سلیمانی
مسجد الصخرۃ
مسجد صَخْرہ یا صَخرۃ مقدس بیت المقدس میں "موریا" نامی بلندی پر واقع مسجد ہے۔ یہ مسجد اور اس کا گنبد جو قبۃ الصخرہ کے نام سے مشہور ہے ایک بہت بڑی چٹان پر بنایا گیا ہے۔اس مسجد کو "مسجد صخرہ " اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مسجد شہر بیت المقدس میں موریا کی بلندی پر ایک چٹان پر بنائی گئی ہے جو تینوں آسمانی آدیان یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں مقدس شمار کی جاتی ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شب معراج کو اسی مقام سے آسمان کی طرف عروج کیا تھا۔
مسجد اقصی اور مسجد صخرہ انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے بعض لوگ اس مسجد کے گنبد کو جو کہ مذکورہ چٹان کے اوپر بنایا گیا ہے،مسجد الاقصی کا گنبد خیال کرتے ہیں جوکہ خلط اور اشتباہ ہے کیونکہ مسجد الصخرہ کا گنبد گولڈ کلر میں جبکہ مسجد الاقصی کا گنبد سرمئی کلر میں ہے
مسجد صخرہ پہلی صدی ہجری میں عبد الملک بن مروان کے دور میں بنائی گئی اور بعد کے مختلف ادوار میں اس کی مرمت اور تعمیر نو ہوتی رہی ہے۔ مسجد الصخرہ یا قبۃ الصخرہ مسجد الاقصی کے علاقے میں بیت المقدس کے "موریا" نامی بلندی پر واقع ہے۔ مسجد الصخرہ کے گنبد کا رنگ سونے (گولڈ کلر) کا ہے جو ایک آٹھ ضلعی عمارت کے اوپر بنایا گیا ہے۔
اس عمارت کے ہر چاروں سمت ایک دورازہ کھلتا ہے۔ مسجد صخرہ کے جنوب مغربی حصے میں سنگ مرر کے ایک ستون کے نزدیک "قدم محمد" نامی مقام ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نقش پا ہے جو شب معراج کو آپ نے یہاں سے آسمانی کی طرف عروج فرمایا تھا۔ اسی طرح قبۃ الصخرہ کے نزدیک ایک مشہور مقام "قبۃ النبی" کے نام سے موجود ہے جہاں قدس شریف کے مکینوں کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام نے نماز پڑھی ہیں۔ تزئین کے اعتبار سے قبۃ الصخرہ غنی ترین اسلامی عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
جس چٹان پر "قبۃ الصخرہ" بنایا گیا ہے یہ مسجد حرم سے پہلے مسلمانوں کا قبلہ شمار ہوتا تھا۔
اس مسجد کی تعمیر کا کام سنہ 66 ہجری میں عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں بیت المقدس کے موریا نامی بلندی پر شروع ہوئی اور سنہ 72 ہجری میں مکمل ہوئی ۔ پھر اس کی مزید تعمیر بعد کے ادوار میں جاری رہی یہاں تک کہ سنہ 216 ھ میں عباسی خلیفہ مامون عباسی کے دور میں قبۃ الصخرہ کی دوبارہ مرمت ہوئی۔سنہ 407 ھ میں قدس شریف میں شدید زلزلہ آیا اور قبۃ الصخرہ ویران ہو گیا، سنہ 413 ھ یعنی خلافت فاطمیہ کے دور میں مسجد صخرہ دوبارہ تعمیر کی گئی۔ سنہ 460 ھ میں ایک اور زلزلے میں مسجد دوبارہ ویران ہو گئی جسے سنہ 467 ھ میں عباسی خلیفہ القائم بامراللہ کے دور میں دوبارہ تعمیر کی گئی۔
فقر اور تنگدستی کی حقیقت
مشہور مفکر اور بوسنیا کے سابق صدر علی عزت بیگووچ نے اپنی مشہور کتاب(الإسلام بين الشرق والغرب) میں فقر وتنگدستی کی حقیقت پر گفتگو کی ہے۔وہ انسان کے دو پہلو، مادی اور روحانی کی بیان کرنے کے بعد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان دونوں پہلوؤں کے درمیان توازن ہونا چاہیے۔ اگر توازن نہ ہو تو انفرادی اور اجتماعی زندگی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ جب بات ایسی ہو تو یہیں سے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ جب انسان اپنی زندگی میں مادی پہلو کو زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اسی کو بہتر کرنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے تو وہ کبھی بھی خوش نہیں رہتا، حالانکہ اس کے پاس زندگی گزارنے کی تمام آسائشات موجود ہوتی ہیں۔
فقر کا قرآنی تصور
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فقر کا تذکرہ کچھ یوں فرمایا ہے:
(وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ)، طه: 124
اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔
فقر یہ نہیں ہے کہ انسان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں ،بلکہ فقر یہ ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ موجود ہے وہ اس سے راضی نہیں ہے۔
آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فقر کا سبب یاد خدا سے دوری ہے۔ہم یہاں پر اس معنی کو ذرا تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس آیت مجیدہ میں ذکر خدا سے کیا مراد ہے؟ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب اس کے پاس مال و اسباب نہیں ہوتا تو وہ غم و خوف کا شکار ہو جاتا ہے یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہاں کچھ اسباب کا فقدان ہے۔جب انسان کے پاس مال و دولت اور اسباب کی فروانی ہوتی ہے تو وہ مطمئن ہوتا ہے۔جب انسان کی نظر میں مادی اسباب کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہو گی تو ایسی صورت میں جب اس کے پاس یہ نہیں ہوگا تو اسے کسی قسم کے رنج،غم،افسوس،اضطرات،تکلیف اور پریشانی کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔جس نے اپنا عقیدہ اس بات پر بنایا کہ یہ سب وسائل دراصل اللہ کے رزق تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں جب وہ نہیں ہو ں گے تو اسے کوئی دلی پریشانی نہیں ہو گی۔کیونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالی اس بات پر قادر کہ وہ کسی دوسرے طریقے سے اس تک رزق پہنچا دے گا۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا)، الطلاق: 3
اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے پس اس کے لیے اللہ کافی ہے، اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے، بتحقیق اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔
اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور کریں: (وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ) اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو.۔ یعنی اللہ ایسے وسیلے سے رزق دے گا جسے انسان جانتا بھی نہیں ہو گا۔
(إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا) اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے، بتحقیق اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالی اس بات پر قادر ہے کہ وہ کسی اور چیز کا سبب بنا کر رزق عطاکر دے۔
