سلیمانی
غزہ نسل کشی کے مغربی معمار
انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور تنظیموں نے ہمیشہ سے امریکہ اور یورپ کی جانب س اسرائیل کو فراہم کی جانے والی امداد کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ مغربی طاقتیں ہمیشہ سے اس مسئلے پر پردہ ڈال کر اسے چھپانے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ اس کے باوجود عالمی ذرائع ابلاغ میں گاہے بگاہے اس بارے میں حقائق منظرعام پر آتے رہتے ہیں۔ مڈل ایسٹ مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ کے دوران امریکہ اور جرمنی نے سب سے زیادہ اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کی ہے۔ انہوں نے اب تک اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو ہلکے سے لے کر بھاری تک مختلف قسم کے فوجی ہتھیار فراہم کئے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق امریکہ اب تک اسرائیل کو 100 سے زیادہ فوجی سازوسامان کے پیکج فراہم کر چکا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ غزہ میں انجام پانے والے جنگی جرائم میں برابر کا شریک ہے۔
امریکی سیاست دان بظاہر غزہ میں جنگ اور عام شہریوں کے قتل عام پر جو تشویش اور افسوس کا اظہار کرتے رہتے ہیں اس کا واحد مقصد فیس سیونگ اور عوام کو دھوکہ دینا ہوتا ہے۔ ہم اس تحریر میں غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کی سب سے زیادہ فوجی امداد کرنے والے دو مغربی ممالک کا ذکر کریں گے اور اس کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کو فراہم کئے گئے فوجی سازوسامان کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔ غاصب صیہونی رژیم کے اصلی ترین حامی کے طور پر امریکہ اسرائیل کو سب سے زیادہ فوجی امداد فراہم کرنے والا ملک ہے۔ 2019ء سے 2023ء کے دوران اسرائیل نے جتنا بھی اسلحہ خریدا اس کا 69 فیصد امریکہ نے اسے فراہم کیا ہے۔ یہ اعدادوشمار اسٹاک ہوم کے تحقیقاتی ادارے انٹرنیشنل پیس اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ نے شائع کئے ہیں۔ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر 2023ء کے دن اسرائیل کے خلاف طوفان الاقصی انجام پانے کے بعد سے امریکہ نے اسرائیل کی فوجی امداد میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
طوفان الاقصی آپریشن سے اب تک امریکہ اسرائیل کو 100 فوجی پیکج فراہم کر چکا ہے۔ یہ فوجی پیکجز مختلف قسم کے فوجی ہتھیار جیسے ایئر ڈیفنس سسٹمز، گائیڈڈ بم اور میزائل، توب کے گولے، ٹینک کے گولے اور ہلکے ہتھیاروں پر مشتمل تھے۔ امریکہ نے اسرائیل میں آئرن ڈوم نامی میزائل ایئر ڈیفنس سسٹم کو مضبوط بنانے اور اسرائیل کو زیادہ جدید ایئر ڈیفنس سسٹم سے لیس کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ سرکاری رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو وسیع پیمانے پر چھوٹے سائز کے انٹیلی جنٹ بم فراہم کرنے کے ساتھ ایسی جدید ٹیکنالوجیز بھی فراہم کی ہیں جن کی بدولت بم اور میزائلوں کو ٹھیک نشانے پر مارا جا سکتا ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے اسرائیل کو فراہم کئے گئے مختلف ہتھیاروں میں 155 ملی میٹر کے توپ کے گولے، ہیل فائر میزائل، 30 ملی میٹر کے گولیاں اور 120 ملی میٹر کے ٹینک کے گولے بھی شامل ہیں۔
اسی طرح کچھ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو رات کو دیکھنے والے آلات اور مورچے تباہ کرنے والے بم بھی فراہم کئے ہیں۔ صیہونی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2024ء کے آخر تک امریکہ اسرائیل کو ایف 35 جنگی طیارے، آپاچی فوجی ہیلی کاپٹر، بلیک ہاک فوجی ہیلی کاپٹر، سی ہاک فوجی ہیلی کاپٹر، مختلف قسم کے ڈرون طیارے، ایم 270 راکٹ لانچر، ایف 16 فیلکن جنگی طیارے اور توپ کے ہزاروں گولے فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتا تھا۔ اسی طرح مارچ 2024ء کے آخر تک بائیڈن حکومت نے 2.5 ارب ڈالر مالیت کے 25 ایف 35 جنگی طیارے اور جنگی طیاروں کے دیگر پرزہ جات جیسے انجن وغیرہ اسرائیل کو فراہم کئے تھے۔ بائیڈن حکومت کی جانب سے اسرائیل کو فراہم کردہ ہتھیاروں میں 1800 عام بم اور 500 گائیڈڈ بم بھی شامل تھے۔
اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کرنے والا دوسرا بڑا مغربی ملک جرمنی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2019ء سے 2023ء تک اسرائیل نے جتنا اسلحہ خریدا اس کا 25 فیصد جرمنی نے اسے فراہم کیا تھا۔ جرمنی اسرائیل کو زیادہ تر سب میرینز، جنگی کشتیاں، مختلف گاڑیوں، جہازوں اور جنگی طیاروں کے انجن اور تارپیڈو فراہم کرتا آیا ہے۔ لیبرز ان فلسطین نامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق جرمنی اسرائیل کو فراہم کئے جانے والے ہتھیار اور فوجی سازوسامان کا ایک تہائی حصہ فوجی امداد کی صورت میں اسے دیتا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے جرمنی نے اسرائیل کو براہ راست طور پر 326 ملین یورو کا فوجی اسلحہ فراہم کرنے کی منظوری دے رکھی تھی۔ البتہ جرمنی اسرائیل کو فوجی ٹریننگ کے شعبے میں بھی بہت زیادہ تعاون فراہم کرتا ہے۔ سرکاری رپورٹس کے مطابق جرمن حکومت نے مختلف فوجی ٹیکنالوجیز، الیکٹرونک آلات، جنگی کشتیوں، سمندری ہتھیاروں جیسے بم، تارپیڈو، راکٹ، میزائل وغیرہ اسرائیل کو فراہم کرنے کی بھی منظوری دے رکھی ہے۔
جرمنی نے اسرائیل کو مرکاوا 4 ٹینک میں استعمال ہونے والا ڈیزل انجن بھی فراہم کیا ہے۔ یاد رہے غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم مرکاوا 4 ٹینکوں کا وسیع استعمال کر رہی ہے۔ اکتوبر 2023ء کے آخر سے اسرائیل نے غزہ میں شہری آبادی اور مراکز کو مرکاوا 4 ٹینکوں سے نشانہ بنایا ہے۔ جنوری 2024ء میں جرمن اخبار اشپیگل نے رپورٹ دی ہے کہ جرمنی اسرائیل کو 120 ملی میٹر توپ کے گولے فراہم کرنے کی منظوری دے چکا ہے۔ صیہونی حکمرانوں نے نومبر 2023ء میں جرمنی کو یہ گولے دینے کی درخواست دی تھی۔ البتہ سرکاری رپورٹس میں جن اعدادوشمار کا ذکر ہوا ہے وہ اس مقدار سے بہت کم ہے جو حقیقت میں امریکہ اور جرمنی نے اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کی ہے۔ امریکہ اور جرمنی کے علاوہ اٹلی اور برطانیہ بھی اسرائیل کے اصلی فوجی حامیوں میں شامل ہیں۔ عالمی سطح پر غزہ میں صیہونی جرائم کے خلاف شدید احتجاج اور مخالفت کے باوجود یہ مغربی ممالک اسرائیل کو فوجی امداد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تحریر: علی احمدی
