سلیمانی

سلیمانی

Tuesday, 22 February 2022 05:44

تکبر باعث نفرت ہے

حب ذات “ کاغریزہ انسانی فطرت میں ان بنیادی غرائز میں سے ہے جو بقائے حیات کے لئے ضروری ہے، انسان کی اپنی حیات سے دلچسپی اور اس کی بقاء کے لئے کوشش کا سر چشمہ یھی ” حب ذات“ ہے ، اگر چہ یہ فطرت کا عطا کردہ ذخیرہ ایک بھت ھی نفع بخش طاقت ہے اور بھت سے پسندیدہ صفات کو اسی غریزہ کے ذریعہ انسان میں پیدا کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن اگر یہ غیر معقول صورت میں اور بطور افراط نمایاں ھو جائے تو مختلف برائیوں اور اخلاقی انحرافات کا سبب بھی بن جاتا ہے ۔

فضائل اخلاقی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ”حب ذات “ میں افراط ہے ۔ کیونکہ حب ذات میں افراط کا نتیجہ یہ ھوتا ہے کہ پھر اس کے دل میں دوسرے افراد سے محبت کرنے کی جگہ ھی باقی نھیں رھتی اور یھی حب ذات میںافراط انسان کو اپنی غلطیوں کے اعتراف سے روکتا ہے اور ان حقائق کے قبول کرنے پر تیار نھیں ھونے دیتا ، جن سے اس کے تکبر کا شیشہ چور ھو جاتا ھو ۔

پروفیسر روبنیسون کھتا ہے: ھم کو بارھا یہ اتفاق ھوتا ہے کہ خود بخود بغیر کسی زحمت و پریشانی کے اپنا نظریہ بدل دیتے ھیں ۔لیکن اگر کوئی دوسرا ھمارے نظریہ کی غلطی یا اشتباہ پر ھم کو مطلع کرے تو پھر دفعةً ھم میں ایک انقلاب پیدا ھو جاتا ہے اور ھم اس غلطی کو تسلیم نھیں کرتے بلکہ اس کا دفاع کرنے لگتے ھیں ھم کسی بھی نظریہ کو خود بڑی آسانی سے قبول کر لیتے ھیں ۔ لیکن اگر کوئی دوسرا ھم سے ھمارا نظریہ چھیننا چاہے تو ھم دیوانہ وار اس کا دفاع کرنے لگتے ھیں ۔ ظاھر سی بات ہے ھمارے عقیدہ و نظریہ میں کوئی مخصوص رابطہ نھیں ہے صرف اسکی وجہ یہ ہے کہ ھماری خود خواھی و تکبر کی حس مجروح ھوتی ہے ۔ اس لئے ھم تسلیم نھیں کرتے اور اسی لئے اگر کوئی ھم سے کہے کہ تمھاری گھڑی پیچہے ہے یا تمھاری گاڑی بھت پرانے زمانہ کی ہے تو ممکن ہے کہ ھم کو اتنا ھی غصہ آ جائے جتنا یہ کھنے پر آتا ہے کہ تم مریخ کے بارے میں جاھل ھو یا فراعنہ مصر کے بارے میں تمھاری معلومات صفر کے برابر ہے ۔ ( آخر یہ غصہ کیوں آتا ہے صرف اس لئے کہ ھمارے تکبر اور ھماری انانیت کو ٹھیس نہ لگ جائے )

انسانی نیک بختی اور بشری سعادت کی سب سے بڑی دشمن ”خود پسندی “ ہے لوگوں کی نظروں میں تکبر و خود پسندی جتنی مذموم صفت ہے کوئی بھی اخلاقی برائی اتنی نا پسند نھیں ہے ۔ خود پسندی الفت و محبت کے رشتہ کو ختم کر دیتی ہے ۔ یگانگت و اتحاد کو دشمنی سے بدل دیتی ہے اور انسان کے لئے عمومی نفرت کا دروازہ کھول دیتی ہے انسان کو چاھئے کہ وہ جتنا دوسروں سے اپنے لئے احترام و محبت کا خواھشمند ھو ، اتنا ھی دوسروں کی حیثیت و عزت و وقار کا لحاظ کرے اور ان تمام باتوں سے پرھیز کرے جن سے حسن معاشرت کی خلاف ورزی ھوتی ھو یا رشتھٴ محبت کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ھو ۔ لوگوں کے جذبات کا احترام نہ کرنے سے اس کے خلاف عمومی نفرت کا جذبہ پیدا ھو جاتا ہے اور خود وہ شخص مورد اھانت بن جاتا ہے ۔

معاشرے میں ھر شخص کے حدود معین ھونا چاھئیں۔ ایک شخص اپنی شائستگی اور لیاقت کے اعتبار سے لوگوں کی مخلصانہ محبت و احترام کو حاصل کرتا ہے لیکن جو شخص چھار دیواری میں محصور ھوتا ہے اور تکبر اس کے مکان وجود کو مسخر کر لیتا ہے وہ صرف اپنی خواھشات کو پیش نظر رکھتا ہے اور دوسروں کے حقوق کا بالکل لحاظ نھیں کرتا ۔ اور وہ اپنی سی کوشش کرتا ہے کہ معاشرے میں جس طرح بھی ھو مشھور و محترم ھو جائے اور اپنی موھوم برتری کو معاشرے پر بھی لادنا چاھتا ہے اور یھی بے موقع اصرار و توقع لوگوں کو اس سے متنفر بنا دیتا ہے اور پورا معاشرہ اس سے شدید نفرت کرنے لگتا ہے اور اس کو تکلیف پھونچانے پر اتر آتا ہے اور یہ شخص ( متکبر ) مجبورا ً قلبی اضطراب و روحی تکلیف کے ساتھ خلاف توقع ان مصائب و تکالیف کو برداشت کرتا ہے ۔

