سلیمانی

سلیمانی

((آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ))(سورة الحديد ـ 7)

ترجمہ : تم اللہ اور رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب قرار دیا ہے تم میں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے راہ خدا میں خرچ کیا ان کے لئے اجر عظیم ہے ۔

قرآن کریم کی تعلیمات میں انفاق کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اور کیوں نہ ہو؟ اس لئے کہ انفاق تو اجتماعی کفالت کا ضامن ہے اور ایک معاشرے کے امن و سکون کا معیار و  قانون ہے ۔ اس کے علاوہ یہ اجتماعی عدل و انصاف کے قیام کا نقطہ آغاز بھی ہے ۔ قرآن کریم نے ایک انسان کے اندر انفاق کی عادت پیدا کرنے کی غرض سے وہ تاکید کی ہے جس میں کسی کو شک کی گنجایش باقی نہیں رہ سکتی ۔ قرآن کریم نے مال کو خدا کا مال اور لوگوں کو اس مال میں اللہ کے عیال قرار دیا ہے ۔ لہذا یہ لوگ اس مال سے عام فائدہ حاصل کرنے کے اعتبار سے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ اس مال کا کسی کے پاس ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کا مالک مطلق ہو ۔ اور اس کا جمع کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا نہیں آدمی اس مال میں خدا کا خلیفہ ہے اور اصل مالک اللہ تعالی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اس طرح سے خرچ کرے جس میں اس کا مالک حقیقی راضی ہو ۔ کیونکہ آدمی تو اس مال میں صرف امانت دار کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا اسلام میں مال کے لحاظ سے یہ عظیم نظریہ ابھرتا ہے اور یہ کہ یہ مال انسان کی انفرادی اور اجتماعی عزت والی زندگی گزارنے کا سبب بنتا ہے۔ لہذا یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ لوگ جو جی چاہے اپنی مرضی کریں اور اپنے ان مفادات کو حاصل کرنے کے لئے مال کو جس طرح چاہیں خرچ کریں۔ اگرچہ کہ اولی یہ ہے کہ یہ مال اس کی سعادت و بہبود میں استعمال ہو جس کو اس محنت کر کے کمایا اور جمع کیا ہے۔ وہی شخص اپنے مال کے تصرف میں حق رکھتا ہے اور شارع مقدس نے بھی اس کے مذکورہ حق کو بیان فرمایا ہے ۔ البتہ اسی نے یہ حق بھی رکھا کہ اس مال سے ہی فقراء اور محتاجوں کی نیازمندی بھی دور کی جائے گی۔ یعنی دولتمندوں اور امیروں کے مال میں ہی محتاجوں اور فقراء کا حق رکھا تاکہ وہ ان ضرورتمندوں کا بھی حق ادا کریں ۔ قرآن کریم کی آیت میں مذکور حکم اسلامی کی بہتریں تاکید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ فرمان بھی  ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "لم نُبعَث لجمع المال ولكن بُعِثنا لإنفاقه."؛ ہم مال جمع کرنے کے لئے مبعوث نہیں ہوئے بلکہ مال انفاق کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں ۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ اگر جمع مال کو ہی مقصد بنا لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مال و دولت صرف امیروں اور دولت مندوں ہی کے ہاں ڈھیر لگ جائے جس کا  نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی گردش رک جائے گی اور ذخیرہ اندوزی کا ذریعہ بنے گا تقسیم و گردش کا سلسلہ منجمد ہوجائے گا۔ جس سے معاشرہ بد حالی اور بحران کا شکار ہوجائے گا اور صرف ایک خاص گروہ کے ہاتھوں میں یہ مال جمع ہوکر رہ جائے گا جس کے نتیجے میں یہ لوگ  عوام  پر ظلم و استبداد بھی کریں گے اور مال کی ذخیرہ اندوزی بھی  کریں گے۔ جس سے معاشرہ ایک بڑے اقتصادی بحران کا شکار ہوجائے گا۔  جمع مال و ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے رونما ہونے والے سماجی اور معاشرتی بحران جو تاریخ میں پیش آئے ہمارے مدعا کے  ثبوت کے لئے کافی ہیں ۔

اصول و قاعدہ یہ ہے کہ یہ کائنات اللہ کی ہے اور وہی بادشاہی کا مالک ہے :

((قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ  إِنَّكَ على كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ))(سورة آل عمران ـ 26)،

ترجمہ : کہد یجیئے کہ اے خدایا تو صاحب اقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلب کرلیتا ہے جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے ۔ سارا خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شے پر قادر ہے ۔

اسلام دولت  کو بھی اس کے مالک کی طرح اللہ کی ملکیت قرار دیتا ہے اور اسلام کی نگاہ میں دونوں کا مالک حقیقی اللہ ہی ہے ۔لہذا آدمی دولت کا اعتباری اور قراردادی مالک ہے ۔اس اعتباری مالک کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے مال و ملکیت میں جس طرح کا بھی تصرف کرنا چاہے کرے۔ چاہے اس کی وجہ سے دوسرے انسانوں کے حقوق ضائع کیوں نہ ہوجائیں۔ غرض اس طرح کا مطلق اختیار آدمی کو نہیں دیا گیا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ قرآن کریم نے انسان کے ایمان کو انفاق مال کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور  ایمان کی نشانی انفاق مال قرارر دیاگیا اور دوسری جانب صاحب مال و دولت کو اس مال میں خلیفہ کہا گیا  ہے۔ غرض یہ کہ مال کو شرع مقدس کی جانب سے بتائے ہوئے مقامات پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے ساتھ نزدیک کا رابطہ ہے۔ اس سے مال خرچ کرنے والے کو اجر و ثواب بھی مل جاتا ہے۔ اس میں بہترین بات یہ ہے کہ قرآن کریم اس انفاق کے لئے کوئی ایک مقام معین نہیں کرتا ہے جس طرح سے خمس و زکات اور صدقہ وغیرہ کا مصرف معین ہے۔ بلکہ قرآن نے اس راستے کو عام رکھا تاکہ آدمی کسی بھی جگہ انفاق کرسکے جو شرعی لحاظ سے مباح ہوں۔ اگرچہ حصول کے لحاظ سے راستے معین کئے ہین مانند تجارت اور مال کو گردش میں رکھنا اس سے فائدہ اٹھانا وغیرہ۔ بہر کیف قرآن کریم کی آیت انفاق میں مال کو انفاق کرنا مقصود ہے تاکہ ذخیرہ اندوزی اور ایک جگہ اس کا ڈھیر نہ لگ جائے ۔ کیونکہ ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے دوسرے لوگ محروم رہ جاتے ہیں ۔ اور مال کے انفاق سے بہت سارے فوائد حاصل ہوتے ہیں منجملہ محتاجوں  اور غریبوں کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں اور اچھے انداز سے ان کمزوروں کی زندگی  کا نظام چلنے لگتا ہے ۔ یوں عمومی معاشرتی کفالت کا بند وبست بھی ہوجاتا ہے ۔ علاوہ اس کے مختلف انواع و اقسام کی فضول خرچیوں  اور اسراف کا بھی سد باب ہوجاتا ہے۔

نیز یہ کہ انفاق  سے اس کے مالک کو بڑا ثواب بھی حاصل ہوتا ہے ۔یہ وہ ثواب ہے جس کا وعدہ اللہ سبحانہ و تعالی نے مؤمنین کو جنت کا دیا ہے۔ خاص طور سے اس طرح کا انفاق معاشروں  میں ظلم و فساد کو بھی روک دیتا ہے ۔کیونکہ اس طرح کے فسادات یقینا غربت و افلاس کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے آج کے نظام اقتصادی میں اس نظریہ پر تاکید کی جاتی  ہے " جو ملک و معاشرہ اقتصادی اعتبار سے فقیر ہے اس میں مال و دولت کا ایک جگہ جمع ہونے کے بجائے گردش میں ہونا اس ملک کی معیشت میں بہبودی کا باعث ہوتا ہے ۔" اور لوگ تلاش و کوشش میں مصروف ہوتے ہیں ۔ جس سے بدیہی طور پر لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور ان کی ضروریا ت پوری ہوجاتی ہیں بلکہ ان کی حالت میں بہتری آجاتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ  کہ انفاق  ہر اس ملک و معاشرے کے لئے ضروری اور  کلید ی حیثیت رکھتا ہے جو اقتصادی لحاظ سے کمزور ہے ۔ پس یہ جو تاکید کی جاتی ہے کہ دولت مندوں اور امیروں  کو اپنا مال انفاق کرنا چاہئیے اس سےمراد عام ہے یعنی یہ کہ وہ اپنی دولت کو گردش میں رکھیں اگرچہ مارکیٹ کے ذریعے سھی جس سے معاشرے میں توازن برقرار رہتا ہے اور ایک معاشرے کے اندر کفالت کا ضروری مرتبہ محقق ہوجاتا ہے ۔ یوں بنیادی ترین اقتصادی اور معیشتی بہبودی قائم ہوجاتی ہے 

 ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران حریت پسند تحریکوں کی حمایت کرتا ہے۔

انہوں نے صہیونی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے ہمارے مہمان کو ہماری سرزمین پر شہید کردیا۔ صہیونی حکومت کو لبنان پر حملے کا جواب مل کر رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک طاقتور مشرق وسطی کی بات کی ہے۔ پہلے ہمیں ایک دوسرے کو ہمسایہ ماننا ہوگا جو ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے۔ خطے میں بیرونی طاقتوں کی موجودگی بدامنی کا باعث ہے۔ ہماری ترقی اور خوشحالی ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ خطے کی سیکورٹی کو بیرونی طاقتوں کے حوالے کرنا کسی کے فائدے میں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ خطے کے تمام ممالک کے مفادات کی حفاظت ہونا چاہیے۔ اگر ممالک کے مفادات محفوظ نہ ہوں تو پائیدار امن قائم نہیں ہوگا۔

صدر پزشکیان نے کہا کہ خطے کے ممالک اپنے وسائل کو ہتھیاروں کی دوڑ لگانے میں ضائع نہ کریں۔ ہمارا خطہ جنگ، دہشت گردی، سمگلنگ، قحط سالی اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت جیسے مشکلات کا شکار ہے۔

ڈاکٹر پزشکیان نے امریکی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے آپ کے ملک پر پابندی نہیں لگائی اور آپ کی زرعی اور بینکنگ سسٹم تک رسائی نہیں روکی اور آپ کے آرمی چیف کو قتل نہیں کیا، لیکن امریکہ نے یہ کام کیا اور ایران کے سب سے اعلی کمانڈر کو قتل کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایران دوسروں کے لیے عدم تحفظ پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم سب کے لیے امن چاہتے ہیں۔

صدر پزشکیان نے کہا کہ یکطرفہ پابندیوں سے عوام متاثر ہوتے ہیں۔ ایرانی قوم کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اس وقت استعمال کی گئی جب ایران نے جوہری معاہدے کے تحت بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ اپنے وعدے پورے کئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جوہری معاہدے کے تمام فریقوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ میرا پیغام ان تمام حکومتوں کے لیے یہی ہے جنہوں نے ایران کے خلاف غیر تعمیری حکمت عملی اپنائی ہے کہ تاریخ سے سبق حاصل کریں۔

صدر پزشکیان نے کہا کہ صیہونی حکومت نے ہماری سرزمین پر ہمارے سائنسدانوں اور مہمانوں کو قتل کیا ہے۔ صہیونی حکومت داعش اور دہشت گردوں کی حمایت کرتی ہے۔

انہوں نے لبنان پر صہیونی حکومت کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی حکومت کو جارحیت کا جواب مل کر رہے گا۔ عالمی برادری کو فوری طور پر صہیونی جارحیت کا خاتمہ کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کہ فلسطینی عوام کو عمومی ریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقبل کے تعین کا حق دینا چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے ہی دیرپا امن قائم کیا جا سکتا ہے۔