اس طرح ایمان رکھنا انسان کو زندہ اور مطمئن بناتا ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:(أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ)، يونس: 62 ۔سنو!جو اولیاء اللہ ہیں انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔ پس اسباب کے چلے جانے سے بھی اسے کسی قسم کا خوف اور غم نہیں ہوتا۔اسی طرح جب یہ مال لانے کے اسباب موجود ہوتے ہیں تو بھی وہ خوش نہیں ہوتا۔اس کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن مجید کی اس آیت مجیدہ میں ارشاد ہوتا ہے:(لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ)، الحديد: 23 ۔ تاکہ جو چیز تم لوگوں کے ہاتھ سے چلی جائے اس پر تم رنجیدہ نہ ہو اور جو چیز تم لوگوں کو عطا ہو اس پر اترایا نہ کرو، اللہ کسی خودپسند، فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔
آیت مجید کہ جس آیت شریفہ میں ذکر کی طرف اشارہ کیا گیا ، اس کی وضاحت اللہ تعالی کا یہ فرمان کرتا ہے:
(اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا)، الطلاق: 12 ۔
وہی اللہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کی طرح زمین بھی، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ نے بلحاظ علم ہر چیز پر احاطہ کیا ہوا ہے۔
اس آیت مجیدہ میں اللہ تعالی یہ بتا رہا ہے کہ اس نے اس کائنات کو کیوں بنایا؟ اور وہ چاہتا ہے کہ انسان اس حقیقت کو جان لے کہ اس کائنات میں اللہ تعالی کے علاوہ اور کوئی بھی صاحب اختیار نہیں ہے،ہر طرح کی قوت و طاقت اللہ تعالی کے پاس ہے ۔ جیساکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:(لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا)
تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ نے بلحاظ علم ہر چیز پر احاطہ کیا ہوا ہے۔ یعنی مقصد یہ ہے کہ انسان اس مقام تک پہنچے کہ وہ جان لے کہ ہر معاملہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف لوٹتا ہے۔
کسی کو یہ گمان نہ ہو جائے کہ ہم ہر طرح کے مادی اسباب کی نفی کر رہے ہیں کہ ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا،ایسا ہرگزنہیں ہے،بلکہ یہ وہ عام ذرائع اور وسائط ہیں جن کو اختیار کرنے کا اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے۔تاہم، ہمیں یہ عقیدہ نہیں رکھنا چاہئے کہ ان کا اثر اللہ کے بغیر ہوتا ہے، بلکہ جو بھی ان میں طاقت اور اثر ہے وہ صرف اور صرف اللہ تعالی کا دیا ہوا ہے۔علم کلام میں اس موضوع کو استطاعت کی بحث کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل بیان کرنے کا موقع نہیں ہے۔لیکن ضرورت کے تحت ہم صرف اس کی طرف فقط اشارہ ہی کریں گے۔اسباب کی تاثیر کی بارے میں حضرت علیؑ کے قول کے ذکر کرنے پر ہی اکتفا کریں گے جس میں اسباب کی تاثیر کی مقدار کی وضاحت کی گئی ہے۔عبایہ بن ربعی نے استطاعت (اسباب اور وسائل کے اثر)کے بارے میں سوال کیا اس سوال کے جواب میں امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:آپ نے استطاعت کے بارے میں سوال کیا ہے،کیا تمہاری استطاعت اللہ کے بغیر ہے یا اللہ کے ساتھ تم بھی مالک ہونے میں شریک ہو؟ عبایہ خاموش رہا،امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:اگر تم کہو کہ تم اللہ کے ساتھ اس کے مالک ہو تو میں تمہیں قتل کر دوں گا، اور اگر تم یہ کہو کہ تم اللہ کے بغیر اس کے مالک ہو تو بھی میں تمہیں قتل کر دوں گا۔عبایہ نے عرض کیا تو پھر میں کیا کہوں؟آپؑ نے فرمایا: آپ خدا کے ذریعے اس کے مالک ہیں، وہ آپ کے بغیر اس کا مالک ہے۔جس کے تم مالک ہو وہ اس کی عطا ہے۔اگر وہ اسے چھین لے تو یہ اس کی طرف سے مصیبت ہو گی،وہ تمہاری ہر چیز کا مالک ہے،وہ اس پر بھی قادر ہے جس پر تمہیں قدرت دی ہے۔
سماجی اثرات
یہاں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جو صاحبان ایمان نہیں ہیں ان کو ڈپریشن اور افسردگی زیادہ ہوتی ہے۔روحانی اور اخلاقی کمزوری یہ دو بڑے اسباب ہیں جو ان اہل مغرب میں پائے جاتے ہیں اور ان لوگوں میں جو اپنا عقیدہ چھوڑ چکے ہیں،بالخصوص ملحدین ایسے ہی ہیں۔مشہور سیاح سلوین ٹیسن نے عصری انسانی نفسیات میں اس خطرناک تضاد پر روشنی ڈالی ہے ، جب اس نے فرانس پر بات کی وہاں اس کی وضاحت کرتے ہوئے طرح بیان کیا:" ایک جنت جس میں ایسے لوگ آباد ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ جہنم میں ہیں۔"یہ چونکا دینے والی تفصیل ہے۔یہ ایک بڑے گہرے بحران کی نشاندہی کرتی ہےجس سے جدید دور کا انسان دو چار ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے پاس مادی آسائش کے تمام وسائل موجود ہیں لیکن روحانی اور اخلاقی بیچارگی کا شکار ہے۔
اس بات کی تصدیق مشہور نفسیاتی تجزیہ کار اور فروئیڈ کے شاگرد کارل گستاو یونگ کے الفاظ سے ہوتی ہے، اس نے کہا:" وہ تمام مریض جو اپنی زندگی کا نصف حصہ گزار چکے ہیں(35 سال سے زیادہ)۔ان کے مشاہدے کے دوران مجھے ایک بھی شخص ایسا نہیں ملا جو اپنے مذہبی تصور کے بارے میں مشکل کا شکار نہ ہو۔۔۔ایسے شخص کو اس وقت تک شفاء نہیں مل سکتی جب تک وہ مذہب کو دوبارہ دریافت نہ کر لے۔
انسان کی شخصیت میں موجود معنویت کا بحران انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی روحانی تسکین کے لیے دوسرے ذرائع کو تلاش کریں، ان کے ذریعے نفسیاتی توازن کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔وہ جنسی بے راہ روی،نشہ آور اشیاء کا استعمال اور باطنی ادیان جیسے بدھ ازم ،ہندو ازم اور اس طرح کے دیگر مذاہب کی طرف رجوع کرتا ہے۔آسٹریا کی متصوفہ ماریہ سما کہتی ہیں: سیکولر دنیا کا دعویٰ ہے کہ روحانیت کی ضرورت ختم ہو گئی ہے۔ لیکن یہ دعویٰ واضح اور بڑے حقائق کے سامنے منہدم ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو بتائیں کیوں ہزاروں لاکھوں لوگ گنگا کے کنارے مراقبہ کے لیے ہندوستان آتے ہیں؟ اور شہر کیوں فرقوں اور روحانی گرو حضرات سے بھرے ہوئے ہیں، یقینا ان میں سے کچھ قابل اعتراض بھی ہیں؟
