سلیمانی

سلیمانی

مسجد سہلہ اسلام کی بڑی، قدیم ترین اور اہم مساجد میں سے ایک ہے۔ اس کی تعمیر اور بنیاد پہلی ہجری میں ہی رکھی گئی اور یہ ابھی تک اسی شان وشوکت کے ساتھ باقی ہے، اور یہ لاکھوں زائرین  کی زیارت گاہ بھی ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں اس کی بڑی منزلت ہے اسی وجہ سے دنیا کے مختلف ملکوں اور حصوں سے لوگ اس کی زیارت کے لیے ہر سال لاکھوں کی تعداد وہاں جاتے ہیں۔

یہ مسجد مہدی دوران امام العصر والزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے نام سے منسوب ہے، چونکہ یہیں سے آپ حکومت الٰہیہ کا آغاز کریں گے اور یہ مسجدہی آپ کی انقلابی تحریک کا مرکز بنے گی اور آپؑ اپنے اہل وعیال سمیت اسی مسجد میں قیام فرمائیں گے، بلکہ جب تک آپ ؑ کی حکومت باقی رہے گی آپ ؑ کی حکومت کا مرکز یہی مسجد ہی رہے گی۔

یہ عظیم مسجد عراق کے مقدس شہر کوفہ کے نواح میں واقع ہے، کوفہ دوسرا بڑا شہر ہے کہ جس کو مسلمانوں مجاہدین نے فتح کیا۔ یہ عراق کے دارالحکومت بغداد کے جنوب میں ۱۵۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ مسجد مسجد کوفہ کے شمال مغرب میں واقع ہے، ان دونوں کے درمیان فاصلہ صرف دو کلومیٹر کا ہے۔ یہ مسجد مستطیل شکل میں بنی ہوئی ہے، اس کی لمبائی ۱۴۰ میٹر اور چوڑائی ۱۲۵ میٹر ہے، اور یہ ۱۷۵۰۰ مربع میٹر مساحت  پر پھیلی ہوئی ہے، اس کے چار کونوں میں نیم دائرہ شکل کے برج بنائے گئے ہیں جو ایک دوسرے سےمساوی فاصلے پر واقع ہیں۔ مشرقی ضلع کی دیوار کے درمیان میں ایک مینار ہے جس کی بلندی 30 میٹر ہے۔ مسجد کا مرکزی دروازہ اس کے مشرقی ضلع کےبیج میں مذکورہ مینار کے نزدیک واقع ہے۔

یہ مسجد ۱۷ ایوانوں پر مشتمل ہے اورنماز پڑھنے کی جگہ اس کے مرکزی مقامِ مسجد کے جنوب کی طرف ہے، اور اس کے صحن میں بہت سے سی محراب موجود ہیں۔

کوفے میں موجود مساجد میں مسجد سہلہ دوسری بڑی مسجد ہے جو مسجد جامع کوفہ کی نسبت چھوٹی ہے  اور مسجد کوفہ سے دو کلومیٹر فاصلہ پر واقع ہے۔

مسلمانان جہاں کے ہاں اس مسجد کی بڑی عظمت ہے اور یہ کوفہ کی مقدس مساجد میں سے ایک ہے۔ امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ اس مسجد کو بابرکت مسجد قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: مسجد ظفر ایک بابرکت مسجد ہے، خدا کی قسم اس میں ایک صخرہ خضراء (اونچی جگہ یا سبز چٹان) ہے جس میں تمام انبیاء الٰہی کے چہرہ مبارک کی تصویر بنی ہوئی ہے اور وہ مسجد سہلہ ہے۔

حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ جب ہمارا صاحب (امام مہدی) تشریف لائیں گے تو اسی مسجد میں اپنے اہل کے ساتھ قیام فرمائیں گے۔

یہ مسجد عراق کے فتح کرنے کے بعد تعمیر کی گئی، اوربعد از فتح عراق، عرب اسی کوفہ میں ہی سکونت پذیر رہے، چونکہ ہر گروہ اور ہر قبیلہ مخصوص جگہوں پر قیام پذیر تھے، تو ان میں سے بعض نے اپنے قیام کے دوران عبادت الٰہی کی خاطر مسجدیں بھی تعمیر کیئں، انہیں قبائل میں سے ایک قبیلہ بنی ظہر تھا، وہ انصار مدینہ کے ظفرنامی شخص سے تعلق رکھتا تھا، اس کا اصل نام کعب بن خزرج، بن نبیت، بن مالک، بن اوس، بن حارثہ، بن ثعلبہ تھا۔ انہوں نے کوفہ میں قیام کے دوران اس مسجد کو تعمیر کروائی۔ یہ مسجد مسجدِکوفہ سے دور نہیں ہے۔

ابتداء میں یہ مسجد مسجدِ بنی ظفر کے نام سے مشہور تھی، چونکہ وہ لوگ نماز ، ملکی امور میں تبادلہ خیال، اور باسیانِ شہر کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے اسی مسجد میں جمع ہوتے تھے، اور بعد میں مسجد سہلہ کے نام سے یہ مسجد مشہور ہوگئی۔ اس کی دوسری وجہ تسمیہ یہ ہے چونکہ مسجد اور ارد گرد کی زمینیں بہت ہی نرم، اور وسیع ہیں اس لیے (سہل یعنی آسانی یا نرمی) سہلہ کہا جاتا ہے۔ سہل لغت میں حزن کے مقابل میں استعمال کیا جاتا ہے اور حزن کے معنی ہیں سخت، اور پریشانی۔ اور احتمال قوی کے مطابق یہی وجہ تسمیہ درست ہے، بازہم سہلہ کہنے کی ایک اور وجہ بھی بیان کی جاتی ہے چونکہ اس مسجد کو تعمیر کرنے والے کا نام سہل تھا جو بنی ظفر کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اس وجہ سے سہلہ کہا گیا ہے۔

سہل ایک صحابی تھا کہ جس نے جنگ احد میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی معیت میں جنگ کی۔

جیسا کہ تاریخدان لکھتے ہیں یہ اس مسجد کے سہلہ کے نام سے شہرت پانے سے پہلے دیگر بہت سارے نام تھے، مثلا؛ مسجد البرِ یعنی نیکی والی مسجد چونکہ اس میں بہت سارے نیک امور انجام پاتے تھے، اور اسی خیر اور برکت کی وجہ سے بر کہا جاتا ہے۔ مسجد عبدالقیس بھی کہتے تھے چونکہ یہ بنی عبد قیس کی زمین پر موجود تھی، اور مسجد قریٰ بھی کہتے تھے۔

