سلیمانی

سلیمانی

 مصری وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ میں اسکول پر بمباری کی شدید مذمت کی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے ثالثوں کی کوششوں کے باوجود صیہونی حکومت کی جانب سے عام شہریوں کے خلاف جرائم میں اضافے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس حکومت کا جنگ ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے.

اردن کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ میں التابعین اسکول پر صیہونی حکومت کی بمباری بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور شہریوں کی نسل کشی کے منصوبے میں تسلسل کے ساتھ  پناہ گاہوں کو نشانہ بنانا ہے۔

لبنان کی وزارت خارجہ نے تاکید کی کہ غزہ پر بمباری اور بچوں اور عام شہریوں کی ہلاکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی کابینہ بین الاقوامی قوانین کی پرواہ نہیں کرتی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کی کوششوں کے باوجود جرائم میں اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل جنگ کو طول دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ عالمی برادری غزہ میں فلسطینیوں کے تحفظ اور انسانی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک سنجیدہ موقف اختیار کرے۔

قطر کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں التابعین اسکول پر صیہونی حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

قطر نے صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ میں اسکولوں اور پناہ گاہوں کو بار بار نشانہ بنائے جانے پر فوری بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔


 

سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام اور خطے میں بے مثال انسانی تباہی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس سے قبل مختلف فلسطینی گروہوں نے غزہ کے التابعین اسکول پر صیہونی بمباری میں امریکہ کو بھی برابر کا شریک جرم قرار دیا اور کہا کہ تل ابیب، فلسطینی پناہ گزینوں کا قتل عام امریکہ کے عطیہ کردہ ہتھیاروں سے کرتا ہے۔

نجف اشرف میں مرجع تقلید آیت اللہ سیستانی کے دفتر نے اپنے بیان میں صیہونی فوج کے التابعین اسکول کو نشانہ بنانے کے جرم کی مذمت کی اور کہا کہ یہ بھیانک جرم پے درپے ان جرائم کا سلسلہ ہے جو گزشتہ ماہ 10 سے جاری ہیں۔

ادھر یمن کی انصار اللہ تحریک نے غزہ شہر کے التابعین اسکول پر صیہونی حکومت کے حملے میں 100سے زائد فلسطینی پناہ گزینوں کی شہادت کے ردعمل میں ایک بیان میں کہا کہ صیہونی حکومت نے خونریزی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور فلسطینی قوم کے خلاف ایک کے بعد ایک جرم کی مرتکب ہو رہی ہے۔

 

صیہونیوں کے وحشیانہ حملوں بشمول التابعین اسکول پر آج کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے جس میں 100 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، عراق کے وزیر اعظم نے تاکید کی کہ صیہونیوں کے مظالم کے خلاف غزہ میں خواتین کی استقامت اور اپنے بچوں کے ساتھ صیہونیوں کے خلاف مزاحمت قابل فخر ہے اور یہ خواتین کا صبر ہی ہے جس نے غزہ کو زندہ رکھا ہے۔

ارنا  کے مطابق، صہیونی فوج نے اپنے تازہ ترین جرم میں ہفتے کی صبح غزا کے محلے الدرج میں التابعین نامی اسکول پر صبح کی نماز کے دوران بمباری کرکے 100 سے زائد فلسطینی نمازیوں کو شہید اور متعدد کو زخمی کردیا۔

خبر رساں ذرائع کے مطابق اس اسکول میں 200 کے قریب فلسطینی پناہ گزین صبح کی نماز ادا کر رہے تھے جب انہیں صیہونی فضائی حملے کا نشانہ بنایا گیا۔

فکر اسلامی میں موت و حیات وجود و عدم کی طرح دو مفہوم نہیں ہیں، جس طرح فلسفہ میں سمجھا جاتا ہے جس کا نتیجہ آخرت کے جزاء و سزا کا انکار ہے۔دنیا کی زندگی انسان کی زندگی کا پہلا مرحلہ ہے جو وجود انسانی کی صورت میں ہے اور موت اس پہلے مرحلے کے اختتام  کانام ہے۔یہی موت زندگی کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے اور وہ آخرت ہے۔اس لیے موت کو عدمی وجود نہیں بلکہ ایک امر وجودی ہے جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلً) (هود-7)

اس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں حَسن عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے۔

زندگی کے مراحل

اسلامی نقطہ نظر سے زندگی کا مفہوم فقط اسی جاری زندگی  پر منحصر نہیں ہے یہ زندگی کا ایک حصہ ہے زندگی تین طرح کی ہوتی ہے:

۱۔ دنیا کی زندگی جس میں ہم جی رہے ہیں۔

۲۔ آخرت یعنی قیامت کی زندگی ہم جس کی طرف بڑھ رہے ہیں،اس زندگی میں جنت ملے گی یا جہنم ملے گی۔

۳۔ برزخ کی زندگی جو ان دو کے درمیان ہے یہ یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔

فنا نہیں بقا

عربی میں خلود اس ابدی زندگی کو کہا جاتا ہے جس کی کوئی حدہو نہ حساب،

اصطلاح میں عام طور پر اس کا اطلاق  موت کے بعد والے مرحلے پر ہوتا ہے ۔انسان باقی رہنے کےلیے بنا ہے فنا ہونے کے لیے نہیں بنا۔موت اختتام سفر نہیں بلکہ ایک حالت سے دوسرے حالت میں جانے کا نام ہے،اس زندگی سے دوسری زندگی کی طرف۔یہ بقا جنت اور جہنم کی صورت میں ہو گی یعنی یا تو ہمیشہ کے لیے جنت ہو گی یا  ہمیشہ کے لیے جہنم۔ تمام آسمانی ادیان کی تعلیمات یہی ہیں کہ انسان قیامت کے دن اپنے اعمال کے نتائج کی بنیاد پر جنت یا جہنم جائے گا۔

ماہ صفر ہجری سن کا دوسرا مہینہ ہے۔ جناب شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ نے مفاتیح الجنان میں لکھا ‘‘یہ مہینہ اپنی نحوست کے ساتھ مشہور ہے۔ ’’ مرحوم محدث ؒ نے لفظ مشہور تحریر فرمایا یعنی اس کی نحوست کے سلسلہ میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے اور اگر کوئی روایت ہے بھی تو روایات و احادیث کے ماہرین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور بعض علماء نے اس کی نحوست کی شہرت کی دو وجہیں جانی ہیں ۔ ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت ۔ دوسرے تین حرام مہینوں (ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم) کے بعد اس ماہ کی آمد ہے۔ المختصر اس کی نحوست قرآن و احادیث سے ثابت نہیں ہے ، لہذا تیرہ تیزی کی بھی کوئی دینی اور شرعی حیثیت نہیں ہے۔

شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ نے مفاتیح الجنان میں اس ماہ کے اعمال ، نمازیں اور دعائیں بیان کی ہیں جو عمل کرنے والوں کے لئے مصیبت و بلا سے حفاظت کی ضامن ہیں۔

ذیل میں ماہ صفر کی مناسبتیں پیش ہیں:

یکم صفر المظفر
1۔مکہ مکرمہ کے تین نامور مشرکوں عمرو بن عاص، خالد بن وليد اور عثمان بن أبی طلحہ نے اسلام قبول کیا۔ سن 8 ہجری
2۔ جنگ صفین سن 37 ہجری
3۔ اسیران کربلا شام پہنچے ۔ سن 61 ہجری
4۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے فرزند جناب زید شہید رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اموی حکومت کے خلاف قیام کیا۔ سن 122 ہجری

2؍ صفر المظفر
1۔ اسیران کربلا دربار یزید پلید میں سن 61 ہجری
2۔ شہادت جناب زید ابن امام زین العابدین علیہ السلام۔ سن 122 ہجری
3۔ وفات علامہ احمد امین (صاحب تفسیر الکبیر) سن 1390 ہجری

3؍ صفر المظفر
1۔ ولادت امام محمد باقر علیہ السلام (ایک روایت) سن 57 ہجری
2۔ وفات عالمہ محدثہ حافظہ عابدہ زاہدہ سید نفیسہ (از نسل امام حسن مجتبی علیہ السلام) قاہرہ مصر۔ سن 208 ہجری
2۔ ولادت بو علی سینا (عظیم فلسفی اور نامور حکیم) سن 370 ہجری
3۔ معروف اہل سنت شافعی محدث، مورخ اور قاضی ابوعبدالله حاکم نیشابوری نے اس دنیا سے رحلت کی۔ سن 405 ہجری
4۔ وفات آیۃ اللہ العظمیٰ محمد علی شاہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ (استاد امام خمینیؒ) سن 1369 ہجری

4؍ صفر المظفر
1۔ واقعہ کربلا کی خبر مدینہ منورہ پہنچی ۔ سن 61 ہجری
2۔مغول بادشاہ ہلاکو خان نے عباسی حکومت کا خاتمہ کیا۔ سن 656 ہجری

5 صفر المظفر
1۔ شہادت حضرت رقیہ بنت الحسین علیہماالسلام در شام سن 61 ہجری

6؍ صفر المظفر
ً 1۔ وفات شاعر اہلبیتؑ جناب شہریار مرحوم سن 1409 ہجری
فارسی زبان وادب کے معروف شاعر جناب سید محمد حسین شہریار مرحوم کا مشہور کلام ’’علیؑ ای ہمائی رحمت توچہ آیتی خدا را‘‘ ہے۔

7؍ صفر المظفر
1۔ شہادت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلا م (بروایت شیخ مفید ؒ) سن 50 ہجری
2۔ ولادت حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سن 128 ہجری
3۔ وفات آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی رحمۃ اللہ علیہ (مرجع تقلید و بانی کتب خانہ مرعشیؒ قم مقدس) سن 1411 ہجری

8؍ صفر المظفر
1۔ وفات حضرت سلمان محمدی (فارسی ) رضوا ن اللہ تعالیٰ علیہ سن 36 ہجری
جناب سلمان فارسی ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی اور امیرالمومنین علیہ السلام کے حامی تھے۔ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں۔
2۔ وفات مرجع عالی قدر استاد الفقہاء والمجتہدین آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی رحمۃ اللہ علیہ۔ سن 1413 ہجری

9؍ صفر المظفر
1۔ شہادت حضرت عمار یاسر علیہ السلام سن 37 ہجری
اسلام کے پہلے شہید حضرت یاسر اور حضرت سمیہ کے فرزند حضرت عمار یاسر علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے سچے شیعہ اور حامی تھے۔ حضورؐ نے آپ کے سلسلہ میں فرمایا:’’ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘ جنگ صفین میں آپ کی شہادت لشکر شام کی ابدی رسوائی کا سبب بنی۔
2۔ شہادت حضرت خزیمہ بن ثابت علیہ السلام۔ سن 37 ہجری
حضرت خزیمہ بن ثابت علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے۔ رسالت مآب ؐ پر یقین و اطمینان کے سبب حضورؐ نے آپ کو ذوالشہادتین (یعنی آپ کی تنہا گواہی دو عادل گواہوں کی گواہی کے برابر ہے)کا لقب دیا۔ جنگ صفین میں آپ کی شہادت بھی جناب عمار کی شہادت کی طرح امیرالمومنین علیہ السلام کی حقانیت اور لشکر شام کی رسوائی کا سبب بنی۔
3۔ شہادت صحابی رسول جناب عبداللہ بن بدیل خزائی علیہ السلام۔ سن 37 ہجری
جناب عبداللہ بن بدیل خزائی علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے۔ خلیفہ سوم کے قتل کے بعد آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے امیرالمومنین علیہ السلام کے دست مبارک پر سب سے پہلے بیعت کی۔ جنگ جمل و صفین میں امیرالمومنین علیہ السلام کی رکاب میں جنگ کی اور جنگ صفین میں ہی شہید ہوئے۔ نیز آپ حدیث غدیر کے گواہ بھی تھے۔
4۔ جنگ نہروان۔ سن 39 ہجری
5۔ وفات علامہ سید محمد حسینی طہرانی رحمۃ اللہ علیہ(مولف اللہ شناسی، امام شناسی، معاد شناسی وغیرہ) سن 1416 ہجری

10؍ صفر المظفر
1۔ سریہ بئر معونہ سن 4 ہجری
سریہ بئر معونہ کہ جسمیں مشرکین نے وعدہ کے برخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نمایندوں کو شہید کر دیا۔ حضورؐ نے چالیس دن تک نماز صبح کے بعد قاتلوں پر لعنت کی۔
2۔ لشکر شام نے جنگ صفین میں قرآن کریم کو نیزوں پر بلند کیا ۔ سن 37 ہجری
3۔ شہادت حضرت سکینہ بنت الحسین سلام اللہ علیہا (مشہور)
4۔ وفات آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالہادی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ سن 1382 ہجری

