سلیمانی

سلیمانی

ایران کی بحریہ کے کمانڈر ریئر ایڈمرل شہرام ایرانی کا کہنا ہے کہ روس اور چین نے ایران کے ساتھ مشترکہ بحری مشقوں کے انعقاد کے لیے اپنی تیاری کا عندیہ دیا ہے۔

اتوار کو ایرانی اسٹوڈنٹس نیوز ایجنسی (ISNA) کے ساتھ ایک انٹرویو میں ایرانی کمانڈر نے کہا کہ ملک کی بحریہ سالانہ مشقیں کرتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ "ہم اس سال بھی مشقیں کریں گے۔"

ایرانی نے نوٹ کیا، "ہم نے مختلف ممالک کو مشقوں میں حصہ لینے کی دعوت دی ہے، اور روس اور چین نے اب تک ایسا کرنے کے لیے اپنی تیاری کا اظہار کیا ہے۔"

کمانڈر نے مزید کہا کہ ایران کی مسلح افواج کے مختلف یونٹ دوسرے ممالک کے ساتھ مشترکہ مشقوں میں حصہ لیتے ہیں۔

تہران میں روس کے سفیر لیوان زہگاریان نے اگست میں کہا تھا کہ ایران، روس اور چین 2021 کے آخر یا 2022 کے اوائل میں خلیج فارس میں مشترکہ بحری مشقیں کریں گے - جسے CHIRU کہا جاتا ہے، تاکہ بین الاقوامی جہاز رانی کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے اور قزاقی کا مقابلہ کیا جا سکے۔

"اس سال کے آخر یا اگلے سال کے آغاز میں سالانہ مشترکہ بحری مشق CHIRU خلیج فارس کے علاقے میں منعقد کی جائے گی۔ اس میں روسی، ایرانی اور چینی جنگی جہاز حصہ لے رہے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد مشق کرنا ہے۔ بین الاقوامی جہاز رانی کی حفاظت کو یقینی بنانے، اور سمندری قزاقوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات،" Zhagaryan نے Sputnik کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا۔

دسمبر 2019 کے آخر میں، ایران، روس اور چین نے بحر ہند اور بحیرہ عمان کے علاقے میں چار روزہ مشترکہ بحری مشق کا انعقاد کیا۔

مشقیں، جنہیں 'میرین سیکیورٹی بیلٹ' مشق کا نام دیا گیا ہے، 17,000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور اس میں مختلف حکمت عملی کی مشقیں شامل ہیں جیسے کہ ہدف کی مشق کرنا اور جہازوں کو حملے اور آتشزدگی جیسے واقعات سے بچانا۔
 

اقتصادی تعاون تنظیم اکو ایک اہم علاقائی اقتصادی تنظیم ہے جسے 1985 میں تین ممالک ایران ، پاکستان اور ترکی نے تشکیل دیا تھا آج اس تنظیم میں دس علاقائي ممالک شامل ہیں۔

اقتصادی تعاون تنظیم (ECO)  ء 1985 عیسوی میں قائم کی گئی۔ یہ تنظیم ایران، پاکستان اور ترکی نے مل کر قائم کی تھی،اس تنظیم کی تشکیل کا مقصد رکن ممالک کے مابین اقتصادی، تکنیکی اور ثقافتی تعاون کو فروغ دینا تھا۔ یہ تنظیم علاقائی تعاون برائے ترقی (آر سی ڈی) کی جانشین اور اس کا تسلسل ہے جو 1964ء سے 1979ء تک قائم رہی۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد ، 1992ء میں اکو میں 7 نئے ارکان کا اضافہ کیا گیا جس میں افغانستان، آذربائیجان، قزاقستان، قرقیزستان، تاجیکستان، ترکمنستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے رکن ممالک، علاقائی تعاون کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لیے کام کرتے ہیں-اکو تنظیم میں نئے رکن ملکوں کی شمولیت کے ساتھ ہی اس کے رکن ملکوں کو نئے مواقع حاصل ہوئے ہیں- اس کے باوجود ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ اکو کے بانی ممالک اس تنظیم کے علاقائی مفادات کی راہ میں ان مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکے ہیں- اس وقت اکو تنظیم کے دس رکن ممالک ہیں اور تین سو تیس ملین سے زائد افراد ان ملکوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔

اکو تنظیم کی اہمیت کے باوجود، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اقتصادی تنظیم کے کچھ رکن ملکوں نے ، بعض تسلط پسند اور مداخلت پسند حکومتوں کو موقع دے کر اس تنظیم کے بنیادی اصولوں سے دوری اختیار کرلی ہے اور عملی طور پر وہ اکو کے بعض نظریات کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے ہیں- اس بنیادی کمزوری کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ اکوکے رکن ممالک میں اس کا امکان پایا جاتا ہے کہ وہ دیگر حکومتوں سے وابستگی کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

مارچ 2009ءمیں ای سی او سربراہ اجلاس میں رکن ممالک نے یہ عہد کیا تھاکہ وہ 2015تک ای سی او کو آزاد تجارتی خطہ میں تبدیل کر دینگے۔ ترقی پذیر ملکوں کے درمیان علاقائی تعاون کی ضرورت اقتصادی ترقی کےلئے شد و مد سے محسوس کی جاتی رہی ہے۔عمومی طور پر دیکھا جائے تو علاقائی تعاون محض اقتصادی نہیں بلکہ سیاسی ، معاشرتی اورثقافتی اہمیت کا حامل بھی ہے۔

اس علاقائی تنظیم کی ترجیحات میں تجارت ، توانائی، نقل وحمل اور سیاحت کے شعبوں میں فروغ شامل ہے اور اکو کے رکن ممالک ان چار شعبوں میں باہمی تعاون کو عملی جامہ پہنانے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔
تقريب خبررسان ايجنسی 

مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے ترکمنستان کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے اقتصادی تعاون تنظیم اکو کے پندرہویں سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بین الاقوامی تعلقات میں اکو تنظیم کی پوزیشن کو بڑھانے اور مضبوط بنانے پر تاکید کی ہے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ ایران مرکزی، جنوبی اور مغربی ایشیائي ممالک کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے آمادہ ہے ۔ ہمسایہ ممالک اور علاقائي تنظیموں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا ایران کی ترجیحی پالیسیوں کا حصہ ہے۔

علاقائی تنظیموں کا دو جانبہ اور چند جانبہ تعلقات میں اہم کردار

ایرانی صدر سید ابراہیم رئيسی نے علاقائی تنظیموں کی دو جانبہ اور چند جانبہ تعلقات میں سہولیات فراہم کرنے میں اہم نقش ادا کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان اہم تنظیموں میں اقتصادی تعاون تنظیم اکو بھی شامل ہے۔ اکو کو اپنی مادی ظرفیت سے خطے میں اقتصادی رونق اوراقتصادی فروغ کے سلسلے میں اپنے اہم کردار کو ادا کرنا چاہیے۔ اکو تنظیم کے رکن ممالک کی کل آبادی 500 ملین افراد پر مشتمل ہے۔ اس کے پاس دنیا کی ایک تہائی انرجی موجود ہے جبکہ چین، روس، یورپ ، خلیج فارس اور بحر ہند کے ساتھ بھی اس کے اچھے تعلقات ہیں۔ اکو تنظیم کے پاس جوان نسل کا ذخیرہ موجود ہے اور یہ تنظیم اسلام کے ممتاز تشخص کی حامل ہے۔