تکبر کا لازمہ بد بینی ہے، متکبر کی آتش بد گمانی کا شعلہ ھمیشہ بھڑکتا رھتا ہے اور وہ سب ھی کو اپنا بد خواہ اورخود غرض سمجھتا ہے اس کے ساتھ مسلسل ھونے والی بے اعتنا ئیوں اور اس کے غرور کو چکنا چور کر دینے والے واقعات کی یادیں اس کے دل سے کبھی محو نھیں ھوتیں اور بے اختیار و نا دانستہ اس کے افکار اس طرح متاثر ھو جاتے ھیں کہ جب بھی اس کو موقع ملتا ہے وہ پورے معاشرے سے کینہ توزی کے ساتھ انتقام پر اتر آتا ہے اور جب تک اس کے قلب کو آرام نہ مل جائے اس کو سکون نھیں ملتا ۔

جب خود پرستی و تکبر کا اھرمن انسان کی فطرت میں اثر انداز ھو جاتا ہے اور انسان اپنی اس روحانی بیماری کی وجہ سے ” احساس حقارت “ میں مبتلا ھو جاتا ہے ، تو پھر یھی بیماری رفتہ رفتھ” عقدہ حقارت “  میں تبدیل ھو جاتی ہے ۔پھر یھی چیز بھت سے خطرات کا مرکز اور مختلف جرائم کا منبع بن جاتی ہے اور متکبر کو روز افزوں شقاوت و بد بختی کی طرف کھینچتی رھتی ہے ۔ اگر آپ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ فرمائیں تو یہ حقیقت آپ پر منکشف ھو جائے گی اور آپ کو یہ بھی معلوم ھو جائے گا کہ جو لوگ انبیائے الٰھی کی مخالفت کرتے رھتے تہے اور حق و حقیقت کے قبول کرنے سے اعراض کرتے رہے تہے وہ ھمیشہ دنیا کی خونیں جنگوں میں اس بات پر راضی رھتے تہے کہ ھستی بشر سر حد مرگ تک پھونچ جائے اور یہ جذبہ ھمیشہ حاکمانِ وقت کے غرور و خود پرستی ھی کی بنا پر پیدا ھوتا تھا ۔

آپ نے دیکھا ھو گا کہ پست اقوام و پست خاندان میں پرورش پانے والے افراد جب معاشرہ میں کسی اچھی پوسٹ پر پھونچ جاتے ھیں تو وہ متکبر ھو جاتے ھیں ۔ اور اس طرح وہ اپنی اس حقارت و ذلت کا جبران کرنا چاھتے ھیں  جو پستیٴ خاندا ن کی وجہ سے ان کے دامن گیر تھی ، ایسے لوگ اپنی شخصیت کو دوسروں کی شخصیت سے ماوراء سمجھتے ھیں ۔ اور ان کی ساری کوشش یھی ھوتی ہے کہ اپنی شرافت کا ڈھنڈھورا پیٹیں ۔ محترم پڑھنے والے اپنے ارد گرد اس قسم کے لوگوں کو دیکہ سکتے ھیں ، جو شخص واقعی بر جستہ پر ارزش ھوتا ہے وہ اپنے اندر کبھی بھی اس قسم کا احساس نھیں کرتا اور نہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اپنی بزرگی کی نمائش کرے ، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خود نمائی سر مایہ ٴ برتری نھیں ہے ، اور غرور و تکبر نے نہ کسی کو شائستگی بخشی ہے اور نہ کسی کو عظمت و سر بلندی کی چوٹی پر پھونچا یاہے ۔

ایک دانشمند کھتا ہے: امیدوں کے دامن کو کوتاہ کرو اور سطح توقعات کو نیچے لے آؤ ۔اپنے کو خواھشات کے جال سے آزاد کراؤ ۔ غرور و خود بینی سے دوری اختیار کرو قید و بند کی زنجیروں کو توڑ دو ۔ تاکہ روحانی سلامتی سے ھم آغوش ھو سکو ۔

 


source : http://www.tebyan.

کیا ہم اپنے اردگرد ضرورتمندوں کو دھتکارتے، یا انفاق کرکے بےعزت کرتے ہیں، یا نیکی کے اجتماعی منصوبوں میں معمولی رقم بڑے احسان کے ساتھ دیتے ہیں؟

اور کیا ایسے لوگ مومنین کو حقیر نہیں سمجھتے جو اجتماعی منصوبوں کے لئے اپنی انا کو قربان کرکے خدا کی راہ میں ہاتھ پھیلاتے ہیں؟

آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا یہ فکر صحیح ہے یا اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کچھ اور ہی راہنمائی کرتی ہیں۔

خدا نے جو مال انسان کو دیا ہے اس کو خیر کے نام سے ذکر کیا ہے، اگر اس مال کا صحیح استعمال نہیں کیا تو یہ مال شر بن جاتا ہے۔

سورہ توبہ میں نبی سے ارشاد ہورہا ہے:

 خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیهِمْ بِها وَ صَلِّ عَلَیْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ  (توبه/103)

انکے مال سے صدقہ لے لو تاکہ اسکے ذریعہ انہیں پاک کرو اور انکا تزکیہ کرو، اور ان کے لئے دعا کرو کیونکہ اے نبی آپکی دعا ان کے لئے سکون کا باعث ہوگی۔

