![سلیمانی](https://secure.gravatar.com/avatar/1c8a908a5e538bef1387376afd137e21?s=100&default=https%3A%2F%2Fhajij.com%2Fur%2Fcomponents%2Fcom_k2%2Fimages%2Fplaceholder%2Fuser.png)
سلیمانی
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے خلاف جدوجہد
امام دہم حضرت امام علی بن محمد النقی الہادی علیہ السلام 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری، مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے (1)
آپ (ع) کا نام "علی" رکھا گیا اور کنیت ابوالحسن، (2)
اور آپ (ع) کے مشہور ترین القاب "النقی اور الہادی" ہیں۔ (3)
اور آپ (ع) کو ابوالحسن ثالث اور فقیہ العسکری بھی کہا جاتا ہے۔ (4) جبکہ امیرالمؤمنین (ع) اور امام رضا (ع) ابوالحسن الاول اور ابوالحسن الثانی کہلاتے ہیں۔
آپ (ع) کے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام "سیدہ سمانہ المغربیہ" ہے۔ (5) امام ہادی علیہ السلام عباسی بادشاہ معتز کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ (٭٭)
آپ (ع) کی عمر ابھی چھ سال پانچ مہینے تھی کہ ستمگر عباسی ملوکیت نے آپ کے والد کو ایام شباب میں ہی شہید کردیا اور آپ (ع) نے بھی اپنے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی طرح چھوٹی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا (6) اور آپ کی مدت امامت 33 سال ہے۔ (7)
امام علی النقی الہادی علیہ السلام اپنی عمر کے آخری دس برسوں ـ کے دوران مسلسل متوکل عباسی کے ہاتھوں سامرا میں نظر بند رہے۔ (8) گو کہ سبط بن جوزی نے تذکرةالخواص میں لکھا ہے کہ امام علیہ السلام 20 سال اور 9 مہینے سامرا کی فوجی چھاؤنی میں نظر بند رہے۔ آپ کی شہادت بھی عباسی ملوکیت کے ہاتھوں رجب المرجب سنہ 254 کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔ (9)
آپ (ع) شہادت کے بعد سامرا میں اپنے گھر میں ہی سپرد خاک کئے گئے۔ (10)
امام ہادی علیہ السلام اپنی حیات طیبہ کے دوران کئی عباسی بادشاہوں کے معاصر رہے۔ جن کے نام یہ ہیں: معتصم عباسی، واثق عباسی، متوکل عباسی، منتصر عباسی، مستعین عباسی اور معتز عباسی۔ (11)
معاشرے کے ہادی و راہنما
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد معاشرے کی ہدایت و راہنمائی کی ذمہ داری ائمہ طاہرین علیہم السلام پر عائد کی گئی ہے چنانچہ ائمہ علیہم السلام نے اپنے اپنے عصری حالات کے پیش نظر یہ ذمہ داری بطور احسن نبھا دی اور اصل و خالص محمدی اسلام کی ترویج میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ائمہ علیہم السلام کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کے عقائد کو انحرافات اور ضلالتوں سے باز رکھیں اور حقیقی اسلام کو واضح کریں چنانچہ امام علی النقی الہادی علیہ السلام کو بھی اپنے زمانے میں مختلف قسم کے انحرافات کا سامنا کرنا پڑا اور انحرافات اور گمراہیوں کا مقابلہ کیا۔ آپ (ع) کے زمانے میں رائج انحرافات کی جڑیں گذشتہ ادوار میں پیوست تھیں جن کی بنیادیں ان لوگوں نے رکھی تھیں جو یا تو انسان کو مجبور محض سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ انسان اپنے افعال میں مختار نہیں ہے اور وہ عقل کو معطل کئے ہوئے تھے اور ذاتی حسن و قبح کے منکر تھے اور کہہ رہے تھے کہ کوئی چیز بھی بذات خود اچھی یا بری نہیں ہے اور ان کا عقیدہ تھا کہ خدا سے (معاذاللہ) اگر کوئی برا فعل بھی سرزد ہوجائے تو درست ہے اور اس فعل کو برا فعل نہیں کہا جاسکے گا۔ ان لوگوں کے ہاں جنگ جمل اور جنگ جمل کے دونوں فریق برحق تھے یا دوسری طرف سے وہ لوگ تھے جنہوں نے انسان کو مختار کل قرار دیا اور معاذاللہ خدا کے ہاتھ باندھ لئے۔ یا وہ لوگ جنہوں نے دین کو خرافات سے بھر دیا اور امام ہادی علیہ السلام کے دور میں یہ سارے مسائل موجود تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کو بھی ان مسائل کا سامنا تھا چنانچہ امام علیہ السلام نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کیا اور ہر موقع و مناسبت سے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کا اہتمام کیا۔
جبر و تفویض
علم عقائد میں افراط و تفریط کے دو سروں پر دو عقائد "جبر و تفویض" کے نام سے مشہور ہیں جو حقیقت میں باطل عقائد ہیں۔
شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا (جلد 1 صفحہ 114) میں اپنی سند سے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
برید بن عمیر شامی کہتے ہیں کہ میں "مرو" میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (ع) سے عرض کیا: آپ کے جد بزرگوار امام صادق علیہ السلام سے روایت ہوئی کہ آپ (ع) نے فرمایا: نہ جبر ہے اور نہ ہی تفویض ہے بلکہ امر دو ان دو کے درمیان ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص گمان کرے کہ "خدا نے ہمارے افعال انجام دیئے ہیں [یعنی ہم نے جو کیا ہے وہ درحقیقت ہم نے نہیں کیا بلکہ خدا نے کئے ہیں اور ہم مجبور ہیں] اور اب ان ہی اعمال کے نتیجے میں ہمیں عذاب کا مستحق گردانے گا"، وہ جبر کا عقیدہ رکھتا ہے۔ اور جس نے گمان کیا کہ خدا نے لوگوں کے امور اور رزق وغیرہ کا اختیار اپنے اولیاء اور حجتوں کے سپرد کیا ہے [جیسا کہ آج بھی بہت سوں کا عقیدہ ہے] وہ درحقیقت تفویض [خدا کے اختیارات کی سپردگی] کا قائل ہے؛ جو جبر کا معتقد ہوا وہ کافر ہے اور جو تفویض کا معتقد ہوا وہ مشرک ہے۔
راوی کہتا ہے میں نے پوچھا: اے فرزند رسول خدا (ص) ان دو کے درمیان کوئی تیسرا راستہ ہے؟
فرمایا: یابن رسول اللہ (ص(! "امرٌ بین الامرین" سے کیا مراد ہے؟
فرمایا: یہی کہ ایک راستہ موجود ہے جس پر چل کر انسان ان چیزوں پر عمل کرتا ہے جن کا اس کو حکم دیا گیا ہے اور ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے جن سے اس کو روکا گیا ہے۔ [یعنی انسان کو اللہ کے واجبات پر عمل کرنے اور اس کے محرمات کو ترک کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے یہی وہ تیسرا اور درمیانی راستہ ہے]۔
میں نے عرض کیا: یہ جو بندہ اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرتا ہے اور اس کی منہیات سے پرہیز کرتا ہے، اس میں خدا کی مشیت اور اس کے ارادے کا کوئی عمل دخل ہے؟
فرمایا: وہ جو طاعات اور عبادات ہیں ان کا ارادہ اللہ تعالی نے کیا ہے اور اس کی مشیت ان میں کچھ یوں ہے کہ خدا ہی ان کا حکم دیاتا ہے اور ان سے راضی اور خوشنود ہوتا ہے اور ان کی انجام دہی میں بندوں کی مدد کرتا ہے اور نافرمانیوں میں اللہ کا ارادہ اور اس کی مشیت کچھ یوں ہے کہ وہ ان اعمال سے نہی فرماتا ہے اور ان کی انجام دہی پر ناراض و ناخوشنود ہوجاتا ہے اور ان کی انجام دہی میں انسان کو تنہا چھوڑتا ہے اور اس کی مدد نہیں فرماتا۔
جبر و تفویض کا مسئلہ اور امام ہادی علیہ السلام
شہر اہواز [جو آج ایران کے جنوبی صوبے خوزستان کا دارالحکومت ہے] کے عوام نے امام ہادی علیہ السلام کے نام ایک خط میں اپنے لئے درپیش مسائل کے سلسلے میں سوالات پوچھے جن میں جبر اور تفویض اور دین پر لوگوں کے درمیان اختلافات کی خبر دی اور چارہ کار کی درخواست کی۔
امام ہادی علیہ السلام نے اہواز کے عوام کے خط کا تفصیلی جواب دیا جو ابن شعبہ حرانی نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔
امام (ع) نے اس خط کی ابتداء میں مقدمے کی حیثیت سے مختلف موضوعات بیان کئے ہیں اور خط کے ضمن میں ایک بنیادی مسئلہ بیان کیا ہے جو ثقلین (قرآن و اہل بیت (ع)) سے تمسک ہے جس کو امام علیہ السلام نے مفصل انداز سے بیان کیا ہے۔ اوراس کے بعد آیات الہی اور احادیث نبوی سے استناد کرکے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت اور عظمت و مقام رفیع کا اثبات کیا ہے۔ (12)
شاید یہاں یہ سوال اٹھے کہ "اس تمہید اور جبر و تفویض کی بحث کے درمیان کیا تعلق ہے؟"؛ چنانچہ امام علیہ السلام وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ہم نے یہ مقدمہ اور یہ امور تمہید میں ان مسائل کے ثبوت اور دلیل کے طور پر بیان کئے جو کہ جبر و تفویض کا مسئلہ اور ان دو کا درمیانی امر ہے۔ (13)
شاید امام ہادی علیہ السلام نے یہ تمہید رکھ کر جبر و تفویض کے مسئلے کو بنیادی طور حل کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر لوگ ثقلین کا دامن تھامیں اور اس سلسلے میں رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکامات پر عمل کریں تو مسلمانان عالم کسی بھی صورت میں گمراہ نہ ہونگے اور انتشار کا شکار نہ ہونگے اور کبھی منحرف نہ ہونگے۔
امام ہادی علیہ السلام اس تمہید کے بعد موضوع کی طرف آتے ہیں اور امام صادق علیہ السلام کے قول شریف "لا جَبْرَ وَلا تَفْویضَ ولكِنْ مَنْزِلَةٌ بَيْنَ الْمَنْزِلَتَيْن"؛ (14) کا حوالہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:
"اِنَّ الصّادِقَ سُئِلَ هلْ اَجْبَرَ اللّه الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی؟ فَقالَ الصّادِقُ علیهالسلام هوَ اَعْدَلُ مِنْ ذلِكَ۔ فَقیلَ لَهُ: فَهلْ فَوَّضَ اِلَيْهمْ؟ فَقالَ علیہالسلام : هوَ اَعَزُّ وَاَقْهَرُ لَهمْ مِنْ ذلِكَ"؛ (15)
امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا خدا نے انسان کو نافرمانی اور معصیت پر مجبور کیا ہے؟
امام علیہ السلام نے جواب دیا: خداوند اس سے کہیں زیادہ عادل ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔ (16)
پوچھا گیا: کیا خداوند متعال نے انسان کو اس کے حال پہ چھوڑ رکھا ہے اور اختیار اسی کے سپرد کیا ہے؟
فرمایا: خداوند اس سے کہیں زیادہ قوی، عزیز اور مسلط ہے ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔
امام ہادی علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: مروی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"النّاسُ فِی القَدَرِ عَلی ثَلاثَةِ اَوْجُهٍ: رَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ الاَْمْرَ مُفَوَّضٌ اِلَيْهِ فَقَدْ وَهنَ اللّهَ فی سُلْطانِهِ فَهوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه جَلَّ و عَزَّ اَجْبَرَ الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی وَكَلَّفَهمْ ما لا يُطیقُون فَقَدْ ظَلَمَ اللّهَ فی حُكْمِهِ فَهوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّهَ كَلَّفَ الْعِبادَ ما يُطیقُونَ وَلَمْ يُكَلِّفْهُمْ مالا يُطیقُونَ فَاِذا أَحْسَنَ حَمَدَ اللّهَ وَاِذا أساءَ اِسْتَغْفَرَ اللّه؛ فَهذا مُسْلِمٌ بالِغٌ"؛ (17)
لوگ "قَدَر" پر اعتقاد کے حوالے سے تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں:
٭ کچھ کا خیال ہے کہ تمام امور و معاملات انسان کو تفویض کئے گئے ہیں؛ ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے تسلط میں سست گردانا ہے، چنانچہ یہ گروہ ہلاکت اور نابودی سے دوچار ہوگیا ہے۔
٭ کچھ لوگ وہ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسانوں کو گناہوں اور نافرمانی پر مجبور کرتا ہے اور ان پر ایسے افعال اور امور واجب قرار دیتا ہے جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے! ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے احکام میں ظالم اور ستمگر قرار دیا ہے چنانچہ اس عقیدے کے پیروکار بھی ہلاک ہونے والوں میں سے ہیں۔ اور
٭ تیسرا گروہ وہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسان کی طاقت و اہلیت کی بنیاد پر انہیں حکم دیتا ہے اور ان کی طاقت کے دائرے سے باہر ان پر کوئی چیز واجب نہیں کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر نیک کام انجام دیں تو اللہ کا شکر انجام دیتے ہیں اور اگر برا عمل انجام دیں تو مغفرت طلب کرتے ہیں؛ یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی اسلام کو پاچکے ہیں۔
اس کے بعد امام ہادی علیہ السلام مزید وضاحت کے ساتھ جبر و تفویض کے مسئلے کو بیان کرتے ہیں اور ان کے بطلان کو ثابت کرتے ہیں۔
فرماتے ہیں:
"َاَمّا الْجَبْرُ الَّذی يَلْزَمُ مَنْ دانَ بِهِ الْخَطَأَ فَهُوَ قَوْلُ مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّهَ جَلَّ وَعَزَّ أجْبَرَ الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی وعاقَبَهُمْ عَلَيْها وَمَنْ قالَ بِهذَا الْقَوْلِ فَقَدْ ظَلَمَ اللّه فی حُكْمِهِ وَكَذَّبَهُ وَرَدَّ عَليْهِ قَوْلَهُ «وَلا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدا» (18) وَقَوْلَهُ «ذلكَ بِما قَدَّمَتْ يَداكَ وَاَنَّ اللّه لَيْسَ بِظَلاّمٍ لِلْعَبید"۔ (19) ۔۔۔؛ (20)
ترجمہ: جہاں تک جبر کا تعلق ہے ـ جس کا ارتکاب کرنے والا غلطی پر ہے ـ پس یہ اس شخص کا قول و عقیدہ ہے جو گمان کرتا ہے کہ خداوند متعال نے بندوں کو گناہ اور معصیت پر مجبور کیا ہے لیکن اسی حال میں ان کو ان ہی گناہوں اور معصیتوں کے بدلے سزا دے گا!، جس شخص کا عقیدہ یہ ہوگا اس نے اللہ تعالی کو اس کے حکم و حکومت میں ظلم کی نسبت دی ہے اور اس کو جھٹلایا ہے اور اس نے خدا کے کلام کو رد کردیا ہے جہاں ارشاد فرماتا ہے "تیرا پروردگار کسی پر بھی ظلم نہیں کرتا"، نیز فرماتا ہے: "یہ ( عذاب آخرت ) اُسکی بناء پر ہے جو کچھ تُمہارے اپنے دو ہا تھوں نے آگے بھیجا ، اور بے شک اللہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے"۔
امام علیہ السلام تفویض کے بارے میں فرماتے ہیں:
"وَاَمَّا التَّفْویضُ الَّذی اَبْطَلَهُ الصّادِقُ علیهالسلام وَاَخْطَأَ مَنْ دانَ بِهِ وَتَقَلَّدَه فَهوَ قَوْلُ الْقائِلِ: إنَّ اللّه جَلَّ ذِكْرُه فَوَّضَ إِلَی الْعِبادِ اخْتِیارَ أَمْرِه وَنَهْيِهِ وَأَهمَلَهمْ"؛ (21)
ترجمہ: اور جہاں تک تفویض کا تعلق ہے ـ کس کو امام صادق علیہ السلام نے باطل کردیا ہے اور اس کا معتقد غلطی پر ہے ـ خداوند متعال نے امر و نہی [اور امور و معاملات کے پورے انتظام] کو بندوں کے سپرد کیا ہے اور اس عقیدے کے حامل افراد کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔
فرماتے ہیں:
"فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ اللّهَ تَعالی فَوَّضَ اَمْرَه وَنَهيَهُ إلی عِبادِهِ فَقَدْ أَثْبَتَ عَلَيْهِ الْعَجْزَ وَأَوْجَبَ عَلَيْهِ قَبُولَ كُلِّ ما عَملُوا مِنْ خَيْرٍ وَشَرٍّ وَأَبْطَلَ أَمْرَ اللّهِ وَنَهْيَهُ وَوَعْدَه وَوَعیدَه، لِعِلَّةِ مازَعَمَ اَنَّ اللّهَ فَوَّضَها اِلَيْهِ لاَِنَّ الْمُفَوَّضَ اِلَيْهِ يَعْمَلُ بِمَشیئَتِه، فَاِنْ شاءَ الْکفْرَ أَوِ الاْیمانَ کانَ غَيْرَ مَرْدُودٍ عَلَيْهِ وَلاَ مَحْظُورٍ۔۔۔"؛ (22)
ترجمہ: پس جس نے گمان کیا کہ خدا نے امر و نہی [اور معاشرے کے انتظامات] کا کام مکمل طور پر اپنے بندوں کے سپرد کیا ہے اور ان لوگوں نے گویا خدا کو عاجز اور بے بس قرار دیا ہے اور انھوں نے [اپنے تئیں اتنا اختیار دیا ہے] کہ اپنے ہر اچھے اور برے عمل کو قبولیت کو اللہ پر واجب قرار دیا ہے! اور اللہ کے امر و نہی اور وعدہ و وعید کو جھٹلاکر باطل قرار دیا ہے؛ کیونکہ اس کہ وہم یہ ہے کہ خداوند متعال نے یہ تمام امور ان ہی کے سپرد کئے گئے ہیں اور جس کو تمام امور سپرد کئے جاتے ہیں وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ پس خواہ وہ کفر کو اختیار کرے خواہ ایمان کا راستہ اپنائے، اس پر کوئی رد ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی رکاوٹ ہے۔
امام ہادی علیہ السلام یہ دونوں افراطی اور تفریطی نظریات کو باطل کرنے کے بعد قول حق اور صحیح نظریہ پیش کرتے ہیں جو "امرٌ بین الأمرین" سے عبارت ہے؛ فرماتے ہیں:
"لكِنْ نَقُولُ: إِنَّ اللّهَ جَلَّ وَعَزَّ خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِه وَمَلَّكَهُمْ اِسْتِطاعَةَ تَعَبُّدِهمْ بِها، فَاَمَرَهمْ وَنَهاهُمْ بِما اَرادَ، فَقَبِلَ مِنْهُمُ اتِّباعَ أَمْرِه وَرَضِىَ بِذلِكَ لَهمْ، وَنَهاهمْ عَنْ مَعْصِيَتِهِ وَذَمّ مَنْ عَصاه وَعاقَبَهُ عَلَيْها"؛ (23)
ترجمہ: لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ: خداوند عزّ و جلّ نے انسان کو اپنی قوت سے خلق فرمایا اور ان کو اپنی پرستش اور بندگی کی اہلیت عطا فرمائی اور جن امور کے بارے میں چاہا انہیں حکم دیا یا روک دیا۔ پس اس نے اپنے اوامر کی پیروی کو اپنے بندوں سے قبول فرمایا اور اس [بندوں کی طاعت و عبادت اور فرمانبرداری] پر راضی اور خوشنود ہوا اور ان کو اپنی نافرمانی سے روک لیا اور جو بھی اس کی نافرمانی کا مرتکب ہوا اس کی ملامت کی اور نافرمانی کے بموجب سزا دی۔
امام علی النقی الہادی علیہ السلام اور غلات (نصیریوں) کا مسئلہ
ہر دین و مذہب اور ہر فرقے اور قوم میں ایسے افراد پائے جاسکتے ہیں جو بعض دینی تعلیمات یا اصولوں میں مبالغہ آرائی سے کام لیں یا بعض دینی شخصیات کے سلسلے میں غلو کا شکار ہوتے ہیں اور حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ برادر مکاتب میں میں صحابیوں کی عمومی تنزیہ اور ان سب کو عادل سمجھنا اور بعض صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فوقیت دینا یا صحابہ کی شخصیت اور افعال کا دفاع کرنے کے لئے قرآن و سنت تک کی مرضی سے تأویل و تفسیر کرتے ہیں اور اگر صحاح سے رجوع کیا جائے تو ایسی حدیثوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو ان ہی مقاصد کے لئے وضع کی گئی ہیں۔
لیکن یہ بیماری دوسرے ادیان و مکاتب تک محدود نہیں ہے بلکہ پیروان اہل بیت (ع) یا شیعہ کہلانے والوں میں بہت سے افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے زمانے سے جاری رہا اور ہمیشہ ایک گروہ یا چند افراد ایسے ضرور تھے جو ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی نسبت غلو کا شکار تھے اور غالیانہ انحراف میں مبتلا تھے۔
غالیوں کے یہ گروہ حضرات معصومین علیہم السلام کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کرکے ان کے سلسلے میں غلو آمیز آراء قائم کرتے تھے اور بعض تو ائمہ معصومین علیہم السلام کو معاذاللہ الوہیت تک کا درجہ دیتے ہیں چنانچہ غلو کی بیماری امام ہادی علیہ السلام کے زمانے میں نئی نہیں تھی بلکہ غلو بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند ایک تاریخی پس منظر کا حامل تھا۔
غلو کے مرض سے دوچار لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد ہر دور میں نظر آرہے ہیں۔ حتی کہ امام سجاد علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہ لوگ حاضر تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے اعتقادی مسائل پیدا کررہے تھے۔
نہ غالی ہم سے ہیں اور نہ ہمارا غالیوں سے کوئی تعلق ہے
امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام غالیوں سے یوں برائت ظاہر کرتے ہیں:
"إنَّ قَوْما مِنْ شیعَتِنا سَيُحِبُّونا حَتّی يَقُولُوا فینا ما قالَتِ الْيَهودُ فی عُزَيْرٍ وَقالَتِ النَّصاری فی عیسَی ابْنِ مَرْيَمَ؛ فَلا همْ مِنّا وَلا نَحْنُ مِنْهمْ"۔ (24)
ترجمہ: ہمارے بعض دوست ہم سے اسی طرح محبت اور دوستی کا اظہار کریں گے جس طرح کہ یہودی عزیز (ع) کے بارے میں اور نصرانی عیسی (ع) کے بارے میں اظہار عقیدت کرتے ہیں نہ تو یہ لوگ (غالی) ہم سے ہیں اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے۔
امام سجاد علیہ السلام کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام اپنے عصری تقاضوں کے مطابق اس قسم کے انحرافات کا مقابلہ کرتے تھے اور اس قسم کے تفکرات کے سامنے مضبوط اور فیصلہ کن موقف اپناتے تھے اور ممکنہ حد تک انہیں تشیع کو بدنام نہیں کرنے دیتے تھے۔
امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
"أَحِبُّونا حُبَّ الاِْسْلامِ فَوَاللّهِ ما زالَ بِنا ما تَقُولُونَ حَتّی بَغَّضْتُمُونا إلَی النّاسِ"۔ (25)
ترجمہ: ہم سے اسی طرح محبت کرو جس طرح کا اسلام نے تمہیں حکم دیا ہے؛ پس خدا کی قسم! جو کچھ تم [غالی اور نصیری] ہمارے بارے میں کہتے ہو اس کے ذریعے لوگوں کو ہماری دشمنی پر آمادہ کرتے ہو۔
یہاں اس بات کی یادآوری کرانا ضروری ہے کہ غلو آمیز تفکر مختلف صورتوں میں نمودار ہوسکتا ہے۔ مرحوم علامہ محمد باقر مجلسی بحارالانوار میں لکھتے ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں غلو کا معیار یہ ہے کہ کوئی شخص
٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام ائمہ (ع) کی الوہیت [اور ربوبیت] کا قائل ہوجائے؛
٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام ائمہ (ع) کو اللہ کا شریک قرار دے؛ کہ مثلاً ان کی عبادت کی جائے یا روزی رسانی میں انہیں اللہ کا شریک قرا دے یا کہا جائے کہ خداوند متعال ائمہ رسول اللہ (ص) یا ائمہ کی ذات میں حلول کر گیا ہے۔ یا وہ شخص
٭ اس بات کا قائل ہوجائے کہ رسول اللہ (ص) خدا کی وحی یا الہام کے بغیر ہی علم غیب کے حامل ہیں؛
٭ یا یہ کہ دعوی کیا جائے کہ ائمہ انبیاء ہی ہیں؟
٭ یا کہا جائے کہ بعض ائمہ کی روح بعض دوسرے ائمہ میں حلول کرچکی ہے۔
٭ یا کہا جائے کہ رسول اللہ (ص) اور ائمہ علیہم السلام کی معرفت و پہچان انسان کو ہر قسم کی عبادت اور بندگی سے بے نیاز کردیتی ہے اور اگر کوئی ان کی معرفت حاصل کرے تو ان پر کوئی عمل واجب نہ ہوگا اور نہ ہی محرمات اور گناہوں سے بچنے اور پرہیز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (26)
جیسا کہ آپ نے دیکھا ان امور میں سے کسی ایک کا قائل ہونا غلو کے زمرے میں آتا ہے اور جو ان امور کا قائل ہوجائے اس کو غالی بھی کہتے ہیں اور بعض لوگ انہیں نصیری بھی کہتے ہیں۔
علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ جو غلو کی ان قسموں میں کسی ایک کا قائل ہوگا وہ کافر اور ملحد ہے اور دین سے خارج ہوچکا ہے۔ جیسا کہ عقلی دلائل، آیات امو مذکورہ روایات وغیرہ بھی اس بات کا ثبوت ہیں۔ (27)
امام علی النقی الہادی علیہ السلام کے زمانے میں غالی سرگرم تھے اور اس زمانے میں ان کے سرغنے بڑے فعال تھے جو اس گمراہ اور گمراہ کن گروپ کی قیادت کررہے تھے چنانچہ امام علیہ السلام نے اس کے سامنے خاموشی روا نہ رکھی اور مضبوط اور واضح و فیصلہ کن انداز سے ان کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس منحرف غالی گروہ کے سرغنے: علی بن حسکہ قمی، قاسم یقطینی، حسن بن محمد بن بابای قمی، محمد بن نُصیر فہری اور فارِس بن حاکم تھے۔ (28)
احمد بن محمد بن عیسی اور ابراہیم بن شیبہ، امام ہادی علیہ السلام کے نام الگ الگ مراسلے روانہ کرتے ہیں اور اس زمانے میں غلات کے عقائد اور رویوں و تفکرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان کے بعض عقائد بیان کرتے ہیں اور اپنے زمانے کے دو بدنام غالیوں علی بن حسکہ اور قاسم یقطینی کی شکایت کرتے ہیں اور امام علیہ السلام واضح اور دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہیں کہ:
"لَيْسَ هذا دینُنا فَاعْتَزِلْهُ"؛ (29)
ترجمہ: یہ ہمارا دین نہیں ہے چنانچہ اس سے دوری اختیار کرو۔
اور ایک مقام پر امام سجاد، امام باقر اور امام صادق علیہم السلام کی مانند غالیوں پر لعنت بھیجی:
محمد بن عیسی کہتے ہیں کہ امام ہادی علیہ السلام نے ایک مراسلے کے ضمن میں میرے لئے لکھا:
"لَعَنَ اللّه الْقاسِمَ الْيَقْطینی وَلَعَنَ اللّه عَلِىَّ بْنَ حَسْكَةِ الْقُمىّ، اِنَّ شَيْطانا تَرائی لِلْقاسِمِ فَيُوحی اِلَيْهِ زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُورا"؛ (30)
ترجمہ: اللہ تعالی قاسم یقطینی اور علی بن حسکمہ قمی پر لعنت کرے۔ ایک شیطان قاسم الیقطینی کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور باطل اقوال اقوال کو خوبصورت ظاہری صورت میں اس کو القاء کرتا ہے اور اس کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اس کو دھوکا دیتا ہے۔
نصر بن صبّاح کہتے ہیں: حسن بن محمد المعروف ابن بابائے قمی، محمد بن نصیر نمیری اور فارس بن حاتم قزوینی پر امام حسن عسکری علیہ السلام نے لعنت بھیجی۔ (31)
ہم تک پہنچنے والی روایات سے معلوم ہوتا ہے غلو اور دوسرے انحرافات کے خلاف کہ امام ہادی علیہ السلام کی جدوجہد اظہار برائت اور لعن و طعن سے کہیں بڑھ کر تھی اور آپ (ع) نے بعض غالیوں کے قتل کا حکم جاری فرمایا ہے۔
محمد بن عیسی کہتے ہیں:
"إنَّ اَبَا الحَسَنِ العَسْكَرِی علیهالسلام أمَر بِقَتلِ فارِسِ بْنِ حاتم القَزْوینىّ وَضَمِنَ لِمَنْ قَتَلَهُ الجَنَّةَ فَقَتَلَهُ جُنَيْدٌ"؛ (32)
ترجمہ: امام ہادی علیہ السلام نے فارس بن حاتم قزوینی کے قتل کا حکم دیا اور اس شخص کے لئے جنت کی ضمانت دی جو اس کے قتل کرے گا چنانچہ جنید نامی شخص نے اس کو ہلاک کردیا۔
تجسیم اور تشبیہ
بعض فرقے آج بھی خدا کے لئے جسم اور شبیہ کے قائل تھے اور بعض آج بھی ایسے ہی ہیں۔ بندہ اسی کے عشرے میں حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا تو کافی چیزیں بلاد الحرمین میں نظر آئیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ سنی مکاتب کے ہاں ان کی مثال ملتی اور نہ ہی شیعہ دنیا میں لیکن سب سے اہم بات ہمارے اس موضوع سے متعلق تھی۔
وہاں بادشاہی نظام ہے جس پر آل سعود مسلط ہے اور مذہبی ونگ وہابیت کو دیا گیا ہے اور یہ درحقیقت وہابیت اور آل سعود کے درمیان بہت پرانے معاہدے کا نتیجہ ہے اور اگر ایک طرف سے حکومت بعض خدمات حجاج کرام کو پیش کرتی ہے تو دوسری طرف سے وہابیت کے نمائندے حجاج کی بے حرمتیاں کرکے لوگوں کے دلوں کو نفرت سے بھر کر بلادالحرمین سے رخصت کردیتی۔ وہابیت اتنی سختگیریوں اور لوگوں کو متنفر کرنے کے باوجود ان کو وہابیت کی دعوت بھی دیتی ہے جو وہابیت کے عجائب میں سے ہے۔ کیونکہ دنیا کے تمام مذاہب حتی کہ غیر اسلام مکاتب میں تبلیغ کے لئے محبت کے پھول نچھاور کئے جاتے ہیں لیکن یہاں نفرت کے کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور پھر تبلیغ کی جرأت بھی کی جاتی ہے، جو باعث حیرت ہے۔