11؍ صفر المظفر
1۔ لیلۃ الہریر (جنگ صفین میں وہ شب جسمیں امیرالمومنین علیہ السلام اور لشکر شام میں شدید جنگ ہوئی۔) سن 37 ہجری
2۔ وفات علامہ اردوبادی رحمۃاللہ علیہ ۔ سن 1380 ہجری
چودہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم، فقیہ اور شاعر علامہ محمدعلی غروی اردوبادی رحمۃ اللہ علیہ نے آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ الشریعہ اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ ، آیۃ اللہ العظمیٰ محمدحسین غروی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ محمدجواد بلاغی رحمۃ اللہ علیہ سے کسب فیض کیا اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ آپ نے کتاب ’’الغدیر‘‘ میں علامہ امینی رحمۃ اللہ علیہ کی مدد کی اور اس کی ادبی تسامحات کو دور کیا۔ اسی طرح شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ کی معروف کتاب ’’الکنیٰ والالقاب‘‘ میں نمایاں خدمات اس شرط کے ساتھ انجام دی کہ کتاب میں کہیں بھی انکا ذکر نہیں ہوگا۔ اسی طرح مختلف اسلامی موضوعات پر تیس سے زیادہ کتابیں لکھی اور اہلبیت علیہم السلام کی مدح میں قصائد اور مصیبت میں مرثیہ لکھے۔

12؍ صفر المظفر
1۔ وفات نبی خدا حضرت ہارون علیہ السلام (کلیم خدا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی اور وزیر)
2۔ صلح ابوا (یا ودان) سن 2 ہجری
قبیلہ ضمرہ کی دھمکیوں کا جواب دینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لشکر لے کر ابوا تشریف لے گئے۔ جب قبیلہ ضمرہ نے لشکر اسلام کو دیکھا تو صلح کی پیشکش کی۔ حضورؐ نے ان کی درخواست قبول کی اور مندرجہ ذیل شرطوں پر صلح ہوئی۔
الف۔ ایک دوسرے کے خلاف لشکر اور اسلحہ جمع نہیں کریں گے۔
ب۔ ایک دوسرے کے دشمن کی کسی بھی طرح کی مدد نہیں کریں گے۔
3۔ حکمیت کا معاملہ طے ہوا۔ سن 37 ہجری
میدان صفین میں شکست سے بچنے کی خاطر حاکم شام نے قرآن کریم کو نیزہ پر بلند کرایا۔ جس سے امیرالمومنین علیہ السلام کے لشکر میں موجود منافقین اور ضعیف العقیدہ سپاہی دھوکہ کھا گیا ۔ نتیجہ میں دونوں لشکر کی جانب سے حکمیت طے ہوئی کہ ابوموسیٰ اشعری امیرالمومنین علیہ السلام کا نمایندہ منتخب ہوا اگرچہ مولا اس انتخاب سے راضی نہیں تھے اور عمروعاص حاکم شام کا نمایندہ مقرر ہوا۔ عمروعاص نے ابوموسیٰ اشعری کو دھوکہ دے کر کامیابی حاصل کر لی۔ لیکن افسوس جن لوگوں نے آپ کو حکمیت اور ابوموسیٰ اشعری کو بطور حکم قبول کرنے پر مجبور کیا تھا وہی لوگ شکست کھانے کے بعد آپ کے مخالف ہو گئے۔ جس کے نتیجہ میں جنگ نہروان ہوئی ۔

13؍ صفر المظفر
1۔ وفات امام نسائی ۔ سن 303 ہجری
اہلسنت کے معروف عالم، محدث اور مولف جناب احمد بن علی العروف بہ امام نسائی جنکی کتاب ’’السنن‘‘ صحاح ستہ میں شامل ہے۔ امام نسائی جب مصر سے شام پہنچے تو وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام پر سب و شتم کر رہے ہیں تو شام والوں کی ہدایت کے لئے ایک کتاب’’خصائص امیرالمومنینؑ‘‘ لکھی ۔ اہل شام نے حاکم شام کی فضیلت میں ان سے روایت پوچھی تو انھوں نے کہا کہ مجھ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صرف یہ روایت پہنچی کہ ’’خدا اس کے شکم کو سیر نہ کرے‘‘ یہ سننا تھا کہ شام والوں نے امام نسائی کو اتنا مارا کہ وہ موت سے نزدیک ہو گئے ۔ انھوں نے کہا کہ مجھے مکہ مکرمہ لے چلو۔ راستے میں یا مکہ پہنچ کر ان کا انتقال ہو گیا۔

14؍ صفر المظفر
1۔ شہادت حضرت محمد بن ابی بکر علیہ السلام۔ سن 38 ہجری
آپ خلیفہ اول جناب ابوبکر اور جناب اسماء بنت عمیس کے بیٹے تھے۔ اسماء بنت عمیس جناب جعفر طیار کی زوجہ تھیں۔ انکی شہادت کے بعد جناب ابوبکر سے شادی ہوئی ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر مقام ذوالحلیفہ پر پیدا ہوئے۔ جب جناب محمد دو برس چند ماہ کے ہوئے تو انکے والد اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ آپ کی والدہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زوجیت میں آگئیں اور آپ بھی اپنے والدہ کے ساتھ امیرالمومنین علیہ السلام کے گھر گئے اور وہیں پروان چڑھے۔
جناب محمد بن ابی بکر علیہ السلام امیرالمومنین علیہ السلام کے مخلص حامی اور شیعہ تھے۔ جنگ جمل اور صفین میں امیرالمومنین علیہ السلام کی رکاب میں جہاد کیا ۔ حاکم شام نے آپ کو زندہ گدھے کی کھال میں لپیٹ کر نذر آتش کرا کر شہید کرا دیا۔ آپ کی شہادت پر مولی علیؑ نے فرمایا: وہ اللہ کا صالح بندہ اور میرا فرمانبردار بیٹا تھا۔
2۔ آخری اموی حاکم مروان حمار کی حکومت کا آغاز ۔ سن 127 ہجری
3۔ ولادت عالم، حکیم ، محدث، مفسر اور فقیہ ملا محسن فیض کاشانی رحمۃ اللہ علیہ ۔ سن 1007 ہجری
4۔ شہادت شہید محراب آیۃ اللہ سید عبدالحسین دستغیب رحمۃ اللہ علیہ (قلب سلیم و گناہان کبیرہ جیسی عظیم کتابوں کے مولف) سن 1402 ہجری
5۔ سلمان رشدی ملعون نے کتاب شیطانی آیات شائع کی۔ سن 1409 ہجری

15؍ صفر
1۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیمار ہوئے اور اسی بیماری میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ سن 11 ہجری
2۔ وفات عالم، محدث و فقیہ جناب حسین بن عبید الله غضائری رحمۃ اللہ علیہ۔ سن 411 ہجری
آپ عظیم شیعہ عالم احمد بن حسین بن عبید الله بن ابراہیم غضائری رحمۃ اللہ علیہ کے والد ، مربی اور استاد تھے۔ آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے جنمیں معروف عالم و معلم اور ماہر علم رجال جناب احمد بن علی نجاشی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الطائفہ جناب شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔ شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیفہ کاملہ آپ کے ہی حوالے سے نقل کیا ہے۔