پانی کے متقاضی ممالک منجملہ ایران کو پانی کی ترسیل پر تاکید

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اکو تنظیم سے خطاب میں کہا کہ پانی کے متقاضی ممالک منجملہ ایران کو پانی کی ترسیل کے منصوبے پر کام ہونا چاہیے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ ایران بھی رکن ممالک کو گیس اور تیل کے شعبوں میں تعلیم و تربیت فراہم کرنے اور گیس و تیل کی ترسیل کو فروغ اور توسیع دینے کے لئے آمادہ ہے۔

ایران کی اکو پولیس کی تشکیل کی تجویز

ایرانی صدر نے اقتصادی تعاون تنظيم اکو کے رکن ممالک کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  ایران اکو کے رکن ممالک کے ساتھ ثقافتی اور تعلیمی تعاون کو فروغ دینے کے لئے آمادہ ہے اور اکو پولیس کی تشکیل اور عدالتی شعبوں میں بھر پور تعاون پیش کرنے کے لئے بھی تیار ہے۔

سیاسی جغرافیائی تبدیلی بحران کا باعث

ایرانی صدر نے کہا کہ سیاسی جغرافیائی حدود میں کسی بھی قسم کی تبدیلی سیاسی بحران کا باعث بنتی ہے اور اس سے خطے میں عدم استحکام کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ قفقاز کے ممالک کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی سرحدوں کی حفاظت اور باہمی احترام  کی روشنی میں اختلافی مسائل کو حل کرنے کی تلاش و کوشش کریں۔

اکو کو افغان عوام کی حمایت جاری رکھنی چاہیے

صدر ابراہیم رئیسی نے افغانستان کے موجودہ اور سخت شرائط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اکو کے رکن ممالک کو افغانستان کی تعمیر نو، افغانستان کی اقتصادی توسیع اور افغان عوام کی حمایت پر توجہ مبذول کرنی چاہیے، افغانستان، اکو کے رکن  ممالک کی آغوش میں ہے اور ہمیں افغان عوام کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔

امریکی مفادات ہمارے علاقائي مفادات کے ساتھ سازگار نہیں

ایرانی صدر نے علاقائی اور عالمی سطح پر امریکہ توسیع پسندانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی طرف سے اکو کی سرگرمیوں اور فعالیتوں کی حمایت کسی قید و شرط کے بغیر جاری ہے ۔ امریکہ کی ظالمانہ پابندیوں سے ایران کے پختہ عزم اور ارادے میں کوئی خلل ایجاد نہیں ہوا۔ امریکہ کا مشترکہ ایٹمی معاہدے سے خارج ہونا غیر قانونی اقدام تھا اور امریکہ نے عالمی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کے خلاف مزید یکطرفہ پابندیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی مفادات ہمارے علاقائی مفادات سے متصادم ہیں۔ علاقائي ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوکر ایکدوسرے کا تعاون کریں اور انسانی و اسلامی اخوت و برادری کا عملی طور پر ثبوت پیش کریں۔ ایران اس سلسلے میں ہر قسم کا تعاون پیش کرنے کے لئے آمادہ ہے۔

Monday, 22 November 2021 20:10

کفرانِ نعمت


کفرانِ نعمت (احسانِ فراموشی) گناہِ کبیرہ ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور اسے چند مقامات پر کفر بھی کہا گیا ہے اور اسے پچھلی قوموں پر عذاب نازل ہونے کا سبب بھی بتایا گیا ہے۔
خدا سورة ابراہیم میں فرماتا ہے: "اور اے بنی اسرائیل اس بات کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے تم کو خبردار کیا تھا کہ اگر میری نعمتوں (ایمان اور نیک اعمال کی بدولت فرعون اور دوسروں کے شر سے نجات) پر شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمتوں میں اضافہ کر دوں گا اور اگر ناشکراپن کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب (ناشکروں یا احسان فراموشوں پر) سخت ہو گا۔" (آیت۷)
خدا سورة البقرہ میں فرماتا ہے: "سو مجھے یاد کرو تاکہ میں تمہیں یاد کروں، میری نعمتوں کا شکر ادا کرو اور کافر نہ ہو۔" (آیت ۱۵۲)

قومِ سبا احسان فراموشی کرتی ہے عذاب بھگتی ہے خداسورة سبا کے باشندوں کے بارے میں یوں فرماتا ہے: "سبا کے قبیلے کے لیے (جو یمن میں تھا) لوگوں کے گھر (ان کی قوت وطاقت، خدا کی نعمتوں کی فراوانی اور ان کی ناشکری پر سخت عذاب اور سزاؤں) کی نشانی تھے اور وہ نشانی یہ ہے کہ اس قبیلے کے دو باغ تھے جو راہ چلنے والے کے دائیں بائیں یا ان کے گھروں کے دونوں طرف واقع تھے (اور کہتے ہیں کہ ان میں سانپ، بچھو، مچھر، چیچڑی اور جوں وغیرہ کی قسم سے کوئی ستانے والا کیڑا نہیں تھا اور اگر کوئی ان درختوں کے نیچے خالی ٹوکری رکھ آتا تھا تو وہ ٹوکری پھلوں سے بھر جاتی تھی) پیغمبروں نے ان سے کہا: "خدا کا رزق کھاؤ اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرو، تمہارا شہر خوش حال ہے اور اور تمہارا خدا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔" انہوں نے سرکشی کی اور ناشکرا پن دکھایا (اور کہنے لگے ہم نہیں سمجھتے کہ خدا نے ہمیں کوئی نعمت بخشی ہے اور اگر یہ نعمتیں اسی کی دی ہوئی ہیں تو اس سے کہیے کہ وہ واپس لے لے)۔ چنانچہ ہم نے ان کے لیے عرم کا سیلاب بھیجا (بتایا گیا ہے کہ عرم ایک پشتے کا نام ہے جو سبا کی ملکہ بلقیس نے دو پہاڑوں کے بیچ میں پتھر اور تارکول سے بنوایا تھا جہاں بارش کا پانی اکٹھا ہوتا تھا۔ اس میں ایک کے اوپر ایک تین دروازے بنوائے تھے اور نیچے ایک بڑی سی جھیل تھی جس میں سے نکلنے والی نہروں کی تعداد کے مطابق بارہ موریاں بنوائی تھیں۔ جب بارش ہوتی تھی اس بند کے پیچھے پانی اکٹھا ہو جاتا تھا اس وقت اوپر کا دروازہ کھول دیتے تھے تاکہ پانی اس جھیل میں آ جائے اگر پانی کم ہوتا تھا تو درمیانی دروازہ کھول دیتے تھے اور اگر اور کم ہوتا تھا نچلا دروازہ اور جب پانی جھیل میں اکٹھا ہو جاتا تھا تو اسے نہروں میں بانٹ دیتے تھے۔ وقت یوں ہی گذرتا رہا یہاں تک کہ بلقیس کا انتقال ہو گیا۔ یہ لوگ باغی ہو گئے اور حد سے گذر گئے تو خدا نے ان پر بڑے بڑے چوہے مسلط کر دئیے جنہوں نے بند میں چھید کر دئیے۔ پانی میں طغیانی آ گئی جس نے اس پشتے کو منہدم کر دیا۔ کچھ لوگ ہلاک ہو گئے اور کچھ ادھر اُدھر بھاگ گئے اور ان کی بھگدڑ اور بے بسی عرب میں ضرب المثل بن گئی) اور ان دونوں باغوں کو ہم نے دو ایسے باغوں میں تبدیل کر دیا جن کے پھل کڑوے اور بدذائقہ تھے اور درختوں کو شورہ کھا گیا تھا جن میں سے کچھ درخت بیری کے تھے یہ سزائیں ان لوگوں کی احسان فراموشی اور ناشکرے پن کی تھیں اور کیا ہم ناشکروں کے سوا بھی کسی کو سزا دیتے ہیں؟" (آیات ۱۵ تا ۱۷)



