سلیمانی

سلیمانی

انڈیا کی ریاست کرناٹک میں حجاب پر جاری تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور منگل کو ایک اور ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں زعفرانی شالیں پہنے طلبا کے ایک گروپ کو ایک برقع پوش طالبہ کو ہراساں کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو کو آلٹ نیوز کے بانی محمد زبیر نے ان الفاظ کے ساتھ پوسٹ کیا ہے: 'جب ایک مسلمان لڑکی پی ای ایس کالج پہنچی تو زعفرانی شالیں پہنے بے شمار طلبا اس پر جملے کستے ہوئے ہراساں کرتے رہے۔'

کرناٹک میں گذشتہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے کئی کالجوں میں حجاب پر طالبات اور انتظامیہ کے درمیان اختلاف جاری ہے اور یہ معاملہ اب ہائی کورٹ میں ہے۔ لیکن گذشتہ دنوں اس میں نئی چیز یہ دیکھنے میں آئی کہ حجاب کا مقابلہ اب زعفرانی شالوں سے کیا جا رہا ہے جو انڈین سماج کے مذہبی خطوط پر منقسم ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل مذکورہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سیاہ برقعے میں ملبوس ایک طالبہ سکوٹی چلاتی ہوئی پی ای ایس کالج بنگلور پہنچتی ہیں اور جب وہ عمارت کی جانب جا رہی ہیں تو زعفرانی شالیں لہراتے سینکڑوں طالبِ علموں کا گروہ 'جے شری رام' کے نعرے لگاتے انھیں ہراساں کرنے لگتا ہے جس کے جواب میں وہ طالبہ 'اللہ اکبر' کے نعرے لگاتی ہے اور مقامی زبان میں کہتی ہے 'کیا ہمیں حجاب پہننے کا حق حاصل نہیں ہے؟'

جب وہ طالبہ رک کر کیمرے سے بات کر رہی ہیں اسی وقت زعفرانی شالوں والے طالب علموں کا گروہ نعرے لگاتا ہوا دوبارہ ان کی جانب آ کر انھیں ہراساں کرنے کی کوشش کرتا ہے جس پر اساتذہ یا انتظامیہ کے اہلکار طالبہ کو بازو سے پکڑ کر عمارت کی جانب لے جاتے ہیں۔

طالبہ کے عمارت میں چلنے جانے کے بعد بھی زعفرانی شالوں والے طلبا مسلسل 'جے شری رام' کے نعرے لگا رہے ہیں جنھیں اساتذہ یا انتظامیہ کے اہلکار روکنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں مگر روکے جانے پر یہ طلبا مزید جوش و خروش سے نعرے بازی شروع کر دیتے ہیں۔

اس آرٹیکل کی اشاعت تک اس ویڈیو کو 27 لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں اور سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث جاری ہے۔

کہا جا رہا ہے انڈیا میں حجاب تنازع شروع ہونے کے بعد کچھ سیاسی جماعتوں نے مبینہ طور پر طلبا میں زعفرانی شالیں تقسیم کی ہیں اور وہ اس تنازعے کو ہوا دے رہے ہیں۔

انڈین صحافی نویدیتا نرینجن کمار کی جانب سے پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں ایم جی ایم کالج کے طلبا کو زعفرانی شالیں اٹھاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ نودیتا کے مطابق مبینہ طور پر ہندوتا تنظمیوں نے یہ شالیں تقسیم کی ہیں۔

.taghribnews

اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے سربراہ میجر جنرل سید عبدالرحیم موسوی نے انقلاب اسلامی کی 43 سالگرہ کی آمد کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ گذشتہ 43  برسوں میں انقلاب اسلامی نے اقتصادی پابندیوں، خطرات، دباؤ اور دھمکیوں کے باوجود عظیم ، گرانقدراور نمایاں پیشرفت کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کی حکیمانہ اور مدبرانہ قیادت اور ایرانی عوام کی آگاہانہ حمایت کی بدولت پہلوی طاغوتی استبداد کا خاتمہ کرکے دنیا کے دو بلاکوں کمیونزم اور لیبرلزم کو چیلنج کیا اور ایرانی عوام، مسلمانوں اقوام اور دنیا کے مستضعفین کو آزادی اور استقلال کی خوشخبری دی۔

ایرانی فوج کے سربراہ نے کہا کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران نے مختلف شعبوں میں خاطر خواہ ترقی اور پیشرفت حاصل کی ہے اور ایرانی ماہرین ترقی اور پیشرفت کے راستے پر گامزن ہیں۔  انھوں نے کہا کہ انقلاب اسلامی کے زخمی دشمنوں نے انقلاب کے ساتھ اپنی دشمنی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

میجر جنرل موسوی نے کہا کہ حضرت امام خمینی (رہ) کی حکیمانہ قیادت اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کی مدبرانہ ہدایت کی روشنی میں انقلاب اسلامی ترقی اور پیشرفت کے راستے پر رواں دواں ہے۔ ہم اللہ تعالی کا شکرو سپاس ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں طاغوت کے ظلم سے نجات عطا کی اور انقلاب اسلامی کی نعمت سے بہرہ مند کیا۔ شہدائے انقلاب اسلامی کو خراج عقیدت اور جانبازوں کو خراج تحسین  پیش کرتے ہیں ۔ ایرانی فوج 22 بہمن کو انقلاب اسلامی کی 43 سالگرہ کے جشن ایرانی عوام کے ہمراہ شرکت کرےگی۔

تقريب خبررسان ايجنسی

آٹھ فروری سن انیس سو اناسی کو سابق شاہی فضائيہ کے ایک خصوصی دستے 'ہمافران' کی جانب سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے تاریخی بیعت کی سالگرہ کے موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی فضائيہ اور ائير ڈیفنس کے بعض کمانڈروں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے اس حیرت انگیز بیعت کو ایک فیصلہ کن موڑ بتایا۔
     

