سلیمانی

سلیمانی

یمن کی حکومت کی مذاکرات کار ٹیم کے رکن کا کہنا ہے کہ اب یواے ایی کو ہمارے سخت جواب کا انتظار کرنا چاہئے۔

موصولہ رپورٹ کے مطابق یمن کی مذاکراتی ٹیم کے رکن عبد الملک العجزی نے کہا ہے کہ جب امریکا کو یہ یقین ہو گیا کہ مآرب میں جنگ اپنے آخری مرحلے میں ہے تب سے ہی یمن میں متحدہ عرب امارات کی مداخلت بڑھ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب جبکہ متحدہ عرب امارات جنگ یمن میں پوری طرح ملوث ہو گیا ہے تو اس کو اس کی قمیت ادا کرنی پڑے گی۔  

عبد الملک العجزی نے کہا کہ یمن کی فوج صرف انہیں لوگوں کو نشانہ بناتی ہے جو ملک کے عوام پر حملے کرتے ہیں۔

اس سے پہلے یمن کی عوامی تحریک انصار اللہ کے سربراہ سید عبد الملک بدر الدین الحوثی نے کہا تھا کہ امریکا اور صیہونی حکومت نے متحدہ عرب امارات کو یمن پر پھر سے حملے کے لئے ورغلایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر اس میں یواے ای کو شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ یمن کی مسلح افواج کے سربراہ نے کہا تھا کہ حملوں کے جاری رہنے کی صورت میں ان کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

یمنی کی مسلح افواج نے گزشتہ ہفتوں کے دوران طوفان یمن-1، طوفان یمن-2 اور طوفان یمن-3 فوجی آپریشن انجام دیئے جن میں میزائلوں اور ڈرون کا استعمال کیا گیا تھا۔

تقريب خبررسان ايجنسی

Sunday, 06 February 2022 07:14

ایک منفرد انقلاب


امام خمینی (رہ) برسوں کی جلاوطنی کے بعد یکم فروری 1979ء کی صبح ساڑھے نو بجے یا اس سے بھی زیادہ ٹھیک 9:27:30 پر 14 سال اور تین ماہ کی جلاوطنی کے بعد ایران پہنچے۔ عصری تاریخ میں ایک منفرد انقلاب کے بانی۔ ایک ایسا انقلاب جو بہت سے گواہوں، مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق روحانیت، آزادی اور حقیقی اسلامی اقدار کا پیامبر ہے۔ اس انقلاب نے ایران میں اسلامی جمہوریہ کے قیام کے ساتھ ہی خالص محمدی اسلام کی شمع روشن کی۔ بلاشبہ اصل اسلام کی خالص تعلیمات کے دوبارہ ظہور کے اہم عوامل میں سے ایک، انقلاب اسلامی ایران کے عظیم معمار، سید روح اللہ موسوی خمینی، جو امام خمینی کے نام سے مشہور ہیں، کی الہیٰ قیادت تھی، یہ انقلاب اپنی زندگی کے 43 سال گزارنے کے بعد آج بھی دنیا کے مظلوموں، حریت پسندوں اور آزادی کے متلاشیوں کی پناہ گاہ ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی تعداد چالیس کے قریب پہنچ گئی تو خدا نے آپ کو حکم دیا کہ اب اپنی دعوت کو ظاہر کریں۔ اس دن جو لوگ کوہ صفا کے قریب تھے، انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چٹانوں اور پتھروں کو روندتے ہوئے ثابت قدم اور مستحکم قدموں کے ساتھ کوہ صفا پر چڑھے۔ پھر بلند آواز سے پکارا: "یا صباحا" آپ خطرے اور اہم کام کے وقت اس طرح کا شعار بلند کرتے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں ایک بڑا ہجوم اکٹھا ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی طرف بے پناہ شفقت اور محبت سے دیکھا اور فرمانے لگے: کیا تم نے کبھی مجھ سے جھوٹ سنا ہے؟ کیا آپ نے کچھ غلط سنا ہے۔؟

سب نے کہا: نہیں! ’’ہم نے آپ سے سچائی اور پاکیزگی کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور نہ سنا۔‘‘ لوگوں کی توجہ مبذول کروانے کے لئے آپ نے فرمایا: "اب اگر میں تم سے کہوں کہ دشمن کے سوار اس پہاڑ کے پیچھے سے آکر تم پر حملہ آور ہوں گے تو کیا تم میری بات پر یقین کرتے ہو۔؟" جان لو اور آگاہ ہو جاؤ! اس زندگی کے بعد تمہیں ایک ہنگامہ خیز دنیا کا سامنا ہے، ایک ایسی دنیا جس میں بہت سے درد، مصائب، عذاب، اذیتیں، بدبختیاں اور محرومیاں ہیں! "لہذا میں آپ کو اس سخت عذاب سے خبردار کرتا ہوں، جس کا آپ کو سامنا ہے اور آپ کو اس کے خطرے سے خبردار کرتا ہوں۔"

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی تحریک کا آغاز رسول اللہ (ص) کے دین کو زندہ کرنے کے مقصد سے کیا اور 1343 ھجری شسی (1964ء) میں اپنی تقریر میں کیپچولیشن capitulation یعنی امریکہ کی ایماء پر ایرانی عوام کے خلاف انتہائی ذلت آمیز بل کی منظوری کے خلاف دعوت دی۔ یہ بل امریکہ کو مکمل رعایت اور قومی خود مختاری کی خلاف ورزی تھا۔ آپ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنی تقریر میں  خبردار کیا اور کہا: "لوگو، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے ایرانی فوج، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے ایران کے سیاستدانو، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے ایران کے تاجرو میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے ایران کے علماء، اے مراجع اسلام، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں! اے فضلا، اے علماء، اے حضرات، اے اہل نجف، اے اہلیان قم، اے اہل مشہد، اے اہل تہران، اے شیراز، میں خطرے کا اعلان کرتا ہوں!

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اخلاص اور بندگی کے جذبے سے مزین تھے اور ہمیشہ اپنے قول و فعل میں خدا کی اطاعت اور اس کی رضا کے طلبگار تھے۔ امام خمینی کے جانشین اور انقلاب اسلامی ایران کے موجودہ رہبر آیت اللہ خامنہ ای امام خمینی کی اس خصوصیت کے بارے میں فرماتے ہیں: "امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، ایک بابصیر زاہد و عبادت گزار تھے، انہوں نے اپنے آپ کو غیر خدائی بندھنوں سے آزاد کیا اور خدا کے سچے بندے بن گئے۔ آپ قلب سلیم اور باطنی نور کے مالک تھے اور آپ نے اپنی ذات کو خدا کی ذات مین گم کر دیا تھا۔ بانی انقلاب نے خدا پر توکل کرتے ہوئے، ائمہ معصومین (ع) کی سیرت کو اپناتے ہوئے اور قوم کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے ایک ایسے انقلاب کی بنیاد رکھی، جو تاریخ اسلام کے حیرت انگیز واقعات میں شمار ہوتا ہے۔ اس انقلاب نے ایک ایسی حکومت کا تختہ الٹ دیا، جس کی جڑیں دو ہزار پانچ سو سال قدیمی تھیں۔ امام خمینی اپنی تمام کامیابیوں کو خدا کی طرف سے جانتے تھے۔

آیت اللہ خامنہ ای، جن کی ہمت اور اعتماد سب کو معلوم ہے، انہوں نے گواہی دی ہے کہ جب خوفناک اور سخت ترین حالات و واقعات میں، جب تمام ایرانی حکام اپنے آپ کو بے بس سمجھنے لگتے تھے، وہ امام کی خدمت میں حاضر ہوتے اور امام خمینی نے انہیں ہمیشہ اطمینان اور امید دلائی۔ آیت اللہ خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہیں: "امام خمینی اپنے روحانی روابط اور خدا پر توکل کے ساتھ ہمیشہ ایک مضبوط پہاڑ کی طرح کھڑے رہے اور انہیں کسی چیز نے متزلزل نہیں کیا۔ ملک کے اکثر حالات اور انقلاب کے واقعات میں تمام بوجھ ہمیشہ امام پر ہی تھا۔ وہ ایک جملے سے حکام کو سخت ترین حالات و واقعات میں ایسے رہنمائی کرتے کہ سب پریشانیان اور خدشات ختم ہو جاتے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شخصیت اور اعلیٰ مقام کے باوجود اپنے آپ کو نہایت عاجز و خاکسار کہتے تھے۔ آپ نے کبھی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا نہیں سمجھا بلکہ اپنے آپ کو عوام کا خادم سمجھا اور اپنے لیے کوئی اعزاز اور عہدہ و لقب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آپ ہمیشہ اصرار کرتے کہ ان کی تعریف نہ کی جائے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے امام کی عظمت اور بزرگی کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ آپ کی تواضع کو اس طرح بیان کیا: "امام وہ تھے، جو اپنی طاقت سے دنیا کی تمام سیاست کو بدلنے پر قادر تھے۔ آپ کے پختہ ارادہ کے سامنے بڑے بڑے پہاڑ چھوٹے تھے،۔ آپ کے الفاظ اور آپ کا موقف دنیا میں بم کی طرح اثر رکھتے تھے۔ اس اثر اور عظمت کے باوجود عوام کے سامنے اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتے اور لوگوں کی ہمت، اور قربانی کے سامنے سر جھکا کر عاجزی سے کہتے ’’لوگ ہم سے بہتر ہیں۔۔۔۔‘‘ سورہ انفال کی آیت نمبر 24 میں قرآن کریم نے دین اسلام کے احیاء کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان لوگوں کو مخاطب کیا ہے، جو ایمان لے آئے ہیں اور اپنے دلوں کو ایمان کے نور سے منور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ "اے ایمان والو، اللہ و رسول کی آواز پر لبیک کہو، جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں، جس میں تمہاری زندگی ہے اور یاد رکھو کہ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور تم سب اسی کی طرف حاضر کئے جاؤ گے۔"

