سلیمانی

سلیمانی

اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں نماز جمعہ آیت اللہ سید احمد خاتمی کی امامت میں منعقد ہوئی ، جس میں مؤمنین نے طبی دستورات کی رعایت کے ساتھ بھر پور شرکت کی ۔ خطیب نماز جمعہ  نے شہید سردار قاسم سلیمانی کی دو برسی کی آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا حتمی انتقام ڈونلڈ ٹرمپ کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے ۔ اگر اسرائیلی نے ذرا سی بھی غلطی کی تو اسے معمولی میزائلوں سے تباہ کردیا جائےگا۔

شہید قاسم سلیمانی کی خون کی بدولت امریکہ افغانستان سے فرار ہوگیا

خطیب جمعہ نے افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کی خون کی بدولت امریکہ افغانستان سے فرار ہوگیا، شہید قاسم سلیمانی ایرانی ہیرو ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کے بھی ہیرو ہیں ۔

خطیب جمعہ نے کہا کہ ہمارے دو قاسم سلیمانی ہیں ۔ ایک قاسم سلیمانی کا نام  شجاعت اور مزاحمت کی رمز تھا،امریکیوں نے کہا تھا کا عراق کے شہر موصل سے داعش کی حکومت کے خاتمہ کے لئے کم سے کم 10 سال درکار ہیں ، لیکن شہید قاسم سلیمانی نے کہا کہ 3 ماہ بعد داعش کا نام عراق سے ختم ہوجائےگا اور تین ماہ کے اندر موصل میں داعش کی حکومت کا خاتمہ ہوگيا۔ ہمارے دوسرے شہید قاسم نے اپنی شہادت کے بعد دنیا میں عظیم زلزلہ پیدا کردیا اور یہ شہید قاسم سلیمانی اسلام کا ہیرو ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کے خون کی برکت سے امریکہ افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور ہوگيا اور ان شاءاللہ  امریکہ عنقریب عراق سے بھی فرار کرنے پر مجبور ہوجائےگا ۔ عراقی پارلیمنٹ نے امریکی فوجی انخلا کے بارے میں قانون بھی منظور کررکھا ہے۔

ایران نے عین الاسد میں امریکہ کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کیا

خطیب جمعہ نے کہا کہ ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈے عین الاسد پر میزائل فائرکرکے شہید قاسم سلیمانی کے خون کا مختصر انتقام لیا اس حملے میں درجنوں امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے لیکن اصلی انتقام امریکہ کے سابق ڈکٹیٹر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے لیا جائے گا جس نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک تیسرے ملک میں مہمان ہمارے اعلی فوجی کمانڈر کو بزدلانہ حملے میں شہید کیا ۔ انھوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کے بہیمانہ قتل میں ملوث تمام افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائےگا۔

اسرائيل کو انتباہ        

خطیب جمعہ نے اسرائیلی دھمکیوں کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہماری فوجی مشقیں دفاعی نوعیت کی ہیں اگر اسرائيلی نے کسی خطا یا غلطی کا ارتکاب کیا تو اسے ایران کے معمولی میزائلوں کے ذریعہ نابود کردیا جائےگا۔

جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما نے قدس فورس کے شہید کمانڈر سردار قاسم سلیمانی کے قتل کو اسلام کے خلاف بہت بڑا ظلم قرار دیا ۔


سراج الحق نے کہا کہ دشمنوں نے اسلامی اقوام کے درمیان انتشار کا فائدہ اٹھایا ہے اور ہم ان سازشوں کا نتیجہ قدس فورس کے کمانڈر کے قتل جیسے واقعات میں دیکھتے ہیں۔

انہوں نے زور دیا: "دہشت گردانہ کارروائیوں اور یکطرفہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے ہمیں اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے، اور ہمیں مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔"

3 جنوری 2020 کی صبح پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر سردار قاسم سلیمانی، عراقی عوامی فورس (الحشد الشعبی) کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا۔ یہ حملہ امریکی دہشت گرد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست حکم پر کیا گیا۔

بغداد میں امریکی دہشت گردانہ کارروائی اور مزاحمتی رہنماؤں کی شہادت کے دو ہفتے سے بھی کم عرصے کے بعد پاکستان قومی یکجہتی کونسل کے 9 رکنی وفد نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور نائب صدر لیاقت بلوچ کی سربراہی میں تعزیت کا اظہار کیا۔ 

حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حامد شہریاری نے پیر طارق شریف زادہ، عالمی مرکز سیرت کے سربراہ سے ایرانی خانہ فرہنگ لاہور میں ملاقات کی۔

اس ملاقات میں پیر طارق شریف زادہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: اداره   آگاہی میں اہل علم اور مذہبی محققین جن کے پاس دستاویزات ہیں وہ کام کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات ثقافت اور تہذیب کے لحاظ سے بلند ہیں لیکن مذہب کے میدان میں اس سے کہیں زیادہ گہرے ہیں، انہوں نے مزید کہا: "مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے لیے ایران کی کوششیں قابل تعریف ہیں اور اسے دوسرے ممالک کے لیے نمونہ ہونا چاہیے۔"

 "میں دنیا بھر کی بہت سی یونیورسٹیوں میں کام کرتا ہوں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سیرت نبوی کی تحقیق کیسے کی جائے تو میں اس میدان میں ایران کے کردار کی مثال دیتا ہوں۔"

پیر طارق شریف زادہ نے یہ بتاتے ہوئے کہ ہم پاکستانی یونیورسٹیوں میں سیرت نبوی کی تعلیم کے لیے ایک شعبہ شروع کرنے کے خواہاں ہیں، کہا: "ہمارے پاس یونیورسٹیوں میں اسلامی علوم کا شعبہ ہے، لیکن ہم سیرت نبوی پر تحقیق شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔"

حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حامد شہریاری، مجمع جهانی تقریب مذاهب اسلامی  کے سیکرٹری جنرل نے پاکستانی نوجوانوں کی پیغمبر اسلام ص کی سیرت سے واقفیت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا: اسلامی علوم سیکھیں۔

ڈاکٹر شہریاری نے امت اسلامیہ تک پہنچنے کے اقدامات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: یک امت اسلامیہ تک پہنچنے کے لیے عقائد کی تعلیم ضروری ہے۔

 انسانیت مغربی ہیں اور ان کی اصلاح ہونی چاہیے: ہماری اپنی ثقافت ہونی چاہیے اور ہماری انسانیت کو بھی اسلامی ہونا چاہیے۔

حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام صنف نسواں میں اسلام کی تنہا صاحب عصمت خاتون ہیں کہ جس کی عصمت قرآن اور حدیث کی روشنی میں ثابت ہے اور ان کی پُر افتخار زندگی اس بات پر دوسری دلیل ہے۔
حضرت زہرا علیہا السلام کے دنیا میں آنے کا اہتمام جنت کی پاک غذا سے ہوا۔ رحم مادر ہی میں ماں کے لئے ایک بہترین ساتھی اور مونس شمار ہوتی تھی۔ اور دوران ولادت جن باعظمت مخدرات عصمت کو غیب سے بھیجا گیا تھا، ان سے گفتگو کی اور آپ کی محدود  حیات طیبہ میں عقل کو حیران کر دینے والی سینکڑوں کرامات ظاہر   ہوئیں  یہ تمام باتیں اس باعظمت خاتون کی عصمت کی حکایت کرتی  ہیں۔

جی ہاں ! حضرت فاطمہ علیہا السلام عالم اسلام کی خواتین کے لیے اسوہ اور نمونہ کے طور پر پہچانی جاتی  ہیں  دوسری عورتوں کےلیے ضروری ہے کہ ان کی پاک سیرت کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں۔ تربیت،  اخلاق اور خود سازی کے عملی میدان میں ان کی پیروی کریں۔ عبادت کے طریقے اور روش، شوہرداری، بچوں کی پرورش اور لوگوں کے حقوق کے بارے میں ان کو آئیڈیل بنایا جائیں۔ان تمام  کرداروں  کو نبھانا چاہیے جن کو  انہوں نےنبھایا ہے  اور اس طرح برتاؤ  کرنا چاہئے جس طرح انہوں نے کیا ہے۔
راقم اس بات پر عقیدہ رکھتاہے کہ گھر اور مشترک گھریلو زندگی کسی کا اخلاق، رفتار، ایمان تقوی اور عدالت وغیرہ پرکھنے کی بہترین جگہ  شمار ہوتی ہیں حضرت زہرا علیہا السلام  اپنے باپ کے ساتھ اور باپ کے گھر میں بہترین امتحان دےچکی ہیں۔اور اس طرح ’’فداھا ابوھا‘‘ اور ’’امُّ ابیھا‘‘ جیسے دسیوں القابات پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی  زبان مبارک سے حاصل کر کئے  اور شوہر کے گھر میں اس طرح پیش آئیں کہ امیر المؤمنین علیہ السلام  فرماتے ہیں ’’فاطمہ علیہا السلام نے  اپنی پوری زندگی میں کوئی  ایسا چھوٹا کام بھی انجام نہیں دیا جس سے میں ناراض ہو جاؤں  اور کبھی میری نافرمانی نہیں کی بلکہ اپنے  اخلاق  اور  نیک سلوک سے میرے غم اور پریشانیوں کو دور کیا۔

