سلیمانی

سلیمانی

  آپ اسلام کی بنیاد اور اس دنیائے اسلام کو نجات دلانے وا لے تھے جو امویوں کے ہاتھوں گرفتار ہوچکی تھی جو اس کو بدترین عذاب دے رہے تھے، اس کے بچوں کو قتل اور عورتوں کوزندہ رکھتے تھے، انھوں نے اللہ کے مال کواپنی بزرگی کا سبب بنایا، اس کے بندوں کو اپنا نوکر بنایا،نیک اور صالح افراد کو دور کر دیا، مسلمانوں کے درمیان خوف و دہشت پھیلائی ،عام شہروں میںقیدخانوں، جرائم،فقرو تنگدستی اور محرومیت کو رواج دیا،رسول خدا ۖکی آرزوحضرت امام حسین نے ان کامحکم عزم و ارادہ سے جواب دیا،آپ نے ایساعظیم انقلاب برپا کیا جس کے ذریعہ آپ نے کتاب خدا کی تشریح فرمائی اور اس کوصاحبان عقل کیلئے ما یہ ٔ عبرت قرار دیا،ان کے محلوں کوجڑسے اکھاڑ پھینکا ، اُن کی عظمت و شوکت کی نشانیوں کو ختم کردیا، مسلمانوں کے درمیان سیا سی اور دینی شعور بیدار کیا، ان کو غلامی اور ذلت کے خوف سے آزاد کرایا،ان کو ان تمام منفی چیزوں سے آزاد کرایا جو ان کیلئے نقصان دہ تھیں،مسلمان پردے میں بیٹھنے کے بعد آن بان کے ساتھ چلنے لگے ،انھوں نے اس انقلاب کے پرتو میں اپنے حقوق کا نعرہ بلند کیا جن کاامویوں کے حکم سے خا تمہ ہو چکا تھاجنھوں نے ان کو ذلیل و رسوا کیا اور وہ کام انجام دیا جس کو وہ انجام نہیں دینا چا ہتے تھے ۔۔۔ہم اس امام عظیم کے کچھ اوصاف بیان کررہے ہیں جن کی قربانی ، عزم محکم ،صبراور انکار کے چرچے خاص و عام کی زبان پر ہیں ۔

نبی ۖ کی حسین سے محبت

 حضرت رسول خدا ۖ اپنے فرزند ارجمند امام حسین علیہ السلام سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے آپ کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کی شان و منزلت اور کیا مقام تھا اس سلسلہ میں آپ کی بعض احادیث مندرجہ ذیل ہیں :

١۔جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول کا فرمان ہے :''من اراد ان ينظرالیٰ سيد شباب اهل الجنة فلينظرالیٰ الحسين بن علی''۔(١)

''جوشخص جنت کے جوانوں کے سردار کو دیکھنا چا ہتا ہے وہ حسین بن علی کے چہرے کو دیکھے''۔
٢۔ابو ہریرہ سے روایت ہے :میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ۖامام حسین کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے یہ فرما رہے تھے :''اللھم انی احِبُّه فاحبّه ''۔(٢)
''پروردگار میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر ''۔

٣۔یعلی بن مرہ سے روایت ہے :ہم نبی اکرم ۖ کے ساتھ ایک دعوت میں جا رہے تھے تو آنحضرت نے دیکھا کہ حسین سکوں سے کھیل رہے ہیں تو آپ نے کھڑے ہوکر اپنے دونوں ہاتھ امام کی طرف پھیلادئے ،آپ مسکرارہے تھے اور کہتے جا رہے تھے، بیٹا ادھر آئو ادھرآئویہاں تک کہ آپ نے امام حسین کو اپنی آغوش میں لے لیاایک ہاتھ ان کی ٹھڈی کے نیچے رکھا اور دوسرے سے سر پکڑ کر ان کے بوسے لئے اور فرمایا:''حسين منی وانامن حسين،احب اللّٰه من احب حسينا،حسين سبط من الاسباط''(٣)۔
''حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوںخدایاجو حسین محبت کرے تو اس سے محبت کر ، حسین بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے ''
یہ حدیث نبی اکرم ۖاور امام حسین علیہ السلام کے درمیان عمیق رابطہ کی عکا سی کرتی ہے، لیکن
..............

١۔سیر اعلام النبلاء ،جلد ٣،صفحہ ١٩٠۔تاریخ ابن عساکر خطی ،جلد ١٣،صفحہ ٥٠۔
٢۔مستدرک حاکم ،جلد ٣،صفحہ ١٧٧۔نور الابصار، صفحہ ١٢٩:اللھم انی اُ حِبُّہ وَ أُحِبَّ کُلَّ مَنْ یُحِبُّہُ''۔
''خدایا میں اس کو دوست رکھتا اور جو اس کو دوست رکھتا ہے اس کوبھی دوست رکھتاہوں''
٣۔سنن ابن ماجہ ،جلد ١،صفحہ ٥٦۔مسند احمد، جلد ٤،صفحہ ١٧٢۔اسد الغابہ، جلد ٢،صفحہ ١٩۔تہذیب الکمال،صفحہ ٧١۔تیسیر الوصول ،جلد ٣، صفحہ ٢٧٦۔مستدرک حاکم ،جلد ٣،صفحہ ١٧٧۔

اس حدیث میں نبی کا یہ فرمان کہ ''حسین منی ''حسین مجھ سے ہے ''اس سے نبی اور حسین کے مابین نسبی رابطہ مراد نہیں ہے چونکہ اس میں کو ئی فا ئدہ نہیں ہے بلکہ یہ بہت ہی گہری اور دقیق بات ہے کہ حسین نبی کی روح کے حا مل ہیںوہ معاشرئہ انسا نی کی اصلاح اور اس میں مسا وات کے قا ئل ہیں۔
لیکن آپ کا یہ فرمان:''وانا من حسین ''''اور میں حسین سے ہوں '' اس کا مطلب یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام مستقبل میں اسلام کی راہ میں قربا نی دے کر رہتی تاریخ تک اسلام کو زندئہ جا وید کریں گے ، لہٰذا حقیقت میں نبی حسین سے ہیں کیونکہ امام حسین نے ہی آپ کے دین کو دوبارہ جلا بخشی ، ان طاغوتی حکومتوں کے چنگل سے رہا ئی دلائی جو دین کو مٹا نا اور زند گی کو جا ہلیت کے دور کی طرف پلٹانا چا ہتے تھے ، امام حسین نے قر بانی دے کر امویوں کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکا اور مسلمانوں کو ان کے ظلم و ستم سے آزاد کرایا۔

