سلیمانی

سلیمانی

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین

برادران وخواہران عزیز خوش آمدید! میں آپ پر اور ان سبھی لوگوں پر جو یہ تقریر سن رہے ہیں، درود بھیجتا ہوں۔ بسیج کے بارے میں چند جملے عرض کروں گا۔

ملک میں بسیج مستضعفین جو تشکیل دی گئی وہ بے نظیر ہے۔ کہیں بھی، دنیا کے کسی بھی ملک میں یہ ادارہ اس شکل میں نہیں تھا۔ یہ منفرد ادارہ شمار ہوتا تھا۔ میں اس کی مختلف پہلوؤں سے وضاحت پیش کروں گا۔ کسی کی تقلید میں یہ ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔ یہ کسی کی نقل نہیں ہے۔ یہ ہماری اپنی تاریخ اور قومی ثقافت کی دین ہے۔

یہ ہماری پہلی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ادارہ چونکہ کسی کی نقل اور تقلید میں تشکیل نہیں پایا ہے اس لئے باقی رہنے والا ہے۔ یہ ادارہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔  چونکہ اس کی جڑیں خود اپنی ہیں اس لئے محکم اور باقی رہنے والا ہے۔ یہ خود اس قوم کا ادارہ ہے۔ یہ بسیج کی تاریخ اور ملّی تشخص ہے۔ یہ ایرانی ادارہ ہے۔ یہ ایک ثقافتی مرکز ہے۔  بسیج فوجی ادارہ ہونے کے ساتھ ہی ثقافتی اور سماجی مرکز ہے۔  

آج بسیج سے، سب سے پہلے جو چیز ذہن میں آتی ہے وہ اس کا فوجی پہلو ہے جبکہ اس کا فوجی پہلو اپنی تمام تر اہمیتوں کے باوجود اس کے ثقافتی اور سماجی پہلو سے زیادہ نہیں ہے۔

امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے یہ ادارہ قائم کیا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے کب یہ ادارہ قائم کیا؟ اور وہ بھی ایک انتہائی خطرے کی حالت میں۔ یہ ہمارے امام کی ایک خصوصیت تھی۔ آپ میں سے اکثر نے امام کا دور نہیں دیکھا ہے۔ ہمارے عظیم امام کی ایک خصوصیت یہی تھی۔ آپ خطرات ميں سے مواقع نکال لیا کرتے تھے۔ اس مسئلے میں بھی یہی تھا۔

چار نومبر 1979 کو امریکی جاسوسی اڈے پر  یونیورسٹی طلبا کا قبضہ ہوا۔ اس زمانے کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا نے آنکھیں دکھانا شروع کر دیا۔ دھمکیاں دی گئيں اور پابندیاں لگائی گئیں۔ ان دھمکیوں کے دوران امریکی جاسوسی اڈے پر قبضے کے تقریبا تیئیس دن بعد 26 نومبر1979 کو بسیج کی تشکیل کا فرمان صادر ہوا۔ ایسے وقت میں کہ ملک مں تازہ انقلاب آیا تھا، اپنے دفاع کا اس کے پاس کوئی سامان نہیں تھا، اس طرح کی بڑی دھمکیاں دی جا رہی تھیں، ایسے حالات میں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ملک  کی سماجی، ثقافتی اور فوجی زمین پر شجرہ طیبہ کا ایک پودا لگایا۔ وہ شجرہ طیبہ بسیج کا ادارہ تھا۔ آپ نے خطرات سے موقع پیدا کیا۔  

ہم نےعرض کیا کہ فوجی پہلو، بسیج کے جملہ پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ اب میں یہ کہتا ہوں کا بسیج پہلے درجے میں ایک مکتب ہے، ایک فکر ہے، ایک تفکر ہے، در واقع یہ ایک فکری اور ثقافتی ادارہ ہے۔ اب بسیج فوجی کام بھی کرتا ہے، سماجی کام بھی کرتا ہے، علمی کارنامے بھی انجام دیتا ہے لیکن اس کا سرچشمہ منطق اور فکر ہے جس نے اس کی بنیاد تشکیل دی ہے۔ اگر ہم اس منطق اور بنیاد کو جس پر بسیج استوار ہے، دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو یہ دو الفاظ قوت ایمان اور جذبہ خود اعتمادی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں آپ اس کو خدا پر یقین اور اپنے آپ پر یقین کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ بسیج کے دو ستون ہیں۔ بسیج کی بنیاد خدا پر ایمان اور اپنے آپ پر یقین پر رکھی گئی ہے۔  آج، کل اور مستقبل میں یہ شجر(طیبہ) جتنا بھی ثمر بخش ہو، وہ انہیں دو چیزوں کی دین ہے۔ خدا پر یقین اور خود اعتمادی۔

بسیج کی خصوصیات بہت زیادہ ہیں لیکن ان کا سر چشمہ، یہی دو بنیادیں ہیں۔ 

بسیج میں شجاعت ہے، ایجاد اور کام شروع کرنے کی ہمت ہے، امور کی انجام دہی میں سرعت عمل ہے، اس کا نقطہ نگاہ اور ویژن بہت وسیع ہے، اسے دشمن کی شناخت ہے، مختلف نقل و حرکت اور اقدامات کے حوالے سے حساس اور ہوشیار ہے، لیکن یہ سب کچھ اور بسیج کی ساری خصوصیات، انہیں دو خصوصیات کی دین ہیں۔ اگر ہم ان پر غوروفکر کریں، تحلیل و تجزیہ کریں، جائزہ لیں تو بات بالکل واضح ہو جائے گی۔ میں یہاں اختصار کے ساتھ بیان کروں گا۔

جب ہم خدا پر یقین کی بات کرتے ہیں تو اس یقین کا نتیجہ خدا کے سامنے تسلیم و رضا ہے۔ خدا پر توکل ہے۔ خدا کے وعدے پر یقین ہے۔ خدا پر یقین کا مطلب یہ ہے۔ اول یہ کہ ہم خدا کے سامنے پوری طرح تسلیم ہیں اور دوسرے یہ کہ ہمارا توکل اس کی نصرت پر ہے۔ ہمیں اس کی مدد کی امید ہے اور تیسرے یہ کہ اللہ نے ہم سے جو وعدہ کیا ہے ہم اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ جیسے اس کا یہ وعدہ ہے کہ " ان تنصراللہ ینصرکم (2)  یہ خدا پر یقین کی بات ہے۔  

خود اعتمادی کے بارے میں یہ عرض کرنا ہے کہ اپنے آپ پر یقین اور خود اعتمادی کے نتیجے میں صلاحیتیں سامنے آتی ہیں۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں کا علم ہوتا ہے۔ اکثر ہم خود اپنی صلاحیتوں سے غافل ہوتے ہیں۔

فکری، باطنی اور روحانی صلاحیتیں تو دور کی بات ہیں، ہمیں حتی اپنی جسمانی صلاحیتوں کا بھی علم نہیں ہوتا۔

خود اعتمادی ہمیں اپنی صلاحیتوں کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اس کے بعد ہمیں ان صلاحیتوں کا قدر شناس بناتی ہے اور اس بات کا سبب بنتی ہے کہ ہم ان صلاحیتوں سے کام لیں۔ اس کی مثالیں بہت ہیں لیکن اس وقت میں اس بحث میں نہیں جاؤں گا۔

 لیکن خدا پر یقین کے تعلق سے عرض کروں گا کہ یہ بات، بسیجی اور ایک ادارے کی حیثیت سے خود بسیج کے اندر اسی وقت سے موجود ہے جب سے یہ ادارہ تشکیل دیا گیا اور وجود میں آیا۔ 

یہ حقیقت کہ وعدہ الہی ہے، انسان کی آنکھوں کے سامنے ظاہر  ہوتی ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ"و للہ جنود السماوات والارض وکان اللہ علیما حکیما" (3) ایک اور جگہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ"و للہ جنود السّماوات والارض و کان اللہ عزیزا حکیما۔" (4) عزیز یعنی وہ جو غالب آتا ہے اور کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔ یہ عزیز کے معنی ہیں۔ و للہ جنود السّماوات والارض؛ عالم وجود کے یہ سبھی بے شمار اجزا، لشکر خدا ہیں۔ اگر ہم خدا کے بندے ہوں تو یہ لشکر ہماری مدد کر سکتا ہے۔  یہ لشکر ہماری مدد کو آ سکتا ہے۔ یہ سنت الہی اور فطرت کا طریقہ ہے۔ البتہ اس لشکر کی کمان ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ ہم جب بھی چاہیں اس لشکر الہی سے کام لے لیں۔ اس لشکر کا کمانڈر خدا ہے۔ البتہ یہ کمانڈر خاص حالات میں اور معینہ شرائط کے ساتھ ، جب ہم خود آمادہ ہوں تو اس لشکر کو ہمارے اختیار میں دے دیتا ہے۔  یہ قرآن کی بات ہے۔ یہ قرآن کی واضح اور شفاف تعبیرات ہیں۔ : ان تصبروا و تتّقوا ویاتوکم من فورھم ھذا یمدد کم ربّکم بخمسۃ الاف من الملائکۃ مسوّمین (5)  اگر آپ کے اندر آمادگی پائی جائے تو خدا کے ملائکہ بھی آپ کی مدد کے لئے آ سکتے ہیں۔ ہم نے یہ نصرتیں دیکھی ہیں۔ دفاع مقدس میں بھی دیکھیں اور اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی دیکھی ہیں۔ سیاسی میدان میں بھی دیکھیں اور فوجی میدان میں بھی دیکھی ہیں۔ علمی میدان میں بھی دیکھیں اور خدائی امداد  میں بھی دیکھی ہیں۔ نصرت الہی کو کب دیکھا جا سکتا ہے؟ اس وقت جب آپ کوئي کام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ کام ناممکن ہے، وہاں یہ نصرت سامنے آتی ہے۔ یہ سب بسیج کے خدا پر یقین سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ بسیجی میں بھی اور بسیج کے ادارے میں بھی، ہر بسیجی میں خود اعتمادی، اپنی فکری، روحانی اور جسمانی توانائیوں اور صلاحیتوں کی شناخت، قوت ارادی، فیصلے کی توانائی، اپنی قدر اور دشمن کے ارادے کا تابع نہ بننے کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔

 ہمارے وجود میں ایک عنصر ایسا ہے کہ جس سے اکثر اوقات میں ہم غافل رہتے ہیں۔ وہ کیا ہے؟ وہ فیصلہ کرنے کی طاقت اور قوت ارادی ہے۔ ہمارے اندر ارادہ بھی ہے اور قوت ارادی بھی ہے۔ بعض اوقات انسان کے اندر قوت ارادی اس منزل پر پہنچ جاتی ہے کہ وہ کسی چیز کو خلق کر سکتا ہے، وجود میں لا سکتا ہے۔ یہ قوت ہمارے وجود میں موجود ہوتی ہے، ہم اس کو نہیں پہچانتے۔ اس کی قدر نہيں سمجھتے، اور اس کی تقویت نہیں کرتے۔ انسان کی اس ذاتی اور باطنی توانائی کی شناخت ایک بسیجی کی زندگی اور مکتب بسیجی کی ممتاز اور نمایاں ترین خصوصیات ميں سے ہے۔

دشمن کے ارادے کا تابع نہ ہونے اور اپنے ارادے کو غلبہ دینے کی خصوصیت کے لئے خود اعتمادی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ آپ اپنی خصوصیات اور صلاحیتوں کو پہچان سکیں۔ یہ بات اقوام کے لئے عالمی سامراج کے منصوبوں کے منافی اور ان کے برعکس ہے۔