نعمت نقمت ہو جا تی ہے

خدا سورة نحل میں فرماتا ہے: "خدا نے ایک گاؤں کی مثال بیان کی ہے جس کے باسی امن اور اطمینان سے رہتے تھے ۔ہر طرف سے ان کے پاس بافراغت روزی چلی آتی تھی (خشکی اور تری دونوں سے) پھر انہوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے بھوک اور خوف کو ان کا اور اوڑھنا (لباس) بنا کر ان کے کرتوتوں کا انہیں مزا چکھا دیا۔" (آیت ۱۱۲) لباس کا ذکر عذاب کے ان کو گھیر لینے کی مناسبت سے کیا گیا ہے یعنی جس طرح لباس پہننے والے کو ڈھانک لیتا ہے اسی طرح عذاب نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس آیت کے گاؤں سے شہر مکہ مراد ہے جس کے باشندے سات سال تک کال اور بھوک میں مبتلا رہے تھے اور مجبوری اور بھوک سے ان کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ جلی ہوئی ہڈیاں، مردار گوشت اور خون کھاتے تھے۔


ناشکرا پن ایک قسم کا کفر ہے

ٍ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ناشکرے پن کو کفر میں ہی شمار کرتے ہیں کیونکہ خداوند عالم سلیمان کی بات دہراتا ہے کہ خدا نے جو کچھ مجھے بخشا ہے اپنے فضل سے بخشا ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گذار ہوں یا ناشکرا۔ جو کوئی شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے شکر ادا کرتا ہے (کیونکہ اس سے اس کی نعمت بڑھتی ہے) اور جو کوئی ناشکرا پن کرے تو کرے حقیقت یہ ہے کہ میرا خدا شکرگذاری سے بے نیاز اور کریم ہے۔ اس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمت میں اضافہ کر دوں گا اور جو ناشکرا پن کرو گے تو پھر بلاشبہ میرا عذاب بھی سخت ہو گا اور خدا یہ بھی فرماتا ہے کہ تم مجھے یاد کرو گے تو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ میرا شکر کرتے رہو ار میری ناشکری نہ کرو۔ (اصول کافی کتاب الایمان والکفر باب وجوہ الکفر)
امام کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ خد نے ان تینوں گناہوں میں ناشکرے پن کرکفر کہا ہے۔ ان آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ناشکرے پن کے تین بڑے نتیجے نکلتے ہیں اس طرح کہ اس نے نعمت ختم ہو جاتی ہے ،اس کی وجہ سے سخت اور دردناک عذاب آتا ہے اور خدا ناشکرے کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

 


ناشکرا پن اور اہل بیت علیھم السلام کی روایات

اس بارے میں بہت سی روایتیں ہیں لیکن صرف چند کے بیان پر اکتفاء کیا جاتا ہے:
پیغمبر اکرم فرماتے ہیں "ہر گناہ کے مقابلے میں ناشکرے پن کی سزا ناشکرے کو بہت جلد مل جاتی ہے۔" (وسائل الشیعہ باب ۸ ص۵۱۷)
آپ یہ بھی فرماتے ہیں "تین گناہ ایسے ہیں جن کا ارتکاب کرنے والے آخرت سے پہلے اپنی سزا کو پہنچیں گے ۔ والدین کی نافرمانی، لوگوں پر ظلم اور احسان فراموشی"۔ (وسائل الشیعہ)
ٍ آپیہ بھی فرماتے ہیں: "خدا کا سب سے پیارا بندہ وہ ہے جو خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے اور خدا کا سب سے زیادہ دشمن وہ ہے جو خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے۔" (مستدرک ص ۳۱۶)
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اپنی وصیت میں فرماتے ہیں: "کسی نعمت کی ناشکری نہ کرو کیونکہ حقیقت میں ناشکرا پن سب سے بڑا اور گھٹیا قسم کا کفر ہے۔" (مستدرک ص ۳۹۶)


کفرانِ نعمت کے معنی

کفرانِ نعمت کے معنی نعمت کو چھپانا ہیں اور اس کی تین قسمیں ہوتی ہیں:


(۱) نعمت سے ناواقفیت:

یہ سب سے بُری اور شدید قسم ہے اور اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک نعمت سے ناواقفیت یا بے خبری ہے یعنی نہ سمجھنے کی وجہ سے نعمت کو نہیں پہچانتا، اس کی پرواہ نہیں کرتا یعنی اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور اس کے ہونے نہ ہونے کو یکساں جانتا ہے۔ دوسرے نعمت بخشنے والے سے ناواقفیت یا بے خبری ہے یعنی دراصل اپنے پروردگار ہی کو نہیں پہچانتا یا یہ نہیں جانتا کہ اس کی ایک صفت نعمت بخشنا بھی ہے۔ چنانچہ یہ نہیں سمجھتا کہ نعمت صرف اسی کی طرف سے آتی ہے بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کی طرف سے آتی ہے۔ غرض یہ ہے کہ نعمت سے خبری ہو یا نعمت دینے والے سے دونوں بے خبریاں کفرانِ نعمت یعنی احسان فراموشی ہیں اور صاف سزاؤں کی مستحق ہیں کیونکہ کفرانِ نعمت کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور یہ گناہِ کبیرہ ہے۔


(۲) حالت کے لحاظ سے کفر:

یہ اس طرح ہے کہ عاقل انسان کو اس نعمت کے ملنے پر خوش اور مسرور ہونا چاہیئے جو خدا اسے بخشتا ہے یہ سوچ کر کہ اللہ نے اس پر مہربانی کی اور اسے یاد رکھا اور وہ اس کے مسلسل فضل وکرم کا امیداوار ہے۔ (سورة یونس آیت ۵۸) اب اگر اس کے برعکس وہ اپنے پروردگار سے بدگمان رہے۔ اس کے فضل وکرم سے کوئی امید نہ رکھے یا اس سے خوش نہ ہو بلکہ اس سے بے تعلق اور نا امید ہو جائے تو یہ کیفیت یا حالت خدا کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔


(۳) اعضائے جسم سے کفر:

یعنی عملی کفر اس طرح کہ دل میں گناہ کی نیّت کرے اور زبان سے شکایت اور بُرائی کرے یعنی نعمتوں کا ذکر اور زبان سے ان کا شکر ادا کرنے کے بجائے سب کو نظر انداز کر دے (سورة الضحٰی آیت ۱۱) اور اپنی آرزوؤں کے پورا نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے خدا کے کاموں کی بُرائی کرے اور خدا کی نعمت کو وہاں صَرف کرے جس کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی اور اپنے اعضاء سے وہ کام لے جس سے خدا نے منع فرمایا ہے اور جو اس کی رحمت سے دُور کرنے والا ہے۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) (ایسے گناہ جو نعمتوں کو تبدیل کر دیتے ہیں) کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "انہیں میں ناشکرا پن یعنی کفرانِ نعمت بھی شامل ہے۔" (معانی الاخبار)
پیغمبر اکرم بھی فرماتے ہیں "مومن کے لیے فشار قبر (قبر کا مردے کو بھینچنا) ان نعمتوں کا کفارہ ہوتا ہے جو اس نے ضائع کر دی ہیں۔" (بحار الانوار جلد ۳)
شکر نعمت کے واجب ہونے کے متعلق بہت سی آیتیں اور حدیثیں ملتی ہیں اور شکر کی حقیقت اور اس کی قسموں کی اس قدر تفصیل موجود ہے جس کے بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ اس کے لیے اصول کافی اور دوسری اخلاقی کتابیں ملاحظہ فرمائیے۔

 


اگر شکر نہ کرے تو انسان جانور سے بھی گھٹیا ہے

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "خاص تعریف اس خدا کے لیے ہے جو اگر اپنے بندوں کو ان نعمتوں کا شکر عطا نہ کرنا نہ بتاتا جو اس نے گاتار اور کھلم کھلا عنایت فرمائی ہیں تو اس میں شک نہیں کہ وہ ان نعمتوں کو لے کر ان کا شکرادا کیے بغیر انہیں اپنے کام میں لے آتے اور اگر وہ ایسا کرتے تو انسانیت کے دائرے سے نکل کر جنگلی جانوروں اور چوپایوں کی حد میں پہنچ جاتے جیسا کہ قرآن میں خدا فرماتا ہے: کفار حیوانات کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گھٹیا اور گمراہ ہیں۔" (دعائے اوّل صحیفہٴ سجادیہ)
غرض یہ ہے کہ نعمت کا شکر ادا نہ کرنے والا انسان دراصل آدمیت سے ہی خارج ہے پھر ایسے شخص کے متعلق ایمان، صحیح معارف اور نیک اعمال کی بدولت حاصل ہونے والی انسانی سعادتوں اور برکتوں کا تو ذکر ہی کیا ہو سکتا ہے جو اس کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے ہوں گی۔


واسطوں اور ذریعوں سے انکار (کفران)

چونکہ خدا نے دُنیا کو اپنی حکمت ومصلحت سے دارالاسباب قرار دیا ہے اور اپنے بندوں تک ہر نعمت پہنچانے کا کوئی نہ کوئی واسطہ، سبب یا ذریعہ مقرر فرمایا ہے جس کی بدولت وہ نعمت بندوں تک پہنچتی ہے اس لیے عقل اور شرع کی رو سے واسطوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان کا بھی احسان ماننا چاہیئے البتہ یہ نہیں کہ اس واسطے ہی کو مستقل طور پر اور حقیقت میں اپنا منعم (نعمت بخشنے والا) سمجھے بلکہ اس کا احترام ضرور کرے کیونکہ وہ نعمت کا ذریعہ ہے اور اپنی زبان اور اپنی حالت و کیفیت سے خدا کا شکر ادا کرے کہ فلاں شخص نے مجھے تیری فلاں نعمت پہنچائی ہے۔ یہاں چند روایتوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "بلاشبہ خدا ہر شکرگذار بندے سے پسند فرماتا ہے اور قیامت میں اپنے ایک بندے سے پوچھے گا (دنیا میں) تو نے فلاں شخص کا (جو میری نعمت کا ذریعہ تھا) شکریہ ادا نہیں کیا اس لیے میرا بھی شکر ادا نہیں کیا۔" پھر امام نے فرمایا: "تم میں خدا کا سب سے زیادہ شکر گذار بندہ وہ ہے جو ان لوگوں کو بھی شکریہ ادا کرتا ہے جن کے واسطے سے خدا کی نعمتیں ملتی ہیں۔" (وسائل الشیعہ)
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "حقیقت میں خدا کا شکر ادا کرنا اس شخص کا شکریہ ادا کرنا ہے جس کے ذریعے سے تمہیں خدا کی نعمت ملی۔" (وسائل الشیعہ)
حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو شخص ان لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا جن کے واسطے سے اسے نعمت الہٰی ملی ہے اس نے گویا خدا کا شکر ہی ادا نہیں کیا۔" (وسائل الشیعہ)
رسول خدا فرماتے ہیں: "قیامت میں بندے کو حساب کتاب کے مقام پر لائیں گے اور خدا حکم دے گا کہ اسے دوزخ میں لے جاؤ تو وہ کہے گا۔ اے پروردگار! مجھے دوزخ میں لے جانے کا حکم کس لیے دیتا ہے جبکہ میں قرآن کی تلاوت کرتا رہا ہوں؟ خدا فرمائے گا: اس لیے کہ میں نے تجھے نعمت بخشی اور تُو نے شکر نہیں کیا۔ وہ کہے گا: اے خدا! تو نے مجھے فلاں نعمت دی تھی تو میں نے یوں شکر کیا، اور فلاں نعمت بخشی تو میں نے یوں شکرگذاری کی۔ اس طرح وہ خدا کی نعمتیں اور اپنی شکرگذاریاں گنائے گا۔ خدا فرمائے گا تُو نے سب کچھ سچ کہا لیکن یہ بات بھی تو ہے کہ میں جن لوگوں کے واسطے سے تجھے نعمتیں بھیجیں تو نے ان کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ میں نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ میں نے جس بندے کو اپنی نعمت عطا فرمائی ہے اس کا شکر اس وقت تک قبول نہیں کروں گا جب تک کہ وہ اس شخص کا شکریہ ادا نہ کرے جس کے وسیلے سے نعمت اس تک پہنچی ہے۔ (وسائل الشیعہ باب ۸ ص ۵۱۶)
پچھلی گفتگو میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ایک حدیث نقل کی گئی تھی جس میں آپ فرماتے ہیں: "اس شخص پر خدا کی لعنت ہو جس کے ساتھ کوئی بھلائی کی جائے اور وہ اس کا شکریہ ادا نہ کرے اور اس کی ناشکری گذاری (احسان فراموشی) کی وجہ سے نیکی کرنے والا پھر دوسروں کے ساتھ بھلائی نہ کرے۔" (۱)