لہذا صدقہ لینا حکم خدا ہے جو اللہ کی راہ میں صدقہ لیتا ہے وہ سنت نبی اور حکم خدا کی پیروی کرتا ہے۔

جو لوگ اپنے مال سے لوگوں کی مشکلات کو حل کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں انفاق کرتے ہیں وہ مما رزقناھم ینفقون کی آیت پر عمل کرکے مومن کی ایک صفت کو اپنی شخصیت کا حصہ بناتے ہیں۔

دوسری طرف اگر وہ جان لیں کہ خدا کی راہ میں لوگوں کی مشکلات کو اپنے مال سے حل کرنے کے نتیجہ میں انہیں کیا عطا ہوگا تو وہ جو جیب سے مال جاتا ہے اس سے انکو تکلیف نہیں اطمینان اور سکون حاصل ہو۔

مگر قرآن نہیں کہتا؟

سوره بقره (آیه 261) مَثَلُ الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَشَآءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ (٢٦١) 

جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے۔ وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ 

پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اِذٰا اَحْسَنُوا اسْتَبْشَرُوا 

خدا کے منتخب بندے وہ ہیں جب وہ احسان کرتے ہیں تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔

 سیرت معصومین علیھم السلام میں متعدد واقعات انفاق کے نقل ہوئے ہیں جو ہمارے لیئے مشعل ہدایت ہیں: 

ایک دن امام جعفرصادق علیہ السلام نے اپنے فرزند سے پوچھا گھر میں خرچ سے کتنے دینار بچ گئے ہیں؟ 
بتایا چالیس دینار۔ 

امام نے حکم نے دیا یہ چالیس دینار انفاق کر آؤ 

کہا : بابا گھر میں کچھ نہیں بچے گا

فرمایا: اسے صدقہ دے دو خدا اسکا بدلہ دے گا مگر تم بے نہیں سنا: ہر شی کی ایک چابی ہے اور رزق کی  چابی صدقہ ہے۔

«اَمٰا عَلِمْتُ لِکُلِّ شَیْءٍ مِفْتاحٌ، مِفْتاحُ الرِّزْقِ صَدَقَةٌ 

محمد نے اپنے والد گرامی کے حکم کی تعمیل کی دس دن نہیں گزرے تھے کہ کہیں سے چار ہزار دینار آگئے 

امام نے فرمایا : بیٹا چالیس دینار خدا کی راہ میں دیئے خدا نے چار ہزار دینار لوٹادیئے۔

ہم سمجھتے ہیں دینے سے کم ہوتا ہے اسی لئے صدقہ دیتے وقت جان نکلتی ہے ، لیکن برعکس ہے صدقہ خدا سے تجارت ہے اور خدا اسکو بہترین منافع کے ساتھ لوٹاتا ہے۔

«وَ ما أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْ‏ءٍ فَهُوَ یُخْلِفُهُ» (مبارکه سباء/39).

جو شی بھی تم نے انفاق کی خدا اسکا بدلہ عطا فرماتا ہے۔اور کیا خدا سے زیادہ اپنے وعدہ کو وفا کرنے والا کوئی اور ہے؟

«وَ مَنْ اَوْفیٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ» (مبارکه توبه/111).

اور خدا ہمیں دنیا اور آخرت کی بہترین تجارت کی طرف دعوت سے رہا ہے :

سوره صف (آیه 10)  یَآ أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَارَةٍ تُنْجِیكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ (١� ) 

مومنو! میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں عذاب الیم سے نجات دے(10)

 تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَٰلِكُمْ خَیْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (١١) 

(وہ یہ کہ) خدا پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لاؤ اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو۔ اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے(11)

اور فرمایا:
سوره فاطر (آیه 29) إِنَّ الَّذِینَ یَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَةً یَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ (٢٩) 

جو لوگ خدا کی کتاب پڑھتے اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں وہ اس تجارت (کے فائدے) کے امیدوار ہیں جو کبھی تباہ نہیں ہوگی(29)

تو ہم کس پر احسان جتاتے ہیں ؟ ان پر جو ہمیں اللہ سے تجارت کا موقعہ فراہم کرتے ہیں، اگر غور کریں تو احسان لینے والا کرتا ہے  دینے والا نہیں ؟ 

خدا فرماتا ہے اپنے صدقات کو احسان جتا کر ضائع نہ کرو:
سوره بقره (آیه 264) یَآ أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِی یُنْفِقُ مَالَهُ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا یَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَیْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكَافِرِینَ (٢٦٤) 

مومنو! اپنے صدقات (وخیرات)احسان رکھنے اور ایذا دینے سے اس شخص کی طرح برباد نہ کردینا۔ جو لوگوں کو دکھاوے کے لئے مال خرچ کرتا ہے اور خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ تو اس (کے مال) کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اس پر زور کا مینہ برس کر اسے صاف کر ڈالے۔ (اسی طرح) یہ (ریاکار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اور خدا ایسے ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا (264)

 لہذا خدا کے دیئے ہوئے مال پر غرور کرنا اور ضرورتمند کو حقیر سمجھنا سوائے اپنے نقصان کے اور کچھ نہیں ۔

خدا سے دعا ہے کہ ہمیں آئمہ علیھم السلام کے نقش قدم پر چلنے اور مال میں انفاق کی توفیق عطا فرمائے اور کنجوسی اور غرور جیسی مذموم صفات سے دور فرمائے ۔ آمین ۔

