
سلیمانی
فرق اسلامی کے مشترکه اصول اوراتحاد ووحدت میں اس کاکردار
دین اسلام کاایک نهایت هی اهم مقصد،مسلمانو ں کے درمیان اتحادویکجهتی قائم کرنا ہے. قرآن وسنت کے رو سے جیسااتحادووحدت قائم کرناواجب ہے،ویساهی اختلاف وتفرقه سے بچناضروری امر ہے.ائمه اطهار(علیهم السلام)اورمعتبراسلامی شخصیات کی زندگی بھی،امت مسلمه کو اختلافات سے بچاکر،اتحادووحدت برقرارکرنے میں بسرهوئی .همارے پاس،کم ازکم تین ایسے بنیادی اصول ہیں جومسلم امه کے درمیان نظریاتی اورفکری هم آهنگی ایجادکرسکتے ہیں،یوں یه تینوں اصول ،امت مسلمه کے درمیان ایک اهم اوربنیادی کرداراداکرسکتے ہیں.یه تینوں اصول ،پور ے معاشر ے کومادی،معنوی،فکری اورعلمی حوالے سے ارتقاءکی طرف لے جاسکتے ہیں.یوں اسلامی مختلف فرقوں کواس مقدس قرآنی اوراسلامی اهداف کے قریب کرسکتے ہیں که جن کے حصول کے بغیرمعاشر ه ترقی نهںی کرسکتا.یه اصول مندرجه ذیل ہیں:توحید،نبوت اورمعاد.
واژه های کلیدی (بنیادی الفاظ): مشترکه اصول ، توحید، نبوت، معاد،وحدت.
وحدت کیوں اورکس لئے ؟
قرآن کریم همیشه مسلمانوں کووحدت کی طرف بلاتانظرآتا ہے.قرآن کی نگاه میں وحدت کے بغیر،معاشرتی ترقی کاکوئی تصور نهیں ملتا.انسانی تکامل اورترقی کادارومداراسی پر ہے.اتحادوهم آهنگی هی کے سایے میں بشردین ودنیاکی سعادتیں حاصل کرسکتا ہے.قرآن پورے انسانوں میں،مومنین سے مخاطب هوکرا سے دستوردے رهاہے که معاشره میں اتحادقائم کریں«يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ وَ لا تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ، وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَ لا تَفَرَّقُوا»( آل عمران: 10۲ـ103)
اس آیه مبارکه میں قابل توجه نکته یه ہے که الله تعالی نے،بیک وقت چارچیزو ں کا حکم دیا ہے.تقوی الهی اختیارکرنا،حالت مسلمانی اورتسلیم میں زندگی گذارنا،حبل الله سے تمسک اورتفرقه سےبچنا. ایک معاشرے میں زندگی بسرکر نے کےلئے ،یه چارسنهرےاصول هیں.سیاق درونی اوربیرونی آیه سے پته چلتاہے اتحادواجب اورتفرقه حرام ہیں.امت مسلمه کےهرفردپرواجب ہےکه وه متحدرهنے ساتھ ساتھ همه گیراتحاد کےلئے عملی قدم اٹابئے.جس طرح«اعْتَصِمُوا»فعل امرہے اوروجوب پردلالت کرتاہے اسی طرح«لا تَفَرَّقُوا»فعل نهی ہےجوحرمت پردلالت کرتاہےیعنی جس طرح وحدت ایجادکرناواجب ہےاسی طرح تفرقه کرناحرام ہے.
قرآن کریم مسلمانوں کودوسری طرف سے ایک اهم ترین عنوان دیتانظرآ رهاہے اوروه عنوان،« امت » کاعنوان ہے. «كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر».(آل عمران:110). اس آیت میں ،مسلم امه کوبهترین امت کهاگیاہے که اس امت کی خلقت کامقصدهی رهبری اورهدایت ہے. اس امت کی تخلیقی هدف اورغایت هی انسانیت کی هدایت ہے.ظاهری بات ہےجوخودهدایت یافته نه هو،وه کسی دوسرے کی هدایت کیسے کرے؟سب سے پهلے یه خودامت بنے،امت بدون وحدت کیسے بن سکتی ہے ؟ اس وقت مسلمان کثیرتعداد میں هونے کے باوجودتمام بین الاقوامی پلٹ فارم په منفعل نظرآتا ہے ،جس کی بنیادی وجه یهی ہے که هم امت نهیں بنے.هم نےقرآنی دستورات په عمل نه کیا.قران نے جن چیزو ں کاحکم دیا تا ،مسلمانوں نے انهیں فراموش کیئے .قرآن چوده سوسال سے جس خطرکی طرف مسلمانوں کی توجه دلارها ہے، وه خطر،اختلاف کاخطرہے : « ُ وَ لا تَنازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُم»(انفال:46) اگراختلاف کروگے توتمهاری شان وشوکت خاک میں مل جایے گی ،تمهاری عزت ختم هوگی،ذلت ورسوائی تمهاری مقدربن جائے گی.قران معاشرے میں، اسلامی بھائی چارے کی فضادیکناکچاهتاہےلهذاایک قانون اخوت قائم کرتاہے،اوراعلان کرتاہے:« إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ»(حجرات:10).
میرےخیال میں، مسلمانوں کےلئے یه ایک عمومی میثاق کی حثیت رکھتاہے که اگراس میثاق په عمل هوجائے تومسلم امه بدلنے میں دیرنه لگےگی.مسلمان ،صدراسلام کی وهی عزت واقتدارحاصل کرسکتا ہے. قران معاشره میں انسانی ،اسلامی فضاقائم کرنے کی غرض سے ایک اوراصل وقانون کانه تنهااعلان کرتا ہے،بلکه عملی طورپراس کانفاذ بھی چاهتا ہے.اور وه اصل، « قانون تعاون» ہے،تقوی اورنیکی کی بنیادپر« تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوى »(مائده:2).
یه قانون معاشره میں،عدل وانصاف اورباهمی تعاون کوتقوی اورنیکی کی بناپر،پورےمعاشرے میں فروغ دیناچاهتا ہے ،جس کی وجه سےمعاشره،رشدوکمال کی طرف گمزن هوگا.معاشره میں انسانی اورالهی اقداربلندهوگا.قرآن معاشره کوفساد،فتنه،اوردوسرے اخلاقی اوراجتماعی برائیوں سے بچانے کی خاطرایک اوراصل وقانون کااعلان کرتا ہےاوروه اصل،« قانون عدم تعاون » ہے، گناه وسرکشی کی بنیادپر. «وَ لا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَ الْعُدْوان»(مائده:2).جب پورامعاشره،گناه اورتجاوزکی حوصله شکنی کرے گاتویقیناوه معاشره،ترقی کرےگااوریه قرآن کی نظر میں،ایک مطلوب معاشره هوگا.البته ایسے معاشرےمیں،رهبرکاکرداربهت اهم هوگا.کیونکه ایک حقیقی الهی رهبرهی لوگوں کےدرمیان اتحاد ووحدت کی کوشش کریں گے.
معاشرےمیں ،وحدت قائم کرنےسےمتعلق ،انبیاءکرام (علیهم السلام)،خاص کرهمارے نبی حضرت محمدمصطفی(صلی الله علیه وآله وسلم)کاکرداربےمثال ہے.مخصوصامدنی زندگی میں هر طرف اتحادو بارئی چارے کی فضانظرآنےلگی،جس کےنتیجے میں مختلف جھنگوں میں فتوحات کےعلاوه ،اسلام دوسرے علاقوں میں پهنچ گیا. اسلام معاشرتی اور اجتماعی مسائل کوبهت زیاده ترجیح دیتا ہے اسلام مسلمانوں کوگوشه نشینی اوررهبانیت کی اجازت نںیع دیتا . اسلام کانظام اجتماع ایک دوسرے سے مربوط رهنےکی تلقین کرتانظرآتا هے. ایک دوسرے کاخیال رکنان،دکھ دردبانٹنایهی نظام اجتماعی کابنیادی فلسفه هے که جس کاخیال کئےبغیر،شخص مسلمان بیب، نںین بنتا.جس نظام حیات اورآئین الهی کو،اجتماعی روابط کااتناخیال هو،وه بھلا،اختلاف وتفرقه اورآپس کی نفرتو ں کی اجازت کیسے دے سکتا هے؟.
اسلام معاشرے میں اتحاداورامن چاهتا ہے یهی وجه ہے که بهت ساری اسلامی روایتیں اتحادکےموضوع سےمتعلق هیں.ایک حدیث میں مرسل اعظم(صلی الله علیه وآله وسلم)فرماتے هیں:«يدالله مع الجماعة »(ابن حبان،1414:10،438).خداکےهاتھ همیشه جماعت کےساتھ هیں.یعنی خداکی نصرت همیشه اهل جماعت کےشامل ہے.اصلی هدف تک پهنچنے کےلئے جمع هونا،خیر ہے اورتفرقه ، عذاب اورغضب الهی کا موجب بنتاہے « في الجماعة خير و في الفرقة عذاب»(هندی،1409: 3،266). اسلام اتحادکومعاشره کاایک نهایت هی اهم رکن سمجتا ہےلهذاایک روایت میں آیا ہے:« لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاثة ليال، يلتقيان فيعرض هذا و خيرهما الذي يبدء بالسلام»( دروزه، 1383: 8، 510).
اس روایت کے مطابق دومسلمانوں کے درمیان تین دن سےزیادقطع تعلق جائزنهیں ہے.ایک اورحدیث میں جوشخص مسلمانوں کےامورکواهمیت نهیں دیتا،اسے مسلمان هی نهیں سمادقط ہے«من اصبح و لم يهتم بامور المسلمين فليس بمسلم »( بروجردی،1410: 16،172). اس حدیث میں ایک مسلمان کے کردارپه بحث هوئی ہے که یه کردارمعاشرے میں کتناوزن رکھتاہے ممکن ہے کسی شخص کی تقدیراسی ایک کردارسے بدل جائے.جوشخص معاشرے میں کسی دوسرےکواهمیت نهیں دیتا،کسی کےغم اورخوشی میں شرکت نهیں کرتا،دوسروں سے بے خبررهتا ہے تواس حدیث کےرو سےوه مسلمان نهیں.اس سے پته چلتا ہے که اسلام باهمی تعلقات کوکتنی اهمیت دیتا ہے.
یه ایک زنده دین ہے جوانسانوں کوزندگی سکاختا ہے.اسلام کی نگاه میں ،پورامومن معاشره،ایک هی بدن کی طرح ہے که جس کا هرایک عضو،دوسرے عضوکامحتاج ہے ایک عضواگرتکلیف میں هوتودوسرے کوقرار نهیں.نبی مکرم(صلی الله علیه وآله وسلم)ایک حدیث میں اسی حقیقت کی طرف اشاره کرتے هوئے فرماتے میں هیں: «مثل المؤمن في توادّهم و تراحمهم كمثل الجسد اذا اشتكي بعضه تداعي سائره بالسّهر و الحمي»( مجلسی ،1403: 58،150) اسی مضمون کےقریب،طبری،1415: 1،556). ومن،محبت ورحمت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے، ایک بدن کی مانند هیں که اگرایک عضودرد میں مبتلاهوجائے،توپورابدن رات بر،بےقرار،درد میں مبتلارهتا ہے.اسی حدیث کالب لباب ،ایک ایرانی شاعرجناب سعدی شعرکی صورت میں یوں بیان کرتے هیں:
بنـي آدم اعضـاي يـك پيكرند
چو عضوي به درد آورد روزگار
كه در آفرينش ز يك گوهرند
دگــر عضـوها را نماند قـرار
اسلام معاشرتی اصلاح کوبهت زیاداهمیت دیتا ہے اوراسے اعلی ترین عبادی درجه دیتا ہے : «الا اخبركم بافضل من درجة الصلاة و الصيام و الصدقة؟ قالوا بلي قال اصلاح ذات البين.»(احمدبن حنبل،بی تا،6،444). ائمه اطهار(علیهم السلام)کی زندگی اتحاد کےحوالےسے ایک بهترین نمونه ہے. ائمه اطهار(علیهم السلام) سے مروی روایتوں میں اتحادپه بهت زیادزوردیاگیا ہےاورتفرقه سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے.امیرالمئومنین (علیه السلام)ایک خطبے میں،اتحاد سے متعلق فرماتے هیں:«و الزموا السواد الاعظم فان يدالله مع الجماعة و اياكم و الفرقة! فان الشاذ من الناس للشيطان كما ان الشاذ من الغنم للذئب. ألا من دعا الي هذا الشعار فاقتلوه، و لو كان تحت عما متي هذه«دشتی،خ127،66).
اس حدیث میں اتحادکی طرف دعوت دی ہے خداکاسهاراجماعت کے ساتھ ہے.فرقه پرستی کی مذمت هوئی ہے اوراس بات پرزوردیاگیا ہےکه جوشخص دوسروں کوتفرقه کی دعوت دے اسے مارواگرچه وه میرے عمامے کےنیچےهی کیوں نه هو.اسکامطلب هی نکلتاہے که اختلاف کی صورت جائزنهیں.