عصمت حضرت فاطمہ علیہا السلام  پر قرآن پاک کی گواہی
  خداوند عالم سورہ احزاب میں فرماتا ہے کہ: إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (1)
بیشک خداوند عالم چاہتا ہے کہ تمام پلیدی اور گناہ کو آپ اہل بیت سے دور رکھے اور مکمل طور پر پاک و منزہ قرار دے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔
یہ آیہ شریفہ شہادت دیتی ہے کہ اہل بیت علیہم السلام، پاک اور معصوم ہیں اور کوئی گناہ نہیں کرتے ہیں ’’الرجس‘‘ جو آیت میں آیا ہے، تمام گناہان صغیرہ اور کبیرہ کو شامل کرتا  ہے جس سے اہل بیت دور ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیہ شریفہ میں اہل بیت سے مراد کون ہیں؟
اہل سنت کی معتبر روایات اور پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی  ازواج کے اظہارات اور اعترافات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اہل بیت سے مراد پنجتن آل عبا ہیں ان ہستیوں میں سے ایک حضرت زہرا علیہا السلام کی ذات مبارک ہے۔ پس اسی بناء پر فاطمہ زہرا علیہا السلام  قرآن مجید کی  گواہی کے مطابق صاحب عصمت ہیں۔

حضرت فاطمہ علیہا السلام  کی عصمت پر امیر المؤمنینؑ کا استدلال
جب پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحلت کے بعد خلیفۂ اول نے فدک کو غصب کیا تو حضرت فاطمہ علیہا السلام نے اس کے ساتھ احتجاج  اور مناظرہ کیا ۔ امیر المؤمنین علیہ السلامبھی حضرت زہرا علیہا السلام کے خطبہ اور احتجاج کے بعد مسجد گئے اور ابو بکر سے سوال کیا:
حضرت علی علیہ السلام : اے ابوبکر بتاؤ ، پتہ تو چلے کیا  تم نے قرآن پڑھا ہے؟
ابو بکر: جی ہا ں قرآن کو  پڑھا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام: آیہ تطہیر’’ إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (2) پڑھواور بتاؤ کہ یہ آیت ہمارے حق میں نازل ہوئی ہے یا دوسروں کے؟
ابوبکر: یہ آیت آپ کے حق میں نازل ہوئی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام  : اگر کوئی حضرت فاطمہ علیہا السلام کے خلاف گواہی دے کہ انہوں نے خلاف شریعت کوئی عمل انجام دیا ہے تو تم اس وقت کیا کروگے؟ اس شخص کی گواہی کو قبول کروگے یا نہیں؟
ابو بکر: جی ہاں، میں اس آدمی کی گواہی کو قبول کروں گا اور  حضرت فاطمہ علیہا السلام پر دوسرے لوگوں کی طرح حد جاری کروں گا۔
حضرت علی علیہ السلام : اس صورت میں تم خدا کے ہاں کافر قرار پاوگے۔
ابوبکر: کیوں؟
حضرت علی علیہ السلام : کیونکہ اس فرض کی بناء پر تم نے خدا کی گواہی کو  جوخدا نے حضرت فاطمہ علیہا السلام کی طہارت پر دی ہے،  رد کیا ہے اور لوگوں کی گواہی کو مقدم کیا ہے۔اسی طرح تم نے خدا اور رسول کی گوہی کو اس مورد میں نظر انداز کیا ہے اور فدک کو فاطمہ زہرا علیہا السلام سے چھین لیا ہے۔
اے ابو بکر! کیا فدک فاطمہ زہرا علیہا السلام کے ہاتھ میں نہیں تھا ؟  جو چیز ان کی ملکیت میں ہے تم کیوں اور کیسے خود ان سے اس کے متعلق  شاہد اور گواہ مانگتے ہو؟چونکہ لوگ امیرالمؤمنین علیہ السلام اور ابو بکر کی گفتگو سن رہے تھے، ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور کہا:  ’’صَدَّقَ وَاللّہ عَلِی ابن اَبِی طَالِب‘‘ خدا کی قسم، علی ابن ابی طالب علیہ السلام  نے سچ کہا ہے(3)
قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے آیہ تطہیر سے عصمت فاطمہ زہرا علیہا السلام پر استدلال کیا اور مہاجرین اور انصار نے بھی اسے قبول کیا اور اس کی تائید کی۔

حضرت فاطمہ علیہا السلام  کی عصمت فریقین کی روایت میں
امام باقر علیہ السلام نے اس آیہ مجیدہ ’’ إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (4)
کے بارے میں فرمایا: یہ آیت رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم، علی ابن ابی طالب، فاطمہ زہراعلیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہ واقعہ رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ امّ سلمہ کے گھر میں ہوا کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم  نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، ، فاطمہ زہراعلیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام  اور امام حسین علیہ السلام کو بلایا پھر خیبر سے لائی ہوئی چادر کو ان کے اوپر ڈال دیا اور خود بھی اس کے اندر داخل ہوئے اور فرمایا: اللهم هولاء اهل بيتى و عدتنى فيهم ما وعدتنى، اللهم اذہب عنهم الرجس و طهرہم تطهيرا، فقالت و أنا معهم يا رسول‏اللہ قال: أبشرى يا ام‏سلمہ فانك الى خير (5)
اے اللّہ یہ میرے اہل بیت ہیں جن کے بارے میں تو نے مجھے وعدہ دیا ہے۔ اے اللّہ ان سے ہر قسم کی رجس و پلیدی کو دور فرما اور انہیں پاک اور منزہ قرار دے، اس موقع پر حضرت امّ سلمہ نے کہا: اے رسول خدا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟
 آپ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا:  اے امّ سلمہ تمہارے لئے بشارت ہو  تم خیر پر ہو۔
( لیکن تم اہل بیت  علیہم السلام میں سے نہیں ہو)

حضرت فاطمہ علیہا السلام  کا گذشتہ انبیاءؑ سے افضل ہونا  
اس بات میں کوئی شک نہیں ہےکہ رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں اگر ان کا نور نہ ہوتا اور ان کی ہستی نہ ہوتی تو بدون شک خدا کسی بھی مخلوق کو خلق نہ کرتا۔(6)
دوسری طرف سے اہل سنت  اور  اہل تشیع  کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجتن پاک  کا نور ایک تھا  اور خدا کے ہاں ایک نور شمار ہوتا ہے (7)
اگرچہ پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی برتری دوسروں پر مسلّم ہے۔
ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتےہیں : دنیا کی  ابتداء اور انتہاء کے تمام انسانوں میں ، میں سب سے افضل ہوں اور میرے بعد علی علیہ السلام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں ہم میں جو پہلے والے ہیں وہ آخر والے کی  طرح ہیں اور جو آخر والے ہیں وہ پہلے والے کی طرح ہیں (8)
اور تیسری طرف سے رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی روایت میں  ہم پڑھتے ہیں کہ آپ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: میرے اور علی کے بعد زمین پر سب سےافضل حسن اور حسین ہیں اور ان کی مادر گرامی فاطمہ پوری دنیا کی عورتوں میں سب سے افضل ہیں۔(9)    
ہم اہل بیت اطہار کی روایتوں میں پڑھتے ہیں کہ خداوند متعال نے انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور ان کو بھی کمال اور فضیلت کے لحاظ سے برابر خلق نہیں کیا ہے بلکہ ان میں سے کچھ اولوالعزم مشہور ہیں اور وہ باقی تمام انبیاء سے افضل ہیں لیکن اہل بیت اطہار کو خداوند عالمین نے اولوالعزم پیغمبروں سےبھی برتر و افضل قرار دیا ہے۔(10)    
امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت میں آیا ہے کہ گذشتہ تمام انبیاء فقط اس لئے بھیجے گئے تھے تاکہ ہمارے حقوق کو پہچانیں اوردوسرے تمام مخلوقات عالم سے ہمیں افضل اور برتر جانیں۔(11)
اگر مذکورہ روایتوں کو مد نظر رکھے بغیر بھی غور و فکر کریں، تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ تمام انبیاء الہی معصوم تھے۔ اور علی علیہ السلام ، فاطمہعلیہا السلام ، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ، رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّمکے علاوہ تمام انبیاء سے افضل تھے۔ پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پنجتن پاک تمام فضائل و کمالاتِ انبیاء مِن جُملہ درجۂ عصمت میں ان پر  فضیلت رکھتے ہیں۔