اس مسجد کے تقدس کے بارے اہل عراق خاص کر اہل کوفہ قدیم زمانہ سے ہی بہت حد باخبر تھے ۔ بنی ظفر اپنے لیے اس مسجد کی تعمیر کی جگہ کو منتخب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس مقام پر بہت سارے انبیاء کرام اور صلحاء کے مقامات موجود تھے۔ اور مسجد سہلہ اس زمانے میں کوفہ میں تعمیر ہونے والی مساجد میں سے ایک بڑی مسجد تھی، جسے مسجد کوفہ کی تعمیر کے کچھ عرصہ بعد ہی تعمیر کی گئی۔ 

روایات کے مطابق یہ پہلے بہت سارے انبیاء علیھم السلام کی جائے رہائش و سکونت تھی۔ جیسا کہ صادق آل محمد علیہ السلام  مسجد سہلہ کے بارے میں فرماتے ہیں: کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ مسجد سہلہ حضرت ادریس علیہ السلام کا گھر تھی اور آپ اس میں خیاطت کا کام کرتے تھے، آپ ہی وہ پہلے فرد ہیں کہ جنہوں نے کپڑے کی سلائی شروع کی اورسیا ہوالباس پہنا شروع کیا۔ جبکہ اس وقت کے لوگ چمڑوں سے بنے ہوئے لباس پہنتے تھے۔

اسی مسجد سے ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم عمالقہ کی  طرف سفر کیا، یہیں سے حضرت داؤد نے جالوت کے خلاف جنگ کرنے کے لیے سفر کیا، اس میں ایک سرسبز چٹان ہے کہ جس میں تمام انبیاء علیہم السلام کی تصویریں موجود ہیں، اسی صخرہ سے ہی تمام انبیاء کی تخلیق کی مٹی کو چنا گیا۔ یہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر کی ملاقات ہوئی۔

اس مسجد کے فضائل بیان کرتے ہوئے امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ جو مسجد سہلہ میں دو رکعات نماز پڑھتا ہے، اللہ تعالی اس کی عمر میں دو سال اضافہ کرتا ہے۔

امام صادق علیہ السلام مسجد سہلہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ جب بھی کوفہ جائے تو ضرور مسجد سہلہ بھی جائے اور اس میں نماز پڑھیے، اللہ تعالٰی سے دنیوی اور اخروی حاجات طلب کرے، کونکہ مسجد سہلہ حضرت ادریس علیہ السلام کا گھر ہے کہ جس میں آپ علیہ السلام سلائی کیا کرتے تھے، نماز پڑھا کرتے تھے، او رجو شخص بھی اس میں جاکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اپنی شرعی حوائج کی برآوری کی دعا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجات برآوری کرتا ہے، اور قیامت کے دن حضرت ادریس علیہ السلام کے مقام کے برابر اس کا مقام بلند کرے گا، اور دنیا کی ناپسندیدہ چیزوں سے اسے دور رکھے گا، اور دشمنوں کے شر اور کید سے محفوظ رکھے گا۔

مسجد سہلہ میں بہت سارے مقدس مقامات ہیں:

جیسے مقام امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ: جو مسجد کے درمیانی حصے میں تھوڑا سا جنوب کی طرف مائل  اور امام سجادؑ اور حضرت یونسؑ کے مقامات کے درمیان واقع ہے۔

مقامِ حضرت امام سجادؑ: جو مسجد کے درمیان میں کمی جنوب مشرق سمت کی جانب مائل ہے۔

مقامِ حضرت امام صادقؑ: جو مسجد کے عین وسط میں واقع ہے۔

مقام ِحضرت خضر علیہ السلام ہے ۔

مقامِ حضرت ادریس علیہ السلام بھی اس میں موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت ادریس کا گھر بھی یہی تھا۔ مقامِ صالحین بھی موجود ہے جیسے مقام ِنبیین یعنی حضرت ھود ؑ اور صالحؑ کے نام سے جانا جاتا ہے ، اسی طرح مقام ابراہیم علیہ السلام بھی موجود ہے، کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا گھر بھی یہی تھا۔

Thursday, 17 October 2024 06:46

نماز کی تعریف اور مفہوم

لفظ "الصلاۃ" لغت میں دعا کو کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر دعا من جانب اللہ ہو تو رحمت اور اگر بندوں کی طرف سے ہو تو طلبِ رحمت ہوگا۔اور دعا کے لئے لفظ " الصلاۃ" کو قراردیا گیا جو کہ رفتہ رفتہ بہت سے مشترک معانی  میں استعمال ہونے لگے۔

لہذا لفظ " صلاۃ" لغت میں دعا اور رحمت  دونوں میں عام ہے یعنی اشتراک معنوی کی حیثیت سے یہ ایک کلی اور جامع  مفہوم رکھتے ہیں جس میں رحمت، استغفار،طلب رحمت اور دعا وغیرہ شامل ہیں۔

شریعت میں لفظ " صلاۃ" ایک منقول شرعی کا نام ہے یعنی شارع نے اس لفظ کو معنی لغوی سے معنی شرعی کے لئے نقل کیا ہے، لھذا صلاہ سے مراد وہ مخصوص کیفیت ہے کہ جس میں شارع کی طرف سے مقرر کردہ افعال جیسے تکبیر، قراءۃ، رکوع، سجود وغیرہ کو بجالاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں لفظ صلاۃ کو شارع نے ان کیفیات کے لیے وضع کیا ہے جو بعد میں اسی معنی کے لئے خاص ہوگیا۔

 یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لفظ "صلاۃ" لغت اور شریعت دونوں میں ایک ہی معنی میں استعمال ہوا ہے اور وہ ہے "خاص توجہ" لھذا شارع نے لفظ "صلاۃ"کو اس کے معنی لغوی سے نقل نہیں کیا بلکہ شارع نے لفظ صلاۃ کے بعض مصادیق میں سے اس معنی مخصوص کو متعین کیا ہے۔

مفهوم الصلاة لغة وشرعا:

لفظ ِصلاۃ لغت اور شریعت دونوں میں ایک ہی مفہوم رکھتا ہے تاہم مصادیق کے اعتبار سے ان میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔جیساکہ صلاۃ کا مفہوم حضرت عیسی بن مریمؑ  کے اس قول کے مطابق کہ جس کو قرآن نے یو ں بیا ن کہ ہے (وأوصاني بالصلاة...)(مريم ـ31) "اور زندگی بھر نمازکی پابندی کا حکم دیا ہے"

 اسی طرح زمانہ جاہلیت میں بھی مفہوم صلاۃ جیساکہ قرآن مجید میں مذکور ہے (وما كان صلاتهم عند البيت إلا مكاء وتصدية)(الأنفال ـ35) "اور خانہ کعبہ کے پاس ان کی نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی "اسی طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں : (إن الله وملائكته يصلون على النبي...)(الأحزاب ـ56) "اللہ اور اس کے فرشتے یقینا نبی پر درود بھیجتے ہیں" (ولا تصل على أحد منهم مات أبدا...)(التوبة ـ 84)، "اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر آپ کبھی بھی نماز نہ پڑھیں "  وغیرہ تمام موارد میں لفظ صلاۃ ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور وہ ہے "خاص توجہ" تاہم ان کے مصادیق میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

