سلیمانی

سلیمانی

Wednesday, 16 February 2022 20:08

حضرت علی (ع) ایک سمندر ہیں

وہ مسجد میں شہید ہوئے، کیونکہ میدان میں ان کا مقابلہ ممکن نہیں تھا۔ مضمون شروع کرنے سے پہلے اپنی پستی اور ذلت کا ادراک رکھتا ہوں اور پھر صاحب بلاغت کی عطاء کردہ مدحت کی زبان سے ان کی شجاعت کا تذکرہ کرنے جا رہا ہوں اور خدا سے مدد طلب کرتا ہوں کہ میں جلال علی بیان کر سکوں کہ وہ علی جو ہر میدان کا فاتح ہے، مگر اس نے اپنی فتح کا اعلان مسجد میں ضرب کھانے کے بعد کیا کہ: فزت ورب الكعبة "رب کعبہ کی قسم میں (علی) کامیاب ہوگیا۔" جو آج بھی سوچنے والوں کے لیے ایک سوال ہے کہ وہ علی جو ہر میدان میں فاتح ہے، وہ مسجد کے محراب عبادت میں ضرب کھا کر ہی کیوں کامیاب ہوا۔؟ ہاں وہ اتنا بہادر کہ اس کی ایک ضرب ثقلین کی عبادت سے افضل ہے اور وہ آج بھی اتنے جلال کا مالک ہے کہ جب کوئی بہادر بہادری دکھانے کی کوشش کرتا  ہے تو وہ در علی سے داد شجاعت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بے ساختہ زبان سے یاعلی مدد کا نعرہ لگاتا ہے۔

لیکن جس علی کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں، وہ فقط بہادر ہی نہیں بلکہ عالم اور باب العلم بھی ہے۔ جس کی دلیل دعویٰ سلونی ہے کہ قیامت تک کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ہر چیز کا علم رکھتا ہوں، تنہا علی کے کہ جنھوں نے فرمایا کہ: ’’مجھ سے جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو، مجھ سے سوال کرو، قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو، کیونکہ میرے پاس اولین و آخرین کا علم ہے۔‘‘ لیکن وہ فقط عالم ہی نہیں بلکہ حکمت کا سمندر بھی ہے، جس کے موتی آج بھی دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جس کا فرمانا ہے کہ حکمت مومن ہی کی گمشدہ چیز ہے، اسے حاصل کرو، اگرچہ منافق سے لینا پڑے اور فرماتے ہیں کہ دنیا میں عذاب خدا سے دو چیزیں باعث امان تھیں، ایک ان میں سے اٹھ گئی، مگر دوسری تمہارے پاس موجود ہے۔ لہٰذا اسے مضبوطی سے تھامے رہو۔ وہ امان جو اٹھالی گئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور وہ امان جو باقی ہے، وہ توبہ و استغفار ہے۔

خیر ہم فقط ایک حکیم کا تذکرہ ہی نہیں کر رہے بلکہ ایک متقی اور زاہد کا بھی تذکرہ کر رہے ہیں، جس کا فرمانا ہے کہ ’’خدا کی قسم اگر (حجاب قدس کے) پردے ہٹا دیئے جائیں تو بھی میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا۔" یوں تو علی علیہ السلام ایک ہی وقت میں مزدور بھی ہیں اور حاکم بھی اور مزدوری میں اتنے ہی ایماندار ہیں کہ کافر لوگ بھی ان کی ایمانداری میں سند دیتے ہیں اور حاکم ایسے ہیں کہ حکومت کو اپنے پیوند لگے جوتے سے بھی کم تر جانتے ہیں۔ اگر عدالت علی کی مثال لیں تو  فرماتے ہیں کہ ’’خدا کی قسم اگر مجھے سات اقلیم اس لئے دیئے جائیں کہ میں الله کی نافرمانی کرتے ہوئے چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا چھین لوں تو میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ اور فرماتے ہیں کہ ’’خدا کی قسم اگر میرے لئے ایک مسند بچھائی جائے، اس پر بیٹھ کر میں توریت والوں کو (ان کی) توریت سے، انجیل والوں کو (ان کی) انجیل سے، اہل زبور کو (ان کی) زبور سے اور قرآن والوں کو (ان کے) قرآن سے فیصلے سناؤں، اس طرح کہ ان کتابوں میں سے ہر ایک کتاب بول اٹھے گی کہ پروردگارا علی (ع) کا فیصلہ تیرا فیصلہ ہے، خدا کی قسم میں قرآن اور اس کی تاویل کو ہر مدعی علم سے زیادہ جانتا ہوں، قرآن مجید کی آیت کے متعلق میں تمہیں یوم قیامت تک خبر دے سکتا ہوں۔‘‘