17؍ صفر المظفر
1۔ شہادت امام علی رضا علیہ السلام (ایک روایت) سن 203 ہجری

18؍ صفر المظفر
1۔ شہادت جناب اویس قرنی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ۔ سن 37 ہجری
جناب اویس قرنی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے ، حضورؑ کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ بھی تشریف لائے لیکن زیارت کا شرف حاصل نہ ہو سکا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےآپ کے سلسلہ میں جنت کی بشارت دی۔ آپ امیرالمومنین علیہ السلام کے سچے شیعہ اور صحابی تھے۔ زہد و عبادت اور اطاعت آپ کی زندگی کا نصب العین تھا ۔ آپ نے جنگ صفین میں امیرالمومنین علیہ السلام کی رکاب میں جہاد کیا اور شہید ہوئے۔
2۔ وفات صاحب عبقات الانوار علامہ میرحامد حسین موسوی رحمۃاللہ علیہ۔ 1306
تیرہویں صدی ہجری کے مشہور شیعہ عالم، فقیہ، مجتہد اور متکلم پاسبان ولایت علامہ میرحامد حسین موسوی رحمۃ اللہ علیہ 5؍ محر م الحرام 1246 کو ایک نامور دینی ، علمی اور سادات خانوادہ میں پیدا ہوئے آپ کے والد علامہ سید محمد قلی رحمۃ اللہ علیہ نامور عالم، فقیہ، محدث ، مورخ اور متکلم تھے۔ جو والد ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے استاد بھی تھے۔
مطالعہ، تحقیق اور تالیف ہی علامہ میرحامد حسین موسوی رحمۃ اللہ علیہ کا دستور زندگی تھا۔ کثرت سے لکھتے تھے لیکن کبھی بھی غیر اسلامی ممالک کے کاغذ و قلم استعمال نہیں کیا۔ آپ کی تالیفات و تصنیفات کی طویل فہرست ہے جسمیں ’’عَبَقاتُ الأنوار فی إمامَة الأئمةِ الأطهار‘‘ زیادہ مشہور ہے۔ ’’عَبَقاتُ الأنوار فی إمامَة الأئمةِ الأطهار‘‘ معروف اہلسنت عالم عبدالعزیز دہلوی کی کتاب ’’ تحفه اثنا عشریه‘‘ کا جواب ہے۔ عصر تالیف سے آج تک بزرگ علماء ، مجتہدین اور اہل نظر اس کی عظمتوں کا قصیدہ پڑھتے نظر آئے ہیں۔

3۔ وفات آیۃ اللہ علامہ حسن زادہ آملی رحمۃ اللہ علیہ۔ سن 1443 ہجری
پندرہویں صدی ہجری کے مشہور عالم، عارف، فقیہ، متکلم اور فیلسوف آیۃ اللہ علامہ حسن زادہ آملی رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف عناوین پر تقریریں کی، دروس کہے اور کتابیں لکھیں جو آپ کے باقیات الصالحات کے ساتھ ساتھ نسل حاضر و آئندہ کے لئے مشعل راہ ہیں۔

19 صفر المظفر
1۔ وفات آیۃ اللہ محمد علی عمری رحمۃ اللہ علیہ سن 1432 ہجری
سعودی عرب کے مشہور شیعہ عالم دین، اہل مدینہ اور سعودی شیعوں خاص طور پر نخاولہ جماعت کے رہبران میں سے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا سلسلہ نسب امام زمانہ علیہ السلام کے پہلے نائب خاص جناب عثمان بن سعید عمری رضوان اللہ تعالیٰ علیہ سے ملتا ہے۔ ان کا نفوذ، دینی اور سماجی اثر و رسوخ کا دائرہ جدہ اور مکہ تک تھا۔ سعودی حکومت ان کے ذریعہ سے مدینہ کے شیعوں سے رابطہ برقرار کرتی تھی۔ انہیں آل سعود حکومت کی طرف سے کئی بار جیل اور پھانسی کی سزا سنائی گئی اور ایک بار وہ پھانسی کے ناکام پھندے سے بھی واپس آئے۔ انہیں شیعہ مراجع تقلید کی طرف سے سعودی عرب کے شیعوں کے لئے نمائندگی بھی حاصل تھی۔


20؍ صفر المظفر
1۔ چہلم امام حسین علیہ السلام
2۔ اسیران کربلا قید خانہ شام سے رہا ہو کر کربلا پہنچے۔ سن 61 ہجری
3۔ صحابی رسولؐ جناب جابر بن عبداللہ انصاری ؓ جناب عطیہ کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے کربلا معلیٰ پہنچے ۔ سن 61 ہجری
4۔ شہدائے کربلا کے سرہائے مبارک انکے جسموں سے ملحق ہوئے۔ سن 61 ہجری
5۔ ولادت مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی رحمۃ اللہ علیہ سن 1315 ہجری


22؍ صفر المظفر
1۔ حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی توقیع شریف (خط) جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کوموصول ہوا۔ سن 420 ہجری
2۔ مراجع کرام رحمۃ اللہ علیہم نے روس کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا ۔ سن 1330 ہجری
آیۃ اللہ العظمیٰ سید اسماعیل صدر رحمۃ اللہ علیہ ، آیۃ اللہ العظمیٰ محمد تقی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ عبدالله مازندرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس زمانے کی بڑی اسلام دشمن طاقت روس سے جہاد کا فتویٰ دیا۔

23؍ صفر المظفر
1۔وفات آیۃ اللہ العظمیٰ محمدباقر آقا نجفی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ۔ سن 1301 ہجری
تیرہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم، فقیہ اور اصولی آیۃ اللہ العظمیٰ محمدباقر آقا نجفی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے آیۃ اللہ العظمیٰ حسن کاشف الغطاءرحمۃ اللہ علیہ، صاحب جواہر آیۃ اللہ العطمیٰ محمد حسن نجفی رحمۃا للہ علیہ اورآیۃ اللہ العظمیٰ شیخ مرتضی انصاری رحمۃ اللہ علیہ سے کسب فیض کیا اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔
نجف اشرف سے اصفہان تشریف لائے، اصفہان کی مسجد شاہ میں جمعہ و جماعت قائم کیا اور تدریس شروع کی۔ آپ امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر خاص توجہ دیتے تھے۔ مومنین پر مہربان اور بے دینوں پر شدید تھے۔
آپ کے تین بیٹے تھے، وہ تینوں عالم اور قفیہ تھے۔