لبنان پر اسرائیلی حملوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 492 ہوگئی جبکہ 1645 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ لبنان کی وزرات صحت کا کہنا ہے کہ جاں بحق افراد میں 35 بچے اور 58 خواتین شامل ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق بیروت پر حملے میں حزب اللّٰہ کے سینیئر کمانڈر علی کرکی محفوظ رہے ہیں۔ دوسری جانب مصر نے آج سے بیروت جانے والی تمام پروازیں منسوخ کر دیں۔ قبل ازیں اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ حملے اُس وقت تک جاری رہیں گے، جب تک ہم اہداف حاصل نہیں کرلیتے، ہم نے حزب اللّٰہ کے خلاف حملوں کو وسیع کر دیا ہے۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ۔ ذات باری تعالٰی نے حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اور ان تمام جہانوں میں سے بھی ہم وہ خوش نصیب ہیں جو اس نبی پاک کی امت ہیں۔اسی طرح بلاتفریق مذہب و ملت حتٰی مخلوقات عالم و تمام عالمین کیلئے حضور پاک کی ذات مبارکہ رحمت ثابت ہوئی ہے۔ رحمت اللعالمین کی آمد اور جشن صادقین کے ایام کی سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کیونکہ اسی ہفتے امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت بھی ہوئی ہے۔ یقین جانیں اگر ہم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل پاک کی سیرت اور احکامات پر عمل کریں تو دین و دنیا اور دونوں جہانوں میں کامیابیاں ہمارا مقدر ٹہریں گی۔ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہمارا ایمان ہے اور ان کا کلمہ پڑھنے والا ہی مسلمان کہلاتا ہے۔ اگر عملی طور پر بھی ہم اسے اپنا لیں تو ہماری مشکلات حل ہو جائیں۔ آج ہم مسلمانوں کی مشکلات کی اہم وجہ یہی ہے کہ ہم نے قرآن کا احترام اسے چوم کر اونچے طاقوں میں رکھنے کو قرار دیا اور نبی پاک کی سیرت پر عمل کرنے کی بجائے ان سے صرف جزباتی وابستگی اپنائے رکھی۔

کلام مجید کو چوم کر رکھ دینا قرآن کی عزت نہیں، بلکہ اس کو پڑھ کر اس پر عمل کرنا اس کی صحیح معنوں میں عزت ہے۔ اسی طرح نبی پاک سے جذباتی وابستگی تو ہم سب بڑھ چڑھ کر رکھتے ہیں۔ ان کی محبت کے دعویدار بن کر ایک دوسرے پر گستاخی کے فتوے لگاتے ہیں لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین پر عمل کرنے کی طرف توجہ کم ہے۔ حالانکہ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کے مطابق نماز نہ پڑھنا، جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، برے کاموں سے پرہیزنہ کرنا اور اسی طرح دیگر احکامات کی خلاف ورزی کرنے پر ہم رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔ جبکہ ان کی خوشنودی اور کامیابی ان کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور اگرہم صحیح معنوں میں اس پر عمل پیرا ہوتے تو آج عالم اسلام جن مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اس سے دوچار نہ ہوتے۔

ان ایام میں جہاں بھی جائیں درود سلام نعت کی محفلیں اور مسلمانوں کے اندر جوش و خوش اور محبت دیکھ کرخوشی کا احساس ہوتا ہے۔ ان دنوں میں کلمہ گو مسلمان ایک دوسرے کو گرمجوشی سے مبارکباد پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ مشسمانوں کے اندر وحدت کا جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کے اندر حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی تاریخ ولادت کے حوالے سے کچھ اختلاف ضرور ہے۔ کچھ 12 ربیع الاول اور کچھ 17 ربیع الاول کو رسول پاک کی ولادت کی تاریخ مانتے ہیں۔ لیکن وحدت مسلمین کے داعی اور بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی ؒ نے اس فرق کو بھی ایک خوبصورت شکل میں ڈھال دیا تھا۔ انھوں نے فرمایا کہ مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکت کو اپنے اتحاد کا محور قرار دیں۔ اور 12 یا 17 کی بجائے 12 سے 17 ربیع الاول پورا ہفتہ "ھفتہ وحدت" کے طور پر منایا جائے۔ ان کی اس تجویز کا پورے عالم اسلام میں بھرپور خیرمقدم کیا گيا اور اب پورے ہفتے میں عید میلادالنبی (ص) کے سلسلے میں جشن اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بہرحال بارہ سے سترہ ربیع الاول تک جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے ایام ہیں، عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ مستحکم حصار اور مضبوط قلعہ اگر تعمیر کر لیا جائے تو کوئی بھی طاقت اسلامی ملکوں اور قوموں کی حدود میں قدم رکھنے کی جرات نہیں کرسکے گی۔

مسلمانوں کیلئے محور کتاب خدا، سنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور شریعت اسلامیہ کو قرار دیا جائے۔ یہ تو ایسی بات ہے جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان قبول کرے گا۔ قرآن پاک کہتا ہے کہ "و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا" اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے، لیکن قرآن نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ ہر مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے بلکہ حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی شکل میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں ۔ "جمیعا" یعنی سب کے سب ایک ساتھ مضبوطی سے پکڑیں۔ چنانچہ یہ اجتماعیت اور یہ معیت دوسرا اہم فرض ہے ۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ عمل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اجتماعی طور پر انجام دیا جانا ہے۔ اس اعتصام کی صحیح شناخت حاصل کرکے اس عمل کو انجام دینا چاہئے۔ 

اس طرح مسلمان اپنا بہترین دفاع کرسکتے ہیں۔ اللہ سے تمسک، توکل اللہ اور ایمانی و روحانی طاقت جیسی نعمتوں کو اگر بروئے کار لائیں گے تو ایک ناقابل تسخیر امت ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان امور پراللہ سے خلوص کے ساتھ عمل پیرا ہوں۔ اور رب کی عطا کردہ کامیابی اور توکل پر کامل یقین ہو۔ تو کامیابی اور بلندی یقینی ہے۔ کیونکہ اللہ پاک فرماتا ہے۔ " ولینصرن اللہ من ینصرہ" (اللہ اس کی مدد کرےگا جو اللہ کی نصرت کرے گا، حج 40)۔ اور اگر آج ہم اللہ کی مدد کے وعدے یہ تمام وسائل ہونے کے باوجود دنیا میں مشکلات کا شکار ہیں تو اس میں ظاہر ہے خود ہماری کمزوریاں ہیں خامیاں ہیں۔ اگر آج خدا کے عطا کردہ وسائل پر دشمن قابض میں تو اس میں ہم مسلمانوں کی ہی کمزوری ہے۔ آج فلسطین پر مظالم ہورہے ہیں تو یہ مسلمانوں میں اتحاد نہ ہونے کے سبب ہیں۔ کیا یہ سب کو مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہے؟۔ دشمن ہمیں مختلف فرقوں میں قوم میں نسل میں بانٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے مفادات حاصل کررہا ہے۔ لیکن مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مجبور و بے بس ہیں۔ اسلئے آج مسمانوں کی کامیابی کا واحد حل صرف اللہ کی رسی کو مل کر اور مظبوطی سے تھام لینے میں ہے۔اللہ پاک ہمیں اس ماہ مبارک میں اسلام کی تعلیمات اور نبی پاک کی سیرت پر مکمل عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب عالمین۔

بیروت میں حزب اللہ اعلی کمانڈروں کی شہادت کے بعد مقاومتی تنظیم کی جانب سے جوابی کاروائی کے خوف میں مبتلا تل ابیب حکام نے شمالی سرحدوں پر تعیینات سیکورٹی اہلکاروں کو مزید الرٹ رہنے کا حکم دیا ہے۔

حزب اللہ نے جوابی حملوں کا آغاز کرتے ہوئے آج علی الصبح حیفا میں اہم صہیونی فضائی اڈے پر میزائل حملہ کیا ہے۔

عبرانی ذرائع ابلاغ نے کہا ہے کہ مزید حملوں سے بچنے کے لئے ساحلی شہروں عکا، نہاریا اور حیفا میں رفت و آمد کو محدود کرنے کے علاوہ فضائی حدود بند کردی ہیں۔

یسرائیل ہیوم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نہاریا کی مقامی انتظامیہ نے اتوار کے دن اسکولوں میں عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ الخضیرہ سے شمالی فلسطین تک کی فضاوں کو تین دن کے لئے پروازوں کے لیے بند کردیا ہے۔

فنانشل ٹائمز نے صہیونی خفیہ ایجنسی کے سابق اہلکار کے حوالے سے کہا ہے کہ ملک کسی حکمت عملی کے بعد ایک نامشخص اور مہنگی جنگ کی طرف جارہا ہے۔ جنگ کی صورت میں اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا جو ہمارے لیے بحران پیدا کرے گا۔

مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار نے کہا ہے کہ ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے نیویارک روانہ ہوگئے ہیں۔

روانگی سے پہلے تہران کے مہرآباد ائیرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر پزشکیان نے کہا کہ اقوام متحدہ کے فورم سے ایرانی عوام کی آواز دنیا تک پہنچاوں گا۔ ہم حق طلبی اور انصاف طلبی کی صدا بلند کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ دنیا میں ایک اہم ادارہ ہے جس میں تمام ممالک کے سربراہان اور اعلی رہنما حاضر ہوتے ہیں۔ اگر یہ ادارہ اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح ادا نہ کرے تو دنیا میں کوئی بھی ملک اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کرے گا۔

صدر پزشکیان نے صہیونی حکومت اور اس کے مغربی حامیوں کے جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ جرائم سے دنیا کے عوام کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

انہوں نے فلسطین اور لبنان میں صہیونی حکومت کی جارحیت کے حوالے سے اقوام متحدہ کے نرم رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

سب سے پہلے تو اربعین کے ان ایام کو دل کی گہرائی سے اور اپنے پورے وجود سے تعظیم پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالی کے لطف و کرم کی مدد لیتے ہوئے عوام کی اربعین سے متعلق سرگرمیوں پر شکر ادا کرتا ہوں۔

آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کو ہفتہ حکومت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ یہ ہفتہ آپ کے ٹرم کے برسوں کے لئے امید و نوید اور مسرور کن رپورٹوں کا ہفتہ ثابت ہو۔

عزیز شہیدوں، شہید رجائی اور شہید باہنر کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں کہ جن دو بزرگواروں کے نام سے ہفتہ حکومت منسوب ہے اور اس عنوان کے انتخاب کا خاص رمز ہے۔ رمز یہ ہے کہ حکومت شہیدوں اور  راہ شہدا سے عقیدت رکھنے والی ہو اور بحمد اللہ کم و بیش ایسا ہی رہا ہے۔

اپنے عزیز شہید، صدر جمہوریہ مرحوم جناب رئیسی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کے لئے یہ ممتاز نام جو اللہ تعالی نے انہیں عطا کیا دائمی و پائيدار بنا دینے کی اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کے درجات اور ان کے مرحوم ساتھیوں منجملہ ان کے وزیر خارجہ (2) کے درجات بلند فرمائے اور دوام عطا کرے۔

ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ صدر محترم کی محنت سے اور پارلیمنٹ کے گراں قدر تعاون کے نتیجے میں کابینہ تشکیل پا گئی۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ بعض گزشتہ حکومتوں میں بعض اوقات تقریبا ایک مہینہ یا اس سے زیادہ وقت لگ جاتا تھا حکومت تشکیل پانے میں اور سارے وزرا کو پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ نہیں مل پاتا تھا۔ اللہ نے آپ پر، ہم پر اور ملک پر یہ لطف کیا کہ بحمد اللہ سارے وزرا پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیکر باہر نکلے۔ اس تلخ اور غم انگیز واقعے کے بعد جو لوگ ان انتخابات میں اور اس حکومت کی تشکیل میں موثر رہے سب کو بارگاہ خداوندی سے اجر ملے گا، گزشتہ حکومت کے افراد، قومی نشریاتی ادارہ، دوسرے مختلف عہدیداران جنہوں نے مدد کی کہ اس تلخ اور اندوہناک واقعے کے بعد قوم جوش و خروش کے ساتھ انتخابات میں شامل ہو۔ صدارتی انتخابات بھرپور امن و سلامتی کے ماحول میں ہوئے۔ اس کے بعد وزرا کا انتخاب ہوا۔ واقعی ان سب کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے۔ اللہ تعالی کا بھی ہم واقعی دل سے شکر بجا لاتے ہیں۔ میں چند نکات عرض کروں گا۔ تشکر کے چند کلمات بھی بعد میں عرض کروں گا۔

صدر مملکت بھی ان وزرا کے انتخاب میں جو ان کے ساتھ کام کریں گے، تعاون کریں گے، بڑی محنت اور تندہی سے لگ گئے۔ مجھ سے بھی صلاح مشورہ کیا۔ میں نے کچھ افراد کی تایید کی جنہیں میں جانتا تھا یا قابل اعتماد ذرائع سے جن کے بارے میں مجھے وثوق حاصل ہوا تھا۔ کچھ ناموں پر میں نے تاکید بھی کی۔ زیادہ تعداد ان کی تھی جنہیں میں نہیں پہچانتا تھا تو میں نے کہا کہ ان کے بارے میں میں کوئی رائے نہیں دوں گا۔ الحمد للہ جناب انتخاب کا کام انجام دینے میں کامیاب رہے اور پارلیمنٹ کو بھی مطمئن کر لے گئے۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ ہم اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

آج یہ سارے محترم وزرا اور آپ عزیز بھائی اور بہن جنہیں پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ ملا ہے، اس ملک کے اعلی رتبہ عہدیداران ہیں۔ ہم سب کا فریضہ ہے کہ آپ کی حمایت کریں، آپ کی مدد کریں، اگر مدد کی ضرورت ہو تو، کوشش کریں کہ ان شاء اللہ آپ اپنے پروگراموں کی انجام دہی میں کامیاب ہوں۔

میں نے چند نکات نوٹ کیے ہیں وہ عرض کروں گا۔ پہلا نکتہ شکر خدا ہے۔ آپ آج ایسے مقام پر ہیں کہ ملک کی پیشرفت میں اور ملکی امور چلانے میں موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وزارت ایسی پوزیشن آپ کو دیتی ہے۔ یہ اللہ کی نعمت ہے۔ یہ چیز کہ انسان عوام کی خدمت کر سکے، بہت بڑی نعمت ہے۔ بہت سے افراد ہیں جو خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں موقع نہیں ملتا۔ اللہ نے آپ کو یہ موقع دیا ہے۔ اللہ کا شکر بجا لائيے، اس کی قدردانی کیجئے، اللہ تعالی سے مدد مانگئے۔ اس عہدے کو اللہ کی امانت اور عوام کی امانت سمجھئے اور اس عظیم عہدے اور ذمہ داری کی حفاظت کیجئے۔ البتہ یہ چار سال جو انسان کی زندگی کا حصہ ہیں برق رفتاری سے گزر جاتے ہیں۔ 85 سال کی عمر میں میں جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں کہ تو نظر آتا ہے کہ 85 سال بجلی کی رفتار سے گزر گئے، بیت گئے۔ یہی چیز ہے، چار سال تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ لیکن اسی زود گزر مہلت کے اندر بڑے کام بھی انجام دئے جا سکتے ہیں۔ امیر کبیر نے ملک میں تین سال امور مملکت چلائے اور بہت بڑے کاموں کی بنیاد رکھ دی۔ خود ہمارے عزیز رئیسی صاحب نے تین سال ہی حکومت کی، عہدہ صدارت سنبھالا اور آپ نے بہت اچھے کام کئے، کچھ کاموں کی بنیاد ڈالی جن کے ثمرات ان شاء اللہ بعد میں ملک کو حاصل ہوں گے۔ یعنی آپ کام کر سکتے ہیں۔ ان چار برسوں میں ان شاء اللہ سلامتی و عافیت کے ساتھ آپ بڑے کام انجام دینے میں کامیاب ہوں گے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حکومتی افراد کے کارآمد ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ اپنے وسائل سے آگاہ ہوں، اپنے سرمائے سے باخبر ہوں، توانائیوں اور صلاحیتوں سے مطلع ہوں جنہیں بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ان برسوں میں مجھے کچھ ایسے عہدیداران بھی نظر آئے جو موجود صلاحیتوں سے باخبر نہیں تھے، ملک کے انسانی وسائل سے باخبر نہیں تھے، ملک کے قدرتی وسائل سے آگاہی نہیں رکھتے تھے۔ ایک عہدیدار نے ایک موقع پر کہا کہ مجھے ہائی وے کی تعمیر کے لئے غیر ملکی انجینئروں کی خدمات لینے کی ضرورت ہے۔ آج آپ کے انہیں نوجوانوں کے ہاتھوں ملک کے اندر ہائی وے اور ایکسپریس وے بنے ہیں۔ تو ہمیں ان غیر ملکیوں کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ عدم آگاہی بہت بڑی خرابی ہے۔ دوسری بھی گوناگوں مثالیں میرے ذہن میں ہیں لیکن انہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

موجود اثاثوں سے آگاہ رہئے۔ ہمارے پاس موجود ثروت بھی زیادہ ہے اور ہماری توانائیاں اور صلاحیتیں اس سے کئی گنا زیادہ ہیں جتنی ہم بروئے کار لا چکے ہیں۔ ہمارے پاس کئی طرح کے وسائل اور صلاحیتیں ہیں۔ وہ صلاحیتیں جو بروئے کار لائی گئی ہیں اور جنہیں بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ایک تو قدرتی وسائل ہیں۔ منرل ریسورسز کے لحاظ سے ہمارے پاس توانائیاں ہیں۔ تیل ہے، گیس ہے، گوناگوں قسموں کے ذخائر و وسائل ہیں۔ اسی ریگستان میں جو آپ دیکھ رہے ہیں، جو لوگ ریگستان کے ماہر ہیں کسی موقع پر مجھے بتا رہے تھے کہ بے پناہ وسائل موجود ہیں، ایسی ثروت ہے جس کی قیمت تیل اور گیس سے زیادہ ہے۔ ہمارے پاس یہ ساری چیزیں ہیں۔ اس علاقے میں ہمارا منفرد قسم کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ سرزمین کے اعتبار سے دیکھئے تو ہم مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کے جنکشن پر واقع ہیں۔ یہ بہت اہم محل وقوع ہے۔  آب و ہوا کے اعتبار سے بھی، آب و ہوا کے تنوع سے بھی ہمارے یہاں بڑے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ یہی مکران کا علاقہ، خوشی کی بات ہے کہ جناب صدر محترم اس موضوع کے بارے میں مجھ سے بات کر رہے تھے تو انہوں نے کئی بار اس کا نام لیا، اس پر ان کی توجہ ہے، اس سے بھی بڑے اہم مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح کے مواقع ہمارے یہاں بہت زیادہ ہیں۔ یہ قدرتی مواقع و وسائل ہیں۔

مواقع اور وسائل کی ایک اور قسم انسانی وسائل کی ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان۔ ہمارے ملک میں ملینوں تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جو کام کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ اگر ہم ان سے استفادہ کر سکیں، انہیں پہچانیں، ان کی توانائی سے اور ان کی فکری صلاحیتوں سے استفادہ کر سکیں تو ملک کے بہت سے کام انجام پا جائیں گے۔ تعلیم یافتہ نوجوان، درخشاں صلاحیتیں، علمی توانائياں، ممتاز استعداد والے نوجوان تیار کرنے کی صلاحیتیں۔ دیکھئے جب ہم خواجہ نصیر الدین طوسی یا ابن سینا یا محمد زکریا رازی  یا ملا صدرا اور بقیہ علمی ہستیوں کو دیکھتے ہیں جو اس زمانے تک ہمارے اس ملک میں پیدا ہوئیں تو اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہماری علمی و فکری پرواز کی سطح بہت بلند ہے اور ہم ان بلندیوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہزار سال بعد آج بھی ابن سینا کی کتابیں دنیا میں بحثوں کا موضوع ہیں۔ یہ بہت بڑی چیز ہے۔ یہ بڑی اہم حقیقت ہے۔ ہمارے پاس نابغہ روزگار پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ یعنی ہمارے نوجوانوں میں سے نابغہ پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ سب انسانی مواقع، وسائل اور سرمائے ہیں۔

 عوام کا جذبہ ایمانی اہم توانائیوں میں سے ہے۔ عوام کے اندر جو ایمان ہے، دینی ایمان اور سیاسی ایمان، یہ بہت قیمتی ہے۔ یہ بھی ایک توانائی ہے۔ ایک توانائی ملک کی سیاسی توانائی ہے۔ جیسے ہماری اسٹریٹیجک ڈیپتھ۔ ایک زمانہ تھا جب ایران کو قالین اور تیل وغیرہ کے لئے جانا جاتا تھا۔ آج ایران دنیا میں سائنس کے لئے پہچانا جاتا ہے، عسکری پیشرفت کے لئے پہچانا جاتا ہے، علاقائی طاقت کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے، اسٹریٹیجک ڈیپتھ کے لئے جانا جاتا ہے۔ یہ ہمارے پاس ایک اہم موقع ہے۔ دنیا کے ممالک اور علاقے پر اثر انداز ہونے کی توانائی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ بہت اہم ہے۔ یہ بھی اہم مواقع میں ہے۔

گراں قدر توانائیوں میں سے یہ تجربات ہیں۔ ان تجربات کی ہمیں قدر کرنا چاہئے۔ اَلعَقلُ حِفظُ التَّجارِب۔ یہ امیر المومنین کا قول ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام تجربات سے استفادہ کرنے اور تجربات کی حفاظت کو دانشمندی کی نشانی مانتے ہیں۔ وَ خَیرُ ما جَرَّبتَ ما وَعَظَک‌ (۳) جو تجربہ آپ کو درس دے سکتا ہو اور آپ کو نیا راستہ دکھا سکتا ہو۔ ہمارے پاس اچھے تجربات ہیں۔ مختلف حکومتیں آئیں، انہوں نے کام کئے جو ہمارے لئے تجربہ ہے۔ کچھ کام ایسے تھے جو انہیں نہیں کرنا چاہئے تھا مگر انہوں نے کیا اور ہم نے نقصان اٹھایا۔ کچھ کام تھے جو انہیں کرنا چاہئے تھا اور انہوں نے نہیں کیا، ہمیں نقصان اٹھانا پڑا۔ کچھ کام ایسے تھے جنہیں کرنا چاہئے تھا اور انہوں نے کیا تو ہمیں فائدہ پہنچا۔ یہ سب تجربات ہیں۔ ان سے استفادہ کرنا چاہئے۔