ایران کے حالیہ انتخابات کے بارے میں چند نکات
وزارت داخلہ کی جانب سے مسعود پزشکیان کی جیت کا اعلان جہاں اس اعتماد یا ’’ٹرسٹ‘‘ پر مہر تصدیق تھی، وہاں نظام کے نظریئے پر اعتراف کا عملی نمونہ تھا۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ ایران میں انتخابات منصفانہ اور آزادانہ نہیں ہیں۔ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ یہ "منصفانہ" بھی ہیں اور "آزاد" بھی۔ امریکیوں نے منافقوں اور شاہ پرستوں کو آگے کرکے بیرون ملک ووٹ دینے والوں کو مارنے اور گالیاں دینے جیسے گھٹیا اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا۔ امریکیوں کا یہ نقطہ نظر ظاہر کرتا ہے کہ جمہوریت کو سمجھنے کا ان کا طریقہ نہ تو ’’آزاد‘‘ ہے اور نہ ہی منصفانہ۔
2۔ جناب مسعود پزشکیان امام خامنہ ای کی طرف سے صدارت کے عہدے کی تنفیذ کے بعد سرکاری طور پر ملک کے قانونی اور شرعی صدر ہونگے۔ وہ نہ صرف ان لوگوں کے صدر ہیں، جنہوں نے انہیں ووٹ دیا تھا بلکہ ان لوگوں کے بھی صدر ہیں، جنہوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا تھا اور وہ ان کے حریف تھے اور وہ ان لوگوں کے بھی صدر ہیں، جو کسی بھی وجہ سے ووٹ دینے سے قاصر رہے۔ انتخابی مہم کے دوران منتخب صدر نے جو آیات اور احادیث پڑھی ہیں، ان کے مطابق وہ خود کو اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات کا پابند سمجھتے ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق وہ آئین کے دائرے اور قیادت کی عمومی پالیسیوں کے دائرے میں اور ساتویں پلان کے قانون پر عمل درآمد کریں گے۔
آئین کے آرٹیکل 121 کے مطابق انہیں پارلیمنٹ میں عدلیہ کے سربراہ اور گارڈین کونسل کے ارکان کی موجودگی میں یہ کہنا ہے کہ وہ
A۔ سرکاری مذہب، اسلامی جمہوریہ کے نظام اور آئین کے محافظ ہونگے۔
B۔ مذہب اور اخلاق کی ترویج، حق کی حمایت اور انصاف کو پھیلائیں گے۔
C۔ اسے عوام کی خدمت اور خود مختاری سے بچنے کے لیے خود کو وقف کرنا ہے۔
D۔ وہ افراد کی آزادی اور وقار کی حمایت کریں گے۔
E۔ وہ ملک کی سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی سرحدوں اور آزادی کے تحفظ کا حلف اٹھائیں گے۔
ان پر خدا اور عوام کا فرض واضح ہے اور اس آئین اور اس حلف کے دائرے میں ان کے لیے عوام کا فرض اور ذمہ داری بھی واضح ہے۔ جو لوگ خدا کے اس حق و فرض کو چھوڑ کر کوئی اور خلا پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ دشمن کی صف میں شامل ہونگے۔ اگر وہ یہ کام کرتے ہیں کہ جیسے کوئی بھوت آیا اور پری چلی گئی یا کالا آیا اور سفید چلا گیا تو وہ صحیح سمت میں نہیں ہیں۔ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی جماعت یا گروہ کے رکن نہیں ہیں اور انہوں نے حمایت کرنے والے حقیقی اور قانونی افراد سے غیر قانونی و غیر آئینی کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ وہ اس پر کس طرح عمل کرتے ہیں۔
قرآنی برائت اور حضرت ابراهیم(ع)
حجۃ الاسلام والمسلمین سید عبدالفتاح نواب، امور حج و زیارت کے نمائندے اور ایرانی زائرین کے نگران کی الوداعی تقریب 28 مئی بروز جمعہ دوپہر کو امام خمینی (رہ) میں منعقد ہوئی۔
حجۃ الاسلام والمسلمین نواب نے تہران روانگی سے قبل امام خمینی انٹرنیشنل اسکوائر پر اس سال کے حج اسٹاف کے ساتھ ملاقات میں رہبر معظم کے رہنما اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اس سال کے حج کے نعرے کی بنیاد قرآن پر مبنی، ہمدردی اور اتحاد ہے۔ اور اس کی تاکید ہمیشہ امام اور راحیل نے کی ہے۔ اسلامی اقتدار اور اس کے ساتھ مشرکین کی بریت اور ظالموں سے بیزاری بھی حج 1403 کے محور میں سے ہے۔
مکہ اور مدینہ میں قرآنی محفلیں
حج و زیارت کے امور میں ولی فقیہ کے نمائندے نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اس سال حج کی تقریب کے دوران مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں متعدد قرآنی مجالس منعقد کی جائیں گی، کہا کہ رہبر معظم نے اس سال حج کے حکام سے ملاقات میں بعض نکات بیان کئے جنمیں۔ اتحاد ان نکات کا نچوڑ ہے جن کا امام خمینی (رہ) اور رہبر معظم نے حج اور زیارت کے دوران اپنے نمائندوں سے مسلسل اظہار کیا ہے۔
انہوں نے اتحاد، ہمدردی اور یکجہتی کو آج کے معاشرے کی ضرورتوں میں شمار کیا اور کہا: «یا أیها المسلمون اتحدوا اتحدوا» کا نعرہ قرآنی آیت " اِعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّه جَمِیعاً وَلاَ تَفَرَّقُوا سب" سے لیا گیا ہے۔
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ اسلامی حاکمیت اور مسئلہ فلسطین اس سال کے حج کے نعرے کا ایک اور حصہ ہے، حج و زیارت کے امور میں ولی فقیہ کے نمائندے نے کہا: اگر امت کے درمیان اسلامی اتحاد ہوگا تو اسلامی اقتدار کا مسئلہ حل ہوگا۔ اور اسلامی اقتدار بھی مظلوم فلسطینی قوم کا دفاع ہے۔
صیہونی حکومت کے لیے نفرت کا اظھار
حجۃ الاسلام والمسلمین نواب نے مزید اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ صیہونی حکومت کی نفرت کا مسئلہ حج کے موسم سے مخصوص نہیں ہے اور یہ مسئلہ آج پوری دنیا میں موجود ہے، اور فرمایا: امریکہ اور یورپ کےعلمی مراکز۔ آج صیہونی حکومت سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ بیت اللہ الحرام کے تمام زائرین بھی صیہونی حکومت سے نفرت کرتے ہیں لیکن بیزاری کا یہ اظہار اس طرح کیا جانا چاہیے کہ حج کے علاقے کی حرمت اور خدا کے محفوظ مقام کی حفاظت ہو اور مشرکین سے بری ہونے کا اہم مسئلہ اجاگر ہو۔ یقینی طور پر سعودی عرب کے قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اور مسلمانوں کے اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے کیا جانا چاہیے۔
