سلیمانی

سلیمانی

عرب نیوز کے مطابق اٹلی کے اسلامی الاینس نے کھیتولک فاونڈیشن کے تعاون سے یوکراینی پناہ گزینوں کے لیے امدادی سامان جمع کرانے کی مہم شروع کی ہے۔

 

اسلامی الاینس کے بیان میں یوکراینی پناہ گزینوں کی امداد پر تاکید کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ہماری اقدار اور دعاوں میں انسانیت کے احترام پر تاکید کی جاتی ہے اور ہرچینل سے استفادہ کرنا چاہیے تاکہ پناہ گزینوں کی بہتر امداد ممکن ہوسکے۔

 

بیان میں مزید کہا گیا ہے: ہم تمام متاثرین کے لیے دعا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری جنگ بندی اور انسان دوستانہ امداد رسانی کے لیے راہ ہموار کرے گی۔

 

اسلامی الاینس اٹلی کے سربراہ یاسین لافرام نے روزنامه Il Resto del Carlino میں شایع آرٹیکل میں کہا ہے:

ہم مسلمان اپنے ثقافتی مراکز اور مساجد کھولے بغیر دوسروں کی مدد نہیں کرسکتے، آج یوکرائنی ہماری مدد کے طلبگار ہیں شاید کل ہمیں انکی مدد کی ضرورت پڑیں۔/

رہبر انقلاب اسلامی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یوم بعثت کی مناسبت سے ایرانی قوم اور امت مسلمہ سے ٹیلی ویژن پر براہ راست خطاب کیا۔
     

اپنے اس خطاب میں آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ یوکرین  امریکا کی بحران پیدا کرنے کی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: ہم یوکرین میں جنگ روکے جانے کے حامی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں جنگ ختم ہو جائے تاہم کسی بھی بحران کا حل تبھی ممکن ہے جب اس کی جڑوں کو پہچان لیا جائے، یوکرین کے بحران کی جڑ امریکہ کی بحران ساز پالیسیاں ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کو جدید جاہلیت کا واضح اور مکمل نمونہ بتاتے ہوئے کہا کہ دنیا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں امریکا میں زیادہ شدید اور زیادہ خطرناک جاہلیت ہے۔ امریکا ایک ایسی حکومت ہے جس میں ناپسندیدہ اخلاقیات اور بے راہ روی کی ترویج کی جاتی ہے اور وہاں امتیازی سلوک روز بروز زیادہ بڑھتا جا رہا ہے جبکہ قومی سرمایہ روز بروز دولتمندوں کی طرف بڑھایا جا رہا ہے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں مزید کہا: "داعش، امریکیوں کا پروردہ کتا تھا اور میری نظر میں آج یوکرین بھی اسی پالیسی کی بھینٹ چڑھا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یوکرین کے حالات، امریکی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور امریکا نے ہی یوکرین کو اس حالت تک پہنچایا ہے۔ اس ملک کے داخلی معاملات میں ٹانگ اڑانا، حکومتوں کے خلاف اجتماعات کرانا، طرح طرح کی بغاوتیں کرانا اور مخالفین کے اجتماعات میں امریکی سنیٹروں کی شرکت کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اسی کے ساتھ ہم یہ بھی واضح کر دیں کہ ہم دنیا میں ہر جگہ جنگ اور تخریب کاری کے خلاف ہیں، عوام کے مارے جانے اور اقوام کے بنیادی ڈھانچوں کے انہدام کو صحیح قرار نہیں دیتے اور یہ ہمارا اٹل موقف ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ہم مغرب والوں کی طرح نہیں ہیں کہ اگر بم افغانستان میں شادی کی تقریب پر گرایا جائے تو اسے دہشت گردی سے جنگ کا نام دے دیں! امریکا، مشرقی شام میں کیا کر رہا ہے؟ وہ لوگ شام کے تیل اور افغانستان کی ثروت کو کیوں چرا رہے ہیں؟ کیوں مغربی ایشیا کے علاقے میں صیہونیوں کے جرائم کا بچاؤ کرتے ہیں؟

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ہم یوکرین میں جنگ روکے جانے کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہاں پر جنگ ختم ہو لیکن کسی بھی بحران کا علاج صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب بحران کی جڑ کو تلاش کیا جائے۔ یوکرین میں بحران کی جڑ، امریکا اور مغرب والوں کی پالیسیاں ہیں، ان کی شناخت کی جانی چاہیے، اسی کی بنیاد پر فیصلہ کیا جانا چاہیے اور اگر اقدام ممکن ہو تو اقدام کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ عوام، ملکوں کی خودمختاری کا محور ہیں، اگر یوکرین کے عوام، میدان میں آ جاتے تو اس وقت یوکرین کی حکومت اور عوام کی حالت ایسی نہیں ہوتی۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے عید بعثت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناسبت سے اپنے خطاب میں ایرانی قوم اور دنیا کے تمام مسلمانوں کو عید بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے 'عقل پسندی کے فروغ' اور 'اخلاقی تعلیمات کی ترویج' کو اسلامی اقدار کی دو اہم کڑیاں بتایا اور کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے ذریعے ہی جاہلیت کے دور میں جزیرۃ العرب کے لوگ، جن کا خاصہ گمراہی، نادانی، بڑے بڑے فتنے، بے جا تعصب، تشدد اور ہٹ دھرمی، گھمنڈ، حق کو تسلیم نہ کرنا، اخلاقی و جنسی بے راہ روی جیسی برائياں تھیں، ایک متحد، قربانی دینے کے لئے آمادہ، بافضیلت، انتہائي اچھی صفات کے حامل اور دنیا کے با وقار عوام میں تبدیل ہو گئے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ انسانیت کے لیے اسلام اور بعثت کا سب سے بڑا تحفہ، جاہلیت سے مقابلے کے لیے 'تفکر و معقولیت' اور 'پاکیزگي اور اخلاقی تعلیمات' تھیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب میں وسیع پیمانے پر ماڈرن جاہلیت کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج جدید جاہلیت کا سب سے واضح اور مکمل مظہر، امریکا کی مافیا حکومت ہے جو بنیادی طور پر ایک بحران پیدا کرنے والی اور بحران کے سائے میں زندہ رہنے والی حکومت ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ بعثت اور اسلام نے اس بظاہر ناممکن کام کی راہ ہموار کر دی، کہا: بعثت کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ اگر عوام، الہی ارادے کی راہ میں آگے بڑھیں تو، انسانی اندازوں کے مطابق جن کاموں کی انجام دہی ناممکن نظر آتی ہے، انھیں بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں کے نظریے کے برخلاف آنحضرت کی تحریک کا نقطۂ عروج، حکومت کا قیام تھا جس کے لیے تمہیدی اقدامات خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انجام دیے۔

باکو میں خوبصورت فن معماری کی شاہکار مسجد بی بی هیبت واقع ہے جو حضرت فاطمه صغری (س)،‌دختر امام موسی کاظم (ع) کا مزار بھی ہے۔ اس مسجد میں ہرسال بڑی تعداد میں عاشقان اهل بیت (ع) جمهوری آذربایجان کے اندر اور باہر سے حاضری دیتے ہیں۔

