سلیمانی

سلیمانی

لبنان کی اسلامی استقامتی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ نے العالم چینل سے گفتگو میں اہم علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر روشنی ڈالی۔

سید حسن نصراللہ نے منگل کے روز عربی زبان کے نیوز چینل العالم سے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ اسلامی انقلاب نے امریکہ اور اسرائیل کو ایران سے نکال باہر کیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران، اسلامی انقلاب کی کامیابی کی 43 ویں سالگرہ منا رہا ہے، جس انقلاب نے امریکی حمایت یافتہ  پہلوی حکومت کو اکھاڑ پھینکا۔ 

حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران عالم اسلام سمیت پوری دنیا میں آزادی و خودمختاری کا نمونہ ہے جبکہ انقلاب سے پہلے امریکہ ایران کو کنٹرول کرتا تھا۔  حزب اللہ کے جنرل سکریٹری نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس وقت خطے کی بڑی طاقت ہے جسے نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے لڑا جا سکتا ہے۔ 

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ایران کے اسلامی انقلاب سے صحیح اسلام سامنے آیا کیونکہ صحیح اسلام ہی ظلم و جبر کا مقابلہ کرتا ہے، یہ وہی چیز ہے جسے امریکہ برداشت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ تہران سے امریکہ کی دشمنی کی وجہہ ایران میں مستقل نظام کا ظہور ہے جسے عوام کی حمایت حاصل ہے۔ 

انہوں نے کہا وہ اسلام جس کے تحت مسلمان نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، حج کرتا ہے، تسلط کے مقابلے میں خاموش رہتا ہے، غاصب سے سازباز کرتا ہے یا امریکہ کی ہیبت کے سامنے سر جھکاتا ہے، اس اسلام سے امریکہ کو کوئی مشکل نہیں ہے اور یہ وہی اسلام ہے جسے امام خمینی (رح) نے امریکی اسلام سے تعبیر کیا، امریکی اسلام یہ ہے جس سے اسے کوئی خطرہ نہیں ہے، نماز پڑھیئے روز رکھئے، حج کیجئے، بلکہ ہر سال حج کیجئے، امریکہ کو اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، امریکہ میں مسجدیں بنائی گئی ہیں، اس سے انہیں کوئی مشکل نہیں ہے مگر جو اسلام آپ کو (صحیح معنوں میں) اللہ کا بناتا اور قرار دیتا ہے امریکہ کو اس سے خطرہ ہے اور یہ وہی اسلام ہے جو ایران میں کامیاب ہوا۔

سید حسن نصراللہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکہ کی جنگ کی رجزخوانی کو ناقابل اعتناء قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج امریکہ ایران سے جنگ لڑنے سے ڈرتا ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایک مضبوط و خودمختار ملک ہے۔ 

لبنان کی استقامتی تحریک حزب اللہ کے جنرل سکریٹری نے کہا ہے کہ ایران میں 1979 میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے ایران سے امریکہ اور اسرائیل کو نکال باہر کیا۔

حسن نصر اللہ نے کہا کہ صیہونی حکومت بھی حزب اللہ کے خلاف جنگ کے ذریعے اپنے ہدف تک نہیں پہنچ سکتی۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کو یقین ہے کہ وہ حزب اللہ کے خلاف ممکنہ جنگ میں کامیاب نہیں ہو سکتی ورنہ وہ ایک لمحے کے لئے بھی نہیں چوکتی۔ 

سید حسن نصراللہ نے مزید کہا کہ وہ عنصر جو ایران اور حزب اللہ کو ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہے وہ استقامت و مزاحمت کا مسئلہ ہے، جس کا تعلق قومی مفادات سے بھی ہے۔ 

نصراللہ نے لبنان کے سلسلے میں امریکہ کے تخریبی اقدامات کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کو امریکہ کے تباہ کن سیاسی، اقتصادی اور مالی دباو کا سامنا ہے۔ انہوں نے، بیروت میں امریکی سفارتخانے کو پورے خطے کے لئے سی آئی اے کے مرکزی دفتر سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے لبنان کے سکورٹی اور فوجی معاملوں میں مداخلت کی کوشش کی۔

حزب اللہ کے جنرل سکریٹری نے یمن پر سعودی عرب کی قیادت میں جاری امریکی حمایت یافتہ جنگ کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا۔

انہوں نے کہا کہ یمنی فورسز سے پہلے ٹکراو میں ہی ابو ظہبی کی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور یہاں تک کہ صیہونی حکومت سے مدد کی فریاد صاف سنائی دی۔ 

انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے ریت کے ڈھیر پر امیدوں کا محل کھڑا کیا ہے۔ انہوں نے ابو ظہبی کو مشورہ دیا کہ اگر وہ اپنے سکورٹی بحران کو حل کرنا چاہتا ہے تو خود کو سعودی عرب کی طرف سے یمن پر تھوپی گئی جنگ سے علیحدہ کر لے۔