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اس عظیم اور تاریخ ساز کارنامے کے زندۂ جاوید بن جانے اور اس کے اثرات کے دوام کا سبب، میڈیا کا کام اور فنکارانہ طریقے سے اس واقعے کی صحیح تشریح تھی۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا: آج بھی اسلامی نظام کے حقائق، کارناموں، پیشرفتوں اور شجاعانہ اقدامات کی تحریف کی غرض سے جاری دشمن کی یلغار سے مقابلے کے لیے تشریح کے جہاد کی فوری اور یقینی ذمہ داری کی بنیاد پر ایک ہمہ جہتی دفاعی اور جارحانہ اقدام کی ضرورت ہے۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات کے آغاز میں کورونا کی وبا کے باعث خراب حالات کے سبب حاضرین کی تعداد کے محدود ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: میں ہمیشہ میڈیکل پروٹوکولز اور ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کرتا ہوں، ماسک استعمال کرنے پر تاکید کرتا ہوں اور کچھ مہینے پہلے میں نے ویکسین  کا تیسرا ڈوز بھی لگوایا ہے۔

انھوں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے اس سلسلے میں ماہرین کی بات ماننے پر تاکید کی۔

رہبر انقلاب اسلامي نے اس کے بعد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے فضائيہ کی تاریخی بیعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگرچہ فضائيہ کی موجودہ نسل اس وقت موجود نہیں تھی لیکن فضائيہ میں وہ سبھی لوگ جو ذمہ داری کے احساس کے ساتھ کام کر رہے ہیں، وہ اس دن کی فضیلت اور افتخار میں شریک ہیں کیونکہ وہ کام در حقیقت، ان اہداف اور مقدس جہاد سے وفاداری کا اعلان تھا جس کے طاقتور کمانڈر امام خمینی تھے، بنابریں وہ معنوی کام بدستور جاری ہے اور وہ تمام افراد جو ان اہداف کی راہ پر گامزن ہیں، اس کارنامے میں حصہ دار ہیں۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اس انتہائي مؤثر کارنامے کی ایک اہم خصوصیت، فضائيہ کے افسران کی جانب سے 'اس لمحے کی ضرورت کا ادارک' اور بصیرت کی بنیاد پر ہوشیارانہ اقدام تھا۔ آپ نے کہا: اس عمل نے اسی طرح یہ بھی دکھا دیا کہ امریکا اور منحوس پہلوی سلطنت کے اندازے غلط تھے اور انھیں اس جگہ سے چوٹ پہنچی جس کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

انھوں نے اس تاریخی واقعے کے سب سے اہم سبق آموز نکتے کی تشریح کرتے ہوئے کہا: اگر حق اور اسلام کے محاذ کے سپاہیوں کی، جہاد کے ہر میدان میں، چاہے وہ فوجی جہاد کا میدان ہو، سائنسی میدان ہو، تحقیقی میدان ہو یا دیگر میدان ہوں، سرگرم، مؤثر اور پرامید شراکت ہوگي اور وہ فریق مقابل کے ظاہری رعب و طاقت سے خوف نہیں کھائیں گے تو یقینی طور پر دشمن کے اندازے غلط ثابت ہوں گے کیونکہ یہ خدا کا پکا وعدہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامي نے مزید کہا: آج بھی امریکیوں کے اندازے غلط ثابت ہو رہے ہیں اور وہ ایسی جگہ سے چوٹ کھا رہے ہیں جس کے بارے میں وہ پہلے سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور وہ خود ان کے سربراہان مملکت ہیں یعنی امریکا کے سابق اور موجودہ صدر جنھوں نے اپنے اقدامات کے ذریعے عملی طور پر ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیا ہے کہ امریکا کی بچی کھچی عزت بھی پامال کر دیں گے۔

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فضائيہ میں بصیرت کی گہرائي کی ایک وجہ، طاغوتی حکومت کے دور میں امریکا کے فوجی مشیروں سے ان کے قریبی رابطے اور ان کی جانب سے آمریت اور اخلاقی بے راہ روی کے مشاہدے کو قرار دیا اور کہا: ایران کی فوج میں امریکیوں کی موجودگي، ایک غم انگیز داستان ہے جس کے بارے میں ممکنہ طور پر جوان نسل کو کوئي اطلاع نہیں ہے لیکن اس کا ایک نمونہ، مظلوم اقوام کی سرکوبی کے لیے امریکا اور برطانیہ کی جانب سے ایرانی فوج کا استعمال تھا جو فوج اور ایرانی قوم سے پہلوی حکومت کی غداریوں میں سے ایک ہے اور اسی طرح دیگر اقوام کے حق میں جرم کی ایک مثال ہے۔

انھوں نے تشریح کے جہاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، امام خمینی سے شاہی فضائیہ کے افسران کی بیعت کی شائع شدہ تصویر کو، تشریح کے ایک جاوداں کارنامنے کی مثال بتایا اور کہا: اس تاریخ ساز اور تغیر آفریں واقعے کے زندۂ جاوید اور پر اثر ہونے کا سبب، وہی فنکارانہ تصویر کا فریم تھا جو اس وقت کے محدود تشہیراتی وسائل کے ساتھ شائع ہوا اور یہ چیز واقعات کی صحیح رپورٹنگ کے بے نظیر اثر کی عکاسی کرتی ہے۔

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے مختلف پلیٹ فارمز پر طرح طرح کے میڈیا کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اسلام اور ایران کے دشمن میڈیا کی حتمی پالیسی، پیشہ ورانہ دروغگوئي کے ذریعے حقائق کی تحریف بتایا اور کہا: وہ لوگ، اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، طاغوتی حکومت کے کریہہ اور بدعنوان چہرے کی مشاطی کر کے اور اس کی غداریوں کو چھپا کر، شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک کی سراپا جرم تصویر کو بھی خوبصورت بنانے کی کوشش میں ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس کے مقابلے میں انقلاب اور امام خمینی کی شبیہ کو بگاڑ کر انقلاب کے حقائق اور مثبت نکات کو پوری طرح سے چھپا کر کمزور پہلوؤں کو سیکڑوں گنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، بنابریں اس میڈیا وار کے مقابلے میں، تشریح کا جہاد ایک حتمی اور فوری فریضہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے میڈیا ڈکٹیٹرشپ کو اظہار رائے کی آزادی کے دعووں کے باوجود جاری مغربی طاقتوں کی آمریت کی ایک قسم بتایا اور سوشل میڈیا پر شہید قاسم سلیمانی کے نام اور تصویر کو ڈلیٹ کرنے جیسی مثالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: وہ لوگ، مغرب کی پالیسیوں سے متصادم ہر لفظ اور تصویر کو ناقابل اشاعت بنا دیتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اسلام اور اسلامی جمہوریہ کی شبیہ بگاڑنے کے لیے ان ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔

انھوں نے اسی طرح ایران کے خلاف دشمن محاذ کے متعدد پہلوؤں پر مشتمل حملے یعنی معاشی، سیاسی، سیکورٹی، میڈیا اور سفارتی حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس اجتماعی اور کثیر الجہتی یلغار کے مقابلے میں ہم ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں نہیں رہ سکتے اور ہمیں بھی میڈیا، سیکورٹی اور معاشی میدان سمیت مختلف میدانوں میں اسی انداز سے حملے کرنے چاہیے اور اس سلسلے میں اہل فکر و اقدام خاص طور پر حکام پر کوشش کی ذمہ داری ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے آخر میں بدخواہوں کی خواہش کے برخلاف ملک کی روز افزوں ترقی و پیشرفت کو قوم کے لیے بہتر مستقبل کی نوید قرار دیا اور کہا: جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ان تینتالیس برسوں میں پوری طاقت سے آگے بڑھتا رہا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور مضبوط بنتا گيا ہے، اسی طرح خداوند عالم کی توفیق سے مستقبل میں یہ پیشرفت پہلے سے بھی بہتر انداز میں جاری رہے گي اور دشمن ایک بار پھر ناکام رہے گا۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہ رجب کے بابرکت ایام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، عوام کے تمام طبقوں خاص طور پر جوانوں سے اس مہینے کے الہی اور معنوی فیوض سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی تاکید کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایرانی کورونا ویکسین برکت کا تیسرا انجیکشن بھی لگوالیا ہے۔

ایران کے سابق وزیر صحت ڈاکٹر مرندی نے عوام کو ویکسین لگوانے دعوت دیتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کووایران برکت کا تیسرا ڈوز بھی لگوا لیا ہے لہذا عوام کو بھی کورونا ویکسین کا تیسرا ڈوز جلد از جلد لگوانا چاہیے

اسلام آباد، ارنا – پاکستانی وزیر خارجہ نے اسلام آباد اور تہران میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے  پچھلے اجلاسوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تیسرا اجلاس چین کی میزبانی میں مارچ کے آخری ہفتے (اپریل 1401) بیجنگ میں منعقد ہوگا۔

پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق، شاہ محمود قریشی نے اتوار کو پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ چین کے چار روزہ دورے کے اختتام پر اسلام آباد پہنچنے پر صحافیوں کو بتایا کہ بیجنگ اور اسلام آباد نے افغانستان کی مدد کے لیے شراکت داری سمیت علاقائی تعاون کے فروغ پر اتفاق کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا تیسرا سربراہی اجلاس مارچ کے آخری ہفتے میں بیجنگ میں ہونے والا ہے اور وہ چینی وزیر خارجہ کی دعوت پر اس سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔

قریشی نے کہا کہ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ طالبان کے وزیر خارجہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے اگلے اجلاس کے آخری روز شرکت کرے تاکہ ہمیں ملک میں ہونے والی پیش رفت اور ان کے موقف سے آگاہ کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان، چین اور افغانستان کی مشترکہ اسمبلی کی بحالی پر بھی اتفاق کیا تاکہ ہم باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک موثر طریقہ کار استعمال کر سکیں۔        

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھی گزشتہ روز چین کے صدر شی جین پینگ کے ساتھ ایک سرکاری ملاقات کے دوران علاقائی مسائل پر دو طرفہ تعلقات کو گہرا کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ کا دوسرا اجلاس 27 اکتوبر کو اسلامی جمہوریہ ایران کی میزبانی میں تہران میں منعقد ہوا۔

افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ کا پہلا اجلاس 9 ستمبر کو پاکستان کی میزبانی میں آن لائن طور پر منعقد ہوا۔ اجلاس میں ایران، چین، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی تھی۔

تہران، ارنا – ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ویانا مذاکرات کے جاری رہنے کے بارے میں کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکیوں کے موقف میں عملی تبدیلی کا انتظار کر رہا ہے۔

 یہ بات سعید خطیب زادہ نے آج بروز پیر اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس میں ارنا کے نمائندے کے ساتھ گفتگوکرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کل سے شروع ہونے والے ویانا مذاکرات کے بار ےمیں کہا کہ ایرانی وفد جو ضروری مشاورت کے لیے چند دنوں کے لیے تہران میں تھا، انشاء اللہ کل ویانا روانہ ہوگا۔ تمام وفود کی کل واپسی متوقع ہے۔ امید ہے کہ دوسری طرف خاص طور پر واشنگٹن نے ضروری فیصلے کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پابندیاں ہٹانے کا مسئلہ اور بورجام کے اقتصادی جہتوں سے ایران کو فائدہ اٹھانا بہت کلیدی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی ریڈ لائن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ وفود خاص طور پر امریکہ واضح طور پر جوہری معاہدے میں اپنے وعدوں کو پورا کرے اور امید کرتے ہیں کہ ان کے مثبت بیانات عملی طور پر وعدوں میں بدل جائیں گے۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ امریکی حکام کو جان لینا چاہیے کہ وہ ایرانی عوام کی جیبوں سے اپنے تباہ کن اور غلط فیصلوں بشمول جوہری معاہدے کے غیر قانونی انخلاء کی قیمت ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ انہیں ایرانی عوام کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے اور اپنے راستے سے واپس آنا چاہیے۔ ہم ویانا میں رویے میں اس تبدیلی کو دیکھنے کے منتظر ہیں۔

سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد نے پیر کی صبح ایک بار پھر یمنی دارالحکومت صنعا کے مختلف علاقوں پر بمباری کی۔

سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی WASS کے مطابق سعودی اتحاد نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ حملے کا مقصد فوجی اہداف کو نشانہ بنانا تھا۔

ریاض میں سرکاری ذرائع سے اتحاد کے حملوں کی تصدیق اس وقت سامنے آئی ہے جب سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان امریکہ کے ساتھ یمن میں جنگ پر بات چیت کرنے والے ہیں۔

سعودی اتحاد کے حملوں کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی وزیر خارجہ نے انصار الاسلام کے خلاف ایک خاتون پر الزام لگانے اور جنگ بندی کے معاہدے کی منصوبہ بندی کرنے کا بیان دیا: یہ منصوبہ، جس میں یمن میں جنگ بندی شامل ہے، اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو گی۔

انصار الاسلام کے ترجمان اور یمنی نیشنل سالویشن گورنمنٹ کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد عبدالسلام نے سعودی عرب کی طرف سے جنگ کے خاتمے کے منصوبے کے ردعمل میں کہا ہے کہ اس منصوبے میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔

سعودی عرب کا یہ منصوبہ اس وقت سامنے آیا ہے جب جمعے کو یمنی فورسز نے ریاض میں آرامکو کی تیل کی تنصیب پر چھ ڈرونز کو نشانہ بنایا تھا۔

26 اپریل 1994 کو سعودی عرب نے کئی عرب ممالک کے اتحاد کی شکل میں اور امریکہ کی مدد اور ہری جھنڈی سے سب سے غریب عرب ملک یمن کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے شروع کر دیے، جس کے بہانے بے دخل کر دیے گئے۔ اور مفرور صدر عبد المنصور ہادی کو اقتدار میں لانا، اپنے سیاسی مقاصد اور عزائم کا ادراک کرنا۔

اقوام متحدہ کے اداروں بشمول عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف نے بارہا خبردار کیا ہے کہ یمن کے عوام کو قحط اور انسانی تباہی کا سامنا ہے جس کی پچھلی صدی میں مثال نہیں ملتی۔

بہت سے ماہرین سعودی اتحاد کے یمن پر حملوں میں اضافے کو یمن میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں اتحاد کی ناکامی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
 تقريب خبررسان ايجنسی 



ایران کا اسلامی انقلاب اپنی شاندار فتح کے ساتھ ایک ایسی حکومت بنانے میں کامیاب ہوا، جو اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔ انقلاب کے عظیم رہنماء امام خمینی نے اپنی وسیع اور شاندار فکر میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے اعلیٰ اور وسیع اہداف کی پیروی کی۔ وہ اہداف جو ان کے لائق جانشین آیت اللہ خامنہ ای بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان عظیم مقاصد میں سے ایک "نئی اسلامی تہذیب کی تخلیق"  یا جدید اسلامی تہذیب کا احیاء ہے۔ اسلامی انقلاب، اسلامی تہذیب کے احیاء کا ایک اہم عامل ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہیں: "اسلامی امت اور امت مسلمہ اور اقوام کے لیے ہمارے انقلاب کا عظیم اور اہم پیغام، اسلامی تشخص کا احیاء، اسلام کی طرف واپسی، مسلمانوں کی بیداری اور اسلامی تحریک کی طرف واپسی ہے۔ مسلم قوموں کے لیے ہمارے انقلاب کا یہ عظیم پیغام ہے کہ امام خمینی اس راہ کے عظیم رہنماء اور اس سلسلے اور مکتب کے عظیم معلم تھے۔"

پوری تاریخ میں بہت سے مفکرین نے تہذیب کے اجزاء کے بارے میں بات کی ہے۔ رابرٹ پل، ایک فرانسیسی ثقافتی ماہر، تہذیب کو سماجی مظاہر کے ایک مجموعہ کے طور پر دیکھتا ہے، جیسے مذہبی، اخلاقی، علمی، تکنیکی، جمالیاتی اور فنکارانہ مظاہر، جو ایک بڑے معاشرے میں بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں۔ تاہم تہذیب کا لغوی معنی شہری زندگی یا شہر نشینی ہے اور یہ شہری زندگی اور تہذیب کی جڑوں سے ماخوذ ہے اور زیادہ تر اس کا استعمال شہریت، شہری مزاج کی تخلیق اور وحشیانہ، بدامنی اور لاقانونیت کے مقابلہ میں کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں تہذیب ایک سماجی تصور ہے، جس کا مطلب ہے، انسانی زندگی میں ترقی اور ارتقاء کے دور تک پہنچنا۔ اس تصور میں بہت سی چیزیں شامل ہیں، جیسے کہ مختلف علوم، فنون، رسوم و رواج کے ساتھ ساتھ سماجی ادارے جو وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہوتے ہیں اور تہذیب کا تصور تشکیل دیتے ہیں۔

لیکن امام خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای کون سی نئی اسلامی تہذیب کا حوالہ دیتے ہیں اور اس کے حصول کو ایران کے اسلامی انقلاب کے مقاصد میں سے ایک قرار دیتے ہیں وہ کیا ہیں۔؟ نئی اسلامی تہذیب، زندگی میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے، جس میں ایک انسان روحانی اور مادی طور پر ترقی کرسکے اور مطلوبہ مقاصد تک پہنچ سکے۔ ان مقاصد کے لیے جو اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں۔ وہ مقاصد اچھی اور باوقار زندگی اور قدرتی دنیا میں طاقت، ارادہ، پہل اور تخلیقی صلاحیتتوں کا حصول ہے۔ ایسی تہذیب قرآن اور اسلام کی تعلیمات کی بنیاد پر رکھی گئی ہے اور ہر جگہ اور ہر زمانے میں انسانوں کی تمام روحانی اور مادی جہتوں کو شامل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ تہذیب جس کی بنیاد مذہبی اخلاقیات پر ہے، متحرک ہے اور اس میں حرکت اور تعامل شامل ہے۔

امام خمینی اور رہبر انقلاب اسلامی کی نظر میں اسلامی تہذیب سے مراد ایک خارجی اور تاریخی حقیقت ہے، جو پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں تشکیل پائی اور بعد میں پھیل گئی۔ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کی ذمہ داری اور اسلام کی روشنی کو پھیلانے کے ساتھ ایک نئے الہیٰ ترقی پسند مکتب کی منفرد خصوصیات کے ساتھ تہذیب کا ایک نیا چہرہ دکھایا۔ اس نئی تہذیب نے جزیرہ نما عرب کی سرزمین میں جڑ پکڑی۔ ایک ایسی سرزمین جس میں اس وقت تہذیب کے سب سے کم مظاہر تھے اور دنیا تاریکی میں تھی اور عظیم تہذیبیں جیسے قدیم ایران، روم اور یونان کی تہذیبیں زوال پذیر تھیں۔ اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے ایک ایسی اسلامی تہذیب کی تعمیر کی، جس نے فکر، عقیدہ، سائنس، فنون لطیفہ، صنعت، سیاسی، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، حتیٰ کہ عسکری اور حفاظتی تعلقات میں انقلاب برپا کیا۔ اسلامی تہذیب کی بنیاد قرآن اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ جو مسلمان مفکرین کی کوششوں سے تشکیل پائی اور دنیا میں تہذیب کا ایک نیا مفہوم پیدا ہوا۔

