سلیمانی

سلیمانی

بی بی حضرت ام البنین ؑ فاطمہ بنت حزام کلابیہ کی ولادت رسول ﷺ پاک کی ہجرت کے پانچ سال کے بعد ہوئی۔آپ کا اصل نام فاطمہ وحیدیہ کلابیہ ہے ۔ عربوں کے درمیان خواتین کے لئے فاطمہ کا نام بہترین اور پربرکت سمجھا جاتا تھا ۔جب بی بی ام البنین کا نام فاطمہ رکھا گیا تو اس وقت فاطمہ نام کی تین خواتین موجود تھیں ۔ حضرت فاطمہ بنت اسد (والدہ حضرت علیؑ ) ، فاطمہ بنت حمزہ یا فاطمہ بنت ربیعہ، اور حضرت فاطمہ الزہراسلام اللہ علیہا دختر رسولﷺ۔ علامہ فیروز آبادی نے اپنے قاموس نامی کتاب میں بیس ایسی خوتین صحٓابیہ کا ذکر کیا ہے جن کا نام فاطمہ تھا۔اس لئے رسول اکرم ﷺ فخر کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ"انا بن الفواطم "میں فواطم(فاطمہ کی جمع) کا بیتا ہوں۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اکثر اپنے شجرہ پر فخرومباہا ت کی ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔اس طرح کا یہ بھی ارشاد ہے کہ "انا بن الذبیحین"میں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں (ایک ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ؑ بن حضرت ابرایہم ؑ اور دوسرے ذبیح اللہ حضرت عبداللہ ؑ بن عبدالمطلبؑ ۔)اسی طرح ایک اور موقع پر ارشاد فرمایاکہ "اناا بن العواتک و الفواطم "میں عاتکاؤں ( عاتکہ کی جمع) کا بیٹا ہوں میں فواطم(فاطمہ کی جمع) کا بیتا ہوں۔
جناب ھاشم کی والدہ کا نام عاتکہ تھا، جناب وھب کی والدہ کا نام عاتکہ تھا، جناب عبدالمناف کی والدہ کا نام عاتکہ تھا ، اسی طرح رسول اکرم ﷺ کی دادی( یعنی حضرت عبداللہ و ابوطالب کی والدہ )کا نام فاطمہ تھا، جناب قصئی کی والدہ کا نام فاطمہ تھا، جناب آمنہ کی والسہ کا نام تاریخ کی کتابوں میں فاطمہ لکھا گیا، جناب حمزہ کی بیٹی کا نام فاطمہ تھا، روسول اکرم ﷺ نے اپنی بیٹی کانام فاطمہ رکھا، حضرت علی ؑ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا ، امام حسن ؑ و حسینؑ نے اپنی بیٹیوں کے نام فاطمہ رکھے تھے، اور بعد تک ہر امام نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھا۔ماؤں کی طرف سے ہو یا باپ کی طرف سے کل عرب میں آپ ﷺ کے شجرے سے اعلیٰ شجرہ کوئی نہیں ہے اسی لئے آپ نے فرمایا کہ"اکل حسبِِ و نسبِِ ینقطع فی القیامہ الہ حسبیِ و نسبی" ہر حسب و نسب قیامت میں منقطع ہوجائے گا سوائے میرے حسب و نسب کہ۔ حسب و نسب کی یہ بلندی نہ کسی گھرانے نے پائی اورنہ اللہ تعالی نے کسی کو عطا کی ۔صرف رسول اکرم ﷺ کی نسبت اور نسب کا یہ احترام اور عظمت ہے ۔
آپ کی کنیت ام البنین تھی آپ اپنی اس کنیت سے اسقدر مشہور ہوئیں کہ اکثر مورخین نے اسی کنیت کو اصل نام لکھا ہے، تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ عربوں میں ام البنین کی کنیت سے بہت سی عورتیں مشہور تھیں ۔ اصل میں عربوں کے درمیان رواج تھا کہ جس عورت کے بطن سے تین فرزند پیدا ہوئے ہوں اس عورت کوام البنین کی کنیت سے پکارتے تھے۔ایام جاہلیت اور اسلام کے بعد بھی عربوں میں یہی رسم ورواج رہا۔ بعض عرب نیک شگونی کے طور پر بچی کو بچپنے میں ام البنین کی کنیت سے اس لئے پکارتے تھے کہ یہ کسی دن صاحب اولاد ہوگی۔ اسی طرح ام الخیر اور ام المکارمہ کی کنیت رکھتے تھے تاکہ خیر وبرکت اور اچھے اخلاق کی مالک بنیں۔یہی وجہ ہے کہ کچھ مرد اور خواتین کے اصل نام سے ان کی کنیت غالب آگئی جیسےام ایمن، ام سلمہ، ام کلثوم، ابوالحسن وغیرہ