شام کی الفرات یونیورسٹی کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ قابض امریکیوں اور ان کے آلہ کاروں نے شہر حسکہ میں الفرات یونیورسٹی کی مختلف عمارتوں پر بمباری کر کے اس یونیورسٹی کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔

شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شام کی الفرات یونیورسٹی کے سربراہ طہ خلیفہ نے کہا ہے کہ قابض امریکیوں اور ان کے کرد آلہ کاروں کی جانب سے شہر حسکہ میں الفرات یونیورسٹی کی مختلف عمارتوں پر حملہ و بمباری، ایک خطرناک مسئلہ ہے جس سے ہزاروں طلبا کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

انھوں نے کرد آلہ کاروں کی جانب سے اس یونیورسٹی کے مختلف شعبوں سے آلات و وسائل کی چوری کا ذکر کرتے ہوئے ان کی قیمت کا تخمینہ دسیوں ارب شامی کرنسی قرار دیا ہے۔

پیر کو کرد آلہ کاروں نے الفرات یونیورسٹی پر حملہ کرتے ہوئے حسکہ کے مغرب میں ایگری کلچر کالج بند کر دیا۔

واضح رہے کہ دہشت گرد امریکی فوجی اور ان سے وابستہ دہشت گرد عناصر، شمالی اور مشرقی شام میں غیر قانونی طور پر موجود ہیں جو اس ملک کے قومی سرمائے اور تیل کے ذخائر کی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔
//www.taghribnews.
 
 
انڈیا کی ریاست کرناٹک میں حجاب پر جاری تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور منگل کو ایک اور ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں زعفرانی شالیں پہنے طلبا کے ایک گروپ کو ایک برقع پوش طالبہ کو ہراساں کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو کو آلٹ نیوز کے بانی محمد زبیر نے ان الفاظ کے ساتھ پوسٹ کیا ہے: 'جب ایک مسلمان لڑکی پی ای ایس کالج پہنچی تو زعفرانی شالیں پہنے بے شمار طلبا اس پر جملے کستے ہوئے ہراساں کرتے رہے۔'

کرناٹک میں گذشتہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے کئی کالجوں میں حجاب پر طالبات اور انتظامیہ کے درمیان اختلاف جاری ہے اور یہ معاملہ اب ہائی کورٹ میں ہے۔ لیکن گذشتہ دنوں اس میں نئی چیز یہ دیکھنے میں آئی کہ حجاب کا مقابلہ اب زعفرانی شالوں سے کیا جا رہا ہے جو انڈین سماج کے مذہبی خطوط پر منقسم ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل مذکورہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سیاہ برقعے میں ملبوس ایک طالبہ سکوٹی چلاتی ہوئی پی ای ایس کالج بنگلور پہنچتی ہیں اور جب وہ عمارت کی جانب جا رہی ہیں تو زعفرانی شالیں لہراتے سینکڑوں طالبِ علموں کا گروہ 'جے شری رام' کے نعرے لگاتے انھیں ہراساں کرنے لگتا ہے جس کے جواب میں وہ طالبہ 'اللہ اکبر' کے نعرے لگاتی ہے اور مقامی زبان میں کہتی ہے 'کیا ہمیں حجاب پہننے کا حق حاصل نہیں ہے؟'

جب وہ طالبہ رک کر کیمرے سے بات کر رہی ہیں اسی وقت زعفرانی شالوں والے طالب علموں کا گروہ نعرے لگاتا ہوا دوبارہ ان کی جانب آ کر انھیں ہراساں کرنے کی کوشش کرتا ہے جس پر اساتذہ یا انتظامیہ کے اہلکار طالبہ کو بازو سے پکڑ کر عمارت کی جانب لے جاتے ہیں۔

طالبہ کے عمارت میں چلنے جانے کے بعد بھی زعفرانی شالوں والے طلبا مسلسل 'جے شری رام' کے نعرے لگا رہے ہیں جنھیں اساتذہ یا انتظامیہ کے اہلکار روکنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں مگر روکے جانے پر یہ طلبا مزید جوش و خروش سے نعرے بازی شروع کر دیتے ہیں۔

اس آرٹیکل کی اشاعت تک اس ویڈیو کو 27 لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں اور سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث جاری ہے۔

کہا جا رہا ہے انڈیا میں حجاب تنازع شروع ہونے کے بعد کچھ سیاسی جماعتوں نے مبینہ طور پر طلبا میں زعفرانی شالیں تقسیم کی ہیں اور وہ اس تنازعے کو ہوا دے رہے ہیں۔