عالمی سامراج، یعنی دنیا کی تسلط پسند طاقتیں جو اقوام پر اپنا تسلط جمانا چاہتی ہیں، ان کا ایک بنیادی کام یہ ہے کہ وہ اقوام کی توانائیوں کا انکار کرتی ہیں اور ان کی تذلیل اور تحقیر کرتی ہیں۔ اس کا ذکر بھی قرآن میں موجود ہے۔ فرعون کے بارے میں  (قرآن کریم فرماتا ہے) " فاستخفّ قومہ فاطاعوہ" (6) جبکہ وہ آج کی دنیا کے سلاطین سے زیادہ شریف تھا۔ سلطان امریکا، سلطان یورپ، یہ سب سلاطین ہی تو ہیں وہ ان سے شریف تھا۔ وہ صرف اپنے ملک کے عوام کے ساتھ یہ کام کرتا تھا۔ یہ دوسرے ملکوں کی اقوام کے ساتھ یہ کام کام کرتےہیں۔ فاستخفّ قومہ فاطاعوہ" اپنی ہی قوم کو ہلکا کیا، اس کی تحقیر کی، اپنے ہی عوام کو چھوٹا ظاہر کیا اور اس کے حقوق اور امتیازات کا انکار کیا۔ الیس لی ملک مصر وھذہ الانھار تجری من  تحتی"(7) نتیجے میں لوگوں نے دیکھا کہ وہ ان سے بالاتر ہے لہذا اس کی اطاعت کی۔ 

سامراج کا منصوبہ یہ ہے کہ آپ کی تاریخ کا انکار کرے، آپ کے تشخص کا انکار کرے، آپ کی توانائيوں کا انکار کرے اور جب آپ اپنے تیل کو برطانیہ  کی اجارہ داری سے نکال کر قومیانے کا اقدام کریں تو ملک کے اندر ان کے ایجنٹ تقریر کریں اور لکھیں کہ "یہ کیسی بات ہے! کیا ایرانی آبادان کی ریفائنری کو چلا سکتے ہیں؟ ایرانی تو مٹی کا لوٹا بھی نہیں بنا سکتے۔" اس طرح  وہ اقوام کی تحقیر کرتے ہیں۔ بسیج اس قومی تحقیر کا نقطہ مقابل ہے۔ تسلط پسند طاقتیں، کسی قوم پر اپنا تسلط جمانے کے لئے اس کے ملی عقائد  میں تحریف کرتی ہیں۔ اس کی تاریخ میں تحریف کرتی ہیں، اس کی شبیہ بگاڑتی ہیں اور تحقیر کرتی ہیں۔

میرے عزیزو! میرے بھائیو! میری بہنو! اور میرے بچو! طویل برسوں تک بالخصوص قاجاری اور پہلوی دور میں ایران کی تحقیر کی گئی۔ انقلاب آیا تو صفحہ پلٹ گیا۔

 پہلی جںگ عظیم کے بعد پیرس میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں متعدد ملکوں نے شرکت کی۔  یہ کانفرنس دنیا کی حالت کے بارے میں فیصلے کے لئے منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک وہ تھے جنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں شرکت کی تھی یا اس سے انہیں نقصان پہنچا تھا۔ ایران بھی ان ملکوں میں شامل تھا جنہیں پہلی جنگ عظیم میں نقصان پہنچا تھا۔ ایران نے بھی ایک وفد اس کانفرنس میں شرکت کے لئے پیرس بھیجا لیکن ایرانی وفد کو کانفرنس میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس طرح تحقیر کرتے تھے۔ ایک دور میں ایرانی قوم کی اس طرح تحقیر کی گئی ہے۔ بسیجی فکر اس کے گرد حصار کھینچتی ہے۔ بسیجی تفکر اس انتہائی خطرناک اسلحے کو ناکام بنا دیتا ہے۔ بسیجی تفکر خود اعتمادی عطا کرتا ہے۔ اس فکر سے نوجوان اپنے وجود کا احساس کرتا ہے۔  وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے اندر  توانائی ہے، یہ اس کی خود اعتمادی ہے۔ اس کے خدا پر یقین کے بارے میں بھی میں نے عرض کیا۔ وہ سمجھتا ہے کہ پورا عالم وجود لشکر خدا ہے۔ "و للہ جنود السّماوات و الارض" (8)  اور اگر وہ راہ خدا میں آگے بڑھے گا تو یہ لشکر اس کی مدد کرے گا۔ آج بھی یہی ہے اور کل بھی یہی رہے گا۔ بے شک یہ بسیجی جذبہ، یہ بسیجی توانائی، یہ بسیجی کیفیت جو ہمارے ملک میں ہے اور خوش قسمتی سے بعض دیگر ملکوں میں استقامتی محاذ کے سپاہیوں میں بھی یہ جذبہ موجود ہے، یقینا یہ جذبہ امریکا، مغرب، سامراج اور غاصب صیہونی حکومت کی سبھی سیاستوں پر غلبہ حاصل کرے گا۔

دو تین باتیں بسیجی کے بارے میں۔  ایک نکتہ یہ ہے کہ حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اس ملک میں انقلاب کی کامیابی سے پہلے، اپنی تحریک اور جدوجہد کے پندرہ برس کے دوران بسیجی فکر کے لئے حالات کو سازگار بنایا، اس کو وجود بخشا اور اس کی تقویت کی۔ یہ خصوصیات جو ہم بسیج کی بیان کرتے ہیں، ان میں سے بہت سی ایسی ہیں کہ بسیج کے ادارے کے باہر ظاہر ہوتی ہیں حتی بعض ایسی ہیں جو بسیج کی باضابطہ تشکیل سے پہلے ہی ظاہر ہو چکی تھیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے 1963 سے 1979 تک، تقریبا پندرہ سولہ برس اس بسیجی جذبہ، اس خود پر یقین، خدا پر یقین، اس خود اعتمادی، خدا پر اس اعتماد اور کامیابی کی اس امید اور روشن مسقبل کی ایرانی عوام کو نشاندہی اور تلقین کی اور ہمارے  نوجوانوں نے جن کے اندر ظرفیت اور صلاحیت تھی، امام کے اس پیغام کو سمجھا۔ کمزوری پیدا کرنے والے ان تمام عوامل کے مقابلے میں یہ پیغام قبول کیا گیا، لہذا بتدریج اس تحریک نے پیشرفت اور ترقی کی، وسیع تر ہوئی۔ اس نے انقلاب کی شکل اختیار کی اور ایک ایسی حکومت کا  خاتمہ کیا جس کو دنیا کی تقریبا سبھی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔ پہلوی حکومت کی امریکی حمایت کر رہے تھے، یورپ والے حمایت کر رہے تھے، روس والے بھی حمایت کر رہے تھے، سب حمایت کر رہے تھے۔ اس  کے پاس وسائل بھی بہت تھے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اس حکومت کا تختہ الٹ دیا، اس کو نابود اور جڑ سے ختم کر دیا جبکہ عوام کی جانب سے ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی۔   

 دنیا میں حکومتوں کے خلاف بغاوتیں ہوتی ہیں، زیادہ تر ناکام اور نا پائیدار ہوتی ہیں  (لیکن)  یہاں مسلحانہ جنگ نہیں ہوئی، عوام اپنے جسم و جان اور اپنے ایمان کے ساتھ آئے، میدان ميں اترے ، انھوں نے میدان پر قبضہ کیا اور حریف کو میدان سے باہر کر دیا۔    

انقلاب کی کامیابی کے بعد امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے گوناگوں ضرب اور وار کو روکنے کے لئے  بسیج کی دیوار کھڑی کر دی۔ دفاع مقدس سے پہلے بھی، دفاع مقدس کے دوران بھی، دفاع مقدس کے بعد بھی، فوجی میدان میں بھی، سماجی میدان میں بھی، علمی میدان میں بھی، اسلحہ سازی میں بھی اور بین الاقوامی و سیاسی میدان میں بھی (بسیج نے عظیم کارنامے انجام دیے)  

 توجہ فرمائيں کہ سماجی اور علمی طاقت، سیاسی طاقت وجود میں لاتی ہے۔  جو قوام اپنے اندر اپنے اتحاد، اپنے عزم، اپنی استقامت، اور میدان میں موجود اپنی قابل توجہ فعال افرادی قوت، دکھانے ميں کامیاب رہے، اپنی علمی اور سائنسی توانائی ثابت کر سکے اور اپنی سماجی توانائی دکھا سکے وہ سیاسی لحاظ سے بھی طاقتور ہو جاتی ہے، بین الاقوامی میدان میں محکم انداز ميں بول سکتی ہے اور اپنی بات آگے بڑھا سکتی ہے۔ امام (رضوان اللہ علیہ ) نے یہ کام انجام دیے۔

بسیج نے دفاع مقدس میں بھی کردار ادا کیا، ملک کو محفوظ بنانے اور اس کی سلامتی کے تحفظ میں بھی کردار ادا کیا، تعمیرات میں بھی کام کیا اور علمی وسائنسی کارنامے بھی انجام دیے۔

جن لوگوں نے یورینیئم کی بیس فیصد افزودگی کے معاملے میں جس کی ملک کو ضرورت تھی، امریکا کی خباثت آلود سازش کو ناکام بنایا وہ بسیجی تھے۔ شہید شہریاری بسیجی تھے، ہمارے ایٹمی شہدا، ملک کے بسیجی اساتذہ میں تھے۔ اس کی اپنی تفصیل ہے۔

 ہمیں نیوکلیئر میڈیسن کے لئے بیس فیصد  افزودہ یورینیم کی ضرورت تھی۔ ملک کو اس کی سخت ضرورت تھی۔ تھوڑی مقدار میں بیس فیصد افزودہ یورینیم موجود تھا جس کا انتظام پہلے کیا گیا تھا، وہ بھی ختم ہو رہا تھا، ہمیں خریدنا تھا لیکن کس سے؟ امریکا سے ۔ امریکیوں نے کہا کہ تمھارے پاس ساڑھے تین فیصد افزودہ یورینیئم جتنی مقدار میں ہے، ہمیں دو ہم اس کے بدلے میں بیس فیصد افزودہ یورینیئم دیں گے۔ اس وقت کے دنیا کے دو مشہور صدور نے جن کا میں اس وقت نام نہیں لینا چاہتا، ہم سے ان کے روابط اچھے تھے، انھوں نے ثالثی کی کہ یہ معاملہ طے پا جائے۔ ہمارے ملک کے حکام نے قبول کر لیا۔ دوہزار کے عشرے کا دوسرا نصف  ہے، بیچ مذاکرات میں دیکھا گیا کہ امریکی دھوکا دے رہے ہیں، ہم نے سمجھ لیا کہ وہ دھوکا دے رہے ہیں، اس کا تدارک کیا گیا۔ ٹھیک اس وقت جب وہ سمجھ رہے تھے کہ بیس فیصد افزودہ یورینیئم کی ضرورت کی وجہ سے ایران جھک جائے گا، ملک کے اندر ہمارے بسیجی ایٹمی اساتذہ نے بیس فیصد افزودہ یورینیم تیار کر لیا! امریکیوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ کام ہو سکتا ہے۔
 میں نے چند برس قبل یہیں پر کہا ہے (9) یورینیم کی افزودگی کے عمل میں سب سے مشکل مرحلہ بیس فیصد افزودگی تک پہنچنا ہے۔ اس کے بعد کے مراحل بہت آسان ہیں۔ ایسے وقت میں کہ دشمن ہمیں دھوکہ دے رہا تھا، ہمارے بسیجیوں نے، ہمارے بسیجی  نوجوانوں نے اور ہمارے بسیجی سائنسدانوں نے ملک کے اندر یہ مشکل مرحلہ انجام دے دیا، بیس فیصد افزودہ یورینیم تیار کر لیا  اور ہم ان سے بے نیاز ہو گئے۔  

