سلیمانی

سلیمانی

تہران، ارنا – ایرانی وزیر صحت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے دنیا میں ویکسینیشن اور کورونا پر قابو پانے میں کامیاب کاردگی کا مظاہرہ کیا اور اس ایونٹ میں صحت کے عملے کی کاوشیں قابل قدر تھیں۔

بہرام عین اللہی نے کہا کہ ویکسینیشن کے مسئلے پر طلباء اور مسلح افواج کے درمیان تعاون نے ظاہر کیا ہے کہ اگر ہم مل جل کر کام کریں تو بہت اچھا کام کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران خطے کے طبی علوم میں اعلی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیے بین الاقوامی سائنسی کانفرنسوں کے انعقاد کو مضبوط بنایا جانا چاہئیے۔
انہوں نے تحقیق، علم پر مبنی اور تعلیمی کاموں میں طلباء کی شرکت پر زور دیا اور کہا کہ نوجوان ایران اور دنیا میں بہت سے عظیم کاموں کے خالق رہے ہیں، ایرانی طلباء کے پاس بہت زیادہ صلاحیتیں ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو 800 تحقیقی مراکز میں استعمال کیا جانا چاہیے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے

تہران، ارنا- ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ ہم کھبی امریکی جبر کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے اگر امریکہ حقیقت پسند ہو تو معاہدے کا حصول دستیاب ہے۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، ان خیالات کا اظہار "حسین امیر عبداللہیان" نے آج بروز پیر کو ایک ٹوئٹر پیغام میں کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پابندیوں کے خاتمے کے لیے ویانا مذاکرات کے عمل میں اگر کوئی وقفہ ہے تو اس کی وجہ امریکی جبر اور قوم کے اعلی ترین مفادات کے حصول میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مزاحمت اور سرخ لکیروں پر پابندی ہے۔

امیر عبداللہیان نے اس بات پر زور دیا کہ ہم کھبی امریکی جبر کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے اگر امریکہ حقیقت پسند ہو تو معاہدے کا حصول دستیاب ہے۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج شام کو امام خمینی کے روضہ حسینیہ میں پہلی رمضان المبارک کو منعقد ہونے والی قرآنی معرفت کی تقریب سے خطاب کیا۔ ہمارے ملک کے قارئین۔

آیت اللہ خامنہ ای کی تقریر کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:

رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اے میرے شہر دعوت خدا کی دعوت بہت خوب۔ آپ کو مدعو کیا گیا تھا۔ انسان کو کبھی کبھی کہیں مدعو کیا جاتا ہے اور حکم مان کر کسی پارٹی اور استقبالیہ میں جاتا ہے۔ ایک بار نہیں، انہوں نے ہمیں مدعو کیا، ہم اس پارٹی میں جانے اور استقبال کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ تو یہ میرا اور تمہارا ہاتھ ہے۔

*رمضان عید کا مہینہ ہے۔ چاند رحمت الہی کی لامحدود وسعت ہے۔ کون ہے جو اس دسترخوان پر بیٹھنے جائے؟آخر یہ کون ہے جو دل بہلائے؟ یہ بات ہے۔ ہمیں اس بڑے استقبالیہ ہال میں داخل ہونے اور اس میز پر بیٹھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ ضیافت کیا ہے؟ خدائے بزرگ و برتر، اب اگر آپ سب اس ضیافت ہال میں بہترین طریقے سے داخل ہوں اور انشاء اللہ آپ الہی ضیافت کو نظر انداز کر دیں تو وہ آپ کو کیا دیں گے؟ الہی مہمان نوازی خدا کے قریب ہونے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ یعنی یہ اس سے زیادہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں اپنے آپ سے رجوع کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

* قرآن کے ساتھ ہم جب چاہیں کلام الٰہی پر عمل کر سکتے ہیں، ہمیں قرآن کی تلاوت کو اسی آنکھ سے دیکھنا چاہیے۔