انڈین صحافی نویدیتا نرینجن کمار کی جانب سے پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں ایم جی ایم کالج کے طلبا کو زعفرانی شالیں اٹھاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ نودیتا کے مطابق مبینہ طور پر ہندوتا تنظمیوں نے یہ شالیں تقسیم کی ہیں۔

.taghribnews

اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے سربراہ میجر جنرل سید عبدالرحیم موسوی نے انقلاب اسلامی کی 43 سالگرہ کی آمد کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ گذشتہ 43  برسوں میں انقلاب اسلامی نے اقتصادی پابندیوں، خطرات، دباؤ اور دھمکیوں کے باوجود عظیم ، گرانقدراور نمایاں پیشرفت کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کی حکیمانہ اور مدبرانہ قیادت اور ایرانی عوام کی آگاہانہ حمایت کی بدولت پہلوی طاغوتی استبداد کا خاتمہ کرکے دنیا کے دو بلاکوں کمیونزم اور لیبرلزم کو چیلنج کیا اور ایرانی عوام، مسلمانوں اقوام اور دنیا کے مستضعفین کو آزادی اور استقلال کی خوشخبری دی۔

ایرانی فوج کے سربراہ نے کہا کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران نے مختلف شعبوں میں خاطر خواہ ترقی اور پیشرفت حاصل کی ہے اور ایرانی ماہرین ترقی اور پیشرفت کے راستے پر گامزن ہیں۔  انھوں نے کہا کہ انقلاب اسلامی کے زخمی دشمنوں نے انقلاب کے ساتھ اپنی دشمنی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

میجر جنرل موسوی نے کہا کہ حضرت امام خمینی (رہ) کی حکیمانہ قیادت اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کی مدبرانہ ہدایت کی روشنی میں انقلاب اسلامی ترقی اور پیشرفت کے راستے پر رواں دواں ہے۔ ہم اللہ تعالی کا شکرو سپاس ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں طاغوت کے ظلم سے نجات عطا کی اور انقلاب اسلامی کی نعمت سے بہرہ مند کیا۔ شہدائے انقلاب اسلامی کو خراج عقیدت اور جانبازوں کو خراج تحسین  پیش کرتے ہیں ۔ ایرانی فوج 22 بہمن کو انقلاب اسلامی کی 43 سالگرہ کے جشن ایرانی عوام کے ہمراہ شرکت کرےگی۔

تقريب خبررسان ايجنسی

آٹھ فروری سن انیس سو اناسی کو سابق شاہی فضائيہ کے ایک خصوصی دستے 'ہمافران' کی جانب سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے تاریخی بیعت کی سالگرہ کے موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی فضائيہ اور ائير ڈیفنس کے بعض کمانڈروں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے اس حیرت انگیز بیعت کو ایک فیصلہ کن موڑ بتایا۔
     

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اس عظیم اور تاریخ ساز کارنامے کے زندۂ جاوید بن جانے اور اس کے اثرات کے دوام کا سبب، میڈیا کا کام اور فنکارانہ طریقے سے اس واقعے کی صحیح تشریح تھی۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا: آج بھی اسلامی نظام کے حقائق، کارناموں، پیشرفتوں اور شجاعانہ اقدامات کی تحریف کی غرض سے جاری دشمن کی یلغار سے مقابلے کے لیے تشریح کے جہاد کی فوری اور یقینی ذمہ داری کی بنیاد پر ایک ہمہ جہتی دفاعی اور جارحانہ اقدام کی ضرورت ہے۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات کے آغاز میں کورونا کی وبا کے باعث خراب حالات کے سبب حاضرین کی تعداد کے محدود ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: میں ہمیشہ میڈیکل پروٹوکولز اور ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کرتا ہوں، ماسک استعمال کرنے پر تاکید کرتا ہوں اور کچھ مہینے پہلے میں نے ویکسین  کا تیسرا ڈوز بھی لگوایا ہے۔

انھوں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے اس سلسلے میں ماہرین کی بات ماننے پر تاکید کی۔

رہبر انقلاب اسلامي نے اس کے بعد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے فضائيہ کی تاریخی بیعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگرچہ فضائيہ کی موجودہ نسل اس وقت موجود نہیں تھی لیکن فضائيہ میں وہ سبھی لوگ جو ذمہ داری کے احساس کے ساتھ کام کر رہے ہیں، وہ اس دن کی فضیلت اور افتخار میں شریک ہیں کیونکہ وہ کام در حقیقت، ان اہداف اور مقدس جہاد سے وفاداری کا اعلان تھا جس کے طاقتور کمانڈر امام خمینی تھے، بنابریں وہ معنوی کام بدستور جاری ہے اور وہ تمام افراد جو ان اہداف کی راہ پر گامزن ہیں، اس کارنامے میں حصہ دار ہیں۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اس انتہائي مؤثر کارنامے کی ایک اہم خصوصیت، فضائيہ کے افسران کی جانب سے 'اس لمحے کی ضرورت کا ادارک' اور بصیرت کی بنیاد پر ہوشیارانہ اقدام تھا۔ آپ نے کہا: اس عمل نے اسی طرح یہ بھی دکھا دیا کہ امریکا اور منحوس پہلوی سلطنت کے اندازے غلط تھے اور انھیں اس جگہ سے چوٹ پہنچی جس کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