اهل بیت(علیهم السلام) کےلئے سب سے زیاده اهم مسئله ،دین کی حفاظت کا مئله تا ورنه ظاهری اقتدارکی توکوئی حثیت هی نهیں.حضرت علی(علیه السلام)قبول بیعت سےمتعلق فرماتے هیں: «لولا حضور الحاضر، و قيام الحجة بوجود الناصر، و ما اخذ الله علي العلماء ألا يقاروا علي كظّة ظالم، و لا سغب مظلوم، لألقيت حبلها علي غاربها و لسقيت آخرها بكأس اولها و لألفيتم؟ دنياكم هذه أزهد عندي من عفطة عنز»( وهی ،خ7،3). امیرالمئومنین (علیه السلام)پوری حیات طیبه اسلام هی کی سربلندی کےلئے وقف رهی . استادشهیدآیه الله مرتضی مطهری (رح)ایک معروف داستان،اهل سنت دانشورجناب ابن ابی الحدیدمعتزلی کے حوالے سےنقل کرتےهیں:« ایک دن حضرت فاطمه(سلام الله علیها)نےحضرت علی(علیه السلام)کوخلفاء کےخلاف قیام کی دعوت دی ،اسی اثناء،مئوذن کی اذان کی آوازبلندهوئی«اشهد ان محمداً رسولالله»، امیرالمئومنین (علیه السلام)،حضرت فاطمه(سلام الله علیها) سےمخاطب هوکر فرماتے هیں : کیا آپ چاهتی ہے که یه آوازبندهو؟فرمایا: نهیں . حضرت علی(علیه السلام) فرماتے هیں:یهی میری بات ہے »( مطهری ،1354،184».
یعنی اگرآج علی (علیه السلام)خاموش هیں تواس کی تنهادلیل دین کی حفاظت کی ہے تلوارچلاکردین نه بچاسکے تواس سےزیاده علی (علیه السلام)کے لئےکوئی نقصان نهیں اوراگرتلوارچلائےبغیر، دین بچ سکتا ہے توعلی (علیه السلام) یهی کام انجام دیں گے. علی(علیه السلام) کے لئےبقای دین سے زیاده کوئی چیزاهم نهیں.کتاب «حلیف مخزوم» کےمئولف ،ابوبکرکےابتدائی خلافت کے دورکاذکرکرتےهوئےلکےئ هیں: بهت سارے لوگ ،دوردرازاورنزدیک علاقوں سے اس(علی) کےپاس آتے اورآپ سے حکومت وقت کےخلاف جنگ کی اجازت طلب کرتے،لیکن آپ ان کوخاموش کرتےاورفرماتے: «حسبنا سلامة الدين»(صدرالدین،1345: 1،161). همارےلئے یهی کافی ہے که دین سالم ہےهردور میں علماءکاکردار بھی وحدت قائم کرنے میں قابل ستائش رهی. علماء کابهت مثبت کردار ہے.اس دور میں نے ،سب سےزیاده جس شخص نے وحدت کانعره لگایااوراس نعرےکوعملی جامه پهنایا،وه شخص امام خمینی(رح)هی کی ذات ہے.آپ نےمسلمانوں کوایک حقیقی اتحادکاتصوردیااوراسی طرح اسلامی حکومت ایران کے تمام ترمادی اورمعنوی وسائل کواسی اتحادکی راه میں قربان کردئے.وحدت کےبارے میں آپ کے بےشمارتقریریں اورمکتوبات موجود هیں.
ایک مقام پرآپ فرماتے هیں:«هم اسلام اوراسلامی ملکوں کی حفاظت اوراستقلال کے واسطے،هرحال میں (ان سے)دفاع کےلئےتیار هیں.همارامنشور،وهی اسلام کامنشور ہےهمارامنشوراتحادکلمه اوراسلامی ممالک کےدرمیان اتحادقائم کرناہے.تمام مسلمان مکاتب فکر کےبرادری چاهتے هیں. هم اسرائیل کےمقابل ، دنیاکےگوشه گوشه، میں رهنے والے مسلمان حکومتوں کے ساتھ اظهاریکجهتی چاهتے هیں.هم استعماری حکومتوں کےمقابل متحدهونا چاهتے هیں»( خمینی ،1378: 158).
آپ کےجانشین حضرت آیه الله خامنه ای(مدظله العالی)وحدت مسلمین سے متعلق فرماتے هیں:« هم وحدت کےبارے میں پرعزم هیں.هم نے مسلمانوں کےدرمیان اتحاد کامعنی اورمفهوم بیان کئے هیں. مسلمانوں کےدرمیان اتحاد کامعنی یه نهیں ہے که مسلمان اورمختلف مکاتب فکراپنے مخصوص کلامی اورفقهی عقیدےسے منصرف هو،اتحادکادواورمعانی هیں که جسےپوراهوناچاهیے.پهلایه که مختلف مکاتب فکر،حقیقی دشمنو ں کےمدمقابل ایک همدلی،همفکری اورباهمی تعاون کےذریعے ایک دوسرےکاساتھ دیں.دوسرایه که مختلف مکاتب فکرکی یه کوشش هوکه ایک دوسرےکےقریب جائے اورآپس میں ایک تفاهم ایجادکریں اسی طرح فقهی مسالک کاایک تطبیقی مقایسه هو.اگرتحقیقانه طورپربحث هوتوبهت سارے فقهاءاورعلماءکےفتاوی، جزی تغییرکےساتھ دونوں مذهب کے فتاوی ایک دوسرے کےقریب هونگے»( حدیث ولایت ،1375: 2 ،229).
شیعه علماءاورمفکرین همیشه وحدت کی بات کرتے هیں اس راه میں قدم اٹاکنا،دراصل قرآنی اهداف کےتحقق کی راه میں قدم اٹاونا ہے دونوں مکتب فکر (شیعه،سنی)کےپیروکارصدیو ں سے ایجادوحدت کی تلاش میں سرگرم ر ہے هیں اوراس راه میں هرقسم کی قربانی دیتے آیئے هیں.بهت سارے اهل سنت علماء اتحاداسلامی کی خاطراپنے مثبت اورقابل تحسین کرداراداکرتے رهے هیں.
مصر کےجامعه الازهرکےسابق چانسلرمفتی شیخ محمودشلتوت کهتے هیں: «میں اورمیرے جوساتیں جامعه الازهرتےا،مختلف فقهی امور میں فتوی دیتے هوئے فقه جعفری سے بیو برتپورفائده اٹابتے هیں بلکه بعض امورمیں شیعه نقطه نظرکواهل سنت مذاهب پرترجیح دیتے هیں،حالانکه هم سنی هیں.مصرکے«سول لاء» میں طلاق کے مسئله میں شیعه نقطه نظرکےمطابق فیصله دیاجاتا ہے،نه اهل سنت کےمطابق. اسی طرح رضاع کے مسئله میں، میں بذات خود شیعه نقطه نظرکوهی قوی جانتاهوں،لهذااسی کے مطابق فتوی دیتاهوں.ایک منصف مزاج فقیه جهاں بیه شیعه نقطه نظرکو دوسرے نظریات کے مقابلے میں دلیل واستدلال کےاعتبار سے قوی دیکتاط ہے اسی کےمطابق فتوی دیتا ہے،یهی وجه ہےکه،آج میں اپنی ذمه داری اورفریضه جانتاهوں که الازهریونیورستی کے «اسلامی لاءکالج» میں شیعه سنی فقه پرمشتمل« فقه تطبیقی» کاشعبه قائم کروں،اس کام. سےهمارامقصدصرف یه ہے که صحیح اسلامی احکام کومختلف اسلامی فرقوں کی« فقه» سےاخذکرسکیں،اس سلسلے میں شیعه فقه یقیناسب سے آگے ہے»(ر.ک:بی آزارشیرازی،1403: 10).
جناب شیخ محمودشلتوت نے تمام اسلامی ممالک کےنام ایک تاریخی فتوی جاری کیاجس میں فقه جعفری کی پیروی کوبیب دوسرے اسلامی فرقوں کی طرح جائزقراردیا ہے(ر.ک:وهی). اس فتوی کی تائیدبهت سارے اهل سنت علماءنےکی،جن میں شیخ عبدالمجیدسلیم،شیخ محمدضحام،شیخ عبدالحلیم محمود(الازهرکےسابق چانسلرز)، اسی طرح استادشیخ محمدغزالی اورعبدالفتاح عبدالمقصودقابل ذکر هیں(ر.ک:وهی).آج تمام مسلمانوں،خاص کردانشوروں،علماء،زعماءاورجوانوں کافریضه ہے که باهمی اتحادکومضبوط بناتےهوئے،فروعی اورجزئی اختلافات کوبالای طاق رکےماهوئے،قرآن وسنت کی بالادستی کےلئےملکرکام کریں.کافی ہے اس سلسلے میں وهی تین بنیادی اصولوں کی پاسداری کریں.
اصل توحید:
تمام اسلامی فرقوں کاایک مشترک اصول،توحید ہے. نظریه توحید پرسب کااتفاق ہے نظریه توحیدکی اپنی کئی قسمیں هیں :
1-توحیدذاتی :
خدااکیلا ہے ،کوئی دوسرااس کاشریک نهیں ہے « قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ»(توحید:1). اورکوئی دوسرااس جیسا نهیں ہے «لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْء شوری:11». کوئی وجوداس سا نهیں: «وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَد »(توحید:4).
2-خالقیت میں توحید:
حقیقی خالق فقط خدا ہے.اس کےسواءکوئی مستقل وجود نهیں ہے کائنات کی هرچیزاسی کے فرمان،اذن اورارادےسے اثرگذارہے «قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَ هُوَ الْواحِدُ الْقَهَّار»(رعد:16).
3-ربوبیت میں توحید:
عالم کاایک هی رب اورایک هی مدبر ہے.کوئی دوسرااس کاشریک نهیں .مختلف امور میں ملائکه کاتدبیرسمیت دوسرے سارے اسباب اسی کے فرمان اوراذن سےہے« إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ما مِنْ شَفِيعٍ إِلاَّ مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ ذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ أَ فَلا تَذَكَّرُون »( یونس:3).خدا کےسواءکوئی دوسراحقیقی سبب موجود نهںٍ،البته کبیا خداخودهی دوسروں کواذن دیتا ہے.
4-تشریح میں توحید:
حاکمیت تنھاخداکےلئے ہے صرف وهی قانون وضع کرسکتا ہے اس کے علاوه کوئی دوسراامر،نهی،حرمت وحلیت کااختیار نهیں رکھتا، « ٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاه»(یوسف:40).
5-اطاعت میں توحید:
خداکےعلاوه کسی اورکی اطاعت بالذات واجب نهیں.نبی اوردوسرے حضرات کی اطاعت کواس نے خودهی واجب قراردی ہے.انبیاء(علیهم السلام)اوراولیاءکی اطاعت،خداکی اطاعت کےمدمقابل نهیں ہے ،بلکه اسی کی اطاعت کےذیل میں متصورہے. « فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوا وَ أَطِيعُوا» (تغابن:16).
6-حاکمیت میں توحید:
خدامطلقالوگوں پرولایت رکھتا ہے.اس کی ولایت اورحاکمیت ذاتی ہے جبکه دوسروں کی ولایت،اس کی اجازت اوراذن کےبعدمتصور ہے.« ِ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَ هُوَ خَيْرُ الْفاصِلِين»( انعام:57).
7-شفاعت اورمغفرت میں توحید:
مغفرت اورشفاعت خداهی سےمختص ہے وهی غافرالذنب ہے« ْ وَ مَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللَّه»(آل عمران:135).دوسری آیت میں آیا ہے« قُلْ لِلَّهِ الشَّفاعَةُ جَمِيعا»(زمر:44) . شفاعت خداکاذاتی حق ہے ،اوراسے مختص ہے،امادوسر ے لوگ اس کی اجازت اوراذن کے بعدهی، اس حق کامستحق بنتے هیں :« مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِه»(بقره:255).
