سلیمانی

سلیمانی

امام سجادؑ  کی ذاتی شخصیت:

یہاں پر ہم امام سجادؑ  کی عظیم شخصیت کو اہل سنت کے بزرگان و علماء کے اقوال کی روشنی میں ذکر کرتے ہیں۔

زہری ، ابو حازم ، سعيد ابن مسيب اور مالک:

ابن عماد حنبلی نے ان چاروں کے قول کو امام سجادؑ کے بارے میں ایسے نقل کیا ہے کہ:

قال الزهري ما رأيت أحدا أفقه من زين العابدين لكنه قليل الحديث وقال أبو حازم الأعرج ما رأيت هاشميا أفضل منه وعن سعيد بن المسيب قال ما رأيت أورع منه وقال مالك بلغني أن علي بن الحسين كان يصلي في اليوم والليلة ألف ركعة إلى أن مات وكان يسمى زين العابدين لعبادته.زہری نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی زین العابدین سے زیادہ فقیہ و عالم نہیں دیکھا، لیکن ان سے بہت کم روایات نقل کی گئیں ہیں۔ابو حازم نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی امام سجادؑ سے بالا تر نہیں دیکھا۔سعید ابن مسیب سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی امام سجادؑ سے با تقوی تر نہیں دیکھا۔مالک نے بھی کہا ہے کہ: مجھے خبر ملی تھی کہ علی ابن حسینؑ  مرتے دم تک دن رات میں ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، اور انکو کثرت عبادت کیوجہ سے زین العابدین کہا جاتا تھا۔

العكري الحنبلي، عبد الحي بن أحمد بن محمد (متوفى1089هـ)، شذرات الذهب في أخبار من ذهب، ج 1 ص 105 ، تحقيق: عبد القادر الأرنؤوط، محمود الأرناؤوط، ناشر: دار بن كثير – دمشق، الطبعة: الأولي، 1406هـ. .

یعقوبی:

یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں ایسے لکھا ہے کہ:

وكان أفضل الناس وأشدهم عبادة وكان يسمى زين العابدين وكان يسمى أيضا ذا الثفنات لما كان في وجهه من أثر السجود وكان يصلي في اليوم والليلة ألف ركعة ولما غسل وجد على كتفيه جلب كجلب البعير فقيل لأهله ما هذه الآثار قالوا من حمله للطعام في الليل يدور به على منازل الفقراء. قال سعيد بن المسيب ما رأيت قط أفضل من علي بن الحسين.

وہ اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے بالا و برتر تھے اور ان میں سب سے زیادہ عبادت کرنے والے تھے، اسی وجہ سے ان کو زین العابدین کہا جاتا تھا اور اسی طرح سے انکو ذا الثفنات بھی کہا جاتا تھا، کیونکہ انکی پیشانی پر سجدوں کے بہت آثار تھے اور وہ دن رات میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے اور ان کی شہادت کے بعد جب ان کو غسل دیا جا رہا تھا، تو انکے کندھوں پر زخم کے نشانات تھے۔ جب انکے گھر والوں سے پوچھا گیا کہ یہ کندھوں پر نشانات کیسے ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ راتوں کو فقراء و ضرورت مندوں کے لیے روز مرہ کی ضروریات زندگی کی اشیاء اٹھانے کی وجہ سے یہ نشانات پڑے ہیں۔سعيد ابن مسيب نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی علی ابن حسین سے برتر نہیں دیکھا۔

اليعقوبي، ج 2 ص 303 ، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح (متوفى292هـ)، تاريخ اليعقوبي، ناشر: دار صادر – بيروت.

ابو نعیم اصفہانی:

ابو نعیم اصفہانی نے ایسے لکھا ہے کہ:

علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنهم زين العابدين ومنار القانتين كان عابدا وفيا وجوادا حفيا.

علی ابن الحسین،امام سجاد علیہ السلام عبادت کرنے والوں کی زینت اور عابد لوگوں کے لیے ایک علامت و نشان تھے۔ وہ ایک عابد، وعدے کے پابند اور شرف و وقار کے ساتھ چلنے والے انسان تھے۔

الأصبهاني، ابونعيم أحمد بن عبد الله (متوفى430هـ)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج 3 ص 133 ، ناشر: دار الكتاب العربي – بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ..

ابو الولید الباجی:

اس نے امام سجادؑ کی شخصیت کے بارے میں زہری کے قول کو نقل کرتے ہوئے ایسے لکھا ہے کہ:

حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال حدثني علي بن الحسين وكان أفضل أهل سنة وأحسنهم طاعة.

علی ابن الحسین میرے ساتھ کلام کیا کرتے تھے اور وہ سنت پر عمل کرنے والوں میں سب سے بہترین تھے اور ان میں سے سب سے زیادہ اطاعت گزار بندے تھے۔

الباجي، سليمان بن خلف بن سعد ابوالوليد (متوفى474هـ)، التعديل والتجريح لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح، ج 3 ص 956 ، تحقيق: د. ابولبابة حسين، ناشر: دار اللواء للنشر والتوزيع – الرياض، الطبعة: الأولى، 1406هـ – 1986م.

ابن ابی حازم:

بیہقی نے ابن ابی حازم سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

قال ابن أبي حازم وهو من العلماء السلف: ما رأيت هاشمياً أفضل من زين العابدين علي بن الحسين رضي اللّٰه عنهما.

ابن ابی حازم نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی علی ابن الحسین سے افضل و بالا تر نہیں دیکھا۔

البيهقي، أبو الحسن ظهير الدين علي بن زيد، الشهير بابن فندمه (متوفي 565هـ) لباب الأنساب والألقاب والأعقاب، ج 1 ص 13 ، دار النشر: طبق برنامه الجامع الكبير.

ابن عساکر:

ابن عساکر شافعی نے بھی ان امام کے بارے میں لکھا ہے کہ:

وكان يسمى بالمدينة زين العابدين لعبادته.

وہ امام سجاد علیہ السلام شہر مدینہ میں زیادہ عبادت کرنے کی وجہ سے سجاد کہلاتے تھے۔

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 41 ص 379 ، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر – بيروت – 1995.

ابن خلکان:

ابن خلکان نے بھی حضرت امام سجاد سلام اللہ علیہ کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

زين العابدين أبو الحسن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي اللّٰه عنهم أجمعين المعروف بزين العابدين…هذا وهو أحد الأئمة الأثني عشر ومن سادات التابعين قال الزهري ما رأيت قرشيا أفضل منه.زين العابدين،ابو الحسن علی ابن الحسين ابن علی ابن ابی طالب معروف بہ زين العابدين… وہ بارہ آئمہ میں سے ایک امام اور بزرگ تابعی تھے۔

زہری نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی ان ( علی ابن الحسین) سے افضل نہیں دیکھا۔

إبن خلكان، ابو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفى681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج 3 ص 267 ، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة – لبنان.

یحیی ابن سعید:

ابن سعد اور ابن عبد البر نے قول یحیی ابن سعید سے ایسے نقل کیا ہے کہ:

حدثنا حماد بن زيد عن يحيى بن سعيد قال سمعت علي بن حسين وكان أفضل هاشمي أدركته.

یحیی ابن سعید نے نقل کیا ہے کہ: میں نے علی ابن الحسین سے روایت کو سنا ہے اور میں نے جتنے بھی ہاشمیوں کو دیکھا تھا، وہ ان سب میں سے افضل و بالا تر تھے۔

البصري الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبد الله (متوفي230 هـ)، الطبقات الكبرى ، ج 5 ص 214 ، دار النشر : دار صادر – بيروت ، طبق برنامه الجامع الكبير…

سعید ابن مسیب:

مزی اور ذہبی نے سعید ابن مسیب کے قول سے نقل کرتے ہوئے ایسے لکھا ہے کہ:

قال رجل لسَعِيد بن المُسَيب : ما رأيت أحدا أورع من فلان. قال هل رأيت علي بن الحسين ؟ قال : لا ، قال : ما رأيت أورع منه.

ایک بندے نے سعید ابن مسیب سے کہا کہ: میں نے فلاں شخص سے کسی کو با تقوی تر نہیں دیکھا۔ سعید ابن مسیب نے اس سے کہا: کیا تم نے علی ابن الحسینؑ کو دیکھا ہے ؟ اس نے کہا: نہیں، سعید نے کہا: میں نے علی ابن الحسینؑ سے با تقوی تر کسی کو نہیں دیکھا۔

المزي، ابو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن (متوفى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 20 ص 389 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

ابن حجر:

ابن حجر مکی نے اپنی کتاب الصواعق میں امام سجادؑ کی عظیم شخصیت کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

وزين العابدين هذا هو الذي خلف أباه علما وزهدا وعبادة وكان إذا توضأ للصلاة اصفر لونه فقيل له في ذلك فقال ألا تدرون بين يدي من أقف.

زین العابدین علم،زہد اور عبادت میں اپنے والد کے جانشین تھے اور جب وہ نماز کے لیے وضو کرتے تھے تو انک ے چہرے کا رنگ زرد ہو جاتا تھا اور جب اس بارے میں ان سے سوال ہوا تو، انھوں نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں کس ذات کے سامنے کھڑا ہونے جا رہا ہوں ؟!

الهيثمي، ابو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفى973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2 ص 582 ، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركي – كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة – لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ – 1997م.

مزّی اور ابن حجر:

اہل سنت کے دو علم رجال کے بزرگ علماء مزی اور ابن حجر نے مالک کے قول سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

وَقَال ابن وهب ، عن مالك : لم يكن في أهل بيت رسول اللّٰه مثل علي بن الحسين.

مالک سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ: رسول خدا کے اہل بیت میں کوئی فرد بھی علی ابن حسینؑ کی طرح کا نہیں تھا۔

المزي، ابو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن (متوفى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 20 ص 387 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابو الفضل (متوفى852هـ)، تهذيب التهذيب، ج 7 ص 269 ، ناشر: دار الفكر – بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 – 1984 م.