درحقیقت ایک مکتب اس وقت حیات بخش ہوسکتا ہے، اگر وہ خود زندہ ہو۔ اسلام، جو ہمیشہ متحرک اور زندہ رہا ہے، زندگی دے سکتا ہے اور اپنے پیروکاروں کے دل کی موت کو روک سکتا ہے۔ امام خمینی کے نزدیک خالص محمدی اسلام ایک ایسا اسلام ہے، جس کا اصل ماخذ قرآن، اہل بیت (ع) کی ولایت اور امام عصر (ع) کی عدم موجودگی میں علمائے دین کی سیاسی اتھارٹی ہے۔ دوسرے لفظوں میں خالص اسلام ایک ایسا مکتب ہے، جو قرآن، اہل بیت (ع) کی ولایت اور علمائے کرام کی سیاسی مرجعیت سے نکلتا ہے اور صحیح استدلال اور منطق اور رائے کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے۔ امام خمینی (رہ) کا عقیدہ تھا کہ کا خالص محمدی (ص) اسلام کفار کے لیے مسلمانوں پر غلبہ پانے کی کوئی گنجا‏ش نہیں چھوڑتا اور مسلمان ہمیشہ احکام الہیٰ کی پابندی اور قرآن کریم کی نورانی آیات پر عمل کرتے ہوئے مرکزی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔

امام خمینی کی نظر میں انصاف اور سامراج دشمنی خالص محمدی اسلام کی نمایاں خصوصیات رہی ہیں، ایک ایسا اسلام جس نے ظلم اور استحصال کا مقابلہ کیا اور سماجی انصاف کے قیام کی کوشش کی۔ خداوند عالم نے پیغمبروں کے بھیجنے کے آغاز سے ہی عدل و انصاف کے نفاذ کا تعارف کرایا ہے، دین کا ہدف سورہ حدید کی 25 نمبر آیت کے ایک حصے میں بیان ہوا ہے۔ "بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے، تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہے کو بھی نازل کیا ہے، جس میں شدید جنگ کا سامان اور بہت سے دوسرے منافع بھی ہیں اور اس لئے کہ خدا یہ دیکھے کہ کون ہے جو بغیر دیکھے اس کی اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے اور یقیناً اللہ بڑا صاحبِ قوت اور صاحبِ عزت ہے۔" امام خمینی (رہ) اسلامی جمہوریہ میں عدل کے بارے میں فرماتے ہیں: "اسلامی جمہوریہ میں اسلامی عدل جاری ہوگا، خدائی عدل پوری قوم پر سایہ فگن ہوگا اور جو   طاغوت کے دور میں تھا، وہ اسلامی جمہوریہ میں نہیں ہوگا۔"

بہت سے تجزیہ کاروں کا یہ خیال صحیح ہے کہ امام خمینی ائمہ معصومین علیہم السلام کے بعد مذہبی فکر کے سب سے بڑے احیاء کنندہ ہیں؛ جن کا آخری ہدف اسلامی انقلاب اور ایک فکری اور سماجی تحریک کی تشکیل کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق استوار کرنا تھا۔ امام خمینی نے مذہب کو انفرادی اعمال تک محدود نہیں رکھا، وہ مذہب کی جامعیت اور سماجی میدانوں میں اس کی موجودگی پر یقین رکھتے تھے۔ بانی انقلاب اسلامی نے نہ صرف ایرانی انقلاب کو فتح سے ہمکنار کیا، جس نے تمام مسلم معاشروں میں اتحاد اور اسلامی بھائی چارے کا جذبہ پیدا کیا، بلکہ امام خمینی کا اسلامی انقلاب روشنی کا ایک دھماکہ تھا اور اس روشنی کی کرنیں تمام اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں چمکیں اور تمام مظلوموں کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے عزت و افتخار کا باعث بنیں۔ اسلام دشمنوں کے زہریلے پروپیگنڈے یہ تھے کہ مذہب قوموں کے لئے افیون ہے، لیکن اسلامی انقلاب کے قیام نے دنیا کو دکھایا کہ دین اسلام معاشرے کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دنیا و آخرت کی سعادت کا بھی ضامن ہے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ماہ رجب کی فضیلت اور اس کے اعمال

واضح رہے کہ ماہ رجب، شعبان اور رمضان بڑی عظمت اور فضیلت کے حامل ہیں اور بہت سی روایات میں ان کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ جیساکہ حضرت محمد کا ارشاد پاک ہے کہ ماہ رجب خداکے نزدیک بہت زیادہ بزرگی کا حامل ہے۔ کوئی بھی مہینہ حرمت و فضیلت میں اس کا ہم پلہ نہیں اور اس مہینے میںکافروں سے جنگ و جدال کرنا حرام ہے۔آگاہ رہو رجب خدا کا مہینہ ہے شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ رجب میںایک روزہ رکھنے والے کو خدا کی عظیم خوشنودی حاصل ہوتی ہے‘ غضب الہی اس سے دور ہوجاتا ہے‘ اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس پر بند ہوجاتا ہے۔ امام موسٰی کاظم -فرماتے ہیں کہ ماہ رجب میںایک روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ ایک سال کی مسافت تک دور ہوجاتی ہے اورجو شخص اس ماہ میں تین دن کے روزے رکھے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ نیز حضرت فرماتے ہیں کہ رجب بہشت میںایک نہر ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے اور جو شخص اس ماہ میں ایک دن کا روزہ رکھے تو وہ اس نہر سے سیراب ہوگا۔

امام جعفر صادق -سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم نے فرمایا: کہ رجب میری امت کے لیے استغفار کامہینہ ہے۔ پس اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ طلب مغفرت کرو کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ رجب کو اصبّ بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس ماہ میںمیری امت پر خدا کی رحمت بہت زیادہ برستی ہے۔ پس اس ماہ میںبہ کثرت کہا کرو:

اَسْتَغْفِرُ ﷲ وَ اَسْءَلُهُ التَّوْبَةَ

’’ میں خدا سے بخشش چاہتا ہوں اور توبہ کی توفیق مانگتا ہوں‘‘

ابن بابویہ نے معتبر سند کے ساتھ سالم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں اوخر رجب میں امام جعفر صادق -کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اس مہینے میںروزہ رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! وﷲ نہیں! تب فرمایا کہ تم اس قدر ثواب سے محروم رہے ہوکہ جسکی مقدارسوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا کیونکہ یہ مہینہ ہے جسکی فضیلت تمام مہینوںسے زیادہ اور حرمت عظیم ہے اور خدا نے اس میں روزہ رکھنے والے کا احترام اپنے اوپرلازم کیا ہے۔ میںنے عرض کیا اے فرزند رسول ! اگرمیں اسکے باقی ماندہ دنوں میں روزہ رکھوں توکیا مجھے وہ ثواب مل جائیگا؟

آپ نے فرمایا: اے سالم!

جو شخص آخر رجب میں ایک روزہ رکھے تو خدا اسکو موت کی سختیوں اور اس کے بعدکی ہولناکی اورعذاب قبر سے محفوظ رکھے گا۔جوشخص آخر ماہ میں دوروزے رکھے وہ پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزرجائے گا اور جو آخررجب میں تین روزے رکھے اسے قیامت میں سخت ترین خوف‘تنگی اورہولناکی سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کوجہنم کی آگ سے آزادی کاپروانہ عطا ہوگا۔

واضح ہوکہ ماہ رجب میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے جیساکہ روایت ہوئی ہے اگر کوئی شخص روزہ نہ رکھ سکتاہو وہ ہرروز سو مرتبہ یہ تسبیحات پڑھے تو اس کو روزہ رکھنے کاثواب حاصل ہوجائے گا۔

سُبْحانَ الْاِلهِ الْجَلِیلِ سُبْحانَ مَنْ لاَ یَنْبَغِی التَّسْبِیحُ إلاَّ لَهُ سُبْحانَ الْاَعَزِّ الْاَکْرَمِ

پاک ہے جو معبود بڑی شان والا ہے پاک ہے وہ کہ جس کے سوا کوئی لائق تسبیح نہیں پاک ہے وہ جو بڑا عزت والا اور بزرگی والا ہے

سُبْحانَ مَنْ لَبِسَ الْعِزَّ وَهُوَ لَهُ أَهْلٌ

پاک ہے وہ جولباس عزت میں ملبوس ہے اور وہی اس کا اہل ہے۔

 

 

ماہ رجب کے مشترکہ اعمال

 

دعایہ روزانہ ماہ رجب

یہ ماہ رجب کے اعمال میں پہلی قسم ہے یہ وہ اعمال ہیں جومشترکہ ہیں اورکسی خاص دن کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں اور یہ چند اعمال ہیں۔

 

( ۱ )

رجب کے پورے مہینے میں یہ دعا پڑھتا رہے اور روایت ہے کہ یہ دعا امام زین العابدین -نے ماہ رجب میں حجر کے مقام پر پڑھی:

یَا مَنْ یَمْلِکُ حَوائِجَ السَّائِلِینَ، وَیَعْلَمُ ضَمِیرَ الصَّامِتِینَ، لِکُلِّ مَسْأَلَةٍ مِنْکَ سَمْعٌ

اے وہ جوسائلین کی حاجتوں کامالک ہے اور خاموش لوگوں کے دلوں کی باتیں جانتا ہے ہر وہ سوال جو تجھ سے کیا جائے تیرا

حَاضِرٌ، وَجَوَابٌ عَتِیدٌ اَللّٰهُمَّ وَمَواعِیدُکَ الصَّادِقَةُ، وَأَیادِیکَ الْفَاضِلَةُ، وَرَحْمَتُکَ

کان اسے سنتا ہے اور اس کا جواب تیار ہے اے معبود تیرے سب وعدے یقینا سچے ہیں تیری نعمتیں بہت عمدہ ہیں اور تیری رحمت

الْوَاسِعَةُ فَأَسْأَلُکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ تَقْضِیَ حَوائِجِی لِلدُّنْیا

بڑی وسیع ہے پس میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد وآلعليه‌السلام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ میری دنیا اور اور آخرت کی حاجتیں

وَالاَْخِرَةِ، إنَّکَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ

پوری فرما بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

 

( ۲ )

یہ دعا پڑھے کہ جسے امام جعفر صادق -رجب میں ہر روز پڑھا کرتے تھے۔

خابَ الْوافِدُونَ عَلَی غَیْرِکَ، وَخَسِرَ الْمُتَعَرِّضُونَ إلاَّ لَکَ، وَضاعَ الْمُلِمُّونَ إلاَّ بِکَ

نا امید ہوئے تیرے غیرکی طرف جانے والے گھاٹے میں رہے تیرے غیر سے سوال کرنے والے تباہ ہوئے تیرے غیر کے ہاں

وَأَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُونَ إلاَّ مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَکَ بَابُکَ مَفْتُوحٌ لِلرَّاغِبِینَ وَخَیْرُکَ مَبْذُولٌ