تحریر: سید ارتضی حسن رضوی

،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں مادری زبان کے تحفظ کےلئے عملی اقدامات ضروری ہیں، قومی زبان اردو کے ساتھ مادری زبانوں کو بھی ان کا آئینی و جائز حق دیا جائے، افسوس پاکستان میں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود آئین کے آرٹیکل 251 کے نفاذ سے گریز کیا جاتا رہاہے اور اب بھی یہی تاخیری حربے استعمال ہورہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ماں بولی (مادری زبانوں) کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں دیا۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ مادری زبان کے تحفظ کی خاطر جہاں اہل زبان ، ادبااپنے طور پر جس حد تک کاوشیں کررہے ہیں وہ لائق تحسین ہیں البتہ اس سلسلے میں جہاں حکومت کو اپنی آئینی و قومی زمہ داری نبھانی چاہیے وہیں علمائ، اساتذہ، صحافیوں اور بیورو کریٹس سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی سنجیدہ فکر شخصیات کو متوجہ ہونا چاہیے کہ کس طرح مادری زبان کے تحفظ کےلئے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ اچھے ثقافتی ورثے سے بھی مالا مال ہے مگر افسوس ایک عرصہ سے یہ حسن ماند پڑ رہاہے یا پھرعدم توجہی کی بنا پر یہ ضائع ہورہاہے۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کچھ عرصہ قبل اردو زبان اور مادری زبان سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان کے ہی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے استفسار کیا تھا کہ آرٹیکل 251 جہا ں قومی زبان کے حق کی بات کرتاہے وہی مادری زبان کے تحفظ کی بھی ضمانت دیتاہے اس حوالے سے وفاقی و صوبائی حکومتوں نے کیا اقدامات کئے ہیں۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ ہم روز اول سے متوجہ کر رہے ہیں کہ قومی شناخت کی حامل زبان کو اس کا آئینی و جائز حق دیا جائے مگر افسوس تاحال اس آئینی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تاخیری حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔
.taghribnews

یہ بات ایڈمیرل "علی شمخانی" نے پیر کے روز اپنے ٹوئٹر پیج میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ ایران، 4+1 گروپ اور یورپی یونین کے نمائندے کے درمیان ویانا مذاکرات شروع سے جاری ہیں اور یہ راستہ کسی نتیجے تک پہنچنے تک جاری رہے گا۔
ایڈمیرل شمخانی نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات ایرانی ٹیم کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہیں کیونکہ یہ کسی پیش رفت کا ذریعہ نہیں ہوگا۔
یہ ٹویٹ ایسے وقت میں آیا ہے جب ایران اور P4+1 - چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ  ایران کے خلاف پابندیاں ہٹانے کے لیے امریکہ کی بالواسطہ شرکت کے ساتھ ویانا میں مذاکرات کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، دوحہ کے دورے پر آئے ہوئے ایرانی صدر آیت اللہ سید "ابراہیم رئیسی" نےبروز پیر کو امیر قطر "تمیم بن حمد آل ثانی" سے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران، امیر قطر سے ان کو دورہ دوحہ اور ورلڈ گیس سمٹ میں حصہ لینے کی دعوت کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ آج دو مقاصد یعنی ایران اور قطر کے درمیان تعلقات کا فروغ اور گیس برآمد کرنے والے ممالک کے سمٹ میں حصہ لینے کیلئے دوحہ کے دورے پر آئے ہیں۔

ایرانی صدر نے امیر قطر سے اپنی حالیہ ملاقات کو "مثبت اور تعمیری" قرار دیتے ہوئے کہا  کہ اس ملاقات میں، ہم نے اتفاق کیا کہ دونوں ممالک مختلف شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے اور تعلقات کو گہرا کرنے کے لیے موجودہ صلاحیتوں اور مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور قطر کی علاقائی قربت اور مشترکہ مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہم نے تعلقات کو بڑھانے اور تعاون کے شعبوں کو متنوع بنانے کے لیے سنجیدہ اور نئے اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

صدر رئیسی نے دونوں ممالک کے درمیان سڑکوں، توانائی، تجارت، سرمایہ کاری، خوراک کی حفاظت، صحت اور ثقافت کے شعبوں میں تعاون کو سنجیدگی سے بڑھانے پرامیر قطر سے اتفاف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے 2022 قطر فیفا ورلڈ کپ کے بہترین انعقاد میں ہر ممکن تعاون کے لیے اپنی تیاری کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے مختلف شعبوں میں ایران کی منفرد صلاحیتیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران علاقائی سطح پر تبدیلی اور ترقی کا خواہاں ہے اور یہ صلاحیتیں دوطرفہ، کثیر الجہتی تعاون اور علاقائی ترقی کی ضمانت دیتی ہیں۔

ایرانی صدر نے کہا کہ خطے کے ممالک کے درمیان تعاون کی سطح، موجودہ صلاحیتوں کے مطابق نہیں ہے ایران ہمسائیگی کی پالیسی کے فریم ورک کے اندر ان تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد کرنا چاہتا ہے اور ہم پڑوسی ممالک کے ساتھ ممکنہ حد تک تعاون کے خواہاں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ ہمیشہ آزاد ممالک کے مفادات کے ساتھ کھڑا ہے اور مشکل وقت میں ہم نے خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اپنی دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ خطے کے بہت سے ممالک اس حقیقت کو بھانپ چکے ہیں اور اس میدان میں مشترکہ تجربات رکھتے ہیں۔

آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دونوں میدانوں یعنی دہشتگردی کیخلاف جنگ اور ملک کیخلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی کاروائی میں فتح حاصل کی ہے اور امریکہ کو پابندیوں کی منسوخی کیلئے اپنا ارادہ ثابت کرنا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مغربی فریقین سے مذاکرات میں کسی معاہدے تک پہنچنے کا شرط ایرانی قوم کے مفادات کی فراہمی، پابندیوں کی منسوخی، صحیح ضانمت دینے اور سیاسی کیسز کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