آستان قدس رضوی نیوز- اسلامی عقائد و روایات کے مطابق ستائیس رجب المرجب کے دن خداوند متعال نے حضرت محمد مصطفے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسالت کے لئے مبعوث کیا تاکہ بشریت کی صراط مستقیم کی طرف ہدایت کر سکیں۔
یاد رہے کہ بعثت کے واقعہ کو چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے اس کے باوجود بھی ہرسال پوری دنیا میں مسلمان انتہائی عقیدت و احترام اور جوش و خروش سے جشن عیدمبعث مناتے ہیں   ۔
اسی مناسبت سے حرم امام رضا(ع) میں مختلف پروگراموں اور جشن ومحافل کا انعقاد کیا گیا ہے،شب عید مبعث  نماز مغربین کے فوراً بعد حرم امام رضا(ع) کے صحن انقلاب اسلامی میں عید مبعث  کی مناسبت سے خوشی کے نقارے بجانے کا پروگرام  ترتیب دیا گیا ۔عیدمبعث  کے جشن کا مرکزی پروگرام حرم امام رضا(ع) کے رواق امام خمینیؒ میں منعقد کیا گیا ہے جس کا آغاز زیارت امین اللہ کی قرائت سے ہوگا  اس کے بعد ملک کے مشہور منقبت خوان جناب حسین طاہری پیغمبر(ص) کی شان میں قصیدہ خوانی کریں گے   اور آخر میں حجت الاسلام والمسلمین مسعود عالی  کا خطاب ہوگا 
ہندوستان ، پاکستان اور دیگر ممالک سے تشریف لانے والے اردو زبان زائرین کے لئے حرم امام رضا(ع) کے رواق غدیر میں جشن کا اہتمام کیا گیا  ہے  جس میں زائرین کی کثیر تعداد نے شریک ہوں گے  ،جشن کا  آغاز قرائت قرآن اور زیارت امین اللہ سے ہوگا  اس کے بعد حجت الاسلام والمسلمین جناب عارف حسین تھہیم خطاب  کریں گے جشن کے اختتام پر زائرین میں حرم امام رضا(ع) کی انتظامیہ کی جانب سے متبرک تحائف بھی تقسیم کئے  جائيں کے 
عید مبعث  کے دن ساڑھے نو بجے سے جشن کے خصوصی پروگرامز شروع ہو ہوں گے  سب سے پہلے ولی عصر(عج) گروپ  مل کر پیغمبر گرامی اسلام(ص) کی شان میں قصیدے اور منقبت  پڑھیں گے ،اور اس کے بعد تہران کے امام جمعہ اورآئمہ جماعت کونسل کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین جناب محمد جواد حاج علی اکبری  خطاب کریں گے ،جشن کے اختتام پر حاج علی ملائکہ نے رسول خدا(ص) کی زیارت  کی تلاوت کریں گے 
شام کو دوبارہ ساڑھے چھ بجے سے زیارت رجبیہ کے ساتھ جشن کاانعقاد کیا جائے گا  جس میں ملک کے مشہور منقبت خواں جناب مہدی میرداماد  منقبت خوانی کریں گے جشن عید مبعث  کے اختتام پر حجت الاسلام والمسلمین مسعود عالی  سیرت نبوی کے موضوع پر خطاب کريں گے خطاب کے فوراً بعد گلدستہ ھای حرم گروپ  پیغمبر(ص) کی شان میں قصیدہ  خوانی کرے گا اور جناب حسین طاہری ن دعائے توسل کی قرئت کریں گے ۔

بعثت کا معنیٰ و مفہوم:

لفظ بعثت کی اصل بعث ہے جو عربی لفظ ہے۔ اسی کا حقیقی معنیٰ ابھارنا ہے(التحقیق فی کلمات القرآن ج ۱ ص ۲۹۵)۔

قرآن مجید میں یہ لفط موت کے بعد دوبارہ قبر سے اٹھائے جانے کے بارے میں استعمال ہوا ہےقرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہےمَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا ۔ہمیں ہماری قبروں سے کون اٹھائے گا۔(سورہ یا سین ۵۲) اور اسی معنیٰ میں قیامت کو یوم البعث کہا گیا ہے۔

اس کے علاوہ قرآن مجید میں یہ لفظ بھیجنے کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ (فطری اعتبار سے ) سارے انسان ایک قوم تھے ، پھر خدا نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے۔(سورہ بقرہ آیت ۲۱۳)

اور اصطلاح میں بعثت سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنی طرف سے ہادی و رہبر بھیجے۔ اسی لئے جس دن رسول اکرم ﷺپر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ کواپنا پیغام رسالت لوگوں تک پہنچانے کا حکم ملااس دن کو روز بعثت اور عید مبعث کہا جاتا ہے۔اور اس دن کے بعد سے ہجری تک کے زمانے کو سن بعثت کہا جاتا تھا۔

ضرورت بعثت:

دنیا کےتمام مذاہب و ادیان میں کسی نہ کسی صورت میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ان کی ہدایت کے لئےاللہ کی جانب سے کوئی ہادی و رہبر آیا ہے۔ مثلا عیسائی جناب عیسیٰ علیہ السلام اور ان سے قبل کے انبیاءکو اللہ کے پیغمبر مانتے ہیں،یہودی موسیٰ اور انبیاء بنی اسرائیل کو اللہ کے نمائندےسمجھتے ہیں،ہندو دھرم کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بھگوان وشنو، رام اور کرشن کے بھیس میں؛بھولے ناتھ شنکر، ہنومان کے روپ میں اور دیگر دیوتا لباس بشر میں انسانوں کی ہدایت کے لئے آئے۔ دنیا کےتمام انسانوں کایہ عقیدہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو ہر دور میں ایک الہی ہادی و رہبر کی ضرورت ہے، انسان صرف اپنی ناقص عقل کی بنیاد پر زندگی کا سفر طے نہیں کر سکتا۔

قرآن مجید بھی اس عقیدہ کی تائید کرتا ہےکہ ہر دور میں ایک ہادی و رہبر رہا ہےارشاد ہوتا ہے۔ إِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں ڈرانے والا نہ گذرا ہو۔ (سورہ فاطر آیت ۲۴)

قرآن مجید میں سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے۔لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‎﴿١٦٤﴾‏‏ خدا وند عالم نے مؤمنین پر احسان کیا انہیں میں ایک رسول کو بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات سناتا ہےاور ان کا تزکیہ کرتا ہےاور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

مذکورہ بالا آیت میں تعلیم و تربیت کو رسول کے اہم وظائف میں بتایا گیا ہے۔ کیوں کہ انسان جاہل پیدا ہوتا ہےاور جاہل انسان کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے اورصحیح راہ دکھانے کے لئےہادی و رہبر کا ہونا ضروری ہے۔اور اگر ہادی نہیں ہوگا تو لوگ جہالت کے تاریک سمندر میں غرق ہو جائےگیں۔ اس جانب آیت کے آخری حصہ میں اشارہ کیا گیا ہے کہإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‎ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔ جو ہادی کے نہ ہونے کا لازمہ ہے۔ اسی لئے اللہ ہر زمانے میںکسی نبی یا رسول کو بھیجا۔

 

مقصد بعثت :

بالائی سطور سے انبیاء الٰہی اور ہادیان بر حق کی ضرورت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ذیل میں ہم قرآ ن کریم کی رو سے انبیاء ِالٰہی کےاہم مقاصدکی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

(۱)خدا کی عبادت اور طاغوت سے پرہیز

خدا کے وجود کا عقیدہ انسان کے فطرت میں ہے۔ اس فطری غریزہ کی صحیح راہ کی جانب راہنمائی ضروری ہے ورنہ انسان کم عقلی اور صحیح تعلیمات سے دوری کی وجہ سےگمراہ ہو جائے گا۔شاید اسی لئے انبیاء الہی کی تمام تر تعلیمات کا دارومدار عقیدہ توحید رہا ہے۔تمام رسولوں کا یہی پیغام تھا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور غیر اللہ کے سامنے اپنا سر نہ جھکاؤ۔ انسان حقیقت توحید کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک غیر اللہ کی عبادت سے پرہیز نہ کرے اس لئےکہ دو متضاد چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی اس لئے خدا کی عبادت کے ساتھ طاغوت کی اطاعت سے پرہیز کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ کلمہ توحید میں بھی پہلے غیر اللہ کی نفی ہے پھر اللہ کی الوہیت کا اقرار ہے۔انبیاء کی تمام تر تعلیات کا دارمدار یہی پیغام تھا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ اور یقیناہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے پرہیز کرو۔(سورہ نحل ایت ۳۶)

اس آیت میں اللہ نے بعثت انبیاء کا مقصد اللہ کی عبادت اور طاغوت سے دوری بتایا ہے ۔تمام انبیاء کا پہلا پیغام یہی تھا کہ قولوا لا الہ اللہ تفلحواکہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور نجات پا جاؤ۔ یہ عقیدہ انسان کی شخصیت سازی کا معمارہےجس کا عقیدہ اللہ پر ہوگا وہ کبھی غیر اللہ کے سامنے سر نہیں جھکائے گا ۔ اور جو اللہ کے سامنے نہیں جھکے گا وہ ہر ایرے غیرے کے سامنےجھکا ہوا ملے گا ۔ اور جو اللہ کے سامنے سر جھکائے گا وہ دنیا میں بھی با عزت رہے گا اور آخرت میںکامیاب و کامران رہے گا اگر اس کامشاہدہ کرنا ہو تو دور حاضر میں ایران اور دیگر اسلامی ممالک کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایران کسی سوپر پاؤر کے اگے نہیں جھکا آج بھی سر بلند ہے ۔بقیہ ممالک ہر ایرے غیرے کے سامنے جھکے ہیں نتیجہ میں آج ذلیل و خوار ہیں۔