24؍ صفر المظفر
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیماری شدید ہوئی۔ سن 11 ہجری
2۔ وفات صاحب بن عباد۔ سن 385 ہجری
چوتھی صدی ہجری کے معروف شیعہ دانشور، ادیب اور آل بویہ حکومت کے وزیر جناب اسماعیل بن عباد المعروف بہ صاحب بن عباد کی دینی، علمی، ادبی اور تعمیری خدمات قابل قدر ہیں۔ آپ عظیم عالم و فقیہ جناب شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں تھے بلکہ ان سے رابطے میں تھے۔

25 صفرالمظفر
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امت کی ہدایت کے لئے کاغذ و قلم مانگا تا کہ ایک تحریر لکھ دیں جس سے امت کبھی گمراہ نہ ہو۔ لیکن افسوس گستاخ رسالت نے گستاخانہ انداز میں یہ کہتےکاغذ و قلم دینے سے منع کر دیا کہ (معاذ اللہ) اس آدمی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ہذیان ہو گیا ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے ۔ جمعرات کے دن یہ حادثہ پیش آیا تھا اس لئے جناب ابن عباس پوری زندگی آہ جمعرات کہہ کر گریہ کرتے تھے۔
اگر یہ تحریر لکھ جاتی تو شائد آج امت مسلمہ کو مشکلات سے دوچار نہ ہونا پڑتا ۔

26 صفر المظفر
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےاہل روم کے شر کو دفع کرنے کے لئے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اسامہ بن زیدؓ کے لشکر میں شامل ہو کر جہاد کے لئے جائیں۔
لیکن افسوس جس طرح کاغذ و قلم کے مطالبہ کو ٹھکرایا گیا اسی طرح اس حکم کی بھی نافرمانی کی گئی۔
2۔ اموی حکومت کا خاتمہ۔ سن 132 ہجری
معاویہ بن ابی سفیان نے اموی حکومت کو قائم کیا اور وہ اس سلسلہ کا پہلا حاکم تھا ۔ سن 132 ہجری میں آخری اموی حاکم مروان حمار پر اس حکومت کا خاتمہ ہوا۔
بنی امیہ کے بعد بنی عباس برسر اقتدار ہوئے۔ جنہوں نے ظلم کی نئی تاریخ رقم کی۔

27 صفر المظفر
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رومیوں سےجنگ کے لئے اسامہ کو لشکر کشی کا حکم دیا ۔ سن 11 ہجری
2۔ صلاح الدین ایوبی ہلاک ہوا۔ سن 589 ہجری
شیعہ دشمن متعصب حاکم صلاح الدین ایوبی جس نے نہ صرف شیعوں پر مسلحانہ حملہ کیا بلکہ شیعہ تہذیب و ثقافت سے بھی نبرد آزما رہا۔
3۔ وفات مرجع تقلید ، مفسر قرآن آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابو الاعلیٰ سبزواری رحمۃ اللہ علیہ۔ سن 1414 ہجری
4۔ وفات عالم، محقق، مورخ آیۃ اللہ سید جعفر مرتضیٰ عاملی رحمۃ اللہ علیہ (صاحب الصحیح من سیرۃ النبیؐ الاعظم و ماساۃ الزھراء ؑ) سن 1441 ہجری

28 صفر المظفر
1۔ شہادت رسول خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔ سن 11 ہجری
2۔ آغاز امامت حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام۔ سن 11 ہجری
3۔ غصب حکومت اسلامی۔ سن 11 ہجری
4۔ شہادت حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام۔ سن 50 ہجری
5۔ وفات فقیہ و خطیب اہلبیت علامہ شیخ جعفر شوستری رحمۃ اللہ علیہ صاحب کتاب خصائص حسینیہ ۔ سن 1303 ہجری
6۔ ولادت رہبر انقلاب اسلامی ایران آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای دام ظلہ۔ سن 1358 ہجری

29 صفر المظفر
1۔ مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قتل کی سازش کی ۔ سن 13 بعثت
2۔ شہادت حضرت امام علی رضا علیہ السلام (روایت) سن 203 ہجری
3۔ نائجیریا کی فوج نے حسینیہ بقیۃ اللہ زاریا پر حملہ کیا، جس میں حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ ابراہیم زکزکی دام ظلہ کے ایک فرزند شہید ہو گئے۔

خُدایا! مجھے اپنی، اپنے رسول اور اپنی حجت کی معرفت عطا فرما اور توفیق اطاعت کرامت فرما۔

فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کے طور پر "یحییٰ السنوار" کا انتخاب صیہونی حکومت کے لیے حیرت اور دہشت کا باعث بنا ہے۔ "یحی ابراہیم السنوار" حماس کی سکیورٹی سروس کے بانی ہیں، جس کا نام "مجد" ہے، جو داخلی سلامتی کے معاملات سے نمٹتا ہے۔ صیہونی حکومت ابھی ان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائی انجام دینے میں ناکام رہی ہے۔ حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کے طور پر یحییٰ السنوار کے انتخاب کو خطے اور دنیا میں مختلف ردعمل کا سامنا ہے۔ بعض نے اس انتخاب کو مزاحمت کو تقویت دینے اور شہید اسماعیل ہنیہ کے راستے کو جاری رکھنے کے لیے بہترین آپشن قرار دیا ہے۔

تحریک حماس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس انتخاب پر ردعمل کا اظہار کیا اور اس نازک مرحلے اور پیچیدہ ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات مین اپنے رہنماء کے طور پر "ابو ابراہیم" (عرف السنوار) ​​کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔حماس کے سینیئر ارکان میں سے ایک اسامہ حمدان نے اس حوالے سے کہا: "سیاسی بیورو کے نئے سربراہ کے طور پر السنوار کا فوری انتخاب حماس کی متحرکیت اور فعالیت کو ظاہر کرتا ہے۔" حمدان نے زور دے کر کہا: "حماس کا پیغام یہ ہے کہ اس نے ایک ایسے شخص کو اپنا لیڈر منتخب کیا ہے، جو غزہ میں 300 دنوں سے زیادہ عرصے تک جہاد اور میدان جنگ میں لڑنے کا امین و معتمد ہے۔"

السنوار کے انتخاب کو علاقے کے مزاحمتی گروہوں کی جانب سے بھرپور حمایت حاصل ہوئی ہے اور دوسری جانب صہیونی حکام نے حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کے انتخاب پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کے قتل کے مسئلے کو بھی اٹھایا ہے۔ صیہونی حکومت نے السنوار کی برطرفی کو غزہ کے خلاف جنگ کے مقاصد میں سے ایک قرار دیا ہے، لیکن اب تک وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔  سنہ 1989 میں مقبوضہ علاقوں کی ایک عدالت میں السنوار کو چار بار عمر قید کی سزا یعنی 25 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن آخرکار انہیں 22 سال قید کے بعد 2011ء میں صیہونی حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے میں رہا کر دیا گیا۔ وہ حماس کے ان رہنماؤں میں شامل ہیں، جن کا نام امریکہ کی جانب سے مبینہ طور پر مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