انھوں نے اس تاریخی واقعے کے سب سے اہم سبق آموز نکتے کی تشریح کرتے ہوئے کہا: اگر حق اور اسلام کے محاذ کے سپاہیوں کی، جہاد کے ہر میدان میں، چاہے وہ فوجی جہاد کا میدان ہو، سائنسی میدان ہو، تحقیقی میدان ہو یا دیگر میدان ہوں، سرگرم، مؤثر اور پرامید شراکت ہوگي اور وہ فریق مقابل کے ظاہری رعب و طاقت سے خوف نہیں کھائیں گے تو یقینی طور پر دشمن کے اندازے غلط ثابت ہوں گے کیونکہ یہ خدا کا پکا وعدہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامي نے مزید کہا: آج بھی امریکیوں کے اندازے غلط ثابت ہو رہے ہیں اور وہ ایسی جگہ سے چوٹ کھا رہے ہیں جس کے بارے میں وہ پہلے سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور وہ خود ان کے سربراہان مملکت ہیں یعنی امریکا کے سابق اور موجودہ صدر جنھوں نے اپنے اقدامات کے ذریعے عملی طور پر ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیا ہے کہ امریکا کی بچی کھچی عزت بھی پامال کر دیں گے۔

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فضائيہ میں بصیرت کی گہرائي کی ایک وجہ، طاغوتی حکومت کے دور میں امریکا کے فوجی مشیروں سے ان کے قریبی رابطے اور ان کی جانب سے آمریت اور اخلاقی بے راہ روی کے مشاہدے کو قرار دیا اور کہا: ایران کی فوج میں امریکیوں کی موجودگي، ایک غم انگیز داستان ہے جس کے بارے میں ممکنہ طور پر جوان نسل کو کوئي اطلاع نہیں ہے لیکن اس کا ایک نمونہ، مظلوم اقوام کی سرکوبی کے لیے امریکا اور برطانیہ کی جانب سے ایرانی فوج کا استعمال تھا جو فوج اور ایرانی قوم سے پہلوی حکومت کی غداریوں میں سے ایک ہے اور اسی طرح دیگر اقوام کے حق میں جرم کی ایک مثال ہے۔

انھوں نے تشریح کے جہاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، امام خمینی سے شاہی فضائیہ کے افسران کی بیعت کی شائع شدہ تصویر کو، تشریح کے ایک جاوداں کارنامنے کی مثال بتایا اور کہا: اس تاریخ ساز اور تغیر آفریں واقعے کے زندۂ جاوید اور پر اثر ہونے کا سبب، وہی فنکارانہ تصویر کا فریم تھا جو اس وقت کے محدود تشہیراتی وسائل کے ساتھ شائع ہوا اور یہ چیز واقعات کی صحیح رپورٹنگ کے بے نظیر اثر کی عکاسی کرتی ہے۔

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے مختلف پلیٹ فارمز پر طرح طرح کے میڈیا کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اسلام اور ایران کے دشمن میڈیا کی حتمی پالیسی، پیشہ ورانہ دروغگوئي کے ذریعے حقائق کی تحریف بتایا اور کہا: وہ لوگ، اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، طاغوتی حکومت کے کریہہ اور بدعنوان چہرے کی مشاطی کر کے اور اس کی غداریوں کو چھپا کر، شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک کی سراپا جرم تصویر کو بھی خوبصورت بنانے کی کوشش میں ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس کے مقابلے میں انقلاب اور امام خمینی کی شبیہ کو بگاڑ کر انقلاب کے حقائق اور مثبت نکات کو پوری طرح سے چھپا کر کمزور پہلوؤں کو سیکڑوں گنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، بنابریں اس میڈیا وار کے مقابلے میں، تشریح کا جہاد ایک حتمی اور فوری فریضہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے میڈیا ڈکٹیٹرشپ کو اظہار رائے کی آزادی کے دعووں کے باوجود جاری مغربی طاقتوں کی آمریت کی ایک قسم بتایا اور سوشل میڈیا پر شہید قاسم سلیمانی کے نام اور تصویر کو ڈلیٹ کرنے جیسی مثالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: وہ لوگ، مغرب کی پالیسیوں سے متصادم ہر لفظ اور تصویر کو ناقابل اشاعت بنا دیتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اسلام اور اسلامی جمہوریہ کی شبیہ بگاڑنے کے لیے ان ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔

انھوں نے اسی طرح ایران کے خلاف دشمن محاذ کے متعدد پہلوؤں پر مشتمل حملے یعنی معاشی، سیاسی، سیکورٹی، میڈیا اور سفارتی حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس اجتماعی اور کثیر الجہتی یلغار کے مقابلے میں ہم ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں نہیں رہ سکتے اور ہمیں بھی میڈیا، سیکورٹی اور معاشی میدان سمیت مختلف میدانوں میں اسی انداز سے حملے کرنے چاہیے اور اس سلسلے میں اہل فکر و اقدام خاص طور پر حکام پر کوشش کی ذمہ داری ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے آخر میں بدخواہوں کی خواہش کے برخلاف ملک کی روز افزوں ترقی و پیشرفت کو قوم کے لیے بہتر مستقبل کی نوید قرار دیا اور کہا: جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ان تینتالیس برسوں میں پوری طاقت سے آگے بڑھتا رہا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور مضبوط بنتا گيا ہے، اسی طرح خداوند عالم کی توفیق سے مستقبل میں یہ پیشرفت پہلے سے بھی بہتر انداز میں جاری رہے گي اور دشمن ایک بار پھر ناکام رہے گا۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہ رجب کے بابرکت ایام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، عوام کے تمام طبقوں خاص طور پر جوانوں سے اس مہینے کے الہی اور معنوی فیوض سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی تاکید کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایرانی کورونا ویکسین برکت کا تیسرا انجیکشن بھی لگوالیا ہے۔

ایران کے سابق وزیر صحت ڈاکٹر مرندی نے عوام کو ویکسین لگوانے دعوت دیتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کووایران برکت کا تیسرا ڈوز بھی لگوا لیا ہے لہذا عوام کو بھی کورونا ویکسین کا تیسرا ڈوز جلد از جلد لگوانا چاہیے

اسلام آباد، ارنا – پاکستانی وزیر خارجہ نے اسلام آباد اور تہران میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے  پچھلے اجلاسوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تیسرا اجلاس چین کی میزبانی میں مارچ کے آخری ہفتے (اپریل 1401) بیجنگ میں منعقد ہوگا۔

پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق، شاہ محمود قریشی نے اتوار کو پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ چین کے چار روزہ دورے کے اختتام پر اسلام آباد پہنچنے پر صحافیوں کو بتایا کہ بیجنگ اور اسلام آباد نے افغانستان کی مدد کے لیے شراکت داری سمیت علاقائی تعاون کے فروغ پر اتفاق کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا تیسرا سربراہی اجلاس مارچ کے آخری ہفتے میں بیجنگ میں ہونے والا ہے اور وہ چینی وزیر خارجہ کی دعوت پر اس سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔

قریشی نے کہا کہ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ طالبان کے وزیر خارجہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے اگلے اجلاس کے آخری روز شرکت کرے تاکہ ہمیں ملک میں ہونے والی پیش رفت اور ان کے موقف سے آگاہ کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان، چین اور افغانستان کی مشترکہ اسمبلی کی بحالی پر بھی اتفاق کیا تاکہ ہم باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک موثر طریقہ کار استعمال کر سکیں۔        

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھی گزشتہ روز چین کے صدر شی جین پینگ کے ساتھ ایک سرکاری ملاقات کے دوران علاقائی مسائل پر دو طرفہ تعلقات کو گہرا کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ کا دوسرا اجلاس 27 اکتوبر کو اسلامی جمہوریہ ایران کی میزبانی میں تہران میں منعقد ہوا۔

افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ کا پہلا اجلاس 9 ستمبر کو پاکستان کی میزبانی میں آن لائن طور پر منعقد ہوا۔ اجلاس میں ایران، چین، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی تھی۔

تہران، ارنا – ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ویانا مذاکرات کے جاری رہنے کے بارے میں کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکیوں کے موقف میں عملی تبدیلی کا انتظار کر رہا ہے۔

