سلیمانی

سلیمانی

جمیلہ علم الہدی نے ایک امریکی میڈیا سے انٹرویو میں اعلان کیا ہے کہ خواتین کے حقوق کے نام پر  تشدد پھیلانے کی مغربی روش ایران میں کارگر نہیں ہوگی۔   

صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے  نیوز ویک سے انٹرویو میں کہا کہ ایران میں خواتین کو خاندان، والد اورخاندان کے سبھی افراد کی حمایت حاصل ہے اور اس حمایت کے سائے میں وہ معاشرے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔  

 انھوں نے کہا کہ خواتین ایران میں اور دنیا میں ہرجگہ، خاندان کے مرکز کے تحفظ میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں بنابریں معاشرے میں ان کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔  

 محترمہ جمیلہ علم الہدی نے مزید کہا کہ ایران میں خواتین کو  اپنے حقوق کے لئے مجاہدت نہیں کرنی پڑی  ہے کیونکہ انہیں حقوق حاصل ہیں اور  ایرانی معاشرے میں مردوں نے خواتین کے احترام کا تحفظ کیا ہے۔

 انھوں نے بتایا کہ اخلاقی پہلو سے خواتین جن اقدار کی مستحق ہیں، ایران میں انہیں قوانین کا حصہ بنادیا گیا ہے۔    

  ایران کی خاتون اول نے کہا کہ خواتین کے حقوق کی دنیاوی تحریکیں ایران میں داخل نہیں ہوسکی ہیں، اس کی سب سے پہلی وجہ ان تحریکوں میں پایا جانے والا تشدد کا رجحان ہے ۔

  انھوں نے کہا کہ ایران میں اس کے برعکس خواتین امن و سکون کو ترجیح دیتی ہیں اور یہ ان دونوں کا   نمایاں فرق ہے  

  صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے  مغرب کے ان  الزامات کے بارے میں کہ ایران میں خواتین کو آزادی حاصل نہیں ہے اور انہیں زیادہ حقوق کی ضرورت ہے کہا کہ مغرب کو ایران کے بارے میں ضروری معلومات نہیں ہیں۔ اس کی وجہ غلط فہمی ہے ۔ انھوں نے ایران میں عوام اور خواتین کے روابط  کی گہرائی و گیرائي کو نہیں سمجھا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایرانی خواتین کو بھی مغربی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ  خواتین کے بارے میں مغربی بیانیہ سیاسی محرکات کا حامل ہے ۔  

ایران کی خاتون اول  نے بہت سے  مغربی ملکوں بالخصوص نیویارک میں خواتین کی حالت کے بارے میں کہا کہ مغرب میں اکثرخواتین تنہائي کا احساس کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں خواتین کی خاندان اور شریک حیات کی جانب سے بہت کم حمایت ہوتی ہے ۔

 انھوں نے کہا کہ خواتین چونکہ زیادہ جذباتی ہوتی ہیں، اس لئے ان کا زیادہ احترام ہونا چاہئے۔  لیکن مغرب میں انہیں زیادہ  کام کرنا ہوتا ہے وہ مردوں کے  مساوی کام کرتی ہیں تاکہ کمترین معیار کی زندگی بسر کرسکیں۔ یہ مغربی اور ایرانی خواتین میں نمایاں فرق ہے۔ ایران میں خواتین بہت ہی قریبی خاندانی  روابط کی مالک ہیں  

 ڈاکٹر جمیلہ علم الہدی نے ایران کے خلاف امریکا کی دشمنانہ پالیسیوں اور پابندیوں کے بارے میں کہا کہ ہم حال ہی میں ثقافتی یلغار کا نشانہ بنے ہیں، ہم پرمغرب کے ثقافتی حملے ہوئے ہیں  ۔ جبکہ آپ ایرانی ثقافت کو دیکھیں تو ایران ثقافتی لحاظ سے مغرب سے بالکل مختلف ہے۔

 انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ایران یک  طرفہ اور خودسرانہ پابندیوں کا نشانہ بنا ہے جس کی وجہ سے عوام کی زندگی سخت ہوگئی ہے لیکن رہبر معظم کی رہنمائیوں کی بدولت ہم نے ان پابندیوں کو عبور کرنے میں کامیابی حاصل کی

 محترمہ جمیلہ علم الہدی نے ایرانی عوام پر پابندیوں کے منفی اثرات کے بارے میں کہا کہ پابندیوں کے منفی اثرات سب سے زیادہ مریضوں اور بچوں پر پڑے ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ اس کا نمونہ Epidermolysis bullosa  کی بیماری ہے ۔ اس میں مریض کی جلد اکھڑ جاتی ہے اور یہ بہت ہی دردناک اور ناقابل تصوہے۔  اس بیماری میں مبتلا افراد کا درد ناقابل بیان ہے۔

   ایران کی خاتون اول کا کہنا تھا کہ امریکا دعوی کرتا ہے کہ پابندیاں ایرانی عوام کے مفاد کے تحفظ میں لگائي گئی ہیں لیکن یہ  پابندیاں خوراک اور دواؤں پر نافذ کی جارہی ہیں ۔

 صدر ایران سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے آخر میں کہا کہ امریکی حکومتوں کی پالیسیاں دنیا کے آزاد اور خودمختار ملکوں کے استعمار اور استحصال پر مبنی ہیں ، وہ دنیا کے ہر آزادی پسند ملک پر دباؤ ڈالتی ہیں تاکہ انہیں امریکی مطالبات ماننے پر مجبور کرسکیں۔

جمیلہ علم الہدی نے ایک امریکی میڈیا سے انٹرویو میں اعلان کیا ہے کہ خواتین کے حقوق کے نام پر  تشدد پھیلانے کی مغربی روش ایران میں کارگر نہیں ہوگی۔   

صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے  نیوز ویک سے انٹرویو میں کہا کہ ایران میں خواتین کو خاندان، والد اورخاندان کے سبھی افراد کی حمایت حاصل ہے اور اس حمایت کے سائے میں وہ معاشرے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔  

 انھوں نے کہا کہ خواتین ایران میں اور دنیا میں ہرجگہ، خاندان کے مرکز کے تحفظ میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں بنابریں معاشرے میں ان کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔  

 محترمہ جمیلہ علم الہدی نے مزید کہا کہ ایران میں خواتین کو  اپنے حقوق کے لئے مجاہدت نہیں کرنی پڑی  ہے کیونکہ انہیں حقوق حاصل ہیں اور  ایرانی معاشرے میں مردوں نے خواتین کے احترام کا تحفظ کیا ہے۔