8-عبادت میں توحید:
خداکےعلاوه عبادت کاکوئی لائق نهیں،اس نهیں سواءکوئی معبود نهیں،کوئی چیز،کوئی شخص عبادت میں اس کاشریک نهیں.اسی حقیت کااعتراف بنده،سوره حمد میں خداکومخاطب قراردے کرکرتا ہے « إِيَّاكَ نَعْبُد »(حمد:5).کوئی مسلمان توحیدکے بارے میں اختلاف نهیں کرتا.شهیدمطهری (رح)عبادت میں توحید کے بارے میں کهتے هیں: عبادت میں توحید،ایک قسم کی عملی توحید ہے اوریه ایک قسم کی حرکت ہے کمال تک پهنچنے کے.خداهی کاانتخاب،کمال تک جانے کےلئے،عبادت میں توحید ہے.دوسرے سارے دعوائی چیزوں کوترک کرکے خداهی کےلئے جکنا ،اٹھنا،اسی کےلئے قیام کرنا، اسی کےلئے جینااورمرنا» (مطهری1354: 379). عبادت میں توحید کے ذیل میں،مسلمانوں کاایک فرقه،انبیاء(علیهم السلام)اوراولیاءالهی کےسامنے خضوع اورتذلل(جوایک قسم کاامرالهی یوسف:100؛اسرا:24؛مائده:54،ہے)کوشرک قراردیتا ہے.اگرکوئی شخص،تین اوصاف کومدنظررکھ کرایساکرتا ہے تووه خطاپر ہےاوریه عمل موجب شرک ہے.اوروه تین اوصاف درجه ذیل هیں:
1- کوئی شخص کسی نبی یاولی کوخداسمجھ کراس کی الوهیت کے قائل هوکرایساکرے.
2-کوئی شخص کسی نبی یاولی کے ربوبیت کے قائل هوکرایساکرے.
۳. کوئی شخص کسی نبی یاولی کوخدا کے مقابل بےنیازجان کر ایساکرے.
میرے خیال میں کوئی مسلمان شخص،ایساعقیده نهیں رکھتا.یه تینوں اوصاف،صرف خداهی کی ذات بابرکت کے ساتھ مختص هیں.لهذااصل توحیدکوسب مانتے هیں.البته بعض جزئی مسائل میں،بعض مختلف نظریات هیں جواصل هدف سے نهیں روکتی.حیات انسانی کی ترقی اورکمال یابی میں،توحیدمرکزی کرداراداکرتی ہے،توحیدسعادت دارین اورمعنوی ومادی اهداف میں اساسی کردار،اداکرتی ہے.توحیدانسان کومقصدخلقت سے متصل کرتی ہے.انسان خداکی طرف سے آیا ہے اوراسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے اوریه بشریت کے لئے ایک جاودان توحیدی منشور ہے که جس کا اعلان قرآن کررها ہے« إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون»(بقره:156).
توحیدی رنگ،انسانی حیات کوتمام جهتوں سے تبدیل کرتی ہے اورانسان کوکمال مطلق کی طرف راهنمائی کرتی ہے. الهی رنگ میں رنگنے کے بعد،انسان هردوسرے رنگ سے بے نیازهوتاهے.رنگ لگانے کاایک مطلب هوتاهے جس جانورپه رنگ لگے، وه اسی رنگ لگانے والے کاهوجاتاهے رنگ شخص کی ملکیت پردلالت کرتاهے.اسی طرح جس شخص پررنگ الهی لگ جائے،وه خالص توحیدکا بن جاتاهے.« صِبْغَةَ اللَّهِ وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَ نَحْنُ لَهُ عابِدُون»(بقره:138).جب انسان توحیدی رنگ میں رنگاجاتاهےتواس کالازمی نتیجه یه هوگاکه؛اس کی هرحرکت الهی بن جائے گی.خداکی راه میں قیام اس کامقصدوهدف بن جائےگااوروه اس راه میں خدا کےسواء،کسی کی پروانه کرےگا.« قُلْ إِنَّما أَعِظُكُمْ بِواحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنى وَ فُرادى»(سبا:46).
اسلام،اصل توحیدکی بناءپراتحادچاهتاهے.توجه کی بات یه هے که اسلام ایسااتحادنه تنهامسلمانوں کےدرمیان چاهتا هے بلکه اس اتحادکے دائرے کواهل کتاب اوردوسرے ادیان تک پھلاتانظرآتا هےیه وجه هے که خداونداصل توحیدکوبنیادبناکراهل کتاب کووحدت کی طرف دعوت دینے کی سفارش کرتاهے:« قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَ لا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً وَ لا يَتَّخِذَ بَعْضُنا بَعْضاً أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّه»(آل عمران:64).اسلام ،توحیدکواصل قراردےکر،پوری انسانیت کواتحاداورامن کی طرف بلاتاهےکیسے ممکن هے که جواپنے هی پیروکارو ں کوظلم،فساد،جهالت اورناانصافی کی طرف بلائے؟اسلام کسی صورت ان چیزو ں کونه فقط برداشت نهیں کرتا،بلکه انهی چیزو ں سےکومعاشرے کوپاک کرنا،اولین ترجیح هے.خدانےتمام انبیاء(علیهم السلام)(علیهم السلام) کومعاشرے میں عدالت اجتماعی قائم کرنے کی غرض سے مبعوث کئے: «لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْمِيزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط»(حدید:25).لهذاتوحیدایک ایسااصل هے که جوپورے انسانی معاشرےکوامن وسکون دے سکتاهے.
قران کی آیتوں اورمرسل اعظم(صلی الله علیه وآله وسلم)روایتوں اورائمه اطهار(علیهم السلام)کی پاکیزه سیرت سے یه چیزعیاں هوجاتی هے که توحیدهی اصل واساس دین هے.اسی کووحدت کےلئےاصل قرادیاجاسکتاهے .جوشخص توحیدکااقرارکرتاهے وه اختلاف سے بچ سکتاهے قران کا اقرارانسان کودوسروں سے بےنیازکرتا هے« ِ وَ يَدْعُونَنا رَغَباً وَ رَهَباً وَ كانُوا لَنا خاشِعِين»(انبیاء(علیهم السلام):90).
خداوندعالم دوسری آیت میں خشیت الهی کو،ایمان کےلئے شرط جانتا هے« ْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِين(توبه:12).اسی طرح رسول خدا(صلی الله علیه وآله وسلم)کوخداکے مقابل خشیت کاحکم دیتا هے« ْ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْن»(مائده:3). جب کسی دل میں خوف وخشیت الهی آجائے،تویقینااس دلسےغیروں کاخوف نکل جائے گا.توحیدکاوه دل مرکزبنےگاخدااس دل په خاص عنایت کرےگاخوف وحزن اس دل سے نکل جائےگا ،اس کےفرشتے،اس دل په نازل هونگے:« إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا وَ لا تَحْزَنُوا وَ أَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُون»( فصلت:30).
اگرکسی معاشرے میں،توحیدحاکم هوجائے،توایسے معاشرے موجودتمام اشیاء،خودبخودرنگ الهی پکڑے گی.جس کے نتیجے میں،تمام بت جیسے:لسانی،نسلی ،علاقائی اورحزبی گرجائیں گےیهی وه تنهاصورت هے که جس کے نتیجے میں، معاشرے کے اندروحدت واتحادقائم هونگے ایسامعاشره،توحیدپرستی کی طرف رواں دواں هوسکتا هے.
اصل نبوت:
ایک اوراصل که جوتمام اسلامی مکاتب فکر کے اندراتحاداوروحدت قائم کرسکتا هے،وه اصل،«اصل نبوت »هے تمام مکاتب کااس په اتفاق هے که معاشرے میں، ایک شخص ایساهوناچاهئے جولوگوں کوخداکی طرف طرف دعوت دے اورخدا کےپیغامات کوبندوں تک لے آئے ،ایسے شخص کوهادی کهاجاتا هے.نبی منصب نبوت کاحامی هوتاهے.جونبی عالمین کے لئے هوتا هے، وه عالمین کے لئے هدایت کامرکزهوتا هے.تمام مکاتب فکرکااتفاق هے که اسلام ایک عالمی دینهے جوجامع اورکامل نظام حیات پرمشتمل هے.اس بات کی دلیل ،قرآن میں جیسے« يا أَيُّهَا النَّاس »( بقره ،21 ؛نساء،171-174؛فاطر ،15)، «يا بَنِي آدَم» اعراف ،26-28)اور«يا أَيُّهَا الْإِنْسان»(انفطار،6)، اس جیسے خطابات هیں جن کی دلالت قران کے تمام بشریت کےلئے ایک ابدی نظام زندگی هوناهے. قرآن تمام انسانوں کے لئے هدایت لے کےآیا هےاوریه کسی ایک زمانه سے مختص نهیں،بلکه یه نظام تمام فکری نظامو ں پرغالب آیئےگا: « لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه»( توبه ،33).
اس آیت میں دین اسلام اوراس کے پیروکاروں کی فتح کی نویدسنائی گئی هےاسی طرح بعض آیتں اصل دین کاایک جامع نظام پرمشتمل هونےکی طرف اشاره ملتاهے. «ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ مِنْ شَيْء »( انعام،38)، « وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْء» (نحل،89)، « ِ وَ لا رَطْبٍ وَ لا يابِسٍ إِلَّا فِي كِتابٍ مُبِين»(انعام ،59). اسی طرح یه حدیث «و حلال محمد حلال الي يوم القيامة و حرامه حرام الي يوم القيامة»(بروجردی،1399: 1 ،136)، دین کی ابدیت پردلالت کرتی هے .انسانی معاشره کے لئے نبوت کے بلندترین اهداف سےایک هدف،اجتماعی طورپرعدالت کاقیام هے «لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْمِيزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط»(حدید:25).
اس آیت کےتحت رهبرکاکام سب سےپهلے،معاشرے میں ایک اجتماعی نظام عدل کاقیام هے.عدالت خودبخودبرقرارنه هوتی،بلکه کوئی عادل،بابصیرت رهبرهوجواسے برقرارکرے.معاشرتی مسائل سےواقف ایک رهبرکاوجودمعاشرے کے لئے ضروری هے.زندگی کےتمام شعبوںمیں،عدالت کانفاذانتهائی لازمی امر هے.اجتماعی روابط هوں یافردی،یاکوئی اورمسئله،هرایک عدالت کےمحتاج هے.اسی طرح مختلف مکاتب فکرکےدرمیان بیت عدالت قائم هو.مختلف فرقوں کےباهمی روابط کی بنیادعدالت پرهو.اگرهمارے گفتار،کرداراورطرززندگی پرعدالت حاکم هوتوبهت سارے اختلاف کاخودبخودخاتمه هوجائے.آج اگرهمارے معاشرےمیں مختلف گروپوں کےدرمیان قومی،لسانی،صوبائی اورمذهبی تصادم نظراتا هے تواس کی وجه عدالت سے دوری هی هے.اسلام افراط اورتفریط کی مذمت کرتا هے. افراط اورتفریط کی بنیادی وجه،عدالت سےروگردانی هے.اگر معاشرےمیں عدالت قائم هوتوقتل وغارتگری،ظلم وتجاوزاورتمام اخلاقی برائیوں کاخاتمه هوجا ئے گا.
مختلف مکاتب فکر کی گفتارپه عدالت قائم هوتوایک دوسرے کی توهین نهیں کریں گے، ایک دوسرے کوکافر نهیں کهیں گے.مسلمانوں کی کمرانهیں چیزوں نے خم کردی هیں اب مسلمان کاپورازور،ترقی اوراجتماعی منصوبوں کی طرف توجه دینے کے بجائے،اپنی مسلمانی ثابت کرنے میں صرف هوتا هے.اگرعدالت حاکم هوتوگفتاری اوررفتاری تناقضات کا خاتمه هو ئےگا.نبوت کادوسرافائده بشریت کے لئے ،فطرت کی بیداری هے رهبرمعاشره کوفطری اصولوں کےمطابق چلاتے هیں. نبوت پراعتقاد،وحدت واتحادکاسبب بنتا هے.نبی اپنے پروکاروں کوهمیشه دعوت اتحاددیتا هےجب لوگ رهبرکے فرامین پرعمل کرتے هیں تورهبرفطرت اورعقل کے مطابق دستوردیتے هیں اورعدالت کےنورانی شارع په معاشره کو چلاتے هیں.
حضرت علی(علیه السلام)فلسفه بعثت کوبیان کرتےهو ئے فرماتے هیں:«فبعث فيهم رسله و واتر اليهم انبيائه ليستادوهم ميثاق فطرته و يذكروهم منسي نعمته و يثيروا لهم دفائن العقول»(دشتی،خ،1). جهالت کا تاریک پرده عقل سلیم پرچافیاهوا هے اوربهت سارے لوگ جهالت کی تاریکی میں ڈوب چکے هیں توایسے حالات کوبدلنے انبیاء(علیهم السلام)آتے هیں بٹھکتے انسانوں کودوباره فطرت کی راهوں پرچلانے کے لئےانبیاء(علیهم السلام)آیئے هیں.پیاسے لوگوں کومعارف الهی کے چشمےسے سیراب کرنےرهبران الهی آیئے هیں. ایاولیا کے اسکالرجناب کونت ادواردگیوجیا کهتے هیں : «میں قدیم اورجدیدادیان سے متعلق بهت زیاده گهری تحقیق کرچکاهوں اورسار ے ادیان کامطالعه کرچکاهو ں جس کےنتیجے میں ،اس نتیجے پر میں پهنچا هو ں که تنهااورحقیقی آسمانی آئین، اسلام هے اس دین کی آسمانی کتاب یعنی قرآن مجیدانسانی تمام مادی اورمعنوی حوائج کوپوراکر نے کی ضمانت لیتا هے اوراسے اخلاقی اورروحی کمالات کی طرف سوق دیتا هے اوراس کی رهبری کرتا هے»( ر.ک:قرماز،1384: 248).