مولا علی ہر ایک کے لئے ایک سمندر ہیں، جس سے جو کوئی جو کچھ نکالنا چاہے نکال سکتا ہے، کائنات میں ایسی مثل لانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں بہادر، عالم، متقی، زاہد، حکیم اور وہ سب کچھ ہو، جو اساطیری کردار کے حامل خواب و خیال کے ہیرو میں ہوتی ہیں، یقیناً وہ تمام چیزیں علی میں ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے آج بھی ہم علی کو پہچان نہیں پائے، ورنہ غیروں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ خوش نصیب ہے وہ قوم، جس میں علی جیسا عادل پیدا ہوا۔ حرف آخر آج بھی ہماری حالت حسنین اکبر کے اس شعر کی طرح ہے کہ 
ایسے ہم ساقی کوثر کی طرف دیکھتے ہیں
جس طرح پیاسے سمندر کی طرف دیکھتے ہیں
تحریر: مہر عدنان حیدر
 
 
 
Wednesday, 16 February 2022 20:03

13 رجب

آیات و روایات کی رو سے یہ بات روز روشن کی مانند عیاں ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین امام علی علیہ السلام ہیں۔ آنحضرت نے اپنی حیات طیبہ میں متعدد دفعہ آپ کی جانشینی کی طرف صریحاً نشاندہی فرمائی ہے۔ آپ کی ولایت پر آیات قرآنی اور معتبر احادیث بھی موجود ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں آیات ولایت کو۔
’’اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُولُهٗ وَالَّذِينَ اٰمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلٰوةَ وَيُؤتُونَ الزَّكٰوةَ وَهُم رَاكِعُونَ‘‘، "ایمان والو! بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔"(سورۃ المائدہ، آیت 55) جب ہم مذکورہ آیت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کے معنی ولایت اور واجب الاطاعت امام کے نہیں، دوست، ناصر اور یار و مددگار کے ہیں۔ علمائے اہل سنت کے درمیان قاضی عضد الدین، شریف جرجانی، تفتازانی اور قوشجی نے اس آیت کو امام علی علیہ السلام کے حق میں نازل ہونے کو تسلیم کیا ہے۔(نفخات الازھار فی خلاصۃ عبقات الانوار جلد، 20، صفحہ، 59۔63)

مذکورہ آیت میں چند نکات قابل غور ہیں:
(1) کلمہ "انما" حصر پر دلالت کرتا ہے، یعنی مسلمانوں پر ولایت و رہبری کا حق خدا، رسول اسلام اور بیان شدہ صفات کے حامل اہل ایمان کو ہے، کسی اور کو نہیں ہے۔
(2) اگر ہم یہاں ولی کے معنی ولایت و امامت کے علاوہ مانیں، دوست اور یار و مددگار کے تو پھر اسے صرف مذکورہ ہستیوں سے مخصوص کرنا مناسب نہیں۔ ہر مومن دوسرے مومن کا ناصر و مددگار ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے :’’اِنَّمَا المُؤمِنُونَ اِخوَةٌ۔‘‘
"مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں۔" (سورۃ الحجرات آیت، 10) اگر اللہ کی نگاہ میں نصرت اور دوستی کے معنی مقصود ہوتا تو صرف "الذین آمنوا" ہی کافی تھا۔ اس لیے کہ معاشرے میں سبھی مومن ایک دوسرے کے ناصر اور دوست ہیں، چاہے وہ حالت رکوع میں زکواۃ دیں یا نہ دیں۔

اس کے علاوہ اگر یہاں مسئلہ حل نہیں ہوتا تو پھر حدیث رسول ہمارے لیے محکم سہارا بنے گی۔ آپ نے متعدد مقامات پر حضرت علی علیہ السلام کو جانشین مقرر فرمایا ہے۔ واقعہ عشیرہ، حدیث منزلت اور واقعہ غدیر خم اس بات کے اہم شواہد ہیں۔ رسول اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "یاعلی انت ولی کل مومن من بعدی"، "اے علی! تم میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہو۔" اس حدیث میں "من بعدی" قابل غور ہے۔ یہ اشارہ ہے امام علی علیہ السلام کی جانشینی کی جانب۔ امت اسلام کی رہبری آپ ہی کے دست مبارک میں ہے۔ (راہنمایی حقیقت، جعفر سبحانی، صفحہ 289.290 مطبوعہ: نشر مشعر، 1385 شمسی، پہلی اشاعت)