انسان کی روح اس کے جسم کی طرح ہے،اسے بھی تازگی اور زندگی کے لیے پانی اور کھانے کی ضرورت ہوتی ہے،وہ جہالت اور گمراہی جس میں آج کی دنیا مبتلا ہو چکی ہے۔انسان کا بڑا مسئلہ جس کا وہ شکار ہے وہ اس کا روحانی اور دینی مسئلہ ہے۔وہ اس کے عجیب غریب متبادل لانے کی کوشش کرتا ہے۔وہ نشہ آور اشیاء،شراب اور شباب میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔کبھی کبھی وہ نام ،عہدہ،اقتدار اور مال میں اس کا حل ڈھونڈتا ہے۔کبھی وہ کچھ ایسے گروں سے متاثر ہو جاتا ہے جن کے بارے میں وہ اس وہم کا شکار ہوتا ہے کہ ان سے اسے سکون اور امن ملے گا۔ جبکہ حقیقت میں یہ لوگ اسے شیطانی اور گمراہ کن قوتوں کے چنگل میں لے جاتے ہیں۔"
الحاد پر ایک عالمی مطالعہ میں، ماہر عمرانیات فل زکرمین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جن ممالک میں ملحدانہ رجحانات غالب ہیں وہاں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
دومحققین سارہ زممور اور لی این کاسکوٹا، جو نفسیات اور نشے کے علاج میں مہارت رکھتے ہیں نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ مذہبی عقائد کسی بھی انسان کو نشے سے روکنے کے لیے ایک حفاظتی بند کا کردار ادا کرتے ہیں۔
ان دونوں محققوں کی تحقیق کی تصدیق بہت سے ملحدوں کے اعترافات سے ہوتی ہے معروف مصنف اور ملحد "Boualem Sansal" کو اپنے الحاد پر افسوس ہوا، اس نے 28 دسمبر 2021 کو اخبار "L'Express" کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’میرا خیال ہے کہ وہ ملحدین جو ایسے جذبات (یعنی مذہبی جذبات) نہیں رکھتے ان کی زندگی غمگین ہوتی ہے۔‘‘آندرے کاؤنٹ آف سیون ویل، ایک بنیاد پرست ملحد فلسفی نے اعتراف کرتے ہوئے کہا:"ایک لمحہ آتا ہے جب ملحد مکمل طور پر عاجز ہوتا ہے۔ اسے جن سے زیادہ پیار تھا ان میں: اس کا باپ، اس کا ہمکار، اس کا بیٹا، اس کا سب سے اچھا دوست،موت کی وجہ سے یہ سب اس سے چھین لیتی ہے۔ اس طرح کے لمحات میں،ہم خدا پر یقین کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں،ہم ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جو اس (ایمان)سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔آئیے مان لیتے ہیں کہ مذاہب کی یہی طاقت ہے کہ جسے شکست دینا مشکل ہے۔ کیا یہی وجہ ایمان لانے کے لیے کافی ہے؟ بعض لوگوں کے لیے تو یقینا ایسا ہی ہے۔بعض دوسرے جن میں ،میں خود بھی شامل ہوں وہ اسی سے ایمان کا انکار کریں گے،اس کی وجہ تکبر،غصہ،اور ناامیدی ہو گی۔تکلیف کے باوجود وہ اپنے الحاد میں مزید پختہ ہو جاتے ہیں۔ان کو لگتا ہے کہ بدترین حالت میں بھی یہ باغی رہیں گے ایسا کرنا نماز سے زیادہ بہتر ہے۔انہیں وحشت تسلی سے زیادہ پسند ہے۔"
اختتامیہ
فرانسیسی فلسفی لوئس مائیکل بلانک نے اپنی کتاب (الكتاب الأسود للإلحاد) میں لکھا ہے:"جب خدا مر چکا ہے،جیسا کہ نطشے نے دعوی کیا ہے۔جدید دور کے انسان کی روحانی پیاس ابھی تک زندہ ہے۔جیسے معاشرے میں پچاریوں اور پادریوں کا کردار کم ہو رہا ہے۔ہم معاشرے میں چڑیلوں اور قدیم دیوتاوں کی پرستش کو واپس آتا دیکھ رہے ہیں۔سینما،ادبی کتب اور ان پر بنی ٹی وی سیریز زبردست کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں اس سے ان موضوعات کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔اس رجحان کو سمجھنے کے لیے بڑی لائبریریوں کا دورہ کرنا یا سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کو براؤز کرنا ہی کافی ہے۔ انسان فطرتاً ایک مذہبی مخلوق ہے اور اس کی روحانی پیاس صرف مذہب یا متبادل مذہبی نظام کے ذریعے ہی بجھائی جا سکتی ہے۔
شیخ مقداد ربیعی
ایک سال میں اسرائیل کا خاتمہ؟
اسرائیلی فوج کے سابق میجر جنرل نے غزہ میں حماس کے ہاتھوں اپنی ناکامی کو تسلیم کر لیا ہے۔ سابق اسرائیلی میجر جنرل نے کہا ہے کہ ہم ایک ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں، جہاں سے باہر نکلنا ناممکن ہے۔ سابق میجر جنرل یزہاک برک نے کہا ہے کہ ہم ایسی جگہ پھنس چکے ہیں جہاں ایک طرف حماس کیساتھ جنگ جاری ہے تو دوسری جانب ایران کیساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی ہے۔ سابق میجر جنرل نے خبردار کیا کہ اگر غزہ جنگ بندی کیلئے ہونیوالے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو خطے میں نہ ختم ہونیوالی جنگ چھڑ سکتی ہے، اور اسرائیل ہر جانب سے شدید خطرات میں گھیر جائے گا۔ یزہاک برک نے مزید کہا کہ وزیر دفاع نے غزہ کے حوالے سے جو اہداف مقرر کیے تھے اُن میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہو سکا، اگر یہی صورتحال رہی اور اسرائیلی وزیراعظم اور ان کے اتحادی تبدیل نہ ہوئے تو اسرائیل آئندہ ایک سال میں صفحۂ ہستی سے مٹ جائیگا۔
اسرائیل کے حوالے سے یہ پیشگوئی صرف یزہاک برک کی نہیں، بلکہ اسرائیلی سیاستدان، مبصرین، سینیئر تجزیہ کار اور دفاعی ماہرین بھی ایسی متعدد پیش گوئیاں اور تجزیے پیش کر چکے ہیں، جن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ کی دلدل میں پھنس گیا ہے، تین ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، اسرائیل نے غزہ میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں کیا، اس کے باوجود حماس کا نقصان نہیں کر سکا۔ عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنانے سے ملک فتح نہیں ہوتے، مخالف کی دفاعی قوت کو زائل کرنا پہلی ترجیحی ہوا کرتی ہے، مگر اسرائیل اس میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اس وقت اسرائیل مکمل طور پر نرغے میں ہے۔ حزب اللہ لبنان نے اسرائیلی حکام کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ یمن کے حوثیوں نے بحیرہ احمر میں اسرائیل کی لائف لائن پر پاوں رکھا ہوا ہے۔ ایران کا خوف صہییونیوں کو راتوں کو سونے نہیں دے رہا ہے۔ ایران اسمائیل ہانیہ کا بدلہ لینے میں جتنی تاخیر کر رہا ہے، صہیونی اتنی زیادہ ذہنی کوفت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس نفسیاتی جنگ میں ایران نے اسرائیل پر فتح حاصل کر لی ہے۔