بسیجیوں نے ان میدانوں میں کام کیا ہے۔ عالمی معاملات میں بسیج نے فعال کردار ادا کیا۔ بنابریں بسیج نے فوجی مسائل میں بھی، سماجی، علمی اور سائنسی میدان ميں بھی  اور بین الاقوامی سیاست کے میدان میں بھی اہم کردار ادا کیا اور کارآمد اور توانا رہی ہے۔

میں نے عرض کیا کہ ان میں سے بہت سے کارنامے خود بسیج کے ادارے کے اندر انجام نہیں دیے  گئے ہیں۔ بلکہ اس ادارے سے باہر انجام پائے ہیں۔ لیکن ہمارے لئے  جو چیز اہم ہے وہ بسیجی جذبہ، بسیجی مکتب اور بسیجی ثقافت ہے۔ کوشش کریں کہ اس کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ آپ بسیجی، آج ملک میں جہاں بھی ہیں، کارخانے میں ہیں، یونیورسٹی میں ہیں، دینی تعلیم کے مرکز میں ہیں، سائنسی تجربہ گاہوں میں ہیں، جنگ کے میدان میں ہیں، جہاں بھی ہیں، یہ جذبہ، کام کے لئے یہ آمادگی، حوادث کے تعلق سے یہ جو حساسیت ہے اس کو ہاتھ سے نہ نکلنے دیں۔ ہمیشہ تیار رہیں۔ یہ پہلا نکتہ ہے۔     
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آج کی دنیا ميں مختلف ملکوں میں بہت سے نوجوان ہیں جو ذہنی طور پر اپنے سامنے سارے راستے بند پاتے ہیں، وہ اپنے وجود کو بیکار سمجھتے ہیں۔ نوجوان ہے لیکن اس کا کوئی ہدف اور مقصد نہیں ہے۔ کھوکھلے پن کا احساس کرتا ہے۔ البتہ بہت سے موٹی کھال کے ہیں۔ لیکن بعض نازک ہیں، حساس ہیں، کھوکھلے پن کے احساس میں مبتلا ہیں، خود کشی زيادہ ہوتی ہے۔ آپ سنتے ہیں اور اعداد و شمار میں پڑھتے ہیں کہ دنیا میں خودکشی بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے۔ نوجوان ذہنی جمود محسوس کرتے ہیں۔ کھوکھلا پن محسوس کرتے ہیں۔ گوناگوں مشکلات اور رکاوٹوں کے مقابلے میں خود کو ناتواں سمجھتے ہیں اور یہی احساس ناتوانی انہیں کھوکھلے پن کی طرف لے جاتا ہے۔ بسیجی تفکر سارے بند راستے کھول دیتا ہے۔ بسیجی تفکر کی ایک خصوصیت یہی  بند راستے کھولنے کی  بسیجی ثقافت ہے جو نوجوانوں میں راستے بند ہونے کا احساس نہیں پیدا ہونے دیتی۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہم نے جو تعریف کی ہے اس کے مطابق اس کے اندر خود اعتمادی ہوتی ہے، اپنی توانائیوں پر اس کو اعتماد ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ اگر ہمت کرے تو کر سکتا ہے۔ دوسرے وہ تسلط پسندوں کے مطالبات و خواہشات سے مرعوب نہیں ہوتا۔ بسیجی ایسا ہی ہوتا ہے۔    

اس وقت آپ دیکھیں کہ مختلف مسائل میں امریکا، صیہونی حکومت اور دوسروں کے پروپیگنڈوں نے کیسا ہنگامہ مچا رکھا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر بسیجی نوجوان کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ آتی ہے اور وہ اس ہلڑ ہنگامے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ بنابریں مرعوب بھی نہیں ہوتا۔  

 تیسرے بسیجی نوجوان کے سامنے ہدف اور مقصد ہوتا ہے۔ وہ بے مقصد و بے ہدف نہيں ہے اور اپنے ہدف پر یقین رکھتا ہے۔ بسیجی نوجوان کا ہدف اسلامی معاشرہ ہے۔ اس کے بعد اسلامی تمدن ہے۔ وہ اس کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔ بسیجی نوجوان کا مقصد عدل و انصاف کا نفاذ ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ کام کر سکتا ہے اور اس راہ میں آگے بڑھتا ہے۔

بسیجی نوجوان موت سے نہیں ڈرتا۔ آپ دیکھیں کہ دفاع مقدس کے دوران آتے تھے، گریہ کرتے تھے، التماس کرتے تھے کہ محاذ پر جانے کی اجازت دی جائے۔ ان کی عمر کم ہوتی تھی۔ اجازت نہیں ملتی تھی۔ گریہ و التماس کرتے تھے۔ یہ یہی کوئی 35 سال قبل اور 40 برس پہلے کی بات ہے۔ چند برس پہلے دفاع حرم کے مسئلے میں بھی یہی صورتحال تھی۔ دفاع حرم کے دوران کتنے نوجوان مجھے خط لکھتے تھے۔ بعض ملاقات کرتے تھے کہ جناب مجھے جانے کی اجازت دے دیں۔ اجازت نہیں ملتی تھی تو کسی ایسے گروہ ميں شامل ہونے کی کوشش کرتے تھے جس کو اجازت مل چکی ہوتی تھی۔ آپ نے یہ باتیں سنی ہیں اور پڑھی ہیں۔ ان کے احوال پڑھے ہیں اور جانتے ہیں۔  بسیجی موت سے نہیں ڈرتا۔ آخری منزل شہادت ہے۔ وہ شہادت پر یقین رکھتا ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ اگر اس راہ میں دنیا سے گیا تو اعلی ترین معنوی مرتبے تک پہنچ جائے گا۔  بنابریں اس کے سامنے راستہ کھلا ہوا ہے۔ وہ اپنے سامنے راستے بند نہیں پاتا۔ ایسا انسان اپنے سامنے راستے بند نہیں پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کا بسیجی یقین رکھتا ہے کہ صیہونی حکومت ایک دن یقینا ختم ہوگی۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ملک میں بسیج کی روز افزوں تقویت ہونی چاہئے۔ بسیج کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ پرچم بسیج، عوام کے حقوق کا پرچم ہے۔ پرچم دفاع حقیقت ہے۔ یہ پرچم ہمیشہ لہراتے رہنا چاہئے۔ اس کے لئے مدد ضروری ہے، اس کی تقویت ضروری ہے۔ کس طرح تقویت کی جائے؟ اس کی گہرائی و گیرائی بڑھائی جائے۔ اس کی کیفیت اوپر لائی جائے۔ اس میں گہرائی پیدا کریں۔ تاکہ بسیجی نوجوان کے ذہن میں بسیجی ثقافت اپنی جگہ بنا سکے۔ اس کی کیفیت بھی اوپر لانا چاہئے۔ مسائل کو سطحی نقطہ نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔ اس کے لئے کتاب کی ضرورت ہے۔ مطالعے کی ضرورت ہے۔ مباحثے کی ضرورت ہے۔ تحقیقی حلقوں کی ضرورت ہے۔ یہ کام انجام دیے جائيں۔  

بسیج کی تقویت کا ایک پہلو یہ ہے کہ بسیج مجریہ کے اداروں کے فعال بازو کی حیثیت سے ہر جگہ موجود اور کام کے لئے تیار رہے۔ فوجی شعبے میں، علمی شعبے میں، عوامی خدمات کے شعبے میں، تعلیم و تربیت کے شعبے میں، تبلیغ اور حقائق بیان کرنے کے شعبے میں، روزگار کے مواقع ایجاد کرنے کے شعبے میں، یہ جو نمائش مجھے دکھائی گئی ہے، اس میں بہت سے کام بسیج کے ہیں۔ ان شاء اللہ پوری قوت اور شدت کے ساتھ اسی طرح جاری رہیں۔
ماضی میں بھی یہی صورتحال تھی، گزشتہ طویل برسوں کے دوران بسیج نے حکومتوں کی مدد کی ہے۔ حکومت کے فعال بازو کی حیثیت سے کام کئے ہیں۔ بعض حکومتوں نے اس کی قدر کی اور بعض نے نہیں۔ بسیج کی مدد لی لیکن اس کا شکریہ نہیں ادا کیا۔
سیاسی میدان میں بھی (ایسا ہی ہے) اس میدان میں بھی بسیج کی تقویت کی ضرورت ہے۔ بسیج کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس علاقے کے ملکوں کے لئے امریکا کا منصوبہ دو طرح کا ہے، یا استبداد یا پھر نراجیت اور انگریزوں کے بقول یا ڈکٹیٹر شپ یا انارکی۔ امریکا نے اس علاقے کے لئے انہیں دو راستوں کو مد نظر رکھا ہے۔ جس ملک پر امریکیوں کی نگاہ ہے ، یا اس میں استبدادی حکومت ہونی چاہئے تاکہ اس کے ساتھ ان کی سودے انجام پا سکیں، جو وہ چاہیں وہ اس کی موافقت کرے اور ان کے سامنے جھکی رہے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو پھر اس ملک میں انارکی ہونا چاہئے، لوگوں کی زندگی دشوار کر دی جائے۔ بسیج کو ان دونوں سے مقابلہ کرنا چاہئے۔ ڈکٹیٹرشپ اور استبداد لانے کی کوششوں کا بھی مقابلہ کرے اور نراجیت اور بلوے کا بھی۔ 

ملک میں ان دونوں میں سے کوئی ایک بات بھی ہو تو سمجھ لیں کہ دشمن کام کر رہا ہے۔ بسیج کو اس کے مقابلے پر ڈٹ جانا چاہئے۔  یہ بسیج سے متعلق مسائل تھے جو عرض کئے گئے، بسیج کے تعلق سے باتیں بہت ہیں۔ فی الحال اتنا ہی۔
چند جملے علاقے کے حالات کے بارے میں بھی عرض کروں گا۔  لبنان، فلسطین اور غزہ کے مسائل کے حوالے سے، جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ دیکھ اور سن رہے ہیں، خبریں آپ کے سامنے ہیں، آپ کو علم ہے، میں دو نکات عرض کروں گا۔