*تلاوت بار بار کی جائے، قرآن کو شروع سے آخر تک پڑھ کر دوبارہ شروع کیا جائے۔

*قرآن پیغمبر اسلام (ص) کا معجزہ ہے۔ پیغمبر کا دین ابدی ہے، اور اس کا معجزہ ابدی ہونا چاہیے، یعنی جب بھی آپ کو وہ علم مل جائے جس کی آپ کو تاریخ میں طویل عرصے تک رہنے کی ضرورت ہے، ایک عام زندگی، حکومت، خاندان، اور خدا سے تعلق کے لیے۔ قادرِ مطلق یہ انسانی زندگی کا عظیم دائرہ ہے، اور قرآن ان تمام عظیم حدود کا جواب دینے کے قابل ہونا چاہیے۔

* قرآن کی گہرائیوں سے استفادہ صرف سیکھنے اور تفقہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے، یعنی گہری تعلیم۔

* میں ایرانی قارئین کی اچھی تلاوت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ ہمارے قارئین بہت سے قاریوں سے بہتر قرآن پڑھتے ہیں جو دوسرے ممالک سے ایران آئے اور یہاں پڑھے۔

*کچھ قاری جو برسوں پہلے ایران آئے اور لوگوں کے لیے قرآن پڑھا اور لوگ ان کو "اللہ اللہ" کہتے تھے، ان کے اپنے ملک میں اس سے بہتر قراءت ہوتی تھی، لیکن ایران میں وہ اس معیار کی تلاوت نہیں کرتے تھے۔

* قارئین کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ قرآن کی تلاوت میں دکھاوے سے تلاوت قرآن کی جہت پر غالب نہ آجائے۔

* قرآن کے مبارک حروف میں سے ایک کا ذکر ہے؛ خود قرآن میں ذکر کی تفسیر متعدد مقامات پر استعمال ہوئی ہے اور اس سے مراد قرآن ہے۔ مثلاً "اور یہ انزلنا کی مبارک یاد ہے" ایک یاد دہانی ہے۔ تذکرہ ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے۔ تذکرہ کا مطلب ہے یاد کرنا۔ اگر آپ کو یاد ہے، آپ کسی سے بھی بات چیت کرتے ہیں، کسی بھی چیز کے ساتھ، اگر وہ یاد رکھتا ہے، تو آپ اب زبردستی بات چیت نہیں کریں گے۔ 

* اگر ہم خدا کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں، آسمان کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں، اپنے اعلیٰ باطن کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقرر کیا ہے اور ہم اس تک پہنچ سکتے ہیں اور اس کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں، اگر ہم بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسے یاد رکھنا چاہیے۔ اگر یہ سیکھا جائے تو اس کی نفی کی جائے گی۔ قرآن نے بارہا اس غفلت کے خلاف تنبیہ کی ہے اور ہمیں اس سے متنبہ کیا گیا ہے۔ غفلت بہت بڑی آفت ہے۔ غفلت ذکر کے خلاف ہے، قرآن بھی ذکر ہے۔ جتنا زیادہ آپ قرآن سے آشنا ہوں گے، اتنا ہی ذکر ہوتا جائے گا، اور یقیناً ذکر تقریباً یکساں ہے یا مراقبہ اور مراقبہ کے ساتھ ایک معنی میں متحد ہے، جس کو یہ تمام معنوی اور اخلاق والے لوگ مراقبہ پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں: مراقبہ کی طرف قدم بڑھانا؛ اپنا خیال رکھنا.

*قرآن کی تلاوت صرف ایک فن نہیں بلکہ دعوتِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔ جب آپ قرآن کی تلاوت کریں تو سننے والے کا ایمان بڑھ جائے۔

*قرآن کی تلاوت پہلے سے انجینئرڈ ہونی چاہیے، یعنی ہر حصے کے لیے صحیح لہجے کا انتخاب کرنا۔ تمام لہجے کہانی کے مواد کے لیے موزوں نہیں ہیں، یا تمام لہجے عذاب کی تنبیہ والی آیات کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ مصری قارئین واقعی اور کافی حد تک بہترین ہیں۔ جنت کا وعدہ، عذاب، کہانی اور۔ . . ان کا لہجہ انجینئرڈ ہونا چاہیے۔

