سلیمانی

سلیمانی

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیف، جنرل "محمد باقری" نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان عسکری و سیکورٹی عمل میں تعاون کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے۔ دونوں ممالک اکثر مسائل میں مشترکہ موقف رکھتے ہیں۔ یہ ہم آہنگی علاقائی و عالمی سطح پر مزید مستحکم ہو گی۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار آج شام اسلام آباد ائیرپورٹ پر پہنچنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کیا۔ جنرل محمد باقری نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سال خطے میں بہت اہم مسائل کا مشاہدہ کیا۔ جغرافیائی طور پر پاکستان و ایران کو عالم اسلام کے دو اہم ممالک کی حیثیت سے جنوبی اور مغربی ایشیاء میں نازک صورت حال کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تہران و اسلام آباد کے درمیان نہایت وسیع تعلقات ہیں۔ اکثر مسائل پر ہمارا نکتہ نظر ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہے۔ نیز اس سفر کے دوران بھی علاقائی مسائل پر ہم خیالی ہمارا ہدف ہے تا کہ ہم عالمی فورمز پر ایک دوسرے کے تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں۔

جنرل محمد باقری نے کہا کہ خوش قسمتی سے حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ ہم نے آپس میں اچھے معاہدے کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان طویل سرحد موجود ہے۔ دونوں ممالک ہر وقت سیکورٹی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں تاکہ سرحدوں پر ایک دوسرے کے تعاون سے دونوں ممالک کی عوام کے اقتصادی مفاد کو وسعت دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے اس دورے کے اہم ترین موضوعات میں بارڈرز، دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں اور مسلح افواج کے درمیان تعلقات میں وسعت شامل ہے۔ واضح رہے کہ آرمی چیف کی باضابطہ دعوت پر جنرل محمد باقری ایک اعلیٰ سطحی عسکری وفد کے ہمراہ اپنے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے۔ جہاں وہ بری و فضائی افواج کے سربراہان، صدر، وزیراعظم اور وزیر دفاع سے جدا جدا ملاقات کریں گے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جنرل محمد باقری کا اپنی تعیناتی کے دوران یہ تیسرا دورہ پاکستان ہے۔
 
 
 

علم کلام میں عقاید کے بارے میں بحث ہوتی ہے اس طرح علم کلام وہ علم ہے جس میں اسلامی عقائد سے بحث کی جاتی ہے اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کس پر اعتقاد رکھنا اور ایمان لانا ضروری ہے۔ اس میں وہ نظریات سکھائے جاتے ہیں جن کی بنیاد پر دینی عقائد کو ثابت کیا جاتا ہے یا یہ وہ علم ہے جس میں اللہ تعالی کی ذات، اس کی صفات اور اس کے ممکن احوال کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔اس طرح کہ علم کلام میں اللہ کی صفات کمالیہ اور صفات جمالیہ پر بحث کی جاتی ہے۔اس علم میں سب سے پہلے بہت ہی دقیق اور حکمت والی دلیلوں سے اللہ کے وجود کی معرفت کے ضروری ہونے کو ثابت کیا جاتا ہے اور پھر اللہ کے وجود کو ثابت کیا جاتا ہے۔

اس علم کے اہم مباحث میں سے یہ ہے کہ ان دلیلوں کو بیان کیا جائے جو خالق کے وجود کو ثابت کریں کہ وہ اس کائنات کے بنانے والا ہے۔ایسا خاص ادلہ کے ساتھ ممکن ہے جو بہترین انداز میں پیش کی گئی ہوں ہم یہاں پر چند کو ذکر کریں گے۔

پہلی دلیل:انسان کی فطرت سلیمہ اس کا تقاضا کرتی ہے:

انسان کی فطرت سلیمہ جس پر وہ پیدا ہوتا ہے وہ اس کا تقاضا کرتی ہے اور فطرت وہ عقل ہے جو خواہشات سے داغدار نہ ہو،اسی طرح اس یہ سب سے پہلے انسان کو اپنے وجود کے سبب پر غور کا کہتی ہے اور پھر خالق پر وجود پر غور کا حکم دیتی ہے۔کچھ ایسے امور ہیں جن کی طرف ہر صاحب عقل کی سوچ جاتی ہے اور کوئی صاحب عقل ان کا انکار نہیں کر سکتا بالخصوص وہ سوالات انسانی نفس میں موجود ہوں تو وہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان سوالات پر غور و فکر کیا جائے اور تحقیق کر کے ان کو حل کیا جائے۔