جدید تہذیب کو اپنے جن افکار و نظریات پر ناز تھا، وہ گذشتہ صدی میں ہی رفتہ رفتہ زوال کا شکار ہونے لگے۔ مغرب نے جب دو قطبی دنیا کا معرکہ بظاہر سر کر لیا تو اسے اپنے سرمایہ دارانہ نظام کی بقا اور سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک نئے عالمی دشمن کی ضرورت تھی۔ بظاہر اس کا دشمن تو کوئی نہیں تھا، اس لیے دشمن تراشی کا راستہ اختیار کیا۔ مغرب نے اسلام، اس کے مظاہر اور مسلمانوں کو اس مقصد کے لیے اختیار کیا۔ امریکا یہ بھی ضروری سمجھتا تھا کہ اپنی قیادت میں قائم فوجی اتحاد نیٹو کو بھی قائم رکھے، کیونکہ نیٹو کے ذریعے یورپ پر بھی اس کی بالادستی قائم ہے۔ لہذا نیٹو کو افریقا، ایشیاء اور دیگر خطوں میں مصروف رکھنا ضروری تھا۔ پھر دنیا میں جو کچھ ہوا، سب کے سامنے ہے۔ اسلام کو دہشت گردی کا مکتب قرار دیا گیا۔ اسلامی معاشروں کے اندر دہشت گرد اور انتہاء پسند گروہ پیدا کیے گئے اور انہی کے نعروں اور چہروں کو اسلام کا چہرہ قرار دیا گیا۔ اپنے معاشروں کو ان مقاصد سے ہم آہنگ و یکجا کرنے کے لیے طرح طرح کے اقدامات کیے گئے۔ رسول اسلامؐ، قرآن حکیم، مساجد کے مینار اور خواتین کا حجاب سب کے خلاف نفرت انگیز کارروائیاں عمل میں آنے لگیں۔ رحمت للعالمینؐ، سید المرسلین ؐکہلانے والی ہستی کے ایسے کارٹون شائع کیے گئے کہ جس سے وہ نعوذ باللہ ایک دہشت گرد راہنماء دکھائی دیں۔ ان کے خلاف کتابیں لکھی گئیں، ”آیات شیطانی“ ان میں سے ایک ہے۔

جب ان اقدامات کے خلاف مسلمانوں نے آواز بلند کی تو آزادی اظہار کے نام پر مغرب کی حکومتیں بھی مقابلے میں صف آراء ہوگئیں۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ قرآن حکیم کو اعلانیہ جلانے کے اقدامات ہوئے۔ مسلمان عورتوں کو حجاب پہننے سے روکنے کے لیے طرح طرح کے اقدامات شروع ہوگئے۔ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی، سرکاری اداروں میں حجاب پر پابندی، دفاتر میں حجاب پر پابندی، حجاب پہنے ہوئے عورتوں پر حملے اور بعض کا سرعام ہولناک قتل، یہ سارے واقعات مغرب میں ہو رہے تھے اور اب بھی ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ بعض انتہاء پسندوں نے مسجد کے میناروں کو بھی میزائلوں سے مشابہ کہہ کر انھیں بھی دہشت گردی کی علامت قرار دے دیا۔ سیاسی پارٹیوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ جن معاشروں میں مسلمانوں کی تعداد انتہائی کم تھی، وہاں بھی اسلام دشمنی کی فضا پیدا کرکے ووٹ حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں اور اس طرح سے نفرت، بغض، حسد اور حرص سے بھرے ہوئے سیاست دان نما لوگ پارلیمانوں میں پہنچنے لگے۔

مغرب تو اپنی جدید تہذیب کو آزادی اظہار پر استوار قرار دیتا ہے، لیکن یہ آزادی اظہار مسلمانوں سے چھینی جا رہی ہے۔ مغربی تہذیب، مذہب کی آزادی کی دعویدار ہے، لیکن اسلام کی آزادی، اس سے مستثنٰی ہوتی جا رہی ہے۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں خود مغربی معاشرے شدت پسندی کا شکار ہو رہے ہیں۔ بڑھتی شدت پسندی کسی وقت ہمہ گیر بھی ہوسکتی ہے، لیکن ابھی عالمی مقاصد اور مسلمان دنیا کے وسائل کی لوٹ مار کے سلسلے جاری ہیں۔ ابھی مسلمانوں کے پاس بہت سے خزانے باقی ہیں، جن پر ظالم اور بے رحم سرمایہ داری نظام کی نظریں گڑی ہوئی ہیں، لہذا ابھی معرکے کو جاری رکھنا ہے۔

بھارت تو پہلے ہی اسلام دشمنی میں شہرت رکھتا ہے۔ ماضی میں کانگریس کے راہنماؤں نے محمد علی جناح جیسے سفیر امن کے پیغام یکجہتی کو درخور اعتنا نہ جانا اور ہندو اکثریت کے گھمنڈ میں مسلمانوں کی دلجوئی کو بھی ضروری نہ سمجھا۔ ان کا یہ طرز عمل مسلمانوں کے لیے متبادل سیاسی پلیٹ فارم کے وجود میں آنے اور متحرک ہونے کا باعث بنا۔ ابھی جب ہندوستان کی تقسیم عمل میں نہیں آئی تھی تو انتخابات کے نتیجے میں مسلمانوں کو جو سیاسی حیثیت حاصل ہوئی، اس کو بھی بلڈوز کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے ہی طرز عمل کے استمرار اور تسلسل کے نتیجے میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا۔ یہ بٹوارہ نئی معرض وجود میں آنے والی اکائیوں اور حقیقتوں کے لیے بھی عبرت آموز تھا۔ بھارت کے حکمران طبقے کو سوچنا چاہیے تھا کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اکثریت کے ساتھ جوڑ کر رکھنے میں نئے معرض وجود میں آنے والے بھارت کا مفاد مضمر ہے۔ اس کو کانگریس کی اس دور کی قیادت نے بظاہر محسوس بھی کیا، اسی لیے اس نے بھارت کے آئین کو سیکولر بنیادوں پر تشکیل دیا اور سیکولزم کے نعرے کو ایک عرصے تک نمایاں طور پر جاری رکھا گیا۔ اگرچہ پس منظر میں بہت سے ایسے واقعات اور اقدامات دکھائی دیتے ہیں، جو مسلم دشمنی کا شاخسانہ ہیں۔ کشمیر پر فوجی قبضہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔

پاکستان دشمنی کو بھی بھارتی حکمرانوں کی ذہنیت کا عکاس کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان سے ملنے والی ریاستوں جونا گڑھ اور حیدر آباد دکن پر فوجی قبضہ تقسیم ہند کے فارمولے کی پامالی کے مترادف تھا لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مداخلت اور فوجی جارحیت، اس دشمنی کا ایک اور بہت بڑا مظہر ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان مستقبل میں ہم آہنگی کی آواز بلند کرنے پر انتہاء پسند ہندؤوں نے اپنے باپو گاندھی جی کو بھی خون میں نہلا دیا۔ وہ لوگ جنھوں نے گاندھی جی کا قتل کیا، آج وہی بھارت میں برسر اقتدار ہیں۔ بنگلہ دیش بنانے میں اپنے کردار پر فخر کا اظہار موجودہ بھارتی وزیراعظم ڈھاکہ میں جا کر کرچکے ہیں۔ دنیا میں ایسی ننگی جارحیت پر افتخار مودی جیسا قصاب ہی کرسکتا ہے۔ اسی نظریے کے علمبردار آج بھارت میں دندناتے پھرتے ہیں۔ ہندوتوا کا نظریہ کسی دوسرے مذہب کو قبول کرنے اور اسے احترام کا مقام دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سکھوں کے ساتھ حال ہی میں جو سلوک روا رکھا گیا، وہ اسی دہشت گردانہ تعصب کا نتیجہ ہے۔ اب بھارت کی مسیحی آبادی بھی اس نفرت انگیزی کا شکار ہو رہی ہے۔

چند ہفتوں سے بھارت میں حجاب کے خلاف ایک عریاں جنگ جاری ہے، مغرب تو پہلے ہی حجاب کے خلاف ایک تحریک کی زد پر ہے۔ کئی ایک مغربی حکمران اور راہنماء بھی اس جنگ کا حصہ ہیں، لہذا اس سلسلے میں بھارت کو پوچھنے والا کون ہے؟ اگرچہ بھارت کے اندر اور باہر سے اکا دکا آوازیں اس اقدام کے خلاف اٹھ رہی ہیں، لیکن ان کی مثال نقار خانے میں طوطی کی آواز کی سی ہے۔ مسلمان بچیوں پر کئی ایک تعلیمی اداروں میں کلاس رومز میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ایسے اقدامات ان کے مستقبل کو تاریک کرنے کے مترادف ہیں، جو انھیں تعلیم کے حصول سے محروم کرسکتے ہیں۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کو ہندوستان کا سپریم کورٹ جواز بخش چکا ہے۔ اسی طرح کرناٹک کی صوبائی عدالت حجاب پر پابندی کے اقدامات کی حمایت کرچکی ہے۔ گویا بھارتی ریاست کے بنیادی ادارے جن میں حکومت، انتظامیہ، پارلیمان کی اکثریت، عدالت، فوج اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ شامل ہیں، اسلام دشمنی پر متحد ہوچکے ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ ”ہندتوا“ اور نئی اصطلاح کے مطابق ”مودتوا“ کی حمایت میں ریاستی اداروں کا یہ اتحاد سامنے آرہا ہے۔ بھارت کے اندر ملک کے بہت سے خیر خواہ اور وطن دوست آج یہ بات کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر یہی طرز عمل جاری رہا تو بھارت پارہ پارہ ہو جائے گا، کیونکہ 21 کروڑ مسلمانوں کے علاوہ دیگر تمام اقلیتیں بھی اپنے آپ کو بھارت کے اندر غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ بھارت کی اس صورتحال میں جو سبق پاکستان کے اداروں اور عوام کے لیے کار فرما ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

تحریر: ثاقب اکبر

ایکسپریس نیوز کے مطابق ریاست کرناٹک کے 5 سے زائد اضلاع کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں تیزی اس وقت آگئی جب ایک کالج کی انتظامیہ نے حجاب نہ اتارنے پر 58 طالبات کو کالج سے نکال دیا۔

 

طالبات نے کالج سے باہر شدید احتجاج کیا جس پر کالج انتظامیہ نے ان طالبات کی رجسٹریشن معطل کردی اور رجسٹریشن کی بحالی تک کالج میں داخل ہونے پر پابندی ہوگی۔

 

کرناٹک میں دو ماہ سے حجاب پر پابندی کے باعث تعلیمی مدارس بند تھے تاہم تدریسی عمل شروع ہونے کے بعد بھی یہ تنازع اپنی جگہ کھڑا ہے۔ کرناٹک کی طالبات نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے جس پر اب تک فیصلہ نہیں آسکا ہے۔

