سلیمانی

سلیمانی

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی سپریم کونسل کے رکن آیت اللہ "محسن مجتہد شبستری" 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

مرحوم تہران کے ہسپتال امام حسین (ع) میں دل کا دورہ پڑنے سے رخصت ہو گئے۔
آیت اللہ مجتہد شبستری امام خمینی (رہ) کے شاگردوں میں سے تھے اور اسلامی انقلاب کی تحریک میں پیش پیش رہتے تھے انقلاب کی کامیابی کے بعد مجلس شورای اسلامی میں نمایندگی جیسی ذمہ دارویوں کو اپنے دوش پر لیا۔

1994 میں رہبر انقلاب اسلامی نے مرحوم شبستری کو تبریز کا امام جمعہ منصوب کیا اور تقریبا 25 سال تک اس منصب پر فائز رہے۔

آپ اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی سپریم کونسل کے سربراہ، تبریز کے امام جمعہ، جامعہ روحانیت کے رکن، مجلس خبرگان رہبری کی نمایندگی اور مجمع تشخیص مصلحت نظام کے رکن جیسے مناصب پر رہ کر دین اور انقلاب کی خدمت کرنے میں مصروف رہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں نماز جمعہ حجۃ الاسلام والمسلمین حاج علی اکبری کی امامت میں منعقد ہوئی ، جس میں طبی پروٹوکول کی رعایت کے ساتھ عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ نماز جمعہ کے خطیب نے ایٹمی مذاکرات کی طرف اشارہ ہوئے کہا ہے کہ ہمارے مذاکرات کاروں کو  امریکہ اور تین یورپی ممالک کی منہ زوری اور بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے بہانوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔خطیب جمعہ نے ایرانی مذاکرات کاروں پر زوردیا کہ وہ ایرانی عوام کے حقوق کے حصول اور ظالمانہ پابندیوں کے خاتمہ کے سلسلے میں تلاش و کوشش جاری رکھیں۔

خطیب جمعہ نے رضاکار سوچ کو معجز نما قراردیتے ہوئے کہا کہ ملک میں رضاکار سوچ تک پہنچنے میں کافی فاصلہ موجود ہے اور ملک بھر میں رضاکار اور بسیجی سوچ کے فروغ کے سلسلے میں تلاش وکوشش کرنی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ رضاکار اور بسیجی سوچ کے ذریعہ ہم دشمن کے تمام منصوبوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔

خطیب جمعہ نے عوام کو درپیش معاشی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ حکام کو عوام کی معاشی مشکلات کو دور کرنے کے سلسلے میں اپنی تلاش و کوشش اور جد وجہد کو مضاعف کرنا چاہیے۔

حجۃ الاسلام حاج اکبری نے گذشتہ 40 سال کے عرضہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا کہ بسیچی اور رضاکار سوچ جس میدان میں بھی وارد ہوئی وہاں اس نے انقلاب برپا کیا ہے لہذا ہمیں ملکی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ملک بھر میں بسیجی اور رضاکار سوچ کو فروغ دینا چاہیے اور اس سلسلے میں باہمی اتحاد، یکجہتی اور تعاون کی سخت ضرورت ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطین الیوم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فلسطین کی تنظيم حماس کے بیرونی امور کے سربراہ خالد مشعل نے اسرائيل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے عرب اور مسلم حکمرانوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے عرب اور مسلم حکمراں خائن اور غدار ہیں۔

خالد مشعل نے کہا کہ غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ صلح کے تمام اجلاس ناکام ہوگئے ہیں اور اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ اب سفارتی معاہدے کرکے ان پر اپنا تسلط جمانے کی کوشش کررہا ہے اور نادان عرب حکمراں خطے میں دانستہ طور اسرائيل کو مدد فراہم کررہے ہیں۔ اس نے کہا کہ  امت مسلمہ اور فلسطینی عوام ، عرب حکمرانوں کی اس خيانت کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ حماس کے رہنما نے کہا کہ فلسطینی عوام اپنے حقوق کے حصول کی جد وجہد جاری رکھیں گے۔

حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ الحاج حافظ بشیر حسین نجفی کے مرکزی دفتر نجف اشرف میں آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ کے ترجمان مولانا مرزا محمد یعسوب عباس صاحب کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کی زیارتیں مقبول بارگاہ ایزدی ہوں کے لئے دعائیں فرمائیں ۔