پس صلاۃ کے مفاہیم کلی میں سے ایک مفہوم شرعی ہے اس سے مراد ارکان مخصوصہ ہیں  گویا کہ شارع مقدس نے اس لفظ سے ایک خاص کیفیت مراد لی ہے کہ جس میں شرائط مخصوصہ درکار ہیں۔ 

ارنا کے نے بدھ کی شام   لبنان کی اسلامی استقامتی تحریک کے انفارمیشن سینٹر کے حوالے سے رپورٹ  دی ہے کہ حزب اللہ نے دونوں پن پوائنٹ بیلسٹک میزائلوں کی فوٹیج جاری کرکے اعلان کیا ہے کہ " قادر2" زمین سے زمین پر مار کرنے والا پن پوائنٹ بیلسٹک میزا‏ئل ہے جس سے حال ہی میں تل ابیب کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

حزب اللہ کی جاری کردہ ویڈیو فوٹیج اور تفصیلات کے مطابق یہ بیلسٹک میزائل اسلامی استقامتی تحریک نے انجینیئروں نے اس میزائل کو اپ گریڈ کیا ہے اور حیاتی اہمیت کے اہداف کو بالکل صحیح  نشانہ بنانے کے لئے اس سے کام لیا جاتا ہے۔

حزب اللہ لبنان نے اعلان کیا ہے کہ "قادر2" میزائلوں میں بہت زیادہ انہدامی توانائی پائی جاتی ہے۔   

حزب اللہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ میزائل پہلی بار چاراکتوبرکو آپریشنل ہوا۔

حزب اللہ لبنان نے اسی طرح ایک ویڈیو فوٹیج "نصر1" پن پوائنٹ بیلسٹک میزائل کی بھی جاری کرکے  بتایا ہے کہ " نصر1" میزائل کی رینج 100 کلومیٹر ہے، اور یہ میزائل 100 کلو کا وار ہیڈ لیجاسکتا ہے۔

 

حزب اللہ لبنان نے بتایا ہے کہ "نصر1" زمین سے زمین پر مار کرنے والا پن پوائنٹ بیلسٹک میزائل ہے جو اسلامی استقامتی تحریک کے انجینیئروں نے تیار کیا ہے۔

حزب اللہ نے بتایا ہے کہ یہ میزائل بھی حیاتی اہمیت کی تنصیبات اور مراکز کو بہت ہی دقیق نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

حزب اللہ نے اس میزائل  کی ایک خصوصیت یہ بتائی ہے کہ اس کے اندر دشمن کے ایئر ڈیفنس سسٹم کو منحرف کرنے کی منفرد صلاحیت پائی جاتی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق حزب اللہ لبنان نے "نصر1" میزائل 14 اکتوبر کو پہلی بار آپریشنل کیا ہے۔

اسرائیل جو خود ہتھیار بنانے والے ممالک میں سے ایک ہے، اس وقت اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ممالک سے ہتھیار درآمد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سیپری) نے اسلحہ برآمد کرنے والے 10 بڑے ممالک کے حصے کا تجزیہ کیا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق اسرائیلی حکومت کی زیادہ تر ہتھیاروں کی ضرورت امریکہ کی لامحدود امداد سے فراہم کی جاتی ہے، جو کہ ہتھیاروں کی درآمدات کا تقریباً 69 فیصد ہے۔ امریکہ نے غزہ جنگ میں اسرائیل کو بموں اور لڑاکا طیاروں سمیت ایک ارب 90 کروڑ ڈالرز کا اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے کی منظوری دیے کر اس کی کی فوری منتقلی کی اجازت دی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کی تصدیق کرنے والے ذرائع نے بتایا کہ ہتھیاروں کے نئے پیکجز میں 1800 ایم کے-84 2,000 پاؤنڈ بم اور 500 ایم کے-82 500 پاؤنڈ بم شامل ہیں۔

واشنگٹن اسرائیل کو سالانہ 3 ارب 80 کروڑ ڈالرز کی فوجی امداد دیتا ہے۔ یہ پیکج ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیل کو غزہ میں مسلسل بمباری اور زمینی حملوں پر سخت بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے اور جو بائیڈن کی پارٹی کے کچھ ارکان نے بھی ان سے امریکی فوجی امداد میں کٹوتی کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ اسرائیل کو فضائی دفاع اور گولہ بارود فراہم کر رہا ہے، لیکن کچھ ڈیموکریٹس اور عرب امریکی گروہوں نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کی مستقل حمایت پر تنقید کی ہے۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق، دو امریکی اہلکاروں نے اسے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر سے واشنگٹن نے کم از کم 14,000 مارک-84 بم جن کا وزن 500 پاؤنڈ ہے، 3000 ہیل فائر ایئر ٹو گراؤنڈ میزائل، 1000 مارٹر بم، 2600 ہوا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل اور دوسرا گولہ بارود صیہونی حکومت کو ارسال کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسلحے کی ترسیل کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صیہونی حکومت کو امریکی فوجی امداد میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے۔ سنٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے ہتھیاروں سے متعلق امور کے ماہر ٹام کاراکو نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ یہ اعداد و شمار واضح طور پر اسرائیل (حکومت) کے لیے امریکی حمایت کی سطح کو ظاہر کرتے ہیں۔ IRNA کے مطابق، امریکی محکمہ دفاع نے اس سے پہلے اعلان کیا تھا کہ اس نے 7 اکتوبر 2023ء کو الاقصیٰ طوفان آپریشن کے بعد سے اسرائیل کو 50,000 سے زیادہ توپ کے گولے ارسال کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن کی انتظامیہ کو مبینہ طور پر کانگریس کو دیگر فوجی امداد کے بارے میں مطلع کرنے کی ضرورت نہیں ہے بشرطیکہ اگر یہ ایک خاص رقم سے کم ہو۔

تاہم، امریکی میڈیا نے اسرائیل کو دیگر فوجی سازوسامان کی فروخت کی اطلاع دی ہے، جس میں گائیڈڈ کٹس بھی شامل ہیں، تاکہ روایتی بموں کو پاتھ فائنڈر سسٹم والے گائیڈڈ بموں میں تبدیل کیا جا سکے۔ جرمنی اگلے نمبر پر ہے، جرمنی کی طرف سے اسرائیل کو اس ملک کی اسلحہ جاتی برآمدات کی مقدار (30%) ہے۔ لہذا اس پر حیران نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ اسرائیل کی اتنی زیادہ حمایت کیوں کرتا ہے۔ اٹلی  سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات 0.9 فیصد ہے اور اس حوالے سے یہ تیسرے نمبر پر ہے۔ برآمدات کا یہ حجم بھی اٹلی کے لئے کافی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اس کاروبار کی وجہ سے غاصب صیہونی حکومت کی ہر جگہ حمایت کرتا نظر آتا ہے۔