معصومیت کی قرآنی منطق کو عالم اسلام میں منتقل کرنا
ایکنا کے نامہ نگار کے اس سوال کے جواب میں کہ رہبر معظم کے وفد کی بریت کی قرآنی منطق کو عالم اسلام میں منتقل کرنے کے لیے کیا عملی منصوبے ہیں، انہوں نے کہا: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت، اخلاقی اور تعلیمی زندگی کو جاننا اور متعارف کرانا؟ (ص) بریت کی قرآنی منطق کو عالم اسلام تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے اور اس سلسلے میں رہبر معظم کے مشن کی طرف سے حال ہی میں "ابراہیمیت" کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔
آخر میں حجۃ الاسلام والمسلمین نواب نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بریت کے بانی ہیں اور فرمایا: بیزار کا اظھار ہونا فطری ہے اور اس تناظر میں ابراہیم خلیل اللہ کی شخصیت اور زندگی کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔/
رہبر انقلاب اسلامی: رئیسی انتھک خدمت میں مصروف رہے، پاںچ دن کے عام سوگ کا اعلان کرتا ہوں
ارنا کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے اس پیغام میں فرمایا ہے کہ اس تلخ سانحے میں ملت ایران نے ایک اہم اور مخلص خدمت گزار کھودیا۔ ان کے لئے عوام کی بھلائی اور ان کی خوشی جس کا سرچشمہ رضائے الہی ہے، ہر چیز پر ترجیح رکھتی تھی۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صدر سید ابراہیم رئیسی ، وزیر خارجہ امیر عبداللیہان ، مشرقی آذربائيجان میں نمائندہ ولی فقیہ حجت الاسلام والمسلمین آل ہاشم، مشرقی آذربائیجان کے گورنر رحمتی اور ان کے دیگر ساتھیوں کی شہادت پر تعزیت پیش کی ہے۔
آپ کے پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
عالم مجاہد، انتھک ، باصلاحیت اورعوامی صدر مملکت اور خادم الرضا علیہ السلام، حجت الاسلام والمسلمین جناب آقائے سید ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں، رضوان اللہ علیہم کی شہادت کی اندوہناک خبر ملی۔
یہ ناگوار حادثہ خدمت رسانی کی کوشش کے دوران پیش آیا؛ اس عظیم اور فداکار انسان کی ذمہ داریوں کی پوری مدت چاہے صدارت کی مختصر مدت ہو،یا اسلام اور ملک و قوم کی ان کی خدمات کا اس سے پہلے کا دور ہو، انتھک محنتوں اور سعی و کوشش میں گزری ہے۔
عزیز رئیسی انتھک خدمت میں مصروف تھے۔ اس تلخ حادثے میں ملت ایران ایک گرانقدر اور مخلص خدمتگزار سے محروم ہوگئی ۔ ان کے لئے عوا کی بھلائی اور ان کی خوشی، جس کا سرچشمہ رضائے الہی ہے، ہر چیز پر ترجیح رکھتی تھی۔ اس بناپر بعض بدخواہوں کی ناشکری اور طنز، اصلاح امور اور پیشرفت کے لئے ان کی رات دن کی کوششوں میں کبھی بھی رکاوٹ نہ بن سکی۔
اس تلخ حادثے میں تبریز کے محبوب اور معتبرامام جمعہ آل ہاشم، مجاہد اور فعال وزیر خارجہ حسین امیر عبداللّہیان، مشرقی آذربائیجان کے متدین اور انقلابی گورنر جناب مالک رحمتی اور ان کے دیگر ساتھی جوار رحمت الہی میں چلے گئے۔
میں پانچ دن کے عام سوگ کا اعلان اور ملت ایران کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔
جناب آقائے مخبر آئین کی دفعہ 131 کے مطابق مجریہ کے سربراہ ہیں اور ان کا فریضہ ہے کہ مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں کے ساتھ مل کے 50 دن کے اندر نئے صدر کا الیکشن کرانے کا اہتمام کریں۔
آخر میں، جناب آقائے رئیسی کی مادرگرامی، صاحب فضیلت شریک حیات دیگر لواحقین اور شہید ہونے والے ان کے ساتھیوں کے پسماندگان بالخصوص جناب آل ہاشم کے والد ماجد کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں، ان کے لئے صبر وسکون اور ان کے عزیزوں کے لئے رحمت الہی کی دعا کرتا ہوں ۔
سید علی خامنہ ای
ایرانی صدر کی شہادت پر سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد کی ایرانی عوام سے تعزیت
سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے ہیلی کاپٹر حادثے میں ایران کے صدر حجت الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق سعودی عرب کے بادشاہ اور ولی عہد نے ہیلی کاپٹر حادثے میں ایرانی صدر حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں کے انتقال پر ایگزیکٹو برانچ کے سربراہ اور ایرانی نائب صدر محمد مخبر سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
صدر ایران اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر پاکستان میں ایک دن کے عام سوگ کا اعلان
صدر ایران اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر پاکستان میں ایک دن کے عام سوگ کا اعلان کردیا گیا۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے ایران کے ساتھ دوستی و ہمدردی اور ایرانی عوام کے ساتھ یک جہتی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ملک میں ایک دن کے عام سوگ کا اعلان کردیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اپنے سماجی رابطے کے ایکس پیج پر ایک بیان جاری کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کی شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان، صدر ایران اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پرایک دن کے سوگ کا اعلان کرتا ہے ۔
میان شہباز شریف نے کہا کہ صدر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے سوگ میں آج قومی جھکا رہے گا۔
انھوں نے کہا ہے کہ ایک مہینے سے بھی کم ہوا ہے کہ پاکستان صدر سید ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے تاریخ دورے کے موقع پر ان کا میزبان تھا۔
انھوں نے کہا ہے کہ ہم ہیلی کاپٹر کے حادثے کی خبر پر تشویش اور پریشانی کے ساتھ نظر رکھے ہوئے تھے اور ہمیں اچھی خبر کی امید تھی لیکن افسوس کہ یہ امید پوری نہ ہوئی ۔
پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز نے اپنے پیغام تعزیت میں کہا ہے کہ میں اپنی حکومت، اور پاکستان کے عوام کی جانب سے اس سانحے پر ایران کی حکومت اور عوام کو تعزیتش پیش کرتا ہوں۔