* اگلی انجینئرنگ حجم کو چھوٹا اور بڑھا رہی ہے۔ کچھ قارئین غیر ضروری طور پر آواز بلند کرتے ہیں۔

* شامل کرنے کا معیار بھی بہت اہم ہے۔ سورۃ الفطر کی تلاوت میں عبد الفتاح شاشای آیت "اے لوگو تم خدا کے نزدیک فقیر ہو"۔ . . » اگرچہ وہ مختصر سانس کے ساتھ تلاوت کرتا ہے، اور عرب استعمار عموماً لمبی سانس لینے کی ترغیب دیتے ہیں، لیکن وہ اس آیت کو اس طرح پڑھتا ہے کہ مجلس اکھڑ جاتی ہے۔ میرے خیال میں آپ کو یہ تلاوت سننی چاہیے۔

*قرآن کی تلاوت کو کام کا ذریعہ ہونا چاہیے، تاکہ آپ اپنے سامعین پر اثر ڈالیں۔ شہریوں کا ہونا ضروری ہے۔

* ان چند برسوں میں ایران آنے والے بعض مصری قاری ہر قسم کی ریڈنگ رکھتے تھے، میرا اندازہ ہے کہ وہ بھی اسی طرح پڑھنے کے پابند تھے۔ میرے خیال میں اس کا کوئی مطلب نہیں ہے، کیونکہ اس سے یاد اور سزا نہیں ملتی۔

*ملک میں قرآنی سرگرمیوں کے حوالے سے اچھا کام ہوا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ایک اچھا کام جو کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ مساجد کو قرآنی بنیاد بنایا جائے اور ایک دوسرے کی جماعتوں میں جا کر ایک دوسرے سے مقابلہ کیا جائے۔ 

مسجد جامع تبریز شہر کی تاریخی مسجد میں شمار ہوتی ہے۔ تاریخی کتابوں میں اس کو«جامع کبیری» کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور اس شہر میں اس مسجد کے آس پاس بازار کا وجود قیام میں آیا ہے۔اس آثار کو ایران کے قومی ورثے میں شامل کیا گیا ہے۔

 
 

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے چیف کمانڈر نے کہا ہے کہ دشمنوں کی چھوٹی سی بھی شرارت کا ایران کی مسلح افواج دندان شکن جواب دے گی۔

فارس خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے چیف کمانڈر حسین سلامی نے صوبہ خوزستان میں یادگار والفجر 8 کا معائنہ کرنے کے موقع پر دفاع مقدس کی یادگاروں میں جوانوں کی کثیر تعداد کی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو جو آزادی ،کرامت  اورعزت و وقار ملا ہے وہ شہداء کی رشادتوں کی مرہون منت ہے۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے چیف کمانڈر نے تاکید کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایک طاقتور اورمضبوط ملک ہے اور ایران دنیا میں ترقی و پیشرفت کر رہا ہے اور یہ عزت و عظمت شہداء کے عظیم کارناموں کی بدولت ہے۔

یکنا نیوز کے مطابق گذشتہ روز ہونے والے خطاب میں انصار اللہ کے رہنما کا کہنا تھا یمن پر ہونے والی ناگہانی جارحیت سے واضح ہوتا ہے کہ کن افواج نے یہ  جارحانہ حملے انجام دیئے ہیں اور کن لوگوں پر یہ جارحیت انجام دی گئی. واشنگٹن کی طرف سے اس جارحیت کا اعلان کیا گیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس تجاوز کی نظارت کرنے والے اور انجام دینے والے کون ہیں! اس اتحاد کو بنانے والے امریکی، برطانوی اور اسرائیلی ہیں اور امریکہ اس کی نظارت کرنے والا ہے. شروع میں اس وحشیانہ بمباری پر فقط مقاومتی گروہوں نے ہی اس غیر انسانی عمل کی مخالفت کی باقی سارے جھان کی خاموشی کی وجہ سے اس اجتماعی قتل عام کا سلسلہ جاری رہا حتی کہ بعض افراد  کی طرف سے اس جنایت کو انجام دینے پر مبارک باد بھی پیش کی گئی۔