یحییٰ السنوار کو حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کے طور پر ایسے حالات میں منتخب کیا گیا، جب وہ صیہونی حکومت کی نسل کشی کے باوجود غزہ میں مقیم ہیں۔ السنوار کو منتخب کرنے کے حوالے سے حماس کی حالیہ کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ اب بھی صیہونیوں کے خلاف مزاحمت اور کھڑے ہونے کو اپنا اسٹریٹجک اور سیاسی اہداف حاصل کرنے کا اہم آپشن سمجھتے ہیں۔ حماس کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کی صیہونی حکومت کے خلاف لڑائی کی ایک طویل تاریخ ہے اور یحییٰ السنوار کا ذکر "الاقصیٰ طوفان" آپریشن کے ڈیزائنر اور رہنماء کے طور پر بھی کیا جاتا ہے۔

 بہرحال غزہ جنگ میں پیش رفت کا عمل فلسطینی عسکریت پسند گروپوں میں زیادہ استحکام اور یکجہتی کا باعث بنا ہے۔ ایسی صورت حال میں السنور کا انتخاب صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمتی گروہوں کے زیادہ اتحاد اور تعاون کا باعث بنے گا۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن انجام پانے والے طوفان الاقصی آپریشن کی کامیابیوں نے صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت اور لڑائی کو تیز کر دیا ہے۔ بہرحال صیہونی حکومت کے خلاف لڑنے کی ایک طویل تاریخ کی وجہ سے السنوار ایک بہترین انتخاب ہے، جو مزاحمتی محاذ کی کامیابیوں کو مزید مستحکم کریں گے۔
 
 
تحریر: احسان شاہ ابراہیم

۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی پاسداران انقلاب نے اپنی بحری قوت میں اچانک اضافہ کرتے ہوئے بحریہ کو مزید اڑھائی ہزار سے زائد اینٹی شپ میزائل سسٹمز اور ڈرونز سے لیس کردیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بحریہ کو سونپے گئے 2 ہزار 654 ملٹری سسٹمز میں شامل میزائل درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کر سکتے ہیں جبکہ الیکٹرانک جنگی آلات بھی بحریہ کے سپرد کیے گئے ہیں۔ ایرانی میڈیا کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے بحریہ کو دیئے گئے کروز میزائل دشمن کے ریڈار پر نہیں آسکتے اور دشمن کے ڈسٹرائیر کو غرق کرسکتے ہیں۔ پاسداران انقلاب کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی نے کہا کہ دشمن کو انتہائی قریب اور دور دونوں فاصلوں سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔

اگر ہم دشمن کو دور سے ہی کسی مقام پر روک نہیں سکتے تو پھر فطری طور پر مسئلا ہماری سرحد پر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا میں سروائیو کروانے اور محفوظ رہنے کیلئے خود کو مضبوط کرنا پڑے گا یا پھر ہتھیار ڈالنے ہوں گے، بیچ کا کوئی راستہ نہیں۔ خیال رہے کہ تہران میں حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد ایرانی قیادت کی جانب سے اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے بعد عالمی برادری کی جانب سے فریقین پر خطے میں کشیدگی میں کمی پر زور دیا جا رہا ہے۔

 اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے نے جمعہ کی رات کو جنوبی بیروت میں ضاحیہ پر اسرائیلی حملے پر لبنان کی حزب اللہ کے ردعمل کی شدت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ حزب اللہ اور اسرائیلی حملوں میں کچھ  ان لکھے اصولوں کے تحت کم شدت کے حملے سرحدی علاقوں اور فوجی اہداف تک محدود تھے، تاہم اسرائیل نے یہ حد توڑ دی اور بیروت کے علاقے ضاحیہ پر حملے اور رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا۔ ہمارہ اندازہ ہے کہ حزب اللہ جوابی کاروائی کو فوجی اہداف اور مخصوص علاقوں تک محدود نہیں رکھے گی اور آئندہ آپریشن کا ٹارگٹ نہ صرف وسیع ہوگا بلکہ فوجی اہداف اور آلات تک محدود نہیں ہوگا۔

حزب اللہ لبنان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صہیونی دشمن نے 30 جولائی 2024 بروز منگل کی شام بیروت کے علاقے ضاحیہ پر حملہ کیا اور اس محلے میں رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں متعدد شہری شہید اور دیگر زخمی ہوئے۔ حملے کے وقت اس عمارت میں کمانڈر فواد شکر (حاج محسن) بھی موجود تھے۔

ارنا کے مطابق سیدحسن نصراللہ نے اسماعیل ہنیہ اور فواد شکر کی شہادت کی تعزیت پیش کی اور کہا کہ  ہم برادر عزیز اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر اپنے حماس کے بھائیوں اور القسام بریگیڈ کے مجاہدین کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ صیہونی حکومت نے فودا شکر کو شہید کرنے کے لئے حارہ  حریک کی عمارت پر اس وقت حملہ کیا جب وہ عام شہریوں سے بھری ہوئی تھی۔

 حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ صیہونی حکومت کے اس دہشت گردانہ حملے میں ایک ایرانی مشیر سمیت سات افراد شہید اور دسیوں دیگر زخمی ہوئے۔   سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کا یہ حملہ مجدل شمس کے حادثے کا ردعمل نہیں تھا بلکہ مجدل شمس کا نام اس نے رائے عامہ کو منحرف کرنے  کے لئے لیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ صیہونی دشمن نے مجدل شمس کے واقعے کا الزام کسی ثبوت کے بغیر حزب اللہ پر لگایا ہے جبکہ اس واقعے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا۔

 سید حسن نصراللہ نے کہا کہ جب اسرائیلیوں نے دیکھا کہ مجدل شمس کے واقعے میں مارے جانے والوں میں زیادہ تر عورتیں اور بچے ہیں تو اس کا الزام حزب اللہ پرلگانے  کا فیصلہ کیا۔

 انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس بات کے ثبوت وشواہد کافی ہیں کہ صیہونی حکومت کے ایئر ڈیفنس کے میزائل عکا اور دیگر علاقوں پر گرے ہیں۔

 حزب اللہ کے سربراہ نے بتایا کہ بعض ملکوں نے ہم سے کہا ہے کہ ہم بیروت کے ضاحیہ جنوبی پر صیہونی حملے کا جواب نہ دیں .

