سلیمانی

سلیمانی

برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا، اور آنے والے وقتوں میں دیگر ممالک بھی فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کر سکتے ہیں۔ کربلا فلسطین نے ثابت کر دیا ہے کہ آخر کار خون تلوار پر غالب آ کر رہے گا۔ فلسطینیوں کی مظلومیت نے اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ فلسطینی عوام کی مسلسل قربانیاں اور مظلومیت نے عالمی سطح پر ایک واضح اثر ڈالا ہے۔ کربلا کی طرح، فلسطین سے اٹھنے والی آواز اور ان کی فریاد نے دنیا کو یہ دکھایا ہے کہ طاقتور ہونے کے باوجود بھی جارحانہ اقدامات کے خلاف مظلومیت کی صدا زیادہ اثر ڈال سکتی ہے۔

آج یہ کہنا بجا ہے کہ فلسطینیوں کی قربانی نے اسرائیل کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ اسرائیل غزہ میں جارحانہ کارروائیاں کر رہا ہے، لیکن اس وقت اس کا مقصد صرف فلسطینیوں کو دبانا نہیں، بلکہ اپنی بقا اور قانونی و اخلاقی حیثیت کو برقرار رکھنا ہے۔ فلسطینی عوام کی مظلومیت اور شہداء کا خون عالمی سطح پر اسرائیل کی بنیادوں پر دباؤ ڈال رہا ہے، اور آنے والے مستقبل میں اس کے اثرات نمایاں ہو سکتے ہیں۔

تاریخی حقیقت
تاریخی زاویے سے دیکھا جائے تو فلسطینیوں کی مظلومیت اور قربانیاں وہ عنصر ہیں جنہوں نے اسرائیل کی بین الاقوامی ساکھ اور جواز کو کمزور کیا ہے۔ فلسطینی عوام نے اپنی مظلومیت کے ذریعے عالمی توجہ حاصل کی، جس نے اسرائیل کی فوجی طاقت کے باوجود دنیا میں اس کے خلاف رائے قائم کی۔ ہر نئی جنگ اور ہر انسانی نقصان عالمی میڈیا اور عدالتوں میں اسرائیل کے خلاف دلیل بنتا ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا بھی اسی مظلومیت کے تسلسل کا نتیجہ ہے۔

اسرائیل کے وجود پر اثر
اسرائیل کی طاقت کا اصل ستون مغرب کی اخلاقی اور سیاسی حمایت تھی، لیکن فلسطینی مظلومیت نے اس جواز کو کمزور کر دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسرائیل اپنی legitimacy (قانونی و اخلاقی حیثیت) کیسے برقرار رکھے گا، نہ کہ یہ کہ فلسطین وجود میں آئے گا یا نہیں۔ بین الاقوامی عدالتیں اور مغربی پارلیمانیں اسرائیل کے خلاف کھڑی ہو چکی ہیں، اور یہ اسرائیل کی بنیادوں کو عالمی سطح پر چیلنج کر رہی ہیں۔

فلسطینی مظلومیت اور مزاحمت نے اسرائیل کے وجود پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ یہ دباؤ فوجی سطح پر نہیں، بلکہ سفارتی، اخلاقی اور قانونی سطح پر زیادہ ہے۔ اسرائیل جتنا زیادہ طاقت کے ذریعے فلسطین کو دبانے کی کوشش کرتا ہے، اتنا ہی اپنی بین الاقوامی ساکھ کو کمزور کرتا ہے، اور یہی طویل المیعاد بقا کے لیے اصل چیلنج ہے۔ آج فلسطین مظلوم ہے، لیکن اس کی ریاستیت کا تصور عالمی برادری میں مضبوط ہو رہا ہے۔ اسرائیل طاقتور ہے، لیکن اس کے وجود کا اخلاقی اور قانونی جواز کمزور ہو رہا ہے، اور اصل existential crisis (وجودی بحران) اس کے لیے ہے، فلسطین کے لیے نہیں۔ بقول ساحر لدھیانوی:
خون پھر خون ہے
ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے

تحریر: ایس این سبزواری

اللہ رب العزت نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو تمام جہانوں کیلئے سراپا رحمت بنا کر بھیجا۔ یہ صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ کل کائنات، جملہ مخلوقات اور ہر عالم پر حضور اکرمﷺ کی ذاتِ اقدس رحمت ہی رحمت ہے۔ ہم اہلِ ایمان اس سعادت پر نازاں ہیں کہ ہمیں اُس ہستی کی اُمت میں شامل کیا گیا، جس کے بغیر کائنات کی تکمیل ممکن نہ تھی۔ ان ایام میں جہاں ہم ولادتِ رسول اکرمﷺ کی خوشی مناتے ہیں، وہاں امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت بھی اسی ہفتے میں آتی ہے، جو اس حقیقت کو اور زیادہ نمایاں کرتی ہے کہ میلادِ رسولﷺ کا پیغام دراصل محبت، اخوت اور وحدتِ امت کا پیغام ہے۔ اگر ہم واقعی حضور اکرمﷺ اور اہلِ بیت اطہارؑ کی سیرت کو اپنے عمل کا حصہ بنا لیں تو ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔

افسوس کہ آج اُمتِ مسلمہ کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو اونچے طاقوں میں رکھ کر صرف تبرک سمجھ لیا اور نبی کریمﷺ کی سیرت کو جذباتی وابستگی تک محدود کر دیا۔ حالانکہ اصل محبت یہ ہے کہ قرآن کو پڑھا جائے، سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ نبی پاکﷺ کیساتھ حقیقی تعلق یہ ہے کہ ان کے فرامین کو زندگی کا عملی حصہ بنایا جائے۔ جھوٹ، ناانصافی، بے نمازی، دھوکہ دہی اور ظلم، یہ سب نافرمانیاں دراصل حضورﷺ کی تعلیمات سے انحراف ہیں اور یہی ان کی خوشنودی سے محرومی کا سبب بنتی ہیں۔ ان مبارک دنوں میں جب ہم درود و سلام کی محافل اور نعتیہ اجتماعات دیکھتے ہیں تو دل خوشی سے لبریز ہو جاتا ہے۔

مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے کو مبارکباد دینے اور وحدت کا منظر روح کو مسرت بخشتا ہے۔ اگرچہ رسول اکرمﷺ کی تاریخِ ولادت کے تعین میں اُمت میں اختلاف موجود ہے۔ کچھ 12 ربیع الاول اور کچھ 17 ربیع الاول کے قائل ہیں، لیکن حضرت امام خمینیؒ نے اس اختلاف کو اتحاد میں بدلنے کا بے مثال کارنامہ انجام دیا۔ آپ نے فرمایا کہ مسلمان اس بحث میں نہ الجھیں بلکہ 12 سے 17 ربیع الاول تک کے ایام کو "ہفتۂ وحدت" کے طور پر منائیں۔ یہ تجویز آج عالمِ اسلام کے لیے ایک شاندار عملی نسخہ ہے۔ یہی وہ ایام ہیں، جن میں اُمتِ مسلمہ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ قرآن کا حکم واضح ہے: "(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ مت ڈالو)۔