 انھوں نے بتایا کہ اخلاقی پہلو سے خواتین جن اقدار کی مستحق ہیں، ایران میں انہیں قوانین کا حصہ بنادیا گیا ہے۔    

  ایران کی خاتون اول نے کہا کہ خواتین کے حقوق کی دنیاوی تحریکیں ایران میں داخل نہیں ہوسکی ہیں، اس کی سب سے پہلی وجہ ان تحریکوں میں پایا جانے والا تشدد کا رجحان ہے ۔

  انھوں نے کہا کہ ایران میں اس کے برعکس خواتین امن و سکون کو ترجیح دیتی ہیں اور یہ ان دونوں کا   نمایاں فرق ہے  

  صدر سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے  مغرب کے ان  الزامات کے بارے میں کہ ایران میں خواتین کو آزادی حاصل نہیں ہے اور انہیں زیادہ حقوق کی ضرورت ہے کہا کہ مغرب کو ایران کے بارے میں ضروری معلومات نہیں ہیں۔ اس کی وجہ غلط فہمی ہے ۔ انھوں نے ایران میں عوام اور خواتین کے روابط  کی گہرائی و گیرائي کو نہیں سمجھا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایرانی خواتین کو بھی مغربی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ  خواتین کے بارے میں مغربی بیانیہ سیاسی محرکات کا حامل ہے ۔  

ایران کی خاتون اول  نے بہت سے  مغربی ملکوں بالخصوص نیویارک میں خواتین کی حالت کے بارے میں کہا کہ مغرب میں اکثرخواتین تنہائي کا احساس کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں خواتین کی خاندان اور شریک حیات کی جانب سے بہت کم حمایت ہوتی ہے ۔

 انھوں نے کہا کہ خواتین چونکہ زیادہ جذباتی ہوتی ہیں، اس لئے ان کا زیادہ احترام ہونا چاہئے۔  لیکن مغرب میں انہیں زیادہ  کام کرنا ہوتا ہے وہ مردوں کے  مساوی کام کرتی ہیں تاکہ کمترین معیار کی زندگی بسر کرسکیں۔ یہ مغربی اور ایرانی خواتین میں نمایاں فرق ہے۔ ایران میں خواتین بہت ہی قریبی خاندانی  روابط کی مالک ہیں  

 ڈاکٹر جمیلہ علم الہدی نے ایران کے خلاف امریکا کی دشمنانہ پالیسیوں اور پابندیوں کے بارے میں کہا کہ ہم حال ہی میں ثقافتی یلغار کا نشانہ بنے ہیں، ہم پرمغرب کے ثقافتی حملے ہوئے ہیں  ۔ جبکہ آپ ایرانی ثقافت کو دیکھیں تو ایران ثقافتی لحاظ سے مغرب سے بالکل مختلف ہے۔

 انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ایران یک  طرفہ اور خودسرانہ پابندیوں کا نشانہ بنا ہے جس کی وجہ سے عوام کی زندگی سخت ہوگئی ہے لیکن رہبر معظم کی رہنمائیوں کی بدولت ہم نے ان پابندیوں کو عبور کرنے میں کامیابی حاصل کی

 محترمہ جمیلہ علم الہدی نے ایرانی عوام پر پابندیوں کے منفی اثرات کے بارے میں کہا کہ پابندیوں کے منفی اثرات سب سے زیادہ مریضوں اور بچوں پر پڑے ہیں ۔

 انھوں نے کہا کہ اس کا نمونہ Epidermolysis bullosa  کی بیماری ہے ۔ اس میں مریض کی جلد اکھڑ جاتی ہے اور یہ بہت ہی دردناک اور ناقابل تصوہے۔  اس بیماری میں مبتلا افراد کا درد ناقابل بیان ہے۔

   ایران کی خاتون اول کا کہنا تھا کہ امریکا دعوی کرتا ہے کہ پابندیاں ایرانی عوام کے مفاد کے تحفظ میں لگائي گئی ہیں لیکن یہ  پابندیاں خوراک اور دواؤں پر نافذ کی جارہی ہیں ۔

 صدر ایران سید ابراہیم رئیسی کی اہلیہ نے آخر میں کہا کہ امریکی حکومتوں کی پالیسیاں دنیا کے آزاد اور خودمختار ملکوں کے استعمار اور استحصال پر مبنی ہیں ، وہ دنیا کے ہر آزادی پسند ملک پر دباؤ ڈالتی ہیں تاکہ انہیں امریکی مطالبات ماننے پر مجبور کرسکیں۔

 
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں اسرائیلی کابینہ لگ بھگ تیرہ مرتبہ جنگ بندی کی پیشکش مسترد کرنے کے بعد آخرکار اسے قبول کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کے خلاف جاری جنگ عارض طور پر روک دینے کی کئی وجوہات پائی جاتی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1)۔ غاصب صیہونی رژیم اب تک جنگ بندی کا معاہدہ قبول کرنے سے کتراتی آ رہی تھی کیونکہ نیتن یاہو اور صیہونی فوج کے سربراہان کی نظر میں کسی بھی قسم کی جنگ بندی درحقیقت حماس کیلئے فتح شمار کی جائے گی۔ غاصب صیہونی رژیم نے جن اہداف و مقاصد کیلئے غزہ پر فوجی جارحیت کا آغاز کیا تھا اب تک ان میں سے کوئی ہدف بھی پورا نہیں ہو سکا۔ اس کا پہلا ہدف حماس کے ہاتھوں اسیر صیہونی فوجیوں اور آبادکاروں کو آزاد کروانا تھا۔
 
دوسری طرف حماس ابتدا سے ہی اعلان کر چکی تھی کہ طوفان الاقصی فوجی آپریشن کا بنیادی مقصد اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی اسیروں کو آزاد کروانا ہے۔ لہذا جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کیلئے انجام پانے والے معاہدے کو اسلامی مزاحمت کی عظیم کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کامیابی اس بات کا باعث بنے گی کہ اسلامی مزاحمت مستقبل میں بھی ایسی حکمت عملی بروئے کار لاتی رہے۔ مزید برآں، حماس کی قید میں موجود خواتین اور بچوں سمیت سویلین افراد ایک طرح سے ان پر اخلاقی، میڈیا اور سیاسی ذمہ داریاں عائد ہونے کا باعث بن رہے تھے۔ اسی وجہ سے حماس انہیں کسی نہ کسی بہانے آزاد کرنے کی خواہاں تھی۔ اب جبکہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ انجام پا چکا ہے تو حماس ان کے بدلے اسرائیل کی قید میں موجود فلسطینی بچوں اور خواتین کو بھی آزادی دلا دے گی۔
 