انکا کہنا تھا کہ جارح افواج کی جانب سے شروع سے ہی یہ کوشش کی گئی کہ یمنی تیل کے ذخائر پر قبضہ کیا جائے اور اس ملت کو ان کے اپنے ذخائر سے محروم کیا جائے متجاوز اتحاد کی جانب سے سات کھرب ڈالر کا تیل چوری کیا گیا۔

 سید عبد الملک کا مزید کہنا تھا کہ ہماری فوجی صنعت کی پایداری کی ایک وجہ جارحین سے مقابلے کا جذبہ تھا مختلف اقسام کے میزائل جس میں السرخہ ،ذوالفقار، قدس2 ،برکان2  شامل ہیں سے اس کا آغاز ہوا تھا اور اب جدید میزائل بنانے کا یہ سلسلہ جاری ہے ہمارا ملک فوجی ساز و سامان تیار کرنے میں خود کفیل ہے اور ہم اب غیر نظامی چیزیں بنانے کی طرف گامزن ہیں. یہی موضوع ہمارے دشمنوں کے غصہ کا باعث بن رہا ہے ہمارے میزائل یمن میں تیار کردہ ہیں اور اس حقیقت کو دشمن بھی جانتا ہے۔ ہماری عوام نے میزائل کی صنعت میں ہماری حمایت کی اور یمنی خواتین نے اپنا سونا اور مال مویشی بیچ کر اس میں اپنا حصہ شامل کیا اور میں جارحین کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس جارحیت سے باز آ جائیں اور اس محاصرے کو ختم کریں اور یمن پر قبضے سے پیچھے ہٹ جائیں اگر یہ نام نہاد اتحاد چاہتا ہے کہ اس دلدل سے نکلے تو پہلے اپنے حملوں کو بند کرے اور اس ظالمانہ محاصرے کو ختم کریں۔

سید کا کہنا تھا کہ ہم نے جنگ کے آٹھویں سال میں خدا پر توکل کرتے ہوئے ایک بڑی تعداد میں مجاہدین کے لشکر کے ساتھ آئیں گے ہم اس آٹھویں سال میں بیلسٹیک میزائلوں اور ڈرونز کے ساتھ آئیں گے ہم نے ان اقتصادی اور عسکری چلینچز کے ذریعے یہ سیکھا ہے کہ کیسے بحرانوں کو فرصت کے طور پر استعمال کریں اور تمام دنیا جانتی ہے کہ یہ یلغار آج تک ناکام ہوئی ہے اور اس کا نتیجہ بھی ناکامی کی صورت میں ہی نکلے گا۔انشاءاللہ

 
 
 

یمن کے خلاف آل سعود کی سربراہی میں عرب اتحاد کی جارحیت کو آٹھواں سال شروع ہو چکا ہے۔ اگرچہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے یمنی عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی کے بارے میں بے شمار رپورٹس شائع کی ہیں لیکن عالمی سطح پر شدید بے حسی طاری ہے اور امریکہ، مغرب اور مغرب نواز اسلامی ممالک نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں بچوں اور خواتین کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ اقوام متحدہ سے وابستہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یمن میں شدید غذائی قلت پائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں 1 کروڑ 74 لاکھ شہریوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے جبکہ سال کے آخر تک یہ تعداد 1 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔
 
دوسری طرف عالمی برادری نے یمن کی صورتحال پر آنکھیں موند رکھی ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف جارح سعودی اتحاد کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کی آشیرباد حاصل ہے بلکہ یہ طاقتیں اس جارحیت میں برابر کی شریک ہیں۔ یمنی عوام کو درپیش انتہائی مشکل حالات کے بارے میں غذا اور پانی کے عالمی اداروں "فا" اور "یونیسف" نے بھی رپورٹس جاری کی ہیں جس کے بعد برطانوی وزیراعظم بوریس جانسن نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ ان کا یہ دورہ ایسے وقت انجام پایا جب کچھ ہی دن پہلے ایک ہی دن میں 81 مخالفین کو دہشت گرد قرار دے کر ان کی گردنیں اڑائی جا چکی تھیں۔ اس کے باوجود خود کو انسانی حقوق کا علمبردار ظاہر کرنے والے مغربی ممالک خاص طور پر برطانیہ کی جانب سے ہلکا سا احتجاج بھی نہیں دیکھا گیا۔
 
برطانیہ اور سعودی عرب کے درمیان ہمیشہ سے انتہائی قریبی تعلقات برقرار رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ برطانیہ سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، لہذا آل سعود کے جنگی جرائم سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے اسے اسلحہ کی فروخت جاری رکھنے کو باہمی اتحاد کی مضبوطی تصور کیا جاتا ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ چند ماہ کے دوران لندن نے 18 ارب پاونڈ سے زیادہ سعودی عرب کو اسلحہ بیچا ہے۔ آج نہ صرف یمنی عوام کی مدد اور حمایت نہیں کی جا رہی بلکہ مختلف بہانوں سے وہاں انجام پانے والے سعودی جنگی جرائم پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔ سعودی عرب عالمی اداروں کو بھاری رشوت دے کر ان کا منہ بند کر دیتا ہے اور تسلی سے یمنی عوام کی نسل کشی میں مصروف ہے۔
 
یمن جنگ میں مرکزی کردار ادا کرنے والے ممالک میں سے ایک امریکہ ہے۔ امریکہ، فرانس اور جرمنی واضح طور پر متضاد رویہ اپناتے ہوئے ایک طرف تو انسانی حقوق کے دفاع کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف عالمی سطح پر اسلحہ فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔ اسٹاک ہوم میں واقع تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب دنیا میں اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ امریکہ کی جانب سے فروخت ہونے والے اسلحہ کا ایک چوتھائی حصہ سعودی عرب کے پاس پہنچتا ہے جس سے وہ یمنی عوام کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ نے ایک طرف یمن پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور حتی غذائی مواد اور ادویہ جات کی ترسیل بھی روک رکھی ہے جبکہ دوسری طرف انجلینا جولی جیسے فنکار بھیج کر خود کو یمنی عوام کا نجات دہندہ ظاہر کرتا ہے۔
 
انسانی حقوق کے عالمی ادارے بارہا یمن کے بارے میں وارننگ دے چکے ہیں کہ وہاں موجود انسانی بحران کی شدت ناقابل تصور ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گاتریش صرف اظہار افسوس پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور یمنی عوام کا محاصرہ توڑنے کیلئے کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیتے۔ یمن سے متعلق اقوام متحدہ کی کوتاہی اس قدر شدید ہے کہ خود مغربی شخصیات نے بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق خصوصی رپورٹر اور پرنسٹن یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر رچرڈ فالک کہتے ہیں: "اقوام متحدہ خود بھی ایک سیاسی کھلاڑی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ امریکہ جیسے ممالک اپنے سیاسی مقام کے ذریعے اقوام متحدہ میں لابیاں بنا کر رکھتے ہیں اور اس کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ لہذا وہ یمن کے بارے میں موثر فیصلہ انجام دینے سے قاصر ہے۔"
 