(۲)تعلیم کتاب و حکمت و تزکیہ نفوس

تعلیم انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے انسان جب دنیا میں آتا ہے تو جاہل آتا ہے ۔ اسی لئے اللہ نے اس کے لئے سب سے پہلے ایسے معلم کا انتظام کیا جسے اپنے پاس سے علم دے کر بھیجا ۔ اور ہر دور میں ایک معلم و ہادی کا انتظام کیا۔ تا کہ انسان اپنی جہالت و کم عقلی کی بنا پر راہ راست سے بہک نہ جائے۔

رسول اسلام ﷺ پر روز مبعث جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں ارشاد ہوا

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ‎﴿١﴾‏ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ‎﴿٢﴾‏ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ‎﴿٣﴾‏ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ‎﴿٤﴾‏ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ‎﴿٥﴾ اپنے پروردگار کے نام سے پڑھو جس نے خلق کیا ہے اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے۔ جس نےقلم کے ذریعہ تعلیم دی اور انسان کو سب کچھ بتایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔(سورہ علق)

رسول ﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی سے دو باتیں آشکار ہو جاتی ہیں ایک تعلیم ہے جو بعثت انبیاءکےبنیادی مقاصد میں سے ہے۔ دوسرے لباس و جود میںآنے کے بعد انسان سب سے پہلی ضرورت علم ہے۔

اور انسان حقیقت علم تک اس وقت تک نہیں پہونچ سکتا جب تک تعلیم کی منفی چیزوں کو دور نہ کرے اسی کا نام تزکیہ ہے ۔ تزکیہ انسان کے نفس کو اس لائق بنا دیتا ہے کہ انسان علم کی حقیقت کو درک کر سکے۔ اور اگر انسان بغیر تزکیہ کےلفظیں رٹ بھی لیتا ہے تو یہ علم اس کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتا۔ یہی وجہ کہ انسان اتنی ترقی اور علم کی اس بلندی پر ہونے کے باجود بھی پر سکون نہیں ہے اس کی حیرانی اور پریشانی کی وجہ حقیقت علم سے دوری ہے۔ جو بغیر تزکیہ کے نصیب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے انبیاء کے مقاصد میں تعلیم و تربیت قرآن مجید میں باربار بیان کیا گیا ہے سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے۔

’’پروردگار ان کے درمیان ایک رسول کو بھیج جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے بے شک تو عزیز و حکیم ہے۔‘‘

سورہ جمعہ میں ارشاد ہوتا ہے

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‎ ‎﴿٢﴾‏اللہ وہی ہے جس نے مکہ والوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

مندرجہ بالا آیات سے یہ واضح ہے تعلیم کتاب و حکمت و تزکیہ نفوس انبیاء کی بعثت کے اہم مقاصد میںسے ہے۔اور اگر تعلیم اور تزکیہ نہیں ہوگا انسان تو ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتابلکہ ہمیشہ گمراہی میں رہے گا جیسے بعثت سے قبل کے لوگوں کے لئے کہا گیا ہے کہ وہ گمراہی میں تھے۔

(۳)قیام عدل و انصاف

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عدل و انصاف معاشرہ کی بنیادی ضروریات میں سے ہیںکیوں کہ اگر معاشرہ میں عدل و انصاف نہیں ہوگا ایک دوسرے کے حقوق پائمال کئے جائیں گے۔ کمزوراوربے سہارا افراد کو ستایا جائے گا ۔اورمعاشرہ ظلم و ستم سے بھر جائے گا۔ اس لئے ہر ملک، ہر صوبہ اور ہر شہر و دیہات میں ایک حاکم کاانتخاب کیا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ معاشرہ کے مسائل کو حل کرے اور عد ل و انصاف قائم کرے۔

خداوندعالم نے روز اول سے اس ضرورت کا خیال رکھا اور ہر دور میںہادی عادل بھیجاتا کہ وہ لوگوں کے درمیان عد ل و انصاف کرے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تا کہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں شدید جنگ کا سامان ہے اور بہت سے فائدے ہیں ۔

مذکورہ آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ نے رسولوں کے ساتھ کتاب و میزان کو نازل کیا۔ اس لئے کہ عدل و انصاف کے لئے ایک پیمانہ اور معیار ہونا چاہیے جو اللہ نے رسولوںکو کتاب و میزان کی شکل میں دے کر بھیجا۔ اور معاشرہ میں عدل انصاف کا قیام اسان نہیں ہے اس کے لئے کبھی تلوار اٹھانا پڑے گی کھبی جنگ کرنا ہوگی اسی لئے اللہ نے آسمان سے لوہا بھی نازل کیا۔ تا کہ اس کے نمائندوں کو عدل و انصاف کے قیام میں کو ئی مشکل پیش نہ آئے۔

مذکورہ آیت میںایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ تاکہ لوگ عدل و انصاف کے ساتھ قیام کریں۔ یہ نہیں کہا گیا کہ انبیاء عدل و انصاف قائم کریں۔ بلکہ لوگ خود عدل و انصاف کو ساتھ قیام کریں گے۔یہ رہبران الٰہی کی معراج انصاف ہے کہ اگر انہیں عدل و انصاف کرنے دیا جائے تو وہ معاشرہ کو اس بلندی پر پہونچا دیں گے کہ پھر انہیں کسی عدل و انصاف کرنے والے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ لوگ خود عدل و ا نصاف سے قیام کرنے لگیں گے۔ خدا وندعالم ہمارےامام عادل کے ظہور میں تعجیل فرمائے عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرنے والوں میں سے قرار دے اور اس کے ظہور میں تعجیل فرما جو معاشرہ کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔آمین

تحریر: محمد تبریز

حوزہ نیوز ایجنسیl

 

حوزہ نیوز ایجنسی امام ابو جعفر جواد علیہ السلام سے مروی ہے کہ: ماہ رجب میں ایک رات ہے کہ وہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج چمکتا ہے اور وہ ستائیسویں رجب کی رات ہے کہ جس کی صبح رسول اعظم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ ہمارے پیروکاروں میں جو اس رات عمل کرے گا تو اس کو ساٹھ سال کے عمل کا ثواب حاصل ہوگا۔ میں نے عرض کیا اس رات کا عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : نماز عشا کے بعد سوجائے اور پھر آدھی رات سے پہلے اٹھ کر بارہ رکعت نماز دو دو رکعت کرکے پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد قرآن کی آخری مفصل سورتوں ﴿سورہ محمد سے سورہ ناس﴾ میں سے کوئی ایک سورہ پڑھے۔ نماز کا سلام دینے کے بعد سورہ حمد، سورہ فلق سورہ ناس، سورہ توحید، سورہ کافرون اور سورہ قدر میں سے ہر ایک سات سات مرتبہ نیز آیۃ الکرسی بھی سات مرتبہ پڑھے اور ان سب کو پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے:

ستائیس رجب کی رات کے اعمال اور دعائیں:

1- غسل کرنا.
2- بارہ رکعت نماز جو کہ امام محمد بن علي الجواد عليہما السلام سے مروی ہے.
3- زيارة الإمام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليہ السلام.
4- یہ دعا پڑھنا: "اَللّـهُمَّ إِنّي أَساَلُكَ بِالتَّجَلِي الأعْظَمِ في هذِهِ اللَّيْلَةِ مِنَ الشَّهْرِ الْمُعَظَّمِ...".

ستائیس رجب کے دن کے اعمال:

غُسل، روزہ رکھنا،اس دن کا روزہ ستر سال کے روزے کا ثواب رکھتا ہے۔کثرت سےمحمد وآل محمد پر درود بھیجنا۔زيارة خاتم الأنبياء وسيّد المرسلين محمد صلى الله عليه آلہ وزيارة الإمام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليہ السلام۔

تیس رکعت نماز پڑھنا ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد 10 مرتبہ سورہ توحید پڑھنا۔

شب مبعث کے اعمال

مستحب ہے کہ انسان شب بیداری کرے اور وارد شدہ اعمال کو بجالاءے ۔اعمال کی کیفیت مندرجہ ذیل ہے :

۱۲رکعت نماز ہے جس کی ہر رکعت میں سورہ سورۂ حمد کے بعد سورۂ محمد کی تلاوت کرے ۔اور ہر دو رکعت کے بعد سلام کے ساتھ نماز کو تمام کرے ۔۱۲ رکعت نماز تمام ہو جانے کے بعد سات مرتبہ چار وں قل کی تلاوت کرے ۔پھر سات مرتبہ انا انزلناہ اور آیۃ الکرسی کی تلاوت کرے اور اس کے بعد اس دعا کو پڑھے ۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدا وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِيرا اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعَاقِدِ عِزِّكَ عَلَى أَرْكَانِ عَرْشِكَ وَ مُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِكَ وَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ وَ ذِكْرِكَ الْأَعْلَى الْأَعْلَى الْأَعْلَى وَ بِكَلِمَاتِكَ التَّامَّاتِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَفْعَلَ بِي مَا أَنْتَ أَهْلُهُ .اپنی حاجت طلب کریں انشاء اللہ مستجاب ہو گی ۔