جانے والے، قحط کاشکار ہوئے تیرے فضل کے غیر سے روزی طلب کرنے والے تیرا در اہل رغبت کیلئے کھلا ہے تیری بھلائی طلب

لِلطَّالِبِینَ، وَفَضْلُکَ مُباحٌ لِلسَّائِلِینَ، وَنَیْلُکَ مُتَاحٌ لِلاَْمِلِینَ، وَرِزْقُکَ مَبْسُوطٌ لِمَنْ

گاروں کو بہت ملتی ہے تیرا فضل سائلوں کیلئے عام ہے اور تیری عطا امید واروں کیلئے آمادہ ہے تیرا رزق نافرمانوں کیلئے بھی فراواں

عَصَاکَ وَحِلْمُکَ مُعْتَرِضٌ لِمَنْ نَاوَاکَ عَادَتُکَ الْاِحْسانُ إلَی الْمُسِیئِینَ وَسَبِیلُکَ

ہے تیری بردباری دشمن کے لیے ظاہر و عیاں ہے گناہگاروں پر احسان کرنا تیری عادت ہے اور ظالموں کو باقی رہنے دینا

الْاِ بْقائُ عَلَی الْمُعْتَدِینَ اَللّٰهُمَّ فَاهْدِنِی هُدَی الْمُهْتَدِینَ وَارْزُقْنِی اجْتِهادَ الْمُجْتَهِدِینَ

تیرا شیوہ ہے اے معبود مجھے ہدایت یافتہ لوگوں کی راہ پر لگا اور مجھے کوشش کرنے والوں کی سی کوشش نصیب فرما

وَلاَ تَجْعَلْنِی مِنَ الْغَافِلِینَ الْمُبْعَدِینَ، وَاغْفِرْ لِی یَوْمَ الدِّینِ

مجھے غافل اور دورکیے ہوئے لوگوں میں سے قرار نہ دے اور یوم جزا میں مجھے بخش دے۔

 

( ۳ )

شیخ نے مصباح میں فرمایا ہے کہ معلٰی بن خنیس نے امام جعفرصادق -سے روایت کی ہے۔ آپعليه‌السلام نے فرمایا کہ ماہ رجب میں یہ دعا پڑھا کرو:

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَ لُکَ صَبْرَ الشَّاکِرِینَ لَکَ، وَعَمَلَ الْخَائِفِینَ مِنْکَ، وَیَقِینَ الْعَابِدِینَ

اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے شکر گزاروں کا صبر ڈرنے والوں کا عمل اور عبادت گزاروں کا یقین عطا

لَکَ اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ وَأَنَا عَبْدُکَ الْبَائِسُ الْفَقِیرُ أَنْتَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ وَأَنَا

فرما اے معبود تو بلند و بزرگ ہے اور میں تیرا حاجت مند اور بے مال ومنال بندہ ہوں تو بے حاجت اور تعریف والا ہے اور میں تیرا

الْعَبْدُ الذَّلِیلُ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَامْنُنْ بِغِنَاکَ عَلَی فَقْرِی، وَبِحِلْمِکَ عَلَی

پست تر بندہ ہوں اے معبود محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور انکی آلعليه‌السلام پر رحمت نازل فرما اور میری محتاجی پر اپنی تونگری سے میری نادانی پر اپنی ملائمت و بردباری

جَهْلِی وَبِقُوَّتِکَ عَلَی ضَعْفِی یَا قَوِیُّ یَا عَزِیزُ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الْاَوْصِیائِ

سے اور اپنی قوت سے میری کمزوری پر احسان فرما اے قوت والے اسے زبردست اے معبود محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورانکی آلعليه‌السلام پر رحمت نازل فرما

الْمَرْضِیِّینَ وَاکْفِنِی مَا أَهَمَّنِی مِنْ أَمْرِ الدُّنْیا وَالاَْخِرَةِ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ

جو پسندیدہ وصی اور جانشین ہیں اور دنیا و آخرت کے اہم معاملوں میں میری کفایت فرما اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

مؤلف کہتے ہیں کہ کتاب اقبال میں سید بن طائوس نے بھی اس دعا کی روایت کی ہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ جامع ترین دعا ہے اور اسے ہروقت پڑھاجاسکتا ہے۔

 

( ۴ )

شیخ فرماتے ہیں کہ اس دعا کو ہر روز پڑھنا مستحب ہے۔

اَللّٰهُمَّ یَا ذَا الْمِنَنِ السَّابِغَةِ وَالآلاَءِ الْوَازِعَةِ وَالرَّحْمَةِ الْوَاسِعَةِ، وَالْقُدْرَةِ الْجَامِعَةِ

اے معبود اے مسلسل نعمتوں والے اور عطا شدہ نعمتوں والے اے کشادہ رحمت والے۔ اے پوری قدرت والے۔

وَالنِّعَمِ الْجَسِیمَةِ وَالْمَواهِبِ الْعَظِیمَةِ وَالْاَیادِی الْجَمِیلَةِ وَالْعَطایَا الْجَزِیلَةِ یَا مَنْ

اے بڑی نعمتوں والے اے بڑی عطائوں والے اے پسندیدہ بخششوںوالے اور اے عظیم عطائوں والے اے وہ جس کے وصف

لاَ یُنْعَتُ بِتَمْثِیلٍ وَلاَ یُمَثَّلُ بِنَظِیرٍ وَلاَ یُغْلَبُ بِظَهِیرٍ یَا مَنْ خَلَقَ فَرَزَقَ وَأَلْهَمَ فَأَنْطَقَ

کیلئے کوئی مثال نہیں اور جسکا کوئی ثانی نہیں جسے کسی کی مدد سے مغلوب نہیںکیا جاسکتا اے وہ جس نے پیدا کیاتوروزی دی الہام کیاتو

وَابْتَدَعَ فَشَرَعَ، وَعَلا فَارْتَفَعَ، وَقَدَّرَ فَأَحْسَنَ، وَصَوَّرَ فَأَتْقَنَ، وَاحْتَجَّ فَأَبْلَغَ،

گویائی بخشی نئے نقوش بنائے تورواں کردیئے بلند ہوا تو بہت بلند ہوا اندازہ کیا تو خوب کیا صورت بنائی تو پائیدار بنائی حجت قائم کی

وَأَنْعَمَ فَأَسْبَغَ، وَأَعْطی فَأَجْزَلَ، وَمَنَحَ فَأَفْضَلَ یَا مَنْ سَمَا فِی الْعِزِّ فَفاتَ نَواظِرَ

تو پہنچائی نعمت دی تو لگاتار دی عطا کیا تو بہت زیادہ اور دیا تو بڑھاتا گیا اے وہ جو عزت میں بلند ہوا تو ایسا بلند کہ

الْاَ بْصارِ، وَدَنا فِی اللُّطْفِ فَجازَ هَواجِسَ الْاَفْکارِ یَا مَنْ تَوَحَّدَ بِالْمُلْکِ فَلا نِدَّ لَهُ

آنکھوں سے اوجھل ہوگیا اور تو لطف و کرم میں قریب ہوا تو فکر و خیال سے بھی آگے نکل گیا اے وہ جو بادشاہت میں

فِی مَلَکُوتِ سُلْطَانِهِ وَتَفَرَّدَ بِالآلاَءِ وَالْکِبْرِیائِ فَلاَ ضِدَّ لَهُ فِی جَبَرُوتِ شَأْنِهِ یَا مَنْ

یکتا ہے کہ جسکی بادشاہی کے اقتدار میں کوئی شریک نہیں وہ اپنی نعمتوں اور اپنی بڑائی میںیکتا ہے پس شان و عظمت میں کوئی اسکا

حارَتْ فِی کِبْرِیائِ هَیْبَتِهِ دَقائِقُ لَطائِفِ الْاَوْهامِ، وَانْحَسَرَتْ دُونَ إدْراکِ عَظَمَتِهِ

مقابل نہیں اے وہ جس کے دبدبہ کی عظمت میں خیالوں کی باریکیاں حیرت زدہ ہیں اور اس کی بزرگی کو پہچاننے میں مخلوق

خَطَائِفُ أَبْصَارِ الْاَنامِ یَا مَنْ عَنَتِ الْوُجُوهُ لِهَیْبَتِهِ، وَخَضَعَتِ الرِّقابُ لِعَظَمَتِهِ،

کی نگاہیں عاجز ہیں اے وہ جس کے رعب کے آگے چہرے جھکے ہوئے ہیں اور گردنیں اسکی بڑائی کے سامنے نیچی ہیں

وَوَجِلَتِ الْقُلُوبُ مِنْ خِیفَتِهِ أَسْأَلُکَ بِهَذِهِ الْمِدْحَةِ الَّتِی لاَ تَنْبَغِی إلاَّ لَکَ وَبِما وَأَیْتَ

اور دل اسکے خوف سے ڈرے ہوئے ہیں میں سوال کرتا ہوں تیری اس تعریف کے ذریعے جو سوائے تیرے کسی کو زیب نہیں اور اس

بِهِ عَلَی نَفْسِکَ لِداعِیکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَبِما ضَمِنْتَ الْاِجابَةَ فِیهِ عَلَی نَفْسِکَ

کے واسطے جو کچھ تو نے اپنے ذمہ لیا پکارنے والوں کی خاطر جو کہ مومنوں میں سے ہیں اس کے واسطے جسے تونے پکارنے والوں کی

لِلدَّاعِینَ یَا أَسْمَعَ السَّامِعِینَ، وَأَبْصَرَ النَّاظِرِینَ، وَأَسْرَعَ الْحَاسِبِینَ، یَا ذَا الْقُوَّةِ

دعا قبول کرنے کی ضمانت دے رکھی ہے اے سب سے زیادہ سننے والے اے سب سے زیادہ دیکھنے والے اے تیز تر حساب کرنے

الْمَتِینَ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیِّینَ وَعَلَی أَهْلِ بَیْتِهِ وَاقْسِمْ لِی فِی شَهْرِنا هذَا

والے اے محکم تر قوت والے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت نازل فرما جو خاتم الانبیائ ہیں اور ان کے اہلبیت پر بھی اور اس مہینے میں مجھے اس سے بہتر

خَیْرَ مَا قَسَمْتَ وَاحْتِمْ لِی فِی قَضَائِکَ خَیْرَ مَا حَتَمْتَ، وَاخْتِمْ لِی بالسَّعادَةِ فِیمَنْ

حصہ دے جو تو تقسیم کرے اور اپنے فیصلوں میں میرے لیے بہتر و یقینی فیصلہ فرما کر مجھے نواز اور اس مہینے کو میرے لیے خوش بختی پر