جوار رحمت الہی میں ارواح شہدا کے درجات بلند ہوں۔ ایران کی عظیم قوم ہمیشہ کی طرح اس دردناک مرحلے میں بھی سرافراز و سربلند رہے گی۔
عاشق قرآن، مدافع فلسطین آیۃ اللہ سید ابراہیم رئیسی الوداع
مغرب میں بار بار توہین قرآن کی جا رہی تھی، دنیا بھر کے مسلمانوں کے کلیجے جل رہے تھے، مختلف ممالک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جا رہے تھے۔ چشم فلک نے دیکھا کہ ایک سید اقوام متحدہ میں پہنچا، ہاتھ میں اپنے جد پر نازل ہونے والی اللہ کی مقدس آخری کتاب قرآن اٹھائے ہوئے ہے۔ اس نے دنیا کی منافقت کو چاک کرتے ہوئے کہا: قرآن جل نہیں سکتا، یہ ابدی ہے، جب تک زمین زمین اور وقت وقت رہے گا، قرآن باقی رہے گا۔ توہین اور تحریف کی آگ حقیقت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس کے ساتھ سید نے قرآن کو دنیا کے سامنے لہرایا اور پھر ادب سے چوم کر آنکھوں سے لگا لیا۔ کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچی کہ ہمارا مقدمہ اقوام متحدہ میں لڑا گیا۔
کچھ رور پہلے سید پاکستان کے دور پر تشریف لائے، ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا، سید نے کافی باتیں کیں، مگر جو جذبہ اہل فلسطین کے لیے سید کے وجود میں تھا، ان کی تقریر سے جھلک رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ ان کے بس میں ہو تو ابھی اسرائیل پر حملہ کر دیں۔ غزہ کی ماوں، بہنوں، بچوں اور جوانوں کے لیے ان کے دل میں تڑپ تھی۔ ہسپتالوں پر ہونے والے حملوں اور نہتے فلسطینیوں کی شہادتوں کو نم آنکھوں اور تڑپتے دل کے ساتھ بیان کر رہے تھے۔ ملت پاکستان کی عظمت کو بیان کر رہے تھے اور ان کی اہل فلسطین کے ساتھ والہانہ محبت کا ذکر کر رہے تھے۔ تمام مکاتب فکر کے علماء، سکالرز، پروفیسرز، بیروکریٹس اور سیاستدان بڑی تعداد میں وہاں موجود تھے۔ یہ سب ایسے نہیں آئے بلکہ انہیں سید کی محبت کھینچ لائی ہے۔
یہ بڑا المناک حادثہ ہے، اس حادثے میں خادم الرضا (ع) اور اسلامی جمہوریہ ایران کے آٹھویں صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو قیز قلعہ سی ڈیم کا افتتاح کرکے تبریز شہر کی جانب لوٹتے وقت حادثے کا شکار ہوگیا۔ اس سانحے میں صدر سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ تبریز شہر کے امام جمعہ اور ولی فقیہ کے نمائندے حجت الاسلام آل ہاشم، وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیر عبداللہیان، صوبہ مشرقی آذربائیجان کے گورنر مالک رحمتی، صدارتی محافظوں کی ٹیم کے سربراہ جنرل سید مہدی موسوی، حفاظتی ٹیم کے کئی دیگر ارکان اور ہیلی کاپٹر کے پائیلٹس بھی شہید ہوئے ہیں۔
دنیا بھر کی آزاد اقوام ایرانی صدر جناب آیۃ اللہ ابراہیم رئیسی کی وفات پر اظہار تعزیت کر رہی ہیں کہ ایک بڑا رہنماء چلا گیا۔ حکومت پاکستان نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان میں ایک روزہ عمومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔پاکستان کے وزیراعظم "شہباز شریف" نے ایک پیغام میں ہیلی کاپٹر کے دردناک حادثے میں ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی اور ان کے اعلیٰ سطحی وفد کی شہادت پر تعزیت کی ہے۔ اپنے تعزیتی پیغام میں انہوں نے اعلان کیا: "پاکستان ایران کے صدر اور ان کے ساتھیوں کے احترام اور ایران کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر ایک دن کا سوگ منائے گا، اس میں پاکستان کا پرچم سرنگوں رہے گا۔"
حماس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای دام عزہ، ایرانی حکومت اور ایرانی عوام کے ساتھ اس بے پناہ نقصان پر تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے، حماس نے فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت کرنے پر ایرانی رہنماؤں کی تعریف کی۔ حماس اور اہل فلسطین کی حمایت سید کی زندگی کا مشن تھا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ کل اتوار کو آذربائیجان کے صدر کے ہمراہ ڈیم کے افتتاح کے بعد تقریر میں آیۃ اللہ ابراہیم رئیسی نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے لیے ایران کی غیر مشروط حمایت کا اعادہ کیا تھا۔
ایرانی صدر نے کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین مسلم دنیا کا سرفہرست مسئلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ایران اور آذربائیجان کے عوام فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت اور صہیونی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ پتے کی بات یہ ہے کہ آیۃ اللہ رئیسی نے آذری عوام کی بات کی، حکومت کی بات نہیں کی، کیونکہ حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھتی ہے۔ امت مسلمہ کا بالعموم اور ملت ایران و فلسطین کا بالخصوص بڑا نقصان ہوا ہے۔ تین سال کے مختصر عرصے میں آیۃ اللہ سید ابراہیم رئیسی نے بین الاقوامی سطح پر موثر شناخت قائم کی تھی۔ اسی طرح ایران کی خارجہ پالیسی اور تنازعات کو مواقع میں تبدیل کرنے کی آپ کی دانشمندی نے بھی ایران کو بڑا فائدہ پہنچایا۔ سعودی عرب سے سفارتی تعلقات کی چائنہ کی ذریعے بحالی نے بیک وقت کئی پیغام دیئے۔
اسی طرح مہسا امینی سے لے کر اسرائیل پر حملے تک بڑے چیلنجز آئے، سید نے بڑی حکمت اور دانش سے انہیں حل کیا۔ دنیا حیران ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران کی معیشت اس تیز رفتاری سے کیسے آگے بڑھ رہی ہے؟ ملت ایران مشکلات میں بہتر انداز میں آگے بڑھتی ہے اور مشکلات سے زیادہ مضبوط ہوکر نکلتی ہے۔ جب اسلامی جمہوری ایران کی پوری پارلیمنٹ اڑا دی گئی تھی، لوگ کہہ رہے تھے کہ انقلاب ابھی گیا کہ ابھی گیا۔ چشم فلک نے دیکھا کہ انقلاب وہیں رہا اور پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر ابھرا۔ آٹھ سالہ جنگ ایک بڑا مشکل مرحلہ تھا، مگر اسلامی جمہوری ایران کی قیادت بڑی دانشمندی سے اس سے نکلی۔