۲۔ زيارت حضرت امير المؤمنين عليہ السلام کہ اس رات کے افضل ترین اعمال میں سے ہے ۔

۳۔ شيخ كفعمى بلد الامين میں فرماتے ہیں کہ شب مبعث میں اس دعا کی تلاوت کریں :

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِالتَّجَلِّي [بِالنَّجْلِ‌] الْأَعْظَمِ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ مِنَ الشَّهْرِ الْمُعَظَّمِ وَ الْمُرْسَلِ الْمُكَرَّمِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا مَا أَنْتَ بِهِ مِنَّا أَعْلَمُ يَا مَنْ يَعْلَمُ وَ لا نَعْلَمُ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي لَيْلَتِنَا هَذِهِ الَّتِي بِشَرَفِ الرِّسَالَةِ فَضَّلْتَهَا وَ بِكَرَامَتِكَ أَجْلَلْتَهَا وَ بِالْمَحَلِّ الشَّرِيفِ أَحْلَلْتَهَا اللَّهُمَّ فَإِنَّا نَسْأَلُكَ بِالْمَبْعَثِ الشَّرِيفِ وَ السَّيِّدِ اللَّطِيفِ وَ الْعُنْصُرِ الْعَفِيفِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ أَنْ تَجْعَلَ أَعْمَالَنَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَ فِي سَائِرِ اللَّيَالِي مَقْبُولَةً وَ ذُنُوبَنَا مَغْفُورَةً وَ حَسَنَاتِنَا مَشْكُورَةً وَ سَيِّئَاتِنَا مَسْتُورَةً وَ قُلُوبَنَا بِحُسْنِ الْقَوْلِ مَسْرُورَةً وَ أَرْزَاقَنَا مِنْ لَدُنْكَ بِالْيُسْرِ مَدْرُورَةً اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَرَى وَ لا تُرَى وَ أَنْتَ بِالْمَنْظَرِ الْأَعْلَى وَ إِنَّ إِلَيْكَ الرُّجْعَى وَ الْمُنْتَهَى وَ إِنَّ لَكَ الْمَمَاتَ وَ الْمَحْيَا وَ إِنَّ لَكَ الْآخِرَةَ وَ الْأُولَى اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَذِلَّ وَ نَخْزَى وَ أَنْ نَأْتِيَ مَا عَنْهُ تَنْهَى اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِكَ وَ نَسْتَعِيذُ بِكَ مِنَ النَّارِ فَأَعِذْنَا مِنْهَا بِقُدْرَتِكَ وَ نَسْأَلُكَ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ فَارْزُقْنَا بِعِزَّتِكَ وَ اجْعَلْ أَوْسَعَ أَرْزَاقِنَا عِنْدَ كِبَرِ سِنِّنَا وَ أَحْسَنَ أَعْمَالِنَا عِنْدَ اقْتِرَابِ آجَالِنَا وَ أَطِلْ فِي طَاعَتِكَ وَ مَا يُقَرِّبُ إِلَيْكَ وَ يُحْظِي عِنْدَكَ وَ يُزْلِفُ لَدَيْكَ أَعْمَارَنَا وَ أَحْسِنْ فِي جَمِيعِ أَحْوَالِنَا وَ أُمُورِنَا مَعْرِفَتَنَا وَ لا تَكِلْنَا إِلَى أَحَدٍ مِنْ خَلْقِكَ فَيَمُنَّ عَلَيْنَا وَ تَفَضَّلْ عَلَيْنَا بِجَمِيعِ حَوَائِجِنَا لِلدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ ابْدَأْ بِآبَائِنَا وَ أَبْنَائِنَا وَ جَمِيعِ إِخْوَانِنَا الْمُؤْمِنِينَ فِي جَمِيعِ مَا سَأَلْنَاكَ لِأَنْفُسِنَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الْعَظِيمِ وَ مُلْكِكَ الْقَدِيمِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا الذَّنْبَ الْعَظِيمَ إِنَّهُ لا يَغْفِرُ الْعَظِيمَ إِلا الْعَظِيمُ اللَّهُمَّ وَ هَذَا رَجَبٌ الْمُكَرَّمُ الَّذِي أَكْرَمْتَنَا بِهِ أَوَّلُ أَشْهُرِ الْحُرُمِ أَكْرَمْتَنَا بِهِ مِنْ بَيْنِ الْأُمَمِ فَلَكَ الْحَمْدُ يَا ذَا الْجُودِ وَ الْكَرَمِ فَأَسْأَلُكَ بِهِ وَ بِاسْمِكَ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَعْظَمِ الْأَجَلِّ الْأَكْرَمِ الَّذِي خَلَقْتَهُ فَاسْتَقَرَّ فِي ظِلِّكَ فَلا يَخْرُجُ مِنْكَ إِلَى غَيْرِكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ الطَّاهِرِينَ وَ أَنْ تَجْعَلَنَا مِنَ الْعَامِلِينَ فِيهِ بِطَاعَتِكَ وَ الْآمِلِينَ فِيهِ لِشَفَاعَتِكَ اللَّهُمَّ اهْدِنَا إِلَى سَوَاءِ السَّبِيلِ وَ اجْعَلْ مَقِيلَنَا عِنْدَكَ خَيْرَ مَقِيلٍ فِي ظِلٍّ ظَلِيلٍ وَ مُلْكٍ جَزِيلٍ فَإِنَّكَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ اللَّهُمَّ اقْلِبْنَا مُفْلِحِينَ مُنْجِحِينَ غَيْرَ مَغْضُوبٍ عَلَيْنَا وَ لا ضَالِّينَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِعَزَائِمِ مَغْفِرَتِكَ وَ بِوَاجِبِ رَحْمَتِكَ السَّلامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ وَ الْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَ الْفَوْزَ بِالْجَنَّةِ وَ النَّجَاةَ مِنَ النَّارِ اللَّهُمَّ دَعَاكَ الدَّاعُونَ وَ دَعَوْتُكَ وَ سَأَلَكَ السَّائِلُونَ وَ سَأَلْتُكَ وَ طَلَبَ إِلَيْكَ الطَّالِبُونَ وَ طَلَبْتُ إِلَيْكَ اللَّهُمَّ أَنْتَ الثِّقَةُ وَ الرَّجَاءُ وَ إِلَيْكَ مُنْتَهَى الرَّغْبَةِ فِي الدُّعَاءِ اللَّهُمَّ فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ اجْعَلِ الْيَقِينَ فِي قَلْبِي وَ النُّورَ فِي بَصَرِي وَ النَّصِيحَةَ فِي صَدْرِي وَ ذِكْرَكَ بِاللَّيْلِ وَ النَّهَارِ عَلَى لِسَانِي وَ رِزْقا وَاسِعا غَيْرَ مَمْنُونٍ وَ لا مَحْظُورٍ فَارْزُقْنِي وَ بَارِكْ لِي فِيمَا رَزَقْتَنِي وَ اجْعَلْ غِنَايَ فِي نَفْسِي وَ رَغْبَتِي فِيمَا عِنْدَكَ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ .

سجده مین جاکر یہ کہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِمَعْرِفَتِهِ وَ خَصَّنَا بِوِلايَتِهِ وَ وَفَّقَنَا لِطَاعَتِهِ شُكْرا شُكْرا ۔سو مرتبہ سجدہ سے سر اٹھا کر یہ کہے:

اللَّهُمَّ إِنِّي قَصَدْتُكَ بِحَاجَتِي وَ اعْتَمَدْتُ عَلَيْكَ بِمَسْأَلَتِي وَ تَوَجَّهْتُ إِلَيْكَ بِأَئِمَّتِي وَ سَادَتِي اللَّهُمَّ انْفَعْنَا بِحُبِّهِمْ وَ أَوْرِدْنَا مَوْرِدَهُمْ وَ ارْزُقْنَا مُرَافَقَتَهُمْ وَ أَدْخِلْنَا الْجَنَّةَ فِي زُمْرَتِهِمْ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ .

ابوطالب علیہ السلام، امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے والد بزرگوار اور رسول اللہ (ص) کے چچا اور آپ (ص) کے والد ماجد کے سگّے بھائی ہیں دونوں کی والدہ بھی ایک ہے. انہوں نے اس بارے میں شاعری کی زبان میں فرمایا ہے:
لا تخذلا و انصرا ابن عمکما
اخی لامی من بینهم و ابی(1)
[بیٹو] اپنے چچا زاد بھائی کو تنہا مت چھوڑو اور اس کی مدد کرو
کہ وہ میرے بھائیوں کے درمیان والد اور والدہ دونوں کی طرف سے میرے بھائی کا فرزند ہے.

 

1. معروف عصر:

جناب ابو طالب (ع) اپنی شخصیت کی عظمت اور ہر لحاظ سے قدآور، طاقتور اور اپنے زمانے میں دین ابراہیم علیہ السلام کے مبلغ تھے.

 

2. ان کی قابل قبول روایتیں:

انہوں نے عصر جاہلیت میں ایسی نیک روایات کی بنیاد رکھی جن کو کلام وحی کی تائید حاصل ہوئی. (2) حضرت ابوطالب علیہ السلام «قسامہ» کے بانی ہیں جو اسلام کے عدالتی نظام میں مورد قبول واقع ہؤا۔ (3)


نیکوان رفتند و سنت ہا بماند
و زلئیمان ظلم و لعنت ہا بماند

نیک لوگ چلے گئے؛ ان کی سنتیں باقی رہ گئیں جبکہ لئیموں سے ظلم و لعنت کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہا

 

3. بندہ خدا:

ابو طالب جو «عبد مناف» کے نام سے مشہور تھے، اور عبدمناف کے معنی ہیں «بندہ خدا» یوں وہ رسول اللہ (ص) کے تیسرے جد امجد کے ہم نام بھی تھے۔ (4)

 

4. کفر کے خلاف جدوجہد:

وہ اپنے والد ماجد «حضرت عبدالمطلب» کی مانند یکتاپرستی کے راستے پر گامزن رہے اور کفر و شرک اور جہل کے زیر اثر نہیں آئے.

 

5. ان کے ایمان کے دلائل:

ان کی شاعری ان کے طرز فکر اور ان کے ایمان کو واضح کرتی ہے اور اس مضمون کے آخر میں ان کے بعض اشعار بھی پیش کئے جارہے ہیں.

 

6. خلوص قلب:

ویسے تو بہت ایسے واقعات تاریخ میں ثبت ہیں جن سے حضرت ابوطالب علیہ السلام کے خلوص دل اور صفا و طہارت قلب عیاں ہے. مگر ہم یہاں صرف ایک واقعہ بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ:
اہلیان حجاز پر قحط عارض ہؤا. لوگ – عیسائی و مشرک و جاہل و بت پرست اور دین حنیف کے پیروکار – سب کے سب مؤمن قریش حضرت ابوطالب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ کیونکہہ انہیں معلوم تھا کہ مکہ میں دین ابراہیم (ع) کے اس مروج و مبلغ جتنی کسی کو بھی خدا کی اتنی قربت حاصل نہیں ہے چنانچہ انہوں نے ان تشویشناک حالات میں ان ہی سے درخواست کی کہ اٹھیں اور "خدا سے باران رحمت کی درخواست کریں"ان کا جواب مثبت تھا اور ایسے حال میں بیت اللہ الحرام کی طرف روانہ ہوئے کہ ان کی آغوش میں «چاند سا» لڑکا بھی تھا. حضرت ابوطالب (ع) نے اس لڑکے سے کہا کہ کعبہ کو پشت کرکے کھڑا ہوجائے اور حضرت ابوطالب (ع) نے اس لڑکے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور خداوند متعال کی بارگاہ میں باران رحمت کی دعا کی. بادل کا نام و نشان ہی نہ تھا مگر اچانک آسمان سے بارش نازل ہونے لگی اور اس بارش نے حجاز کی پیاسی سرزمین کو سیراب کیا اور مکہ کی سوکھی ہوئی وادی کھل اٹھی.
وہ چاند سا لڑکا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوا کوئی اور نہ تھا (5) جنہیں ابوطالب ہی جانتے اور پہچانتے تھے کہ وہ خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں اور اسی بنا پر خدا سے ان کے صدقے باران رحمت کی دعا کی جو فوری طور پر قبول بھی ہوئی. حضرت ابوطالب علیہ السلام اسی حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں فرماتے ہیں:
و ابیض یستسقى الغمام بوجهه
ثمال الیتامى عصمة للارامل
وہ ایسا روشن چہرے والا ہے جس کے صدقے بادل پر باران ہوجاتے ہیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ہیں “


ہرکسی اندازہ روشن دلی
غیب را بیند بہ قدر صیقلی
ہرکہ صیقل بیش کرد او بیش دید
بیشتر آمد بر او صورت پدید
گر تو گویی کان صفا فضل خداست
نیزاین توفیق صیقل زآن عطاست

ہر کوئی اپنی روشن دلی کی سطح مطابق غیب کو دیکھتا ہے اپنے قلب کی صفا و خلوص کی حد تک جس نے جتنا دل کو زیادہ خالص کیا اس نے زیادہ ہی دیکھا اس کے لئے زیادہ سے زیادہ صورتیں نمودار ہوئیں اگر تو کہے کہ وہ صفا و خلوص فضل خداوندی ہے تو یہ تزکیہ و صیقل دل بھی اسی عطا کا حصہ ہے


7. رؤیائے صادقہ (سچا سپنا):

حضرت ابوطالب نے «حجر اسماعیل» میں ایک سچا خواب دیکھا کہ آسمان سے ان کی طرف ایک دروازہ کھل گیا ہے اور اس دروازے سے نور اور روشنی نیچے آکر ارد گرد کے ماحول کو روشن کررہی ہے.
بس عجب در خواب روشن می شود
دل درون خواب روزن می شود
آنچنان کہ یوسف صدیق را
خواب بنمودی و گشتش متکا

پس عجب ہے کہ خواب میں ہی روشن ہوتا ہے
خواب کے اندر دل دریچہ بن جاتا ہے
جیسا کہ یوسف صدیق کو خواب دکھائی دیا
اور یہی خواب ان کے لئے سہارا بن گیا


ابوطالب علیہ السلام اٹھے اور خواب تعبیر کرنے والوں کے پاس روانہ ہوئے. اور اپنے خواب کی تفصیل بیان کی.
مُعَبِّر نے کہا: بشارت ہو آپ کو! آپ کو بہت جلد ایک نہایت شرافتمند فرزند عطا ہوگا. ثقة الاسلام محمد بن یعقوب کلینی رحمة اللہ علیہ نے الکافی میں روایت کی ہے کہ جب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا نے حضرت ابوطالب علیہ السلام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کی خوشخبری سنائی؛ حضرت ابوطالب (ع) نے بھی ان کو علی علیہ السلام کی ولادت کی خوشخبری سنائی.(6)

 

8. رسول خدا(ص) کی سرپرستی:

حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کے بیٹوں میں حضرت ابوطالب (ع) برتر اخلاقیات کے مالک تھے؛ ان کی روش دوسرے بھائیوں کی نسبت زیادہ شائستہ تھی؛ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شدید محبت کرتے تھے اور آپ (ص) پر بہت مہربان تھے اور ان اوصاف کے علاوہ وہ رسول اللہ (ص) کے لئے نہایت عمیق عقیدت و احترام کے قائل تھے چنانچہ حضرت عبدالمطلب (ع) نے اپنے انتقال سے قبل ان کو حضرت رسول (ص) کا سرپرست مقرر کیا.