دوسری طرف اہل سنت کی روایتوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام نہ ہوتے تو فاطمہ زہرا علیہا السلام کے لئےاس جہاں میں کوئی ہم رتبہ اور کفو نہ ملتا۔
بڑے بڑے علماء، دانشور اور محققین نے ’’حدیث کفو‘‘ سے استفادہ کیا ہے  کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہعلیہا السلام رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے علاوہ تمام انسانوں سے افضل ہیں۔پس اس صورت میں بھی فاطمہعلیہا السلام  کی عصمت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس حدیث سے تمسک کرنے کی صورت میں فاطمہ زہرا علیہا السلام ، حضرت علی علیہ السلام کے ہم رتبہ اور مساوی ہیں! پس کسی عاقل شخص کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ دو برابر اور مساوی چیزوں کے ایک دوسرے پر مقدم اور برتری کے قائل ہو جائے۔
    
فاطمہ زہراعلیہا السلام  کی عصمت پر ملائکہ کی گواہی
بہت ساری روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ جبرئیل امین اور دوسرے تمام فرشتے حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام پر نازل ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے۔ اور اس گفتگو کے درمیان میں اس خاتون عصمت کے فضائل اور مناقب میں کچھ ایسے مطالب کہتے تھے جس سے ان کی عصمت ثابت ہو جاتی ہے۔ ہم ان میں سے صرف دو مورد کی طرف اشارہ کرتے ہیں رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قال رسول‏ اللَّه صلى اللَّه عليه و آله: «... ابنتى فاطمه، و انها لسيده نسا العالمين فقيل: يا رسول‏اللَّه! اهى سيده نسا عالمها؟ فقال: ذاك لمريم بنت عمران، فاما ابنتى فاطمه فهى سيده نسا العالمين من الاولين و الاخرين و انها لتقوم فى محرايها فيسلم عليها سبعون الف ملك من الملائكه المقربين و ينادونها بمانادت به الملائكه مريم فيقولون يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نسا العالمين(12)
میری بیٹی فاطمہ علیہا السلام  دونوں جہاں کے عورتوں کی سردار ہیں۔
 پوچھا گیا: اے رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں ؟
فرمایا:یہ خصوصیت مریم بنت عمران کی ہے لیکن میری بیٹی فاطمہ علیہا السلام  دونوں جہاں کی اولین اور آخرین ، تمام عورتوں کی سردار ہیں اور وہ جب محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں تو ستّر ہزار مقرب فرشتے ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے تھے جس طرح حضرت مریم علیہا السلام سے گفتگو کرتے تھےاللّہ تعالی نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و منزہ قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہاں کی تمام خواتین پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: انما سميت فاطمه محدثه لان الملائكه كانت تهبط من السما فتناديها كما تنادى مريم بنت عمران فتقول: يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نسا العالمين. فتحدثهم و يحدثونها فقالت ذات ليله: اليست المفضله على نسا العالمين مريم بنت عمران؟ فقالوا: ان مريم كانت سيده نسا عالمها و ان اللَّه عزوجل جعلك سيده نسا، عالمك و عالمها و سيده نسا الاولين و الاخرين(13)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ فاطمہ علیہا السلام  کو ’’محدثہ‘‘ کہا جاتاہے کیونکہ ان کے پاس آسمان سے ملائکہ نازل ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے جس طرح حضرت مریم علیہا السلام  سے گفتگو کرتے تھے اور ملائکہ حضرت فاطمہ علیہا السلام سے مخاطب ہو کر کہتے تھے کہ اے فاطمہ علیہا السلام ! بیشک اللّہ تعالی نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و صاف قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہانوں کی عورتوں سے افضل قرار دیا ہے۔ حضرت فاطمہعلیہا السلام  بھی ان سے گفتگو کرتی تھی اور ان کی گفتگو سنتی تھی۔ ایک دن حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے ملائکہ سے کہا: کیا مریم بنت عمران تمام جہاں کی عورتوں سے افضل نہیں ہے؟
ملائکہ نے جواب دیا: حضرت مریم اعلیہا السلام اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھی، لیکن آپ   اول و آخر تمام عورتوں کی سردار ہیں یہاں تک کہ خود حضرت مریم علیہا السلام کے زمانے کی عورتوں کی بھی سردار ہیں۔
ان احادیث کو  بطور نمونہ منتخب کیا گیا ہے جن میں فاطمہ زہرا علیہا السلام کو جہاں عالَم کی تمام عورتوں کی سردار، خداوند عالَم کی منتخب اور ملائکہ و جبرئیل امین کی ہمنشین و ہم صحبت ہونا بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح کی احادیث کو دیکھنے کے بعد کیا کسی کے لئے ممکن ہے کہ وہ  عصمت زہرا علیہا السلام کے بارے میں  تردید کرئے؟
 
حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام  کی عصمت پر اشکال اور اس کا جواب
بعض لوگ  کہتے ہیں کہ آیہ تطہیر عصمت پر دلالت نہیں کرتی ہے کیونکہ اس آیت سے پہلے والی آیات اور بعد والی آیات، رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور ان سے مخاطب ہیں۔ پس سیاق و سباق کی دلالت کی بناء پر، کہا جا سکتا ہے کہ آیہ مذکورہ بھی رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور وہ مخاطب ہیں اس بناء پر اگر یہ آیت عصمت پر دلالت کرتی ہے تو اس بات کا قائل ہونا پڑے گا کہ ازواج رسول بھی معصوم تھیں حالانکہ  نہ کسی نے ان کو معصوم سمجھا ہے اور نہ ایسا کہا جا سکتا ہے پس نتیجتا ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ آیت سرے سے ہی عصمت پر دلالت نہیں کرتی ہے نہ روجات رسول صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم  کے  بارے میں اور نہ ہی اہل بیت کی عصمت پر۔
جواب: سید عبد الحسین شرف الدین نے اس مذکورہ اشکال کو نقل کیا ہے اور چند طریقوں سے اس اشکال کا جواب دیا ہے
اول: احتمال مذکورہ نص  کے مقابلے میں اجتہاد  ہے کیونکہ ساری روایتوں میں جن کی تعداد تواتر کی حد تک ہے ،  آیا ہے کہ آیہ تطہیر صرف، علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، فاطمہ زہرا علیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور انہی ہستیوں سے مختص ہے یہاں تک کہ امّ سلمہ اس چادر میں داخل ہونا چاہی تو رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم  نے سختی سے منع فرمایا۔
دوم: دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر آیہ تطہیر رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہوتی تو ضروری تھا کہ ضمیر جمع مونث کی صورت میں ہوتی اور آیت یوں ہوتی:  إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً ‘‘ نہ جمع مذکر کی صورت میں۔پس یہ آیت اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
سوم: تیسری دلیل یہ ہے کہ فصیح عربی بولنے والوں کے ہاں یہ رواج ہے کہ اپنی گفتگو کے درمیان جملۂ معترضہ لاتے ہیں اس بناء پر کوئی مانع نہیں ہے کہ اللّہ تعالی   آیت تطہیر کو ان آیتوں کے درمیان قرار دےجو زوجات رسول صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں نازل ہوئی ہیں تاکہ اس کی اہمیت کو واضح کرے۔ اور اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اہل بیت پیغمبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم معصوم ہیں لہذا کئی اس سے تعرض نہیں کرسکتا، چاہے وہ زوجات پیغمبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم ہی کیوں نہ ہو۔
چہارم: چوتھی دلیل یہ ہے کہ بیشک قرآن مجید میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے اور اس آسمانی کتاب کی آیتوں میں بھی کوئی کمی و بیشی نہیں ہوئی ہے لیکن یہ بات مسلّم نہیں ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور سورے جس ترتیب سے نازل ہوئیں ہیں اسی طرح جمع اور تدوین ہوئیں ہوں، پس یہ احتمال بعید نہیں ہے کہ آیت تطہیر صرف اہل بیت کی شان میں الگ نازل ہوئی ہو لیکن تدوین اور قرآن مجید کی جمع آوری کےموقع پر اس آیت کو زوجات پیغیبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں نازل ہونے والی آیتوں کے ساتھ ملایا ہو۔(15)
دلیل دوم: رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت فاطمہ علیہا السلام  سے فرمایا: اے میری بیٹی! تیری ناراضگی خدا کی ناراضگی اور تیری خوشنودی خدا کی  خوشنودی ہے۔(16)
اس حدیث کو فریقین قبول کرتے ہیں اور اپنی اپنی کتابوںمیں ذکر کیا ہے۔ اس حدیث کے مطابق جس جس پر حضرت فاطمہ علیہا السلام  ناراض ہوگی خدا بھی اس سے ناراض ہو گا۔ اور جس جس  پر فاطمہ علیہا السلام راضی ہو گی خدا بھی خوشنود اور راضی ہوگا۔ اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ رضایت اور غضبِ خدا سچ اور حق ہونے کی بناء پر ہے خداوند عالم ہرگز کسی غلط اور خلاف حق پر خوش اور راضی نہیں ہوتا   اگرچہ دوسرے لوگ اس کام سے راضی ہو جائیں اور اسی طرح کسی اچھے کام اور حق پر ہرگز ناراض نہیں ہوتا  اگر چہ وہ کام دوسروں کےہاں باعث غضب ہو۔ان دو مطالب کا لازمہ یہ ہے کہ فاطمہ زہراعلیہا السلام  ہر قسم کے گناہ اور خطا سے معصوم ہیں کیونکہ معصوم کی رضایت اور غضب شریعت کے عین مطابق ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت رضائے خدا  کے خلاف راضی نہیں ہوتا ہے ایسی صورت میں ہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر فاطمہ علیہا السلام  ناراض ہو جائے تو خدا ناراض ہوگا اور اگر فاطمہ علیہا السلام راضی اور خوش ہو تو خدا خوشنود ہو گا۔ لیکن اگر ان سے گناہ اور خطا سرزد ہونے کا امکان ہوتا  تو ہرگز بطور کلی ایسا نہیں کہا جا سکتا تھا کہ فاطمہ کی ناراضگی خدا کی  ناراضگی اور فاطمہ علیہا السلامکی خوشی خدا کی خوشی ہوگی۔ اس مطلب کو ہم مثال کے ذریعے واضح کرتے ہیں:
اگر ہم فرض کریں کہ فاطمہ علیہا السلام معصوم نہیں ہیں اور ان سے گناہ و خطا  کا امکان ہے اس صورت میں امکان ہے وہ  خطا  یا غریزہ نفسانی کی وجہ سے خلاف حق کسی سے کوئی مطالبہ کرےا ور اس طرح ان کے درمیان نزاع ہو جائے اور طرف مقابل قبول بھی نہ کرے  بلکہ اُنہیں غلطی پر قرار دے۔اس بناء پر حضرت فاطمہ علیہا السلام ناراض ہو جائے اور اپنی عدم رضایت کا اظہار بھی کر لے، کیا ایسی صورت میں  کہا جا سکتا ہے کیونکہ فاطمہ علیہا السلام ناراض ہوئی ہیں پس خدا بھی ناراض ہوا ہے اگر چہ حق طرف مقابل کا ہی کیوں نہ ہوہرگز  ایسی نسبت خداکی طرف نہیں دی جاسکتی۔ بس اس حدیث سےبھی حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی عصمت ثابت کی جا سکتی ہے
رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ فاطمہ علیہا السلام میرے جسم کا ٹکڑا ہیں جس نے اسے ناراض کیا اس نے  مجھے ناراض کیا۔(17)
یہ حدیث بھی اہل تشیع اور اہل تسنّن دونوں نے نقل کی ہے اور تمام مسلمان حتی عمر اور ابوبکر بھی اس حدیث کی صحت کے قائل ہیں مذکورہ حدیث کی طرح اس حدیث سے بھی حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام کی عصمت پر دلالت ملتی ہےکیونکہ رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم گناہ  اور  خطا  سے معصوم ہیں لہذا  یسے کام پر ناراض ہوتے ہیں جس سے خدا ناراض ہوتا ہے اور اسی طرح ایسے کام سے راضی ہوتے ہیں جس سے خدا راضی ہوتاہے۔ پس اس صورت میں یہ کہا جاسکتاہے کہ فاطمہ زہرا علیہا السلام کی  ناراضگی رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی ناراضگی ہے اور رسول کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے  یہ اسی صورت میں درست ہو سکتا ہے جب فاطمہ علیہا السلام عصمت کی منزلت پر ہو۔اور احتمال گناہ و خطا ممکن نہ ہو۔ حضرت فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلالت کرنے  والی احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا: فاطمہ علیہا السلام کو اس لئے فاطمہ نام رکھا گیا ہے کہ کوئی بدی اور شر ان کے وجود مبارک میں امکان پذیر نہیں ہے۔