اگلا نکتہ ٹیم کے افراد کا انتخاب ہے۔ ظاہر ہے آپ اپنی ٹیم کے لئے کچھ افراد کا انتخاب کریں گے۔ میری سفارش یہ ہے کہ ایسے افراد کی زیادہ مدد لیجئے جن کے اندر یہ خصوصیات ہوں: نوجوان ہوں، مومن ہوں، انقلابی ہوں، فرض شناس ہوں، جوش و جذبے سے بھرے ہوں، اسٹیم سیلز کے شعبے میں، گوناگوں شعبوں میں جو دنیا کی بڑی سائنسی اور تحقیقاتی گتھیاں تھیں، ان کے سلسلے میں ان نوجوانوں کی ہم نے مدد لی اور ہم آگے بڑھے، بحمد للہ بہت بڑی کامیابیاں ملیں۔ ان کی خصوصیت یہی ہے۔ ان نوجوانوں کی خدمات لیجئے۔ وہ گرہیں کھول دیتے ہیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ جب آپ نوجوانوں کو لاکر نیچے سے اوپر تک الگ الگ سطح کے عہدوں پر رکھیں گے تو آپ مستقبل کے لئے اچھے منتظم اور عہدیدار تیار کریں گے۔ یعنی جب آپ اپنے سسٹم میں نوجوانوں کو لائیں گے تو انہیں تجربہ حاصل ہوگا اور آئندہ کے لئے جوش و جذبے سے بھرے عہدیداروں کی ایک پیڑھی آپ کے لئے تیار ہو جائے گی۔ میری نظر میں یہ چیز بہت اہم ہے۔ جناب صدر محترم سے ہم نے بات کی تو یہ موضوع زیر بحث آیا۔ اگر مثال کے طور پر وہ سو فرض شناس، جوش و جذبے سے سرشار انقلابی نوجوان تیار کر لے گئے اور اپنے ٹرم کے آخر تک یہ سو نوجوان ملک کو دیں تو سمجھئے کہ یہ بہت بڑا کام ہوا ہے۔ بنابریں ٹیم کے افراد کا انتخاب بھی اہم ہے۔ شہید رئیسی مرحوم کو اس میدان میں کافی کامیابیاں ملیں۔ ان شاء اللہ آپ کو کئی گنا زیادہ کامیابیاں ملیں۔

چوتھا نکتہ مہارتوں کے بارے میں ہے۔ ڈاکٹر پزشکیان کے انتخابی کیمپین میں اور بیانوں میں ماہرین سے رجوع ہونے کی بات بار بار کہی گئی۔ ماہرین سے رجوع پر مجھے پختہ یقین ہے۔ میرا یہ نظریہ ہے کہ جب حکومتیں ماہرانہ جائزے کے بعد کام کریں گی تو ان کی حکمرانی عقلمندانہ اور مفکرانہ ہوگی، دوستی و کنبہ پروری پر مبنی حکمرانی نہیں۔ ماہرانہ جائزے پر مبنی کام کی خصوصیت یہ ہے کہ کبھی آپ ماہرین کی رائے کے مطابق ایک کام کرتے ہیں جو آپ کے چند دوستوں، رفقا، شناساؤں اور بااثر افراد کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے، اس طرح آپ انہیں ناراض کر دیتے ہیں مگر قوم کو آپ خوش کر دیتے ہیں، ملک کو آگے لے جاتے ہیں۔ ماہرانہ رائے پر مبنی کام کی یہ خاصیت ہے۔ میں اس کی تایید کرتا ہوں اور ماہرین کی رائے کے مطابق کام کرنے کی تاکید کرتا ہوں۔ لیکن اس میں ایک نکتہ بھی ہے ماہرین کے انتخاب کے بارے میں۔ کبھی کبھی کچھ معاملات میں کسی ماہر کے ذہن کے کسی گوشے میں پڑے غلط خیالات ماہرین کی رائے کے نام سے پیش کر دئے جاتے ہیں، ماہرانہ نظرئے کے پیرائے میں سامنے رکھ دئے جاتے ہیں تو اس سے مشکل کھڑی ہوتی ہے۔ اس ماہر کے ذہن میں پڑے غلط نظریات یا اس کے اخلاقیات آپ پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام اس سلسلے میں بھی بڑی اہم سفارش فرماتے ہیں: لا تُدخِلَنَّ فی مَشوِرَتِکَ بَخیلاً ... وَ لا جَباناً۔ بخیل سے مشورہ نہ کرو۔ کیا مطلب؟ یعنی آپ کا ماہر بخیل نہ ہو۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہوگے تو یہ بخیل تمہیں روک دے گا اور کہے گا کہ اس سے آپ کی جیب خالی ہو جائے گی۔ بزدل انسان سے مشورہ نہ کرو۔ بزدل انسان سے ماہرانہ رائے نہ لو۔ اس لئے کہ جو بھی بڑا کام تم کرنا چاہوگے، جو بھی اچھا اور بڑا اقدام کرنا چاہوگے تمہیں ڈرائے گا کہ اگر تم نے یہ کام کیا تو ایسا ہو جائے گا، ویسا ہو جائے گا۔  وَ لا حَریصاً (۴) حریص انسان سے بھی مشورہ نہ کرو۔ یعنی اس سے ماہرانہ رائے نہ لو۔ کیونکہ حریص انسان، اپنا حرص تمہارے اندر منتقل کر دے گا۔ یہ کچھ نمونے ہیں۔ یعنی ہم جس سے مشاورت کر رہے ہیں اس کے اخلاقیات اس کے مشورے اور اس کی رائے پر اثر انداز ہوں گے اور ہمارے لئے مشکل کھڑی کر دیں گے۔ لہذا ہم محتاط رہیں اور ایسے ماہرین سے استفادہ کریں جو مومن ہوں، صادق ہوں، ملک کی داخلی و قومی توانائیوں پر یقین رکھتے ہوں، ملی سرمائے کو پہچانتے ہوں۔ ایسے ماہرین کی خدمات نہ لیں جو منسوخ شدہ غیر ملکی نسخے پیش کریں۔ بعض اوقات کوئی اقتصادی یا سماجی یا مثلا سیاسی نسخہ بیرون ملک پچاس سال پہلے، ستر سال قبل پیش کیا گيا، اس کے بعد منسوخ ہو گیا۔ اب ہم وہی نسخہ لاکر یہاں پیش کریں! خیال رکھئے کہ ماہرین اس قسم کے نہ ہوں، ورنہ ماہرین کی رائے کے مطابق کام کرنا بہت ضروری چیز ہے۔

اگلا نکتہ عوام کے درمیان موجود رہنے  سے متعلق ہے۔ اگر آپ نے صوبوں کا سفر کیا اور کہا گیا کہ یہ تو پاپولسٹ ہیں اور عوام کو لبھانا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو ان باتوں پر اعتنا نہ کیجئے۔ عوام کی زندگی میں جو حالات ہیں ان کا اندازہ فائلیں اور رپورٹیں پڑھ کر نہیں لگایا جا سکتا۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ جائیے اور دیکھئے، خود عوام کی زبان سے سنئے۔ جب انسان جاکر سنتا ہے اور دیکھتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ رپورٹ میں جو اطلاعات ہم تک پہنچی تھیں، حالات ان سے کافی الگ ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ساری رپورٹیں غلط ہیں، حقیقت سے دور ہیں! نہیں! اچھی رپورٹیں بھی ہمارے پاس ہوتی ہیں۔ لیکن رپورٹ حقیقت کو پوری طرح منعکس نہیں کر پاتی۔ ابھی ہمیں یہاں آنا تھا تو میں نے ایک صاحب سے جو اربعین کی مشی سے واپس آئے ہیں پوچھا کہ کیسی تھی، اچھی رہی؟ انہوں نے جواب دیا کہ اگر سارے علما، سارے شعرا اور سارے اسکالر جمع ہو جائیں تو جو کچھ عینی حالات ہیں اس کا ہزارواں حصہ بھی بیان نہیں کر سکتے! یہ ابھی ایک گھنٹہ پہلے ایک صاحب نے مجھ سے کہا۔ یعنی دیکھنا، یعنی انسان خود قریب سے جاکر دیکھے، بالکل الگ چیز ہے۔ عوام کے درمیان جائیے، جاکر عوام سے بے تکلفی سے گفتگو کیجئے، بات کیجئے۔ کسی جگہ، کسی کاؤنٹی میں، کسی گاؤں میں ضرورت پڑے تو عوام الناس کے گھروں میں جائیے۔ زلزلے اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جائیے تو ٹینٹ کے اندر جائیے جہاں متاثرین کو رکھا گیا ہے۔ خود ان سے بات کیجئے۔ پھر اس کی بنیاد پر فیصلہ کیجئے۔ تو عوام کے درمیان جانا بہت اچھا ہے۔ صوبائی دورے بہت اچھے ہیں اور ان شاء اللہ اس سے ثمرات بھی حاصل ہوں۔

اگلا نکتہ عدل و مساوات کے بارے میں ہے۔ عدل کا لفظ ہم سب کی زبان سے بار بار ادا ہوتا ہے۔ جناب ڈاکٹر پزشکیان نے بھی انتخابات اور انتخابی کیمپین میں بھی اور اس کے بعد بھی، ہماری اسی آج کی نشست میں بھی عدل و مساوات کے بارے میں اور عدل و مساوات کی اہمیت کے بارے میں بات کی۔ ایسا ہی ہے۔ یعنی میں عدل و مساوات کی ضرورت پر گفتگو نہیں کرنا چاہتا، یہ اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کی مسلمہ اور بدیہی چیزوں میں ہے۔ اس کے بارے میں بحث نہیں ہے۔ بحث اس بات پر ہے کہ عدل و مساوات کو ہم کیسے نافذ کریں گے؟ اس کا لائحہ عمل کیا ہے؟ ہم سب چاہتے ہیں کہ عدل و مساوات قائم ہو۔ مسلسل قانون، ضوابط و اصول اور پروگرام وغیرہ تیار کئے جا رہے ہیں، بیان کئے جا رہے ہیں، نافذ کئے جا رہے ہیں، ان سب کا عدل و مساوات میں کیا رول ہے؟ جو عدل و مساوات ہمیں پسند ہے اور جس کی ہم بار بار بات کرتے ہیں اس کو عملی جامہ پہنانے میں ان کا کس حد تک کردار ہے؟ میں نے چند سال قبل عدل و مساوات کے ضمیمے کی بات کی تھی۔ (5) میں نے کہا کہ آپ جو بھی قانون پاس کرتے ہیں، جو بھی فیصلہ کرتے ہیں، اہم فیصلہ اور اہم قانون سازی، اس کے ساتھ عدل و مساوات کا ایک ضمیمہ بھی ہو۔ جناب رئیسی مرحوم اس مسئلے میں کسی حد تک آگے بڑھے تھے، انہوں نے کچھ کام کئے لیکن وہ چیز ادھوری رہ گئی۔ میں آپ کو سفارش کرنا چاہتا ہوں کہ عدل و مساوات کا ضمیمہ لازمی ہے۔ عدل و مساوات کا ضمیمہ ایک دفتری پروٹوکول اور رسم ادائیگی کا فارم نہیں ہے بلکہ ایک حقیقی چیز ہے۔ یعنی پلاننگ ادارے جیسے مراکز جو پروگرام تیار کرتے ہیں، فیصلے کرتے ہیں، فیصلے کے لئے مقدمات فراہم کرتے ہیں، قانون کا مسودہ تیار کرتے ہیں، حکومت کے قوانین کا مسودہ لکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ ذرا نگرانی کریں۔ خود وہ افراد یا ایسے لوگ جنہیں صدر مملکت معین کریں، اس بات پر نظر رکھیں کہ اس قانون کا اثر، اس پروگرام کا اثر سماجی فاصلے کو مٹانے میں کتنا ہے، اس سے فاصلہ کم ہوتا ہے یا بڑھتا ہے، اس کا اثر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ الگ الگ طبقوں کے فاصلے کو کم کرتا ہے یا زیادہ کرتا ہے۔ اس کی نگرانی کریں۔ اگر انہیں نظر آئے کہ اس پروگرام کی وجہ سے طبقوں کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے تو اس پروگرام کو ختم کر دیں، یا پروگرام کے اس متعلقہ حصے کو ختم کر دیں۔ عدل و مساوات کے ضمیمے کا یہ مطلب ہے۔ یہ نہیں کہ ہم نے یونہی ایک پیپر ضمیمے کے طور پر ساتھ رکھ دیا ہے اور کچھ شرطیں رکھ دی ہیں۔ نہیں! خود قانون میں ہونا چاہئے۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔ بڑا سخت کام ہے۔ مشکل کام ہے۔ البتہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ کچھ با صلاحیت نوجوانوں نے اس مقصد کے تحت ایک سافٹ ویئر تیار کیا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو رابطہ کر سکتے ہیں، انہیں بلا سکتے ہیں، اگر آپ کو پسند آئے تو استعمال کیجئے۔ بہرحال عدل و مساوات کا معاملہ ایسا ہے کہ زبان سے، گزارش کرکے، درخواست کرکے، بار بار دوہرا کر، دھمکی دیکر اور اسی طرح کی دوسری چیزوں سے عملی جامہ پہننے والا نہیں ہے۔ عدل و مساوات کے لئے اجرائی اقدام کی ضرورت ہے، جذبے کی ضرورت ہے، میدان میں قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ الحمد للہ جذبہ موجود ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ جناب کے اندر (6) اس کا جذبہ موجود ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ اب اس کا راستہ تلاش کیجئے۔ اس سمت میں قدم بڑھائیے اور دیکھئے کہ کیسے عدل و مساوات کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ اس انداز سے عمل کیجئے کہ کوئی بھی منتظم اور کوئی بھی عہدیدار اس روش کی خلاف ورزی نہ کر پائے جو عدل و مساوات کے لئے معین کی گئی ہے۔