2)۔ قیدیوں کا تبادلہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی انجام پانے کا محتاج تھا لہذا نیتن یاہو اور صیہونی فوج جنگ بندی کے خواہاں نہیں تھے۔ دوسری طرف صیہونی فوج اب تک نہ تو حماس کے اعلی سطحی رہنماوں کو قتل کرنے میں کامیاب رہی تھی اور نہ ہی حماس کے سیاسی اور فوجی ڈھانچے کو کوئی قابل ذکر نقصان پہنچا پائی تھی۔ دوسری طرف اسرائیل کے اندر سے حکومت پر اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کروانے کیلئے دباو بڑھتا جا رہا تھا۔ لہذا نیتن یاہو کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
3)۔ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ نے اسرائیلی قیدیوں کے کارڈ کو مغربی اور یورپی حکومتوں پر دباو ڈالنے کیلئے استعمال کیا اور اس طرح عالمی ذرائع ابلاغ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی غزہ پر صیہونی جارحیت کو جائز قرار دینے کی بہت کوشش کی لیکن انہیں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
 
4)۔ بنجمن نیتن یاہو اور اس کی کابینہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلی قیدیوں کا میڈیا پر آ کر اظہار خیال کرنے سے ان کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا پول کھل جائے گا جو اس مدت میں انہوں نے حماس اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے خلاف انجام دیا ہے۔ اس کا نتیجہ نیتن یاہو حکومت کی سرنگونی کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ لہذا وہ ان قیدیوں کی آزادی نہیں چاہتے تھے لیکن آخرکار عالمی دباو کے تحت انہیں ایسا کرنا پڑ گیا۔
5)۔ نیتن یاہو اور اس کی دائیں بازو کی شدت پسند کابینہ کی نظر میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اس میں حتی اسرائیلی اور غیر اسرائیلی ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نیتن یاہو غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کیلئے تلمود کی تعلیمات کو بنیاد بنا کر پیش کرتا ہے۔ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ نے غزہ کے خلاف جارحیت وہاں مقیم فلسطینیوں کی نسل کشی اور انہیں غزہ چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور کرنے کیلئے شروع کی تھی۔
 
یوں غاصب صیہونی رژیم غزہ کی پٹی پر بھی ناجائز قبضہ برقرار کرنے کے درپے تھی۔ لیکن غزہ میں فلسطینیوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کر کے اسرائیلی ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ صیہونی رژیم کی جانب سے اب تک جنگ بندی قبول نہ کرنے کی ایک وجہ یہی تھی کہ وہ فلسطینی شہریوں پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنا چاہتے تھے۔ لیکن جب صیہونی حکام کو اس مقصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو آخرکار جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔
6)۔ نیتن یاہو ہر قیمت پر غزہ جنگ میں فوجی کامیابی کے درپے تھا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ناکامی کی صورت میں اس کی سیاسی موت واقع ہو سکتی ہے۔ بنجمن نیتن یاہو پہلے سے عدالت میں اپنے خلاف کئی کیسز کا سامنا کر رہا ہے اور اندرونی سطح پر اس پر شدید دباو پایا جاتا ہے۔
 
غزہ جنگ میں فوجی کامیابی کے حصول کی شدید ضرورت اور خواہش نیتن یاہو کی جانب سے جنگ بندی قبول کرنے میں آڑے آ رہی تھی۔ لیکن جب پورا زور لگانے کے باوجود میدان جنگ میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی تو اس نے مایوس ہو کر آخرکار جنگ بندی قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں پایا۔
7)۔ نیتن یاہو کی شدید خواہش تھی کہ قطر کی بجائے مصر جنگ بندی میں ثالثی کا کردار ادا کرے۔ وہ اس طرح ایک طرف تو غزہ کے محاصرے میں شریک کے طور پر مصر کی پوزیشن مضبوط کرنے کے درپے تھا جبکہ دوسری طرف اسلامی مزاحمتی گروہوں پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے تیرہ مرتبہ جنگ بندی کو مسترد کر دیا لیکن آخر میں جب دیکھا کہ ایسا ممکن نہیں تو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گیا۔
 
 
 
 
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں اسرائیلی کابینہ لگ بھگ تیرہ مرتبہ جنگ بندی کی پیشکش مسترد کرنے کے بعد آخرکار اسے قبول کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کے خلاف جاری جنگ عارض طور پر روک دینے کی کئی وجوہات پائی جاتی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1)۔ غاصب صیہونی رژیم اب تک جنگ بندی کا معاہدہ قبول کرنے سے کتراتی آ رہی تھی کیونکہ نیتن یاہو اور صیہونی فوج کے سربراہان کی نظر میں کسی بھی قسم کی جنگ بندی درحقیقت حماس کیلئے فتح شمار کی جائے گی۔ غاصب صیہونی رژیم نے جن اہداف و مقاصد کیلئے غزہ پر فوجی جارحیت کا آغاز کیا تھا اب تک ان میں سے کوئی ہدف بھی پورا نہیں ہو سکا۔ اس کا پہلا ہدف حماس کے ہاتھوں اسیر صیہونی فوجیوں اور آبادکاروں کو آزاد کروانا تھا۔
 
دوسری طرف حماس ابتدا سے ہی اعلان کر چکی تھی کہ طوفان الاقصی فوجی آپریشن کا بنیادی مقصد اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی اسیروں کو آزاد کروانا ہے۔ لہذا جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کیلئے انجام پانے والے معاہدے کو اسلامی مزاحمت کی عظیم کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کامیابی اس بات کا باعث بنے گی کہ اسلامی مزاحمت مستقبل میں بھی ایسی حکمت عملی بروئے کار لاتی رہے۔ مزید برآں، حماس کی قید میں موجود خواتین اور بچوں سمیت سویلین افراد ایک طرح سے ان پر اخلاقی، میڈیا اور سیاسی ذمہ داریاں عائد ہونے کا باعث بن رہے تھے۔ اسی وجہ سے حماس انہیں کسی نہ کسی بہانے آزاد کرنے کی خواہاں تھی۔ اب جبکہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ انجام پا چکا ہے تو حماس ان کے بدلے اسرائیل کی قید میں موجود فلسطینی بچوں اور خواتین کو بھی آزادی دلا دے گی۔
 