٤۔سلمان فا رسی سے روایت ہے :جب میں نبی کی خدمت میں حا ضر ہوا تو امام حسین آپ کی ران پر بیٹھے ہوئے تھے اور نبی آپ کے رخسار پر منھ ملتے ہوئے فر ما رہے تھے :
''انت سيد ُبْنُ سَيد،انت امام بن امام،وَاَخُوْااِمَامٍ،وَاَبُوالاَئِمَةِ،وَاَنْتَ حُجَّةُ اللّٰه وَابْنُ حُجَّتِه،وَاَبُوْحُجَجٍ تِسْعَةٍ مِنْ صُلْبِکَ،تَاسِعُهمْ قَائِمُهمْ''۔(١)
''آپ سید بن سید،امام بن امام ،امام کے بھا ئی،ائمہ کے باپ ،آپ اللہ کی حجت اور اس کی حجت کے فرزند،اور اپنے صلب سے نو حجتوں کے باپ ہیں جن کا نواں قا ئم ہوگا ''۔

٥۔ابن عباس سے مروی ہے :رسول اسلام اپنے کا ندھے پر حسین کو بٹھا ئے لئے جا رہے تھے تو ایک شخص نے کہا : ''نِعم المرکب رکبت ياغلام ،فاجا به الرسول :''ونعم الراکب هوَ''۔(٢)
''کتنا اچھا مرکب (سواری )ہے جو اس بچہ کو اٹھا ئے ہوئے ہے، رسول اللہ ۖنے جواب میں فرمایا:''یہ سوار بہت اچھا ہے ''۔

٦۔رسول اللہ کا فرمان ہے :''ھذا(يعنی :الحسين )امام بن امام ابوائمةٍ تسعةٍ''۔(٣)
..............

١۔حیاةالامام حسین ، جلد ١،صفحہ ٩٥۔
٢۔تاجِ جامع للاصول ،جلد ٣،صفحہ ٢١٨۔
٣۔منہاج السنة، جلد ٤،صفحہ ٢١٠۔

''یہ یعنی امام حسین امام بن امام اور نو اماموں کے باپ ہیں''۔

٧۔یزید بن ابو زیاد سے روایت ہے :نبی اکر م ۖ عا ئشہ کے گھر سے نکل کر حضرت فاطمہ زہرا کے بیت الشرف کی طرف سے گذرے تو آپ کے کانوں میں امام حسین کے گریہ کرنے کی آواز آ ئی، آپ بے چین ہوگئے اور جناب فاطمہ سے فر مایا:''اَلَمْ تَعْلَمِیْ اَنَّ بُکَائَه يوْذِينِیْ؟''۔(١)
''کیا تمھیں نہیں معلوم حسین کے رونے سے مجھ کو تکلیف ہو تی ہے ''۔
یہ وہ بعض احا دیث تھیں جو رسول اسلام ۖنے اپنے بیٹے امام حسین سے محبت کے سلسلہ میں بیان فرما ئی ہیں یہ شرافت و کرامت کے تمغے ہیں جو آپ نے اس فرزند کی گردن میں آویزاں کئے جو بنی امیہ کے خبیث افراد کے حملوں سے آپ کے اقدار کی حفاظت کر نے والا تھا ۔

نبی ۖکا امام حسین کی شہا دت کی خبر دینا

 نبی ۖنے اپنے نواسے امام حسین کی شہا دت کواتنابیان کیاکہ مسلمانوں کو امام حسین کی شہادت کا یقین ہوگیا۔ابن عباس سے روایت ہے کہ ہمیں اس سلسلہ میں کو ئی شک و شبہ ہی نہیں تھا اور اہل بیت نے متعدد مرتبہ بیان فر مایا کہ حسین بن علی کربلا کے میدان میں قتل کر دئے جا ئیں گے۔(٢)
آسمان سے نبی اکرم ۖ کو یہ خبر دی گئی کہ عنقریب تمہارے بیٹے پر مصیبتوں کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ اگر وہ پہاڑوں پرپڑتے تو وہ پگھل جا تے ،آپ نے متعدد مرتبہ امام حسین کے لئے گریہ کیا اس سلسلہ میں ہم آپ کے سا منے کچھ احا دیث پیس کر تے ہیں :

١۔ام الفضل بنت حارث سے روایت ہے :میںامام حسین کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے رسول اللہ ۖ کی خد مت میں پہنچی جب آپ میری طرف متوجہ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جا ری تھے ۔
میں نے عرض کیا :اے اللہ کے نبی ۖ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کو کیا مشکل پیش آگئی ہے ؟!
..............

١۔مجمع الزوائد، جلد ٩،صفحہ ٢٠١۔سیر اعلام النبلاء ،جلد ٣،صفحہ ١٩١۔ذخائر العقبی ،صفحہ ١٤٣۔
٢۔مستدرک حاکم، جلد ٣،صفحہ ١٧٩۔

''اَتَانِیْ جبرئيلُ فَاَخْبَرَنِیْ اَنَّ اُمَّتِیْ سَتَقْتُلُ ابنِیْ هذَا''میرے پا س جبرئیل آئے اور انھوں نے مجھ کو یہ خبر دی ہے کہ میری امت عنقریب اس کو قتل کردے گی ''آپ نے امام حسین کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فر مایا۔ام الفضل جزع و فزع کرتی ہو ئی کہنے لگی :اس کو یعنی حسین کو قتل کردے گی ؟
''نَعَم،وَاَتَانِیْ جِبْرَئِيلُ بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِه حَمْرَائَ ''۔(١)''ہاں ،جبرئیل نے مجھے اس کی تربت کی سرخ مٹی لا کر دی ہے ''ام الفضل گریہ و بکا کرنے لگی اور رسول بھی ان کے حزن و غم میں شریک ہوگئے ۔