اس حکم کی روح یہی ہے کہ مسلمان صرف انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر اللہ کی رسی کو تھامیں۔ یہی اجتماعی قوت اُمت کا اصل سرمایہ ہے۔ اگر مسلمان واقعی قرآن، سیرتِ نبویﷺ اور شریعتِ اسلامی کو محورِ اتحاد بنا لیں تو دنیا کی کوئی طاقت اُمت کو زیر نہیں کرسکتی۔ فلسطین سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، وہ دراصل ہماری کمزوری اور باہمی انتشار کا نتیجہ ہیں۔ دشمن نے ہمیں فرقوں، قومیتوں اور لسانی تعصبات میں بانٹ کر کمزور کیا ہے۔ اس بکھری ہوئی حالت سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اُمتِ مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پرو دیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں وعدہ فرمایا ہے: "(وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ"، "اللہ ضرور اُس کی مدد کرتا ہے، جو اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے۔")

اگر آج ہم باوجود وسائل کے کمزور ہیں تو یہ ہماری اپنی کوتاہیوں اور غفلت کا نتیجہ ہے۔ کامیابی اسی وقت ممکن ہے، جب ہم خلوصِ دل سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں، توکل اور تقویٰ کو اپنا زادِ راہ بنائیں۔ "آئیے اس میلاد النبیﷺ پر عہد کریں کہ ہم قرآن و سیرت کو اپنی اصل طاقت بنائیں گے اور وحدت کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں گے، یہی ہماری نجات کا واحد راستہ ہے۔" دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ مبارک میں قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے، حضور نبی کریمﷺ کی حقیقی محبت اختیار کرنے اور اُمت کو وحدت کی ڈور میں باندھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

تحریر: شبیر احمد شگری

ایسے وقت جب غزہ کی پٹی انسان سوز محاصرے اور غاصب صیہونی رژیم کی مسلسل بربریت کے نتیجے میں عظیم انسانی المیے کے دہانے پر کھڑی ہے، گلوبل صمود فلوٹیلا نے بحیرہ روم میں غزہ کی جانب اپنے تاریخی سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کے ظالمانہ محاصرے کو توڑنے کے لیے غزہ کی جانب رواں کشتیوں کے اس قافلے کو دنیا کے 44 مختلف ممالک کی حمایت حاصل ہے اور اس میں دنیا بھر کے مختلف ممالک سے اہم شخصیات سمیت شہری سوار ہیں۔ یہ ایک عظیم اقدام ہے جو غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے سب سے بڑی سمندری کوشش قرار دی جا رہی ہے۔ اس بیڑے میں فلسطینیوں کے لیے بنیادی ضرورت کی اشیاء اور انسانی امداد بھی منتقل کی جا رہی ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا درحقیقت دنیا بھر سے ایسے مظلوم فلسطینی عوام کی عوامی حمایت کا اعلان ہے جو گذشتہ 700 سے زائد دنوں سے صیہونی ظلم اور نسل کشی کے خلاف استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
 
"صمود" عربی کا لفظ ہے جس کا معنی استقامت اور ثابت قدمی ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا نے غزہ کی جانب اپنے سفر کا آغاز یکم ستمبر 2025ء کے روز اسپین کی بندرگاہ بارسلونا سے کیا تھا۔ یہ ایک عظیم کاروان ہے جس میں 70 کے قریب کشتیاں اور سینکڑوں افراد شامل ہیں۔ ان افراد کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے جن میں قانون دان سے لے کر فنکار اور سیاست دان بھی شامل ہیں۔ ان سب کا مقصد ایک ہے اور وہ غزہ کا ظالمانہ محاصرہ توڑ کر مظلوم فلسطینیوں تک کھانے پینے کی اشیاء، ادویہ جات، خشک دودھ اور دیگر میڈیکل سامان پہنچانا ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف 2007ء سے جاری ظالمانہ محاصرہ توڑنے کا عزم کر رکھا ہے۔ اس محاصرے نے 20 لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو اسیر بنا رکھا ہے۔ سویڈن سے ماحولیات کے سرگرم رکن گرتا ٹانبرگ، آئرلینڈ سے معروف فنگار لیام کننگ ہام اور جنوبی افریقہ سے نیلسن مینڈیلا کے نواسے نیکوسی زویلیلا مینڈیلا  کی موجودگی نے اس فلوٹیلا کو عالمی رنگ دے دیا ہے۔
 
غزہ، بشریت کے دل میں زخم
اکتوبر 2023ء میں غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد غزہ کے خلاف محاصرہ شدید سے شدیدتر ہوتا گیا اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش کے بقول غزہ اس وقت "تباہی کی ایک دنیا" میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں: اب تک 64 ہزار فلسطینی جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، غاصب صیہونی رژیم کے بے رحمانہ حملوں کے نتیجے میں شہید ہو چکے ہیں جبکہ 1 لاکھ 61 ہزار فلسطینی زخمی ہیں۔ وسیع پیمانے پر قحط پھیل چکا ہے جسے اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر نے "جنگی جرم" قرار دیا ہے اور اس سے سینکڑوں فلسطینیوں کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ صرف گذشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران صیہونی حملوں میں 84 فلسطینی شہید اور 338 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ شہید ہونے والے فلسطینیوں کی بڑی تعداد اب بھی ملبے تلے دبی ہوئی ہے اور ریسکیو آپریشن کے لیے کوئی وسائل نہیں ہیں۔
 
امید کی لہروں پر خطروں کا سایہ
غاصب صیہونی رژیم نے ابتدا سے ہی گلوبل صمود فلوٹیلا کے خلاف دشمنی پر مبنی موقف اختیار کیا ہے۔ صیہونی رژیم کے وزیر سیکورٹی امور اتمار بن غفیر نے دھمکی دی ہے کہ اس فلوٹیلا میں شامل افراد کو گرفتار کر کے انہیں "دہشت گرد" قرار دیا جائے گا۔ اس موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رژیم ہر قیمت پر گلوبل صمود فلوٹیلا غزہ پہنچنے سے روکے گی۔ ایسی رپورٹس ملی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھی اسرائیلی ڈرون اس فلوٹیلا پر پرواز کر رہے ہیں اور اس کی جاسوسی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے جتنے بھی بین الاقوامی فلوٹیلا گئے ہیں ان پر صیہونی فوج نے حملہ کیا ہے لہذا اس تناظر میں بھی گلوبل صمود فلوٹیلا کو درپیش خطرات کا احساس کیا جا رہا ہے۔ صمود فلوٹیلا کی انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ اس فلوٹیلا میں یورپی کشتیاں اور معروف عالمی شخصیات موجود ہیں لہذا اگر اس پر فوجی حملہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ سفارتی بحران کی صورت میں نکلے گا اور حتی اسرائیل کے روایتی اتحادی بھی اس سے دور ہو جائیں گے۔
 