2)۔ قیدیوں کا تبادلہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی انجام پانے کا محتاج تھا لہذا نیتن یاہو اور صیہونی فوج جنگ بندی کے خواہاں نہیں تھے۔ دوسری طرف صیہونی فوج اب تک نہ تو حماس کے اعلی سطحی رہنماوں کو قتل کرنے میں کامیاب رہی تھی اور نہ ہی حماس کے سیاسی اور فوجی ڈھانچے کو کوئی قابل ذکر نقصان پہنچا پائی تھی۔ دوسری طرف اسرائیل کے اندر سے حکومت پر اسرائیلی قیدیوں کو آزاد کروانے کیلئے دباو بڑھتا جا رہا تھا۔ لہذا نیتن یاہو کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
3)۔ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ نے اسرائیلی قیدیوں کے کارڈ کو مغربی اور یورپی حکومتوں پر دباو ڈالنے کیلئے استعمال کیا اور اس طرح عالمی ذرائع ابلاغ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی غزہ پر صیہونی جارحیت کو جائز قرار دینے کی بہت کوشش کی لیکن انہیں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
 
4)۔ بنجمن نیتن یاہو اور اس کی کابینہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلی قیدیوں کا میڈیا پر آ کر اظہار خیال کرنے سے ان کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا پول کھل جائے گا جو اس مدت میں انہوں نے حماس اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے خلاف انجام دیا ہے۔ اس کا نتیجہ نیتن یاہو حکومت کی سرنگونی کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ لہذا وہ ان قیدیوں کی آزادی نہیں چاہتے تھے لیکن آخرکار عالمی دباو کے تحت انہیں ایسا کرنا پڑ گیا۔
5)۔ نیتن یاہو اور اس کی دائیں بازو کی شدت پسند کابینہ کی نظر میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اس میں حتی اسرائیلی اور غیر اسرائیلی ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نیتن یاہو غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کیلئے تلمود کی تعلیمات کو بنیاد بنا کر پیش کرتا ہے۔ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ نے غزہ کے خلاف جارحیت وہاں مقیم فلسطینیوں کی نسل کشی اور انہیں غزہ چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور کرنے کیلئے شروع کی تھی۔
 
یوں غاصب صیہونی رژیم غزہ کی پٹی پر بھی ناجائز قبضہ برقرار کرنے کے درپے تھی۔ لیکن غزہ میں فلسطینیوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کر کے اسرائیلی ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ صیہونی رژیم کی جانب سے اب تک جنگ بندی قبول نہ کرنے کی ایک وجہ یہی تھی کہ وہ فلسطینی شہریوں پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنا چاہتے تھے۔ لیکن جب صیہونی حکام کو اس مقصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو آخرکار جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔
6)۔ نیتن یاہو ہر قیمت پر غزہ جنگ میں فوجی کامیابی کے درپے تھا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ناکامی کی صورت میں اس کی سیاسی موت واقع ہو سکتی ہے۔ بنجمن نیتن یاہو پہلے سے عدالت میں اپنے خلاف کئی کیسز کا سامنا کر رہا ہے اور اندرونی سطح پر اس پر شدید دباو پایا جاتا ہے۔
 
غزہ جنگ میں فوجی کامیابی کے حصول کی شدید ضرورت اور خواہش نیتن یاہو کی جانب سے جنگ بندی قبول کرنے میں آڑے آ رہی تھی۔ لیکن جب پورا زور لگانے کے باوجود میدان جنگ میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی تو اس نے مایوس ہو کر آخرکار جنگ بندی قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں پایا۔
7)۔ نیتن یاہو کی شدید خواہش تھی کہ قطر کی بجائے مصر جنگ بندی میں ثالثی کا کردار ادا کرے۔ وہ اس طرح ایک طرف تو غزہ کے محاصرے میں شریک کے طور پر مصر کی پوزیشن مضبوط کرنے کے درپے تھا جبکہ دوسری طرف اسلامی مزاحمتی گروہوں پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے تیرہ مرتبہ جنگ بندی کو مسترد کر دیا لیکن آخر میں جب دیکھا کہ ایسا ممکن نہیں تو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گیا۔
 
 
 

کامیابی کے دو الفاظ!

دنیا کے نظاموں میں،یعنی انقلابی نظاموں میں جو پچھلی ایک یا دو صدیوں میں تشکیل پائے ہیں،میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کے علاوہ کسی بھی ایسے نظام کو نہیں جانتا کہ جسکے زوال، نابودی اور بربادی کے بارے میں اتنی زیادہ پیشن گوئیاں ہوئی ہوں۔آخر کیوں اسلامی جمہوریہ ایران کو ان تمام دشمنیوں کے باوجود دوسرے نظاموں اور انقلابوں کی جیسی بد نصیبی کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟ کیا وجہ ہے اور اسکا کیا راز ہے؟اس نظام کی بقاء دو الفاظ ہیں:”جمہوری” اور “اسلامی۔

اسلامی جمہوریہ،جمہوری بھی ہے،یعنی لوگوں کی رای کا پابند ہے اور اسلامی بھی ہے یعنی شریعت الہی کا پابند ہے۔ایک نیا ماڈل ہے۔

 

امام خمینی رح، کوہ گراں!

امام خمینی کی ایجاد اور انکا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اسلامی نظریے کی بنیاد ڈالی اور اسے سیاسی نظریات کے میدان کا حصہ بنایا۔صرف ایک نظریہ ایجاد نہیں کیا بلکہ اسے عملی جامہ پہنایا اور وجود بخشا،کچھہ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ انقلاب آگیا،اب لوگ اپنے گھروں واپس لوٹ جائیں یہاں امام خمینی نے کوہ گراں کی مانند تمام امور عوام کے سپرد کردیے۔

 

 

 

عوام پر یقین!

امام خمینی کو عوام پر پختہ عقیدہ تھا،عوام کی صلاحیتوں،انکے ارادوں،انکی وفاداری پہ پختہ عقیدہ رکھتے تھے۔یہ اسلام ناب(خالص) کی فکر،امام راحل کی ہمیشگی فکر تھی،صرف اسلامی جمہوریہ ایران کے زمانے کے لئے مخصوص نہیں تھی،بہر حال اسلام ناب محمدی کا تحقق،اسلام کی حاکمیت اور تشکیل کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

 

 

اسلام اور جمہوریت،مسائل کا حل!