٢۔ام المو منین ام سلمہ سے روایت ہے :ایک رات رسول اللہ سونے کیلئے بستر پر لیٹ گئے تو آپ مضطرب ہوکر بیدار ہوگئے ،اس کے بعد پھر لیٹ گئے اور پہلے سے زیادہ مضطرب ہونے کی صورت میں پھر بیدار ہوگئے ،پھر لیٹ گئے اور پھر بیدار ہوگئے حالانکہ آپ کے ہاتھ میں سرخ مٹی تھی جس کو آپ چوم رہے تھے (٢)میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ یہ کیسی مٹی ہے ؟
''اَخْبَرَنِیْ جِبْرَئِيلُ اَنَّ ھٰذَا(يعنی:الحسين )یُقْتَلُ بِاَرْضِ الْعِرَاقِ۔فَقُلْتُ لِجِبْرَئِيلَ : اَرِنِیْ تُرْبَةَ الْاَرْضِ الَّتِیْ يقْتَلُ بِهاْفَهذِہِ تُرْبَتُه ''(٣)
''مجھے جبرئیل نے یہ خبر دی ہے کہ اس (حسین )کو عراق کی سر زمین پر قتل کر دیا جا ئے گا ۔ میں نے جبرئیل سے عرض کیا :مجھے اس سر زمین کی مٹی دکھائو جس پر حسین قتل کیا جا ئے گا یہ اسی جگہ کی مٹی ہے ''۔

٣۔ام سلمہ سے روایت ہے :ایک دن پیغمبر اکرم ۖمیرے گھر میں تشریف فر ما تھے تو آپ نے فر مایا:''لا یدخُلنَّ عَلَیَّ اَحَدُ''''میرے پا س کوئی نہ آئے ''میں نے انتظار کیا پس حسین آئے اور آپ کے پا س پہنچ گئے ،میں نے نبی کی آواز سنی ،حسین ان کی آغوش میں(یا پہلو میں بیٹھے ہوئے )تھے آپ حسین کے سر پر ہاتھ رکھے ہوئے گریہ کر رہے تھے ، میں نے آنحضرت ۖکی خدمت میں عرض کیا:
..............

١۔مستدرک حاکم ،جلد ٣،صفحہ١٧٩۔
٢۔شیعہ کربلا سے حاصل کی گئی مٹی پر سجدہ کرتے ہیں جس کو رسول اسلام ۖ نے چوما ہے ۔
٣۔کنز العمال، جلد ٧،صفحہ ١٠٦۔سیر اعلام النبلاء ، جلد ٣، صفحہ ١٥۔ذخائر العقبیٰ، صفحہ ١٤٨۔

خداکی قسم مجھ کو پتہ بھی نہ چل سکا اور حسین آ پ کے پا س آگئے ۔۔۔
آنحضرتۖ نے مجھ سے فر مایا:''اِنَّ جِبْرَئِيلَ کَانَ مَعَنَافِیْ الْبَيتِ فَقَالَ :اَتُحِبُّه ؟فَقُلْتُ : نَعَمْ۔فَقَالَ:اَمَااِنَّ اُمَّتَکَ سَتَقْتُلُه بِاَرْضٍ یُقَالُ لَهاکَرْبَلَائُ ''۔
''جبرئیل گھر میں ہمارے پاس تھے تو انھوں نے کہا :کیا آپ حسین کو بہت زیادہ چاہتے ہیں ؟ میں نے کہا :ہاں ۔ تو جبرئیل نے کہا :آگاہ ہو جائو ! عنقریب آپ کی امت اس کو کر بلا نا می جگہ پر قتل کر دے گی ''،جبرئیل نے اس جگہ کی مٹی رسول ۖکو لا کر دی جس کو نبی نے مجھے دکھایا۔ (١)

٤۔عائشہ سے روایت ہے:امام حسین آنحضرت ۖکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے آنحضرت ۖ کو نیچے جھکنے کی طرف اشارہ کیا اور امام حسین آپ کے کندھے پر سوار ہوگئے توجبرئیل نے کہا : ''اے محمد! کیا آپ حسین سے محبت کرتے ہیں ؟''آنحضرت ۖنے فرمایا:کیوں نہیں ،کیا میں اپنے بیٹے سے محبت نہ کروں؟''جبرئیل نے عرض کیا :آپ کی امت عنقریب آپ کے بعد اس کو قتل کردے گی ''جبرئیل نے کچھ دیر کے بعد آپ کو سفید مٹی لا کر دی ۔
عرض کیا :اس سر زمین پر آپ کے فرزند کو قتل کیا جا ئے گا ،اور اس سر زمین کا نام کربلا ہے '' جب جبرئیل آنحضرت ۖ کے پاس سے چلے گئے تو وہ مٹی رسول اللہ ۖ کے دست مبارک میں تھی اور آپ نے گریہ وبکا کرتے ہوئے فرمایا:اے عائشہ !جبرئیل نے مجھ کو خبر دی ہے کہ آپ کے بیٹے حسین کو کربلا کے میدان میں قتل کردیا جا ئے گا اور عنقریب میرے بعد میری امت میں فتنہ برپا ہوگا ''۔
اس کے بعد نبی اکرم ۖاپنے اصحاب کے پا س تشریف لے گئے جہاں پر حضرت علی ،ابو بکر ، عمر ، حذیفہ ،عمار اورابوذرموجود تھے حالانکہ آپ گریہ فر ما رہے تھے، تو اصحاب نے سوال کیا :یارسول اللہ آپ گریہ کیوں کر رہے ہیں ؟
آپ نے فرمایا:مجھے جبرئیل نے یہ خبر دی ہے کہ میرافرزند حسین کربلا کے میدان میں قتل کردیا جائے گا اور مجھے یہ مٹی لا کر دی ہے اور مجھ کو خبر دی ہے کہ ان کا مرقد بھی اسی زمین پر ہوگا ''۔(٢)
..............

١۔کنز العمال ،جلد ٧،صفحہ ١٠٦۔معجم کبیر طبرانی ،جلد ٣،صفحہ١٠٦۔
٢۔مجمع الزوائد، جلد ٩، صفحہ ١٨٧

٥۔رسول خدا کی ایک زوجہ زینب بنت جحش سے مروی ہے :نبی اکرم ۖ محو خواب تھے اور حسین گھر میں آئے اور میں ان سے غافل رہی یہاں تک کہ نبی اکرم ۖ نے ان کو اپنے شکم پر بیٹھالیا اس کے بعد نبی اکر م ۖ نے نماز ادا کی تو ان کو ساتھ رکھایہاں تک کہ جب آپ رکوع اور سجدہ کرتے تھے تو اس کو اپنی پیٹھ پر سوار کرتے تھے اور جب قیام کی حالت میں ہوتے تھے تو ان کو اٹھالیتے تھے ،جب آپ بیٹھتے تھے تو ان کو اپنے ہاتھوں پر اٹھاکر دعا کرتے تھے ۔۔۔جب نماز تمام ہو گئی تو میں نے آنحضرت سے عرض کیا :آج میں نے وہ چیزیں دیکھی ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں ؟تو آپ نے فرمایا:''جبرئیل نے میرے پاس آکر مجھے خبر دی کہ میرے بیٹے کو قتل کردیا جا ئیگا، میں نے عرض کیا: تو مجھے دکھائیے کہاں قتل کیا جائے گا؟تو آپ نے مجھے سرخ مٹی دکھا ئی ''۔ (١)