 یہ بات سعید خطیب زادہ نے آج بروز پیر اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس میں ارنا کے نمائندے کے ساتھ گفتگوکرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کل سے شروع ہونے والے ویانا مذاکرات کے بار ےمیں کہا کہ ایرانی وفد جو ضروری مشاورت کے لیے چند دنوں کے لیے تہران میں تھا، انشاء اللہ کل ویانا روانہ ہوگا۔ تمام وفود کی کل واپسی متوقع ہے۔ امید ہے کہ دوسری طرف خاص طور پر واشنگٹن نے ضروری فیصلے کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پابندیاں ہٹانے کا مسئلہ اور بورجام کے اقتصادی جہتوں سے ایران کو فائدہ اٹھانا بہت کلیدی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی ریڈ لائن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ وفود خاص طور پر امریکہ واضح طور پر جوہری معاہدے میں اپنے وعدوں کو پورا کرے اور امید کرتے ہیں کہ ان کے مثبت بیانات عملی طور پر وعدوں میں بدل جائیں گے۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ امریکی حکام کو جان لینا چاہیے کہ وہ ایرانی عوام کی جیبوں سے اپنے تباہ کن اور غلط فیصلوں بشمول جوہری معاہدے کے غیر قانونی انخلاء کی قیمت ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ انہیں ایرانی عوام کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے اور اپنے راستے سے واپس آنا چاہیے۔ ہم ویانا میں رویے میں اس تبدیلی کو دیکھنے کے منتظر ہیں۔

سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد نے پیر کی صبح ایک بار پھر یمنی دارالحکومت صنعا کے مختلف علاقوں پر بمباری کی۔

سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی WASS کے مطابق سعودی اتحاد نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ حملے کا مقصد فوجی اہداف کو نشانہ بنانا تھا۔

ریاض میں سرکاری ذرائع سے اتحاد کے حملوں کی تصدیق اس وقت سامنے آئی ہے جب سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان امریکہ کے ساتھ یمن میں جنگ پر بات چیت کرنے والے ہیں۔

سعودی اتحاد کے حملوں کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی وزیر خارجہ نے انصار الاسلام کے خلاف ایک خاتون پر الزام لگانے اور جنگ بندی کے معاہدے کی منصوبہ بندی کرنے کا بیان دیا: یہ منصوبہ، جس میں یمن میں جنگ بندی شامل ہے، اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو گی۔

انصار الاسلام کے ترجمان اور یمنی نیشنل سالویشن گورنمنٹ کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد عبدالسلام نے سعودی عرب کی طرف سے جنگ کے خاتمے کے منصوبے کے ردعمل میں کہا ہے کہ اس منصوبے میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔

سعودی عرب کا یہ منصوبہ اس وقت سامنے آیا ہے جب جمعے کو یمنی فورسز نے ریاض میں آرامکو کی تیل کی تنصیب پر چھ ڈرونز کو نشانہ بنایا تھا۔

26 اپریل 1994 کو سعودی عرب نے کئی عرب ممالک کے اتحاد کی شکل میں اور امریکہ کی مدد اور ہری جھنڈی سے سب سے غریب عرب ملک یمن کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے شروع کر دیے، جس کے بہانے بے دخل کر دیے گئے۔ اور مفرور صدر عبد المنصور ہادی کو اقتدار میں لانا، اپنے سیاسی مقاصد اور عزائم کا ادراک کرنا۔

اقوام متحدہ کے اداروں بشمول عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف نے بارہا خبردار کیا ہے کہ یمن کے عوام کو قحط اور انسانی تباہی کا سامنا ہے جس کی پچھلی صدی میں مثال نہیں ملتی۔

بہت سے ماہرین سعودی اتحاد کے یمن پر حملوں میں اضافے کو یمن میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں اتحاد کی ناکامی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
 تقريب خبررسان ايجنسی 



ایران کا اسلامی انقلاب اپنی شاندار فتح کے ساتھ ایک ایسی حکومت بنانے میں کامیاب ہوا، جو اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔ انقلاب کے عظیم رہنماء امام خمینی نے اپنی وسیع اور شاندار فکر میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے اعلیٰ اور وسیع اہداف کی پیروی کی۔ وہ اہداف جو ان کے لائق جانشین آیت اللہ خامنہ ای بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان عظیم مقاصد میں سے ایک "نئی اسلامی تہذیب کی تخلیق"  یا جدید اسلامی تہذیب کا احیاء ہے۔ اسلامی انقلاب، اسلامی تہذیب کے احیاء کا ایک اہم عامل ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہیں: "اسلامی امت اور امت مسلمہ اور اقوام کے لیے ہمارے انقلاب کا عظیم اور اہم پیغام، اسلامی تشخص کا احیاء، اسلام کی طرف واپسی، مسلمانوں کی بیداری اور اسلامی تحریک کی طرف واپسی ہے۔ مسلم قوموں کے لیے ہمارے انقلاب کا یہ عظیم پیغام ہے کہ امام خمینی اس راہ کے عظیم رہنماء اور اس سلسلے اور مکتب کے عظیم معلم تھے۔"

