
سلیمانی
نامه اعمال کیسی کتاب ؟
آیت 13، سورہ مبارکہ اسراء کی مجموعی آیات میں سے ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:«وَ كُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَ نُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً اقْرَأْ كِتابَكَ» اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو اس کے گلے کا طوق بنا دیا ہے، اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب نکالیں گے جو وہ کھلی ہوئی پائے گا۔ (اس سے کہا جائے گا:) 'اپنی کتاب پڑھو۔'
اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہر انسان کے تمام اعمال، تفصیلات کے ساتھ، ایک کتاب میں درج کیے گئے ہیں، اور قیامت کے دن اگر وہ نیکوکار ہے تو اس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، اور اگر بدکار ہے تو بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
یہ کتاب عام کتاب یا دستاویز نہیں ہے، اسی لیے کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ نامۂ اعمال دراصل "انسان کی روح" ہے جس میں تمام اعمال کے اثرات ثبت ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہم جو بھی عمل انجام دیتے ہیں، اس کا ہماری روح اور شخصیت پر اثر ضرور ہوتا ہے۔
قرآنی آیات اور روایات میں نامۂ اعمال کی تفصیل اور تشریح کا بنیادی مقصد تربیتی اثرات پیدا کرنا ہے۔ جس شخص کو یہ علم ہو کہ ہر وقت ایک ریکارڈر اور کیمرہ اس کے اعمال اور اقوال کو ریکارڈ کر رہا ہے، چاہے وہ خلوت میں ہو یا جلوت میں، اس کے باطن اور ظاہر کو محفوظ کر رہا ہے اور بالآخر قیامت کے دن یہ تمام ریکارڈز ایک عظیم عدالت میں پیش کیے جائیں گے، تو یقیناً ایسا شخص اپنی زندگی میں احتیاط کرے گا اور تقویٰ اختیار کرے گا۔
نامۂ اعمال پر ایمان، جس میں ہر چھوٹا اور بڑا عمل درج ہے، اور ان فرشتوں پر ایمان جو دن رات انسان کے اعمال کو ریکارڈ کرتے ہیں، قیامت کے دن جب یہ نامہ اعمال سب کے سامنے کھول دیا جائے گا اور تمام چھپے گناہ ظاہر ہو جائیں گے، یہ سب باتیں گناہوں سے باز رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
اسی طرح نیکوکاروں کا نامۂ اعمال ان کے لیے باعثِ عزت اور فخر ہوگا، اور اس کا اثر عام ریکارڈنگ یا فلم سے بھی زیادہ ہوگا، اور یہی چیز نیکی کے اعمال کی ترغیب دیتی ہے۔ البتہ بعض اوقات ایمان کی کمی یا غفلت کے حجاب کی وجہ سے انسان ان حقائق سے دور ہو جاتا ہے، ورنہ اس قرآنی حقیقت پر ایمان ہر انسان کی تربیت کے لیے کافی ہے۔
اکثر صہیونی حماس سے معاہدہ چاہتے ہیں
ایکنا نیوز، نیوز عرب 48 کے مطابق، اسرائیل کی چینل 12 کے سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ طویل جنگ کے باعث صہیونی شہریوں کی ترجیحات تبدیل ہو رہی ہیں۔
اس سروے کے مطابق، 69 فیصد صہیونیوں کا ماننا ہے کہ اس وقت سب سے اہم مقصد غزہ میں قید اسرائیلی قیدیوں کے تبادلے کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنا ہے، جبکہ 20 فیصد کا خیال ہے کہ غزہ میں جنگ کو جاری رکھنا سب سے اہم مقصد ہے۔
جب بات نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ کے موازنے کی آتی ہے، تو بینیٹ نے سروے میں شامل افراد میں سے 37 فیصد ووٹ حاصل کیے، جبکہ صرف 35 فیصد نے نیتن یاہو کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے بہتر انتخاب سمجھا۔
نیتن یاہو کو اسلامی مزاحمت کا سامنا کرنے میں ناکامی اور غزہ اور لبنان میں سنگین جرائم کے ارتکاب کے باعث ایک طرف صہیونیوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے، اور دوسری طرف غزہ اور لبنان میں جنگی جرائم کے ارتکاب کے سبب انہیں بین الاقوامی عدالت کی طرف سے بھی مذمت کا سامنا ہے۔/
امریکی انصاف کا مذاق
ٹرمپ پر عائد فرد جرم
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ متعدد مقدمات میں ڈونلڈ ٹرمپ پر فرد جرم عائد ہو چکی ہے جن میں نیویارک میں ان کی کمپنیوں کی ٹیکس چوری، فحش فلموں کی اداکارہ کو خاموشی اختیار کرنے کے لیے رشوت دینا اور اسے چھپانا، 6 نومبر 2021ء کے دن کانگریس پر حملہ اور ہنگامے اور اپنے ذاتی گھر (فلوریڈا میں ڈونلڈ ٹرمپ کا ذاتی بنگلہ پام بیچ) میں خفیہ دستاویزات رکھنا شامل ہیں۔ 2024ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت، نیویارک میں ان کے مقدمات کی سماعت کرنے والے جج کے سامنے یہ سوال اٹھاتی ہے کہ "کیا وہ منتخب صدر کو سزا سنا کر عدالتی کاروائی کا عمل جاری رکھ سکتے ہیں؟ یا کیا یہ مسئلہ ٹرمپ کو اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھانے سے روک سکتا ہے؟ ان مقدمات کی سماعت کرنے والے جج، خوان ایم مرچن نے سماعت کم از کم 19 نومبر تک ملتوی کر دی ہے تاکہ وہ اور دونوں فریقین کے وکلاء یہ دیکھ سکیں کہ آگے کیا ہونا چاہیے۔
لہذا عدالت کے جج نے ٹرمپ کے خلاف مقدمات کا فیصلہ سنانے کی تاریخ 26 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔ مئی 2024ء میں، ڈونلڈ ٹرمپ کو نیویارک میں "کاروباری دستاویزات" کی جعل سازی کے مقدمے میں 34 الزامات میں قصوروار پایا گیا۔ ججوں کے بینچ کے مطابق، ان پر فحش فلموں میں ایک اداکارہ کو خاموشی اختیار کرنے کے لیے رشوت دینے کے مقدمے میں تمام الزامات ثابت ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کے وکلاء نے جج مرچن سے کہا ہے کہ وہ سزا سنانے کا عمل روک دیں۔ ایسا فیصلہ جس میں امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ایک سابق اور آئندہ صدر کو سزا سنائی جائے گی۔ البتہ جج خوان مرچن کے پاس ایک اور راستہ بھی ہے جس کے ذریعے وہ عدالتی کاروائی بھی نمٹا سکتا ہے اور صدر کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ کی سرگرمیوں میں کسی قسم کا خلل پیدا ہونے کی روک تھام بھی کر سکتا ہے۔
بغیر سزا کے جرم
اگر جج مرچن چاہے کہ اعلان شدہ ایجنڈے کے مطابق عدالتی کاروائی بھی آگے بڑھے اور امریکی صدر ہونے کے ناطے ڈونلڈ ٹرمپ کے سرکاری فرائض میں کوئی رکاوٹ بھی پیش نہ آئے، تو وہ ان کے خلاف جاری مقدمات میں سزا سنائے جانے کے عمل کو 2029ء میں ان کی مدت صدارت ختم ہونے تک ملتوی کر سکتا ہے۔ اس وقت تک ٹرمپ 82 سال کے ہو جائیں گے اور ان کے خلاف عائد الزامات سے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہو گا۔ ایک اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ 2029ء تک ان مقدمات کا جج تبدیل ہو جانے اور مقدمات خود بخود ختم ہو جانے کا امکان بھی پایا جاتا ہے۔ اگر جج مرچن سزا کا عمل ٹرمپ کی مدت صدارت ختم ہونے تک مؤخر کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو عین ممکن ہے وہ خود جج باقی نہ رہ سکیں کیونکہ اس وقت تک وہ ریٹائر ہو جائیں گے۔ یوں ٹرمپ کو کوئی سزا نہیں ملے گی۔
ایسا مقدمہ جسے ختم ہونا چاہیے!
یہاں ایک دوسرا راستہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ٹرمپ کے خلاف جاری عدالتی کاروائی اختتام پذیر ہو جائے۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے مقدمے کا جج، خوان مرچن، ٹرمپ کی جانب سے استغاثہ کو منسوخ کرنے کی سابقہ درخواست کے ساتھ ساتھ اس ملک کے سابق صدور کے عدالتی استثنیٰ کے حوالے سے جولائی میں امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا سہارا بھی لے سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، ٹرمپ اپنے ذاتی اختیارات استعمال کیے بغیر بھی اپنے خلاف عدالتی کاروائی کو اس مرحلے میں اختتام پذیر تصور کر سکتے ہیں! جج نے اس سے پہلے کہا تھا کہ وہ منگل کو ٹرمپ کے مقدمے کا فیصلہ جاری کریں گے تاہم یہ فیصلہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے پہلے کیا گیا تھا۔ ٹرمپ کے وکلاء نے دلیل پیش کی ہے کہ استغاثہ نے اس مقدمے کو غیر معتبر کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پیش کی جانے والی گواہیاں اور دستاویزات، ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت سے متعلق ہیں۔ جج ممکن ہے ایک نئی عدالت تشکیل پانے کا حکم دے ڈالے، جس صورت میں اس کی تشکیل ٹرمپ کی مدت صدارت کے خاتمے سے پہلے ممکن نہیں ہو گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ، 34 الزامات میں سزا سنائے جانے کے باوجود (جن کا تعلق چار اہم مقدمات سے ہے)، آسانی سے سزا سے بچ سکتے ہیں اور وہ اس بچ جانے کو قانونی بھی قرار دے سکتے ہیں! یہ ہے امریکی انصاف! ایسا انصاف جس میں جرم ثابت ہو جانے کے بعد بھی صدر کو سزا نہیں ملتی۔ یہاں کئی اہم سوالات اور ابہامات پائے جاتے ہیں، جیسے: ٹرمپ کے خلاف مختلف مقدمات کی سماعت گزشتہ چار سالوں میں کیوں ملتوی ہوتی رہی؟ عدالتی اور سیکورٹی اداروں نے انتخابات تک ان کے خلاف حتمی فیصلہ کیوں نہیں آنے دیا؟ جواب واضح ہے: امریکی عدالتی نظام کا مکمل طور پر سیاسی ہونا اور اس ملک میں بنیادی ترین قوانین کا بھی حقیقی نہ ہونا۔
صیہونی، حزب اللہ لبنان کے پنجوں میں
ان دنوں جنوبی لبنان میں غاصب صیہونی رژیم کے میدان جنگ سے بہت کم خبریں موصول ہو رہی ہیں اور اگرچہ جھڑپیں بدستور جاری ہیں لیکن صیہونی فوج کے زمینی حملوں کی شدت میں کمی واقع ہوئی ہے اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں جنوبی لبنان میں زمینی کاروائی ختم ہونے کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ حال ہی میں صیہونی ٹی وی چینل 13 نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جنوبی لبنان میں زمینی کاروائی شروع ہونے کے ایک ماہ بعد اسرائیل یہ کاروائی اختتام پذیر ہونے کا اعلان کرنے والا ہے۔ اسی طرح اسرائیل کے چند دیگر میڈیا ذرائع نے بھی سیکورٹی ذرائع کے بقول ایسی رپورٹس شائع کی ہیں جن میں لبنان میں فوجی کاروائی ختم ہو جانے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر بھی لبنان میں جنگ بندی کے لیے سفارتکاری جاری ہے۔
عام طور پر فوجی کاروائی کا اختتام پذیر ہونا دو اصولوں کے تابع ہوتا ہے: یا تو جارح قوت اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کر چکی ہو اور مزید جنگ جاری رکھنے کی کوئی معقول وجہ نہ پائی جاتی ہو، یا اس کے برعکس، جارح قوت شکست کا شکار ہو چکی ہو اور مطلوبہ اہداف کے حصول میں کامیابی کی بھی کوئی امید دکھائی نہ دے رہی ہو۔ جنوبی لبنان میں ان دونوں احتمالات میں سے کون سا احتمال حقیقت کے زیادہ قریب ہے؟ کیا غاصب صیہونی رژیم اپنے اعلان کردہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے؟ ان سوالات کا جواب پانے کے لیے درج ذیل نکات پر غور کریں:
1)۔ صیہونی حکمرانوں کو توقع تھی کہ حزب اللہ لبنان کے اعلی سطحی سیاسی و فوجی کمانڈرز، خاص طور پر سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کی شہادت کے بعد اس تنظیم کا شیرازہ بکھر جائے گا اور اس کے بعد ایک مختصر فوجی کاروائی کے ذریعے حزب اللہ کو مطلوبہ شرائط مان کر جنگ بندی پر مجبور کر لیا جائے گا۔
لیکن میدان جنگ اور میدان سیاست کے زمینی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم لبنان میں مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائی ہے۔ مغربی اور صیہونی تجزیہ کاروں کی بڑی تعداد اس بات پر زور دے رہی تھی کہ شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ لبنان کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور یوں وہ فتح کے گن گانے میں مصروف تھے۔ لیکن یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ اسلامی مزاحمت کی کوئی اہم اور بڑی شخصیت ٹارگٹ کلنگ یا اغوا کے ذریعے میدان سے باہر نکال دی گئی ہو۔ امام موسی صدر سے لے کر سید عباس موسوی تک اور اب سید حسن نصراللہ اور عظیم فوجی کمانڈرز جیسے عماد مغنیہ، فواد شکر اور ابراہیم عقیل کی شہادت نے حزب اللہ لبنان کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں ڈالا اور نہ ہی اس کے مجاہدین کا ایمان اور عزم راسخ کمزور کیا ہے۔
2)۔ میدان جنگ کی صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبنان سے مقبوضہ فلسطین پر جاری میزائل حملے نہ صرف تعطل کا شکار نہیں ہوئے بلکہ روز بروز ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور آئے دن نئی یہودی بستیوں اور نئے فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اب تو تل ابیب اور حیفا جیسے بڑے شہر بھی ان حملوں کی زد میں ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس نے غاصب صیہونی حکمرانوں کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے اور وہ اس کی بالکل توقع نہیں رکھتے تھے۔ دو دن پہلے عبری زبان میں شائع ہونے والے صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوت نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا تھا: "فوج کی جانب سے سرحد پر حزب اللہ کے ٹھکانے تباہ کر دینے اور اس کے میزائل نابود کر دینے کے اعلان کے باوجود حزب اللہ کی فورسز بدستور انہی سرحدی علاقوں سے شمالی اسرائیل کو میزائل اور راکٹ حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔"
یہ اخبار مزید لکھتا ہے: "اس کی ایک مثال ہفتے کے دن ایون مناخم یہودی بستی پر حملہ ہے۔ مزید برآں، اسرائیلی فوج کو لبنان میں 40 روزہ زمینی کاروائی کے دوران شدید جانی نقصان ہوا ہے اور کم از کم 100 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 1000 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔"
3)۔ ایک طرف حزب اللہ لبنان اپنے مرکزی رہنماوں اور کمانڈرز کی شہادت کے صدمے سے باہر آ چکی ہے جبکہ دوسری طرف اس کی طاقت بھی مکمل طور پر بحال ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم اندرونی طور پر سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے شدید بحرانی حالات سے روبرو ہے اور یہ بحران دن بدن مزید شدید ہوتا جا رہا ہے۔ کابینہ میں جاری اقتدار کی جنگ کے نتیجے میں وزیر جنگ یوآو گالانت کو اس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور نیتن یاہو کے مخالفین بھی اس کے خلاف اپنا دباو بڑھاتے جا رہے ہیں۔
4)۔ اگرچہ کچھ حلقے امریکہ کے صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو بنجمن نیتن یاہو کے حق میں مفید سمجھتے ہیں لیکن یہاں اس نکتے پر توجہ ضروری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی ایک اہم وجہ وہ وعدے تھے جو انہوں نے الیکشن مہم کے دوران مغربی ایشیا اور یوکرین میں جنگ بند کروانے کے بارے میں دیے تھے۔ اسی طرح کملا ہیرس کی شکست کی ایک بنیادی وجہ غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کے قیام میں ڈیموکریٹک حکومت کی ناکامی تھی۔ لہذا امریکہ میں مقیم مسلمان اور عرب شہریوں نے کملا ہیرس کو ووٹ دینے سے گریز کیا تھا اور ڈیموکریٹس کا ووٹ بینک بری طرح متاثر ہوا تھا۔ اسرائیلی میڈیا نے اعلان کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی آئندہ کابینہ جنگ بندی کے لیے نیتن یاہو پر دباو ڈالے گی۔
5)۔ لہذا غاصب صیہونی حکمرانوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ کوئی کامیابی حاصل کیے بغیر ہی لبنان کے محاذ سے پیچھے ہٹ جائیں اور یہ نیتن یاہو حکومت کے لیے ذلت آمیز شکست ثابت ہو گی۔
تحریر: محمد شریفی
قرآن و عترت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی زبانی
قرآن و عترت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی زبانی
خدا کا نور اور کائنات کی روشنی
حديث- ۱ - مِن دُعاءِفاطِمَةَ الزَّهراءعليهاالسلام:بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ بِسْمِ اللّهِ النُّورِ بِسْمِ اللّهِ نُورِ النٌّورِ بِسْمِ اللّهِ نُورٌ عَلى نُورٍ بِسْمِ اللّهِ الَّذى هُوَ مُدَبِّرُ الأُمُورِ بِسْمِ اللّهِ الَّذى خَلَقَ النُّورَ مِنَ النُّورِ اَلْحَمْدُلِلّهِ الَّذى خَلَقَ النُّورَ مِنَ النُّورِ وَاَنْزَلَ النُّورَ عَلَى الطُّورِ فى كِتابٍ مَسْطُورٍفي رَقٍّ مَنْشُورٍ بِقَدَرٍ مَقْدُورٍ عَلى نَبِىٍّ مَحْبُورٍ[مهج الدعوات۷]
بنام خدائے رحمن رحیم، خدا کے نام سے جو نور ہے، وہ خداجس کے اسم گرامی نور ہی نور ہے، خدا کے نام سے جو نور کے اوپر نور ہے، خدا کے نام سےجو تمام امور کےمدبرہےوہ خدا جس نےنور کو نور سے نور خلق کیا۔
پروردگار عالم کی حمد و ثنا اور خدا کاشکر ہے جس نے نور سے نور خلق فرمایا اوركوه(پہاڑ)طور پر نور نازل کیا، (اس کے اندر ایک ) کتاب تحریر ہے،بنی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایک مبارک وسیع طومار میں تقدیر و نعمت کے مطابق لکھا ہواہے۔
میں فاطمه ہوں
حديث-۲- مِن خُطبَتِها عليهاالسلام: اَيُّهَا النّاسُ اِعْلَمُوا اَنّى فاطِمَةُ وَاَبى مُحَمَّدٌ اَقُولُ عَوْدا وَبَدْءا وَلا اَقُولُ ما اَقُولُ غَلَطا وَلا اَفْعَلُ ما اَفْعَلُ شَطَطا « لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ اَنْفُسِكُمْ عَزيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَريصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤمِنينَ رَؤُوفٌ رَحيمٌ» [بخشى از خطبه بزرگ، احتجاج، ج1: 134]
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنےمشہورخطبہ فدکیہ کے ایک حصہ میں فرماتی ہیں:
اے لوگو!
جان لو میں فاطمہ ہوں، میرے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے، میری پہلی اور آخری بات یہی ہے،جو میں کہہ رہی ہوں وہ غلط نہیں ہےاور جو میں انجام دیتی ہوں بے ہودہ نہیں ہے۔
“خدانے تم ہی میں سے پیغمبر کو بھیجاتمھاری تکلیف سے انہیں تکلیف ہوتی تھی وہ تم سے محبت کرتے تھے اورمومنین کے حق میں دل سوز وغفورورحیم تھے” ۔
قرآن كريم
حديث-۳ - مِن خُطبَتِها عليهاالسلام: كِتابُ اللّهِ النّاطِقُ وَالْقُرْانُ الصّادِقُ وَالنُّورُ السّاطِعُ وَالضِّياءُ الّلامِعُ، بَيِنَّةً بَصائِرُهُ، مُنْكَـشِفَـةً سَرائِرُهُ، مُنْجَلِيَةً ظَواهِرُهُ، مُغْتَبِطَةً بِهِ اَشْياعُهُ، قائدا اِلَى الرِّضْوانِ اِتِّباعُهُ، مُؤَدٍّ اِلَى النَّجاةِ اِسْتِماعُهُ [بخشى از خطبه بزرگ، احتجاج، ج 1: 134]
اس کے بعدآپ نے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا:
۔۔۔ حالانکہ ہم بقیة اللہ اور قرآن ناطق ہیں وہ کتاب خدا جو صادق اور چمکتا ہوا نور ہے جس کی بصیرت روشن ومنور اوراس کے اسرار ظاہر ہےں، اس کے پیرو کارسعادت مندہیں،اس کی پیروی کرنا ،انسان کوجنت کی طرہ ھدایت کرتاہے ،اس کی باتوں کوسننا وسیلہ نجات ہے۔۔۔
قرآن کی پناہ میں
حديث-۴ - مِن خُطبَتِها عليهاالسلام: وَ کِتابُ اللهِ بَیْنَ اَظْهُرِکُمْ اُمُورُهُ زاهِرَةٌ [ظاهِرَةٌ]، وَ اَعْلامُهُ باهِرَةٌ، وَ زَواجِرُهُ لائِحَةٌ، وَ اَوامِرُهُ واضِحَةٌ، قَدْ خَلَّفْتُمُوهُ وَراءَ ظُهُورِکُمْ، اَرَغْبَةً عَنهُ تُرِیدُونَ؟ اَمْ بِغَیْرِهِ تَحْکُمُونَ؟ «بِئْسَ لِلظّالِمِینَ بَدَلا» [بخشى از خطبه بزرگ، احتجاج، ج 1: 137]
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنےمشہورخطبہ فدکیہ کے ایک حصہ میں فرماتی ہیں:
۔۔۔حالانکہ اللہ کی کتاب تمہارے درمیان موجود ہے اوراس کے احکام واضح اوراس کے امرنہی ظاہرہیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تم قرآن سے روگردانی اختیارکرنا چاہتے ہو؟
یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز سے فیصلہ کرنا چاہتے ہو؟۔۔۔
مقام عترت
حديث- ۵ – قالَتْ فاطِمَةُ الزَّهْراء عليهاالسلام فى خُطبَتِها: وَاحْمِدُوا اللّهَ الَّذى لِعَظَمَتِهِ وَنُورِهِ يَبْتَغى مَنْ فِى السَّماواتِ وَالْأرَضِ اِلَيْهِ الْوَسيلَةَ وَنَحْنُ وَسیلَتُهُ فى خَلْقِهِ، وَ نَحْنُ خاصَّتُهُ وَ مَحَلُّ قُدْسِهِ، وَ نَحْنُ حُجَّتُهُ فى غَیْبِهِ، وَ نَحْنُ وَرَثَةُ انْبیائِهِ
(شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید: ج ۱۶، ص ۲۱۱)
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا اپنے مشہورخطبہ کے آخر میں فرماتی ہے:
۔۔۔اےمسلمانو!
پروردگار عالم کا شکر ادا کرو، اس پروردگار عالم کے وجود کی عظمت اور نور نیت کی جلوے کی وجہ سےجوکچھ زمین و آسمان میں موجود ہیں ہر ایک اس کی طرف جانےکی راہ کے متلاشی ہیں۔
ہم پیغمبر(ص) کے اہل بیت ہیں، جو پروردگارکے تقرب اور مخلوق کے درمیان رابطے کا ذریعہ۔
ہم اللہ کے محلِ پاک و مقدّس،خالص اور چنے ہوئے ہستیاں ہیں، ہم ہی غیبت کے دوران حجت الہی اور رہنماء ہیں۔اور ہم ہی پروردگارعالم کے نبیوں کے وارث ہیں۔
سید الحوثی: امریکی بنکر بسٹر بموں سے غزہ کے عوام کی نسل کشی ہورہی ہے
ارنا کے مطابق انصاراللہ یمن کے رہبر سید عبدالملک الحوثی نے جمعرات کو اپنے خطاب میں کہا ہے کہ امریکا جس صیہونی سیناریومیں ہمارا ساتھ چاہتا ہے، وہ ہماری ہی ملت کے خلاف جارحانہ پروجکٹ ہے۔
انصاراللہ یمن کے رہبر نے کہا کہ اگر آپ یہ چاہیں کہ امت اسلامیہ کے مقدسات پر حملہ نہ ہو تو آپ امریکا اور اسرائیل کے مخالف ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اکثر عرب حکام امریکا کے کہنے پرصیہونی پروجکٹ میں شامل ہوگئے ہیں۔
سید عبدالملک الحوثی نے کہا کہ افسوس کہ عرب حکومتیں یہ جانتے ہوئے کہ خود ان کے عوام نشانہ بن رہے ہیں، امریکا اور صیہونی حکومت کی ہمراہی کے سسٹم میں شامل ہیں اور انھوں نے اپنے ملکوں کے دروازے امریکی فوجی اڈوں کے لئے کھول دیئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جن لوگوں نے اعلان کیا کہ وہ امریکا کے ساتھ اور اس کے اتحادی ہیں، اس کا ساتھ اختیار کیا اور ہر چیز اس کے لئے کھول دی اور امریکی فوجی اڈوں کے اختیار میں دے دی ۔
انصاراللہ یمن کے رہبر نے کہا کہ بعض ملکوں نے خود کو جو امریکا سے وابستہ کرلیا ہے، یہ وابستگی ان کی حفاظت نہیں کرے گی اور انہیں اس سے کوئی فائدہ نہيں ہوگا۔
لبنان اور غزہ کے مسلمانوں کا دفاع کیوں اور کیسے؟
یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری ان کی حالت زار پر توجہ دے اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ غزہ کی سرزمین کا دفاع فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے بھی ضروری ہے۔ جب تک فلسطینی عوام کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جائے گا، تب تک خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ لبنان اور غزہ کا دفاع مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر یہ علاقے غیر محفوظ رہیں گے تو اس کا اثر پورے مشرق وسطیٰ پر پڑے گا۔ استحکام کی عدم موجودگی کی صورت میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور دیگر مسائل جنم لیتے رہیں گے۔ لبنان اور غزہ میں اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ صرف سرزمین کی نہیں بلکہ ایک نظریئے، ثقافت اور شناخت کی جنگ ہے۔ ان کا دفاع کرکے مسلمانان عالم اپنے عقائد اور ثقافت کی بہتر حفاظت کرسکتے ہیں۔ لبنان اور غزہ کے دفاع کا عمل مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرتا ہے۔ جب ایک قوم یا علاقے کے لوگ اپنے حقوق کے لیے لڑتے ہیں تو یہ دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی ایسا نمونہ بنتا ہے، جو انہیں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دلاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم لبنان اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور مدد کیسے کرسکتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ ہم مختلف طریقوں سے ان کی فکری و عملی حمایت اور مدد کرسکتے ہیں، مثلاً ہم حزب اللہ اور حماس کے نظریات، تاریخ اور ان کی جدوجہد کا پرچار کرنے کے لئے مقالہ جات، مضامین، بلاگ یا سوشل میڈیا پر تحریریں لکھ سکتے ہیں۔ ہم مختلف اداروں کے ذریعے غزہ اور لبنان کے عوام کے لیے غذائی اشیاء، طبی امداد اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے کوشش کرسکتے ہیں۔ ہم حزب اللہ اور حماس کی حمایت کے لیے تعلیمی پروگرامز کا انعقاد کرسکتے ہیں، جن میں حزب اللہ اور حماس کی تاریخ، ثقافت اور مقاصد کے بارے میں ورکشاپس اور سیمینارز شامل ہوسکتے ہیں۔ ہم حزب اللہ اور غزہ کی حمایت میں سوشل میڈیا پر مہم چلا سکتے ہیں۔ غرض حزب اللہ اور حماس کی مدد کرنے کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں، یہ کسی ایک روش میں منحصر نہیں۔
دفاعی جہاد کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین، وطن اور عزت کی حفاظت کے لیے جنگ کریں۔ رہبر معظم کے مطابق یہ جہاد ایک ایسا عمل ہے، جس کے ذریعے مسلمان اپنی شناخت اور اپنی تہذیب کی حفاظت کرتے ہیں۔ جہاد مسلمانوں کی عزت اور خود مختاری کا ذریعہ ہے۔ جب دشمن مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ آور ہو تو ان کا خاموش رہنا کسی صورت جائز نہیں بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دشمن کے سامنے ڈٹ جائیں اور اپنی بساط کے مطابق دفاع کریں۔ انہیں کسی بھی قسم کے خوف کے بغیر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا لازمی ہے۔ بلاشبہ لبنان اور غزہ کا دفاع مسلمانوں کے درمیان اتحاد مضبوط کرنے کا سبب بنے گا۔ جب شیعہ سنی مسلمان ایک ہی مقصد کے لیے مل کر دفاعی جنگ کرتے ہیں تو ان میں بھائی چارے اور محبت کی ایک نئی لہر پیدا ہوہی جاتی ہے۔ لبنان اور غزہ کا دفاعی جہاد مسلمانوں کو اپنے دین کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کراتا ہے۔
یہ ایک بہترین موقع ہے کہ مسلمانان جہاں لبنان اور غزہ کی حمایت میں ملکر آواز بلند کرکے اپنی ایمانی طاقت کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ یہ بات بھی قطعی ہے کہ دفاعی جہاد سے مسلمانوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب مسلمان اپنے حقوق کے لیے لڑتے ہیں تو وہ پوری خود اعتمادی سے اپنی عزت اور وقار کو بحال کرسکتے ہیں۔ اگر تاریخی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت کا علم ہوگا کہ دفاعی جہاد کا مسئلہ ہمارے فقہاء کے لئے انتہائی حساس مسئلہ تھا۔ مثلاً سید محمد کاظم طباطبائی یزدی نے ایران کے جنوب میں برطانوی جارحیت کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مندرجہ ذیل فتویٰ جاری کیا: ان دنوں میں اٹلی جیسے یورپی ممالک نے مغرب میں طرابلس پر حملہ کیا ہے، دوسری طرف روسیوں نے ایران کے شمال پر قبضہ کیا ہے اور ایران کے جنوب میں بھی انگریزوں نے اپنی فوجیں تعینات کرکے اسلام کو تباہی کے خطرے میں ڈال دیا ہے، ایسے میں تمام عرب اور ایرانی مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اسلامی ممالک سے کافروں کو بھگانے کے لیے خود کو تیار کریں۔
اپنی جان و مال کی قربانی دیتے ہوئے مغرب میں اطالوی افواج کو طرابلس سے نکالنے اور روسی اور برطانوی افواج کو ایران سے نکالنے کی راہ میں کوئی کسر نہ چھوڑیں، کیونکہ یہ عمل اسلامی فرائض میں سے اہم ترین فریضہ ہے۔ ان شاء اللہ خدا کی مدد سے دونوں اسلامی ممالک صلیبیوں کے حملے سے محفوظ رہیں گے۔ دیگر فقہا جیسے محمد حسین قمشی سید مصطفیٰ کاشانی، شیخ محمد آل شیخ صاحب جواہر، سید محمد سعید حوبوبی، محمد حسین حائری مازندرانی اور سید علی تبریزی ان علماء میں سے تھے، جنہوں نے اس دور میں جارحین کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے فتویٰ جاری کیا۔ اسے مسلمانوں کا اہم فریضہ شمار کیا گیا اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کو کفر، ارتداد اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کا مترادف سمجھا گیا۔ ان میں شیخ الشریعہ اصفہانی کا 1330ھ میں بیان کردہ روشن بیان مثالی ہے۔اس بیان میں انہوں نے بڑے بڑے علماء،امیروں، عشائر کے مردوں، مختلف قبیلوں اور طبقوں کے لوگوں سے خطاب کیا۔
انہوں نے دشمنان اسلام کے ان منصوبوں اور سازشوں کا پردہ فاش کیا، جن کو انہوں نے اسلامی ممالک کے ساتھ تجارت، سکولوں اور ہسپتالوں کے قیام کے نام سے مسلم معاشرے میں لانچ کیا، لیکن اس سے ان کا ہدف مسلمانوں کو فریب دے کر اپنے معاشی، ثقافتی اور سیاسی تسلط کو وسعت دینا اور مسلمانوں کو زندگی کے مختلف پہلوؤں میں ان کا محتاج کرنا تھا۔ چنانچہ انہوں اپنے خطاب کے آخری حصے میں مسلمانوں کو یوں خبردار کیا: آج وہ دن ہے، جس میں کفر اور اسلام آمنے سامنے ہیں۔ یہ وہ دن ہے، جس میں بے کس رہنے والے اسلام کی مدد کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اس دور میں آزادی اور اسلامی سرزمینوں کے دفاع کے لئے میدان میں حاضر رہنا شیعہ فقہاء سے مخصوص نہیں تھا، بلکہ سنی علماء اور مفتیوں نے بھی فتوے اور بیانات جاری کرکے مسلمانوں کو جارحین کے خلاف اپنے دفاع کی ترغیب وتشویق دلائی گئی۔
جنگ عظیم کے آغاز میں سب سے پہلے متحدہ یورپی حکومتوں نے اسلامی ملک عثمانیہ پر حملہ کیا۔ چنانچہ ایران اور عراق کے شہری مقامات جارحیت پسندوں کے حملے کے زد میں آگئے۔ اس دور میں شیعہ فقہاء اور سنی علماء نے جارحین کے خلاف جہاد اور دفاع کے فتوے جاری کرکے لوگوں کو اپنی دینی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ مگر آج غزہ اور لبنان میں مسلمان اسرائیل کے مظالم کا شکار ہیں،دنیا بھر کی استکباری طاقتیں غزہ اور لبنان کے مسلمانوں کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے متحد ہیں، مگر ایران یمن جیسے دو تین اسلامی ملکوں کے علاوہ اسلامی ممالک غزہ اور لبنان کے مظلوم مسلمانوں کی نہ صرف حمایت اور مدد کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ وہ سب اسرائیل کو شتر بے مہار بنا کر غزہ اور لبنان میں انسانی خون کا دریا بہانے کی اجازت دینے پر متحد و متفق نظر آتے ہیں، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
اسلامی گھرانہ: غلط تربیت، گھر میں بچوں کے حقوق ضائع کرنا ہے
بعض گھروں میں بچوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا، بچوں کے حقوق کی پامالی صرف یہ نہیں ہے کہ انسان اُن کے ساتھ محبت نہ کرے، جی نہیں! غلط تر تیبت اور ان کے لیے مناسب اہتمام و انتظام سے کام نہ لینا، ان کی ضرورتوں کا خیال نہ رکھنا، لطف و محبت میں کمی اور اسی قسم کے دوسرے امور بھی ان پر ظلم کے دائرے میں آتے ہیں۔
امام خامنہ ای
ایران کے ساتھ کشیدگی میں اسرائیل کی شکست اور اس کے اثرات
گذشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے طوفان الاقصی نے گذشتہ 75 سالوں کے دوران خطے میں صہیونی حکومت کی طاقت کا بھرم توڑ دیا اور اس کے ناپاک وجود کی بنیادیں ہلادیں۔ یہ واقعہ اس وقت وقوع پذیر ہوا جب صہیونی حکومت عرب خطے کی قیادت کے خواب دیکھ رہی تھی۔ طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کی طاقت اور اس کے مستقبل کے بارے میں سوالات ایجاد کیے۔
واشنگٹن اور مغربی ممالک صہیونی حکومت کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ ان ممالک نے فلسطینیوں سے انتقام لینے کے لئے پوری کوشش کی لیکن مقاومتی تنظیموں اور فلسطینی عوام کی مقاومت صہیونی حکومت اور اس کے حامیوں کو اسٹریٹیجک شکست سے دوچار کیا۔
غزہ کے محاذ پر ناکامی کے بعد صہیونی حکومت نے لبنان کا رخ کیا تاکہ اس محاذ پر کامیابی کے ذریعے اپنی شکست کی تلافی کرسکے۔ صہیونی حکومت نے حزب اللہ پر کاری وار کا فیصلہ کیا اور پیچیدہ کاروائی کے تحت مقاومتی تنظیم کی اعلی قیادت کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کا ایک ہدف لبنانی مقاومتی تنظیم کو غیر مسلح کرنا تھا تاکہ بعد میں آسانی کے ساتھ لبنان کو فتح کرلے۔
حزب اللہ کے خلاف حملوں سے ملنے والی وقتی کامیابی جلد ہی اپنا اثر کھونے لگی کیونکہ تنظیم نے مختصر وقت میں خود سنبھال لیا اور دوبارہ تنظیم اپنے پاوں پر کھڑی ہوگئی۔ حزب اللہ نے جوابی وار میں صہیونی فوج کو شدید نقصان پہنچایا۔ بڑی تعداد میں صہیونی افسران اور اہلکاروں کو ہلاک اور زخمی کردیا اس کے نتیجے میں جنوبی لبنان صہیونی فوج کے لئے ایک دلدل بن گیا۔
26 اکتوبر کو صہیونی حکومت نے اپنی سابقہ دھمکیوں کے برعکس ایران کے خلاف محدود پیمانے پر کاروائی کی۔ ایک مہینے تک تیاریوں کے بعد امریکہ کے ساتھ ہماہنگی کے بعد تل ابیب نے ایران کی ایٹمی اور تیل کی تنصیبات پر حملے کا منصوبہ ترک کردیا اور اپنے حملے کا دائرہ بہت مختصر کردیا تاکہ ایران کے جوابی حملے سے بچ جائے۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات بھی متاثر ہونے سے بچ جائیں۔
صہیونی حکومت کی امریکہ کے ساتھ ہماہنگی کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں؛
اول: جوابی حملے کے بارے میں ایران کی سنجیدگی کی وجہ سے صہیونی حکومت کے ایٹمی منصوبے یا اقتصادی اور توانائی کی تنصیبات کو ہدف بنائے جانے کے زیادہ امکانات ہیں۔ گذشتہ حملے میں ایران نے صہیونی تنصیبات پر کامیاب حملہ کرکے اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔
دوم: اعلی قیادت کی شہادت کے بعد حزب اللہ نے دوبارہ خود کو سنبھال لیا اور صہیونی حکومت کے زمینی حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جس سے صہیونی فوج کو سنگین نقصان ہوا۔
گذشتہ کچھ عرصے میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے نتن یاہو اور ان کی انتہا پسند کابینہ نے ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کا ارادہ ترک کیا۔ اس کے بجائے اپنی دفاعی طاقت کو حزب اللہ اور حماس کے ساتھ شمالی اور سرحدوں پر جنگ میں استعمال کرنا شروع کیا بنابراین آئندہ چند مہینوں کے دوران صہیونی حکومت اور مقاومتی تنظیموں کے درمیان جنگ میں شدت آسکتی ہے مخصوصا اگر ٹرمپ انتخابات میں کامیاب ہوجائیں تو اس کے امکانات زیادہ ہیں۔
وعدہ صادق آپریشن اور صہیونی حملوں کو کامیابی کے ساتھ روکنے کے بعد ایران کا کردار مزید اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ نے بھی اپنی طاقت کو دوبارہ بحال کیا ہے۔
امریکہ کی تمام تر حمایت کے باوجود صہیونی حکومت کئی محاذوں پر جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے اسی لئے اپنے دشمنوں اور دوستوں کو گمراہ کرنے کے لئے نفسیاتی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ صہیونی حکومت اب بھی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے خود کو خطے کی طاقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ سال 7 اکتوبر کے واقعات میں صہیونی حکومت کی زمین بوس ہونے والی خیالی طاقت دوبارہ بحال نہیں ہوسکی ہے۔ لبنان، فلسطین، عراق اور یمن کی مقاومتی تنظیموں کے ساتھ وسیع نبرد کے بعد صہیونی حکومت کی دفاعی طاقت میں شدید کمی آئی ہے۔ حالیہ جنگ کی مدت بڑھنے کے ساتھ صہیونی حکومت کے زخم مزید گہرے ہوں گے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق شکستوں کا سلسلہ برقرار رہے تو صہیونی حکومت کی افسانوی طاقت مزید کم ہوگی اور دوستوں کی نگاہ میں اس کی اہمیت ختم ہوجائے گی۔ دوسری جانب دائیں بازو کی جماعتوں اور اپوزیشن کو نتن یاہو کے خلاف مہم چلانے کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔
اگر یہی شکستوں اور بحران کا یہ سلسلہ جاری رہا تو صہیونیوں کی معکوس ہجرت میں مزید تیزی آئے گی۔ لیبرل، دولت مند اور دانشور طبقہ بدامن اور جنگ زدہ اسرائیل میں رہنا نہیں چاہتا ہے۔ ایران اور مقاومتی تنظیموں کے حملوں میں صہیونی حکومت کی دفاعی طاقت کا پول کھل گیا ہے لہذا صہیونی آبادکار آبائی ممالک واپس جاکر اپنا مستقبل محفوظ بنائیں گے۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اسلام آباد پہنچ گئے
ارنا نے پیر کی رات اسلام آباد سے اپنے نامہ نگار کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ اسلام آباد کے نورخان فضائی اڈے پر ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کا پاکستان کے علاقائی امور کے وزیر نسیم وڑائج اور ایران کے سفیر نے استقبال کیا۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اپنے دورہ اسلام آباد میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار سے ملاقات کریں گے۔
اسی کے ساتھ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی صدارت میں ایران اور پاکستان کے وفود کی نشست ہوگی ۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اسلام آباد میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف سے بھی ملاقات اور گفتگو کریں گے۔