خَتَمْتَ وَأَحْیِنِی مَا أَحْیَیْتَنِی مَوْفُوراً وَأمِتْنِی مَسْرُوراً وَمَغْفُوراً وَتَوَلَّ أَنْتَ نَجَاتِی

تمام کر دے اور جب تک تو مجھے زندہ رکھے فراواں روزی سے زندہ رکھ اور مجھے خوشی و بخشش کی حالت میں موت دے

مِنْ مُساءَلَةِ البَرْزَخِ وَادْرأْ عَنِّی مُنکَراً وَنَکِیراً، وَأَرِ عَیْنِی مُبَشِّراً وَبَشِیراً، وَاجْعَلْ

اور برزخ کی گفتگو میں تو خود میرا سرپرست بن جامنکر و نکیر کو مجھ سے دور اور مبشر و بشیر کو میری آنکھوں کے سامنے لا اور مجھے اپنی رضا

لِی إلَی رِضْوَانِکَ وَجِنانِکَ مَصِیراً وَعَیْشاً قَرِیراً، وَمُلْکاً کَبِیراً، وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ

مندی اور بہشت کے راستے پر گامزن کر دے وہاں آنکھوں کو روشن کرنے والی زندگی اور بڑی حکومت عطا فرما اور تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اور ان کی

وَآلِهِ کَثِیراً

آلعليه‌السلام پر رحمت نازل فرما بہت زیادہ۔

 

مولف کہتے ہیں کہ یہ دعا مسجد صعصعہ میں بھی پڑھی جاتی ہے جو مسجدکوفہ کے قریب ہے۔

 

( ۵ )

شیخ نے روایت کی ہے کہ ناحیہ مقدسہ (اما م زمان(عج) کی جانب) سے امام العصرعليه‌السلام کے وکیل شیخ کبیر ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید کے ذریعے سے یہ توقیع یعنی مکتوب آیا ہے۔

رجب کے مہینے میں یہ دعا ہرروزپڑھاکرو:

 

بِسْمِ ﷲ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ

خدا کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ بِمَعانِی جَمِیعِ مَا یَدْعُوکَ بِهِ وُلاةُ أَمْرِکَ الْمَأْمُونُونَ عَلَی سِرِّکَ

اے معبود میں سوال کرتا ہوں تجھ سے ان پر معنی الفاظ کے واسطے سے جن سے تیرے امر کے ولی تجھے پکارتے ہیں جو تیرے راز کے

الْمُسْتَبْشِرُونَ بأَمْرِکَ، الْواصِفُونَ لِقُدْرَتِکَ، الْمُعْلِنُونَ لِعَظَمَتِکَ، أَسْأَلُکَ بِما نَطَقَ

امانتدار تیرے امر کی خوشخبری پانے والے تیری قدرت کی توصیف کرنے والے اور تیری عظمت کا اعلان کرنے والے ہیں تجھ سے

فِیهِمْ مِنْ مَشِیءَتِکَ فَجَعَلْتَهُمْ مَعادِنَ لِکَلِماتِکَ وَأَرْکاناً لِتَوْحِیدِکَ وَآیاتِکَ وَمَقاماتِکَ

سوال کرتا ہوں تیری اس مشیت کے واسطے سے جو ان کے حق میں گویا ہے پس تو نے ان کو اپنے کلمات کی کانیں بنایا اور اپنی توحید،

الَّتِی لاَ تَعْطِیلَ لَهَا فِی کُلِّ مَکَانٍ یَعْرِفُکَ بِهَا مَنْ عَرَفَکَ، لاَ فَرْقَ بَیْنَکَ وَبَیْنَها

آیات اور مقامات کے ارکان کو جو کسی جگہ بھی اپنے فرض کے ادا کرنے سے باز نہیں رہتے کہ جو تجھے پہچانتا ہے ان کے ذریعے

إلاَّ أَ نَّهُمْ عِبادُکَ وَخَلْقُکَ، فَتْقُها وَرَتْقُها بِیَدِکَ، بَدْؤُها مِنْکَ وَعَوْدُها

پہنچانتا ہے ان میں تجھ میں کوئی فرق نہیںسوائے اس کے کہ وہ تیرے بندے اور تیری مخلوق ہیں کہ ن کی حرکت اور سکون تیرے حکم

إلَیْکَ، أَعْضادٌ وَأَشْهادٌ وَمُناةٌ وَأَذْوَادٌ وَحَفَظَةٌ وَرُوَّادٌ، فَبِهِمْ مَلاََْتَ

سے ہے ان کی ابتدائ تجھ سے اور انتہائتجھ تک ہے وہ مددگار گواہ آزمودہ دافع محافظ اور پیغام رساں ہیں انہی کے واسطے سے تو نے

سَمَاءَکَ وَأَرْضَکَ حَتَّی ظَهَرَ أَنْ لاَ إلهَ إلاَّ أَ نْتَ، فَبِذلِکَ أَسْأَ لُکَ وَبِمَواقِعِ الْعِزِّ مِنْ

اپنے آسمان اور زمین کو آباد کیا۔ تب آشکار ہوا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں پس انکے واسطے سے اورتیری عزت کے عظیم موقعوں کے

رَحْمَتِکَ وَبِمَقاماتِکَ وَعَلامَاتِکَ، أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَأَنْ تَزِیدَنِی إیماناً

واسطے سے اور تیرے مراتب اورنشانیوں کے واسطے سے سوال کرتا ہوںکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وآلعليه‌السلام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رحمت فرما اور میرے ایمان و ثابت قدمی

وَتَثْبِیتاً یَا بَاطِناً فِی ظُهُورِهِ وَظَاهِراً فِی بُطُونِهِ وَمَکْنُونِهِ یَا مُفَرِّقاً بَیْنَ النُّورِ

میں اضافہ فرما اے وہ کہ اپنے ظہور میں پوشیدہ اور اپنی پوشیدگیوں اور پردوں میں ظاہر ہے اسے نور اور تاریکی میں جدائی ڈالنے

وَالدَّیجُورِ، یَا مَوْصُوفاً بِغَیْرِ کُنْهٍ، وَمَعْرُوفاً بِغَیْرِ شِبْهٍ، حَادَّ کُلِّ مَحْدُودٍ، وَشَاهِدَ

والے اے بغیر حقیقی معرفت کے متصف کیے جانے والے اور بغیرمثال کے پہچانے جانے والے ہرمحدود کی حدبندی کرنے والے

کُلِّ مَشْهُودٍ وَمُوجِدَ کُلِّ مَوْجُودٍ وَمُحْصِیَ کُلِّ مَعْدُودٍ وَفاقِدَ کُلِّ مَفْقُودٍ لَیْسَ

اور اے ہر محتاج گواہی کے گواہ ہر موجود کے ایجاد کرنے والے ہر تعداد کے شمار کرنے والے ہر گمشدہ کے گم کرنے والے تیرے سوا

دُونَکَ مِنْ مَعْبُودٍ، أَهْلَ الْکِبْرِیائِ وَالْجُودِ، یَا مَنْ لاَ یُکَیَّفُ بِکَیْفٍ، وَلاَ یُؤَیَّنُ بِأَیْنٍ،

کوئی معبود نہیں کہ جو بڑائی اور سخاوت والا ہو۔ اے وہ جس کی حقیقت بے بیان ہے جو کسی

یَا مُحْتَجِباً عَنْ کُلِّ عَیْنٍ، یَا دَیْمُومُ یَا قَیُّومُ وَعالِمَ کُلِّ مَعْلُومٍ، صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ

مکان میں نہیں سماتا اے وہ جوہر آنکھ سے اوجھل ہے اے ہمیشگی والے اے نگہبان اور ہر چیزکے جاننے والے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کی آلعليه‌السلام پر

وَآلِهِ وَعَلَی عِبادِکَ الْمُنْتَجَبِینَ وَبَشَرِکَ الْمُحْتَجِبِینَ، وَمَلائِکَتِکَ الْمُقَرَّبِینَ وَالْبُهْمِ

رحمت فرما اور اپنے پاک و پاکیزہ بندوں پر اور پوشیدہ رہنے والے انسانوں پر اور اپنے مقرب فرشتوں پر اور نامعلوم

الصَّافِّینَ الْحَافِّینَ وَبارِکْ لَنا فِی شَهْرِنا هذَا الْمُرَجَّبِ الْمُکَرَّمِ وَمَا بَعْدَهُ مِنَ

صف بستہ دائرے میں کھڑے ہوئوں پر اور برکت نازل فرماہمارے لیے ہمارے اس رجب کے مہینے میں جوبزرگی والاہے اور اس

الْاَشْهُرِ الْحُرُمِ وَأَسْبِغْ عَلَیْنا فِیهِ النِّعَمَ وَأَجْزِلْ لَنا فِیهِ الْقِسَمَ وَأَبْرِرْ لَنا فِیهِ

کے بعد آنے والے محترم مہینوں میں نیز اس مہینے میں ہم پر نعمتیں کامل فرما اور ہمیں زیادہ حصہ عنایت کر اور اس مہینے میں ہماری قسمتیں

الْقَسَمَ بِاسْمِکَ الْاَعْظَمِ الْاَعْظَمِ الْاَجَلِّ الْاَکْرَمِ، الَّذِی وَضَعْتَهُ عَلَی النَّهَارِ فَأَضاءَ

نیک کر دے واسطہ ہے تیرے نام کا جو بڑا خوش آئند اور کرامت والا ہے جسے تونے دن پر متوجہ کیا تو وہ روشن ہوگیا اور رات

وَعَلَی اللَّیْلِ فَأَظْلَمَ وَاغْفِرْ لَنا مَا تَعْلَمُ مِنَّا وَمَا لاَ نَعْلَمُ، وَاعْصِمْنا مِنَ الذُّنُوبِ خَیْرَ

پر رکھا تو وہ تاریک ہوگئی پس بخش دے ہمارے وہ گناہ جن کو تو جانتا ہے ہم نہیں جانتے اور ہمیں گناہوں سے بخوبی محفوظ فرما ہماری

الْعِصَمِ، وَاکْفِنا کَوافِیَ قَدَرِکَ، وَامْنُنْ عَلَیْنا بِحُسْنِ نَظَرِکَ، وَلاَ تَکِلْنا إلَی غَیْرِکَ،

کفایت فرما جیسی تو قدرت کاملہ رکھتا ہے اور اپنے حسن نظر سے ہم پر احسان فرما ہمیں اپنے غیر کے حوالے نہ کر اپنی خیر و برکت ہم