قرآن،لوگوں کی هدایت کے ساتھ ساتھ،سائنس کی دنیامیں بی اپناکرداراداکررها هےیهی وجه هے ایک مغربی دانشور جناب دینورت اس بارے میں یوں کهتے هیں:« واجب هے هم یه اعتراف کریں که علوم طبیعی ،نجومی ،فلسفه،اورریاضی جویورپ میں عروج پرپهنچے،عمومی طورپرقرآن سے لیاگیا هے»( ر.ک:وهی،255). ایک عیسائی مفکرجناب لامارتین کهتے هیں:« محمد،مادون خداومافوق بشرشخصیت هیں،پس وه بغیرشک،پیغمبراورخداکابیجایهواهے»( ر.ک:وهی،259)
الهی نمائند ے،همیشه لوگوں کوعلم،فکر،عقل وشعورکی دعوت دیتےهیں.اتحادکسی قوم کے اجتماعی شعورکاپته دیتا هے.انبیاء(علیهم السلام)کاکام فقط ابلاغ وتبلیغ هے« وَ ما عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِين»(نور،54).وه لوگوں کوظلم،شرک اورجهالت کی تاریکی سےتوحید،ایمان اورعلم کی روشنی کی طرف بلاتے هیں« هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلى عَبْدِهِ آياتٍ بَيِّناتٍ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّور»(حدید،9).نبی کسی شخص کوبزورشمشیردیندارنهیں بناتے. اس دینداری اورایمان کاجوجبرواکراه کےنتیجے میں حاصل هو،اس کاکوئی فائده نهیں هوتاکیونکه وه مصلحتی ایمان هے نه حقیقی ایمان.دین اختیاری امر هے جوهرانسان کاحق هے که وه جس دین پرمطمئن هواسی کواپنالے:« لا إِكْراهَ فِي الدِّين»(بقره،256). الهی نمائند ے،بندوں پرخداکی حجت اورگناهگاروں اورسرکشو ں پراتمام حجت هوتے هیں:« وَ ما كانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى حَتَّى يَبْعَثَ فِي أُمِّها رَسُولاً يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِنا وَ ما كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرى إِلاَّ وَ أَهْلُها ظالِمُون»(قصص،59).ان کےکام معاشره میں، انذاروتبشیر هوتے هیں« وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيراً وَ نَذِيراً وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُون»( سبا،28).وه سرکش افرادجواپنی فطرت مسخ کرچکے هیں« أَ فَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواه »(جاثیه،23)اور معاشره میں انتهائی برائی پراترے هیں ،تجاوزوطغیان ان کامزاج بن چکا هے« إِنَّ الْإِنْسانَ لَيَطْغى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنى»(علق،6-7).ایسے ناپاک نفوس کوعلم وحکمت اورتلاوت کےنورسے برںکے،تزکیه وتعلیم سےآراسته کرکے ،پاکیزه بناناالهی نمائنده کی ذمه داری هوتی هے :«هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ إِنْ كانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِين»( جمعه،2).اگرمعاشره،فلسفه نبوت سے واقف هوجائے،توپرلاختلاف کاسوچ بی بوهل جائےگا.انشاءالله بهت جلدزمین پرخدائی حکومت قائم هوگی اور الهی نمائند ے،خداکی نیابت میں پوری انسانیت کوبعث انبیاء(علیهم السلام) کے حقیقی شهراه پرچلائیں گے.
اصل معاد
ایک اوراصل که جوتمام اسلامی مکاتب فکر کے اندراتحاداوروحدت قائم کرسکتا هے،وه اصل،«اصل معاد »هے.جس طرح سارے اسلامی مسالک کےپیروکارمبداءاورخالق هستی په اعتقادرکےهو هیں اسی طرح یه لوگ معادپراعتقادواتفاق نظر رکے ا هیں .انسانی زندگی پرمبداومعادکاگهرااثرحکمفرماء هے . معادپراعتقاد کےحوالے سےلوگوں کی کئی قسمیں هیں:
ایک گروه معادپرمکمل ایمان رکھتا هے.یه گروه سب سے آگے هے.اس گروه کی زندگی گذارنےکاطریقه دوسروں سے کاملامتفاوت اورمختلف هے.معادکی یادنے ان کی زندگی بدل کے رکھ دی هے .اس گروه کی بعض خصوصیت سوره بقره کی ابتدائی آیتوں میں ذکرهوا هے.یه گروه بطوردائم ،غیب په ایمان رکھتا هے اسی طرح ان لوگوں کی صفت،دائمانمازقائم کرنا،خداکی راه میں انفاق کرنا،گذشته کتابوں اورماانزل الله پربطورمطلق ایمان رکنای هے «الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ مِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ وَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِما أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَ ما أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُون»( بقره،3-4).اسی طرح یه گروه بطوردائم آخرت پریقین رکھتاهے.
قرآن میں مختلف مقامات پراس گروه کے اوصاف کوخدانےیبان کیا هے اوریه واضح کیا هےکه جس طرح اس گروه کااعتقاددمبداومعادوغیره پردائم هے«وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُون» ،ویساهی اس گروه کے کرداروافعال بیا دائمی هیں« يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَ يَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً وَ يُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً»(انسان،7-8).وفابه عهداس گروه کاطره امتیاز هے« يُوفُونَ» اورمسلسل طورپرآخرت کاخوف یه گروه دل میں رکھتاهے یهی خوف معاد هے که جس کی وجه سے ان کی زندگی ایثاروقربانی سے لبریزنظرآتی هے.اوریه لوگ محتاجوں کاهمیشه خیال رکےبت هیں« يُطْعِمُونَ »،گویایه ان کی زندگی کا ایک مستقل حصه بن چکا هے.اخلاص عمل ان کی نشانی اورعلامت هے. ان کا هرعمل اخلاص پرمشتمل هے.حتی ان کی نیت اورضمیران کے عمل سےمختلف نهیں.یهی وجه هے که خداوند ان کے درونی احساس کی خبردیتے هوئے اس کوآیت کی صورت میں پیش کرتا هے« إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزاءً وَ لا شُكُورا إِنَّا نَخافُ مِنْ رَبِّنا يَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِيرا»(انسان،9-10).آیتوں کےسیاق وسباق سے پته چلتاهے که عقیده معادکس طرح اس گروه کی زندگی پرچامیا هوا هے.ان کےتمام اعمال ،افکاراورنیتوں کےپیچھے عقیده معادکی ایک خاص دخالت هے.
بعض دوسرےگروه معادپر ایمان تو رکےھے هیں، لیکن پهلے گروه کی مانندنهیں.بعض تنهازبان کی حد تک ایمان کا اظهارکرتے هیں،لیکن دل نورایمان سے خالی نظرآتا هے« وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ ما هُمْ بِمُؤْمِنِينَ يُخادِعُونَ اللَّهَ وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ ما يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنْفُسَهُمْ وَ ما يَشْعُرُونَ» (بقره،10-9).اسی طرح جس شخص کی زندگی میں آخرت کاکوئی حصه نهیں اوروه آخرت کوکوئی اهمیت نهیں دیتااس کےتمام اعمال باطل هونگے اوروه دونوں جهانوں میں خسارےمیں رهےگا.« يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْأَذى كَالَّذِي يُنْفِقُ مالَهُ رِئاءَ النَّاسِ وَ لا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ فَأَصابَهُ وابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْداً لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِين»(بقره،264).اس کادل شیطانی وسوسوں کامرکزهوگااورغلط تبلیغات کی طرف مائل هوگا«وَ لِتَصْغى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَ لِيَرْضَوْه»( انعام ،113).
ایسا شخص همیشه غلط کاموں کامرتکب هوتا رهےگا،خداپرجوِٹ باندھنا،لوگوں کوراه الهی سے روکنااوراسے مشکوک دیکاُنااس کی عادت بن جائے گی اس پرخداکی لعنت هے«وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللَّهِ كَذِباً أُولئِكَ يُعْرَضُونَ عَلى رَبِّهِمْ وَ يَقُولُ الْأَشْهادُ هؤُلاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلى رَبِّهِمْ أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَ يَبْغُونَها عِوَجا وَ هُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كافِرُون»(هود ،18-19).قرآن ایسےگروهوں کااوربهت سارے اخلاقی برائیوں کاذکرمتعددآیتوں میں کرتاهےجیسے:ابراهیم
آیت3؛نحل22-29؛بقره،10؛اسراء45،97،98؛نمل4-5؛روم16؛سبا8؛زمر45؛فصلت5-6ونجم27-28.
یه هماری ذمه داری هے که ایسے عذاب میں گرفتارنه هوں،پرامعاشره اورمسلم امه کوایسی هلاکت اورتفرقه کی آگ سے نجات دیں.اسلامی تمدن کی عمارت کواتحادووحدت کی بنیادپربنانےکےلئے اپنی تمام توانائیوں کوبروی کارلائیں.اوران مشترکه اصولوں پرکاربندرهیں.یقیناآفتاب عدالت طلوع کرنےهی والا هے همیں پورے معاشرے اورسماج کواسے روشنی لینے کےلئے تیارکرناهے.یه مقصدتب پوراهوگا،جب معاشرے میں ایک دوسرے کااحترام هوگا.کم ازکم دوسروں سے متعلق،انسانی بنیادوں په سوچیں گے اورهم خودانسان بننےکی کوشش کریں گے.
منابع:
قرآن ؛
نهجالبلاغه،ترجمه دشتي؛
ابنحبان، صحيح ابن حبان، مؤسسة الرسالة، بيجا، 1414ق؛
احمدبن حنبل، المسند، بيروت: دار صادر،بی تا؛
آواي وحدت، مجمع جهاني تقريب مذاهب، 1374 ش؛
بروجردي، حسين، جامع احاديث الشيعه، قم: المطبعة العلمية، 1399ق؛
بروجردي، حسين، جامع احاديث الشيعه، قم: منشورات مدينةالعلم، 1410ق؛
بيآزار شيرازي، عبدالكريم، توحيد كلمه، تهران: دفتر نشر فرهنگ اسلامي، 1403ق؛
حديث ولايت، تهران: سازمان مدارك فرهنگي انقلاب اسلامي، 1375؛
دروزة ،محمد عزت ،التفسير الحديث، قاهره: دار إحياء الكتب العربيه،1383 ق؛
صدرالدين، شرفالدين، حليف مخزوم (عمار ياسر)، ترجمه غلامرضا سعيدي، تهران: انتشارات جعفري، 1345ش؛
طبري، محمدبن جرير، جامعالبيان، بيروت: دارالفكر، 1415ق؛
قرماز، فرمان، اثبات جامعيت دين اسلام، قم: پايان نامه كارشناسي ارشد جامعه المصطفی العالمیه ؛
مجلسي، محمدباقر، بحار الانوار، بيروت: مؤسسة الوفاء، 1403ق؛
مطهری،مرتضی،سيري در نهجالبلاغه، تهران: دارالتبليغ اسلامي، 1354؛
وحدت از ديدگاه امام خميني، تهران: مؤسسه تنظيم و نشر آثار امام خميني، 1378؛
هندي، متقي، كنزالعمال، بيروت: مؤسسة الرسالة ، 1409ق؛
وحدت ایک ندائے آسمانی!