ابن تیمیہ:

ابن تیمیہ حرّانی نے بھی امام سجادؑ کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:وأما على بن الحسين فمن كبار التابعين وساداتهم علما ودينا… وكان من خيار أهل العلم والدين من التابعين.علی ابن الحسين بزرگ تابعین اور علم و دین کے لحاظ سے انکے بزرگوں میں سے تھے۔۔۔۔ اور وہ تابعین میں سے اہل علم و دین کے لحاظ سے برگزیدہ تھے۔

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابو العباس أحمد عبد الحليم (متوفى 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 4 ص 49 ، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ..

امام سجادؑ کی ہیبت اور فرزدق شاعر کے اشعار:

امام سجادؑ کے حج کرنے اور انکی ہیبت کا واقعہ شیعہ و سنی کی کتب تاریخ میں بہت مشہور ہے۔

تنوخی اور ابن سمعون نے اس داستان کو ابو الفرج اصفہانی کے قول سے ایسے نقل کیا ہے کہ:

قال أبو الفرج الأصبهاني: حدثني بن محمد بن الجعد ومحمد بن يحيى قالا: حدثنا محمد بن زكريا العلاني قال: حدثنا ابن عائشة قال: حج هشام بن عبد الملك في خلافة الوليد أخيه ومعه أهل الشام فجهد أن يستلم الحجر فلم يقدر من ازدحام الناس، فنصب له منبر فجلس عليه ينظر إلى الناس، فأقبل زين العابدين علي بن الحسين رضي اللّٰه عنهما، وهو أحسن الناس وجهاً، وأنظفهم ثوباً؛ وأطيبهم رائحة، فطاف بالبيت فلما بلغ الحجر تنحى الناس كلهم له وأخلوا الحجر ليستلمه، هيبة له وإجلالاً، فغاظ ذلك هشاماً وبلغ منه، فقال رجل لهشام: من هذا أصلح اللّٰه الأمير؟ قال: لا أعرفه، وكان به عارفاً، ولكنه خاف أن يرغب فيه أهل الشام ويسمعوا منه. فقال الفرزدق، وكان لذلك كله حاضراً: أنا أعرفه فسلني يا شامي من هو، قال: ومن هو؟ قال:

هذا الذي تعرف البطحاء وطأته … والبيت يعرفه والحل والحرم

هذا ابن خير عباد الله كلهم … هذا التقي النفي الطاهر العلم …

ہشام ابن عبد الملک اپنے بھائی کے دور خلافت میں اہل شام کے کچھ لوگوں کے ساتھ حج پر گیا۔ وہاں پر موجود لوگ حجر اسود کو بوسہ دینا چاہتے تھے، لیکن بہت زیادہ رش کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے۔ ہشام کے لیے اس جگہ ایک منبر لگایا گیا اور وہ اس پر بیٹھ کر لوگوں کو دیکھنے لگا۔ اتنے میں امام سجادؑ بھی وہاں پر آ پہنچے۔ وہ خوبصورتی کے لحاظ سے، سب سے زیادہ خوبصورت اور پاکیزگی کے لحاظ سے ، انکا لباس پاک ترین لباس تھا۔ وہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے کرتے جب حجر الاسود کے نزدیک پہنچے تو ایک دم سے سب لوگ ایک طرف ہو گئے اور حجر اسود کو امام کے لیے خالی کر دیا، تا کہ وہ اس پتھر کو ہاتھ سے مس کر سکیں۔ امام کی بزرگی اور ہیبت بہت زیادہ تھی۔ ہشام نے جب امام کی اس جلالت و عظمت کو دیکھا تو بہت غصے میں آ گیا۔ ایک بندے نے کہا اے امیر یہ کون ہے ؟ ہشام نے امام کو جاننے کے باوجود کہا: نہیں میں اسکو نہیں جانتا۔ اس بات کو فرزدق شاعر کھڑا سن رہا تھا، اس نے ہشام سے کہا: میں اس (امام) کو جانتا ہوں۔ اے شامی ادھر آؤ مجھ سے پوچھو کہ وہ کون ہے۔ شامی نے فرزدق سے پوچھا، وہ کون ہے ؟ اس موقع پر فرزدق نے اپنے اشعار میں اس شامی کو جواب دیا:

1- یہ وہ شخص ہے کہ جس کو مکہ کی سرزمین جانتی ہے، حتی اسکے پاؤں کے نشان کو بھی یہ زمین جانتی ہے، خانہ کعبہ، مدینہ کے صحرا، حلّ اور حرم تمام اسکو جانتے ہیں۔

2- یہ خداوند کے بہترین بندگان کا بیٹا ہے، یہ وہی پرہیزگار اور پاکیزہ انسان ہے کہ جو زمین پر خداوند کی آیت و علامت ہے۔

البغدادي، أبو الحسين محمد بن أحمد بن إسماعيل بن عنبس (متوفى387هـ)، أمالي ابن سمعون، ج 1 ص 8 ، طبق برنامه الجامع الكبير.

التنوخي، أبو علي المحسن بن علي، (متوفي: 384هـ) ، المستجاد من فعلات الأجواد ، ج 1 ص 303 ، طبق نرم افزار الجامع الکبير..

نتیجہ مطالب:

حضرت سجاد امام زین العابدین ؑ کے ذاتی اور اخلاقی فضائل و کمالات اتنے زیادہ ہیں کہ ان سب کو اس مختصر تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا، لیکن پھر بھی اس تحریر میں نمونے کے طور پر امام کی عظیم شخصیت کو اہل سنت کے بزرگ علماء کے اقوال کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ کمال یہ نہیں ہوتا کہ اپنے اور چاہنے والے ہی ایک انسان کے فضائل کو بیان کریں، بلکہ کمال یہ ہے کہ انسان کے مخالف نہ چاہتے ہوئے بھی اس انسان کے کمالات کو بیان کریں۔

يا اَبَا الْحَسَنِ يا عَلِىَّ بْنَ الْحُسَيْنِ يا زَيْنَ الْعابِدينَ يَا بْنَ رَسُولِ اللّٰهِ يا حُجَّةَ اللّٰهِ عَلى خَلْقِهِ يا سَيِّدَنا وَمَوْلينا اِنّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ اِلَى اللّٰهِ وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَىْ حاجاتِنا يا وَجيهاً عِنْدَ اللّهِ اِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللّٰهِ.

 

 

یا صاحب الزمان علیہ السّلام! ہم آپ کی خدمت میں آپ کے جد، سید الساجدین، امام زین العابدین علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی پر مسرت گھڑیوں میں ہدیہ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں، یہ وہ دن ہے جب عبادت و بندگی کا آفتاب چمکا، صبر و استقامت کا درس دنیا کے سامنے آیا اور وہ ہستی اس دنیا میں جلوہ گر ہوئی جو ظلم کے مقابلے میں خاموش مگر مضبوط مزاحمت کی علامت بنی۔

عزیز دوستو!

یہ دن ہم سب کے لیے رحمت اور ہدایت کا پیغام لے کر آیا ہے۔ امام زین العابدینؑ کی زندگی ہمیں صبر، اخلاق، عبادت اور حقوق العباد کی تعلیم دیتی ہے۔ آئیے، اس موقع پر ہم عہد کریں کہ ہم امام کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں گے، خاص طور پر آج کے اس جدید دور میں جہاں نئی قسم کی آزمائشیں ہمارے سامنے ہیں۔

آج کی دنیا میں ہم ایک ایسی غلامی میں گرفتار ہو چکے ہیں جسے "ڈیجیٹل غلامی" کہا جا سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غلامی صرف جسمانی قید و بند کا نام ہے، مگر حقیقت میں یہ ذہن، وقت، سوچ، اور فیصلوں پر قابو پانے کا نام بھی ہے۔ ہم ہر لمحہ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے اسیر ہیں۔ہماری پرائیویسی، فیصلے، اور زندگی کی ترجیحات ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں۔

یہ غلامی کسی یزیدی جبر سے کم نہیں، جو انسان کی آزادی اور خودمختاری کو ختم کر رہی ہے۔امام زین العابدینؑ کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ حقیقی آزادی کیا ہے۔ آپؑ قید میں تھے، مگر آپ کا دل اور روح آزاد تھی۔آپؑ پر ظلم ہوا، مگر آپ نے کبھی حق کا دامن نہیں چھوڑا۔آپؑ نے "رسالہ حقوق" لکھ کر دنیا کو سکھایا کہ ہر انسان کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔آج کے ڈیجیٹل دور میں، ہمیں امامؑ سے سیکھنا ہوگا کہ کیسے ہم خود کو ڈیجیٹل غلامی سے آزاد کر سکتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل دنیا میں امامؑ کی تعلیمات پر عمل کیسے کریں؟

1. ڈیجیٹل ڈیٹوکس اپنائیں یعنی کچھ وقت کے لیے ڈیجیٹل دنیا سے دوری اختیار کریں اور ہر روز کچھ وقت اسکرین سے ہٹ کر دعا، غور و فکر اور حقیقی زندگی کے تعلقات پر توجہ دیں۔

2. غلط معلومات اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے بچیں سوشل میڈیا پر ہر بات پھیلانے سے پہلے تحقیق کریں، جیسا کہ امام زین العابدینؑ نے ہمیشہ حق اور سچائی کا دامن تھامے رکھا۔

3. اپنی نجی زندگی اور وقار کا تحفظ کریں اگر امامؑ نے ظالم حکمرانوں کے سامنے تقیہ اور حکمت سے کام لیا، تو ہمیں بھی اپنی معلومات اور پرائیویسی کو محفوظ رکھنا چاہیے۔

4. سوشل میڈیا کو مثبت استعمال میں لائیں اور امامؑ کے علم، اخلاق، اور دعاؤں کو دنیا تک پہنچانے کے لیے ٹیکنالوجی کا تعمیری انداز میں استعمال کریں۔

یا صاحب الزمان علیہ السّلام!

ہم آپ کے جد، امام زین العابدینؑ کی سیرت کو مشعلِ راہ بنا کر اس جدید دنیا میں گمراہی کے طوفان سے بچنے کا عزم کرتے ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ہمیں وہ شعور عطا ہو کہ ہم ٹیکنالوجی کے غلام بننے کے بجائے اسے امامؑ کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے استعمال کر سکیں۔

اللّٰہُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَج والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

تحریر: مولانا سید عمار حیدر زیدی قم

ایران کے اکتالیسویں بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کے شرکاء، اساتذہ ، حفاظ اور قرآء نے تھران کے حسینیه‌ امام خمینی(ره) میں رھبرملاقات سے ملاقات کی۔
 
 
غزہ میں 15 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ رک جانے کے بعد اب مختلف سیاسی حلقوں میں اس موضوع پر گرما گرم بحث شروع ہو چکی ہے کہ خطے کا مستقبل کیا رخ اختیار کرے گا؟ غاصب صیہونی رژیم کے فوجی و سیکورٹی اداروں کی گذشتہ توقعات کے برخلاف غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کا ملٹری ونگ عزالدین قسام بٹالینز پوری قوت سے موجود ہے اور عوام کی بھرپور حمایت سے فلسطینی مجاہدین نے قیدیوں کے تبادلے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں اسلامی مزاحمت زندہ اور باقی ہے۔ مڈل ایسٹ آئی سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکاف نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ابومازن محمود عباس کے ممکنہ جانشین حسین الشیخ سے ملاقات کی ہے۔
 
ایک اندازے کے مطابق اس ملاقات میں جو موضوع زیر بحث لایا گیا ہے وہ غزہ پر بھی فتح آرگنائزیشن کی حکومت قائم کرنے کی حکمت عملی تلاش کرنا ہے۔ ویٹکاف اور حسین الشیخ کے درمیان یہ مذاکرات ایسے وقت انجام پا رہے ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خصوصی ایلچی اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ مشرق وسطی خطے کے مستقبل کے بارے میں صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس کا نقطہ نظر ایک ہی ہے۔ لہذا یہ کہنا بجا ہو گا کہ وائٹ ہاوس سعودی حکمرانوں کی وساطت سے فلسطین اتھارٹی اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ غزہ پر حکمرانی کے لیے فلسطین اتھارٹی کا ممکنہ امیدوار زیاد ابو عمرو ہے جو محمود عباس کا مشیر اور قریبی ساتھی ہے۔ وہ غزہ میں پیدا ہوا تھا اور اس نے 2014ء کی جنگ کے بعد غزہ کی تعمیر نو کی یہ کہہ کر شدید مخالفت کی تھی کہ اسرائیل ایسا نہیں چاہتا۔
 
فلسطین اتھارٹی، جو فتح آرگنائزیشن کی ایک شاخ ہے، بائیں بازو کے رجحانات رکھنے والی سیکولر تنظیم ہے اور اس کی تشکیل سرد جنگ کے دوران انجام پائی تھی جب سامراج مخالف افکار اپنے عروج پر تھے۔ اگرچہ اس تنظیم نے کئی عشروں تک غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد انجام دی لیکن 1990ء کے عشرے میں تل ابیب سے سازباز کا راستہ اختیار کیا اور غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ اوسلو 1 اور اوسلو 2 معاہدوں پر دستخط بھی کیے۔ غاصب صیہونی فوج کے ساتھ قریبی تعاون کے باعث اس وقت غزہ کی پٹی کے علاوہ مغربی کنارے میں بھی فلسطین اتھارٹی سے شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ فلسطین اتھارٹی کے سیاسی اداروں نے ہتھیار پھینک دینے کے بعد اقتصادی سرگرمیوں کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں وہ شدید کرپشن کا شکار ہو چکے ہیں۔
 
جب فتح آرگنائزیشن غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے انتظامی امور چلانے میں ناکام ہو گئی نیز اس نے 2006ء میں پارلیمانی الیکشن کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا تو غزہ کی پٹی میں حماس نے اپنی تحریک کا آغاز کر دیا۔ حماس کو فتح آرگنائزیشن کی حکومت کے خلاف اس جدوجہد میں عوام کی بھرپور حمایت بھی حاصل تھی۔ دوسری طرف امریکی حکمرانوں نے غزہ میں فلسطین اتھارٹی کی حکومت بچانے کی خاطر اس پر دباو ڈالا کہ وہ اپنے اندر سیاسی، اقتصادی اور سماجی اصلاحات انجام دے۔ پہلے مرحلے میں فلسطین اتھارٹی کو محمود عباس کی پوزیشن واضح کرنی تھی جو آٹھ سال سے صدر تھے اور عوام میں ان کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگلے قدم میں فتح آرگنائزیشن کو قومی آمدن کی منصفانہ تقسیم کی جانب آگے بڑھنا تھا جس کے تحت مزید فلسطینی عوام کو بہرہ مند ہونے کا موقع فراہم کیا جانا تھا۔
 
واشنگٹن کے سیاسی اداروں کی راہداریوں میں غزہ کی پٹی میں فلسطین اتھارٹی کو استعمال کرنے کی حمایت کی جا رہی ہے اور حمایت کرنے والوں میں مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے اسٹیو ویٹکاف، قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور ٹرمپ کا داماد جرڈ کشنر شامل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وائٹ ہاوس، واشنگٹن کے زیر اثر فلسطین اتھارٹی کو غزہ پر قابض کر کے فلسطین کی اسلامی مزاحمت ختم کرنے کے درپے ہے۔ مشرق وسطی خطے میں امریکہ کی حکمت عملی غاصب صیہونی رژیم کی سربراہی میں ایک مشترکہ سیاسی سیکورٹی بلاک تشکیل دینے پر مبنی ہے جس کا سیاسی پہلو خیانت آمیز "ابراہیم معاہدہ" اور اس کا اقتصادی پہلو "آئیمک راہداری" جانا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ بنانے والوں کا اصل مقصد بحر ہند سے لے کر بحیرہ روم تک اسرائیل اور عرب ممالک میں مشترکہ سیکورٹی تجارتی مفادات ایجاد کرنا ہے۔
 
لہذا واشنگٹن غاصب صیہونی رژیم کے انتہاپسند وزیروں کی اس رائے کے مخالف ہے کہ مغربی کنارے کو بھی صیہونی رژیم سے ملحق کر دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی حکمران 7 اکتوبر 2023ء کے بعد پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں اسلامی دنیا کی نظر میں مقبوضہ فلسطین کے اندر اور اس سے باہر فلسطینی تشخص کی اہمیت کو جانچ چکے ہیں۔ اگرچہ اکونومسٹ کا دعوی ہے کہ مغربی کنارے پر غاصب صیہونی رژیم کی موجودہ جارحیت کا مقصد سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان پر دباو ڈالنا ہو سکتا ہے تاکہ اسے جلد از جلد اپنے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے پر تیار کیا جا سکے۔ یعنی سعودی معاشرے میں فلسطین کاز کے بارے موجود حساسیت سعودی ولیعہد کو تمام تنازعات ختم کر دینے پر مجبور کر دے گی جس کا واحد راستہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی ہے۔
 
 
تحریر: علی احمدی

 جنوری 1978 سے 11 فروری 1979 کے درمیان ایران کے مسلمان انقلابی عوام نے بانی انقلاب اسلامی آیت اللہ روح اللہ خمینی کی دانشمندانہ قیادت میں محمد رضا شاہ کی سیکولر اور امریکی حمایت یافتہ رژیم کے خلاف آواز اٹھائی۔ 

رضا شاہ کی حکومت نے ایرانی معاشرے میں بہت سے مصائب اور معاشی خلا اور عدم مساوات کو جنم دیا تھا اور اس کی خفیہ پولیس (ساواک) نے ایرانی نوجوانوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا، اس لیے نچلے طبقے، شیعہ علماء، تاجر برادری اور طلباء میں بڑے پیمانے پر بے اطمینانی پھیل گئی جس کے نتیجے میں 1978 میں امام خمینی کی حمایت میں اضافہ ہوا جو پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ 

 یوں ڈکٹیٹر رضا پہلوی اور اس کا خاندان 16 جنوری 1979 کو ایران سے فرار ہوا اور امام خمینی 15 سالہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئے اور ملک گیر مظاہرے 11 فروری 1979 کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ختم ہوئے۔

ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی آزاد قوموں کے لئے ایک رول ماڈل

 اسلامی انقلاب کے متاثر کن نظریات تمام آزاد مسلم ممالک اور دنیا بھر کی آزادی پسند قوموں کے لئے رول ماڈل بن گئے۔

 آج 42 سال گزرنے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں امریکہ اور صیہونی حکومت جیسی عالمی استکباری اور جابر طاقتوں کے خلاف جنگ میں صف اول کی طاقت بن کر کھڑا ہے۔ 

سفید انقلاب 

جنوری 1963 میں شاہ نے ایک اصلاحاتی  پروگرام جاری کیا جسے "سفید انقلاب" کہا جاتا ہے۔ 

یہ چھ نکاتی منصوبہ ایران کی ترقی کے لئے تیار کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ تاہم، امام خمینی سمیت تمام دینی شخصیات کے لئے اس نام نہاد اصلاحاتی پروگرام کی دین مخالف مغربی نوعیت واضح تھی۔

 امام خمینی نے ان اصلاحات کو شاہ اور اس کی بادشاہت کے تناظر میں دیکھا، اور ایران میں مزید امریکی اور صیہونی سازشوں کے لیے ایک میدان بنا۔ مذہبی شخصیات اور شاہ کے نمائندوں کے درمیان تمام بات چیت بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی کیونکہ شاہ نے پروگرام کی نوعیت کو واضح کرنے سے انکار کر دیا۔

آخر کار امام خمینی اور دیگر دینی شخصیات نے سفید انقلاب کے ریفرنڈم کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ دو دن بعد، شاہ اپنے لاو لشکر سمیت قم گئے اور اپنی تقریر میں مذہبی شخصیات پر سخت تنقید کی اور علماء کی مخالفت کے باوجود ریفرنڈم کرایا گیا اور پروگرام کی منظوری دی گئی۔

امام خمینی کا تاریخی خطاب 

ملک بھر میں نوروز (ایرانی سال نو) کی تقریبات کی منسوخی کے ذریعے پہلوی رژیم کی مذہبی اور عوامی مخالفت مختلف طریقوں سے جاری رہی، تاہم اس مخالفت میں اہم عنصر امام خمینی کی وہ تقریر تھی جو 3 جون 1963 کو مدرسہ فیضیہ میں کی گئی۔امام حسین علیہ السلام کی المناک شہادت کی یاد میں منعقدہ مجالس میں، امام خمینی نے شاہی رژیم  کی اسلام مخالف پالیسیوں پر سخت تنقید کی اور اسے ظالم اموی حکمران یزید کی حکومت کہا کہ جس کے حکم سے امام حسین کو قتل کیا گیا تھا۔

ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی آزاد قوموں کے لئے ایک رول ماڈل

 امام نے طلباء اور علماء کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پہلوی حکومت کی غداریوں کو ایرانی قوم کے سامنے بے نقاب کیا۔

 انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا، "وہ الہی دین اسلام اور علمائے کرام کی بنیادوں کے خلاف ہیں اور ان کا مقصد اسلام اور علمائے کرام کو تباہ کرنا ہے۔ اے لوگو! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے اسلام اور ملک کو شاہ کی جابر حکومت سے خطرہ لاحق ہے اور ہمیں اس صورتحال پر گہری تشویش ہے۔

 امام خمینی کو پہلوی رژیم نے گرفتار کر کے جلاوطن کر دیا

 دو دن بعد صبح تین بجے، پہلوی رژیم کے کارندوں نے قم میں خمینی کے گھر پر چھاپہ مارا اور انہیں گرفتار کر لیا۔ امام خمینی کی عوامی مقبولیت اس حد تک تھی کہ کمانڈوز نے انہیں صبح کی نماز پڑھنے کے لیے صرف 5 منٹ کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا، تاکہ لوگوں کو ان کی گرفتاری کے بارے میں معلوم نہ ہو، مزید یہ کہ انہوں نے گاڑی کا انجن اسٹارٹ کرنے کی بھی ہمت نہیں کی اور گاڑی کو کچھ دور تک دھکیل دیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ انجن کی آواز پڑوسی کو جگا دے گی جو یقینی طور پر گرفتاری کو روک دے گا۔ انہوں نے عجلت میں انہیں تہران کی قصر جیل منتقل کر دیا۔ امام خمینی کو پہلے قید کیا گیا، پھر اکتوبر 1963 سے مئی 1964 تک نظر بند رکھا گیا۔

4 نومبر 1964 کو انہیں خفیہ طور پر انقرہ اور پھر ترکی کے شہر برسا لے جایا گیا۔ 5 ستمبر 1965 کو وہ عراق کے شہر نجف چلے گئے اور صدام حکومت کی طرف سے جلاوطن کئے جانے تک وہیں رہے۔ آخر کار، پہلوی حکومت کے دباؤ میں، انہیں 6 اکتوبر 1978 کو پیرس کے شہر نوفل شاتو  جلاوطن کر دیا گیا۔ 

15 خرداد کی خونی بغاوت 

 5 جون 1963 کے مظاہروں کو 15 خرداد کی بغاوت کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے معاصر ایران کے تاریخ ساز واقعات میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے، جس نے اسلامی انقلاب کے شعلے بھڑکائے اور سلسلہ وار واقعات کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں تقریباً 15 سال بعد اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا۔

ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی آزاد قوموں کے لئے ایک رول ماڈل

 5 جون 1963 کو ایرانی عوام نے اپنے مقصد کے لئے کٹ مرنے کا فیصلہ کیا اور کفن پہن کر روڈوں پر آگئے، عوام نے امام خمینی کی گرفتاری کی خبر کے بعد، امریکی حمایت یافتہ شاہ کے خلاف زبردست مظاہرے کیے۔

تاہم حکومت نے مظاہروں کو تشدد کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ شہید اور زخمی ہوگئے، اس تاریخی بغاوت کو "15 خرداد" کا نام دیا گیا ہے جو کہ اسلامی تحریک کا نقطہ آغاز تھا جس سے ایران کی تقدیر بدل گئی۔ اگرچہ امام خمینی کو ایک سال بعد جلاوطن کر دیا گیا تھا، لیکن اس تحریک کا اختتام فروری 1979 میں ان کی وطن واپسی پر ہوا۔

شاہ فرار ہوگئے اور امام خمینی 15 سال بعد وطن لوٹ گئے

1979 کے اوائل میں، سیاسی بدامنی اور ملک گیر مظاہروں کی صورت میں پورے ملک میں ایرانی عوام کا عدم اطمینان شدت اختیار کر گیا اور ایران کا امریکی گماشتہ شاہ اور اس کا خاندان 16 جنوری کو ایران سے فرار ہو گیا۔

ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی آزاد قوموں کے لئے ایک رول ماڈل

 محمد رضا شاہ کے ایران سے فرار ہونے کے صرف دو ہفتے بعد، یکم فروری 1979 کو امام خمینی فاتحانہ انداز میں وطن واپس آئے۔ 

 تہران کے مہرآباد ایئرپورٹ پر امام خمینی ہوائی جہاز کی سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے۔

ملک پہنچنے پر لاکھوں ایرانیوں نے امام خمینی کا استقبال کیا۔ 

ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی آزاد قوموں کے لئے ایک رول ماڈل

 اسلامی انقلاب کی فتح، پہلوی خاندان کا خاتمہ

 11 فروری کو مسلح افواج کے کمانڈروں نے امام خمینی کے گھر پر حاضری دی اور بانی انقلاب اسلامی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ 

مسلح افواج کی جانب سے شاہی رژیم سے لاتعلقی کے اعلان کے بعد پہلوی حکومت کے وزیر اعظم شاپور بختیار فوری طور پر ایران سے فرانس فرار ہو گئے۔

اسلامی انقلاب کا یہ عظیم طوفان ملک پر مسلط 2500 سالہ بادشاہت کے خاتمے کا اعلان تھا۔ امام خمینی نے عوام سے امن و امان کی بحالی کی اپیل کی اور آزاد اسلامی جمہوریہ ایران باضابطہ طور پر قائم ہوا۔

 98 فیصد ایرانیوں نے اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ دیا۔

ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی آزاد قوموں کے لئے ایک رول ماڈل

 1979 میں اسلامی انقلاب کی فتح کے دو ماہ بعد، عبوری حکومت نے 30 اور 31 مارچ کو اسلامی جمہوریہ کے لئے ریفرنڈم کا انعقاد کیا۔

سولہ سال اور اس سے زیادہ عمر کے تمام ایرانی مرد اور خواتین سے کہا گیا کہ وہ اسلامی حکومت اور آئین کی نئی شکل کے طور پر قبول کرنے کے سوال پر ریفرنڈم میں شرکت کریں۔

 یکم اپریل کو ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان کیا گیا جس میں 98.2 فیصد ایرانیوں نے اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ دیا۔ 

اسلامی انقلاب کی سالگرہ

 ہر سال ایرانی عوام یکم فروری سے 11 فروری تک اسلامی انقلاب کی سالگرہ مناتے ہیں، جسے دھہ فجر کا نام دیا گیا ہے۔ 

ایران کا اسلامی انقلاب دنیا کی آزاد قوموں کے لئے ایک رول ماڈل

ہر سال فارسی کیلنڈر کے مہینے "بہمن" کی 22 (11 فروری) کو ایرانی عوام اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی مناسبت سے مختلف تقاریب میں حصہ لیتے ہیں اور ملک کے اعلیٰ عہدے دار، اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی سے تجدید عہد کرتے ہیں۔

 

ساقی دشت کربلا کی نیک صفات
ابوالفضل علیہ السلام نے بزرگوں کے دل و فکر کو مسخر کیا، ہر جگہ اور ہر وقت حریت پسندوں کے لئے زندہ جاوید ترانہ بن گئے کیونکہ اپنے بھائی کے لئے ایک عظیم قربانی رقم کی، اس بھائی کے لئے جو ظلم و جور کے خلاف اٹھے تھے اور مسلمانوں کے لئے عزت جاویداں کمائی اور اسلام کو دائمی و ابدی عظمت عطا کی۔
دیکھتے ہیں کہ ہمارے الہی پیشوا کیا فرماتے ہیں ساقی دشت نینوا کی شان میں؟:
1 امام سجاد علیہ السلام
تقوی اور فضیلت کی چوٹی پر رونق افروز امام علی بن الحسین، حضرت زین العابدین علیہ السلام اپنے چچا عباس کے لئے اللہ کی بارگاہ سے طلب رحمت کیا کرتے تھے اور بھائی حسینؑ کے لئے ان کی قربانیوں کو نیکی کے ساتھ یاد کیا کرتے تھے اور ان کی جانبازیوں کی مسلسل تعریف و ستائش فرمایا کرتےتھے۔
آپؑ فرماتے ہیں:
اللہ تعالی میرے چچا عباس پر رحمتیں نازل فرمائے جنہوں نے قربانی دی اور آزمائش کی گھڑی سے نہایت خوبصورت انداز میں عہدہ برآ ہوئے۔ انہوں نے اپنے آپؑ کو بھائی پر قربان کردیا حتیٰ کہ اس راہ میں آپؑ کے دونوں ہاتھ قلم ہوئے۔ خداوند متعال نے ان دنیاوی ہاتھوں کی جگہ جعفر طیار بن ابی طالب علیہما السلام، کی طرح انہیں بھی دو پر عطا فرمائے جن کے ذریعے وہ جنت میں محو پرواز رہتے ہیں۔ عباسؑ کو اللہ تعالی کی بارگاہ میں وہ منزلت و مرتبت حاصل ہے کہ روز قیامت تمام شہداء ان کے مقام پر رشک کھاتے ہیں۔
یہ امام معصومؑ کے کلمات ہیں جن سے علمدار کربلا کے حقیقی پہلو عیاں ہوتے ہیں۔ وفا اور اطاعت میں ایسے کہ کائنات کے لئے مثال ٹہرے۔ کبھی اپنے زمانے کے امامؑ سے آگے نہیں بڑھے اور کبھی امامؑ کی رائے کے سامنے اپنی رائے کو ترجیح نہیں دی۔ عارف تھے اور معرفت خدا و رسولؐ و امامؑ کے مالک تھے۔ جوشیلے نوجوان نہیں تھے بلکہ عارف و اطاعت گزار تھے۔
2ـ امام صادق علیہ السلام
امام صادق علیہ السلام رئیس مذہب جعفری ہیں، انسانی علوم کا بے مثل چہرہ ہیں، امین ائمہؑ و رسول اللہ ﷺہیں، ہزاروں شاگردوں کے استاد ہیں مذاہب اربعہ کے امام آپؑ کی شاگردی پر فخر کرتے ہیں اور آپؑ حضرت ابوالفضلؑ کی شان میں ارشاد فرماتے ہیں:
میرے چچا عباس علیہ السلام نافذ بصیرت اور ایمان محکم کے مالک تھے۔ اپنے بھائی کے ہمراہ جہاد کیا بہترین انداز سے آزمائش سے عہدہ برآ ہوئے اور شہید ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔
کلام امامؑ کے اہم نکتے:
الف : دوراندیشی اور ہوشیاری
تیز بینی، اور ہوشیاری فکر کی استواری اور رائے کے استحکام کا نتیجہ ہے اور انسان صرف اسی صورت میں یہ استواری اور استحکام حاصل کرسکتا ہے کہ روح و نفس کی تہذیب و تزکیہ کرے، خلوص نیت کا مالک ہو، غرور اور نفسانی خواہشات کو اپنے آپ سے دور کرے اور انہیں اپنے باطن پر مسلط نہ ہونےدے۔
تیز بینی اور بصیرت ابوالفضل العباس کی برجستہ ترین خصوصیات میں سے ہے۔ تیز بینی اور فکر کی گہرائی کی بدولت ہی امام ہدایت و سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی حمایت و پیروی کے لئے اٹھے اور شرف و کرامت کی چوٹیاں سر کردیں اور تاریخ کے صفحات پر امر ہوگئے۔ پس جب تک انسانی اقدار محترم ہیں انسان حضرت عباس کی بے مثل شخصیت کے سامنے سر تعظیم خم کرتا رہے گا۔
ب :ایمانِ محکم
حضرت عباسؑ کی ایک اہم صفت آپؑ کے ایمان محکم سے عبارت ہے۔ ایمان محکم کی نشانی یہ ہے کہ آپؑ نے اپنے بھائی ریحانہ رسولؐ  کے ساتھ مل کر جہاد کیا جس سے مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کا حصول تھا اور یہ حقیقت روز عاشورا آپؑ کی رجز خوانی سے ظاہر و ثابت ہے کہ آپؑ کربلا میں دنیا کے لئے نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لئے آئے تھے اور جانتے تھے کہ امامؑ کی محبت کا اللہ کی اطاعت میں مضمر ہے اور یہ کہ امام حسینؑ کا ساتھ دینا در حقیقت اللہ تعالی کے دین کی حمایت ہے۔ ایمان محکم کی دلیل یہی تو ہے۔
ج :امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ جہاد
امام صادق علیہ السلام نے اپنے مختصر سے ارشاد میں قہرمان کربلا چچا عباس علیہ السلام کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حضرت عباسؑ نے اپنے بھائی کے ہمراہ جہاد کیا۔ اس جہاد کے سپہ سالار سید الشہداء سبط رسول خداؑ اور سرور نوجوانانِ بہشت امام حسین بن علی علیہ السلام تھے۔ جہاد بھائی کی مقصد کے لئے ہورہا ہے اور بھائی نے فرمایا ہے کہ یہ جہاد امت محمدؐ  کی اصلاح، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احیاء اور دین محمدؐ کو انحراف سے بچانے کے لئے ہے۔ اپنے عظیم بھائی کے اس عظیم ہدف کے لئے جہاد میں شرکت ایک عظیم فضیلت تھی جو عباسؑ نے ہاتھ سے نہ جانے دی۔ آزمائش کی گھڑی سے سرخرو ہوکر عہدہ برآ ہوئے، روز عاشور مردانگی اور اطاعت و وفا کے انمٹ نقوش چھوڑ دیئے اور شہید ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔
د : فداکا ری اور جانفشانی
امام صادق علیہ السلام امام وقت بھائی امام حسین علیہ السلام کے راستے میں چچا عباس علیہ السلام کی فداکاری اور جان نثاری کی شہادت دے رہے ہیں جنہوں نے باطل کے خلاف لڑتے ہوئے خالصانہ انداز میں جانفشانی کی، کفر و باطل کے پیشواؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھائی کی پشت پناہی کی اور تاریخ کے عظیم ترین جانباز بن گئے،عظیم فداکاریاں کیں اور بھائی کے ساتھ مل کر شدید ترین دشواریاں برداشت کیں۔
امام صادق علیہ السلام زیارت جاری رکھتے ہوئے چچا عباس کی اعلی صفات اور اللہ کی بارگاہ میں آپؑ کی منزلت بیان فرماتے ہیں:
میں گواہی دیتا ہوں اور خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں کہ آپ بدر کے مجاہدین کے راستے پر گامزن ہوئے اور اللہ کے راستے میں راہ خدا کے مجاہدین اور خدا پسند روشن ضمیروں اور اللہ کے دوستوں کی طرح اس کے دشمنوں کے خلاف جہاد کیا اور اللہ کے دوستوں کے مدافعین اور اس کے اولیاء کے مددگاروں کے حامیوں کی مانند آگے بڑھے اور ان ہی کی مانند جِدّ و کوشش کی، پس خداوند متعال وہ مکمل ترین، بہترین اور والاترین پاداش آپؑ کو عطا فرمائے جو وہ اپنے اولیائے امر کے فرمانبرداروں اور اپنی دعوت کو لبیک کہنے والی ہستیوں کو عطا فرمایا کرتا ہے۔(1)
امام صادق علیہ السلام گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالی کو گواہ قرار دیتے ہیں کہ حضرت عباس عالم کے احرار کے باپ سیدالشہداء علیہ السلام کی راہ میں لڑتے ہوئے بدر کے مجاہدین کے راستے پر گامزن تھے،ان شجاع جوانمردوں کے راستے پر گامزن تھے جنہوں نے اپنے خون سے اسلام کی دائمی فتح کو یقینی بنایا، وہ جو اپنے مقصد کے برحق ہونے پر یقین رکھتے تھے اور آگہی و بصیرت کے ساتھ شہادت کا انتخاب کیا اور توحید کا پرچم تاریخ کی چوٹی پر لہرایا اور کلمہ توحید کی صدا آفاق و انفس تک پہنچادی۔ ابوالفضل العباسؑ بھی اسی راستے پر گامزن ہوئے اور اسلام کو اموی اوباش اور ابوسفیان زادے کی چنگل سے نجات دلانے کے لئے میدان کارزار میں اترے وہی ابوسفیان زادہ جو کلمہ الہی کو مٹادینا چاہتا تھا اور اسلام کی بساط لپیٹنا اور اسلام کا پرچم گرانا چاہتا تھا۔ آپؑ اپنے بھائی کے ہمراہ اس کے خلاف اٹھے اور اس راہ میں شہادت پائی۔
ابوالفضلؑ اپنے بھائی سیدالشہداء حسین بن علیؑ کی سپہ سالاری میں سفاک اموی طاغوت کے خلاف اٹھے اور ان ہی بھائیوں اور ان کے خاندان و انصار و اعوان کے قیام ہی کی برکت سے کلمہ حق کی تثبیت ہوئی اور اسلام فتح مند ہوا اور حق و حقیقت کے دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
قتل حسینؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
امام صادق علیہ السلام حضرت عباس علیہ السلام کی زیارت جاری رکھتے ہوئے آپؑ کی الہی پاداش کے بارے میں فرماتے ہیں:
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑ نے نصیحت و خیرخواہی کا حق ادا کیا اور آپؑ نے اپنی انتہائی کوششیں کردیں، پس خداوند متعال نے آپؑ کو شہیدوں کے درمیان مبعوث فرمایا،آپ کی روح کو سعیدوں کی ارواح کے ہمراہ کردیا،آپؑ کو وسیع ترین بہشتی منزل میں جگہ عطا فرمائی اور بہترین کمرے آپ کے سپرد کئے اور آپؑ کے نام کو علیین کے زمری میں عالمگیر کردیا اور انبیاء، شہداء، صالحین کا رفیق قرار دے کر ان کے ہمراہ محشور فرمایا اور کیا خوب رفقاء ہیں یہ۔
میں شہادت دیتا ہوں کہ آپؑ نے سستی نہیں کی، پسپا نہیں ہوئے، اپنے امر میں بصیرت کے ساتھ آگے بڑھے جبکہ آپؑ صالحین اور انبیاء کی پیروی کررہے تھے۔ پس ہمارا اللہ آپؑ، اپنے نبیؐ اور اپنے اولیاء کو بزگزیدگان اور طاہرین کے مقام پر مجتمع فرمائے کہ وہی ہے مہربانوں کا مہربان ترین۔4

زیارت کے اس آخری حصے میں ہم اس حقیقت سے واقفیت حاصل کرتے ہیں کہ کیا مقام و منزلت ہے امام صادق علیہ السلام کے نزدیک حضرت عباس علمدارؑ کی؟ اسی بنا پر امام صادق علیہ السلام اپنے چچا کے لئے بہترین مقامات و درجات کی التجا کرتے ہیں اپنے پروردگار سے۔
3 ـ حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجَہ الشریف
دنیا میں عدل و انصاف قائم کرنے والے اور دنیا پر حق و عدل کے غلبے کے سلسلے میں اللہ کے وعدوں کو سچا دکھانے والے نیز بنی نوع انسان کو نجات دلانے والے امام غائب حضرت امام زمانہ مہدی آل محمد عجلَ اللہ تعالی فرَجَہ الشریف ، قائم آل محمد ، چچا عباسؑ علمدار کی شان میں اپنے نہایت حسِین کلام کے ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں:
سلام ہو ابوالفضل عباس بن امیرالمؤمنین پر، بھائی کے عظیم ہمدرد پر جن کی راہ میں آپؑ نے اپنی جان کا نذرانہ دیا، اور گذشتہ کل پر آئندہ کل کے اجر و پاداش کو ترجیح دی، وہی جو بھائی کے فدائی تھے اور بھائی کی حفاظت کی اور بھائی کو پانی پہنچانے کی کوشش کی اور آپؑ کے ہاتھ منقطع ہوئے۔ خداوند متعال ابوالفضل کے قاتلوں پر لعنت کرے۔ (2)
امام عصر عجل اللہ تَعالی فرجہ الشریف اپنے چچا کے بنیادی اوصاف یوں بیان فرماتے ہیں:
1 ـ بھائی سیدالشہداء کے ساتھ ہمدردی اور ہمراہی نیز ہمدلی جو تاریخ میں ضرب المثل ٹہری۔
2۔ تقوی کے ذریعے آخرت کا سامان فراہم کرنا، دنیا پرستی سے پرہیز کرنا اور ہدایت و نور کے امام کی مدد کرنا۔
3۔ اپنے اور اپنے بھائیوں کی جانیں سید جوانانِ بہشت امام حسین علیہ السلام کی راہ میں قربان کرنا۔
4۔ خون کا نذرانہ دے کر بھائی کی حفاظت کرنا۔
5 ـ بھائی اور بھائی کے اہل خانہ کو پانی پہنچانے کی کوشش کرنا ایسے حال میں جب اموی بادشاہ یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے لشکر نے امامؑ اور آپؑ کے خاندان و اصحاب پر پانی بند کردیا تھا۔

حوالہ جات
1)۔مفاتیح الجنان ، زیارت حضرت عباس علیہ السّلام۔
2)۔ مفاتیح الجنان شیخ عباس قمى و دیگر كتب ادعیہ و زیارات۔

 ایران نے تین نئے سیٹلائٹس، نواک-1، پارس-2، اور جدید پارس-1 کی رونمائی کردی ہے۔

خلائی ٹیکنالوجی کے قومی دن کے موقع پر پیر وزارت اطلاعات و مواصلات کی جانب سے تقریب منعقد ہوئی جس میں صدر مسعود پزشکیاں، آئی ٹی وزیر ستار ہاشمی، فوجی حکام اور خلائی ٹیکنالوجی کے ماہرین شریک ہوئے۔

تقریب میں ایران نے اپنی جدید سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواک-1، پارس-2 اور جدید پارس-1 سیٹلائٹس کی رونمائی کی۔

نواک ایک مواصلاتی سیٹلائٹ ہے جو ایرانی خلائی تحقیقاتی مرکز نے ایک پلیٹ فارم پر تیار کیا ہے۔ سیٹلائٹ کا وزن 20 سے 50 کلوگرام کے درمیان ہے۔ اس سیٹلائٹ کو جلد ہی اسے ایک بیضوی مدار میں بھیجے گا۔ اس سیٹلائٹ کے ابعاد 40x40x60 سینٹی میٹر ہیں۔ یہ مختلف سائنسی آلات سے لیس ہے۔

نواک سیٹلائٹ ایران کی خلائی صنعت میں ایک اہم قدم ہے، جو مستقبل میں مزید ترقی کی راہ ہموار کرے گا۔

ایران کی خلائی ترقی کا شاندار مظاہرہ، مختلف سیٹلائٹس کی رونمائی

پارس-2 ایک جدید ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ہے جس کا وزن 150 کلوگرام ہے اور اسے دو امیجنگ پے لوڈز سے لیس کیا گیا ہے۔

یہ سیٹلائٹ مکمل طور پر ملکی سطح پر تیار کیا گیا ہے اور مختلف شعبوں میں استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، جن میں ماحولیاتی نگرانی، جنگلات کی دیکھ بھال، قدرتی آفات سے نمٹنے کے اقدامات وغیرہ شامل ہیں۔

پارس-2 ایران کی خلائی صنعت میں خود انحصاری اور تکنیکی ترقی کی علامت ہے جو مختلف سائنسی اور تجارتی مقاصد کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔

ایران کی خلائی ترقی کا شاندار مظاہرہ، مختلف سیٹلائٹس کی رونمائی

پارس-1 کا جدید ورژن ایک ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ہے، جو 100 سے 150 کلوگرام وزن کے حامل پلیٹ فارم پر تیار کیا گیا ہے۔ اس میں متعدد امیجنگ پے لوڈز شامل کیے گئے ہیں جن میں ملٹی اسپیکٹرل سینسر، شارٹ ویو انفراریڈ سینسر، تھرمل انفراریڈ سینسر شامل ہیں۔

ایران کی خلائی ترقی کا شاندار مظاہرہ، مختلف سیٹلائٹس کی رونمائی

 اکتالیسویں بین الاقوامی قرآن کریم مقابلے میں شرکت کرنے والے اساتذہ، قاریوں اور حافظوں نے (اتوار) صبح حسینہ امام خمینی میں رہبر معظم انقلاب اسلامی سے ملاقات اور محفل انس قرآن کریم میں شرکت کی۔

اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حاضرین سے مختصر خطاب بھی کیا جس کے اہم نکات یہ ہیں۔    

- میں اس مقابلے کے انعقاد اور پورے ملک میں قرآن پاک کو مختلف طریقوں سے فروغ کے لیے انجام پانے والی کوششوں پر خدا کے شکر گزار ہیں۔

- میں آپ کو حضرت امام الحسین علیہ السلام کے یوم ولادت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ خدا وند تعالیٰ ہمیں اس عظیم انسان اور معزز خاندان اہلبیت کے پیروکاروں میں شامل فرمائے۔

- اعجاز قرآن اور معجزات نبوی کا تسلسل کائنات کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔

 - انشاء اللہ غزہ صیہونی حکومت پر غالب آجائے گا۔

- خدا پر توکل کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یقین ہونا چاہئے کہ خدا کے حکم سے ناممکن ممکن ہو جاتا ہے۔

 - ایرانی قوم میں "امریکہ مردہ باد" کہنے کی ہمت ہے، امریکہ جارح اور دروغگو ہے۔

- ایرانی قوم نے صبر کا مظاہرہ کیا ہے اور ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔  

- توکل کی عملی شرط میدان عمل میں موجودگي ہے۔

- ملت اسلامیہ کے مسائل خدا پر توکل کرکے حل ہوسکتے ہیں۔

اللہ کے حکم سے ناممکن ممکن ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی کہتا کہ: غزہ امریکی حکومت جیسی بڑی طاقت سے لڑے گا اور غزہ اس پر غالب آجائے گا، تو کیا آپ یقین کرتے ؟! آپ اس پر یقین نہیں کرتے؛ یہ ناممکنات میں سے ہے، لیکن اللہ کے حکم سے یہ ممکن ہوگیا۔

 ایرانی قوم اور دوسری قوموں میں فرق یہ ہے کہ وہ امریکہ کو جارح، جھوٹا اور دھوکے باز کہنے کی جرأت رکھتی ہے لیکن دوسرے لوگ ہمت نہیں کرتے اور اپنے حصے کا کام نہیں کرتے۔ جب وہ ایسا نہیں کریں گے تو کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

پچھلے چالیس برس میں دنیا کی تمام استکباری طاقتوں نے ایران پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن ایرانی قوم کو نہ صرف نقصان پہنچا بلکہ اس نے ترقی کی ہے۔

آج کا ایران 40 سال پہلے کا ایران نہیں ہے۔

 ایران سے ہر شعبے میں ترقی کی ہے۔

حضرت رسول خدا ﷺ امام حسین علیہ السلام سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے آپ کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کی شان و منزلت اور مقام کیا تھا اس سلسلہ میں آپ کی بعض احادیث درج ذیل ہیں:
1. "حُسَينٌ مِنِّي وأنا مِن حُسين، أحَبَّ اللهُ مَن أحبَّ حُسَيناً والحسين سبط من الأسباط”
"حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں، اللہ ہر اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسینؑ سے محبت کرتا ہے۔”
(الجامع الصحيح سنن الترمذي الجزء 5 الصفحة 658۔ / المعجم الكبير ج3 ح2586 ص32)


2. "الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ”
"حسن اور حسین علیھما السلام جوانان جنت کے سردار ہیں۔”
(سنن الترمذي ،ج5/ص 656 )


3. "أن الحسين باب من أبواب الجنة من عاداه حرّم الله عليه ريح الجنة”
"بے شک حسین ؑ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہیں جو کوئی بھی حسین ؑ سے دشمنی رکھے اللہ نے اس پر جنت کی خوشبو حرام کردی ہے۔”
(مائة منقبة: ص22 المنقبة الرابعة/بحار الانوار، ج؛35، ص:405)


4. (من أحب الحسن و الحسين فقد أحبني ، و من أبغضهما فقد أبغضني .)
"جو حسن اور حسین علیھما السلام سے محبت کرتا ہے پس وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو ان دونوں سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے۔”
(و رَواه أحمد بن حنبل في مسنده : 2 / 288 .)


5. "من اراد ان ینظر الی سید شباب اھل الجنۃ فلینظر الی حسین ابن علی ۔”
"جو کوئی بھی چاہتا ہے کہ جنت کے جوان کی جانب دیکھے اسے چاہئیے کہ حسین بن علی علیہ السلام کو دیکھ لے ۔”
(سیراعلام النبلاء ، ج۳ ، ص ۱۹۰)


6. "انی حرب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم۔”
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب علی ؑ فاطمۃ ؑ حسین اور حسین ؑ کی جانب دیکھ کر فرمایا) میری ہر اس سے جنگ ہے جس کی آپ سے جنگ ہے اور اس سے سلامتی ہے جس کی آپ کے ساتھ سلامتی ہے۔”
(فرائد السمطين: ج2 ص83)


7. "الحسن والحسين ابناي، من أحبَّهما أحبَّني، ومن أحبَّني أحبَّه اللهُ”
"حسن اور حسین علیھما السلام میری دو بیٹے ہیں جو ان دونوں سے محبت رکھے اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی۔”
(المستدرك على الصحيحين رقم الحديث: 4719 )


8. عن البَرَّاء بن عازب، قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله حاملاً الحسين بن علي عليهما السلام على عاتقه وهو يقول: اللَّهُمَّ إِنِّي أُحبُّهُ فَأحِبَّه۔”
براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ص کو دیکھا کہ آپ ص نے حسین بن علیؑ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے یہ فرما رہے تھے” خداوندا! میں حسین ؑ سے محبت کرتا ہوں تو بھی حسین ؑ سے محبت کرے”
(مسند امام احمد، باب فضائل الحسن و الحسین علیھما السلام، ج۔3، ص؛192)


9۔ عن الرضا عن آبائه عليهم السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : "من أحب أن ينظر إلى أحب أهل الأرض إلى أهل السماء فلينظر إلى الحسين عليه السلام.”
امام رضا علیہ السلام اپنے آباء و اجداد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا: ” جو شخص زمین والوں سے لیکر آسمان والوں تک کی نگاہ میں محبوب ترین شخص کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ حسین علیہ السلام کو دیکھے۔”
(مناقب ابن شھر آشوب، ج؛3، س؛229/ بحار، ج:43، ص؛298)


10۔ روى الخطيب باسناده عن ابن عباس قال: «كنت عند النبي صلّى الله عليه وآله وسلّم وعلى فخذه الايسر ابنه إبراهيم، وعلى فخذه الأيمن الحسين بن علي، تارةً يقبّل هذا، وتارةً يقبّل هذا، إذ هبط عليه جبريل بوحي من رب العالمين. فلما سرى عنه قال: أتاني جبريل من ربي، فقال لي: يا محمّد ان ربك يقرأ عليك السلام ويقول لك: لست أجمعهما لك فافد أحدهما بصاحبه، فنظر النبي صلّى الله عليه وآله وسلّم إلى إبراهيم فبكى، ونظر إلى الحسين فبكى، ثم قال: ان إبراهيم أمّه أمة، ومتى مات لم يحزن عليه غيري، وأم الحسين فاطمة وأبوه علي ابن عمي لحمي ودمي، ومتى مات حزنت ابنتي وحزن ابن عمي، وحزنت أنا عليه وأنا أوثر حزني على حزنهما، يا جبريل تقبض إبراهيم فديته بإبراهيم، قال: فقبض بعد ثلاث، فكان النبي صلّى الله عليه وآله وسلّم إذا رأى الحسين مقبلا قبّله وضمه إلى صدره ورشف ثناياه، وقال: فديت من فديته بابني إبراهيم»
ﺧﻄﻴﺐ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ ﺍﭘﻨﯽ ﻛﺘﺎﺏ ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﻧﻘﻞ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﺧﺪﺍ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﮐﮧ آﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺯﺍﻧﻮ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻋﻠﻰ علیہ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺯﺍﻧﻮ ﭘﺮ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ آﭖ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺴﻴﻦ ﮐﻮ ﺑﻮﺳﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺟﺒﺮﺋﻴﻞ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺣﺎﻣﻞ ﻭﺣﻰ الٰہی ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﭘﻴﻐﻤﺒﺮ ﺍﻛﺮﻡ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺟﺒﺮﺋﻴﻞ آﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﺒﺮ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪ ﻧﮯ آﭖ ﭘﺮ ﺳﻼﻡ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ آﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺯﺍﻧﻮ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺩﻭ ﺑﭽﮯ ﺑﭩﮭﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ آﭖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﻮﮞ ﮔﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔ ﺭﺳﻮﻝ ﺧﺪﺍ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﻮ آﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ آﻧﺴﻮ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺣﺴﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﻮ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ۔ ﭘﮭﺮ آﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﯿﺰ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺣﺴﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻓﺎﻃﻤﻪ ﻋﻠﻴﮩﺎ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﻭﺭ اس ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﭼﭽﺎ ﺯﺍﺩ ﻋﻠﻰ علیہ السلام ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﮔﻮﺷﺖ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻥ ہیں، ﺟﺐ ﺣﺴﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﺱ ﺩﻧﻴﺎ ﺳﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﭖ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻏﻢ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻏﻢ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻏﻢ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻢ ﮐﻮ ﺗﺮﺟﯿﺢ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔
ﺍﮮ ﺟﺒﺮﺋﻴﻞ ! ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﻮ ﻣﺠھ ﺳﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺴﻴﻦ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺣﺴﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ آﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ آﺗﮯ ﺗﻮ آپﭖ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﻣﺘﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺒﻮﮞ، ﮔﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﻧﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﻮﻣﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ؛
"ﻓﺪﻳﺖ ﻣﻦ ﻓﺪﻳﺘﻪ ﺑﺈﺑﻨﻲ ﺇﺑﺮﺍﻫﻴﻢ”
"ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺍﺑﺮﺍﮨﻴﻢ ﮐﻮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔”
(تاريخ بغداد ج2، ص204)


11۔ عن ابن عباس فقال: "حضرت رسول الله صلّى الله عليه وآله وسلّم عند وفاته وهو يجود بنفسه، وقد ضم الحسين الى صدره وهو يقول: هذا من اطائب أرومتي وأبرار عترتي وخيار ذريتي، لا بارك الله فيمن لم يحفظه من بعدي. قال ابن عباس: ثم أغمي على رسول الله ساعة، ثم أفاق، فقال: يا حسين، ان لي ولقاتلك يوم القيامة مقاماً بين يدي ربي وخصومة، وقد طابت نفسي إذ جعلني الله خصماً لمن قاتلك يوم القيامة۔”
ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوا درحا لنکہ آپ ؐ جان کنی کی حالت میں تھے۔ اور آپ ؐ حسین ؑ کو اپنے سینے سے لگا کر ارشاد فرما رہے تھے: یہ میرے خاندان کا صالح ترین، میری عترت کا باشرف ترین اور میری ذریت کا نیک ترین فرد ہیں۔ خدا اس شخص کو سعادت نصیب نہ کرے جو میرے بعد ان کی حفاظت نہ کرے۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک ساعت کے لئے غشی کی حالت میں چلے گئے اور پھر دوبارہ افاقہ ہوا اور فرمایا: اے حسین ؑ! قیامت کے دن میرے پروردگار کی بارگاہ میں میرے اور تیرے قاتل کے مابین مقدمہ ہوگا۔ اور میرے لئے کتنا اچھا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھے تیرے قاتل کا حریف بنا دے گا۔”
(إحقاق الحق: ١١ / ٣٢٩ و ٣٦٥ إلى ٣٦٨)


12۔ عن الامام الحسين بن علي بن أبي طالب عليهم السلام قال : دخلت على رسول الله صلى الله عليه وآله وعنده أبي بن كعب فقال لي رسول الله : مرحبا بك يا أبا عبد الله يا زين السماوات والأرضين . قال له أبي : وكيف يكون يا رسول الله زين السماوات والأرضين أحد غيرك ؟ قال: يا أبي: والذي بعثني بالحق نبيا , ان الحسين بن علي في السماء أكبر منه في الأرض , وانه لمكتوب عن يمين عرش الله عز وجل :انہ مصباح هدى وسفينة نجاة وامام خير ويمن وعز وفخر وعلم وذخر وان الله عز وجل ركب في صلبه نطفة طيبة مباركة زكية ۔۔۔”
” امام حسین ابن علی علیھما السلام روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ابی ابن کعب آپ کے پاس بیٹھے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: خوش آمدید اے ابا عبد اللہ، اے آسمانوں اور زمینوں کی زینت۔ ابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ، اپ کے علاوہ کوئی اور آسمانوں اور زمینوں کی زینت کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: اے ابی ! اس ذات کی قسم جس نے مجھے نبی بنا کر مبعوث کیا بے شک حسین ابن علی ؑ آسمان میں زمین سے بھی زیادہ عظیم ہیں۔ اور بتحقیق عرش الٰہی کے دائیں جانب لکھا ہوا ہے : کہ بے شک (حسین ؑ) چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہیں۔ اور آپ خیر، برکت، عزت، فخر ، علم اور شرف کے امام ہیں۔ اور بتحقیق خداوند متعال نے ان کے صلب میں ایک پاک و پاکیزہ اور مبارک نطفہ قرار دیا ہے۔۔۔۔۔”
(عيون أخبار الرضا عليه السلام: 2/62، بحار الانوار، ج،91، ص:187)


13۔ عن أنس بن مالك قال:سمعت رسول الله يقول نحن ولد عبد المطلب سادة أهل الجنة، أنا وحمزة وعلي وجعفر والحسن والحسين والمهدي۔”
انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ص کو یہ فرماتے ہوئے سنا "ہم عبد المطلب کی اولاد اہل جنت کے سردار ہونگے: میں، حمزہ،علی ؑ،جعفرِ حسن اور حسین ؑ”
(مناقب الإمام علي من الرياض النضرة ح268 ص202)


14۔ "عن أبي أيّوب الأنصاري قال : دخلت على رسول الله (صلّى الله عليه وآله) والحَسَن والحُسَيْن يلعبان بين يديه في حجره ، فقلت : يا رسول الله , أتحبّهما ؟ قال : (( وكيف لا أُحبّهما وهما ريحانتاي من الدنيا أشمّهما ؟! )
جناب ایوب انصاری روایت کرتے ہیں کہ میں رسول خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپؐ اپنے حجرے میں تشریف فرما ہیں اور حسن و حسین علیھما السلام آپ ؐ کے دست مبارک سے کھیل رہے ہیں۔ میں نے پوچھا! یا رسول اللہ ﷺ! کیا آپ ان دونوں سے محبت کرتے ہیں؟ تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ” میں کیسے ان دونوں سے محبت نہ کروں درحالنکہ یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں جن کی میں خوشبو سونگھتا ہوں۔
( تاريخ مدينة دمشق 14 / 130 ح 3422 ، سير أعلام النبلاء 4 / 403 رقم 270 ، كفاية الطالب / 379)


15۔ عن علي (عليه السّلام) : ( إنَّ النبي (صلّى الله عليه وآله) أخذ بيد الحسن والحسين فقال : مَنْ أحبّني وأحبّ هذين وأباهما وأُمّهما كان معي في درجتي يوم القيامة )
امام علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے حسن و حسین علیھما السلام کے ہاتھوں کو پکڑ کر فرمایا ” جو مجھ سے محبت کرے اور ان دونوں سے، ان کے پدر بزگوار سے اور ان کی مادر گرامی سے محبت کرے تو قیامت کے دن وہ میرے درجے میں میرے ہمراہ ہونگے۔”
(الرياض النضرة في مناقب العشرة 2 / 189 ، كنز العمال 12 / 96 رقم 34161 ، ص 103 ح 34196 ، ينابيع المودة / 192)


16۔ عن أبي هريرة قال : خرج علينا رسول الله (صلّى الله عليه وآله) ومعه الحسن والحسين , هذا على عاتقه وهذا على عاتقه ، وهو يلثم ـ أي يقبّل ـ هذا مرةً وهذا مرّة حتّى انتهى إلينا ، فقال له رجل : يا رسول الله ، إنّك تحبّهما ؟ فقال : ( نعم ، مَنْ أحبّهما فقد أحبّني ، ومَنْ أبغضهما فقد أبغضني )
ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ ہمارے پاس تشریف لا رہے تھے اور حسن و حسین علیھما السلام بھی آپ ؐ کے ہمراہ تھے۔ ایک آپ ؐ (دائیں) کندھے پر اور ایک (بائیں) کندھے پر تشریف فرما تھے اور آپ باری باری دونوں کے بوسے لے رہے تھے یہاں تک کہ آپ ؐ ہمارے پاس پہنچ گئے تو ایک شخص نے آپ ؐ سے استفسار کیا یا رسول اللہ ﷺ! کیا آپ ان دونوں سے محبت کرتے ہیں؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ہاں، جو ان دونوں سے محبت کرے اس نے مجھ سے محبت کی اور جو ان دونوں سے بغض رکھے اس نے مجھ سے بغض رکھا۔”


17۔ قال رسول الله لعلي بن ابي طالب: إن أول أربعة يدخلون الجنة أنا وأنت والحسن والحسين”
رسول اکرم ص نے امام علی ؑ سے فرمایا” بتحقیق سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے چار افراد میں،آپ،حسن اور حسین ع ہونگے”
(نور الأبصار ص123)


18۔ابو ہریرہ سے روایت ہے :میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺامام حسین کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے یہ فرما رہے تھے :”اللھم انی احِبُّه فاحبّه،””پروردگار میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر ‘خدایا میں اس کو دوست رکھتا اور جو اس کو دوست رکھتا ہے اس کوبھی دوست رکھتاہوں” ”(مستدرک حاکم ،جلد ٣،صفحہ ١٧٧)”۔ اسی طرح ارشاد فرمایا” اللھم انی اُ حِبُّہ وَ أُحِبَّ کُلَّ مَنْ یُحِبُّہُ” (نور الابصار، صفحہ ١٢٩)

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ترجمان ابوعبیدہ نے کمانڈر محمد الضیف کی شہادت کی تصدیق کی ہے۔

ابوعبیدہ کے مطابق صہیونی حکومت کے حملے میں محمد الضیف کے ساتھ القسام کے دیگر کمانڈرز مروان عیسی، غازی ابوطماعہ، رائد ثابت اور رافع سلامہ بھی شہید ہوگئے ہیں۔ مروان عیسی محمد الضیف کے جانشین تھے۔

"موت کا بیٹا" محمد ضیف کون تھا؟

محمد دیاب ابراہیم المصری جو محمد الضیف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، حماس کے عسکری ونگ عز الدین القسام بریگیڈ کا کمانڈر تھا۔ انہوں نے صیہونی حکومت کے حملوں سے بچنے کے لئے اپنی مسلسل نقل مکانی کی وجہ سے "ضیف" کا لقب حاصل کیا۔ عربی میں ضیف کا مطلب مہمان ہوتا ہے۔ صہیونی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی گھر میں ایک سے زیادہ بار نہیں سوتے تھے اور نہ ہی وہ مستقل طور پر کسی جگہ ٹھہرتے تھے۔

 محمد ضیف 1965 میں غزہ کے علاقے خان یونس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے یونیورسٹی میں حیاتیات کی تعلیم حاصل کی اور کچھ عرصے تک تھیٹر کی سرگرمیاں کیں۔

گزشتہ 20 سالوں میں انہوں نے صیہونی غاصبوں کے خلاف بے شمار کارروائیوں میں حصہ لیا ہے۔ صیہونی حکومت کی جانب سے انہیں قتل کرنے کی پانچویں کوشش میں ان کی ریڑھ کی ہڈی کو شدید نقصان پہنچا جس کی وجہ سے وہ مفلوج ہو گئے۔ اس کے بعد سے ضیف نے حماس کے عسکری ونگ کی قیادت اپنے نائب احمد جابری کے حوالے کی ہے، جو 2012 میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔

بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق محمد ضیف ماضی میں قاتلانہ حملوں کے دوران زخمی ہونے کے بعد کئی سالوں سے وہیل چیئر استعمال کر رہے ہیں البتہ بعض ذرائع کا کہنا ہے وہ بغیر کسی مدد کے چل سکتے ہیں۔ 

القسام کے لئے راکٹوں کے ڈیزائن سے لے کر غزہ میں زیر زمین سرنگوں کی کھدائی تک

انہوں نے 1989 میں حماس اور 1993 میں عز الدین القسام بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی۔ محمد ضیف  یحیی عیاش کے قریبی لوگوں میں سے ایک تھے۔ انہیں 2002 میں صلاح شحادہ کی شہادت کے بعد بریگیڈ کا کمانڈر مقرر کیا گیا تھا۔

صیہونی حکومت انہیں 1996 سے صیہونیوں کے خلاف فلسطینی خودکش کارروائیوں کے ماسٹر مائنڈوں میں سے ایک سمجھتی تھی۔ محمد الضیف قسام بریگیڈ کے راکٹوں کے تین اہم ڈیزائنرز میں سے ایک تھا اور مئی 2000 سے اپریل 2001 تک فلسطینی اتھارٹی نے ان کو حراست میں لیا تھا۔ غزہ میں زیر زمین سرنگوں کی کھدائی محمد ضیف کے کارناموں میں سے ایک تھا۔ شہید عماد مغنیہ کے ساتھ ان کے اچھے اور قریبی تعلقات تھے۔ شہید مغنیہ کے اور شہید جنرل سلیمانی کے مشورے پر انہوں نے غزہ میں کئی سرنگیں تعمیر کیں۔ ان سرنگوں کی تعمیر میں 10 سال لگے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے وہاں سے حماس کی فوجی کارروائیوں کی قیادت کی تھی۔

محمد الضیف صہیونی حکومت کا نمبر ون دشمن

صہیونی حکومت نے کم از کم سات مرتبہ محمد ضیف کو شہید کرنے کی کوشش کی۔ 2000 کی دہائی میں چار مرتبہ ان پر حملہ کیا گیا۔ 2006 میں حماس کے ایک رکن کے گھر پر حملے میں وہ شدید زخمی ہوئے اور ایک آنکھ کھودی۔ 19 اگست 2014 کو صہیونی جنگی طیاروں نے غزہ میں ایک رہائشی عمارت پر رات کو حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے تین افراد شہید ہوئے۔ صہیونی حکام نے دعوی کیا کہ تیسرا فرد محمد ضیف ہے۔ اگلے دن محمد ضیف کی شہادت کی تردید کی گئی اور کہا گیا کہ ان کی بیوی اور بیٹی شہید ہوگئی ہیں۔

پے در پے کوششوں کے باوجود صہیونی حکومت ناکام ہونے پر ان کو موت کا بیٹا لقب دیا گیا۔ جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے سے گریز کرنے کی وجہ سے ان کو صہیونی حملوں سے بچنے کا موقع ملتا تھا۔ صہیونی محمد ضیف کو اپنا پہلے نمبر کا دشمن سمجھتے تھے۔

پہلی مرتبہ طوفان الاقصی کے بعد ان کی ویڈیو دنیا والوں کے سامنے آگئی جس میں انہوں نے طوفان الاقصی کی خبر دی۔ انہوں نے ویڈیو میں کہا کہ فلسطین کی طرف حرکت کل نہیں بلکہ آج ہی شروع کریں۔ کسی قسم کی سرحدی حدبندی آپ کو مسجد اقصی کی آزادی میں شریک ہونے سے نہ روکے۔

جب صہیونیوں نے محمد ضیف کی شہادت کی ویڈیو جاری کی

یکم اگست 2024 کو صہیونی فوج اور خفیہ ایجنسی شاباک نے کہا کہ غزہ کے شہر خان یونس میں فوجی آپریشن کے دوران امریکی میزائل لگنے سے حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ محمد ضیف شہید ہوگئے ہیں۔

صہیونی اخبار ہارٹز کے مطابق صہیونی فوج اور شاباک کو 13 جولائی کو اطمینان بخش خبر ملی تھی کہ محمد ضیف اور رافع سلامہ ایک عمارت میں ملاقات کررہے ہیں۔ صہیونی جنگی طیاروں نے ٹنل سے باہر آنے والے محمد ضیف اور رافع سلامہ پر المواسی کے علاقے میں حملہ کیا۔

صہیونی ذرائع ابلاغ کے مطابق حملے میں 9 ٹن بارودی مواد استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے محمد ضیف کے بچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ صہیونی حکومت نے تاکید کی تھی کہ القسام کے رہنماوں پر حملے کے لئے مدتوں پہلے منصوبہ بندی کی گئی تھی جو شین بٹ اور جنوبی کمانڈ کی نگرانی کی گئی تھی۔

العربیہ نے حماس کے ایک دفاعی ذریعے کے حوالے سے کہا کہ محمد ضیف کی طرف سے رفح میں القسام کے کمانڈر تک پیغام منتقل کرنے والے کے ذریعے محمد ضیف اور رافع سلامہ کے مکان کا کھوج لگایا گیا۔