پوری تاریخ میں بہت سے مفکرین نے تہذیب کے اجزاء کے بارے میں بات کی ہے۔ رابرٹ پل، ایک فرانسیسی ثقافتی ماہر، تہذیب کو سماجی مظاہر کے ایک مجموعہ کے طور پر دیکھتا ہے، جیسے مذہبی، اخلاقی، علمی، تکنیکی، جمالیاتی اور فنکارانہ مظاہر، جو ایک بڑے معاشرے میں بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں۔ تاہم تہذیب کا لغوی معنی شہری زندگی یا شہر نشینی ہے اور یہ شہری زندگی اور تہذیب کی جڑوں سے ماخوذ ہے اور زیادہ تر اس کا استعمال شہریت، شہری مزاج کی تخلیق اور وحشیانہ، بدامنی اور لاقانونیت کے مقابلہ میں کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں تہذیب ایک سماجی تصور ہے، جس کا مطلب ہے، انسانی زندگی میں ترقی اور ارتقاء کے دور تک پہنچنا۔ اس تصور میں بہت سی چیزیں شامل ہیں، جیسے کہ مختلف علوم، فنون، رسوم و رواج کے ساتھ ساتھ سماجی ادارے جو وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہوتے ہیں اور تہذیب کا تصور تشکیل دیتے ہیں۔

لیکن امام خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای کون سی نئی اسلامی تہذیب کا حوالہ دیتے ہیں اور اس کے حصول کو ایران کے اسلامی انقلاب کے مقاصد میں سے ایک قرار دیتے ہیں وہ کیا ہیں۔؟ نئی اسلامی تہذیب، زندگی میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے، جس میں ایک انسان روحانی اور مادی طور پر ترقی کرسکے اور مطلوبہ مقاصد تک پہنچ سکے۔ ان مقاصد کے لیے جو اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں۔ وہ مقاصد اچھی اور باوقار زندگی اور قدرتی دنیا میں طاقت، ارادہ، پہل اور تخلیقی صلاحیتتوں کا حصول ہے۔ ایسی تہذیب قرآن اور اسلام کی تعلیمات کی بنیاد پر رکھی گئی ہے اور ہر جگہ اور ہر زمانے میں انسانوں کی تمام روحانی اور مادی جہتوں کو شامل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ تہذیب جس کی بنیاد مذہبی اخلاقیات پر ہے، متحرک ہے اور اس میں حرکت اور تعامل شامل ہے۔

امام خمینی اور رہبر انقلاب اسلامی کی نظر میں اسلامی تہذیب سے مراد ایک خارجی اور تاریخی حقیقت ہے، جو پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں تشکیل پائی اور بعد میں پھیل گئی۔ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کی ذمہ داری اور اسلام کی روشنی کو پھیلانے کے ساتھ ایک نئے الہیٰ ترقی پسند مکتب کی منفرد خصوصیات کے ساتھ تہذیب کا ایک نیا چہرہ دکھایا۔ اس نئی تہذیب نے جزیرہ نما عرب کی سرزمین میں جڑ پکڑی۔ ایک ایسی سرزمین جس میں اس وقت تہذیب کے سب سے کم مظاہر تھے اور دنیا تاریکی میں تھی اور عظیم تہذیبیں جیسے قدیم ایران، روم اور یونان کی تہذیبیں زوال پذیر تھیں۔ اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے ایک ایسی اسلامی تہذیب کی تعمیر کی، جس نے فکر، عقیدہ، سائنس، فنون لطیفہ، صنعت، سیاسی، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، حتیٰ کہ عسکری اور حفاظتی تعلقات میں انقلاب برپا کیا۔ اسلامی تہذیب کی بنیاد قرآن اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ جو مسلمان مفکرین کی کوششوں سے تشکیل پائی اور دنیا میں تہذیب کا ایک نیا مفہوم پیدا ہوا۔

کھلا ثقافتی ماحول، اخلاقی نظم و ضبط کو وسعت دینا، روحانیت کی حکمرانی، سوچ اور فکر کی اصلیت، بہتر معیار زندگی، فلاح و بہبود کی سطح کی بلندی، نسلی اور قبائلی تعصبات سے اجتناب، خود غرضی پر یکجہتی کی فوقیت، علم اور ادب کی ترقی اور غریبوں کا خیال وغیرہ وہ اسلامی تہذیب کے شاندار اجزاء تھے، جن کی اسلام کے عروج کی پہلی چند صدیوں میں نشوونما ہوئی۔ اسلامی تہذیب کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس تہذیب نے کبھی بھی اپنے آپ کو کسی ایک قوم اور نسل تک محدود نہیں رکھا، اس لیے تمام مختلف نسلی گروہوں بشمول عرب، ایرانی، ترک، ہندوستانی، چینی، منگول، افریقی اور یہاں تک کہ دیگر نسلی گروہوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا اور اس سے فائدہ اٹھایا۔