ان سوالات پر غور و فکر کر کے ان کے جوابات کو تلاش کرنا ہی در اصل خالق،مخلوق اور زندگی کی معرفت حاصل کرنا ہے۔

دوسری دلیل: یقینی اور محتمل نقصان سے بچنا:

عقل کسی بھی نقصان سے بچنے کا حکم دیتی ہے اگرچہ اس کا فقط احتمال ہی کیوں نا ہو۔اگر وہ نقصان ایسا ہو جس کے بارے میں مصلحین کی بڑی تعداد،فلاسفہ اور اہل عقل فضلاء کی بڑی تعداد نے بھی کہا ہو تو عقل اس سے بچنے کا کہتی ہے۔اسی طرح ایک بڑی حقیقت کے طور پر سامنے ہو جیسے اللہ تعالی کا وجود جو اس کائنات کا خالق ہےاس کو ماننے اور نہ ماننے کے  اثرات بہت زیادہ ہوں۔ لوگوں کو اس خالق پر ایمان لانے کی دعوت دینا،اس کی اطاعت کرنا،اس کے احکامات کو ماننا اور اس کی مخالفت سے بچنا چاہیے۔اسی طرح کچھ اثرات اور بھی ہیں جیسے یہ عقیدہ کہ اگر خالق نہیں ہے تو انسان کی زندگی مرنے ختم ہو جائے گی مگر یہ زندگی کا اختتام نہیں ہے اللہ کے ہاں ایک اور زندگی ہے اور اس زندگی کی مثال ایک پل جیسی ہے جس کے ذریعے سے انسان ایک اور ابدی زندگی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے انسان جس عالم میں منتقل ہوتا ہے وہ عالم آخرت ہے۔اس آخرت کی زندگی کا دارو مدار اس دنیا کی زندگی میں کیے گئے اعمال پر ہے۔

یہ واضح ہے کہ ان امور کے بارے میں سب سے پہلے انسان کی فطری عقل  بحث کرتی ہے یہ انسان کے لیے غور و فکر اور تدبر کا مقام بھی ہے جب انسان کے سامنے کچھ سوالات جیسے خود انسان کی تخلیق کا سوال وغیرہ آتا ہے تو عقل سوچتی اور غور و فکر کرتی ہے۔

انسان کی عقل ان حقائق کو نظر انداز نہیں کرتی جن میں نقصان کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہو۔اس خوف کا احتمال حقائق میں غور و فکر کا نتیجہ ہے،ضرر کا خوف ہی اس باعث بنا ہے کہ انسان غور و فکر کرے اور سوچے جبکہ یہ  نقصان کا اندیشہ تواتر کے ساتھ ایسے لوگوں کی طرف سے آیا ہے جو صاحبان عقل و دین ہیں اگرچہ اس نقصان کا احتمال ضعیف ہی کیوں نہ ہوتا اہل عقل کو اس سے بچنا چاہیے تھا۔

عقل کا کام ہے وہ کبھی بھی ان مقامات کو ایسے ہی نہیں چھوڑتی جہاں سے اسے نقصان کا اندیشہ ہو وہ غور و فکر کرتی ہے اوربڑی دقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔عقل جانچ پڑتال کر کے اس کے درست و غلط ہونے کو پرکھتی ہے اس وقت تک سعی کو جاری رکھتی ہے جب تک اسے دلیل میسر نہ آجائے اور صحیح غلط کا پتہ نہ چل جائے۔عقل و منطق کا یہ تقاضا ہے کہ انسان احتمال کی تحقیق کرے یہ احتمال کس کی طرف سے آیا ہے اسے نظرانداز نہ کرے خود احتمال کی تحقیق کرے مثلا ایک بچہ بھی کہے تو بھی غور کرے۔جب بچوں کی بات کو عقل نظر انداز نہیں کرتی جن کا زندگی کا تجربہ نہیں ہوتا تو انبیاء، مرسلین ،حکماء، مصلحین،فلاسفہ اور اہل عقل و منطق کی بات کو عقل کیسے نظر انداز کر سکتی ہے؟اگر ان سب کی آواز پر کوئی متوجہ نہیں ہوتا تو عقل سے انحراف ہے اور اپنی تقدیر کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے۔

تیسری دلیل:نعمت دینے والے کا شکریہ ضروری ہے:

ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے خالق اور اپنے بنانے والے کی نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کریں۔ یہ ایک اخلاقی اور ادبی مسئلہ ہے یہ عقیدتی مسئلہ بعد میں بنتا ہے۔خالق نے انسان کو اتنی نعمتیں دی ہیں کہ وہ ان کو شمار نہیں کر سکتا اور ہر طرف سے نعمتوں میں گھرا ہوا ہے۔اس کی نعمتوں کا سلسلہ انسان کی زندگی سے لے کر اس کی موت تک جاری رہتا ہے۔کسی بھی ضمیر کا مالک انسان ہو وہ ان نعمتوں کا انکار نہیں کر سکتا۔ہر صاحب عقل کی سوچ و فکر یہ کہتی ہے کہ ایسی ڈھیروں نعمتیں دینے والے کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور جب تک ہم اس نعمتیں عطا کرنے والے کو پہچان نہیں لیں گے اس وقت تک ہم اس کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔اس طرح ہمارے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم ان نعمتوں کے خالق کی معرفت حاصل کریں جو اللہ تعالی ہے اور ہر خیر کی بنیاد وہی ہے۔وہی علم و مرتبہ کی بنیاد ہے اور سب سے پہلا علم خالق کی معرفت ہی ہے اور پھر یہ جانا جائے کہ اس خالق کے احکامات کیا ہیں؟ وہ کن چیزوں کا حکم دیتا ہے اور کن چیزوں سے منع کرتا ہے؟اس کو وظائف اور تکالیف شرعیہ کا نام دیا جاتاہے ان میں سے کچھ ایسے اخلاقی احکام ہیں جن کا تعلق اجتماعی حقوق سے ہے جیسے یہ جاننا کہ وہ کونسے حقوق ہیں جو ہم نے ادا کرنے ہیں اور کون سے حقوق و واجبات ہیں۔نبی انسانیت حضرت محمد ﷺ سے مروی ہےایک اعرابی کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایاجس نے آپ ﷺ سے پوچھا تھا مجھے غرائب علم کی تعلیم دیں؟ کیا تم نے اصل علم کو حاصل کر لیا ہے کہ تم غرائب علم کا سوال کر رہے ہو؟ اعرابی نے پوچھا اے اللہ کے رسول اصل علم کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی اس طرح معرفت حاصل کرنا جیسا اس کی معرفت حاصل کرنے کا حق ہے۔اعرابی نے پوچھا اللہ کی ایسی معرفت جس میں حق معرفت ادا ہو جائے وہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:اس کو کسی مخلوق جیسا یا  مخلوق کی شبیہ جیسا نہ جاننا اور اسے واحد و یکتا قرار دینا،وہ ظاہر و باطن ہے ،وہ اول آخر ہے ،اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے،اس کی نظیر کوئی نہیں اور یہ اللہ کا حق معرفت ہے۔

 پاسداران انقلاب فوج کی  بحریہ کے بحری جہازوں کے ایک زمین دوز مرکز کی رونمائی آئی آر جی سی کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی کی موجودگی میں کی گئی۔

اس تقریب میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر جنرل سلامی نے ایک  خطاب  میں کہا: "آج ہم نے پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کے معزز کمانڈر کے ساتھ جس کمپلیکس کا معائنہ کیا، وہ ان بہت سے کمپلیکسز میں سے ایک ہے جہاں پاسداران انقلاب اسلامی کے جنگی بحری جہاز اور میزائل لانچ کرنے والے  اور بارودی سرنگ بچھانے والے بحری جہاز رکھے جاتے ہيں۔

میجر جنرل سلامی نے مزید کہا: "اگرچہ یہ کمپلیکس جس کا آج عزیز ایرانی قوم مشاہدہ کر رہی ہے ایک شاندار کمپلیکس ہے، لیکن یہ آئی آر جی سی کی بحریہ کی پوری دفاعی طاقت کے سامنے ایک چھوٹا سا  نمونہ ہے۔"

 انہوں نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کی جنگی اور دفاعی صلاحیت میں روز بروز اضافے  کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: "ان بحری جہازوں کی جنگی صلاحیت اور ان پر نصب میزائل سسٹم ان متعدد جنگی جہازوں کے علاوہ ہیں جو اس وقت خلیج فارس میں ہمارے وطن کی آبی سرحدوں   کے تحفظ کے لیے گشت کر رہے ہیں

جنرل سلامی نے کہا : "خدا کے فضل سے،پاسداران انقلاب اسلامی کی  بحریہ میں گزشتہ اور موجودہ برسوں میں، اس فورس کے ساز و سامان اور ہتھیاروں  کی مقدار اور معیار دونوں میں ہی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔"

میجر جنرل حسین سلامی نے اپنی بات  جاری رکھتے ہوئے کہا: "خدا کے فضل سے، کشتی رانی کی رینج، جہازوں کی رفتار، ان جہازوں پر نصب میزائلوں کی رینج، ان کا نشانہ ، اور ان کی تباہ کن طاقت ، ہر شعبے میں غیر معمولی پیش رفت ہوئي ہے۔"