اس مقالہ میں ایک اہم ترین اسلامی مسئلہ وحدت ور اتحاد مسلمین پر زور دیا گیا ہے اور اس کی اہمیت و افادیت خاص کر عصر حاضر میں اس کی ضرورت کو بیان کیا گیا ہے اور مسلمین ممخصوصاً کشمیری مسلمین کو قرآن کی رو سے اس کی دعوت دی گئی ہے تا کہ دشمن کی سازشیں کامیاب نہ ہوسکے۔
''قل یااھل الکتاب تعالوا الی کلمة سوآء بیننا وبینکم الانعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیأ ولا یتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللہ فان تولوافقولوا اشھدوابانا مسلمون''(آل عمران ٤٦)
''کہہ دیجئے اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤجو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے وہ یہ کہ ہم خدا وند عالم کے سواکسی اور کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھرائیں۔اور ہم میں سے کوئی بھی ایک اللہ کے علاوہ کسی کو اپنے ''ارباب ''نہ بنائے۔پس اگر وہ (اس پیش کش سے )روگردانی کریںتو ان سے کہو تم گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں ''۔
پیام ونکات
١۔دوسروں کو دعوت دینے کے کئی مراحل ہوتے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کی مشترکہ چیزوں کی دعوت دی جائے اور مشترک چیزوں کا محور قرآن ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں انبیاء علیہم السلام کی تاریخ بھی موجود ہے اور ہر قسم کی تحریف سے بھی محفوظ ہے۔
٢۔اگر کسی بات میں اس کے تمام مقاصد تک رسائی نہیں ہوسکتی تو اس کے بعض مقاصد کے حصول سے دست کشی نہیں کرنی چاہیے۔
٣۔توحید اور حق کی طرف دعوت ضروری ہے خواہ یہ استدلال کے ذریعے ہو یانفرین ومباہلہ کے ذریعے یا پھر مشترکات کی طرف دعوت دینے کے ذریعے سے ہو۔
٤۔توحید، اور شرک سے بیزاری تمام آسمانی ادیان کا مشترکہ محور ہے ۔
٥۔انسان کا ایک دوسرے کی بے چون چرا اطاعت کرنا ایک قسم کی غلامی ،فکری استعمار اور ایک طرح کی عبودیت (بندگی) ہے جس سے دور رہنے کی دعوت دی گئی ہے۔(لا یتخذ بعضنا بعضاً ارباباً)
٦۔ مخالفین کا حق کی دعوت سے روگردانی کرنا ہمارے اسلام ،ایمان اور ارادے میں ذرہ بھر بھی لغزش پیدا نہیں کر سکتا۔(فان تولوافقولوا اشھدوابانا مسلمون)
٧۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حق کی تبلیغ کا فریضہ انجا م دینے کے لئے دفاعی طریقہ اختیار نہ کریں بلکہ جارحانہ انداز کو اپنائیں۔( قل یااھل الکتاب تعالوا الی کلمة )
٨۔دوسروں کو حق کی دعوت دینے اور حق کی تبلیغ کرنے میں ان کے حق پر مبنی عقائد اور پاکیزہ احساسات کا احترام ضرور کریں ۔(کلمة سوآء بیننا وبینکم )
٩۔ہر مبلغ کو پہلے ہی سے یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ لوگ اس کی باتوں کوٹھکرا بھی سکتے ہیں ، اس سے روگردانی بھی کر سکتے ہیں اور سرکشی کا اظہار بھی کرسکتے ہیں ۔لہذا ان باتوں کا توڑ بھی اسے پہلے سے تیار کر لینا چاہیے ۔( فان تولوافقولوا اشھدوا)
١٠۔اتحاد اور وحدت کی دعوت میں پیش قدم ہونا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا یوکرینی زبان میں پیغام جاری
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایکس اکاؤنٹ پر یوکرینی زبان میں ایک نیا پیغام جاری کیا ہے، جس کا عنوان تھا "رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے امریکہ کے لئے گرم جوشی رکھنے والے ممالک کے لئے تین سال پہلے جاری کیا گیا کا انتباہ۔" KHAMENEI.IR کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے تین سال قبل رہبر معظم انقلاب اسلامی کی جانب سے امریکہ کی حمایت کرنے والے ممالک کے لیے جاری کردہ انتباہ کو شائع کیا تھا۔ اس ٹویٹ کا متن جو یوکرائنی زبان میں بھی شائع ہوا، درج ذیل ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای: یوکرین کے معاملے میں پہلا سبق یہ ہے، بالخصوص ان ممالک اور حکومتوں کے لیے جو ان کی کٹھ پتلی ہیں، مغربی طاقتوں کی حمایت ایک سراب ہے، تمام حکومتوں کو اس کا علم ہونا چاہیے، وہ حکومتیں جو امریکہ اور یورپ کی وفادار ہیں، انہیں آج یوکرین کو درپیش صورتحال کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔
قرآن مجید، دنیا کی منہ زور طاقتوں کے ساتھ پیش آنے کا طریقہ بتاتا ہے
انھوں نے ڈھائي گھنٹے سے زیادہ ایرانی اور غیرملکی قاریوں کی تلاوت، اجتماعی تلاوت اور تواشیح سننے کے بعد اپنے خطاب میں مومنوں کی حقیقی اور بڑی عید یعنی رمضان المبارک کی مبارکباد پیش کی اور ملک میں قاریوں کی لگاتار بڑھتی ہوئي تعداد پر خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ مختلف مشکلات کے علاج کے لیے قرآن مجید کے بے پایاں چشموں کے سلسلے میں سماج کی ضرورت ایک حقیقی اور سنجیدہ ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قرآن مجید کے سلسلے میں انسان کی انفرادی ضروریات کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ تمام انسانوں کی حسد، کنجوسی، بدگمانی، تساہلی، خود غرضی، نفس پرستیاور اجتماعی مفادات پر انفرادی مفادات کو ترجیح دینے جیسی سبھی روحانی اور اخلاقی بیماریوں کا علاج قرآن مجید میں پوشیدہ ہے۔
انھوں نے معاشرے کے اندرونی رابطوں کے بارے میں کہا کہ سماجی انصاف سمیت تمام سماجی مسائل کے علاج کے لیے بھی، جو توحید کے بعد اسلام کا سب سے اہم مسئلہ ہے، ہمیں قرآن کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے دیگر ممالک کے ساتھ رابطوں کے میدان میں بھی قرآن مجید کو ایک مکمل رہنما بتایا اور کہا کہ دیگر اقوام کے ساتھ ایرانی قوم کو کوئي مسئلہ نہیں ہے لیکن آج اسے کافر یا منافق طاقتوں کے ایک بڑے محاذ کا سامنا ہے اور قرآن مجید نے مختلف مرحلوں میں ان کے ساتھ پیش آنے کا طریقۂ کار طے کر دیا ہے کہ ہم کس وقت ان کے ساتھ بات کریں اور کس وقت تعاون کریں، کس وقت ان کے منہ پر گھونسہ ماریں اور کس وقت تلوار نکال لیں۔
انھوں نے قرآن مجید کی صحیح تلاوت اور سماعت کو تمام انسانی بیماریوں کے دور ہونے کا باعث بتایا اور کہا کہ اگر قرآن مجید کی صحیح طریقے سے تلاوت اور سماعت کی جائے، تو وہ انسان کے اندر اصلاح اور نجات کا جذبہ بھی پیدا کر دیتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قرآن مجید کی ایک آیت کاحوالہ دیتے ہوئے پیغمبر کی جانب سے آيات شریفہ کی تلاوت کا ہدف روح و جان کی تمام بیماریوں کی شفا کے معنی میں تزکیہ، اللہ کی کتاب کی تعلیم یعنی انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگي کے تمام بنیادی اصولوں کی تعلیم اور حکمت کی تعلیم یعنی عالم وجود کے حقائق کی شناخت کی تعلیم پیش کرنا بتایا اور کہا کہ تلاوت، ایک پیغمبرانہ کام ہے اور قاری دراصل، پیغمبر کا کام انجام دیتے ہیں۔
انھوں نے قرآنی تعلیمات کو عام لوگوں کے افکار میں بسا دینے کو صحیح تلاوت کا ایک اہم نتیجہ بتایا اور ترتیل کی صورت میں قرآن کی تلاوت کے زیادہ مؤثر ہونے پر تاکید کی۔ انھوں نے قرآن کی تلاوت کے اثر میں معانی کے سمجھنے کو اہم بتایا اور کہا کہ آج، انقلاب کے ابتدائي دور کی نسبت، ہمارے قاری کلام اللہ کے معنی و مفہوم سے بہتر طور پر آشنا ہیں لیکن آیات کے معانی کی سمجھ پورے معاشرے میں عمومی طور پر پھیل جانی چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں امید ظاہر کی کہ قرآن مجید کے معنوی چشمے لوگوں کے دلوں، افکار اور اعمال میں جاری ہو جائيں گے۔
مسلح افواج ہر طرح کے خطرات سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، ایڈمرل سیاری
ایرانی بحریہ کے رئیر ایڈمرل حبیب اللہ سیاری نے کہا ہے کہ آج کی جنگ دراصل ارادوں کی جنگ ہے، اور وہی ملک کامیاب ہوگا جس کی قوت ارادی زیادہ مضبوط ہو۔ اگر کسی ملک کا عزم کمزور ہو تو جدید ترین اسلحہ رکھنے کے باوجود وہ میدان جنگ میں شکست کھاسکتا ہے، کیونکہ جنگی استقامت کا دارومدار محض اسلحے پر نہیں بلکہ مضبوط ارادے پر بھی ہے۔
انہوں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی جانب سے فوجی قیادت کو جاری کردہ ہدایات میں "روحانی مضبوطی" کو ایک کلیدی نکتہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک مضبوط ارادہ صرف تبھی حاصل ہوتا ہے جب ایمان مستحکم ہو۔ جتنا زیادہ ایمان، اعتقاد، روحانیت اور توکل ہوگا، اتنی ہی قوت ارادی، استقامت، اور دفاعی و مزاحمتی طاقت میں اضافہ ہوگا، جس سے ملکی دفاع اور مزاحمت مزید مضبوط ہوگی۔
ایڈمرل سیاری نے بتایا کہ "ذوالفقار 1403" مشقوں کے دوران 160 سے زائد خصوصی عسکری مشقیں انجام دی گئیں، جن میں زمینی، فضائی، بحری اور زیر سمندر دفاعی کارروائیاں شامل تھیں۔ ان مشقوں کے دوران مختلف مقامات سے فوجی دستوں کی نقل و حرکت، جدید اسلحے کے کامیاب تجربات اور مختلف نوعیت کی عسکری سرگرمیوں کے باوجود، خدا کے فضل اور اہلکاروں کی مہارت کے باعث کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، جو ایرانی فوج کے عملے کی اعلی صلاحیت اور پیشہ ورانہ مہارت کا واضح ثبوت ہے۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ ایران کی مسلح افواج عوامی حمایت کے ساتھ، ملکی سالمیت اور اسلامی انقلاب کے دفاع کے لیے ہمیشہ میدان میں موجود ہیں۔ مستقبل میں فوج کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ ہوگا اور دفاعی نظام مزید مضبوط بنایا جائے گا۔
جنگ میں ناکامی، صیہونی فوج کی زبانی
فوج کہاں تھی؟
نیویارک ٹائمز کے مطابق فوج کی تحقیقاتی رپورٹ میں ان استفسارات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے، جنہوں نے اسرائیل کو اس دن سے پریشان کر رکھا ہے، جب حماس کے زیرقیادت ہزاروں بندوق برداروں نے اسرائیلی کیمونٹی، فوجی اڈوں اور ایک میوزک فیسٹیول پر دھاوا بول دیا تھا۔ حکام کے سامنے سوال یہ تھا کہ فوج کہاں تھی؟ اسرائیلی فوجی حکام کے مطابق انہوں نے فوج کے انٹیلی جنس جمع کرنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے حملے کے ردعمل کی چھان بین میں دسیوں ہزار گھنٹے صرف کیے۔ یہ حملہ جس میں تقریباً 1200 افراد، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، ہلاک اور 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، یہ ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے لیے سب سے خطرناک دن تھا۔
