رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حسینہ امام خمینی (رہ) میں ملک بھر سے آئے ہوئے عوامی رضاکار فورس بسیج کے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ ملاقات میں فرمایا کہ بسیج امام کی ایک قیمتی یادگار ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن اگرچہ صیہونی حکومت کے خلاف ہے، لیکن یہ ڈی امریکنائزیشن ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ آپریشن طوفان الاقصی نے خطے میں امریکی پالیسیوں کا شیڈول درھم برھم کردیا ہے اور انشاء اللہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ شیڈول ہیمشہ کے لیے نابود ہوجائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ غزہ کے عوام کے خلاف جرائم اور صیہونی حکومت کے وحشیانہ اور بے رحمانہ اقدام کے نتیجے میں نہ صرف خود صیہونی حکومت کی ساکھ بلکہ امریکہ کی ساکھ بھی برباد ہوگئی ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ اس (صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات ) نے نہ صرف مشہور یورپی ممالک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ مغربی تہذیب و تمدن کی ساکھ بھی برباد کردی ہے۔
آپ نے فرمایا کہ مغرب کی تہذیب و تمدن ایسی ہے کہ جب وہ (اسرائيل) فاسفورس بموں سے 5 ہزار بچوں کو شہید کرتا ہے تو ایک مخصوص مغربی ملک کی حکومت کہتی ہے کہ اسرائیل اپنا دفاع کر رہا ہے۔ کیا یہ اپنا دفاع ہے؟ مغربی ثقافت یہ ہے؛ اس معاملے میں مغربی ثقافت کی آبرو برباد ہوگئی ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں بعض لوگ خطے کے بارے میں اسلامی جمہوریہ کے نظریات کی بات کرتے ہوئے یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ ایران کہتا ہے کہ یہودیوں اور صیہونیوں کو سمندر میں پھینک دیا جائے، آپ نے فرمایا کہ کسی زمانے میں یہ بات بعض عرب کہا کرتے تھے لیکن ہم نے یہ بات کبھی نہیں کہی، ہم کسی کو سمندر میں پھیکنے کے قائل نہیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے واضح کیا کہ ہم کہتے ہیں کہ اصل رائے فلسطینی عوام کی رائے ہے اور فلسطینی عوام کے ووٹوں سے قائم ہونے والی حکومت وہاں (آکر آباد ہونے والے) لوگوں کے بارے میں فیصلے کرے گی۔ اب ممکن ہے کہ یہ (فلسطینی عوام کی منتخب) حکومت دنیا کے دیگر ملکوں سے آنے والے تمام لوگوں کو یہاں رہنے کی اجازت دے دے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ لبنان کے معاملے میں امریکیوں نے کہا تھا کہ وہ ایک "نئے مشرق وسطیٰ" کی تشکیل کے خواہاں ہیں۔ مشرق وسطیٰ جو مغربی ایشیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس خطے کو، جسے انہوں نے مشرق وسطیٰ کا نام دیا، اسے امریکہ کے ناجائز اہداف اور مفادات کی بنیاد پر، نئے جغرافیاسی سیاسی سیٹ میں تبدیل کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ کہ یقیناً وہ جو چاہتے تھے وہ نہیں ہوا، وہ اپنے نئے منصوبے کے تحت حزب اللہ کو تباہ کرنا چاہتے تھے، لیکن حزب اللہ 10 گنا مضبوط ہو گئی۔ بعد ازاں انہوں نے عراق کو نگلنے کی کوشش کی لیکن نگل نہ سکے، پھر وہ شام پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے اپنی پراکسیوں یعنی داعش اور جبہۃ النصرہ کو شامی حکومت کے گلے ڈال دیا ، 10 سال تک ان کی (پراکسیوں) مسلسل مدد کرتے رہے اور پیسہ اور وسائل فراہم کرتے رہے لیکن وہ ناکام رہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ نیا مشرق وسطی جو وہ بنانا چاہتے تھے وہ مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔ اس مشرق وسطیٰ کے اجزاء میں سے ایک یہ تھا کہ مسئلہ فلسطین کو غاصب حکومت کے حق میں ختم کیا جائے اور فلسطین نام کی کوئی چیز بھی باقی نہ رہے اور دو ریاستی حل جسے خود انہوں نے پاس کیا تھا کہ اس پر عملدآمد نہیں کیا۔