آج یمنی عوام کی قتل و غارت کو سات سال مکمل ہو چکے ہیں۔ عالمی برادری کو اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ جو اسلحہ دن رات یمنی عوام کے خلاف بروئے کار لایا جا رہا ہے وہ آل سعود رژیم نے کن ممالک سے حاصل کیا ہے؟ اور کیوں اقوام متحدہ اور خاص طور پر سلامتی کونسل جیسے عالمی ادارے اس بارے میں غیر جانبدارانہ پالیسی اپنائے ہوئے ہیں؟ اگر عالمی برادری یمن کے مسئلے پر منصفانہ متفقہ موقف اختیار نہیں کرتی تو اس کے نتیجے میں وہاں قحط اور غذائی قلت کے باعث مزید انسانی جانیں ضائع ہونے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ یوکرین کی جنگ بھی یمن جنگ پر یوں اثرانداز ہو رہی ہے کہ جارح سعودی اتحاد عالمی میڈیا کی توجہ تقسیم ہونے کا غلط فائدہ اٹھا کر یمن میں جنگی جرائم جاری رکھے ہوئے ہے۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے آج (منگل کو) کہا کہ امریکہ پر روسی سائبر حملے کے بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ریمارکس کے جواب میں ماسکو ڈاکہ نہیں ڈال رہا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کی صبح روس پر آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے پر روسی سائبر حملے کے امکان سے خبردار کیا۔

ٹاس نیوز ایجنسی کے ذریعہ پیسکوف کے حوالے سے کہا گیا کہ "بہت سے مغربی ممالک کے برعکس، جیسا کہ ریاستہائے متحدہ، روسی فیڈریشن ریاستی سطح پر قزاقی میں ملوث نہیں ہے۔"

دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اس سے قبل ماسکو پر امریکی کمپنیوں پر سائبر حملوں کے الزامات کو بکواس قرار دیا تھا۔

ماسکو نے اپنے مطالبات کی دستاویزات کیف کو پیش کر دی ہیں۔

روس یوکرین مذاکرات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یوکرین کے ساتھ مذاکرات میں روس کے موقف کی زبانی اور تحریری وضاحت کی گئی ہے، کیف کو متعلقہ دستاویزات موصول ہو چکی ہیں اور انہیں عام کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

پیسکوف نے کہا کہ یوکرین روس کے مطالبات سے بخوبی واقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں۔ ماسکو کی پوزیشنز زبانی اور واضح طور پر تحریری طور پر مقرر کی جاتی ہیں۔ "دستاویزات کا مسودہ چند روز قبل یوکرینیوں کو دیا گیا تھا۔"

کریملن کے ترجمان نے کہا کہ یوکرین نے کچھ دستاویزات کا جواب دیا ہے۔

روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کا عمل سست روی کا شکار ہے۔

پیسکوف نے روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور کے بارے میں کہا، "یہاں پروگرام کافی لچکدار ہے، اس لیے میں تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔" "یہ عمل جاری ہے، لیکن ہم یقینی طور پر زیادہ گہری اور بامعنی بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔"

انہوں نے مذاکرات کی پیش رفت کو سست قرار دیتے ہوئے کہا: "یوکرین ایک خودمختار ملک ہے اور اس کا گھریلو سیاسی طریقہ کار ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے۔ لیکن ان معاملات کے علاوہ دو وفود بھی مذاکرات کر رہے ہیں۔ "میں تفصیلات میں نہیں جا سکتا، لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر یہ مسائل اب عام ہو گئے تو اس سے مذاکراتی عمل میں خلل پڑ سکتا ہے، جو کہ ہماری خواہش سے بہت سست اور کم ہے۔"

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ اسرائیل کا وجود مشرق وسطیٰ میں ناجائز اور قابض و ظالم سے زیادہ کچھ نہیں، اب ایک نئے دھوکے اور عیاری کے انداز میں اس کے مصداق کہ ”نیا جال لائے پرانے شکاری“ نام نہاد معاہدہ ابراہیمی کے عنوان سے مسلم ممالک اور باالخصوص مسلم امہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں کہ تل ابیب کے اطراف میں مساجد و حلال فوڈ کے انتظامات اور بیت المقدس میں نماز کی سہولیات بارے دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کہتا ہے کہ دروازے کھول رہے ہیں، مگر افسوس اس ناجائز ریاست نے پہلے انبیاء کی مقدس سرزمین پر بسنے والے اس کے حقیقی ورثاء پر انہی کی زمین کو استعمار کی پشت پناہی سے تنگ کیا، انہیں شدید ذہنی و معاشرتی اور معاشی الجھنوں کا شکار کیا اور پھر ظلم کی تمام حدیں پار کرکے قبضہ کیا، مساجد سے لے کر گھروں تک مسمار کر دیئے، مرد و خواتین سمیت بزرگ و بچوں تک پر بھی رحم نہ کیا۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ بیت المقدس سے مسلمانوں کو بے دخل کر دیا اور آج مظلوموں کے خون پر کھڑے ہوکر پھر ”پارسائی“ کے دعوے، یہ کھلا دھوکہ ہے، بین الاقوامی دنیا اور سنجیدہ فکر حلقے کبھی بھی اس دھوکہ بازی میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بین الاقوامی سطح پر اعتماد کھو چکا، مگر نئے انداز میں دھوکہ دینا چاہتا ہے، جسے تمام باضمیر انسان ناصرف ناکام بنائیں گے، بلکہ اسے آنے والے وقت میں مزید بے نقاب بھی کرینگے۔ علامہ ساجد نقوی نے اسرائیل کے حوالے سے بین الاقوامی دوہرے معیار پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی طاقتوں کا دوہرا معیار عالمی امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
 