حضرت زہرا علیہا السلام کی عصمت پر رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی گواہی
 رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی بہت ساری احادیث جسے اہل سنت اور شیعہ دونوں نے نقل کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے  فاطمہ علیہا السلامکو اپنا ٹکڑا کہا اور فرمایا: جو فاطمہ علیہا السلام کو دوست رکھتا ہے اس نے مجھے دوست رکھا  اس کا دشمن، میرا  اور خدا کا دشمن ہے۔   
ایک اور حدیث میں فرمایا: فاطمہ علیہا السلام میرا ٹکڑا ہے، جو اسے تکلیف دے، اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے اس کو ناراض کیا  اس نے مجھے اور خدا کو ناراض کیا۔
خلاصہ کچھ احادیث میں  جو اہل سنت کی معتبر کتابوں میں پڑھنے کو ملتے  ہیں کہ خدا کی خوشی اور ناراضگی  کا معیار فاطمہ علیہا السلام ہے۔ اس کے علاوہ  شیعہ اور سنی کی احادیث کی کتابوں میں  دسیوں احادیث میں یہی مفہوم اور معنی موجود ہے ہم نے 26 ویں فصل میں ( حضرت زہراعلیہا السلام کی دشمنوں کی عاقبت) کچھ احادیث  کو منابع کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
 وہ احادیث جو حضرت زہرا علیہا السلام کے معصومہ   ہونے پر دلالت کرتی ہیں یہ کہ اگر فاطمہ علیہا السلام معصوم نہ ہو تو کیسے  پیغمبر خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے بغیر کسی شرط اور قید کے فاطمہ علیہا السلام کی خوشنودی کو خدا کی خوشنودی اور فاطمہ علیہا السلام کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی قرار دیا؟ کیا غیر معصوم لوگوں کی خوشی اور ناراضگی کو خدا کی خوشی اور ناراضگی( کا معیار)  قرار دیا جا سکتا ہے؟
 ابن ابی الحدید اس اعتراف  کے بعد کہ آیہ تطہیر فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے، لکھتا ہے:  
قوله عليه السلام: فاطمة بضعة منى، من آذاها فقد آذانى، و من آذانى فقد آذى اللَّه عز و جل يدل على عصمتها، لانها، لوكانت ممن تقارف الذنوب لم يكن من يوذيها موذيا له على كل حال... (18)
فاطمہ علیہا السلام کے بارے میں نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: جس نے اسے (فاطمہ علیہا السلام ) کو دکھ دیا اس نے مجھے دکھ دیا اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی، یہ فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلیل ہے، کیوں کہ اگر فاطمہ علیہا السلام معصوم نہ ہوتی تو فاطمہ علیہا السلام کا دکھ ہر حال میں پیغمبراسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کا دکھ حساب نہ ہوتا۔
بس نتیجہ یہ ہوا کہ نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم  کے فرامین  فاطمہ علیہا السلام  کی عصمت پر واضح  دلیل ہیں جسے شیعہ اور اہل سنت کے دانشوربھی مانتے ہیں  مسلمان شعراء  بھی کلام  خدا اور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے نظم میں لے آئے ہیں:
وان مريم احصنت فرجها        جاءت بعيسى كبدر الدجى
فقد احصنت فاطم  بعدها      و جاءت بسبطى نبى الهدى (19)
حضرت مریم علیہا السلام اپنی عصمت اور پاکدامنی کے ساتھ حضرت عیسی علیہ السلام کو لے آئی جو سورج کی طرح چمکتا اور منور رہے۔  اور حضرت زہراعلیہا السلام نے بھی عصمت اور پاکی کے ساتھ زندگی کی اور دو  انوار کو جو نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں نبی کے حوالہ کیا۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلامسے پوچھا گیا کہ فاطمہ علیہا السلام کو کس نے غسل دیا؟
حضرت نے  فاطمہ علیہا السلام  کی عصمت کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا:
غسلها اميرالمؤمنين لانها كانت صديقة، و لم يكن ليغسلها الا صديق(20)
حضرت علی علیہ السلام نے فاطمہ علیہا السلام کو غسل دیا، کیونکہ  فاطمہ علیہا السلام معصوم تھی اور معصوم کو معصوم کے علاوہ کوئی اور غسل نہیں دے سکتا۔ جیسے ہی سائل نے تعجب کیا تو امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں بھی اسی طرح ہے کہ اس کو حضرت عیسی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور نے غسل نہیں دیا ہے۔ ہم اس فصل کے آخر میں تمام باتوں، احادیث اہل بیت، آیہ تطہیر، امیر المؤمنین علیہ السلام کی دلائل اور اہل سنت کے بزرگ دانشمندوں کے اعتراف کی روشنی میں یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ فاطمہ علیہا السلام  دوسرے تمام معصومین کی طرح معصوم تھی۔ اور وہ رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے علاوہ تمام پیغمبروں اور ائمہ  سے افضل ہیں۔
-----------------
منابع:
(1 و2) احزاب/ 33.
(3) ۔احتجاجات طبرسى، چاپ نجف، ج 1، ص 122- 123
(4) احزاب/ 33.
(5) نورالثقلين، ج 4، ص 270
(6) لولاك كما خلقت الافلاك و لو لا على لما خلقتك و لولا فاطمه لما خلقتكما. (عوالم، ج 11 ص 25 و 26).
(7)حضرت کہتے ہی:رسول اکرم ہمارےگھر تشریف لائے میں سو رہا تھا رسول اکرم اپنی بیٹی فاطمہ سے گفتگو کے بعد فرمایا:اے بیٹی میں اور تم حسن  اور حسین اور یہ علی ایک جگہ اور ایک ہی مقام پر ہونگے۔ (فرائد السمطين، ج 2، ص 28 ش 367)
(8) بحار، ج 26، ص 316، ح 79: انا سيد الاولين و الاخرين و انت يا على! سيدالخلائق بعدى، اولنا كاخرنا و آخرنا كاولنا.
(9) بحار 26، ص 272 و، ح 14: الحسن و الحسين خير اهل‏الارض بعدى و بعد ابيها و امهما افضل نسا اهل‏الارض.
 (10) بحارالانوار، ج 26، ص 199، ح 11، عن الصادق (ع): ان اللَّه فضل انلى العزم من الرسل بالعلم على الانبيا و ورثنا علمهم و فضلنا عليهم فى فضلهم...
(11) اصول كافى، ج 1، ص 437، ح 4: ما من نبى جا قط الا بمعرفه حقنا و تفضيلنا على من سوانا.
(12) عوالم، ج 11، ص 99.
 (13) بحار، ج 43، ص 78، ح 65.
(14) احزاب 33
(15)ـ كتاب الكلمة الغراء فى تفضيل الزهراء تأليف سيد عبدالحسين شرف‏الدين ص 212.
(16)ـ قال رسول‏اللَّه صلّى اللَّه عليه و آله: يا فاطمة ان اللَّه يغضب لغضبك و يرضى لرضاك- ينابيع المودة ص 203 مجمع الزوائد ج 9 ص 203.
(17)ـ قال رسول‏اللَّه: فاطمة بعضة مني فمن اغضبها اغضبنى- صحيح بخارى ج 2 ص 302.
(18)ـ كشف‏الغمه ج 2 ص 89.
(19)ـ شرح نهج‏البلاغة، ج 16، ص 273.
(20)ـ بحارالانوار، ج 43، ص 50.
(21)ـ بحارالانوار، ج 43، ص 184- عوالم، ج 11، ص 260- جلاءالعيون، ج 1، ص 2

مؤلف: ------ مترجم : احسان دانش ذرائع: پیشکش امام حسین فاونڈیشن

 

مہر خبررساں ایجنسی نے سانا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ  اسرائیل نے شام کی بندرگاہ لاذقیہ پر کئی میزائلوں سے حملہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے رواں ماہ دوسری بار شام کی مرکزی بندرگاہ لاذقیہ پر کئی میزائل داغے ہیں جس کے نتیجے میں بندرگاہ میں رکھے کنٹینرز تباہ جب کہ اسپتال، رہائشی عمارتوں اور دکانوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

حملے کے وقت رہائشی عمارتوں میں شہری اور اسپتال میں مریض موجود تھے تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ چند افراد کے معمولی زخمی ہونے کی اطلاع ہے جنھیں طبی امداد کے بعد گھر جانے کی اجازت دیدی گئی۔

3 جنوری 2020 کی صبح، عراق کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اعلان کیا کہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر سردار "قاسم سلیمانی" اور "ابومهدی المهندس" بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب امریکہ کے دہشت گردانا حملہ میں شہید ہوگے ہے۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر کی شہادت کی ابتدائی خبر شائع ہونے کے ایک گھنٹے بعد امریکی محکمہ دفاع نے ایک بیان جاری کیا جس میں باضابطہ طور پر سردار سلیمانی اور ابومهدی المهندس کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ ان کا قتل اس کا حکم اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔

سردار سلیمانی کی شہادت کی خبر نے تیزی سے دنیا کے عوامی ذہنوں کو ہلا کر رکھ دیا اور یہ افسوسناک خبر چند ہی گھنٹوں میں عالمی میڈیا کی شہ سرخی بن گئی، جس سے بین الاقوامی اور عالمی میڈیا کے سینئر عہدیداروں میں ردعمل کی لہر دوڑ گئی۔

خطے اور دنیا میں شہید سلیمانی کی حاکمیت اتنی زیادہ تھی کہ ان کی شہادت کی خبر سے دنیا میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی اور میڈیا نے اس عالمی تشویش کی عکاسی کی۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی کوریج کرنے میں زیادہ تر عالمی میڈیا کا مشترک نکتہ یہ تھا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد ایران کی دوسری طاقتور ترین شخصیت کے قتل نے خطے اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ کو اس دہشت گردانہ کارروائی کے جواب کا انتظار کرنا چاہیے۔



اس اہم خبر کے جواب میں امریکی نیٹ ورک "سیانان" نے اطلاع دی ہے کہ سلیمانی کی شہادت نے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

امریکی نیوز نیٹ ورک نے جنرل سلیمانی کی شہادت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے معمول کے پروگرام میں خلل ڈالا اور پاسداران انقلاب اسلامی کے قدس کمانڈر کی شہادت کا اعلان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ قاسم سلیمانی کی شہادت کے خطے پر بے شمار اثرات ہیں۔

"قاسم سلیمانی کے قتل کا خطے پر گہرا اثر ہے اور اس نے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے،" بغداد سے سیانان کے نمائندے نے اپنے چہرے پر پریشانی اور پریشانی کے ساتھ اعتراف کیا۔

امریکی فوج کی ریٹائرڈ جنرل الزبتھ کوبز نے نیویارک ٹائمز کے لیے ایک مضمون میں سردار سلیمانی کے قتل کو "محض حماقت" قرار دیا اور کہا کہ قدس فورس کے کمانڈر کو مشتعل کرنے میں امریکی دہشت گردانہ اقدام اشتعال انگیز اور انتہائی مضحکہ خیز تھا۔

ریٹائرڈ امریکی جنرل نے جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی خیالی وجہ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کمانڈر قدس کی شہادت سے امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اس نے امریکہ کی غیر منصوبہ بندی کا مظاہرہ کیا اور ظاہر کیا کہ واشنگٹن کے پاس اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی خاص حکمت عملی نہیں ہے۔ مغربی ایشیا میں ..