کیا دوستی اور یار و مددگار ہونا کسی ایک زمانہ سے مخصوص ہے۔۔۔۔؟ پھر ایک سوال یہ بھی کہ آیت میں "الذین" کا استعمال ہوا ہے، جو جمع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر یہ ایک ہی شخص پر کیسے منطبق ہوگا اور آیت کس طرح صرف علی علیہ السلام پر صدق کرے گی۔۔۔۔؟ ادبیات عرب میں متعدد جگہوں پر جمع کے لفظ سے فرد واحد کو مراد لیا گیا ہے۔ آیت مباہلہ میں "نسائنا" جمع کا صیغہ ہے جبکہ اس کا مصداق صرف جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ہیں۔ "انفسنا" جمع کا صیغہ ہے اور اس سے مراد صرف دو شخصیات ہیں، رسول اسلامﷺ اور امام علی علیہ السلام۔ داستان احد میں نازل ہونے والی یہ آیت: ’’اَلَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَد جَمَعُوا لَـكُم فَاخشَوهُم فَزَادَهُم اِيمَانًا‘‘، "یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لئے عظیم لشکر جمع کر لیا ہے، لہٰذا ان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا۔"(سورۃ آل عمران، آیت، 173)

مفسرین نے مذکورہ آیت کا مصداق "نعیم ابن مسعود" کو بتایا ہے، جو ایک شخص ہے۔ اسی طرح ’’يَقُولُونَ نَخشٰٓى اَن تُصِيبَـنَا دَائرَةٌ‘‘، "یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ ہمیں گردشِ زمانہ کا خوف ہے۔"(سورۃ المائدہ، آیت نمبر، 52) مذکورہ آیت کے متعلق مفسرین کا بیان ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(تفسیر ولایی قرآن کریم در اثبات ولایت امیر المومنین علیہ السلام، ناصر مکارم شیرازی، صفحہ 763.764 زیر عنوان: پاسخ بہ ھشت ایراد مخالفان بر آیہ ولایت) اسی طرح قرآن مجید کی دیگر آیات بھی ہیں، جہاں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے، مگر مراد ایک شخص ہے، ایسی تعبیرات کسی شخص کے کردار کی وضاحت کرتی ہیں۔ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر وحدہ لاشریک کے لیے جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے، جو کہ اس کی عظمت و جلالت کے تحت ہے۔

آیت ولایت پر ایک سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے حالت نماز میں سائل کی آواز سن لی جبکہ آپ تو نماز کی حالت میں اس قدر غرق رہتے تھے کہ آپ کے پاؤں سے تیر کھینچ لیا گیا تھا اور آپ کو احساس تک نہ ہوا تھا۔۔۔۔؟  سائل کی آواز سننا اور اس کی مدد کرنا عبادت در عبادت ہے۔ حالت نماز میں زکوٰۃ دینا قربت الی اللہ تھا۔ اللہ نے قرآن مجید میں اس عمل کی تعریف کی ہے۔ اگر یہ کام باعث غفلت یا یاد خدا سے دوری کا سبب قرار پاتا تو پروردگار عالم اس کی توصیف نہ کرتا۔ پیغمبران الہیٰ، اولیائے کرام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی کیفیت نماز ہمیشہ ایک جیسی نہیں ہوتی۔ وہ عام حالت میں بھی ہوتے اور محتاج کی آواز بھی سن کر اس کی مدد بھی کرتے ہیں۔

شیخ صدوق اور علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں: ایک روز رسول اکرمﷺ نماز میں مشغول تھے اور اصحاب کرام آپ کی اقتدا میں تھے۔ دوران نماز ایک بچہ رونے لگا۔ آپ نے نماز کو جلدی تمام کر دیا۔ اصحاب نے اس تیزی سے نماز کو تمام کرنے کی وجہ دریافت کی۔ آپ نے فرمایا: "اما سمعتم صراخ الصبی" کیا تم نے بچے کے رونے کی آواز نہیں سنی؟ کبھی یہی ہستیاں عالم ملکوت اور ذکر الہیٰ میں مکمل طور پر غرق ہو جاتی ہیں، انہیں سوائے ذات الہیٰ کے کسی کا خیال نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اپنے جسم سے بھی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ امام علی علیہ السلام کے پاؤں سے تیر کا نکلنا اسی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کے سلسلے میں ملتا ہے کہ ایک شب آپ کے فرزند ارجمند بلندی سے گر گئے، جس کے سبب ان کے ہاتھ زخمی ہوگئے(ہاتھ ٹوٹ گیا)۔ گھر کے اندر شور برپا ہے، پڑوسی بھی آگئے، لیکن آپ اسی طرح، حادثہ سے مطلق متوجہ ہوئے، مشغول عبادت رہے۔ علی الصبح آپ بیدار ہوئے، دیکھا کہ فرزند کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔ آپ نے سبب دریافت کیا۔ بتایا گیا: گذشتہ شب ایسا بھلاں واقعہ پیش آیا تھا۔(منتہی الآمال، شیخ عباس قمی، جلد، 2، صفحہ، 10)