درست انٹیلی جنس کا نشہ
رپورٹ کے مطابق زندہ بچ جانے والے صیہونیوں نے حملے کے بعد اپنے فوجیوں کے ذریعے بچائے جانے کا طویل انتظار کیا۔ اپنے کچھ ابتدائی نتائج شائع کرنے سے ایک دن قبل صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے، اسرائیلی فوجی حکام نے بتایا کہ یہ ناکامی حماس کی صلاحیتوں اور ارادوں کے بارے میں غلط مفروضوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کچھ فوجی حکام نے اس ناکامی کا سبب درست انٹیلی جنس کا "نشہ" بتایا ہے، ناکامی کیوجہ انٹیلیجنس کی کمی اور نقص ہی تھا۔ حماس کی طاقت کے بارے میں غلط اندازہ اسرائیلی انٹیلی جنس حلقوں اور اعلیٰ فوجی کمان کے اندر بڑی حد تک چیلنج نہیں ہوسکا تھا اور اس کی وجہ سے ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
خالص فوجی تحقیقات
اس انکوائری میں ناکامی کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا ہے، ان اسباب میں حملے کے پہلے گھنٹوں میں ناگہان طور پر پیدا ہونیوالی افراتفری کا تاخیر سے دیا جانیوالا فوجی جواب بھی شامل تھا، جب حماس کی طرف سے غزہ کی سرحد پر تعینات فوجیوں کو تیزی سے مغلوب کیا گیا اور فوج کی جنوبی کمان اور غزہ ڈویژن کو زیر کر لیا گیا۔ فوجی اور انٹیلی جنس ناکامیوں کے نتائج بڑی حد تک مقامی اور بین الاقوامی نیوز میڈیا کی تفصیلی تحقیقات سے مماثل ہیں۔ اسرائیلی فوجی حکام نے کہا ہے کہ اب فوج احتساب کی خاطر ان واقعات کا اپنا ورژن پیش کر رہی ہے۔
صیہونی فوج نے اپنی تحقیقات کو دیگر اداروں کے ساتھ مربوط نہیں کیا، جیسے کہ شن بیٹ کی داخلی سلامتی ایجنسی، جو غزہ میں انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے بھی ذمہ دار ہے، یا پولیس وغیرہ۔ فوج نے برسوں کی حکومتی پالیسی اور فیصلہ سازی پر بھی توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے حملہ ہوا تھا۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک آزاد کمیشن کے وسیع عوامی مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے بارہا کہا ہے کہ وہ جنگ کے بعد سخت سوالات کا جواب دیں گے، جس کے ذریعے ذاتی طور پر کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔ فوج کی اندرونی انکوائریوں کا مقصد انفرادی ذمہ داری کا پتہ لگانا نہیں تھا، یہ بعد میں اسرائیل کے نئے فوجی چیف آف اسٹاف، ایال ضمیر کے تحت ہوسکتا ہے، جو مارچ کے اوائل میں لیفٹیننٹ جنرل ہرزی حلوی کی جگہ لے رہے ہیں۔
حماس کی کامیاب رازداری

اہم نتائج کے تحریری خلاصے میں فوج نے کہا ہے کہ "7 اکتوبر سے پہلے معلومات کو عام طور پر ایک غیر حقیقی یا طوفان الاقصیٰ کو ناقابل عمل منصوبے کے طور پر غلط سمجھا گیا۔" فوج نے اندازہ لگایا تھا کہ حماس کی طرف سے لاحق خطرہ سرحد کے ساتھ 4 سے 8 پوائنٹس تک محدود تعداد میں چھاپوں کی حد تک ہے، یہ بھی اندازہ غلط تھا کہ حملے کے دوران ہزاروں نہیں درجنوں عسکریت پسند شامل ہوں گے۔ یہ بھی ایک غلط اسرائیلی مفروضہ تھا کہ حماس کسی بھی بڑی تبدیلی سے قبل ابتدائی انٹیلی جنس وارننگ دی گی، لیکن 7 اکتوبر کو کسی حملے کی منصوبہ بندی کی کوئی پیشگی انٹیلی جنس نہیں تھی اور نہ ہی کوئی انتباہ جاری کیا گیا تھا۔
نتیجتاً، سرحدی دفاع کے لیے صرف باقاعدہ فوجیں تعینات کی گئی تھیں، ہمیشہ کی طرح ہفتے کے روز جب یہودیوں کی چھٹی بھی تھی۔ 6 اور 7 اکتوبر کی درمیانی رات کو غزہ میں کچھ ہلچل کے ابتدائی اشارے موصول ہوئے تھے۔ جیسے اسرائیلی سم کارڈوں سے لیس درجنوں سیل فونز کا چالو ہونا وغیرہ، لیکن اسرائیلی حکام نے حماس کی صلاحیتوں کے بارے میں پیشگی اقدامات کو اٹھانے کے لیے کافی یقین دہانی کرائی تھی۔ (ابتدائی خلاصے میں خاص طور پر 7 اکتوبر کے حملے سے پہلے کچھ مہینوں تک نچلے رینکس کی انتباہات پر توجہ نہیں دی گئی تھی، بلکہ انہیں خارج از امکان قرار دیا گیا تھا۔)
حملوں کے تین مراحل
فوجی انکوائری کے مطابق آپریشن تین مرحلوں پر مشتمل تھا۔ پہلے ابتدائی آدھے گھنٹے میں حماس کے تقریباً 1200 کمانڈوز شامل تھے۔ دوسرا حملہ تقریباً صبح 7 بجے سے صبح 9 بجے تک ہوا، جو تقریباً 2,000 مزید کمانڈوز اور دیگر مسلح تنظیموں کے بندوق برداروں پر مشتمل تھا۔ تیسرا مرحلہ زیادہ تر ایک سویلین ہجوم پر مشتمل تھا جس پر حماس کے فوجی کمانڈروں نے بظاہر زور دیا تھا۔ اسرائیلی فوجی ہیڈکوارٹر اور زمینی کمانڈر حملے کی مجموعی تصویر بنانے میں کامیاب نہیں سکے۔ مسلح شہری، افسر، سپاہی جو ابتدائی ردعمل کے لئے میں پہنچ گئے تھے، یہ ابتدائی چند گھنٹوں کے دھچکے کو ختم کرنے کے لیے ناکافی تھے۔ جس میں تین بریگیڈ کمانڈر، کئی بٹالین اور کمپنی کمانڈر مارے گئے۔
صیہونی کیمونٹی کا ردعمل
انکوائری کے مطابق 9 اکتوبر کی رات تک صیہونی فوج کو یہ اعلان کرنے میں اچھا خاصا وقت لگ گیا کہ اس نے سرحدی علاقوں کا آپریشنل کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ فوج نے حالیہ دنوں میں ان کمیونٹیز کے رہائشیوں کے سامنے اپنے نتائج پیش کرنے کا آغاز کیا، جو حملے کی زد میں آئیں۔ ان کے جوابی ردعمل ملے جلے تھے، کچھ رہائشیوں کا کہنا تھا کہ ان کے گاؤں سے متعلق پوچھ گچھ نے جوابات سے زیادہ سوالات اٹھائے ہیں، اور کچھ نے کہا ہے کہ انہیں نئی بصیرت حاصل ہوئی ہے۔ ایک اسرائیلی صحافی، گاؤں نہال اوز کے رہائشی امیر تبون نے فوج کی انکوائری کو "گہری اور سنجیدہ" رپورٹ قرار دیتے ہوئے سراہا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ اس میں کچھ زیادہ مشکل نکات اٹھائے گئے ہیں۔ لیکن انہوں نے مزید کہا کہ یہ بنیادی طور پر ایک ٹیکٹیکل رپورٹ تھی، جو ایک مکمل آزاد تحقیقاتی کمیشن کی ضرورت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ 7 اکتوبر کو اپنے خاندان کی آزمائش پر مبنی لمحات اور وسیع تر اسرائیل فلسطین تنازعہ کے بارے میں کتاب "غزہ کے دروازے" کے مصنف مسٹر ٹیبون نے کہا ہے کہ فوجی انکوائری نے انھیں کچھ نئی تفصیلات فراہم کی ہیں، جسے انھوں نے "نہال اوز کے دفاع کے لیے بہادرانہ جنگ" کے طور پر بیان کیا ہے۔ اگرچہ یہ بہت زیادہ نہیں۔
اس نے کہا کہ حملہ آور تین مرحلوں میں اس کے گاؤں میں داخل ہوئے تھے، دو نہیں، جیسا کہ اس نے پہلے سوچا تھا، اور یہ کہ تیسرا مرحلہ صبح گیارہ بجے کے قریب تھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کو منظم ہونے اور ہمیں بچانے کے لیے ایک بڑی فورس بھیجنے میں کتنا زیادہ وقت لگا۔ حماس نے 15 ماہ کی تباہ کن جنگ کا آغاز کیا، جواب میں اسرائیل نے غزہ میں حماس کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 48,000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا گیا، جن میں اکثریت خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی تھی۔ جنگ نے غزہ کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں بدل دیا ہے اور تنازعہ ایک وسیع علاقائی تنازعہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔
خطے کی ملتوں کا قیام اور اسرائیل کی نابودی!
ملتیں کھڑی ہو جائیں!
ملتوں کو چاہیے کھڑی ہو جائیں اور اپنے علاقے کی فوجوں سے، اپنے علاقے کی حکومتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ ان فلسطینیوں کی اور ان شامیوں کی، جن پر ظلم کیا گیا ہے، مدد کریں تاکہ یہ ناسور جڑ سے ختم ہوجائے۔
اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا!
مجھے توقع ہے کہ ان اسلامی ملکوں کی اقوام ان مسائل پر توجہ دیں گی اور بیٹھی نہیں رہیں گی کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔ آج وہ دن ہے، اگر سب (اقوام) اٹھ کھڑی ہوں تو اسرائیل پوری طرح ختم ہوجائے گا۔
جلد آنکھیں کھل جائیں گی!
مجھے امید ہے کہ ان حکومتوں کی، (جن کے لئے) اسرائیل صاف صاف کہہ رہا ہے کہ میں ان تمام جگہوں پر قبضہ کرلوں گا اور ان تمام ملکوں کو وہ اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایک ایک قدم کرکے آگے بڑھتا چلا آرہا ہے، آنکھیں کھل جائيں گی اور وہ اس ناسور کے خلاف، جو پورے علاقے کے لئے اور اسلام کے لئے خطرہ ہے، اٹھ کھڑی ہوں گی اور ان مسائل کو صرف باتوں، مذاکرات اور ہنسی مذاق میں نہیں گزار دیں گی۔
عہد بصیرت ، امام خمینی رح
تقوي ٰ
تقوي ٰ
تقوي کے معني
تقوي کے معني يہ ہيں کہ خدا وند عالم نے انسان پر جن امور کو فرض کيا ہے انسان انھيں انجام دے يعني واجبات کو ادا کرے اور محرمات سے پرہيز کرے ۔ يہ تقوي کا پہلا مرتبہ ہے ۔تقوي ايک ايسي صفت ہے کہ اگر کسي قوم کے دل ميں گھر کر لے تو اس صورت ميں وہ قوم اس مضبوط قلعے کي مانند ہو جاتي ہے جس ميں کوئي داخل نہيں ہو سکتا ۔
عام طور پر جب تقوي کا تصور ذہن ميں آتا ہے تو ساتھ ساتھ نماز ، روزہ ، عبادت ، دعا وغيرہ کي تصوير بھي ابھر آتي ہے ۔ صحيح ہے کہ يہ تمام مذکورہ امور تقوي کے دائرے ميں آتے ہيں ليکن انہي کوتقوي سمجھنا صحیح نہيں ہے۔ تقوي يعني اپنے امور کي نگہداري کرنا يعني اگر انسان کوئي فعل انجام دے رہا ہو تو جانتا ہو کہ کيا کر رہا ہے ۔ اگر کسي فعل کو انجام دے تو اپنے ارادے ، فکر اور حسن انتخاب سے انجام دے ۔ بالکل اس طرح جس طرح کوئي گھوڑ سوار گھوڑے پر سواري کرتے وقت اپني منزل اور مقصد سے آگاہ ہوتا ہے ۔