 

9. رسول خدا(ص) کی تربیت اور نگہداشت:

حضرت ابوطالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شدید محبت کرتے تھے؛ علاوہ ازیں وہ آپ (ص) کے روشن مستقبل سے آگاہ تھے اور انہیں معلوم تھا کہ آپ (ص) مستقبل میں رسالت الہیہ کے حامل ٹہریں گے؛ چنانچہ انہوں نے آپ (ص) کی پرورش و تربیت اور حفاظت کے سلسلے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا اور اس راستے میں انہوں نے قربانی اور ایثار کی روشن مثالیں قائم کیں اور ہر جگہ اور ہر مقام پر خطروں میں بھی آپ (ص) کو اپنے آپ پر مقدم رکھا. (7)

 

10. شریک حیات کو ہدایت:

سرپرستی کا اعزاز ملا تو رسول اللہ (ص) کو گھر لے آئے اور اپنی اہلیہ کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: «یہ میرے بھائی کے فرزند ہیں جو میرے نزدیک میری جان و مال سے زیادہ عزیز ہیں؛ خیال رکھنا! مبادا کوئی ان کو کسی چیز سے منع کرے جس کی یہ خواہش کریں » اور حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا بھی ایسی ہی تھیں اور ان کو پالتی رہیں اور ان کی ہر خواہش پوری کرتی رہیں اور رسول اللہ (ص) کے لئے مادر مہربان تھیں.(8)

 

11. مشرکین کے مد مقابل آہنی دیوار:

مورخین نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ: ابوطالب (ع) رسول خدا (ص) کو بہت دوست رکھتے تھے اور اپنے بیٹوں پر بھی اتنی مہربانی روا نہیں رکھتے تھے جتنی کہ وہ رسول اللہ (ص) پر روا رکھتے تھے؛ ابوطالب (ع) رسول اللہ (ص) کے ساتھ سویا کرتے تھے اور گھر سے باہر نکلتے وقت آپ (ص) کو ساتھ لے کر جاتے تھے؛ مشرکین نے ابوطالب علیہ السلام کے انتقال کے ساتھ ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آزار و اذیت پہنچانے کا وہ سلسلہ شروع کیا جو حیات ابوطالب (ع) میں ان کے لئے ممکن نہ تھا؛ چنانچہ رسول اللہ (ص) نے خود بھی اس امر کی طرف بار بار اشارہ فرمایا ہے.(9)

 

12. رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمنوں کو سزا:

ایک دفعہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد الحرام مین نماز ادا کررہے تھے کہ قریشی مشرکین نے اونٹ کی اوجڑی آپ (ص) کے جسم مبارک پر پھینک دی اور آپ (ص) کے کرتے کو آلودہ کیا. رسول اللہ (ص) حضرت ابوطالب(ع) کے پاس آئے اورفرمایا: چچاجان! آپ اپنے خاندان میں میرے رتبے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ ابوطالب نے کہا: پیارے بھتیجے ہؤا کیا ہے؟
رسول اکرم (ص) نے ماجرا کہہ سنایا. ابوطالب (ع) نے فوری طور پر بھائی حمزہ کو بلایا اور شمشیر حمائل کرکے حمزہ سے کہا: ایک اوجڑی اٹھالاؤ اور یوں دونوں بھائی قوم قریش کی طرف روانہ ہوئے جبکہ نبی اکرم (ص) بھی ان کے ہمراہ تھے. کعبہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے قریش کے سرداروں کے پاس پہنچے. جب انہوں نے ہاشمی بھائیوں اور رسول اللہ (ص) کو اس حالت میں دیکھا تو سب اپنا انجام بھانپ گئے. مؤمن قریش نے بھائی حمزہ کو ہدایت کی کہ اوجڑی کو قریشیوں کی داڑھیوں اور مونچھوں پر مل لیں. حمزہ نے ایسا ہی کیا اور آخری سردار تک کے ساتھ ہدایت کے مطابق سلوک کیا. اس کے بعد ابوطالب علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: جان سے پیارے بھتیجے یہ ہے آپ کا مقام و رتبہ ہمارے درمیان۔(10)
یوں قریشی مشرکین کو اپنے کئے کی سزا ملی اور قریش کے سرغنوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ «جب تک ابوطالب زندہ ہیں رسول اللہ (ص) کو حصول ہدف سے روک لینا، ممکن نہیں ہے.

 

13. بیٹے کو ہدایت:

جب غار حرا میں خدا کا کلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہؤا تو علی علیہ السلام آپ (ص) کے ہمراہ تھے چنانچہ آپ (ص) نے سب سے پہلے اپنے وصی و جانشین اور بھائی کو دعوت دی اور علی علیہ السلام نے لبیک کہتے ہوئے رسول اللہ (ص) کی امامت میں نماز ادا کی اور جب گھر آئے تو اپنے والد کو ماجرا کہہ سنایا اور کہا «میں رسول اللہ (ص) پر ایمان لایا ہوں تو مؤمن قریش نے ہدایت کی: «بیٹا! وہ تم کو خیر و نیکی کے سوا کسی چیز کی طرف بھی نھیں بلاتے اور تم ہر حال میں آپ (ص) کے ساتھ رہو».(11)

 

14. واضح و روشن حمایت:

جب آیت «وانذر عشیرتک الاقربین» (12) نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے رشتہ داروں کو بلا کر انہیں اپنے دین کی دعوت دی تو ان کی مخالفت کے برعکس حضرت ابوطالب علیہ السلام نے کہا: «یا رسول اللہ (ص)! آپ کی مدد اور نصرت ہمارے لئے بہت ہی زیادہ محبوب اور مقبول و پسندیدہ ہے؛ میں آپ کی خیرخواہی کی طرف متوجہ ہوں اور آپ کی مکمل طور پر تصدیق کرتا ہوں؛ جائیں اور اپنی ماموریت اور الہی فریضہ سرانجام دیں؛ خدا کی قسم میں آپ کی حفاظت کرتا رہوں گا اور کبھی بھی آپ سے جدائی پر راضی نہ ہونگا.(13)

 

15. تہدید دشمنان رسول خدا(ص):

ایک روز رسول اللہ (ص) گھر سے نکلے تو واپس نہیں ائے. حضرت ابوطالب علیہ السلام فکرمند ہوئے کہ مشرکین قریش نے کہیں آپ (ص) کو قتل ہی نہ کیا ہو؛ چنانچہ انہوں نے ہاشم اور عبدالمطلب کے فرزندوں کو اکٹھا کیا اور ان سب کو حکم دیا کہ : تیزدھار ہتھیار اپنے لباس میں چھپا کر رکھو؛ مل کر مسجدالحرام میں داخل ہوجاؤ اور تم میں سے ہر مسلح ہاشمی شخص قریش کے کسی سردار کے قریب بیٹھ جائے اور جب میں تم سے تقاضا کروں تو اٹھو اور قریش کے سرداروں کو موت کی گھاٹ اتارو.
ہاشمیوں نے حضرت ابوطالب کے حکم کی تعمیل کی اور سب کے سب مسلح ہوکر مسجدالحرام میں داخل ہوکر قریش کے سرداروں کے قریب بیٹھ گئے مگر اسی وقت زید بن حارثہ نے ان کو خبر دی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کوئی گزند نہیں پہنچی ہے اور بلکہ آپ (ص) مسلمان کے گھر میں تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں چنانچہ منصوبے پر عملدرآمد رک گیا مگر مؤمن قریش ہاشمی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرکین قریش کو رسول اللہ (ص) کے خلاف کسی بھی معاندانہ اقدام سے باز رکھنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: میرا بھتیجا گھر سے نکلا اور گھر واپس نہیں آیا تو مجھے اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں تم نے اس کو کوئی نقصان نہ پہنچایا ہو چنانچہ میں نے تمہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ پھر انہوں نے ہاشمی نوجوانوں کو حکم دیا کہ اپنے ہتھیار انہیں دکھا دیں. قریش کے سرداروں نے کانپتے ہوئے کہا: اے اباطالب! کیا تم واقعی ہمیں قتل کرنے کا ارادہ لے کر آئے تھے؟ فرمایا: اگر رسول اللہ کو تمہاری جانب سے کوئی نقصان پہنچا ہوتا تو میں تم میں سے ایک فرد کو بھی زندہ نہ چھوڑتا اور آخری سانس تک تمہارے خلاف لڑتا.(14)


واستان از دست دیوانہ سلاح
تا ز تو راضی شود عدل و صلاح
چون سلاح و جہل، جمع آید بہ ہم
گشت فرعونی جہان سوز از ستم

دیوانے کے ہاتھ سے ہتھیار چھین لو تا کہ عدل و صلاح تم سے راضی ہوجائے جب اسلحہ اور جہل ساتھ مل جائیں ظلم و ستم کے ذریعے جہان کو جلادینے والا فرعون جنم لیتا ہے

 

16. دین اسلام کے مبلغین کے حامی:

سنی عالم و مورخ و ادیب ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں:
ولولا ابوطالب علیه السلام وابنه
لما مثل الدین شخصا وقاما
فذاک بمکة آوی وحامی
وهذا بیثرب جس الحماما


اگر ابوطالب (ع) اور ان کا بیٹا (علی (ع)) نہ ہوتے مکتب اسلام ہرگز باقی نہ رہتا اور اپنا قدسیدھا نہ کرسکتا ابوطالب (ع) مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑہے اور علی (ع) یثرب (مدینہ) میں حمایت دین کی راہ میں موت کے بھنور میں اترے“