SIPRI کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2019-2023ء میں فرانس سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی کوئی بڑی برآمدات نہیں ہوئی، فرانس سے اسرائیل کو آخری بڑی ہتھیاروں کی برآمد 1998ء میں ہوئی تھی۔ تاہم فرانس نے کئی بار ہتھیاروں کے پرزے  ضرور فراہم کیے ہیں۔ برطانیہ اسرائیل کو ہتھیا برآمد کرنے والا بظاہر بڑا برآمد کنندہ نظر نہیں آتا، لیکن عملی طور پر یہ اسرائیل کی حمایت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ بینجمن نیتن یاہو کی طرف سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو "ناپسندیدہ عنصر" قرار دینے کے بعد اسپین نے یورپی ممالک سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کریں اور اس پر ہتھیار اور اقتصادی پابندیاں عائد کریں۔

اسلحہ برآمد کرنے والے 10 اہم ممالک کی فہرست میں روس اور چین (تیسرے اور چوتھے بڑے برآمد کنندگان) کے نام ہیں، جو اسرائیل کو اسلحہ فراہم نہیں کرتے۔ 10ویں ہتھیار برآمد کرنے والے ملک کے طور پر جنوبی کوریا کا حصہ بہت کم ہے اور یقیناً اسرائیل خود جو کہ دنیا میں 9ویں نمبر پر ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ صورتحال  میں جرمنی سے ہتھیار درآمد کرنے کا لائسنس حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ایک اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ اس حکومت کو جرمنی سے ہتھیار درآمد کرنے کا لائسنس حاصل کرنے میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے
ترتیب و تنظیم: عمار پارسا
 
 
 

وَلا تَحسَبَنَّ اللَّهَ غافلاً عَمَّ يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۖ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ

"اور تم یہ خیال نہ کرو کہ اللہ ان کاموں سے غافل ہے جو ظالم کرتے ہیں۔ بے شک وہ انہیں ایک دن کے لیے مہلت دیتا ہے جس دن آنکھیں خوف سے پتھرائی ہوں گی۔"(سورة ابراهيم: 42-43)

تاریخی پس منظر

دنیا کی تاریخ میں اقوام و سلطنتوں کے عروج و زوال کا سفر ایک دائمی حقیقت رہا ہے، جس میں کئی سامراجی و استکباری طاقتیں خدا کی دی ہوئی ایک متعین مدت کی مہلت سے سوء استفادہ کرنے کے بعد اپنے عروج کی انتہا کو پہنچیں اور پھر زوال کی گہرائیوں میں جا گریں۔ آج ہم ایک ایسی ہی طاقت کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو صہیونیت (Zionism) کے نام پر دنیا کے کاندھوں پر بوجھ بنی ہوئی ہے۔ صہیونیت، جس نے اپنے آغاز سے فلسطین کی مقدس زمین کو ایک صدی سے زیادہ عرصے تک آگ و خون کی بھینٹ چڑھایا، اپنی ناپایداری کی وجہ سے آج خود اپنے زوال کے کنارے کھڑی ہے۔

صہیونیت Zionism کی بنیاد

صہیونیت کی بنیاد تھیوڈور ہرزل (Theodor Herzl) نے 1897 میں رکھی، جو ایک سیاسی تحریک کے طور پر ابھری۔ یہودی قوم پرست تحریک کا مقصد یہودیوں کے لیے ایک علیحدہ وطن قائم کرنا تھا، جو اس وقت کے عالمی سیاسی حالات میں ضروری سمجھا گیا۔ ہرزل نے اپنی کتاب "دی یہودی ریاست" (Der Judenstaat) میں اس خیال کو تفصیل سے بیان کیا۔

یہ تحریک 19ویں صدی کے آخر میں یورپ میں یہودیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب اور مظالم کے جواب میں سامنے آئی۔ صہیونی تحریک کا پہلا باضابطہ اجلاس 1897 میں بیسل (Basel)، سوئٹزرلینڈ میں ہوا، جس میں ہرزل نے "بیسل پروگرام" پیش کیا، جس کا مقصد فلسطین میں ایک یہودی ریاست کا قیام تھا۔

صہیونیت ابتدا میں ایک سیاسی تحریک کے طور پر یورپ اور امریکہ کے یہودیوں میں مقبول ہوئی، اور اس نے 1948 میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی۔ یہ تحریک سیاسی، مذہبی اور ثقافتی پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے، اور اس کا اہم مقصد فلسطین میں یہودیوں کی واپسی اور ایک مستقل یہودی ریاست کا قیام ہے۔ اگرچہ یہ ایک سیاسی تحریک کی صورت میں شروع ہوئی، لیکن اس کے اندر مذہبی انتہاپسندی، سامراجی عزائم، اور انسانیت سوز مظالم کی ایک لمبی داستان ہے۔ فلسطین کی معصوم عوام کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے اور حق کی آواز کو دبانے کا یہ عمل ایک نسل کشی کی صورت اختیار کرتا گیا۔ صہیونی منصوبے کی بنیاد میں جہاں ایک منظم و متحد قوم کا تصور تھا، وہیں اس کے نفسیاتی اور اخلاقی گناہوں نے اس تحریک کو آج شکست کی طرف دھکیل دیا ہے۔

صہیونیت کے خلاف عالمی بیداری

آج جبکہ صہیونیت کی بنیاد رکھے جانے کے بعد ایک صدی کا عرصہ گزر چکا ہے، دنیا کے انسانیت پسند افراد کے باشعور اذہان میں یہ سوال ابھرتا ہے: آخر صہیونیت کی غاصبانہ حکومت فلسطین کے مظلوم عوام پر کب تک اپنے ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری رکھ سکے گی؟ اس وقت اسرائیل، جو صہیونیت کا چہرہ ہے، اپنے داخلی اور خارجی چیلنجز کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔

داخلی سطح پر، اسرائیل ایک بے بس قوم کی تصویر بن چکا ہے، جہاں اخلاقی بحران اور سماجی تفاوت کا انتشار بڑھتا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر اسرائیل کو اخلاقی لحاظ سے تنہا کر دیا گیا ہے۔ اقوام عالم صہیونی ریاست کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کر رہی ہیں اور ان کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔

صہیونی ریاست کے سیاسی چیلنجز

سیاسی سطح پر صہیونی ریاست کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں۔ مغربی طاقتیں، جو طویل عرصے سے اسرائیل کی پشت پناہی کرتی آ رہی ہیں، اب خود اندرونی مسائل میں الجھ چکی ہیں۔ صہیونیت، جس نے اپنی بقا کا دارومدار مغربی طاقتوں کی حمایت پر رکھا تھا، اب اس حمایت کے کمزور ہونے کے آثار کو محسوس کر رہی ہے۔ The Cradle کی رپورٹ کے مطابق، جنگ کے آغاز سے ہزاروں کاروبار بند ہو چکے ہیں، اور The Times of Israel کے مطابق سیاحت اور صنعت کے شعبے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