جنرل سلامی نے کہا ہے ہم اپنے عزم و ٹھوس ارادے کے ساتھ رہبر انقلاب اسلامی کے ایک حکم پر، ایرانی قوم کی عظمت کے دفاع اور مختلف دفاعی شعبے میں نئي تاریخ رقم کرنے کے لئے تیار ہيں۔

ایکنا نیوز، عربی ۲۱ نیوز کے مطابق عمان کے مفتی اعظم احمد بن حمد الخلیلی نے لاس اینجلس میں آتش‌سوزیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خدا کی قدرت کا مظہر ہے، جو ظالموں اور متکبروں کو ان کے غرور کے سبب سزا دیتا ہے۔

مفتی الخلیلی نے اپنے تبصرے میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کو جهنم میں تبدیل کرنے کی دھمکی دی تھی، لیکن اس کے بعد خود ان کے ملک کے مختلف حصوں میں آگ بھڑک اٹھی، اور یہ آگ سردی کے موسم میں لگی، جہاں جدید ترین حفاظتی نظام بھی موجود تھے۔

الخلیلی نے حضرت علی علیہ السلام کے خطبہ مالک اشتر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: إِيَّاکَ وَ مُسَامَاةَ اللهِ فِي عَظَمَتِهِ، وَالتَّشَبُّهَ بِهِ فِي جَبَرُوتِهِ، فَإِنَّ اللهَ يُذِلُّ کُلَّ جَبَّار وَ يُهِينُ کُلَّ مُخْتَال (خبردار! خود کو عظمت میں خدا کے برابر کرنے اور جبروت میں اس سے مشابہت اختیار کرنے سے بچو، کیونکہ خدا ہر جابر کو ذلیل اور ہر متکبر کو رسوا کرتا ہے)۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے آغاز سے قبل اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اگر اسرائیلی قیدی رہا نہ ہوئے تو مشرق وسطیٰ کو جہنم میں بدل دیا جائے گا۔

لاس اینجلس میں آتش‌سوزی نے چند دنوں میں خشک موسم اور 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز ہوا کے باعث ہزاروں ہیکٹر اراضی کو خاکستر کر دیا۔ ان آگوں نے شہری علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیل گئی۔/

فلسطین کس کا ہے!؟

فلسطین کس کا ہے؟ فلسطینی عوام کون ہیں؟ یہ قابض کہاں سے آئے ہیں؟ ملت فلسطین کو ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حق ہے۔ کوئی بھی عدالت، کوئی بھی مرکز، کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ ملت فلسطین پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا کہ وہ کیوں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف سینہ سپر ہوکر کھڑی ہے۔ کسی کو حق نہیں ہے۔

 

فلسطین کی مدد، سب کی اولین ذمہ داری!

جو لوگ ملت فلسطین کی مدد کر رہے ہیں وہ بھی در اصل اپنے فریضے پر عمل کر رہے ہیں۔ کوئی بھی کسی بھی بین الاقوامی قانون کی رو سے ملت لبنان اور حزب اللہ لبنان پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا کہ وہ کیوں غزہ کی اور فلسطینی عوام کے قیام کی حمایت کر رہی ہے۔ یہ ان کا فریضہ تھا، انہیں یہ کرنا ہی تھا۔

 

فلسطین کا دفاع اور انکی مدد، قانونی فریضہ!

یہ تو اسلامی حکم بھی ہے، عقل کا تقاضہ بھی ہے اور بین الاقوامی اور عالمی منطق بھی ہے۔ فلسطینی اپنی سرزمین کے لئے لڑ رہے ہیں، ان کا دفاع قانونی ہے، ان کی مدد قانونی ہے۔

 

 

آیت اللہ العظمی خامنہ ای ، عہد بصیرت

 رہبر معظم انقلاب کے بیانات کے وہ اقتباسات جو غزہ کے عوام کی حتمی فتح سے متعلق ہیں، پیش کیے جا رہے ہیں۔

"غزہ کا معاملہ ایک طرف مظلومیت کا معاملہ ہے، تو دوسری طرف طاقت کا معاملہ ہے۔ دشمن چاہتا تھا کہ یہ لوگ ہتھیار ڈال دیں، سر تسلیم خم کر دیں، لیکن انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے، سر تسلیم خم نہیں کیا... یہی صبر اور توکل انہیں کامیابی تک پہنچائے گا؛ یہی چیز انہیں فتح دلائے گی اور بالآخر وہ میدان کے فاتح ہوں گے۔" (۱۴۰۲/۸/۳)