ایسی لہر جو ختم نہیں ہو گی
گلوبل صمود فلوٹیلا محض ایک سمندری اقدام نہیں ہے بلکہ اس وقت ایک بین الاقوامی سمفنی بن چکا ہے۔ مشرقی ایشیا سے لے کر شمالی افریقہ اور یورپ تک 44 ممالک کی کشتیاں اور افراد اس میں شامل ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر فلسطین کی حمایت کس قدر گہری ہے۔ تیونس کی سات کشتیاں، یونان نے جزیرہ سیروس سے ایک کشتی جبکہ اٹلی نے انسانی امداد کی تنظیم ایمرجنسی کی کشتی "لائف اسپورٹ" کے ذریعے اس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان تمام کشتیوں سے یہ پیغام ملتا ہے کہ غزہ کی خاطر جدوجہد درحقیقت عالمی انصاف کی خاطر جدوجہد میں تبدیل ہو چکی ہے۔ آئرلینڈ کے فنکار لیام کننگ ہام کے بقول "یہ محاصرہ جو قرون وسطائی تہذیب کی یاد تازہ کرتا ہے ختم ہونا چاہیے۔ ہم یہاں یہ کہنے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ بشریت ابھی زندہ ہے۔"
 
امید یا ایک بار پھر رونما ہوتا سانحہ؟
گلوبل صمود فلوٹیلا تمام تر خطرات کے باوجود اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ اقدام انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزیوں کے خلاف عالمی برادری کے عزم و ارادے کا امتحان ہے۔ اگر صمود فلوٹیلا کامیابی سے غزہ کے ساحل تک پہنچ جاتا ہے تو اس کا نتیجہ مظلوم فلسطینیوں کے درد و رنج اور مشکلات میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا اور صیہونی رژیم نے فوجی طاقت کے ذریعے اس فلوٹیلا پر حملہ کیا تو اس کے شدید سفارتی نتائج ظاہر ہوں گے اور اسرائیل ہمیشہ سے بڑھ کر گوشہ نشینی کا شکار ہو جائے گا۔ صمود فلوٹیلا کی کامیابی عالمی سول تحریکیں مضبوط ہونے اور حکومتوں پر غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے دباو میں اضافہ ہونے کا باعث بنے گی۔ لیکن یہ راستہ بہت زیادہ خطرات کے ہمراہ ہے۔ یہ فلوٹیلا غزہ پہنچے یا نہ پہنچے لیکن ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ فلسطینی عوام کی آواز کی گونج ایک بار پھر دنیا بھر سے سنائی دی ہے۔

تحریر: مہدی سیف تبریزی


ہفتہ وحدت کا پیغام صرف مذہبی اتحاد تک محدود نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ ہفتہ ہمیں اپنے فکری، علمی، سائنسی اور اقتصادی اتحاد کیلئے نئے زاویئے تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ کیا یہ مقامِ تعجب نہیں کہ اپنے خون سے دفاع، مزاحمت اور قربانی کی  لازوال داستانیں رقم کرنے والی مسلمان قوم کے جوان آج یہ نہیں جانتے کہ وہ اس جدید عہد میں کیسے زندہ رہیں۔ مذکورہ بالا عبارت میں نے اپنے حالیہ تجزیئے میں بیان کی تھی۔ راقم الحروف نے یہ تجزیہ حالیہ دنوں میں وائس آف نیشن کے پلیٹ فارم سے ایک آنلائن کانفرنس کے دوران پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ سیشن کے دوران ہفتہ وحدت اور مسلم دنیا کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرنے کیلئے بنگلہ دیش (ڈھاکہ) سے مفتی ہمایوں فیروز پوری صاحب بھی آنلائن تھے۔ سیشن کا افتتاحی خطبہ محترم منظوم ولایتی صاحب نے بیان کیا اور نظامت کے فرائض منظور حیدری صاحب نے انجام دیئے۔

مفتی ہمایوں فیروز پوری صاحب نے اپنی گفتگو میں اہلِ سنّت اور اہلِ تشیع کی داخلی وحدت اور پھر باہمی وحدت کے حوالے سے بہت مفید گفتگو کی۔ ان کی گفتگو کے بعد میں نے کانفرنس کے شرکاء کے سامنے ہفتہ وحدت اور مسلم دنیا کی موجودہ صورتحال پر جو تجزیہ پیش کیا، اس میں ایک زاویہ یہ تھا کہ ہم مسلمانوں نے اپنے نوجوانوں کو دین کیلئے جان دینے اور شہید ہونے کیلئے تو تیار کیا ہے، لیکن دین کی بالا دستی کیلئے اپنے جوانوں کی زندگیوں کو منشیات، جہالت، بیروزگاری اور فحاشی سے محفوظ بنانے کا شعور ہم میں آج تک نہیں۔ ہمیں ہفتہ وحدت میں اس حوالے سے بھی متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم سب نے مل کر اپنے اپنے ملک کے  اندر مسلمان جوانوں کو جنت کے حصول کا مشترکہ خواب تو دکھایا، لیکن ہم نے اس دنیا کو جوانوں کیلئے جنت بنانے کی مشترکہ طور پر آرزو نہیں کی۔

آج ہمارے جوانوں کو دشمنوں کی گولیوں سے زیادہ سوشل میڈیا، منشیات، ملاوٹ شدہ غذاوں، زہریلے پانی اور جہالت سے خطرہ ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ ہم نے لوگوں کو قبر میں جنت کے باغات تو بتائے، لیکن اس دنیا کی نعمتوں اور اس زندگی کی سرسبز وادیوں سے انہیں غافل کر دیا۔؟ ہم نے محض مرنے کے بعد جنّت کی تعلیم  تو دی، لیکن جیتے جی اس دنیا کو ریاستِ مدینہ کی مانند جنت بنانے کی تعلیم کو نظرانداز کیا۔ دوسری طرف مجھے مختصراً یمن کا تذکرہ بھی کرنا تھا، چنانچہ میں یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا کہ آج یمن کے سمندروں سے اٹھتی ہوئی آگ ہمیں یہ سمجھا رہی ہے کہ اسلام کا پیغام فرد کی روحانیت اور عبادات تک محدود نہیں بلکہ اسلام کا مقصد کمزور، مستضعف اور مظلوم کا ساتھ دینا ہے۔ یہ گفتگو کا دوسرا زاویہ تھا۔ یہیں پر ہفتہ وحدت اور بلیک ستمبر کا ذکر بھی ضروری تھا۔