اسرائیل پر حملے کی تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ اس سوال کا جواب مبصرین نے یہ دیتے ہیں کہ ایران اگر براہ راست اسرائیل پر حملہ کرتا ہے تو اس کا ردعمل شدید ہو سکتا ہے۔ چونکہ برطانیہ اور امریکہ کیساتھ ساتھ کچھ ’’غدارانِ امت‘‘ عرب حکمران بھی اسرائیل کا ساتھ دیں گے، جس کیلئے ایران اس ممکنہ شدید ردعمل سے نمٹنے کیلئے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے جنگی مشقیں کر رہا ہے۔ جس روز ایران کا دفاع مضبوط تر ہوگیا، ایران ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کرے گا اور اسرائیل پر بھرپور حملہ ہوگا۔ اسرائیل کے سابق میجر جنرل یزہاک برک کی یہ پیشگوئی زمینی حقائق کے عین مطابق ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے پہلی بار باقاعدہ اپنے فورسز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا بدلہ لیں۔ یہ بدلہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے بڑھ کر ہوگا کیونکہ اسرائیل نے ایران کی خودمختاری کو چیلنج کرتے ہوئے تہران میں حملہ کیا ہے۔ اس حوالے سے ایران چاہتا ہے کہ جتنا بڑا حملہ ہو، اتنی زیادہ تیاری بھی ہو، یہی وجہ ہے کہ ایران حملے میں تاخیر کر رہا ہے۔ اس حوالے سے روس کیساتھ بھی دفاع تعاون کے معاہدے ہوئے ہیں۔ روس سے بھی اسلحہ لیا جا رہا ہے جبکہ ایران کی اپنی ڈورن ٹیکنالوجی اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ اس سے وہ کسی بھی ہدف کو آسانی سے نشانہ بنا سکتا ہے جبکہ ڈرون کے ساتھ ساتھ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی کی بھی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی رجیم نفسیاتی طور پر اتنی پریشان ہے کہ اسی پریشانی کے باعث وہ اپنا کوئی نقصان بھی کر بیٹھیں گے۔
اب خود اسرائیلی فوج کے اندر بھی کافی پریشانی پائی جا رہی ہے۔ اعلیٰ افسران مستعفی ہو رہے ہیں۔ جس سے حکومت کو ایک نئی پریشانی کا سامنا ہے۔ اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل اہارون ہیلیوا نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔ انہوں نے کہا کہ حماس پر حملوں میں انہیں شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ حماس نے اسرائیل پر جو 7 اکتوبر کو حملہ کیا تھا، اس میں ہماری ناکامی ہے کہ ہم اس حملے کا ادراک نہیں کر سکے۔ اہارون ہیلیوا کا کہنا تھا کہ حماس نے جب حملہ کیا اور جنوبی اسرائیلی آبادیوں، فوجی اڈوں اور ایک کلب میں ہونیوالی پارٹی پر حملہ کیا تو وہ میرے لئے ایک سیاہ دن تھا اور میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے کہ میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہا، یہ ملامت مجھے سونے نہیں دیتی، میں قوم سے معافی مانگتا ہوں۔ اس پر انہوں نے حماس کے اس حملے کو اپنی ناکامی سے تعبیر کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ہے۔
ان کے علاوہ بھی اعلیٰ فوجی حکام تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کا دفاع کرنے میں ناکام رہے اور اسرائیل کے دفاع کا پول پوری دنیا میں کھل گیا۔ جو فرضی رعب و دبدبہ بنایا گیا تھا، وہ حماس نے تارِ عنکبوت کی طرح برباد کرکے رکھ دیا۔ حماس کے اس عبرتناک حملے پر ابھی تک اسرائیلی وزیراعظم بنجمن تیتن یاہو کی جانب سے حکومت اور سکیورٹی فورسز کی ناکامی پر معافی نہیں مانگی گئی۔ اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطاقب حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں 1199 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے، جن میں عام شہری بھی شامل تھے۔ اس کے بعد اسرائیلی فورسز نے غزہ پر وحشیانہ بمباری شروع کر دی تھی۔ جس میں اب تک 40 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ جبکہ خود اسرائیلی وزیراعظم بینکر میں چھپا ہوا ہے، اور اسرائیلی عوام کی زندگیاں اس نے داو پر لگائی ہوئی ہیں۔
اس جنگ میں امریکہ کا دوہرا معیار ہے، امریکہ ایک جانب اسرائیل کا اسلحہ بھی دے رہا ہے، اس کی ہر طرح سے مدد بھی کر رہا ہے اور ساتھ ہی جنگ بندی کیلئے کوششیں کرنے کا ڈرامہ رچا کر عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔ امریکی سیکرٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے مختلف عرب حکمرانوں سے ملاقاتیں اور جنگ بندی کے حوالے سے کردار ادا کرنے کی بات کی لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ امریکہ جو خود تو اسرائیل کا اسلحہ اور دیگر دفاع سامان دے کر جنگ کی آگ کو بڑھاوا دے رہا ہے، اس کو کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ وہ خطے میں امن کا خواہاں ہے۔ یہ دوہرا معیار اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، بلکہ پوری دنیا کے سامنے آشکار ہو چکا ہے کہ امریکہ منافقانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ اب زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سابق اسرائیلی میجر جنرل کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے کہ اسرائیل کا خاتمہ اسی سال ہو جائے گا۔
تحریر: تصور حسین شہزاد
اربعین آرہا ہے اور دل سفر کربلا میں ہے
مذہب بھی کہیں دور رہ جاتا۔ وہاں ہر طرف یہ نعرے زبانوں پر گونج رہے ہوتے ہیں "حب الحسینؑ یجمعنا" محبت حسینؑ ہمیں اکٹھا کرتی ہے۔ جب آپ کا محبوب حسینؑ ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ مسیحی، زرتشتی، ہندو، سکھ اور دنیا کے کئی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ جوق در جوق حسینؑ کی طرف بڑھے چلے جاتے ہیں۔ وہ شناخت نہیں چھپاتے بلکہ اپنی پوری شناخت کے ساتھ شریک سفر عشق ہوتے ہیں۔ لوگ بڑھ بڑھ کر امام حسینؑ کے ان مہمانوں کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں وہ امام حسینؑ کے مہمان ہیں اور جو امام حسینؑ کا مہمان ہے سب اس کے خادم ہوتے ہیں۔
بچوں کے بغیر کربلا کا تصور ہی نہیں ہے، یہاں سفر عشق میں ہر طرف بچے ہی بچے ہوتے ہیں۔ عربی میں بڑے دلکش نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔ آپ کو زبان سمجھ میں نہیں آئے گی مگر آپ کو ان کے دل اور آنکھوں کی زبان سے مطلب سمجھ میں آ جائے گا۔بارڈر سے لے کر نجف تک کوئی آٹھ دس گھنٹے کا راستہ ہوگا ہر جگہ یہ قبائل اور بچے آپ کی خدمت کے لیے کمر بستہ ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے آپ کا پیچھا کر رہے ہیں۔ ایک انسان کتنا کھا سکتا ہے؟ کتنا پی سکتا ہے؟ اصل چیز ان کا عشق ہے جو انہیں مجبور کرتا ہے کہ یہ آپ کے پاوں دباتے ہیں، بیمار ہیں تو دوا حاضر ہے اور بچوں کے لیے دودھ حاضر ہے۔