دوسری روایت میں ملتا کے کہ سید الساجدین علیہ السلام حالت نماز میں سر بسجود تھے۔ اسی وقت آپ کے بیت الشرف کے ایک گوشہ میں آگ لگ گئی۔ گھر والوں نے فریاد بلند کی: یابن رسول اللہ! النار! النار! "اے فرزند رسول! آگ لگ گئی ہے! آگ!" آپ اسی طرح سر بسجود مشغول عبادت رہے اور شور و غل اور آگ لگ جانے کے متعلق کچھ نہ سنا۔ آگ کو گل کر دیا گیا۔ اس کے بعد آپ نے سر کو سجدہ سے اٹھایا اور کمال اطمینان سے نماز تمام کی۔(منتہی الآمال، شیخ عباس قمی، جلد، 2، صفحہ، 10) قرآن مجید کی آیات کا ہر رخ سے مطالعہ کرنا ہی نجات کا ضامن ہے، ورنہ بہت ممکن ہے کہ ہمارے نظریات عام باتوں میں بھی مختلف ہو جائیں۔ اسی طرح ائمہ کرام علیہم السلام کی حیات طیبہ کا مسئلہ ہے۔ جب تک ہم مکمل زندگی کا بغور مطالعہ نہیں کریں گے، بہت سے مسائل کا شکار ہوں گے

تحریر: عظمت علی(لکھنؤ)

ارنا رپورٹر کے مطابق، 22 بہمن مارچ اور انقلاب اسلامی کی فتح کی 43 ویں سالگرہ کی تقریبات کا آغاز چند لمحوں پہلے تہران اور ملک کے دیگر حصوں میں ہوا۔

کورونا وبا کے پھیلنے کی وجہ سے، یہ تقریب سرخ شہروں میں کار اور موٹر سائیکل کے ذریعے اور دیگر شہروں میں صوبائی حکام کی جانب سے صحت کی تمام ہدایات کے ساتھ محدود طریقے سے منعقد کی جاتی ہے۔

تقریباً 200 صحافیوں اور کیمرہ مینوں اور 6,300 سے زیادہ مقامی میڈیا رپورٹرز، فوٹوگرافروں اور کیمرہ مینوں (مجموعی طور پر 6,500 سے زیادہ میڈیا کارکن) کے ساتھ ایران میں مقیم تمام غیر ملکی میڈیا آؤٹ لیٹس ملک میں بہمن 22 کی یادگاری تقریب کی کوریج کریں گے۔

تہران میں انقلاب اسلامی کی فتح کی 43 ویں سالگرہ کے موقع پر کار اور موٹر سائیکل کے ذریعے مارچ کیا جائے گا اور اسی مناسبت سے موٹرسائیکلوں کے لیے راستوں اور کاروں کے لیے راستوں کا تعین کیا گیا ہے۔

آخر میں انقلاب اسکوائر میں جشن آزادی اسکوائر میں ایک بہترین بین الاقوامی قاری کی قرآن پاک تلاوت اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قومی ترانے کی پرفارمنس ہوگی۔

آزادی ٹاور سے غبارے اور رنگین کاغذ اڑنا اور خصوصی اثرات کا مظاہرہ کرنا، مسلح چھاتہ برداروں کی تباہی اور ایئر شو آپریشنز، اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے گارڈز کی جانب سے ترانے کی پرفارمنس، حاج میثم مطیعی کے مداحی، 22 بہمن 1400 کی قومی قرارداد کی تلاوت اور اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے عوام پرپھول چڑھانے کی تقریب، بھی تہران میں آج کے مارچ کے منصوبوں میں شامل ہے۔

; تقریب کے مقرر ہمارے ملک کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی ہیں جو تہران میں امام خمینی کے عظیم نماز گاہ میں جمعہ کی مذہبی اور سیاسی رسم کے ساتھ ہی منعقد ہوگی۔

 

 کے کمالات کادارومدارعقل کے کمال پرہے ۔

۱۰ ۔ انسان کے لیے فقرکی زینت "عفت " ہے خدائی امتحان کی زینت شکرہے حسب کی زینت تواضع اورفروتنی ہے کلام کی زینت ”فصاحت“ ہے روایات کی زینت ”حافظہ“ ہے علم کی زینت انکساری ہے ورع وتقوی کی زینت ”حسن ادب “ ہے قناعت کی زینت " خندہ پیشانی" ہے۔
taghribnews.
 

جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر اسداللہ بھٹو کا ”اسلام ٹائمز“ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ امام خمینیؒ کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا کی، اللہ تعالیٰ کی مدد انکے ساتھ شامل حال رہی، انقلاب اسلامی ایران کے ساتھ جماعت اسلامی کی وابستگی ایک تاریخی حقیقت ہے، جماعت اسلامی نے ہمیشہ انقلاب اسلامی ایران کی حمایت جاری رکھی ہے، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی پر بہت خوش تھے، وہ انقلاب اسلامی ایران و امام خمینیؒ کیلئے دعا کرتے تھے، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے واضح طور پر ایران کے انقلاب کو اسلامی انقلاب کے طور پر سپورٹ کیا، ایوب خان نے جماعت اسلامی پر پابندی لگائی، اسوقت جو الزامات لگائے گئے تھے، اس میں سے ایک الزام یہ بھی تھا کہ جماعت اسلامی نے امام خمینیؒ کے مضامین شائع کئے، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ہمیں جو راستہ دکھایا تھا، اُس دور سے لیکر آج تک انقلاب اسلامی ایران کی حمایت جاری ہے، امام خامنہ ای نے بھی اپنے wisdom سے، اپنی بصیرت کے ساتھ اس اسلامی انقلابی نظام کو چلایا ہے، امام خامنہ ای امام خمینیؒ کے مشن کو فقط ایران کے اندر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیلانے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، وہ یہ جدوجہد جاری رکھیں، امام خامنہ ای کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے امریکا و مغرب کی پابندیوں کے باوجود انقلاب اسلامی سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔

 مجمع جهانی تقریب مذاهب اسلامی  کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حمید شہریاری نے آج شام منعقدہ "اسلامی اتحاد کے میدان میں اسلامی انقلاب کی کامیابیاں" کے عنوان سے ایک ویبینار میں اس صورت حال کا ذکر کیا جس میں ایران کے اسلامی انقلاب نے انقلاب برپا کیا۔  انقلاب ایک ایسے تناظر میں جیت گیا جہاں بادشاہت اور عالمی استکبار کی فضا غالب تھی۔ یہ اس وقت تھا جب سامراجی حکومت اور عالمی استکبار دونوں نے صیہونی حکومت کی حمایت کی اور شاہ اور اس کے ساتھیوں نے امت اسلامیہ کے خلاف کام کیا۔ اسی تناظر میں مصر، شام اور اردن جیسے بڑے اسلامی ممالک 1967 کی چھ روزہ جنگ ہار گئے۔

 "ان حالات میں انقلاب برپا ہوا اور پوری اسلامی دنیا اور سول اداروں میں ایک مثبت احساس پیدا ہوا۔" یہ اس وقت تھا جب انقلاب کے عظیم رہنما امام خمینی منفرد خصوصیات کے حامل تھے۔ ان کی ایک سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ ولایت فقیہ اور عام معنوں میں قیادت پر زور دیتے تھے۔ چونکہ اسلامی جمہوریہ کا پہلا اقدام صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنا اور فلسطینی عوام کی حمایت کرنا تھا، اس لیے امت اسلامیہ نے اس کی بھرپور حمایت کی۔

انہوں نے خطے میں جہاد اور مزاحمت کے جذبے پر اسلامی انقلاب کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: چھ دنوں میں جنگ ہارنے والی عرب دنیا آج حزب اللہ کے نام سے ایک ادارے کے قیام کو دیکھ رہی ہے جو اس کے صیہونی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔" اس کا مطلب یہ تھا کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے صیہونی حکومت کی سرحدوں پر چڑھ کر عرب دنیا میں برتری اور فتح کا احساس پھیلایا اور اس کی وجہ امام خمینی کاانقلاب تھا۔ 

ڈاکٹر شہریاری نے مزید کہا: "مسلمانوں نے اس طاقت کے ساتھ یقین کیا کہ عالمی استکبار کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔" اب سوال یہ ہے کہ سید حسن نصر اللہ قلیل فوج اور ایران کی حمایت سے اتنی فتح کیسے حاصل کر پائے؟ لیکن ہم نے دیکھا کہ حسن نصراللہ کا نام عربوں میں اس طرح پھیل گیا کہ بہت سے عربوں نے اپنے بچوں کے نام نصراللہ رکھ لیے۔