مرجع عالیقدر نے ان سے فرمایا کہ یہ دفتر تمام شیعوں کا ہے اور ان کی ہر ممکنہ خدمت ہمارے لئے شرف ہے حتی المقدور مومنین کی خدمت اپنے لئے شرف سمجھتے ہوئے ان شاء اللہ کرتے رہینگے، ہندوستان سے عراق مقامات مقدسہ و عتبات عالیات کی زیارتوں پر مومنین کے نہ آپانے کے پس منظر میں انہوں نے فرمایا کہ ہم حتی المقدور کوششیں کر رہے ہیں تاکہ دیگر ممالک کی طرح ہندوستان سے بھی زائرین با آسانی زیارت کو آسکیں ۔

موصوف نے مرجع عالی کے فرزند اور مرکزی دفتر کے مدیر حجۃ الاسلام شیخ علی نجفی سے بھی ملاقات کی اور ہندوستان میں مومنین کے حالات خصوصا زائرین کی خدمت کے امور زیر گفتگو آئے۔ انہوں نے فرمایا کہ مرجع عالی قدر کے حکم سے میں شروع سے زائرین کے معاملات کو دیکھ رہا ہوں اور اپنی جانب سے پوری کوشش ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے آنے والے زائرین کو کسی دقت اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے خاص کر ہندوستان سے زائرین کے نہ آپانے کے مسئلہ پر انہوں نے کہا کہ ہم پوری کوششیں کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ امید کرتے ہیں کہ دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان سے بھی زائرین مقامات مقدسہ اور عتبات عالیات کی زیارت کو آسکیں گے ۔

اپنی جانب سے موصوف مہمان نے مرجع عالی قدر دام ظلہ الوارف اور انکے فرزند کا انکی نصیحتوں، قیمتی وقت دینے اور حسنِ استقبال پر شکریہ ادا کیا۔
 
http://www.taghribnews.com/vdcbfzbsfrhb55p.kvur.html
 

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اسلامی جمہوریہ ایران اور طالبان کے ورکنگ گروپ کا اجلاس ہوا۔

ایران اور طالبان کے ورکنگ گروپ کے اجلاس میں ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، سکورٹی، سرحدی، توانائی اور مہاجرت کے معاملوں سے متعلق سات کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں۔

افغانستان کے معاملوں میں ایران کے نمائندے حسن کاظمی قمی اور کابل میں ایران کے سفیر بہادر امینیان ایران کے اقتصادی معاملوں کے عہدیداروں کے ساتھ اس اجلاس میں شریک ہوئے، جبکہ طالبان کی طرف سے زراعت، ہجرت، اقتصاد اور تجارت و صنعت کے وزراء شامل ہوئے۔

حسن کاظمی قمی پیر کی صبح ایک وفد کے ساتھ افغانستان پہونچے تھے۔

Wednesday, 17 November 2021 20:09

موساد کی نابودی قریب

 
گذشتہ ہفتے کے آخر میں غاصب صہیونی رژیم کے مختلف ذرائع ابلاغ نے صہیونی جاسوسی ادارے موساد کے تین اعلی سطحی عہدیداران کے مستعفی ہو جانے کی خبر دی۔ اس خبر کے مطابق موساد کے نئی بھرتی کے سربراہ، ٹیکنالوجی کے سربراہ اور اینٹی ٹیروریزم شعبے کے سربراہ نے استعفی پیش کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ فیصلہ موساد کے نئے سربراہ ڈیوڈ بارنیا کی جانب سے انجام پانے والے اقدامات کے خلاف اعتراض کی صورت میں کیا ہے۔ یاد رہے ان تین اعلی سطحی عہدیداران کا عہدہ فوج میں جنرل کے برابر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ موساد کے اسٹریٹجک وار شعبے کے سربراہ بھی استعفی دینے کے خواہاں ہیں۔ صہیونی ذرائع ابلاغ نے ان واقعات کو "شدید زلزلہ" اور "کاری ضرب" کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے استعفی کی اصل وجہ ڈیوڈ بارنیا کی جانب سے ایجنسی کے اسٹرکچر میں بنیادی تبدیلیاں انجام دینا ہے۔
 