نیکی کے واسطے شکریے کى حقیقت

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "جب تجھے اپنے مومن بھائی سے کوئی نعمت یا نیکی حاصل ہو تو اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ خدا آپ کو جزائے خیر (اچھا صلہ) عطا کرے اور اگر تیرا ذکر اس محفل میں کیا جائے جس میں تو موجود نہ ہو تو کہہ دے کہ خدا انہیں جزائے خیر عطا فرمائے تو نے گویا اس طرح اس کی تلافی کر دی یعنی حساب برابر کر دیا۔"
(وسائل الشیعہ۔ مستدرک)
آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: "جس نے تمہیں خدا کی قسم دلا کر تم سے کچھ مانگا اور جس سے تمہیں بھلائی اور نعمت ملی اس کی تلافی کر دو یعنی تم بھی اس کی طرح اس کے ساتھ بھلائی کرو اور اگر تمہارے پاس وہ چیز نہ ہو جس سے تم تلافی کر سکتے ہو تو اس کے لیے اس طرح دعا کرو جس سے وہ جان جائے کہ تم نے تلافی کر دی ہے۔" (وسائل الشیعہ۔ مستدرک)
غرض ہر احسان کا بدلہ احسان سے چکانا چاہیئے جیسا کہ خدا سورة رحمن میں فرماتا ہے: "کیا بھلائی کا بدلہ بھی بھلائی کے سوا کچھ ہو سکتا ہے؟" (آیت ۶۰) لیکن یہ پیشِ نظر رہے کہ بھلائی کی ابتداء کرنے والا افضل ہوتا ہے۔
روایتوں میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ اس ظلم کے تحت احسان کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی مومن ہو یا کافر عبادت گذار ہو یا گناہگار غرضیکہ کوئی ہو اور اس نے کیسی ہی بھلائی کی ہو اس کی تلافی کرنا چاہیئے۔


ولایت سب سے اعلیٰ نعمت ہے

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی شخص کے بارے میں خدا کی دنیاوی اور آخرت کی، صوری اور معنوی نعمتیں گنی نہیں جا سکتیں جیسا کہ قرآن مجید میں خدا یاد دلاتا ہے: "اگر تم خدا کی نعمتوں کو گننا بھی چاہو تو گن نہیں سکو گے۔" (سورة ابراہیم آیت ۳۴ ) ان نعمتوں میں سے ہر نعمت کی ناشکری، جن معنوں میں ذکر کیا گیا ، گناہِ کبیرہ اور عذاب کی سزاوار ہے۔ لیکن یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ نعمت جتنی اہم اور بڑی اور اس کا اثر جتنا زیادہ ہو گا اس کی ناشکری کی سزا بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی اور اس کا گناہ بھی اتنا ہی بڑا ہو گا۔
ہر نعمت سے اعلیٰ اور اہم آلِ محمد علیھم السلام کی ولایت ہے (دیکھئے بحار الانوار جلد۷) اور اس نعمت کی ناشکری ہر گناہ سے سخت ہے اور اس کی ناشکری ان کی ولایت کا نہ ماننا یا ان حضرات کو بھول جانا اور یاد نہ کرنا، ان سے محبت نہ رکھنا اور ان کے اقوال اور اوامر ونواہی کے ماننے سے منہ موڑنا غرض ان کے منصب کی پرواہ نہ کرنا اور ان کی ولایت کی نعمت سے فیض حاصل نہ کرنا ہے۔
(۱) دیکھئے وسائل کتاب امر بمعروف جسکے باب ۸ میں اس موضوع پر ۱۶ حدیثیں، باب ۷ میں ۱۱ حدیثیں اور مستدرک میں ۱۴ حدیثیں اور باب ۷ میں ۹ حدیثیں بیان ہوئیں ہیں۔
تفسیر صافی اور برہان وغیرہ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی ایمان سے متعلق زیادہ تر آیتوں کا اشارہ ولایت پر ایمان رکھنے سے ہے اور اسی طرح کفر کے موضوع سے متعلق آیتیں زیادہ تر ولایت کے انکار سے متعلق ہیں۔ مثال کے لیے دو ایک آیتوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
خداوندعالم سورة ابراہیم میں فرماتا ہے: "کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمت کی ناشکری کی اور اپنی قوم کو جہنم میں جھونک دیا۔" (آیت ۲۴)
یہ بات بہت سی روایتوں میں آئی ہے کہ نعمت معصوم اور پاک اہل بیت علیھم السلام ہیں اور کفر بنی امیہ اور آلِ محمد کے دشمن ہیں۔
خدا سورةتکاثر میں فرماتاہے : "قیامت میں تم سے نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔"(آیت ۸)
بہت سی روایتوں میں یہ بات ملتی ہے کہ اس بات میں لفظ نعیم (نعمت) سے جس کے بارے میں پوچھا جائے گا آلِ محمد کی ولایت مراد ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نعمت کی اصل اور حقیقت وہی ولایت کی نعمت ہے کیونکہ ہر نعمت کی فیض رسانی اسی پر منحصر ہے۔


علماء کے وجود سے انکار

ولایت کی نعمت سے انکارخدا کے عالموں اور روحانی فقیہوں کے وجود سے انکار ہے جو حضرت حجة ابن الحسن (علیہ السلام) کی غیبت کے زمانے میں ان کے عام نائب ہیں اور ظاہر ہے کہ نائب سے انکار اس سے انکار ہے جس کا وہ نائب ہے۔ جس طرح نائب کا شکریہ اس کا شکریہ ہے جس کا وہ نائب ہے چونکہ اس کے بارے میں دلیلوں اور روایتوں کا ذکر اور علماء کی فضیلت کا بیان طول کلام اور اس کتاب کے موضوع سے غیر متعلق ہو جانے کا سبب ہو گا اس لیے صرف نائب امام اور اس کی نعمت سے انکار کے معنی بیان کرنے پر ہی اکتفاء کیا جاتا ہے۔