اگلا نکتہ ترجیحات کا خیال رکھنے سے متعلق ہے۔ ہمارے پاس وقت کم ہے، بجٹ بھی کم ہے اور کام بہت زیادہ ہیں۔ تو دیکھئے کہ ترجیحات کیا ہیں۔ دو طرح کی ترجیحات ہوتی ہیں۔ خواہ وہ انفراسٹرکچرل اور بنیادی کاموں کی ترجیحات ہوں یا فوری کاموں کی ترجیحات ہوں۔ بعض ترجیحات فوری کاموں سے متعلق ہوتی ہیں۔ سماج کے اندر ان چیزوں کو کسی طرح مناسب انداز میں حل کرنا چاہئے۔ گرانی کا مسئلہ، انفلیشن وغیرہ کا مسئلہ۔ بعض مسائل انفراسٹرکچرل ہوتے ہیں۔ اگر ہم نے آج انہیں انجام نہ دیا تو دس سال بعد شروع کرنا پڑے گا۔ یہ جو بعض افراد ایٹمی انرجی کے بارے میں شک و تردد ظاہر کرتے ہیں کہ اس کا کیا فائدہ، یہ ان کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ ملک خود کو دنیا کی اس جدید سائنس و ٹیکنالوجی سے محروم نہیں رکھ سکتا۔ اگر آج آپ نے شروع نہ کیا تو دس سال بعد لا محالہ شروع کرنا  پڑے گا۔ مگر اس وقت آپ دس سال پیچھے ہوں گے۔

مثال کے طور پر میں نے جغرافیائی محل وقوع کا ذکر کیا۔ اس وقت حکومت کے پاس نارتھ ساؤتھ اور ایسٹ ویسٹ کاریڈور سے متعلق کچھ پروجیکٹ ہیں۔ البتہ شمال جنوب کاریڈور زیادہ اہم ہے۔ یہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارے ملک کا شمالی حصہ کچھ ایسے ملکوں سے متصل ہے جو یورپ اور دوسری جگہوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے جنوب میں سمندر ہے، بحر ہند ہے اور عظیم ایشا کا بڑا حصہ ہے۔ بیچ میں ہم واقع ہیں۔ یہ ایک نفراسٹرکچرل ترجیح ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر کام کرنا چاہئے۔ ہمارے پاس اس طرح کی انفراسٹرکچرل ترجیحات ہیں۔

فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ اہم ترجیحات میں ہے۔ فوڈ سیکورٹی کے سلسلے میں گندم کی پیداوار میں خود کفالت بہت اہم ہے۔ زراعت میں پانی کے استعمال کی روش کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس نئے طریقے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگوں نے صدر پزشکیان سے مل کر اس پر بات بھی کی ہے۔ ممکن ہے کہ شروع میں کچھ سختیاں ہوں، مہنگے پڑیں لیکن مستقبل میں فائدہ پہنچانے والے ہیں۔ ہمیں ان پر کام کرنا چاہئے۔ یہ انفراسٹرکچرل کام ہیں۔ یہ ہماری ترجیحات ہیں۔

اسی طرح آئل انڈسٹری کا ڈیولپمنٹ ہے۔ آئل انڈسٹری کے بنیادی شعبوں میں، جیسے کنوؤں کے مسئلے میں اور تیل نکالنے کے جو جدید طریقے دنیا میں استعمال ہو رہے ہیں، ہم ان میں پیچھے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے وسائل کا بنحو احسن استعمال کریں اور ان طریقوں کو حاصل کر لیں۔ اسی طرح دیگر شعبوں میں جیسے ریفائنری اور فاینل پروڈکٹ تیار کرنے کے سلسلے میں۔ آئل کے شعبے میں آج ہمارا فائنل پروڈکٹ مثلا پیٹرول یا ڈیزل ہے۔ جبکہ فائنل پروڈکٹ حقیقت میں یہ نہیں ہیں۔ جیسا کہ بتایا جاتا ہے دوسرے بھی  پروڈکٹ ہیں اور ہم انہیں تیار کر سکتے ہیں۔ یہ ترجیحات ہیں ان شاء اللہ ان پر توجہ دینا چاہئے۔

اگلا نکتہ جو میں نے نوٹ کیا ہے، جو آٹھواں نکتہ ہے، سائیبر اسپیس سے متعلق ہے۔ سائیبر اسپیس ایک نئی دنیا ہے۔ یقینا آپ مجھ سے زیادہ اطلاع رکھتے ہیں۔ یعنی سائیبر اسپیس آج محض ورچوئل نہیں ہے، عوام کی زندگی میں آج ایک عینی حقیقت ہے اور روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اہم یہ ہے کہ سائیبر اسپیس میں بھی قانونی بالادستی پائی جاتی ہے۔ یہ جو میں نے بعض اوقات کہا کہ سائیبر اسپیس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گيا ہے، تو اس کی وجہ یہی ہے۔ قانون کی بنیاد پر حکمرانی، اگر قانون نہیں ہے تو قانون بنا لیجئے اور اس قانون کی بنیاد پر امور کی باگڈور سنبھالئے۔ ساری دنیا میں یہی کیا جا رہا ہے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ اس بیچارے نوجوان کو فرانسیسیوں نے گرفتار کر لیا۔ (7) یعنی اس قدر اور اس حد تک سختی سے پیش آتے ہیں کہ انسان کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ دھمکی دیتے ہیں کہ تمہیں بیس سال کی جیل کی سزا دیں گے۔ یہ اس لئے کہ ان کے قانون کی خلاف ورزی کر دی ہے۔ قانون کی خلاف ورزی قابل برداشت نہیں ہے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک ملک ہے اور اس کے تعلق سے آپ کی ذمہ داریاں ہیں، اس کے تعلق سے آپ کے فرائض ہیں۔ آپ کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی، اس کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے۔ اقتدار اعلی کا یہ معاملہ ہے۔ میں نے ورچوئل اسپیس کے بارے میں اپنی بات اور اپنا موقف بیان کر دیا ہے۔ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔ کچھ لوگ کسی اور انداز سے بیان کرتے ہیں، یا نہیں سمجھتے ہیں، یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ تاہم میرا موقف یہ ہے: ملک میں ورچوئل اسپیس قانون کے تحت ہو تو یہ اہم موقع میں تبدیل ہو جائے گی۔ اگر ورچوئل اسپیس پر قانون کے دائرے میں ہمارا کنٹرول ہو تو ورچوئل اسپیس ملک کے لئے اہم موقع ثابت ہوگی ورنہ دوسری صورت میں ممکن ہے کہ خطرے میں تبدیل ہو جائے۔

اسی مناسبت سے میں آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے موضوع کا بھی ذکر کر دوں، ایک دفعہ عوامی مینڈیٹ کی  توثیق کے پروگرام میں بھی میں نے اس کا ذکر کیا تھا۔ (8) آپ دیکھئے آج آرٹیفیشیل انٹیلیجنس حیران کن رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ یعنی اس حیرت انگیز ٹیکنالوجی نے دنیا میں جو رفتار پیدا کر دی ہے اسے دیکھ کر انسان مبہوت رہ جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے فوجی اور سویلین ادارے آرٹیفیشیل انٹیلیجنس  کا استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن ہم اس کے دھوکے میں نہ آئیں۔ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے معاملے میں صرف صارف ہونا کمال کی بات نہیں ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی بڑی عمیق پرتیں ہیں اور ان پرتوں پر تسلط حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ پرتیں دوسروں کے اختیار میں ہیں۔ اگر آپ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کی ان گوناگوں پرتوں کو تیار کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو کل یہ لوگ آئی اے ای اے جیسا کوئی ادارہ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے لئے بنا لیں گے، اس وقت وہ اس کے مقدمات تیار کر رہے ہیں، کہ اگر آپ اس منزل تک پہنچ گئے تو پہلے آپ کو اجازت لینی پڑے گی کہ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے فلاں شعبے کو استعمال کیجئے، لیکن فلاں شعبے کو استعمال کرنے کا آپ کو حق نہیں ہے! یہ صورت حال ہے۔ دنیا کے چالاک لوگ، موقع پرست لوگ اور توسیع پسند لوگ ان کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کی بھی ایک ایجنسی بنا دی جائے گی اور پھر وہ اجازت نہیں دیں گے کہ آپ فلاں سطح سے آگے بڑھئے۔ آپ خود اس میدان کی عمیق ٹکنالوجی تک خود پہنچئے اور آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کی انفراسٹرکچرل پرتوں کو ملک کے اندر تیار کرنے کی کوشش کیجئے۔ جو افراد اس شعبے کے عہدیدار نہیں ان شاء اللہ وہ اس پر کام کریں۔ البتہ تیرہویں حکومت کے دور میں ایک ادارہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار آرٹیفیشیل انٹیلیجنس قائم ہوا صدر مملکت کی نگرانی میں۔ یہ اچھا کام تھا لیکن اب وہ ادھورا رہ گيا ہے۔ اب اگر وہی ادارہ موجودہ صدر محترم کے زیر نگرانی کام کرے تو بڑی امیدیں پیدا کر سکتا ہے۔ ان شاء اللہ یہ کام اسی نہج پر انجام پائے۔

اگلا نکتہ اقتصاد سے متعلق ہے۔ اس شعبے کے بارے میں میں زیادہ بات نہیں کروں گا۔ جو باتیں اس شعبے کے متعدد ماہرین اور قابل اعتماد افراد ہم سے کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ملک کی اقتصادی مشکلات کا حل پروڈکشن ہے، پروڈکشن کا شعبہ۔ اگر ہم پروڈکشن کو فروغ دینے میں کامیاب ہو جائیں تو انفلیشن کا مسئلہ حل ہو جائے گا، روزگار کا مسئلہ حل ہو جائے گا، ملکی کرنسی کی قدر کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ پروڈکشن کے موضوع پر بہت سنجیدگی سے توجہ دینا چاہئے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک نیشنل پروڈکشن کے میدان میں ترقی کرے تو حکومت کی مدد ضروری ہے۔ حکومت کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ یہی کاروبار کی فضا کو بہتر بنانے کا موضوع اور وہ باتیں جو ہمیشہ زیر بحث رہتی ہیں، ان پر عمل ہونا چاہئے۔ چند مہینے پہلے کی بات ہے کہ انٹرپرینیورز کا ایک گروپ ہم سے آکر ملا اور کچھ باتیں ہوئیں۔ (9) انسان جب ان کی باتیں سنتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ ان انٹرپرینیورز کے پاس جو صلاحیتیں ہیں وہ واقعی مبہوت کن ہیں۔ وہ بہت اچھے کام کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بسا اوقت بظاہر ناممکن نظر آنے والے کام بھی انجام دئے ہیں اور اس سے منافع بھی کمایا ہے، فائدہ حاصل کیا ہے اور ملک کو بھی فائدہ پہنچایا ہے۔ وہ سب یہ بات بار بار کہتے ہیں کہ انہیں حکومت کی مدد کی ضرورت ہے۔ لہذا حکومت کو چاہئے کہ ان کی مدد کرے۔