٦۔ابن عباس سے مروی ہے :حسین نبی کی آغوش میں تھے تو جبرئیل نے کہا :''کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں ؟''آنحضرت نے فرمایا:''میں کیسے اس سے محبت نہ کروں یہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ''۔
جبرئیل نے کہا :''بیشک آپ کی امت عنقریب اس کو قتل کر دے گی، کیا میں اس کی قبر کی جگہ کی مٹی دکھائوں؟''جب آپ (جبرئیل )نے اپنی مٹھی کھولی تو اس میں سرخ مٹی تھی ''۔(٢)

٧۔ابو اُ مامہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖنے اپنی ازواج سے فرمایا:اس بچہ کو رونے نہ دینا یعنی ''حسین کو''مروی ہے :ایک روز جبرئیل رسول اللہ کے پاس ام سلمہ کے گھر میں داخل ہوئے اور رسول اللہ ۖ نے ام سلمہ سے فرمایا: ''کسی کو میرے پاس گھر میں نہ آنے دینا''،جب حسین گھر میں پہنچے اور نبی کو گھر میں دیکھا تو آپ ان کے پاس جانا ہی چا ہتے تھے کہ ام سلمہ نے آپ کو اپنی آغوش میں لے لیا ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کو تسکین دینے لگی جب آپ زیادہ ضد کرنے لگے تو آپ کو چھوڑ دیاامام حسین جا کر نبی کی آغوش میں بیٹھ گئے تو جبرئیل نے کہا :''آپ کی امت عنقریب آ پ کے اس فرزندکو قتل کردے گی ؟''۔
''میری امت اس کو قتل کردے گی حالانکہ وہ مجھ پر ایمان رکھتی ہے ؟''۔
..............

١۔مجمع الزوائد ،جلد ٩، صفحہ ١٨٩
٢۔مجمع الزوائد ،جلد ٩ ،صفحہ ١٩١۔

۔''ہاں ،آپ کی امت اس کو قتل کردے گی۔۔۔''۔
جبرئیل نے رسول ۖ کواس جگہ کی مٹی دیتے ہوئے فرمایا: اس طرح کی جگہ پرقتل کیا جائے گا، رسول ۖاللہ ۖ حسین کو پیار کرتے ہوئے نکلے ،آپ بے انتہا مغموم و رنجیدہ تھے۔ام سلمہ نے خیال کیا کہ نبی اکرم ۖ ان کے پاس بچہ کے پہنچ جانے کی وجہ سے رنجیدہ ہوئے ہیں، لہٰذا ام سلمہ نے ان سے عرض کیا : اے اللہ کے نبی ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ،آپ ہی کا تو فرمان ہے : ''میرے اس بچہ کو رونے نہ دینا '' اور آپ ہی نے تو مجھے یہ حکم دیا تھا کہ میں آپ کے پاس کسی کو نہ آنے دوں،حسین آگئے تو میں نے ان کو آپ کے پاس آنے دیا،نبی اکرم ۖ کو ئی جواب دئے بغیر اپنے اصحاب کے پاس پہنچے اور آپ نے بڑے رنج و غم کے عالم میں ان سے فرمایا:''میری امت اس کو قتل کردے گی ''اورامام حسین کی طرف اشارہ فرمایا۔
ابوبکر اور عمر دونوں نے آنحضرت کے پاس جا کر عرض کیا :اے نبی خدا !وہ مو من ہیں یعنی مسلمان ہیں ؟
آپ ۖ نے فرمایا : ''ہاں ،یہ اس جگہ کی مٹی ہے ۔۔۔''

٨۔انس بن حارث سے مروی ہے :نبی اکرم ۖ نے فرمایا:''میرا یہ فرزند (حسین کی طرف اشارہ کیا )کربلا نام کی سر زمین پر قتل کیا جا ئے گا تم میں سے جو بھی اس وقت موجود ہو وہ اس کی مدد کرے '' جب امام حسین کربلا کیلئے نکلے تو آپ کے ساتھ انس بھی تھے جو آپ کے سامنے کربلا کے میدان میں شہید ہوئے ۔(١)

٩۔ام سلمہ سے مروی ہے :امام حسن اورامام حسین دونوں میرے گھر میں رسول اللہ کے سامنے کھیل رہے تھے تو جبرئیل نے نازل ہو کر فر مایا:''اے محمد !آپ کی امت آپ کے بعد آپ کے اس فرزند کو قتل کردے گی ''اور حسین کی طرف اشارہ کیا آپ گریہ کرنے لگے ،حسین کو اپنے سینہ سے لگالیا آپ کے دست مبارک میں کچھ مٹی تھی جس کو آپ سونگھ رہے تھے ،اور فر مارہے تھے :''کرب و بلا پر وائے ہو ''آپ نے اس مٹی کو ام سلمہ کو دیتے ہوئے فرمایا:''جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہوجائے تو سمجھ لینا کہ میرا فرزند قتل کردیا گیا ہے ''ام سلمہ نے اس مٹی کو ایک شیشہ میں رکھ دیا ،آپ ہر روز اس کا مشاہدہ کرتی اور کہتی تھیں کہ
..............