وَلاَ تَمْنَعْنا مِنْ خَیْرِکَ، وَبَارِکْ لَنَا فِیما کَتَبْتَهُ لَنَا مِنْ أَعْمارِنا، وَأَصْلِحْ لَنا خَبِیءَةَ

سے نہ روک اور ہماری جو عمریں تونے لکھی ہیں ان میں برکت عطا فرما ہماری چھپی ہوئی برائیاں مٹا دے اور ہمیں

أَسْرَارِنا وَأَعْطِنَا مِنْکَ الْاَمانَ، وَاسْتَعْمِلْنا بِحُسْنِ الْاِیمَانِ، وَبَلِّغْنَا شَهْرَ الصِّیامِ،

اپنی طرف سے پناہ عطا کردے ہمیں بہترین ایمان رکھنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں آنے والے ماہ رمضان اس کے

وَمَا بَعْدَهُ مِنَ الْاَیَّامِ وَالْاَعْوامِ، یَا ذَا الْجَلاَلِ وَالْاِکْرامِ

بعد کے دنوںاور سالوں تک زندہ رکھ اے جلالت و بزرگی کے مالک۔

 

( ۶ )

شیخ نے روایت کی ہے کہ ناحیہ مقدسہ سے شیخ ابوالقاسم کے ذریعے سے رجب کی دنوں میں پڑھنے کے لیے یہ دعا صادر ہوئی۔

اَللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَ لُکَ بِالْمَوْلُودَیْنِ فِی رَجَبٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ الثَّانِی وَابْنِهِ

اے مبعود! ماہ رجب میںمتولد ہونے والے دو مولودوں کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جو محمدعليه‌السلام بن علی ثانی (امام محمدعليه‌السلام تقی)اور ان کے

عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُنْتَجَبِ، وَأَتَقَرَّبُ بِهِمَا إلَیْکَ خَیْرَ الْقُرَبِ، یَا مَنْ إلَیْهِ

فرزند علیعليه‌السلام بن محمدعليه‌السلام (امام علی نقیعليه‌السلام ) بلند نسب والے ہیں ان دونوں کے واسطے سے تیرا بہترین تقریب چاہتا ہوں اے وہ ذات جس سے

الْمَعْرُوفُ طُلِبَ، وَفِیما لَدَیْهِ رُغِبَ، أَسْأَ لُکَ سُؤالَ مُقْتَرِفٍ مُذْنِبٍ قَدْ أَوْبَقَتْهُ

احسان وکرم طلب کیاجاتا ہے اور جواسکے پاس ہے اس کی خواہش کی جاتی ہے میں سوال کرتا ہوں تجھ سے اس گناہگار کا سا سوال

ذُ نُوبُهُ، وَأَوْثَقَتْهُ عُیُوبُهُ، فَطالَ عَلَی الْخَطایَا دُؤُوبُهُ ، وَمِنَ الرَّزَایا خُطُوبُهُ،

جسے گناہوں نے تباہ کر دیا اور عیبوں نے جکڑ لیا ہے پس گناہوں پر اس کی عادت پختہ ہو چکی اور بلائوں سے مشکلیں بڑھ گئیں ہیں

یَسْأَ لُکَ التَّوْبَةَ وَحُسْنَ الْاَوْبَةِ وَالنُّزُوعَ عَنِ الْحَوْبَةِ وَمِنَ النَّارِ فَکاکَ رَقَبَتِهِ

اب وہ سوال کرتا ہے تجھ سے توفیق توبہ اور بہترین بازگشت کا گناہوں سے کنارہ کشی اور آتش جہنم سے چھٹکارے کا خواہش مند ہے

وَالْعَفْوَ عَمَّا فِی رِبْقَتِهِ، فَأَنْتَ مَوْلاَیَ أَعْظَمُ أَمَلِهِ وَثِقَتِهِ اَللّٰهُمَّ وَأَسْأَ لُکَ بِمَسَائِلِکَ

وہ اپنے سبھی گناہوں کی معافی چاہتا ہے پس تو میرا وہ مولا ہے جس پر امید و اعتماد ہے اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے

الشَّرِیفَةِ وَوَسَائِلِکَ الْمُنِیفَةِ أَنْ تَتَغَمَّدَنِی فِی هذَا الشَّهْرِ بِرَحْمَةٍ مِنْکَ وَاسِعَةٍ

پاک معاملوں تیرے بلند وسیلوں کے واسطے سے کہ اس مہینے میں اپنی وسیع رحمت اور بخشی جانے والی نعمتوں کو عطا فرما۔

وَنِعْمَةٍ وَازِعَةٍ، وَنَفْسٍ بِمَا رَزَقْتَها قَانِعَةٍ، إلَی نُزُولِ الْحَافِرَةِ، وَمَحَلِّ الاَْخِرَةِ،

اور جو روزی تو نے دی اس پر میرے نفس کو قانع فرما تا وقتیکہ وہ قبر میں جائے اور منزل آخر پر پہنچے

وَمَا هِیَ إلَیْهِ صَائِرَةٌ

اور جس کی طرف اس کی بازگشت اس تک پہنچے۔

 

زیارت رجبیہ

 

( ۷ )

شیخ نے حضرت امام العصر (عج)کے نائب خاص ابو القاسم حسین بن روح سے روایت کی ہے کہ رجب کے مہینے میں آئمہ میں سے جس امامعليه‌السلام کی ضریح مبارکہ پر جائے تو اس میں داخل ہوتے وقت یہ زیارت ماہ رجب پڑھے:

الْحَمْدُ لِلّٰهِِ الَّذِی أَشْهَدَنا مَشْهَدَ أَوْ لِیائِهِ فِی رَجَبٍ، وَأَوْجَبَ عَلَیْنا مِنْ حَقِّهِمْ مَا

حمد خدا ہی کیلئے ہے جس نے ہمیں رجب میں اپنے اولیائ کی زیارت گاہوں پر حاضر کیا اور ان کا حق ہم پر واجب کیا

قَدْ وَجَبَ وَصَلَّی ﷲ عَلَی مُحَمَّدٍ الْمُنْتَجَبِ، وَعَلَی أَوْصِیائِهِ الْحُجُبِ اَللّٰهُمَّ فَکَما

جو ہونا چاہئے تھا اور رحمت خدا ہو عالی نسب محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اور ان کے اوصیائ پر جو صاحب حجاب ہیں اے معبود! پس جیسے تونے ہمیں ان کی

أَشْهَدْتَنا مَشْهَدَهُمْ فَأَ نْجِزْلَنا مَوْعِدَهُمْ، وَأَوْرِدْنا مَوْرِدَهُمْ، غَیْرَ مُحَلَّئیِنَ عَنْ وِرْدٍ

زیارت کی توفیق دی ویسے ہی ہمارے لئے ان کا وعدہ پورا فرما اور ہمیں ان کی جائے ورود پر وارد فرما بغیر کسی روک ٹوک

فِی دارِ الْمُقامَةِ وَالْخُلْدِ وَاَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ، إنِّی قَدْ قَصَدْتُکُمْ وَاعْتَمَدْتُکُمْ بِمَسْأَلَتِی

کے جائے اقامت اور خلد برین میں پہنچا دے اور سلام ہو آپ پر کہ میں آپ کی طرف آیا اور آپ پر بھروسہ کیا اپنے سوال

وَحَاجَتِی وَهِیَ فَکَاکُ رَقَبَتِی مِنَ النَّارِ، وَالْمَقَرُّ مَعَکُمْ فِی دَارِ الْقَرارِ ، مَعَ شِیعَتِکُمُ

اور حاجت کے لئے اور وہ یہ ہے کہ میری گردن آگ سے آزاد ہو اور میرا ٹھکانہ آپ کے ساتھ آپ کے نیکوں کار شیعوں

الْاَ بْرَارِ، وَاَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ، أَنَا سائِلُکُمْ وَآمِلُکُمْ فِیمَا

کیساتھ ہو اور سلام ہو آپ پر کہ آپ نے صبر کیا پس آپ کا کیا ہی اچھا انجام ہے میں آپکاسائل اور امید وار ہوں ان چیزوں کیلئے

إلَیْکُمُ التَّفْوِیضُ، وَعَلَیْکُمُ التَّعْوِیضُ، فَبِکُمْ یُجْبَرُ الْمَهِیضُ، وَیُشْفَی الْمَرِیضُ،

جو آپ کے اختیار میں ہیں اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے آپ کے ذریعے شکستگی کی تلافی اور بیمار کو شفا ملتی ہے اور جو کچھ

وَمَا تَزْدَادُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَغِیضُ، إنِّی بِسِرِّکُمْ مُؤْمِنٌ، وَ لِقَوْ لِکُمْ مُسَلِّمٌ، وَعَلَی ﷲ

رحموں میں بڑھتا اور گھٹتا ہے بے شک میںآپ کی قوت باطنی کا معتقد اور آپ کے قول کو تسلیم کرتا ہوں میں خدا کوآپ کی قسم

بِکُمْ مُقْسِمٌ فِی رَجْعِی بِحَوَائِجِی وَقَضَائِها وَ إمْضَائِها وَ إنْجَاحِها وَ إبْراحِها

دیتا ہوں کہ میری حاجتوں پر توجہ دے انہیں پورا کرے ان کا اجرا کرے اور کامیاب کرے یا ناکام کرے اور جو کام میں نے آپ

وَبِشُؤُونِی لَدَیْکُمْ وَصَلاَحِها وَاَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ سَلاَمَ مُوَدِّعٍ وَلَکُمْ حَوائِجَهُ مُودِعٌ

کے سپرد کئے ہیں ان میں بہتری کرے اور سلام ہو آپ پر، وداع کرنے والے کا سلام جو اپنی حاجتیں آپ کے سپرد کر رہا ہے

یَسْأَلُ ﷲ إلَیْکُمُ الْمَرْجِعَ وَسَعْیُهُ إلَیْکُمْ غَیْرَ مُنْقَطِعٍ وَأَنْ یَرْجِعَنِی مِنْ حَضْرَتِکُمْ

وہ خدا سے سوال کرتا ہے کہ آپکے ہاں واپس آئے اور اسکا آپکی بارگاہ میں آنا چھوٹنے نہ پائے وہ چاہتا ہے کہ آپکے حضور سے

خَیْرَ مَرْجِعٍ إلَی جَنَابٍ مُمْرِعٍ وَخَفْضٍ مُوَسَّعٍ وَدَعَةٍ وَمَهَلٍ إلَی حِینِ الْاَجَلِ وَخَیْرِ