ڈیوڈ بارنیا گذشتہ ماہ صہیونی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے نئے سربراہ مقرر کئے گئے ہیں۔ ان کی عمر 56 سال ہے اور وہ 2019ء سے موساد کے نائب سربراہ کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ وہ اپنے اسم مستعار "ڈیڈی" سے معروف ہیں۔ موساد کا حالیہ بحران اس وقت شروع ہوا جب دو ہفتے پہلے الجزیرہ نیوز چینل نے ایک ویڈیو شائع کی جس میں "تحریک آزادی" نامی ایک نامعلوم گروہ نے موساد کے دو اعلی سطحی افسران کو اغوا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ موساد کے یہ دو افسر اغوا کئے جانے کے وقت ملک سے باہر اہم مشن پر تھے۔ اس ویڈیو میں ایک اغوا شدہ موساد کا افسر جس نے اپنا نام "ڈیوڈ بن روزی" بتایا یہ کہتا ہوا دکھائی دیتا ہے: "ہم دو اسرائیلی شہری ہیں۔ ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ ہم انتہائی خوفناک صورتحال کا شکار ہیں۔ میرا دوست بیری شدید بیمار ہے۔"
 
اغوا ہونے والے موساد کے دوسرے افسر کا نام ڈیوڈ بیری ہے۔ تحریک آزادی نامی گروہ نے ان اسرائیلی افسران کی تصاویر شائع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے پاسپورٹ کی تصاویر بھی جاری کر دی ہیں۔ اس گروہ نے اعلان کیا ہے کہ موساد کے یہ دونوں افسر محفوظ مقام پر ہیں۔ اسی طرح اس گروہ نے ان افسران کی آزادی کو صہیونی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی آزادی سے مشروط کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس واقعے کے ساتھ ساتھ صہیونی جاسوسی ادارے موساد پر ایک اور کاری ضرب بھی وارد ہوئی ہے۔ ہیکرز کے ایک گروپ نے غاصب صہیونی رژیم کے حساس اداروں کو ہیک کر کے انتہائی خفیہ اور حساس معلومات انٹرنیٹ پر شائع کر دی ہیں۔ ان معلومات میں صہیونی رژیم کے حساس فوجی بیسز کی پوزیشن اور اعلی سطحی سکیورٹی و فوجی عہدیداران کی معلومات شامل ہیں۔
 
اس کے بعد اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کو تیسرا شدید دھچکہ اس وقت لگا جب "عصائے موسی" یا Moses staff نامی ہیکرز گروپ نے صہیونی رژیم کی انتہائی خفیہ اور حساس فوجی و سکیورٹی معلومات فاش کر دیں۔ حال ہی میں اس گروپ نے صہیونی رژیم کے انفرااسٹرکچر کے تھری ڈی نقشہ جات بھی ڈارک وب میں شائع کر دیے ہیں۔ یہ نقشے پورے مقبوضہ فلسطین میں ہر قسم کی فوجی و سکیورٹی تنصیبات کی ٹھیک ٹھیک معلومات ظاہر کرتے ہیں۔ عصائے موسی نے اپنے اس اقدام کے بارے میں ایک بیانیہ بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے: "عالمی برادری صہیونی مجرم حکومت کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے جس کی ایک مثال گوگل میپس پر مقبوضہ فلسطین کے نقشے نہ ہونا ہے۔ لیکن ہم نے صہیونی رژیم کے انفرااسٹرکچر سے متعلق تھری ڈی نقشوں پر مبنی 22 ٹیرابائٹ ڈیٹا سوشل میڈیا پر شائع کر دیا ہے۔"
 
اس گروپ نے اپنے پیغام کے آخری حصے میں کہا کہ شائع شدہ تصاویر اور ویڈیوز ان معلومات کا چھوٹا سا حصہ ہے جو ہم نے اسرائیلی کمپنیوں کے بارے میں حاصل کی ہیں۔ اس گروپ نے غاصب صہیونی فوج کی انتہائی خفیہ اور حساس یونٹ جو 8200 کے نام سے جانی جاتی ہے، میں شامل افسران اور فوجیوں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں۔ اس یونٹ کا اصل کام جدید ترین الکٹرانک آلات کی مدد سے جاسوسی کرنا ہے۔ حال ہی میں یروشلم پوسٹ نے بھی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "کالا سایہ" نامی ہیکرز گروپ نے اسرائیل کی انٹرنیٹ کمپنیوں کے سرورز کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ اس گروہ نے دھمکی دی ہے کہ وہ ان سرورز سے حاصل شدہ تمام معلومات کو منظرعام پر لے آئے گا۔ صہیونی رژیم کے فوجی و سکیورٹی ماہرین نے Black Shadow نامی اس گروپ کے حملوں کو کامیاب قرار دیا ہے۔
 