ایک اسرائیلی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ "اسرائیلی معیشت بری طرح تباہ ہوچکی ہے۔ تاریخ اسرائیل میں اس قدر لوگوں نے ہجرت نہیں کی، جو ابھی ہو رہی ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری صفر ہو چکی ہے۔ سیاحت کا شعبہ مکمل بند ہو چکا ہے۔ اسرائیلی صنعتی شہر ویران ہو چکے ہیں۔ لاکھوں مزدور بیکار ہو چکے ہیں۔"

اس زوال کی بڑی وجہ اسرائیل کے اندرونی اختلافات اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی بیداری ہے، اور اس بیداری کا جیتا جاگتا چہرہ ایران کی اسلامی حکومت اور اس کے ہم آواز طاقتیں ہیں۔ جہاں فلسطینی قوم صبر و استقامت کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے، وہیں دنیا کے مختلف گوشوں سے انسانیت نواز قوتیں فلسطین کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے مسلسل بربریت اور انسانی حقوق کی پامالیوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا ہے، اور اب یہ ضمیر اس بربریت کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔

مقاومتی محاذ کے سوشل میڈیا کی طاقت

موجودہ دور میں، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی طاقت نے صہیونیت کے پروپیگنڈے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہمدردان و فرزندان فلسطین کی مقاومت و مزاحمت، اسرائیلی فوجی مظالم اور عالمی سامراجی کھیل کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کر رہی ہے۔ صہیونیت کے لیے یہ نئے دور کی حقیقت ناقابل برداشت ہے، کیونکہ اب اس کے جھوٹے دعوے اور پروپیگنڈے زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے۔

ایک مسلمہ تاریخی حقیقت

فلسطینی عوام کی بقا اور ان کے حقوق کی بحالی کے لیے عالمی تحریک میں شدت آ رہی ہے۔ صہیونی ریاست اپنی آخری کوششوں میں مزید ظلم و جبر کا سہارا لے رہی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت رہی ہے کہ جب کوئی استکباری طاقت مقاومتی تنظیموں سے شکست خوردہ ہو کر اپنے زوال پذیر ہونے کا احساس کرتی ہے تو مزید تباہی کا سہارا لیتی ہے، لیکن اس کی اس حرکت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔

جیسا کہ رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے گذشتہ جمعے کے خطبے میں فرمایا تھا، "جب بزدل دشمن مقاومتی تنظیموں کے خلاف جنگ میں ناکام ہوا تو دہشت گردی، نسل کشی اور قتل عام پر اتر آیا۔ لیکن کیا نتیجہ ملا؟" یہی ظلم ایک بڑی شکست کی علامت بن جاتا ہے۔ صہیونیت کی طاقت اب ماضی کا قصہ بنتی جا رہی ہے، اور وہ وقت دور نہیں جب یہ باطل تحریک بھی تاریخ کے دیگر جابرانہ نظاموں کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔

اسرائیل کی جابرانہ حکومت اور اس کے پس پردہ صہیونیت کی پالیسیاں اس کی حکمتوں کے ساتھ ساتھ اس کے پشت پناہ امریکہ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن کر رخصت ہونے والی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کبھی کسی جابرانہ نظام کو آغاز و اوائل میں ہی نیست و نابود نہیں کرتا، بلکہ یہ تاریخ کی مسلم حقیقت اور الہی مصلحت رہی ہے کہ ہر فرعونی سامراج کو ایک خاص مہلت دی جائے اور اسے اپنے پاؤں پسارنے کا موقع دیا جائے، تاکہ آخر میں اس کی اس طرح گرفت کی جائے کہ فرار کیلیئے کوئی بہانہ و چارۂ کار نہ رہ جائے۔

بہتر مستقبل کی امید

یقیناً آج کی دنیا میں، جہاں ایک طرف اخلاقی اقدار اور انسانی حقوق کا شعور بڑھتا جارہا ہے، وہاں دوسری جانب صہیونیت کی بنیادوں میں دراڑیں بھی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ فلسطینی عوام کی جدوجہد اور ان کی مزاحمت کا جذبہ نہ صرف ان کے وطن کی بازیابی کا ارادہ رکھتا ہے بلکہ یہ عالمی انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لیے بھی ایک مشعل راہ ہے۔

بیداری اور استقامت

آج کے عہد میں، جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ہر ایک کو اپنی آواز بلند کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، فلسطینی عوام کی مظلومیت کی کہانی پوری دنیا میں گونج رہی ہے۔ ہر روز نئی نسل کی آوازیں اٹھ رہی ہیں، جو صہیونی مظالم کو بے نقاب کر رہی ہیں۔ یہ بیداری نہ صرف فلسطینیوں کے لیے، بلکہ دنیا بھر کے انسانیت پسندوں کے لیے ایک نیا حوصلہ ہے۔ وہ قومیں جو اپنی آزادی کی جدوجہد کر رہی ہیں، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔

صہیونیت کی طاقت کو محدود کرنے کے لیے، عالمی سطح پر ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے، جو کہ انسانی حقوق کی پاسداری کے اصولوں پر قائم ہو۔ اس میں وہ قوتیں شامل ہوں جو فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت کرتی ہیں اور صہیونی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ہم سب ایک مشترکہ مقصد کے تحت ایک جگہ اکٹھے نہ ہوں۔

نئی نسل کا کردار

نئی نسل کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی جدوجہد صرف اپنے حق کی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی بہبود کی جدوجہد ہے۔ فلسطین کی آزادی درحقیقت ہر مظلوم قوم کی آزادی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا اور دنیا کے سامنے اپنی آواز کو مضبوطی سے پیش کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے، وہ اپنے پیغام کو عالمی سطح پر پھیلانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

مستقبل کی امیدیں

یہ حقیقت ہے کہ صہیونی تحریک کا زوال ایک مثبت علامت ہے، جو کہ ایک نئی تاریخ کے آغاز کی خبر دیتی ہے۔ ہم اس وقت کو قریب دیکھ رہے ہیں جب اسرائیل کے مظالم کا خاتمہ ہوگا اور فلسطینی عوام اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے کامیاب ہوں گے۔ یہ وہ وقت ہوگا جب عالمی سطح پر انصاف کا بول بالا ہوگا اور ہر قوم کو اپنی شناخت اور حقوق کی آزادی ملے گی۔

آج کی دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ صہیونیت کی جڑیں اگرچہ گہری ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی مدد ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ رہی ہے۔ جب بھی کسی قوم نے اپنے حق کی خاطر آواز اٹھائی، اللہ نے ان کی مدد کی۔ فلسطینی عوام کی استقامت اور ان کی جدوجہد اس بات کا ثبوت ہے کہ حق کبھی بھی زوال پذیر نہیں ہوتا، بلکہ آخرکار حق کا بول بالا ہوتا ہے۔