امام خمینیؒ کی وفات بھی بڑا مشکل مرحلہ تھا، مگر انقلاب کی نئی قیادت نے خط امام خمینیؒ کی پیروی میں انقلاب کو مضبوط سے مضبوط تر کیا۔ انقلاب کے اندرونی اور بیرونی دشمن ہر بار مایوس و نامراد ہوئے اور اللہ کی نصرت سے انقلاب پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ ابھرتا رہا۔ اس مشکل گھڑی میں ہم ملت ایران بالخصوص رہبر معظم دام ظلہ سے تعزیت کرتے ہیں، امید کرتے ہیں کہ یہ مشکل وقت اہل ایران کو مزید مضبوط کر جائے گا۔ آیۃ اللہ ابراہیم رئیسی کے ٹویٹر اکاوئنٹ پر آج یہ آیت لگائی گئی، جو حقیقت حال کی خوبصورت عکاسی کرتی ہے: سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ﴿١٠٩﴾ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿١١٠﴾ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ﴿١١١﴾الصافات "۱۰۹۔ ابراہیم پر سلام ہو۔۱۱۰۔ ہم نیکو کاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔۱۱۱۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔"
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
ہیلی کاپٹر حادثے کے نتیجے میں شہادتوں کی خبر ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی اپنے ساتھیوں سمیت ملکوت اعلیٰ سے جا ملے
اسلامی جمہوریہ ایران کے محبوب صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی مشرقی آذربائیجان کے علاقے ورزغان میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں شہید ہوگئے۔ صدر کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر کے حادثے میں آیت اللہ سید محمد علی الہاشم، تبریز کے امام جمعہ، وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور تبریز کے گورنر ملک رحمتی بھی موجود تھے اور وہ بھی شہید ہوئے۔ اس حادثے میں شہید ہونے والوں میں صدر پروٹیکشن یونٹ کے سربراہ سردار سید مہدی موسوی، انصار المہدی کور کے ایک رکن، ایک پائلٹ اور ایک کو پائلٹ اور ایک ٹیکنیکل آفیسر بھی شامل ہیں۔ آیت اللہ رئیسی اور ان کے ساتھی جمہوریہ آذربائیجان کے صدر الہام علییف کی موجودگی میں قزقلاسی ڈیم کے افتتاح کی تقریب کے بعد ہیلی کاپٹر کے ذریعے تبریز جا رہے تھے، لیکن راستے میں ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا، جو وارزغان کے علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا۔
بچوں کی جذباتی تربیت اور والدین کی ذمہ داری
جذبات، جذبہ کی جمع ہے۔ جذبہ ایک کیفیت ہوتی ہے جو انسان کے دل ودماغ میں پیدا ہوتی ہے۔ اور اس کے شعورکی سطح کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہےکہ جذبات کسی قانون کے ماتحت نہیں ہوتے۔ کیونکہ قانون کا تعلق شعور کی سطح سے ہے۔ دوسرے الفاظ میں جذبات اس کیفیت کو کہتے ہیں۔ جو انسان کے اعصابی نظام میں داخل ہوکر اس کے خیالات ، احساسات اور رویےکو متاثر کرتی ہے۔
جذبات اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی۔ جذباتی کیفیت جب کسی ارفع مقصد سے جڑ جائے توا یسے جذبات قابل تحسین ہوتے ہیں۔ مثلا ایمانی جذبے کےساتھ جہاد کرنا ایک قابل تحسین عمل ہے۔ لیکن انہی جذبات کے پیچھے محرکات اگر درست نہ ہوں، مثلا قومی یا لسابی عصبیت جذباتی انگیخت کیلئے محرک بن جائے تو یقینا ایسے جذبات قابل مذمت ہوتے ہوں۔ کیونکہ ایسے جذبات معاشرے کیلئے نقصان دہ اور برے ہوتے ہیں۔
جذبات کی قسمیں
جذبات دو طرح کے ہوسکتے ہیں۔ منفی جذبات اور مثبت جذبات۔ دوسرے لفظوں میں انہیں تعمیری اور تخریبی جذبات بھی کہہ سکتے ہیں۔ جب ہم جذبات کی حالت میں ہوتے ہوئے اپنا کوئی خاص رویہ ظاہر کرتے ہیں۔ تو اس کو جذباتی کیفیت کا نام دیا جاتا ہے۔ جذباتی کیفیت انسان کی برین کیمسٹری کو تبدیل کرتی ہے۔ اس سے انسانی دماغ اس سے مختلف ہارمونز کا اخراج کرتا ہے جوانسانی دماغ نارمل حالت میں خارج کرتا ہے۔ جذبات کی وجہ سےانسان کی جسمانی کیفیت بھی بدلتی ہے۔
مثلا جب انسان کو غصہ آجاتا ہے تو اس کی برین کیمسٹری متاثر ہوتی ہے۔ اور اس کے دماغ سے مختلف قسم کے ہارمونز کا اخراج شروع ہوجاتا ہے ۔ غصے کی وجہ سے اس کی جسمانی کیفیت بھی بدل جاتی ہے۔ اور انسان نارمل حالت سے ابنارمل حالت میں چلاجاتاہے۔
اسی طرح جب انسان کو خوف لاحق ہوجائے، تو اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ اسٹریس یا ذہنی دباو ہو تو دماغ پر بوجھ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ خوشی کی حالت میں اس کے تمام اعضاوجوارح نارمل کام کرنا شروع کرتے ہیں۔ یوں جذباتی کیفیت کی جھلک انسان کے چہرے اور رویے سے ظاہر ہوتی ہے ۔ یعنی انسان کے اسٹیٹ اف مائنڈ یا ذہنی کیفیت براہ راست اس کی جسمانی حالت یا رویے پر اثرانداز ہورہی ہوتی ہے۔
یہی جذبات بعد میں مستقل طورپر انسانی رویوں اور عادات کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانی جذبات کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی انسان کے احساسات اور ان کے تحت ظاہر ہونے والے رویے ہیں۔ تاہم ایک ریسرچ کے مطابق بنیادی طور پر سات قسم کے جذبات انسا ن میں پائے جاتے ہیں۔ باقی سب ان کی فروع یا ان سے نکلنے والی شاخیں ہیں۔
یہ جذبات مندرجہ ذیل ہیں۔ خوشی، غم، غصہ ، نفرت، حیرت وتعجب، مایوسی اور خوف۔ ان کے علاوہ بھی کئی جذبات پائے جاتے ہیں۔ مثلا فخر، غرور وتکبر، شرمندگی، پرجوش ہونا، آرام وسکون محسوس کرنا اور اطمینا ن کی کیفیت وغیرہ ۔
جذباتی ذہانت یا ایموشنل انٹیلی جنس کیا ہوتی ہے؟
یہ جدید نفسیات کی ایک اصطلاح ہے جو آج کی سوسائٹی میں کا فی استعمال ہورہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ جب انسان کو اپنے جذبات پرمکمل کنٹرول حاصل ہوجاتا ہے۔ اور وہ اپنے جذبات کی لگام کو اپنے پاس رکھ کر اپنی مرضی کے مطابق ان کو استعمال کرنے پر قادر ہوجاتا ہے۔ تو اس کے رویے بھی مثبت رویوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اسی جذباتی کیفیت کو جذباتی ذہانت کانام دیا جاتاہے ۔ عام طورپر جذبات انسانی شعور کو ڈرایئو کررہے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کا نام جذبات رکھا گیا، کہ وہ انسانی شعور کواپنے اندر جذب کررہے ہوتے ہیں۔