لاس اینجلس ٹائمز رپوٹ نے لکھ کہ شہید سلیمانی کا قتل ٹرمپ کا سب سے بڑی جوا تھا کہ ، اور واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ امریکہ کی دہشت گردانہ کارروائی شہید سلیمانی کے لئے ایک طویل وقت کے لئے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی. ریڈیو " آرٹ ایل جی " فرانسیسی اعتراف کرتا ہے کہ اس دن کو تبدیلی کے لمحے کے طور پر یاد رکھیں گے۔

برطانوی اخبار " گارڈین " نے سردار سلیمانی کی شہادت کی خبر کو کور کرتے ہوئے ان کا ذکر دنیا کی ایک معروف شخصیت کے طور پر کیا، جس کی وجہ ان کی ذہانت تھی۔

اخبار نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر جنگی مسائل میں اپنی ذہانت کی وجہ سے دنیا کی مشہور ترین شخصیات میں سے ایک تھے جن کی طاقت اور اثر و رسوخ نے ہمیشہ متحدہ ریاستیں میں خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا۔

برطانوی اخبار نے جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد "ایران امریکہ بحران" کے عنوان سے ایک خصوصی صفحہ بنایا اور لکھا کہ مغربی ایشیا میں ایران امریکہ روڈ میپ اب سابقہ ​​مدار میں نہیں رہے گا اور اس کے نتیجے میں پورا خطہ سنگین تبدیلی سے گزرے گا۔

کینیڈین اخبار " گلوب اینڈ میل " نے جس نے سردار سلیمانی کو ایک باصلاحیت قرار دیا تھا، نے ان کی شہادت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ سردار سلیمانی چار دہائیوں تک دشمن کے دباؤ کے خلاف قومی مزاحمت میں ایرانی عوام کی مقبول شخصیت تھے۔ ان کی شہادت سے ایران اپنے سب سے بڑے حامی اور جنگی ذہین سے محروم ہو گیا۔

امریکی اشاعت " اٹلانٹک " نے بھی جنرل سلیمانی کی فوجی برتری کا اعتراف کیا اور بتایا کہ قدس فورس کا کمانڈر مارشل آرٹس کا مجموعہ تھا۔

ایک اہم مسئلہ جسے مغربی میڈیا کی اکثریت نے کور کیا وہ سردار قاسم سلیمانی کی شہادت پر امریکی دہشت گردانہ حملے کا نتیجہ تھا۔

اٹلانٹک اخبار نے اپنی رپورٹ کے ایک حصے میں سردار سلیمانی کی شہادت کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سلیمانی نے ایران اور اس کے عرب شراکت داروں کے درمیان اتحاد بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

امریکی نیٹ ورک فاکس نیوز نے قاسم سلیمانی کی شہادت کے افسوسناک نتائج کے حوالے سے خبر دی ہے کہ مغربی ایشیائی خطے میں امریکی دہشت گرد قوتیں الرٹ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

المیادین نیٹ ورک کے ڈائریکٹر غسان بن جدو نے کہا کہ امریکیوں کو جرم کی قیمت ادا کرنی چاہیے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے ، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس قتل کا ردعمل یا تو مکمل جنگ ہو گا یا پھر امریکی افواج کے ساتھ بتدریج جنگ۔

روس کی انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے بھی ایک روسی تجزیہ کار کے حوالے سے امریکی دہشت گردانہ حملے کے نتائج کی وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سردار سلیمانی کی شہادت کا جوابی ردعمل خطے میں ایران نواز قوتوں کی شرکت کے ساتھ کئی مراحل میں ہو گا۔

روسی نیٹ ورک " رشاتودی " نے ایک مختصر رپورٹ میں ایرانی حکومت اور عوام کے ساتھ روسی حکومت کی ہمدردی کا ذکر کرتے ہوئے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ امریکہ کو ایرانی اقدامات کی لہر کا انتظار کرنا چاہیے۔

ترک میڈیا نے بھی دنیا بھر کے دیگر ذرائع ابلاغ کی طرح سردار سلیمانی کی شہادت کی خبر کو کور کیا اور ینی ‌صفق اخبار نے امریکہ کے لیے اس دہشت گردانہ کارروائی کے نتائج کی خبر دی ، جس کی اب تمام نظریں عراق میں امریکی اڈوں پر ہیں۔

ترک اخبار "الصباح" نے بھی سردار سلیمانی کو خطے کی بااثر شخصیات میں سے ایک قرار دیا اور لکھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے سردار سلیمانی کا ذکر زندہ شہید کے طور پر کیا ہے۔

دیگر صہیونی میڈیا نے بھی سردار سلیمانی کے قتل پر ایران کے ردعمل کے خوف سے دنیا کے ممالک میں صہیونی سفارت خانوں میں حفاظتی اقدامات میں اضافے کی خبر دی ۔

جنرل سلیمانی کی شہادت کی خبر دنیا میں اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ اس وقت کے صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو جو یونان کے دورے پر گئے تھے، دورہ ترک کر کے مقبوضہ فلسطین واپس چلے گئے۔

صہیونی اخبار " یروشلمپوسٹ " نے بھی جنرل سلیمانی کی شہادت کی خبر کے ردعمل میں لکھا ہے کہ کمانڈر قدس کی شہادت کے بعد امریکہ اور صیہونی حکومت ایران کے ردعمل کا انتظار کر رہے ہیں۔

امریکہ سے منسلک ویب سائٹ " ہل " نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ سردار سلیمانی کی شہادت خطے میں مزید کشیدگی کا باعث بنے گی۔

سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کے سانحہ پر عالمی میڈیا کا ردعمل صرف مذکورہ میڈیا تک محدود نہیں ہے اور دنیا بھر کے بیشتر میڈیا اداروں نے اس خبر کی عکسبندی کی اور اس کے نتائج سے خبردار کیا۔




سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد پورے ایران اور خطے کے بعض ممالک میں بڑے پیمانے پر جلوس نکالے گئے، ٹرمپ کے اس مذموم مفروضے کے برعکس کہ سردار سلیمانی کی شہادت ایرانی عوام کے لیے خوشی کا باعث بنے گی، ایران بھر میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ سلیمانی کا جنازہ ٹرمپ کے منہ پر طمانچہ تھا۔

جیسا کہ ایران نے بدلہ لینے کا وعدہ کیا تھا، 9 جنوری 2017 کی صبح سویرے 13 بیلسٹک میزائلوں کے ساتھ، اس نے عراق میں امریکی دہشت گرد اڈے "عین الاسد" کو نشانہ بنایا، جس میں امریکی فوجیوں کو بھاری نقصان پہنچا اور ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 



سردار سلیمانی کی شہادت پر امریکی دہشت گردانہ حملے کو دو سال ہوچکے ہیں لیکن قدس فورس کے کمانڈر کو نہ صرف فراموش کیا گیا ہے بلکہ ان کا راستہ جاری ہے اور امریکہ ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے اپنے مقصد کو آگے بڑھانے میں ناکام رہا ہے۔ 
 
تقريب خبررسان ايجنسی l
3 جنوری 2020 کی صبح، عراق کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اعلان کیا کہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر سردار "قاسم سلیمانی" اور "ابومهدی المهندس" بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب امریکہ کے دہشت گردانا حملہ میں شہید ہوگے ہے۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر کی شہادت کی ابتدائی خبر شائع ہونے کے ایک گھنٹے بعد امریکی محکمہ دفاع نے ایک بیان جاری کیا جس میں باضابطہ طور پر سردار سلیمانی اور ابومهدی المهندس کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ ان کا قتل اس کا حکم اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔

سردار سلیمانی کی شہادت کی خبر نے تیزی سے دنیا کے عوامی ذہنوں کو ہلا کر رکھ دیا اور یہ افسوسناک خبر چند ہی گھنٹوں میں عالمی میڈیا کی شہ سرخی بن گئی، جس سے بین الاقوامی اور عالمی میڈیا کے سینئر عہدیداروں میں ردعمل کی لہر دوڑ گئی۔

خطے اور دنیا میں شہید سلیمانی کی حاکمیت اتنی زیادہ تھی کہ ان کی شہادت کی خبر سے دنیا میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی اور میڈیا نے اس عالمی تشویش کی عکاسی کی۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی کوریج کرنے میں زیادہ تر عالمی میڈیا کا مشترک نکتہ یہ تھا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد ایران کی دوسری طاقتور ترین شخصیت کے قتل نے خطے اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ کو اس دہشت گردانہ کارروائی کے جواب کا انتظار کرنا چاہیے۔



اس اہم خبر کے جواب میں امریکی نیٹ ورک "سیانان" نے اطلاع دی ہے کہ سلیمانی کی شہادت نے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

امریکی نیوز نیٹ ورک نے جنرل سلیمانی کی شہادت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے معمول کے پروگرام میں خلل ڈالا اور پاسداران انقلاب اسلامی کے قدس کمانڈر کی شہادت کا اعلان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ قاسم سلیمانی کی شہادت کے خطے پر بے شمار اثرات ہیں۔

"قاسم سلیمانی کے قتل کا خطے پر گہرا اثر ہے اور اس نے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے،" بغداد سے سیانان کے نمائندے نے اپنے چہرے پر پریشانی اور پریشانی کے ساتھ اعتراف کیا۔

امریکی فوج کی ریٹائرڈ جنرل الزبتھ کوبز نے نیویارک ٹائمز کے لیے ایک مضمون میں سردار سلیمانی کے قتل کو "محض حماقت" قرار دیا اور کہا کہ قدس فورس کے کمانڈر کو مشتعل کرنے میں امریکی دہشت گردانہ اقدام اشتعال انگیز اور انتہائی مضحکہ خیز تھا۔

ریٹائرڈ امریکی جنرل نے جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی خیالی وجہ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کمانڈر قدس کی شہادت سے امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اس نے امریکہ کی غیر منصوبہ بندی کا مظاہرہ کیا اور ظاہر کیا کہ واشنگٹن کے پاس اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی خاص حکمت عملی نہیں ہے۔ مغربی ایشیا میں ..