اگلے مرحلے میں عالمی استکبار نے انقلاب اور صوبے کے نظریہ کا متبادل پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے دو شرطیں رکھی: پہلی یہ کہ یہ نیا نظریہ اور منصوبہ شیعہ نہ ہو اور دوسری خلافت قائم کی جائے جو نظریہ ولایت کے خلاف ہو۔

اس طرح داعش کی خلافت کا نظریہ قائم ہوا جس کی دو اہم خصوصیات تھیں۔ ایک ولایت فقیہ کے سامنے تھا اور حکومت اور حکومت قائم کر سکتا تھا اور انقلاب اسلامی کے شوقین نوجوانوں کو اپنی طرف موڑ سکتا تھا۔ اس طرح افریقہ اور ایشیا کے نوجوان یورپی جو اسلامی انقلاب میں دلچسپی رکھتے تھے خلافت کے اس نظریہ کی طرف راغب ہوئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس خصوصیت کی بنیاد پر انہوں نے اسلام کے بارے میں دلچسپ خیالات کو مسخ کرنے کی کوشش کی تاکہ اسلام کے شائقین کو منہ موڑ لیا جائے۔ اس کے مطابق وہ جاسوس اور انٹیلی جنس تنظیموں کی مدد سے داعش کو بنانے اور مختلف ممالک میں نوجوانوں کے ذہنوں کو ہٹانے میں کامیاب ہوئے، اس طرح داعش کے نام سے ایک بدصورت نقاب بنا کر اسلام کے حقیقی چہرے کو داغدار کیا گیا تاکہ ہر کوئی مذہب تبدیل کر سکے۔ اسلام کے لیے، داعش کا نام جانیں۔ اس کے بعد انہوں نے خلافت، جہادی اور تکفیری کے نظریے کو یکجا کیا اور اس انتخابی نظریہ کے تحت تشدد اور خونریزی کا سہارا لیا اور اپوزیشن کا سر قلم کیا۔

انہوں نے مزید کہا: "شیعوں اور سنیوں کے درمیان دراڑ خود سنیوں کے درمیان ایک نئی دراڑ بن گئی ہے۔" یعنی اعتدال پسند سنیوں اور وہابی اور تکفیری سنیوں کے درمیان دراڑ پیدا ہو گئی اور سنیوں کے اعتدال پسند طبقے نے حقیقی اسلامی نظریہ کے پیروکاروں سے بات چیت کی۔ اگلا مرحلہ واحد اسلامی قوم کی تشکیل اور اسلامی ممالک کی یونین کا قیام ہے۔
http://www.taghribnews.com/vdci5vawyt1apr2.s7ct.html

حوزہ نیوز ایجنسی । 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب نے دنیا کے نقشے پر اس وقت خودمختاری کی انگڑائی لی جب دنیا کے اکثر حصے استعماری طاقتوں کے آہنی پنجوں میں جکڑے ہوئے تھے. ایران کے اسلامی انقلاب نے آتے ہی خطے میں استعماری گماشتوں کی سانسیں گِننا شروع کر دیں کیونکہ معمار انقلاب امام خمینی رح ابھی انقلاب کی بنیادیں استوار کر ہی رہے تھے کہ استعمار کے نمک خوار صدام ملعون نے 1980 میں ایران پر حملہ کر دیا. صدام حسین نے حملہ کرتے وقت دعویٰ کیا تھا کہ وہ آئندہ جمعہ کی نماز تھران میں ادا کریں گے لیکن وہ یہ حسرت دل میں لیے اپنے ہی آقا امریکہ کے ہاتھوں 2006 میں واصل جہنم ہوا، روح اللہ خمینی کے روحانی بیٹوں نے یہ جنگ بڑی بے سروسامانی لیکن اللہ پر توکل کے ساتھ لڑی. اس 8 سالہ جنگ میں صدام حسین، عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کے باوجود بری طرح شکست کھا گیا اور خطے میں انقلاب اسلامی ایران کی طاقت کو تسلیم کر لیا گیا۔