ہم بغداد، سامرہ، کاظمین اور مسیب کی زیارات کرکے رات کے ایک بجے نجف اشرف داخل ہوئے۔ جس راستے پر اترے وہ بھی عام راستہ نہیں ہے۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ رات کے ایک بجے ایک چودہ پندرہ سال کا بچہ سر پر تازہ بنے رولز کا تھال اٹھائے کھڑا ہے۔ بس سے اترتے زائرین کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔ میں سوچتا رہا ہے کہ یہ رات کے ایک بجے یہاں کیسے آیا؟ میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ اس بچے یا اس کی ماں نے سوچا ہوگا کہ جو زائرین دور مقامات کی زیارت پر گئے ہیں وہ رات بارہ بجے کے بعد ہی لوٹیں گے۔ اگر کھانا کھایا بھی ہوگا تو اس وقت تک کچھ نہ کچھ کھانے کی طلب پیدا ہوچکی ہوگی۔ اس لیے انہیں اس راستے پر بچے کو کھڑا کیا جہاں سے مسافر گزرتے ہیں۔ سبحان اللہ، یہ احساس انمول ہے اور دنیا میں اس کی کوئی قیمت نہیں۔
گرمی بہت زیادہ تھی اور ہمارے ساتھ چھوٹے بچے تھے اس لیے مشی کے دوران ہم صبح اور رات کو سفر اور دن کو آرام کرتے تھے۔ گرمی کو دیکھ کر میرا یہ خیال تھا کہ دن کے وقت مشی رک جاتی ہوگی اور لوگ جہاں ہیں وہیں آرام کرتے ہوں گے۔ ظہر کی نماز کے لیے وضو کرکے نکلا اور نظر مشی والے روڑ پر پڑی تو حیران رہ گیا۔ مشی ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکتی۔ لوگ اس کڑاکے دار دھوپ میں بھی مسلسل چل رہے تھے، میں کھڑا ہو کر انہیں دیکھنے لگ گیا۔ کیا چیز انہیں رکنے نہیں دیتی؟ وہ کون سا جذبہ ہے جو ماند نہیں پڑتا؟ یہ گرمی میں اے سی اور سردی میں ہیٹر پر بیٹھنے والی نسل اس آگ برساتے سورج میں زیر آسمان چل رہی ہے؟! اتنے میں جوانوں کا ایک گروہ میرے سامنے سے گزرنے لگا جنہوں نے یا لثارات الحسینؑ کے پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور وہ ننگے پاوں چل رہے تھے۔ ان کے چہروں کی سرخی اور ان کے لباس سے پتہ چل رہا تھا کسی ٹھنڈے علاقے اور متمول خاندان کے لوگ ہیں مگر یہاں سب کو بھلا کر عشق حسینؑ میں مجنون بن کر آگے بڑھے چلے جا رہے ہیں۔
خدام حسینؑ آپ کو بور نہیں ہونے دیتے، یہ آپ سے باتیں کرتے ہیں، یہ آپ کے سفر کی صعوبتیں سن کر روتے ہیں، جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ کس قدر ذلت اور غیر انسانی سلوک کو برداشت کرتے ہوئے آپ یہاں پہنچے ہیں تو ان کے دل تڑپ جاتے ہیں، یہ بڑھ کر آپ کا ماتھا چومتے ہیں یہ آپ کے پاوں دبا کر آپ کے شریک سفر ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے بزرگوں کی زبان سے نکلنے والی دعائیں انسان کے لیے سرمایہ حیات بن جاتی ہیں۔ آج کون کس کے غم میں روتا ہے؟ کئی بزرگ اس لیے رو پڑے کہ کوئٹہ، تفتان اور کئی جگہوں پر پردہ دار بہنوں، بیٹیوں کے ساتھ زیر آسمان سونا پڑا۔ یوں لگتا ہے ہر طرف حسینؑ کی حکومت ہے، ہر طرف شہداء کی تصاویر ہیں اور ہر طرف لبیک یاحسینؑ کے نعرے ہیں۔ ہماری ایک عزیزہ ہر سال زیارات پر جاتی ہیں، کئی لوگوں کی طرح میرا بھی یہ خیال تھا کہ وہ جب ایک بار جا چکی ہیں تو اب کسی اور کو اس سفر پر بھیج دیں یہ زیادہ بہتر ہے۔
وہ کہا کرتی ہیں کہ جس نے جام زیارت امام حسینؑ پی لیا ہے اس کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ آج ان کی بات حرف بحرف درست لگ رہی ہے، عشق حسینؑ کا دریا سینے میں موجزن پا رہا ہوں۔ یہ سفر عشق امام زمانہؑ کے ظہور کی تیاری کے لیے ایک تربیت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسے اس سفر میں انسان سب کچھ بھول کر ولی خدا کی زیارت کو مقصد قرار دے دیتا ہے۔ اسی طرح یہ سفر ہمیں اس وقت کے ولی خدا کی یاد دلاتا ہے۔ ہمیں ہر صورت میں اس کے ظہور کی تیاری کرنی ہے۔ خود کو آمادہ کرنا ہے، ان رکاوٹوں کو دور کرنا ہے جن کی وجہ سے ظہور امام ؑنہیں ہو رہا۔ یہ سب ارادہ خدا کا نفاذ اور وعدہ الہی کی تکمیل ہے۔ دل کر رہا ہے ابھی سے اڑ کر انہیں راستوں پر پیدل چلتے ہوئے عازم کربلا ہو جاوں اور بیس صفر کی شام کو وارد کربلا ہو جاوں۔
عشاق امام حسین (ع) کربلاء کی سمت رواں دواں
پیپسی کو مصر میں بائیکاٹ کی وجہ سے بڑا نقصان
ایکنا نیوز، عربی 21 نیوز کے مطابق، قاہرہ 24 کی ویب سائٹ نے مصری مارکیٹ میں متعدد فروخت کنندگان کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ پیپسی گروپ نے لپٹن آئس ٹی کی سپلائی روک دی ہے، جو مصر میں بہت مشہور تھی۔
فروخت کنندگان کا کہنا ہے کہ لپٹن آئس ٹی کا مشروب ہٹانا کئی مہینوں تک قابض ظالم رژیم کی حامی کمپنیوں کے بائیکاٹ کے بعد آیا، جن میں پیپسی اور لپٹن بھی شامل ہیں، جو بائیکاٹ کی فہرست میں سرفہرست ہیں۔
سافٹ ڈرنکس اور فوڈ پروڈکٹس فروخت کرنے والے آن لائن پلیٹ فارمز سے پتہ چلتا ہے کہ لپٹن آئس ٹی ڈرنکس کو کچھ عرصہ پہلے مکمل طور پر ہٹا دیا گیا تھا۔
مصری فروخت کنندگان کا کہنا ہے کہ لپٹن آئس ٹی ڈرنک گرمیوں میں بہت مقبول تھا اور گزشتہ برسوں میں صارفین نے اس کا بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا تھا. ویب سائٹ نے اسکندریہ چیمبر آف کامرس کے فوڈ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ حازم المنوفی کے حوالے سے بتایا کہ لپٹن آئس ٹی کو کچھ عرصے سے مارکیٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔
سافٹ ڈرنک کمپنیوں کے کچھ ذرائع پہلے ہی اطلاع دے چکے ہیں کہ بائیکاٹ کی مہموں نے ان کمپنیوں کی آمدنی کو کم کر دیا ہے اور پچھلے مہینوں میں ان کے منافع کو 70 فیصد سے بھی کم کر دیا ہے. مصری تاجروں کے اندازوں کے مطابق پیپسی کولا اور کوکا کولا کی فروخت گزشتہ سال قیمتوں میں اضافے کی لہر سے تقریباً 30 بلین پاؤنڈ سالانہ تھی۔
ان دونوں کمپنیوں نے پابندیوں اور مہنگائی سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لیے اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا اور گزشتہ 24 مہینوں میں قیمتوں میں یہ اضافہ 150 فیصد تک پہنچ گیا۔. لپٹن ٹی کمپنی کو بھی گزشتہ اکتوبر سے اپنی فروخت میں زبردست کمی کا سامنا کرنا پڑا اور مصر اور عرب ممالک میں غزہ اور فلسطین کی حمایت میں بائیکاٹ مہم کی وجہ سے کمپنی کو کافی نقصان اٹھانا پڑا.