آج کے اس دور میں، ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم ہر ممکن طریقے سے فلسطینی عوام کی مدد کریں گے۔ ہمیں ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، ان کی آواز بننے کی ضرورت ہے، اور ان کے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں شامل ہونے کی ضرورت ہے۔ صہیونیت کی شکست یقینی ہے، اور یہ بات ہمیں یقین دلاتی ہے کہ ایک دن فلسطینی عوام اپنے وطن میں آزاد اور خوشحال زندگی گزار سکیں گے۔

"اور ہمارے دلوں کی دعا ہمیشہ ان کے لیے ہے کہ اللہ ان کی مدد فرمائے اور انہیں فتح عطا فرمائے، کیونکہ اللہ کی مدد ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو اپنے حق کے لیے لڑتے ہیں۔"


گزشتہ سال اکتوبر 2023ء میں برپا ہونے والے طوفان الاقصیٰ کے واقعات فلسطینی عوام کی مزاحمت اور بہادری کی ایک نئی اور دردناک داستان ہیں۔ ایک سال گزرنے کے باوجود، اس المناک واقعہ کی تلخی اور اس سے حاصل ہونے والے سبق آج بھی تازہ ہیں۔ ایک سال بعد اس کے وسیع تر اثرات سے اس کے مستقبل کی سمت پر مزید روشن ہو گئی ہے۔ حماس اور جہاد اسلامی کیساتھ حزب اللہ کے بہادر مجاہدین کی جرات مندانہ قربانیوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اسرائیل ناجائز ریاست کے قیام نے نہ صرف فلسطینیوں کے لیے ایک سنگین انسانی بحران پیدا کیا بلکہ خطے میں عدم استحکام میں بھی اضافہ کیا۔ 70 سال سے اسرائیلی فوج کی جانب سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی جا رہی ہے، اب صیہونی ریاست کے دانت کھٹے ہو رہے ہیں۔ لاکھوں افراد شہید ہوئے، لاکھوں بے گھر ہوئے اور بنیادی ڈھانچے کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں غربت اور بھوک میں اضافہ ہوا۔ علاج کے وسائل کی کمی اور طبی سہولیات تک رسائی میں مشکلات بڑے پیمانے پر انسانی المیے کا باعث بنیں۔ آج بھی غیر ملکی امداد کی نارسائی اور عالمی برادری کی جانب سے  ناقص ردِعمل، صورتِ حال کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔

عالم انسانیت کے لئے واقعہ سے حاصل ہونے والے سبق گہرے اور معنی خیز ہیں۔ دنیا اب توجہ دے رہی کہ اس مسئلے کی پیچیدگی اور اس کے طویل مدتی حل کی ضرورت کو واضح طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے غیر متناسب طاقت کے استعمال اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نے عالمی برادری کو شدید تشویش میں مبتلا  کر رکھا ہے۔ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے اس عمل نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کیا ہے کہ امن کا راستہ صرف اور صرف ناجائز قبضے کے خاتمے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے لیے عالمی برادری کی جانب سے ایک مضبوط اور متحدہ کردار کی ضرورت ہے جو اس مسئلے کا نتیجہ خیز حل نکالنے کے لیے موثر کوششوں کو بارآور بنائے۔ فلسطینی ترجمان ابوعبیدہ نے واشگاف انداز میں کہا ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد سے حزب اللہ کے بہادر مجاہدین کی قربانیاں قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کی جرات اور استقامت  فلسطینی مزاحمت کی تاریخ میں ایک روشن باب ہے۔ حزب اللہ نے ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور اس آپریشن میں ان کی شرکت نے فلسطینی مزاحمت کو نئی قوت بخشی ہے۔ ان کی قربانیاں کبھی فراموش نہیں ہوں گی اور ان کی یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی۔ ان کی بہادری اور قربانیوں کا ذکر ہمیں انصاف اور آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کی تازہ ترغیب دیتا ہے۔

خطے اور فلسطین کی آزاد ریاست کے لئے مستقبل کی سمت کا تعین کرنا انتہائی اہم ہے۔ اس کے لیے امت مسلمہ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے  ایک جامع اور منصفانہ منصوبہ تشکیل دے۔  فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق، جیسے کہ حق خود ارادیت، زمین، اور عزت نفس کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ناجائز اسرائیلی ریاست کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ بے شک طوفان الاقصیٰ کے بعد کا مستقبل کشمکش اور عدم یقینی سے بھرا ہوا ہے لیکن یہ ایک اہم موقع ہے کہ ملسلمان اس مسئلے کے حل کے لیے ایک نئے سرے سے کوششیں کریں۔ دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ امن اور استحکام کا راستہ صرف اور صرف باہمی احترام، عدل اور انصاف کے ذریعے ہی نصیب ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے عالمی برادری، علاقائی طاقتیں اور امت مسلمہ کے رہنماؤں کو مشترکہ طور پر کام کرنا ہوگا تاکہ ایک ایسا حل تلاش کیا جا سکے جو فلسطین کی مکمل آزادی پر منتہج ہو۔ مقاومت کے محاذ کا طول و عرض واضح ہوچکا ہے، فلسطینی عوام کی قربانیاں اور حزب اللہ کے بہادر مجاہدین کی جرات مندانہ قربانیاں ایک سنگ میل ثابت ہوں گی۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ امن صرف ایک خواب نہیں بلکہ ایک ایسا مقصد ہے جس کے حصول کے لیے سب کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے جہادِ تبین کے لئے ہدایات اور فرمودات کی روشنی فلسطین کی آزادی انقلاب اسلامی کے بنیادی اصولوں میں سے ہے جس کے لئے عملی اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔ آج کے دور میں، جہاں جھوٹی خبریں، پروپیگنڈا اور غلط معلومات کا طوفان ہے، سچائی کو عوام تک پہنچانا ایک مشکل لیکن نہایت ضروری ذمہ داری ہے۔ اس موقع پر حماس کی جانب سے علماء کرام سے جہادِ تبیین کے فریضے کو مزید مضبوطی سے انجام دینے کی درخواست انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ جہادِ تبیین صرف ایک مذہبی یا اخلاقی فریضہ نہیں بلکہ ایک قومی اور عالمی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو قلم اور دانش سے لڑی جاتی ہے اور اس میں فتح کے لیے سچائی، تحقیق اور وضاحت کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ دشمن کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے اور سچائی کو عام کرنے کی ذمہ داری صرف علماء کرام پر نہیں بلکہ ہر فرد پر عائد ہوتی ہے لیکن علماء کرام کی حیثیت اور رسوخ اس کام کو انجام دینے کے لیے انہیں ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ وہ اپنی دینی علمیت، دانشوری اور اجتماعی اثر و رسوخ سے عوام کو حقائق سے آگاہ کر سکتے ہیں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں۔