لاس اینجلس ٹائمز رپوٹ نے لکھ کہ شہید سلیمانی کا قتل ٹرمپ کا سب سے بڑی جوا تھا کہ ، اور واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ امریکہ کی دہشت گردانہ کارروائی شہید سلیمانی کے لئے ایک طویل وقت کے لئے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی. ریڈیو " آرٹ ایل جی " فرانسیسی اعتراف کرتا ہے کہ اس دن کو تبدیلی کے لمحے کے طور پر یاد رکھیں گے۔

برطانوی اخبار " گارڈین " نے سردار سلیمانی کی شہادت کی خبر کو کور کرتے ہوئے ان کا ذکر دنیا کی ایک معروف شخصیت کے طور پر کیا، جس کی وجہ ان کی ذہانت تھی۔

اخبار نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر جنگی مسائل میں اپنی ذہانت کی وجہ سے دنیا کی مشہور ترین شخصیات میں سے ایک تھے جن کی طاقت اور اثر و رسوخ نے ہمیشہ متحدہ ریاستیں میں خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا۔

برطانوی اخبار نے جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد "ایران امریکہ بحران" کے عنوان سے ایک خصوصی صفحہ بنایا اور لکھا کہ مغربی ایشیا میں ایران امریکہ روڈ میپ اب سابقہ ​​مدار میں نہیں رہے گا اور اس کے نتیجے میں پورا خطہ سنگین تبدیلی سے گزرے گا۔

کینیڈین اخبار " گلوب اینڈ میل " نے جس نے سردار سلیمانی کو ایک باصلاحیت قرار دیا تھا، نے ان کی شہادت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ سردار سلیمانی چار دہائیوں تک دشمن کے دباؤ کے خلاف قومی مزاحمت میں ایرانی عوام کی مقبول شخصیت تھے۔ ان کی شہادت سے ایران اپنے سب سے بڑے حامی اور جنگی ذہین سے محروم ہو گیا۔

امریکی اشاعت " اٹلانٹک " نے بھی جنرل سلیمانی کی فوجی برتری کا اعتراف کیا اور بتایا کہ قدس فورس کا کمانڈر مارشل آرٹس کا مجموعہ تھا۔

ایک اہم مسئلہ جسے مغربی میڈیا کی اکثریت نے کور کیا وہ سردار قاسم سلیمانی کی شہادت پر امریکی دہشت گردانہ حملے کا نتیجہ تھا۔

اٹلانٹک اخبار نے اپنی رپورٹ کے ایک حصے میں سردار سلیمانی کی شہادت کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سلیمانی نے ایران اور اس کے عرب شراکت داروں کے درمیان اتحاد بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

امریکی نیٹ ورک فاکس نیوز نے قاسم سلیمانی کی شہادت کے افسوسناک نتائج کے حوالے سے خبر دی ہے کہ مغربی ایشیائی خطے میں امریکی دہشت گرد قوتیں الرٹ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

المیادین نیٹ ورک کے ڈائریکٹر غسان بن جدو نے کہا کہ امریکیوں کو جرم کی قیمت ادا کرنی چاہیے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے ، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس قتل کا ردعمل یا تو مکمل جنگ ہو گا یا پھر امریکی افواج کے ساتھ بتدریج جنگ۔

روس کی انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے بھی ایک روسی تجزیہ کار کے حوالے سے امریکی دہشت گردانہ حملے کے نتائج کی وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سردار سلیمانی کی شہادت کا جوابی ردعمل خطے میں ایران نواز قوتوں کی شرکت کے ساتھ کئی مراحل میں ہو گا۔

روسی نیٹ ورک " رشاتودی " نے ایک مختصر رپورٹ میں ایرانی حکومت اور عوام کے ساتھ روسی حکومت کی ہمدردی کا ذکر کرتے ہوئے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ امریکہ کو ایرانی اقدامات کی لہر کا انتظار کرنا چاہیے۔

ترک میڈیا نے بھی دنیا بھر کے دیگر ذرائع ابلاغ کی طرح سردار سلیمانی کی شہادت کی خبر کو کور کیا اور ینی ‌صفق اخبار نے امریکہ کے لیے اس دہشت گردانہ کارروائی کے نتائج کی خبر دی ، جس کی اب تمام نظریں عراق میں امریکی اڈوں پر ہیں۔

ترک اخبار "الصباح" نے بھی سردار سلیمانی کو خطے کی بااثر شخصیات میں سے ایک قرار دیا اور لکھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے سردار سلیمانی کا ذکر زندہ شہید کے طور پر کیا ہے۔

دیگر صہیونی میڈیا نے بھی سردار سلیمانی کے قتل پر ایران کے ردعمل کے خوف سے دنیا کے ممالک میں صہیونی سفارت خانوں میں حفاظتی اقدامات میں اضافے کی خبر دی ۔

جنرل سلیمانی کی شہادت کی خبر دنیا میں اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ اس وقت کے صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو جو یونان کے دورے پر گئے تھے، دورہ ترک کر کے مقبوضہ فلسطین واپس چلے گئے۔

صہیونی اخبار " یروشلمپوسٹ " نے بھی جنرل سلیمانی کی شہادت کی خبر کے ردعمل میں لکھا ہے کہ کمانڈر قدس کی شہادت کے بعد امریکہ اور صیہونی حکومت ایران کے ردعمل کا انتظار کر رہے ہیں۔

امریکہ سے منسلک ویب سائٹ " ہل " نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ سردار سلیمانی کی شہادت خطے میں مزید کشیدگی کا باعث بنے گی۔

سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کے سانحہ پر عالمی میڈیا کا ردعمل صرف مذکورہ میڈیا تک محدود نہیں ہے اور دنیا بھر کے بیشتر میڈیا اداروں نے اس خبر کی عکسبندی کی اور اس کے نتائج سے خبردار کیا۔




سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد پورے ایران اور خطے کے بعض ممالک میں بڑے پیمانے پر جلوس نکالے گئے، ٹرمپ کے اس مذموم مفروضے کے برعکس کہ سردار سلیمانی کی شہادت ایرانی عوام کے لیے خوشی کا باعث بنے گی، ایران بھر میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ سلیمانی کا جنازہ ٹرمپ کے منہ پر طمانچہ تھا۔

جیسا کہ ایران نے بدلہ لینے کا وعدہ کیا تھا، 9 جنوری 2017 کی صبح سویرے 13 بیلسٹک میزائلوں کے ساتھ، اس نے عراق میں امریکی دہشت گرد اڈے "عین الاسد" کو نشانہ بنایا، جس میں امریکی فوجیوں کو بھاری نقصان پہنچا اور ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 



سردار سلیمانی کی شہادت پر امریکی دہشت گردانہ حملے کو دو سال ہوچکے ہیں لیکن قدس فورس کے کمانڈر کو نہ صرف فراموش کیا گیا ہے بلکہ ان کا راستہ جاری ہے اور امریکہ ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے اپنے مقصد کو آگے بڑھانے میں ناکام رہا ہے۔ 
 
تقريب خبررسان ايجنسی l

 عسکری امور میں مہارت رکھنے والی ویب سائٹ   StrategyPage نے بین الاقوامی سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سعودی حکومت نے فضائی دفاعی نظام کی خریداری کے لیے صیہونی حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات کیے ہیں ۔

امریکی ویب سائٹ کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اسرائیلی نظام خریدنے کی شدید خواہش ظاہر کی ہے، خاص طور پر ڈرونز سے لڑنے کے لیے اور ریاض کا وفد سعودی فوج کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے ’فالکن داؤد‘ سسٹم خریدنے کی کوشش کر رہا ہے۔ .