 

"غزہ کے معاملے میں طوفان الاقصی کے واقعات کے بارے میں پیش گوئیاں بتدریج پوری ہو رہی ہیں۔ شروع سے ہی دنیا کے دوراندیشوں کی پیش گوئی، خواہ یہاں ہو یا کہیں اور، یہی تھی کہ اس معاملے میں فلسطینی مزاحمت فتح یاب ہوگی، اور وہ جو شکست کھائے گا وہ ملعون صہیونی حکومت ہوگی۔" (۱۴۰۲/۱۰/۱۹)

 

"ان شاء اللہ خداوند متعال یہ فتح تمام امت اسلامی کو مستقبل قریب میں دکھائے گا اور دلوں کو خوش کرے گا، اور فلسطینی قوم اور مظلوم اہل غزہ کو بھی ان سب کے سر فہرست ان شاء اللہ خوش و خرم کرے گا۔" (۱۴۰۲/۱۱/۰۳)

 

"«اِنَّ وَعدَ اللَهِ حَق»؛ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔وَ لا یَستَخِفَّنَّکَ الَّذینَ لا یوقِنون‌، اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے، وہ اپنی منفی باتوں سے تمہیں متزلزل اور کمزور نہیں کر سکتے۔ اور ان شاء اللہ حتمی فتح، جو کہ زیادہ دور نہیں، فلسطین اور فلسطینی عوام کی ہوگی۔" (۱۴۰۲/۰۸/۱۰)

غزہ پر صہیونی حکومت کی جانب سے 15 مہینے مسلسل ظالمانہ حملوں اور جارحیت کے باوجود صہیونی حکومت اپنے اہداف میں بری طرح ناکام ہوگئی اور بالاخر حماس کی شرائط قبول کرتے ہوئے جنگ بندی پر راضی ہوگئی۔

قطر کے وزیرخارجہ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے جنگ بندی کا اعلان کیا اور کہا کہ صہیونی حکومت نے جنگ بندی کے معاہدے سے اتفاق کیا ہے۔

اس سے پہلے صہیونی حکومت حماس کی مکمل نابودی کے اعلان کے ساتھ جنگ بندی سے انکار کررہی تھی تاہم فلسطینی مقاومتی تنظیم نے حالیہ مہینوں کے دوران مزید افرادی قوت حاصل کرلی جس کی وجہ سے غاصب صہیونی حکومت جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہوگئی۔

حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو فلسطین پر سات دہائیوں سے جاری صہیونی قبضے کے خلاف انتقامی کاروائی کرتے ہوئے طوفان الاقصی آپریشن کیا تھا اور سینکڑوں صہیونیوں کو ہلاک اور سینکڑوں کو یرغمال بنایا تھا۔

طوفان الاقصی کے بعد صہیونی حکومت نے غزہ پر پوری قوت کے ساتھ حملہ کردیا تھا۔ نتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ حماس کی مکمل نابودی تک غزہ پر حملے جاری رہیں گے۔ حماس کی نابودی اور یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی کے بعد صہیونی حکومت جنگ بندی پر مجبور ہوگئی ہے۔

1۔ عظیم عالم اور راوی حدیث جناب یحییٰ مازنی کا بیان ہے۔ ایک عرصہ تک میں مدینہ منورہ میں امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے پڑوس میں رہا۔ میرا گھر اس گھر کے قریب تھا جہاں آپؑ کی بیٹی حضرت زینب سلام اللہ علیہا رہتی تھیں۔ لیکن کبھی بھی کسی نے نہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو دیکھا اور نہ ہی ان کی آواز سنی۔

آپؑ جب بھی اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کا ارادہ کرتی تو نصف شب میں اس طرح تشریف لے جاتی تھیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام آگے ہوتے اور امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام آپؑ کے داہنے بائیں ہوتے تھے۔ جب قبر مبارک کے نزدیک پہنچتی تو امیرالمومنین علیہ السلام وہاں روشن چراغوں کو بجھا دیتے تھے۔

ایک دن امام حسین علیہ السلام نے اس کا سبب پوچھا تو امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘اخشي ان ينظر أحد الي اختك زينب’’ مجھے خوف ہے کہ کہیں کسی کی نظر تمہاری بہن زینب ؑ پر نہ پڑ جائے۔

(فاطمة الزهراء بهجة قلب المصطفي(ص)، الرحماني الهمداني ،صفحه :642)

2۔ منقول ہے کہ ایک دن امیرالمومنین علیہ السلام ایک مہمان کے ساتھ گھر تشریف لائے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے پوچھا کہ گھر میں مہمان کی میزبانی کے لئے کچھ ہے؟