آپ وحید بن کعب اور کلاب بن ربیعہ کے خاندان سے تھیں جو عرب میں ایک بہادر خاندان مانا جاتا تھا۔اکثر سنی وشیعہ مورخین نے لکھا کہ ایک روز حضرت علی ؑ نے اپنے بھائی حضرت عقیل کو جو عرب کے علم الانساب میں سب سے ماہر تھے بلایا اور آپ نے ان سے فرمایا کے بھائی میرے لئے ایک ایسی زوجہ انتخاب کریں جس سے ایک بہادر اور جری فرزند پیدا ہو، حضرت عقیل نے جناب حزام جو کہ ایک انتہائی شجاع انسان تھے کی بیٹی حضرت ام البنین بی بی فاطمہ علیہ السلام کا نام پیش کیا ، اور کہا کہ تمام عرب میں کوئی شخص ان کے باپ اور دادا سے زیادہ شجاع اور دلیر نہیں (الاصابہ ص۳۷۵ ج ا)۔
حضرت بی بی فاطمہؑ ام البنین کی والدہ ماجدہ ثمامہ خاتون بنت سہیل بن عامر تھیں۔ ثمامہ خاتوں کو صحابیات رسولﷺاکرم ہونے کا شرف حاصل ہے آپ کا شمار عرب کی صاحب دانش خواتین میں ہوتا تھا آپ ادیبہ بھی تھیں اور اریبہ بھی زیرک و دانا خاتون تھیں۔حضرت جناب ام البنینؑ کو آداب دین و شریعت آپ نے ہی تعلیم کئے تھے اور تربیت دی تھی اس کے علاوہ ثمامہ خاتوں نے اپنی بیٹی کو تمام اخلاق پسندیدہ اور آداب حمیدہ بھی تعلیم کئے۔حضرت ام البنین کے نانی کے بھائی عامر بن طفیل تھے جو گھمسان کی لڑائیوں میں عرب کے بہادر شہسواروں میں نظر آتے تھے۔آپ کا نام سن کرعرب و غیر عرب تھراتے تھے۔آپ اشجع عرب کے لقب سے مشہور تھے۔یہ عالم تھا کہ جب بھی قیصر روم کے پاس کوئی عرب سے جاتا تو وہ پوچھا کرتا کہ تمھارا عامر سے کیا رشتہ ہے۔اگر کوئی رشتہ نکل آتا تو اسے بے حد عزت و احترام حاصل ہوتا۔ آپ ہی کے خاندان کے ایک شخص عامر بن مالک کو" نیزوں سے کھیلنے والا "کا لقب ملا ہوا تھا آُپ کے والد محترم کا نا م حزام تھا اور حزام کے معنی لغت میں "چوڑے سینے والا"ہے(مصباح اللغات ص ۱۵۰)، تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ جناب بی بی فاطمہ ام البنین ؑ حسب و نسب اور طہارت و عفت اور خاندانی صفات کے لحاظ سے اپنوں کے درمیان منفرد حیثت رکھتیں تھی۔
بی بی ام البنین ؑ کے کئی اور القابات ہیں جن میں مشہور القابات، باب الحوائج، ام الشھداء اربعہ مشہورہے۔آ پ کے بطن مبارک سے چار فرزند پیدا ہوئے اور یہ چاروں کربلا میں اپنے امام وقت ،مظلوم کربلا، حضرت امام حسین علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے شہید ہوئے(اعیان الشیعہ) ۔ حضرت عباسؑ علمدار، جن کی روز ولادت ۴ شعبان۲۲ہجری ہے اور اس حساب سے آپ کی عمر روزعاشورہ ۳۸ سال کی بنتی ہے، حضرت عبداللہؑ واقعہ کربلا کے وقت ان کی عمر ۳۰ سال تھی، حضرت عمران اور کربلا کے واقعے کے دوران ان کی عمر ۲۸ سال تھی، حضرت جعفراور ان کی عمر شہادت کے وقت ۲۶سال تھی۔