تقوي کيا ہے اور اس کو زندگي کے مختلف گوشوں ميں کس طرح رچايا ۔ بسايا جا سکتا ہے ؟ تقوي سے مراد يہ ہے کہ گناہ ، خطا ، صراط مستقيم سے انحراف ، ہوي و ہوس سے اجتناب کيا جائے اور خدا کي طرف سے عائد شدہ احکام پر عمل پيرا رہا جائے ۔ زندگي کے تمام مختلف شعبوں ميں اسي وقت کامياب اور سرفراز ہو اجا سکتا ہے جب باتقوي زندگي گذاري جائے۔ تقوي ہر کاميابي کا راستہ اور ضمانت ہے ۔ تقوي فقط دين سے مربوط نہيں ہے ليکن اتنا ضرور ہے کہ ديني تقوي ، واضح اور روشن ہے ۔
اس بچے سے لے کر جو ابھي تحصيل علم کر رہا ہے ، اس خاتون تک جو امور خانہ داري انجام دے رہي ہے ، سبھي کو باتقوي ہونا چاہيے تاکہ سب راہ مستقيم اختيار کر سکيں اور اپني منزل مقصود تک پہنچ سکيں ۔ ايک نوجوان اپنے آس پاس کے مخصوص ماحول اور معاشرے ميں تقوي کے بغير اپنے تحصيل علم کے ہدف تک رسائي حاصل نہيں کر سکتا ۔ اس نوجوان کو چاہيے کہ غلطيوں اور ہوي و ہوس اور ان تمام سرگرميوں سے اجتناب کرے جو اس کو اس کے ہدف تک پہنچنے سے روکتي ہوں ۔ يہي اس کا تقوي ہے ۔ اس طرح گمراہي ميں ڈوبے ہوئے ايک عورت اور گھر کے باہر ايک مرد پر بھي يہي کليہ اور قانون جاري ہے ۔
ايک مومن اگر چاہتا ہے کہ راہ خدا اور صراط مستقيم کا سفر طے کرے تو اس کے لئے لازم ہے کہ تقوي اختيار کرے ۔ يہي وہ راستہ ہے جس پر چل کر وہ خوشنودي خدا اور نورانيت الہي سے مستفيد ہو سکتا ہے اور ساتھ ہي ساتھ معنويت کے اعلي مراحل بھي طے کر سکتا ہے نیز دين خدا کي سر براہي تک رسائي بھي حاصل کر سکتا ہے ۔
متقين کي عاقبت
’’اتقوا ‘‘ قرآن کريم کا حکم ہے ۔ يہي وہ تقوي ہے جس کے ذريعے تمام امور تک دسترسي حاصل کي جا سکتي ہے ۔ اگر قرآن کريم کے اس مذکورہ حکم پر غور کيا جائے تو تمام عقلي استدلال اور براہين کو عام فہم زبان ميں بيان کيا جا سکتا ہے حتي مسائل غيبي اور ماورائے فطرت و طبيعت امور کو بھي عوام کے لئے واضح کيا جا سکتا ہے ۔
تقوي کا ماحصل يہ ہے کہ کوئي بھي شخص يا معاشرہ اگر تقوي اختيار کر لے تو پھر بھي ميدان ميں داخل ہو جانے پر اس ميدان کو سر کر لے گا ۔ ’’والعاقبة للمتقين ‘‘۔ اس عظيم تاريخي اور کائناتي سفر کا سر انجام متقين پر ہونے والا ہے ۔ دنيا و آخرت دونوں متقين سے متعلق ہيں ۔ امام خميني ۲ اگر متقي نہ ہوتے تو کسي بھي قيمت پر اپني شخصيت کو ہزارہا دوسرے افراد کے لئے محور قرار نہيں دے سکتے تھے اور نہ ہي انقلاب لا سکتے تھے ۔ يہ تقوي ہي تھا جس نے انھيں ہميشہ ہميشہ کے لئے زندہ جاويد بنا ديا ہے ۔
تقوي ،زندگي کے تمام شعبوں ميں موثرہے
تقوي کي خصوصيت يہ ہے کہ يہ زندگي کے تمام شعبوں ميں موثر ہوتا ہے ۔ قرآن مجيد ميں بارہا تقوي سے متعلق تذکرہ ہوا ہے ۔ يہ سب اس لئے نہيں ہے کہ انسان اس دنيا سے چلا جائے تو خدا وند عالم اجر و ثواب عنايت کرے گا ، بلکہ تقوي اس دنيا کے لئے نعمت شمار کيا گيا ہے ۔ اگر ہماري موجودہ زندگي کا انجام بخير و خوبي ہو گيا تو اس پر ہماري آخرت کا بھي انحصار ہے ۔ تقوي کا نہ ہونا اس بات کا سبب بن جاتا ہے کہ انسان غفلت اور کوتاہي کا شکار ہو جائے اور يہ غفلت و کوتاہي انسان کو اوندھے منہ زمين پر پٹخ ديتي ہے ۔
تقوي کے ذريعے انسان صراط مستقيم پر باقي رہ سکتا ہے
حضرت علي فرماتے ہيں ’’اوصيکم عباد ا بتقوي ا ‘‘ اے بندگان خدا ! ميں تمہيں تقوائے الہي کي وصيت کرتا ہوں۔ ’’ و اغتنام طاعتہ ‘‘ اور وصيت کرتا ہوں کہ اطاعت خدا کو غنيمت شمار کرو ۔ ’’ما استطعتم ‘‘ جس حد تک کہ تمہارے اندر قدرت و توانائي ہو ۔ ’’في هذه الايام الخالية الفانية ‘‘ اس جلدي گزرنے والي فاني دنيا ميں جتنا ممکن ہو اطاعت خدا کرو ۔ ’’ و اعداد العمل الصالح الجليل يشفي بہ عليکم الموت ‘‘ اور عمل صالح کے ذريعہ ان تمام مشکلات و مصائب کا سد باب کرو کہ جنھيں موت تمہارے اوپر طاري کردے گي ۔
موت کي سختيوں اور مشکلات کا اندازہ صرف اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ اوليائے خدا اور بزرگان دين موت سے مقابلے کے خوف سے لرزہ بر اندام ہو جاتے تھے ۔ موت کے بعد عالم برزخ کے حوادث علمائ اور اوليائ کہ جو کسي حد تک ان حوادث و مصائب کي سختيوں کا آشنا ہوتے ہيں کو لرزا کر رکھ ديتے تھے ۔ ان مشکلات اور سختيوں سے مقابلے کي فقط ايک ہي راہ ہے اور وہ ہے عمل صالح ۔ ’’ و امر کم بالرفض لھذہ الدنيا التارکۃ لکم ‘‘ فرماتے ہيں کہ ميں تمہيں حکم ديتا ہوں کہ اس دنيا کي رنگينياں اور آتي جاتي خوشياں جو تمہيں ايک دن چھوڑ جائيں گي ،کو ابھي سے خير بار کہہ دو ۔ حد سے بڑھ کر ماديات دنيا کي طرف مت بھاگو کيونکہ ’’ الزائلۃ عنکم ‘‘ يہ سب چلي جانے والي ہيں ۔ ’’ و ان لم تکونوا تحبون ترکھا ‘‘ در حاليکہ تم نہيں چاہتے کہ يہ مال اور عيش و عشرت تمہيں چھوڑ کر کہيں اور چلا جائے حالانکہ يہ ہو کر رہے گا ۔ ’’ والمبيلۃ لاجسادکم و ان احببتم تجديدھا ‘‘ يہ دنيا تمہارے جسموں کو خاک ميں ملا کر نيست و نابود کر دے گي اگر چہ تم يہي چاہتے ہو کہ دوبارہ زندہ ہو جائيں ۔ ’’ فانما مثلکم کرکب سلکوا سبيلاً فکانھم قد قطعوا و افضوا الي علم فکانھم قد بلغوہ ‘‘ تم ايک راستہ پر تيزي کے ساتھ آگے بڑھے جا رہے ہو کہ تمہيں دور کسي ايک نشانے تک پہنچنا ہے ليکن تم اس نشانے کو ابھي واضح اور روشن طور پر نہيں ديکھ پا رہے ہو ۔ ايک وقت وہ بھي آئے گا کہ جب تم خواہ نخواہ اس تک پہنچ جاو گے ۔ يہ راستہ ، يہي فاني دنيا ہے ۔ اور وہ نشانہ اور منزل وہي موت اور اجل ہے جس کو آنا ہي آنا ہے ’’ فلا تنافسوا في عز الدنيا و فخرھا ‘‘ اس دنيا کي ظاہري عزت اور جاہ و جلال کے لئے ايک دوسرے سے حسد نہ کرو اور جھگڑا نہ کرو ۔’’ ولا تجزعوا من ضراعھا و بووسھا ‘‘ دنيا کي ان مختصر سي سختيوں وار پريشانيوں سے تھکان اور خستگي محسوس نہ کرو ۔ ’’ فان عز الدنيا و فخرھا الي انقطاع ‘‘ دنيا کي عزت اور فخر و حشمت ختم ہو جانے والا ہے ۔ ’’ و ان زينتھا و نعيمھا اليارتجاع ‘‘ زيبائي و خوبصورتي اور يہ نعمتيں گذر جانے والي ہيں ۔ يہ جواني ، حسن اور خوبصورتي بڑھاپے اور بد صورتي ميں تبديل ہو جائيں گي ۔ ’’ و ان ضراعھا و بوسھا الي نفاذ ‘‘ اور يہ سختياں اور پريشانياں بھي ختم ہو جائيں گي ۔ ’’ و کل مد ۃ منھا الي منتھا ‘‘ اس کائنات کا يہ زمان و مکان روبہ زوال اور ختم ہو جانے والا ہے ۔ ’’ و کل حي فنيھا الي بلي ‘‘ تمام جانداران موت کي آغوش ميں سو جانے والے ہيں ۔
يہ جملے اس ذات با برکت کي زبان مبارک سے جاري ہوئے ہيں جس کانام علي ہے۔ وہي علي جو اپنے ہاتھوں سے کھيتي کرتے تھے اور کنويں کھودتے تھے ۔ يہ جملے اس وقت کے ہيں جب آپ حکومت فرما رہے تھے ۔ دنيا کے ايک بڑے حصے پر آپ کي حکومت تھي ۔ آپ نے جنگيں بھي لڑي ہيں ، صلح بھي کي ہے ، سياست بھي کي ہے ، بيت المال بھي آپ کي نگراني ميں تقسيم ہوتا تھا ۔ ان سب کے باوجود بھي آپ متقي تھے ۔ لہذا تقوي کا مطلب يہ نہيں ہے کہ دنيا سے قطع تعلق کردیا جائے ۔ تقوي سے مراد يہ ہے کہ انسان اپني ذات کو تمام دنياوي اور مادي امور کا محور قرار نہ دے ، اپني خاطر اپني تمام قوتوں اور صلاحيتوں کو صرف نہ کر ے ، اپني زندگي کے لئے دنيا کو جہنم نہ بنا ئے، مال ، عيش و عشرت اور آرام و سکون کي خاطر دوسرے ہزارہا افراد کي زندگيوں کا سودا نہ کر ے ۔
تقوي يعني يہ کہ اپني ذات سے صادر ہونے والے تمام امور پر سخت نظر رکھي جائے ۔ کوئي بھي قدم اٹھايا يا فيصلہ ليا جائے تو يہ خيال مد نظر رہے کہ کہيں اس سے خود يا دوسرے افراد يا معاشرے کو نقصان تو نہيں پہنچ رہا ہے ۔
تقوي تمام برکات کا سر چشمہ ہے
اگر کوئي فرد يا قوم با تقوي ہو جائے تو تمام خیروبرکات دنيا و آخرت اس فرد يا قوم کا خاصہ ہو جائيں گي ۔ تقوي کا ماحصل فقط يہ نہيں ہے کہ رضائے خدا حاصل کر لي جائے يا جنت کا دروازہ اپنے اوپر کھول ليا جائے بلکہ تقوي کا فائدہ اس دنيا ميں بھي حاصل کيا جا سکتا ہے ۔با تقوي معاشرہ اس دنيا ميں بھي خدا کي نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہے ۔ تقوي کے ذريعے دنياوي عزت کے ساتھ ساتھ امور دنيا سے متعلق علم بھي خدا وند عالم کي جانب سے عنايت کر ديا جاتا ہے ۔ با تقوي معاشرہ کي خاصيت يہ ہوتي ہے کہ ايسے معاشرے کي فضا سالم ، محبت آميز اور حسد و نفاق و تعصاب سے پاک ہوتي ہے ۔
تقوي کے ذريعے ہي قدرت خدا کاحصول ہوسکتاہے
ايمان، تقوي اور عمل صالح اس بات کي ضمانت ہيں کہ تمام قدرت خدا ، نعمات الہي اور ساري کائنات پر دسترسي حاصل کي جا سکتي ہے ۔ دشمن کسي بھي ميدان سے ، کسي بھي صورت ميں حملہ کر دے ، ايک با تقوي قوم کا بال بھي بیکانہيں کر سکتا ۔ خدا وند عالم نے بڑے سادہ الفاظ ميں اس گفتگو کا ما حصل صرف ايک آيت ميں بيان فرمايا ہے: ’’و لا تهنوا ‘‘ سستي نہ کرو ۔ ’’و لا تحزنوا ‘‘ غمگين مت ہو ۔ ’’و انتم الاعلون ان کنتم مومنين ‘‘ تم کو برتري حاصل ہے ليکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر تم مومن ہو ۔ دوسري جگہ پر ارشاد فرمايا : ’’و لا تهنوا و تدعوا الي السلم ‘‘ يعني سستي نہ کرو اور نہ ہي دشمن کي سازشانہ دعوت کو قبول کرو ۔
ايران کے اسلامي انقلاب کے بعد اگرجمہوري اسلامي پر ايک غائرانہ نظر ڈالي جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ جن جن شعبہ ہائے حيات ميں اقدار اسلامي کي حفاظت کي گئي ہے وہاں وہاں رشد و ترقي ہوئي ہے اور جن جن شعبو ں ميں اسلامي احکام و اقدار و اخلاق اسلامي سے چشم پوشي کي گئي ہے ان ان شعبوں ميں پسماندگي آج بھي موجود ہے ۔
دنيا کے دوسرے ممالک ميں بھي يہي صورت حال ہے ۔ جہاں جہاں معنويت ، انسانيت اور الہي اقدار سے منہ موڑ ليا گيا ہے وہاں وہاں ديکھا جا سکتا ہے کہ زندگي کس قدر دشوار ہے ، کس قدر نا امني اور بے چيني ہے ۔ ايسے معاشروں ميں قتل و غارت گري اور دہشت گردي زيادہ ہے ۔ ہر چند يہ لوگ اناجتماعي مشکلات و مسائل کے اسباب تلاش کرنے کي کوشش کرتے ہيں ليکن کسي بھي طرح اصلي اور حقيقي علت اور سبب کو تلاش نہيں کر سکے ہيں ۔ ايک ماں اپنے بچے کو قتل کر ديتي ہے ، فوراً ہي لوگوں کا وجدان تڑپ اٹھتا ہے ، صدائيں بلند ہونے لگتي ہيں کہ ايسي ماں کو سولي پر چڑھا ديا جائے ۔ يہ لوگ اس بات سے غافل ہيں کہ ان کي بنياد خراب ہو چکي ہے ۔ ان معاشروں کي بد بختي يہ ہے کہ يہ خدا ، معنويت اور اخلاق سے پشت پھير کر فساد و قتل و غارت گري کے عادي ہو گئے ہيں ۔