اس حوالے سے میں فقط اتنا ہی کہہ سکا کہ یہ ستمبر کا مہینہ ہے اور یہ مہینہ ہمیں بلیک ستمبر کی یاد دلاتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم نے سلطانِ جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کو تو ایمان کا تقاضا کہا، لیکن جہالت کے جبر کے خاتمے کو اپنے ایمان کا تقاضا نہیں سمجھا۔ یہ کیسی جہالت ہے کہ اس مہینے میں خود اُردن کے مسلمان فوجیوں نے ہی بیس ہزار فلسطینیوں کا قتلِ عام کیا۔؟ اب گفتگو کا ایک اور باب کھلا اور وہ یہ کہ ہم ایک صادق اور امین نبیؐ کی اُمّت ہیں، لیکن اس کے باوجود سچائی سے آنکھیں چرانے کو گناہ نہیں سمجھتے۔ سچائی تو یہ ہے کہ   سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہم نے کشمیر و فلسطین کے اندر اپنے ہی بچوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے اور انہیں زندہ رکھنے کیلئے ہمارے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ ہم نے ان کے دلوں میں شجاعت اور قربانی کی آرزو تو پیدا کی، مگر انہیں زندگی کی پیچیدہ راہوں کو طے کرنے کیلئے کوئی پناہ گاہ نہ دے سکے۔

ہم نے ساری دنیا میں نامحرم کو نہ دیکھنے کو تو اپنے ایمان سے جوڑا، لیکن جدید زمانے کے تقاضوں کو نہ دیکھنے کو بھی اپنا ایمان بنا لیا ہے۔ گویا جدید تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی بھی ہمارے لئے نامحرم کا درجہ رکھتی ہے۔ اب مسلمانوں کے موجودہ حالات کے حوالے سے مجھے فلسطین کا ذکر بھی کرنا تھا۔ مجھے اس امر کا اعتراف کرنا پڑا کہ ایک طرف تو  "واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا" کے قرآنی حکم پر ہم عمل کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف ہماری آنکھوں میں ان فلسطینی مہاجرین کیلئے کوئی آنسو نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد 7 سے 8 ملین کے درمیان ہے۔ ان بے چاروں کو آخر کب تک یونہی مہاجر رہنا ہوگا۔ یہ مہاجرین 1948ء کے "نکبہ" (The Nakba) کے دوران فلسطین سے اپنے گھروں اور علاقوں سے بے دخل ہوئے تھے، اس وقت کی فلسطینی مہاجرین کی ابتدائی تعداد تقریباً 750,000 تھی۔

آج یہ مہاجرین مختلف ممالک اور پناہ گزینی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اردن میں سب سے زیادہ فلسطینی مہاجرین موجود ہیں، جہاں تقریباً 2.2 ملین فلسطینی آباد ہیں، جن میں سے کئی مہاجر کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔ لبنان میں بھی تقریباً 450,000 سے 500,000 فلسطینی مہاجرین موجود ہیں، جنہیں مختلف پناہ گزین کیمپوں میں رکھا گیا ہے اور ان کی زندگی انتہائی دشوار ہے۔ مصر، شام اور دیگر عرب ممالک میں بھی فلسطینی مہاجرین کی موجودگی ہے اور ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (UNRWA) کے مطابق، 2021ء تک فلسطینی مہاجرین کی تعداد تقریباً 5.7 ملین تک پہنچ چکی تھی۔ کیا ان مہاجرین کو واپس ان کے گھروں تک پہچانا بھی دعوت و اصلاح کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔؟ ہمیں آج سوچنا چاہیئے کہ ہم کیسے اے آئی کے ذریعے اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد کرسکتے ہیں۔؟ کیا ہم آئندہ بھی دنیا سے کشمیریوں و فلسطینیوں کیلئے آزادی کی بھیک مانگتے رہیں گے؟ یا ہم خود اپنی تقدیر بدلنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کریں گے؟

خصوصی طور پر، مصنوعی ذہانت (AI) جیسے جدید ٹولز کو دیکھتے ہوئے ہمیں سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم بھی کبھی اِن ٹولز کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے استعمال کرنا سیکھیں گے۔ ہمیں آج یہ سوچنا ہوگا کہ اے آئی کی مدد سے ہم مسلمانوں کی بہتر زندگی کے مواقع کیسے پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے ذریعے ہم مسلمان جوانوں کے لیے کون سی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں، انہیں روزگار کے کون سے مواقع دے سکتے ہیں اور جدید عہد میں انہیں انسانی اقدار کا پابند کیسے بنا سکتے ہیں۔؟ ہفتہ وحدت میں ہمیں مصنوعی ذہانت اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز کو اپنی وحدت و فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ ہمیں یہ منوانا ہوگا کہ ہمارے  دین کی سچائی صرف آخرت کے افق پر نہیں چمکتی، بلکہ اس دین پر عمل کرکے ہم دنیا میں بھی ایک کامیاب زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ ہمیں یہ ماننا چاہیئے کہ ہم نے ہمیشہ دعوت و اصلاح کو صرف عبادات اور آخرت کے دائرے تک محدود سمجھا اور یہی ہماری ناسمجھی ہے۔

میرے تجزیئے کا مرکزی خیال یہ تھا کہ ہفتہ وحدت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دعوت و اصلاح کا دائرہ صرف عبادات تک محدود نہیں ہونا چاہیئے۔ ہمیں اپنے مظلوم بھائیوں کی نجات کے لیے مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے وحدت کے نئے طریقے تلاش کرنا ہوں گے۔ اگر ہم نے اس پر عمل کیا تو ہم جہانِ اسلام میں ایک نئی وحدت  کا آغاز کرسکتے ہیں اور اگر ہم نے اس پر عمل نہ کیا تو یاد رکھیں کہ کوئی بھی نظریہ چاہے وہ کتنا ہی مفید کیوں نہ ہو، اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو وہ بے فائدہ ہی ہوتا ہے۔ مسلمانوں کیلئے فلاح و بہبود کی نئی راہیں تب ہی کھل سکتی ہیں، جب ہم ٹیکنالوجی، دین اور اخلاقیات کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔ اس سیشن میں ہم نے کچھ تجاویز پیش کرنی تھیں، جو وہاں تو پیش نہ کرسکے، البتہ  اس وقت پیشِ خدمت ہیں۔