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: صرف ایک روٹی کا ٹکڑا ہے جو زینب ؑ کے لئے رکھا ہے۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا اس وقت بستر پر تھی اور بیدار تھیں ، آپؑ کی عمر مبارک اس وقت فقط چار سال تھی لیکن آپؑ نے فرمایا: مادر گرامی! روٹی مہمان کے سامنے پیش کر دیں۔

آپؑ کی سخاوت و بخشش اور فداکاری کمسنی ہی سے عیاں تھی۔ روز عاشورا آپؑ نے اپنے دو بیٹے کربلا میں قربان کئے۔

جناب عون اور جناب محمد علیہما السلام کی شہادت کے بعد جب امام حسین علیہ السلام ان کے جنازوں کو لے کر خیمہ میں آئے تو آپؑ خیمہ کے باہر نہیں آئیں لیکن جب شبیہ رسولؐ حضرت علی اکبر علیہ السلام کا جنازہ لائے تو آپؑ بے چین ہو کر خیمہ کے باہر تشریف لے آئیں ۔ جس سے واضح ہے کہ آپؑ امام حسین علیہ السلام کے فرزند کو اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہتی تھیں ۔

(زندگانى حضرت زينب عليها السلام ص 26)

3۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: راہ شام کے تمام رنج و مصائب کے با وجود میری پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا کی کبھی بھی نماز شب ترک نہیں ہوئی۔

(وفيات الأئمه ، ص 441)

4۔ معروف واعظ و مبلغ مرحوم حاجی محمد رضا سقا زادہ کا بیان ہے کہ ایک دن میں عظیم عالم، مقدس و مہذب مجتہد جناب ملا علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے شام میں واقع حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک کے سلسلہ میں سوال کیا تو انھوں نے بتایا:

ایک دن مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ آقا ضیا عراقی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے بیان فرمایا : سعودی عرب کے شیعہ نشین علاقہ قطیف سے ایک شیعہ مومن حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے ایران روانہ ہوا، راستے میں اس کا پیسہ گم ہو گیا۔

وہ کافی پریشان ہوا اور آخر حضرت بقیۃ اللہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے توسل کیا ۔ اسی وقت ایک نورانی سید ظاہر ہوئے اور انہوں نے کچھ رقم دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے تم سامرہ پہنچ جاؤ گے۔

جب وہاں پہنچنا تو میرے وکیل میرزا محمد حسن شیرازی کے پاس جانا اور ان سے کہنا کہ سید مہدی نے کہا ہے کہ آپ میری طرف سے مجھے اتنی رقم دے دیں ، جس سے تم مشہد تک چلے جاؤ گے اور تمہاری مالی مشکل حل ہو جائے گی ۔ اگر میرزا محمد حسن شیرازی تم سے کوئی نشانی مانگے تو ان سے کہنا: اس سال موسم گرما میں آپ جناب ملا علی کنی طہرانی کے ساتھ شام میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک پر تھے۔ زائرین کی کثرت کے سبب روضہ مبارک کو نظافت کی ضرورت تھی تو آپ نے اپنے دوش سے عبا اتاری اور اس سے روضہ مبارک کی صفائی کی اور ملا علی کنی طہرانی نے کوڑا اٹھا کر باہر پھینکا ۔ اس وقت میں ان کے پاس ہی تھا ۔

قطیف کے زائر کا بیان ہے کہ جب میں سامرا پہنچا اور امامین عسکریین علیہماالسلام کی زیارت کے بعد آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اپنا مدعا بیان کیا۔ انھوں نے جیسے ہی یہ سنا فوراً مجھے گلے لگا لیا ، میری آنکھوں کو چوما، مجھے مبارکباد دی اور وہ رقم بھی عنائت فرمائی۔ اس کے بعد جب میں تہران پہنچا تو پورا ماجرا جناب ملا علی کنی طہرانی کی خدمت میں بھی بیان کیا تو انھوں نے تصدیق کی اور بہت متاثر پوئے اور فرمایا ائے کاش! تمہاری جگہ میں ہوتا۔

(داستان از فضایل، مصایب و کرامات حضرت زینب( س)، صفحه 174 و 175)

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے

الف۔ اہل بیت علیہم السلام کے روضہ ہائے مبارک پر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف حاضر ہوتے ہیں اور زائرین کے اعمال پر ناظر ہوتے ہیں۔

ب۔ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی نظر کرم زائرین کے شامل حال ہوتی ہے۔