دو الفاظ،”اسلامی” اور “جمہوری” کو امام راحل ملک کے مسائل کا حل مانتے تھے۔انہوں نے شروع سے اعلان کیا “جمہوری اسلامی” نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ،اسلامی و جمہوری،قرآن سے اخذ شدہ ہے۔جمہوریت اسلام کے بغیر،اور اسلام جمہوریت کے بغیر،دونوں بے معنی ہیں۔اسلام کی حاکمیت یعنی یہ کہ اصول،اقدار اور راستے کا تعین اسلام کرے گا۔عوامی حکومت یعنی یہ کہ حکومتی کو ایک منظم شکل دینا عوام کا کام ہے۔جب بھی لوگوں کو میدان میں لائے اور اسلام کو معیار و محور بنایا،ہم نے پیشرفت کی۔

 

 

عہد بصیرت ، رھبر معظم

یکنا نیوز- سوره جن میں ایسی آیات ہیں کہ جن جب قرآن سنتے ہیں اور کہتے  ہیں: « قُلْ أُوحِىَ إِلىَ‏ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الجْنّ‏ فَقَالُواْ إِنَّا سمَعْنَا قُرْءَانًا عجَبًا يهَدِى إِلىَ الرُّشْدِ فَامَنَّا بِهِ  وَ لَن نُّشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا؛ ای پیغمبر کہو: مجھ پر وحی اتری ہے کہ کچھ جنوں نے میری باتیں سن لی ہیں اور پھر کہا کہ ہم نے عجبیب قرآن سنے جو راہ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے، ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور کسی کو خدا کا شریک نہیں دیکھتے ہیں‏».(جن:1-2)

پيغمبر (ص) جب مكه سے بازار" عكاظ" جو" طائف" میں ہے کی طرف آتے ہیں تاکہ لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں، مگر کوئی انکی بات نہیں سنتے اور وہ واپس آتے ہیں  اور وادی جن میں پہنچتے ہیں، رات وہی ٹھرتے ہیں اور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، جنوں کے ایک گروپ نے انکی تلاوت سنی اور ایمان لائے اور اپنی قوم کی طرف تبلیغ کے لیے چلے گیے۔

 

جن کا تعارف

جن یا جنات خلقت کے لحاظ سے انسان سے قریب ترین مخلوق ہے جو انسانوں کی طرح اختیار اور فھم، ذمہ داری اور عقل کے مالک ہے، وہ انسانوں کی طرح مومن اور کافر ہے اور رسول گرامی جنوں پر بھی رسول ہے، جن میں مرد و خواتین ہیں اور وہ بچے پیدا کرتے ہیں، انکی عمریں انسانوں سے زیادہ ہیں تاہم وہ بھی پیدایش اور موت و محدود زندگی کے مالک ہیں۔ وہ انسانوں سے قبل پیدا ہوا ہے اور آگ سے بنا ہے وہ دکھائی نہ دینے والی مخلوق ہے۔

 

قرآن کا عجیب ہونا: اس وجہ سے عجیب ہے کہ انداز اور اسٹائل منفرد ہے اور بہت متاثر کرنے والی کتاب ہے اور لانے والی ذات بھی کسی سے پڑھے نہیں۔

کلام ظاہر ہے اور باطن عجیب اور لوگ اعتراف کرتے ہیں کہ قرآن ایک معجزہ ہے۔

تمام تعجب کرانے والی چیزیں عادی ہوجاتی ہیں تاہم قرآن عجیب کتاب ہے  جو ابدی  ہے، مثال کے طور پر مشرکین سے کہا جاتا ہے «اگر ملاسکتے ہو تو ایک ہی سورہ قرآن کی طرح لے آ...... اگر سچ کہتے ہوں»(یونس:38).

وہ لوگ نہ کرسکے اور 1400 سال ہوچکا ہے اب تک کوئی اس چیلنج کو پورا نہ کرسکے ہیں اور اسی لیے حضرت على عليه السلام نهج‏البلاغه مین فرماتے ہیں:

«لا تفنى عجائبه ؛ عجایب قرآن فن ہونے والے نہیں »

هدایت کرنے والا قرآن:  قرآن  میں ہدایت کرنے والی آیات ہیں اور سورہ جن کی آیت 2 میں "رش"  کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی کوئی ایکسپائری نہیں اور یہ دائمی ہے اور اسکی ہدایت صرف انسانوں کے واسطی نہیں بلکہ جنوں کے لیے بھی ہے جیسے مذکور آیت میں ہم پڑھتے ہیں ۔/

 
 
جامع مسجد قم 6000 مربع میڑ پر واقع تیسری صدی ہجری کی یادگار مسجد ہے۔ اس مسجد کے گنبد اور دیواروں کی ساخت میں لوہے کا استعمال نہیں ہوا ہے تاہم صدیوں بعد بھی اس مسجد کو مضبوط تصور کیا جاتا ہے۔
 

 
 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس موقع پر اپنے خطاب میں فلسطین کے حالات اور غزہ میں صیہونی حکومت کے جاری جرائم کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ غزہ کے واقعات نے بہت سے پوشیدہ حقائق، دنیا کے لوگوں پر عیاں کر دیے، جن میں سے ایک حقیقت، مغربی ملکوں کے حکام کی جانب سے نسلی امتیاز کی طرفداری ہے۔

انھوں نے صیہونی حکومت کو نسلی پرستی کا مظہر بتایا اور کہا کہ صیہونی اپنے آپ کو برتر نسل سمجھتے ہیں اور دوسرے تمام انسانوں کو کمتر نسل مانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کئی ہزار بچوں کو قتل کر ڈالا اور ان کا ضمیر مطمئن ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دے کر کہا کہ جب امریکا کے صدر، جرمنی کے چانسلر، فرانس کے صدر اور برطانیہ کے وزیر اعظم اپنے بلند بانگ دعووں کے باوجود، اس طرح کی نسل پرست حکومت کی حمایت اور مدد کرتے ہیں تو یہ ان کی طرف سے نسل پرستی کی طرفداری کی قابل مذمت سچائی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یورپ اور امریکا کے عوام بھی اس صورتحال میں اپنی ذمہ داری طے کر لیں اور بتا دیں کہ وہ نسل پرستی کے طرفدار نہیں ہیں۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے غزہ کے حالات کے بارے میں جو دوسری اہم بات بیان کی وہ صیہونی حکومت کی فوجی اور آپریشنل ناکامی کے بارے میں تھی۔ انھوں نے کہا کہ صیہونی حکومت، غزہ میں بے تحاشا بمباری کے باوجود اب تک اپنے مشن میں ناکام رہی ہے کیونکہ اس نے شروع سے ہی کہا تھا کہ ہمارا ٹارگٹ حماس اور مزاحمتی فورس کو ختم کرنا ہے لیکن چالیس دن سے زیادہ گزر جانے اور اپنی تمام تر فوجی طاقت استعمال کرنے کے باوجود وہ اب تک ایسا نہیں کر پائي ہے۔