 انھوں نے کہا کہ ہم سبھی محاذوں پر ہمہ گیر جنگ سے دوچار ہیں اور یہ جنگ اب نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔  

 سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہم غزہ اور فلسطین کی حمایت کی قیمت ادا کررہے ہیں اور یہ قیمت ادا کرنا ہمیں منظور ہے، ہم غزہ کی حمایت کا تاوان ادا کررہے ہیں اور ہمارے سیکڑوں عام شہری شہید ہوچکے ہیں۔

حزب اللہ کے سربراہ نے  کہا کہ کیا یہ بات کوئی سوچ سکتا ہے کہ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں شہید کردیا جائے اور ایران خاموش رہے؟

انھوں نے کہا کہ اس وقت صیہونی وزیر اعظم نتن یاہو نے دہشت گردی سے اپنی امیدیں وابستہ کررکھی ہیں اور اس کو اپنی کامیابی ظاہر کرنا چاہتا ہے۔

 سید حسن نصراللہ نے کہا کہ دہشت گردانہ حملوں میں رہنماؤں کی شہادت سے استقامت کمزور نہیں ہوگی بلکہ تجربہ شاہد ہے کہ اس سے استقامت کو تقویت اور فروغ ملے گا۔

حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ  صیہونی حکومت کی دہشت گردانہ جارحیت میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی  شہادت پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا لہجہ اس بیان سے زیادہ سخت تھا جو آپ نے  دمشق میں ایرانی کونسلیٹ پر اسرائیلی حکومت کے  حملے کے بعد دیا تھا۔   

حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ عظیم مجاہد اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے اس پیغام میں اس عظیم و بہادر مجاہد رہنما کی شہادت کی اسلامی امت، مزاحمتی محاذ اور فلسطین کی قابل فخر قوم کو تعزیت پیش کی اور زور دیا ہے : "مجرم و دہشت گرد صیہونی حکومت نے، ہمارے پیارے مہمان کو ہمارے گھر میں شہید کر دیا اور ہمیں سوگوار کیا لیکن اس نے اپنے لئے سخت انتقام کے بھی حالات فراہم کر ليے اور شہید ہنیہ کے انتقام کو ہم اپنا فرض سمجھتے ہيں "

رہبر انقلاب کے پیغام کا متن اس طرح ہے :

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انا للہ و انا الیہ راجعون

پیاری ایرانی قوم!

فلسطین کے شجاع و بہادر رہنما جناب اسماعیل ہنیہ گزشتہ شب صبح کے وقت اللہ کو پیارے ہو گئے اور عظیم مزاحمتی محاذ سوگوار ہو گیا۔مجرم و دہشت گرد صیہونی حکومت نے، ہمارے پیارے مہمان کو ہمارے گھر میں شہید کر دیا اور ہمیں سوگوار کیا لیکن اس نے اپنے لئے سخت انتقام کے بھی حالات فراہم کر ليے ۔

شہید اسماعیل ہنیہ برسوں سے با عزت جہد و جہد کے میدانوں میں اپنی قیمتی جان ہتھیلی پر لے کر چلتے تھے، وہ شہادت کے لئے تیار تھے اور انہوں نے اپنے فرزندوں اور عزیزوں کو اس راہ میں قربان بھی کیا تھا ۔ انہيں اللہ کی راہ اور اس کے بندوں کی نجات کے لئے شہید ہونے میں کوئی تذبذب نہيں تھا لیکن ہم اس تلخ و سخت سانحے کے بعد کہ جو اسلامی جمہوریہ کی سرحد کے اندر ہوا ، انتقام کو اپنا فریضہ سمجھتے ہيں۔

میں اسلامی امت، مزاحمتی محاذ، فلسطین کی سرفراز و شجاع قوم اور خاص طور پر شہید ہنیہ اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے ان کے ایک ساتھی  کے لواحقین اور اہل خانہ کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور خداوند عالم سے ان کے علو درجات کی دعا کرتا ہوں ۔

سید علی خامنہ ای

تہران میں حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایک حملے میں شہید کر دیا گیا ہے۔ ان کے ہمراہ ان کا ایک محافظ بھی شہادت کے رتبے پر فائر ہوا ہے۔ یہ حملہ تہران میں اس وقت ہوا، جب اسماعیل ہنیہ ایران کے نومنتخب صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے پہنچے ہوئے تھے۔ انہوں نے گذشتہ شب رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای کیساتھ ملاقات بھی کی تھی اور رات دو بجے ان کی رہائش گاہ پر حملہ کرکے انہیں شہید کر دیا گیا۔ پنتالیس سال میں انقلاب کی راہ پر چلنے کی سزا میں دشمن امریکہ و اسرائیل نے دو ایرانی صدور، کئی اہم ترین سائنسدانوں، جنرل قاسم سلمانی سمیت کئی فوجی افسران، ہزاروں ماہر اشخاص کو ایسی ہی بزدلانہ کارروائیوں میں شہید کیا ہے۔ ایران کے انقلاب اسلامی کو کمزور کرنے کیلئے دشمن نے ایسے اقدامات کئے، بلکہ امریکہ و اسرائیلی دشمنی کی سزا دینے کی کوشش کی گئی۔

پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ سابق ائیر چیف مصحف علی میر شہید کو امریکہ کیخلاف جانے پر شہید کیا گیا تھا۔ سابق صدر اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے بھی کہتے ہیں ڈومور سے اس وقت انکار کر دیا تھا، جس پر ان کے طیارے میں آموں کی پیٹیاں رکھوا کر انہیں بھی راستے سے ہٹا دیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ تہران کے اندر دشمن نے نشانہ بنا کر ایران کے سکیورٹی لیپس کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ سکیورٹی لیپس نہیں، بلکہ دشمن کی مکارانہ کارروائی ہے۔ جس طرح تہران میں اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس طرح کسی کو بھی مارنا مشکل نہیں، خود امریکہ میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی قتل ہوئے، کہاں تھی سی آئی اے کی سکیورٹی۔؟ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر انتخابی مہم کے دوران حال ہی میں قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں سیکنڈوں کی مہلت سے وہ بچ گیا۔ اس کو کیا کہیں گے؟ کہ قاتل کیسے اپنے ہدف پر پہنچ گیا؟ ایسے اہداف کو دنیا میں کہیں بھی مارنے کیلئے تھوڑی بہت پلاننگ، تھوڑا سا سرمایہ اور ہمت چاہیئے ہوتی ہے۔ مارنے کے بعد کیا نتائج حاصل ہوں گے، یہ سب سے اہم معاملہ ہوتا ہے۔