ہماری تجویز ہے کہ ہفتہ وحدت کی برکت سے مسلمان AI اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے دنیا بھر میں جدید تعلیم تک اپنی رسائی کو بڑھانے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں، اس سلسلے میں نوجوانوں کو سکالرشپ، آگاہی، شعور اور حوصلہ دیں۔ اسی طرح مسلم دنیا میں صحت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی جیسے AI اور بایوٹیکنالوجی کا استعمال بیماریوں کی تشخیص، علاج اور ادویات کی پیداوار میں انقلاب لا سکتا ہے۔ غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے بھی AI کو معیشت میں بہتری لانے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیئے۔ مزید براں کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے۔ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی جیسے AI کو استعمال کرکے آلودگی اور موسمی تبدیلیوں کا مقابلہ ضروری ہے۔ ہمیں گلوبل یونٹی اور امن کے قیام کے لیے، AI اور سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف قوموں اور مذاہب کے درمیان بات چیت اور تعاون بڑھانا چاہیئے۔ پائیدار ترقی کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں کسٹمر اور کنزیومر کے بجائے پروڈکشن کے میدان میں اپنا لوہا منوانا چاہیئے۔

یہ سب تبھی ممکن ہے کہ جب مسلمان جوانوں کو  فرقہ واریّت، علاقائیت اور لسانیّت کے بجائے اجتماعی فلاح و بہبود کی سوچ اپنانے کی ترغیب دی جائے، اگر ایسا ہو جائے تو مسلمان ممالک کے وسائل آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رہیں گے۔ بصورت دیگر ہماری آئندہ نسلوں کو دینے کیلئے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں رہے گا۔ اے آئی میں مہارت کے بغیر ہماری آئندہ نسلوں کو ہر قدم پر ایک پاسورڈ کی ضرورت ہوگی اور وہ پاس ورڈ انہیں مفت میں نہیں ملے گا۔ حتی کہ انہیں ہر سانس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیئے کہ اس مرتبہ ہفتہ وحدت اپنے ہمراہ جدید دنیا کے ماڈرن چیلنجز کو لئے ہوئے ہے۔ ہمیں اسلامی دنیا کے درمیان وحدت، ہم آہنگی، تعاون، مواخات، ہمدردی اور اتحاد کے لئے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی وساطت سے وحدت کے نئے آفاق تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جی ہاں! ہفتہ وحدت کا پیغام صرف مذہبی اتحاد تک محدود نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ ہفتہ ہمیں اپنے فکری، علمی، سائنسی اور اقتصادی اتحاد کیلئے نئے زاویئے تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
 تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
 
 

 اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر اعلیٰ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا ہوں گے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے ایرانی صدر اور کابینہ سے ملاقات میں کہا کہ اسرائیلی ریاست شرمناک جرائم کر رہی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ وہ مسلم ممالک جو اسرائیل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، انہیں چاہیئے کہ وہ اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات کا خاتمہ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت اسرائیل کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ سفارتی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔

تمام شرعی واجبات کی ادائیگی اور تمام حرام کاموں سے دوری کا حکم، انسان کی روحانی جڑوں کی تقویت اور اس کے دنیا و آخرت کے تمام امور کی اصلاح کے لیے، چاہے وہ انفرادی اصلاح ہو یا اجتماعی۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس میں بعض عناصر کلیدی ہیں چنانچہ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ ان عناصر میں نماز سب سے بنیادی عنصر ہے۔ ملک کے جوان طبقے میں دوسروں سے زیادہ نماز کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ نماز کے ذریعے ایک جوان کا دل روشن ہو جاتا ہے، امیدوں کے دریچے کھل جاتے ہیں، روح تازہ ہو جاتی ہے، سرور و نشاط کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور یہ حالات زیادہ تر جوانوں کا خاصہ ہیں۔

امام خامنہ ای

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے ذکر کے بغیر اسلام کے طلوع کی داستان ادھوری ہے کیونکہ وہ اس عظیم دین کے بانیوں میں سے ہیں۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیوی یا پہلی مسلمان خاتون نہیں تھیں بلکہ وہ اسلام کی پہلی حامی، اس کی سب سے بڑی مالی مددگار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جذباتی سہارا اور خدا کے رسول کی روحانی و معنوی ہمدم تھیں۔ ان سب کے باوجود جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہا ہے، تاریخ میں ان کی عظیم شخصیت کی طرف سے غفلت برتی گئی ہے اور اسے نظر انداز کیا گيا ہے۔(1)
     

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو یہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا تھیں جنہوں نے اپنی بے پناہ دولت، بے مثال پوزیشن اور ذاتی آرام کو چھوڑ دیا تاکہ رسول اللہ کی پہلی اور سب سے مضبوط و پائیدار مددگار بن سکیں۔ وہ مکے کے معاشرے میں ایک چمکتے ہوئے موتی کی طرح رہ سکتی تھیں لیکن انھوں نے ایک نئے تمدن کا بنیادی ستون بننے کا راستہ چنا۔ انھوں نے "ملکۂ قریش" سے "ام المؤمنین" بننے تک جو راستہ طے کیا، وہ ریشم اور سونے سے نہیں بلکہ بھوک، ایثار اور درخشاں ایمان سے ہموار ہوا۔

جاہلیت کے خلاف استقامت

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ایسے معاشرے میں پیدا ہوئیں جسے قرآن "جاہلیت" کہتا ہے؛ ایسا زمانہ جب لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا، عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا اور بیوی کو ایک بے وقعت چیز سمجھا جاتا تھا۔ تاہم حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے ان رسوم کو چیلنج کیا۔ انھوں نے اپنی تجارت کو بے انتہا فروغ دیا اور ان کے تجارتی قافلے پورے جزیرہ نمائے عرب میں پھیل گئے۔(2) کہا جاتا ہے کہ ان کے قافلے، پورے قریش کے دوسرے تمام قافلوں کے برابر تھے۔ اس کامیابی نے انھیں "ملکۂ قریش" کا خطاب دلایا اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ بات تھی کہ اپنی پاک دامنی کی وجہ سے وہ "طاہرہ" کے نام سے مشہور ہو گئیں۔ تجارت کے ماحول میں جہاں مُنافع سب سے اہم تھا، اخلاقی اصولوں کی کوئی جگہ نہیں تھی اور رشوت کا لین دین عام تھا، حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا انصاف، سچائی اور امانت داری کے لیے جانی جاتی تھیں۔ اسلام کے ظہور سے پہلے، وہ ان حقوق کی پاسداری کرتی تھیں جن کی بعد میں اسلام نے توثیق کی: ملکیت میں خواتین کا حق، تجارت اور خودمختاری اور عزت و وقار کے ساتھ انتظامی ذمہ داری۔ وہ امیر تھیں، لیکن دولت انھیں اپنا قیدی نہ بنا سکی بلکہ یہ ان کی خدمت اور خیر خواہی کا وسیلہ بنی۔ ان کی خود مختاری اور کامیابی نے عورت کی کمزوری اور دوسروں پر انحصار کے عام خیال کو باطل کر دیا اور ایک مسلمان عورت کا نیا آئیڈیل پیش کیا: پوری عفت و عزت اور ترقی و پیشرفت کے ساتھ معاشرے میں سرگرم ایک عورت۔، لیکن ساتھ ہی پاکدامن اور بلند مرتبہ۔