اگرچہ صہیونی ذرائع ابلاغ، موساد کے مذکورہ بالا اعلی سطحی عہدیداران کے مستعفی ہونے کی اصل وجہ اس جاسوسی ادارے کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں قرار دے رہے ہیں لیکن گذشتہ چند ماہ میں رونما ہونے والے واقعات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد زوال اور نابودی کی جانب گامزن ہے۔ سائبر حملوں کا مقابلہ کرنے میں ناکامی، حماس کے مقابلے میں انٹیلی جنس، فوجی اور سکیورٹی ناکامیاں اور دنیا کے مختلف ممالک میں موساد کے ایجنٹس اور نیٹ ورکس فاش ہو جانے جیسے واقعات نے موساد کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ حالیہ سائبر حملوں نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں موساد کی کمزوری کو بہت واضح کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی جاسوسی ادارہ اپنے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ یوں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اپنے جعلی حدود میں ہی پھنس کر رہ گئی ہے۔

تحریر: محسن ایران دوست
بشکریہ:اسلام ٹائمز

رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران کے ممتاز دانشوروں، اساتذہ اور غیر معمولی ذہانت کے حامل نوجوان طلبا و طالبات سے ملاقات میں فرمایا ہے کہ ہمارا ملک ذہنی استعداد و صلاحیت کے لحاظ سے دنیا کی متوسط سطح سے بالاتر ہے اور یہ محض کوئی دعوی نہیں ہے بلکہ یہ چیز ثابت شدہ ہے۔

آپ نے فرمایا کہ درحقیقت ہمارا ملک اور ہمارے عوام ذہنی استعداد کے لحاظ سے غیر معمولی ذہانت کے مالک ہیں اسی لئے سامراجی طاقتیں ایک عرصے سے ہم پر سافٹ وار مسلط کئے ہوئے ہیں۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ گزشتہ دو سو برسوں سے سامراج اور ایران کے اس وقت کے حکام ایک آواز ہو کر یہ پروپیگنڈہ کرتے تھے کہ ایرانی عوام میں استعداد و صلاحیت نہیں پائی جاتی لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی نے اس جھوٹے پروپیگنڈے پر خط بطلان کھینچ دیا۔

رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایاکہ سامراجی طاقتوں کی نرم جنگ یا سافٹ وار کا ایک طریقہ جو ہمیشہ رہا ہے اور آج بھی جاری ہے اور ماضی میں کچھ زیادہ ہی تھا، وہ یہ ہے کہ ہماری قوم اور اسی طرح دیگر قوموں کو جو کہ غیرمعمولی ذہانت کی مالک ہیں، ان کی توانائیوں سے غافل کریں اور ان کو اس طرح بنادیں کہ وہ خود اپنی توانائیوں کا ہی انکار کرنے لگیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر کسی قوم میں یہ سوچ پیدا ہوجائے کہ اس کے اندر صلاحیت نہیں پائی جاتی تو اس کو لوٹنا اور تباہ و برباد کرنا آساں ہو جاتا ہے۔