 پہلا نکتہ یہ ہے کہ لوگوں کے گھروں پر بمباری کامیابی نہیں ہے۔ احمق یہ نہ سمجھیں کہ چونکہ لوگوں کے گھروں پر بمباری کر رہے ہیں، چونکہ اسپتالوں پر بمباری کر رہے ہیں چونکہ لوگوں کے مجمع پر بمباری کر رہے ہيں، اس لئے کامیاب ہو گئے۔ جی نہیں، دنیا میں کوئی بھی اس کو کامیابی نہیں سمجھتا۔ یہ کامیابی نہیں ہے۔ دشمن غزہ  میں کامیاب نہیں ہوا ہے ، دشمن لبنان میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ جو کام انھوں نے کئے ہیں وہ کامیابی نہیں ہے، جنگی جرائم ہیں۔ گرفتاری کا حکم صادر ہوا ہے (10) لیکن یہ کافی نہیں ہے نتن یاہو کو پھانسی ملنی چاہئے۔ جرائم پیشہ صیہونی حکام کی پھانسی کا حکم صادر ہونا چاہئے۔ یہ پہلا نکتہ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ لبنان، فلسطین اور غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کا جو نتیجہ وہ چاہتے ہيں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ یعنی یہ جرائم استقامت کی تقویت کر رہے ہیں اور استقامت شدت اختیار کر رہی ہے۔  یہ بھی ایک قاعدہ کلی ہے۔ اس کے برعکس نہیں ہو سکتا۔ غیور فلسطینی نوجوان، غیور لبنانی نوجوان دیکھ رہا ہے کہ اگر میدان مجاہدت میں ہو تو خطرہ ہے میدان مجاہدت میں نہ ہو تو بھی خطرہ ہے۔  ڈاکٹر ہے، نرس ہے، مریض ہے، مزدور ہے، روزی کمانے والا ہے لیکن موت کا خطرہ، بمباری کا خطرہ اور دشمن کے خطرات ہیں۔ اس کے لئے کوئی اور راستہ نہيں بچا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جاکر مجاہدت کروں۔ اس لئے کہ وہ مجبور کر رہے ہیں۔ یہ احمق خود ہی اپنے کاموں سے  استقامتی محاذ  کو وسیع تر کر رہے ہیں، استقامت کی شدت بڑھا رہے ہیں۔ یہ ایک حتمی نتیجہ ہے اس کے برعکس نہیں ہو سکتا۔  میں آج کہتا ہوں کہ آج استقامتی محاذ جتنا وسیع ہے کل اس سے کئي گنا زیادہ وسیع ہوگا۔

پالنے والے تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، سبھی بندگان صالح کے مطلوب (امام مہدی عج اللہ فرجہ الشریف) کو جلد سے جلد بھیج دے۔

 والسلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ

1۔ اس موقع پر پہلے بریگیڈیئرغلام رضا سلیمانی (بسیج مستضعفین کے کمانڈر) نے ایک رپورٹ پیش کی ۔

2۔ سورہ محمد آیت نمبر 7 "۔۔۔ اگر خدا کی مدد کرو تو وہ تمھاری نصرت کرے گا۔"

3۔ سورہ فتح، آیت نمبر4 کا ایک حصہ"۔۔۔۔ اور زمین وآسمان کے فوجی خدا کے ہیں، اور خدا  دانا اور کاموں کو ٹھیک کرنے والا ہے۔"

4۔  سورہ فتح آیت نمبر 7 " اور زمین وآسمان کے فوجی خدا کے ہیں اور خدا کو کبھی شکست نہیں دی جا سکتی اور وہ امور کو ٹھیک کرنے والا ہے"

5۔ سورہ آل عمران ، آیت نمبر 125 " ہاں اگر صبر کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو  اور وہ اسی جوش و خروش کے ساتھ تم پر حملہ کریں تو خداوند عالم پانچ ہزار علامت والے فرشتوں سے تمھاری مدد کرے گا۔

6۔ سورہ زخرف آیت نمبر 54

7 ۔سورہ زخرف آیت نمبر 51"۔۔۔۔۔ کیا مصر کی بادشاہت اور یہ نہریں جو میرے محل کے نیچے بہہ رہی ہیں میری نہیں ہیں ؟"

8۔ سورہ  فتح کی آیت نمبر چار کا ایک حصہ:۔۔۔۔ "اور زمین وآسمان کے فوجی خدا کے ہیں۔۔"

9۔  نومبر 2015 میں یونیورسٹیوں، تحقیقی مراکز اور سائنس وٹیکنالوجی پارک کے سربراہوں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب

10۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے مہینوں کی تاخیر سے آخر کار 21 نومبر 2024 کو صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو اور سابق وزیر جنگ یواف گالانٹ کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا۔ یہ حکم غزہ میں جنگی جرائم کے ارتکاب پر صادر کیا گیا۔

 
 
یاسر عرفات نے اپنی تنظیم ”پی ایل او“ کا ہیڈکوارٹر لبنان میں قائم کیا ہوا تھا۔ 1982ء میں اسرائیل کی افواج نے لبنان پر حملہ کیا اور پی ایل او نے بغیر کسی مزاحمت کے لبنان کو خیرباد کہہ دیا۔ یاسر عرفات نے اسرائیل کی اس جارحیت کے خلاف تمام مسلم ممالک سے مدد کی درخواست کی، لیکن اس وقت بھی آج ہی کی طرح سوائے اسلامی جمہوری ایران کے کسی ملک نے اپنی فوج نہ بھیجی۔ البتہ عرفات نے ایرانی فوج کو لڑنے کی اجازت نہ دی اور خود ہتھیار ڈال دیئے۔ وجہ یہ تھی کہ یاسر عرفات سیکولر نظریے کے حامی تھے۔ انہوں نے اپنی تنظیم ”تنظیم آزادی فلسطین“ کو بھی سیکولر بنیادوں پر استوار کیا ہوا تھا۔

وہ سمجھتے تھے کہ اگر ایرانی افواج کے ذریعے صیہونی افواج کو لبنان سے نکالا گیا تو اس سے فلسطینیوں میں بھی انقلاب اسلامی کے اثرات پھیلیں گے، جو ان کی سیکولر تحریک کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔ چنانچہ انہوں نے شکست گوارہ کر لی لیکن فلسطینیوں میں مذہبی اثرات کے پھیلاؤ کو گوارہ نہیں کیا۔ امام خمینی (رح) اس وقت حیات تھے۔ آپ نے یاسر عرفات کی اس شکست پر فرمایا تھا کہ ”آپ کی شکست کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی جدوجہد محض زمین کے ایک ٹکڑے (فلسطین) کے لیے ہے، اگر آپ کامیابی چاہتے ہیں تو آپ کی جدوجہد محض ایک علاقے کی بجائے دین کے لیے ہونی چاہیئے۔“

اسرائیل کے ساتھ اوسلو امن معاہدے کے بعد یاسر عرفات کے ایران سے اختلافات پیدا ہوگئے اور پھر آنے والے وقتوں میں یاسر عرفات نے ایران کے خلاف اپنے خبث باطن کا کھل کر اظہار کرنا شروع کر دیا اور یہاں تک کہا کہ ایران فلسطین کی آزادی کے لیے غاصب صیہونی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی بات اس لیے کرتا ہے، تاکہ وہ مقبوضہ فلسطین کو اسرائیل سے آزاد کروا کر اس پر خود قبضہ کرلے۔ یاسر عرفات نے اسرائیل سے جو نام نہاد امن معاہدہ کیا تھا، وہ دیرپا ثابت نہ ہوا اور پھر اسرائیل کے سامنے اپنے ہاتھوں میں زیتون کی شاخ لہرانے والا اسرائیل کے ہاتھوں زہر خوانی کا شکار ہوا۔

گردش زمانہ نے پلٹا کھایا اور پھر وہ وقت آیا، جب اہل فلسطین میں ”حماس“ کے نام سے ایک تحریک وجود میں آئی، جس نے خالص دینی بنیادوں پر اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور ایک دن ”طوفان اقصیٰ“ کے نام سے اقصائے عالم میں ایک طوفان پرپا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ آج بشار الاسد کا بھی کچھ یہی معاملہ ہے۔ اگرچہ اسرائیل کے خلاف وہ تمام عرب حکام کے مقابلے میں اپنے والد کی طرح مضبوط موقف رکھتے تھے، لیکن انہوں نے بھی اپنی مملکت کو سیکولر بنیادوں پر ہی استوار کیا ہوا تھا۔ وہ دین حنیف کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کو اپنا ضابطہ سیاست بنانے کی بجائے ”بعث پارٹی“ کے منشور پر عمل پیرا تھے اور ان کی جماعت کے اراکین اسی منشور پر حلف اٹھاتے تھے۔

اسرائیل کے مقابلے میں بشار الاسد کی حکومت دفاعی اعتبار سے نہایت کمزور تھی۔ اسرائیلی فضائیہ نے شام کی ارضی سالمیت پر وار کرنا اپنا روز کا معمول بنایا ہوا تھا۔ بشار الاسد کی فضائیہ کے طیاروں نے شاید ہی کبھی اسرائیلی بمباری کا جواب دیا ہو، ان کے لڑاکا طیارے ہمیشہ اپنے ہینگرز میں ہی پائے گئے، جو بالآخر باغیوں کے ہاتھ لگے۔ یہ ہیں وہ حقیقی اسباب جن کی بنا پر ان کی دفاعی افواج بھی یاسر عرفات کے لشکریوں کی طرح اسرائیل اور اس کے حواریوں کے سامنے مقاومت نہ دکھا سکیں اور ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔
 
 
تحریر: سید تنویر حیدر
 شام میں حکومت کیخلاف لڑنے والوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ گذشتہ ہفتے مسلح دھڑوں نے اچانک حملہ کرکے حلب، پھر حماہ اور اس کے بعد حمص کے شمالی دیہی علاقوں اور جنوب کے حصوں پر قبضہ کر لیا۔ ایران اپنی سلامتی یقینی بنانے کے حوالے سے شام کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ شام میں ایران نے اسد حکومت کو سہارا دینے کیلئے اچھا خاصا کام کیا تھا۔ شام کی فوج کا ڈھانچہ کھڑا کرنے میں ایران کی مالی اور تکنیکی دونوں طرح کی معاونت شامل تھی۔ اگر شام کی فوج ختم ہوئی تو یہ مشرق وسطیٰ کیلئے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ شامی فوج کا یہ سقوط افراتفری، کمزوری اور سکیورٹی کی خلاف ورزیوں کے بغیر واقع نہیں ہوسکتا تھا۔ ایران نے شام سے اپنے بیشتر مشیر اور رہنماء اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل کے خدشے کے پیشِ نظر واپس بلا لیے تھے۔ شام کی حشد ملیشیا کو فاطمیون، زینبیون اور حزب اللہ سے الگ کرنے کے بعد جنوبی لبنان کے محاذ پر تعینات کر دیا گیا تھا۔

پتا چلا ہے کہ یوکرین میں جنگ چھیڑنے کے بعد روس نے بھی شام سے اپنے فوجی اور ساز و سامان نکالنا شروع کر دیا تھا۔ ویگنر گروپ کو بھی واپس بلا لیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں شامی فوج کی پوزیشن بہت کمزور ہوگئی تھی۔ اب پہلا منظرنامہ یہ ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن کے دھڑے دمشق پر قبضہ کرکے فوج کو شکست دے کر شدت پسند اسلامی حکومت قائم کر لیں۔ ایک ممکنہ منظرنامہ یہ بھی ہے کہ شام کی حکومت اپوزیشن کے دھڑوں کو شکست دے کر وہی صورتحال پیدا کر دے، جو 2016ء میں تھی۔ تیسری ممکن صورت یہ ہوسکتی ہے کہ شام کو تین چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ مرکزی حکومت دمشق میں ہو۔ حلب میں اسلامی حکومت قائم ہو اور باقی علاقوں پر ایک کرد حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق چند روزہ لڑائی میں 800 سے زائد افراد ہلاک اور 3 لاکھ سے زائد شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔

اب بھی گذشتہ شب کی اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی طیاروں نے دمشق میں فوجی ہیڈکوارٹرز پر حملے کئے ہیں۔ دمشق کے ہوٹلز میں مقیم پاکستانی زائرین نے اس حوالے سے اطلاع دی کہ رات طیاروں کی گھن گرج اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں، جبکہ گلیوں میں بھی شہری جشن مناتے ہوئے ہوائی فائرنگ کرتے رہے۔ معزول شامی صدر بشار الاسد بھی منظر عام پر آچکے ہیں اور انہوں نے روس میں سیاسی پناہ لی ہوئی ہے۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ ان کا طیارہ ریڈار سے غائب ہوگیا ہے۔ کچھ اطلاعات تھیں کہ انہیں اسرائیل نے نشانہ بنا دیا ہے۔ لیکن اب ساری گرد بیٹھنے کے بعد بشار الاسد کے روس میں سیاسی پناہ لینے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ بشار الاسد کو ناکامی کیوں ہوئی؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر زبان پر ہے۔ اس کی وجہ یہ پتہ چلی ہے کہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بشارالاسد کو کچھ  خطرناک منصوبوں سے آگاہ کیا تھا۔ لیکن بشارالاسد نے اس پر توجہ نہ دی اور یوں اسی جال میں پھنس گئے، جس کا اشارہ آیت اللہ خامنہ ای نے دیا تھا۔

شنید ہے کہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بشارالاسد کو 21 مئی 2024ء کو ہی متنبہ کر دیا تھا کہ مغرب نے شام کیلئے خفیہ نقشہ بنایا ہوا ہے، مغربی ممالک اور اس خطے میں ان کے جانشینوں نے اس ملک کے سیاسی نظام کو اکھاڑ پھینکنے اور شام کیخلاف جنگ کے ذریعے شام کو علاقائی مساوات سے دور کرنے کا منصوبہ بنایا، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے اور اب وہ دوسرے طریقے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جن میں ایسے وعدے بھی شامل ہیں، جو کبھی پورے نہیں ہوںگے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ وہ شام کو علاقائی معاملات سے ہٹانے کیلئے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بشار الاسد کو جب جنگ کے ذریعے تسلیم نہیں کروا سکے، تو اسے عرب لیگ کا دھوکہ دے کر تنہائی سے نکالنے کا دھوکہ دیا گیا۔ بشار الاسد اس دھوکے میں آکر محور مقاومت کیساتھ ہمکاری کرنے میں لیت و لعل کرچکا تھا۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسے سمجھایا تھا کہ یہ جو عرب لیگ کا وعدہ دیا گیا ہے، یہ درحقیقت محورِ مقاومت سے دور کرنے کیلئے جھانسہ دیا جا رہا ہے۔

لیکن لگتا ہے کہ بشار الاسد نے اس پیغام کو سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ عربوں پر اعتماد کرکے اپنی ہی قبر کھود لی اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بشار الاسد نے اپوزیشن گروہ کیساتھ باقاعدہ ڈیل کی ہے اور ڈیل کرکے ہی اسے راستہ دیا گیا کہ وہ محفوظ طریقے سے شام چھوڑ دیں، باقی معاملات وزیراعظم کے سپرد کر دیئے گئے اور وزیراعظم کو ہدایت کی گئی کہ وہ انتقال اقتدار کے معاملات نمٹائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بشار الاسد کی دمشق سے روانگی سے قبل وزیراعظم نے فوری اپنا ویڈیو پیغام جاری کر دیا اور کہا کہ وہ شام کے شہری ہیں اور شام نہیں چھوڑیں گے، البتہ اپوزیشن گروہ کو اقتدار کی منتقلی کے بعد بھی وہ شام میں ہی رہیں گے۔ ادھر روس کے وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ ہم شام میں ہونیوالے ڈرامائی واقعات کو انتہائی تشویش کیساتھ دیکھ رہے ہیں۔ بشارالاسد اور شامی عرب جمہوریہ میں مسلح تصادم کے متعدد شرکاء کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں انہوں نے صدارتی عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور پُرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کی ہدایات دیتے ہوئے ملک چھوڑ دیا۔

روس نے ان مذاکرات میں حصہ نہیں لیا۔ اس کیساتھ ہی، ہم تمام فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تشدد کے استعمال کو ترک کریں اور حکمرانی کے تمام مسائل کو سیاسی طریقوں سے حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں روسی فیڈریشن شامی اپوزیشن کے تمام گروپوں سے رابطے میں ہے۔ ہم شامی معاشرے کی تمام قوتوں کی رائے کا احترام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد 2254 کی بنیاد پر ایک جامع سیاسی عمل کے قیام کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ اور تمام دلچسپی رکھنے والے ان طریقوں کو مدنظر رکھیں گے، بشمول شام کیلئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے، جارج پیڈرسن کے اقدام کے نفاذ کے تناظر میں، فوری طور پر بین شامی جامع مذاکرات کو منظم کرنے کیلئے، ساتھ ہی شام میں اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے تمام ضروری اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

شام میں روسی فوجی اڈے ہائی الرٹ ہیں۔ فی الحال ان کی سلامتی کو کوئی سنگین خطرہ نہیں۔ ادھر امریکہ نے بھی شام میں اپنی مداخلت کا کھلا اعتراف کر لیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے روزویلٹ روم میں خطاب میں اعتراف کیا کہ انہوں نے شام کیلئے تین جہتی پالیسی کا احاطہ کیا، جس میں اتحادیوں کیلئے امداد، سفارت کاری اور فوجی قوت کا استعمال شامل ہے۔ دوسری جانب ایران نے بھی شام کی صورتحال پر اپنے ردعمل میں واضح کیا ہے کہ شامی صدر نے ایران سے کوئی مدد طلب نہیں کی تھی۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ معزول شامی صدر بشار الاسد نے ایران کو مداخلت کیلئے نہیں تھا، کیونکہ اپوزیشن گروہ دمشق کی جانب تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ذمہ داری بنیادی طور پر شامی فوج کی تھی، یہ ہماری ذمہ داری نہیں تھی اور نہ ہم نے کبھی اسے اپنا فرض سمجھا۔ عباس عراقچی نے کہا کہ حیرت انگیز طور پر شامی فوج دمشق کی جانب اپوزیشن گروہوں کی پیش قدمی روکنے میں ناکام رہی۔

مبصرین کے مطابق بشارالاسد دل چھوڑ چکے تھے اور اپوزیشن گروہ کیساتھ مذاکرات میں اپنے اقتدار کی بازی ہار بیٹھے تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایران، چین اور روس سمیت کسی بھی اتحادی سے مدد طلب نہیں کی۔ اس کے علاوہ بشار الاسد کو یہ بھی یقین ہوگیا تھا کہ وہ ’’عربوں کی چال‘‘ میں پھنس گئے ہیں اور انہیں اب آگے کوئی راستہ دکھائی نہیں دیا تو انہوں نے اقتدار کے ایوانوں سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اب شام میں کیا ہوگا؟ اس سوال پر ہر صاحبِ فکر پریشان ہے۔ اس حوالے سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں، ان کے مطابق شام کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کردوں کو الگ سے ایک علاقہ دیدیا جائے گا۔ ایک حصہ مرکز ہوگا، جس میں حکومت قائم کی جائے گی، جبکہ تیسرا حصہ اپوزیشن مسلح گروہ جو اکثریت میں ہیں، ان کیلئے ایک الگ اسلامی ریاست بنا دی جائے گی۔ یوں لڑائیوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ تاہم ہمسایہ ممالک اور ایران ’’تیل دیکھو، اور تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے مصداق صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ممکن ہے کہ نئی عبوری حکومت کیساتھ بھی ایران اپنے تعلقات بنانے میں کامیاب ہو جائے۔
 
 
 
 تحریر: تصور حسین شہزاد
 

غاصب صہیونی ریاست اسرائیل، جو ہمیشہ اپنی جارحیت اور استعماری عزائم کے ذریعے خطے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے، آج اپنی عسکری ناکامیوں اور شکست خوردگی کے باعث نئے راستوں کی تلاش میں ہے۔ حزب اللہ اور محور مقاومت کی شاندار کامیابیوں نے اسرائیل کی عسکری برتری کے دعوؤں کو مٹی میں ملا دیا ہے۔ نتیجتاً، اسرائیل نے اپنی بقاء کی جنگ میں تکفیری گروہوں کو ایک بار پھر متحرک کر دیا ہے، تاکہ خطے میں اپنی پراکسی جنگوں کے ذریعے مقاومتی تحریکوں کو دبایا جا سکے۔

حال ہی میں شام کے مختلف علاقوں، خصوصاً مشرقی اور شمالی حلب میں، داعش اور دیگر تکفیری عناصر کی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان گروہوں نے نہ صرف شام کی افواج پر حملے کیے بلکہ جنوبی محاذ پر شدت پیدا کرنے کے لیے اپنی قوّتوں کو منتقل بھی کیا ہے۔ یہ تمام کاروائیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ صہیونی ریاست اپنی ناکامی کے بعد ان دہشت گرد گروہوں کو ایک نئے حربے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ان گروہوں کے تعلقات کوئی راز نہیں رہے، بلکہ تاریخ میں بارہا یہ ثابت ہوا ہے کہ صہیونی ریاست ان تنظیموں کو عسکری اور مالی مدد فراہم کرتی رہی ہے۔

اس وقت شام کی فضائی افواج بھرپور کوشش کر رہی ہیں کہ ان دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنایا جا سکے؛ لیکن ان واقعات کا پس منظر یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ حملے محض شام تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ ان کا اگلا ہدف عراق ہو سکتا ہے۔ داعش کی پرانی اسٹریٹیجی کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش خطے میں ایک نیا بحران پیدا کرنے کی سازش ہے، جس کا مقصد مقاومت کی قوّتوں کو تقسیم کرنا اور انہیں داخلی مسائل میں الجھانا ہے۔

تکفیری عناصر کی ان سرگرمیوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ گروہ نہ تو اسلام کی حقیقی روح کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے اہداف مسلمانوں کے مفادات سے ہم آہنگ ہیں۔ ان گروہوں کو اسرائیل کی جانب سے استعمال کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ صہیونی ریاست، اپنی براہ راست شکست کے بعد، اپنے مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے متبادل حربوں کا سہارا لے رہی ہے۔ ان تکفیریوں کی جارحیت، جو مسلمانوں کے درمیان تفریق اور انتشار پھیلانے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے، اسرائیل کے لیے ایک اہم ہتھیار بن چکی ہے۔

یہ امر حیران کُن ہے کہ ان گروہوں کے پاس جدید ترین ہتھیار اور وسائل موجود ہیں، جنہیں وہ مسلم ممالک کی افواج اور عوام کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہی توانائیاں اور وسائل اسرائیل کے خلاف مقاومت میں استعمال ہوتے تو کیا صورت حال مختلف نہ ہوتی؟ لیکن یہاں یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ صہیونی استعمار کے خلاف جنگ ایک عظیم نصب العین اور گہرے نظریے کی متقاضی ہے، جو ان حیوان صفت گروہوں کے بس سے باہر ہے۔ ان کے لیے جنّت کی بشارت اسرائیل کے خلاف جہاد میں نہیں بلکہ مسلمانوں کے خون بہانے میں مضمر ہے۔

داعش اور تکفیری گروہوں کی تحریر الشام کے نام سے حالیہ سرگرمیاں اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ اسرائیل خطے میں اپنی شکست کے بعد سیاسی اور عسکری میدان میں دباؤ کو کم کرنے کے لیے انہیں میدان میں لایا ہے۔ یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونی ریاست نہ صرف اپنے اندرونی مسائل، مثلاً عوامی احتجاجات اور حکومتی بحرانوں سے نمٹنے میں ناکام ہو چکی ہے بلکہ اس کی عسکری طاقت بھی حزب اللہ اور دیگر مقاومتی تنظیموں کے خلاف بے بس ہو گئی ہے۔