نائب امام کون ہے؟

نائب امام وہ شخص ہے جو علومِ آلِ محمد سے فیضیاب ہو چکا ہو اور یقین اور اطمینان کے مقام پر پہنچ گیا ہو اور نفسانی کمالات کے لحاظ سے ہو اور ہوس کی قید سے آزاد ہو، نفس اور شیطان پر غالب آ چکا ہو اور عدالت کی صفت رکھتا ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ خود امام کا نمونہ ہو اور ان بزرگوار کے انوار سے فیض حاصل کر چکا ہو تاکہ دنیا والے اس کی گفتار اور کردار کی روشنی سے بلکہ اس کے نفس وجود سے فیضیاب ہوں اور اس کی پیروی کر کے نجات پائیں۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ اس بلند مقام (نیابت امام) پر پہنچنا بہت مشکل اور بہت زیادہ محنت اور مشقت کرنے پر منحصر ہے۔ چونکہ ایسے روحانی عالم کا وجود خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے اس لیے اس کا شکر بھی سب سے بڑا شکر ہے اور اسی طرح اس سے انکار بھی سب سے بڑا گنا ہ ہے۔


روحانی عالم کے وجود سے انکار

روحانی عالم کے وجود سے انکاریہ ہے کہ اس کے وجود کو نعمت نہ مانا جائے، اس کی حیثیت کی پرواہ نہ کی جائے، اس کی اطاعت لازم نہ سمجھی جائے یا خدانخواستہ اس کا حکم نہ مانا جائے جو خود گناہِ کبیرہ اور امام کی مخالفت کے برابر ہے اور یہ خدا سے شرک کرنے کی حد میں آتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ امام سے کٹ جانا اور بے تعلق ہو جانا ہے۔
ابوحمزہ نے کہا کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا: "عالم ہو یا طالب علم ہو یا اہل عِلم کا دوستدار بن اور چوتھی قسم (یعنی نہ عالم نہ طالب عِلم نہ ان کا دوستدار) نہ بن کیونکہ تو انہیں اپنا دشمن رکھ کر ہلاک ہو جائے گا۔" (اصولِ کافی کتاب فضل العلم باب اصناف الناس حدیث ۳)
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "خدا نے دانیال (علیہ السلام) کو وحی بھیجی کہ میرے نزدیک میرا سب سے بڑا دشمن بندہ وہ نادان ہے جو اہلِ علم کے حق کی پرواہ نہیں کرتا اور ان کی پیروی نہیں کرتا اور میرے نزدیک میرا سب سے زیادہ دوست بندہ پرہیزگار مناسب ثواب کا طالب، عالموں کا خادم، بردباروں کا پیرو اور حکمت شعاروں کی تواضح کرنے والا ہے۔" (اصول کافی باب ثواب العلم والتعلیم حدیث ۵)


علماء کے وجود سے انکار پر سخت سزائیں

اس نعمت کے انکار پر سخت سزاؤں کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مثلاً پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "ایک زمانہ آنے والا ہے جب لوگ عالموں سے یوں بھاگیں گے جیسے بھیڑیے سے بھیڑ بھاگتی ہے۔ چنانچہ خدا ان کو تین بلاؤں میں مبتلا فرمائے گا۔ ان کے مال وملکیت سے برکت اُٹھا لے گا، ان پر ظالم بادشاہ مقرر کرے گا، وہ دنیا سے بے ایمان جائیں گے۔" (سفینة البحار جلد ۲ ص ۲۲۰)
واضح رہے کہ دینی علوم کے حاصل کرنے والے نیابت امام کے بلند مقام تک پہنچنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا وجود بھی نعمت ہے اور ان کا احترام کرنا بھی سب کے لیے لازم ہے اور ان کے وجود سے انکار، ان کی توہین اور سب کی بھی حرام ہے۔

 


 

 

 

خداوند عالم فرماتا ہے :
”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“
( سورہ البینہ⁄۷)
جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے وہی سب سے بہتر ہیں۔
جلال الدین سیوطی ( عظیم اہل سنت عالم) اپنی معروف تفسیر ( الدر المنثور فی تفسیر الماثور) می اس آیت کی تفسیر یوں تحریر کرتے ہیں:
ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ کیا خدا کے نزدیک فرشتوں کے مقام منزلت پر تعجب کرتے ہو؟ اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، بہ تحقیق روز قیامت خدا کے نزدیک بندہ مومن کا مقام فرشتوں سے کہیں بالاتر ہوگا اور اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو:
        ”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“
حضرت عائشہ کہتی ہیں :
میں نے حضرت رسول خدا(ص) سے سوال کیا: خدا کےنزدیک سب سے با منزلت کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا : اے عائشہ کیا تم اس آیت کو نہیں پڑھتیں :
”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“
جابر ابن عبداللہ کہتے ہیں :
ہم رسول خدا(ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں علی(ع) وارد ہوئے تو رسول خدا(ص)  نے فرمایا : جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس کی قسم یہ اور اس کےشیعہ روز قیامت کامیاب ہیں۔ اور اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی
”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“
اس کے بعد جب بھی اصحاب رسول(ص)، علی(ع) کو آتے دیکھتے تو کہتے خير البرية آئے۔
ابو سعید کہتے ہیں :
علی(ع) (خير البرية) اور لوگوں میں سب سے بہتر ہیں۔
ابن عباس کہتے ہیں :
جس وقت یہ آیت نازل ہوئی رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمایا : بے شک روز قیامت تم اور تمہارے شیعہ خداسے راضی اور خدا تم سے  خوشنود ہے۔
حضرت علی(ع) فرماتے ہیں:
رسول خدا(ص) نے مجھ سے فرمایا : کیا تم نے خدا کے اس کلام کو نہیں سنا کہ وہ فرماتا ہے :
”إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة“
( اس سے مراد) تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔۔۔ ہمارا وعدہ حوض کوثر ہے اس جگہ ساری امتیں حساب وکتاب کے لیے آئیں گی اور تم اور تمہارے شیعہ خوبصورت اور عزت کے ساتھ وارد ہوں گے۔
جن اہل سنت علماء نے اس تفسیر کو بیان کیا ہے وہ بکثرت ہیں بطور مثال جلاالدین سیوطی کے عالوہ طبری نےاپنی تفسیر میں حاکم حسکانی نے شواہد التنزیل میں، شوکانی نے فتحالقدیر میں، آلوسی نے روح المعانی میں، مناوی نے کنوز الحقائق میں اسے بیان کیا ہے اس طرح خوارزمی نے مناقب میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، شبلنجی نے نور الابصار میں، ابن الجوزی نے تذکرة الخواص میں، قندوزی حنفی نے ینابیع المودة میں، ہیثمی نے  مجمع الزوائد میں، متقی ہندی نے کنز العمال میں اور ابن حجر مکی نے صواعق المحرقہ میں بھی یہی تفسیر بیان کی ہے۔
اس محکم اور معقول دلیل کے بعد کوئی سبب نہیں کہ تحقیق کرنے والے ان بعض تاریخ نگاروں کی بات پر قانع اور مبمئن ہوجائیں جو معتقد ہیں کہ تشیع کی پیدائش امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد ہوئی ہے۔

 

 

عراق میں دہشتگرد امریکی فوج کے ایک لیجسٹک کاررواں پر حملہ ہوا ہے۔

عراق کی صابرین نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق دہشتگرد امریکی فوج کا ایک لاجسٹک کاررواں جو شہر دیوانیہ سے عبور کررہا تھا ، روڈ کے کنارے نصب بم کا نشانہ بنا ہے۔