 
 

رہبر انقلاب اسلامی نے ہجری شمسی کیلنڈر کے نئے سال 1401 کے پہلے دن ٹی وی چینلوں سے براہ راست نشر ہونے والی اپنی تقریر میں، نوروز اور نئي صدی کے آغاز کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے، نئے سال کے نعرے کی تشریح کی اور مساوات کے ساتھ اقتصادی ترقی اور غربت کے مسئلے کے حل کی واحد راہ، نالج بیسڈ معیشت کی راہ پر آگے بڑھنا بتایا۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے افغانستان، یوکرین اور یمن میں جاری مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارے واقعات، سامراج سے مقابلے میں ایرانی قوم کی حقانیت اور اس کے موقف کی درستگی کو عیاں کرتے ہیں۔

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نوروز کی قومی عید کے موقع پر ذکر خدا، دعا، مناجات اور معنویت کی تقاریب کو ایرانی نوروز کی اہم خصوصیت بتایا اور کہا:  موسم بہار امید کا مظہر اور طراوت و روئیدگي کے پیغام کا حامل ہے اور اس سال، پندرہ شعبان کے ایام کی ہمراہی کی وجہ سے جو تاریخ اور انسانیت کی بہت بڑی امید کے جنم لینے کا دن ہے، یہ امید دوبالا ہو گئي ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امید، تمام کاموں اور ترقی و پیشرفت کا سرچشمہ ہے، کہا: جو لوگ عوام سے وابستہ رہتے ہیں، یا کچھ لکھتے ہیں یا انھیں پیغام دیتے ہیں، وہ لوگ جہاں تک ممکن ہو، عوام کے اندر امید پیدا کریں کیونکہ امید، پیشرفت کا اہم عنصر ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے پچھلے ایک عشرے میں مختلف برسوں کے نعروں اور اسی طرح سنہ 1401 کے نعرے کے لیے معاشی عناوین کے انتخاب کی وجہ بتاتے کہا: اس سال کے لیے اور سال کے نعرے کے لیے معاشی عنوان کے انتخاب کی وجہ، معیشت کے مسئلے کی کلیدی اہمیت اور اسی طرح پچھلے عشرے کے معاشی چیلنجز ہیں جن سے چھٹکارے کے لیے تدبیر اور صحیح عمل و اقدام کی ضرورت ہے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آج ملک کے عہدیداروں اور ملک کا نظام چلانے میں دخیل افراد کا سب سے اہم مسئلہ، معیشت ہے، کہا: البتہ عوامی سطح پر بھی کچھ سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں جو مناسب طریقے سے جاری رہیں تو بڑی امید افزا ہیں۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ معاشی ترقی حاصل کرنے کا واحد راستہ، نالج بیسڈ معیشت کی سمت میں آگے بڑھنا ہے، کہا: نالج بیسڈ معیشت سے مراد، سبھی میدانوں میں پیداوار کو سائنسی اور تکنیکی نظر سے دیکھنا ہے جس کا نتیجہ، پیداوار کے اخراجات میں کمی، فائدے میں اضافہ، پروڈکٹس کی کوالٹی میں بہتری، عالمی منڈیوں میں پروڈکٹس کا کمپیٹیشن کے لائق بننا اور ملک کے اندر مصنوعات کی تیاری کی قیمت میں کمی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں متعدد عالمی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن کے لیے تدبیر اور صحیح حرکت، فیصلے اور اقدام کی ضرورت ہے، کہا: جب دنیا کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو سامراجی محاذ کے مقابلے میں استقامت پر استوار ایرانی قوم کے موقف کی حقانیت مزید واضح ہو جاتی ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ استکبار کے مقابلے میں ایرانی قوم کا انتخاب، 'استقامت، ہتھیار نہ ڈالنے، عدم انحصار، خود مختاری کی حفاظت اور نظام اور ملک کی داخلی تقویت' تھا، کہا: یہ قومی فیصلے تھے جو بالکل صحیح تھے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے مظلوم مسلمان ملک افغانستان کے حالات، اس ملک پر ہونے والے ظلم اور بیس سال کے مظالم و جرائم کے بعد امریکیوں کے انخلاء کے طریقے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یوکرین کے واقعات بھی ایک دوسرا نمونہ ہیں کہ اس ملک کا صدر، جسے خود مغرب والوں نے اقتدار میں پہنچایا ہے، آج ان سے سخت لہجے میں بات کر رہا ہے۔