اس تمام صورت حال کا ایک روشن پہلو بھی ہے: محور مقاومت، خصوصاً حزب اللہ، نے نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے پراکسی عناصر کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ ان کی قربانیاں اور عزم، جو استقامت اور حقیقی جہاد کی مثال ہیں، یہ ثابت کرتے ہیں کہ صہیونی عزائم کے خلاف کھڑا ہونا صرف انفرادی طاقت سے ممکن نہیں بلکہ اللہ پر غیر متزلزل ایمان، اجتماعی اتحاد اور مضبوط نظریے کی ضرورت ہے۔

یہی مقاومتی تحریکیں، جو صہیونی استعمار کے خلاف سینہ سپر ہیں، اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ دشمن کی تمام چالوں کے باوجود، خطے کے باشعور عوام اسرائیل اور اس کے آلہ کاروں کے خلاف مقاومت جاری رکھیں گے، حتیٰ کہ فلسطین اور القدس کی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے۔

مزید برآں، خطے میں جاری اس صورتحال نے نہ صرف سیاسی توازن کو متاثر کیا ہے بلکہ عالمی طاقتوں کے رویوں کو بھی عیاں کر دیا ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک کی جانب سے ان تکفیری گروہوں کی غیر مستقیم حمایت اور ان کے خلاف کاروائی کرنے میں پس و پیش ظاہر کرتی ہے کہ ان کے اس خطے میں کیا مفادات پوشیدہ ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی، جو بظاہر دہشت گردی کے خاتمے کے دعوے کرتے ہیں، درحقیقت ایسے عناصر کی پشت پناہی کے ذریعے خطے میں اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔

علاوہ ازیں، یہ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ مقاومتی تحریکوں کی کامیابیاں نہ صرف اسرائیل بلکہ ان کے بین الاقوامی حواریوں کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ثابت ہو رہی ہیں۔ ان کامیابیوں نے اس بات کو بھی آشکار کیا ہے کہ مزاحمت محض عسکری طاقت تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک نظریاتی اور عوامی تحریک ہے، جس کے اثرات دیرپا اور گہرے ہیں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ امت مسلمہ ان چالوں کو سمجھتے ہوئے متحد ہو اور اپنے وسائل و طاقت کو صہیونی سازشوں کے مقابلے کے لیے منظم کرے۔ اس وقت فلسطین کی آزادی، القدس کی بازیابی، اور مقاومتی اتحاد کا استحکام صرف ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امت کے مستقبل کی جنگ ہے۔ اگر اس موقع پر مسلمان اتحاد اور بیداری کا مظاہرہ کریں تو نہ صرف صہیونی ریاست کے منصوبے ناکام ہوں گے بلکہ ایک نئی تاریخ رقم ہوگی، جس میں عدل و انصاف کی حکمرانی قائم ہو سکے گی۔

، حزب اللہ کے سربراہ حجت الاسلام شیخ نعیم قاسم نے غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے بعد اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ہم شروع سے ہی جنگ مخالف تھے، لیکن غزہ کے لئے ہماری حمایت جاری رہے گی۔ اگر صیہونی حکومت نے جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کی جارحیت نہایت خطرناک اور دردناک تھی۔ شروع میں ہم سخت مشکلات کا شکار ہوگئے، لیکن تنظیم نے فوراً خود کو سنبھال لیا اور قیادت کا انتخاب کرکے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی۔

انہوں نے رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی خامنہ ای، اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت، عوام اور سپاہ پاسدارانِ انقلاب کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ مشکل مواقع میں لبنانی عوام اور مقاومت کا ساتھ دیا۔

حزب اللہ کے سربراہ نے یمنی اور عراقی مقاومت کا بھی شکریہ ادا کیا۔

شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ حزب اللہ نے غاصب اسرائیل کے اندر اہداف کو نشانہ بنایا اور دشمن کو شدید نقصان پہنچایا۔ مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں سے لاکھوں صیہونی ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ ہماری استقامت کی وجہ سے صہیونی حکومت بند گلی میں پہنچ گئی۔ صیہونی فوج خوف و ہراس اور سیاسی رہنما حواس باختہ ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم شروع سے ہی جنگ مخالف تھے، لیکن جنگ کے دوران اپنی طاقت کے ذریعے صیہونی حکومت کو جنگ بندی پر مجبور کیا۔ اس جنگ میں ملنے والی فتح 2006 کی فتح سے زیادہ بڑی ہے۔ ہم نے میدان میں سرخرو ہوکر جنگ بندی پر اتفاق کیا۔

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ 61 فیصد اسرائیلی اعتراف کر رہے ہیں کہ انہیں جنگ میں شکست ہوگئی ہے۔ اس جنگ میں صیہونی حکومت کو ہر محاذ پر شکست ہوگئی۔ جنگ بندی صرف ایک معاہدہ ہی نہیں، بلکہ سلامتی کونسل کی قرارداد پر عملدرآمد کا فریم ورک ہے۔ حزب اللہ اور لبنانی فوج کے درمیان اعلیٰ سطح پر ہماہنگی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جنگ بندی میں لبنان کی حاکمیت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ ہم سید مقاومت شہید حسن نصر اللہ اور دیگر شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور ان مجاہدین کی قدردانی کرتے ہیں، جنہوں نے میدان جنگ میں جانثاری کا مظاہرہ کیا۔

زندگی میں برکت، سکون اور کامیابی کے متلاشی افراد اکثر مختلف راستے اور نسخے اپناتے ہیں۔ کوئی شخص مال و دولت کو زندگی کی کامیابی کا معیار سمجھتا ہے تو کوئی شہرت اور عہدے کو؛ لیکن جب ہم اسلامی تعلیمات کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی برکت اللہ کی قربت اور اس کے محبوب بندوں کے توسّل میں پنہاں ہے۔ شیخ عباس قمی جیسے جلیل القدر علماء کی زندگی ہمیں اس حقیقت کی بہترین مثال فراہم کرتی ہے۔ شیخ عباس قمی کو اسلامی دنیا میں دعاؤں اور زیارتوں کے مجموعے "مفاتیح الجنان" کے مصنف کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ آپ کی اس کتاب کو جو غیر معمولی مقبولیت اور قبولیت ملی، اس کی وجہ محض کتاب کی علمی حیثیت یا دعاؤں کی ترتیب نہیں بلکہ ایک روحانی و معنوی وابستگی تھی۔ شیخ عباس قمی نے خود اس راز کو یوں بیان کیا کہ جب انہوں نے "مفاتیح الجنان" کی تالیف کا آغاز کیا، تو دل میں یہ نیت کی کہ اس کتاب کا تمام تر ثواب سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی خدمت میں ہدیہ کریں گے۔ اسی اخلاص اور عقیدت کی برکت تھی کہ یہ کتاب نہ صرف اسلامی دنیا کے گھروں میں بلکہ قلوب میں بھی جگہ بنا گئی۔

یہاں ہمیں ایران کے صدر شہید ابراہیم رئیسی کا واقعہ بھی یاد آتا ہے۔ انہوں نے کئی مواقع پر اس بات کا اعتراف کیا کہ جب بھی وہ مشکلات میں گھر جاتے تھے تو سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ توسّل کرتے تھے اور یوں ان کی مشکلات حیرت انگیز طور پر حل ہو جایا کرتی تھیں۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا توسّل نہ صرف روحانی طاقت کا ذریعہ ہے بلکہ دنیاوی مشکلات سے نجات پانے کا مجرب نسخہ بھی ہے۔ یہاں سے ہمیں ایک عظیم درس ملتا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں برکت ہو، ہمیں بھی اپنے اعمال کو سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے وسیلے سے اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنا چاہیئے۔ اہل بیت علیہم السلام کا توسّل، خصوصاً سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)، وہ ذریعہ ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نہ صرف ہمارے اعمال میں برکت عطا کرتا ہے بلکہ دنیاوی اور اُخروی کامیابیوں کا دروازہ بھی کھولتا ہے۔

شیخ عباس قمی نے توسّل کی ایک خاص صورت کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اس کی زندگی میں برکت ہو، تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی "صلوات خاصہ" کو پڑھتے رہنا چاہیئے۔ یہ صلوات ایک ایسا تحفہ ہے، جو نہ صرف دنیاوی مشکلات سے نجات دلانے میں مددگار ہے بلکہ روحانی و معنوی ارتقاء کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ صلوات خاصہ کی تلاوت کے ذریعے ہم اپنی حاجات کو اللہ کے حضور پیش کرسکتے ہیں، کیونکہ یہ صلوات اللہ کے محبوب بندوں کا وسیلہ بن کر ہماری دعا کو قبولیت کی سرحدوں تک پہنچاتی ہے۔ آج کے دور میں جہاں مادیت پرستی اور دنیاوی کامیابی کے پیچھے دوڑ ہماری زندگیوں میں بے سکونی اور اضطراب کو جنم دے رہی ہے، ہمیں چاہیئے کہ ہم اہل بیت علیہم السلام کے وسیلے سے اپنی زندگیوں کو برکت سے مزیّن کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو بھی شخص اخلاص کے ساتھ سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتا ہے، وہ نہ صرف دنیاوی مشکلات سے نجات پاتا ہے بلکہ روحانی و معنوی فیوض و برکات سے بھی مالامال ہوتا ہے۔

لہٰذا، ہمیں اپنی زندگیوں کو بامقصد بنانے کے لیے اہل بیت علیہم السلام خصوصاً سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے توسّل کو اختیار کرنا چاہیئے۔ یہی وہ راستہ ہے، جو ہماری زندگیوں میں حقیقی برکت، سکون اور دائمی کامیابی کا ضامن ہے۔ آخر میں، اس برکت کی دعا اور توسّل کے لیے سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی صلوات خاصہ کا ذکر کیا جاتا ہے: "اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى الصِّدِّيقَةِ فاطِمَةَ الزَّكيَّةِ، حَبيبَةِ حَبيبِكَ وَنَبيِّكَ، وَأُمِّ أَحِبَّائِكَ وَأَصْفيائِكَ، الَّتي انْتَجَبْتَها وَفَضَّلْتَها وَاخْتَرْتَها عَلَىٰ نِساءِ الْعالَمينَ. اللّٰهُمَّ كُنِ الطَّالِبَ لَها مِمَّنْ ظَلَمَها وَاسْتَخَفَّ بِحَقِّها، وَكُنِ الثَّائِرَ اللّٰهُمَّ بِدَمِ أَولادِها. اللّٰهُمَّ وَكَما جَعَلْتَها أُمَّ أَئِمَّةِ الْهُدىٰ، وَحَليلَةَ صاحِبِ اللِّواءِ، وَالْكَريمَةَ عِنْدَ الْمَلإِ الْأَعْلىٰ، فَصَلِّ عَلَيها و عَلَىٰ أُمِّها صَلاةً تُكْرِمُ بِها وَجْهَ أَبيها مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيهِ وَآلِهِ وَتُقِرُّ بِها أَعْيُنَ ذُرِّيَّتِها، وَأَبْلِغْهُمْ عَنِّي فِي هٰذِهِ السَّاعَةِ أَفْضَلَ التَّحيَّةِ وَالسَّلام۔"