کھلا ثقافتی ماحول، اخلاقی نظم و ضبط کو وسعت دینا، روحانیت کی حکمرانی، سوچ اور فکر کی اصلیت، بہتر معیار زندگی، فلاح و بہبود کی سطح کی بلندی، نسلی اور قبائلی تعصبات سے اجتناب، خود غرضی پر یکجہتی کی فوقیت، علم اور ادب کی ترقی اور غریبوں کا خیال وغیرہ وہ اسلامی تہذیب کے شاندار اجزاء تھے، جن کی اسلام کے عروج کی پہلی چند صدیوں میں نشوونما ہوئی۔ اسلامی تہذیب کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس تہذیب نے کبھی بھی اپنے آپ کو کسی ایک قوم اور نسل تک محدود نہیں رکھا، اس لیے تمام مختلف نسلی گروہوں بشمول عرب، ایرانی، ترک، ہندوستانی، چینی، منگول، افریقی اور یہاں تک کہ دیگر نسلی گروہوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔

دوسری طرف اس تہذیب نے سائنس اور علم کو بہت اہمیت دی۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اہل بیت (ع) کی بہت سی احادیث لوگوں اور معاشرے میں عام تھیں، جو لوگوں کو علم سیکھنے کی ترغیب دیتی تھیں اور پیغمبر اسلام اور آپ کے اہل بیت (ع) اسے قیمتی اور ضروری سمجھتے تھے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں انسانوں کو اپنی حکمت، علم اور شعور میں اضافہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ علم کی تاریخ کے باپ جارج سارٹن کہتے ہیں: ’’علم میں اس دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں نے دنیا پر چھ صدیوں تک حکومت کی۔ اس کے بعد 250 سال تک وہ عیسائیوں کے ساتھ ملکر علم کی عالمی تحریک کے علمبردار رہے۔"

اخلاقیات کو اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھنے کے بنیادی اصولوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں "اچھے اخلاق" کی ترویج اسلامی تہذیب کی ایک اور اہم خصوصیت تھی، جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں صبر، تحمل اور بردباری جیسی صفات میں اضافہ ہوا۔ اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی تہذیب کی تشکیل کے اہداف میں سے ایک ایسا سیاق و سباق پیدا کرنا ہے، جس میں مسلمان اسلامی اخوت اور محبت کی لڑی میں پرو کر اختلافات کو کم کریں اور اتحاد کے نکات کو زیادہ سے زیادہ اہم سمجھیں۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور باہمی مشترکات کی طرف توجہ کے مسئلہ پر رہبر انقلاب کی پر زور تاکیدات اسی تناظر میں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں ہر سال وحدت اسلامی کے موضوع پر کانفرنسوں کا انعقاد اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران ان جیسے دیگر پلیٹ فارم بنا کر مسلمانوں کے درمیان اخوت اور محبت کے جذبے کو بڑھانے اور ایک نئی اسلامی تہذیب کے ظہور کے لیے مرکزی پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کرتا چلا آرہا ہے۔

نئی اسلامی تہذیب کے احیاء کا مطلب ماضی میں واپس جانا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پچھلی تہذیب کے سرمائے کو جدید تہذیب کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے اور ایران کا اسلامی انقلاب اپنی صلاحیتوں کے ساتھ نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایرانی مفکرین میں سے ایک سید حسین نصر اپنی کتاب "معرفت جاودان" میں لکھتے ہیں: "ایران کے اسلامی انقلاب اور نئی اسلامی تہذیب کے درمیان تعلق کا مطالعہ کرتے ہوئے، یہ کہنا چاہیئے کہ اسلامی انقلاب جدید اسلامی تہذیب کا نقطہ آغاز ہے اور اسلامی انقلاب ماضی کے تجربات اور فتوحات اور شکستوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اس سمت میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔"

اسلامی انقلاب کے ذریعے نئی اسلامی تہذیب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مذہب ترقی سے متصادم نہیں ہے، بلکہ اسلامی قانون میں موجودہ صفات کیوجہ سے سماجی انصاف اور مساوات کو نافذ کیا جا سکتا ہے، جو اقتصادی اور سیاسی ترقی وغیرہ میں تمام لوگوں کے لئے سودمند ہے۔ درحقیقت اسلامی تہذیب کا احیاء نئے حل تلاش کرنے کی کوشش ہے، جس میں تباہ کن مغربی ثقافت کی کوئی جگہ نہیں۔ دنیا میں طبقاتی فرق اور طاغوت کی حکمرانی کو ختم کرکے ایک نئی تہذیب کی تشکیل، جس کی بنیاد عدل پر ہو، سب سے اہم ہے۔ اسلامی انقلاب نے علم کے میدان بالخصوص، صنعتی، فوجی، طبی ،دوا سازی، ایٹمی ٹیکنالوجی میں ترقی اور خود کفالت و خود انحصاری کے میدانوں یہ ثابت کر دیا کہ پابندیوں کے مشکل ترین حالات میں بھی اسلامی حکومت چل سکتی ہے۔

مسلم اقوام اسلامی جمہوریہ کے مزاحمت اور پیشرفت کے ماڈل پر عمل کرتے ہوئے یکجہتی اور ہمدردی کو بڑھا کر نیز خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہو کر ترقی حاصل کرسکتی ہیں۔ اگر مسلمانوں میں روحانیت، علم اور اخلاقیات پر توجہ دی جائے تو نئی اسلامی تہذیب بھی زندہ ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں عالم اسلام کے مفکرین کا اہم کردار ہے۔ ان پر فرض ہے کہ وہ بیداری اور بصیرت پیدا کرکے مسلمانوں کو نئی اسلامی تہذیب کے مقاصد اور نظریات سے آگاہ کریں اور اس آزاد تہذیب کی تعمیر میں اپنے اہم اور سنجیدہ کردار سے بے خبر نہ رہیں۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

یہ بات حسین امیر عبداللہیان نے ہفتہ کے روز بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کے حرم مطہر میں وزارت خارجہ کی امام خمینی سے تجدید عہد کے موقع پر صحافیوں کے ساتھ ویانا مذاکرات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

پابندیاں ہٹانے کیلیے ہمارے اہم مسائل میں سے ایک ضمانت حاصل کرنا ہے۔ اقتصادی اور سیاسی شعبوں میں ضمانت کے حوالے سے ہم نے اعلان کیا کہ کچھ معاہدے طے پا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ثالثوں کےذریعہ امریکہ سے کہا ہے کہ امریکہ کو عملی طورپر حسن نیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری نظر میں حسن نیت یہ ہے  کہ اس کے اثرات گراؤنڈ پر  نمایاں اور ظاہر  ہوں۔ بعض پابندیوں کی منسوخی گراؤنڈ پر ثابت ہوجائے تو یہ حسن نیت کا مظاہرہ ہوگا۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ ویانا مذاکرات میں ہمارا ایک اہم مطالبہ پابندیوں کا خاتمہ اور ضمانت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیاسی، اقتصادی  اور حقوقی میدانوں ٹھوس ضمانت چاہیے۔ اور ویانا مذاکرات میں ہم اس کا پیچھا کررہے ہیں۔

بسم‌اللّہ‌الرّحمن‌الرّحیم.