انھوں نے غزہ میں اسپتالوں، عورتوں اور بچوں پر وحشیانہ بمباری کو اپنی شکست پر صیہونی حکام کی شدید تلملاہٹ کی نشانی بتایا اور کہا کہ غزہ میں صیہونی حکومت کی شکست ایک حقیقت ہے اور اسپتالوں یا عام لوگوں کے گھروں میں گھس جانا فتح نہیں ہے کیونکہ فتح کا مطلب فریق مقابل کو شکست دینا ہے جو صیہونی حکومت اب تک نہیں کر پائي ہے اور مستقبل میں بھی ایسا نہیں کر پائے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اس ناکامی کا دائرہ صیہونی حکومت سے کہیں وسیع تر ہے اور اس نے امریکا اور مغربی ملکوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب دنیا نے یہ حقیقت دیکھ لی کہ بے انتہا اور پیشرفتہ فوجی وسائل رکھنے والی حکومت، اپنے فریق مقابل پر غلبہ حاصل نہیں کر سکی ہے جس کے پاس ان میں سے کوئی بھی وسائل نہیں ہیں۔

انھوں نے اسی طرح مسلم حکومتوں کی کارکردگی اور ذمہ داریوں کے بارے میں کہا کہ بعض مسلمان حکومتوں نے بظاہر عالمی پلیٹ فارمز پر صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت کی اور بعض نے تو اب تک مذمت بھی نہیں کی، یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اصلی کام یہ ہے کہ صیہونی حکومت کی شریان اور اس کی رگ حیات کاٹ دی جائے اور اسلامی حکومتیں اس حکومت تک انرجی اور سامان کی ترسیل کا راستہ روک دیں۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ اسلامی حکومتوں کو چاہیے کہ کم از کم ایک محدود مدت کے لیے صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات منقطع کر لیں۔ انھوں نے کہا کہ عوام اپنے مظاہرے اور ریلیاں جاری رکھیں اور فلسطینی قوم کی مظلومیت کو فراموش نہ ہونے دیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم اللہ کے وعدے پر یقین رکھتے ہیں اور مستقبل کی جانب سے بھی پرامید ہیں اور اپنی ذمہ داری پر عمل کرتے رہیں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے سپاہ پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس کی جس نمائش گاہ کا معائنہ کیا اس میں میزائل، ڈرون، دفاعی آلات حرب اور ایرواسپیس جیسے شعبوں کی مصنوعات پر مشتمل تھی، آئي آر جی سی کے جوان سائنسدانوں اور ماہرین کی جدید اور ماڈرن ایجادات کو نمائش کے لیے پیش گيا تھا۔ نمائش گاہ "سوچ سے لے کر پروڈکٹ تک مکمل ایرانی" کے عنوان سے منعقد کی گئي تھی۔

اس نمائش گاہ میں رہبر انقلاب اسلامی کی موجودگي میں، ہائپرسونک کروز میزائل "فتاح-2"، موبائل ڈیفنس سسٹم "مہران" اپگریڈیڈ سسٹم "9 دی" اور اسی طرح "شاہد-147" ڈرون کی رونمائی گئی۔ سیٹلائٹ کیریئر میزائل کی تیاری اور فضا میں سیٹلائٹ بھیجنے کے میدان میں کیے جانے والے اقدامات اور جدید کامیابیاں، اس نمائش گاہ کا ایک اور حصہ تھیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس طرح کی سائنسی پیشرفت کے حصول کو عزم و ایمان پر مبنی جذبے کا نتیجہ بتایا اور کہا کہ ہمارے نوجوان جہاں بھی عزم و ایمان کے ساتھ پہنچے، وہیں انھوں نے عظیم کارنامے انجام دیے اور اس نمائش گاہ میں بھی عزم و ایمان کی نشانیاں بہت واضح تھیں۔

ایران کی مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر نے جدت طرازی کو آئی آر جی سی کی ائيرواسپیس کی نمائش گاہ کی ایک اور خصوصیت بتایا اور کہا کہ کامیابیوں کی موجودہ سطح پر ہرگز مطمئن نہیں ہونا چاہیے کیونکہ دنیا میں مختلف فوجی اور غیر فوجی شعبے لگاتار پیشرفت کر رہے ہیں اور ہمیں بھی کوشش کرنا چاہیے کہ پیچھے نہ رہ جائيں۔

اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف حسین سلامی نے کہا ہے کہ اسرائیل کا خاتمہ تاریخ کے کوڑے دان میں ہوگا۔ ایران کے دارالحکومت تہران میں فلسطین کی حمایت میں ریلی نکالی گئی، جس سے ایرانی کمانڈر حسین سلامی نے خطاب کیا۔ اس دوران ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل حماس سے طویل اور خونی جنگ کی طرف جا رہا ہے۔ اسرائیل کو یقینی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

حسین سلامی نے کہا کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، اسلامی دنیا جو کر سکی کرے گی۔ اسلامی دنیا کی اب بھی بہت سی صلاحیتیں باقی ہیں۔ ایرانی کمانڈر کا کہنا تھا کہ صہیونی حکومت مزید امن و سکون نہیں دیکھ سکے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ مسلمان غزہ کے مظلوم عوام کی طرف سے بدلہ لیں گے۔ مسلمانوں کے انتقام کی کوئی میعاد بھی نہیں ہوگی۔

سات اکتوبر آپریشن طوفان الاقصیٰ کے بعد سے مسلسل جاری غزہ جنگ میں جہاں فلسطینی عوام کو جانی نقصان اور گھروں کی تباہی کا سامنا ہے، وہاں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو بھی درجن بھر سے زائد مشکلات اور مصائب کا سامنا ہے۔ اس مقالہ میں فقط غاصب صیہونی حکومت کو ہونے والے معاشی نقصان کے بارے میں تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت کی اپنی انویسٹ منٹ ایجنسی جسے اسرائیلی انویسٹ منٹ ایجنسی کہا جاتا ہے، اس بات کا اعتراف کرچکی ہے کہ جنگ کے پہلے بارہ دنوں میں یعنی 09 اکتوبر سے 20 اکتوبر تک اسرائیل کی اسٹاک ایکسچینج سے بیس ارب ڈالر کا سرمایہ نکال لیا گیا تھا۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل سے نکل جانے والے سرمایہ کی کل رقم پچاس ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔

غزہ پر امریکی سرپرستی میں مسلط کردہ صیہونی جنگ کے معاشی اثرات غاصب صیہونی حکومت کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ اس جنگ میں غاصب حکومت کو بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ حال ہی میں غاصب حکومت اسرائیل کے مرکزی بینک نے ایک رپورٹ میں تمام بینکوں کو محتاط انداز میں کام کرنے کی ایڈوائزری جاری کی ہے اور ایک اندازہ کے مطابق کہا ہے کہ جنگ کے سبب اسرائیلی معیشت کو یومیہ 26 سے 30 کروڑ ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔ مرکزی بینک کی اسی رپورٹ میں اسرائیلی انویسٹ منٹ ایجنسی کی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ غزہ کے ساتھ غاصب حکومت کی مسلسل جنگ کی وجہ سے معیشت کو 50 ارب ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔

اس موقع پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا غاصب صیہونی حکومت روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے اتنے بڑے معاشی نقصان کو اکیلے ہی برداشت کر لے گی؟ یا اس معاشی نقصان کا بوجھ بھی امریکی شہریوں کے ٹیکس سے ادا کردہ رقم کی صورت میں اسرائیل کو دیا جائے گا؟ دوسری طرف غزہ میں معصوم بچوں اور انسانیت کے قاتل غاصب صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور وزیر خزانہ بیزا لیل سماٹریش پر عوامی دباو بڑھ رہا ہے کہ وہ غاصب اسرائیلی حکومت کے بجٹ پر نظرثانی کریں۔ اسرائیلی انوسٹ منٹ ایجنسی نے جہاں اسٹاک ایکسچینج سے سرمایہ نکالنے کی رپورٹ جاری کی ہے، وہاں ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ جنگ کے باعث غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی کرنسی شیکل 2012ء کے بعد کم ترین سطح پر آچکی ہے۔ غاصب حکومت کے مرکزی بینک کے مطابق جنگ کے باعث اسرائیل کی کرنسی شیکل مسلسل اپنی قدر کھو رہی ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد امریکی ڈالر کے مقابلے میں اسرائیلی کرنسی شیکل کی قدر میں 0.7 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اسرائیل کے بانڈز اور سٹاکس میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ غزہ پر جاری جنگ علاقائی تنازعے کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ اسرائیل کی وزارت افرادی قوت کا کہنا ہے کہ غزہ پر جنگ کی وجہ سے ورک فورس میں 20 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جنگ کے باعث اسرائیل کی درآمدات اور برآمدات متاثر ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی تصدیق کی گئی ہے کہ ایک ماہ میں غاصب حکومت کے تیس ہزار افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔

غزہ سے مسلسل فلسطینی اسلامی مزاحمت دفاع کر رہی ہے اور غاصب حکومت کے فوجی ٹھکانوں میں غزہ سمیت جنوبی لبنان سے روزانہ کی بنیادوں پر درجنوں اور سینکڑوں راکٹ اور میزائل داغے جا رہے ہیں۔ ان میزائلوں کو روکنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے غاصب صیہونی حکومت کو بے پناہ جنگی نقصان کا سامنا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق غاصب حکومت کو شدید مالی اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری طرف یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ غزہ جنگ سے پیدا ہونے والی اس ابتر معاشی صورتحال میں بجٹ میں ترامیم کی جائیں اور جنگی بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے فنڈز میں کٹوتی کے فیصلے پر وزیراعظم نیتن یاہو پر تنقید کی جا رہی ہے۔

ماہرین اقتصادی امور کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کو دفاعی بجٹ میں بہت بڑی رقم کی ضرورت ہے، لیکن اس رقم کی دستیابی کیسے ہوگی، یہ ایک سوال ہے۔ کیونکہ ایک بڑی تعداد سرمایہ داروں کی مقبوضہ فلسطین سے نقل مکانی کر رہی ہے اور اپنا سرمایہ بھی نکال چکی ہے۔ دوسری جانب 300 معاشی ماہرین نے رواں ہفتے نیتن یاہو کو کہا کہ وہ تمام غیر ضروری اخراجات میں کمی کریں، اخراجات پر نظرثانی کریں، کیونکہ جنگ کے بعد امداد اور بحالی کے لیے اربوں ڈالرز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اسرائیل کی معیشت کا حجم 530 ارب ڈالرز سے زائد ہے اور فی کس آمدن 58 ہزار 273 ڈالرز ہے۔ مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 200 ارب ڈالرز ہیں، جو ایک سال کے درآمدی بل کے برابر ہے۔ غاصب اسرائیل کی معیشت میں خدمات کے شعبے کا حصہ 80 فیصد اور صنعتی شعبے کا شیئر 17 فیصد سے زائد ہے۔ غزہ پر جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے زرمبادلہ کے ذخائر میں سات ارب ڈالرز کی کمی ہوئی ہے اور اب یہ 191.2 ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں۔

ماہرین معاشی امور کہتے ہیں کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی معیشت کو امریکہ اور یورپ کے ساتھ ملا کر دیکھیں۔ ہاں اگر اسرائیل اکیلے یہ جنگ لڑ رہا ہوتا تو شاید اب تک اس کی معیشت تباہ ہوچکی ہوتی۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی سٹینڈرڈ اینڈ پوور (ایس اینڈ پی) نے حالیہ جنگ کی وجہ سے اسرائیلی معیشت میں پانچ فیصد کمی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ریٹنگ ایجنسی نے آئندہ مہینوں میں اسرائیلی معیشت میں سست روی کا بھی امکان ظاہر کیا ہے۔کاروباری سرگرمیوں میں کمی ہو رہی ہے، صارفین اشیاء کی خریداری کم کر رہے ہیں، جس سے ڈیمانڈ میں کمی ہو رہی ہے اور سرمایہ کاری کے ماحول پر غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کا بجٹ خسارہ اکتوبر میں ملک کی مجموعی پیدوار "جی ڈی پی" کا 2.6 فیصد تک پہنچ چکا ہے، جو کہ ستمبر میں 1.5 فیصد تھا۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے 2022ء میں 35 سال بعد جی ڈی پی کا 0.6 فیصد بجٹ سرپلس دیا تھا۔ جنگی اخراجات کے باعث اسرائیل کا بجٹ خسارہ 2024ء میں 3.5 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ گذشتہ سال 2022ء میں اسرائیل کی معاشی شرح نمو "جی ڈی پی" کا 6.5 فیصد تھی۔