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھپھو ہیں۔ آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ھجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ ممتاز عالم دین شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں"۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام ھشتم علی رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ اگرچہ زمانے نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی مسلسل گرفتاریوں اور زودھنگام شہادت کے ذریعے آپ سے باپ کی محبت چھین لی تھی لیکن بڑے بھائی کے شفقت بھرے ہاتھوں نے آپ کے دل پر غم کے بادل نہیں آنے دیئے۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے سخت مانوس تھیں، انہیں کے پر مھر دامن میں پرورش پائی اور علم و حکمت اور پاکدامنی اور عصمت کے اس بے کران خزانے سے بہرہ مند ہوئیں۔ آپ کے مزید القاب میں طاہرہ، عابدہ، رضیہ، تقیہ، عالمہ، محدثہ، حمیدہ اور رشیدہ شامل ہیں جو اس عظیم خاتون کے فضائل اور خوبیوں کا ایک گوشہ ظاہر کرتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیعیان اہل بیت س کا ایک گروہ کافی دور سے امام موسی کاظم علیہ السلام کی زیارت کیلئے آیا لیکن آپ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اس گروہ میں شامل افراد امام علیہ السلام سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے تھے جو انہوں نے لکھ کر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کو سونپ دیئے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے ان تمام سوالات کے جوابات لکھ کر دوسرے دن انہیں واپس کر دیئے۔ واپس جاتے ہوئے اس گروہ کی امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے اس واقعے کی خبر امام علیہ السلام کو دی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے وہ سوالات اور جوابات دکھاو۔ جب امام علیہ السلام نے ان سوالات اور جوابات کو دیکھا تو فرمایا: "ابوھا فداھا" یعنی ایسی بیٹی کا باپ اس کے صدقے جائے۔ 200 ھجری قمری میں امام علی رضا علیہ السلام کو زبردستی مرو لائے جانے اور تقریباً ایک سال تک اہل بیت س کا آپ سے بے خبر رہنے پر حضرت فاطمہ معصومہ س کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اپنے بھائی کی خیریت سے واقفیت کی خاطر آپ 201 ھجری قمری میں مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ جو پیش آیا اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں تفصیلی معلومات موجود نہیں ہیں لیکن تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ جب آپ ایران کے شہر "ساوہ" پہنچیں تو سخت بیمار ہو گئیں۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ وہ قریب ہی دوسرے شہر "قم" کا رخ کریں۔ جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے قم آنے کی خبر سعد اشعری کے خاندان تک پہنچی تو انہوں نے آپ کا استقبال کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں میں سے ایک شخص موسی بن خزرج رات کو ہی اس مقصد کیلئے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ وہ سب سے پہلے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور ان کی اونٹنی کی مہار تھام کر انہیں قم تک لے آیا۔

اہل قم کی طرف سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کا پرتپاک استقبال:

 علامہ مجلسی رہ تاریخ قدیم [378 ھجری قمری میں بڑے دانشمند حسن بن محمد کی طرف سے لکھی گئی] سے نقل کرتے ہیں: صحیح قول یہ ہے کہ جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے ساوہ آنے اور ان کے بیمار ہونے کی خبر آل سعد [عرب اشعری شیعہ خاندان] کو ملی تو انہوں نے ساوہ جانے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کو اپنے ساتھ قم لانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں موسی بن خزرج بن سعد اشعری بھی موجود تھا۔ جب وہ ساوہ پہنچے تو موسی بن خزرج نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے اونٹ کی مہار کو تھام لیا اور قم تک لے آیا۔ وہ انہیں اپنے گھر لے گیا۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا تقریباً 16 یا 17 دن تک اس کے گھر میں رہیں اور پھر فوت ہو گئیں۔ چونکہ آپ کا روز شہادت 10 یا 12 ربیع الثانی ہے لہذا یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قم میں آپ 23 ربیع الاول 201 ھجری قمری کو داخل ہوئیں۔ قم کے اکثر لوگ اہل بیت س سے محبت کرنے والے تھے لہذا حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے یہاں آنے پر انتہائی خوش ہوئے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا جتنے دن زندہ رہیں اپنے بھائی امام علی رضا علیہ السلام کی جدائی میں روتی رہیں۔ موسی بن خزرج کے گھر میں ایک جگہ عبادت کیلئے مخصوص تھی جہاں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا عبادت کیا کرتی تھیں۔ یہ جگہ آج بھی موجود ہے اور وہاں پر ایک مسجد تعمیر کر دی گئی ہے۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی رحلت اور کفن و دفن:

جس جگہ پر ابھی حضرت معصومہ س کی قبر مطہر ہے یہ اس زمانے میں "بابلان" کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ پر مشتمل تھی۔ حضرت معصومہ س کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ س کے بدن اقدس کو اس قبر میں ڈالے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ س کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کر کے چلے گئے۔ کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کے صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ س کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب چہروں والے سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ائمہ معصومین علیھم السلام کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ انکی نماز جنازہ اور انکا دفن صرف معصوم ہستی ہی انجام دے سکتی ہے۔ لیکن کچھ ممتاز ہستیاں اس امر میں معصومین علیھم السلام کے ساتھ شریک ہیں۔ ان میں سے ایک شخصیت حضرت ابوالفضل العباس علمدار علیہ السلام کی ہے۔ حضرت عباس علمدار علیہ السلام کو حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے دفن کیا۔ جب ان کے ساتھیوں نے ان کو مدد کرنے کو کہا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: "ان معنی یعیننی" یعنی میرے ساتھ [فرشتگان اور ملکوتیان] ہیں جو مجھے اس کام میں مدد کر رہے ہیں۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی شخصیت اور خصوصیات:

 قم میں باعظمت امامزادگان کی قبور کی تعداد تقریباً 400 ہے۔ ان سب کے درمیان وہ درخشان ستارہ جس کی روشنی سے قم کا آسمان روشن ہے اور وہ چاند جسکی روشنی کی وجہ سے تمام ستارے ماند پڑ گئے ہیں، شفیعہ محشر، کریمہ اہل بیت علیھم السلام، امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر مطہر ہے۔ "قاموس الرجال" کے مصنف علامہ حاج محمد تقی تستری لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کے تمام فرزندان میں امام علی رضا علیہ السلام کے علاوہ کوئی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے ہم پلہ نہیں ہے"۔ عظیم محدث جناب شیخ عباس قمی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: "جو معلومات ہم تک پہنچیں ہیں انکے مطابق ان میں سب سے افضل سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت موسی علیہ السلام ہیں جو معصومہ کے لقب سے معروف ہیں"۔ آپ کی شخصیت کے بے کران فضائل کا ایک گوشہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔

۱۔ قیامت کے دن وسیع پیمانے پر محبان اہل بیت علیھم السلام کی شفاعت:

 شفاعت کا بالاترین درجہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مخصوص ہے جس کو قرآن مجید میں "مقام محمود" کا نام دیا گیا ہے۔ اس شفاعت کی وسعت کو "ولسوف یعطیک ربک فترضی" میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاندان کی دو خواتین کو بھی وسیع پیمانے پر شفاعت کا حق عطا کیا گیا ہے، ایک صدیقہ اطہر حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور دوسری شفیعہ روز جزا حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا ہیں۔ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی وسیع شفاعت کے بارے میں یہ روایت ہی کافی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ محشر کے دن امت محمدی کے گنہگار افراد کی شفاعت آپ سلام اللہ علیھا کے مہریہ میں شامل ہے۔ روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی شادی کے موقی پر جبرائیل خداوند متعال کی طرف سے ایک ریشمی تختی لائے جس پر لکھا تھا: "خداوند عالم نے امت محمدی کے گنہگار افراد کی شفاعت کو فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا مہریہ قرار دیا ہے"۔ یہ حدیث برادران اہلسنت نے بھی نقل کی ہے کہ: "حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے بعد وسیع پیمانے پر شفاعت کرنے میں کوئی خاتون شفیعہ محشر، حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا بنت امام موسی کاظم علیہ السلام کے ہم پلہ نہیں ہے"۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "تدخل بشفاعتہا شیعتناالجنۃ باجمعھم" یعنی ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعیان بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔

۲۔ عصمت:

 اس روایت کے مطابق جو مرحوم سپھر نے "ناسخ" میں امام علی رضا علیہ السلام سے نقل کی ہے، حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کو امام علی رضا علیہ السلام نے معصومہ کا لقب عطا کیا ہے۔ اس روایت کے مطابق امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: "من زار المعصومۃ بقم کمن زارنی" یعنی جس نے قم میں معصومہ سلام اللہ علیھا کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی۔ اس روایت کو مرحوم محلاتی نے بھی نقل کیا ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ عصمت چودہ معصومین علیھم السلام تک محدود نہیں ہے بلکہ تمام انبیاء علیھم السلام اور فرشتے بھی معصوم ہیں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور بارہ امام علیھم السلام کا "چودہ معصوم" کے طور پر معروف ہو جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ گناھان کبیرہ اور صغیرہ سے محفوظ ہونے کے علاوہ ترک اولی، جو عصمت کے منافی نہیں ہے، سے بھی مبرا ہیں۔ مرحوم مقرم اپنی باارزش کتابوں "العباس" اور "علی اکبر" میں حضرت ابوالفضل العباس علمدار علیہ السلام اور حضرت علی اکبر علیہ السلام کے معصوم ہونے کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ مرحوم نقدی اپنی کتاب "زینب الکبری" میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی عصمت کو ثابت کرتے ہیں۔ اسی طرح "کریمہ اہلبیت" کے مصنف حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی عصمت کے دلائل پیش کرتے ہیں۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کا اسم مبارک "فاطمہ" ہے اور اپنی زندگی میں انہیں کبھی معصومہ کا لقب نہیں ملا، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا ان کو یہ لقب عطا کرنا انکی عصمت پر دلیل ہے۔