١۔تاریخ ابن الوردی ،جلد ١،صفحہ ١٧٣۔١٧٤۔

دن یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جا ئے گی وہ دن بہت ہی عظیم ہوگا۔ (١)

١۔معجم کبیر طبرانی ''ترجمہ امام حسین ''،جلد ٣،صفحہ ١٠٨۔

 

شائع 
مؤلف: باقر شریف قرشی

 

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے دو نئے میزائل اور ڈرون مراکز کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے جنرل حسین سلامی کا کہنا تھا کہ مستقبل پر نظر رکھے ہوئے، ایئرو اسپیس فورس کے تازہ دفاعی اقدامات قابل قدر ہیں۔

جنرل حسین سلامی نے میزائل، ڈرون، ایئرڈیفینس سسٹم، لڑاکا طیاروں اور جنگی جہازوں کو حقیقی طاقت کا مظہر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طاقت کا سرچشمہ انسان کے قلب و ذہن میں ابھرنے والے عقائد و نظریات سے پھوٹتا ہے۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر نے کہا کہ طاغوتی طاقتوں کے ذریعے کسی کو ملنے والی طاقت پائیدار نہیں ہوتی اور افغانستان اس کی واضح مثال ہے جہاں امریکہ کی مسلح کردہ فوج دس منٹ بھی جنگ نہ کرسکی۔

واضح رہے کہ آج سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنے دو نئے زیر زمین میزائل اور ڈرون مراکز کی رونمائی اورانہیں دفاعی سسٹم کے ساتھ منسلک کردیا۔ ایران کی عسکری حکمت عملی دفاع پر استوار ہے اور جدید ترین ہتھیاروں اور تربیت یافتہ فوج، اس حکمت عملی کے بنیادی ستون ہیں

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،پاکستان کے معروف اہلسنت عالم دین مولانا طارق جمیل نے پشاور میں جمعے کی نماز کے دوران ہونے والے بم دھماکے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اپنے ٹوئٹر پیغام میں مولانا طارق جمیل نے کہا کہ پشاور کی مسجد میں ہونے والے دھماکے اور قیمتی جانوں کے ضیاع پر دل بہت غمگین ہے، اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔انہوں نے کہا کہ اللّٰہ تعالیٰ لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے اور ملکِ عزیز میں امن و امان کی فضا قائم رکھے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز پشاور کے علاقے قصہ خوانی بازار کی جامع مسجد کوچہ رسالدار میں ہوئے خود کش حملے کے مزید 6 زخمی شہید ہو گئے، پولیس نے خودکش حملہ آور کے خاکے تیار کر لیے ہیں۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں گزشتہ روز 57 شہداء کی لاشیں لائی گئی تھیں، واقعے میں مزید 6 افراد کی شہادت کے بعد شہید افراد کی تعداد 63 ہو گئی ہے۔ واقعے میں 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے، جن میں سے 37 زخمی لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں، جبکہ 5 زخمی آئی سی یو میں ہیں۔

ایکنا نیوز کے مطابق سانحہ پشاور کی مذمت ملکی اور عالمی سطح پر جاری ہے۔ امیر جماعت اسلامی سرا ج الحق نے پشاور مسجد میں خودکش حملہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عبادت گاہوں کو قتل گاہ بنانے والے حیوانوں سے بھی بدتر ہیں۔ منصورہ سے جاری بیان میں سراج الحق نے شہدا کی مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔ انہوں نے لواحقین کو صبر اور ہمت کی تلقین کی اور کہا کہ ہم ان کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات پر تشویش ہے۔ پشاور میں ہر سال بڑا سانحہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں مساجد، مدارس، سکولز اور گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ حکومت اور سکیورٹی ادارے شہریوں کی حفاظت کا بندوبست کریں اور دشمنوں کی چالوں سے خبردار رہیں۔

 

عبادت گاہوں کو قتل گاہ بنانے والے حیوانوں سے بھی بدتر ہیں، سراج الحق اور طاہر القادری کی مذمت

تحریک منہاج القرآن کے سرابرہ نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ معصوم جانوں کے ضیاع پر دلی افسوس ہے۔ شہدا کے درجات کی بلندی اور سوگوار خاندانوں کے لئے صبر جمیل کے لئے دعا گو ہیں۔عبادت گاہ کو مقتل گاہ بنانے والے مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں ہیں۔

  تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پشاور میں جامع مسجد میں خودکش حملہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بدترین دہشتگردی اور انسانیت پر حملہ ہے۔ عبادت گاہ کو مقتل گاہ بنانے والے مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ معصوم جانوں کے ضیاع پر دلی افسوس ہے۔ شہدا کے درجات کی بلندی اور سوگوار خاندانوں کے لئے صبر جمیل کے لئے دعا گو ہیں۔ دریں اثناء منہاج القرآن انٹرنیشنل کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ناظم اعلیٰ منہاج القرآن انٹرنیشنل خرم نواز گنڈاپور، نائب ناظم اعلیٰ کوآرڈینیشن ڈاکٹر محمد رفیق نجم نے پشاور خودکش دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

اسلام ٹائمز۔ سانحہ پشاور پر شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد نقوی نے تین دن سوگ اور اتوار کے روز ملک گیر احتجاج کا اعلان کر دیا۔ علامہ ساجد نقوی نے ایک مذمتی بیان میں جامع مسجد کوچہ رسالدار میں خودکش حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امام جمعہ سمیت 50 سے زائد افراد کی شہادت سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، انہوں نے سانحہ پشاور کی غیر جانبدارانہ و شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی غیر جانبدار انوسٹی گیشن اور مجرموں کی تشخیص کرکے قانون کے حوالے کیا جائے، مضبوط پراسیکوشن کے ذریعے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

علاوہ ازیں علامہ ساجد نقوی نے کوئٹہ میں ہونیوالی دہشتگردی کے مجرمان کو بھی گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے، غم کی اس گھڑی میں ہم شہداء کے لواحقین کے ساتھ برابر کے شریک ہیں، دہشتگردوں کے سہولت کاروں کی شناسائی کرکے قانون کے شکنجے میں جکڑا جائے، انہوں نے کہا کہ سانحہ پشاور کے زخمیوں کو تمام طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔

معلوم ہونا چاہئے کہ شعبان وہ عظیم مہینہ جو حضرت رسول سے منسوب ہے حضور (ص) اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں َ سے متصل فرماتے تھے ۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینہ میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کیلئے واجب ہو جاتی ہے۔
امام جعفر صادق -فرماتے ہیں کہ جب شعبان کا چاند نمودار ہوتا تو امام زین العابدین- تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب ! جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے ؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور رسول اﷲ فرمایا کرتے تھے کہ یہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی(ص) کی محبت اور خدا کی قربت کیلئے اس مہینے میں روزے رکھو ۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی ابن الحسین+ کی جان ہے میں نے اپنے پدر بزرگوار حسین ابن علی +سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے اپنے والد گرامی امیر المومنین -سے سنا کہ جو شخص محبت رسول (ص) اور تقرب خدا کیلئے شعبان میں روزہ رکھے تو خدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کریگا قیامت کے دن اس کو عزت و احترم ملے گا اور جنت اس کیلئے واجب ہو جائے گی ۔
شیخ نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق -نے فرمایا: اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزہ رکھنے پر آمادہ کرو ! میں نے عرض کیا آپ پر قربان ہو جاؤں اس میں کوئی فضیلت ہے ؟آپ(ع) نے فرمایا ہاں اور فرمایا رسول اﷲ جب شعبان کا چاند دیکھتے تو آپ کے حکم سے ایک منادی یہ ندا کرتا :
اے اہل مدینہ! میں رسول خدا کا نمائندہ ہوں اور ان کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے ۔ خدا کی رحمت ہو اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے ۔ یعنی روزہ رکھے۔ صفوان کہتے ہیں امام جعفر صادق -کا ارشاد ہے کہ امیر المؤمنین- فرماتے تھے جب سے منادی رسول (ص) نے یہ ندا دی اسکے بعد شعبان کا روزہ مجھ سے قضا نہیں ہوا اور جب تک زندگی کا چراغ گل نہیں ہو جاتا یہ روزہ مجھ سے ترک نہیں ہوگا نیز فرمایا کہ شعبان اور رمضان دو مہینوں کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔
اسماعیل بن عبد الخالق سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق -کی خدمت میں حاضر تھا، وہاں روزۂ شعبان کا ذکر ہوا تو حضرت نے فرمایا ماہ شعبان کے روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے

 

تہران، ارنا- امریکی صدر نے جھوٹے الزامات اور سفارت کاری کا بگل بجانے کے باوجود ایک بیان میں ایران کے خلاف "قومی ہنگامی حالت" میں مزید ایک سال کی توسیع کر دی۔

ڈوئچے ویلے کے مطابق اس معاندانہ عمل کا پہلی بار اعلان 27 سال قبل کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کی بنیاد پر ایران کے خلاف امریکی پابندیاں جاری رہیں گی۔

جو بائیڈن نے جمعہ 4 مارچ کو ایک بیان میں اعلان کیا کہ 15 مارچ 2022 کے بعد ایران کے خلاف "قومی ہنگامی حالت" مزید ایک سال تک جاری رہے گی۔

امریکی صدر نے  اس بیان میں دعوی کیا ہے کہ ایران کے اقدامات اور پالیسیاں، بشمول میزائلوں کے پھیلاؤ اور پیداوار اور دیگر روایتی اور غیر متناسب ہتھیاروں کی صلاحیتیں، امریکہ کی قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور معیشت کے لیے غیر معمولی خطرہ ہیں۔

بائیڈن نے  اپنے دعووں کے آخر میں کہا کہ ان وجوہات کی بناء پر، ایران کے خلاف ایگزیکٹو آرڈر 12957 میں اعلان کردہ قومی ہنگامی حالت کو جاری رکھنا ضروری ہے۔

واضح رہے کہ  ایران  کیخلاف " قومی ہنگامی حالت" کا اعلان سب سے پہلے اس وقت کے صدر بل کلنٹن نے 15 مارچ 1995 کو ایگزیکٹو آرڈر نمبر 12957 میں کیا تھا۔

ویانا، ارنا- ویانا میں پابندیوں کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات پہلے سے کہیں زیادہ ختم ہونے کے قریب ہیں، لیکن مغرب کی جانب سے ضروری سیاسی فیصلے لینے اور ضروری اقدامات کرنے سے انکار حتمی معاہدے تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

ویانا میں ہونے والے مذاکرات کو ختم کرنے کے حوالے سے بعض فریقین کی طرف سے حالیہ گھنٹوں میں جو لہر اٹھی ہے اور ٹویٹر پر مبارکبادوں کا تبادلہ، ویانا مذاکرات میں ایران کو اپنے عقلی مطالبات پر عمل کرنے سے روکنے کے منصوبے کا حصہ تھا، جس کا نتیجہ ہمیشہ کی طرح ہی نہیں نکلا۔

یہ لہر کل فرانس کے چیف مذاکرات کار کے ایک ٹویٹ کے ساتھ شروع ہوئی، جس نے یورپی یونین کی تین مذاکراتی ٹیم کی ایک تصویر پوسٹ کی جس میں گزشتہ 11 مہینوں میں ان کی انتھک کوششوں کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا گیا تاکہ یہ تجویز کیا جا سکے کہ بات چیت ختم ہو گئی ہے۔ گھنٹوں بعد، چیف برطانوی مذاکرات کار" استیفی القاق" نے فرانسیسی فریق کے ٹویٹ کا جواب ری ٹوئٹ کیا اور  کہا کہ "آپ کا دوبارہ شکریہ۔"

اس کے مطابق، میڈیا کا ماحول تیزی سے کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے کے امکان کی طرف مڑ گیا، اور ایران کی خاموشی نے الزام تراشی کے کھیل کی تشکیل کا بہانہ فراہم کیا۔ مذاکرات کے ماحول سے واقف ذرائع سے ارنا کے نامہ نگار کی پیروی سے معلوم ہوا کہ متنازعہ مسائل جو کہ ایران کی سرخ لکیر سمجھے جاتے ہیں، اب بھی اٹھائے گئے ہیں اور تنازعات کی گرہیں نہیں کھلی ہیں۔

 ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان "سعید خطیب زادہ" نے کل رات (جمعرات) یورپی مذاکراتی فریقوں کی جلد بازی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ  ابتدائی اچھی خبریں کسی اچھے معاہدے کی جگہ نہیں لیں گی۔ باقی تمام اہم مسائل کے حل ہونے تک کوئی نہیں کہہ سکتا کہ معاہدہ طے پا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام شریک ممالک کی توجہ کلیدی اقدامات پر ہے انہوں نے مزید کہا کہ حتمی معاہدے تک پہنچنے کے لیے دوگنی کوششوں کی ضرورت ہے۔

ان ریمارکس کی عکاسی یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے نائب سربراہ اور مذاکرات کے کوآرڈینیٹر "انریکہ مورا" نے بھی دی، جنہوں نے ٹویٹ کیا کہ ہم ویانا مذاکرات کے آخری مراحل میں ہیں۔ ہم ویانا مذاکرات کے آخری مراحل میں ہیں۔ کچھ متعلقہ مسائل اب بھی کھلے ہیں اور اس طرح کے پیچیدہ مذاکرات میں کامیابی کی ضمانت نہیں دی جاتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین کوآرڈینیشن ٹیم میں اپنی پوری کوشش کر رہی ہے، لیکن ہم یقینی طور پر ابھی فنش لائن تک نہیں پہنچے ہیں۔