دشمن نے نہایت سمجھداری اور پلاننگ سے اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا ہے۔ یہ قتل قطر میں بھی ہوسکتا تھا، لیکن ایران کے اندر اس لئے نشانہ بنایا گیا کہ اس سے ایران کو بدنام کرنا مقصود تھا اور فلسطین کاز کو نقصان پہنچانا ہدف تھا۔ یعنی حماس ایران سے بددل ہوگی کہ ایران ان کے رہنماء کی حفاظت ہی نہیں کرسکا۔ بڑے ہدف کیلئے اگر ہزاروں جانیں بھی قربان ہوں، تو تنظیمیں یا لوگ اپنے مقاصد سے ڈر کر پیچھے نہیں ہٹا کرتے، بلکہ ایسی قربانیاں مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہوتی ہیں اور جذبے کو جِلا بخشتی ہیں۔ ان سے تحریک میں شدت آتی ہے۔ تہران میں ہونیوالے اس حملے کا مطلب واضح ہے کہ اب منزل بہت قریب ہے۔ بس دشمن کو گرانے کیلئے ایک دھکا اور چاہیئے۔ اوپر سے اسرائیل سے حماقت یہ ہوئی کہ اس نے بیروت میں بھی حزب اللہ کے کمانڈر فواد شُکر کو ایک حملے میں شہید کر دیا۔ یہ دس ماہ میں دوسری بار ہوا ہے کہ اسرائیل نے بیروت میں حملہ کیا ہے۔ گذشتہ شب ہونیوالی بمباری میں نشانہ فواد شُکر ہی تھے اور اس میں اسرائیل کامیاب رہا۔

ان حملوں اور تہران میں ہونیوالے واقعہ سے معاملات میں مزید شدت آئے گی۔ حزب اللہ اعلان کرچکی تھی کہ اگر بیروت پر حملہ کیا گیا تو حزب اللہ براہ راست فلسطین میں داخل ہو جائیگی۔ لبنان کے وزیراعظم نے بھی بیان دیا تھا کہ اسرائیل نے کوئی جارحیت کی تو یہ لبنان کی خودمختاری پر حملہ تصور ہوگی۔ اب اسرائیل نے سخت جوابی کارروائی کیلئے موقع فراہم کر دیا ہے۔ ایران منظم منصوبے کے تحت انتقام لیتا ہے۔ وہ جلد بازی نہیں کرتا۔ وہ انتقام لے گا اور کوئی بڑی شخصیت نشانہ بن سکتی ہے۔ جو امریکہ یا اسرائیل سے ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم پاکستانیوں میں کچھ کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر معاملے کو فرقہ واریت کی نظر سے دیکھتے کے عادی ہوچکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم دشمن کے عزائم کی تکیمل کر رہے ہوتے ہیں۔ اب تہران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کو بھی تکفیری فرقہ واریت کی عینک سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ اسماعیل ہنیہ کے خاندان سے 70 افراد پہلے ہی جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ کو بھی پتہ تھا کہ اگلا نشانہ وہ ہیں اور وہ اس کیلئے ذہنی طور پر تیار بھی تھے۔

ہمیں فرقہ واریت کی نظر سے دیکھنے کی بجائے اس معاملے کو اس انداز میں دیکھنا ہوگا، جس انداز سے خود حماس اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب حماس نے یہ مقاومت شروع کی، پاکستان کے تکفیری حلقوں میں یہ باتیں ہونے لگیں کہ شیعہ ایران نے سنی حماس کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔ یوں ایران دشمنی میں انہوں نے امت کے مشترکہ کاز کو کمزور کرکے دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ اس سے وہ بے نقاب ہوئے اور امت کو پتہ چل گیا کہ تکفیریوں کو ایجنڈا کہاں سے ملتا ہے۔ اب پارا چنار کے زخمیوں کے ایمبولینسز پر حملوں سے بھی یہ مزید بے نقاب ہوئے کہ اسرائیلیوں کے طرز عمل کو اپنائے ہوئے ہیں اور یوں اسرائیل و تکفیری بے نقاب ہوگئے اور واضح ہوگیا کہ دونوں کا ’’سرپرست‘‘ ایک ہی ہے، جو ایک ہی ایجنڈا دونوں کو فراہم کر رہا ہے۔

تہران واقعہ کے بعد چین اور روس کی قیادت کے درمیان بھی رابطے کی اطلاعات ہیں اور دونوں جانب سے ہائی پروفائل افراد کی سکیورٹی کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔ اس حوالے سے ذرائع نے یہ اطلاع دی ہے کہ تہران میں ایک اہم اجلاس ہونے جا رہا ہے، جس میں چین، روس، ایران اور حماس کی قیادت شرکت کر رہی ہے اور مستقبل کے لائحہ عمل پر غور و فکر ہوگا۔ اس کے علاوہ اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ بھی تہران میں کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس میں دشمن کو پیغام دیا جائے گا کہ ہم شہیدوں کے لہو سے گھبرانے والے نہیں، بلکہ شہید کی موت قوم کی حیات ہوا کرتی ہے

تحریر: تصور حسین شہزاد

۔ فلسطین کے سابق وزیراعظم اور حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہنیہ کو ایران میں قاتلانہ حملے میں شہید کردیا گیا، حماس نے ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسمٰعیل ہنیہ کو یہودی ایجنٹوں نے نشانہ بنایا، جس کا بدلہ لیا جائے گا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہنیہ پر تہران میں ان کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا، وہ ایران کے نئے صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے ایران میں موجود تھے۔ مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں 70 سے زائد ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن اور حماس کے رہنماء اسمٰعیل ہنیہ اور اسلامی جہاد کے زیاد النخالہ بھی تقریب میں شریک تھے۔ ایرانی حکام نے کہا ہے کہ اسمٰعیل ہنیہ پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات جلد سامنے لائیں گے۔ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسمٰعیل ہنیہ کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسمٰعیل ہنیہ کو یہودی ایجنٹوں نے نشانہ بنایا، یہ حملہ بزدلانہ کارروائی ہے، جس بدلہ لیں گے۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے شعبہ تعلقات عامہ نے اپنے ایک بیان میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور ان کے ایک محافظ کی تہران میں رہائش گاہ کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں شہادت کا اعلان کیا۔ فارس نیوز کے مطابق پاسداران انقلاب اسلامی کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ جناب ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ اور ان کا ایک محافظ اس وقت شہید ہوگئے، جب تہران میں ان کی رہائش گاہ پر حملہ ہوا۔ بیانیہ کا متن حسب ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم
انا لله و انا الیه راجعون

فلسطین کی بہادر قوم، ملت اسلامیہ، مزاحمتی محاذ کے مجاہدین اور ایران کی عظیم قوم کے تئین تعزیت کے ساتھ، آج صبح (بدھ) تہران میں مقاومت اسلامی فلسطین کے سیاسی دفتر کے سربراہ جناب ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا اور اس واقعہ کے نتیجے میں وہ اور ان کا ایک محافظ شہید ہوگیا۔ اس واقعے کی وجوہات اور تمام ممکنہ عوامل کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، جن کے نتائج کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی شعبہ تعلقات عامہ