یہ صلوات ہر دن کی ابتدا میں پڑھی جانی چاہیئے، تاکہ اللہ کے فضل و کرم سے ہماری زندگیوں میں برکت اور کامیابی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھل جائے۔ مزید برآں، اہل بیت علیہم السلام کا توسّل نہ صرف فرد کی ذاتی زندگی میں برکت اور سکون کا باعث بنتا ہے، بلکہ یہ اجتماعی مسائل کے حل اور امت کی سربلندی کا ذریعہ بھی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی تاریخ کے مختلف مراحل میں جب بھی امت مسلمہ کو چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہوا، اہل بیت علیہم السلام کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کی گئی۔ آج بھی، اگر ہم اپنے معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگیوں میں اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات اور ان کے توسّل کو زندہ کرنا ہوگا۔

یہی وہ راستہ ہے، جو ہمیں دنیاوی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ آخرت کی فلاح کی طرف لے جاتا ہے۔ اسی طرح، جو بھی قوم اپنی زندگی کو اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال لے، وہ قوم کبھی زوال پذیر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو بھی اہل بیت علیہم السلام کی محبت اور ان کے وسیلے کی اہمیت سے روشناس کرائیں، تاکہ وہ ایک ایسی قوم کی صورت میں پروان چڑھیں، جو ہر طرح کی مشکلات کا مقابلہ کرسکے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کی مستحق ٹھہرے۔

تحریر: امداد علی گھلو

حسب روایت ہم بزرگوں کے درمیان بیٹھے ان کی گفتگو سن رہے تھے۔ دورانِ گفتگو کسی بزرگ نے کہا کہ پہلے وقتوں میں جب ہم گاؤں کے بیٹھک میں شریک ہوتے تھے تو وہاں بزرگوں کی اکثریت نیک، پرہیزگار، شفیق، مہربانی ہونے کے ساتھ ساتھ خاندانی ہوتے تھے۔ ہمارے برابر میں بیٹھے ہوئے نوجوان نے پوچھا، دادا جان باقی باتیں تو ہماری سمجھ میں آئیں، مگر خاندانی لفظ سمجھنے سے قاصر ہیں؟ بزرگ نے نوجوان کی طرف دیکھا، مسکرائے، پھر بولنے لگے کہ آپ اپنے اردگرد بے چینی، بے سکون دیکھ رہے ہو، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سماجی اداروں میں خاندانی لوگ نایاب ہوچکے ہیں۔

بزرگ نے مزید کہا اگر ان اداروں میں قدم رکھنے کے لیے خاندانی ہونا بنیادی شرائط میں ہو تو میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہمارے ہاں جرائم کا گراف ایک دم سے نیچے آئے گا۔ نوجوان نے پھر پوچھا، دادا جان ہمارا دین ہمیں حکم دیتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ کے نذدیک کسی قوم، قبیلہ، خاندان کی حیثیت نہیں بلکہ صاحبِ تقویٰ کی اہمیت ہے؟ بزرگ کہنے لگے بالکل ہمارا دین سچا ہے اور ان کی تعلیمات حقیقت پر منبی ہے۔ میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ جب کوئی بھی فرد صفاتِ حسنہ کو اپنی ذات میں بساتا ہے تو ہم  اسے خاندانی کہتے ہیں۔ مثلاً

1۔ خاندانی شخص خود بھوکا ہوگا مگر مہمان کو بھوکا نہیں سلائے گا۔
2۔ خاندانی شخص تعلیم و تربیت کے لیے اپنی رہائش، گھربار کو پیش کرے گا
3۔ خاندانی شخص خواتین کی عزت و توقیر کرے گا
4۔ خاندانی شخص غریب، یتیم، مسکین کو اپنی اولاد کی جگہ رکھ کر ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے گا
5۔ خاندانی شخص ہمیشہ فساد کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا
6۔ خاندانی شخص بزرگوں کا احترام کرے گا
7۔ خاندانی شخص انفرادی مفادات کے بجائے اجتماعی مفادات کو ترجیح دے گا
8۔ خاندانی شخص ایثاروقربانی کا عملی مظاہرہ اپنی ذات سے شروع کرے گا
9۔ خاندانی شخص غیبت، الزامات اور جھوٹی قسمیں کھانے والوں سے دور رہے گا
10۔ خاندانی شخص پروپیگنڈا کرنے والوں سے دور رہے گا

نوجوان کہنے لگے جی جی دادا جان اب ہم سمجھے گئے، ہمارا بنیادی اشکال دور ہوگیا۔ میں کافی دیر سے دادا، پوتا کی گفتگو بڑے غور سے سن رہا تھا اور میری آنکھوں کے سامنے میرے ایک دوست کی کتابِ زندگی کے ورق تیزی سے پلٹ رہے تھے۔ قصہ مختصر،  ہمارے ایک دوست نہایت شریف النفس، مگر بیوی الامان الحفیظ۔ بیچارہ شوہر کہیں سے کوئی نصیحت بھرا پیغام، آنکھوں دیکھا حال، مشاہدہ، تجربہ بیوی کے سامنے بیان کرنا شروع کرے تو آدھی بات اس کے حلق میں پھنس کر رہ جاتی تھی، اس کی بنیادی وجہ اس کی بیوی کا وسوسہ، وہم ہوتا ہے۔

پچھلے دنوں وہ اپنے جذبات سے مرعوب ہوکر اپنے بچپن کے دوست کو خوشی خوشی کوئی تحفہ دیتا ہے اور گھر میں اپنی بیوی سے ذکر کرتا ہے کہ آج میں نے اپنے بچپن کے فلاں دوست کو یہ چیز تحفہ میں دی ہے، بس اتنا سننا تھا کہ بیوی آگ بگولا ہوئی اور انہیں ایسی کھری کھری سنائی کہ وہ بیچارہ  اگلی صبح اپنے دوست کے گھر پہنچ گیا کہ برائے مہربانی کل میں نے جو تحفہ آپ کو دیا تھا وہ مجھے واپس کریں۔ یہی وجہ تھی کہ پرانے وقتوں میں لڑکے کا رشتہ بھیجنے سے پہلے اس کے گھر کی خواتین دلہن کے گھر کا ماحول دیکھتی تھیں، معلومات لیتی تھیں، پھر باقاعدہ طور پر مرد رشتہ لے کر جاتے تھے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک تربیت یافتہ عورت کئی رشتوں میں الفت و محبت پیدا کرتی ہے مگر اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ مخاطبین میں قبولیت کا جذبہ ہو، اگر مخاطبین بدخواں، حاسد اور دلوں میں نفرت و کدورت رکھتے ہوں تو وہ کبھی بھی اس خاتون کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کریں گے۔ اس حوالے سے قرآنِ مجیدکا واضح پیغام ہے کہ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوْطٍؕ-كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـا وَّ قِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ۔ (القران، سورۃ التحریم، آیت 10)۔ ترجمہ: اللہ کافروں کی مثال دیتا ہے نوح کی عورت اور لوط کی عورت وہ ہمارے بندوں میں دو سزاوارِ قرب (مقرّب) بندوں کے نکاح میں تھیں پھر انہوں نے ان سے دغا کی تو وہ اللہ کے سامنے انہیں کچھ کام نہ آئے اور فرما دیا گیا کہ تم دونوں عورتیں جہنم میں جاؤ جانے والوں کے ساتھ۔

دوسری جگہ آیا ہے کہ وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَۘ-اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔ (القران، سورۃ التحریم، آیت 11)۔ ترجمہ: اور اللہ نے مسلمانوں کے لئے فرعون کی بیوی کو مثال بنا دیا جب اس نے عرض کی، اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات عطا فرما۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ہم اپنی مصروف ترین زندگی سے کچھ لمحات نکال کر اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا؟ آنے والے وقتوں کے لیے کیا ہم  نے کوئی ایسا کام انجام دیا ہے جس کی بنیاد پر ہمیں یہ امید ہو کہ ہماراانجام بخیر ہو؟ جبکہ ہم آئے روز اپنے عزیزوں کو، دوستوں کو، رشتہ داروں کو، جاننے والوں کو اچانک اپنی محفلوں سے، پروگراموں سے، اداروں سے، محلوں سے، گھروں سے غائب ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

جب ہم پوچھتے ہیں کہ یہ کیوں غائب ہے تو فوراً جواب ملتا ہے کہ وہ اس دنیا کو خیرباد کہہ کر چلا گیا۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ کہاں چلے گئے؟ ہر لب خاموش، آنکھوں میں آنسو، دلوں میں حسرتیں اور زبان میں ایک ہی جملہ گردش کرتا ہے کہ کاش جانے والا اتنی جلدی نہیں کرتا؟ اگر انہیں جانا ہی تھا تو کم از کم اپنے بکھرے کاموں کو سنوارتا، دوستوں، رشتہ داروں سے رخصت لیتا، خدا حافظ کہتا، اپنے سفر کے اخراجات، کپڑے، بستر، کھانا وغیرہ ساتھ رکھتا باالفاظِ دیگر اپنے لیے توشہ آخرت کا انتظام کرکے چلے جاتے۔ یہ تو ہماری خواہشات ہیں موت کا فرشتہ، موت سے غافل انسانوں کو اتنا موقع نہیں دیتا۔

فاعتبروا یااولی الابصار

تحریر: ڈاکٹر انصار مدنی


25 نومبر کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا گیا ہے۔ یہ دن ایسے عالم میں منایا گیا کہ دنیا کے کئی ممالک میں خواتین پر اب بھی جبر، ظلم اور تشدد روا رکھا جاتا ہے۔ غزہ جیسے جنگی علاقوں میں تو یہ صورتحال بہت ہی سنگین ہے۔ اس سال بھی خواتین کے خلاف تشدد کی ممانعت کا عالمی دن ایسے عالم میں منایا گیا ہے کہ کئی دہائیوں تک خواتین کے حقوق کے احترام کے نعرے لگانے کے بعد اب بھی کئی ممالک میں خواتین کو کم سے کم قانونی حقوق اور زندگی گزارنے کا مطلوبہ حق حاصل نہیں ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال آج کی غزہ کی جنگ ہے۔ یہ صورتحال ہر آزاد شخص کو تکلیف دیتی ہے۔

اس سلسلے میں ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان "اسماعیل بقائی" نے ایکس چینل پر لکھا ہے "خواتین کے خلاف تشدد کی ممانعت کے عالمی دن کے موقع پر، آئیے کئی دہائیوں سے جاری وحشیانہ تشدد کی وجہ سے ہونے والے شدید تشدد کو یاد کریں۔" مقبوضہ فلسطین میں قبضے اور نوآبادیاتی نسل کشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بقائی نے کہا ہے کہ غزہ میں خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد کی سطح انتہائی شدید، بے مثال اور افسوسناک ہے۔ گذشتہ سال کے دوران دسیوں ہزار فلسطینی خواتین اور بچیاں ہلاک یا زخمی ہوئیں اور اس وقت بھی کئی مائیں، خواتین اور بچیاں بھوک اور ہجرت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

غزہ کی جنگ کے ایک سال سے زائد عرصے بعد بھی مقبوضہ فلسطین میں خواتین اور بچوں کی صورتحال تشویشناک ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹر ریم السلم نے ایک رپورٹ میں تاکید کی ہے کہ بہت سے فیلڈ ورکرز کو غزہ میں فلسطینیوں کی حالت اور غزہ میں موجود دکھ اور تکلیف کو بیان کرنے کے لیے صحیح الفاظ نہیں ملے۔ اسرائیل غزہ میں خواتین اور بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ہلاک ہونے والے فلسطینیوں میں 70 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔ وہ  اس لئے جنگی جرائم کا شکار ہیں، کیونکہ وہ فلسطینی اور خواتین ہیں۔