جائے تو پھر آپ کی خدمت میں حاضری دے تو یہ جگہ ہموار، سر سبز اور وسیع ہو چکی ہو کہ تا دم آخر وہ یہاں رہے اوراس کا انجام بخیر ہو

مَصِیرٍ وَمَحَلٍّ فِی النَّعِیمِ الْاَزَلِ، وَالْعَیْشِ الْمُقْتَبَلِ، وَدَوامِ الاَُْکُلِ، وَشُرْبِ الرَّحِیقِ

ہمیشہ کی نعمتیں نصیب ہوں آئندہ زندگی خوشگوار ہو ہمیشہ بہترین غذائیں اور پاک شراب ملے اور آب شرین

وَالسَّلْسَلِ وَعَلٍّ وَنَهَلٍ لاَ سَأَمَ مِنْهُ وَلاَ مَلَلَ وَرَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکَاتُهُ وَتَحِیَّاتُهُ عَلَیْکُمْ

اور یہ مہینہ بار بار آئے جس میں نہ تنگی آئے نہ رنج ہو اور خدا کی رحمت، برکتیں اور درود و سلام ہو آپ پر جب تک

حَتَّی الْعَوْدِ إلَی حَضْرَتِکُمْ، وَالْفَوْزِ فِی کَرَّتِکُمْ، وَالْحَشْرِ فِی زُمْرَتِکُمْ، وَرَحْمَةُ

کہ میں دوبارہ حاضر بارگاہ ہوں آپ کی رجعت میں کامیاب رہوں حشر میں آپ کے گروہ میں اٹھوں خدا کی رحمت اور

ﷲ وَبَرَکاتُهُ عَلَیْکُمْ وَصَلَواتُهُ وَتَحِیَّاتُهُ، وَهُوَ حَسْبُنا وَنِعْمَ الْوَکِیلُ

برکتیں ہوںآپ پر اور اس کی نوازشیں اور سلامتیاں اور وہ ہمارے لئے کافی اور بہترین کارساز ہے۔


امام اول اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی تیسری پشت اور ھدایت کے پانچویں امام، حجت خدا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت پہلی رجب57 قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، اور94 ہجری قمری میں امام علی ابن الحسین زین العابدین علیہم السلام کی شہادت کے بعد امامت تفویض ہوئی اور 114 ہجری قمری کو 18 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

آپ ؑ کی والدہ

 دوسرے امام حضرت حسن بن علی علیہ السلام کی بیٹی تھیں اور والد علی بن حسین بن علی علیہم السلام تھے ،اس اعتبار سے آپ ؑ پہلے شخص ہیں جو ماں اور باپ کی طرف سے علوی ؑ فاطمی ؑ ہیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دور امویوں اور عباسیوں کے سیاسی اختلافات اور اسلام کا مختلف فرقوںمیں تقسیم ہونے کے زمانے سے مصادف تھا جس دور میں مادی اور یونانی فلسفہ اسلامی ملکوں میں داخل ہوا جس سے ایک علمی تحریک وجود میں آئی۔ جس تحریک کی بنیاد مستحکم اصولوں پر استوار تھی ۔ اس تحریک کے لئے ضروری تھا کہ دینی حقایق کو ظاہر کرے اور خرافات اور نقلی احادیث کو نکال باہر کرے ۔ ساتھ ہی زندیقوں اور مادیوں کا منطق اور استدلال کے ساتھ مقابلہ کرکے انکے کمزور خیالات کی اصلاح کرنا۔ نامور دھری اور مادہ پرست علماء کے ساتھ علمی مناظرہ و مذاکرہ کرنا تھا یہ کام امام وقت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بغیر کسی اور سے ممکن نہ تھا ۔ آپ علیہ السلام نے حقیقی عقاید اسلامی کی تشہیرکی راہ میں علم کے دریچوں اور درازوں کو کھول دیا اور اس علمی تحریک کو پہلی اسلای یونورسٹی کے قیام کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔آپ کے بارے میں امام حنبل اور امام شافعی جیسے اسلام شناس کہتے ہیں:
ابن عباد حنبلی کہتے ہیں : ابو جعفر بن محمدؑ مدینہ کے فقہا میں سے ہیں ۔آپ ؑ کو باقر کہا جاتا ہے اس لئےکہ آپ ؑ نے علم کو شکافتہ کیا اور اس کی حقیقت اور جوہر کو پہچانا ہے۔(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149)۔
محمدبن طلحہ شافعی کہتے ہیں: محمد بن علی ؑ، دانش کو شکافتہ کرنے والے اور تمام علوم کے جامع ہیں آپ کی حکمت آشکار اورعلم آپ کے ذریعہ سر بلند ہے۔آپ ؑ کے سرچشمہ و جود سے دانش عطا کرنے والا دریا پر ہے۔آپ کی حکمت کے لعل و گہر زیبا و دلپذیر ہیں۔ آپ ؑ کا دل صاف اور عمل پاکیزہ ہے۔ آپ مطمئن روح اور نیک اخلاق کے مالک ہیں۔ اپنے اوقات کو عبادت خداوندمیں بسر کرتے ہیں۔ پرہیز گاری و ورع میں ثابت قدم ہیں۔ بارگاہ پرور دگار پروردگار میں مقرب اور برگذیدہ ہونے کی علامت آپ ؑ کی پیشانی سے آشکار ہے۔آپ ؑکے حضور میں مناقب و فضائل ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نیک خصلتوں اور شرافت نے آپ سے عزت پائی ہے۔(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149)۔

پانچویں امام ؑ نے پانچ خلیفوں( اسلامی بادشاہوں )کا دور دیکھا:
1. ولیدبن عبد الملک 86-96ھ۔
2. سلیمان بن عبدالملک 96-99 ھ۔
3. عمر بن عبد العزیز 99-101ھ۔
4. یزید بن عبد الملک 101-105 ھ۔
5. ھشام بن عبد الملک 105-125 ھ۔
مذکورہ اسلامی ممالک کے حاکموں( خلیفوں) میں عمر بن عبد العزیز جو کہ نسبتاً انصاف پسند اور خاندان رسول اﷲ ﷺوآلہ کے ساتھ نیکی کے ساتھ رفتار کرنے والا منفرد اسلامی بادشاہ (خلیفہ) تھا جس نے معاویہ علیہ ہاویہ کی سنت یعنی” معصوم دومؑ،امام اولؑ اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب ؑکے نام 69 سال تک خطبوںمیں لعنت کہنے کی شرمسار بدعت اور گناہ کبیرہ کو ممنوع کیا ۔
پانچویں امام اور پہلی اسلامی دانشگاہ کے بانی حضرت محمد باقر علیہ السلام سے اصحاب پیغمبر اسلامﷺ میں سے جابر بن عبداﷲ انصاری اور تابعین میں سے جابر بن جعفی، کیسان سجستانی،اور فقہا میں سے ابن مبارک،زھری، اوزاعی، ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور زیاد بن منزر نھدی آپ ؑ سے علمی استفادہ کرتے رہے۔معروف اسلامی مورخوں جیسے طبری، بلاذری، سلامی، خطیب بغدادای، ابو نعیم اصفہانی و مولفات و کتب جیسے موطا مالک ، سنن ابی داوود، مسند ابی حنیفہ، مسند مروزی، تفسیر نقاش،تفسیر زمخشری جیسے سینکڈوں کتابوں میں پانچویں امام ؑ کی دریای علم کی دُرّبی بہا باتیں جگہ جگہ نقل کی گئی ہیں اور جملہ قال محمد بن علی یا قال محمد الباقر دیکھنے کو ملتا ہے۔(ابن شھر آشوب ج 4 ص 195)۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی قایم کردہ اسلامی مرکز علم(یونیورسٹی) میں سے مایہ ناز علمی شخصیتیں فقہ، تفسیر اور دیگر علوم میں تربیت حاصل کر گئے جیسے محمد بن مسلم، ذرارہ بن اعین، ابو بصیر ، بُرید بن معاویہ عجلی، جابر بن یزید، حمران بن اعین اور ھشام بن سالم قابل ذکر ہیں۔
پانچویں امام ؑ نے دوسرے ائمہ کے مانند اپنی زندگی کو نہ صرف عبادت اور علمی مصروفیت میں بسر کی بلکہ زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی سرگرم تھے، جبکہ کچھ سادہ لوح مسلمان جیسے محمد بن مُنکَدِر ایسے اعمال کوامام ؑ کی دنیا پرستی تصور کرتے تھے ، موصوف کہتا ہے” امام کا کھیت میں زیاد کام کرتے دیکھنے کی وجہ سے میں نے اپنے آپ سے کہا کرتا تھا کہ حضرت ؑ دنیا کے پیچھے پڑے ہیں لہٰذامیں نے سوچا کہ ایک دن انہیں ایسا کرنے سے روکنےکی نصیحت کروں گا، چنانچہ میں نے ایک دن سخت گرمی میں دیکھا کہ محمد بن علی زیادہ کام کرنیکی وجہ سے تھک چکے تھے اور پسینہ جاری تھا میں آگے بڑھا اور سلام کیا اور کہنے لگا اے فرزند رسول ﷺ آپ مال دنیاکی اتنی کیوں جستجو کرتے ہیں؟ اگر اس حال میں آپ پر موت آجائے تو کیا کرینگے، آپ ؑ نے فرمایا یہ بھترین وقت ہے کیونکہ میں کام کرتا ہوں تاکہ میں دوسروں کا محتاج نہ رہوں اور دوسروں کی کمائی سے نہ کھاوں اگرمجھ پر اس حالت میں موت آئے تومیں بہت خوش ہونگا، چونکہ میں خدا کی اطاعت و عبادت کی حالت میں تھا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دیگر ائمہ ھدی کے مانند تمام علوم و فنون کے استاد تھے۔ ایک دن خلیفہ ھشام بن عبد الملک نے امام ؑ کو اپنی ایک فوجی محفل میں شرکت کی دعوت دی جب امامؑ وہاں پہنچے وہاں فوجی افسران سے محفل مذین تھی کچھ فوجی افسران تیرکمانوں کو ہاتھوں میں لئے ایک مخصوص نشانے پر اپنا اپنا نشانہ سادتے تھے، چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :"جب ہم دربار میں پہنچے تو ھشام نے احترام کیا اور کہا آپ نذدیک تشریف لائیں اور تیر اندازی کریں میرے والد گرامی نے فرمایا میں بوڈھا ہو چکا ہوں لہٰذا مجھے رہنے دے، ھشام نے قسم کھائی میں آپ سے ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہوں۔ میرے والد بذرگوار ؑ نے مجبور ہو کر کمان پکڑی اور نشانہ لیا تیر عین نشانہ کے وسط میں جاکر لگا آپ ؑ نے پھر تیر لیا اور نشانہ پر جاکر تیر مارا جو پہلے تیر کو دو ٹکڑے کردیئے اور اصل نشانہ پر جا لگا آپ تیر چلاتے رہے یہاں تک کہ 9 تیر ہوگئے ھشام کہنے لگا بس کریں اے ابو جعفر آپ تمام لوگوں سے تیر اندازی میں ماہر ہیں"۔
آخر میں امام محمد باقر ؑکی جابر بن جعفی کو کئے وصیت کا مختصر حصہ آپ قارئین محترم کے نذر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے امید کرتا ہوں امام کے اقوال ہمارے لئے مشعل راہ اور نمونہ عمل قرار دے۔
1. میں تمہیں پانچ چیزوں کے متعلق وصیت کترا ہوں:
2. اگر تم پر ستم ہو تو تم ستم نہ کرنا۔
3. اگرتمہارے ساتھ خیانت ہو تم خائن نہ بنو ۔
4. اگر تم کو جھٹلایا گیا تو تم غضبناک نہ ہو۔
5. اگر تمہاری تعریف ہوئی تو خوشحال نہ ہو اگر تمہاری مذمت ہوئی تو شکوہ مت کرو۔تمہارے متعلق لوگ جو کہتے ہیں اس پر غور کرو۔پس اگر واقعاً ویسے ہی ہو جیسا لوگ خیال کرتے ہیں ۔تو اس صورت میں اگر تم حق بات سے غضبناک ہوئے تو یاد رکھو خدا کی نظر سے گرگئے۔ اور خدا کی نظر سے گرنا لوگوں کہ نظر میں گرنےسے کہیں بڑی مصیبت ہے۔ لیکن اگر تم نے اپنے کولوگوں کے کہنے کے برخلاف پایا تو اس صورت میں تم نے بغیر کسی زحمت کے ثواب حاصل کیا۔
یقین جا نو! تم میرے دوستوں میں صرف اسی صورت میں ہو سکتے ہو کہ اگر تمام شہر کے لوگ تم کو برا کہیں اور تم غمغین نہ ہو، اور سب کے سب کہیں تم نیک ہو تو شادمان نہ ہو، اور لوگوں کے برائی کرنے پر خوف زدہ مت ہو، اس لئے کہ وہ جو کچھ کہیں گے اس سے تم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا ، اور اگر لوگ تمہاری تعریف کریں جبکہ تم قرآن کی مخالفت کر رہے ہو بھر کس چیز نے تم کو فریفتہ کر رکھا ہے؟ بندہ مومن ہمیشہ نفس سے جہاد میں مشغول رہتا ہے تا کہ خواہشات پر غالب ہو جائے اور اس امر کیلئے اہتمام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت امام محمد باقر ۴۱۱ھ میں خلیفہ ھشام بن عبد الملک کے حکم پر زہر دے کر شہید کردئےگئے۔آپ ؑ 57 سا ل تک وحی الہٰی کی ترجمانی کرتے رہے۔ آپ کے بعد آٹھویں معصوم اور چھٹے امام حضرت جعفر صادق ؑ آپکے جانشینی پر فائز ہوئے اور آپ ؑ کے قائم کردہ اسلامی مرکز علم کو وسعت عطا کرکے اسلام ناب محمدی ﷺ کی توضیع و تفسیر بیان فرمائی اور دینی محفل میں قال الصادق قال الصادق کی گونج سنائی دی اورامام جعفر صادق کی بتائی ہوئی اسلام کی تشریح پر چلنے والوں کو جعفری کہا گیا۔
خداوند ہمیں ان علوم کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،(آمین)