صابرین نیوز نے اس حملے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔

حالیہ مہینوں میں امریکی دہشتگردوں (فوجیوں) پر حملے عراق میں روز کا معمول بن گئے ہیں اور ملک کے کسی نہ کسی نقطے سے ان پر آئے دن حملے کی خبریں موصول ہو جاتی ہیں۔

عراقی عوام اپنے ملک سے دہشتگرد امریکی فوجیوں کے باہر نکلنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس ملک کی پارلیمنٹ بھی امریکی فوجیوں کے ملک سے باہر نکلنے کا بل منظور کر چکی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان خطیب زادہ نے کہا ہے کہ ویانا مذاکرات میں ایران کی توجہ پابندیوں کے خاتمہ پر مرکوز ہوگی ۔

انھوں نے ایران اور بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے درمیان تعاون کے بارے میں کہا کہ ایران کا قواعد اور ضوابط کے مطابق بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری ہے ۔اور ایران قواعد اور ضوابط سے ماوراء کسی چیز کو قبول نہیں کرےگا۔ بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے سربراہ گروسی تہران کے دورے پر آرہے ہیں اس سفر میں ایران اور بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے درمیان فنی موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جائےگا۔

ایران 4 ملین افغان مہاجرین کا میزبان

خطیب زادہ نے افغانستان کے موجودہ شرائط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے بارے میں ایران کا مؤقف واضح اور روشن ہے ۔ ہم گذشتہ 4 دہائیوں میں 4 ملین افغان شہریوں کے میزبان رہے ہیں۔ بہت سے افغان شہری اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ سبق پڑھ رہے ہیں اور ہمارے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یورپی ممالک میں مہاجرین کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

خطیب زادہ نے کہا کہ افغانستان میں اس وقت امن و صلح برقرار ہوگی جب وہاں ایک جامع اور مشترکہ حکومت تشکیل پائےگی ۔ افغانستان میں جامع اور مشترکہ حکومت کی تشکیل کا مطالبہ ایک عالمی مطالبہ ہے۔

ویانا مذاکرات میں ایران توجہ پابندیوں کے خاتمہ پر مرکوز

خطیب زادہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی ایک اعلی ٹیم مذاکرات کے لئے ویانا روانہ ہوگی اور ویانا مذاکرات میں ایران توجہ پابندیوں کے خاتمہ پر مرکوزرہے گی۔ انھوں نے کہا کہ ایران عملی طور پر پابندیوں کا خاتمہ چاہتا ہے اور پابندیوں کے خآتمہ کے سلسلے میں امریکہ کو معتبر ضمانت دینی چاہیے۔

امریکہ موجودہ صورتحال کا ذمہ دار

انھوں نے کہا کہ امریکہ موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ہے کیونکہ امریکہ نے مشترکہ ایٹمی معاہدے سے خارج ہو کر اس معاہدہ کو نقض کیا ہے۔
http://www.taghribnews.com/vdcfyedtmw6d0ca.k-iw.html
 
 

حجۃ الاسلام محمدرضا جباری نے مغربی آذربائیجان میں حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندے سے گفتگو کے دوران ہفتۂ بسیج کی مناسبت سے یہ بتاتے ہوئے کہ بسیج کی وطن عزیز کے کونے کونے میں موجودگی،باعث افتخار ہے،کہا کہ بسیج پاکیزگی،نئی فکر اور مخلصانہ خدمت کا پیکر ہے اور بسیجی جوان جہاں بھی داخل ہوا ہے اس نے ملک کو کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔امام راحل(رح) کے فرمان کے مطابق«بسیج شجرۂ طیبہ اور یہ ایک پھل دار اور تناور درخت ہے جس کے پھولوں سے بہار،یقین کی تازگی اور حدیثِ عشق کی مہک آتی ہے»۔

انہوں نے مزید کہا کہ انقلاب اسلامی ابھی وجود میں آیا ہی تھا کہ پوری دنیا کی مدد سے بعثی حکومت نے ایران کو نشانہ بنایا تاکہ انقلاب اسلامی کو متأثر کیا جا سکے لیکن اہل بیت علیہم السلام کے عاشق اور مکتبِ عاشورا کے جوانوں نے اپنے امام کی بیعت اور ان سے عہد و پیماں کرتے ہوئے میدان میں اترے اور ملک اور نظام کا دفاع کیا۔

امام جمعہ شوط نے کہا کہ بسیج کے قیام کو کئی برس گزرنے کے باوجود بھی،خدمت کی راہ میں تجربہ رکھنے والی یہ تنظیم آٹھ سالہ دفاع مقدس کے عظیم ایام کی مانند اقتصادی محاذ سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی دلیری اور بہادری سے اسلامی جمہوریہ ایران کے دفاع میں مصروف عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بسیجی تنظیم،انقلاب اسلامی کے بانی رہبر کبیر امام راحل کی عظیم فکر سے تشکیل پائی،اب بسیجی فکر و سوچ اسلامی جمہوریہ ایران میں پھیل چکی ہے اور بسیج کی موجودگی میں دشمن،انقلاب اسلامی پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا اور ہم سب کو اس عظیم اور الٰہی تنظیم کی مضبوطی کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔

یورپ میں کورونا کی شدت میں ایک بار پھر اضافے کے بعد مختلف ملکوں نے لاک ڈاون دوبارہ نافذ کرنے اور بہت سی سرگرمیاں محدود کرنے کا اعلان کر دیا جس کے خلاف پورے براعظم میں شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق، کورونا پروٹوکول  کے خلاف یورپی ملکوں کے متعدد شہروں میں پچھلے کئی روز سے پرتشدد مظاہرے کیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے صورتحال انتہائی کشیدہ بنی ہوئی ہے۔

یورپی ممالک ایک جانب کورونا کی نئی لہر سے دوچار ہیں تو دوسری جانب انہیں کورونا کی بندشوں اور پابندیوں کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کا  بھی سامنا ہے جبکہ مظاہروں کے دوران پھوٹ پڑنے والے تشدد کے واقعات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

کورونا پروٹوکول کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے پچھلے چند روز کے دوران ہالینڈ، بیلجیم، اٹلی ، آسٹریا اور کروشیا کے مختلف شہروں میں، سرکاری سطح پر عائد کی جانے والی بندشوں کے خلاف مظاہرے کیے جو کئی مقامات پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے بعد پرتشدد شکل اختیار کرگئے۔ مظاہروں کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں اور سیکڑوں کو حراست میں  بھی لیا گیا ہے۔

کورونا پروٹوکول اور بندشوں کے خلاف جمعے کو ہالینڈ سے شروع ہونے والے مظاہرے اس ملک کے کئی شہروں میں پھیل گئے اور  ہیگ، ایمسٹرڈم  اور روٹر ڈم میں ہونے والے مظاہروں کے دوران تشدد بھی پھوٹ پڑا۔

آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی رواں ہفتے کے آخر میں  کورونا پروٹوکول کے نفاذ کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا جو شروع میں پرامن  رہا  لیکن آخر کار پولیس کی مداخلت کے بعد  پرتشدد رخ اختیار کر گیا۔

ادھر فرانس میں یلوجیکٹ ایجیٹیشن کے آغاز کی تیسری سالگرہ کے موقع پر دارا لحکومت پیرس میں احتجاج کی نئی لہر دکھائی دی اور اس بار سڑکوں پر اترنے والے مظاہرین کورونا کی بندشوں، لازمی ویکسینیشن اور بچوں کو ویکسین لگوانے جیسے صحت کے قوانین کی مخالفت کر رہے تھے۔

اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان متعدد مقامات پر جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔

 درایں اثنا وسطی یورپ کے ملک کروشیا کے شہر زاغرب میں  ہونے والے ایسے ہی ایک مظاہرے میں  پیر سے نافذ ہونے والی  بندشوں اور پابندیوں کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

 بیلجیئم کے دارالحکومت بریسلز میں، جہاں یورپی یونین کا ہیڈ کوارٹر بھی واقع ہے، کئی ہزار افراد  نے سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کیے اور کورونا  کی وجہ سے عائد کی جانے والی پابندیوں کے خلاف نعرے لگائے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق بریسلز میں ہونے والے مظاہرے میں کم سے کم پینتس ہزار افراد شریک تھے۔ یہ مظاہرے اس وقت پرتشدد شکل اختیار کر گئے جب پولیس نے کئی مقامات پر مظاہرین  کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی۔

 پولیس نے مظاہرین کے خلاف آنسوگیس کے گولے پھنیکے جبکہ مظاہرین نے پولیس پر پتھر اور دوسری اشیا برسائیں۔

 یاد رہے کہ چند روز پہلے عالمی  ادارہ صحت نے بر اعظم یورپ میں کورونا کے پھیلاؤ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کورونا کی بندشیں سخت نہ کی گئیں تو آئندہ موسم بہار کے دوران اس براعظم میں پانچ لاکھ سے زائد افراد کی موت واقع ہو سکتی ہے۔
http://www.taghribnews.com/vdca60nma49nua1.zlk4.html

۔ابنا۔ فاران تجزیاتی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی حکومت نے جمعہ (نومبر 19) کو اپنی فلسطین مخالف پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے اور صیہونی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک “حماس” کو دہشت گرد قرار دے دیا۔
برطانوی وزیر داخلہ پریٹی پٹیل نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں حماس کی ہر طرح کی سرگرمی پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اس حوالے سے الجزیرہ نیٹ ورک نے ایک رپورٹ میں اس برطانوی فیصلے کے قانونی نتائج کا جائزہ لیا۔ جنیوا انٹرنیشنل جسٹس سینٹر کے سربراہ، صباح المختار، جو لندن میں عرب بار ایسوسی ایشن کی سربراہی بھی کرتے ہیں، نے الجزیرہ کو بتایا کہ اس طرح کے فیصلوں میں سب سے خطرناک مسئلہ “حمایت کو جرم قرار دینا” ہے کیونکہ لفظ “حمایت” میں بہت سی سرگرمیاں شامل ہیں مثلا حماس کے موقف کی حمایت، پیسے سے اس کی حمایت، حماس کا پرچم بلند کرنا، اس کے اہداف کی تبلیغ کرنا یا حتیٰ اس کے ساتھ رابطہ کرنا یہ سب جرم شمار ہونے لگے گا۔
صباح المختار نے زور دے کر کہا کہ برطانیہ میں مندرجہ بالا سرگرمیوں میں سے کسی کو بھی انجام دینا غیر قانونی سمجھا جائے گا اور عدالتی فیصلے کے مطابق مجرم کا احتساب کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ قانون برطانیہ میں حماس کی سرگرمیوں کو سختی سے محدود کر دے گا، لیکن تحریک کو براہ راست متاثر نہیں کرے گا، سوائے اس کے کہ اگر حماس کے رہنما یورپ میں ہوں تو ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکے گا۔
آخر میں، المختار نے کہا کہ اس فیصلے کو قانونی نقطہ نظر کے بجائے سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ اس کا مقصد حکومت اور سیکیورٹی سروسز کو قانون کی چھتری میں مناسب فیصلے کرنے کا انتظامی اختیار دینا ہے۔
الجزیرہ نے مزید کہا کہ لندن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر مازن المصری صباح المختار کے اس نظریے سے اتفاق کرتے ہیں کہ سیاسی جہت کو برطانوی فیصلے پر مرکوز رکھا جانا چاہیے۔ المصری نے کہا کہ حماس کے عسکری ونگ القسام کو طویل عرصے سے دہشت گرد تنظیم کہا جاتا ہے اور اس نئے قانون کا فلسطینی سیاسی سرگرمیوں پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ کوئی جواز نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانون کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حماس میں رکنیت انسان کے لیے قانونی کارروائی اور اس کے خلاف مجرمانہ بل کا باعث بنے گی کیونکہ حمایت کا موضوع بہت کھلا ہوا ہے۔
المصری نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے کسی بھی مظاہرے کو روکا جائے گا اگر حماس کا پرچم بلند کیا گیا یا حماس کی حمایت میں نعرے لگائے گئے تو اس کے منتظمین کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے پیش گوئی کی کہ قانون کی تشریح بہت سے قانونی تنازعات کو جنم دے گی، خاص طور وہ برطانوی تنظیمیں اور خیراتی ادارے جو غزہ میں کام کر رہے ہیں کیا ان تنظیموں کو حماس کی حمایتی تصور کیا جائے گا؟ یا وہ لوگ جو غزہ جاتے ہیں اور انہیں حماس کے سیکورٹی اداروں کی طرف سے جاری کردہ داخلی اور خارجی اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے، ان سے کیسے نمٹا جائے گا؟
لندن میں التفکیر العربی ایسوسی ایشن کے چیئرمین محمد امین نے بھی الجزیرہ کو بتایا کہ اس فیصلے کا مقصد فلسطین کی مدد کے لیے کام کرنے والے کسی بھی فرد کو سزا دینا ہے۔ اور وہ تنظیمیں اور افراد جو صہیونی لابی کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں ان پر الزامات لگائے جائیں گے اور ان کی لگام کسی جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ خالصتاً سیاسی ہے اور اس سے انتخابی مہم کی بو آ رہی ہے۔ پٹیل نے برطانیہ میں وزارت عظمیٰ کے اگلے دور میں کینڈیڈیٹ ہونے کے لیے صہیونی لابی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ ایسے حال میں ہے کہ موجودہ وزیر اعظم جانسن دوسری مرتبہ اس عہدہ کے لیے بالکل دلچسپی نہیں رکھتے۔ پٹیل نے ایسا کر کے صہیونی لابی سے قبل از وقت منظوری حاصل کرنا چاہی ہے۔