آج کے دور میں سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کی مدد سے غلط معلومات کا پھیلاؤ انتہائی تیزی سے ہوتا ہے۔ دشمن اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے امت مسلمہ کو کمزور کرنے، مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے، علماء کرام کو جدید میڈیا کے استعمال میں مہارت کیساتھ وارد ہونا ہوگا اور اپنے پیغام کو موثر طریقے سے عوام تک پہنچانا ہوگا۔ یہ ایک مسلسل اور طویل مدتی جدوجہد ہے، جس میں مسلسل کوشش، جدوجہد اور جدید تکنیکوں کے استعمال کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے علماء کرام کو تربیت یافتہ افراد کی ٹیمیں تشکیل دینی ہونگی جو مختلف پلیٹ فارمز پر فعال ہو اور فوری جوابات دے۔ مسجدِ اقصیٰ صرف ایک مقدس مقام نہیں بلکہ عالمی ثقافتی ورثہ بھی ہے جس کی حفاظت کرنا تمام انسانیت کی ذمہ داری ہے۔ اس خطرے کے خلاف مزاحمت کو تیز کرنا ناگزیر ہے۔ علماء کرام کو اس مسئلے پر عالمی سطح پر آواز اٹھانا ہوگی، مختلف ممالک کی حکومت اور تنظیموں سے رابطہ کرنا ہوگا،اور بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے تناظر میں اس مسئلے کو اجاگر کرنا ہوگا۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس میں عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔

یہ ایک لمبا اور مشکل سفر ہے، لیکن اس میں کامیابی حاصل کرنا ہماری قومی اور عالمی ذمہ داری ہے۔ یہ کام صرف علماء کرام کی کوششوں سے ممکن نہیں بلکہ عام مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی حمایت اور تعاون سے بھی ممکن ہوگا۔ ہمیں آپس میں متحد ہوکر اس عظیم چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ سچائی غالب آئے اور مسجدِ اقصیٰ جیسے مقدس مقامات کی حفاظت ہو سکے۔ طوفان الاقصیٰ کا ایک سالہ قربانیوں بھرا جشن، مزاحمت کا ایک نیا باب نہیں، بلکہ فتح کا ایک آغاز ہے۔ یہ صرف ایک خوشگوار واقعے کا اظہار نہیں، بلکہ مستقبل کے لیے ایک واضح حکمت عملی اور مربوط جدوجہد کا اعلان ہے۔ یہ بیان فلسطینی مزاحمت کی استقامت اور اس کے مستقبل کے امکانات کو ایک نئی روشنی میں عطا کرتا ہے۔ یہ مزاحمت کے جاری رہنے اور اسے مزید مضبوط کرنے کا ایک واضح حوصلہ افزا پیغام ہے۔ طوفان الاقصیٰ جیسے واقعات، جہاں فلسطینی عوام نے اپنی طاقت اور استقامت کا مظاہرہ کیا، مزاحمت کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسا آغاز ہے جس میں مزاحمت کی روح کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اسے زیادہ منظم، مربوط اور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ صورتحال محض جوش و خروش کی بات نہیں ہے، بلکہ طویل مدتی حکمت عملی کا تقاضا کرتی ہے۔

فتح کا آغاز صرف عسکری فتح تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک وسیع تر تصور ہے جس میں سیاسی، معاشی اور سماجی میدانوں میں فتح شامل ہے۔ یہ فتح فلسطینی قوم کی خود مختاری، آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول تک کے سفر کا ایک مرحلہ ہے۔ اس سفر میں فوجی طاقت کا کردار بہت اہم ہے، لیکن یہ صرف ایک جز ہے۔ حالات، واقعات اور تاریخی تجربات یہ واضح کرتے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد جیسے پیچیدہ اور طویل المدتی تنازعے میں فوجی اور سیاسی طاقت کا ایک اہم کردار ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیان ہے کہ یہ کردار اسلامی جمہوری ایران ہی ادا کر رہا ہے۔ فلسطینی یہ یقین رکھتے ہیں کہ اپنی فوجی صلاحیتوں کو بڑھانا، جدید ترین تکنیکوں کو اپنانا اور اپنے دفاعی نظام کو مضبوط کرنا لازمی ہے۔  اسی طرح سیاسی سطح پر موثر حکمت عملی، عالمی برادری میں اپنی آواز کو بلند کرنا اور موثر سفارتی اقدامات اٹھانا انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں بین الاقوامی فورمز پر اپنی بات مؤثر طریقے سے پیش کرنے کی مہارت حاصل کرنی ہوگی اور اپنی حقانیت کو عالمی سطح پر تسلیم کروانا ہوگا۔

عالمی برادری کو فلسطینی عوام کی جدوجہد کے بارے میں آگاہ کرنا اور ان کی حمایت حاصل کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ یہ صرف  فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ عالمی برادری کی بھی ذمہ داری ہے۔ فلسطین کے مسئلے کی حقیقت کو اجاگر کرنا، اسرائیلی مظالم کی مذمت کرنا اور عالمی سطح پر فلسطینیوں کی حمایت کے لیے مہم چلانا اس جدوجہد کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کے لیے ہمیں میڈیا سے موثر استفادہ کرنا ہوگا، عالمی رائے عامہ کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہوگا اور انسانی حقوق کے اداروں سے تعاون کرنا ہوگا۔ گزشتہ ایک سال، طوفان الاقصیٰ کے واقعات سے بھرا ہوا، ہمارے لیے ایک دردناک یادگار ہے۔  اس المناک واقعہ نے نہ صرف فلسطینیوں کی مظلومیت کو بے نقاب کیا، بلکہ اس نے عالمی سطح پر حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی بھی کی۔ یہ جدوجہد ایک طویل اور مشکل سفر ہوگا۔  فلسطین کی آزادی کی جنگ  کوئی معمولی لڑائی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسی طویل جدوجہد ہے جس میں  دشمنوں کی جانب سے ہر ممکن رکاوٹیں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ  جنگ سیاسی فوجی اور اقتصادی محاذوں پر لڑی جائے گی اور اس میں  بے شمار قربانیاں دینی پڑین گی۔ مجاہدین کا عزم اور ایمان ہمیں اس مشکل سفر کی آخری منزل، یعنی کامیابی تک پہنچائے گا۔ یہی وہ  قوت ہے جو ہمیں مشکل ترین حالات میں بھی ثابت قدم رکھتی ہے، یہی وہ شعلہ ہے جو ہمارے دلوں میں جلتی رہے گی اور ہمیں ہار ماننے سے روکے گی۔
تحریر: علی واحدی

 
 
 