ایک نکتہ ملک کی آبادی اور قبل از وقت بڑھاپے کا بھی ہے جو بہت اہم ہے۔ چالیس سال پہلے ہماری آبادی کی شرح نمو 3.5 فیصدی تھی جو کافی بڑی شرح مانی جاتی ہے۔ کچھ لوگ بوکھلا گئے اور انہوں نے کچھ ضوابط اور رکاوٹیں قائم کر دیں۔ اب ہماری آبادی کی شرح نمو 3.5 فیصدی تو بہت دور کی بات ہے، ویسے اس وقت میرے پاس صحیح اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن مثال کے طور پر اعشاریہ 5 فیصدی یا زیادہ سے زیادہ اسی سے ملتی جلتی کچھ ہے۔ ہم اب بھی ضوابط عائد کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں! اس طرح تو کچھ نہیں ہونے والا ہے۔ ضوابط میں لچک ہونا چاہئے۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ آبادی بے تحاشا بڑھتی جا رہی ہے اور آپ اسے کنٹرول کرتے ہیں تو اچھی بات ہے۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آبادی بڑھنا رک جاتا ہے بلکہ پیچھے کی طرف جانے لگتی ہے اور ملک بڑھاپے کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ ایسی صورت حال میں فوری طور پر ملکی ضرورتوں کے مطابق ضوابط میں اصلاح کرنا چاہئے۔ میں محترم وزیر صحت جناب ڈاکٹر ظفر قندی سے تاکید کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اس مسئلے پر خاص توجہ دیں، اس پر کام کریں۔ یعنی واقعی اس کے لئے قدم اٹھائیے اور بچوں کی پیدائش کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو جو افسوس ہے کہ کافی زیادہ ہیں، جاری نہ رہنے دیجئے۔ ان پر پوری طرح قابو حاصل کیجئے۔ آپ میں سے بہتوں نے اپنی جوانی میں کچھ کام کئے لیکن اب شاید اس طرح کے کام ممکن ہے کہ نہ کر پائیں۔ تو ہمیں ملک میں نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ اگر خدا نخواستہ ملک اس تلخ و سخت انجام سے دوچار ہو گیا، یعنی آبادی کے بڑھاپے کا مسئلہ پیش آ گیا تو پھر کوئی حل نہیں ملے گا۔ آج بہت سے ممالک اس مشکل میں مبتلا ہیں۔ تو یہ آبادی کا مسئلہ ہے۔

ایک اور مسئلہ رکاوٹوں سے نہ ڈرنے کا ہے۔ میں خواتین و حضرات سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی کام ایسا نہیں ہے کہ جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ کوئی منصوبہ آپ کو ایسا نہیں ملے گا جس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ کچھ لوگ ہیں کہ انہیں جیسے ہی کوئی رکاوٹ نظر آئی، ان کا پہلا رد عمل ہوتا ہے پسپائی! یہ غلط ہے۔ رکاوٹ سے عبور کرنے کی کوشش کیجئے، رکاوٹ کو بائی پاس کرنے کی کوشش کیجئے۔ جب آپ نے ساری کوششیں کر لیں تو ہو سکتا ہے کہ انسان کبھی ٹیکٹیکل پسپائی بھی کرے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن یہ نہ ہو کہ جیسے ہی کوئی رکاوٹ نظر آئی ہماری پہلی بات، پہلی رائے یہ ہو کہ واپس لوٹ چلیں! رکاوٹ سے ڈرئے نہیں۔ یہ ہماری اگلی سفارش ہے۔

دشمن سے آس نہ لگائیے۔ جناب (10) نے بھی اشارہ کیا۔ کل اور پرسوں بھی بظاہر محترم وزیر خارجہ (11) نے بھی اشارتا کہا تھا۔ ہم دشمن سے امید نہ لگائیں۔ اپنے پروگراموں کے لئے دشمن اور ان لوگوں کی منظوری کے منتظر نہ رہیں جو ہم سے عناد رکھتے ہیں۔ اس کا اس چیز سے کوئی تضاد نہیں ہے کہ انسان اسی دشمن کے ساتھ کچھ مواقع پر انٹرایکشن کرے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اس سے امید نہ لگائيے۔ دشمن پر اعتماد نہ کیجئے۔

آخری نکتہ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس عہدے کے زمانے میں جہاں تک ممکن ہو اپنی روحانیت پر زیادہ توجہ دیجئے۔ میرے عزیزو! ہم سب کو ایمان سے آراستہ دل کی ضرورت ہے، بندگی کے اعمال کی ضرورت ہے، قرآن سے زیادہ مانوس ہونے کی ضرورت ہے، اللہ کی بارگاہ میں زیادہ خضوع و خشوع کی ضرورت ہے۔ واقعی ہمیں ان سب کی ضرورت ہے۔ میں جس چیز کی واقعی سفارش کرنا چاہتا ہوں خشوع کے ساتھ نماز ہے، اول وقت نماز ہے، جہاں تک ممکن ہو باجماعت نماز ہے۔ اگر آپ اپنے کام کی جگہ پر نماز پڑھ سکتے ہیں تو اپنے کارکنوں کے ساتھ نماز ادا کیجئے۔ یہ بہت اچھا ہے۔ آپ ایک جماعت کے لئے آئیڈیل ہیں۔ سب سے پہلے تو اپنے کارکنوں کے لئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عوام آپ کو دیکھتے ہیں، آپ کا سلوک، آپ کی پوشاک اور آپ کا چہرہ بہت سے افراد کے لئے آئیڈیل ہے۔ اس پر توجہ رکھئے۔ آپ کو کچھ ایسے کام بھی کرنے پڑیں گے اور ایسی چیزوں کی بھی پابندی کرنی ہوگی جن کی پابندی شاید عام انسانوں کے لئے ضروری نہ ہو۔ میں یہ سفارشات عوام الناس کو نہیں کروں گا۔ لیکن آپ سے کروں گا۔ چونکہ آپ آئیڈیل ہیں۔ چونکہ لوگ آپ کو دیکھتے ہیں، آپ سے سیکھتے ہیں، آپ کا برتاؤ اور سلوک ملک میں ایک طرز عمل کو وجود میں لاتا ہے۔ اللہ سے دعا کیجئے، گڑگڑا کے طلب کیجئے کہ آپ کی مدد کرے۔ اگر ممکن ہو اور توفیق ہو جائے تو نافلہ نمازیں بھی پڑھئے، خاص طور پر نافلہ شب۔ اگر سحر کے وقت بیدا ہو سکیں تو بہت اچھا ہے۔ سحر کا وقت اللہ کو تنہائی میں یاد کرنے، اللہ سے باتیں کرنے، اللہ سے طلب کرنے کا بہت اچھا وقت ہے۔ آپ نے خدمت کی وادی میں قدم رکھا ہے، خدمت کے میدان میں آپ وارد ہوئے ہیں۔ قصد قربت کیجئے، للہی نیت کیجئے۔ ممکن ہے کہ لوگ کہیں کہ فلاں صاحب تو دکھاوا کرتے ہیں، یہ سب شیطانی وسوسے ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جن سے اگر کچھ کہئے تو جواب دیتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ کام کر دیا تو لوگ دکھاوا کرنے کا الزام لگائیں گے، ریا کا الزام لگائیں گے! الزام لگانے دیجئے۔ میرے خیال میں اس وسوسے کے جال میں نہ پھنسئے۔ آپ اللہ سے عہد کیجئے، وعدہ کیجئے، اس پر عمل کیجئے۔ ان شاء اللہ خدا آپ کی آبرو کی حفاظت کرے گا، آپ کو عزت دے گا، آپ کو بلندی عطا کرے گا اور آپ کا وقار بڑھائے گا۔

ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو کامیاب کرے۔ گفتگو قدرے طولانی ہو گئی لیکن ان شاء اللہ مفید واقع ہو اور اثر انگیز ہو۔ ہم سب مل کر اس ملک کے لئے، ان عوام کے لئے اور اسلام کے لئے ان شاء اللہ کام کر سکیں۔

والسّلام علیکم و رحمة ‌اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کچھ باتیں بیان کیں۔

(2) جناب حسین امیر عبد اللہیان

(3) نہج البلاغہ، مکتوب 31

(4) نہج ‌البلاغہ، مکتوب، 53

(5) صدر اور تیرہویں کابینہ سے ملاقات میں خطاب مورخہ 28 اگست 2024

(6)  صدر مملکت

(7) ٹیلیگرام کے سی ای او پاول دورف کی گرفتاری کی طرف اشارہ  جنہیں فرانس کی پولیس نے عدلیہ کے عہدیداروں سے تعاون نہ کرنے اور ٹیلیگرام کے مجرمانہ استعمال پر روک نہ لگانے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔

(8) چودہویں صدارتی انتخابات میں ملنے والے عوامی مینڈیٹ کی توثیق کی تقریب میں تقریر، مورخہ 28 جولائی 2024

(9) اقتصادی شعبے میں سرگرم افراد اور انٹرپرینیورز سے ملاقات 30 جنوری 2024

(10) صدر مملکت

(11) جناب عباس عراقچی

 
کیورڈس
 

 

 
شیخ مصطفی نوری، امام جمعہ گلہ دار (فارس) کے رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے ہفتہ وحدت کے موقع پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: "تعالو الی  کلمه سوا بیننا و بینکم"؛امت اسلامیہ سے مراد حزب اللہ کی امت ہے، ایک ایسی امت جو احکام الٰہی اور رسول اللہ (ص) کے طریقے پر چلتی ہے۔
 
شیخ نوری نے مزید کہا: خدا کا حکم امن، اتحاد، بقائے باہمی، امن، میل جول اور ایک دوسرے سے قربت ہے جو کہ ایمان اور دین کے اصولوں میں سے ہے اور اسلام کی ضروریات میں شمار ہوتا ہے۔
 
اس اہلسنت عالم نے واضح کیا: قربت اور اتحاد ایک ایسی صلاحیت ہے جو دین اسلام کی طرف سے فراہم کی گئی ہے تاکہ تمام اسلامی مذاہب ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہو کر "المومن اخو المومن" کا نعرہ لگائیں۔
 
انہوں نے کہا: ایران کئی عشروں سے اتحاد کے نقطہ نظر پر عمل پیرا ہے اور اس نے کانفرنسوں کے انعقاد اور ملکوں کے بزرگوں سے ملاقاتوں کے ذریعے اچھے نتائج حاصل کیے ہیں۔
 
آخر میں انہوں نے تاکید کی: عالم اسلام اور ادیان اسلامی کے پیروکاروں کو اس اہم معاملے میں بزرگان دین سے رجوع کرنا چاہیے۔ سنی اور شیعہ عمائدین نے ہمیشہ اس راستے پر عمل کیا ہے اور یہ کہنا ضروری ہے کہ اسلامی مذاہب کے بزرگوں کا راستہ قربت اور اتحاد ہے۔
https://taghribnews.com/vdcdxz09oyt0k56.432y.html

آج دنیا میں آزادی، مساوات اور حقوق کے زور شور سے نعرے لگائے جا رہے ہیں اور ان مسائل کی خلاف ورزی کی صورت میں آئے دن احتجاجات بھی ہو رہے ہیں۔ ان نظریات کے حامیوں میں ان لوگوں کی خاصی تعداد ہوتی ہے، جو مذہب بالخصوص اسلام کو ان نظریات کی عمل آوری میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ وہ اسلام کو ایک قدیم رواج پر مبنی مذہب تسلیم کرتے ہوئے اسے معاصر زندگی سے متضاد سمجھتے ہیں۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ولادت کے روز، ہم انہی موضوعات کو آپ کی حیات طیبہ اور سیرت و کردار کے عملی نمونے سے پیش کرتے ہیں۔ آزادی، مساوات اور حقوق آنحضرت کی زندگی اور تعلیمات کا مرکزی حصہ رہے ہیں۔ آپ نے آئیڈیل سماج کی تشکیل اور انسانی حقوق کے استحکام کے لیے ہمہ تن جدوجہد کی اور محض ترسٹھ برس عمر میں اپنے کردار و اخلاق سے ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔

آپ بطور مذہبی ہادی و رہنماء، دین میں جبر و زبردستی کے خلاف تھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد الٰہی ہے: "دین میں کوئی جبر نہیں۔" (سورہ بقرہ، آیت:256) آیت کا عملی ثبوت "میثاق مدینہ" (622 عیسوی) میں واضح طور پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، جس میں آپ نے اسلامی ریاست کے ماتحت رہنے والے غیر مسلم، یہودی، عیسائی اور مشرکوں کو آزادانہ ماحول فراہم کیا تھا۔ اس دستاویز میں تمام مذہبی گروہ کو شہر مدینہ میں پرامن طور پر رہنے کی ضمانت دے کر ایک تکثیری معاشرے ( Pluralistic Society) کی بنیاد رکھی، جس میں مذہبی اقلیتوں کو تحفظ حاصل تھا۔ اسی طریقہ سے "معاہدہ نجران" میں آنحضرت نے عیسائیوں کو یقین دلایا کہ وہ بغیر کسی مداخلت کے اپنے عقیدے پر عمل کریں۔ عبادت گاہوں، املاک اور ان کے پادریوں کی حفاظت کرنے کا وعدہ کیا۔ اس طرح آپ نے اسلامی ریاست میں مذہبی آزادی کو یقینی بنایا، جس کی آج شدید ضرورت ہے۔

پیغمبر اسلام کے انقلابی تعلیمات میں "سماجی مساوات" کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ آپ نے قبائلی، طبقاتی اور نسلی تفریق پر مبنی نظام کا خاتمہ کیا۔ افریقی غلام، بلال بن رباح کے ساتھ اپنے قریبی ساتھیوں کی طرح پیش آئے۔ بلال حبشی کی مؤذن بنانا، نسلی تفریق کے خاتمہ کی اہم ترین مثال ہے۔ اسی طرح، سلمان فارسی (ایرانی) اور صہیب الرومی (ایک بازنطینی رومی) کو نہایت عزت و وقار سے نواز کر نسلوں میں سرایت کرچکے تعصب کی بنیاد کو مسمار کر دیا۔ خطبہ حجۃ الوداع میں آپ نے مساوات کی اعلیٰ ترین مثال پیش کی۔ آپ نے فرمایا: ’’تمام بنی نوع انسان آدم اور حوا کی اولاد ہیں۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر۔ کسی گورے کو کالے پر اور نہ ہی کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔ کسی کو کسی پرکوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقویٰ اور نیک عمل کے۔"

پیغمبر اسلامﷺ نے "حقوق نسواں" کے تحفظ کے لیے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے، جو رہتی دنیا تک بے مثال اور بے نظیر مانا جائے گا۔ خواتین کو جائیداد (Property) سمجھنے والے عرب ماحول میں ان کو شادی، طلاق، جائیداد کی ملکیت اور وراثت میں رضامندی کا حق دیا۔ لڑکیوں کو قتل (زندہ دفن) کے خلاف سخت قدم اٹھایا۔ ان کی پاس و حرمت اور ان کے حقوق کی علمبرداری کرتے ہوئے تعلیم دینے کی اہمیت پر زور دیا اور فرمایا: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان؛ مرد اور عورت پر فرض ہے۔" آزادی، مساوات اور انسانی حقوق آئیڈیل سماج کی بنیادی کڑیاں ہیں۔ ایک سالم معاشرہ کی تشکیل میں ان اصول کی پابندی نہایت ضروری ہے۔ پیغمبر اسلام کی سیرت و تعلیمات نے انسان کو جسمانی اور روحانی دونوں زاویوں سے آراستہ کیا ہے۔

انہوں نے معاشرہ میں پھیلی قبائلی تفریق اور نسلی برتری کے مضبوط قلعہ کو مسمار کیا۔ غلاموں کو آزاد کیا اور انہیں اپنے پاس جگہ دی۔ صدقہ، خمس و زکواۃ۔۔۔ کی صورت میں غلاموں اور پسماندہ لوگوں کو اقتصادی مشکلات سے آزاد کیا۔ ان کے حقوق دلائے اور پھر انہیں اپنے پاس جگہ دے کر مساوات کی عمدہ مثال پیش کی۔ آج دنیا میں آزادی، مساوات اور حقوق کی لڑائی لڑنے والے ہر انسان کو پیغمبر اسلام ﷺ کی کوششوں کو سراہنا چاہیئے اور آنحضرت کی حق کی لڑائی کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیئے۔ اسلام آزادی، مساوات اور حقوق کو علمبردار ہے۔ اگر آج پیغمبر اسلام ہمارے درمیان جسمانی طور پر موجود ہوتے تو آزادی، مساوات اور حقوق انسانی کے سب سے بڑے علمبر دار اور رہنماء ہوتے۔

تحریر: عظمت علی (قم المقدسہ، ایران)

Saturday, 21 September 2024 05:45

وحدت کے امام

متفقہ علیہ حدیث ہے, جو حدیث ثقلین کے نام سے مشہور ہے, رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمھارے درمیان اللہ کی کتاب (یعنی قرآن) اور عترت اہل بیت چھوڑے جا رہا ہوں، تم ان کا دامن تھامے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ اہل بیت عظام نے جہاں دین کے تمام پہلوئوں پر واضح اور نجات بخش راہنمائی فرمائی ہے، وہیں وحدت امت کے حوالے سے اپنے کردار اور اقوال سے سرمایہ گراں بہا چھوڑا ہے، لیکن جہاں ہم نے راہنماء کتاب قرآن مجید کو مہجور چھوڑ دیا ہے، وہیں ہم نے اہل بیت سے صرف عقیدت و محبت کا تعلق رکھا ہے، راہنمائی کے لیے اپنے دل پسند مسائل میں متوجہ ہوتے ہیں، اب جبکہ امت تفرقے کا شکار ہے، ہمیں اہل بیت کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔ اس مختصر سے مضمون میں تعلیمات آل محمدؐ سے چند موتی پیش خدمت ہیں، جن سے وحدت امت کے لیے راہنمائی ملتی ہے۔

یہ بات تو واضح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام خلافت کے عنوان سے اپنا موقف رکھتے تھے اور پوری زندگی جب موقع ملا، آپ نے اس پر دلائل بھی دیئے۔ آج امت مسلمہ کا ایک طبقہ حضرت علی علیہ السلام کے اسی موقف کا حامی ہے، کیونکہ اس موقف کے داعی حضرت علی علیہ السلام خود تھے۔ انھوں نے اختلاف کے باوجود موقع کی نزاکت کے پیش نظر جو حکمت عملی اپنائی ہے، وہ آج بھی مشعل راہ ہے۔کسی کو بھی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ امام علی علیہ السلام سے ہٹ کر کوئی اور راستہ اپنائے۔ حضرت علی علیہ السلام ایک خط میں ابو موسیٰ اشعریؓ کو لکھتے ہیں: ’’تم کو معلوم ہونا چاہیئے کہ کوئی بھی شخص مجھ سے زیادہ امت محمدؐ کی شیرازہ بندی اور باہمی اتحاد کا خواہش مند نہیں ہے اور اس سے میرا مقصد صرف حسن ثواب اور آخرت میں کامیابی ہے۔‘‘ (نہج البلاغہ مکتوب،۷۸)

جب حضرت علیؑ خود فرما رہے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ اس امت کے اتحاد کے خواہاں ہیں تو وہ اس نسبت سے امام اتحاد امت قرار پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اتحاد کے لیے آپ کا دور مثالی دور تھا، جب امت مختلف نکتہ نظر رکھنے کے باوجود متحد تھی۔ آپ نے مزید فرمایا: ’’خدا کی قسم! اگر مسلمانوں کے انتشار اور کفر کی طرف ان کی بازگشت اور دین کی تباہی کا خوف نہ ہوتا تو پھر ہم ان کے ساتھ دوسرے طریقے سے پیش آتے۔‘‘ (امام شیخ مفید، ص ۱۵۵، بحارالانوار، ج۲۹، ص ۶۳۴) انتشار و افتراق کے جو مضمرات پیش آسکتے ہیں، حضرت امام علی ؑ نے ان سے بچانے کے لیے تحمل، برداشت کی راہ کو اپنایا ہے۔ آج بھی امت کو یہی خدشات درپیش ہیں کہ وہ اپنے افتراق کی وجہ سے اپنے ہدف و منزل کی طرف نہیں بڑھ رہی ہے بلکہ الحادی گروہ اسے ہی عنوان بنا کر اسلام پر حملہ آور ہو رہے ہیں، نئی نسل پریشان ہے کہ بے چارہ مسلمان کدھر جائے، کیونکہ حق ایک دوسرے سے دست و گریبان ہے۔

آپ نے بصرہ روانہ ہونے سے پہلے ایک خطبہ میں امت کو انتشار سے بچانے کے لیے اپنی حکمت عملی کا ہدف بیان کیا ہے، فرماتے ہیں: ’’میں نے غور کیا تو یہ محسوس کیا کہ (اپنے حق خلافت سے محرومی پر) مسلمانوں کی تفریق و خون ریزی سے صبر ہی بہتر ہے، کیونکہ لوگ تازہ مسلمان ہوئے ہیں اور دین دودھ کی مشک کی مانند ہے کہ جو معمولی سستی پر بھی برباد ہو جاتا ہے اور کمزور آدمی بھی اسے پلٹ دیتا ہے۔‘‘ (بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج۳۲، ص۶۲) یہ کہنا کہ شاید آپ کو مواقع میسر آتے تو آپ کا رویہ مختلف ہوتا جبکہ تاریخی حقائق کے مطابق رحلت ختمی المرتبتؐ کے بعد جب آپ کا نکتہ نظر سامنے آیا تو ایسے لوگوں نے رابطہ کیا کہ وہ اس کے لیے آپ کو لشکر مہیا کرسکتے ہیں، مگر آپ نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور امت میں اتحاد کو برقرار رکھا۔ آپ نے حضرت عمرؓ کی قائم کردہ شوریٰ میں شریک ہو کر اپنا موقف پیش کیا جبکہ بعض نے اس میں شریک نہ ہونے کا بھی مشورہ دیا تھا، مگر آپ نے اپنے اختلاف کے باوجود عملی اتحاد کی روش کو اپنایا اور شوریٰ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔

آج جب اختلاف ہوتا ہے تو سلام دعا سے بھی جاتے ہیں جبکہ اس میں آپ کا راستہ واضح موجود ہے کہ اپنا موقف رکھنے کے باوجود تعاون کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اسلام اپنے وجود و بقاء میں جتنا حضرت علیؑ کی تلوار کا مرہون منت ہے، اس سے زیادہ آپ کی خاموشی اور تحمل و بردباری کا مرہون منت ہے۔ آپ کی تلوار اسلام کی طاقت منوانے اور دشمنان اسلام کو تباہ کرنے کا سبب تھی تو آپؑ کی خاموشی اسلام کی بقاء و اتحاد امت کا سبب بنی۔ آپ نے اس بات کا اظہار نہج البلاغہ میں یوں کیا: ’’یہ تو تم سبھی جانتے ہو کہ میں خلافت کا سب سے زیادہ حق دار ہوں۔ خدا کی قسم! میں اس وقت تک خاموش رہوں گا، جب تک مسلمانوں کے امور منظم رہیں گے اور میرے علاوہ کسی پر ظلم نہیں ہوگا اور میں اس عمل کی جزاء خدا سے طلب کروں گا اور زیب و زین اور آرائش سے الگ رہوں گا، جس کے لیے تم مقابلہ آرائی کرتے ہو۔‘‘ (نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۴)