مادي اور مالي فساد کسي بھي قيمت پر خوشحالي کا ضامن نہيں بن سکتا۔ جس کي واضح مثال امريکہ ہے۔ ہر چند کہ امريکہ ميں زندگي کے تقريباً تمام شعبوں ميں ہمہ جہت ترقي ہوئي ہے ليکن اس کے باوجود امريکي عوام جن اخلاقي اور معنوي مشکلات کا شکار ہيں ان سے ساري دنيا واقف ہے ۔ انھيں اخلاقي اور معنوي اقدار کي قلت کي بنا پر امريکہ موجودہ صورت حال سے دوچار ہے ۔ وہ صورت حال کہ جس ميں ايک ماں اپني تسکين شہوت اور ذاتي مفاد کي خاطر اپنے ہاتھوں سے اپنے بيٹے کا قتل کر ديتي ہے ۔
بوسنيا اور ہرزيگوونيا ميں کيا نہيں ہوا ؟ مغلوں کے انداز ميں افواج ’’ سر بريسٹيا ‘‘ ميں گھس کر وحشيانہ انداز ميں قتل و غارت گري کرتي رہيں اور نام نہاد متمدن اقوام و ملل کے کان پر جوں تک نہيں رينگي ۔ اس پر ستم يہ کہ يہي لوگ حقوق بشر کے علمبردار ہونے کا دعوي کرتے ہيں ! کيا ايک شہر ميں ہزاروں معصوم مرد ، عورت اور بچوں کا وحشيانہ قتل عام حقوق بشر کي خلاف ورزي نہيں ہے ؟ جمہوري اسلامي اخلاق اور اسلامي احکام و شريعت کي محافظت کي بنا پر آج ساري دنيا ميں ايک باعزت مقام حاصل کر سکا ہے ۔ آج جب کہ دنيا کي بڑي بڑي طاقتيں ، دنيا کے دوسرے چھوٹے چھوٹے ملکوں کے سربراہان مملکت اور وزرائے اعظم سے اپني غلامي کرانا اپنا پيدائشي حق سمجھتي ہيں ، ايران ايک مستقل اور آزاد ملک کي حيثيت سے آزاد زندگي گذار رہا ہے ۔ کسي کي اتني مجال نہيں ہے کہ ايران سے غير عادلانہ طور پر ايک حرف يا ايک کلمہ کو قبول کرا لے ۔ يہ سب فقط اور فقط اسلام اور اسلامي اخلاق و معنويات اور اسلامي احکامات اور شريعت کي برکتيں ہيں اور بس ۔
اخلا ق و معنویت
مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
رمضان المبارک کے ضروری احکام: چھ،6 سوالات اور ان کے جوابات
حجتالاسلام والمسلمین سید محمدتقی محمدی شیخ نے رمضان المبارک سے متعلق چھ اہم سوالات کے جوابات دیے، جن میں فدیہ، بیماری کی حالت میں روزہ، قضا اور کفارہ شامل ہیں۔
1. دائمی بیماری اور روزے کا فدیہ
اگر کوئی شخص پچھلے سال بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکا اور اس کی بیماری مستقل ہو، یعنی وہ پورے سال میں بھی قضا نہیں رکھ سکا، تو اس پر روزے کی قضا واجب نہیں، اس کے بجائے، اسے ہر دن کے بدلے ایک مد طعام (تقریباً 750 گرام گندم، آٹا، نان، چاول یا کھجور) کسی فقیر کو دینا ہوگا۔
فدیہ کی پیشگی ادائیگی:
مختلف مراجع تقلید کے اس بارے میں دو نظریے ہیں:
1. آیتالله مکارم شیرازی، آیتالله فاضل لنکرانی اور آیتالله بهجت کے مطابق، رمضان سے پہلے بھی فدیہ دیا جا سکتا ہے۔
2. رہبر معظم آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق، فدیہ رمضان کے آغاز کے بعد ہی ادا کرنا ضروری ہے۔
2. روزے کی قضا اور کفارہ تأخیر
وہ افراد جو بیماری، سفر یا خواتین کے مخصوص عذر کی وجہ سے پچھلے سال روزے نہیں رکھ سکے، انہیں اگلے رمضان سے پہلے قضا کرنی چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو قضا کے ساتھ کفارہ تأخیر بھی دینا ہوگا، جو ہر روزے کے بدلے 750 گرام طعام ہے۔
کفارہ دینے کا وقت:
بعض مراجع جیسے آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ فاضل لنکرانی کے نزدیک، قضا رمضان سے پہلے مکمل کرنا واجب ہے۔
امام خمینی علیہ الرحمہ، رہبر معظم اور آیت اللہ وحید خراسانی کے نزدیک، احتیاط واجب ہے کہ رمضان سے پہلے قضا کر لی جائے۔
آیت اللہ خویی اور آیت اللہ سیستانی کے نزدیک، قضا رمضان سے پہلے کرنا مستحب ہے، واجب نہیں۔
3. پرانے کفارے کی ادائیگی
اگر کسی پر کئی سال سے کفارہ واجب تھا اور اس نے ادا نہیں کیا، تو اسے آج کے حساب سے 750 گرام طعام فقیر کو دینا ہوگا، قیمت کا تعین ضروری نہیں۔
4. کفارہ کس کو دیا جا سکتا ہے؟
والدین، اولاد یا وہ رشتہ دار جو نفقہ کے محتاج ہوں، انہیں کفارہ نہیں دیا جا سکتا۔
دیگر رشتہ دار جیسے بھائی، بہن، خالہ، چچا یا داماد کو دیا جا سکتا ہے، چاہے وہ گھر میں والدین کے ساتھ ہی کھاتے ہوں۔
5. کفارہ کو کسی اور چیز میں تبدیل کرنا
کفارہ صرف طعام کی صورت میں دیا جا سکتا ہے، اسے دوا، کپڑے یا دیگر ضروریات کے لیے رقم میں تبدیل کرنا جائز نہیں۔
البتہ گندم کی جگہ چاول یا آٹا دیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ مقدار 750 گرام ہو۔
6. یوم الشک کا روزہ
یوم الشک (29 یا 30 شعبان) کے دن روزہ رکھنے کے لیے نیت قضا یا مستحب روزے کی کرنی ہوگی، کیونکہ یقین کے بغیر رمضان کی نیت کرنا درست نہیں۔ اگر بعد میں معلوم ہو کہ یہ رمضان کا پہلا دن تھا، تو یہ روزہ رمضان کے روزے کے طور پر شمار ہوگا۔
سلمان فارسی کا مرقد
شہر مدائن بغداد سے تقریبا ۳۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر جنوب مشرق میں واقع ہے اور جہاں پرمسجدسلمان محمدی موجود ہے کہ جو کہ بغداد کے پرانے مقابر اور آثار قدیمہ میں سے ایک ہے۔
یہ مسجد مغربی طرز تعمیر کی حامل ہے اور عثمانی اور عباسی حکمرانوں نے مغربی طرز پر اس پر عمدہ نقاشی کی ہے۔ اور آج بھی اپنی عظمت وخوبصورتی کے ساتھ موجود ہے۔ مسجد سلمان محمدی کہ جہاں سلمان فارسی مدفون ہیں اس کا گنبد سطح زمین سے ۱۷ مٹر بلند ہے اور اس کی دو منزلیں ہیں جن کی بلندی 23.2 مٹر ہے، جن کا تعمیراتی احاطہ ۱۰۰۰۰ مربع میٹر ہے، اور یہ تقریبا مستطیل شکل میں واقع ہے، یہ چوڑائی میں ۸۸ میٹر اور لمبائی میں ۱۲۵ میٹر ہے۔ اس کے چار سپ گیٹس اور تین مین گیٹس ہیں؛ پہلا گیٹ بغداد کی طرف ہے اس کو بابِ امام موسیٰ کاظم ؑ کہاجاتا ہے، ایک گیٹ بابِ فاطمہ الزہرا علیہا السلام کے نام سے موجود ہے جو کہ دریا دجلہ کی طرف کھلتا ہے اور تیسرا اہم گیٹ باب امام علیؑ کے نام سے موجود ہے جو نجف اشرف کی طرف کھلتا ہے۔
یہ مسجد ابتداء میں جب بنائی گئی اس وقت ۴۰۰۰ مربع میٹر پر محیط تھی، اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں توسیع ہوتی رہی اور آج اس کی وسعت ۵۰۰۰۰ مربع میٹر تک جا پہنچی ہے۔ اور اب اس میں ایک بڑا ہال، ایک مہھمان خانہ، ایڈمن بلاک، اور خدمات اور صحت کی سہولیات بھی موجود ہیں۔
یہ ایک باعظمت اور پر شکوہ مسجد ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں عظیم صحابی رسول حضرت سلمان فارسیؓ کا مرقد بھی ہے، اس کے علاوہ صحابی رسول حذیفہ یمانی (صاحب سر ِرسولؓ)، امام محمد باقر ؑ کے فرزند طاہر بن محمد کے مزارات بھی اسی کے قرب وجوار میں واقع ہیں کہ جنہیں سنہ ۱۹۳۰ ہجری میں بغداد میں آنے والے بڑے سیلاب کے نتیجے میں یہاں منتقل کیا گیا۔ اسی طرح اس کی ایک جانب صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کی قبر اور مسجد امام حسن عسکری علیہ السلام بھی موجود ہے۔
جناب سلمان محمدی نسب کے اعتبار سے فارسی تھے، اور آپ کا نام زوربه بن خشبوذان تھا جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ آپ کا اصل نام بن خشبوذان تھا، آپ ایران کے شہر اصفہان میں پیدا ہوئے، آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک عظیم اور جلیل القدر صحابی تھے اور آپ نے ایمان اور پرہیزگاری کی وجہ سے رسول گرامی اسلام کے ہاں ایک عظیم منزلت اور مرتبہ حاصل کیا۔ یہاں تک کہ آپ کے بارے میں یہ کہا گیا: کہ سلمان ہم اہل البیت میں سے ہیں۔
اور آپ کی عظمت اور رفعت کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جنت تین اشخاص کی مشتاق ہے: علی ابن ابی طالب، عمار یاسر اور سلمان۔اسی طرح آپ کو سلمان خیر بھی کہا جاتا تھا۔
جناب سلمان فارسی نے بہت سی اسلامی جنگوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں شرکت کی، اور آپ ایک بہادر، اور نڈر مرد تھے۔
جنگ (احزاب) یعنی جنگ خندق میں خندق کھودنے کی تجویز بھی آپؓ ہی نے پیش کی تھی، اور آپ ایک بہترین اور تجربہ کار سیاست دان بھی تھے، اسی وجہ سے خلیفہ دوم کے دور خلافت میں آپ کو مدائن کا گورنر بنا کر بھیجا گیا، اور آپ اس منصب پر تا دم حیات فائز رہے، یہاں تک کہ سنہ ۳۵ یا ۳۶ ہجری میں آپ وفات پاگئے اورآپ کو امیر المؤمنین علی ابی طالبؑ کی موجودگی میں وہیں دفن کیا گیا۔ آپ ؓ امیر المؤمنینؑ کے خواص میں سے تھے، آپ نے پہلی ہجری میں ہی اسلام قبول کیا، اسی لیے سابقین اولین میں سے ہونے کا بھی شرف حاصل تھا۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین علیؑ فرماتے ہیں: رسول گرامی اسلام پر سب سے پہلے ایمان لانے والے پانچ افراد ہیں اور مجھے ان سب میں سے پہلے اسلام لانے شرف حاصل ہے، اسی طرح ان میں سے سلمان فارس کے رہنے والے ، صہیب روم کے رہنے والے، بلال حبش کے رہنے والے، اور خبّاب نبط کے رہنے والے تھے۔
حضرت سلمان محمدی ؓ زہد وتقویٰ کے اس درجہ پیکر تھے، کہ جب آپ کو خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب کی طرف سے مدائن کی گورنری کی پیش ہوئی تو آپ نے انکار کیا، یہاں تک کہ امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب سے اجازت ملی تب جاکر کہیں اس عہدہ کو قبول کیا اور مدائن کے گورنر بن گئے۔ آپ کی سادگی کی یہ مثال تھی کہ باوجود اس کے آپ گورنری کے منصب پر فائز تھے خود ہی لکڑی چنتے تھے، اور آپ کے پاس ایک عبائیہ تھی، جس کا ایک حصہ آپ بچھاتے تھے اور ایک حصہ اوڑھتے تھے، اورگورنر ہونے کے عوض سے جب بیت المال سے آپ کو کچھ ملتا تھا تو اسے راہ خدا میں صدقہ کے طور پر دیدیتے تھےاور اس کے علاوہ آپ گورنر ہونے کے باوجود ٹوکریاں بنایا کرتے اور فروخت کرتے تھے، اور اسی قیمت سے اپنا خرچہ نکالتے تھے۔ اور جب لوگ آپ کی اس سادگی پر اعتراض کرتے تھے تو آپ اس کے جواب میں کہتے تھے کہ مجھے اپنی محنت اور مزدوری سے ہی کھانا کھانا پسند ہے۔