بہر حال ہم میدان عرفات میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں جنوب ایشیا کے بعض باشندے ـ جو بظاہر کسی وہابی مدرسے یا پھر کسی تبلیغی مرکز سے وابستہ تھے ـ کتابوں کے بڑے بڑے بستے لے کر عرفات میں پہنچے جہاں انسان احرام کی حالت میں شرعی لحاظ سے مختلف پابندیوں کا سامنا کررہا ہوتا ہے۔ انھوں نے ہر حاجی کو کئی کئی کتابیں دیں جن میں وہابی اسلام کی تعلیمات ہمیں سکھانے کی کوشش کی گئی تھی جبکہ ان ہی دنوں مکہ معظمہ میں ال سعود کے سپاہیوں نے فائرنگ کرکے چھ سو کے قریب نہتے حاجیوں کا قتل عام کیا ہوا تھا۔ بہرحال ان میں سے ایک کتاب میں نے کھولی تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہاں عرفات اور اے حاجیو! خوشخبری ہو تمہیں کہ آج کے دن خدا عرفات کے اوپرپہلے آسمان پر آکر بیٹھا ہوا ہے اور وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور تمہارے اعمال کی نگرانی کررہا ہے۔ میں نے کئی بار یہ جملہ پڑھا حتی کہ میری غلط فہمی دور ہوگئی اور معلوم ہوا کہ وہابی اسلام کے پیروکار تجسیم کی بظاہر مخالفت کرتے ہیں لیکن باطن میں وہ تجسیم کے قائل ہیں اور ان کا خدا دنیا کے آسمانوں میں اتر کر بیٹھتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ اگر وہ دنیا کے آسمان پن اترا کر آیا ہے تو دوسرے آسمانوں کا کیا بنے گا اور زمینوں کا کیا بنے گا کیونکہ اس وقت تو دوسری جگھوں میں خدا نہیں ہے نا۔ معاذاللہ
بہرحال تجسیم کا یہ عقیدہ ابتدائے اسلام سے تھا۔ یہ عقیدہ بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند موجود تھا حتی کسی وقت یہ عقیدہ شیعیان آل محمد (ص) میں بھی رسوخ کرگیا تھا۔ اہل تشیع میں یہ عقیدہ نمودار ہوا تھا کہ خداوند متعال جسمانیت کا حامل ہے یا یہ کہ خدا کو دیکھا جاسکتا ہے یا نہیں۔
ظاہر ہے کہ شیعہ عقائد مدینۃالعلم (رسول اللہ (ص)) اور باب مدینۃالعلم (امیرالمؤمنین) اور ان کے فرزندوں کے شفاف علی سرچشمے سے منسلک ہونے کے باعث ہمیشہ انحرافات سے دور رہتے تھے اور ہمیشہ اسلام اور پیروان اہل بیت (ع) کے لئے باعث فخر و اعتزاز تھے لیکن کبھی بعض عوامل کی بنا پر ـ جن کا جائزہ لینے کے لئے ای مستقل اور مفصل تحقیق کی ضرورت ہے ـ بعض عقائد نے پیروان آل محمد (ص) میں بھی رسوخ کیا ہے جو تشیع کے اوپر تہمت و بہتان کی بنیاد بن گئے ہیں حالانکہ ان کا تشیع سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ دوسرے مکاتب سے تشیع میں نہیں بلکہ تشیع کے بعض پیروکاروں میں درآمد ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام اور ائمہ (ع) کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے اکابرین نے ان انحرفات کے خلاف قیام کیا ہے اور تشیع کے مبارک چہرے سے ہر قسم کی دھول دھوتے چلے آئے ہیں۔
یہ سطحی اور درآمد شدہ انحرافات ہی اس بات کا سبب بنے ہیں کہ ہمارے علماۂء بیٹھ کر اس سلسلے میں عظیم علمی کااوشیں خلق کریں۔ مرحوم شیخ صدوق اپنی کتاب "التوحید" کو اس لئے لکھا شروع کیا کہ بعض مخالفین تشیع پر نہایت ناروا اور بہت شدید قسم کے الزمات لگا رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ شیعہ تشبیہ اور جبر کے قائل ہیں چنانچہ میں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تشیع جبر و تشبیہ کا قائل ہو! اور میں نے اللہ کا نام لیا اور قربت الہی کی نیت سے اس کتاب کو تالیف کردی جس کا نام ہے " جو تشبیہ اور جبر و تفویض کی نفی میں لکھی گئی ہے۔ (33)
چنانچہ یہ مسئلہ اتنا غیر اہم نہ تھا کہ آئمہ علیہم السلام اس کو نظرانداز کرتے کیونکہ اس طرح کے عقائد درحقیقت توحید کے بنیادی اصول سے متصادم ہیں۔
صقر بن ابی دلف امام ہادی علیہ السلام سے توحید کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں اور امام ہادی علیہ السلام کا جواب دیتے ہیں:
"إنَّهُ لَیسَ مِنّا مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّهَ عَزَّوَجَلَّ جِسْمٌ وَنَحْنُ مِنْهُ بَراءٌ فِی الدُّنْیا وَالاْخِرَةِ، يَابْنَ [أبی] دُلَفِ إنَّ الْجِسْمَ مُحْدَثٌ واللّه مُحدِثُهُ وَمُجَسِّمُهُ" (34)
ترجمہ: جو شخص گمان کرے کہ خداوند متعال جسم ہے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم دنیا اور آخرت میں ان سے بیزار ہیں۔ اے ابی دلف کے فرزند! جسم مخلوق ہے اور وجود میں لایا گیا ہے اور اللہ تعالی خالق ہے اور جسم کو معرض وجود میں لانے والا۔
نیز سہل بن ابراہیم بن محمد ہمدانی سے نقل کرتے ہیں: میں نے امام ہادی علیہ السلام کے لئے لکھا کہ آپ کے محبین توحید میں اختلاف سے دوچار ہوگئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ خداوند متعال جسم ہے اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ خداوند متعال صورت ہے۔
امام علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے لکھا:
"سُبْحانَ مَنْ لاَ يُحَدُّ وَلا يُوصَفُ، لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَیءٌ وَهوَ السَّمیعُ الْعَلیم"؛ (35)
ترجمہ: پاک و منزہ ہے وہ جس کو محدود نہیں کیا جاسکتا اور [اشیاء کی مانند] اس کی حدیں معین نہیں کی جاسکتیں، کوئی شیئے بھی اس کی مانند نہیں وہ بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ دیکھنے والا ہے۔
کیا خدا کو دیکھا جاسکتا ہے؟
بعض لوگوں کے کلام سے نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ گویا ان کہ عقیدہ تھا کہ خداوند متعال کو دیکھا جاسکتا ہے اور انسان اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ سکتا ہے۔
ائمہ طاہرین علیہم السلام نے اس قسم کی سوچ کا بھی مقابلہ کیا۔
امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
"جاءَ حِبْرٌ إلی أمیرِ الْمُؤْمِنینَ علیہالسلام فَقالَ: یا أَمیرَ الُؤْمِنینَ هلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ حینَ عَبَدْتَهُ؟ فَقالَ وَيْلَكَ ما كُنْتُ اَعْبُدُ رَبّا لَمْ اَرَه۔ قالَ: وَكَيْفَ رَأَيْتَهُ؟ قالَ وَيْلَكَ لاَ تُدْرِكُهُ الْعُيُونُ فی مُشاهِدَةِ الاَْبْصارِ وَلكِنْ رَأَتْهُ الْقُلُوبُ بِحَقائِقِ الاْیمانِ"۔ (36)
ترجمہ: ایک حبر (یہودی عالم) امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: کیا آپ نے عبادت کے وقت خدا کو دیکھا ہے؟
امیرالمؤمنین علیہ السلام: وائے ہو تم پر! میں نے ایسے خدا کی عبادت نہیں کی ہے جس کو میں نے دیکھا نہ ہو۔
حبر: آپ نے خدا کو کس طرح دیکھا؛ (خدا کو دیکھنے کی کیفیت کیا تھی)۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام: وائے ہو تم پر آنکھیں دیکھتے وقت اور نظر ڈالتے وقت اس کا ادراک نہیں کرسکتیں لیکن دل (قلوب) حقیقت ایمان کی مدد سے اس کا ادراک کرتے ہیں۔
احمد بن اسحق نے امام ہادی علیہ السلام کے لئے خط لکھا اور آپ (ع) سے اللہ کی رؤیت کے بارے میں پوچھا اور اس سلسلے میں لوگوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی طرف اشارہ کیا تو حضرت امام ہادی علیہ السلام نے جواب میں تحریر فرمایا:
"لا یجوز الرؤیة ما لم یکن بین والمرئی هواء ینفذه البصر، فإذا انقطع الهواء وعدم الضیاء بین الرائی والمرئی لم تصح الرؤیة وکان فی ذلک الاشتباه لان الرائی متی ساوی المرئی فی السبب الموجب بینهما فی الرؤیة وجب الاشتباه وکان فی ذلک التشبیه، لان الاسباب لابد من اتصالها بالمسببات"۔ (37)
ترجمہ: رؤیت (دیکھنا) ممکن نہیں ہے جب تک دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان ہوا اور فضا نہ ہو ایسی ہوا جس میں انسان کی نظریں نفوذ کریں اور جب تک دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان روشنی نہ ہو تو دیکھنے کا عمل انجام نہیں پاتا [اور پھر دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کو ایک ایسے مقام پر متعین ہونا چاہئے جہاں وہ جگہ گھریں تا کہ دیکھنے کا عمل انجام پاسکے اور اگر دونوں ایک مقام پر جگہ گھریں تو دونوں ایک دوسرے کی مانند اور دونوں محدود ہونگے اور] اور اس عمل میں اشتباہ اور شباہت کا واقع ہونا لازم آئے گا کیونکہ جب دیکھنے والا سبب یعنی وسیلۂ رؤیت کے حوالے سے برابر ہونگے تو اس بھی اشتباہ اور شباہت کا واقع ہونا لازم آئے گا اور اسی میں تشیبہ ہے کیونکہ اسباب کے لئے مسببات کے ساتھ متصل ہونا ضروری ہے۔
یہاں امام ہادی علیہ السلام کے کلام شریف کا ماحصل ـ حق تعالی کی رؤیت کے امتناع کو ثابت کرنے کے لئے ـ قیاس استنثنائی (Exceptive Syllogism) ہے اور یوں کہ "اگر حق تعالی قابل رؤیت ہوں تو خدا اور رائی (دیکھنے والے) کے درمیان ہوا اور روشنی ہوگی کیونکہ ہوا اور روشنی رؤیت کے وسائل و شرائط ہیں پس رؤیت ان وسائل اور شرائط کے بغیر ممکن نہیں ہے جس طرح کہ یہ دوسرے وسائل اور شرائط کے بغیر بھی ناممکن ہے اور اس کے سوا رؤیت باطل ہے چنانچہ اللہ تعالی کی رؤیت کا نظریہ ناممکن ہے کیونکہ اس میں تشابہ لازم آتا ہے دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان یعنی یہ کہ وہ دونوں مرئی (اور قابل رؤیت) ہیں اور دونوں رؤیت کا اسباب و وسائل میں ایک دوسرے کے برابر ہیں کہ وہ دونوں جگہ گھریں اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے والی سمتوں میں ہوں اور ان کے درمیان ہوا اور روشنی ہو چنانچہ اس لحاظ سے ایک جسم رکھنے والے رائی اور اللہ تعالی کے درمیان تشابہ لازم آئے گا اور اللہ تعالی کے لئے جگہ گھرنے کا تصور لازم لائے گآ اور اللہ تعالی پاک و منزہ اور برتر و بالاتر ہے ان اوصاف سے۔ اور ہاں یہ کہنا بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کو اس سبب کے بغیر دیکھا جاسکتا ہے۔
اللہ کی عظمت و معرفت
"إلهی تاهتْ اَوْهامُ الْمُتَوَهمینَ وَقَصُرَ طُرَفُ الطّارِفینَ وَتَلاشَتْ اَوْصافُ الْواصِفینَ وَاضْمَحَلَّتْ اَقاویلُ الْمُبْطِلینَ عَنِ الدَّرَكِ لِعَجیبِ شَأْنِكَ أَوِ الْوُقُوعِ بِالْبُلُوغِ اِلی عُلُوِّكَ، فَاَنْتَ فىِ الْمَکانِ الَّذی لا يَتَناهی وَلَمْ تَقَعْ عَلَيْكَ عُيُونٌ بِاِشارَةٍ وَلا عِبارَةٍ هيْهاتَ ثُمَّ هَيْهاتَ یا اَوَّلىُّ، یا وَحدانىُّ، یا فَرْدانِىُّ، شَمَخْتَ فِی الْعُلُوِّ بِعِزِّ الْكِبْرِ، وَارْتَفَعْتَ مِنْ وَراءِ كُلِّ غَوْرَةٍ وَنَهايَةٍ بِجَبَرُوتِ الْفَخْرِ"؛ (38)
ترجمہ: بار پروردگارا! توہم کا شکار لوگوں کے گماں بھٹک گئے ہیں اور دیکھنے والوں کی نظروں کا عروج [تیرے اوصاف] تک نہیں پہنچ سکا ہے، اور توصیف کرنے والوں کی زبان عاجز ہوچکی ہے اور مبطلین [حق کو باطل کرنے کے لئے کوشاں لوگوں] کے دغوے نیست و نابود ہوگئے ہیں کیونکہ تیرا جاہ و جلال اور تیری شان و شوکت اس سے کہیں بالاتر ہے کہ انسانی عقل اس کا تصور کرسکے۔
تو جہاں ہے اس کی کوئی انتہا نہیں ہے اور کوئی آنکھ تیری طرف اشارہ نہیں کرسکتی اور تجھ کو نہیں پاسکتی اور کسی عبارت میں تیری توصیف کی اہلیت و توانائی نہیں ہے؛ کس قدر بعید ہے کس قدر بعید ہے [حواس انسانی کے ذریعے تیرا ادراک] اے پورے عالم وجود کا سرچشمہ! ای واحد و یکتا! تو اپنی عزت اور کبریائی کے لباس میں ہر قوت سے بالا تر اور ماوراء تر ہے اور ہر متفکر و مفکر کی زد سے برتر و بالاتر ہے۔ (39)
حوالہ جات:
٭۔ اس مجموعۂ موضوعات میں بعض اضافات کئے گئے اور اس کے بیشتر موضوعات کے بارے میں تحقیق کی گئی اور انہیں Authentic اور قابل استناد بنایا گیا۔ / مترجم
1. ارشاد، مفید، بیروت، دارالمفید، 211 من سلسلہ مؤلفات الشیخ المفید، ص297.
2. مناقب آل ابیطالب، ابن شہر آشوب، انتشارات ذویالقربی، ج1، 1379، ج4، ص432.
3. جلاء العیون، ملامحمدباقر مجلسی، انتشارات علمیہ اسلامیہ، ص568.
4. مناقب، ص432.
5. ارشاد شیخ مفید، ص432.
٭٭۔ شیخ مفید، ارشاد، ص327.
6. مناقب، ص433.
7. مناقب، ص433.
8. مناقب، ص433؛ ارشاد، ص297.
9. ارشاد، ص297.
10. اعلام الوری، طبرسی، دارالمعرفہ، ص339.
11. مناقب، ص433.
12. تحف العقول، ابن شعبہ حرّانی، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، صص339 ـ 338.
13. تحف العقول ، ص340.
14. تحف العقول. انسان نہ مجبور ہے نہ ہی اللہ نے اپنے اختیارات اس کو سونپ دیئے ہیں بلکہ امر ان دو کے درمیان ہے یا درمیانی رائے درست ہے۔
15. تحف العقول.
16. معنی این کلام، این است کہ اگر قائل بہ جبر شویم، باید بگوییم کہ ـ العیاذ باللّہ ـ خداوند، ظالم است، در حالی کہ خود قرآن میفرماید: «وَلا يَظْلِمْ رَبُّكَ اَحَدا» (کہف/49).
17. تحف العقول صفحہ 371.
18. کہف/49.
19. حج/10.
20. تحف العقول صفحہ 461. اما الجبر الذی
21. تحف العقول صفحہ 463.
22. تحف العقول صفحہ 464.
23. تحف العقول صفحہ 465۔
24. اختیار معرفة الرجال، طوسی، تصحیح و تعلیق حسن مصطفوی، ص102.
25. الطبقات الکبری، ابن سعد، دار صادر، ج5، ص214. امام سجاد علیہ السلام سے تاریخ دمشق میں بھی ایک روایت نقل ہوئی ہے جو کچھ یوں ہے: أحبونا حب الإسلام ولا تحبونا حب الأصنام ! فما زال بنا حبکم حتی صار علینا شیناً )! (تاریخ دمشق:41/392) ترجمہ: ہم سے اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی بنیاد پر محبت کرو اور ہم سے بت پرستوں کی مانند محبت نہ کرو کیونکہ تمہاری اس حد تک بڑھ گئی کہ ہمارے لئے شرم کا باعث ہوگئی۔ [یہاں بھی غلو اور محبت میں حد سے تجاوز کرنے کی مذمت مقصود ہے]۔
26. بحار الانوار، ج25، ص346.
27. بحار الانوار، ج25، ص346.
28. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، ص603.
29. اختیار معرفة الرجال (رجال کشی)، صص518 ـ 516.
30. رجال کشی ، ص518.
31. رجال کشی ، ص520.
32. رجال کشی ، ص524.
33. رجال کشی ، صص18 ـ 17.
34. بحارالانوار جلد 3 صفحہ 291.
35۔ اصول کافی جلد 1 صفحہ: 136 روایة: 5
36. توحید، شیخ صدوق ص109، ح6.
37. التوحید ص109، ح7. اصول کافی جلد 1 ص 30 ؛حدیث 5)
38. التوحید ، ص66، ح19.
39. ترجمہ از کتاب زندگانی امام علی الہادی علیہالسلام ، باقر شریف قرشی، دفتر انتشارات اسلامی، ص112۔
امام ہادی (علیہ السلام) کا کتاب نامہ
1۔ آمال الواعظین(ج2) بقلم ابراہیم حسینی لیلابی
2۔ آینہ کمال بقلم اکبر دہقان
3۔ ائمتنا بقلم علی محمد علی دخیل
4. الارشاد فی معرفہ حجج اللہ علی العباد(ج2) بقلم شیخ مفید
5. اسرار دلبران بقلم سیداحمد سجادی
6. اعلام الہدایہ (الامام علی بن محمد الہادی) باہتمام مجمع الجہانی اہل بیت
7. الامام العاشر الامام علی بن محمد الہادی باہتمام لجنہ التحریر فی طریق الحق
8. الامام الہادی أضواء من سیرتہ بقلم محمود السیف
9. الامام الہادی القیادة العاشرة للحرکة الرسالیة بقلم ضیاء الفاتح
10. الامام الہادی قدوة الثائرین بقلم محمد وصفی
11. الامام علی الہادی بقلم عبداللہ الیوسف
12. الامام علی الہادی مع مروق القصر و قضاہ العصر بقلم کامل سلیمان
13. امام ہادی از نگاہ اہل سنت بقلم محمدحسن طبسی
14. امام ہادی در مصاف با انحراف عقیدتی بقلم حسین مطہری محب
15. امام ہادی را بہتر بشناسیم بقلم محمود مہدی پور
16. امام ہادی مشعلدار ہدایت بقلم جعفر انواری
17. امام ہادی و اتحاد پیروان اہل بیت (ع) بقلم عبدالکریم پاک نیا
18. امام ہادی و جلوہ ہای غدیر بقلم عباس کوثری
19. امام ہادی و حوزہ حدیثی قم بقلم غلامعلی عباسی
20. امام ہادی و دفاع از مرزہای توحید بقلم سیدعباس رضوی
21. امام ہادی و نہضت علویان بقلم محمدرسول دریایی
22. امامان اہل بیت در گفتار اہل سنت بقلم داوود الہامی
23. امامان عسکریین (امام علی النقی) بقلم فضل اللہ کمپانی
24. امنیت اخلاقی از نگاہ امام ہادی بقلم مہدی احمدی
25. الانوار البہیة فی تواریخ الحجج الالہیة بقلم شیخ عباس قمی
26. بحارالانوار (ج 50) بقلم محمد باقر المجلسی
27. بدر ذی الحجہ بقلم ابراہیم اخوی
28. برگزیدگان (ج2) بقلم مہدی رحیمی
29. پرچمداران ہدایت بقلم سیداحمد سجادی
30. تاج الموالید: خلاصہ زندگانی چہاردہ معصوم بقلم علامہ طبرسی
31. تاریخ انبیاء و چہاردہ معصوم بقلم فرخ رصدی
32. تاریخ چہاردہ معصوم بقلم محمد جواد مولوی نیا
33. تاریخ زندگی ائمہ معصومین حضرت امام علی النقی بقلم آموزش عقیدتی جہاد سازندگی
34. تحلیلی از زندگانی امام ہادی بقلم باقر شریف قرشی
35. تراتیل فی زمن الذئاب بقلم کمال السید
36. تعریف احوال سادہ الانام النبی والاثنی عشر امام بقلم راشد بن ابراہیم البحرانی
37. تفسیر قرآن در کلام امام ہادی بقلم مہدی سلطانی وفایی
38. تلاش ہا و مبارزات امام ہادی بقلم ابوالفضل ہادی منش
39. جرعہ نوشان اقیانوس بی کران امام ہادی (1-2) بقلم عسکری اسلامپور کریمی
40. جزاء الاعداء الامام الہادی فی دار الدنیا بقلم السید ہاشم الناجی الموسوی
41. جلاء العیون بقلم علامہ مجلسی
42 جلوات ربانی در شناخت دوازدہ امام بہ مقام نورانیت(ج2) بقلم محمد رضا ربانی
43. جنات ثمانیة بقلم محمدباقر بن مرتضی حسینی خلخالی
44. چگونگی مواجہہ امام ہادی با خلفای عباسی بقلم عباس جمشیدی
45. چہاردہ آیینہ بقلم محمدخرم فر
46. چہاردہ اختر تابناک بقلم احمد احمدی بیرجندی
47. چہرہ ہای درخشان سامراء (امام ہادی) بقلم علی ربانی خلخالی
48. چہل داستان و چہل حدیث از امام علی ہادی بقلم عبداللہ صالحی
49. حجت محوری در نگاہ امام ہادی بقلم جواد محدثی
50. حدیث اہل بیت بقلم یداللہ بہتاش
51. حدیقة الذاکرین بقلم یداللہ بہتاش
52. حیات پاکان (امام ہادی) بقلم مہدی محدثی
53. حیاة الامام الہادی دراسہ و تحلیل بقلم محمد جواد الطبسی
54. حیاة الامام علی الہادی دراسہ و تحلیل بقلم باقر شریف القرشی
55. حیاة اولی النہی حیاة الامام علی الہادی بقلم محمد رضا الحکیمی الحائری
56. خانہ ہای ماذون در شرح حال چہاردہ معصوم (ع) بقلم محمدباقر مدرس
57. خورشید ہدایت بقلم سمیہ سوری
58. الدر النظیم فی مناقب الائمہ اللہامیم بقلم جمال الدین یوسف بن حاتم الشامی
59. دل نوشتہ ہایی در میلاد امام ہادی بقلم روح اللہ حبیبیان
60. دلائل الامامة بقلم محمد بن جریر بن رستم الطبری
61. راہ راستان باہتمام دایرة المعارف تشیع
62. رنج ہای امام ہادی (1-2) بقلم ابوالفضل ہادی منش
63. روشہای تربیتی از دیدگاہ امام ہادی (1-2) بقلم غلامرضا صالحی
64. زندگانی امام علی الہادی بقلم باقر شریف القرشی
65. بقلم زندگانی امام ہادی بقلم علی رفیعی
66. زندگانی تحلیلی پیشوایان ما بقلم عادل ادیب
67. زندگانی چہاردہ معصوم بقلم حسین مظاہری
68. زندگانی عسکریین (امام علی النقی) بقلم عباس حاجیانی دشتی
69. زندگی دوازدہ امام(ج2) بقلم ہاشم معروف الحسنی
70. زندگینامہ چہاردہ معصوم بقلم محسن خرازی
71. ستارگان درخشان (سرگذشت حضرت امام علی النقی) بقلم محمد جواد نجفی
72. سفرہا و ارتباطات امام ہادی (1-2) بقلم غلامرضا گلی زوارہ
73. سوار سبزپوش آرزوہا بقلم کمال السید
74. سوگنامہ آل محمد در ذکر مصائب جانسوز چہاردہ معصوم بقلم محمد محمدی اشتہاردی
75. سیرہ الائمہ الاثنی عشر(ج2) بقلم ہاشم معروف الحسنی
76. سیرة الائمة علی الہادی بقلم محمد رضا عباس محمد الدباغ
77. سیرہ معصومان بقلم سیدمحسن امین
78. سیرہ و زندگانی حضرت امام ہادی (ع) بقلم لطیف راشدی
79. سیرہ و سخن پیشوایان بقلم محمد علی کوشا
80. شادنامہ چہاردہ معصوم (ع) محمد صحتی سردرودی
81. شناخت مختصری از زندگانی امام ہادی (1-3) بقلم مہدی پیشوایی
82. صحیفہ امام ہادی بقلم جواد قیومی اصفہانی
83. عجایب و معجزات شگفت انگیزی از چہاردہ معصوم باہتمام واحد تحقیقاتی گل نرگس
84۔ عوامل تبعید امام ہادی بقلم عباس کوثری
85۔ فروغی از دانش امام ہادی بقلم عباس کوثری
86۔ فرہنگ جامع سخنان امام ہادی باہتمام گروہ پژوہشکدہ باقر العلوم (مترجم: علی مؤیدی)
87۔ الفصول المہمة فی معرفة الائمة علی بن محمد بن احمد المالکی المکی
88. فی رحاب ائمة ہل البیت (ج3-5) بقلم السیدمحسن الامین
89. قصة الحوار الہادی السید محمد الحسینی القزوینی
90. قطرہ ای از دریای فضائل اہل بیت (ج2) بقلم سید احمد مستنبط
91. کتابشناسی اہل بیت بقلم ناصرالدین انصاری قمی
92. کرامات و مقامات عرفانی امام ہادی سید علی حسینی
93. کشف الغمة فی معرفة الائمة (ج2) بقلم ابوالحسن علی بن عیسی بن ابی الفتح الاربلی
94. گزیدہ سیمای سامرا: سینای سہ موسی بقلم محمد صحتی سردرودی
95. گزیدہ ناسخ التواریخ (ج6) بقلم محمد تقی خان سپہر-عباسقلی خان سپہر
96. گلچین حکمت بقلم محمد باقر مجلسی
97. گوشہ ای از کرامات امام ہادی بقلم حسین تربتی
98. لمحات من حیاة الامام الہادی بقلم محمدرضا سیبویہ
99. مبارزات سیاسی امام ہادی بقلم ابوالفضل ہادی منش
100. المجالس السنیة (ج2) بقلم السید محسن الامین
101. مجموعہ زندگانی چہاردہ معصوم(ج1-2) بقلم حسین عمادزادہ
102. مسند الامام الہادی بقلم عزیز اللہ عطاردی
103. معارج الوصول الی معرفة فضل آل الرسول و البتول بقلم محمد بن عزالدین یوسف بن الحسن الزرندی
104. معصوم دوازدہم (علی بن محمد) بقلم جواد فاضل
105. مناقب اہل بیت از دیدگاہ اہل سنت بقلم سیدمحمدطاہر ہاشمی شافعی
106. منتخب التواریخ در زندگانی چہاردہ معصوم بقلم محمدہاشم بن محمدعلی خراسانی
107. منتہی الامال(ج2) عباس قمی
108. منہاج التحرک عند الامام الہادی بقلم ع- نجف
109. موسوعة الادعیة (الصحیفة النقویة) (ج 5) بقلم جواد القیومی الاصفہانی
110. موسوعہ الامام الہادی (ج 1 و 2 و 3 و 4) باہتمام لجنة العلمیة فی موسسة ولی العصر
111. موسوعة المصطفی و العترة (الہادی علی) بقلم حسین الشاکری
112. نام ہای امام ہادی بقلم ناصر بہرامی
113. نامہ ہای امام ہادی بقلم سیدجعفر ربانی
114. نقش امام ہادی در اندیشہ مہدویت (1-2) بقلم خلیل منصوری
115. نقش امام ہادی در ہدایت امت بقلم محمد جواد مروجی طبسی
116. نکتہ ہای ناب از زندگانی چہاردہ معصوم بقلم محمد گلستانی
117. نگاہی بر زندگی امام ہادی (ع) بقلم محمدی اشتہاردی
118. نگاہی بہ زندگی دوازدہ امام بقلم علامہ حلی
119. نگاہی بہ شیوہ ہای رہبری امام ہادی بقلم عبدالکریم پاک نیا
120. نگرش علم الحدیثی امام ہادی بقلم نوروز امینی
121. نوادر المعجزات فی مناقب الائمہ الہداة بقلم محمد بن جریر بن رستم الطبری
122. النور الہادی الی اصحاب الامام الہادی بقلم عبدالحسین الشبستری
123. نورالابصار فی احوال الائمة التسعة الابرار بقلم محمدمہدی الحائری المازندرانی
124. وسیلہ الخادم در شرح صلوات چہاردہ معصوم بقلم فضل اللہ روزبہان خنجی اصفہانی
125. وصایای چہاردہ معصوم بقلم فرشاد مومنی
126. ویژگی ہای اخلاقی امام ہادی بقلم ابوالفضل ہادی منش
127. ہدایتگران راہ نور (زندگانی حضرت امام علی ہادی) بقلم محمد تقی مدرسی
128. ہفت گفتار از امام ہادی بقلم عبدالکریم تبریزی
129. ہمسر و فرزندان امام ہادی بقلم علی احمدی
مؤلف: حسین مطہری محب
ماہ رجب کی فضیلت اور اس کے اعمال
ماہ رجب کی فضیلت اور اس کے اعمال
واضح رہے کہ ماہ رجب، شعبان اور رمضان بڑی عظمت اور فضیلت کے حامل ہیں اور بہت سی روایات میں ان کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ جیساکہ حضرت محمد کا ارشاد پاک ہے کہ ماہ رجب خداکے نزدیک بہت زیادہ بزرگی کا حامل ہے۔ کوئی بھی مہینہ حرمت و فضیلت میں اس کا ہم پلہ نہیں اور اس مہینے میںکافروں سے جنگ و جدال کرنا حرام ہے۔آگاہ رہو رجب خدا کا مہینہ ہے شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ رجب میںایک روزہ رکھنے والے کو خدا کی عظیم خوشنودی حاصل ہوتی ہے‘ غضب الہی اس سے دور ہوجاتا ہے‘ اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس پر بند ہوجاتا ہے۔ امام موسٰی کاظم -فرماتے ہیں کہ ماہ رجب میںایک روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ ایک سال کی مسافت تک دور ہوجاتی ہے اورجو شخص اس ماہ میں تین دن کے روزے رکھے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ نیز حضرت فرماتے ہیں کہ رجب بہشت میںایک نہر ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے اور جو شخص اس ماہ میں ایک دن کا روزہ رکھے تو وہ اس نہر سے سیراب ہوگا۔
امام جعفر صادق -سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم نے فرمایا: کہ رجب میری امت کے لیے استغفار کامہینہ ہے۔ پس اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ طلب مغفرت کرو کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ رجب کو اصبّ بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس ماہ میںمیری امت پر خدا کی رحمت بہت زیادہ برستی ہے۔ پس اس ماہ میں بہ کثرت کہا کرو:
اَسْتَغْفِرُ ﷲ وَ اَسْءَلُهُ التَّوْبَةَ
ابن بابویہ نے معتبر سند کے ساتھ سالم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں اوخر رجب میں امام جعفر صادق -کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اس مہینے میںروزہ رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا فرزند رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم ! وﷲ نہیں! تب فرمایا کہ تم اس قدر ثواب سے محروم رہے ہوکہ جسکی مقدارسوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا کیونکہ یہ مہینہ ہے جسکی فضیلت تمام مہینوں سے زیادہ اور حرمت عظیم ہے اور خدا نے اس میں روزہ رکھنے والے کا احترام اپنے اوپرلازم کیا ہے۔ میںنے عرض کیا اے فرزند رسول ! اگرمیں اسکے باقی ماندہ دنوں میں روزہ رکھوں توکیا مجھے وہ ثواب مل جائیگا؟
آپ نے فرمایا: اے سالم!
جو شخص آخر رجب میں ایک روزہ رکھے تو خدا اسکو موت کی سختیوں اور اس کے بعدکی ہولناکی اورعذاب قبر سے محفوظ رکھے گا۔جوشخص آخر ماہ میں دوروزے رکھے وہ پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزرجائے گا اور جو آخررجب میں تین روزے رکھے اسے قیامت میں سخت ترین خوف‘تنگی اورہولناکی سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کوجہنم کی آگ سے آزادی کاپروانہ عطا ہوگا۔
واضح ہوکہ ماہ رجب میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے جیساکہ روایت ہوئی ہے اگر کوئی شخص روزہ نہ رکھ سکتاہو وہ ہرروز سو مرتبہ یہ تسبیحات پڑھے تو اس کو روزہ رکھنے کاثواب حاصل ہوجائے گا۔
سُبْحانَ الْاِلهِ الْجَلِیلِ سُبْحانَ مَنْ لاَ یَنْبَغِی التَّسْبِیحُ إلاَّ لَهُ سُبْحانَ الْاَعَزِّ الْاَکْرَمِ سُبْحانَ مَنْ لَبِسَ الْعِزَّ وَهُوَ لَهُ أَهْلٌ
پاک ہے جو معبود بڑی شان والا ہے پاک ہے وہ کہ جس کے سوا کوئی لائق تسبیح نہیں پاک ہے وہ جو بڑا عزت والا اور بزرگی والا ہے
پاک ہے وہ جولباس عزت میں ملبوس ہے اور وہی اس کا اہل ہے۔
ماہ رجب کے مشترکہ اعمال
۱-
محمد بن ذکو ان،آپ اس لئے سجاد کے نام سے معروف ہیں کہ انہوں نے اتنے سجدے کیے اور خوف خدا میں اس قدر روئے کہ نابینا ہوگئے تھے، سید بن طاؤس نے محمد بن ذکوان سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپ پر قربان ہو جاؤں یہ ماہ رجب ہے، مجھے کوئی دعا تعلیم کیجئے کہ حق تعالیٰ اس کے ذریعے مجھے فائدہ عطا فرمائے ۔ آپ نے فرمایا کہ لکھوبسم اللہ الرحمن الرحیم اور رجب کے مہینے میں ہر روزصبح وشام کی نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرو:
۲-
رسول ﷲ سے مروی ہے کہ جو شخص ماہ رجب میں سو مرتبہ کہے :
اَسْتَغْفِرُ ﷲ الَّذِیْ لَااِلٰهَ اِلَّاهُوَ وَحْدَهُ لاَ شَرِیکَ لَهُ واَتُوْبُ اِلَیْهَ
اور جو اسے چار سو مرتبہ پڑھے گا تو خدا اسے سو شہیدوں کا اجر دے گا ۔
۳-
رسول ﷲ سے روایت ہوئی کہ ماہ رجب میں جو شخص ہزار مرتبہ
" لَااِلٰهَ اِلَّاﷲ "
کہے تو حق تعالیٰ اس کیلئے ہزار نیکیاں لکھے گا اور جنت میں اس کیلئے سو شہر بنائیگا۔
۴-
روایت ہوئی ہے کہ جو شخص رجب کے مہینے میں صبح شام ستر، ستر مرتبہ
"اَسْتَغْفِرُ ﷲ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہَ "
پڑھے اور پھر اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے
" اَلَّلهُمَّ اغْفَرْلِیْ وَ تُبْ عَلَیَّ "
کہے تو اگر وہ اس مہینے میں مر جائے تو حق تعالیٰ اس ماہ کی برکت سے اس پر راضی ہوگا اور آتش جہنم اسے نہ چھوئے گی۔
۵-
رجب کے پورے مہینے میں ہزار مرتبہ پڑھے تاکہ حق تعالیٰ اس کو بخش دے۔
"اَسْتَغْفِرُ ﷲ ذَا الْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ مِنْ جَمِیْعِ الذَّنُوْبِ وَ الْآثَامِ"
بخشش چاہتا ہوں خدا سے جو صاحب جلالت و بزرگی ہے اپنے تمام گناہوں اور خطاؤں پر طالب عفو ہوں۔
۶-
سید نے اقبال میں رسول ﷲ سے نقل کیا ہے کہ ماہ رجب میں سورہ اخلاص کے دس ہزار مرتبہ یا ایک ہزار مرتبہ یا ایک سو مرتبہ پڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے ۔ نیز یہ روایت بھی ہے کہ ماہ رجب میں جمعہ کے روز جو شخص سو مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے تو قیامت میں اس کیلئے ایک خاص نور ہوگا جو اسے جنت کی طرف لے جائے گا ۔
۷-
سید نے روایت نقل کی ہے کہ جو شخص ماہ رجب میں ایک دن روزہ رکھے اور چار رکعت نماز ادا کرے کہ جس کی پہلی رکعت میں الحمد کے بعد سو مرتبہ آیۃ الکرسی اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد دو سو مرتبہ قُلْ ھُوَ ﷲ پڑھے تو وہ شخص مرنے سے پہلے جنت میں اپنا مقام خود دیکھ لے گا۔ یا اسے جنت میںاس کا مقام دکھایا جائے گا۔
۸-
سید نے رسول ﷲ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ جو شخص رجب میں جمعہ کے روز نماز ظہر و عصر کے درمیان چار رکعت نماز پڑھے جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد سات مرتبہ آیت الکرسی اور پانچ مرتبہ سورہ توحید پڑھے اور نماز کے بعد دس مرتبہ کہے:
"اَسْتَغْفِرُ ﷲ الَّذِیْ لَا اِلَهَ اِلَّا هُوَ وَ اَسْءَلُهُ التَّوْبَةَ"
پس حق تعالیٰ اس نماز کے ادا کرنے کے دن سے اس کی موت تک ہر روز اس کیلئے ہزار نیکیاں لکھے گا ، ہر آیت جو اس نے نماز میں پڑھی ہے اس کے بدلے میں اسے جنت میں یاقوت سرخ کا شہر عنائت کرے گا ۔ ہر ہر حرف کے عوض سفید موتیوں کا محل عطا کرے گا ، حورالعین سے اس کی تزویج کرے گا ، خدا ئے تعالیٰ اس سے راضی و خوشنود ہوگا، اس کا نام عبادت گزاروں میںلکھا جائے گا اور خدا اس کا خاتمہ بخشش اور نیک بختی پر کرے گا ۔
۹-
رجب کے مہینے میں تین دن یعنی جمعرات، جمعہ اور ہفتہ کو روزہ رکھے کیونکہ روایت ہوئی ہے کہ جو محترم مہینوں کے ان دنوں میں روزہ رکھے تو حق تعالیٰ اس کو نو سوبرس کی عبادت کا ثواب عطا فرمائے گا ۔
۱۰-
پورے ماہ رجب میں ساٹھ رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ ہر شب میں دو رکعت بجالائے جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد ایک مرتبہ، سورہ کافرون تین مرتبہ اور سورہ قل ھو ﷲ ایک مرتبہ پڑھے اور جب سلام دے چکے تو اپنے ہاتھ بلند کر کے یہ پڑھے :
"لاَ إلهَ إلاَّ ﷲ وَحْدَهُ لاَ شَرِیکَ لَهُ، لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ، یُحْیِی وَیُمِیتُ وَهُوَحَیٌّ لاَ یَمُوتُ بِیَدِهِ الْخَیْرُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ وَ إلَیْهِ الْمَصِیرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إلاَّ بِالله الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ، اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ الاَُْمِّیِّ وَآلِهِ،
یہ دعا پڑھنے کے بعد دونوں ہاتھ اپنے منہ پر پھیرے۔
حضرت رسول ﷲ سے روایت ہوئی ہے کہ جو شخص یہ عمل انجام دے حق تعالیٰ اس کی دعا قبول کرے گا اور اسے ساٹھ حج اور ساٹھ عمرہ کا ثواب عطا فرمائے گا۔
۱۱-
حضرت رسول ﷲ سے روایت کی گئی ہے کہ جو شخص رجب کے مہینے کی ایک رات میں دو رکعت نماز ادا کرے کہ اس میں سو مرتبہ سورہ قُلْ ھُو ﷲ پڑھے تو وہ ایسے ہے کہ جیسے اس نے حق تعالیٰ کیلئے سو سال کے روزہ رکھے ہوں۔ پس ﷲ تعالیٰ اس کو بہشت میں ایسے سو محلات عنایت کرے گا کہ جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی نبی کی ہمسائیگی میں واقع ہوگا۔
۱۲-
حضرت رسول ﷲ سے مروی ہے کہ جو شخص ماہ رجب کی ایک رات میں دس رکعت نماز پڑھے کہ جس کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ و سورہ کافرون ایک ایک مرتبہ اور سورہ قل ھو ﷲ تین مرتبہ پڑھے تو ﷲ تعالیٰ اس کا ہر وہ گناہ بخش دے گا جو اس نے کیا ہو گا۔
۱۳-
علامہ مجلسی رحمهالله نے زاد المعاد میں ذکر فرمایا کہ مولا امیر-سے نقل کیا گیا ہے کہ رسولخدا نے فرمایا ہے کہ جو شخص رجب، شعبان اور رمضان کی ہر رات اور دن میں سورہ حمد، آیۃ الکرسی، سورہ کافرون، سورہ فلق اور سورہ ناس میں سے ہر ایک تین تین مرتبہ پڑھے اور پھر تین مرتبہ کہے :
سُبْحَانَ ﷲ، وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلاَ إلهَ إلاَّ ﷲ، وَﷲ أَکْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَقوّ َةَ إلاَّ بﷲ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِتین مرتبه کهے : اَللَّهُمَّ صَلَّی ﷲ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ اَلَّلهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤمِنَاتِ
اور چارسو مرتبه کهے :
" اَسْتَغْفر ﷲ وَ اَتُوْبُ اِلَیْهِ"
اور مومن عورتوں کو بخش دے میں خدا سے بخشش چاہتا ہوں اور اسی کی طرف پلٹتا ہوں
پس خدا تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا چاہے وہ بارش کے قطروں، درختوں کے پتوں اور دریاؤں کی جھاگ جتنے ہی کیوںنہ ہوں۔ نیز علامہ مجلسی رحمهالله فرماتے ہیں کہ اس مہینے کی ہر رات میں ہزار مرتبہ لاَ إلهَ إلاَّ ﷲ کہنا بھی نقل ہوا ہے ۔
واضح ہو کہ ماہ رجب کی پہلی شبِ جمعہ کو لیلۃ الرغائب (رغبتوں والی رات) کہا جاتا ہے اس شب کیلئے رسولخدا سے ایک نماز نقل ہوئی ہے کہ جس کے فضائل بہت زیادہ ہیں جنہیں سیدنے اقبال اور علامہ مجلسی نے اجازہ بنی زہرہ میںذکر کئے ہیں۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نماز کی برکت سے کثیر گناہ معاف ہو جائیں گے اور قبر کی پہلی رات یہ نماز بحکم خدا خوبصورت بدن، خندہ چہرہ اور صاف و شیرین زبان کے ساتھ آکر کہے گی اے میرے حبیب خوشخبری ہو تجھے کہ تو نے ہر تنگی و سختی سے نجات پالی ہے وہ شخص پوچھے گا تو کون ہے؟خدا کی قسم میں نے تجھ سے خوبصورت اور شیرین کلام اور خوشبو والا کوئی نہیں دیکھا؟ وہ جواب دے گی میں تیری وہ نماز اور اس کا ثواب ہوں جو تونے فلاں رات فلاں ماہ اور فلاں سال میں پڑھی تھی آج میں تیرے حق کی ادائیگی کیلئے حاضر اور اس وحشت و تنہائی میں تیری ہمدم و غمخوار ہوں کل روز قیامت جب صور پھونکا جائے گا ۔
تو اس وقت میں تیرے سر پر سایہ کروں گی پس خوش و خرم رہ کہ خیر و نیکی کبھی تجھ سے دور نہیں ہوگی اس با برکت نماز کی ترکیب یہ ہے کہ ماہ رجب کی پہلی جمعرات کو روزہ رکھے اور شب جمعہ میں مغرب و عشاءکے درمیان بارہ رکعت دو دو رکعت کر کے نماز پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد تین مرتبہ انا انزلناہ اور بارہ مرتبہ قُلْ ھُو ﷲ پڑھے ، فارغ ہو کر ستر مرتبہ کہے:
اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النبیِ الاُمِّیِ وَ عَلیٰ آلِهٰ
پھر سجدے میں جا کر ستر مرتبہ کہے:سُبُّوْحُ،
اے معبود! محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم امی پر اور ان کی آلعليهالسلام پررحمت نازل فرما فرشتوں اور
قُدُّوْسُ، رَبُ الْمَلائِکَةِ وَ الرُّوْح سجدے سے سر اٹھا کر ستر مرتبہ کہے:رَبِّ اغْفَرْ وَارْحَمْ وَ
روح کا رب بے عیب پاک تر ہے پالنے والے بخش دے رحم فرما اور
تَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ أَنَّکَ اَنْتَ العَلِیُّ الْاَعْظَمُ
پھر سجدے میں جائے اور ستر مرتبہ کہے:سُبُّوْحُ ، قُدُّوْسُ، رَبُ الْمَلائِکَةِ وَ الرُّوْحِ
اس کے بعد اپنی حاجت بھی طلب کرے گا ان شاء ﷲ تعالیٰ وہ پوری ہوگی۔
یاد رہے کہ ماہ رجب میں امام علی رضا -کی زیارت کو جانا مستحب ہے ، جیساکہ اس ماہ میں عمرہ ادا کرنے کی بھی زیادہ فضیلت ہے اور عمرہ کی فضیلت حج کے قریب قریب ہے روایت ہوئی ہے کہ امام زین العابدین -ماہ رجب میں عمرہ ادا فرماتے، خانہ کعبہ میں نمازیں پڑھتے شب و روز سجدے میں رہتے اور سجدے میں یہ کلمات ادا فرماتے۔
عَظُمَ الذَّنْبُ مِنْ عَبْدِکَ فُلْیَحْسُنِ الْعَفْوُ مَنْ عِنْدِکَ
یہ ماہ رجب کے اعمال میں پہلی قسم ہے یہ وہ اعمال ہیں جومشترکہ ہیں اورکسی خاص دن کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں اور یہ چند اعمال ہیں۔
ماہ رجب کے روزانہ کی نماز کے بعد پڑھی جانے والی دعاء
محمد بن ذکو ان،آپ اس لئے سجاد کے نام سے معروف ہیں کہ انہوں نے اتنے سجدے کیے اور خوف خدا میں اس قدر روئے کہ نابینا ہوگئے تھے، سید بن طاؤس نے محمد بن ذکوان سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام جعفر صادق -کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپ پر قربان ہو جاؤں یہ ماہ رجب ہے، مجھے کوئی دعا تعلیم کیجیئے کہ حق تعالیٰ اس کے ذریعے مجھے فائدہ عطا فرمائے ۔ آپ نے فرمایا کہ لکھوبسم اللہ الرحمن الرحیم اور رجب کے مہینے میں ہر روزصبح وشام کی نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرو
" يَا مَنْ أَرْجُوهُ لِكُلِّ خَيْرٍ ، وَ آمَنُ سَخَطَهُ عِنْدَ كُلِّ شَرٍّ ، يَا مَنْ يُعْطِي الْكَثِيرَ بِالْقَلِيلِ ، يَا مَنْ يُعْطِي مَنْ سَأَلَهُ ، يَا مَنْ يُعْطِي مَنْ لَمْ يَسْأَلْهُ وَ مَنْ لَمْ يَعْرِفْهُ تُحَنُّناً مِنْهُ وَ رَحْمَةً ، أَعْطِنِي بِمَسْأَلَتِي إِيَّاكَ جَمِيعَ خَيْرِ الدُّنْيَا ، وَ جَمِيعَ خَيْرِ الْآخِرَةِ ، وَ اصْرِفْ عَنِّي بِمَسْأَلَتِي إِيَّاكَ جَمِيعَ شَرِّ الدُّنْيَا وَ شَرِّ الْآخِرَةِ ، فَإِنَّهُ غَيْرُ مَنْقُوصٍ مَا أَعْطَيْتَ ، وَ زِدْنِي مِنْ فَضْلِكَ يَا كَرِيمُ "
راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد امام أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ( عليه السَّلام )نے اپنی ریش مبارک کو داہنی مٹھی میں لیا اور اپنی انگشت شہادت کو ہلاتے ہوئے نہایت گریہ و زاری کی حالت میں یہ دعا پڑھی:
" يَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِكْرَامِ ، يَا ذَا النَّعْمَاءِ وَ الْجُودِ ، يَا ذَا الْمَنِّ وَ الطَّوْلِ ، حَرِّمْ شَيْبَتِي عَلَى النَّارِ "
:۱-
رجب کے پورے مہینے میں یہ دعا پڑھتا رہے اور روایت ہے کہ یہ دعا امام زین العابدین -نے ماہ رجب میں حجر کے مقام پر پڑھی:
يَا مَنْ يَمْلِكُ حَوائِجَ السَّائِلِينَ، وَيَعْلَمُ ضَمِيرَ الصَّامِتِينَ، لِكُلِّ مَسْأَلَةٍ مِنْكَ سَمْعٌ حَاضِرٌ، وَجَوَابٌ عَتِيدٌ . اللّهُمَّ وَمَواعِيدُكَ الصَّادِقَةُ، وَأَيادِيكَ الْفَاضِلَةُ، وَرَحْمَتُكَ الْوَاسِعَةُ، فَأَسْأَلُكَ أَنْ تُصَلِّىَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَأَنْ تَقْضِىَ حَوائِجِى لِلدُّنْيا وَالْآخِرَةِ، إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ.
۲-
یہ دعا پڑھے کہ جسے امام جعفر صادق -رجب میں ہر روز پڑھا کرتے تھے۔
" خَابَ الْوَافِدُونَ عَلَى غَيْرِكَ ، وَ خَسِرَ الْمُتَعَرِّضُونَ إِلَّا لَكَ ، وَ ضَاعَ الْمُلِمُّونَ إِلَّا بِكَ ، وَ أَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُونَ إِلَّا مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَكَ ، بَابُكَ مَفْتُوحٌ لِلرَّاغِبِينَ ، وَ خَيْرُكَ مَبْذُولٌ لِلطَّالِبِينَ ، وَ فَضْلُكَ مُبَاحٌ لِلسَّائِلِينَ ، وَ نَيْلُكَ مُتَاحٌ لِلْآمِلِينَ ، وَ رِزْقُكَ مَبْسُوطٌ لِمَنْ عَصَاكَ ، وَ حِلْمُكَ مُعْتَرِضٌ لِمَنْ نَاوَاكَ ، عَادَتُكَ الْإِحْسَانُ إِلَى الْمُسِيئِينَ ، وَ سَبِيلُكَ الْإِبْقَاءُ عَلَى الْمُعْتَدِينَ ،
اللَّهُمَّ فَاهْدِنِي هُدَى الْمُهْتَدِينَ ، وَ ارْزُقْنِي اجْتِهَادَ الْمُجْتَهِدِينَ ، وَ لَا تَجْعَلْنِي مِنَ الْغَافِلِينَ الْمُبْعَدِينَ ، وَ اغْفِرْ لِي يَوْمَ الدِّينِ "
۳-
شیخ نے مصباح میں فرمایا ہے کہ معلٰی بن خنیس نے امام جعفرصادق -سے روایت کی ہے۔ آپعليهالسلام نے فرمایا کہ ماہ رجب میں یہ دعا پڑھا کرو:
اللّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ صَبْرَ الشَّاكِرِينَ لَكَ وَعَمَلَ الخائِفِينَ مِنْكَ وَيَقِينَ العابِدِينَ لَكَ ، اللّهُمَّ أَنْتَ العَلِيُّ العَظِيمُ وَأَنا عَبْدُكَ البائِسُ الفَقِيرُ أَنْتَ الغَنِيُّ الحَمِيدُ وَأَنا العَبْدُ الذَّلِيلُ ، اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَامْنُنْ بِغِناكَ عَلى فَقْرِي وَبِحِلْمِكَ عَلى جَهْلِي وَبِقُوَّتِكَ عَلى ضَعْفِي يا قَوِيُّ يا عَزِيزُ ، اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الأَوْصِياء المَرْضِيِّينَ وَاكْفِنِي ما أَهَمَّنِي مِنْ أَمْرِ الدُّنْيا وَالآخرةِ يا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ
۴-
شیخ طوسي" مصباح المتهجد" میں فرماتے ہیں کہ اس دعا کو ہر روز پڑھنا مستحب ہے۔
"اللَّهُمَّ يَا ذَا الْمِنَنِ السَّابِغَةِ، وَ الْآلَاءِ الْوَازِعَةِ، وَ الرَّحْمَةِ الْوَاسِعَةِ، وَ الْقُدْرَةِ الْجَامِعَةِ، وَ النِّعَمِ الْجَسِيمَةِ، وَ الْمَوَاهِبِ الْعَظِيمَةِ، وَ الْأَيَادِي الْجَمِيلَةِ، وَ الْعَطَايَا الْجَزِيلَةِ.
يَا مَنْ لَا يُنْعَتُ بِتَمْثِيلٍ، وَ لَا يُمَثَّلُ بِنَظِيرٍ، وَ لَا يُغْلَبُ بِظَهِيرٍ.
يَا مَنْ خَلَقَ فَرَزَقَ، وَ أَلْهَمَ فَأَنْطَقَ، وَ ابْتَدَعَ فَشَرَعَ، وَ عَلَا فَارْتَفَعَ، وَ قَدَّرَ فَأَحْسَنَ، وَ صَوَّرَ فَأَتْقَنَ، وَ احْتَجَّ فَأَبْلَغَ، وَ أَنْعَمَ فَأَسْبَغَ، وَ أَعْطَى فَأَجْزَلَ، وَ مَنَحَ فَأَفْضَلَ.
يَا مَنْ سَمَا فِي الْعِزِّ فَفَاتَ خَوَاطِرَ الْأَبْصَارِ، وَ دَنَا فِي اللُّطْفِ فَجَازَ هَوَاجِسَ الْأَفْكَارِ.
يَا مَنْ تَوَحَّدَ بِالْمُلْكِ فَلَا نِدَّ لَهُ فِي مَلَكُوتِ سُلْطَانِهِ، وَ تَفَرَّدَ بِالْآلَاءِ وَ الْكِبْرِيَاءِ فَلَا ضِدَّ لَهُ فِي جَبَرُوتِ شَأْنِهِ.
يَا مَنْ حَارَتْ فِي كِبْرِيَاءِ هَيْبَتِهِ دَقَائِقُ لَطَائِفِ الْأَوْهَامِ، وَ انْحَسَرَتْ دُونَ إِدْرَاكِ عَظَمَتِهِ خَطَائِفُ أَبْصَارِ الْأَنَامِ.
يَا مَنْ عَنَتِ الْوُجُوهُ لِهَيْبَتِهِ، وَ خَضَعَتِ الرِّقَابُ لِعَظَمَتِهِ، وَ وَجِلَتِ الْقُلُوبُ مِنْ خِيفَتِهِ، أَسْأَلُكَ بِهَذِهِ الْمِدْحَةِ الَّتِي لَا تَنْبَغِي إِلَّا لَكَ، وَ بِمَا وَأَيْتَ بِهِ عَلَى نَفْسِكَ لِدَاعِيك مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، وَ بِمَا ضَمِنْتَ الْإِجَابَةَ فِيهِ عَلَى نَفْسِكَ لِلدَّاعِينَ، يَا أَسْمَعَ السَّامِعِينَ، وَ أَبْصَرَ النَّاظِرِينَ، وَ أَسْرَعَ الْحَاسِبِينَ.
يَا ذَا الْقُوَّةِ الْمَتِينَ، صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَ اقْسِمْ لِي فِي شَهْرِنَا هَذَا خَيْرَ مَا قَسَمْتَ، وَ احْتِمْ لِي فِي قَضَائِكَ خَيْرَ مَا حَتَمْتَ، وَ اخْتِمْ لِي بِالسَّعَادَةِ فِيمَنْ خَتَمْتَ، وَ أَحْيِنِي مَا أَحْيَيْتَنِي مَوْفُوراً، وَ أَمِتْنِي مَسْرُوراً وَ مَغْفُوراً، وَ تَوَلَّ أَنْتَ نَجَاتِي مِنْ مُسَاءَلَةِ الْبَرْزَخِ، وَ ادْرَأْ عَنِّي مُنْكَراً وَ نَكِيراً، وَ أَرِ عَيْنِي مُبَشِّراً وَ بَشِيراً، وَ اجْعَلْ لِي إِلَى رِضْوَانِكَ وَ جِنَانِكَ مَصِيراً، وَ عَيْشاً قَرِيراً، وَ مُلْكاً كَبِيراً، وَ صَلِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ كَثِيراً (مصباح المتهجد: 2 / 802)
مولف کہتے ہیں کہ یہ دعا مسجد صعصعہ میں بھی پڑھی جاتی ہے جو مسجدکوفہ کے قریب ہے۔
۵-
شیخ طوسی نے روایت کی ہے کہ ناحیہ مقدسہ (اما م زمان(عج) کی جانب) سے امام العصرعليهالسلام کے وکیل شیخ کبیر ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید(قدس الله روحه) کے ذریعے سے یہ توقیع یعنی مکتوب آیا ہے۔
رجب کے مہینے میں یہ دعا ہرروزپڑھاکرو:
بِسْمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
اللّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعانِي جَمِيعِ مايَدْعُوكَ بِهِ وُلاةَ أَمْرِكَ المَأْمُونُونَ عَلى سِرِّكَ المُسْتَبْشِرُونَ بِأَمْرِكَ الواصِفُونَ لِقُدْرَتِكَ المُعْلِنُونَ لِعَظَمَتِكَ ، أَسْأَلُكَ بِما نَطَقَ فِيهِمْ مِنْ مَشِيَّتِكَ فَجَعَلْتَهُمْ مَعادِنَ لِكَلِماتِكَ وَأَرْكانا لِتَوْحِيدِكَ وَآياتِكَ وَمَقاماتِكَ الَّتِي لاتَعْطِيلَ لَها فِي كُلِّ مَكانٍ يَعْرِفُكَ بِها مَنْ عَرَفَكَ ، لافَرْقَ بَيْنَكَ وَبَيْنَها إِلاّ أَنَّهُمْ عِبادُكَ وَخَلْقُكَ فَتْقُها وَرَتْقُها بِيَدِكَ بَدْؤُها مِنْكَ وَعَوْدُها إِلَيْكَ ، أَعْضادٌ وَأَشْهادٌ وَمُناةٌ وَأَذْوادٌ وَحَفَظَةٌ وَرُوَّادٌ فَبِهِمْ مَلأتَ سَمائَكَ وَأَرْضَكَ حَتّى ظَهَرَ أَنْ لا إِلهَ إِلاّ أَنْتَ ؛ فَبِذلِكَ أَسْأَلُكَ وَبِمَواقِعِ العِزِّ مِنْ رَحْمَتِكَ وَبِمَقاماتِكَ وَعَلاماتِكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَأَنْ تَزِيدَنِي إِيْماناً وَتَثْبِيتاً ، يا باطِناً فِي ظُهُورِهِ وَظاهِراً فِي بُطُونِهِ وَمَكْنُونِهِ يا مُفَرِّقاً بَيْنَ النُّورِ وَالدَّيْجُورِ يا مَوْصُوفاً بِغَيْرِ كُنْهٍ وَمَعْرُوفاً بِغَيْرِ شِبْهٍ ، حادَّ كُلِّ مَحْدُودٍ وَشاهِدَ كُلِّ مَشْهُودٍ وَمُوجِدَ كُلِّ مَوْجُودٍ وَمُحْصِيَ كُلِّ مَعْدُودٍ وَفاقِدَ كُلِّ مَفْقُودٍ لَيْسَ دُونَكَ مِنْ مَعْبُودٍ أَهْلَ الكِبْرِياءِ وَالجُودِ ، يا مَنْ لايُكَيَّفُ بِكَيْفٍ وَلايُؤَيَّنُ بِأَيْنٍ يا مُحْتَجِباً عَنْ كُلِّ عَيْنٍ يا دَيْمُومُ يا قَيُّومُ وَعالِمَ كُلِّ مَعْلُومٍ ، صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَ 2 عَلى عِبادِكَ المُنْتَجَبِينَ وَبَشَرِكَ المُحْتَجِبِينَ وَمَلائِكَتِكَ المُقَرَّبِينَ وَالبُهْمِ الصَّافِّينَ الحافِّينَ ، وَبارِكْ لَنا فِي شَهْرِنا هذا المُرَجَّبِ المُكَرَّمِ وَما بَعْدَهُ مِنَ الاَشْهُرِ الحُرُمِ وَأَسْبِغْ عَلَيْنا فِيهِ النِّعَمَ وَأَجْزِلْ لَنا فِيهِ القِسَمَ ، وَأَبْرِزْ لَنا فِيهِ القَسَمَ بِإسْمِكَ الأعْظَمِ الأعْظَمِ الأَجَلِّ الأَكْرَمِ الَّذِي وَضَعْتَهُ عَلى النَّهارِ فَأَضاءَ وَعَلى اللَّيْلِ فَأَظْلَمَ ، وَاغْفِرْ لَنا ماتَعْلَمُ مِنَّا وَما 3 لا نَعْلَمُ وَاعْصِمْنا مِنَ الذُّنُوِب خَيْرَ العِصَمِ واكْفِنا كَوافِيَ قَدَرِكَ وَامْنُنْ عَلَيْنا بِحُسْنِ نَظَرِكَ وَلا تَكِلْنا إِلى غَيْرِكَ وَلا تَمْنَعْنا مِنْ خَيْرِكَ وَبارِكْ لَنا فِيما كَتَبْتَهُ لَنا مِنْ أَعْمارِنا وَأَصْلِحْ لَنا خَبِيئَةَ أَسْرارِنا وَأَعْطِنا مِنْكَ الاَمانَ وَاسْتَعْمِلْنا بِحُسْنِ الاِيمانِ وَبَلِّغْنا شَهْرَ الصِّيامِ وَما بَعْدَهُ مِنَ الاَيَّامِ وَالاَعْوامِ يا ذا الجَلالِ وَالاِكْرامِ(مصباح المتهجّد : 803.)
۶-
شیخ طوسی (قدس الله روحه)نے روایت کی ہے کہ ناحیہ مقدسہ سے شیخ ابوالقاسم(قدس الله روحه) کے ذریعے سے رجب کی دنوں میں پڑھنے کے لیے یہ دعا صادر ہوئی۔
اللّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِالمَولُودِينَ فِي رَجَبٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الثَّانِي وَابْنِهِ عَلِيٍّ بْنِ مُحَمَّدٍ المُنْتَجَبِ ، وَأّتَقَرَّبُ بِهما إِلَيْكَ خَيْرَ القُرَبِ يا مَنْ إِلَيْهِ المَعْرُوفُ طُلِبَ وَفِيما لَدَيْهِ رُغِبَ ، أَسْأَلُكَ سُؤالَ مُقْتَرِفٍ مُذْنِبٍ قَدْ أَوْبَقَتْهُ ذُنُوبُهُ وَأَوْثَقَتْهُ عُيُوبُهُ فَطَالَ عَلى الخَطايا دُؤُوبُهُ وَمِنَ الرَّزَايا خُطُوبُهُ ؛ يَسْأَلُكَ التَّوْبَةَ وَحُسْنَ الاَوْبَةِ وَالنُّزُوعَ عَنْ الحَوْبَةِ وَمِنَ النَّارِ فَكاكَ رَقَبَتِهِ وَالعَفْوَ عَمَّا فِي رِبْقَتِهِ ، فَأَنْتَ مَوْلايَ أَعْظَمُ أَمَلِهِ وَثِقَتِهِ. اللّهُمَّ وَأَسْأَلُكَ بِمَسائِلِكَ الشَّرِيفَةِ وَوَسائِلكَ المُنِيفَةِ أَنْ تَتَغَمَّدَنِي فِي هذا الشَّهْرِ بِرَحْمَةٍ مِنْكَ وَاسِعَةٍ وَنِعْمَةٍ وَازِعَهٍ وَنَفْسٍ بِما رَزَقْتَها قانِعَةٍ إِلى نُزُولِ الحافِرَةِ وَمَحَلِّ الآخرةِ وَما هِيَ إِلَيْهِ صائِرَةٌ( مصباح المتهجّد : 805)
زیارت رجبیہ
۷-
شیخ طوسی (قدس الله روحه)نے حضرت امام العصر (عج)کے نائب خاص ابو القاسم حسین بن روح سے روایت کی ہے کہ رجب کے مہینے میں آئمہ میں سے جس امام عليهالسلام کی ضریح مبارکہ پر جائے تو اس میں داخل ہوتے وقت یہ زیارت ماہ رجب پڑھے:
الحَمْدُ للهِ الَّذِي أَشْهَدَنا مَشْهَدَ أَوْلِيائِهِ فِي رَجَبٍ وَأَوْجَبَ عَلَيْنا مِنْ حَقِّهِمْ ما قَدْ وَجَبَ ، وَصَلَّى اللهُ عَلى مُحَمَّدٍ المُنْتَجَبِ وَعَلى أَوْصِيائِهِ الحُجُبِ ، اللّهُمَّ فَكَما أَشْهَدْتَنا مَشْهَدَهُمْ فَانْجِزْ لَنا مَوْعِدَهُمْ وَأَوْرِدْنا مَوْرِدَهُمْ غَيْرَ مُحَلَّئِينَ عَنْ وِردٍ فِي دارِ المُقامَةِ وَالخُلْدِ وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ ؛ إِنِّي قد قَصْدُتُكْم وَاعْتَمَدْتُكُمْ بَمَسْأَلَتِي وَحاجَتِي وَهِيَ فَكاكُ رَقَبَتِي مِنَ النَّار وَالمَقَرُّ مَعَكُمْ فِي دارِ القَرارِ مَعَ شِيعَتِكُمْ الاَبْرارِ ، وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ فنِعْمَ عُقْبى الدَّارِ أَنا سائِلُكُمْ وَآمِلُكُمْ فِيما إِلَيْكُمْ التَّفْوِيضُ وَعَلَيْكُمْ التَّعْوِيضُ ، فَبِكُمْ يُجْبَرُ المَهيضُ وَيُشْفى المَرِيضُ وَماتَزْدادُ الأَرْحامُ وَماتَغِيضُ. إِنِّي بِسِرِّكُمْ مُؤْمِنٌ 3، وَلِقَوْلِكُمْ مُسَلِّمٌ وَعَلى الله بِكُمْ مُقْسِمٌ فِي رَجْعِي بِحَوائِجِي وَقَضائِها وَإِمْضائِها وَإِنْجاحِها وَإِبْراحِها 4 وَبِشُؤُونِي لَدَيْكُمْ وَصَلاحِها، وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ سَلامَ مُوَدِّعٍ وَلَكُمْ حَوَائِجَهُ مُودِعٌ يَسْأَلُ الله إِلَيْكُمْ المَرْجِعَ وَسَعْيَهُ إِلَيْكُمْ غَيْرَ مُنْقَطِعٍ وَأَنْ يَرْجِعَنِي مِنْ حَضْرَتِكُمْ خَيْرَ مَرْجِعٍ إِلى جَنابٍ مُمْرِعٍ وَخَفْضِ مُوَسِّعٍ وَدَعَةٍ وَمَهَلٍ إِلى حِينِ الاَجَلِ وَخَيْرِ مَصِيرٍ وَمَحَلٍّ فِي النَّعِيمِ الاَزَلِ وَالعَيْشِ المُقْتَبَلِ وَدَوامِ الاُكُلِ وَشُرْبِ الرَّحِيقِ وَالسَّلْسَلِ وَعَلٍّ وَنَهلٍ لاسَأَمَ مِنْهُ وَلا مَلَلَ وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكاتُهُ ، وَتَحِيَّاتُهُ عَلَيْكُمْ حَتَّى العَوْدِ إِلى حَضْرَتِكُمْ وَالفَوْزِ فِي كَرَّتِكُمْ وَالحَشْرِ فِي زُمْرَتِكُمْ وَرَحْمَةُ الله وَبَرَكاتُهُ عَلَيْكُمْ وَصَلَواتُهُ وَتَحِيَّاتُهُ وَهُوَ حَسْبُنا وَنِعْمَ الوَكِيلُ
(مصباح المتهجّد : 821 - بحار الأنوار ( الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار ( عليهم السلام ) ) : 95 / 390 ، للعلامة الشيخ محمد باقر المجلسي- ضائل الأشهر الثلاثة: 24، للشيخ أبي جعفر محمد بن علي بن حسين بن بابويه القمي المعروف بالشيخ الصدوق،- ابن طاووس في الاقبال 3 / 211 ، فصل 23.- المصدر: مفاتيح الجنان للشيخ عباس القمي قدس سره.)
ماں کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عرض مترجم
ماں اس ہستی کا نام ہے جو زندگی کے تمام دکھوں اور مصیبتوں کو اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے۔ اپنی زندگی اپنے بچوں کی خوشیوں، شادمانیوں میں صَرف کرتی چلی آئی ہے اور جب تک یہ دنیا قائم و دائم ہے یہی رسم جاری رہے گا۔یوں تو دنیا میں ہر انسان چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، چاہے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو ماں ہر ایک کے لیئے قابلِ قدر ہے۔ مگر خاص طور پر ہماری مشرقی ماں تو ہوتی ہی وفا کی پُتلی ہے۔ جو جیتی ہی اپنے بچوں کیلئے ہے ۔ ویسے تو دنیا نے ماں کیلئے ایک خاص دن کا تعین کر دیا ہے( 1) چونکہ ہم حضورِ اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے امتی ہیں اور اسلام ہی ہمارا مکمل مذہب ہے اس لئے یہاں یہ ذکر ضرور کروں گا کہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں اللہ کی طرف سے ماں دنیا کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے۔ ماں تو ایک ایسا پھول ہے جو رہتی دنیا تک ساری کائنات کو مہکاتی رہے گی۔ اس لئے تو کہتے ہیں کہ ماں کا وجود ہی ہمارے لئے باعثِ آرام و راحت، چین و سکون، مہر و محبت، صبر و رضا اور خلوص و وفا کی روشن دلیل ہے۔(2 )
مقالہ حاضر ایک فارسی مقالہ کا ترجمہ ہے جسے آیت اللہ اسماعیلی نے تحریر کیا تھا۔ استاد محترم قبلہ حجۃ الاسلام شیخ غلام قاسم تسنیمی کے زیر نظر میں نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اصل مقالہ کی نسبت ترجمہ میں چند باتوں کا خیال رکھا:- 1- کسی بھی آیت، حدیث یا عربی عبارت کو متن میں ذکر نہیں کیا بلکہ انہیں پاورقی میں درج کیا تاکہ اہل تحقیق حضرات کے لئے آسان ہو جائے۔ 2- حوالہ دیتے وقت قدیمی کتابوں کو زیادہ ترجیح دیا۔ 3- بہت سی احادیث جو اصل مقالہ میں واضح نہیں کیا تھا انہیں واضح کر کے بمعہ حوالہ ذکر کیا۔ 4- آیتوں کا ترجمہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ کی بلاغ القرآن سے لیا ہے۔5۔ آخر میں کتابنامہ کو اضافہ کیا تاکہ اہل تحقیق کے لئے ہر مشکل کا سد باب ہو جائے۔
قم حرم اہل بیت علیہم السلام، ربیع الثانی 1437 ہ ق۔
مقدمہ مولف
ماں باپ اپنی اولاد کے لئے خدا کے فضل و کرم کا ذریعہ ہیں، اور خدا کی رضایت ان کی رضایت میں ہے؛ اسی لئے خدا نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا وہاں والدین کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا پس ہمیں بھی چاہیئے کہ ان کے حقوق کو پہچان لیں اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ البتہ ان کے حقوق کو ادا کرنا اس بات پر منحصر ہے کہ پہلے ہم ان کے حقوق کو جان لیں۔
حقوق کی تعریف
حقوق حق کی جمع ہے اور حق "حقق" کے مادہ سے نکلا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ہر کام یا بات حقیقت میں جس انداز میں ہو جسطرح واجب ہو جس وقت واجب ہو اسے اسی طرح انجام دینا ہے۔ کتاب مختار الصحاح میں آیا ہے کہ حق الشئ ای وجب کسی چیز کا حق اس کا واجب ہونا ہے۔
حقوق والدین کی اہمیت
قرآن کریم کی متعدد آیات میں توحید کے فورا بعد والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم آِیا ہے ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں حقوق والدین کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ والدین کا احترام کرنا، انبیاء علیہم السلام کی صفت ہے۔جیسے قرآن کریم میں خدا حضرت یحیٰ علیہ السلام کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتاہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے اور سرکش و نافرمان نہیں تھے( 3) ۔اور حضرت عیسی علیہ السلام کی زبانی نقل ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ خدا نے مجھے اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے(4 )۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی نے پوچھا کہ آدمی پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا والدین کا (5 )۔
ماں کون ہے؟
ماں کا لفظ اپنے عمومی اور بنیادی مفہوم میں اردو میں ایک ایسی ہستی کے لیے ادا کیا جاتا ہے کہ جس سے کسی بچے کی ولادت ہوئی ہو یعنی بچے کے والدین میں سے مونث رکن کو ماں کہا جاتا ہے۔ انسانی نسل کو آگے بڑھانے کے لئے عورت اور مرد کا جنسی اختلاط لازمی ہے۔ معاشرے میں اس قسم کے اختلاط کی قانونی شکل کو شادی کا نام دیا جاتا ہے، جس کی تفصیل تقریباًً تمام مذاہب میں موجود ہے۔ اس جنسی ملاپ کے دوران ماں ایک بیضۂ مخصبہ کا حمل اٹھاتی ہے جس کو ابتدا میں جنین اور پھر نو ہفتے کے بعد سے حمیل کہا جاتا ہے۔ حمل اٹھانے کا مقام جہاں حمیل اپنی پیدائش یا ولادت تک رہتا ہے اسے رحم کہتے ہیں ، پیدائش کے بعد ماں کے پستان میں دودھ تخلیق پاتا ہے جسے وہ اپنے بچے کو غذا فراہم کرنے کے لیے پلاتی ہے اس عمل کو رضاع کہا جاتا ہے۔ وہ عورت اور شریک مرد بچے کے حیاتیاتی اور معاشرتی باپ اور ماں کہلائے جاتے ہیں۔ ماں باپ کے جوڑے کو والدین بھی کہا جاتا ہے۔
وجہ تسمیہ
ماں کے لیے دیگر الفاظ ؛ اماں ، امی ، ممی ، ماما اور مادر وغیرہ کے آتے ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا لفظ دنیا کی متعدد زبانوں میں خاصا یکسانیت رکھنے والا کلمہ ہے، اور اس کی منطقی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ماں کے لیے اختیار کیۓ جانے والے الفاظ کی اصل الکلمہ ایک کائناتی حیثیت کی حامل ہے اور اسے دنیا کی متعدد زبانوں میں ، اس دنیا میں آنے کے بعد انسان کے منہ سے ادا ہونے والی چند ابتدائی آوازوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ جب بچہ رونے اور چلانے کی آوازوں کی حدود توڑ کر کسی مخصوص قسم کی آواز نکالنے کے قابل ہوتا ہے اور بولنا سکھتا ہے تو عام طور پر وہ اُم اُم / ما ما / مم مم / مما مما (پا پا) وغیرہ جیسی سادہ آوازیں نکالتا ہے اور محبت اور پیار کے جذبے سے سرشار والدین نے ان ابتدائی آوازوں کو اپنی جانب رجوع کر لیا جس سے ماں کے لیے ایسی آوازوں کا انتخاب ہوا کہ جو نسبتاً نرم سی ہوتی ہیں یعنی میم سے ابتدا کرنے والی اور باپ کے لیے عموماً پے سے شروع ہونے والی آوازیں دنیا کی متعدد زبانوں میں پائی جاتی ہیں۔
ماں کو عربی زبان میں اُم کہتے ہیں، اُم قرآن مجید میں 84 مرتبہ آیا ہے ، اس کی جمع اُمھات ہے ، یہ لفظ قرآن مجید میں گیارہ مرتبہ آیا ہے ، صاحب محیط نے کہا ہے کہ لفظ اُم جامد ہے اور بچہ کی اس آواز سے مشتق ہے جب وہ بولنا سیکھتا ہے تو آغاز میں اُم اُم وغیرہ کہتا ہے اس سے اس کے اولین معنی ماں کے ہوگئے ، ویسے اُم کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کی اصل ، اُم حقیقت میں یہ تین حرف ہیں(ا+م+م ) یہ لفظ حقیقی ماںپر بولا جاتا ہے اور بعید ماں پہ بھی ۔ بعید ماں سے مراد نانی، دادی وغیرہ یہی وجہ ہے کہ حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو امنا ( ہماری ماں) کہا جاتا ہے ۔
خلیل نحوی کا قول ہے ۔ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات سما جائیںوہ ان کی اُم کہلاتی ہے ۔ جیسے لوح محفوظ کو اُم الکتاب کہا گیا کیونکہ وہ تمام علوم کا منبع ہے ، مکہ مکرمہ کو اُم القری کہتے ہیں کیونکہ وہ خطہ عرب کا مرکز ہے ، کہکشاں کو اُم النجوم کہتے ہیں کیونکہ اس میں بہت سے ستارے سمائے ہوتے ہیں ، جو بہت مہمانوں کو جمع کرے اُسے اُم الضیاف کہتے ہیں ، سالار لشکر کو اُم الجیش کہتے ہیں ۔ ابن فارس نے کہا ہے کہ اُم کے چار معنی ہیں :- (بنیاد و اصل) (2) مرجع (6) جماعت (7) دین( 8)
ماں کا حق مقدم ہے
والدین میں سے ماں کا حق مقدم ہے یہاں چند احادیث کی طرف اشارہ ہوگا جن سے والدہ کے حق کا والد کے حق پر مقدم ہونا معلوم ہو جائے گا:
1- ایک آدمی رسول خدا کےپاس آیا اور عرض کیا کہ کون زیادہ حقدار ہے جس کے ساتھ میں نیک سلوک کروں؟ تو آپ نے فرمایا : تیری ماں۔ اس نے دوبارہ پوچھا کہ ماں کے بعد؟ تو آپ ص نے جواب دیا تیری ماں۔ اس نے پھر پوچھا اس کےبعد؟ پھر بھی آپ ص نے جواب دیا کہ تیری ماں۔ اس نے وہی سوال پھر تکرار کیا تو آپ ص نے فرمایا تیرا والد(9)۔
2- اسی طرح ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور والدین سے نیکی کرنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو، اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو، اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو ۔ اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو، اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو، اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو، رسول اللہ نے باپ سے پہلے ماں کا ذکر کیا( 10)۔
ان احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ماں کے ساتھ نیکی کرنا باپ سے پہلے ہےاور رسول اللہ کا ان دو نیکیوں کو تکرار کرنا ان کی اہمیت کی خاطر ہے۔
3- ایک اور حدیث میں امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ حضرت موسی بن عمران علیہ السلام نے خدا سے التجاء کی کہ پالنے والے ! مجھے وصیت (نصیحت) کیجیئے تو خدا نے فرمایا میں تجھے میرے بارے میں وصیت کرتا ہوں ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے وہی سوال پھر دہرایا خدا نے دوبارہ وہی وصیت کی، حضرت موسی علیہ السلام نے پھر سوال دہرایا تو خدا نے جواب میں فرمایا میں تجھے تیری ماں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں، حضرت موسی نے پھر التجاء کی تو خدا نے فرمایا: میں تجھے تیری ماں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں، میں تجھے باپ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں(11 )۔
خدا نے حضرت موسی علیہ السلام کو دومرتبہ اپنی ذات کے بارے میں سفارش کی ، دو مرتبہ والدہ کے بارے میں اور ایک مرتبہ والد کے بارے میں ۔ اس حدیث سے کئی نکتے ہماری سمجھ میں آتے ہیں:
• خدا وند عالم باپ سے پہلے ماں کی سفارش کرتاہے۔
• خدا نے اپنے برابر ماں کی سفارش کی ہے۔
• خدا وند عالم حضرت موسی علیہ السلام کو جو نبی اور معصوم ہیں، ماں کے بارے میں سفارش کر رہا ہے۔ اور اسے دو بار دہراتا ہے یہ حق ممتا کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔
4- پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: ماں کا حق باپ کے دوگنا ہے(12 )۔
5- علی ابن الحسین علیہما السلام فرماتے ہیں: حقوق میں سے جس ہستی کا حق تم پر سب سے زیادہ ہے وہ تیری ماں ہے اور اس کے بعد تیرا باپ۔(13 )
6- اسی طرح روایت میں آیا ہے کہ ایک آدمی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! والدین میں سے کس کا حق بڑا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسی کا جس نے تجھے اپنے دونوں پہلوؤں( 14) کے درمیان اٹھائے رکھا ہے( 15)۔
7- اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: خدا تم لوگوں کو تمہاری ماؤں کے بارے میں سفارش کرتا ہے اور اس جملہ کو تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا کہ اس کے بعد رشتہ داری میں جو نزدیک سے نزدیک تر ہے اس کی سفارش کرتا ہے۔( 16)
8- فقہ الرضا علیہ السلام میں امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: جان لو کہ ماں کا حق باپ سے زیادہ واجب اور لازم حقوق میں سے ہے( 17)۔ یہ بھی اہمیت ممتا کو اجاگر کرنے کے لئے ہے۔
9- خدا نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرمایا : آگاہ ہوجاؤ کہ ماں کی خوشنودی میری خوشنودی اور ماں کی ناراضگی میری ناراضگی ہے۔( 18)
حق مادر کی ادائیگی سے ناتوانی
امام سجاد علیہ السلام رسالہ حقوق میں ارشاد فرماتے ہیں: ماں کا حق یہ ہے کہ تم اسے پہچانو کہ وہ کون ہے اور یہ جان لوکہ وہی اپنے شکم میں تمہارا بوجھ اٹھائے رہی اور اپنے تمام احساسات اور قوتوں کے ساتھ تمہاری حفاظت کرتی رہی۔ تمہیں بھوک و پیاس سے بچانے کے لئے خود بھوک و پیاس برداشت کرتی رہی۔ خود برہنہ تک رہی مگر تم کو لباس پہنایا۔ خود دھوپ میں رہی مگر تم کو سایے میں رکھا۔ تمہارے آرام کے ٖلئے وہ جاگتی رہی مگر تمہیں سلاتی رہی۔ تمہارے لئے اس نے گرمی ، سردی، بھوک، پیاس اور طرح طرح کی تکلیفیں جھیلیں تاکہ تم اس کےفرزند سعید بنو۔ اس کے احسانات اتنے ہیں کہ ممکن نہیں کہ تم بغیر اللہ کی مدد کے اس کے احسانات کا بدلہ دے سکو یا اس کا شکریہ ادا کر سکو( 19)۔
روایات میں آیا ہے کہ ایک دن کسی نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ ماں کا حق کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا تم کھبی بھی اس کا حق ادا نہیں کرسکتے ہو۔ اگر فرزند صحرا کی ریت کے ذرات، بارش کے قطرات کے برابر بھی والدہ کے حق کو ادا کرنے کی کوشش کرے تو بھی اس ایک دن کے برابر نہیں ہو جائے گا جس دن ماں نے اس کو اپنی شکم میں اٹھائے رکھا ہے۔( 20 )
اسی طرح ایک اور روایت میں مروی ہے کہ کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہا کہ میری ماں بوڑھی ہو چکی ہے اور وہ اس وقت میرے پاس ہے میں اسے اپنے کاندھوں پہ اٹھاتا ہوں ، اپنےکسب و مزدوری سے اسے کھلاتا ہوں اپنے ہاتھوں سے اس کے منہ ہاتھ صاف کرتا ہوں، ان تمام کے باوجود بھی شرمندگی سے میں اس سے منہ چھپاتا ہوں۔ کیا میں نے اس کا حق ادا کیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں ( تم نے پھر بھی اس کا حق ادا نہیں کیا ہے، اور تم اس کا حق ادا کرو تو بھی کیسے کرو گےاس نے تمہیں اپنے شکم میں اٹھائے رکھا ہے) اس لئے کہ اس کا پیٹ تمہاری جگہ تھا اس کے پستان تمہاری پیاس بجھانے کا سبب تھ ۔۔۔۔۔۔ وہ یہ سب کرتی تھی اور ساتھ یہ بھی تمنا کرتی تھی کہ تم زندہ رہو اور تم اس کے ساتھ یہ سب کر رہے ہو اور تیری خواہش ہے کہ وہ مر جائے۔( 21)
حقوق والدین
قرآن و حدیث میں ماں اور باپ کے حقوق ایک ساتھ ذکر ہوئے ہیں ہم بھی یہاں پر اجمالا بعض مشترک حقوق اور بعض ماں کے ساتھ مخصوص حقوق کو بیان کریں گے:
1- نیک رفتاری
والدین اور مخصوصا ماں کو اپنی دنیوی امور کے سلسلے میں رنج و مشکلات میں نہیں ڈالنا چاہیئے۔اگر چہ والدین کافر ہی کیوں نہ ہوں۔جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ ان دونوں کے ساتھ دنیا میں اچھا برتاؤ کریں(22 )۔
2- دعا اور استغفار
اولاد پر ماں باپ کے حقوق میں سے ایک اور حق ان کے لئے دعا کرنا ہے؛ جیسا کہ مستحب ہے کہ ان کے لئے یہ دعا پڑھی جائے قرآن کریم سورہ مبارکہ اسراء آئی ہے کہ وَ قُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيراً (23 ) اور دعا کرو: پروردگارا! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے) پالا تھا۔
آیت اللہ جوادی آملی اس آیت کی شرح میں فرماتے ہیں کہ: اس آیت میں لفظ "ربیانی" آیا ہےیعنی مجھے بچپنے میں پالا(24 ) اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین پر ضروری ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت پر توجہ دیں اس لئے کہ وہ جتنا اولاد کی پرورش کریں گے اور ان کی تربیت کریں گے اسی حساب سے اپنے اولاد پر حق رکھیں گے۔
3- والدین کا شکریہ ادا کرنا
خدا وند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے کہ: میرا شکر بجا لاؤ اور اپنے والدین کا بھی(شکر ادا کرو) ( 25)۔
اس آیت کی وضاحت میں ایک بات کی طرف اشارہ ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا کی ذات وہ ہستی ہے جس نے ہمیں نعمتیں دی ہیں اور عقل یہ کہتی ہے کہ نعمت دینے والے منعم کا شکر بجالانا واجب ہے اور خدا نے جو نعمتیں انسان کو دی ہیں ان میں سے ایک نعمت والدین ہیں۔ والدین کے ذریعے خدا ہم پر احسان کرتا ہے، انسان کا وجود میں آنا ہے ان دونوں پر منحصر ہے۔پس والدین نعمت خدا ہیں اور منعم بھی ؛ اسی لئے پہلے ضروری ہے کہ خدا کا شکر ادا کریں کہ اس نے والدین کی نعمت سے ہمیں نوازا اور پھر والدین کا شکر ادا کریں کہ وہ سبب نزول نعمت ہیں ہماری خاطر یہ قسم قسم کی مشکلات جھیلتے ہیں۔ اب اولاد کی ذمہ داری ہے کہ ان مشکلات کے بدلے میں ان کے ساتھ نیکی کریں۔ ان نعمتوں کاخراج تحسین پیش کرنے کے لئے والدین کا شکریہ ادا کریں۔ خدا نے ان کے شکریہ ادا کرنے کو اپنے شکریہ ادا کرنے کے ساتھ قراردیا۔ ہاں شکریہ ادا کرنا صرف لقلقہ زبان سے نہیں ہے بلکہ دل میں احترام، عمل سے نیکی اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی خاطر قدم اٹھانا ہے۔ ایک شاعر نے اپنی ماں سے خطاب کر کے کیا خوب کہا ہے:
جہاں جہاں ہے میری دشمنی سبب میں ہوں *** جہاں جہاں ہے میرا احترام تم سے ہے( 26)۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اولاد پر والدین کے لئے تین چیزیں واجب ہیں:1- ہر حال میں ان کا شکر ادا کرنا۔ 2- والدین کی اطاعت کرنا معصیت کے علاوہ باقی تمام کاموں میں چاہے وہ کسی چیز کے کرنے کا حکم دیں یا کسی چیز سے بچنے کا حکم دیں۔ 3- ان کے سامنے اور پیٹھ پیچھے ان کی بھلائی چاہنا۔( 27)
3- ادب کی رعایت اور گلہ شکوہ سے پرہیز
قرآن کریم میں خدا ارشاد فرماتا ہے: انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا، اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو۔
اس آیت میں لفظ "اخفض" کے ساتھ لفظ "ذل" آیا ہے دونوں کا معنی والدین کے ساتھ نرمی اور تواضع سے پیش آنے کے ہیں، دو ہم معنی لفظ کا تکرار اس کام کی تاکید پر دلالت کرتا ہے۔
والدین کے ساتھ نرمی اور تواضع محبت قلبی اور رحمت کی رو سے ہونہ کہ جبر و اکراہ سے۔
والدین کو "اف" تک کہنے سے پرہیز کے سلسلے میں امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: کم سے کم عاق اف کہنا ہے اگر خدا کے علم میں اس سے بھی کم تر اور آسان لفظ ہوتا تو اس سے بھی نہی فرماتے۔ پس چھوٹا سا کام یا رفتار بھی اگر ان کی اذیت کا باعث بنے تو اس سے بچنا چاہیئے۔
اسی طرح ایک اور روایت میں آیا ہے: اگر والدین تمہیں دکھ پہنچائیں تو بھی انہیں اف نہ کہنا اور نہ ہی انہیں جھڑکنا ، اگر وہ تمہیں ماریں تو کہنا کہ "خدا تمہیں بخش دے" یہی سب سے اچھی بات ہے کہ خدا قرآن میں اس کا حکم دے رہا ہے، اور والدین کی طرف مہربانی اور رحمت کے سوا نظر نہ کریں اپنی آواز کو ان کی آواز سے اونچا نہ کریں اپنے ہاتھوں کو ان کے ہاتھوں سے اونچا نہ کریں اپنے پاؤں(قدموں) کو ان کے پاؤں سے آگے نہ کریں ( 28 )۔ہاتھوں کو اونچا کرنا ایک کنایہ ہے کہ عرب جب بات کرتے تھے ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے تھے۔ جیسے اس دور میں بھی بعض لوگوں کی عادت ہے ہے بات کرتے وقت مسلسل اپنے ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے ہیں۔
4- والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا
قرآن کریم میں کئی مقامات پر والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید ہوئی ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد رب العزت ہے: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین پر احسان کرو (29 )۔ اس آیت مبارکہ میں تین باتوں کی طرف اشارہ ہوا ہے:
1- والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا خدا کی عبادت اور بندگی کے ساتھ ہم ردیف ہے۔
2- والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم صرف پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دین یعنی دین اسلام میں نہیں ہے بلکہ باقی ادیان میں بھی تھا۔
3- والدین کے ساتھ احسان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے خدا نے بنی اسرائیل سے اس چیز کا عہد لیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم باربار کیوں آیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو والدین کے حقوق کی اہمیت کے لئے ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ بڑھاپے میں ماں باپ کی دیکھ بھال کرنا بڑا کٹھن مرحلہ ہے اسی لئے قرآن کریم نے بار بار "اور اپنے والدین کے ساتھ نیکی کریں"کا جملہ دہرایا ہے۔
ایک دن ابو ولاد حناط نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے "و بالوالدین احسانا" کے بارے میں پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا احسان یہ ہے کہ ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ، اور ان کو دوست رکھو اور ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رہن سہن کرنے سے دریغ نہ کرو اور انہیں مجبور نہ کرو کہ جس چیز کی ضرورت ہو اسے تم سے مانگیں اگر چہ وہ دونوں بے نیاز ہی کیوں نہ ہوں۔( 30)
خواجہ نصیر الدین طوسی والدین اور اولاد کا ایک دوسرے پر احسان کرنے سے متعلق فرماتے ہیں:
والدین کا اولاد سے محبت کرنا طبیعی اور فطری ہے اور اولاد کا والدین سے محبت کرنا ارادہ اور اختیار سے ہے اسی لئے تمام ادیان میں اولاد کے لئے حکم ہے کہ وہ والدین کے ساتھ احسان کریں۔ والدین کے حقوق میں ماں اور باپ میں فرق ہے والد کے حقوق روحانی اور معنوی ہیں اس لئے رشد فکری کے بعد اس کا مرحلہ آتا ہے لیکن ماں کے حقوق جسمانی اور عاطفی ہے اس لئے اولاد بچپن میں ہی اس کو احساس کرتا ہے اور ماں کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے۔اس لئے باپ کے حقوق اطاعت کرنے، اس کے لئے دعا کرنے اور اس کی امر و نہی کو قبول کرنےسے ادا ہو جاتے ہیں لیکن ماں کے حقوق ادا کرنے کے لئے مال کی قربانی دینی پڑتی ہے اور ان کاموں کو انجام دینا پڑتا ہے جن سے اس کے جسم کو آرامش پہنچے(31 )۔
5- والدین کے ساتھ نیکی زندگی میں اور مرنے کے بعد
نیکی یا بر َ یہ ہے کہ جس چیز کو ہم چاہتے ہیں وہی دے دیں اس لئے کہ ابرار کا مقام یہی ہے یعنی وہ اپنی محبوب شئ کو دے دیتے ہیں۔ امام صادق علیہ السلام والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں: کون سی چیز ایسی ہے جو تمہارے اور والدین کے ساتھ ان کی زندگی اور مرنے کے بعد احسان کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنی ہو؛ والدین کے لئے نماز پڑھیں، صدقہ دیں، حج بجا لائیں اور روزہ رکھیں اور اسی طرح کی نیکیاں بجا لائیں اس لئے کہ اس کام سے خدا تمہیں نیک اجر دے گا اسی طرح روایت میں آیا ہے کہ کوئی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ مجھے نصیحت کیجیئے تو آپ نے فرمایا: والدین کی اطاعت کرو ان کے ساتھ نیکی کرو چاہے وہ دونوں زندہ ہوں یا مر چکے ہوں۔ اگر وہ دونوں تجھے حکم دیں کہ اپنے مال اور گھر سے ہاتھ اٹھاو تو اسے بھی انجام دے دوچونکہ یہ کام بھی ایمان کا حصہ ہے( 32)۔
علامہ مجلسی ان والدین کے ساتھ احسان کرنے کے بارے میں جو زندہ نہیں ہیں ۔کہتے ہیں کہ: والدین کے لئے استغفار کرنے، ان کے قرضوں کو ادا کرنے، ان کی عبادتوں کی قضا بجالانے، ان کے لئے نیک کام کرنے، صدقہ دینے اور ہر ثواب والے کام کرنے کے ذریعے ان کے ساتھ احسان کریں( 33)۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: والدین کے ساتھ نیکی کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بندہ نے اپنے معبود کی معرفت حاصل کی ہے؛ اس لئے کہ کوئی بھی عبادت والدین کے ساتھ نیکی کرنے سے زیادہ خدا کو جلدی راضی نہیں کر سکتی ہے؛ چونکہ والدین کے حقوق، اللہ کے حقوق سے مشتق ہوئے ہیں۔(34 )
والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے اثرات
والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بہت زیادہ اثرات ہیں:
1- والدین کے ساتھ نیکی کرنے سے انسان کی اپنی اولاد اس سے نیکی کرے گی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرو کہ تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ نیکی کرے ۔( 35)
2- عمر میں برکت: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: جو کوئی اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرے گا اللہ اس کی عمر میں برکت دے گا( 36 )۔
3- احتضار کے وقت سکرات موت میں آسانی: امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو یہ چاہے کہ خدا اس کی سکرات الموت کو آسان کرے تو اس کو چاہیئے کہ صلہ ارحام کریں اور اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرے، اسی طرح خدا اس پر سکرات الموت کو آسان کرے گا۔( 37)
شہید اول اپنی کتاب "قواعد" ( 38) میں حقوق والدین میں سےبعض کو یوں بیان کرتے ہیں:1- مباح سفر یہاں تک کہ مستحب سفر والدین کی اذن کے بغیر حرام ہے۔ 2- ان کی اطاعت کرنا ہر کام میں واجب ہے اگر چہ وہ کام مشکوک ہی کیوں نہ ہو، جب تک گناہ کا کام نہ ہو۔ 3- اگر نماز کا وقت آ پہنچا ہو اور والدین کسی کام کا حکم دیں تو پہلے وہ کام انجام دیں اور بعد میں نماز پڑھیں( 39)۔ 4- والدین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی اولاد کو جہاد کفائی (یعنی وہ جہاد جسے اگر بعض لوگ انجام دیں تو دوسروں سے ساقط ہو جاتی ہے) سے روکیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: مرد کے لئے سزاوار نہیں کہ وہ جہاد کے لئے نکلے جب کہ اس کے لئے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک ہو مگر پہلے ان سے اذن لے( 40) ۔ علامہ حلی فرماتے ہیں : اگر کسی کے مسلمان والدین ہوں تو ان کی اذن کے بغیر اس پر جہاد نہیں ہے( 41)۔
والدین پر انفاق
اسی طرح اگر والدین استطاعت نہ رکھتے ہوں تو ان کا نفقہ اولاد پر واجب ہے اور خدا کی راہ میں انفاق کئے جانے والے نفقوں میں سے یہ سب سے زیادہ با فضیلت نفقہ ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: کیا تم لوگ جانتے ہیں کہ راہ خدا میں سب سے افضل نفقہ کون سا ہے؟ سب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ اس وقت آپ ص نے فرمایا کہ سب سے افضل نفقہ اولاد کا اپنے والدین پرکیا جانے والا نفقہ ہے( 42)۔
عاق والدین
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: حقوق والدین کا پامال کرنا ، عاق ہونے والے اسباب میں سے ایک ہے(43 ) ۔ محقق خوانساری اس حدیث کی وضاحت میں رقمطراز ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین سے عاق ہونا صرف یہ نہیں کہ ان کے ساتھ برا سلوک کیا جائے اور انہیں اذیت پہنچائی جائے بلکہ ان کے حقوق ادا نہ کرنے، ان کی اطاعت نہ کرنے جیسی حرکتیں بھی عاق ہونے کا باعث بن سکتی ہیں اور اس کا انجام بہت برا ہے( 44)۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ماں سے عاق ہونا حرام ہے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ماں سے عاق ہونے سے نہی فرمایا ہے( 45 )۔ آیت اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں : والدین کا عاق ہونا گناہ کبیرہ ہے۔ بیوی بچوں کا عاق ہونا حرام نہیں ہے بلکہ والدین کا عاق ہونا حرام ہے۔ پس ہمیں چاہیئے کہ ان کاموں سے بچیں جن کی وجہ سے عاق ہو جاتے ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: عاق والدین سے بچیں اس لئے کہ جنت کی خوشبو ایک ہزار سال راستے کے فاصلے سے آتی ہے لیکن کبھی بھی والدین کاعاق شدہ اسے نہیں سونگھ سکتا ہے۔(46 )
عاق ہونے والے عوامل
والدین کی طرف ٹیڑی آنکھوں سے دیکھنا عاق ہونے والے اسباب میں سے ایک ہے۔امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں انسان کا اپنے والدین کی طرف ٹیڑی آنکھوں سے دیکھنا عاق ہونے کا باعث بنتا ہے( 47)۔ اگر چہ ماں باپ اپنی اولاد پر ظلم کرتے ہوں پھربھی اولاد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے ۔ اور والدین کے عاق ہونے کا نتیجہ، نماز کا قبول نہ ہونا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: جو کوئی اپنے والدین کی طرف نفرت سے دیکھے جب کہ والدین نے اس پر ظلم کیا ہو تو بھی اس کی نماز قبول نہیں ہو گی(48 )۔
اسی طرح ہمیں معلوم ہونا چاہے کہ ہوسکتا ہے کوئی والدین کی زندگی میں ان کو راضی کرنے میں کامیاب رہے لیکن مرنے کے بعد ان کے حقوق کو ادانہ کرنے کی باعث عاق ہو جائے۔ اور اس کے برعکس کوئی ان کی زندگی میں تو عاق ہوجائے لیکن مرنے کے بعد ان کے قرضوں کو ادا کرنےاور ان کے لئے نیک کام کرنے کی وجہ سے ان کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
ان باتوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ والدین خاص کر ماں کے حقوق واجب حقوق میں سے ہیں اور آیات وروایات میں اس کی بہت زیادہ اہمیت وارد ہوئی ہے اور اس کی بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے۔
(1 ) ایران میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت کے دن کو ماں سے مخصوص کیا گیا ہے اور اسے یوم مادر کہا جاتا ہے، اس دن وہ اولاد بھی جو سال بھر اپنی ماں کی ملاقات کو نہ گئی ہو اس سے ملنے جاتے ہیں بیٹے بیٹیاں اپنی ماں کے لئے خصوصی تحفہ تحائف کا بندوبست کرتے ہیں۔ (مترجم)
(2 ) محمد جاوید اقبال صدیقی کی تحریر سے اقتباس۔ http://www.geourdu.com/columns-and-
( 3) سورہ مریم : 14۔
(4 ) سورہ مریم : 32
( 5) عن ابی جعفر ع قال" جاءت امراة الی النبی ص ... فقالت: یا رسول اللّہ من اعظم حقا علی الرجل قال: والداہ، (کاشانی، فیض، محمد محسن ابن شاہ مرتضی، الوافی الوافی؛ ج22، ص: 773)۔
(6 ) اردو ویکیپیڈیا، لفظ "ماں"۔
( 7) وَ جَاءَ فِی الْحَدِیثِ عَنْهُ ص أَنَّهُ قَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صِحَابَتِی قَالَ أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمُّكَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أَبُوكَ (احسایی، ابن ابی جمہور، محمد بن علی، عوالی اللئالی العزیزیة، ج1، ص: 444 باب اول مسلک الثالث، حدیث نمبر 165۔)
(8 ) عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ وَ سَأَلَ النَّبِيَّ ص عَنْ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ فَقَالَ ابْرَرْ أُمَّكَ ابْرَرْ أُمَّكَ ابْرَرْ أُمَّكَ ابْرَرْ أَبَاكَ ابْرَرْ أَبَاكَ ابْرَرْ أَبَاكَ وَ بَدَأَ بِالْأُمِّ قَبْلَ الْأَبِ. (کلینی، ابو جعفر، محمد بن یعقوب، الکافی، ج2، ص: 162)۔
( 9) عَنِ الْبَاقِرِ ع أَنَّهُ قَالَ: قَالَ مُوسَی بْنُ عِمْرَانَ ع يَا رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُوصِیكَ بِی قَالَ فَقَالَ رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُصِیكَ بِی ثَلَاثاً قَالَ يَا رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُوصِیكَ بِأُمِّكَ قَالَ رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُوصِیكَ بِأُمِّک قَالَ رَبِّ أَوْصِنِی قَالَ أُوصِیكَ بِأَبِیكَ قَالَ فَكَانَ يُقَالُ لِأَجْلِ ذَلِكَ أَنَّ لِلْأُمِّ ثُلُثَيِ الْبِرِّ وَ لِلْأَبِ الثُّلُثَ (نوری، محدث، میرزا حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج15، ص 181)۔
(10 ) خوانساری، جمالالدین محمد. شرح غررالحکم و دررالکلم. تہران: دانشگاہ تہران، 1373ج۔
( 11) وَ أَوْجَبُهَا عَلَيْكَ حَقُ أُمِّكَ ثُمَ حَقُّ أَبِیكَ (ابن بابویه، محمد بن علی، الخصال، ج2، ص565)۔
( 12) یعنی ماں کا جس نے تجهے نو مهینه اپنے پیٹ میں رکها اور تمام مشکلات کے باوجود تیری حفاظت کی۔
( 13) رُوِيَ: أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ ص يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْوَالِدَيْنِ أَعْظَمُ قَالَ الَّتِی حَمَلَتْهُ بَيْنَ الْجَنْبَيْن (نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج15 ؛ ص182)۔
( 14) انّ اللَّه تعالی یوصیکم بامّہاتکم ثلاثا، انّ اللَّه تعالی یوصیکم بآبائکم مرّتین انّ اللَّہ تعالی یوصیکم بالاقرب فالاقرب (پاینده، ابو القاسم، نہج الفصاحة (مجموعه کلمات قصار حضرت رسول صلی الله علیه و آله)، ص 312، حدیث نمبر 778)۔
(15 ) و اعلم ان حق الام الزم الحقوق و اوجبها (منسوب به امام رضا، علی بن موسی علیهما السلام، الفقه - فقه الرضا، ص 334)۔
(16 ) یا موسی الا انّ رضاہا رضای و سخطہا سخطی (کبیر مدنی، سید علیخان بن احمد، ریاض السالکین فی شرح صحیفة سید الساجدین، ج 7، ص51)۔
( 17) حریری، محمد یوسف، صدائے سجاد؛ ترجمہ سید حسن امداد، ص 115۔
(18 ) قِیلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُّ الْوَالِدِ قَالَ أَنْ تُطِیعَهُ مَا عَاشَ قِیلَ وَ مَا حَقُّ الْوَالِدَةِ فَقَالَ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لَوْ أَنَّهُ عَدَدَ رَمْلِ عَالِجٍ وَ قَطْرِ الْمَطَرِ أَيَّامَ الدُّنْيَا قَامَ بَيْنَ يَدَيْهَا مَا عَدَلَ ذَلِكَ يَوْمَ حَمَلَتْهُ فِی بَطْنِهَا (ابن ابی جمہور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی العزیزیة فی الاحادیث الدینیة، ج1 ص 269)۔
(19 ) أَبُو الْقَاسِمِ الْكُوفِيُّ فِی كِتَابِ الْأَخْلَاقِ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِرَسُولِ اللَّهِ ص إِنَّ وَالِدَتِی بَلَغَهَا الْكِبَرُ وَ هِيَ عِنْدِی الْآنَ أَحْمِلُهَا عَلَی ظَهْرِی وَ أُطْعِمُهَا مِنْ كَسْبِی وَ أُمِیطُ عَنْهَا الْأَذَىَ بِيَدِی وَ أَصْرِفُ عَنْهَا مَعَ ذَلِكَ وَجْهِيَ اسْتِحْيَاءً مِنْهَا وَ إِعْظَاماً لَهَا فَهَلْ كَافَأْتُهَا قَالَ لَا لِأَنَّ بَطْنَهَا كَانَ لَكَ وِعَاءً وَ ثَدْيَهَا كَانَ لَكَ سِقَاءً وَ قَدَمَهَا لَكَ حِذَاءً وَ يَدَهَا لَكَ وِقَاءً وَ حِجْرَهَا لَكَ حِوَاءً وَ كَانَتْ تَصْنَعُ ذَلِكَ لَكَ وَ هِيَ تَمَنَّی حَيَاتَكَ وَ أَنْتَ تَصْنَعُ هَذَا بِهَا وَ تُحِبُّ مَمَاتَهَا (نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ج15 ؛ ص180)۔
( 20)وَ صَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْيَا مَعْرُوفاً سورہ لقمان : 15۔
(21 ) سورہ اسراء: 24۔
یہ نہیں فرمایا "والدانی" مجھے پیدا کیا۔
(22 ) انِ اشْكُرْ لِی وَ لِوَالِدَيْكَ سورہ لقمان : 14۔
(23 ) وصی شاہ۔
( 24) وَ يَجِبُ لِلْوَالِدَيْنِ عَلَی الْوَلَدِ ثَلَاثَةُ أَشْيَاءَ شُكْرُهُمَا عَلَی كُلِّ حَالٍ وَ طَاعَتُهُمَا فِیمَا يَأْمُرَانِهِ وَ يَنْهَيَانِهِ عَنْهُ فِی غَيْرِ مَعْصِيَةِ اللَّهِ وَ نَصِیحَتُهُمَا فِی السِّرِّ وَ الْعَلَانِيَةِ (ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ، ص 322)۔
( 25) عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع أَنَّهُ قَالَ: أَدْنَی الْعُقُوقِ أُفٍّ وَ لَوْ عَلِمَ اللَّهُ شَيْئاً أَهْوَنَ مِنَ الْأُفِّ لَنَهَی عَنْهُ. (ابن بابویه، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا علیه السلام، ج2؛ ص44)۔
(26 ) ان اضجراک فلا تقل لہما اف، وَ لا تَنْهَرْهُما ان ضرباک قال: «وَ قُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِیماً» قال: یقول لهما: غفر الله لکما. فذلک منک قول کریم، و قال «وَ اخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ» قال لا تملا عینیک من النظر الیهما- الا برحمة و رقة- و لا ترفع صوتک فوق اصواتهما- و لا یدیک فوق ایدیهما و لا تتقدم قدامهما (عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، ج2؛ ص285)۔
( 27) سورہ اسرا : 17، سورہ عنکبوت : 29، سورہ احقاف : 46، سورہ بقرہ : 83۔
(28 ) وَ إِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللَّهَ وَ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً (سورہ بقرہ : 83)۔
(29 ) عن ابی ولاد الحناط قال: سالت ابا عبد اللہ علیہ السلام عن قول الله عز و جل «وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً» ما هذا الاحسان؟ فقال: الاحسان ان تحسن صحبتهما و ان لا یکلفهما ان یسالاک شیئا مما یحتاجان الیه، و ان کانا مستغنیین (العروسی الحویزی، عبد علی بن جمعة، تفسیر نور الثقلین، ج1، ص363)۔
(30 ) محمد سپهری. ترجمه و شرح رساله الحقوق امام سجاد، ص 134 و 135۔
(31 ) مَا يَمْنَعُ الرَّجُلَ مِنْكُمْ أَنْ يَبَرَّ وَالِدَيْهِ حَيَّيْنِ وَ مَيِّتَيْنِ؟ يُصَلِّی عَنْهُمَا، وَ يَتَصَدَّقُ عَنْهُمَا، وَ يَحُجُّ عَنْهُمَا، وَ يَصُومُ عَنْهُمَا فَيَكُونُ الَّذِی صَنَعَ لَهُمَا وَ لَهُ مِثْلُ ذَلِكَ فَيَزِیدُهُ اللَّهُ بِبِرِّهِ وَ صَلَاتِهِ خَيْراً كَثِیراً. (شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، هدایة الامة الی احکام الائمة علیهم السلام، ج7)۔
( 32) مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ ص فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْصِنِی فَقَالَ ۔۔۔ وَ وَالِدَيْكَ فَأَطِعْهُمَا وَ بَرَّهُمَا حَيَّيْنِ كَانَا أَوْ مَيِّتَيْنِ وَ إِنْ أَمَرَاكَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ أَهْلِكَ وَ مَالِكَ فَافْعَلْ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنَ الْإِیمَانِ.( الکافی، ج2 ؛ ص158)۔
( 33) مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول، ج8، ص416۔
(34 ) بِرُّ الْوَالِدَيْنِ مِنْ حُسْنِ مَعْرِفَةِ الْعَبْدِ بِاللَّهِ تَعَالَی إِذْ لَا عِبَادَةَ أَسْرَعُ بُلُوغاً لِصَاحِبِهَا إِلَی رِضَاءِ اللَّهِ مِنْ بِرِّ الْوَالِدَيْنِ الْمُؤْمِنَيْنِ لِوَجْهِ اللَّهِ تَعَالَی لِأَنَّ حَقَّ الْوَالِدَيْنِ مُشْتَقٌّ مِنْ حَقِّ اللَّہ (منسوب به جعفربن محمد علیه السلام، امام ششم علیه السلام، مصباح الشریعة، ص70)۔
( 35) بَرُّوا آبَائَكُمْ يَبَرَّكُمْ أَبْنَاءُكُمْ. (لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، ص 195 حدیث نمبر 3985)۔
( 36) مَنْ بَرَّ بِوَالِدَيْهِ زَادَ اللَّهُ فِی عُمُرِہ (طبرسی، علی بن حسن، مشکاة الانوار فی غرر الاخبار، ص 162)۔
( 37) وَ قَالَ الصَّادِقُ ع مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُخَفِّفَ اللَّهُ عَنْهُ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ فَلْيَكُنْ بِقَرَابَتِهِ وَصُولًا وَ بِوَالِدَيْهِ بَارّاً فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ هَوَّنَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ (مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوارالجامعة لدرر اخبار الائمة الاطہار، ج79، ص65)۔
(38 ) قاعدة- 162 تتعلق بحقوق الوالدین (عاملی، شهید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، ج2، ص: 46)۔
(39 ) (مترجم)یہاں وقت نماز سے مراد فضیلت کا وقت ہے وگرنہ اگر نماز کا وقت تنگ ہو اور ان کی اطاعت کرنے سے نماز چھوٹ جانے کا خطرہ ہو تو نماز ہی واجب ہے۔
(40 )(مترجم) لا ینبغی للرجل ان یخرج الی الجہاد و لہ اب او ام الا باذنہما۔ آیت اللہ اسماعیلی نے تو اسی عبارت کا حوالہ شرح رسالۃ الحقوق سے دیا ہے لیکن مذکورہ کتاب یا دوسری کتب حدیثی میں یہ جملہ مجھے نہیں ملا ، ہاں اسی مضمون میں کافی روایتیں موجود ہیں۔
( 41) فمن کان له ابوان مسلمان او احدهما لیس له الجهاد الّا باذنهما (حلّی، علامه، حسن بن یوسف بن مطهر اسدی، تذکرة الفقهاء، ج9 ، ص29)۔
( 42) أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص قَالَ: هَلْ تَعْلَمُونَ أَيُّ نَفَقَةٍ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَفْضَلُ قَالُوا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ نَفَقَةُ الْوَلَدِ عَلَی الْوَالِدَيْن(مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ؛ ج15 ؛ ص204)۔
(43 ) من العقوق اضاعة الحقوق (آقا جمال خوانساری، محمد بن حسین، شرح آقا جمال الدین خوانساری بر غرر الحکم و درر الکلم، ج6 ؛ ص9)۔
( 44) شرح آقا جمال خوانساری بر غرر الحکم و درر الکلم ؛ ج6 ؛ ص9۔
(45 ) وَ نَهَی ص عَنْ عُقُوقِ الْأُمَّهَاتِ (قمّی، صدوق، محمّد بن علی بن بابویه، معانی الاخبار، ص 279)۔
( 46) عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص فِی كَلَامٍ لَهُ إِيَّاكُمْ وَ عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّ رِیحَ الْجَنَّةِ تُوجَدُ مِنْ مَسِیرَةِ أَلْفِ عَامٍ وَ لَا يَجِدُهَا عَاق (الکافی، ج2 ؛ ص349)۔
( 47) و من العقوق ان ینظر الرجل الی والدیه فیحد النظر الیهما. (تفسیر نور الثقلین ؛ ج3 ؛ ص149)۔
(48 ) مَنْ نَظَرَ إِلَی وَالِدَيْهِ نَظَرَ مَاقِتٍ وَ هُمَا ظَالِمَانِ لَهُ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاة (مشکاة الانوار فی غرر الاخبار ؛ النص ؛ ص164)۔
: کتابنامہ
1. ابن ابی جمہور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی العزیزیة فی الاحادیث الدینیة، 4جلد، دار سید الشہداء للنشر - قم، چاپ: اول، 1405 ق۔
2. ابن بابویہ، محمد بن علی، الخصال، 2جلد، جامعہ مدرسین - قم، چاپ: اول، 1362ش۔
3. ابن بابویہ، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا علیہ السلام، 2جلد، نشر جہان - تہران، چاپ: اول، 1378ق۔
4. ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ، 1جلد، جامعہ مدرسین - قم، چاپ: دوم، 1404 / 1363ق.
5. احسایی، ابن ابی جمہور، محمد بن علی، عوالی اللئالی العزیزیة، 4 جلد، دار سید الشہداء للنشر، قم - ایران، اول، 1405 ہ ق۔
6. امام جعفربن محمد علیہ السلام سے منسوب، مصباح الشریعة، 1جلد، اعلمی - بیروت، چاپ: اول، 1400ق.
7. آقا جمال خوانساری، محمد بن حسین، شرح آقا جمال الدین خوانساری بر غرر الحکم و درر الکلم، 7جلد، دانشگاہ تہران - تہران، چاپ: چہارم، 1366ش.
8. پایندہ، ابو القاسم، نہج الفصاحة (مجموعہ کلمات قصار حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ)، 1جلد، دنیای دانش - تہران، چاپ: چہارم، 1382ش۔
9. حر عاملی، محمد بن حسن، ہدایة الامة الی احکام الائمة علیہم السلام، 8جلد، آستانة الرضویة المقدسة، مجمع البحوث الاسلامیة - مشہد، چاپ: اول، 1414ق۔
10. حریری، محمد یوسف، صدائے سجاد؛ ترجمہ سید حسن امداد، مطبوعہ ، دار الثقافہ لاسلامیہ، کراچی ، 1405 ہ ق۔
11. حلّی، علامہ، حسن بن یوسف بن مطہر اسدی، تذکرة الفقہاء (ط - الحدیثة)، 14 جلد، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، قم - ایران، اول، 1414 ہ ق
12. طبرسی، علی بن حسن، مشکاة الانوار فی غرر الاخبار، 1جلد، المکتبة الحیدریة - نجف، چاپ: دوم، 1385ق / 1965م / 1344ش.
13. عاملی، شہید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، 2 جلد، کتابفروشی مفید، قم - ایران، اول، ہ ق۔
14. العروسی الحویزی، عبد علی بن جمعة، تفسیر نور الثقلین، 5جلد، اسماعیلیان - قم، چاپ: چہارم، 1415 ق۔
15. عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، 2جلد، المطبعة العلمیة - تہران، چاپ: اول، 1380 ق۔
16. قمّی، صدوق، محمّد بن علی بن بابویہ، معانی الاخبار، در یک جلد، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، قم - ایران، 1403 ہ ق
17. کاشانی، فیض، محمد محسن ابن شاہ مرتضی، الوافی، 26 جلد، کتابخانہ امام امیر المؤمنین علی علیہ السلام، اصفہان - ایران، اول، 1406 ہ ، ق۔
18. کبیر مدنی، سید علیخان بن احمد، ریاض السالکین فی شرح صحیفة سید الساجدین، 7جلد، دفتر انتشارات اسلامی - ایران ؛ قم، چاپ: اول، 1409ق۔
19. کلینی، ابو جعفر، محمد بن یعقوب، الکافی (ط - الاسلامیة)، 8 جلد، دار الکتب الاسلامیة، تہران - ایران، چہارم، 1407 ہ ق۔
20. لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ،1جلد، دار الحدیث - قم، چاپ: اول، 1376 ش۔
21. مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوارالجامعة لدرر اخبار الائمة الاطہار (ط - بیروت)، 111جلد، دار احیاء التراث العربی - بیروت، چاپ: دوم، 1403 ق.
22. مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول، 26جلد، دار الکتب الاسلامیة - تہران، چاپ: دوم، 1404 ق۔
23. محمد سپہری. ترجمہ و شرح رسالہ الحقوق امام سجاد. قم: دارالعلم، 1375۔
24. منسوب بہ امام رضا، علی بن موسی علیہما السلام، الفقہ - فقہ الرضا، در یک جلد، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، مشہد - ایران، اول، 1406 ، ہ ق۔
25. نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، 28جلد، مؤسسة آل البیت علیہم السلام - قم، چاپ: اول، 1408ق۔
مقالہ نگار: آیت اللہ اسماعیلی
مترجم:محمد عیسی روح اللہ
پیشکش:امام حسین فاؤنڈیشن
بچوں میں موبائل استعمال کا رجحان۔ والدین کیا کریں؟
بچوں میں موبائل استعمال کا رجحان۔ والدین کیا کریں؟
اس وقت بچوں میں موبائل اور دیگر اسکرینوں کا استعمال مثلا کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹی وی اور ٹیبلٹ وغیرہ کارجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ خاص کر” کوڈ19 لاک ڈاون” کے بعد تو صورتحال یہ ہوگئی ہے۔ کہ بچے اسکرین اور موبائل کے بغیر رہناہی نہیں چاہتے۔ کسی زمانے میں ٹین ایجر کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ اب تو بچے اسکرین ایجر ہوچکے ہیں۔
بچوں کے اس طرح اسکرین ایڈ کٹد ہونے یا اسکرین کی لت میں مبتلا کی وجہ سے والدین اور سرپرست حضرات بہت زیادہ پریشان نظرآتے ہیں۔ اسکرین کے اس طرح بے جااستعمال سے بچوں کی عمومی زندگی بھی عدم توازن کا شکار ہوکررہ گئی ہے۔
بچوں میں موبائل استعمال کا رجحان۔ والدین کیا کریں؟
یہاں ایک بات بتانا بہت اہم ہے، کہ موبائل بذات خود کوئی بری چیز ہے نہ اچھی چیز۔ بلکہ اس کا استعمال اس کو اچھا یا برابناتا ہے۔ اس کی مثال ہم چھری اور اس کے استعمال سے دے سکتے ہیں۔ کہ چھری سے ہم سبزی کاٹ کر اپنے فائدے کاکام کرسکتے ہیں۔ اور دوسری طرف اسی چھری سے کسی کا کان یا ناک کاٹ کر خدانخواستہ کسی کا نقصان بھی کیا جاسکتا ہے ۔ بلکل اسی طرح اسمارٹ موبائل فون بھی ہے۔ کہ اس کا اچھا اور برادونوں طرح سے استعمال کیا جاسکتاہے۔
اس مضمون میں پہلے ہم اسکرین، خاص کر موبائل اسکرین کے بے جااور غیر ضروری استعمال کے نقصانات بتائیں گے ۔اس کے بعد والدین اور سرپرست حضرات کی آسانی کے لئے چند ٹپس دیں گے۔ جن کو استعمال کرکے وہ اپنے بچوں کو موبائل استعمال کے حوالے سے ڈسپلن کرسکتے ہیں۔ موبائل کے بے جا استعمال کےچند نقصانات مندرجہ ذیل ہیں۔
بچوں میں منشیات استعمال کا رجحان۔ والدین کیا کریں؟
:بچوں کے رویوں میں عدم توازن پیداہوجاتا ہے
انسان اپنی عادات اور رویوں سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ اگر عادات اوررویے اچھے خوبصورت ہوں، تو زندگی میں کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اوروہ اچھا انسا ن کہلانے کا حق دار ہوتا ہے ورنہ نہیں۔ ایک کامیاب انسان اپنی عادات اور رویوں کو بہتر بنانے پر بہت زیاد ہ کام کرتاہے۔ بچے اگر بہت زیادہ اسکرین استعمال کریں تو ان کے رویوں میں عدم توازن پیدا ہوناشروع ہوجاتاہے۔ لہذا بچوں کے رویوں میں توازن پیداکرنے کے لئے موبائل اسکرین کے بے جااستعمال پر روک لگانانہایت ضروری ہے۔
:معاشرتی زندگی میں عدم توازن
موبائل کے بے جا استعمال کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ بچہ معاشرتی تعلقات کے حوالے سے عدم توازن کا شکار ہوجاتا ہے۔ زندگی میں جن لوگوں سےتعلقات مضبوط ہونا ضروری ہےوہ کمزوری کا شکارہوجاتے ہیں ، بسااوقات بچہ معاشرے سے کٹ کررہ جاتاہے اور تنہاتنہا رہنے لگتاہے۔ جو اسکی عملی زندگی کے لئے انتہائی نقصان دہ ہوسکتاہے۔
:غصے اور چڑچڑاپن کا شکار ہونا
اسکرین کے بے تحاشا استعمال سے انسان کادماغ بالکل ایک ہی جگہ بہت دیر تک مرتکز رہتا ہے۔ جس سے دما غ انتہائی بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ اور انسان غصے اور چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتاہے۔ خاص کر بعض لڑائی بھڑائی پر مشتمل ایسی ویڈیو گیمز ہوتی ہیں۔ جنہیں کھیل کریا دیکھ کر بچہ ان سے برااثر لیتاہے۔ اور وہ بھی لڑاکو مزاج کا بن جاتاہے۔
"<yoastmark
:نیند کی کمی اور پڑھائی سے بھاگنا
اسکرین ایڈکشن کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے۔ کہ اسکرین کی لت میں مبتلا انسان کی نیند کم ہوجاتی ہے۔ اس کے دماغ میں ہروقت کوئی نہ کوئی ویڈیو یا کوئی گیم چل رہی ہوتی ہے۔ حتی کہ نیند سے پہلے اور نیند کی حالت میں بھی اس کیفیت میں ہونے کی وجہ سے اس کی نیند اڑجاتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ نیند پوری نہ ہونے سے وہ دنیا کے ہر کام سے جی چراتا ہے۔ بچہ ہوتو پڑھائی سے دور بھاگتاہے۔ بھوک ختم ہوجاتی ہے اور سستی وتکا ن بڑھ جاتی ہے۔ نیز اسکرین میں مست ہوکر ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے رہنے سے اس کی کمر بھی ٹیڑھی ہونے لگتی ہے۔
:جسمانی ورزش ختم ہوجاتی ہے
انسان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے لئے ورزش بہت ضروری چیز ہے۔ جس سے خوب پسینہ نکلے اور ڈپریشن ریلیز ہوجائے۔ لیکن موبائل اسکرین کی لت میں مبتلا بچے کی جسمانی ورزش بھی ختم ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بچہ جسمانی اور نفسیاتی طورپر عدم توازن کا شکار ہوجاتا ہے۔
- مؤلف:
- ایجو تربیہ ڈاٹ کام
:تعلیم سے بے رغبتی اور تعلیمی نتائج پر برے اثرات پڑتے ہیں
یہ عام مشاہد ہ ہے اور سائنٹفک ریسرچ بھی کہ ایک وقت میں انسانی دماغ کسی ایک چیز پر ہی فوکس کرسکتا ہے۔ جب بچہ اپنی مصروفیت کے لئے اسمارٹ فون کو منتخب کرلیتاہے۔ اور اسی میں گم سم رہتاہے،تو تعلیم سے بے رغبتی اور نتائج پر برے اثرات پڑنا لازمی امرہے۔
:انٹرنیٹ سے فحش مواد تک رسائی ہوتی ہے
بچے کے پاس اسمارٹ فون ہواور وہ بھی انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہو، تو فحش مواد تک رسائی ہونا لازمی امر ہے۔ والدین اپنے بچوں کو معصوم سمجھ کر یہ انتہائی حساس معاملہ نظرانداز کردیتے ہیںَ۔ جونہایت خطرناک ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ابتدا شاید بچہ گیم اور ویڈیوز کے چکر میں ان چیزوں کی طرف رجحان نہیں دیتا۔ لیکن باربار ایسی فحش چیزوں کے سامنے آنے پر بچے کا تجسس بڑھ جاتا ہے۔ اور وہ اس پر ایک کلک کرلیتا ہے۔ اب انٹرنیٹ الگوریتھم اپنے اصول کے مطابق اس بچے کے سامنے اور بھی فحش مواد کھول کررکھنا شروع کر دیتاہے۔
یہ فحش مواد اس بچے کی معصومیت کے لئے زہر قاتل بن جاتاہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بچہ ان غلط چیزوں میں پوری طرح دلچسپی لینے لگتا ہے۔ وہ ایسی چیزوں میں پڑجاتا ہے جو فحش اوراخلاق باختہ ہونے کے ساتھ طبعی عمر سے پہلے ہی اس میں جنسی ہیجان پیدا کرنے والی ہوتی ہیں۔ یوں بچہ پختگی سے پہلے بالغ ہوجاتا ہے۔ اور زندگی میں مقصدیت کی تلاش چھوڑ کر تسکین نفس کے غلط راستے ڈھونڈنا شروع کردیتا ہے۔
:اسمارٹ فون سے دین بیزاری کا رجحان
بچے ہمارا نسلی تسلسل ہیں۔ مسلمان والدین کا فرض ہے، کہ وہ اپنے بچوں کوایمان سکھائیں اور دین سکھائیں۔ اللہ ، رسول ، قرآن ودیگر دینی شعائر کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدارکی محبت ان کے دلوں میں پیوست کردیں۔ ان کی زندگی میں دینی ویلیوز کو پروان چڑھائیں۔ یہی وہ چیز ہے جو مسلمان والدین کرناچاہتے ہیں۔
لیکن بدقسمتی سےان تمام چیزوں کے سامنے بدترین رکاوٹ اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ پر موجود دین بیزار مواد اوروہ ویڈیوگیمز ہیں جن میں دینی شعائر کی توہین کی جاتی ہے۔ اور ان کی محبت واہمیت کو غیر محسوس طریقے سے بچوں اور نئی نسل کے دلوں سے اتارنے کی باضابطہ کوشش بھی کی جاتی ہے۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک مثال میں یہاں پیش کرناچاہوں گا۔ مثلا ویڈیوگیمز میں کسی برے کردار کو یا دشمن کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اس تلاش کے دوران ایسا سین پیش کیا جاتا ہے کہ اس دشمن کو یا شیطان کونعوذباللہ مسجد نبوی یا خانہ کعبہ کے دروازسے نکلنے ہوئے دکھایا جاتاہے۔ یا دوسری مثال میں تلاش کے دوران واش روم میں نعوذباللہ قرآن کریم کے نسخے دکھائے جاتے ہیں۔
اب بچوں میں اچھی بری چیز میں تمیز کے فلٹرنشوونما نہیں پاچکے ہوتے۔ توایسی سین دیکھنے سے بچوں کے دلوں سے غیر محسوس طریقے سےان مقدسات کی اہمیت ختم ہوتی جاتی ہے۔ ان مقدسات کے ساتھ نئی نسل کا جذباتی تعلق کم ہوتا جاتاہے۔ جس کا نتیجہ تو بعد میں ہی ظاہر ہوگا۔
لیکن یہ سم قاتل موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہماری نسل کے ذہنوں میں اتارا جاتا ہے ۔ جب کہ والدین یہ کہہ کرمطمئن ہوجاتے ہیں کہ بچہ موبائل پر گیم کھیل رہا ہے کوئی بات نہیں۔ اس حوالے سے والدین کو بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
والدین اپنے بچوں کو موبائل اسکرین کی لت سے کیسے بچائیں؟
والدین ایک بات ذہن میں رکھیں کہ اس وقت ہم بچوں سے موبائل فون مکمل طور پر چھین نہیں سکتے۔ ورنہ بچے آپ کو اپنا دشمن تصور کریں گے۔ اور خدانخواستہ ا س کے حصول کے لئے کوئی غلط راستہ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ کورونا کی صورتحال کے بعد اسکولوں اوردیگرتعلیمی اداروں کی تعلیمی سرگرمیاں کافی حد تک آن لائن ہوگئی ہیں۔ جس کی وجہ سے بچوں کے ہاتھوں میں وقت سے بہت پہلےاسمارٹ موبائل فون آچکا ہے۔
"<yoastmark
اس وقت والدین کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ بچوں کے ہاتھ میں موبائل دینے کے حوالے سے محتاط ہوجائیں۔ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو اس حوالے سے ڈسپلن کریں، حتی الامکان اس کا استعمال کم کردیں۔ اور جب استعمال کرنا ضروری ہو تو اس کے لئے باقاعدہ وقت مقرر ہو۔ اور جس وقت استعمال ہو اس وقت والدین بچوں کے موبائل پر چیک اور کنٹرول ضرور رکھیں۔
اب یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوسکتا ہے اس کے لئے ہم ذیل میں چند ٹپس والدین سے شئیر کرتے ہیں۔ ان پر عمل کرتے ہوئے والدین اپنے اور اپنے بچوں کا یہ مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔
:والدین اچھی رول موڈلنگ پیش کریں
والدین کی اچھی پیرنٹنگ یا اچھی تربیت کا راز اس میں ہے کہ وہ اپنے بچوں کے سامنے اچھی رول ماڈلنگ پیش کریں۔ بچوں کےحقیقی استاد اور مربی والدین ہوتے ہیں۔ بچے اپنے والدین کو جو کچھ کرتے ہوے دیکھتے ہیں۔ اس کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہذا موبائل کے حوالے سے بچوں کو ڈسپلن کرنا ہو تو بھی والدین اس کا آغاز خود اپنے آپ سے کریں گے۔
ان کو چاہئے کہ سب سے پہلے اپنے اوپر چیک اینڈبیلنس رکھیں۔ ضرورت کے علاوہ خود بھی استعمال نہ کریں اور موبائل کے غیر ضروری استعمال کے جو نقصانات وخدشات اوپر بتائے گیے ہیں۔ ان کے بارے میں گھر میں بچوں سے گفتگو کریں۔ اچھی رول ماڈلنگ سے ان شااللہ پچاس فیصد مسئلہ ویسے ہی درست ہوجائے گا۔
:بچوں سے موبائل کے فوائد ونقصانات پر مکالمہ کریں
والدین خودپرکنٹرول کے بعد دوسراکام یہ کریں۔ کہ بچوں کواس کے نفع ونقصان سے آگاہ کریں۔ اچھے استعمال کے فوائد پر ان سے کوئی مضمون لکھوائیں۔ غلط استعمال کے نقصانات کے بارے میں بھی کوئی مضمون لکھوائیں۔ جس سے بچوں کو اس موضوع پر سوچنے کا موقع ملے گا۔ بچوں سے اس موضوع پر کچھ لکھواتے ہوئے ان کی مدد کریں۔ کہ اوپر بتائیے گئے نقصانات کے علاوہ اور بھی جو اس کے نقصانات ہیں وہ اپنے ذہن سے تلاش کریں۔
جب بچے اس موضوع پر لکھ چکیں تو اس کا خلاصہ تیار کروائیں۔ اور خلاصے یاسمری کو سامنے رکھ کر اس پر گفتگو کریں۔ اور مکالمہ کروائیں۔ مکالمے میں والدین خود بتانے سے زیادہ بچوں سے زیادہ سننے کی کوشش کریں۔ اس طرح سے اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے فوائد ونقصانات بچوں کو ریلائزکروائیں۔ اور ان کے دل ودماغ میں یہ باتیں بٹھاکر ان سے بھی محتاط رہنے کا تقاضہ کرسکتے ہیں۔
:گھریلوتمام مصروفیات اور روٹین کاموں کے لئے رولز ریگولیش بنائیں
جب تک گھرکی چوبیس گھنٹے کی تمام مصروفیات کے لئے اصول اور رولز نہ بنائے جائیں، اس وقت تک گھر کے لئے پریشانی بہرحال رہے گی۔ والدین ہر گھر میں اپنی چوبیس گھنٹے کی تمام مصروفیات کو ایک ٹائم ٹیبل کی شکل دے سکتے ہیں۔ مثلاسونے جانگنے کے اوقات کیا ہونگے؟ کھانے پینے ، نمازوں اور تلاوت کے اوقات کیاہونگے؟
اس کے علاوہ کھاناپکانے ، گھرکی صفائی نیز دیگر کاموں کے علاوہ موبائل فون یا دیگر اسکرین کے استعمال کو ریگولرائز کرنے کے لئے گھر کے سب افراد مل کر رولز بنائیں۔ اور پھر ان رولز کو فالو کرنا شروع کریں۔ ان شااللہ یہ مسئلہ بہت حد تک حل ہوجائے گا۔
:بچوں کے لئے بہتر مشغولیت اور ہوبی سیٹ کریں
اسمارٹ فون اور دیگر اسکرینوں کی لت سے بچوں کو نکالنے کا ایک بہترین حل یہ بھی ہے۔ کہ والدین بچوں کے لئے موبائل استعمال کے علاوہ کوئی اورمصروفیت یا مشغولیت تلاش کریں۔ جس میں مشغول رہنے سے موبائل کا رجحان بچے کے دل سے نکل جائے یا کم ہوجائے۔ مثلا گھر میں پودے اگانے اور ان کا خیال رکھنے کی ذمہ داری بچوں کو دے سکتے ہیں۔
یا گھر میں کوئی پالتو جانور رکھ کربچے کے لئے مشغولیت کا راستہ دے سکتے ہیں۔ یا جسمانی ورزش اور فزیکل گیم کی کوئی ترتیب بنائی جاسکتی ہے۔ جس میں مشغول رہ کر بچہ اپنے آپ کو مصروف رکھ سکتا ہے۔ اس طرح وہ بہت حد تک موبائل اسکرین اور انٹرنیٹ کی خرابیوں سے اپنے آپ کو بچاسکتا ہے۔
:چندمددگار موبائل ایپس
یہ ٹیکنالوجی کادور ہے۔ جس کے فوائد اور نقصانات کاہم مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ موبائل فون کے فوائد یہاں بیان کرنا مقصودنہیں وہ سبھی لوگ جانتے ہیں۔ لیکن اس کے بے شمار سائدافیکٹس یا نقصانات ہیں۔ جن سے بچنے کے راستے تلاش کرنا اس آرٹیکل کا موضوع ہے۔ اسکرین ایڈکشن بچوں اور بڑوں دونوں کے لئے نقصان دہ ہے۔
لیکن اگربچے اس لت میں مبتلا ہوں تو ان کے والدین اور سرپرست حضرات نہ صرف اس کے ذمہ دار ہیں۔ بلکہ اس کی روک تھام کے لئے کوشش کرنا بھی ان کا فرض ہے۔
موبائل کے غلط استعمال کی روک تھام کے لئے بے شمار ایپس بھی دستیاب ہیں۔ جن کی مدد سے والدین اور سرپرست حضرات اپنے بچوں کو موبائل کے غلط استعمال سے بچاسکتے ہیں۔ یہ ایپس موبائل کے پلے اسٹور سے اپنے موبائل میں ڈاون لوڈ کرسکتے ہیں۔ اورپھر ان کی مدد سے اپنے بچے کی کسی بھی موبائل سرگرمی سے باخبر رہتے ہوئے اس کی روک کی کوشش کرسکتے ہیں ۔
ان میں سے چند موبائل ایپس ذیل میں دئیےجاتے ہیں ، یہ اپنے موبائل فون میں ڈاون لوڈ کیجئے۔ اور اپنے بچوں کی ہر سرگرمی سے چوبیس گھنٹے باخبررہیے۔
اسپائزی ایپ (Spyzie app)
ٹریک اِٹ ایپ (Trackit app)
ایم اسپائے ایپ ( mSpy app)
اور آخر میں سب سے اہم بات اللہ کی طرف رجوع کا مشورہ ہے۔ اپنے بچوں کے لئے والدین اللہ سے خوب دعامانگیں۔ فتنوں کے اس زمانے میں دعاہی ایک مسلمان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اللہ جسے ہدایت دے اسے کوئی چیز گمراہ نہیں کرسکتی۔ اور جسے اللہ ہدایت نہ دے تو ابوجہل خانہ کعبہ میں پیداہو کربھی بدنصیب رہا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کام کو ہم سے کے لئے آسان بنادے اور ہماری نسل کو ہدایت کے نور سے نوازے ۔ آمین
صیہونی مفادات کی خاطر یمن کے خلاف امریکہ کی فوجی مہم جوئی
امریکہ اور برطانیہ نے گذشتہ ہفتے جمعہ کے دن یمن میں 16 مختلف مقامات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا جن میں الحدیدہ ایئرپورٹ، کہلان بیس کیمپ، الدیلمی فوجی اڈہ اور زبید کے کچھ علاقے شامل تھے۔ انہوں نے اپنے ان جارحانہ اقدامات کا مقصد یمن کو آبنائے باب المندب اور بحیرہ احمر میں اسرائیلی کشتیوں کو نشانہ بنانے سے روکنا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف انصاراللہ یمن کے ایک اعلی سطحی رہنما نے دعوی کیا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی جارحیت کے جواب کے طور پر بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں امریکہ کی جنگی کشتیوں پر میزائل حملوں کی صورت میں دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اس جوابی کاروائی کا مقصد دشمن کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت کا فیصلہ اپنی جگہ باقی ہے اور ہمارے پختہ عزم میں ذرہ برابر تزلزل پیدا نہیں ہوا۔
صنعاء میں باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ یمن فوج ایک ہفتہ پہلے سے امریکہ کے ممکنہ جارحانہ اقدامات کا انتظار کر رہی تھی اور اس کیلئے پوری طرح تیار تھی۔ یہ حملے شاید اس وجہ سے ایک ہفتہ دیر سے انجام پائے کہ امریکہ اس سے پہلے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں یمن کے خلاف قرارداد منظور کروانا چاہتا تھا۔ باخبر ذرائع کے بقول یمن فوج کا خیال تھا کہ شاید امریکہ فوجی تنصیبات اور انفرااسٹرکچر کو فضائی حملوں کا نشانہ بنانے کے علاوہ زمینی کاروائی بھی کرے گا اور یمن میں اپنی پٹھو ملیشیا یا امریکی اور برطانوی کمانڈوز کی مدد سے یہ آپریشن انجام دے گا۔ اسی طرح صنعاء حکومت کی مخالف ملیشیا جو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی کٹھ پتلی ہے، نے بھی یمن فوج سے ٹکر لینے سے پرہیز کیا ہے کیونکہ وہ یمن میں دوبارہ فوجی جھڑپیں شروع ہو جانے اور اس کے نتیجے میں تناو پیدا ہونے سے پریشان ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ صنعاء حکومت نے اس ملیشیا کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے اور اس انتظار میں ہے کہ جیسے ہی ان کی جانب سے 2022ء میں اسٹاک ہوم جنگ بندی معاہدے کی کوئی خلاف ورزی سامنے آئے تو ان کے خلاف بڑا فوجی آپریشن شروع کر دے۔ ایسے حالات میں امریکی حکمرانوں نے یمن سے مقابلہ کرنے کیلئے اس ملک کو فراہم کی جانے والی اقوام متحدہ کی غذائی امداد بھی رکوا دی ہے۔ حتی بعض ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق یمن کے مختلف فریقین کے درمیان مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہو گئے ہیں جن کے بارے میں توقع کی جا رہی تھی کہ سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں انجام پائیں گے۔ یمن کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے لیڈر کنگ نے بھی انصاراللہ سے ہر قسم کے معاہدے کو غزہ جنگ کے بارے میں اپنا موقف تبدیل کرنے سے مشروط کیا ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اب تک انصاراللہ یمن کے ساتھ انجام پانے والے معاہدوں کا پابند رہنے کا فیصلہ کیا ہے لہذا انہوں نے بحیرہ احمر میں امریکی فوجی اتحاد میں شمولیت سے بھی گریز کیا ہے۔ حتی یورپی ممالک بھی امریکہ کی سربراہی میں یمن مخالف فوجی اتحاد میں شامل ہونے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اب تک یمن کے خلاف ایک مضبوط محاذ تشکیل دینے میں بری طرح ناکامی کا شکار ہوا ہے اور اسے اکیلے ہی یمن کے خلاف فوجی مہم جوئی کا آغاز کرنا پڑا ہے۔ دوسری طرف یمن پر جارحیت کے تین دنوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حملے امریکہ اور برطانیہ کے مدنظر اہداف پورا نہیں کر پائے ہیں۔ یمن فوج جسے گذشتہ چند برسوں کے دوران سعودی عرب کے وسیع فضائی حملوں کا تجربہ ہو چکا ہے، ایسے حملوں سے بچنے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں یمن کے بارے میں امریکہ کی کمزور انٹیلی جنس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک آگاہ ذریعے کے بقول لکھا کہ یمنیوں کی بہت سی فوجی صلاحیتیں 12 جنوری کے فضائی حملوں کے بعد جوں کی توں باقی ہیں۔ البتہ مغربی ذرائع ابلاغ نے یمن پر امریکہ اور برطانیہ کے فضائی حملوں کی ناکامی کے ردعمل میں ایران کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے اور یہ تمسخر آمیز دعوی کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکم پر انصاراللہ یمن اسرائیل مخالف اقدامات انجام دینے میں مصروف ہے۔ یہ دعوی ایسے وقت سامنے آیا ہے جب یمن اور خطے کے حالات انتہائی درجہ پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی یمن پر حالیہ جارحیت ان کے اس موقف سے مکمل تضاد رکھتی ہے جس میں وہ دعوی کرتے تھے کہ غزہ جنگ کو علاقائی سطح پر پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کی شدت پسندانہ پالیسیوں کی واحد وجہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم ہے۔ امریکہ غزہ میں عام شہریوں کا قتل عام روکنے کیلئے غاصب صیہونی رژیم پر دباو ڈالنا نہیں چاہتا۔ امریکہ اگرچہ بظاہر یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ غزہ جنگ روکنے کا حامی ہے لیکن عمل کے میدان میں غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت کر کے اسے اب تک 24 ہزار سے زائد بیگناہ فلسطینیوں کے قتل عام کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اور اب یمن کے خلاف جارحانہ اقدامات انجام دے کر پورے خطے کو جنگ کی آگ میں دھکیل رہا ہے۔ امریکی حکمران توقع رکھتے ہیں کہ پورا خطہ خاموش تماشائی بنا رہے گا اور غزہ میں مسلمانوں کی بھرپور نسل کشی کا تماشہ دیکھتا رہے گا جبکہ دوسری طرف وہ صیہونی رژیم کی بھرپور مالی، فوجی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔ یہ متضاد رویہ خطے کی موجودہ صورتحال کا اصل سبب ہے۔
تحریر: علی احمدی
حوثی مجاہدین سے درپیش سمندری خطرات کے مقابلے میں امریکہ کی بے بسی
رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاوس نے امریکی فوج کی جانب سے انصاراللہ کے ٹھکانوں پر حملہ کرنے کی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ اخبار پولیٹیکو نے بھی اعلان کیا ہے کہ جو بائیڈن ایسے منظرناموں کے بارے میں مذاکرات کر رہے ہیں جو واشنگٹن کو مشرق وسطی کی جنگ میں دھکیل سکتے ہیں۔ پینٹاگون کے ترجمان جنرل پیٹ رائیڈر نے حوثی مجاہدین کے حملوں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کا ملک خطے میں تعینات فورسز کے تحفظ کیلئے ضروری اقدامات انجام دے گا اور اپنے اتحادیوں کی مدد سے بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں انصاراللہ کے حملوں کی روک تھام کرے گا۔ ایک مغربی سفارتکار کے بقول امریکی حکام نے بدھ کے دن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین سے بند کمرے میں میٹنگ کی اور انہیں بتایا کہ وہ بحیرہ احمر میں انصاراللہ یمن کے حملوں کی مذمت پر مشتمل قرارداد پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
امریکی حکام انصاراللہ کی فوجی کاروائیوں کا جواب دینے میں تردد کا شکار ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور بحیرہ احمر اور خلیج فارس میں تناو کی شدت میں ممکنہ اضافے سے شدید پریشان ہیں۔ امریکہ مختلف ممالک کو ایک اتحاد کی صورت میں اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتا تھا تاکہ ان کی مدد سے مشترکہ طور پر انصاراللہ یمن کو بحیرہ احمر میں اسرائیلی کشتیوں پر حملوں سے روک سکے لیکن اکثر ممالک نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس وقت صرف برطانیہ واشنگٹن کا ساتھ دے رہا ہے۔ انتہائی محدود تعداد میں ممالک کا ساتھ دینے کے باعث یمن کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کیلئے امریکہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ لہذا بائیڈن کابینہ کے اجلاس میں یہ طے پایا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں سے مدد لئے بغیر اکیلے ہی انصاراللہ کا مقابلہ کرے۔
امریکہ کی جانب سے انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی کاروائی کیلئے سرگرمیاں ایسے وقت انجام پا رہی ہیں جب حوثی مجاہدین نام نہاد امریکی اتحاد میں شامل ممالک کو خبردار کر چکے ہیں کہ وہ ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ ہفتے کے دن ایک یمنی رہنما نے وارننگ دی کہ جو ملک بھی بحیرہ احمر میں امریکی اتحاد کا حصہ بنے گا وہ سمندر میں سکیورٹی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ انصاراللہ یمن کے ترجمان محمد عبدالسلام نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ یمنی عوام دھمکی آمیز لہجہ ہر گز برداشت نہیں کرتے۔ گذشتہ تین ماہ کے دوران یمنی رہنماوں نے ثابت کیا ہے کہ انہیں امریکی اور اسرائیلی حکام کی دھمکیوں کا کوئی خوف نہیں ہے لہذا وہ جب چاہتے ہیں بحیرہ احمر میں امریکی اور اسرائیلی کشتیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ حال ہی میں بحیرہ احمر میں امریکی جنگی کشتی کے قریب یمن کی ایک خودکش کشتی دھماکے سے پھٹ گئی۔ یہ انصاراللہ یمن کی جانب سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو وارننگ تھی۔
حال ہی میں ڈنمارک کی کمپنی میرسک نے اعلان کیا ہے کہ اس نے بحیرہ احمر میں کشتیوں کی آمدورفت عارضی طور پر بند کر دی ہے۔ اگرچہ امریکہ کا دعوی ہے کہ وہ بحیرہ احمر میں سکیورٹی برقرار کر سکتا ہے لیکن دیگر ممالک اس پر اعتماد نہیں کرتے لہذا انہوں نے بحیرہ احمر میں امریکی اتحاد میں شامل ہونے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ آبنائے باب المندب پوری طرح حوثی مجاہدین کے کنٹرول میں ہے اور امریکہ کی جانب سے کسی بھی فوجی کاروائی کی صورت میں وہ اس آبنائے کو مکمل طور پر بند کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو شدید اقتصادی دھچکہ لگے گا۔ اسرائیلی چینل 12 نے اعلان کیا ہے کہ نیتن یاہو جنگ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے اپنی کابینہ کے کچھ دفتر بند کرنا چاہتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر جنگ کا دائرہ بحیرہ احمر تک پھیلتا ہے تو امریکہ اور اسرائیل کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
اس وقت بحیرہ احمر پوری طرح انصاراللہ یمن کے کنٹرول میں ہے جبکہ اسے ملک کے اندر یمنی عوام کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے جس کے باعث وہ امریکہ سے ٹکر لینے کیلئے پرعزم ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ممکن ہے امریکہ اسرائیل کی حمایت کیلئے محدود پیمانے پر انصاراللہ کے خلاف فوجی کاروائی کرے۔ ایسی صورت میں بھی اس کے انتہائی نقصان دہ نتائج ظاہر ہوں گے۔ ایسی کاروائیاں نہ صرف انصاراللہ کی جانب سے پسپائی اختیار کرنے کا باعث نہیں بنے گی بلکہ ان کی جانب سے اسرائیلی کشتیوں اور اسرائیل پر حملوں کی شدت میں اضافہ ہو گا۔ تناو کی شدت میں اضافے کے باعث بحیرہ احمر اور قریبی سمندرے علاقے کی سکیورٹی متزلزل ہو جائے گی اور مغربی تجارت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ بحیرہ احمر اس وقت ایک بارود کی مانند ہے جسے چھوٹی سے چنگاری بڑے دھماکے میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ آیا امریکہ اسرائیلی مفادات کی خاطر بحیرہ احمر میں خودکشی کرنے پر تیار ہو گا یا نہیں؟
شہید سلیمانی نے مسئلہ فلسطین کو فراموشی کے سپرد ہونے سے بچایا
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ جب مسئلہ فلسطین اور مسجد اقصی کے دفاع کا تذکرہ ہوتا ہے تو شہید قاسم سلیمانی کا نام زبان پر آتا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور گفتار سے مسئلہ فلسطین کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
عراقی مرکز مطالعات کے سربراہ اور تجزیہ کار محمد صادق الہاشمی نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے شہید قاسم سلیمانی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے مہر نیوز کو اپنے انٹرویو میں کہا کہ شہید حاج قاسم سلیمانی نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی ہدایات کی روشنی میں فلسطین کے دفاع کے لئے قدم بڑھایا اور فلسطین میں سیاسی اور مقاومتی استحکام کے لئے اقدامات کئے۔
انہوں نے کہا کہ شہید سلیمانی نے مقاومت کے اندر شہادت کا جذبہ پیدا کیا اور مقاومتی تنظیموں کے درمیان رابطہ پل کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے لبنان اور خطے کے دیگر ممالک میں امریکہ، اسرائیل اور داعش جیسی تکفیری تنظیموں کے خلاف جنگ لڑی۔
فلسطینی اسلامی مقاومت کی کامیابیوں میں شہید سلیمانی کے کردار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ فلسطین میں ملنے والی کامیابیوں میں شہید سلیمانی کا کردار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ انہوں نے فلسطینی مقاومت کو سرنگوں اور مختلف انواع کے ہتھیاروں سے لیس کیا۔ فلسطینی مجاہدین کی تربیت کی۔ انہیں ثابت قدم رہنا سکھایا۔
مسئلہ فلسطین کے دفاع میں شہید سلیمانی کی خصوصی صفات کے بارے میں عراقی تجزیہ کار نے کہا کہ سب سے پہلا اور بڑا کام انہوں نے فلسطینیوں کو سیاسی طور پر متحد کیا اس کے بعد مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے مغربی اور عرب ممالک مسئلہ فسلطین کو دو ریاستی حل کے فارمولے کی نذر کرنا چاہتے تھے۔ شہید سلیمانی نے اس کو فراموشی کے سپرد ہونے سے بچاتے ہوئے عالم اسلام میں اہمیت کا اجاگر کیا۔
شہید سلیمانی نے فلسطینی مقاومت کو پتھر کے ذریعے مقابلہ کرنے کے دور سے نکال کر جدید ترین ہتھیاروں کے دور میں پہنچادیا۔ ان کی کوششوں کی مرہون منت سے آج فلسطینی تنظیموں نے طوفان الاقصی جیسی تاریخی کارروائی کرنے کی جرائت کی۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت پر خطباء و مداحان اہل بیت علیہم السلام سے خطاب
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین.
میرے اعتبار سے تو یہ جلسہ یہیں تک کافی ہے۔ واقعی ہم نے بہت استفادہ کیا اشعار سے بھی، مضمون سے بھی، مدح کے کلام سے بھی، انداز، آواز اور ہر چیز سے۔ سب سے پہلے صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کی عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالی کو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حرمت کا واسطہ دیتا ہوں کہ ہمارے اندر اس عظیم ہستی کی معرفت میں روز افزوں اضافہ کرے۔ اسی طرح آپ کے فرزند ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے فاطمی جہاد بنحو احسن انجام دیا اور کامیابی سے آگے بڑھے۔ ہمارے عزیز الحاج قاسم سلیمانی کی شہادت کا دن بھی ہے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم نے جو فضل و کرم خاندان پیغمبر پر کیا ہے، خاندان پیغمبر کے اس حقیقی پیرو کی روح پر بھی نازل فرمائے۔ ہمیں بھی ان سے ملحق کرے اور ان کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔
میں نے 'تشریح و بیان کے جہاد' کے بارے میں کچھ نکات آمادہ کیے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اس نشست میں وہ افراد تشریف فرما ہیں جو تشریح و بیان کے جہاد کے نقیب بن سکتے ہیں۔ اہل بیت کے مداحوں اور مکتب اہل بیت کی مدح سرائی کرنے والوں کی نشست مجاہدانہ تشریح و بیان کی نشست ہے۔ آج میرا موضوع گفتگو یہی ہے۔ دامن وقت میں جتنی گنجائش رہی اسی مقدار میں۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ممتاز اور نمایاں خصوصیات میں سے ایک نمایاں خصوصیت فاطمہ زہرا کا تشریح و بیان کا جہاد ہے۔ آپ نے دو بڑے منفرد اور معروف خطبے ارشاد فرمائے۔ ان دو میں سے ایک تو آپ کا وہی معروف خطبہ ہے: «اَلحَمدُ لِلَّهِ عَلىٰ ما اَنعَمَ وَ لہ الشُّکرُ عَلىٰ ما اَلھم»(۲) اصحاب کے درمیان یہ خطبہ دیا۔ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ نہج البلاغہ کے اعلی ترین خطبات کے ہم پلہ ہے۔ جو ماہرین بلاغت ہیں، جنہیں اس کا ادراک ہے، انہوں نے یہ رائے قائم کی ہے۔ حقائق و معارف سے مملو ہے۔ آپ کا ایک اور معروف خطبہ وہ ہے جو آپ نے مہاجر و انصار خواتین کو مخاطب کرکے دیا۔اَصبَحتُ وَ اللہِ عائِفۃ لِدُنیاکُم قالِیۃ لِرِجالِکُم»(۳) یا عائِفۃ لِدُنیاکُنَّ قَالِیۃً لِرِجالِکُنَّ» (۴) یہ دونوں خطبے رحلت پیغمبر کے بعد کی مختصر سی مدت میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے جہاد تشریح و بیان سے عبارت ہیں۔
آپ نے صحابہ کے درمیان جو خطبہ دیا اس کے بارے میں مرحوم مجلسی رضوان اللہ علیہ نے مختلف سلسلہ رواۃ کا ذکر کیا اور کئی سندیں پیش کی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دیگر علما نے معتبر اور اہم سند بیان کی ہیں۔ ابن ابی الحدید اس خطبے کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں شیعہ کتب اور شیعہ علما سے یہ چیزیں نقل نہیں کر رہا ہوں۔ میں اہل سنت راویوں کے حوالے سے نقل کر رہا ہوں۔ (5) وہ بیان کرتے ہیں کہ کس کے حوالے سے اس خطبے کو نقل کیا ہے اور وہ شخص 'ثقہ' یعنی معتبر راوی ہے۔ ساتھ ہی اس کی خصوصیات بھی بیان کی ہیں۔ وہ افراد کہ اس خطبے کی روایت جن کے ذریعے نقل ہوئي ہے چند لوگ ہیں۔ ان میں ایک جناب عائشہ ہیں۔ عائشہ حضرت زہرا کے خطبہ فدکیہ کے نقل کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔جناب زید ابن علی سلام اللہ علیہ و علی ابیہ سے منقول ہے کہ میں نے دیکھا کہ آل ابی طالب کے بزرگ افراد اسے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے تھے اور اپنی اولاد کو اس کے بارے میں بتاتے تھے تاکہ تاریخ میں یہ خطبہ محفوظ رہے۔ آپ کی عبارت اس طرح ہے: رَاَیتُ مَشایِخَ آلِ اَبی طالِبٍ یَروونہ عَن آبائہِم وَ یُعَلِّمونہُ اَبنائہُم۔ (۶) یعنی یہ خطبہ اس قدر معتبر ہے، اس درجے تک ہے۔ اس خطبے میں مضمون کے اعتبار سے فکری نظم اور محکم دلائل کے ساتھ ساتھ الفاظ کا استحکام، مایہ ناز زبان اور خاص ادبی کشش بھی شامل ہو گئی ہے۔ آپ ذرا تصور کیجئے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اٹھارہ سال کی خاتون، بیس سال کی خاتون، آپ کی حد اکثر عمر پچیس سال ذکر کی گئی ہے۔ ان مصائب کو برداشت کرتے ہوئے ایسے خطبے دیتی ہیں کہ بلاغت کی دنیا کی عظیم ہستیاں انگشت بہ دنداں رہ جاتی ہیں اور اسے بڑی حیرت سے دیکھتی ہیں۔
ایسے الفاظ و معانی سے آراستہ خطبے میں آپ وہ حقائق بیان فرماتی اور سامنے لاتی ہیں کہ جو لوگوں کی نظروں سے دور تھے یا لوگ ان کی طرف سے غافل تھے۔ اس خطبے میں بڑے معارف ہیں۔ اس میں توحید ہے، نبوت ہے، مسئلہ امامت و ولایت ہے، عدل و انصاف کا موضوع ہے۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے پیغمبر کے بعد یہ سنت قائم کی۔ آپ کے فرزندوں نے اور خاندان پیغمبر نے آپ کی پیروی فرمائی۔ امیر المومنین علیہ السلام کے خطبے، امام حسین علیہ السلام کا علما کو مخاطب کرکے دیا جانے والا خطبہ جو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا حیرت انگیز خطبہ ہے: اَنتُم اَیَّتہَا العِصابۃُ عِصابۃٌ بِالعِلمِ مَشھورَة ــ(۷) کوفہ میں حضرت زینب کا خطبہ، امام سجاد کا شام میں خطبہ، امام صادق علیہ السلام کا عرفات میں خطبہ جس میں آپ نے امامت کا مفہوم بیان فرمایا ہے۔: اَیّہَا النّاسُ اِنَّ رَسولَ اللہِ کانَ ھو الاِمام ــ(۸) یہ سب اسی سنت کا تسلسل ہیں جس کی داغ بیل صدیقہ طاہرہ نے ڈالی۔ یہ خطبہ دینے کی سنت اور حقائق کی تشریح و بیان کی سنت یہاں سے شروع ہوئی اور آگے بڑھتی رہی۔ جہاں تک ممکن تھا۔ کچھ مواقع ایسے بھی تھے جہاں یہ ممکن نہیں تھا۔
بعد میں اہل بیت کے اتباع میں محبان اہل بیت میں ممتاز اور نمایاں سخنوروں نے بھی اسی روش کو اپنایا اور شعر کی زبان میں حقائق بیان کئے۔ دوسرے اور اوسط درجے کے شعرا نہیں بلکہ صف اول کے شعرا نے۔ یہ معروف شعرا جن کے بارے میں آپ سنتے ہیں کہ انہوں نے اہل بیت کی مدح کی، اپنے زمانے میں دنیائے عرب کے صف اول کے شعرا تھے۔ فرزدق اپنے زمانے میں صف اول کے شاعر ہیں۔ کمیت اسدی صف اول کے شاعر ہیں، سید حمیری صف اول کے ممتاز شاعر ہیں۔ دعبل خزاعی صف اول کے شاعر ہیں۔ ابو الفرج اصفھانی نے ان شعرا کے تذکرے لکھے ہیں۔ بیس سے زیادہ جلدوں پر مشتمل کتاب اغانی میں جب سید حمیری تک پہنچتے ہیں تو چونکہ سید حمیری نے کھلے عام پوری صراحت کے ساتھ مخالفین اہل بیت کی ہجو کی ہے، تو کہتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ اس عظیم شاعر کے بارے میں کچھ باتیں کروں۔ کیونکہ واقعی یہ بہت عظیم ہیں، لیکن بعض صحابہ کے بارے میں انہوں نے کچھ ایسی باتیں کی ہیں کہ ان کو مد نظر رکھتے ہوئے میں زیادہ باتیں نہیں کروں گا بس تھوڑی مقدار میں کچھ باتیں بیان کروں گا۔ یہ 'تھوڑی مقدار' 50 صفحات پر مشتمل ہے۔ ان تمام شعرا سے زیادہ جن کا انہوں نے وہاں تذکرہ لکھا ہے۔ یعنی اس شاعر کی یہ عظمت ہے۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے علوم اہل بیت کو بیان کیا ہے۔ یہ صرف شاعری نہیں ہے، اہل بیت کی معرفتوں کو بیان کرنا ہے۔ یہ سارے نام جو میں نے ذکر کیے اور اسی طرح دوسرے بھی ہیں۔ دوسرے بھی بڑے عظیم شعرا ہیں، ان میں سب سے نمایاں یہ ہیں۔ وہ اس نہج پر چلے۔ یہ ائمہ علیہم السلام کے زمانے اور ائمہ کے بعد کی کچھ مدت کی تاریخ سے مربوط ہے۔
ہمارے زمانے میں تشریح و بیان کا جہاد کرنے والی سب سے عظیم ہستی امام خمینی تھے۔ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے جو سب سے بڑا کام انجام پایا وہ کام ہمارے عظیم قائد امام خمینی نے کیا۔ تشریح و بیان کے جہاد سے امام خمنیی نے وہ کارنامہ کیا کہ دوسرے افراد سافٹ پاور یا ہارڈ پاور کسی بھی شکل میں نہ تو انجام دے سکتے تھے اور نہ انہیں ایسی کوئی امید تھی۔ امام خمینی نے زبان سے اور منطقی بیان سے یہ کارنامہ انجام دیا۔ تشریح و بیان کا جہاد یہ ہوتا ہے۔ امام خمینی نے تحریک کے پہلے دن سے بیان کا سلسلہ شروع کیا تو اس دن تک جب آپ یہاں بہشت زہرا (تہران کا قبرستان) آئے اور کہا کہ میں اس حکومت کا منہ توڑ دوں گا، میں حکومت تشکیل دوں گا۔ (9) سب کچھ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے ہوا۔ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے آپ نے کیا کام کئے؟ تشریح و بیان کے جہاد کے ذریعے انہوں نے دیرینہ بد عنوان شرمناک ڈکٹیٹر اور استبدادی موروثی سلطنتی حکومت کو مٹا دیا اور اسلامی و دینی جمہوری حکومت تشکیل دی۔ تشریح و بیان کا جہاد ایسا ہوتا ہے۔ اس کی اتنی اہمیت ہے۔ یہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا سبق ہے جو اس طویل مدت میں جاری رہا اور امام خمینی تک پہنچا۔
علمائے دین کی جدوجہد اور علما کی تحریک کے زمانے میں کچھ دوسرے دھڑے بھی تھے جو کوشش کرتے تھے، کام کرتے تھے، محنت کرتے تھے، اسلحہ اٹھا کر میدان میں اتر پڑتے تھے۔ لیکن وہ کچھ نہیں کر پائے۔ یا کچل دئے گئے یا اپنے راستے سے بھٹک گئے۔ تشریح و بیان اسلامی جہاد و تحریک کی پہچان تھی۔ تہران میں ہم دوستوں کی نشست میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مشہد کا رہنے والا ایک نوجوان تھا، اسے میں پہچانتا تھا کہ وہ ان مسلح مارکسسٹ گروہوں میں شامل تھا۔ یکبارگی کسی کام سے وہاں آیا۔ اس سے ہماری بات شروع ہوئی۔ تھوڑی دیر بات ہوئی۔ یہ لوگ اس زمانے میں 'گروہ جنگل' کے نام سے معروف تھے۔ میں 1968 یا 1969 کی بات بتا رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ جب یہ سارے کام کر رہے ہیں تو عوام سے بات کیجئے۔ عوام کو معلوم ہی نہیں کہ آپ کون لوگ ہیں۔ اس نے کہا بھائی! یہ سب چیزیں اسلام اور مسلمانوں کی ہیں! یعنی انہیں تشریح و بیان کے جہاد پر کوئی یقین نہیں تھا۔ اس کی بات صحیح تھی۔ یہ ہماری روش تھی، اسلام کی روش تھی۔ ان کے پاس عوام کو قائل اور مطمئن کرنے والی باتیں نہیں تھیں، اس لئے وہ کامیاب نہیں ہوئے، مغلوب ہو گئے، کچل دئے گئے، ان میں بہت سارے تو منحرف ہو گئے۔ مگر امام خمینی نے تشریح و بیان کا راستہ اختیار کیا اور یہاں تک پہنچایا۔ یہ راستہ آج بھی جاری ہے۔
میں کیا عرض کرنا چاہ رہا ہوں؟ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج تشریح و بیان کے جہاد کی ذمہ داری آپ مداحان اہل بیت کے دوش پر ہے۔ حضرت صدیقہ طاہرہ کے ذریعے شروع کیے جانے والے اس مشن کو آج آپ آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہمیشہ ذہن میں رکھئے کہ اہل بیت کی مداحی سے کیا مراد ہے۔ مداحی سے مراد ان ہستیوں کے مشن کو انجام دینا ہے جنہوں نے تاریخ میں، اہل بیت کے دور میں مذہب کی حفاظت کی، تشیع اور شیعہ فکر کی حفاظت کی، یا ہمارے اس دور میں دنیا کو بدل دیا۔ ملک کے نظام کو طاغوتیت سے اسلامیت میں تبدیل کر دیا۔ یہ شعبہ اسی نورانی شعبے کا تسلسل ہے جس کا آغاز ان ہستیوں نے کیا۔ مداحی کو آپ اس نظر سے دیکھئے۔
مداحی کا ہنر اور 'ہیئت' نام کی یونٹ (ماتمی انجمن سے مشابہ) جس کا محور و مرکز مداح ہوتا ہے اور مداح کے ساتھ واعظ ہوتا ہے، یہ اسلامی معاشرے کی سافٹ پاور کا بہت اہم حصہ ہے۔ سافٹ پاور کا اثر و رسوخ ہارڈ پاور سے زیادہ ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں جیسے امریکا جس کے پاس ایٹم بم ہے، گوناگوں پیشرفتہ اسلحے ہیں، بہت اہم سرمایہ کاری آرٹ، سنیما، ہالی وڈ اور تشہیرات وغیرہ پر کرتا ہے؟ کیوں؟ کیونکہ سنیما سافٹ پاور ہے، داستان نویسی اور فلم سافٹ پاور کا حصہ ہے۔ یہ چیز ہے جو اثر رکھتی ہے۔ ہارڈ پاور کا اثر عارضی ہوتا ہے اور بعد میں زائل ہو جاتا ہے۔ ہارڈ پاور کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ آتا ہے افغانستان میں بیس سال ٹھہرتا ہے، اربوں خرچ کرتا ہے اور آخر میں عوام کی شدید نفرت کے ماحول میں افغانستان سے فرار ہو جاتا ہے۔ یہ ہارڈ پاور ہے۔ ہارڈ پاور یعنی یہ کہ امریکہ تمام تر وسائل کے ساتھ آتا ہے اور پورے عراق پر قبضہ کر لیتا ہے، عراق کی حکومت گرا دیتا ہے اور اقتدار کی کرسی پر خود بیٹھ جاتا ہے اور تقریبا بیس سال بعد آج عراق میں سب سے زیادہ نفرت انگیز حکومت امریکی حکومت ہے۔ یہ ہارڈ پاور ہے۔ سافٹ پاور یعنی ایک گروہ جو بظاہر اقلیت میں ہے لیکن اس کا روحانی و معنوی اثر بہت ہے، وہ ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔ آج آپ دیکھئے کہ مظلوم فلسطینی جن کے پاس دفاع نفس کے لئے اسلحہ نہیں ہے، اپنی مظلومیت سے، اپنے صبر سے اور اپنی استقامت سے ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لینے میں کامیاب ہوئے۔ یعنی ہارڈ پاور اور سافٹ پاور کا فاصلہ اتنا زیادہ ہے، دونوں کی تاثیر میں اس قدر فرق ہے۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مدحیہ کلام اور مرثیے سے مربوط صنف یعنی یہی مداح حضرات کی صنف جو اسلامی معاشرے کی سافٹ پاور کا ایک مجموعہ اور ایک حصہ ہے، اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا کیا کام ہے، اسے کیا کرنا ہے اور اس کا فرض کیا ہے۔ اسلامی معارف و علوم آپ کے شعبے کے اصلی مضامین ہیں۔ تاریخ اہل بیت، آپ کے کام کے اصلی مضامین ہیں، مصائب اہل بیت بھی آپ کے کام کے اصلی مضامین ہیں۔ یہ سارے مضامین بہترین زبان اور بہترین اسلوب میں انہیں خصوصیات کے ساتھ کہ جس کا آپ شیعہ تاریخ میں تشریح و بیان کے جہاد کے اندر مشاہدہ کرتے ہیں، آج بھی بیان کئے جائیں۔ توقع یہ ہے۔ اگر قرآن کی پرکشش تلاوت ہو، اچھے اشعار بہترین آواز اور انداز میں پیش کئے جائیں، اس اچھی آواز اور دلکش آہنگ میں صحیح اور اعلی مضامین پیش کئے جائیں تو دنیا کے بہت سارے ہارڈ پاور سے اس کا رسوخ زیادہ ہوگا، اس کی تاثیر زیادہ ہوگی۔ اس چالیس پینتالیس سال میں اسلامی جمہوریہ اسی انداز سے آگے بڑھی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا تکیہ اور اعتماد ہارڈ پاور سے زیادہ سافٹ پاور پر ہے۔ آپ یقینا جانتے ہیں کہ میں ضرورتوں کے مطابق اور دشمن کی توانائیوں کے مطابق پیشرفتہ اسلحہ جات پر یقین رکھتا ہوں اور اس کی کوشش میں رہتا ہوں لیکن میرا نظریہ یہی ہے کہ ہارڈ پاور اور اسلحہ جات کے ساتھ فکری ہتھیار، زبانی قوت اور محکم و مدلل منطق کا ہتھیار ہمارے بیچ پھیلنا چاہئے۔ یہ ہماری توقع ہے۔ ہمیں اپنے شعرا سے توقع ہے، اپنے مداح حضرات سے توقع ہے، خوش الحان گلوکاروں سے توقع ہے۔
اس سافٹ پاور کے دو اہم انڈیکیٹر ہیں جن پر پوری توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی آپ اپنی کارکردگی کو ان دو پیمانوں کے ذریعے تولیے۔ جذبات برانگیختہ کر دینے اور حرکت پیدا کر دینے کی صلاحیت اور دوسری چیز صحیح سمت اور دقت نظر۔ یعنی ہدف بالکل درستگی کے ساتھ معین کیا جائے۔ دیکھئے ایک چیز جس پر ہم نے اپنے میزائلوں میں بھی بڑی توجہ دی ہے اور اس میں کامیاب بھی رہے ہیں، وہاں پہنچ چکے ہیں، صحیح نشانہ لگانا ہے۔ یعنی دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ایک نشانہ لگاتا ہے اور عین اسی پوائنٹ پر جاکر گرتا ہے۔ یعنی اس پوائنٹ سے دس میٹر ادھر یا دس میٹر دوسری طرف نہیں! جو کام آپ انجام دے رہے ہیں اس میں بھی آپ اپنا نشانہ اس طرح لگائیے۔ یہ دونوں پیمانے مد نظر رکھئے۔ ایک تو یہ دیکھئے کہ جو باتیں آپ پیش کر رہے ہیں وہ کس حد تک جذبات و احساسات کو حرکت میں لا سکتی ہیں، دلوں کو کس قدر متاثر کر سکتی ہیں، کتنی حرکت پیدا کر سکتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس میں دقت نظر کتنی ہے۔ اقدام میں دقت نظر بہت اہم ہوتی ہے۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ ہم اچھا کام کرنا چاہتے ہیں، مگر جب بات کرتے ہیں تو اس بات کی نزاکتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ نتیجتا ایسے وقت میں جب دنیائے اسلام کو اتحاد کی اشد ضرورت ہے اختلاف پیدا کر دیتے ہیں، خلیج پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ دقت نظر نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ میری تاکید ہے کہ دینی معارف کو سمجھنے اور انہیں بیان کرنے میں دقت نظر سے کام لیا جائے۔ خوش قسمتی سے آج ہمارے ذاکرین اور مداح حضرات کی بڑی تعداد تعلیم یافتہ، پڑھی لکھی اور علمی مدارج طے کرنے والی، عربی داں، عربی فہم ہے، ان میں بہت سے ہیں جو قرآن سے بہت مانوس ہیں، روایتوں سے مانوس ہیں۔ آج یہی تو صورت حال ہے۔ آج مداح حضرات کی صنف ہماری نوجوانی کے ایام کے مداح حضرات جیسی نہیں ہے۔ مداحوں کی صنف عالی مرتبت اور پائے کی صنف ہے۔ ہماری توقع یہ ہے کہ معارف کو دقت نظر کے ساتھ، درستگی کے ساتھ مدح سرائی اور مرثیہ خوانی کے اسی ممتاز انداز میں سامعین تک منتقل کیا جائے۔ ہماری توقع یہ ہے۔
احادیث کی کتب سے آشنائی حاصل کیجئے، انسیت حاصل کیجئے، نہج البلاغہ سے خود کو مانوس کیجئے۔ نہج البلاغہ معارف و علوم کا سمندر ہے۔ نہج البلاغہ کے خطبوں کو جب آپ دیکھتے ہیں، خاص طور پر نہج البلاغہ کے بعض خطبے علم و معرفت میں اس طرح ڈوبے ہوئے ہیں کہ اس کے ایک لفظ کو انسان پھیلا سکتا ہے اور پوری ایک قوم کو متحرک کر سکتا ہے۔ صحیفہ سجادیہ سے خود کو مانوس کیجئے۔ صحیفہ سجادیہ کا قالب تو دعا کا قالب ہے، اس کے مندرجات میں تضرع ہے، دعا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں دینی معارف کا دریا موجزن ہے۔ صحیفہ سجادیہ مکتب اہل بیت میں بڑی حیرت انگیز شئے ہے۔ آپ غور کیجئے امام سجاد علیہ السلام صحیفہ سجادیہ میں سرحدوں کے محافظوں کے لئے دعا فرماتے ہیں۔ ایک دعا ہے جو سرحدوں کے محافظوں کے لئے ہے۔ اس وقت یہ کون لوگ تھے؟ ظاہر ہے کہ بنی امیہ کے سپاہی تھے۔ ان کے لئے دعا فرماتے ہیں۔ سرحدوں کا محافظ پھر سرحدوں کا محافظ ہے، اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت کر رہا ہے، وہ کوئی بھی ہو۔ سرحدوں کے محافظ کے لئے دعا کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے سبق ہے۔
دنیائے اسلام کی سرحد آج غزہ میں ہے۔ دنیائے اسلام کی نبض آج غزہ میں دھڑک رہی ہے۔ وہ دنیائے کفر، دنیائے طاغوت، دنیائے استکبار کے مقابلے میں اور امریکا کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کا مد مقابل فریق صرف صیہونی حکومت نہیں ہے۔ امریکی صدر (10) صریحی طور پر کہتا ہے کہ میں ایک صیہونی ہوں۔ (11) وہ صحیح کہہ رہا ہے۔ وہی خباثت جو صیہونیوں میں پائی جاتی ہے ان کے اندر بھی موجود ہے۔ وہی مذموم اہداف جو ان کے ہیں اس شخص کے ذہن میں بھی ہیں۔ غزہ کے عوام ان لوگوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ خصوصیات میں سے ایک یہی ہے کہ تشریح و بیان کے مجاہد کو معلوم ہوتا ہے کہ آج اسے کیا چیز بیان کرنا ہے۔ اسے در پیش مسئلے کا علم ہونا چاہئے۔ آج آپ غزہ کو بیان کیجئے۔ آج آپ کو چاہئے کہ اسلامی نظام سے ہونے والی دشمنیوں کو بیان کریں۔ اسلامی جمہوریہ کے خلاف کئی طرح کی دشمنیاں برتی جا ہی ہیں، دشمنانہ اقدامات کئے جاتے ہیں۔ فوجی و اسلحہ جاتی اقدامات وغیرہ کی جو بات ہے تو دشمن اسے اپنے لئے مناسب نہیں سمجھ رہا ہے۔ لیکن سافٹ پاور کے لحاظ سے، صرف امریکہ نہیں بلکہ امریکہ کے پچھلگو اور اسلام کے مخالفین بھی فلم بناتے ہیں، جھوٹا پرچار کرتے ہیں اسلام کے خلاف اسلامی نظام کے خلاف۔ سینہ سپر ہوکر کھڑا ہو جانا چاہئے۔
انتخابات ہمارے سامنے ہیں۔ (12) کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ انتخابات اس انداز سے ہیں جو اس ملت کے شایان شان ہے۔ کوشش کر رہے ہیں کہ عوام میں مایوسی پھیلائیں، بے اعتمادی پیدا کریں، یہ تاثر دیں کہ انتخابات کا کوئی فائدہ ہی نہیں، کوئی اثر ہی نہیں ہے۔ ایسے افراد کے مقابلے میں تشریح و بیان کا جہاد ڈھال بن کر کھڑا ہو جائے۔ ان کے مقابلے میں حقائق کو بیان کیا جائے۔ کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ملکی نظم و نسق چلانے میں عوام کا کردار جو در اصل ملک میں دینی جمہوریت کے نفاذ کو ثابت کرنے کا ذریعہ ہے، کمزور پڑ جائے، تاکہ بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی بات غلط ثابت ہو جائے۔ ان کا ہدف یہ ہے کہ وعدہ خداوندی کو جھوٹا ثابت کر دیں۔ یہ مخاصمانہ روش ہے۔ اس معاندانہ روش کا مقابلہ کرنے کے لئے محنت کرنا چاہئے۔ جو بھی انتخابات کی مخالفت کرے گویا اس نے اسلامی جمہوریہ کی مخالفت کی ہے، اسلام کی مخالفت کی ہے۔ انتخابات ایک فریضہ ہے۔ یہ ایک اہم کام ہے، آج انتخابات کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کا ادراک تشریح و بیان کے جہاد کے میدان کی مجاہد صنف کا ایک ہنگامی کام ہے۔
جب کچھ لوگ عوام میں اسلامی نظام کے بارے میں بدگمانی پیدا کرتے ہیں، عوام کو مستقبل کے تعلق سے مایوسی میں مبتلا کرتے ہیں، تو اسلامی نظام کے اندر جو ایک مضبوط پہلو ہوتا ہے وہ کمزوری میں بدل جاتا ہے۔ اسلامی نظام کا ایک اہم پہلو بد عنوانی سے لڑنا ہے۔ جیسے ہی کہیں کسی بد عنوانی کا پتہ چلتا ہے اور حکومت اور عہدیداران، عدلیہ کے عہیدیدار اور دوسرے افراد اس کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں، کہ جو ایک مضبوط پہلو ہے، یہ بدعنوانی کے خلاف کارروائی ہے، تو اسی اثنا میں کچھ لوگ نمودار ہوتے ہیں جو یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ جناب! دیکھئے یہاں تو بدعنوانی پھیلی ہوئی ہے! ہاں صحیح بات ہے، بد عنوانی موجود ہے، مگر جو چیز کمزوری اور خامی شمار ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بد عنوانی کو خاموشی سے برداشت کیا جانے لگے، بد عنوانی کا ساتھ دیا جائے۔ اگر بدعنوانی کے خلاف سختی سے کارروائی کی گئی تو یہ تعمیری پہلو ہے۔ اسی مضبوطی اور تعمیری پہلو کو کمزوری میں بدل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے عناصرکے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو جانا چاہئے۔ بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) ہرگز رعایت نہیں برتتے تھے، ہم کبھی کبھی رعایت برتتے تھے، لیکن امام خمینی کوئی رعایت نہیں دیتے تھے۔ بالکل صراحت کے ساتھ واضح لفظوں میں بات بیان کر دیتے تھے، جو بیان کرنا ضروری ہوتا تھا اسے بیان کر دیتے تھے۔ لوگوں کا نام بھی ذکر کر دیتے تھے، دھڑوں اور پارٹیوں کا نام ذکر کر دیتے تھے، تاکہ عوام کو پورا علم ہو جائے۔ اسی طرح سے امام خمینی اسلامی نظام کے ستونوں کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے۔ چالیس سال سے زیادہ وقت ہو چکا ہے لیکن آج بھی بحمد اللہ یہ عمارت رفعت حاصل کرتی چلی گئی ہے اور آئندہ بھی اس کی بلندی میں اضافہ ہوگا۔
ملت ایران کو اسلام سے محبت ہے۔ ملت ایران کو خود مختاری پسند ہے، قومی وقار پسند ہے۔ ملت ایران بڑی طاقتوں کی فرماں بردار بننے سے بیزار ہے۔ اسے یہ کلنک محسوس ہوتا ہے کہ طاغوتی شاہی دور کی طرح امریکی اور دوسری طاقتیں آکر اس ملت کے سامنے اترائیں اور اس پر حکم چلائیں۔ ملت ایران یہ چیزیں برداشت کرنے والی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی پشت پناہ بن کر کھڑی ہے۔ کیونکہ اسلامی جمہوریہ کا نعرہ قومی وقار کا نعرہ ہے، قومی خود مختاری کا نعرہ ہے، قومی پیشرفت کا نعرہ ہے۔ یہی اسلامی جمہوریہ کے نعرے ہیں۔ ملت ایران کو ان سے لگاؤ ہے اور یہ راستہ اللہ کا راستہ ہے۔ جو راہ خدا ہے اور اللہ کے بندے جس پر چلتے ہیں اس سے کوئی بھی طاقت انہیں پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔
تشریح و بیان کے قیمتی جہاد کو پوری توانائی اور قوت کے ساتھ ان شاء اللہ جاری رکھئے۔ اس گراں قدر میراث کو اپنے بعد والی نسل کو منتقل کیجئے۔ اگر نوجوانوں کو احساس ہو جائے کہ ان کے پیشرؤوں کے تعلق سے ان کا فریضہ کئی گنا زیادہ ہے تو ان شاء اللہ ہم روز بروز زیادہ پیشرفت کا مشاہدہ کریں گے۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۱ اس ملاقات کے آغاز میں کچھ شعرا اور مداحوں نے اہل بیت علیہم السلام کی مدح میں کلام پیش کیا۔
۲ بحارالانوار، جلد ۲۹، صفحہ ۲۲۰
۳ معانی الاخبار، صفحہ ۳۵۴
۴ امالی طوسی، صفحہ ۳۷۴، مجلس نمبر 13
۵ شرح نهج البلاغه، جلد ۱۶، صفحہ ۲۱۰
۶ ابن ابی الحدید. شرح نهج البلاغه، جلد ۱۶، صفحہ ۲۵۲
۷ تحف العقول، صفحہ ۲۳۷
۸ اقبالالاعمال، جلد ۱، صفحہ ۳۳۰
۹ صحیفه امام، جلد ۶، صفحہ ۱۶؛ تہران کے قبرستان بہشت زہرا میں 1 فروری 1979 کا خطاب
۱۰ جو بائیڈن
۱۱ منجملہ جو بائیڈن کا دسمبر 2023 میں 'حانوکا' نام کی یہودیوں کی عید کے دن کا خطاب۔
۱۲ بارہویں پارلیمنٹ کے انتخابات اور ماہرین اسمبلی کے چھٹے دور کے انتخابات جو 1 مارچ 2024 کو منعقد ہونے والے ہیں۔
حضرت زهرا(س) کے ہر نام کی تفسیر ہونی چاہیے
مذہب اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کاوشوں سے، انسانی وقار، انصاف اور آزادی کو حقیقی معنویت حاصل ہوئی۔ خدا کے پیغمبر نے دو اصولوں کے مطابق دین اور اس کی اعلیٰ اقدار کے تحفظ اور تحفظ کو متعارف کرایا۔ ایک قرآن اور دوسرا اہل بیت (ع) جو اس آسمانی کتاب کے حقیقی ترجمان اور حقیقی عمل کرنے والے تھے۔ فاطمہ زہرا (س) جو پیغمبر اکرم (ص) کے خاندان کا حصہ بنیں اور نبوت اور امامت کے درمیان ربط پیدا کرنے والی تھیں، ایک حدیث پاک میں اس طرح بیان کی گئی ہیں: «یـا أَحْمَدُ! لَوْلاکَ لَما خَلَقْتُ الْأَفْلاکَ، وَ لَوْلا عَلِىٌّ لَما خَلَقْتُکَ، وَ لَوْلا فاطِمَةُ لَما خَلَقْتُکُما»؛ اے احمد اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا نہ بناتا اور اگر علی نہ ہوتا تو تمہیں پیدا نہ کرتا اور اگر فاطمہ نہ ہوتی تو میں تم دونوں کو نہ بناتا۔"
کوثر قرآن حضرت فاطمہ زہرا (س) کا یوم ولادت ان کے خصوصی مقام سے خطاب کا بابرکت موقع ہے اور اس موقع کو علمائے دین اور عالمان با عمل کے کلام کے سائے میں فرصت ملتی ہے کہ بات کی جائے۔ اسی بنا پر بین الاقوامی قرآنی خبر رساں ایجنسی (IQNA) نے آیت اللہ شبری زنجانی کو اپنی خصوصی پیغام کی درخواست پیش کی ہے اور اس عالم دین نے ایک خط میں ان مبارک ایام کی مبارکباد دیتے ہوئے حضرت زہرا کی سیرت کے بارے میں چند نکات بیان کیے ہیں۔
خدا کے با برکت نام سے:
الْحَمْدُ لِلَّهِ إِجْلَالًا لِقُدْرَتِهِ، وَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خُضُوعاً لِعِزَّتِهِ، وَصَلَّی اللَّهُ عَلَی مُحَمَّدٍوَآلِه.
ورد بأسناد عديدة عن رسول الله صلي الله عليه و آله: إِنَّمَا سُمِّيَتْ اِبْنَتِي فَاطِمَةَ لِأَنَّ اَللَّهَ عَزَّوَجَلَّ فَطَمَهَا وَ فَطَمَ مَنْ أَحَبَّهَا مِنَ اَلنَّارِ.
20 جمادی الآخرہ، یوم ولادت خاتونِ جنت کے موقع پر، میں امکانات کی دنیا کے قطب حضرت بقیۃ اللہ کی بارگاہ میں حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ولادت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس خدائی ذخیرے کو جلد از جلد حاصل کرنے کی خواہش کرتا ہوں۔
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لخت جگر حضرت صدیقہ طاہرہ (س) کے بارے میں بات کرنا بہت مشکل ہے، ہم ایک ایسے کردار کے بارے میں کیسے بات کریں جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت جبرائیل امین علیہ السلام پچھتر دن تک آپ کے پاس آتے رہے اور تسلی دیتے، آپ نے ان کے لیے حضرت خاتمی مربت کے مقام و مرتبہ کے بارے میں بات کی اور انہیں بتایا کہ ’’ہم ایک ہیں‘‘؟! حضرت وصی، جو پیغمبر اکرم (ص) کے بعد پیغمبر کے محسن ہیں، امیر المومنین علی (ع)، امین وحی نے ان الفاظ کو "مصحف فاطمہ" نامی کتاب میں تحریر کیا ہے، جو دشمنان دین کے مکروہ بیانات کے برعکس ہے۔ اس میں، قرآن سے، یہ کچھ نہیں ہے۔ بیس سے زائد روایات میں اس کتاب اور اس کے خدوخال پر بحث کی گئی ہے، جن میں سے اکثر کے پاس مستند دستاویزات ہیں۔
مشہور کتابوں میں اس خاتون کے فضائل کو کئی بار بیان کیا گیا ہے۔ دوسری چیزوں کے علاوہ، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی ایک روایت میں بھی ذکر ہے (جس میں سے اکثر نے اس روایت کی سند کی تصدیق کی ہے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ایک فرشتہ جو ابھی زمین پر نہیں اترا تھا اس نے رب سے اجازت طلب کی کہ وہ مجھے سلام کرے اور مجھے یہ بشارت دے کہ جنت کی عورتوں کی خاتون فاطمہ اور حسن و حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
نیشابوری کے گورنر ان کے بارے میں کہتے ہیں: ایک صحیح روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ جب بھی آپ رسول گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ چومتے، اور یہ سلوک۔ اپنی والدہ خدیجہ کی عزت سے بڑھ کر تھا۔
اس کے بعد اس نے ایک دستاویز کے ساتھ عائشہ کا حوالہ دیا جس کے سچ ہونے کی تصدیق میں نقل کی جاتی ہے کہ
"میں نے فاطمہ (س) سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کلام کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ فاطمہ سلام اللہ علیہا جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو سلام کرتے اور کھڑے ہو کر ان کے پاس جاتے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کا بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو کر آتے اور کھڑے ہو کر حضرت کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عالم نزع کے وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا داخل ہوئیں۔ حضرت نے سلام کیا اور بوسہ دیا اور چپکے سے بات کی۔ وہ رو پڑا۔ اس نے پھر چپکے سے اس سے بات کی۔ وہ ہنسا، میں نے (اپنے آپ سے) کہا کہ میں نے اس عورت کو نیکی سمجھا، اب میں دیکھتا ہوں کہ یہ دوسری عورتوں کی طرح ہے۔ وہ روتے ہوئے ہنستا ہے! میں نے اس سے اس بارے میں پوچھا۔ اس کے جواب میں اس نے اشارہ کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو ظاہر نہیں کریں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے آپ سے اس بارے میں پوچھا۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خفیہ طور پر بتایا کہ میں مر رہا ہوں اور میں رو پڑی۔ پھر اس نے چپکے سے کہا کہ میں اس کے رشتہ داروں میں پہلا شخص ہوں جو اس کے ساتھ ملونگا۔
رب کے اس محبوب کے پیارے نام، ہر ایک، اس کی بے شمار خوبیوں کا ایک گوشہ ظاہر کرتا ہے، اور ہر نام کی وضاحت اور تشریح میں تفیسر کہنے کی ضرورت ہے۔
اس مبارک موقع پر میں اپنے آپ کو اس حدیث مبارکہ کے ترجمے تک محدود رکھوں گا جس نے اس خط کے آغاز کو مزین کیا ہے، اور میں اس خاتون کی شفاعت کے لیے تقدس مآب کے مداحوں کے لیے دعا گو ہوں:
بہت ساری دستاویزات کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) سے نقل ہوا ہے کہ "میری بیٹی کا نام فاطمہ رکھا گیا کیونکہ خدا نے اسے اور اس کے چاہنے والوں کو جہنم کی آگ سے نکال دیا ہے۔"
اسرائیل کو صالح العاروری کی شہادت کی بھاری قیمت چکانا ہوگی، حزب اللہ کا انتباہ
اسلام ٹائمز۔ حزب اللہ نے اسرائیلی ڈرون حملے میں پانچ ساتھیوں سمیت حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو صالح العاروری کی شہادت کی بھاری قیمت چکانی ہوگی۔ حزب اللہ نے اپنے بیان میں کہا کہ حماس کے سینیئر رہنماء صالح العاروری کی شہادت سے یمن، شام اور عراق کے سپورٹنگ محاذوں پر مزاحمت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئے گی۔ بیروت کے مرکز میں حماس رہنماء پر حملے کو لبنان کے عوام، سکیورٹی اور خود مختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے حزب اللہ کا کہنا تھا کہ اس حملے کا اسرائیل کو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ حزب اللہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اسرائیل کے اس جرم کو ایسے ہی نظرانداز نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کا بھرپور بدلہ لیا جائے گا، ہمارے مزاحمت کار اپنے اصولوں، اپنے وعدوں اور اپنی کمٹمنٹ کو نبھانے کیلئے بندوقوں کے ٹرگر پر اپنی انگلیاں جما کر مکمل طور پر تیار ہیں۔
بیروت میں حماس رہنماء پر اسرائیلی ڈرون حملے اور غزہ جنگ کا دائرہ لبنان تک پھیلانے کی صیہونی سازش کے بعد حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ بھی آج اہم خطاب کریں گے۔ دوسری جانب حماس کے رہنماء اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ فتح اور آزادی تک جہاد جاری رہے گا۔ لبنان کے وزیراعظم نجیب میقاتی کا کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ میں ناکامی کے بعد لبنان کو محاذ آرائی کے نئے مرحلے میں لے جانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لبنان اسرائیلی حملوں کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شکایت کرے گا۔ ایران نے بھی اسرائیل کو خبردار کر دیا ہے کہ حماس رہنماء کا قتل اسرائیل کے خلاف مزاحمت مزید بڑھائے گا۔ اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ حماس رہنماء کے قتل کے بعد صورتِ حال انتہائی پریشان کُن ہوگئی ہے