پاکدامنی اور بصیرت کا نتیجہ، سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف

پہلی وحی کے نزول کا واقعہ، انسان اور آسمان کی ملاقات کی داستان ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، وہ دیانتدار تاجر جو "امین" کے نام سے مشہور تھے، غار حرا میں طویل خلوت نشینی اور پہلی آیات کے نزول کے بعد ایک بدلی ہوئی کیفیت میں گھر لوٹے۔ یہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا قلب مبارک تھا جو رسول اللہ کی پہلی پناہ گاہ بنا۔ انھوں نے صرف بیویوں والی تسلی پر اکتفا نہیں کیا اور آنحضرت پر وحی کے نزول کے واقعے کو خواب و خیال نہیں سمجھا، انھوں نے پورا ماجرا غور سے سنا اور پھر ان کی تصدیق کی۔ ان کا ایمان ایک شعوری اور سوجھ سمجھ کر کیا جانے والا فیصلہ تھا۔ پندرہ سال تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ گزاری گئی زندگی نے ان پر یہ بات ثابت کر دی تھی کہ جس شخص نے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا تھا، وہ اللہ کے بارے میں بھی ہرگز جھوٹ نہیں بولے گا۔

امام خامنہ ای کہتے ہیں: "انھوں نے اپنی پاکیزہ فطرت کے ساتھ، بات کی سچائی اور حقانیت کو فوراً سمجھ لیا ... ان کا قلب مبارک حقیقت کی طرف مجذوب ہو گیا اور وہ ایمان لے آئیں۔ پھر ہمیشہ اس ایمان پر ڈٹی رہیں۔"(3) اس یقین اور پشت پناہی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی رسالت جاری رکھنے کے لیے قوت بخشی کہ جب سبھی ان کے خلاف کھڑے ہوئے تھے۔

فتح سے پہلے، اپنی دولت و ثروت اور جان کا تحفہ

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے "اپنا سارا مال اسلام کی راہ میں خرچ کر دیا" لیکن یہ عبارت ان کے  ایثار و قربانی کی گہرائی کو پوری طرح بیان نہیں کرتی۔ قرآن کریم فرماتا ہے: "تم میں سے جنھوں نے فتح (مکہ) سے پہلے مال خرچ کیا اور جنگ کی وہ اور وہ جنھوں نے فتح مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جنگ کی، برابر نہیں ہو سکتے (بلکہ پہلے والوں کا) درجہ بہت بڑا ہے۔" (سورۂ حدید، آیت 10) حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اس آیت کی روشن مصداق ہیں۔ انھوں نے اس وقت اپنی ساری دولت و ثروت خدا کے دین پر قربان کی جب اسلام کا پرچم نہیں لہرایا تھا بلکہ یہ کام اس وقت کیا جب مسلمان تھوڑی تعداد میں تھے اور استہزاء اور ایذا رسانی کا نشانہ تھے۔ اس ایثار و قربانی کا اوج شعب ابی طالب میں مسلمانوں کے تین سال کے محاصرے کے دوران سامنے آيا، یہ وہ زمانہ تھا جب بھوک اور عسرت پورے خاندانوں پر چھائی ہوئی تھی۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے مسلمانوں کے لیے غذا فراہم کرنے کی خاطر اپنا سب کچھ نثار کر دیا اور خود بھوکی رہیں، یہاں تک کہ ان کے پاس ایمان کے سوا کچھ نہ بچا۔ انھوں نے اپنی دولت، آرام اور آخر میں اپنی جان کو رسالت پر قربان کر دیا۔ امام خامنہ ای نے اس ایثار کو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی سخاوتوں سے تشبیہ دی ہے جنھوں نے بارہا اپنی آدھی یا پوری دولت صدقے میں دے دی۔ اس درجے کا ایثار، سنّت اسلامی میں سب سے بڑی فضیلتوں میں سے ہے۔(4)

پیغمبر کے گھر کی ماں

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی والدہ اور گیارہ اماموں کی نانی کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ رہبر انقلاب کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا گھر، اہل بیت علیہم السلام کا گہوارہ تھا۔ انھوں نے برسوں تک امام علی علیہ السلام کو اپنے بیٹے کی طرح پالا اور اس عظیم خاتون کی والدہ بنیں جن کی نسل سے باقی امام ہیں۔ اس معنی میں، وہ نہ صرف گیارہ اماموں کی ماں بلکہ سبھی بارہ اماموں کی روحانی ماں ہیں۔(5) امیرالمومنین علیہ السلام کے بچپن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ان کی ہم نشینی کا ماحول فراہم کر کے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے نبوت اور امامت کے رشتے کی راہ ہموار کی۔ ان کا گھر روحانی پناہ گاہ اور معرفت الہی کا سرچشمہ بنا۔ حضرت خدیجہ اور پیغمبر کے گھر کی عظمت و منزلت صرف شیعوں ہی میں بلند نہیں ہے۔ اہل سنت کے بزرگ عالم ابن حجر عسقلانی بھی قرآن کی آیت اِنَّمَا يُرِيدُ اللَّہُ لِيُذْھِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَيْتِ (سورۂ احزاب، آيت 33) کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "اہل بیت علیہم السلام کی اصل اور جڑ حضرت خدیجہ کبریٰ سلام اللہ علیہا ہیں۔ اس لیے کہ حسنین علیہما السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ہیں اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا حضرت خدیجۂ کبریٰ سلام اللہ علیہا کی بیٹی ہیں اور علی علیہ السلام حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے گھر میں پلے بڑھے، پھر ان کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی علی علیہ السلام سے ہوئی۔ اس طرح واضح ہے کہ اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اصل اور بنیاد حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ہیں۔"(6)

محبت و احترام سے لبریز شادی

قرآن مجید فرماتا ہے: "اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت (نرم دلی و ہمدردی) پیدا کر دی۔" (سورۂ روم، آیت 21) رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی مشترکہ زندگی، اس آیت کی مجسم تصویر تھی۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پناہ گاہ اور ان کی مہربانی کا سرچشمہ تھیں۔

ان کا رشتہ شروع سے ہی حیرت انگیز تھا اور اس زمانے کے عرب معاشرے کی سماجی رسومات کو چیلنج کرتا تھا۔ یہ ایک معزز خاتون اور طاقتور تاجر، حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا تھیں، جنھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اعلیٰ سیرت کو پہچان کر ان کو شادی کا پیغام بھیجا۔