ابنا۔ ایرانی ماہرین نے پہلی بار جامد ایندھن سے چلنے والے خلائی راکٹ انجن کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

یہ بات سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ایئرو اسپیس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے کہی۔

انہوں نے جمعرات کو قم شہر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ جامد ایندھن سے چلنے والے ملک کے پہلے خلائی راکٹ انجن کا یہ تجربہ گزشتہ ہفتے کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے دوسال کے دوران ایران نے جو راکٹ خلا میں بھیجے تھے، ان میں سیّال ایندھن استعمال کیا گیا تھا لیکن آج کے بعد سے کم خرچ راکٹ انجنوں کے ذریعے بڑی تعداد میں مصنوعی سیارچے خلا میں بھیجے جائیں گے۔

سپاہ پاسداران کی ایئرو اسپیس فورس کے کمانڈر نے مزید کہا کہ نئے ایرانی خلائی راکٹوں کا ڈھانچہ، غیر دھاتی کمپوزٹ مادوں سے تیار گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے ایرانی راکٹوں کا پروپیلر بھی غیر متحرک قسم کا ہے جو راکٹ کی طاقت میں اضافے اور اخراجات میں کمی کا باعث ہے۔

جنرل امیر علی حاجی زادے نے کہا یہ ٹیکنالوجی اب تک دنیا کے صرف چار ملکوں کے پاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلائی شعبے میں ایران کی ترقی و پیشرفت کا سلسلہ پوری قوت کے ساتھ جاری ہے اور آج ہم خلائی شعبے کی ترقی میں اس سطح پر پہنچ گئے ہیں جہاں سائنسدانوں کے قتل، دھمکیوں اور پابندیوں کے ذریعے ہماری صلاحتیوں اور توانائیوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

سپاہ پاسدران انقلاب اسلامی کی ایئرو اسپیس فورس کمانڈر نے کہا کہ دہشتگرد امریکی فوجیوں کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے خود اعتراف کیا ہے کہ ایران نے اپنی ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے ہماری فضائی برتری کا خاتمہ کر دیا ہے جبکہ اس سے پہلے ایٹلانٹک کونسل فار ویسٹ کے سربراہ نے بھی کہا تھا کہ خلیج فارس کے ارد گرد موجود امریکی بحری بیڑے بھی سن دوہزار بیس میں ایران کو میزائل تجربات اور عین الاسد چھاونی پر حملے کرنے سے باز نہیں رکھ سکے۔

حسین امیر عبداللہیان ایک اعلی سطحی وفد کی سربراہی میں آج بروز جمعہ چینی شہر ووشی پہنچ گئے۔

امیر عبداللہیان نے ووشی ہوائی اڈے پر پہنچنے پر کہا کہ ان کے دورہ چین کا مقصد چینی حکام کے ساتھ دو طرفہ سیاسی تعلقات کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران اور چین کے درمیان اقتصادی معاہدوں پر عمل درآمد کے بارے میں بات چیت کرنا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ، جو چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی سرکاری دعوت پر ایک اعلیٰ سطحی سیاسی اور اقتصادی وفد کی سربراہی کے لیے  آج جمعہ چین پہنچ گئے، اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ 25 سالہ تعاون کے پروگرام کی تازہ ترین صورتحال پر تبادلہ خیال کریں گے۔