ان چند شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے اتحاد و وحدت کو اہمیت دی اور امت محمدی کو یکجا رکھا۔ جو اختلافات مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور رکھتے ہیں، ان میں عبادات سرفہرست ہیں، کیونکہ تمام مسلمان اللہ کو ایک مانتے ہیں، حضور ختمی المرتبت کو آخری کتاب مانتے ہیں، قرآن مجید کو اللہ کی آخری کتاب اور قیامت پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی طرح نماز قائم کرنے میں بھی اتفاق ہے۔ نمازوں کی تعداد، رکعات، اوقات اور قیام رکوع سجود اور تشہد و سلام سب پر اتفاق ہے، مگر ہاتھ کھولنے اور باندھنے پر اختلاف کے علاوہ چند جزوی مسائل نماز میں فرق نظر آتا ہے۔ افتراق و انتشار اور فرقہ واریت کا ایک سبب نمازوں کی ادائیگی میں مسلمانوں کا ایک پیش امام کی اقتداء نہ کرنا ہے۔ چند صدی قبل تک مسلمانوں کی ایک ہی مسجد ہوتی تھی، سب مسلمان اپنے جزوی مسائل کے باوجود ایک پیش امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے، فرقہ واریت کے سبب اب مساجد فرقوں کی عبادت گاہیں بن چکی ہیں۔

اہل بیت اطہارؑ اپنے پیروکاروں کو تاکید فرماتے رہتے تھے کہ وہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں اور اہل سنت کے پیش امام کی اقتداء کرسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں روایات اتنی ہیں کہ صاحب ’’وسائل الشیعہ‘‘ نے ایک علیحدہ باب بعنوان ’’باب استحباب حضور الجماعۃ خلف من لا یقتدی بہ لتقیہ و القیام فی الصف الاول‘‘ قائم کیا۔ یعنی باب ایسے لوگوں کو اقتداء میں نماز پڑھنا، جن کے پیچھے تقیہ کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی جاتی اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا۔‘‘ مذہبی اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی اہمیت کے سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی دو روایات بطور نمونہ پیش کی جاتی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں: ’’جس شخص نے ان کے ساتھ پہلی صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی، گویا اس نے پہلی صف میں رسول اکرمؐ کے ساتھ نماز پڑھی۔‘‘ (وسائل الشیعہ، شیخ حرعاملی، ج۸، ص ۲۹۹)

اس میں جہاں امامؑ اپنے پیروکاروں کو دوسرے مسالک کی نماز جماعت میں شرکت کی ترغیب دے رہے ہیں بلکہ اس کے اجر و ثواب کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ یہ عمل کس قدر اعلیٰ ہے۔ اسی سے ہی اتحاد کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ روزانہ کے اس عمل سے جہاں عام مسلمانوں سے رابطہ ہوتا ہے، وہاں اختلاف رکھنے کے باوجود دوسرے مسلک کے فرد کو مسلمان مانا گیا ہے، یہ تکفیریت کے خلاف زبردست حکمت عملی ہے۔ اسحاق بن عمار سے روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: ’’اے اسحق! کیا تم مسجد میں ان کے ساتھ نماز پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی: جی ہاں! امام نے فرمایا: ان کے ساتھ نماز پڑھا کرو، کیونکہ ان کے ساتھ صف اول میں نماز پڑھنے والا ایسا ہی ہے، جیسے راہ خدا میں تلوار کھینچنے والا۔‘‘ (وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، ج۸، ص ۳۰۱) آیت اللہ ابو القاسم الخوئی نے لکھا ہے کہ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کے ساتھ ان کی نماز وغیرہ میں شریک ہونے کی حکمت، مصلحت نوعیہ اور مسلمانوں کا اتحاد تھا اور ان کے ساتھ نماز جماعت نہ کرنے میں کسی ضرر کا خوف نہیں تھا۔ (کتاب الطہارۃ سید ابو القاسم الخوئی، ج ۴،ص۳۱۶)

ایسی روایات سے ہمیں ترغیب دی گئی ہے کہ ہم اہل سنت کے ساتھ روابط رکھیں، ان کی نماز جماعت میں شریک ہوں، یقیناً اس عمل سے اتحاد کی فضاء ہموار ہوگی۔امت محمدی کا ایک بڑا اجتماع حج ہے، جو اپنے اندر عبادی و اجتماعی پہلو رکھے ہوئے ہے۔ اس دور میں بھی اسے امت کے اتحاد کا مرکزی مظہر قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں تمام مسالک کے لوگ ایک امام کی اقتداء میں اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ حج کے تمام اعمال پر جزوی اختلاف کے ساتھ  امت کا اتفاق و اتحاد ہے۔ اس عظیم اجتماعی عبادت گاہ کی انجام دہی کے لیے آل محمدؐ نے راہنمائی فرمائی ہے۔ آئمہ اطہارؑ نے بھی اپنی زندگی میں بارہا حج کی سعادت حاصل کی ہے اور ان کے ہمراہ آپ کے رفقاء اور پیروکار بھی ہوتے تھے۔ حج کے تمام اعمال دیگر مسلمانوں کے ہمراہ ادا فرماتے تھے۔ عیدین یا ماہ رمضان، حج کے تعین میں بھی عام مسلمانوں کے ساتھ اتفاق کرتے تھے۔ اس ضمن میں ایک روایت پیش خدمت ہے۔

’’ایک سال عید قربان کے بارے میں ہمیں شک ہوگیا۔ جب امام محمد باقرؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو امامؑ کے بعض اصحاب کو دیکھا کہ وہ عید منا رہے ہیں، پس امام محمد باقرؑ نے فرمایا: ’’عید اس روز ہے، جس روز لوگ عید منائیں اور عید قربان اس روز ہے، جس روز لوگ عید قربان منائیں اور روزہ اس روز ہے، جس دن لوگ روزہ رکھیں۔‘‘ (وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، ج۱۰، ص۱۳۳) انہی تعلیمات کی روشنی میں جب ۱۴۲۸ھ میں رویت ہلال کا اعلان ہوا تو ایران عراق و سعودی عرب کی روئیت میں دو روز کا فرق تھا، اس سے پریشانی ہوئی کہ حاجیوں کے اعمال خصوصاً شیعوں کے اعمال شرعی کا حکم کیا ہے۔ اس موقع پر سارے مراجعین نے اعلان کیا کہ حاجیوں کو روئیت کے مطابق عمل کرنا چاہیئے اور ان کے اعمال صحیح ہیں۔ ایک اور راہنمائی جو اہل بیت عظامؑ نے فرمائی، وہ عام مسلمانوں سے حسن معاشرت اور رواداری کی تاکید کی ہے۔ روایت میں بھی ہے کہ:

’’میں نے امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں عرض کیا، ہم اپنی قوم والوں اور ان معاشرے والوں کے ساتھ کہ جو شیعہ نہیں ہیں، کیسا سلوک روا رکھیں؟  امامؑ نے فرمایا: اپنے آئمہؑ کو دیکھو، جن کی تم پیروی کرتے ہو، پس جو ان کی روش ہے، اسی روش کو اختیار کرو۔ خدا کی قسم! وہ (ائمہ) غیر شیعہ لوگوں کے بیماروں کی عیادت کے لیے جاتے ہیں، ان کے جنازوں کی تشیع میں شرکت کرتے ہیں، وہ ان کے حق میں اور ان کے خلاف (حق کے مطابق) گواہی دیتے ہیں اور ان کی امانت کو انھیں واپس کرتے ہیں۔‘‘ (وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، ج۱۲، ص۶) اس روایت سے جہاں اس دور کے حالات پر روشنی پڑتی ہے کہ مسالک کے بارے میں لوگ تذبذب کا شکار تھے، ویسے ہی امام کا جواب اس دور کے ساتھ ساتھ آج کے دور کے لیے بھی نمونہ عمل ہے۔ اسی فرمان پر عمل کرنے سے اتحاد امت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ نفرت و بیزاری کی فضاء جو بین المسالک دیکھنے کو ملتی ہے، اس کا بھی خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ائمہ اطہارؑ نے اپنے پیروکاروں کو ان امور میں منع فرمایا ہے، جو وحدت امت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ مخالفین کو لعن طعن اور گالی گلوچ ہے، جس سے سوائے نفرت، تعصب اور دشمنی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آپ اپنے پیغام کا ابلاغ نہیں کرسکتے۔

جیسا کہ جنگ صفین کے موقع پر حضرت علی علیہ السلام نے دیکھا کہ بعض لوگ شام والوں پر لعنت و نفرین کر رہے ہیں تو آپؑ نے انھیں اس کام سے روکتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے تمھارے لیے یہ بات پسند نہیں ہے کہ لعن طعن کرنے والے بن جائو (کیونکہ نتیجہ میں) وہ بھی تم پر لعن طعن کریں گے اور تم سے بیزار ہو جائیں گے، لیکن کتنا اچھا ہو کہ تم ان کے ناشائستہ اعمال کو بیان کرو۔ یہ اچھا استدلال ہے اور اگر ان پر لعن کرنے اور ان سے بیزاری کرنے کی بجائے یہ کہو (اور خدا سے دعا کرو) اے اللہ! ہماری اور ان کی جان کی حفاظت فرما، ہماری اور ان کی اصلاح فرما، انھیں گمراہی سے نجات عطا فرما کہ وہ حق نہیں پہچانتے ہیں، وہ حق کو پہچان لیں اور جو حق سے روگرداں ہیں، جو حق کی طرف آجائیں۔ یہ چیز مجھے یہ زیادہ پسند اور تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘ (بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج۳۲، ص،۳۹۹)

گالی و لعنت سے معاشرے کی فضاء میں عداوت ہی پنپتی ہے اور فتنہ فساد پھیلتا ہے، جس کے نتیجہ میں وہ حق بات سننے سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔ اس کے بجائے ان کے برے اعمال کی نشاندہی کریں اور ان کی اصلاح کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعا بھی کریں۔ اصل مقصد تو ان کی اصلاح ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث بھی روایت ہوئی ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’میں لعنت و نفرین کرنے کے لیے مبعوث نہیں ہوا ہوں بلکہ (دین حق کی طرف) دعوت دینے والا اور رحمت بن کر مبعوث ہوا ہوں۔ اے اللہ! میری قوم کی ہدایت فرما کہ وہ مجھے نہیں جانتی۔‘‘ (سنن النبیؐ، علامہ طباطبائی، ص ۱۴۱۳، صحیح مسلم، مسلم نیشاپوری،ج۸، ص ۲۴) حضور ختمی المرتبتؐ کی امت کو بھی اسی مشن پر چلنا چاہیئے۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ لعن، طعن، گالی گلوچ کا وہ سہارا لیتا ہے، جو اپنے موقف پر دلیل و برہان نہیں رکھتا۔ اس لیے جاہل لوگ ہی اس عمل کا سہارا لیتے ہیں، وہ وقتی طور پر اپنا غبار نکال لیتے ہیں۔ مگر مستقل طور پر تبلیغ کا راستہ مسدود کر دیتے ہیں، جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے مخالف کو اپنے قریب کرکے ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ مزید برآں اہانت و گالی کے ذریعے نہ صرف یہ کہ کسی غلط راستے سے نہیں روکا جاسکتا بلکہ اس کے برعکس ایسے لوگوں میں مزید جہالت آمیز تعصب بڑھ جاتا ہے اور وہ ضد پر اتر آتے ہیں اور اپنی باطل روش پر اڑ جاتے ہیں۔ اگرچہ اس وحدت امت اور اس کے تقاضوں کے بارے میں آئمہ اطہار کی بہت زیادہ روایات موجود ہیں، مگر یہاں نمونے کے طور پر چند حوالے پیش کیے گئے۔

تحریر: سید نثار علی ترمذی