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوبیوں کی تعریف کرتے ہوئے اپنی سہیلی "نفیسہ" کے سامنے اپنے دل کا راز کھولا اور ان کو واسطہ بنایا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جائیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی مالی تنگدستی پر تشویش کا اظہار کیا تو نفیسہ نے یہ پیغام پہنچایا کہ خدیجہ ایسی خاتون ہیں جنھیں کوئی مالی تنگی نہیں ہے اور اپنے معاشی امور کے لیے انھیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔

اس وقت کے نام نہاد معاشرتی اقدار کی یہ خلاف ورزی، جس کے تحت ایک مالدار خاتون نے ایک غریب مرد کو شادی کا پیغام دیا تھا، ایک ایسے تعلق کی بنیاد بنی جو معاشرتی توقعات پر نہیں بلکہ باہمی احترام پر قائم تھا۔ اپنی پچیس سالہ مشترکہ زندگی میں، جو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے وقت تک جاری رہی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی۔ اس دور کو ایک گہرے پیار، سکون اور رفاقت سے بھرپور دور قرار دیا جا سکتا ہے جو بعد میں رسالت کے سامنے آنے والے مشکل برسوں کے مقابلے کی بنیاد بنا۔(7)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا، انھوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب سب نے مجھے جھوٹا کہا، انھوں نے تب اپنے مال سے میری مدد کی جب دوسروں نے مجھے محروم کیا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے مجھے اولاد عطا کی جبکہ دوسری بیویوں سے نہیں دی۔"(8) ان دونوں کی محبت اور باہمی احترام تمام جوڑوں کے لیے ایک مثال ہے؛ ایمان اور ایثار پر مبنی ایک رشتہ۔ وہ طوفانوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے ایک مضبوط قلعہ تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کبھی ان کو فراموش نہیں کیا۔

عورتوں اور مردوں کے لیے ایک جاوداں نمونۂ عمل

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی زندگی عورت کے بارے میں ہر غلط تصور کو توڑ دیتی ہے: وہ ایک ہی وقت میں پاکدامن اور طاقتور، مالدار اور متواضع بیوی اور ماں ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایک بااثر خاتون تھیں۔ انھوں نے دکھا دیا کہ حقیقی عزت ایمان، خدمت اور اخلاص میں ہے۔

امام خامنہ ای زور دے کر کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی عظمت زیادہ تر طاق نسیاں کی زینت بنتی رہی ہے حالانکہ وہ ایک ایسا نمونۂ عمل ہیں جو زمانے سے بالاتر ہے، وہ عورت کی دو غلط تصویروں کا جواب ہیں: ایک قدیم جاہلیت میں جہاں عورت کو بوجھ سمجھا جاتا تھا اور لڑکی کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا، اور دوسری جدید جاہلیت میں جہاں عورت کو ایک سامان اور استعمال کی چیز میں بدل دیا گیا تھا۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا "تیسری راہ" کی نمائندگی کرتی ہیں: ایمان اور خدمت کی بنیاد پر پاکیزگی اور خود مختاری کی راہ۔ اسی وجہ سے وہ تاریخ کی چار بہترین خواتین میں شمار ہوتی ہیں؛ حضرت مریم سلام اللہ علیہا، حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ۔(9) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے خدیجہ کے لیے جنت میں ایک ایسے محل کا وعدہ کیا ہے جس میں نہ کوئی شور ہے اور نہ کوئی تکلیف۔"(10) ان کی وراثت خاموش حمایت نہیں بلکہ اسلام کی بنیاد رکھنے میں ایک فعال اور فیصلہ ساز کردار کی تھی، انھوں نے اپنی عقل، اثر و رسوخ اور بے پایاں دولت و ثروت کو خدا کے پیغام کی خدمت میں لگا دیا۔ یہ قربانی کسی بھی تلوار سے زیادہ بلند آواز تھی؛ ایک ایسا انتخاب جس نے نومولود اسلام کو تباہی سے بچایا اور ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھی۔

 

1.             https://farsi.khamenei.ir/video-content?id=36746

2.             https://al-islam.org/khadijatul-kubra-short-story-her-life-sayyid-ali-asghar-razwy/chapter-2-early-life Bihar al-Anwar, Vol. 16, pp. 21-22

3.             https://farsi.khamenei.ir/video-content?id=36746

4.             https://farsi.khamenei.ir/video-content?id=36746

5.             https://farsi.khamenei.ir/video-content?id=36746

6.             فتح الباری بشرح صحیح الامام البخاری، ج 7، ص 169

7.             https://al-islam.org/khadijatul-kubra-short-story-her-life-sayyid-ali-asghar-razwy/chapter-4-marriage

8.             بحارالانوار، ج 16، ص 12

9.             اصول کافی، ج. 1، ص 458

10.           بحارالانوار، ج 16، ص 12

ایران کے وزیر خزانہ سید علی مدنی زادہ نے کہا ہے کہ صدر مملکت کے دورہ چین کے دوران مختلف اقتصادی شعبوں میں اہم سمجھوتوں پر دستخط کیے گئے۔

انہوں نے صدر کے دورہ چین کو انتہائی کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے نتائج حوصلہ افزا ہیں اور تہران اور بیجنگ نے اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کی طرف ایک اہم قدم اٹھایا۔

علی مدنی زادہ کا کہنا تھا کہ ایران اور چین کے درمیان طے پانے والے سمجھوتوں کا جائزہ لینے اور انہیں حتمی شکل دینے کے لیے خصوصی ورکنگ گروپ قائم  کیے گئے ہیں۔

 انہوں نے بتایا کہ ایران اور چین کا ایک مشترکہ ورکنگ گروپ ان سجھوتوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گا۔

 ایران کے وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ اقتصادی سفارت کاری کو مضبوط بنانے اور علاقائی تعاون کو بڑھانے کی غرض سے انجام پانے والے اس دورے نے شنگھائی تعاون تنظیم کے دیگر رکن ممالک کے ساتھ بھی ایران کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کے فروغ کے نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔

سلامی جمہوریہ ایران کی موجودہ ملی وفاق کی حکومت کا پہلا سال سیکورٹی بحران، پابندیوں کے دباؤ اور تیز رفتاری علاقائی تغیرات کا سال تھا مگر اس کی کثیر جہتی فعال سفارتکاری، جارحیتوں کے خلاف عالمی اجماع وجود میں لانے میں کامیاب رہی۔ اس حکومت نے گزشتہ ایک برس میں،معیشت اور پڑوسیوں کے تعلق سے بھی موثر اقدامات انجام دیئے اور اپنی سفارتی توانائیوں سے بھرپور استفادہ کرکے، دنیا کے سامنے ایران کی ایک نئی شبیہ پیش کرنے میں کامیاب رہی۔