انھوں نے اسی طرح یمن کے واقعات اور اس ملک کے مزاحمت کار عوام پر روزانہ ہونے والی بمباری اور دوسری طرف 80 نوجوانوں اور بچوں کی گردن کاٹنے کے سعودی عرب کے اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ ساری باتیں، دنیا پر حاکم ظلمت اور خونخوار بھیڑیوں کی عکاسی کرتی ہیں جن کے ہاتھوں میں دنیا ہے۔

 رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ یوکرین کے واقعات کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس سے مغرب کی نسل پرستی عیاں ہو گئی۔ آپ نے کہا: سیاہ فاموں کو سفید فاموں سے الگ کرنا، انھیں ٹرین سے نیچے اتار دینا یا مغربی میڈیا میں مغرب والوں کا اس بات پر افسوس ظاہر کرنا کہ جنگ، مشرق وسطی کے بجائے یورپ میں ہو رہی ہے، مغرب کی کھلی نسل پرستی کے کچھ نمونے ہیں۔

انھوں نے ملکوں میں ظلم و ستم سے نمٹنے کے طریقۂ کار میں، مغربی دنیا کے دوغلے پن کا ایک اور نمونہ بیان کرتے ہوئے کہا: اگر ان کے کسی فرمانبردار ملک میں ظلم ہوتا ہے تو وہ کوئي بھی ردعمل ظاہر نہیں کرتے اور اتنے ظلم و ستم کے بعد انسانی حقوق کا دعوی بھی کرتے ہیں اور اس جھوٹے دعوے کے ذریعے خودمختار ملکوں سے غنڈہ ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے زور دے کر کہا: یہ ظلم و استکبار کے میدان میں عصر حاضر کا سب سے شرمناک دور ہے اور دنیا کے عوام ان مظالم اور دوغلے رویے کو براہ راست دیکھ رہے ہیں۔

انھوں نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں، پچھلے سال، سال کے پہلے دن کی تقریر کا حوالہ دیا جس میں آپ نے ملکی معیشت کو امریکی پابندیوں سے جوڑنے اور یہ بات کہنے سے منع کیا تھا کہ جب تک پابندیاں رہیں گي، صورتحال یہی رہے گي۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: بحمد اللہ ملک میں نئي پالیسیوں نے دکھا دیا ہے کہ امریکی پابندیوں کے باوجود ترقی و پیشرفت کی جا سکتی ہے، خارجہ تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، علاقائی معاہدے کیے جا سکتے ہیں اور تیل اور دیگر اقتصادی امور میں کامیابیاں حاصل کی جا سکتی .taghribnews