہنشاہ وفا اور ادب، شجاعت اور سخاوت کا پیکر ہیں ۔

حضرت عباس علیہ السلام ایمان ،شجاعت اور وفا کی بلندیوں پر فائز ہیں وہ فضل و کمال میں ، قوت اور جلالت میں اپنی مثال آپ ہیں ۔وہ اخلاص ،استحکام ،ثابت قدمی اور استقلال میں نمونہ عمل ہیں۔ حضرت عباس (ع) وفا ، ادب، شجاعت اور سخاوت کا مظہر ہیں۔وہ فضل و کمال میں ، قوت اور جلالت میں اپنی مثال آپ ہیں ۔وہ اخلاص ،استحکام ،ثابت قدمی اور استقلال میں نمونہ عمل ہیں۔ حضرت عباس 4 شعبان العمظم سن 26 ہجری قمری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔

حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت وبہادری اور ہر فضیلت و کمال فقط مسلمانوں کے لئے باعث فخر نہیں ہے بلکہ ہر وہ انسان جس کے اندر معمولی سی بھی انسانیت ہے وہ جناب عباس علیہ السلام کے فضائل و کمالات پہ ایمان رکھنے پہ فخر محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو جناب عباس علیہ السلام کا عقیدت مند کہنا اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہے۔

حضرت عباس علیہ السلام عظیم ترین صفات اور فضائل کا مظہر تھے شرافت ، شہامت ، وفا ، ایثار اور دلیری کا مجسم نمونہ تھے۔ واقعہ کربلا میں جناب عباس علیہ السلام نے مشکل ترین اور مصائب سے بھرے لمحات میں اپنے آقاومولا امام حسین علیہ السلام پر اپنی جان قربان کی اور مکمل وفا داری کا مظاہرہ کیا اور مصائب کے پہاڑوں کو اپنے اوپر ٹوٹتے ہوئے دیکھا لیکن ان کے عزم وحوصلہ، ثابت قدمی اور وفا میں ذرا برابر بھی فرق نہ پڑا اور یہ ایک یقینی بات ہے کہ جن مصائب کا سامنا جناب عباس علیہ السلام نے کیا ان پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا فقط اس کے لئے ہی ممکن ہے کہ جو خدا کا مقرب ترین بندہ ہو اور جس کے دل کو خدا نے ہر امتحان کے لئے مضبوط بنا دیا ہو۔

حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کی خاطر جتنی بھی قربانیاں دیں وہ اس لئے نہیں تھیں کہ امام حسین علیہ السلام ان کے بھائی ہیں بلکہ حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کو اپنا حقیقی امام، خدائی نمائندہ اور عین اسلام سمجھتے ہوئے ان کی خاطرتمام تر مصائب و مشکلات کو برداشت کیا اور اپنی جان ان پر قربان کر دی اور اس بات کا انھوں نے کئی بار اظہار بھی کیا اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام جب بھی امام حسین علیہ السلام کو پکارتے یا ان کا ذکر کرتے تو انھیں بھائی کی بجائے اپنا مولاو آقا اور امام کہتے۔ پس ادب کا کوئی ایسا رنگ نہیں جو حضرت عباس علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے حق میں اختیار نہ کیا ہو، کوئی ایسی نیکی نہیں جو انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ نہ کی ہو، کوئی ایسی قربانی نہیں کہ جو انہوں نے اپنے آقا امام حسین علیہ السلام کے قدموں پر نچھاور نہ کی ہو۔ جانثاری وفا،اور ایثار کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی، حضرت عباس،شیعوں  کے نزدیک،آئمہ (ع) کی اولاد میں اعلی ترین مقام و مرتبت رکھتے ہیں ۔

taghribnews.