کثیر تعداد میں متواتر اخبار و روایات سے ثابت ہے کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام دین مبین کی ترویج کے سلسلے میں رسول اللہ (ص) کی مدد کیا کرتے تھے اور اپنے فرزندوں، اقرباء اور اہل مکہ کو آپ (ص) کی حمایت اور پیروی کی دعوت دیا کرتے تھے.
«عثمان بن مظعون» جو سچے مسلمان تھے ایک روز کعبہ کے ساتھ کھڑے ہوکر بت پرستوں کو ان کے مذموم روش سے منع کررہے تھے اور ان کو وعظ و نصیحت کررہے تھے. قریش کے نوجوانوں کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک نے عثمان پر وار کیا جس کے نتیجے میں ان کی ایک آنکھ زخمی ہوئی.
حضرت ابوطالب علیہ السلام کو اطلاع ملی تو انہیں سخت صدمہ پہنچا اور قسم کھائی کہ : جب تک اس قریشی نوجوان سے قصاص نہ لوں چین سے نہ بیٹھوں گا اور پھر انہوں نے ایسا ہی کیا. (15)


17. حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی قدردانی:

جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ان کی پذیرائی کی اور ان کی حمایت و سرپرستی کہ اور قریش کے نمائندے بھی انہیں مسلمانوں کے خلاف کرنے میں ناکام ہوئے.
وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
اور جو بھی تقوائے الہی اپنائے گا خداوند متعال اس کے لئے راہ نجات فراہم کرے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق و روزی عطا کرے گا جس کا وہ گمان بھی نہیں کرتا.(16)


از رہ پنہان کہ دور از حس ماست
آفتاب چرخ را بس راہ ہاست

ہمارے حس سے دور خفیہ راستے سے
آفتاب فلک کے لئے بہت سے راستے ہیں


ابوطالب علیہ السلام کو ایک الہی فریضہ سونپا گیا تھا اور وہ ایسی عظیم شخصیت کے سرپرست تھے جو خود کائنات کے سرپرست ہیں اور انبیاء کے سردار ہیں اور خدا کے بعد ان سے کوئی بڑا نہیں ہے؛ چنانچہ رسول اللہ کے دین کی ترویج بھی ان کی ذمہ داری تھی اور جو لوگ اس راستے میں آپ (ص) کی مدد و نصرت کرتے تھے ان کی قدردانی کو بھی وہ اپنا فرض سمجہتے تھے چنانچہ جب نجاشی نے مسلمانوں کو پناہ دی تو محسن اسلام نے ان کے حق میں اشعار لکھ کر روانہ کئے. نجاشی کو جب حضرت ابوطالب کے اشعار کا تحفہ ملا تو بہت خوش ہوئے اور انہوں نے جعفر ابن طالب (ع) کی قیادت میں حبشہ میں پناہ حاصل کرنے والے مسلمانوں کے احترام میں اضافہ کیا اور ان کی پذیرائی دو چند کردی.

 

18. رسول خدا (ص) کی حفاظت و حمایت:

قریش کے تمام مشرک قبائل نے شعب ابی طالب (ع) میں خاندان رسالت اور مسلمانوں کو مکہ سے جلاوطن کیا اور شعب ابی طالب (ع) میں ان کی ناکہ بندی کردی. یہ ناکہ بندی معاشی، سماجی اور سیاسی ناکہ بندی تھی. شعب ابی طالب اس وقت شہر مکہ سے باہر واقع ایک درہ تھا. یہ ناکہ بندی شدید ترین اقدام کے طور پر قریش کی طرف سے مسلمانوں پر ٹھونسی گئی تھی اور اس دوران پیغمبر اکرم (ص) اور آپ (ص) کے ہمراہ دیگر مسلمان و مؤمنین صرف حرام مہینوں اور ایام حج میں بیت اللہ الحرام آسکتے تھے اور حج اور عمرہ بجالاسکتے تھے اور اسی دوران تبلیغ اسلام بھی کیا کرتے تھے. اس دوران صرف حضرت ابوطالب علیہ السلام تھے جو پیغمبر کی حفاظت کرتے اور رات بہر جاگتے اور نبی اکرم (ص) کے سونی کے مقام کو تبدیل کرکے اپنے بیٹے علی علیہ السلام کو آپ (ص) کے بستر پر لٹایا کرتے تا کہ اگر دشمن حملہ کرنا چاہے تو نبی (ص) کی بجائے علی قربان ہوجائیں اور ایسا عمل صرف مؤمن قریش ہی کے بس میں تھا جو اپنے ایمان کی بنیاد پر بیٹے کو بآسانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتے تھے مگر علی علیہ السلام بھی اس قربانی پر سمعاً و طاعتاً راضی و خوشنود تھے. قریش نے ایک میثاق تحریر کی تھی جس پر ناکہ بندی کے حوالے سے متعدد نکات درج تھے اور یہ عہدنامہ کعبہ کی دیوار پر ٹانکا گیا تھا جسے ایک دیمک نے نیست و نابود کردیا تو ابوطالب علیہ السلام نماز شکر بجالانے بیت اللہ الحرام میں حاضر ہوئے اور وہیں انہوں نے مشرکوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مخالفین کو بددعا دی اور ان پر نفرین کردی.(17)

 

19. کلام نور میں ابو طالب کا مقام:

امام سجاد (ع) نے حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان کے بارے میں شک کرنیے والے افراد کے جواب میں فرمایا: عجب ہے کہ خدا اور اس کے رسول (ص) نے غیر مسلم مرد کے ساتھ مسلم خاتون کا نکاح ممنوع قرار دیا جبکہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا – جو سابقین مسلمین میں سے ہیں - حضرت ابوطالب علیہ السلام کے انتقال تک ان کے عقد میں رہیں".
کسی نے امام باقر(ع) کو بعض جھوٹی محدثین کی یہ جعلی حدیث سنائی کہ "ابوطالب (ع) [معاذاللہ] آگ کی کھائی میں ہیں!"
امام علیہ السلام نے فرمایا: "اگر ایمان ابوطالب (ع) ترازو کے ایک پلڑے میں رکہا جائے اور ان سب لوگوں کا ایمان دوسرے پلڑے میں تو ابوطالب (ع) کا ایمان ان سب پر بہاری نظر آئے گا".
"ابان بن محمود" نامی شخص نے امام رضا علیہ السلام کو خط میں لکہا کہ "میں آپ پر قربان جاؤں! میں ابوطالب کے ایمان کے سلسلے میں شک و تردید میں مبتلا ہوا ہوں".
امام علیہ السلام نے جواب میں تحریر فرمایا: " وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِیرًا
جو شخص حق ظاہر و آشکار ہونے کے بعد پیغمبر (ص) کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کی راہ کے سوا کسی دوسرے راستے کی پیروی کرے ہم اسے اسی راستے پر لے چلیں گے جس پر کہ وہ گامزن ہے اور اسے جہنم میں داخل کردیں گے اور جہنم بہت ہی بری جگہ ہے"(18) اما بعد جان لو کہ اگر تم ایمان ابوطالب کا یقین نہیں کروگے تو تم بھی آگ کی طرف لوٹا دئیے جاؤگے.(19)

 

20. ابو طالب علیہ السلام علی علیہ السلام کے والد ماجد:

ابوطالب (ع) کو اللہ تعالی نے ایک ایسے فرزند سے نوازا جو زمانے کے بہترین فرزند تھے. اس فرزند کی ولادت بھی ایسی ہوئی جس کی مثال اس سے پہلے کبھی بھی نظر نہیں آئی اور بعد میں میں بھی نظر نہیں آئے گی. اسی بنا پر وہ اپنے نومولود فرزند کے ساتھ خاص محبت رکہتے تھے. بعثت نبی (ص) سنہ 40 عام الفیل کو واقع ہوئی اور اس وقت علی علیہ السلام کی عمر شریف کے صرف دس برس بیت گئے تھے مگر حضرت ابوطالب نے اپنے اس فرزند کے بارے میں جو پیشین گوئیاں کی ہیں وہ سب ان کے ایمان اور اعتقاد راسخ پر دلالت کرتی ہیں. انہوں نے ایک شعر کے ضمن میں فرمایا: «علی کی ولادت کے ساتھ ہی کفر کی کمر خم ہوئی اور اس کی شمشیر کے ذریعے اسلام کی بنیادیں استوار اور مستحکم ہو جائیں گی" حضرت ابوطالب (ع) نے خداوند متعال سے اپنے بیٹے کے لئے نام منتخب کرنے کی درخواست کی تھی اور اسی درخواست کی بنا پر آسمانوں سے ایک «لوح لطیف» نازل ہوئی اور ابراہیم خلیل علیہ و علی نبینا و آلہ السلام کے وارث و جانشین حضرت ابوطالب علیہ السلام کی آغوش میں آپڑی. اس لوح پر لکہی ہوئی تحریر کے ذریعے حضرت ابوطالب اور حضرت فاطمہ بنت اسد علیہما السلام کو پاک و برگزیدہ فرزند کی ولادت کی خوشخبری سنائی گئی تھی اور اس فرزند کا نام «علی» رکہا گیا تھا.(20)