 والحمد للّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی محمّدٍ و آلہ الطّاہرین۔ و لعنۃاللّہ علی اعدائہم اجمعین۔

میں واقعی آپ حضرات کا بہت شکر گزار ہوں جنھوں نے اس بارے میں سوچا اور یہ بڑا اقدام انجام دیا۔ البتہ یہ ایک تمہید ہے۔ یعنی آپ کا یہ اقدام اور جناب حمزہ سلام اللہ علیہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ اجلاس، یہ تمہیدی کام ہے، اگلے کاموں کے لیے آئيڈیل معین کرنے والا کام ہے۔ اصل کام تو ہنر کو انجام دینا ہے۔ اس کام کے لیے پرفارمنگ، لسانی اور ویجوول (visual) آرٹس کو استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ حضرت حمزہ جیسی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کا مقصد پورا ہو سکے۔ ورنہ صرف خراج عقیدت پیش کرنے کے اجلاس سے، گو کہ ممکن ہے کہ میڈیا سے نشر ہو اور ایک مدت تک اس اہم شخصیت کا نام نشر ہوتا رہے، لیکن آپ جو کام کرنا چاہ رہے ہیں، ثقافت سازی کرنا چاہ رہے ہیں، آئيڈیل سازی کرنا چاہ رہے ہیں، وہ ہنری کام کے بغیر پوری طرح سے انجام نہیں پا سکتا، ادھورا رہ جائے گا۔ بنابریں آپ کا کام بہت اچھا ہے۔ آپ جو بھی کر سکتے ہیں، جیسا کہ  آپ نے اشارہ بھی کیا ہے، صحیح ہے، اعتقاد پر بھروسہ کیجیے اور کام کی کوالٹی بہتر سے بہتر بنائیے۔ یہ اس بات کا سبب بنے گا کہ جو، ہنری کام کرنا چاہتا ہے اس کے پاس ضروری مآخذ اور ٹھوس دستاویزات موجود رہیں گی۔ کچھ جملے جناب حمزہ علیہ السلام کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا۔

واقعی حضرت حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مظلوم اصحاب میں سے ایک ہیں۔ یعنی ان کا جو کردار رہا ہے، چاہے ایمان لانے کے وقت، ایمان لانے کی وہ کیفیت کہ اس عظیم شخصیت نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ میں مسلمان ہو گيا ہوں اور ابن اثیر کے بقول ابو جہل کی خوب پٹائي کے بعد انھوں نے اسلام کا اعلان کیا۔ اُسدُالغابہ میں ابن اثیر نے اسی طرح بیان کیا ہے۔ اس کے بعد ہجرت کا مسئلہ، مدینے پہنچنے کا مسئلہ، اسلام کی پرشکوہ عمارت کی تعمیر میں، جسے پیغمبر اس چھوٹے سے ماحول میں انجام دینا چاہتے ہیں، حضرت حمزہ کی شخصیت کا بڑا اثر تھا۔ پھر ایک روایت کی بنیاد پر رسول خدا نے جس پہلے سریّے(1) میں روانہ کیا تھا، وہ حضرت حمزہ کا سریہ تھا۔ آپ نے ان کے لیے پرچم تیار کیا اور انھیں جنگ کے لیے بھیجا۔ پھر جنگ بدر اور وہ عظیم کارنامہ جو انھوں نے اور ان دو بزرگوں نے انجام دیا اور پھر جنگ احد۔ جنگ بدر میں، بظاہر جنگ بدر میں ہی ایک قیدی نے پوچھا کہ وہ کون تھا جو لڑتے وقت اپنے ساتھ ایک علامت لئے ہوئے تھا؟ - حضرت حمزہ اپنے لباس میں کوئي علامت رکھتے تھے - اس قیدی کو بتایا گيا کہ وہ حمزہ ابن عبدالمطلب تھے۔ اس نے کہا کہ ہم پر جو بھی مصیبت آئی، وہ انہی کے ذریعے آئي۔ انھوں نے ہی جنگ بدر میں لشکر کفار کا بیڑا غرق کر دیا۔ مطلب ان کی اس طرح کی شخصیت تھی۔ ان سب کے باوجود، وہ ناشناختہ ہیں، ان کا نام نمایاں نہیں ہے، ان کی زندگي کے حالات کے بارے میں لوگ زیادہ نہیں جانتے، ان کی خصوصیات لوگوں کو نہیں معلوم، واقعی وہ مظلوم ہیں اور میں کہتا ہوں کہ خدا رحمت کرے مصطفی عقاد پر اور ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی فلم 'الرسالۃ' (The Message) میں اس عظیم شخصیت کو، ایک معرکۃ الآرا فلم میں، واقعی معرکۃ الآرا فلم ہے، خاص طور پر حضرت حمزہ سے متعلق حصے میں، اور اس کردار کا اداکار بھی غیر معمولی طور پر مشہور اور اہم ہے اور اس کا ایک خاص جلوہ ہے، کسی حد تک اس عظیم شخصیت کی تصویر کشی کرنے میں کامیابی حاصل کی، البتہ کسی حد تک ہی۔ یہ کام ہونا چاہیے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دیگر اصحاب کے سلسلے میں بھی یہ کام ہونا چاہیے۔ عمار کے بارے میں بھی یہ ہونا چاہیے، جناب سلمان کے بارے میں بھی ہونا چاہیے، جناب مقداد کے بارے میں بھی ہونا چاہیے، مقداد کو کون پہچانتا ہے؟ کون جانتا ہے کہ انھوں نے کیا کیا ہے؟ یہاں تک کہ پیغمبر کے اول درجے کے اصحاب کے بارے میں ہے کہ 'حاص حیصۃ'(1) سوائے مقداد کے، صرف وہی تھے جن میں بالکل بھی لغزش نہیں آئي، یہ چیزیں بڑی اہم ہیں، انھیں سامنے لانا چاہیے، ان کا احیاء ہونا چاہیے۔ یا جناب جعفر بھی اسی طرح کے ہیں، خاص طور پر حضرت جعفر ابن ابی طالب کی زندگي میں ہنری صلاحیتیں بہت زیادہ تھیں۔ وہ حبشہ کا سفر، سفر کی کیفیت، سفر پر جانا اور واپس آنا، یہ بڑی معیاری چیزیں ہیں اور ہنری لحاظ سے ان پر بڑا اچھا کام کیا جا سکتا ہے۔ خیر تو پہلے مرحلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناب حمزہ کی شخصیت اس لحاظ سے بڑی مظلوم ہے کہ انھیں کما حقہ نہیں پہچانا گيا۔