مؤلف: آغاعبدالحسین بڈگامی

ایک لمحہ سکون!

مرد اپنی زندگی کی کشمکش میں، ایک لمحہ سکون کا محتاج ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی راہ کو جاری رکھ سکے۔ وہ سکون کا لمحہ کونسا ہے؟ یہ وہ وقت ہے جب وہ اپنے آپ کو اپنے گھرانے کے ساتھ پیار اور شفقت سے بھرے ماحول میں پاتا ہے۔ اپنی زوجہ کے ساتھ جو اس سے پیار کرتی ہے ، اس کے شانہ بشانہ ہے اور وہ اس کے ساتھ ایکائی کا احساس کرتا ہے۔ جب وہ اپنی زوجہ کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ سکون کا لمحہ ہے۔

 

 

 

شوہر، ایک مسکن!

اب اس کشمکش میں زوجہ بھی کچھ پریشانیوں کا سامنا کرتی ہے۔ چونکہ اس کی روح زیادہ نازک ہے ، اسے سکون ، راحت اور اعتماد پسند شخص پر انحصار کی زیادہ ضرورت ہے۔ وہ کون ہے؟ وہ اسکا شوہر ہے! اسے زندگی کی کشمکشوں سے دور ایک مسکن اور محفوظ مقام مل گیا ہے۔

 

 

 

 

 

 

ایک دوسرے کی پناہگاہ

وہ شوہر و زوجہ جو صحیح طور سے ایک ساتھ زندگی گذارتے ہیں ، ان مشکلات میں ایک دوسرے کی پناہگاہ ثابت ہوتے ہیں۔ زوجہ اپنے شوہر کی پناہ لیتی ہے اور شوہر بھی اپنی بیوی کی پناہ لیتا ہے۔

Wednesday, 02 February 2022 20:17

جامع مسجد الجزایر

مسجد جامع الجزایر کو مسجدالحرام و مسجدالنبی(ص) کے بعد عالم اسلام کی تیسری بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو مشرقی الجزایر میں واقع ہے۔ اس مسجد کا مینار ۲۶۷ میٹر بلند ہے اور  ۴۳ فلور پر مشتمل اس مینار میں لفٹ لگا ہوا ہے. اسلامی طرز تعمیر کی شاہکار اس مسجد کو دو ایکڑ پر تعمیر کی گیی ہے جسمیں ایک لاکھ بیس ہزار نمازیوں کی گنجایش موجود ہے اور اس کے کارپارکنگ میں دو ہزار گاڑیوں کی گنجایش موجود ہے۔/

شامی صوبوں رقہ اور الحسکہ میں کرد ملیشیا نے جسے "سیرین ڈیموکریٹک فورسز" کہا جاتا ہے درجنوں شہریوں کو اغوا کر لیا۔

" سیرین ڈیموکریٹک فورسز " کے نام سے جانی جانے والی کرد ملیشیا - جو امریکی دہشت گرد افواج سے وابستہ ہیں - نے حال ہی میں شمالی اور شمال مشرقی صوبوں رقہ اور الحسکہ میں شہریوں کے گھروں پر حملے تیز کر دیے ہیں۔

الحسکہ کے مقامی ذرائع نے شام کی سرکاری نیوز ایجنسی (SANA) کو بتایا کہ امریکہ سے منسلک کرائے کے فوجیوں نے غویران محلے میں شہریوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس طرح کہ آج صبح ان عناصر نے اجازت نہیں دی، مکین اس محلے میں داخل ہوئے۔

ان ذرائع کے مطابق امریکہ سے وابستہ عناصر نے جنوب مشرقی غویران کے رہائشیوں پر اس بہانے حملہ کیا کہ وہ الصنایا جیل سے فرار ہونے والے دہشت گردوں کی تلاش میں ہیں۔ جن دہشت گردوں کو امریکہ اور یہ عناصر فرار کر چکے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ کرد عسکریت پسندوں نے الحسکہ کے مشرق میں خشمان محلے میں متعدد نوجوانوں کو اغوا کیا اور حملوں کے بعد انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ ان عناصر کا مقصد میدان جنگ میں ان لوگوں کو زبردستی استعمال کرنا ہے۔

رقہ صوبے کے مقامی ذرائع نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ امریکہ سے وابستہ عناصر نے مغربی رقہ میں المحمودلی کیمپ پر حملہ کر کے تقریباً 40 افراد کو اغوا کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ دریں اثناء کرد عسکریت پسندوں نے کل کئی شہریوں کو اغوا کر لیا۔

حال ہی میں اس جیل کے سامنے دو دھماکے ہوئے، جس میں داعش کے قیدی موجود ہیں، جس کے بعد داعش کے دہشت گردوں نے گروہ کے دیگر افراد کو نکال باہر کرنے کے لیے جیل پر حملہ کیا۔ حالیہ دنوں میں کرد ملیشیا کی حملہ آور عناصر کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں۔ جیل پر کردوں کا کنٹرول تھا۔

مقامی ذرائع نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ داعش کے عناصر نے اپنے یرغمالیوں کو رہا کر دیا ہے جو کرد عناصر تھے۔ یہ عناصر جیل کے اندر جھڑپوں کے دوران یرغمال بنائے گئے تھے۔ داعش کے عناصر پر حملہ کرنے والے اور قید کیے گئے دہشت گردوں نے بھی "امریکی ضمانتوں اور ثالثی کے ساتھ ہتھیار ڈال دیے، بدلے میں جمہوری قوتوں کے یرغمالیوں کو زندہ حوالے کیا۔"

12 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی مطابق 1 فروری سنہ 1979 کو14 سال کی جلا وطنی کے بعد بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا اور ان کو تہران میں تقریباً تیس لاکھ ایرانیوں کا استقبال کیا گیا۔ اس دن کو ایران کے سرکاری کیلنڈر میں عشرہ فجر کے آغاز کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ حضرت امام خمینی (رح) 43 سال قبل آج ہی کے دن تقریبا چودہ سال جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد ایران واپس تشریف لا‎ئے جہاں لاکھوں ایرانی عوام نے آپ کا فقیدالمثال اور تاریخی استقبال کیا۔

 ایران میں آپ کے اس تاریخی آمد کے ساتھ ہی اسلامی انقلاب کی کامیابی کا راستہ ہموار ہو گیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید ہی تاریخ کے کسی دور میں عوام نے کسی محبوب رہنما کا اس طرح استقبال کیا ہو۔ امام خمینی (رح) نے تہران کے مہرآباد ایئر رپورٹ پر مختصر تقریر میں قوم کا شکریہ ادا کیا اور انقلاب اسلامی کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے قبرستان بہشت زہرا تشریف لے گئے جہاں انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ میں اس قوم کے تعاون اور حمایت سے حکومت قائم کروں گا۔
امام کی واپسی اور عوامی بغاوت کے پھیلنے اور شاہ کے ایران سے نکل جانے کے ساتھ ہی ایران میں عوام کے مظاہرے روز بروز پرتشدد اور پر عزم ہوتے گئے۔