 

21. غم ہجران:

شعب ابی طالب (ع) میں ناکہ بندی کے دوران مؤمن قریش کو شدید صعوبتیں جہیلنی پڑیں اور شدید دباؤ اور مشکلات سہہ لینے کی وجہ سے حضرت ابوطالب کمزور ہوگئے چنانچہ ناکہ بندی کے خاتمے کے چھ مہینے بعد بعثت نبوی کے دسویں برس کو حضرت ابوطالب علیہ السلام وفات پاگئے جس کی وجہ سے حضرت رسول اللہ (ص) کو شدید ترین صدمہ ہوا اور بے تاب ہوکر اپنے چچا اور غمخوار کے سرہانے تشریف فرما ہوئے اور ان کے چہرے پر اپنے مقدس ہاتھ پھیر پھیر کر فرمایا: چچا جان! آپ نی بچپن میں میری تربیت کی؛ میری یتیمی کی دور میں آپ نے میری سرپرستی کی اور جب میں بڑا ہؤا تو آپ نے میری حمایت اور نصرت کی؛ خداوند متعال میری جانب سے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے. میت اٹھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنازے سے آگے آگے قبرستان کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں بھی محسن اسلام کے لئے دعائے خیر فرماتے رہے.(21)

 

22. اشعار ابو طالب علیہ السلام:

آخر میں حضرت ابو طالب علیہ السلام کی پر مغز اشعار کے کچھ ابیات پیش کئے جارہے ہیں جن سے کسی حد تک خدا اور اس کے رسول (ص) پر ان کی ایمان راسخ اور اعتقاد عمیق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
و الله لا اخذل النبی و لا
یخذله من بنی ذو حسب
اللہ کی قسم کہ میں نبی (ص) کو تنہا نہیں چہوڑوں گا اور
میرے فرزندوں میں سے بھی کوئی با شرف آپ (ص) کو تنہا نہ چہوڑے گا.
انہوں نے حبشہ کی بادشاہ کو اشعار کا تحفہ بھیجا تو ان اشعار کے ذریعے انہوں نے رسول اللہ (ص) پر اپنے ایمان و اعتقاد کے علاوہ انبیاء سلف علی نبینا و علیہم السلام کے بارے میں بھی اپنے ایمان و اعتقاد کی وضاحت کی اور نجاشی کو مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت کی ترغیب دلائی:
تعلم ملیک الحبش ان محمدا
نبی کموسی و المسیح ابن مریم
اتانا بهدی مثل ما اتیا به
فکل بامر الله یهدی و یعصم(22)
 

ای حبشہ کے بادشاہ جان لے کہ بتحقیق محمد (ص) نبی ہیں جیسے کہ موسی اور عیسی ابن مریم نبی ہیں وہ ہمارے پاس ہدایت لے کر آئے جیسا کہ وہ دونوں لائے تھے پس تمام انبیاء الہی خدا کے فرمان پر امتوں کی راہنمائی کرکے انہیں پلیدیوں اور گناہوں سے بچالیتے ہیں
ابوطالب علی علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اپنی وفاداری اور آپ (ص) کی حمایت کا یوں اظہار فرماتے ہیں:
والله لن یصلوا الیک بجمعهم حتی اوسد فی التراب دفینا و ذکرت دینا لا محالة انه من خیر ادیان البریة دینا(23)

اللہ کی قسم! کہ ان کا ہاتھ - سب مل کر بھی – آپ تک نہ پہنچ سکے گا جب تک کہ میں زمین کے سینے میں دفن نہ ہؤا ہوں اور جو دین آپ لائے ہیں اور آپ نے اس کی یادآوری فرمائی ہے بے شک و ناگزیر انسانوں کے لئے بھیجے گئے ادیان سے بہترین ہے


مآخذ‏:

1. بحارالانوار، ج 35، ص121.
2. ینابیع المودة، قندوزی حنفی، ج2، ص 10.
3. صحیح بخاری، ج 3، ص 196.
4. مجالس المومنین، قاضی نور اللہ شوشتری ،ج 1، ص 163.
5. السیرة الحلبیة، ج 1، ص 125،شرح نہج البلاغة، ج 3، ص 316،الملل و النحل، شہرستانی پاورقی،ص 255.
6. اصول کافی، شیخ کلینی، کتاب الحجة ،باب تولد امیرالمومنین، ص 301.
7. امام علی صدای عدالت انسانی، جرج جرداق، ترجمہ سیدہادی خسروشاہی، ج1 . 2، ص 74.
8. تاریخ انبیا، ج3، سیدہاشم رسولی محلاتی، ص 76.
9. تاریخ طبری ،ج 2، ص 229.
10. الکافی ج1 ص 449۔
11. امام علی صدای عدالت انسانی، ج 1.2، ص 77 . 78.
12. شعرا، 214.
13. الکامل، ابن اثیر، ج 2، ص 24.
14. طرائف، ص 85 و طبقات کبری، ابن سعد، ج 1، ص 302.303.
15. شرح نہج البلاغة،ج 3، ص 313.
16. سورہ طلاق آیات 2 و 3.
17. الغدیر، ج 7، ص 364 والکامل فی التاریخ، ج 2، ص 71.
18. نسا، 115.
19. الغدیر، ج 7، ص 36.
20. مناقب ،ابن شہر آشوب ،ج 2، ص 175.
21. تاریخ انبیا، ج 3، ص 218.
22. بحار الانوار، ج 35، ص 122 . 123.
23. بحار الانوار، ج 35، ص 122 . 123.

مؤلف: غلامرضا گلی زوارہ ذرائع: ترجمہ: ف.ح.مہدوی 

اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے کمانڈر پاکستان کے عسکری و سیاسی حکام سے ملاقات کے لئے اسلام آباد کے دورے پر ہیں۔

ایران کی فضائیہ کے کمانڈر جنرل حمید واحدی اتوار کو پاکستان کے دورے پر اسلام آباد پہنچے ہیں۔

جنرل حمید واحدی اپنے اس دورے میں اپنے پاکستانی ہم منصب ظھیر احمد بابر اور پاکستان کی دفاعی پیداوار کی وزیر زبیدہ جلال سے ملاقات و گفتگو کریں گے۔

جنرل واحدی کے دورہ پاکستان کا مقصد باہمی فوجی تعاون کے فروغ بالخصوص ٹریننگ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تجربات کے تبادلے پر گفتگو کرنا ہے۔ جنرل حمید احمدی کے پروگرام میں پاکستانی فضائیہ کے اڈوں اور کیڈٹ کالج کا دورہ بھی شامل ہے۔

  ایرانی پاستور انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ نے دنیا میں ایسے ممالک کی تعداد جو کورونا ویکسین تیار کرنے والے ممالک کی تعداد 10 ممالک ہیں جو ایران ان 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔

یہ بات ڈاکٹر  علیرضا بیگلری  نے  آج بروز اتوار 'کورونا، پبلک سیفٹی اور ہیلتھ' کے بارے میں قومی کانفرنس  کے موقع پر صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ ایران کورونا ویکسین کی تیاری کے مختلف پلیٹ فارمز اور طریقوں میں داخل ہونے میں کامیاب رہا اور اس میدان میں کامیاب ہوا جس سے ویکسین ٹیکنالوجی کے میدان میں ملک کی شاندار ترقی اور کامیابی کا پتہ چلتا ہے۔

بیگلری نے بتایا کہ اگرچہ گزشتہ مہینوں میں اس شعبے میں ملک میں کوتاہیاں موجود تھیں لیکن آج ہمارے ہم وطن اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ اگر  تیسری اور چوتھی خوراک کی ضرورت ہو‏ئے ملکی کمپنیاں اس ویکسین کو تیار کر سکتی ہیں۔

 انہوں نے پاسٹوکووکس ویکسین سے لوگوں کے اچھے استقبال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بہت سے ممالک بشمول ہمسائہ ممالک نے اس ویکسین کا بہت خیر مقدم کیا ہے جو یہ ملک کے لیے باعث فخر ہے