روس کے چیف مذاکرات کار "میخائیل اولیانوف" نے بھی کہا کہ مذاکرات تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور صرف چند مسائل باقی ہیں۔ انہوں نے باقی مسائل کی وضاحت نہیں کی،  اور کہا کہ اس نازک موڑ پر، کوئی بھی بے سوچے سمجھے اظہار کا منفی اثر ہو سکتا ہے۔

لیکن ارنا رپورٹر کے مطابق باقی اختلافات ایران کی ریڈ لائنز کے اندر ہیں اور امریکی فیصلے کے تابع ہیں۔ 2015 کے معاہدے میں مغربی مداخلت کے اپنے تجربے کے باوجود، ایران نے ویانا مذاکرات میں شرکت پر رضامندی سے اپنی زیادہ سے زیادہ ہمت اور بصیرت کا مظاہرہ کیا۔ اور اب دوسری طرف سے یہ جائز توقع ہے کہ وہ باہمی ذمہ دارانہ رویہ اپنائے اور غیر قانونی پابندیوں کا راستہ تبدیل کرے۔

موجودہ امریکی انتظامیہ نے نہ صرف ٹرمپ انتظامیہ کے ایران کے خلاف غیر قانونی اور غیر انسانی اقدامات پر معافی نہیں مانگی ہے بلکہ ماضی کے اقدامات کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے اپنی مبینہ آمادگی کو بھی ثابت نہیں کیا ہے اور ایران کو امریکا کی سنجیدگی پر شک کرنے کا پورا حق ہے۔

پابندیوں کو ہٹانے کے بارے میں مذاکرات آج (جمعہ کو) کوبرگ ہوٹل میں معمول کے مطابق ہوئے، اور مذاکراتی وفود کے سربراہان نے مختلف شکلوں اور سطحوں پر ملاقات کی۔

ایرانی وزیر خارجہ "حسین امیر عبداللہیان" نے آج بروز جمعہ کو یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت میں کہا کہ ایرانی مذاکراتی ٹیم تمام وفود کے ساتھ مسلسل اور فعال مشاورت میں ویانا میں رہے گی اور حتمی اور اچھے معاہدے تک پہنچنے کے لیے بھرپور کوششیں جاری رکھے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایک اچھے اور فوری معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن مغربی فریق کی جلد بازی ایران کی سرخ لکیروں کی پابندی نہیں روک سکتی۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ حتمی معاہدے کے اعلان کے لیے "ایران کی سرخ لکیروں کی مکمل پابندی کی ضرورت ہے، جس میں موثر اقتصادی ضمانتوں کا معاملہ بھی شامل ہے۔" اسی مناسبت سے انہوں نے کہا کہ جب بھی مغربی فریقین ایران کے اعلان کردہ خطوط کو تسلیم کرتے ہیں، وہ ویانا میں شرکت اور وزارتی اجلاس میں شرکت کے لیے تیار ہیں۔

آخر میں، ویانا میں حتمی معاہدہ، پروپیگنڈے کے ماحول سے قطع نظر، حقیقت پسندی کا انتظار ہے، لالچ سے گریز اور گزشتہ 4 سال کے تجربے پر توجہ دینا ہے۔ کچھ فیصلے کرنے ہیں جو صرف مغربی فریقین کو کرنے چاہئیں۔

 یوکرین میں جنگ نویں دن میں داخل ہو گئی ہے کیونکہ کیف کے یورپی یونین کے ساتھ ساتھ نیٹو میں شمولیت کے اصرار نے بعض دیگر یورپی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہے جب یوکرین کی جنگ نے مغربی امتیازی سلوک سے زیادہ بہتر چہرہ دکھایا ہے۔

یوکرین یورپی یونین میں شامل ہو جائے گا۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اپنے ملک پر روس کے حملے کے بعد سے یورپی یونین اور نیٹو کی رکنیت کے لیے سخت زور دے رہے ہیں۔

درحقیقت خطے میں اشتعال انگیزی اور جنگ کی سب سے بڑی وجہ وہ اصرار تھا جسے یوکرین کے صدر تقریباً ایک سال سے میڈیا اور لابیوں میں فالو کر رہے ہیں۔

تاہم، یورپی یونین کی رکنیت کے لیے ایک بہت مشکل عمل درکار ہے، تاکہ ترکی، 2005 سے برسوں کی کوششوں کے باوجود، ابھی تک نیٹو میں شامل ہونے اور یورپیوں کی طرف سے قبول کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

زیلنسکی یورپی یونین میں شمولیت کے لیے روسی فوجی آپریشن اور اپنے ملک پر حملے کو کسی بھی قیمت پر ناممکن نہیں سمجھتے، یہی وجہ ہے کہ اس نے واضح طور پر "نیا طریقہ کار" جیسے نئے عنوان کے تحت یورپی یونین کے قانون کو پامال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود، یوکرین کے صدر خود جانتے ہیں کہ اس طرح کا طریقہ کار قانون کے ذریعے فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، زیلنسکی کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا اصرار بے سود ہے، کیونکہ اگر یورپی یونین روس کا مقابلہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی، اور اگر یوکرین قبول کرتا ہے، تو عملی طور پر یورپی یونین کو یا تو اپنی کمزوری کو تسلیم کرنا چاہیے یا ناکام ہونا چاہیے یا روس جنگ میں داخل ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ، یوکرین کا الحاق، یورپی یونین کی شرائط، ہدایات اور قواعد سے قطع نظر، ترکی کو غصہ دلائے گا، جو کئی سالوں سے بند دروازوں کے پیچھے پھنسا ہوا ہے۔

نیٹو میں شامل ہوں۔

نیٹو کی مشرق میں توسیع یوکرین میں موجودہ جنگ کے آغاز کی اہم اشتعال انگیزیوں میں سے ایک رہی ہے اور روسی برسوں سے ہمیشہ اس کا ذکر کرتے رہے ہیں۔

روسیوں نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ نیٹو کی مشرق میں توسیع ان کی ’’ریڈ لائن‘‘ ہے اور وہ کسی بھی طرح مغرب سے کم نہیں ہوگا۔ چاہے اس پر فوجی آپریشن کا خرچہ ہی کیوں نہ پڑے۔