ج۔ اہلبیت علیہم السلام کی خدمت ہر ایک کے لئے سبب افتخار اور باعث شرف ہے چاہے عام انسان ہو یا عظیم عالم و فقیہ ہو۔

د۔ مراجع کرام امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے وکیل عام ہیں۔

5۔ واقعہ کربلا تمام ہو گیا لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا غم و اندوہ ختم نہ ہوا ، ہر لمحہ اپنے بھائی کی مظلومیت اور شہادت کو یاد کر کے گریہ فرماتی تھیں۔

ایک سال مدینہ میں قحط پڑا ، آپؑ کے شوہر جناب عبداللہ کا جود و کرم مشہور تھا۔ چونکہ اس وقت انکا ہاتھ خالی تھا لہذا جناب عبداللہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو لے کر شام چلے گئے۔ جہاں جناب عبداللہ زراعت میں مشغول ہو گئے۔

لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا حسب دستور ہر لمحہ ذکر کربلا اور عزاداری میں مصروف رہیں اور اسی عالم میں آپؑ بیمار پڑ گئیں اور روز بہ روز آپؑ کی طبیعت ناساز ہوتی چلی گئی۔

ایک دن آپ نے ظہر کے ہنگام اپنے شوہر سے فرمایا کہ میرا بستر صحن خانہ میں زیر آسمان بچھا دیں ۔

جناب عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے حسب فرمائش صحن خانہ میں زیر آسمان بستر لگا دیا اور انہیں وہاں پہنچا دیا کہ کیا دیکھا کہ کوئی چیز آپؑ اپنے سینہ سے لگائے ہیں اور زیر لب کچھ فرما رہی ہیں ۔ قریب گیا تو دیکھا کہ وہ کربلا کی یادگار امام حسین علیہ السلام کا خون بھرا کرتا ہے اور مسلسل آپ ؑ کی زبان سے حسینؑ حسینؑ حسین ؑ کی صدا جاری ہے۔ اسی عالم میں آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔

(عقیلہ بنی ہاشم ص 57 و58)

2025ء کا سال شروع ہوتے ہی اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر وسیع چیلنجز سے روبرو ہونے پر مجبور ہے۔ اگرچہ صیہونی رژیم کی معیشت بہت مضبوط ہے اور اس کے پاس جدید ٹیکنالوجیز بھی ہیں لیکن وہ سیکورٹی شعبے میں بہت سی مشکلات کا شکار ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی آپریشن انجام پانے کے بعد اس کی سیکورٹی مشکلات مزید پیچیدہ ہو گئی ہیں۔ طوفان الاقصی آپریشن نے اسرائیل کو ایسی شکست سے روبرو کیا جس کی مثال نہیں ملتی اور تل ابیب جارحانہ پالیسیاں چھوڑ کر دفاعی پالیسیاں اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔ صیہونی رژیم کے سیاسی اور اسٹریٹجک ماہرین نے طوفان الاقصی آپریشن سے پہلے سیکورٹی شعبے میں مختلف قسم کے اہداف کا تعین کر رکھا تھا لیکن اس آپریشن کے بعد ان کے تمام منصوبے ناکام ہو گئے اور وہ اپنے اہداف پر نظرثانی پر مجبور ہو گئے۔
 
نیا سال شروع ہونے کے بعد غاصب صیہونی رژیم ایسے نئے چیلنجز سے روبرو ہے جو ماضی کے چیلنجز سے بالکل مختلف ہیں جبکہ پہلے والے چیلنجز بھی بدستور موجود ہیں۔ گذشتہ سال غاصب صیہونی رژیم اور ایران کے درمیان چند بار براہ راست فوجی ٹکراو انجام پایا ہے اور یہ خطرہ اب بھی صیہونی رژیم کے سر پر منڈلا رہا ہے جبکہ شمالی محاذ پر حزب اللہ لبنان کی تلوار بھی اس کے سر پر لٹک رہی ہے کیونکہ صیہونی فوج حالیہ جنگ میں حزب اللہ لبنان کی فوجی طاقت ختم نہیں کر پائی ہے۔ اس خطرے کی سب سے اہم علامت یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے شمال میں واقع یہودی بستیوں سے نقل مکانی کرنے والے آبادکار اب بھی اپنے گھر واپس نہیں لوٹ پائے ہیں۔ دوسری طرف مغربی کنارے سمیت پورے مقبوضہ فلسطین میں مزاحمتی کاروائیاں جاری ہیں۔ ان سب سے ہٹ کر اس سال صیہونی رژیم کو جن نئے اسٹریٹجک چیلنجز کا سامنا ہے وہ درج ذیل ہیں:
 