آزادی، آزادی اور اسلامی جمہوریہ کا نعرہ امام خمینی کی قیادت میں چلنے والی انقلابی تحریک میں عوام کا بنیادی مطالبہ تھا۔

امام خمینی (رح) 4 نومبر 1965 سے 1 فروری 1980 یعنی تقریباً چودہ سال جلاوطنی میں رہے اور 1966 میں آپ کو پہلے ترکی اور کچھ عرصہ بعد عراق جلاوطن کیا گیا، آپ نے نوفل لوشاتو نامی گاؤں میں وقت گزارا۔

روایت ہے کہ امام خمینی نے 16 جنوری 1979 کو شاہ کی ایران سے رخصتی کے بعد بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے نام ایک مختصر پیغام میں اعلان کیا کہ شاہ کا ایران سے نکلنا مجرمانہ حکومت کے خاتمے کی طرف پہلا قدم ہے۔ پہلوی حکومت جو 50 سال تک جاری رہی، جو جدوجہد کے سائے میں رونما ہوئی، ایرانی عوام کی بہادری اور میں اس فتح پر عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ "مناسب وقت پر" ایران واپس آئیں گے۔

جب کہ انقلاب کی پرواز 26 فروری کو امام خمینی کو فرانس سے ایران لانے والی تھی، ملک کی ایوی ایشن اتھارٹی نے اعلان کیا کہ خراب موسم اور مرئیت کی کمی کی وجہ سے تمام پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔

ہوائی اڈوں کی بندش اور بختیار کی حکومت کی جانب سے ملک میں داخلے کو روکنے کی خبر کے بعد عوام نے اپنے مظاہروں اور مارچ کے ذریعے حکومتی کارروائی کے خلاف احتجاج کیا۔ تینوں افواج کے تمام افسران نے تہران، اصفہان، کرمانشاہ، دزفول، ہمدان اور بوشہر میں اپنے اڈوں پر ہڑتال کی اور پھر مظاہرین کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ تہران میں مظاہرین مہرآباد ایئرپورٹ پر نکل آیا۔

مختلف علاقوں میں شوٹنگ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکی۔ خبر رساں ایجنسیوں نے رپورٹ کیا کہ شہر کے اسکوائر میں سے ایک میدان جنگ سے مشابہت رکھتا تھا، جس میں دارالحکومت میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے، اطلاعات اخبار نے لکھا کہ "تہران کے مغرب اور جنوب مغرب کو آگ کے شعلوں میں لپیٹ لیا گیا تھا۔"

ہوائی اڈوں کی بندش کے خلاف خونی دھرنوں اور مظاہروں کے بعد بختیار حکومت نے پیچھے ہٹ کر شکست تسلیم کرلی۔ بختیار نے 29 فروری کو اعلان کیا کہ مہرآباد ہوائی اڈہ آج کھل جائے گا اور امام ملک میں داخل ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
حکومت کے کابینہ نے 30 جنوری کو اعلان کیا کہ امام کو تہران کے مہرآباد ہوائی اڈے پر لے جانے والے طیارے کی آمد کسی پریشانی کے بغیر تھی۔ اس خبر کا اعلان کرتے ہوئے امام کے استقبال کی کمیٹی نے ایک پیغام میں اعلان کیا ہے کہ امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ یکم فروری بروز جمعرات صبح 9 بجے تہران میں ہوں گے۔

12 بہمن سنہ 1357 ہجری شمسی مطابق 1 فروری سنہ 1979 کو14 سال کی جلا وطنی کے بعد بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا، یہ دن ایران کی عصری تاریخ کے سب سے زیادہ پائیدار دنوں میں سے ایک ہے اور لوگوں کا جوش و خروش ناقابل بیان تھا۔ امام کے استقبال کی تقریب میں شرکت کے لیے بہت سے لوگ تہران پہنچے تھے۔

ہر سال، ایرانی عوام ترکی، عراق اور فرانس میں 14 سال کی جلاوطنی کے بعد امام خمینی کی واپسی کی سالگرہ مناتے ہیں اور عشرہ فجر کا آغاز ہوتا ہے۔

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے قوم کے نام پیغام سننے کے بعد مہرآباد ہوائی اڈے پر خطاب کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے قوم کے تمام طبقوں، جوانوں اور بوڑھوں، علماء اور تاجروں، ججوں اور وکلاء، ملازمین اور مزدوروں اور کسانوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جنہوں نے فتح کی راہ پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔

انہوں نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں محمد رضا شاہ کی ایران واپسی اور بادشاہت کو برقرار رکھنے کی کوششوں کو ناکامی قرار دیا، اور ان کی کوششوں کو بادشاہت کے تحفظ کے لیے پیڈلنگ سے تعبیر کیا۔

امام خمینی (رح) نے ان الفاظ میں فتح کا راز بیان فرمایا: ہمیں قوم کے تمام طبقات کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ یہ فتح اب تک اتحاد و اتفاق کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ لفظ مسلمان، سب کا اتحاد، مسلمانوں کے ساتھ مذہبی اقلیتوں کے لفظ کا اتحاد، یونیورسٹی اور سائنسی اسکول کا اتحاد، پادریوں اور سیاسی دھڑے کا اتحاد۔ "ہم سب کو اس راز کو سمجھنا چاہیے کہ لفظ کا اتحاد ہی فتح کا راز ہے، اور ہمیں فتح کے اس راز کو کھونا نہیں چاہیے۔"

امام خمینی کی ایران واپسی کے اہم ترین نتائج

دو واقعات امام خمینی کی واپسی کے سب سے اہم نتائج میں سے ہیں، جو تیزی سے اسلامی انقلاب کی فتح کا باعث بنے: ایک عبوری حکومت کا تقرر اور فوج کی امام خمینی کی بیعت۔

امام خمینی نے 16 جنوری کو شاہ کی ملک سے رخصتی کے موقع پر اعلان کیا کہ ہم جلد ہی حکومت قائم کریں گے۔ 4 فروری کو انقلابی کونسل کی طرف سے بازرگان کے وزیر اعظم کی منظوری دی گئی۔

‎8 فروری کو ملک بھر میں سب سے بڑا مارچ ہوا جس میں لاکھوں افراد نے امام خمینی کی منتخب حکومت کی حمایت کی۔ دوسری طرف انقلاب کی دہائی میں فوج جو کہ حکومت کے انحصار کا واحد نقطہ تھی، انقلاب میں شامل ہوئی۔

فرار، نافرمانی، ہڑتال، مظاہروں میں شرکت اور آخر میں امام خمینی کی بیعت، امام کے ساتھ فوج کے تعاون کی علامت تھی جو 8 فروری کو اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

نتیجے کے طور پر، حکومت بغیر کسی حمایت کے تیزی سے ٹوٹ گئی، اور اسلامی انقلاب 11 فروری کو اپنی حتمی فتح تک پہنچا۔

 ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کرکے فقیہ اعلی مقام اور بابصیرت مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمی الحاج شیخ لطف اللہ صافی گلپایگانی کے انتقال پر تعزیت پیش کی۔

ایرانی قائد کا تعزیتی پیغام کا متن حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فقیہ عالی مقام اور بابصیرت مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمی لطف اللہ صافی گلپایگانی رضوان اللہ علیہ کے انتقال کی افسوسناک خبر موصول ہوئی۔ وہ قم کے 'حوزۂ علمیہ' (اعلی دینی تعلیماتی مرکز) کے ستونوں اور علمی و عملی لحاظ سے اس مبارک مرکز کی سب سے نمایاں شخصیات اور سب سے پرانے علماء میں سے ایک تھے۔

موصوف، آیۃ اللہ بروجردی مرحوم کے زمانے میں اس عظیم الشان استاد کے سب سے ممتاز شاگردوں میں سے ایک، مرحوم آیۃ اللہ سید محمد رضا گلپایگانی کے زمانے میں ان کے ساتھی اور علمی مشیر اور تحریک انقلاب کے زمانے میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے معتمد افراد میں شمار ہوتے تھے۔

مرحوم برسوں تک، نگہبان کونسل میں، اس کے کلیدی رکن شمار ہوتے تھے اور اس کے بعد بھی ہمیشہ انقلاب اور ملک کے مسائل کے بارے میں ہمدردانہ اور ذمہ دارانہ طریقے سے اپنا موقف بیان کرتے تھے۔ اکثر اپنے نظریات اور مشوروں سے حقیر کو مطلع اور بہرہ مند کیا کرتے تھے۔

مرحوم کا شعری ذوق، تاریخی حافظہ، سماجی مسائل پر عبور، اس بزرگ اور عظیم عالم دین کی شخصیت کے کچھ اور پہلو تھے۔ ان کی وفات ملک کے علمی و دینی معاشرے کے لیے باعث افسوس اور اندوہ ہے۔

میں ان کے معزز اہل خانہ، ان کے محترم بچوں اور اسی طرح معزز مراجع تقلید، حوزۂ علمیہ کے علمائے کرام، ان کے مقلدوں اور چاہنے والوں بالخصوص قم اورگلپایگان میں ان کے عقیدت مندوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں اور مرحوم کے لیے خداوند عالم سے رحمت و مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔

سید علی خامنہ ای

 تقريب خبررسان ايجنسی 

اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے ​​ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید سے ملاقات میں یمن کے مظلوم عوام کے خلاف متحدہ عرب امارات کی جارحیت کے جواب میں متحدہ عرب امارات پر یمنی مسلح افواج کے حالیہ حملوں کی مذمت کی۔  

بن زاید نے متحدہ عرب امارات کے فوجی ٹھکانوں پر یمنی مسلح افواج کے حملوں کے بارے میں صیہونی حکومت کے مؤقف پر بھی شکریہ ادا کیا اور اسے علاقائی استحکام اور امن کے لیے خطرات کے ذرائع کے بارے میں مشترکہ نقطہ نظر کی علامت قرار دیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات مضبوطی کے ساتھ جاری ہیں اور دونوں فریقین اس کو مضبوط کرنے کے لیے مشترکہ اور مضبوط ارادہ رکھتے ہیں۔