دوسری طرف اس تہذیب نے سائنس اور علم کو بہت اہمیت دی۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اہل بیت (ع) کی بہت سی احادیث لوگوں اور معاشرے میں عام تھیں، جو لوگوں کو علم سیکھنے کی ترغیب دیتی تھیں اور پیغمبر اسلام اور آپ کے اہل بیت (ع) اسے قیمتی اور ضروری سمجھتے تھے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں انسانوں کو اپنی حکمت، علم اور شعور میں اضافہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ علم کی تاریخ کے باپ جارج سارٹن کہتے ہیں: ’’علم میں اس دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں نے دنیا پر چھ صدیوں تک حکومت کی۔ اس کے بعد 250 سال تک وہ عیسائیوں کے ساتھ ملکر علم کی عالمی تحریک کے علمبردار رہے۔"

اخلاقیات کو اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھنے کے بنیادی اصولوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں "اچھے اخلاق" کی ترویج اسلامی تہذیب کی ایک اور اہم خصوصیت تھی، جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں صبر، تحمل اور بردباری جیسی صفات میں اضافہ ہوا۔ اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی تہذیب کی تشکیل کے اہداف میں سے ایک ایسا سیاق و سباق پیدا کرنا ہے، جس میں مسلمان اسلامی اخوت اور محبت کی لڑی میں پرو کر اختلافات کو کم کریں اور اتحاد کے نکات کو زیادہ سے زیادہ اہم سمجھیں۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور باہمی مشترکات کی طرف توجہ کے مسئلہ پر رہبر انقلاب کی پر زور تاکیدات اسی تناظر میں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں ہر سال وحدت اسلامی کے موضوع پر کانفرنسوں کا انعقاد اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران ان جیسے دیگر پلیٹ فارم بنا کر مسلمانوں کے درمیان اخوت اور محبت کے جذبے کو بڑھانے اور ایک نئی اسلامی تہذیب کے ظہور کے لیے مرکزی پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کرتا چلا آرہا ہے۔

نئی اسلامی تہذیب کے احیاء کا مطلب ماضی میں واپس جانا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پچھلی تہذیب کے سرمائے کو جدید تہذیب کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے اور ایران کا اسلامی انقلاب اپنی صلاحیتوں کے ساتھ نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایرانی مفکرین میں سے ایک سید حسین نصر اپنی کتاب "معرفت جاودان" میں لکھتے ہیں: "ایران کے اسلامی انقلاب اور نئی اسلامی تہذیب کے درمیان تعلق کا مطالعہ کرتے ہوئے، یہ کہنا چاہیئے کہ اسلامی انقلاب جدید اسلامی تہذیب کا نقطہ آغاز ہے اور اسلامی انقلاب ماضی کے تجربات اور فتوحات اور شکستوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اس سمت میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔"

اسلامی انقلاب کے ذریعے نئی اسلامی تہذیب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مذہب ترقی سے متصادم نہیں ہے، بلکہ اسلامی قانون میں موجودہ صفات کیوجہ سے سماجی انصاف اور مساوات کو نافذ کیا جا سکتا ہے، جو اقتصادی اور سیاسی ترقی وغیرہ میں تمام لوگوں کے لئے سودمند ہے۔ درحقیقت اسلامی تہذیب کا احیاء نئے حل تلاش کرنے کی کوشش ہے، جس میں تباہ کن مغربی ثقافت کی کوئی جگہ نہیں۔ دنیا میں طبقاتی فرق اور طاغوت کی حکمرانی کو ختم کرکے ایک نئی تہذیب کی تشکیل، جس کی بنیاد عدل پر ہو، سب سے اہم ہے۔ اسلامی انقلاب نے علم کے میدان بالخصوص، صنعتی، فوجی، طبی ،دوا سازی، ایٹمی ٹیکنالوجی میں ترقی اور خود کفالت و خود انحصاری کے میدانوں یہ ثابت کر دیا کہ پابندیوں کے مشکل ترین حالات میں بھی اسلامی حکومت چل سکتی ہے۔

مسلم اقوام اسلامی جمہوریہ کے مزاحمت اور پیشرفت کے ماڈل پر عمل کرتے ہوئے یکجہتی اور ہمدردی کو بڑھا کر نیز خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہو کر ترقی حاصل کرسکتی ہیں۔ اگر مسلمانوں میں روحانیت، علم اور اخلاقیات پر توجہ دی جائے تو نئی اسلامی تہذیب بھی زندہ ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں عالم اسلام کے مفکرین کا اہم کردار ہے۔ ان پر فرض ہے کہ وہ بیداری اور بصیرت پیدا کرکے مسلمانوں کو نئی اسلامی تہذیب کے مقاصد اور نظریات سے آگاہ کریں اور اس آزاد تہذیب کی تعمیر میں اپنے اہم اور سنجیدہ کردار سے بے خبر نہ رہیں۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی