سلیمانی

سلیمانی

Saturday, 27 April 2024 04:13

امریکی طلباء میدان میں

بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ جنگ کے بعد دنیا پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ اس دعوے کی واضح وجوہات ہیں۔ غزہ جنگ کے 200 سے زائد دنوں میں اطلاعات کے مطابق صیہونی حکومت نے اجتماعی قتل کے 3,025 واقعات کا ارتکاب کیا ہے، جن میں 41,000 سے زیادہ شہید یا لاپتہ ہوئے ہیں، جن میں سے 34,000 شہداء کی لاشوں کو اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے اور 7,000 تاحال لاپتہ ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 77 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ شہداء میں سے 14 ہزار 778 بچے ہیں اور 30 ​​بچے قحط سے جاں بحق ہوئے۔ شہداء میں 9752 خواتین ہیں۔

اس بنیاد پر غزہ کے 72 فیصد شہداء خواتین اور بچے ہیں۔ غزہ  پٹی میں 17 ہزار بچے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو کھو چکے ہیں۔ شہداء میں سے 485 طبی عملہ کے افراد ہیں۔ اس دوران 140 صحافی شہید ہوچکے ہیں۔ 11 ہزار زخمیوں کو ضروری طبی خدمات حاصل کرنے کے لیے غزہ کی پٹی سے باہر بھیجنا ہوگا اور غزہ میں کینسر کے 10 ہزار مریض موت کی کشمکش میں ہیں۔ نقل مکانی کے نتیجے میں غزہ کی پٹی کے ایک لاکھ 90 ہزار باشندے متعدی امراض میں مبتلا ہیں اور غزہ کی پٹی میں 60 ہزار حاملہ خواتین بھی طبی امداد کی عدم دستیابی کی وجہ سے انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔ 350 ہزار لاعلاج مریض ہیں، جنہیں میڈیسن کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کے خطرے کا سامنا ہے۔

ان تمام جرائم میں سے صرف ایک بھی جرم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (جس کی عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اہم ذمہ داری ہے)، کے لیے ایکشن لینے کے لیے کافی تھا، اقوام متحدہ نہ صرف یہ کہ صیہونیوں کے  جرائم کے خلاف رکاوٹ نہیں بنی، بلکہ اس کی بے عملی ان جرائم کے تسلسل کا بنیادی عنصر بن گئی ہے۔ اس عرصے کے دوران غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی چار قراردادوں کو امریکہ نے ویٹو کر دیا ہے۔ اس کارروائی کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت کو اپنی وسیع سیاسی، مالی اور یقیناً فوجی حمایت کے ساتھ، امریکہ نے ان جرائم کے تسلسل میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس جنگ میں بائیڈن نیتن یاہو کا اہم ساتھی بن گیا ہے۔

ان جرائم کی وسیع تر کوریج نے عالمی رائے عامہ کو بہت متاثر کیا ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ دنیا کے 95 فیصد سے زیادہ لوگ اس محاذ آرائی میں فلسطینی قوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگرچہ عالمی طاقت کی راہداریوں میں مغربی حکومتیں صیہونی حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن انسانی ضمیر کی بیداری نے بالخصوص امریکہ میں ایک الگ مرحلہ طے کیا ہے اور اس نقطہ نظر سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا ایک تبدیلی کا ایک بے مثال واقعہ دیکھ رہی ہے۔ امریکہ میں فلسطینی قوم کے کاز کی حمایت اور "فلسطین کو آزاد ہونا چاہیئے" اور "فلسطین سمندر سے دریا تک" امریکہ کی بہت سی یونیورسٹیوں خصوصاً اس ملک کی فرسٹ کلاس یونیورسٹیوں کے طلباء کا بنیادی مطالبہ بن چکا ہے۔

اس حوالے سے کولمبیا اور ہارورڈ یونیورسٹی کا نام خصوصی طور پر لیا جاسکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں، امریکہ نے ویتنام جنگ کے بعد طلبہ کی تحریک کی سب سے بڑی لہر دیکھی ہے۔ ڈرانے، دھمکانے، یونیورسٹیوں کو بند کرنے، ورچوئل کلاسز کا انعقاد اور درجنوں طلباء کو گرفتار کرنے سمیت کئی اقدامات کئے گئے ہیں، لیکن یہ تمام دباؤ نہ صرف اس لہر کے خلاف رکاوٹ نہیں بنے ہیں بلکہ اسرائیل کے جرائم کے خلاف امریکہ کے عملی اور علمی حلقوں میں ہونے والے مظاہروں اور بائیڈن حکومت کی اس تحریک کے خلاف احتجاج میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

گارڈین اخبار کے مطابق "کولمبیا" یونیورسٹی میں طلباء پر جبر اور درجنوں طلباء کی گرفتاری کے بعد امریکہ بھر میں طلباء نے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج شروع کیا اور یونیورسٹی حکام سے کہا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کریں۔ تاہم، رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ احتجاج صرف طلباء تک محدود نہیں ہے، گارڈین کے مطابق، ایک نیا کیمپ قائم کیا جا رہا ہے اور یونیورسٹی کے سینکڑوں فیکلٹی ممبران احتجاج کر رہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے غزہ جنگ کے بارے میں جو مؤقف اختیار کیا ہے، اس کے خلاف بڑے بڑے اجتماعات ہوئے ہیں۔ اسی میدان میں ایک اور پیش رفت میں امریکن قلم ایسوسی ایشن کی ایوارڈ تقریب اس وقت منسوخ کر دی گئی، جب اس انجمن کے درجنوں ادیبوں اور نامزد افراد نے غزہ جنگ میں امریکی شرکت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ سالانہ تقریب 29 اپریل کو منعقد ہونی تھی۔ جن 10 مصنفین کو امریکن پین ایسوسی ایشن کے بک ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا، ان میں سے نو انجمن کی جانب سے فلسطینی مصنفین کی حمایت نہ کرنے کی وجہ سے تقریب میں شرکت سے دستبردار ہوگئے۔ ایک ایسے ملک میں جس کا بنیادی نصب العین آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی حمایت ہے اور اس ملک کی حکومتوں نے اس بہانے کئی ممالک پر حملہ کرکے لاکھوں لوگوں کو قتل کر دیا ہے، اب وہ فلسطین کی حمایت نہیں کرتا۔ اس ملک کی یونیورسٹیوں میں جنگ کے خلاف  لہر شدت پکڑ رہی ہے۔۔ امریکی حکومت کا ان مظاہروں کی مخالفت کا بہانہ یہود دشمنی قرار دیا جا رہا ہے، حالانکہ مظاہرین یہودی مذہب اور یہودیوں کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ صہیونی حکومت کے جرائم کے خلاف ہیں اور موسیٰ کے قانون کے نام پر انتہاء پسند ربیوں کے نظریئے کے خلاف ہیں۔

صہیونی ذرائع سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ انتہاء پسند ربی جنگی علاقوں میں موجود رہ کر اسرائیلی فوجیوں کو فلسطینی خواتین اور بچوں کو قتل کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیاں اسرائیل کے جرائم اور فلسطینی بیانیے کے ساتھ ملوث ہونے کی مذمت کیوں کرتی ہیں۔؟ اس سوال کے جواب میں شاید غزہ میں انسانی تباہی کی شدت اور انسانی ضمیر کے بیدار ہونے کو اس لہر کے شروع ہونے کی وجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک بار جب صحیح اور غلط کی دو قسموں کا ساتھ ساتھ سامنا ہو جائے تو عقل سچ کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہے۔

امریکہ کے مین سٹریم میڈیا کی طرف سے غزہ جنگ کے بارے میں ایک بیانیہ تیار کرنے اور ظالم اور مظلوم کو مخلوط کرنے کے پروپیگنڈے کے پھیلاؤ کے باوجود امریکی علمی طبقے کا ضمیر حکومتی بیانیے کے ساتھ نہیں چلا اور تاریخ کے دائیں جانب کھڑا ہوگیا۔ اس ملک کے علمی و دانشگاہی حلقوں میں پیدا ہونے والی وسیع لہر کو اس مسئلے کا بہترین ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے۔غزہ میں گذشتہ 200 دنوں سے جاری جنگ نے اچھی طرح ظاہر کیا ہے کہ گذشتہ برسوں کی بظاہر خاموشی کے باوجود امریکی معاشرہ اس ملک کے مرکزی دھارے کے سیاسی اور میڈیا سے بالکل مختلف راستے پر گامزن ہے اور جبر کے خلاف حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فلسطین کا دفاع کر رہا ہے۔

مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مذمت تمام تر کوششوں کے باوجود نہ صرف اس ملک میں ختم نہیں ہوئی بلکہ اسے موقع ملا تو یہ ایک طاقتور لہر بن  سکتی ہے۔ اس میں ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ بہت سے امریکی سیاسی، تجارتی، فوجی، سکیورٹی اور تکنیکی اشرافیہ نے "کولمبیا" جیسی باوقار یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے اور اگر اسرائیل آنے والے سالوں میں امریکہ کی علمی و سائنسی برادری میں اپنی حمایت کھو دیتا ہے تو اس کا نقصان بہت زیادہ ہوگا۔

صیہونی مخالف تحریک امریکی سیاسی، عسکری، اقتصادی اور تکنیکی اداروں تک پھیل سکتی ہے اور اسرائیل کا سب سے بڑا حامی آنے والے سالوں میں اسرائیلی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والی موجودہ نسل آنے والے سالوں میں امریکہ کے سیاسی، عسکری اور اقتصادی اداروں میں داخل ہوگی، اس طرح یونیورسٹی کے ادارے میں صیہونیت مخالف تحریک کی تشکیل کا براہِ راست اثر امریکی سوسائٹی پر مرتب ہوسکتا ہے۔ صیہونی حکومت کے حوالے  سے امریکہ میں آنے والے عشرے میں یقیناً منفی اثرات مرتب ہوں گے، اگر اس وقت تک اسرائیل اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔

تحریر: سید محمد امین آبادی

اسلامی جمہوریہ ایران کے صد ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان اور اس پر مختلف زاویوں سے تبصرے، تنقید اور ستائش جاری ہے۔ کچھ ٹی وی چینلز میں منفی پروپیگنڈہ کی آوازیں بھی سنائی دیں، جس میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ رواں سال کی ابتدا میں ایران کی طرف سے پاکستان کے اندر میزائل مارے گئے اور اس کا فوری ردعمل پاکستان نے ایران کے اندر حملہ کرکے دیا، بلاشبہ دونوں ممالک کا عمل اور ردعمل انتہائی تشویشناک تھا۔ اس وقت بھی، ہم نے ہر دو اسلامی قوتوں کو ہوشمندی اور دانشمندی کے مظاہرے کا مشورہ دیا تھا۔ پھر دونوں ممالک کی سیاسی قیادت نے حالات کو معمول پر لانے کا فیصلہ کیا۔ فوری طور پر ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان پاکستان آئے۔

حالات کو معمول پر لانے کیلئے خداوند قدوس کے فضل و کرم سے دونوں اطراف سے معذرت خواہانہ اور تنبیہانہ انداز اختیار کرنے پر معاملہ رفع دفع ہوا۔ کچھ تجزیہ کار حضرات یہ محسوس کرتے ہیں کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان حالات کو معمول پر لانے کے اسی عمل کی کڑی ہے، جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے کی وجہ سے پاکستان اپنے قریب ترین ہمسایہ ملک کو ایرانی قیادت نے پیغام دیا ہے کہ فلسطین پر دونوں ممالک کا موقف ایک ہے، تو پاکستان کو اسرائیل کیخلاف ایران کا کھل کر ساتھ دینا چاہیئے۔ یہاں پر پاکستان کے عوام اور اداروں کیلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب بھی پاکستان کی کوئی نئی حکومت تشکیل پاتی ہے تو مشترکہ مفادات تاریخی برادرانہ تعلقات کے باعث امت مسلمہ کے دو اہم بازو سعودی عرب اور ایران کے دوروں کو ہمیشہ اہمیت اور اولیت حاصل رہی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ 1988ء میں پہلی بار وزیراعظم بنیں، تو انہوں نے ایران کے دورہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مجھے بھی دعوت دی گئی، اپنی چند شرائط کی وجہ سے اس دورے میں محترمہ کیساتھ نہ جا سکا۔ اس کے بعد 1993ء میں محترمہ بینظیر بھٹو جب دوبارہ وزیراعظم بنیں، تو ترجیحی بنیادوں پر انہوں نے پھر مجھے کہا تو میں ان کے ساتھ ہو لیا۔ وفاقی وزیر خزانہ مخدوم شہاب الدین، وفاقی مشیر معاشی امور ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اور مصطفیٰ کھر بھی اس دورے میں ہم سفر تھے۔ ایران کے صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی نے پاکستانی وفد کا بڑا اچھا استقبال کیا۔ تمام معاملات میں تبادلہ خیال ہوا۔ اس وقت پاک ایران گیس پائپ لائن پر بھی بات ہوئی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے واپسی پر ایرانی گیس کی زیادہ قیمت کو کم کرانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس حوالے سے میں نے وزارت گیس و پٹرولیم کی بریفنگ میں شرکت کی اور اپنے ایرانی دوست قونصل جنرل ایران آغا علی قمی سے مدد لی۔ لیکن 1996ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کر دی گئی۔ آصف علی زرداری پہلی بار صدر پاکستان بنے، تو انہوں نے ایران کا دورہ کیا۔ حکومت کے عرصہ اقتدار پورا ہونے سے پہلے 2013ء میں انہوں نے معاہدہ کیا۔ آصف علی زرداری اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے منصوبے کی بنیاد رکھی۔ لیکن بین الاقوامی دباو خاص طور پر یورپ اور امریکہ کی وجہ سے ہم منصوبے کو آگے بڑھا نے کیلئے عملی اقدامات نہ کرسکے، جبکہ معاہدے کے مطابق ایران نے اپنے علاقے میں گیس پائپ لائن بچھا دی ہے، جو کہ امریکہ کو ناگوار گزری اور پابندیاں عائد کر دی گئیں۔

سالہا سال گزرنے اور اس وقت جبکہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی بڑی بنیادی وجہ پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ عوام کی زندگی اجیرن ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت میں بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ بنے تو اس وقت بھی میں نے اپنے کالم میں عرض کیا تھا کہ گیس پائپ لائن منصوبے کو شروع کیا جائے، تاکہ پاکستان کا توانائی بحران حل ہوسکے۔ اب جبکہ 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی اتحادی حکومت تشکیل پا چکی ہے۔ آصف علی زرداری دوسری دفعہ صدر مملکت اور میاں شہباز شریف وزیراعظم کے منصب پر فائز ہیں۔ دونوں کی خواہش پر ایرانی صدر کو دورے کی دعوت دی گئی۔ الحمدللہ !ایرانی صدر کا دورہ پاکستان کی سرزمین میں انتہائی کامیاب اور مفید رہا ہے۔ اس دورے میں ہونیوالے معاہدوں کے ایک ایک ایشو پر بات ہوسکتی ہے۔

قصہ مختصر، پاکستانی حکومت نے بڑی گرم جوشی کیساتھ ایرانی صدر کو خوش آمدید کہا۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے لیکر لاہور اور کراچی کے دوروں میں اہم مقامات پر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے اپنے خطابات میں مظلوم فلسطینی عوام اور مزاحمتی تحریک حماس سے جس ہمدردی کا اظہار کیا، وہ قابل فخر ہے۔ انہوں نے فلسطین میں بچوں عورتوں بیماروں سمیت 34 ہزار سے زائد افراد کی شہادت، مکانات، مارکیٹوں، ہسپتالوں تعلیمی اداروں کی تباہی کے حوالے سے دنیا کو متوجہ کیا ہے اور یہ بھی واضح پیغام دیا ہے کہ اسرائیل بہت جلد ختم ہوگا۔ ہم فلسطینی عوام کیساتھ ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں کھڑے ہو کر عوام اور افواج کے اسرائیل کیخلاف فلسطینیوں کی حمایت میں موقف کو سراہا۔ ایران کے فلسطین پر موقف اور ابراہیم رئیسی کے دورے کو پاکستان کے ہر مکتبہ فکر نے خوش آئند قرار دیا ہے۔

حقیقت ہے کہ جناب ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان نے عوام کے دلوں میں جوش و جذبہ موجزن کر دیا ہے۔ اس کے نتائج ان شاء اللہ بہت جلد عملی پیشرفت اختیار کریں گے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے مزار قائد کراچی اور مزار اقبال لاہور پر حاضری دے کر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ پاکستان، اس کے بانی قائداعظم محمد علی جناح اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال جسے ایرانی ’’اقبال لاہوری‘‘ کے نام سے جانتے ہیں اور رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای انہیں اپنا مرشد قرار دیتے ہیں، کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ بھی کہ اقبال کے کلام کی وجہ سے انقلاب اسلامی ایران کیلئے زمینہ ہموار ہوا۔ کیونکہ ان کے کلام کی وجہ سے نوجوانوں میں استعمار مخالف انقلابی فکر پیدا ہوئی، جس کی وجہ سے وہ علماء کی قیادت میں اسلامی انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے۔

یہاں یہ بھی ذکر کرنا چاہوں گا کہ کراچی اور اسلام آباد میں مختلف مکاتب فکر کے علماء سے ایرانی صدر کی جو ملاقاتیں ہوئی ہیں، وہ قابل تعریف ہیں، خاص طور پر قائد ملت اسلامیہ علامہ سید ساجد علی نقوی، مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس، ملی یکجہتی کونسل کے صدر ڈاکٹر ابوالخیر زبیر، سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، سابق وفاقی وزیر مذہبی امور تحریک انصاف کے رہنماء نورالحق قادری اور دیگر شیعہ سنی علماء کی محفل اتحاد امت کا حسین گلدستہ تھی۔ کراچی میں ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے نماز کی امامت بھی کروائی۔

بلاشبہ ایرانی صدر کے دورے سے امت مسلمہ کے ہر غیور شخص کے دل میں ایران کی قدر و منزلت بڑھی ہے۔ خاص طور پر اسرائیل پر حملے کے بعد تصور کیا جا رہا تھا کہ شاید پاکستانی حکومت دورہ ملتوی کر دے گی، لیکن یہ افواہیں اور قیاس آرائیاں بھی دم توڑ گئیں اور دورہ کامیاب رہا۔ ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ دونوں ممالک کے درمیان ہونیوالے معاہدوں کو پایا تکمیل تک پہنچائے اور ہمیں امریکی دھمکیاں مسترد کرتے ہوئے ایران گیس پائپ لائن کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تحریر: سید منیر حسین گیلانی

غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اوہائیو یونیورسٹی کے طلبا نے احتجاج کیا۔

امریکی میڈیا کے مطابق اوہائیو یونیورسٹی کیمپس میں مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں ہوئیں، پولیس نے درجن سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔

اوہائیو یونیورسٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو احتجاج ختم کرنے کی وارننگ دی،انکار پر گرفتار کیا گیا، ’صیہونیوں کو جینے کا حق نہیں‘ کا نعرہ لگانے والے طلبا کو جامعہ سے نکال دیا جائے گا۔

کولمبیا یونیورسٹی کے طالبعلم خیمانی جیمز نے کہا تھا صیہونیوں کو جینے کا حق نہیں۔

امریکی میڈیا کے مطابق طالب علم جیمز خیمانی نے کہا تھا اسرائیل صیہونیوں کا منصوبہ ہے جو امن کے خلاف ہے، کولمبیا یونیورسٹی کی سینیٹ نے انتظامیہ کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔

ایکنا نیوز کے مطابق بین الاقوامی ویبنار بعنوان  «سچا وعدہ؛ ایرانی اقتدار اور تجاوز گر کی سزا»  سوشل پلیٹ فارم https://www.aparat.com/iqnanews/live پر منعقد ہوئی۔

 

عباس خمیار؛ یونیورسٹی آف ریلیجنز کے وائس چانسلر، باقر درویش؛ بحرین ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین، شیخ یوسف قاروت؛ سویڈن میں لبنانی شیعوں کی سپریم اسمبلی کے نمائندے اور تہران میں لبنانی تحریک امل کے نمائندے صلاح فاس اس ویبینار میں موجود تھے۔

تہران میں امل لبنانی تحریک کے نمائندے صلاح فاس نے اس ویبینار میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ صیہونی دشمن کی دمشق کے قونصل خانے پر جارحیت کے جواب میں ایران کی طرف سے  "سچے وعدے" کی کارروائی میں اس حقیقت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ  ایران کے خلاف صیہونی دشمن کی جارحیت کا جواب درست طریقے سے دیں سکتا ہے اور کسی بھی جارحیت کا نہ صرف دفاعی بلکہ جارحانہ طور پر بھی جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ایران کی فوج اور انٹیلی جنس فورسز بہت اعلیٰ سطح پر ہیں۔

 

صلاح فاس کے الفاظ کی وضاحت ذیل میں دی گئی ہے:

پیارے بھائیو اور بہنو، آپ پر سلامتی ہو اور خدا کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔

شام میں اسلامی جمہوریہ کے قونصل خانے پر اسرائیل کے حملے اور IRGC کے ایک گروپ کے کمانڈروں کی شہادت کے 14 دن کے بعد، ایران نے جنگ خندق کی برسی کے موقع پر ردعمل ظاہر کیا۔

سب سے پہلے ہمیں اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلیٰ سطح کی فوجی، سیاسی اور سفارتی طاقت اور فیصلہ سازوں کی مضبوطی پر زور دینا چاہیے کیونکہ یہ آپریشن مختلف پہلوؤں سے ایک نازک اور مشکل بین الاقوامی اور علاقائی لمحے میں ہے۔

غزہ پر حملے نے پوری دنیا کو دکھا دیا کہ صیہونی اور ان کے اتحادی امریکہ اور مغربی ممالک فلسطین اور خطے میں مزاحمت کو ختم نہیں کر سکتے۔ انہوں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا اور ان کے مکینوں کے گھروں کو تباہ کرنا اور بچوں اور عورتوں کو انتہائی وحشیانہ جنگی جرائم کے ساتھ قتل کرنا جرائم میں شامل ہیں۔

بدقسمتی سے وہ لوگ جو انسانی حقوق اور حتیٰ کہ جانوروں کے حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں انہوں نے عرب ممالک اور دیگر ممالک کی برادری اور آزادی اور جانوروں کے حقوق کا دعویٰ کرنے والوں کی حمایت کے تحت ہر قسم کے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

 انہوں نے ہمارے اسیر میں سے ایک کو بھی رہا نہیں کیا اور وہ فلسطینی مزاحمت کو تباہ کرنا چاہتے تھے، اس لیے صہیونی جو چاہتے تھے اس میں ناکام رہے۔ لہٰذا، انہوں نے فتح حاصل کرنے کے لیے محاذوں کا دائرہ وسیع کرنے اور علاقائی جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے انھوں نے شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ایران کو براہ راست جنگ میں گھسیٹنا امریکہ اور دیگر ممالک کو جنگ میں گھسیٹنے کا سبب بنے گا۔

وہ ایران کی فوجی، انٹیلی جنس اور سیکورٹی صلاحیتوں کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔ لہٰذا ایران کا ردعمل محور مزاحمت کے لیے باعث فخر رہا ہے اور اپنی مضبوط اور

درست فوجی طاقت کے ساتھ ایران مختلف قسم کے فوجی حربوں سے صیہونی دشمن کو ایسا زوردار ضرب لگانے میں کامیاب ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔

ہم اس آپریشن کے نفاذ کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے۔ لیکن ہم اس جواب میں کچھ اہم نکات کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں:

اول: ایران ایک نئی سٹریٹجک مساوات قائم کرنے میں کامیاب ہوا، اس مساوات کی بنیاد پر ایران کی سرزمین کے کسی بھی حصے پر حملہ چاہے وہ سرخ لکیر کے اندر ہو یا باہر، براہ راست فوجی جواب دینا جانتا ہے۔

دوم: امریکہ اور صیہونی حکومت کی حمایت کرنے والے مغربی ممالک کی جانب سے ایران کے خلاف دی جانے والی بڑی دھمکیوں کے باوجود ایران کا ردعمل سامنے آسکتا ہے۔

تیسرا: ایران کے ردعمل نے یہ حقیقت ظاہر کی کہ ایران کسی بھی جارحیت کا نہ صرف دفاعی بلکہ جارحانہ انداز میں جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ایران کی فوجی اور انٹیلی جنس فورسز بہت اعلیٰ سطح پر ہیں۔

چوتھا: ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایران کا پہلا ردعمل اس کے پاس موجود زبردست طاقت کے مقابلے میں معمولی تھا۔ عسکری علم کے لحاظ سے یہ ایک حقیقت ہے کہ پہلے حملے میں اپنی پوری طاقت نہیں دکھانی چاہیے۔

اس کارروائی کا مقابلہ کرنے میں صیہونی حکومت کی ناکامی، چند گھنٹے پہلے اس کا علم ہونے کے باوجود، ایران کی اعلیٰ طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔ صیہونی حکومت اور اس کے اتحادی ممالک کی فوجی اور انٹیلی جنس تیاریوں اور جدید ترین فضائی دفاعی نظام اور فائر کے لمحے اور طویل فاصلے تک میزائلوں کے مشاہدے کے باوجود اور کئی ممالک سے گزرنے کے باوجود ڈرونز اور میزائلوں نے فوجی اڈوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ یہ حکومت  اس حملے کا مقابلہ نہیں کر سکی۔ اگر بیرونی ممالک خصوصاً امریکہ کی مدد نہ ہوتی تو 98 فیصد میزائل اور ڈرون مقبوضہ علاقوں میں داخل ہو چکے ہوتے۔

میرے خیال میں اسرائیلیوں کی شکست کا وقت اور حماس اور مزاحمت کی فتوحات کا وقت آگیا ہے اور انشاء اللہ مستقبل میں مزید کامیابیاں ہوں گی۔/

 

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر "سید ابراہیم رئیسی" ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ صبح پاکستان پہنچے۔ جہاں ایرانی صدر کی قیام گاہ میں سینیٹر و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اُن سے ملاقات کی اور انہیں پاکستان آمد پر خوش آمدید کہا۔

اس موقع پر اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستانی حکومت و عوام آپ کے دورے کے انتظار میں تھی۔ ہمیں آپ کی میزبانی کرنے پر خوشی و افتخار ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام مختلف مشترکہ چینلجز کو حل کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے کردار کا قدر دان ہے۔ اسحاق ڈار نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی عوام کی حمایت کے سلسلے میں ایران کا موقف قابل ستائش ہے۔

انہوں نے حال ہی میں ہونے والے ایرانی پارلیمانی اور مجلس خُبرَگان کے انتخابات کے کامیاب انعقاد پر سید ابراہیم رئیسی کو مبارک باد دی۔

واضح رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر "آیت الله سید ابراہیم رئیسی" ایک اعلیٰ سطحی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے اسلام آباد کے نور خان ائیر بیس پہنچ گئے۔ جہاں وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ "ریاض حسین پیرزادہ"، پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر "رضا امیری مقدم" اور دیگر سینئر عسکری و سیاسی شخصیات نے اُن کا استقبال کیا۔

طے یہ ہے کہ کچھ ہی دیر کے بعد وزیراعظم پاکستان "میاں محمد شہباز شریف" پرائم منسٹر ہاؤس میں ایران کے صدر کا استقبال کریں گے۔ سید ابراہیم رئیسی اپنے اس دو روزہ دورے میں پاکستان کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ اقتصادی و تجارتی روابط میں وسعت اور دوطرفہ علاقائی دلچسپی کے امور پر مشاورت انجام دیں گے۔

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی ، سیئنر نائب صدر علامہ سید مرید حسین نقوی اور سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان مضبوط تعلقات امت مسلمہ کے دل کی آواز ہے۔ ایران نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا۔انقلاب اسلامی کے بعد ایران نے عالمی سطح پر جو دفاعی اور سیاسی قوت حاصل کی ہے، ہماری دعا ہے کہ باقی مسلم ممالک بھی اس سے فائدہ اٹھائیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبہ طویل عرصے سے زیر التوا ہے، پاکستان توانائی کے بحران سے گذر رہا ہے، اسے بھی حل ہونا چاہیے۔ اسلا می جمہوریہ ایران کے صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان خیر سگالی کا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان اور ایران مضبوط ہو جائیں تو امت مسلمہ کا توانا اورمضبوط بازوہوں گے۔

انہوں نے کہا حال ہی میں سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری کے وعدے اور معاہدے خوش آئند ہیں۔ سعودی عرب کے بعد ایران کے صدرکا دورہ ترقی کے نئے مواقع پیدا کرے گا، اس سے دونوں ممالک مضبوط ہوں گے اور پاکستان کے معاشی مسائل بھی حل ہوں گے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر "آیت الله سید ابراهیم رئیسی" اس وقت اسلام آباد میں موجود ہیں، جہاں انہوں نے وزیراعظم پاکستان "میاں محمد شہباز شریف" کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر سید ابراہیم رئیسی نے ایرانی وفد کی میزبانی کرنے پر پاکستانی حکومت و وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج مجھے اسلام آباد موجودگی پر خوشی ہو رہی ہے۔ میں یہاں سے پاکستان کے دین دار اور شریف عوام کو اپنی اور رہبر معظم انقلاب کی جانب سے سلام پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں اُس پاکستانی قوم کو سلام پیش کرتا ہوں جو ہمیشہ اسلام اور اسلامی اقدار کا دفاع کرتی ہے، جو مظلومین غزہ و فلسطین کے حق میں باہر آتی ہے، جو پاکستان کے گلی کوچوں میں قدس کی آزادی کے نعرے لگاتی ہے اور ہمیشہ حق و انصاف کے لئے آواز اٹھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس چیز نے دنیا بھر کے لوگوں کو مشتعل کر دیا ہے وہ یہ کہ انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے نام نہاد بین الاقوامی ادارے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ سلامتی کونسل اپنا کام انجام نہیں دے رہی۔ دنیا کے مسلمان اور آزاد سوچ کے حامل اس سے تنگ آ چکے ہیں۔ اس عالمی بے انصافی پر پاکستان کی قوم اٹھ کھڑی ہو گی اور یہ امر عالمی انصاف کی بنیاد بنے گا۔

ایرانی صدر نے کہا کہ ہم اپنے دوست، بھائی اور پڑوسی پاکستان کے صرف ہمسایے ہی نہیں بلکہ ہمارے درمیان تاریخی، ثقافتی اور گہرا دینی رشتہ ہے جس نے ہم دو عظیم اقوام کو آپس میں جوڑے رکھا ہے۔ یہ رشتہ اٹوٹ انگ ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان بے شمار مناسبتیں موجود ہیں کہ جن کے تبادلے سے دونوں ممالک اور عوام کو نفع پہنچایا جا سکتا ہے۔ سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں یہ فیصلہ کیا کہ اقتصادی، سیاسی، تجارتی اور ثقافتی سمیت مختلف شعبوں کو وسعت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے مقابلے کے لئے دونوں ممالک کا موقف ایک ہی ہے۔ ہم دونوں بدامنی، منظم منشیات فروشی اور دیگر جرائم سے لڑنے کے لئے پُرعزم ہیں۔ یہ ہمارا مشترکہ نقطہ نظر ہے۔ ایک جملے میں کہتا ہوں کہ انسانی حقوق کا دفاع دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا محور ہے، چاہے یہ تعاون دوطرفہ ہو، علاقائی ہو یا بین الاقوامی۔ اس موقع پر انہوں نے پاک ایران تعاون کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ دونوں ممالک کے درمیان کوارڈینیشن کو پسند نہ کریں مگر یہ اہم نہیں۔ جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ دونوں ممالک کے درمیان عوامی نمائندگی میں یہ تعاون جاری رہنا چاہئے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس تعاون کی سطح کو مزید بڑھائیں گے۔

آیت الله سید ابراہیم رئیسی نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی حجم کو ناکافی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلے مرحلے میں اس حجم کو 10 بلین ڈالر تک بڑھائیں۔ انہوں نے پاکستان اور ایران کے مابین بارڈر کی اہمیت کے حوالے سے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان طویل سرحد موجود ہے جو تجارتی ارتقاء کے لئے ہمارے پاس بہترین موقع ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کی عوام بالخصوص سرحد پر رہنے والے لوگوں کی فلاح و بہبود پر دھیان دیا جائے۔ میں نے وزیراعظم کے ساتھ مل کر سرحد کا مختصر دورہ کیا تھا۔ یہ کام سرحدی منڈیوں میں وسعت کا باعث تھا۔ اس کام کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ ابھی تک اٹھائے گئے اقدامات کافی نہیں۔ ہمیں بارڈز کی سکیورٹی اور عوام فلاح کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ دوسری جانب میاں محمد شہباز شریف نے اس مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کی نئی حکومت کے انتخاب کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی اعلیٰ عہدے دار ہمارے ملک آ رہا ہے۔ یہ ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ چشم ما روشن و دل ما شاد۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں عوامی قتل عام پر دونوں ممالک نے متعدد بار تشویش کا اظہار کیا اور اس بارے میں بات کی۔ ہم نے ایک آواز ہو کر اسرائیل کی مذمت کی۔ ہم دنیا کے ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد اس فوجی کارروائی کو رکوائیں۔
 

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ فلسطین کا منصفانہ، تفصیلی اور دیرپا حل ناگزیر ہو چکا ہے۔ پاکستان بلا مشروط فلسطین کی حمایت کرے گا اور ایران کے تعاون سے آیک آزاد فلسطینی ریاست کے لئے کوشاں رہے گا جس کا دارالحکومت قدس ہو۔ انہوں نے رہبر مسلمین جہان "آیت الله سید علی خامنه‌ ای" کی جانب سے کشمیر کے عوام کی حمایت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ اس پریس کانفرنس میں شہباز شریف نے سید ابراہیم رئیسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جناب صدر! آپ نے فقہ اور قانون میں تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ ہم اپنے لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے ترقی کے اصول کو اپنائیں گے۔

 وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ

(22 سجده) اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جسے آیات هالہٰیہ کی یاد دلائی جائے اور پھر اس سے اعراض کرے تو ہم یقینا مجرمین سے انتقام لینے والے ہیں 

 اسرائیل پر ایران کے ڈرونز حملوں پر ایران کے مختلفف شہروں میں شہریوں نے جشن منانا شروع کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق ایران کی جانب سے اسرائیل پر فائر کیے گئے ڈرونز اور کروز میزائلز کے حملوں کے بعد تہران میں ایرانی شہری خوشی مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ عوام ایران کے پرچم لے کر سڑکوں پر آگئے اور جشن بھی منایا۔ دوسری جانب لبنانی دارالحکومت بیروت میں بھی اسرائیل پر ڈرونز حملوں کی خوشی میں ریلی نکالی گئی۔ واضح رہے کہ ایران نے اسرائیل پر 100 کے قریب ڈرونز اور کروز میزائلز فائر کر دیئے۔ایرانی پاسدران انقلاب نے اسرائیل پر حملے کی باضابطہ تصدیق کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایران نے اسرائیلی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے، گولان کی پہاڑیوں اور شام کے قریب اسرائیلی فوجی ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا۔

دیگر ذرائع کے مطابق اسرائیل پر حملے کے بعد ایران میں ہزاروں شہری جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تہران میں سینکڑوں ایرانی شہری اسرائیل پر حملے کی خوشی منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور "ڈیتھ ٹو اسرائیل" اور "ڈیتھ ٹو امریکا" کے نعرے لگائے۔ تہران میں برطانوی سفارت خانے کے باہر بڑی تعداد میں مظاہرین جمع ہوئے، ایران کے تیسرے بڑے شہر اصفہان میں بھی مظاہرہ کیا گیا، جہاں دمشق حملے میں شہید ہونے والے جنرلز میں سے ایک بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی کو دفن کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ لبنانی دارالحکومت بیروت میں بھی اسرائیل پر ڈرونز حملوں کی خوشی میں ریلی نکالی گئی۔

واضح رہے کہ 13 اور 14 اپریل کی درمیانی شب ایران نے اسرائیل پر تقریباً 200 ڈرون اور کروز میزائل فائر کیے تھے، ایرانی پاسدران انقلاب نے اسرائیل پر حملے کی باضابطہ تصدیق کی تھی۔ حملے میں اسرائیلی دفاعی تنصیاب اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق یہ حملہ یکم اپریل کو اسرائیل کے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے جواب میں ہے، جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے لیڈر سمیت 12 افراد شہید ہوگئے تھے۔
 
 
 
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور کئی فوجی مشیروں کی شہادت کے بدلے میں ایران نے اسرائیل پر درجنوں ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے حملہ کر دیا ہے۔ صہیونی ریڈیو اور ٹیلی ویژن تنظیم نے اسرائیلی اور امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل پر ایرانی ڈرون حملہ شروع ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں کئی ڈرون طیاروں کی فضاء میں نچلی سطح پر پرواز کرتے ہوئے تصاویر دکھائی گئی ہیں۔ اس حوالے سے عبرانی زبان کی نیوز سائٹ والا اینڈ ایکسیوس نے امریکی اور اسرائیلی حکام کے حوالے سے ایران کی جانب سے مقبوضہ فلسطین پر ڈرون حملے کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ صیہونی میڈیا نے بھی حنظلہ ہیکنگ گروپ کی طرف سے صیہونی حکومت کے ریڈاروں کی ہیکنگ کی خبر دی ہے۔

ایرانی سرکاری ذرائع ابلاغ کی تصدیق
اسلامی جمہوری ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے باقاعدہ تصدیق کی ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی تنصیبات پر باقاعدہ اور وسیع ڈرون حملے شروع ہوگئے ہیں۔

صہیونی فضائی حدود بند
ایرانی ڈرون حملوں کے پیش نظر فضائی حدود کو صبح سات بجے تک کے لئے بند کردیا ہے۔ صہیونی فوج کے ریڈیو نے کہا ہے کہ ایران کا حملہ صرف ڈرون طیاروں تک محدود نہیں بلکہ کروز میزائل کی شکل میں بھی ہوگا۔ دوسری جانب صہیونی فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے، اس سلسلے میں امریکہ سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔

ایران حملوں کی خبریں منتشر ہونے کے بعد مقبوضہ علاقوں میں ہنگامی حالت نافذ
صہیونی حکام نے مقبوضہ فلسطین میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے لوگوں کی غیر ضروری رفت و آمد پر پابندی عائد کی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق بیرون ملک سفر کرنے والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی روانگی ملتوی کر دیں۔ ذرائع کے مطابق کل بن گوریان ائیرپورٹ کے علاوہ حیفا، نتانیا اور اشدود کی بندرگاہیں بھی بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

ایرانی حملوں کا سو فیصد مقابلہ نہیں کرسکتے، صہیونی فوجی ترجمان
اسرائیلی فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ ایران کے حملے کا جواب دینے کے لئے صہیونی آرمی اور فضائیہ مکمل الرٹ ہیں۔ اس حوالے سے امریکہ سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ ایرانی ڈرون طیاروں کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جائے گی، تاہم عوام کو خبردار کرتے ہیں کہ ایرانی حملوں کا سو فیصد دفاع ممکن نہیں ہے۔

ایرانی وزیر دفاع
ہم ان ممالک پر بھی جوابی حملہ کریں گے، جو ایران پر حملہ کرنے کے لیے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود یا سرزمین فراہم کریں گے۔

سپاہ پاسداران انقلاب کا بیان
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور کئی فوجی مشیروں کی شہادت کے بدلے میں ایران نے اسرائیل پر درجنوں ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے حملہ کر دیا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے بیان کا متن درج ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنْتَقِمُونَ
اسلامی جمہوری ایران کے شہید پرور عوام!
صہیونی شرپسند حکومت کی جانب سے شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور ایرانی فوجی مشیروں کی شہادت کا بدلہ لینے کے لئے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ نے صہیونی حکومت کو سبق سکھانے کے لئے "یارسول اللہ" کے رمزیہ نعرے کے تحت مقبوضہ فلسطین کے اندر درجنوں ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔ قومی سلامتی کونسل اور ملکی مسلح افواج کی جانب سے فیصلے کے بعد ایرانی بہادر عوام کی حمایت کے تحت ایرانی مسلح افواج اور وزارت دفاع کی جانب سے ان حملوں کی تفصیلات جاری کی جائیں گی۔
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