غزہ پر حملے کے بعد، صیہونیت کی حامی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی کالیں مصر اور دنیا کے سوشل نیٹ ورکس پر وسیع پیمانے پر پھیل گئیں، اور کچھ پلیٹ فارمز نے قبضے کی حامی کمپنیوں جیسے KFC، Starbucks اور McDonald's کے نام درج کیے، کچھ نے ہر قسم کی چاکلیٹ پیش کیں۔ اور ہر قسم کے مشہور سافٹ ڈرنکس اور مقامی اور قومی مصنوعات کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔
اربعین واک، اہل سنت برادری کی شرکت امام حسین علیہ السلام سے اظہار عقیدت
مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ اربعین حسینی کے موقع پر کربلا کی پیدل زیارت کی تاریخ صدیوں پرانی ہے تاہم گزشتہ بارہ سالوں سے اس میں نئی روح آگئی ہے۔ اربعین واک فطری طور پر ایک سیاسی تحریک ہے جو اسلام کے مفاد میں تشکیل پائی ہے۔ اس کی بنیاد عاشورا اور کربلا کی تعلیمات پر استوار ہے۔ اس سفر کے دوران اسلامی اور حسینی روایات کا جلوہ نظر آتا ہے۔ آج سیاسی، ثقافتی اور سماجی میدانوں میں اربعین کی مختلف جہتیں عالمی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ اسلام اور تشیع مخالف میڈیا پوری کوشش کے باوجود اربعین مارچ کی عظمت کو کم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا ہے۔
اربعین کے موقع پر عالم اسلام کے اتحاد کا شاندار مظاہرہ ہوتا ہے۔ فلسطین پر قبضے کے خواہشمند صہیونی عالم اسلام کے اس اتحاد سے خوفزدہ ہیں۔ یہی اتحاد فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی میں بہترین کردار ادا کرسکتا ہے۔
ہر سال اربعین امت مسلمہ کے اتحاد کا وسیلہ بنتا جارہا ہے۔ اہل تشیع کے ساتھ اہل سنت بھی اربعین مارچ میں شرکت کررہے ہیں۔ مارچ میں شرکت کرنے والے اہل سنت برادری سے تعلق رکھنے والے محمود رفیعی نے مہر نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اربعین شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد کا باعث بن رہا ہے۔ اسی سے عالمی استکبار کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ اربعین کے موقع پر مکتب عاشورا کی تفسیر ہوتی ہے۔ اہل سنت برادری میں اربعین مارچ میں شرکت کا رواج بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اہل سنت امام عالی مقام کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے مارچ میں شرکت کرتے ہیں۔ اس سال عالمی اور علاقائی حالات کی وجہ سے اس مارچ کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
رفیعی نے مزید کہا کہ دشمن اربعین کے خلاف زور و شور سے پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ جس چیز سے دشمن کو ٹھیس پہنچتی ہے اسی کے خلاف پروپیگنڈا اور سازشیں کی جاتی ہیں۔ گرمی، وائرس اور داعش کے خطرات وہ سازشیں ہیں جو دشمن مسلمانوں کو اربعین سے دور رکھنے کے لئے کررہے ہیں۔ ہمیں ان خطرات سے کوئی ڈر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی اداروں کو اربعین کی ترویج اور ترقی کے لئے پوری کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اربعین دشمن کے مقابلے میں اہم ہتھیار ثابت ہوسکتا ہے۔
ہیروشیما سے غزہ تک؛ بے شرمانہ جواز
سنہ 1945 کے موسم گرما میں جب دوسری عالمی جنگ نازی جرمنی کی شکست کے بعد مغربی محاذ پر ختم ہو چکی تھی، متفقین کا آخری مورچہ یعنی جاپانی سلطنت کے پاس بھی، جو اپنی زیادہ تر فوجی اور دفاعی توانائي کھو چکی تھی، عملی طور پر شکست کو تسلیم کرنے اور متحدہ طاقتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے علاوہ کوئي چارہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود امریکی حکومت نے جنگ کے فوری خاتمے اور امن کے قیام کے بہانے ایک جنون آمیز کارروائي کرتے ہوئے صرف تین دن کے فاصلے سے 6 اور 9 اگست کو جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر ان شہروں کے دو لاکھ بیس ہزار سے زیادہ بے قصور لوگوں کا قتل عام کر دیا۔ یہ بات پوری طرح واضح تھی کہ اس غیر انسانی اور مجرمانہ کارروائي سے امریکا کا واحد ہدف خوفناک ایٹمی ہتھیار کے سائے میں دنیا بالخصوص اپنے دیرینہ حریف سوویت یونین کے سامنے اپنی ایسی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا جس کا کوئي جواب نہ ہو۔
البتہ طاقت کا یہ مظاہرہ، اخلاقی و انسانی دعووں کی آڑ میں کیا گيا۔ اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے حکم دیا تھا کہ جیسے ہی ملک کی فوجی تجربہ گاہوں میں ایٹم بم تیار ہو، اسے فوراً استعمال کیا جائے۔ وہ اپنے اس کام کا جواز پیش کرنے یعنی ایٹمی بمباری کا حکم دینے کے مسئلے میں اس حد تک آگے بڑھ گئے تھے کہ انہوں نے کہا تھا: "دنیا یاد رکھے گي کہ دنیا کا پہلا ایٹم بم، ہیروشیما پر بمباری کے لیے استعمال کیا گيا کہ جو ایک فوجی اڈا تھا۔" ٹرومین نے کہا تھا: "یہ کام اس لیے کیا گيا کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ پہلے حملے میں کم سے کم عام شہری مارے جائيں۔" بعد میں ٹرومین کے اس دعوے کی امریکا کے بہت سے مصنفین اور فوجیوں نے دھجیاں اڑا دیں اور خود امریکا کے بہت سے باخبر لوگوں نے اس جھوٹ کی قلعی کھول دی۔ مثال کے طور پر ایک مصنف مارک ویبر نے، جن کا مقالہ "ہیروشیما اور ناگاساکی کی ایٹمی بمباری"(1) نامی کتاب میں شائع ہوا، ٹرومین کی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "یہ بالکل بکواس بات تھی۔ در حقیقت اس بمباری میں مارے جانے والے سبھی عام شہری تھے اور امریکا کی اسٹریٹیجک بمباری کے جائزے نے جو سنہ 1946 میں شائع ہوا، سرکاری رپورٹ میں لکھا کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کو زیادہ گنجان آبادی کی وجہ سے ٹارگٹ کے طور پر منتخب کیا گيا تھا۔ اگر ایٹمی بمباری اس لیے کی گئي کہ وہ جاپان کے لیڈران کو نئے ہتھیار کی ہولناک اور تباہ کن طاقت سے متاثر کر دے تو یہ کام ایک دور افتادہ فوجی چھاؤنی پر بمباری کر کے بھی کیا جا سکتا تھا۔ ایک بڑے شہر کو تباہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر کسی طرح ہیروشیما کے دھماکے کا جواز فراہم کر بھی دیا جائے تو ناگاساکی کی بمباری کا بچاؤ بالکل نہیں کیا جا سکتا۔" اسی طرح امریکی فوج کے ایک کمانڈر ڈگلس میک آرتھر نے مرنے سے پہلے ایسے بے شمار دلائل پیش کیے جو ثابت کرتے تھے کہ جاپان پر ایٹمی بمباری بالکل غیر ضروری تھی۔ انھوں نے کہا: "میرے افراد ایک زبان ہو کر کہہ رہے تھے کہ جاپان بکھر رہا ہے اور ہتھیار ڈال رہا ہے۔"جرمنی اور جاپان پر بمباری کرنے والی فورسز کے کمانڈر جنرل کرٹس لیمے نے بھی، جو بعد میں فضائیہ کے چیف آف اسٹاف بھی بنے، اختصار کے ساتھ لکھا: "ایٹمی بمباری نے جنگ کے خاتمے میں کوئي مدد نہیں کی۔"
البتہ انسانی و اخلاقی حقوق کے نام پر انسانیت کے خلاف جرائم کی امریکا کی سیاہ فائل، جاپان پر ایٹمی بمباری کر کے ہی بند نہیں ہوئی۔ پچھلے 80 برس میں انسانی حقوق کے دفاع کے نام پر امن کے بہانے جنگ اور انسانوں کے خلاف جرم، اس سفاک حکومت کی خارجہ پالیسی کا اٹوٹ حصہ رہا ہے۔ فوجی مداخلت اور دنیا کے مختلف علاقوں میں دسیوں چھوٹی بڑی لڑائياں شروع کروانا، آزادی کے دفاع اور کمیونزم کے نفوذ سے مقابلے کے نعرے کے ساتھ جزیرہ نمائے کوریا اور ویتنام میں دسیوں لاکھ لوگوں کا قتل عام، افغانستان، لیبیا اور عراق میں دہشت گردی، آمرانہ نظام اور عام تباہی کے ہتھیاروں سے مقابلے اور جمہوریت کے قیام کے بہانے حملہ، امن اور انسانی حقوق کے دفاع کی آڑ میں عالمی سامراج کے جرائم کی فہرست کے صرف کچھ حصے ہیں۔
اسی سلسلے کی اگلی کڑی امریکا کی جانب سے اس چیز کا بے شرمی سے جواز پیش کرنا ہے جو آج غزہ میں ہو رہا ہے۔ اسرائيل کی طفل کش حکومت کی آنکھ بند کر کے بے چون و چرا پشتپناہی، اس حکومت کے لیے روزانہ تباہ کن ہتھیاروں اور بھاری بموں کی ترسیل، جن کا استعمال، رہائشی علاقوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرنا، فلسطینی بچوں اور عورتوں کے قتل عام کی، اپنے دفاع کے صیہونیوں کے نام نہاد حق کے سائے میں حمایت فلسطین کی مظلوم قوم کے قتل عام میں امریکا کی براہ راست شمولیت کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ تاریخ کا تلخ ترین طنز یہ ہے کہ غزہ کے قریب 40 ہزار لوگوں کے قتل عام، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں، اس علاقے کے زیادہ تر حصوں کی تباہی اور غزہ کے بیس لاکھ نہتے لوگوں کو بے گھر بنانے اور بھوک اور پیاس سے ان کے تدریجی قتل عام کے بعد بھی بڑی ڈھٹائي اور بے شرمی سے اس بات پر بضد ہیں کہ صیہونی حکومت نے انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے سلسلے میں امریکا کی ریڈ لائن کو کراس نہیں کیا ہے! اسرائيلی حکومت، عام شہریوں کی جان کی حفاظت کی پابند ہے! غزہ میں مارے جانے والے زیادہ تر حماس کے جنگجو ہیں! اور اسی طرح کے گھناؤنے اور نفرت انگیز جھوٹ جو صیہونی حکومت کے جرائم کا جواز پیش کرنے کے لیے مغربی میڈیا میں مسلسل دوہرائے جاتے ہیں۔ آج فلسطین کی مظلوم قوم کے خون میں امریکا کے ہاتھ، اگر غاصب اسرائيل سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس کے جتنے تو ڈوبے ہوئے ہی ہیں۔
اس طرح کے جرائم کے مقابلے میں امریکا اور عالمی اداروں کے رویے اور نعروں میں یہ دوغلاپن، بہت پہلے ہی دنیا بھر کی اقوام خاص طور پر مسلم اقوام کے لیے واضح ہو چکا ہے اور اس نے ان کے سامنے ایک روشن راستہ کھول دیا ہے۔ یہ راستہ مسلمانوں کو عملی میدان میں سیاسی و معاشی مقابلے اور فکری میدان میں میڈیا اور ذہنی پہلو سے مقابلے کی دعوت دیتا ہے۔ امریکا اور اس کے حواریوں کی غلط بیانیوں سے بیزاری کا اعلان اور ان کے جھوٹے بیانوں کو الگ تھلگ کر دینا، وہ راستہ تھا جو رہبر انقلاب اسلامی نے امت مسلمہ کے سامنے کھولا ہے:
"ایک فریضہ پایا جاتا ہے، ان لوگوں کی مخالفت کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا جو اس ظلم، اس سنگین تاریخی ستم، اس نسل کشی، انسان کشی اور جرائم کے ارتکاب میں اس بے شرمی و بے حیائی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ واقعی انسان ان کی اس بے حیائی پر حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ یہ معصوم شہریوں کے قتل عام کا جواز، دلیل اور منطق پیش کرتے ہیں، یہ اتنے بے شرم ہیں! معصوم بچوں کے قتل، معصوم و مظلوم نونہالوں کے قتل کا جواز پیش کرتے ہیں، اس قدر بے شرم ہیں یہ لوگ! جو لوگ یہ جرائم انجام دے رہے ہیں، یہ تو گنہگار ہیں ہی، یہ جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں لیکن صرف یہی لوگ نہیں ہیں۔ آج جو بھی صیہونیوں کی حمایت کر رہا ہے، چاہے وہ امریکا اور برطانیہ وغیرہ جیسے سامراجی ممالک کے حکام ہوں یا اقوام متحدہ وغیرہ جیسے عالمی ادارے جو کسی نہ کسی طرح، چاہے خاموشی اختیار کر کے یا اپنے غیر منصفانہ بیانوں اور تبصروں کے ذریعے اُن کی حمایت کر رہے ہیں، وہ بھی اس مسئلے میں شریک جرم ہے۔ تمام عالم اسلام، سبھی مسلم حکومتوں اور ساری مسلم اقوام کا فرض ہے کہ ان کی مخالفت کریں، ان کامقابلہ کریں، ان سے اپنی بیزاری کا اعلان کریں، ان سے اعلان نفرت کریں، اس موقف پر ان کی سرزنش کریں، یہ عمومی فریضہ ہے۔ انھیں الگ تھلگ کر دیں، اگر ممکن ہو تو اقتصادی روش استعمال کریں، سیاسی سطح پر کارروائی کریں، یہ امت مسلمہ کا فرض ہے۔" (2014/07/28)