سعودی حکومت سستا نظام خریدنے کی کوشش کر رہی ہے، اس لیے اب حوثی میزائلوں کو نشانہ بنانا سعودی فوج کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے، اور ہر پیٹریاٹ سسٹم کی قیمت ایک سے چھ ملین ڈالر کے درمیان ہے۔ سعودی فوج بہت سے کروز میزائلوں کو روکنے کے لیے جیٹ لڑاکا طیاروں سے داغے گئے AMRAAM فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کا بھی استعمال کرتی ہے۔ ان میزائلوں کی قیمت تقریباً نصف ملین ڈالر ہے جو کہ یمنی کروز میزائلوں کی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔

ریاض نے آخری بار 2020 میں امریکہ سے 200 PAC 3 (Patriot) میزائل خریدے تھے تاکہ 2016 میں خریدے گئے میزائلوں کو تبدیل کیا جا سکے۔ یہ 200 طیارے 150 یمنی بیلسٹک میزائلوں کو نشانہ بنانے اور تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور بعض اوقات یمنی فوج کے بیلسٹک میزائل کی تباہی کو یقینی بنانے کے لیے دو پیٹریاٹ میزائل فائر کیے جاتے ہیں ۔

تاہم بعض صورتوں میں یہ نظام کام نہیں کرسکا یا یمنی میزائل شہروں پر گر کر تباہ ہوگئے اور تباہ شدہ میزائل کی باقیات گرنے سے مالی اور انسانی جانی نقصان ہوا۔

رپورٹ کے مطابق سعودی فوج کے پاس اس وقت 24 پیٹریاٹ سسٹم ہیں جو کہ یمنی فوج اور انصاراللہ  کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

لہٰذا، سعودی وزارت دفاع، ولی عہد کی سفارش پر، خاموشی سے اسرائیلی حکومت سے "فالکن ڈیوڈ" سسٹم خریدنے کی کوشش کرتی ہے۔ نیشنل انٹرسٹ ویب سائٹ نے حال ہی میں رپورٹ کیا ہے کہ سعودی فضائیہ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود طیارہ شکن شعبے میں اب بھی غیر موثر ہے اور "حوثیوں" کے بار بار حملوں نے سعودی فوج کے مہنگے طیارہ شکن نظام کی کمزوری کو بے نقاب کر دیا ہے۔

ویب سائٹ نے مشورہ دیا کہ سعودی فوج کو مختلف قسم کے طیارہ شکن نظام استعمال کرنے کے بجائے یمنی حملوں کو روکنے پر توجہ دینی چاہیے۔ ستمبر 2019 میں مشرقی سعودی عرب میں آرامکو کے تیل کی تنصیب پر ڈرون اور میزائل حملے، جس نے ملک کی نصف تیل کی پیداوار کو روک دیا۔

اس حوالے سے بلومبرگ نیوز ایجنسی نے بھی لکھا کہ سعودی عرب نے ماسکو سے  S-400 سسٹم خریدنے کے لیے بات چیت کی ہے جیسا کہ ترکی نے خریدا ہے۔

امریکن وال اسٹریٹ جرنل نے بھی 7 دسمبر کو امریکی اور سعودی حکام کے حوالے سے خبر دی تھی کہ ریاض کے پاس سعودی سرزمین پر ہفتہ وار یمنی ڈرون اور میزائل حملوں کے لیے گولہ بارود ختم ہو رہا ہے اور یہ کہ ریاض ہنگامی حالت میں ہے۔ امریکہ اور خلیج فارس اور یورپی ممالک دوبارہ سازوسامان کے لیےبات چیت جارہی ہے۔

یمنی فوج نے ہمیشہ تاکید کی ہے کہ جب تک سعودی اتحاد ملک کے خلاف اپنی جارحیت جاری رکھے گا وہ سعودی سرزمین کے اندر اور حساس فوجی ٹھکانوں کے خلاف اپنی جارحانہ کارروائیاں جاری رکھے گی۔

سعودی عرب نے، امریکہ کی حمایت یافتہ عرب اتحاد کی سربراہی میں، یمن کے خلاف فوجی جارحیت کا آغاز کیا اور 26 اپریل 2015 کو اس کی زمینی، فضائی اور سمندری ناکہ بندی کر دی، اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ مستعفی یمنی صدر کو واپس لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

فوجی جارحیت سعودی اتحاد کے کسی بھی اہداف کو حاصل نہیں کرسکی اور صرف دسیوں ہزار یمنیوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے، لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی، ملک کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور قحط اور وبائی امراض کا پھیلاؤ شامل ہے۔

سید حسین تقی زادہ نے "اتحاد کی اہمیت کا جائزہ" وبینار  میں میزبانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی وحدت دنیا کے تمام اسلامی ممالک کے لئے نہایت ضروری ہے خاص طور پر پاکستان اور ایران کے لئے یہ موضوع نہایت حساس ہے۔

اس سلسلے میں انہوں نے مزید کہا: "آج بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم دشمنوں کی سازشوں کے خلاف اپنی اسلامی ہم آہنگی کو برقرار رکھیں اور دشمن کو مسلمانوں میں گھسنے کی اجازت نہ دیں۔"

ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ وحدت اور انسجام کی فجا کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ تمام علمائے کرام مجھ سے زیادہ با خبر ہیں کہ ہمارے اور اھل سنت کے درمیان اسی فیصد مذہبی اور ثقافتی مشترکات موجود ہیں۔  لیکن دشمن بیس فیصد اختلافات کو فروغ دیتا ہے۔ 

 انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے آخر میں کہا کہ ہمیں ہمیشہ دشمن کی سازشوں سے چوکنا رہنا چاہیے اور انہیں اختلاف پیدا کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے، مزید کہا: "ہمیں امید ہے کہ کورونا وائرس جلد از جلد دنیا سے ختم ہو جائے گا تاکہ ہم اسلامی مسائل پر قابو پا سکیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران سے تشریف لائے ہوئے مہمان کوئٹہ آنا چاہ رہے تھے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر یہ سفر انجام نہیں پا سکا۔ لیکن اسلام آباد سے کوئٹہ کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں ہے کیونکہ ہمارے دل جڑے ہوئے ہیں۔ 
حجت الاسلام محمد جمعہ اسدی مدیر جامعہ امام  صادق ع کوئٹہ نے "اتحاد امت کی اہمیت کا جائزہ" ویبینار میں سب سے پہلے ایران سے تشریف لائے ہوئے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور فتمایا کہ میں امام خمینی رح کے حکم پر چالیس سال پہلے ایران سے یہاں آیا اور میں نے مسلمانوں کے درمیان احدت اور ہماہنگی کے لئے بہت زیادہ کام کیا ہے۔

اگرچہ دشمن شیعہ اور اھل سنت کے درمیان اختلافات ہپیدا کرنے کی بہت زیادہ کوششیں کرتا ہے لیکن الحمدللہ ہمارے باہمی ہماہنگی سے دشمن کی سازشیں ہمیشہ ناکام ہوتی ہیں۔

گذشتہ چند سالوں کے درمیان یہاں شیعوں کی بڑی تعداد کو شہید کیا گیا لیکن ہم نے وحدت اور ہماہنگی کی کوششوں سے ہاتھ نہیں اٹھایا بلکہ اپنی اس کوشش کو جاری رکھا۔ 

حجۃ الاسلام اسدی نے کہا: عالم اسلام کے دشمن ہمیشہ اپنی سازشوں اور مسلمانوں کے قتل عام سے عالم اسلام کو تباہ کرنے کے درپے رہتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان کس طرح اسلامی مذاہب کی سربلندی کے لیے کھڑے ہیں اور اس الہی آئیڈیل کا خون کے آخری قطرہ تک دفاع کررہے ہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا: "ہم سب جانتے ہیں کہ آج غیر ملکی ایجنٹ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن علمائے کرام نے اپنی ہوشیاری سے ان سازشوں کو ناکام بنا دیا اور دشمنوں کو ان کے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی۔

انہوں نے بیان کیا: رہبر معظم سید علی خامنہ ای  ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے نفاذ پر تاکید کرتے ہیں اور ان کی ہدایات کے مطابق عمل کرنا ہم پر واجب ہے۔