انہوں نے حالیہ مہینوں میں ایران اور چین کے تعلقات کی توسیع کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چار مہینوں میں میرے اور چینی وزیر خارجہ کے درمیان سات سے زائد رابطے اور ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

تزویراتی امور ایران اور چین کے ایجنڈے میں شامل ہیں اور ان مسائل نے دونوں صدور کے درمیان خط و کتابت میں نیا ادب پیدا کیا ہے۔

 پاکستان پروفیسر برائے بین الاقوامی تعلقات نے ایران سے متعلق امریکی نقطہ نظر اور جوہری معاہدے کیخلاف صیہونی ریاست کی مداخلت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے ویانا مذاکرات مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل ایران جوہری معاہدے کیخلاف اپنی تمام تر تخریب کاری کے باوجود تہران کیخلاف واشنگٹن کی پابندیوں کی ناکامی سے مایوس ہے۔

رپورٹ کے مطابق، پنجاب اسٹیٹ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے سابق صدر" رشید احمد خان" نے اردو زبان کے اخبار "دنیا" میں شائع ہونے والے "ایران جوہری مذاکرات: کامیابی کا چنس" کے عنوان سے ایک مضمون میں کہا ہے کہ ویانا مذاکرات میں پیشرفت خوش آئند ہے، لیکن جوہری معاہدے کیخلاف سابق امریکی انتظامیہ کے اقدامات اور ٹرمپ کی یکطرفہ دستبرداری نے معاہدے کے فریقین بشمول تہران اور واشنگٹن کے درمیان اعتماد کی فضا کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔

انہوں نے باراک اوباما کے دور میں جوہری مذاکرات کی کامیابی، ایران مخالف پابندیوں کے خاتمے اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران سے متعل میں جارحانہ رویہ، جوہری معاہدے سے علیحدگی اور اقتصادی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ اسرائیل کا خیال تھا کہ پابندیاں ایران کی ترقی راہ میں رکاوٹیں حائل کریں گے لیکن اس کے برعکس اسلامی جمہوریہ نے کبھی دباؤ اور پابندیوں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور اپنی ایٹمی سرگرمیاں جاری رکھی۔

پاکستانی تجزیہ کار نے مزید کہا کہ  ایرانی ضمانت کی تلاش میں ہیں، خاص طور پر امریکہ کی طرف سے ایک مضبوط  ضمانت، کہ اگر جوہری معاہدے کو بحال کرنا ہے، تو مغرب کو واشنگٹن کے ساتھ مل کر یہ عہد کرنا ہوگا کہ ٹرمپ کے زمانے کی طرح کے اقدامات نہیں دہرائے جائیں گے او ایران کیخلاف تمام غیر قانونی پابندیاں ہٹائی جائیں۔

انہوں نے اپنے مضمون میں ناجائزصہیونی ریاست کیجانب سے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کی راہ میں روڑے اٹکانے، خطے میں اشتعال انگیز کارروائیوں اور علاقائی اور بین الاقوامی مساوات میں تہران کو تنہا کرنے کی کوشش کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ تل ابیب کو اب امریکی پابندیوں کی فضولیت کا احساس ہے اور وہ ایران کیخلاف ان پابندیوں کے غیر موثر ہونے سے مایوس ہے۔

رشید احمد خان نے کہا کہ ایران کو گھٹنے ٹیکنے کی امریکہ اور اسرائیل کی کوشش مکمل طور پر ناکام ہوگئی، اس کے برعکس تہران نے یورینیم کی پیداوار سمیت اپنی جوہری صلاحیتوں میں اضافہ کیا۔

اس کا خیال ہے کہ جوبائیڈن جوہری معاہدے کی بحالی کی سخت کوشش کر رہا ہے کیونکہ دوسرا مقصد تہران کے تئیں بیجنگ اور ماسکو کے تعمیری موقف اور امریکہ کی طرف سے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی اور خطے میں امن و استحکام کی ضرورت کے حوالے سے اس ملک کا مشترکہ نقطہ نظر ہے۔