ان کاموں کے علاوہ امیر المومینن علیہ السلام کا وہ فرمان، وہ روایت جو نور الثقلین نے خصال کے حوالے سے نقل کی ہے، البتہ میں نے خصال میں نہیں بلکہ نور الثقلین میں دیکھی ہے، حضرت حمزہ کے بارے میں، میرے خیال میں اہم روایت ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، امیر المومنین کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا، یہ تفصیلی روایت ہے جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے: "لَقَدْ كُنْتُ‏ عَاھَدْتُ‏ اللَّہَ‏ تعالی وَ رَسُولَہُ اَنَا وَ عَمِّي حَمْزَۃُ وَ اَخِي جَعْفَرٌ وَ ابْنُ عَمِّي عُبَيْدَۃُ" ان عبیدہ ابن حارث کو بھی کوئي نہیں جانتا، یہ عظیم شخصیت بھی ناشناختہ ہے۔ یہ وہ ہیں جو جنگ بدر میں گئے تھے، ان تین افراد میں سے ایک تھے اور پھر شہید ہوئے تھے، بعد میں شہید ہوئے تھے۔ کسی کو بھی ان کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ حضرت امیر ان کا نام لیتے ہیں، میں، میرے چچا حمزہ، میرے بھائي جعفر اور میرے چچا زاد بھائي عبیدہ۔ فرماتے ہیں کہ "عَاھَدْتُ‏ اللَّہَ‏ تعالی اَنَا" میں نے اور ان لوگوں نے اللہ سے عہد کیا " عَلَى اَمْرٍ وَفَيْنَا بِہِ لِلَّہِ وَ لِرَسُولِہِ صلّی علیہ و آلہ" ایک بات پر آپس میں اتفاق کیا، خدا اور اس کے پیغمبر سے عہد کیا، مطلب یہ کہ بیٹھے اور یہ طے کیا۔ جوان امیر المومنین اپنے سن رسیدہ چچا کے ساتھ، جو پیغمبر سے دو سال بڑے تھے، ایک روایت کے مطابق حضرت حمزہ عمر کے لحاظ سے رسول خدا سے دو یا چار سال بڑے تھے اور وہ پیغمبر کے رضاعی بھائي بھی تھے۔ تو امیر المومنین اپنے ان چچا، بھائي اور چچا زاد بھائي کے ساتھ بیٹھے اور ایک بات کا عہد کیا اور بات "جہاد حتی الشہادۃ" یعنی شہادت تک جہاد سے عبارت تھی۔ یعنی یہ کہ ہم اس راہ میں شہادت تک بغیر ڈرے آگے بڑھتے رہیں گے، شہادت حاصل ہونے تک جہاد کرتے رہیں گے۔(2) اس کے بعد امیر المومنین فرماتے ہیں: "وَفَيْنَا بِہِ لِلَّہِ وَ لِرَسُولِہِ صلّی اللّہ عَلَیْہِ وَ آلِہ فَتَقَدَّمَنِي أصْحَابِي" یہ لوگ یعنی میرے تین ساتھی مجھ سے آگے بڑھ گئے "وتَخَلَّفتُ بَعْدَھُم(3)  لِمَا اَرَادَ اللَّہُ تَعالی فَاَنْزَلَ اللَّہُ فِينَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجالٌ صَدَقُوا ما عاھَدُوا اللَّہَ عَلَيْہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضى‏ نَحْبَہ" آيت کے آخر تک، پھر کہتے ہیں کہ حمزہ، جعفر اور عبیدہ، جن لوگوں نے، قضی نحبہ، یعنی جنھوں نے اپنے عہد کو پورا کیا، وہ یہ تین لوگ ہیں۔ "و انا واللہ المنتظر" اور خدا کی قسم میں منتظر ہوں۔ یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔ امیر المومنین کی زبان سے یہ بات اس طرح بیان ہوئي ہے۔ اس طرح سے لوگوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے، ان کی عظمت بیان کی جائے اور ان کی شخصیت کو نمایاں کیا جائے، یہ اس موضوع کی عظمت اور اس شخصیت کی عظمت کا غماز ہے۔ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حمزہ کی شہادت کے لمحے سے ہی انھیں رول ماڈل بنانا چاہا۔ آپ نے انھیں سید الشہداء کا لقب دیا، پھر مدینے لوٹے تو دیکھا کہ انصار کی عورتیں، کیونکہ جنگ بدر میں بہتّر لوگ شہید ہوئے تھے، چار افراد مہاجرین میں سے تھے اور اڑسٹھ انصار میں سے شہید ہوئے تھے، تو انصار کی عورتیں رو رہی تھیں، گریہ و زاری کر رہی تھیں، بین کر رہی تھیں، پیغمبر نے کچھ دیر تک سنا اور پھر فرمایا کہ حمزہ پر کوئي رونے والی نہیں ہے۔ یہ بات مدینے کی خواتین تک پہنچی اور ان سب نے کہا کہ ہم اپنے شہید پر رونے سے پہلے حمزہ پر گریہ کریں گي، پیغمبر نے انھیں اس کام کی ترغیب دلائي تھی نا، یعنی انھوں نے پورے مدینہ کو حضرت حمزہ پر رونے کی ترغیب دلائي، پورے مدینے میں کہرام مچ گيا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے رسول اللہ، جناب حمزہ کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سید الشہداء ہیں اور وہ ہیں جن پر سبھی کو گریہ کرنا چاہیے۔ یہ رول ماڈل بنانا ہے۔ اور یہ چیز صرف اسی دن کے لیے نہیں ہے، ہمیشہ کے لیے اور پوری تاریخ کے لیے ہے، تمام مسلمانوں کے لیے ہے، بنابریں آپ کا کام صرف ملک کے اندر اور ایران کا نہیں ہے، آپ ایسا کام کر رہے ہیں جو ان شاء اللہ اگر اچھے سے ہو گيا اور مجھے پوری امید ہے کہ یہ کام اچھے سے ہو جائے گا، تو پھر یہ سبھی اسلامی ملکوں، سبھی عرب ملکوں اور دیگر زبان کے ملکوں کی ایک خدمت ہوگي۔ اس سے سبھی کو فائدہ اٹھانا چاہیے اور ان شاء اللہ سبھی فائدہ اٹھائيں گے۔ شاید ان کے فنکار پیشقدمی کریں اور بڑے بڑے کام انجام دیں۔