ایس اینڈ پی کے مطابق رواں سال اسرائیل کی جی ڈی پی 1.5 فیصد تک رہے گی، جبکہ اگلے سال 2024ء میں جی ڈی پی 5 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ غاصب اسرائیل کے مرکزی بینک کے مطابق 2023ء میں اسرائیل کی معاشی شرح نمو 2.3 فیصد تک رہ سکتی ہے جبکہ اگلے سال 2024ء میں معاشی شرح نمو 2.8 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے اسلحے کی برآمدات بری طرح متاثر ہوسکتی ہیں۔ اسرائیلی اسلحے کی برآمدات مجموعی برآمدات کا پانچ فیصد ہیں، جبکہ طویل جنگ کی وجہ سے اسرائیل کی سیاحت بھی متاثر ہو سکتی ہے، کیونکہ جنگ کے بعد بڑی فضائی کمپنیوں کی اسرائیل کے لیے پروازیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ جنگ کی وجہ سے اسرائیل کا قرض بلحاظ جی ڈی پی 60 فیصد تک پہنچ چکا ہے، جو اگلے سال تک 55 فیصد تک رہنے کا اندازہ تھا۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک پر گہری نظر رکھنے والے ماہر شفقت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امریکی اور یورپی یہودیوں کا بینکنگ، معیشت اور میڈیا پر پورا کنٹرول ہے، امریکی کانگریس میں بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی سینیٹر اسرائیل کی مخالفت کرے۔

ماہر معیشت شاہد محمود نے کہا کہ جنگ کے باعث اسرائیل کے اسلحے کی فروخت، دفاعی برآمدات اور ہائی ٹیک شعبوں میں سرمایہ کاری متاثر ہوسکتی ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق غاصب صیہونی حکومت کے مرکزی بینک نے اسرائیل کو جنگ کے لیے 45 ارب ڈالرز فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ امریکی کانگریس نے اسرائیل کو 14 ارب ڈالرز سے زائد کے امدادی پیکیج کی منظوری دی ہے۔ امریکی کانگریس ریسرچ سروس کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے لیے اسرائیل کو فوج کے لیے 3.3 ارب ڈالرز مختص کیے ہیں۔ ماہر معاشی امورکا کہنا ہے کہ اسرائیل کو جنگ میں جتنا مالی نقصان ہوتا ہے، امریکہ اور یورپ اس کی مدد کرتے ہیں۔ "1948 سے آج تک لڑی جانیوالی تمام جنگیں اسرائیل نے امریکہ اور یورپ کے ساتھ مل کر لڑی ہیں، اسرائیل نے آج تک کوئی جنگ اکیلے نہیں لڑی، اسرائیل کی وار مشینری میں بھی اتنی طاقت نہیں کہ وہ اکیلے یہ جنگ لڑ سکے۔"

انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک سٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج میں ایک لاکھ 69 ہزار 500 اہلکار موجود ہیں جبکہ چار لاکھ 65 ہزار افراد ریزرو فوج کا حصہ ہیں۔ اسرائیل کی بری فوج کے پاس 2200 ٹینکس اور 530 آرٹلریز ہیں۔ اسرائیل کے پاس جدید ترین موبائل ایئر ڈیفنس موجود ہے، جو چھوٹی رینج کے راکٹس کو پکڑنے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسرائیلی کی فضائیہ کے پاس 339 جنگی لڑاکا طیارے ہیں جن، میں 196 ایف 16، 83 ایف 15 اور 30 ایف 35 لڑاکا طیارے بھی موجود ہیں۔ اسرائیل کے پاس پانچ جدید ترین سب میرینز بھی ہیں۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے دفاع کی مد میں 2023ء میں 23.4 ارب ڈالرز خرچ کیے۔ انڈیا اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ گذشتہ چار برسوں میں انڈیا نے اسرائیل سے ایک ارب 19 کروڑ ڈالرز کا اسلحہ خریدا۔ انڈیا کے بعد آذربائیجان، فلپائن اور امریکہ اسرائیلی اسلحے کے بڑے خریدار ہیں۔ اسرائیل امریکہ اور جرمنی سے اسلحے کی بڑی خریداری کرتا ہے۔
 
 
 تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

قطر کے "الجزیرہ" نیوز چینل نے بدھ کی شام اپنی نیوز سائٹ پر لکھا ہے کہ جمہوریہ جنوبی افریقہ کے صدر "سیریل رامافوسا" کے اعلان کے مطابق صیہونی حکومت کی جانب سے غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم کے ارتکاب پر ان کے ملک کی جانب سے بین الاقوامی فوجداری عدالت کو شکایت کی گئی ہے۔

 

اس رپورٹ کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ کے سرکاری دورے کے دوران ایک پریس کانفرنس میں جنوبی افریقہ کے صدر نے غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم اور نسل کشی کے بارے میں کہا کہ یہ پٹی ایک حراستی کیمپ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ 

 

جنوبی افریقہ کے صدر نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ ان کا ملک دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ مل کر صیہونی حکومت کے موجودہ اقدامات کو بین الاقوامی فوجداری عدالت سے رجوع کرنا مناسب سمجھتا ہے، مزید جانوں کو بچانے کے لیے فوری جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیا اور مطالبہ کیا کہ دنیا کے مختلف ممالک اس حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ مزید جنگی جارحیت کو فوری طور پر روک دے۔

رامافوسہ نے کہا کہ غزہ میں اب تک مرنے والے گیارہ ہزار افراد میں سے نصف بچے تھے اور یہ تاریخ میں ایک بے مثال مسئلہ ہے جہاں دنیا اس خوفناک انداز کا مشاہدہ کر رہی ہے جس میں انکیوبیٹر سے نکالے جانے کے بعد بچے مر جاتے ہیں۔

 

غزہ کی پٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پیروی کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، جنوبی افریقہ کے صدر نے کہا کہ یہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے کہ بے گناہ لوگوں کو اجتماعی سزا دی جائے اور اس طرح قتل کیا جائے۔

 

 رامافوسہ نے تاکید کی کہ ہم مختلف فریقوں کے درمیان جنگ بندی چاہتے ہیں جبکہ واحد حل فلسطینی عوام کی توقعات کا جواب اور ان کی آزاد ریاست کا قیام ہے۔

 

قابل غور ہے کہ صیہونی فوج نے دو ہفتے قبل غزہ کی پٹی پر زمینی حملہ کیا تھا جب کہ اس پٹی پر اس کے مہلک حملے فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کی"عزالدین القسام" بٹالین کے مقبوضہ علاقوں میں آپریشن"الاقصیٰ طوفان" کے جواب میں تھے جو کہ مسلسل 40ویں روز بھی جاری ہیں۔