پاکستانی پروفیسر نے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کو علاقائی سلامتی اور عالمی نظام کے لیے ایک بہت اہم واقعہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ویانا مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان سے امریکیوں کے انخلاء کے واقعہ کے بعد جوہری معاہدے کی بحالی؛ خطے کا دوسرا بڑا واقعہ ہوگا جس کا عالمی مساوات پر بڑا اثر پڑے گا۔

ایک امریکی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں امریکہ کے ایک بڑے سرکاری سرمایہ کاری فنڈ نے اسرائیلی ٹیکنالوجی کے شعبے میں وینچر کیپیٹل فرموں میں تقریباً 100 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

العالم کے مطابق وال سٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ ابوظہبی اور تل ابیب کے درمیان سفارتی تعلقات معمول پر آنے کے ڈیڑھ سال بعد دونوں فریقین کے حکام کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے اور توقع ہے کہ ان کے درمیان تجارت 2000 تک پہنچ جائے گی۔  "معمول پر دستخط سے پہلے ایک سال میں اس میں 250 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔"

وال سٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ " UAE Sovereign Wealth Funds اسرائیلی اور UAE کی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں براہ راست سرمایہ کاری کرتے ہیں، اور یہ کمپنیاں بقیہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی ترقی میں اپنے آپ کو شراکت دار کے طور پر پیش کرتی ہیں ۔"

رپورٹ کے مطابق ابوظہبی انویسٹمنٹ کارپوریشن، جو کہ 250 بلین ڈالر کے اثاثوں کا انتظام کرتی ہے، چھ وینچر کیپیٹل فرموں میں 20 ملین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی ہے، جن میں سے کچھ کا صدر دفتر مقبوضہ علاقوں میں ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل نے اس دوران نوٹ کیا کہ اسرائیلی کمپنیاں دبئی اور ابوظہبی میں نئے دفاتر میں سرمایہ کاری کرنے اور ملازمین کو تل ابیب سے منتقل کرنے کے خواہاں ہیں جہاں متحدہ عرب امارات کے سرکاری سرمایہ کاری فنڈز براہ راست اسرائیلی اور متحدہ عرب امارات کی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
 
.taghribnews.
 
 
 

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے "گر پیڈرسن"، جنہوں نے تہران کا دورہ کیا، آج (ہفتہ) وزیر خارجہ کے خصوصی سیاسی امور کے سینئر مشیر "علی اصغر خاجی" سے ملاقات کی۔ 

ملاقات کے دوران شام کے بحران کی تازہ ترین پیشرفت، آئینی کمیٹی کے اجلاس، پابندیوں سے تصادم اور اس ملک کے عوام کے لیے انسانی امداد کی ترسیل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیر خارجہ کے سینئر مشیر نے کہا کہ "ایران نے ہمیشہ شام کی قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو مضبوط بنانے،  شام کے مذاکرات کی حوصلہ افزائی اور ملک میں امن و استحکام کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کی ہے اور جاری رکھے گا۔"  

"شام کی حکومت اور عوام 10 سال سے زائد عرصے سے داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کھڑے ہیں، اور اب یہ نسبتاً استحکام کو پہنچ گیا ہے اور خطے کے ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات بڑھ رہے ہیں، اور اقوام متحدہ اور دیگر ادارے کی ضرورت ہے"۔

انہوں نے کہا کہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر شام کی حکومت اور عوام کے ان حالات پر توجہ دیں اور پابندیاں ہٹانے، لوگوں کو امداد فراہم کرنے، مہاجرین کی واپسی اور ملک کی تعمیر نو کے لیے موجودہ کوششوں کو تیز کریں۔

پیڈرسن، جنہوں نے تہران میں ایک وفد کی قیادت کی، نے اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ آستانہ عمل کے ساتھ تعاون کے لیے ہمارے ملک کی کوششوں کی تعریف کی، جس کا مقصد شام کے بحران کے سیاسی حل کو تقویت دینا اور شام کے قومی مذاکرات کی حمایت کرنا ہے، اور اسے جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ 