1979 وہ زمانہ تھا جب اسرائیل کی طاقت کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا اسرائیل 1948 سے 1973 تک عرب ممالک کو 4 باقاعدہ جنگوں میں شکست دے چکا تھا اب انقلاب اسلامی ایران کے قیام کے وقت عرب ممالک اپنے کئی علاقے اسرائیل کی تحویل میں دے کر گوشہ نشین ہو چکے تھے جبکہ اسرائیل کی سرحدی در اندازیاں مسلسل بڑھتی جا رہی تھیں اس وقت اہلیان لبنان کے ایک وفد نے اسرائیلی مظالم سے تنگ آ کر نیز ایران میں اسلامی انقلاب کی کرن دیکھ کر 1980 میں روح اللہ خمینی رح کے دامن میں آ کر پناہ لی، پسی ہوئی ملتوں کے طبیب نے انھیں استقامت و کربلا کی پیروی کا نسخہ عطا کیا اور پھر انھوں نے اس نسخہ کیمیا پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل سمیت عالمی استعمار کو شکست دینا شروع کر دی اور آج دنیا بھر میں گوریلا وار میں حزب اللہ لبنان کا کوئی ثانی نہیں ہے اس کی بنیادی وجہ نظام ولایت فقیہ کی من و عن پیروی اور اصل اسلام ناب محمدی کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالنا ہے. آج حزب اللہ لبنان ایران کی مادی و معنوی حمایت سے تمام عرب ممالک میں اپنے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ شعبے رکھتی ہے کہ جو درحقیقت ایران کے اسلامی انقلاب کی طاقت کا ایک مظہر ہے۔

جبکہ دوسری طرف فلسطین کے مظلوم عوام نے حزب اللہ لبنان کی کامیابی اور روش مبارزہ کو دیکھ کر اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کی ٹھان لی، شیخ احمد یاسین نے 1987 میں ایران کے انقلاب سے الہام لے کر مقاوم سپوتوں کو جمع کیا اور غاصب اسرائیل کے سامنے مضبوط دیوار بن کر کھڑے ہو گئے حماس نے ایران کی حمایت سے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور آج 2022 میں اسرائیل کے مقابلے میں کئی جنگی فتوحات کے بعد فلسطین کی ایک اہم طاقت بن چکی ہے اور اسی طرح مقاومت جہاد اسلامی جیسی بعض قدیمی تنظیموں کو بھی ایران نے اپڈیٹ کر کے اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے جس سے غاصب اسرائیل نہ صرف کمزور ہوا ہے بلکہ ایران کی معنوی و مادی طاقت کا لوہا بھی مشرق وسطیٰ میں مان لیا گیا ہے۔

ایک طرف جہاں ایران نے بیرونی محاذوں پر مظلوم قوموں کو طاقتور بنایا، وہاں دوسری طرف امام خمینی رح نے نظام ولایت فقیہ کی مرکزیت میں ایران کے داخلی انتظامی، سیاسی، فرہنگی اور عدالتی امور کی ایسی مضبوط، ٹھوس اور الہی اصولوں پر مبتنی بنیادیں استوار کیں کہ جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کو دنیا کے نقشے پر ایک متوازن مضبوط اسلامی ریاست کے طور پر متعارف کروایا اور انھی مضبوط داخلی بنیادوں اور مستقل خارجہ پالیسی کی وجہ سے آج کا ایران دنیا کی استعماری طاقتوں کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے اور دنیا بھر میں آزاد قوموں کا علمبردار بنتا جا رہا ہے۔

 محمد صغیر نصرٓ

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے انقلابِ اسلامی کی 43 ویں سالگرہ کے موقع پر تہنیتی پیغام ارسال کرتے ہوئے کہا ہے کہ انقلابِ اسلامی کی بنیاد اتحاد امت و وحدت ملی ہے اور امت اسلامیہ کو مشترکات پر جمع کرنے کے لئے انقلابِ اسلامی کا درس قابلِ تقلید ہے۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ انقلاب اسلامی جن اہداف کے لئے برپا کیا گیا ان پر امت مسلمہ کا اتفاق ہے اور انقلاب کے لئے جو طریقۂ کار اختیاربکیا گیا اس سے استفادہ کرکے دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی اسی قسم کی کوششیں کی جا سکتی ہیں، کیونکہ انقلاب کے لئے جو بنیاد مدنظر رکھی گئی وہ اتحاد امت اور وحدت ملی ہے۔ انقلاب اسلامی کا سب سے بڑا درس یہی ہے کہ قرآن کی آفاقی تعلیمات کا نفاذ، تفرقے اور انتشار کا خاتمہ اور اتحاد کی فضاء قائم ہو، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں، تفرقہ بازی اور انتشار اور اس کے اسباب و عوامل کے خاتمے کی کوشش کریں۔