اگر جذبات انسان کے کنٹرول میں ہوں، تو اسے جذباتی ذہانت کا نام دیاجاتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ای کیولیول بہت بلند ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر جذبات اپنے کنٹرول میں نہ ہوں۔ بلکہ انسان خود اپنے جذبات کے کنٹرول میں ہو توا سے جذباتیت کا نام دیا جاتاہے۔
بچوں کی تربیت کے پانچ ایریاز
یہ حقیقت ہےکہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ ہمیں ان ننھے پودوں کا مالی کی طرح خیال رکھنا ہوتا ہے۔ بچوں کی تربیت میں ہمیں بنیادی طور پر پانچ جہتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ یعنی ان پانچوں ایریا ز میں بیک وقت تربیتی کام کرنا چاہیے۔ وہ پانچ ایریاز مندرجہ ذیل ہیں۔ 1۔ دینی تربیت، 2۔ جسمانی تربیت ،3۔ ذہنی تربیت، 4۔ سماجی تربیت ، 5۔ جذباتی تربیت
یہاں ہم صرف جذباتی تربیت کی کچھ تفصیلات ذکر کریں گے۔
بچوں کی جذباتی تربیت
بچوں کی جذباتی تربیت سے مراد بچوں کے خیالات ، احساسات، مزاج اور رویوں کی تربیت کرنا ہے۔ بچوں کی تربیت میں یہ اہم ترین ہونے کے ساتھ ساتھ عام طور پر انتہائی نظر انداز میدان بھی ہے۔ والدین اور اساتذہ عام طور پر بچوں کی جسمانی اور ذہنی تربیت پرکافی زور دیتے ہیں۔ اورکسی حد تک دینی تربیت پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ لیکن سماجی وجذباتی تربیت عام طور پر نظر انداز ہوجاتی ہے۔
یہاں پرایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کہ تعلیم اور تربیت کے درمیان فرق کو عام طور پر ذہن میں نہیں رکھا جاتا۔ تعلیم ہی کو تربیت خیال کرکے تربیت کو بسااوقات کلی طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ابھی بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ بڑے ہونے کے بعد خود بخود ان کی تربیت بھی ہوجائے گی۔
حالانکہ یہ شدید غلط فہمی ہے، تعلیم پر کام کرنے سے تربیت قطعا نہیں ہوسکتی۔ یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں اور دونوں پر الگ الگ کام کرنا پڑتاہے۔ اگر ہم تعلیم اور تربیت میں فرق کو جاننا چاہیں تو تعلیم کا تعلق انسان کے فہم ، شعور اور ادراک سے ہے۔ تعلیم میں بچے کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے فہم وشعورکو بہتر کیا جاتا ہے اور بس۔
جبکہ تربیت میں بچے کے مزاج اورجذبات پر کام کیا جاتا ہے۔ یعنی تعلیم یہ ہے کہ متعلم شعوری طور پر اچھے کو اچھا سمجھے اور برے کو براسمجھے ۔ یا اچھے کو اچھا بتائے اوربرے کو برا بتائے ۔
جبکہ تربیت یہ ہے کہ اچھائی اس کوجذباتی طور پراچھی لگنے لگے۔ اور برائی سے جذبات نفرت ہو۔ صرف جاننا کافی نہیں بلکہ یہ اچھائی اس کے مزاج ومذاق کا حصہ بنے اوراسے وہ دل سے اچھی لگنے لگے۔ اسی طرح برائی اسے بری لگنے لگے اور وہ برائی سے بچنے کی ازخود کوشش کرنے لگے۔
جذبات اور عقل کا تعلق
جذبات ہمارے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو بہت متاثر کرتے ہیں۔ ہم اپنے شعوروعقل سے اس وقت تک درست کام نہیں لے سکتے۔ جب تک کہ ہم جذباتی طور پرمتوازن نہ ہوں۔ اسی طرح بچوں کے جذبات کی بات کی جائے، تو جب تک بچے جذباتی طور پر متوازن نہ ہوں۔ اس وقت تک تعلیم یا زندگی کے کسی بھی میدان میں ان سے اچھی کارکردگی کی توقع رکھنا مشکل ہے۔ جذبا ت وہ توانائی ہوتے ہیں جو ارادوں کےعمل میں ڈھلتے وقت ہماری مدد کرتے ہیں۔ چاہے وہ تعلیم وتعلم کا میدان ہو یا زندگی گزارنے کا کوئی بھی میدان ہو۔
کئی بچے تعلیمی میدان میں بڑی اچھی کارکردگی کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے گریڈز اور رزلٹ بڑے اچھے ہوتے ہیں ۔ لیکن بعد میں گھریلو، خاندانی اورمعاشرتی زندگی میں وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔ اگر پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی کہ وہ جذباتی عدم توازن کا شکارہوتے ہیں ۔ لہذ ا بچوں کو کامیاب مستقبل دینے کے لئے ضروری ہے۔ کہ ان کی جذباتی تربیت کا خوب اہتمام کیا جائے۔
- مؤلف:
- ڈاکٹرمحمدیونس خالد
ایران میں اہلِ سنت کے مذہبی مقامات پر ایک نظر
ایران میں اہل سنت مسلمانوں کی کل تعداد آٹھ فی صد ہے اور ان کی اکثریت صوبۂ سیستان و بلوچستان، صوبۂ کردستان، صوبۂ مغربی آذر بائیجان، صوبۂ خراسان رضوی، صوبۂ شمالی خراسان، صوبۂ جنوبی خراسان، صوبۂ بوشہر، صوبۂ فارس کے جنوب میں اور صوبۂ گلستان کے مشرق میں رہائش پذیر ہے۔
اس کے علاؤہ ان کی ایک قلیل تعداد صوبہ گیلان اور بعض دوسرے صوبوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ ملک کے مشرقی صوبہ سیستان و بلوچستان میں ہمارے اکثر سنی بھائی حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔
صوبۂ سیستان و بلوچیستان کے زاہدان، چابہار، ایرانشہر،خاش، سراوان، سرباز اور کنارک نامی شہروں میں اکثر اہل سنت رہتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے اہل سنت کی آبادی والا دوسرے نمبر کا حامل صوبہ، ایران کے مغرب میں عراق کی سرحد سے ملحق صوبہ کردستان ہے – اس صوبہ میں رہنے والے اکثر اہل سنت شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں - اس صوبہ کے سنندج، سردشت، مریوان، بانہ اور نقدہ نامی شہروں میں ہمارے اکثر سنی بھائی رہتے ہیں۔ ایران کی مغربی سرحد پر عراق اور ترکی سے ملحق مغربی آذر بائیجان کے صوبہ کے شہر مہاباد اور اشنویہ میں بھی بعض اہل سنت بھائی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایران کے ترکمن اہل سنت ایران کے شمال مشرقی صوبہ گلستان کے بندر ترکمن نامی شہر میں رہتے ہیں۔ اس صوبہ میں اکثر اہل سنت ترکمان ہیں۔
آئین کی دفعہ 12 کے مطابق اہل سنت کے دینی مدارس کی مالی مشکلات کو دور کرنے کے لئے حکومت ہر سنی دینی طالب علم کو مندرجہ ذیل خدمات فراہم کرتی ہے:
بیمہ عمر(life insurance)، بیمہ تکملہ،بینک کی سہولیت، ازدواج کا قرضہ، (حج) عمرہ کاکوٹہ، شادی شدہ طلاب کے لئے مالی امداد، دینی مدارس کو کمپیوٹر فراہم کرنا، اور دینی مدارس میں کتابخانہ قائم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس وقت اہل سنت کے 30000 سے زائد طالب علم مذکورہ سہولیات سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔
اہل سنت کے دینی مدارس کے تمام معلّمین اور اساتذہ، طبقہ بندی کے مطابق یونیورسٹی کے استادوں کے مانند ماہانہ تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اہل سنت کے عمر رسیدہ علماء اور فوت شدہ علماء کو بھی "مرکز خدمات حوزہ ہای علمیہ اہل سنت" کی طرف سے وظیفہ ملتا ہے۔ اہل سنت کے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے تمام طالب علم اجباری فوجی تربیت سے مستثنیٰ ہیں اور فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں کوباضابطہ قانونی اسناد دی جاتی ہیں – اس کے علاوہ سند یافتہ اہل سنت دینی طالب علموں کومختلف اداروں میں اسی سند کی بناء پرنو کریاں بھی ملتی ہیں اور یہ امر اہل سنت طلاب میں روز بروز اضافہ کا سبب بنا ہے۔ اس طرح بعض افراد جو سہولیات فراہم نہ ہونے کی وجہ سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں نہیں تھے آج دینی تعلیم حاصل کرنے کو مروجہ اور یونیورسٹی کی تعلیم پر ترجیح دیتے ہیں اور اہل سنت گھرانے اپنی اولاد کو زیادہ دلچسپی کے ساتھ یونیورسٹی کے بجائے دینی مدارس میں بھیجنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
قارئین کی معلومات میں اضافہ کے لئے یہاں پر2019 کی رپورٹ کے مطابق ایران میں اہل سنت حضرات کے مدارس اور مساجد پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
الف: مدارس
صوبۂ سیستان و بلو چستان کے دینی مدارس
صوبہ سیستان و بلو چیستان ایک ایسا صوبہ ہے، جس میں اہل سنت کے سب سے زیادہ دینی مدارس ہیں۔ صوبہ سیستان و بلو چیستان میں انقلاب سے پہلے اہل سنت کے دینی مدارس کی تعداد بہت کم تھی اور دینی تعلیم حاصل کرنے والے اکثر شائقین ہندوستان اور پاکستان ہجرت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اس صوبہ کے محدود دینی مدارس کی کیفیت بھی مختلف محدود یتوں اور اہل سنت کے قبل علماء کی کمی کی وجہ سے پست تھی۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ اس صوبہ میں اہل سنت کے دینی مدارس میں روز افزوں ترقی کی وجہ سے دینی تعلیم کے شائقین اس مقصد سے دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرنے سےبے نیاز ہوئے اور اسی صوبہ کے مختلف شہروں میں متعد د مدارس قائم ہوگئے۔ اس وقت اس صوبہ کے دینی مدارس (و مکاتب) اور حوزہ علمیہ کی تعداد ایک سو سے زائد ہے۔ ان دینی مدارس کی کیفیت میں ترقی اس امر کا سبب بنا ہے کہ آج بہت سے اہل سنت دینی طالب علم دوسرے ممالک، من جملہ افغا نستان اور پاکستان کے صوبہ بلو چستان سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایران کے صوبہ بلوچستان آتے ہیں۔
اس صوبہ میں اہل سنت دینی طلاب کی تعداد تقریبا 7000 افراد پر مشتمل ہے، جبکہ انقلاب سے پہلے اس صوبہ میں طلاب کی تعداد 300 افراد سے زیادہ نہیں تھی۔
اس وقت صوبہ سیستان و بلوچیستان کے دینی مدارس میں اہل سنت کو عالی ترین سطح پر دینی تعلیم دی جاتی ہے۔
سیستان و بلوچیستان کے صوبہ میں اہل سنت کے دینی مدارس کے علاوہ متعدد ثقافتی مراکز بھی سر گرم عمل ہیں، جو برادران اہل سنت کے لئے گونا گوں وسائل سے آراستہ ریڈنگ روم اور کتابخانوں کے لئے بے مثال خدمات انجام دیتے ہیں۔
صوبۂ کردستان کے دینی مدارس
صوبہ کردستان کے شہر مریوان، بانہ،سرد آباد، سنندج،سقز اور دیواندرہ میں اس وقت اہل سنت کے 26 دینی مدارس(حوزہ علمیہ)فعال ہیں، ان میں 1300 لڑکے اور لڑکیاں دینی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں اس کے علاوہ اس وقت مزید دس دینی مدارس زیر تعمیر ہیں۔
صوبۂ مغربی آذر بائیجان کے دینی مدارس
صوبہ مغربی آذر بائیجان میں اہل سنت کے گیارہ دینی مدارس(حوزہ علمیہ)سر گرم عمل ہیں اس کے علاوہ اس صوبہ کے ارومیہ، بو کان، مہا باد، نقدہ، پیران شہر اور اشنویہ میں بھی اہل سنت کے دینی مدارس قائم ہیں۔
صوبۂ کرمانشاہ کے دینی مدارس
اس صوبہ میں اہل سنت کے پندرہ(15) دینی مدارس فعال ہیں جن میں 200 دینی طلاب زیر تعلیم ہیں اس صوبہ کے بعض شہروں میں چار سے زائد دینی مدارس موجود ہیں۔
صوبۂ گلستان کے دینی مدارس
صوبہ گلستان کے مشرق میں اہل سنت کے 120 دینی مدارس(حوزہ علمیہ)سر گرم عمل ہیں اور اس صوبہ میں اس وقت 3500 دینی طلاب زیر تعلیم ہیں۔
صوبۂ خراسان رضوی کے دینی مدارس
خراسان رضوی کے صوبے میں بھی ہمارے اہل سنت بھائی حضرت امام رضا علیہ السلام کے پر مہر سائے میں دینی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں۔ اس صوبہ میں اس وقت 1500 سے زائد اہل سنت طلاب امن و امان کے ماحول میں اسلامی جمہوریہ ایران کی بھر پور حمایت اور مدد سے دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
صوبۂ خراسان جنوبی کے دینی مدارس
خراسان جنوبی نامی صوبہ میں اہل سنت بھائیوں کے 10 دینی مدارس(حوزہ علمیہ) ہیں، جن میں تقریبا 200 طلاب، دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں - صوبہ خراسان جنوبی میں انقلاب سے پہلے اہل سنت کے صرف دو دینی مدارس تھے اور ان دو مدارس کو بھی بہت کم سہولیات فراہم تھیں۔
صوبۂ خراسان شمالی کے دینی مدارس
صوبہ خراسان شمالی میں اہل سنت کے 30 دینی مدارس(حوزہ علمیہ)ہیں،اور دینی مدارس کی یہ تعداد انقلاب سے قبل والی تعداد سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ اس صوبہ کے مختلف شہروں میں اس وقت تقریباً 1000 طلاب، دینی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں اور تجربہ کار اساتذہ سے کسب فیض کر رہے ہیں۔
صوبۂ ہرمزگان کے دینی مدارس
شافعی مسلک سے تعلق رکھنے والے اہل سنت حضرات کی ایک بڑی تعداد ایران کے جنوب میں صوبہ ہرمزگان کے بندر عباس، قشم، میناب، جاسک، بستک، کیش اور بندر لنگہ وغیرہ نامی شہروں میں خلیج فارس کے ساحل پر رہائش پذیر ہے۔ ایران کے دوسرے صوبوں کے مانند اس صوبہ میں بھی برادران اہل سنت کے مخصوص دینی مدارس قائم ہیں۔