امریکا کی پوری تاریخ انسان پر ظلم اور ان کے خلاف جرائم سے بھری ہوئي ہے۔ اس سرزمین کے مقامی افراد اور اصل مالکوں کے قتل عام سے لے کر، جو یورپی مہاجروں کے لالچ کی بھینٹ چڑھے، سیاہ فاموں کو غلام بنانے اور ان کے قتل عام تک، خودمختار ملکوں پر براہ راست لشکر کشی سے لے کر قومی اور قانونی حکومتوں کی سرنگونی کے لیے بغاوت کی سازش تیار کرنے تک، اپنی پٹھو آمر حکومت کو حمایت اور عوامی تحریکوں کی سرکوبی سے لے کر فلسطینی عوام کی سرزمین پر غاصبانہ قبضے اور فلسطینیوں کے قتل عام کی اسرائیل کی سرکاری دہشت گردی کی پشتپناہی تک اور ایک جملے میں ہیروشیما سے لے کر غزہ تک سارے کے سارے جرائم کا امن، انسان دوستی، انسانی حقوق اور جمہوریت جیسے خوبصورت الفاظ کے ذریعے سامراج کی پٹھو تشہیراتی مشینری اور میڈیا کے توسط سے بے شرمی کی انتہا تک جواز پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اب وقت آ گيا ہے کہ مسلمان عوام اور دنیا بھر کے لوگ، امریکا جیسے ملکوں کے نعروں کا نہیں بلکہ ان کے رویے کا تجزیہ کر کے ان کے بارے میں فیصلہ کریں اور ان کے ساتھ اپنے تعاون پر نظر ثانی ڈالیں۔
تحریر: محسن باقری پور
غلامی کا نظام قوموں کیلئے بدترین نجاست ہے، علامہ جواد نقوی
اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفی کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی کا کارکنان سے خطاب میں کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت دہشت گردی، فرقہ واریت، مایوسی اور شہوت اقتدار جیسی خطرناک آفات کی زد میں ہے اور ملک مکمل طور پر بیرونی غلامی کے شکنجے میں ہے۔ انہوں نے ملکی حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہر شخص ملک سے بھاگنے کی سوچ رہا ہے۔ قوم اپنی زبان، ثقافت اور قومی اقدار سے دور ہو چکی ہے، جبکہ عیاش طبقہ امیر سے امیر تر اور غریب مزید غریب ہو رہا ہے۔ پاکستان اقلیتوں کے لحاظ سے بھی غیر محفوظ ہے، جنہیں مذہبی شدت پسند گروہوں کا سامنا ہے۔ علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ اس صورتحال کی وجہ نااہل حکمران، بے شعوری، آزادی کی قدر نہ کرنا اور قوم میں ذلت کا احساس ہے، جو ہماری سیاسی و مذہبی قیادت میں نمایاں نظر آتی ہے۔
انہوں نے کہا پاکستانیوں کو اپنی حالت کے بدلنے کا کوئی خیال نہیں وہ اس خوشگمانی میں ہیں کہ غزہ کے معاملے پر بے رحم حکمران قوم پر رحم کھائیں گے۔ وہ جنہیں غزہ کے بچوں کی کٹی لاشیں متاثر نہیں کرسکیں، آپکی مشکلات انہیں ہرگز متاثر نہیں کر سکتیں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر آزاد ہوا لیکن افسوس کہ ہم نہ اسلام کا نظام لا سکے اور نہ ہی مغربی نظام کی غلامی سے آزاد ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی قوم کیلئے جو قرآن اور اہلبیت (ع) جیسا خزانہ رکھتی ہو، مغربی نظام کی غلامی اور پیروی باعثِ ننگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت قوم ہمیں اپنی منتخب کردہ راہوں اور منتخب کردہ نظاموں پر نظرِثانی کرنا ہوگی اور آزاد قوم کی حیثیت سے وہ راہیں چننا ہونگی، جو ہمیں عزت اور شرف سے ہمکنار کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ غلامی کا نظام قوموں کیلئے بدترین نجاست ہے۔ غلامی کا تعلیمی نظام، اسکا کلچر، اسکی تہذیب، اسکی فرہنگ، اسکی زبان، اس کا قانون جس کو ہم فخریہ طور پر اپنائے بیٹھے ہیں ہماری سب سے بڑی نادانی ہے۔
صیہونی حکومت فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہی ہے، علی باقری
علی باقری کنی نے ہفتہ کی شب ایکس پر لکھا: مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر حکمرانی کرنے والے مجرم گروہ کا تازہ ترین جرم ایک اسکول پر حملہ کرنا جسے ایک پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور 100 سے زیادہ بچوں اور معصوم لوگوں کو صبح کے وقت قتل کرنا ہے جس کے بعد اب اس بات میں کوئی شک نہيں رہ جاتا کہ صیہونی حکومت فلسطینیوں کی نسل کشی کا ارادہ رکھتی ہے۔
انہوں نے مزید لکھا: صیہونی مافیا نام کی مکمل خباثت کے معاملے میں عالمی برادری کی جانب سے برتی جانے والی لاپروائی، خباثت کی توسیع اور ان تمام اقدار کی تباہی کا خیر مقدم کرنا ہے جسے ہم انسانی تمدن کے نام سے جانتے ہيں۔
باقری کنی نے مزید لکھا: تمام حکومتوں خصوصاً اسلامی حکومتوں کی مشترکہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور قتل عام کو روکیں۔
قائم مقام وزیر خارجہ نے مزید لکھا: بلاشبہ وہ حکومتیں، خاص طور پر امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا، کہ جو غاصب کی ہر طرح سے مالی، اسلحہ جاتی اور سیاسی مدد کرکے اس کے قتل کی مشین کو چلانے والے کا کردار ادا کر رہے ہيں اور بڑی بے شرمی کے ساتھ اسے سزا نہ دیئے جانے کی یقین دہانی کرا رہے ہيں، فلسطینیوں اور علاقائی عوام کے خلاف کئے جانے والے تمام جرائم میں شریک ہیں۔ علاقے اور دنیا کے عوام کبھی بھی صیہونی مافیائی گروہ کے جراغئم کو بھولیں گے نہيں۔