غزہ کی خواتین کو مشکل حالات کا سامنا ہے، ان میں سے کئی اپنے شوہر اور بچوں کو کھو چکی ہیں۔ بہت سو کو فاقہ کشی کا خطرہ ہے، کیونکہ انسانی امداد کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ غزہ میں حاملہ خواتین بمباری اور طبی سہولیات کی کمی کے باعث بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہیں۔ وہ غیر انسانی اور توہین آمیز رویئے کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے نامہ نگاروں نے بھی فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ اسرائیل کے غیر انسانی اور توہین آمیز رویئے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ "الجزیرہ" چینل نے حال ہی میں غزہ پٹی کے "الشفاء" میڈیکل کمپلیکس میں زیر محاصرہ ایک فلسطینی شہری کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے اس میڈیکل کمپلیکس میں کئی فلسطینی خواتین کی عصمت دری کی اور پھر انہیں قتل کیا۔

فلسطینی خواتین اور ان کے بچوں کو پھانسی دینے، مغربی کنارے اور مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی جبری گرفتاری اور حراستی مراکز میں منتقلی کے بارے میں معتبر رپورٹیں بین الاقوامی نامہ نگاروں نے شائع کی ہیں۔ افغانستان جیسے دیگر ممالک میں بھی خواتین کے خلاف تشدد میں شدت آئی ہے، افغان خواتین کے سیاسی شراکت کے نیٹ ورک کی سربراہ ترنم سعیدی کہتی ہیں۔ افغان خواتین نے  اس سال ایسی حالت میں 25 نومبر کا دن منایا کہ وہ بڑھتے ہوئے تشدد، سماجی تذلیل اور منظم ناانصافیوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں بھی خواتین تشدد اور عدم مساوات کا شکار ہیں، اسی لیے فرانس اور اٹلی میں بھی کئی خواتین نے چند روز قبل احتجاجی مظاہرے شروع کیے ہیں۔ روم، پیرس، مارسیلے اور لِل کے شہروں میں مظاہرین نے خواتین کے خلاف جنسی، جسمانی، نفسیاتی اور معاشی سمیت ہر قسم کے تشدد کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

امریکہ میں خواتین اور لڑکیاں، خاص طور پر تارکین وطن اور رنگین فام لوگ مشکل حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں اوسطاً ہر تین میں سے ایک عورت گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ہر دو میں سے ایک عورت اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر گھریلو تشدد کا سامنا کرتی ہے۔ بہرحال خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد آج بھی دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے سب سے زیادہ پائے جانے والے واقعات میں سے ایک ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اس بارے میں عالمی خاموشی اور حکومتی اداروں کی نااہلی و بے پرواہی ہے۔

تحریر: اتوسا دیناریان

مہر خبررساں ایجنسی نے المسیرہ ٹی وی چینل کے حوالے سے بتایا ہے کہ یمن کے انصار اللہ کے دفتر سے جاری  ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم لبنان کے عوام اور اسلامی مزاحمت کو جنگ بندی کے قیام اور پناہ گزینوں کی ان کے گھروں کو واپسی شروع کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

انصار اللہ نے تاکید کی کہ حزب اللہ نے یہ کامیابی راہ قدس میں بہائے گئے پاکیزہ خون کی بدولت حاصل کی ہے۔

لبنان کی اسلامی مزاحمت نے اپنے قائدین سے لے کر مجاہدین اور عوامی مقامات تک کو فلسطین کی حمایت کے اپنے اصولی موقف پر قربان کر دیا  اور راہ قدس کی ایثار و وفا کی ایک بے مثال داستان رقم کی۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ حزب اللہ طوفان الاقصیٰ کے پہلے دنوں سے ہی فلسطینی مزاحمت کے ساتھ کھڑی ہوئی، ہم لبنانی قوم کی بے مثال استقامت اور مزاحمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس نے میدان جنگ میں دشمن پر اپنی برتری ثابت کی، ہم دشمن کا مقابلہ کرنے میں قومی اتحاد کے کردار پر زور دیتے ہیں۔

Wednesday, 27 November 2024 21:13

برباد ہوئی آرزوئیں

 
غاصب صیہونی رژیم کی سیکورٹی کابینہ نے حزب اللہ لبنان کے خلاف مسلسل شکست کے بعد آخرکار کل رات جنگ بندی کا فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ لبنان پر فوجی جارحیت کے آغاز میں صیہونی حکمران دعوی کر رہے تھے کہ ان کا مقصد دریائے لیتانی تک کے علاقے پر فوجی قبضہ برقرار کرنا ہے، لیکن تقریباً ڈیڑھ ماہ کی جنگ میں شدید جانی اور مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد بھی صیہونی فوج کوئی خاص پیشقدمی نہ کر سکی اور آخرکار صیہونی رژیم جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہو گئی۔ صیہونی ذرائع ابلاغ نے دعوی کیا ہے کہ لبنان اور صیہونی رژیم کے درمیان جنگ بندی آج بروز بدھ 27 نومبر 2024ء سے لاگو ہو گئی ہے۔ یہ جنگ بندی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد 1701 کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ صیہونی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ 60 دنوں میں مرحلہ وار لبنان کے علاقوں سے باہر نکل جائے گی۔
 
لبنان سے جنگ بندی کے بعد صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو ایک بار پھر شدید تنقید کی زد میں ہے اور اندرونی حلقوں کی جانب سے شدید دباو کا شکار ہے۔ صیہونی وزیراعظم نے یہ دباو کم کرنے کے لیے اور یہودی آبادکاروں کی توجہ اندرونی مسائل سے ہٹانے کے لیے ایک بار پھر ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی ہے۔ قطر کے الجزیرہ نیوز چینل کے مطابق نیتن یاہو نے کہا ہے: "لبنان سے جنگ بندی کا مقصد ایران سے درپیش خطرات پر توجہ مرکوز کرنا ہے اور ہم نے ایران کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی سے روکنے کے لیے ہر ممکنہ اقدام کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔" بنجمن نیتن یاہو نے غزہ اور لبنان میں اپنی کابینہ کی سیکورٹی اور سیاسی ناکامیوں کا ذکر کیے بغیر کہا: "اپنے تمام تر اہداف کے حصول تک جنگ ختم نہیں کریں گے۔" نیتن یاہو نے گذشتہ چند ماہ کے دوران بارہا کیے گئے دعوے کو ایک بار پھر دہرایا اور کہا کہ حماس کی نابودی جاری رکھیں گے۔
 
صیہونی ذرائع ابلاغ کے مطابق بنجمن نیتن یاہو نے مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں میں یہودی بستیوں کے میئرز سے بھی ملاقات کی ہے جو لبنان سے جنگ بندی کے شدید مخالف ہیں۔ صیہونی اخبار ٹائمز اس بارے میں لکھتا ہے کہ یہ ملاقات اس وقت انجام پائی جب ان میئرز نے لبنان سے جنگ بندی پر شدید تنقید کی۔ صیہونی کابینہ میں شامل کچھ اعلی سطحی حکام جیسے وزیر جنگ اور صیہونی فوج کا چیف آف آرمی اسٹاف بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ صیہونی کابینہ کی جانب سے جنگ بندی قبول کر لینے پر لبنان اور مقبوضہ فلسطین میں کافی زیادہ ردعمل سامنے آئے ہیں۔ لبنان میں نگران حکومت کے وزیراعظم نجیب میقاتی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جلد از جلد جنگ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا: "جنگ بندی کے اعلان کے بعد بیروت پر جارحانہ حملے صیہونی دشمن کا کینہ اور نفرت ظاہر کرتے ہیں۔"
 
حزب اللہ لبنان کی سیاسی کاونسل کے نائب سربراہ محمود قماطی نے جنگ بندی کے لیے امریکہ کی پیش کردہ شرائط کے بارے میں کہا تھا کہ اس میں کچھ نکات غلط ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے کیونکہ ان کا نتیجہ لبنان کی خودمختاری متاثر ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا: "یہ بات ہمارے لیے ہر گز قابل قبول نہیں کہ غاصب صیہونی رژیم ہماری سرحدوں کے اندر آزادانہ فعالیت انجام دے۔" انہوں نے کہا کہ ہم نے جنگ بندی مذاکرات میں مضبوط موقف اختیار کیا ہے اور ہر گز اپنی آزادی اور خودمختاری کا سودا نہیں کریں گے۔ دوسری طرف لبنان پارلیمنٹ میں حزب اللہ لبنان کے رکن اور پارلیمانی پارٹی کے سربراہ محمد رعد نے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے جنگ بندی کی ممکنہ خلاف ورزی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہر ایسی پیشکش قبول کریں گے جس میں لبنان کی حاکمیت کا احترام کیا جائے گا۔
 
صیہونی رژیم کے داخلہ سیکورٹی کے وزیر اتمار بن غفیر نے لبنان سے جنگ بندی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: "اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی معاہدے سے جنگ کا وہ مقصد پورا نہیں ہو گا جس کے تحت اسرائیل کے شمالی حصوں سے جلاوطن یہودی آبادکاروں کی واپسی یقینی بنانا تھا۔" اتمار بن غفیر نے کہا: "لبنان سے جنگ بندی ایک تاریخی غلطی ہے۔" اسی طرح صیہونی رژیم کے اپوزیشن سربراہ یائیر لاپید نے کہا ہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو حزب اللہ لبنان سے جنگ بندی پر مجبور ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ حزب اللہ سے جنگ بندی ہماری رفتہ آبرو واپس نہیں لا سکتی اور غزہ سے یرغمالیوں کی آزادی اور شمالی علاقوں سے جلاوطن آبادکاروں کی واپسی ممکن نہیں بنا سکتی۔ لاپید نے مزید کہا: "اسرائیلی کابینہ جنگ بندی پر مجبور ہو گئی ہے اور فوجی میدان میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو سیاسی کامیابی میں تبدیل نہیں کر پائی۔"
 
یورپ یونین کے سیکرٹری خارجہ جوزپ بوریل نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر جنگ بندی کی پابندی کرنے کے لیے دباو ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور فرانس نے اسرائیلی حکمرانوں کو سیکورٹی ایشوز پر مکمل یقین دہانی کروائی ہے لہذا اب ان کے پاس لبنان سے جنگ بندی نہ کرنے کا کوئی بہانہ باقی نہیں بچا۔ جوزپ بوریل نے کہ کہ جنگ بندی معاہدے کا مسودہ امریکہ نے تیار کیا ہے اور جنگ بندی کمیٹی کی سربراہی بھی امریکہ کے ہاتھ میں ہو گی جبکہ فرانس بھی لبنان کی درخواست پر اس کمیٹی میں شامل ہو گا۔ صیہونی رژیم ٹی وی کے چینل 12 نے جنگ بندی کی شرائط کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسرائیل سے عمل کی آزادی چھین لی گئی ہے۔ اس چینل کے مطابق جنگ بندی معاہدے میں حزب اللہ کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی صورت میں اسرائیل کو فری ہینڈ نہیں دیا گیا جو قابل قبول نہیں ہے۔

تحریر: محمد افضلی