جرمن اخبار ڈیر اشپیگل نے 20 فروری 1400 کو رپورٹ کیا کہ ایک دستاویز جو پہلے درجہ بندی کی گئی تھی اور برطانوی نیشنل آرکائیوز سے حاصل کی گئی تھی، جس میں مغربی ممالک نے نیٹو کو مشرق کی طرف توسیع نہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ 

یہ دستاویز 6 مارچ 1991 کو جرمنی کے شہر بون میں اس وقت کے امریکہ، برطانیہ، فرانس، سابق سوویت یونین اور وفاقی جمہوریہ جرمنی کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے متعلق ہے۔

لیکن 1990 کے بعد سے، امریکی اور یورپی نیٹو کی سرحدوں کو روس کے مشرق اور مشرق میں قدم بہ قدم اور سست رفتاری سے دھکیل رہے ہیں، جس کے بارے میں بہت سے آزاد ماہرین کا خیال ہے کہ ماسکو کو فوجی کارروائی پر اکسانے کا ایک بڑا عنصر ہے۔

اب حالیہ بحران میں اضافے کے بعد یوکرین کے علاوہ خطے کے کچھ دوسرے ممالک جیسے فن لینڈ اور جارجیا نے بھی ایسے ہی مطالبات کیے ہیں، جنہیں یوکرائنی بحران کے شعلوں پر پٹرول چھڑکنے کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے۔

یورپی یونین اور نیٹو میں شمولیت کے بے قاعدہ مطالبات تنازعہ کے فریقین کے درمیان بداعتمادی کی فضا کو مزید تیز کرتے ہیں اور فریقین کو نئے بلاکس کی طرف موڑ دیتے ہیں جب کہ دنیا کہتی ہے کہ حالیہ بحران کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے بات چیت اور مذاکرات کی ضرورت ہے۔

یوکرائنی بحران کے پس پردہ مغرب کا اصل چہرہ

یوکرین میں جنگ اور یوکرینیوں کی حمایت میں مغرب کی گھبراہٹ جن پر حملہ کیا جا رہا ہے اور مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بین الاقوامی میڈیا کی خبروں کی پالیسیوں کے پیچھے سے حقیقی امتیازی سلوک کے آغاز میں؛ جنہوں نے فلسطینی عوام کے قتل عام کو نظر انداز کیا؛ انہیں یمنی بچوں اور عورتوں کا قتل عام نظر نہیں آیا اور انہوں نے داعش کو دولت اسلامیہ کہا اور انہوں نے انہیں عراق اور شام میں "انقلابی قبائل" کے طور پر متعارف کرایا اور انہیں ڈر تھا کہ اس گروہ کو دہشت گرد کہا جائے گا۔

لیکن یوکرائن کی جنگ مغربیوں کے لیے ایک آئینہ بنی ہوئی ہے کہ وہ اپنا نسل پرستانہ چہرہ مزید واضح طور پر دیکھ سکیں اور یورونیوز نے اسی نفرت انگیز تقریر پر خصوصی رپورٹ شائع کی ہے۔

یوکرائن کی جنگ کے آخری نو دنوں کے دوران پہلی بار، سی بی ایس کے نامہ نگار چارلی ڈیگاٹا نے نسل پرستانہ نفرت پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے کہا، ’’یوکرین عراق اور افغانستان کی طرح نہیں ہے اور ایک نسبتاً مہذب ملک ہے۔‘‘ اس نے مشرق وسطیٰ کو چونکا دیا۔

اگرچہ سی بی ایس کے پیش کنندہ سوشل میڈیا پر ان پر ہونے والی وسیع تنقید کے لیے معذرت خواہ ہیں، لیکن ان نفرت انگیز تبصروں نے ایسا ہی کیا۔

یقیناً، الجزیرہ کو بعد میں اپنے یورپی پیشکش کنندہ کے ریمارکس پر معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔

ایک فرانسیسی صحافی اور BFM نیٹ ورک کے سیاسی شعبے کے سربراہ فلپ کربی نے بھی نسل پرست صحافیوں میں شمولیت اختیار کی اور مشرق وسطیٰ کے مقابلے یوکرینیوں اور یورپیوں کے درمیان مماثلت پر زور دیا۔

"وہ ہم سے بہت ملتے جلتے ہیں، اور یہ بہت چونکا دینے والی چیز ہے،" سابق برطانوی صحافی اور سیاست دان ڈینیئل ہانان نے ٹیلی گراف کے ایک مضمون میں یوکرین کی صورتحال پر لکھا۔

ایک امریکی شو مین مائیکل نولز نے ٹویٹ کیا، "مجھے ابھی احساس ہوا کہ یہ میری زندگی میں مہذب قوموں کے درمیان ہونے والی پہلی خانہ جنگی ہے۔"

یہ متنازعہ بن گیا، لیکن وہ سخت تنقید کے باوجود پیچھے نہیں ہٹے اور اپنی نفرت انگیز تقریر کا دفاع کیا۔

بلاشبہ قرون وسطیٰ کا نسل پرستانہ استکبار خود مغربی میڈیا میں جاری ہے لیکن یوکرائن کی جنگ جتنی تلخ اور تکلیف دہ ہے، اس نے مغربی معاشروں میں رائج سوچ کو چیلنج کیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ مغرب والے یوکرین کو شامی بنانے کے درپے ہیں، اور یہ اچھا ہو گا کہ یوکرین کے لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اس کا مقابلہ کریں، کیونکہ نام نہاد رضاکار جنگجوؤں کی آمد سے یوکرین کا بحران طول پکڑ جائے گا، جس کا مطلب مکمل تباہی ہے۔ یہ ملک اور انتشار وسیع تر ہے۔

 
l

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے پاکستان کے شہر پشاور میں نماز جمعہ کے دوران شیعہ جامع مسجد میں نمازیوں پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ دہشت گردوں کا مقصد پاکستان میں فرقہ واریت کے ذریعہ عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔دہشت گردوں کا کوئي مذہب نہیں ۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس حادثے کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سوگوار خاندانوں کو تعزیت اور تسلیت پیش کی اور زخمیوں کی جلد از جلد شفا اور صحتیابی کے لئے دعا کی۔

واضح رہے کہ پاکستان کے شہر پشاور کے  قصہ خوانی بازار میں کوچہ رسالدار کی جامع مسجد اور امامبارگاہ میں نمازِ جمعہ کے دوران دہشت گردوں کے حملے میں 30 نمازی شہید اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے ۔