۳۔ فداھا ابوھا:

آیت اللہ سید نصراللہ مستنبط کتاب "کشف اللئالی" سے نقل فرماتے ہیں کہ ایک دن کچھ شیعیان اہلبیت علیھم السلام مدینہ میں داخل ہوئے۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے جن کا جواب وہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے لینا چاہتے تھے۔ امام علیہ السلام کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات لکھ کر امام علیہ السلام کے گھر دے دیئے کیونکہ وہ جلد واپس جانا چاہتے تھے۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا گھر میں موجود تھیں۔ آپ نے ان سوالات کو پڑھا اور انکے جواب لکھ کر انہیں واپس کر دیا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مدینہ سے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ مدینہ سے باہر نکلتے ہوئے اتفاق سے امام موسی کاظم علیہ السلام سے انکی ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ جب امام علیہ السلام نے انکے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور تین بار کہا: "فداھا ابوھا" یعنی باپ اس پر قربان جائے۔ چونکہ اس وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی عمر بہت کم تھی لہذا یہ واقعہ آپ کے بے مثال علم اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔

۴۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کا مزار، حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی تجلی گاہ: اس سچے خواب کے مطابق جو مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی رہ اپنے والد بزرگوار مرحوم حاج سید محمود مرعشی [متوفا 1338 ھجری قمری] سے نقل کرتے ہیں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر مطہر اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی گم شدہ قبر کی تجلی گاہ ہے۔ وہ مرحوم اس کوشش میں تھے کہ جس طرح بھی ہو حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی قبر کا جگہ معلوم کریں۔ اسی مقصد کیلئے انہوں نے ایک چلہ شروع کیا اور چالیس دن تک اسے جاری رکھا۔ چالیسویں دن انہیں حضرت امام باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا: "علیک بکریمہ اھل البیت" یعنی تم کریمہ اہلبیت سلام اللہ علیھا کی پناہ حاصل کرو۔ انہوں نے امام علیہ السلام سے عرض کی: "جی ہاں، میں نے یہ چلہ اسی لئے کاٹا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی قبر کی جگہ معلوم کر سکوں اور اسکی زیارت کروں"۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "میرا مقصود قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر ہے"۔ پھر فرمایا: "کچھ مصلحتوں کی وجہ سے خداوند عالم نے یہ ارادہ کیا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی قبر کسی کو معلوم نہ ہو اور چھپی رہے لہذا اس نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر کو حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی قبر کی تجلی گاہ قرار دیا ہے۔ وہ عظمت جو حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی قبر کیلئے تھی خداوند عالم نے وہی عظمت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر کو عطا کی ہے"۔

۵۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیش گوئی:

 امام جعفر صادق علیہ السلام قم کے مقدس ہونے کے بارے میں ری کے اہالی سے ایک مشہور حدیث میں فرماتے ہیں: "میرے فرزندان میں سے ایک خاتون جس کا نام فاطمہ ہو گا اور وہ موسی بن جعفر کی بیٹی ہو گی قم میں وفات پائے گی، اس کی شفاعت سے تمام شیعیان اہلبیت بہشت میں داخل ہوں گے"۔ راوی کہتا ہے: "میں نے یہ حدیث اس وقت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنی تھی جب امام موسی کاظم علیہ السلام ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے"۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی وفات کے بارے میں آپ کے والد ماجد کی ولادت سے پہلے پیش گوئی کرنا انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے عظیم مقام کی عکاسی کرتی ہے

۶۔ قم کے مقدس ہونے کا راز:

 بہت سی احادیث میں قم کے مقدس ہونے کا ذکر ہوا ہے اور یہ کہ اس کی تصویر حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چوتھے آسمان پر دکھائی گئی۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے قم کے رہنے والوں پر درود بھیجا اور وہاں پر جبرئیل کے قدموں کے نشان ہونے کی خبر دی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے قم کو اہلبیت علیھم السلام کا گھر کہا ہے اور اسکی مٹی کو پاک و پاکیزہ جانا ہے۔ امام موسی کاظم علیہ السلام نے قم کو آل محمد علیھم السلام کا آشیانہ کہا ہے اور خبر دی ہے کہ بہشت کا ایک دروازہ اہالی قم سے مخصوص ہو گا۔ امام علی نقی علیہ السلام نے قم کے لوگوں کو "مغفور لھم" یعنی بخشے گئے لوگ سے تعبیر کیا ہے اور امام حسن عسکری علیہ السلام نے قم کے لوگوں کی حسن نیت کو سراہا ہے اور انکی اچھے الفاظ میں تعریف کی ہے۔ اسی طرح کی دسیوں احادیث جو ائمہ معصومین علیھم السلام سے ہم تک پہنچیں ہیں اس سرزمین اور وہاں پر رہنے والوں کی عظمت اور فضیلت کو ظاہر کرتی ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیئے کہ اس عظمت اور فضیلت کا راز کیا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیش گوئی والی حدیث اس عظمت اور فضیلت کا راز کھولتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ فضیلت اور عظمت ریحانہ پیغمبر، کریمہ اہلبیت، خاتون اسلام حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر مبارک کی وجہ سے ہے۔

۷۔ امام علی رضا علیہ السلام کی اکلوتی بہن:

 امام موسی کاظم علیہ السلام کی زوجہ گرامی جناب نجمہ خاتون نے دو بچوں کو ہی پالا جن کے نام امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا ہیں۔ محمد بن حریر طبری، پانچویں صدی ھجری کے ایک ممتاز شیعہ عالم دین، نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 25 سال تک امام علی رضا علیہ السلام جناب نجمہ خاتون کی اکلوتی اولاد تھے۔ ایک چوتھائی صدی کے انتظار کے بعد سرانجام ایک تابناک ستارہ جناب نجمہ خاتون کے دامن میں طلوع ہوا جو امام علی رضا علیہ السلام کیلئے خوشی کا باعث تھا اور آپ نے اپنے تمام برادرانہ عواطف ان پر نچھاور کر دیئے۔ ان بہن بھائیوں کے درمیان گہری محبت پائی جاتی تھی۔ امام موسی کاظم علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک واقعہ میں جس میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کا کردار بھی ہے جب نصرانی ان سے پوچھتا ہے کہ آ پ کون ہیں تو وہ فرماتی ہیں: "انا المعصومہ اخت الرضا" یعنی میں معصومہ امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ ہوں۔ اس تعبیر سے ان کے دل میں اپنے بھائی کیلئے پائی جانے والی بے حد محبت کو سمجھا جا سکتا ہے۔

۸۔ دعوت نامہ:

 ان دونوں بہن بھائیوں کے درمیان محبت اور انس انتہائی گہرا تھا۔ لہذا امام علی رضا علیہ السلام کی جدائی حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کیلئے سخت مشکل تھی۔ یہ جدائی امام علی رضا علیہ السلام کیلئے بھی قابل برداشت نہیں تھی۔ لہذا مرو میں مستقر ہونے کے بعد امام علی رضا علیہ السلام نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کو ایک خط لکھا اور ایک بااعتماد غلام کے ذریعے اس کو مدینہ بھجوایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے غلام کو دستور دیا کہ رستے میں کہیں نہ رکے تاکہ وہ خط جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچ سکے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا بھی خط ملتے ہی آمادہ سفر ہو گئیں اور مدینہ سے ایران کی طرف روانہ ہو گئیں۔

امریکی چھانیوں میں محصور دسیوں ہزار افغان پناہگزیں انتہائی کس مپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

روزنامہ ہافنگٹن پوسٹ کے مطابق، کم سے کم پچاس ہزار افغان پناہنگزینوں کو ویکسینیشن کے باوجود، امریکی  فوجی چھاونیوں میں انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں رکھا جا رہا ہے۔ 

بعض پناہ گزینوں نے مذکورہ جریدے کو بتایا ہے کہ سخت سردی کے باوجود انہیں گرم کپڑے فراہم نہیں کیے گئے اور وہ کیمپوں میں سردی کی شدت سے پریشان ہیں۔

گزشتہ روز ابوظہبی کے پناہ گزین کیمپ میں موجود سیکڑوں افغان شہریوں نے مظاہرے بھی کیے تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے تین ماہ سے کس مپرسی کے عالم میں زندگی بسر  کر رہے ہیں اور انہیں امریکہ  لے جانے کے معاملے میں بھی لیت لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔

میڈیا رپورٹوں میں بتایا  گیا ہے کہ ابو ظہبی میں مقیم تقریبا دس ہزار افغان پناہگزینوں کو امریکہ یا کسی دوسر یورپی ملک منتقل کیے جانے کے بارے میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