خیر، اب ہمیں جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت حمزہ کی شخصیت کو تشکیل دینے والے عناصر کا تعین کریں۔ یعنی ایک بڑا کام یہ ہے کہ اس شخصیت کے ساتھ کیا ہوا، کس خصوصیت نے انھیں اس حد تک عظمت عطا کی۔ میرے خیال میں یہ ایک اہم کام ہے، پھر یہ ہم لوگوں کے لیے آئيڈیل بن جائے تاکہ خود ہم لوگ بھی اور دوسرے بھی، اس سے استفادہ کریں۔ میرے خیال میں حضرت حمزہ کی شخصیت کو تشکیل دینے والے عناصر میں سے دو یہ ہیں: ایک عزم مصمم اور دوسرے شناخت؛ شناخت کی طاقت۔ ان چیزوں کی ہمیں زیادہ سے زیادہ ترویج کرنی چاہیے۔ عزم مصمم، ٹھوس ارادہ؛ کبھی انسان کسی بات سے مطلع ہوتا ہے، کسی بات کو مانتا بھی ہے، اس پر عقیدہ بھی رکھتا ہے لیکن کمزور ارادے کے سبب اس کے مطابق عمل نہیں کر پاتا۔ ٹھوس ارادہ اور عزم مصمم یہاں پر ایک فیصلہ کن عنصر ہے کہ اس پرعزم شخصیت نے، جس دن حضرت حمزہ نے اپنے اسلام کا اعلان کیا، بعثت کے آٹھویں سال انھوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا، وہ دن پیغمبر کے سخت ترین ایام میں سے ایک تھا، کیونکہ اسلام آشکار ہو چکا تھا اور ادھر ادھر سے پیغمبر پر حملے ہو رہے تھے، رسول خدا کے اصحاب پر حملے ہو رہے تھے، یہ سختیاں جو ہم نے سنی ہیں، انھیں برسوں سے متعلق ہیں۔ انھیں سخت برسوں میں، ایسے حالات میں جب مسلمان انتہائي سختی میں زندگی گزار رہے ہیں، اس شخصیت نے مسجد الحرام میں، کعبے کے قریب چیخ کر کہا کہ میں مسلمان ہو گيا ہوں، سبھی جان لیں کہ میں ان کے دین پر ایمان لے آيا ہوں۔ یہ وہی شجاعت ہے، وہی ٹھوس ارادہ اور عزم مصمم ہے اور صحیح شناخت ہے اور یہ صحیح شناخت بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو اپنے عوام کو یہ سکھانا چاہیے کہ مسائل کے بارے میں صحیح طریقے سے سوچیں اور صحیح تعین کریں۔ قالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ ما كُنَّا في‏ اصحابِ السَّعيرِ"(4) فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِھِم(5) (کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اِس بھڑکتی ہوئی آگ کی سزا پانے والوں میں نہ شامل ہوتے۔"  تو اس طرح وہ اپنے قصور کا اعتراف کر لیں گے۔) یہ کہ ہم نہ سنیں، نہ سوچیں، غور نہ کریں، یہ گناہ ہے، قرآن مجید، اس طرح صراحت کے ساتھ اسے بیان کرتا ہے۔

تو یہ بزرگ شخصیت امام محمد باقر علیہ السلام کے مطابق امیر المومنین کے حوالے سے "صدقوا ما عاھدوا اللہ"(6) کی مصداق ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ "صدقوا ما عاھدوا اللہ" یعنی عہد الہی کو صداقت کے ساتھ پورا کر دکھانا، یہ کیسے ہوتا ہے؟  اس کی مکمل اور کامل شکل یہ ہے کہ انسان، الہی تعلیمات، الہی احکام اور خدا کی معین کردہ راہ کے لیے خود کو آئيڈیل بنا دے، خود کو اس کا مصداق بنا لے۔ ان شاء اللہ ہمیں یہ سیکھنا چاہیے۔ اگر معاشرے کی سرکردہ شخصیات اس طرح کی شخصیات تیار کرنے کی کوشش کریں تو ان میں سے ہر ایک، حساس مواقع پر سماج کو نجات دے سکتی ہے۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ ہم اس بات پر اکتفا نہ کریں کہ کچھ ایسے لوگوں کی تربیت کریں یا وعظ و نصیحت کریں یا ایسا ہی کچھ اور کریں کہ نتیجتا وہ اچانک ہی کوئي بھی بات تسلیم کر لیں، نہیں، کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ایسی ایک پوری مشینری ہو۔ بحمد اللہ جامعۃ المصطفی(7) اس سلسلے میں ایک سرگرم مرکز ہو سکتا ہے۔ قم میں بعض مراکز، جنھیں بحمد اللہ حال میں اعلی دینی تعلیمی مرکز کی کارآمد منتظمہ نے وجود عطا کیا ہے، اس طرح کی چیزوں کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ کچھ تشہیراتی ادارے بھی اس سلسلے میں اچھا کام کر رہے ہیں۔ ہم ایسی شخصیتیں تیار کریں جو خود الہی تعلیمات، اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکام کی مصداق ہوں۔ اگر اس طرح کی شخصیات تیار ہو گئيں تو پھر اسلامی تمدن کی تشکیل، ایک یقینی بات ہوگي، یعنی پھر اس میں کوئي شک و شبہ نہیں رہ جائے گا۔

ان شاء اللہ خداوند عالم آپ لوگوں کو اجر عطا کرے، آپ کو کامیاب کرے تاکہ آپ اس کام کو اور اگلے کاموں کو ان شاء ا للہ بہترین طریقے سے انجام دے سکیں۔ اس اجلاس کے انعقاد میں شامل آپ تمام حضرات کا میں اپنے طور بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