  •  م

 المصطفٰی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے استاد حجت الاسلام ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی نے ہفتۂ وحدت کی مناسبت سے حوزہ نیوز کے نمائندے کو ”قرآن مجید میں امت کے اتحاد کی اہمیت اور ضرورت“ کے موضوع پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید مسلمانوں کو خیر امت سے یاد کرتا ہے جو معاشرہ سازی اور انسان سازی کے لیے خلق ہوئے ہیں؛ جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے:"كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّه. (سورہ آل عمران، آیت 110) امت کا الله تعالٰی پر ایمان کے بعد خودسازی امت کی اصل اور بنیاد ہے۔ امت کا دوسرا اہم کام، دوسروں کو نیک بنانا اور برائی سے روکنا ہے۔ اس آیت میں سب سے پہلے ہمیں خیر امت سے یاد کیا ہے، کیونکہ ہمارا کام، دوسروں کو اچھائی اور برائی، نیک و بد سمجھانا ہے اس لیے ہم خیر امت کہلائیں۔

وحدت فطری عمل ہے اور فکری اور عملی اختلاف، فطرت سے بغاوت ہے

انہوں نے امت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امت، یعنی جن کا رہبر ایک ہو، جن کا ہدف ایک ہو اور ایک ہی امام کے پیچھے چلنے والے ہوں تو ان کو اس مقدس عنوان ”امت“ سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہاں سے پتہ چلتا ہے ہم وحدت پر ہی خلق ہوئے ہیں فکری اختلاف اور عملی اختلاف، فطرت انسانی سے بغاوت ہے؛ اگر اختلاف کریں گے تو خیر امت کی منزلت سے گر جائیں گے جب اس مرتبے سے گر جائیں گے تو پھر خودسازی و جہاں سازی کے عمل میں سست پڑ جائیں گے۔

ڈاکٹر بشوی نے کہا کہ اختلاف انسان کو اپنے آپ سے الجھاتا ہے اور اسی طرح دوسروں سے بھی الجھاتا ہے؛ یوں ایسا انسان تخلیق کے مقصد سے پیچھے رہ جاتا ہے جو کہ توحید پرستی کے ساتھ معاشره سازی کا عمل ہے۔

انہوں نے اتحاد و وحدت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایمان کفر سے بدل جائے؛ نیکی برائی سے اور برائی نیکی سے تو یہاں سے معاشرہ تنزلی کی جانب بڑھ جاتا ہے، ایسے میں کمال طلبی کا عمل رک جائے گا؛ اسی لیے قرآن اختلاف سے بچنے کے لیے وحدت کا فارمولہ پیش کرتا ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ. (آل عمران، آیت 103)

المصطفٰی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے استاد نے امت سازی کے فوائد بیان کرتے ہوئے کہا کہ امت سازی کے نتیجے میں ہم دنیا پر حکومت کر سکتے ہیں اور اگر خدا نخواستہ یہ عمل رک جائے تو ہماری نسلیں بھی برباد ہو جائیں گی؛ اسی لیے اللہ حبل اللہ سے مضبوط رابطہ کی سفارش کر رہا ہے اور باقاعدہ طور پر مسلمانوں کو حکم دے رہا ہے کہ وہ ایک مرکز سے جڑے رہے اور وہ مرکز حبل اللہ ہے۔ قرآن مسلمانوں کو تفرقہ بازی اور اختلاف سے روک رہا ہے، کیونکہ اختلاف سے امت ٹوٹ جاتی ہے اور اغیار کا غلبہ ہوتا ہے۔

شیخ محمد یعقوب بشوی نے اتحاد و وحدت کی شرائط بیان کرتے ہوئے کہا کہ اتحاد کے لیے بنیادی شرائط، دلوں کا آپس میں مل جانا ہے، دلوں میں محبت کا پیدا ہونا ہے، ایک دوسرے کے ساتھ ملنا ہے، ایک دوسرے سے دلی ہمدردی ہے اور یہ کام بھی خدائی ہے: فالف بین قلوبکم... دلوں کی الفت، الله تعالٰی کی نعمتوں میں سے ہے۔ جب دل میں الفت پیدا ہوگی تو عمل میں بھی اختلاف نہیں ہوگا اور اس طرح عداوت، الفت میں بدل جائے گی، معاشرے میں اخوت کا بول بالا ہوگا اور اخوت کا رشتہ مضبوط ہوگا۔ قرآن کہتا ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ... (سورہ حجرات، آیت 10) سگے بھائیوں کی طرح برادرانِ ایمانی کا رشتہ بھی مقدس ہے؛ خونی رشتے ٹوٹ سکتے ہیں، لیکن ایمانی رشتہ نہیں ٹوٹے گا۔ اختلاف، وہ نامطلوب عنصر ہے جو ایمانی رشتے کو پارہ کر سکتا ہے اور انسان کو حکم خدا کا باغی بنادے گا اور مسلمانوں کی اجتماعی شوکت ختم ہوجائے گی۔ قرآن نے کہا: وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَع الصَّابِرِينَ. (سورہ أنفال، آیت 46)

ڈاکٹر بشوی نے اختلاف کے نقصانات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اختلاف کا سب سے بڑا نقصان، الله تعالٰی سے رشتہ ٹوٹ جانا ہے، خدا کی اطاعت سے باہر نکلنا ہے جو بندہ اللہ تعالٰی کی اطاعت نہیں کرتا وہ خود بخود شیطان کی اطاعت میں چلا جائے گا۔ اختلاف کا اجتماعی نقصان، اجتماعی سوچ اور عمل کا مفلوج ہوجانا ہے؛ اس کے نتیجے میں ایسا معاشرہ کوئی بڑا قدم اٹھانے سے عاجز رہے گا، ہر میدان میں شکست سے دوچار ہوگا، اجتماعی ناامیدی پیدا ہوگی، ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے دوسروں کی طرف دیکھے گا اور حسد، کینہ، پست سوچ اور سست ارادہ ایسے معاشرے کی عام عادت ہوگی۔ قرآن کریم نے انتہائی جامع انداز میں تذھب ریحکم... استعمال کیا ہے، تاکہ مردہ ضمیر، مردہ ارادے اور مردہ قوم جاگ جائے۔

انہوں نے اختلافات سے دوری اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اختلاف سے بچنے کے لیے صبر ایک بہت بڑا ہتھیار ہے، اسی لیے اللہ تعالٰی صبر اور برداشت کی تلقین فرماتا ہے اور ساتھ ساتھ صبر کا پھل اور اس کا فائدہ بھی بیان فرما رہا ہے اور وہ اللہ تعالٰی کی عنایت اور اس کی معیت اور سرپرستی ہے، لہٰذا ہمیں مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ختم کر کے وحدت کی فضاء کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ امت دوبارہ خیر امت کی مصداق بن سکے۔