ملاقات کے اختتام پر دونوں فریقین نے مستقبل میں مشترکہ مشاورت کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

فارس کے مطابق شام کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے "گیر پیڈرسن" نے بھی 27 دسمبر کو علی اصغر خاجی کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی۔

فون کال میں شام کی تازہ ترین پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا گیا، بشمول بحران کے حل کے لیے سیاسی عمل، آئینی کمیٹی اور انسانی امداد کی ترقی۔

اس بات چیت میں فریقین نے شام کے سیاسی عمل کو جاری رکھنے کی حمایت کرتے ہوئے آئینی کمیٹی کے دائرہ کار میں بات چیت کو جاری رکھنے پر زور دیا۔

ایران کی بحریہ کے کمانڈر نے بین الاقوامی آزاد سمندروں میں ایران کی موجودگی کو قیام امن اور ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے اقتدار کا مظہر قرار دیا ہے۔

‎ایران کی بحریہ کے کمانڈر اڈمیرل شہرام ایرانی نے کہا ہے کہ دور دراز کے آزاد سمندری علاقوں میں ایران کی بحریہ کی موجودگی کا مقصد امن و سلامتی کا قیام اور دوستی کا پیغام دینا ہے اور ایران کسی بھی علاقے میں موجودگی کی بندش کو صحیح نہیں سمجھتا۔

انھوں نے کہا کہ ایران اپنی تدابیر کے ساتھ کہیں بھی حاضر ہو سکتا ہے اور اس کی اس موجودگی کا اصل مقصد سمندر میں موجود جہازوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانا، ان کی مدد اور اسی طرح امن و دوستی کا پیغام ارسال کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے کی توانائیوں کا مظاہرہ کرنا ہے۔

اڈمیرل شہرام ایرانی نے کہا کہ ایران کی بحریہ ملک کی مسلح افواج کا بیرونی سرا ہے اور ہمیشہ ملک کی فضائیہ اور بری فوج کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ سمندر اور سمندری فضا میں اپنی موجودگی کے ساتھ اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی فوج کی بحریہ اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی فورس کی بحریہ میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور اسی مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کوئی بھی عمل انجام پاتا ہے۔

ایران کی بحریہ کے کمانڈر اڈمیرل شہرام ایرانی نے کہا کہ بحریہ کے دونوں شعبوں میں پائی جانے والی اسی ہم آہنگی کی بدولت دشمن ہمارے علاقے میں اب تک کوئی بھی کشیدگی پیدا کرنے اور اپنے کسی بھی ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے اور کوئی بھی سمندری دہشت گردی کا ارتکاب کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ امیر عبداللہیان نے قطر میں فلسطینی تنظيم حماس کی خارجہ پالیسی کے سربراہ اور فلسطین کے سابق وزير اعظم اسماعیل ہنیہ کے ساتھ ملاقات میں فلسطینی مسلمانوں اور فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی حمایت جاری رکھنے کےعزم کا اظہار کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے دوحہ میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان  سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں ایرانی وزیر خارجہ نے فلسطین کے مسئلہ کے بارے میں ایران کے اصولی اور منطقی مؤقف کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ سامراجی طاقتوں نے اسرائیلی کی جعلی ، غاصب اور بچوں کی قاتل حکومت کو اسلامی ممالک کے وسط میں تشکیل دیا اور آج تک مغربی سامراجی طاقتیں فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کی حمایت کررہی ہیں۔ایرانی وزیر خارجہ نے فلسطینی مسلمانوں پر اسرائيلی مظلم اور بربریت کی ایک بارے پھر مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایران،  فلسطینی مسلمانوں کے دفاع اور ان کے جائز حقوق کے حصول کی تلاش و کوشش کا سلسلہ جاریر کھےگا اور فلسطینی مسلمانوں کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔

اس ملاقات میں فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بھی ایران کی طرف سے فلسطینی عوام کی بےباک اور ٹھوس مدد اور حمایت کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کو ایران کی طرح فلسطینی مسلمانوں کی بےباک مدد کرنی چاہیے اور فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کے مظالم کو روکنے اور بیت المقدس کی آزادی کے سلسلے اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ نے قطر کے وزیر خارجہ اور قطر کے بادشاہ سے ملاقات اور دوطرفہ تعلقات اور عالمی و علاقائی امور کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران 1389 ہجری شمسی سے دنیا کے نایاب بلڈز کی بین الاقوامی ایسوسی ایشن کا رکن ہے اور ایران وہ واحد مسلم ملک ہے جس تنظیم کا رکن ہے اور ایران کے پاس نایاب خونوں کے پروگرام موجود ہے۔

11 جنوری ایرانی کلینڈر میں نایاب بلڈز کا دن ہے اور حالیہ برسوں میں ایران ملک بھر میں نایاب خون والے لوگوں کی شناخت کرنے میں کامیاب رہا ہے اور ان افراد کے عطیہ کردہ خون کے ذخیرہ کے ساتھ ضرورت کے مطابق ایسے مریضوں کی مدد کرسکتا ہے۔

23 ممالک نایاب بلڈز کی بین الاقوامی ایسوسی ایشن کے ممبر ہیں اور ایران خون کی حفاظت اور صحت کے شعبے میں اعلی ترین بین الاقوامی معیار کا حامل ہے اور اس فیلڈ میں جدید ترین آلات سے استعمال کرتا ہے۔

وہ لوگ جو (O، A، B، AB) کے بلڈ گروپس میں نہیں ہیں تو نایاب بلڈز کے گروپوں میں شامل ہیں۔

ارنا نمائندے کے مطابق، باقری نے پہلی ملاقات میں جوہری معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے کوارڈیٹنیر "انریکہ مورا" سے ملاقات اور گفتگو کی۔

نیز اسلامی جمہوریہ ایران کے ماہرین، پابندیاں اٹھانے کے معاملے پر گروپ 1+4 کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک گھنٹہ قبل کوبورگ ہوٹل پہنچ گئے اور اس سطح پر ملاقاتیں جاری ہیں۔

آج کی ملاقاتیں پابندیاں اٹھانے سے متعلق مذاکرات کے آٹھویں دور کا حصہ ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ مذاکرات ایک نازک اور اہم مرحلے میں پہنچ چکے ہیں۔

واضح رہے کہ مذاکرات کا حالیہ دور پیر، (27 دسمبر) کو شروع ہوا، اور مذاکراتی وفود کے مطابق، بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ مکالموں میں پیش رفت کے باوجود بعض غیر معمولی مطالبات اور بعض اوقات متن کو پیچھے دھکیلنے کی کوششیں بھی جاری رہتی ہیں اور یہ مکالموں کی سست روی کی ایک وجہ بھی رہی ہے؛ اس سلسلے میں چند باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

جبکہ دوسری طرف کو یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ایک طرف تو وہ میڈیا میں مسلسل "ڈیڈ لائن"، "ٹائم ٹیبل" اور "محدود وقت" سے متعلق بات نہیں کرسکتا، اور دوسری طرف مسلسل بدلتے ہوئے انداز اختیار کرکے حصول کی گئی پیش رفتوں میں نظر ثانی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

حالانکہ بعض مسائل کو تاخیر کا شکار کرنے کی کوشش کرنے اور فائدہ اٹھانے کے ذریعے دباؤ ڈالنے سے ایران کی مذاکراتی پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور جیسا کہ پہلے بھی کئی بار کہا جاچکا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی سرخ لکیروں اور اصولی مطالبات کو قربان نہیں کرے گا۔

 اسلامی جمہوریہ ایران نے ویانا مذاکرات میں شرکت پر رضامندی کے ساتھ اپنی زیادہ سے زیادہ ہمت اور بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے اور مخالف فریقوں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں گے اور ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لیے قابل اعتماد اقدامات کریں گے۔