 

عدالت میں حجاب پر پابندی کے خلاف درخواست دائر ہونے کے بعد باحجاب طالبات کے لیے علیحدہ کلاسوں کے انتظام کا کہا گیا تھا جس پر چند کالجز میں عمل بھی ہوا تاہم انتہا پسند ہندوؤں کے دباؤ پر یہ سلسلہ بند کردیا گیا۔

دوسری جانب حجاب پر پابندی اب کرناٹک سے نکل کر مدھیہ پردیش اور اترپردیش سمیت کئی ریاستوں میں پھیل گیا ہے۔

تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کی مہم بی جے پی نے چلائی ہے جو کرناٹک میں ہونے والے انتخابات میں ہندو ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ اسرائیل کا وجود ناجائز ہے، عالمی استعمار مسلسل اس ناجائز ریاست کی پشت پناہی کئے ہوئے ہے،صیہونیت نے انسانیت سوز مظالم کی تمام حدیں پار کردی ہیں، اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی بھی ماننے کو تیار نہیں، کیا اب بھی ایسی ریاست کے وجود کا باقی رہنے کا جوا ز ہے ؟ عالمی طاقتیں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ملکوں پر بلاوجہ مختلف پابندیاں عائد کرتی ہیں مگر انہیں صیہونی مظالم کیوں نظر نہیں آتے ؟عالمی دہرا معیار عالمی امن کےلئے سب سے بڑا خطرہ بنتا جارہاہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سے تعاون نہ کرنے کے اعلان پر رد عمل دیتے ہوئے کیا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ اسرائیلی حکام نے خود اعتراف کیا کہ انہیں اقوام متحدہ کے ادارے میں”شیطانی ریاست“سے تعبیر کیا جارہاہے ، مسلسل فلسطینی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، اس کی بستیوں کو مسمار کرکے کھنڈرات میں تبدیل کردیاگیاہے، خواتین ، بچوں اور بزرگ شہریوں کے ساتھ بلا تفریق امتیازی سلوک و ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں تو کیا یہ ناجائز ریاست کو دوام بخشنے کےلئے شیطانی ریاستی ہتھکنڈے نہیں ہیں ؟عالمی استعمار مسلسل اس ناجائز ریاست کی پشت پناہی کئے ہوئے ہے کیا اسرائیل کا اقوام متحدہ کو صاف انکار کے بعد اب بھی کوئی توجیہ باقی ہے کہ اس صیہونی ریاست کی پشت پناہی کی جائے؟۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ پاکستان سمیت مختلف ممالک پر ایف اے ٹی ایف ، گرے لسٹ، معاشی پابندیوں سمیت دیگر پابندیاں بعض اوقات بلا وجہ عائد کرکے انہیں دبایا جاتا ہے مگر دوسری جانب انسانیت کے دشمن اسرائیل کو کھلی چھوٹ ؟یہ عالمی دہرا معیار کیوں؟

انہوں نے کہاکہ اگر عالمی طاقتوں نے اس دہرے معیار کو سنجیدہ نہ لیا تو عالمی امن کےلئے سب سے بڑا خطرہ یہی بنے گا۔ انہوںنے بعض مسلم ریاستوں کی جانب سے اسرائیل نوازی پر کہاکہ پہلے بہت کچھ درپردہ کیا جارہا تھا اور اب سرعام اس کا اظہار کیا جارہاہے جو اچنبے کی بات ہرگز نہیں البتہ ایک اہم ترین لمحہ فکریہ ہے۔

لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان مشترکہ سرحد کی لمبائی 79 کلومیٹر ہے جو غاصب صہیونی رژیم کے تسلط پسندانہ عزائم کے سبب ہمیشہ شدید تناو کا شکار رہتی ہے۔ سن 2000ء میں جب غاصب صہیونی افواج نے جنوبی لبنان سے پسماندگی اختیار کی تب بھی اس کا یہ اقدام لبنان کے خلاف جارحانہ اقدامات کا اختتام ثابت نہیں ہوا بلکہ گاہے بگاہے صہیونی فورسز سرحد کے اس پار سے لبنانی سرزمین کو ظالمانہ اقدامات کا نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ یوں حزب اللہ لبنان اور غاصب صہیونی رژیم کے درمیان موجود محاذ ہر لمحہ بارود کی بو دیتا ہے اور ایک چھوٹا سا واقعہ کسی بڑے واقعے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صہیونی حکمران سید حسن نصراللہ سے شدید خوفزدہ ہیں۔
 
سید حسن نصراللہ کی شخصیت انتہائی کاریزمیٹک شخصیت ہے اور اسرائیلی حکمران انہیں بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ انہوں نے جب اسرائیلی معاشرے کو مکڑی کے جال سے تشبیہہ دی اور یہ تاثر دیا کہ اسے اتنی آسانی سے نابود کرنا ممکن ہے تو ان کی یہ بات صہیونی حکمرانوں اور شہریوں کے ذہن میں پوری طرح بیٹھ گئی۔ صہیونی فوجی اس قدر حزب اللہ لبنان سے خوف کھاتے ہیں کہ خود کو حزب اللہ کے مجاہدین سے مقابلہ کرنے میں عاجز اور ناتوان محسوس کرتے ہیں۔ 2006ء میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے بعد صہیونی اخبار ہارٹز نے اپنی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا تھا کہ حسن نصراللہ عرب لیڈر ہیں لیکن عرب دنیا کے لیڈران سے بالکل مختلف ہیں۔ وہ بیہودہ بات نہیں کرتے اور جھوٹ نہیں بولتے اور ان کی باتیں قابل اعتماد ہوتی ہیں۔
 