جبکہ انقلاب سے پہلے اس صوبہ میں اہل سنت کے مدارس کی تعداد انتہائی کم تھی، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کی برکت اور نظام کے مسؤلین کی خاص توجہ اور حمایت کے نتیجہ میں اس وقت اس صوبہ میں بہت سے دینی مدارس قائم کئے گئے ہیں۔ اور ان میں طلاب روزانہ دینی تعلیم و تحقیق میں مشغول ہیں۔ اس صوبہ میں اہل سنت کے دینی مدارس کی تعداد تقریباً 40 ہے۔
صوبۂ بوشہر کے دینی مدارس
کچھ اہل سنت، صوبہ بوشہر میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس صوبہ میں اہل سنت کے 8 دینی مدارس قائم ہیں ان مدارس میں 1100 دینی طلاب تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں 700 طالبات ہیں۔
صوبۂ فارس کے دینی مدارس
اہل سنت بھائیوں نے رہائش کے لئے اس صوبہ کے جنوبی شہروں کو منتخب کیا ہے اس صوبہ میں اس وقت 20 دینی مدارس (حوزہ علمیہ) ہیں جن میں تقریبا ً 1000 طلاب زیر تعلیم ہیں۔
صوبۂ گیلان کے دینی مدارس
صوبہ گیلان میں بحرخزر کے ساحل پر بسے ہوئے اہل سنت بھائیوں کے 7 دینی مدارس ہیں اور ان مدارس میں مجموعی طور پر تقریباً 200 دینی طلاب زیر تعلیم ہیں۔
ب: مساجد
پورے ایران میں اہل سنت کی آبادی صرف آٹھ فی صد ہے اور اس وقت ایران میں اہل سنت کی تقریباً 13000 مسجدیں ہیں۔
تہران
ایران کے مرکزی شہر’تہران‘میں اہلسنت حضرات کی حد اقل ۹ مسجدیں سرگرم عمل ہیں۔ مسجد صادقیہ، صادقیہ کے دوسرے چوراہے کے پاس؛ مسجد تہران پارس، دلاوران روڈپر؛ مسجد شہر قدس، شہر کے پرانے ہائی وے پر؛ مسجد خلیج فارس، فتح ہائی وے پر؛ مسجد النبیؐ، دانش سوسائٹی پر؛مسجد ہفت جوب، ملاردہائی وے پر؛ مسجد وحیدیہ، شہر یار میں؛ مسجد نسیم شہر، اکبر آباد میں؛ مسجد رضی آباد، شہریار تراہے پر۔
صوبۂ سیستان و بلو چیستان
اہل سنت بھائیوں کی اکثر مسجدیں صوبہ سیستان و بلوچیستان میں فعال ہیں۔ ایران میں اہل سنت کی نشریات میں شائع شدہ تطبیقی اعداد و شمار اور صوبوں کی سازمان تبلیغات اسلامی کے توسط سے حاصل شدہ مساجد کے بارے میں اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ مسجدوں میں سے اکثر مسجدیں صوبہ سیستان و بلوچیستان میں ہیں، اور اس صوبہ میں اہل سنت کی مسجدوں کی تعداد 3700 ہے اور اس کے بعد دوسرے نمبر پر صوبہ کردستان ہے، جس میں 2000 مسجدیں ہیں اور تیسرے نمبر پر مغربی آذر بائیجان کا صوبہ ہے جس میں 1500 مسجدیں ہیں۔ اس کے بعد صوبہ ہرمزگان، صوبہ گلستان اور صوبہ خراسان (مجموعاً تین صوبوں) میں 746 مسجدیں ہیں اور ان کو چوتھا نمبر حاصل ہے- اس کے بعد صوبہ کرمانشاہ میں 420 مسجدیں، صوبہ بوشہر میں 135 مسجدیں اور صوبہ گیلان میں 95 مسجدیں ہیں اس طرح ان تین صوبوں کو پانچواں نمبر حاصل ہے۔ صوبہ فارس میں اہل سنت کی 290 مسجدیں ہیں اور اس کے علاوہ صوبہ کرمان اور صوبہ خوزستان میں بھی اہل سنت بھائیوں کی کئی مسجدیں فعال ہیں۔
مثال کے طور پر صوبہ سیستان و بلوچیستان کے شہرزاہدان میں انقلاب سے پہلے موجود مسجدوں کی تعداد گزشتہ 32 سال کے دوران دس گنا بڑھ چکی ہے۔ صوبہ سیستان و بلوچیستان کے مختلف شہروں میں 400 جگہوں پر اہل سنت کی نماز جمعہ قائم ہے جبکہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے صرف گیارہ جگہوں پر نماز جمعہ قائم تھی- اس وقت صرف شہر زاہدان میں 12 جگہوں پر نماز جمعہ قائم ہے، جس میں اہل سنت ہم وطنوں کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے- صوبہ کے تمام اہل سنت ائمہ جمعہ، دینی مدارس کے معلمین، دینی طلاب اور اہل سنت مساجد کے خادمین،ان سب کا بیمہ (Health insurance)ہوتا ہے۔ان کو ماہانہ تنخواہ کے علاوہ عیدی بھی دی جاتی ہے۔
بہت سے ممالک میں ائمہ جمعہ پر پابندی ہوتی ہے کہ جمعہ کے خطبوں میں حکومت کی طرف سے معین شدہ مطالب کو پڑھیں، لیکن ایران میں جمعہ کے خطبوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
صوبۂ کردستان
ایران کے مغرب میں صوبہ کردستان ملک کا دوسرا صوبہ ہے جہاں پر اہل سنت سکونت پذیر ہیں - اس صوبہ کے مختلف شہروں میں 2000سے زائد مساجد فعال ہیں جن میں اہل سنت آزادی کے ساتھ اپنی دینی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب کے اس صوبہ میں سفر کی برکتوں میں سے ایک،کردستان کے اہل سنت علماء کی درخواست پر اہل سنت کے شرعی افق کے مطابق اذان دینا ہے، جس کا صوبہ کردستان کے عوام نے استقبال کیا۔
صوبۂ مغربی آذر بائیجان
ایران کا ایک اور صوبہ جس میں اہل سنت برادران زندگی بسر کرتے ہیں، صوبہ مغربی آذر بائیجان ہے یہ صوبہ ایران کے مغرب میں واقع ہے- اس صوبہ میں اہل سنت کی 1500 مسجدیں ہیں۔
صوبۂ کرمانشاہ
اس صوبہ میں صدر اسلام سے 1979 عیسوی یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی تک اہل سنت کی صرف 95 مسجدیں تھیں لیکن اسلامی انقلاب کی برکت سے اب ان مسجدوں کی تعداد 491 تک بڑھ گئی ہے اور اس طرح ان کی تعداد چار گنا سے زیادہ ہوگئی ہے۔
صوبہ کرمانشاہ میں،جوانرود، روانسر، پاوہ اور باباجانی نامی شہروں میں اہل سنت حضرات رہائش پذیر ہیں اور اس صوبہ میں ان کی 120 نماز جمعہ قائم ہوتی ہیں۔
صوبۂ ہرمزگان
اہل سنت کی ایک تعداد، خلیج فارس کے ساحل پر صوبہ ہرمزگان میں رہائش پذیر ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس صوبہ میں تقریباً1200 مسجدیں ہیں جن میں اہل سنت حضرات نماز ادا کرتے ہیں۔
صوبۂ گلستان
صوبہ گلستان میں اہل سنت کی 1500 مسجد یں ہیں اور ان میں نماز جماعت کے علاوہ روزانہ مذہبی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔
صوبۂ بوشہر
اس صوبہ میں انقلاب سے پہلے اہل سنت کے صرف تین نماز جمعہ کے مراکز تھے لیکن اب ان کی تعداد 34 تک پہنچ چکی ہے۔
اس صوبہ میں 57 دائمی اور عارضی ائمہ جمعہ ہیں، حکومت کی طرف سیان سب ائمہ جمعہ کا با ضابطہ بیمہ کیا گیا ہے اور ان کی مالی مدد کی جاتی ہے اور انھیں ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔
آخر میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان تمام اماکن میں، مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کو مذہبی ودینی تقریبات اور پروگراموں کو منعقد کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔
تحریر: انجم جعفری