انقلاب اسلامی کی 43ویں سالگرہ کی مناسبت سے اپنے پیغام میں علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ انقلاب اسلامی کے قائد اور رہبر حضرت امام خمینی ؒنے انقلاب برپا کرتے وقت اسلام کے زریں اصولوں اور پیغمبر اکرم کی سیرت و سنت کے درخشاں پہلوﺅں سے ہر مرحلے پر رہنمائی حاصل کی، یہی وجہ ہے کہ تمام سازشوں، مظالم، زیادتیوں، محاصروں، پابندیوں اور دیگر ہتھکنڈوں کے باوجود انقلاب اسلامی ایران کرہ ارض پر ایک طاقتور انقلاب کے طور پر جرأت واستقامت کی بنیادیں فراہم کررہا ہے۔

علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ انقلاب اسلامی نے اسلامی تہذیب و ثقافت کے فروغ اور امت مسلمہ کو استعماری و سامراجی قوتوں کے مذموم عزائم سے باخبر رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور آج یہ جدوجہد ایک اہم ترین موڑ میں داخل ہوچکی ہے چنانچہ عالمی استعمار خائف ہوکر مختلف خطوں میں اسلامی دنیا کے خلاف نت نئی سازشوں میں مشغول ہے، انقلاب اسلامی محض عارضی اور مفاداتی انقلاب نہیں بلکہ شعوری انقلاب ہے۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ یہ انقلاب عالم اسلام اور انسانیت کا ترجمان انقلاب ہے۔جس کے لئے سینکڑوں علماء، مجتہدین، مجاہدین، اسکالرز، دانشور اور قائدین نے اپنے خون، اپنی فکر، اپنے قلم، اپنی صلاحیت، اپنے عمل، اپنے سرمائے اور اپنے خاندان کی قربانیاں دے کر انقلاب اسلامی کی عمارت استوار کی، انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کو ان کے مشترکات پر جمع کرنے اور فروعات کو نظر انداز کرنے کا جو درس دیا وہ قابل تقلید ہے اور آج اس درس اخوت ووحدت کے ثمرات دنیا کے تمام ممالک میں نظرآرہے ہیں۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا کہ پاکستان میں بھی ایک ایسے عادلانہ نظام کی ضرورت ہے جس کے تحت تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہو، امن و امان کی فضاءپیدا ہو، عوام کو پرسکون زندگی نصیب ہو، لہٰذا پرامن انداز میں پرامن طریقے اور راستے کے ذریعے تبدیلی لائی جائے اور اس کے لئے عوام اور خواص سب کے اندر اتحاد و وحدت اور یکسوئی کے ساتھ جدوجہد کرنے کا شعور پیدا کیا جائے، اگر ہم زندہ اور باوقار قوم کے طور پر دنیا میں رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اعلی اہداف کے حصول کے لئے متحد ہونا پڑے گا، گروہی اور مسلکی حصاروں سے باہر نکلنا ہوگا اور اپنے اندر جذبہ اور استقامت پیدا کرنا پڑے گی۔

اسلام ٹائمز۔ یمن کے دارالحکومت صنعاء پر منگل کی شام ظالم اور جارح سعودی اتحاد کی جانب سے شدید اور وسیع بمباری کی گئی۔ عربی ذرائع ابلاغ المیادین کے مطابق، اس بمباری کی وجہ سے صنعاء میں شدید دھماکے ہوئے ہیں۔ جابر سعودی اتحادی لڑاکا طیاروں نے گذشتہ روز بھی دارالحکومت صنعاء کے ساتھ ساتھ ''حجه''، ''مأرب'' اور ''الجوف'' نامی صوبوں پر 29 بار فضائی حملے کئے۔ ان لڑاکا طیاروں نے صوبہ حجہ میں واقع سرحدی شہر ''حرض'' کو 9 مرتبہ اور صوبہ الجوف میں ''خَب''، ''الشّعف'' اور ''الحزم'' نامی مناطق کو 7 مرتبہ اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔

حالیہ ہفتہ میں سعودی وزارت دفاع کا اپنے ایک اعلامیے میں کہنا تھا کہ گذشتہ سات سالوں میں پہلی مرتبہ ایک اہم پیشرفت ہوئی ہے کہ سعودی وزارت دفاع نے دو ملٹری بریگیڈز کو یمنی سرزمین پر بھیجا ہے، تاکہ یمن کی مستعفی فوج کے ساتھ ملکر ''صعده'' اور ''حجه'' نامی صوبوں کی آزادی کے لئے وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن میں شرکت کر سکیں۔