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے حال ہی میں اپنی تقریر میں صہیونی رژیم کو کئی پیغام پہنچائے۔ پہلا پیغام یہ تھا کہ حزب اللہ کے فوجی کارخانے عام بیلسٹک میزائلوں کو ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے میزائلوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ دوسرا پیغام یہ تھا کہ حزب اللہ لبنان کے سکیورٹی مراکز اسرائیل کی جاسوسی کرنے میں بہت اعلی درجے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں ایسی معلومات حاصل ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب نے حزب اللہ کے میزائلوں کے ذخائر کا کھوج لگانے کیلئے جاسوس لبنان بھیجے ہیں۔ لہذا وہ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے پہلے سے تیار ہیں۔ سید حسن نصراللہ کا تیسرا پیغام یہ تھا کہ حزب اللہ لبنان کی میزائل تیار کرنے والی فیکٹریاں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور ایک جگہ واقع نہیں ہیں۔
 
اس تقریر کے صرف دو دن بعد لبنان کی سرحد کے قریب واقع مقبوضہ فلسطین کے قصبے الجلیل میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں۔ لبنان سے ایک ڈرون طیارہ مقبوضہ فلسطین میں داخل ہونے کی خبر ملی تھی جس کے نتیجے میں صہیونی سکیورٹی افراتفری کا شکار ہو گئی اور ان میں شدید ہلچل مچ گئی۔ صہیونی مسلح افواج کے ترجمان نے کہا کہ فولادی گنبد نامی فضائی دفاعی سسٹم اور جنگی طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر اس ڈرون طیارے کی تلاش میں مصروف ہیں۔ لیکن وہ مقبوضہ فلسطین میں داخل ہونے والے اس ڈرون طیارے کا سراغ نہ لگا سے۔ کچھ دیر بعد حزب اللہ لبنان نے ایک بیانیہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اسلامی مزاحمت نے "حسان ڈرون" نامی ایک ڈرون طیارہ مقبوضہ فلسطین بھیجا جو چالیس منٹ جاسوسی کرنے کے بعد واپس لوٹنے میں کامیاب رہا ہے۔
 
حسان ڈرون طیارہ چالیس منٹ تک مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصے میں 70 کلومیٹر تک علاقے کی جاسوسی کرتا رہا اور صہیونی سکیورٹی فورسز کی تمام تر کوشش کے باوجود کامیابی سے صحیح حالت میں لبنان واپس پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ اقدام ایک طرف حزب اللہ لبنان کی عظیم فوجی صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے جبکہ دوسری طرف غاصب صہیونی رژیم کے کھوکھلے پن اور مکڑی کے جال جیسی کمزوری کا واضح ثبوت ہے۔ حزب اللہ لبنان لاجسٹک اور فوجی اعتبار سے صہیونی رژیم کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ جب سید حسن نصراللہ یہ کہتے ہیں کہ صہیونی فوجی جنگ کیلئے تیار نہیں ہیں، تو خود صہیونی حکمران ان کی اس بات پر سب سے زیادہ یقین کرتے ہیں اور انہیں بخوبی علم ہے کہ یہ بات حقیقت کے عین مطابق ہے۔
 
تل ابیب بہت اچھی طرح اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ مستقبل کی جنگ میں اس کے فوجیوں کی بڑی تعداد ماری جائے گی اور اس کے اہم اور حساس مراکز شدید حملوں کا نشانہ بنائے جائیں گے اور اس کی اقتصاد اور معیشت مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ اور اگر یہ جنگ زیادہ مدت تک جاری رہی تو صہیونی رژیم کے انفرااسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ خود مختلف صہیونی حلقوں کے مطابق حزب اللہ لبنان کئی ہفتے تک جنگ کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور اگر اس کے آدھے میزائل بھی فضا میں تباہ کر دیے جائیں تب بھی بہت زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف صہیونی رژیم کے ایئر ڈیفنس سسٹم میں میزائلوں کی تعداد محدود ہے اور وہ صرف محدود حد تک ہی باہر سے آنے والے میزائلوں کا مقابلہ کر سکتا ہے

تحریر: علی احمدی

 حزب اللہ لبنان کے ڈرون طیارے نے 40 منٹ تک مقبوضہ فلسطین کے اندر 70 کلو میٹر تک پرواز کرکے اسرائيلی حکام میں ہلچل مچا دی ہے۔

حزب اللہ لبنان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آج اس کے ڈرون طیارے نے مقبوضہ فلسطین کے اندر پرواز کی یہ پرواز 40 منٹ تک جاری رہی۔  حزب اللہ کے ڈرون طیارے نے 70 کلو میٹر مقبوضہ فلسطین کے اندر پرواز کی۔

حزب اللہ کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے حسان ڈرون طیارہ اپنی ماموریت کو کامیابی کے ساتھ انجام دیکر اپنے مقام پر واپس پہنچ گيا ہے۔ اسرائیلی حکام نے حزب اللہ کے ڈرون طیارے کو روکنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے باضابطہ طور پر خبری ذرائع کی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ایک ڈرون مقبوضہ فلسطین کی حدود میں داخل ہوا ہے اور ساتھ ہی آئرن ڈوم کو فعال کر دیا گیا ہے۔ گھنٹوں بعد، فوج نے ایک دوسرے بیان میں باضابطہ طور پر اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام انٹرسیپٹ استعمال کرنے کے باوجود ڈرون کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور یہ کہ ڈرون لبنان میں  بحفاظت واپس آ گیا ہے۔