1)۔ بین الاقوامی حیثیت کا زوال
طوفان الاقصی آپریشن کی ایک اہم کامیابی یہ تھی کہ اس نے غاصب صیہونی رژیم کو گوشہ نشین اور نفرت انگیز رژیم میں بدل کر رکھا دیا اور بین الاقوامی عدالتوں نے اسے ایک مجرم اور باغی رژیم قرار دے دیا۔ اسی سلسلے میں عالمی عدالت انصاف نے صیہونی حکمرانوں پر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا جرم ثابت کر دیا اور صیہونی وزیراعظم اور سابق وزیر جنگ کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے۔ مزید برآں، خطے اور دنیا کی اکثر اقوام اور حکومتیں جو غزہ جنگ سے پہلے اسرائیل کو جمہوری اقدار کا گہوارہ سمجھتی تھیں اور اس کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کر رہی تھیں، غزہ جنگ کے بعد اسے ایک مجرم اور قاتل رژیم قرار دینے لگیں۔ ان واقعات نے صیہونی کاز پر انتہائی کاری ضرب لگائی ہے اور گذشتہ 76 برس سے تعیین شدہ اسٹریٹجک اہداف اور منصوبوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
 
2)۔ فوج کی ٹوٹ پھوٹ
غاصب صیہونی رژیم اپنے ڈھانچے میں صرف ایک ادارے کو مقدس قرار دیتی ہے اور وہ فوج ہے۔ صیہونی رژیم کا عقیدہ تھا کہ فوج پر کسی قیمت میں کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے لیکن گذشتہ چند سالوں میں اس عقیدے میں بہت حد تک تبدیلی آئی ہے اور صیہونی معاشرے میں فوج ایک متنازعہ ادارہ بن گیا ہے۔ اسی طرح اس پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں جن میں کچھ سیاسی گروہوں کو کچلنے کا الزام بھی شامل ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں صیہونی فوج کو کئی میدانوں میں واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی وجہ سے اس کی طاقت اور صلاحیتوں میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف ان ناکامیوں کے باعث صیہونی فوج کے حوصلے بھی پست ہو گئے ہیں اور وہ شدید ٹوٹ پھوٹ اور زوال کا شکار ہے۔
 
ان تمام وجوہات کی بنا پر صیہونی فوج کی حیثیت کو شدید صدمہ پہنچا ہے اور اندرونی سطح پر اس پر صیہونی معاشرے کا اعتماد بھی کم ہوا ہے۔ مستقبل میں خاص طور پر غزہ جنگ ختم ہو جانے کے بعد غاصب صیہونی رژیم کے سیکورٹی اور فوجی ادارے کئی چیلنجز سے روبرو ہوں گے جن میں فوج کی رفتہ عزت و وقار کی بحالی اور یہودی آبادکاروں کا اعتماد بحال کرنا بھی شامل ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ گذشتہ چند برس میں فوجی اہداف کے حصول میں صیہونی فوج کی مسلسل ناکامیوں نے اس کی چہرہ بری طرح مسخ کر دیا ہے۔ اگرچہ اس دوران صیہونی فوج کو محدود پیمانے پر کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں لیکن ناکامیوں کی مقدار اور شدت اس قدر زیادہ ہے کہ ان کے اثرات غالب ہیں جن کے باعث فوج زوال پذیر ہو رہی ہے۔
 
3)۔ اندرونی سطح پر خلیج میں اضافہ
جب غاصب صیہونی رژیم کا ناجائز وجود قائم ہوا ہے اس کی حکمت عملی "سیکورٹی اور ترقی کی حامل جمہوری یہودی حکومت" کے قیام پر استوار رہی ہے تاکہ یوں اندرونی سطح پر اپنی بقا یقینی بنا سکے۔ دوسری طرف جب سے موجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس کے انتہاپسند اتحادیوں کی جانب سے عدلیہ میں اصلاحات کا منصوبہ شروع ہوا ہے صیہونی معاشرے میں عظیم بھونچال رونما ہونے لگے ہیں۔ صیہونی معاشرہ اس وقت دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے؛ ایک نیتن یاہو کی اصلاحات کا حامی اور دوسرا مخالف اور روز بروز ان دونوں دھڑوں کے درمیان خلیج اور دراڑ بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی طرح طوفان الاقصی آپریشن کے بعد حماس کی جانب سے بڑی تعداد میں اسرائیلی یرغمالی بنا لیے گئے اور ان یرغمالیوں کی آزادی کے مسئلے نے بھی صیہونی معاشرے کو دو لخت کر دیا ہے۔ 

تحریر: علی احمدی