جامعہ کراچی میں یوم مصطفیٰ (ص) کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنماء ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی نے تکفیریوں اور تفرقہ بازوں کو سخت مایوس کر دیا۔ انہوں نے حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل فلسطین کے اندر بدترین نشل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے، اسرائیل کے مقابلے میں شہید اسماعیل ہنیہ نے اپنی جان کی قربانی پیش کردی، شہید سید حسن نصراللہ نے اپنی جان کی قربانی پیش کر دی۔ انہوں نے سید حسن نصراللہ کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ شہید سید حسن نصراللہ نے 2006ء کی جنگ میں بھی اسرائیل کو شکست دی تھی، اس اسرائیل کو شکست دی تھی، جس کو سارے عرب ممالک مل کر بھی شکست نہیں دے سکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شہید حسن نصراللہ نے 32 سال میں حزب اللہ کو بہت بڑی قوت میں تبدیل کیا اور آخرکار فلسطین اور مسجد اقصیٰ کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔

ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی مجاہدانہ کاوشوں کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے انہیں زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے 4 اکتوبر بروز جمعہ رہبر معظم کے خطبہ جمعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم کے نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب نے ظالم طاقتوں کو مکمل طور پر مایوس کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 85 سال کے رہبر معظم نے خطبہ جمعہ میں جوانوں والی للکار کے ساتھ اسرائیل اور امریکہ کو مخاطب کیا ہے۔ معراج الہدیٰ صدیقی نے آیت اللہ خامنہ ای کے خطبہ جمعہ کو صدی کا بہترین خطبہ قرار دیا اور کہا کہ یونیورسٹی کے اساتذہ، طلباء اور نوجوان 4 اکتوبر بروز جمعہ کے رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے خطبہ کو ضرور وقت نکال کر سن لیں، کیونکہ وہ خطبہ "اس صدی کا بہترین خطبہ" تھا، جس کے بعد میں یہ برملا کہتا ہوں کہ اس وقت پوری امت اسلامی کا اگر کوئی حقیقی لیڈر اور رہبر ہے تو وہ رہبر معظم سید علی خامنہ ای ہیں اور میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ میرا امام اور رہبر سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ ہیں۔ جس کو آج طاغوت کا مقابلہ کرنا ہے، وہ سید علی خامنہ ای کے لشکر میں شامل ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مجھ سے کہے گا کہ مجھے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکر میں شامل ہو کر کفر کا مقابلہ کرنا ہے تو میں اس سے کہوں گا آؤ سید علی خامنہ ای کے لشکر کے پیچھے کھڑے ہو جاؤ تو تم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکر میں شامل ہو سکو گے۔ ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی نے کہا کہ یکم اکتوبر کو ایران نے اسرائیل پر دو سو بیلیسٹک میزائل فائر کیے، اسرائیل تو فلسطین میں نسل کشی کر رہا ہے، بچوں اور خواتین کا قتل عام کر رہا ہے، لیکن میں سلام پیش کرتا ہوں، سید علی خامنہ ای کو کہ یکم اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تو خواتین اور بچوں کو اور عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا، حالتِ جنگ میں بھی بلند ترین اخلاقیات کا مظاہرہ کیا اور صرف عسکری اہداف کو نشانہ بنایا، موساد کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا، دو ائیر بیسز کو نابود کر دیا، کئی جنگی طیاروں کو نابود کر دیا، لیکن کوئی بچہ، کوئی عورت، کوئی عام شہری نشانہ نہیں بنا، آج دنیا جنگ کے دوران بھی ایران کی اخلاقیات کو دیکھ رہی ہے۔

ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کو مشورہ دے رہا ہے کہ ایران کے تیل کی تنصیبات پر حملہ کر دے، لیکن وہ بھول گئے کہ خلیج فارس کا تنگ ہرمز کا مقام کہ جہاں سے دنیا کے تیس فیصد تیل کے جہاز گزرتے ہیں، وہ ایران کے قبضے میں ہے، آج دشمن امریکہ کو مشورہ دیتا ہے کہ اسلامی انقلاب کو ختم کر دے، لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر کسی نے اسلامی انقلاب کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا تو یاد رکھو ان شاء اللہ پوری دنیا کے مسلمان مل کر انقلاب اسلامی کی حفاظت کریں گے، تم نے ایران کو کیا سمجھ رکھا ہے، ایران کا نظام بڑا مضبوط ہے، جب چند مہینے قبل ایران کا صدر شہید ہوا تو سوا مہینے کے اندر اندر دوبارہ انتخابات ہوئے اور نیا صدر آگیا، یہ وہ نظام ہے جسے آیت اللہ خمینی رحمت اللہ علیہ نے بنایا تھا۔ انہوں نے اس دنیا میں امریکہ کو للکارا تھا، امریکہ کو شکست دی تھی، امریکہ کا وزیر خارجہ کہتا ہے کہ ایران کو پچھتانا پڑے گا، 1979ء سے اب تک امریکہ پچھتا رہا ہے، چالیس سال سے پابندیوں کے باوجود ایران نے بیلسٹک میزائل بنایا ہے اور الحمدللہ نیوکلیئر پاور بننے والا ہے، اسرائیل کا جنگی جنون آج پوری دنیا کو خطرے میں ڈال چکا ہے، بتاؤ تم کس کا ساتھ دو گے؟ ادھر ہے شیطانی لشکر اور ادھر ہے خدائی لشکر، ہم تو خدائی لشکر کا ساتھ دیں گے۔

سال گذشتہ سات اکتوبر کے دن حماس نے اسرائیل کے اندر جا کر طوفان الاقصیٰ آپریشن کیا، جس نے دنیا کا منظر نامہ تبدیل کرکے رکھ دیا، یہ آپریشن ایسا چونکا دینے والا تھا کہ اسرائیل کی ایڈوانس ٹیکنالوجی اور موساد کی خفیہ طاقت، کارروائیوں اور ریکارڈ سے باخبر لوگ ہکا بکا رہ گئے۔ گویا حماس نے دنیا کو ورطہء حیرت میں مبتلا کر دیا، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور یہ آپریشن مکمل ہوا۔ اس آپریشن طوفان الاقصٰی کے بعد اسرائیل نے مسلسل اہل فلسطین کو بالعموم اور اہل غزہ جو حماس کے حامیوں کا مرکز شمار ہوتا ہے، پر ہر دن اور رات میں قیامت ڈھا دی، اس نے سول اور پرامن رہائیشی آبادیوں سے لے کر اسپتالوں، درسگاہوں، مساجد، مکاتیب، مدارس، کالجز، ڈسپینسیریز، سفارتی مراکز، اقوام متحدہ کے دفاتر، مراکز صحت، اسکولز، عالمی ریڈ کراس کے مراکز اور ہر ممکنہ جگہ جہاں اسے زندگی کے آثار دکھائی دیئے، اس کو بمباری اور مہلک بارود سے برباد کر دیا۔

اس ایک سال میں غزہ برباد ہوگیا، لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر ہجرت پر مجبور ہوئے، شاید ہی کسی کے پاس رہائش کی جگہ بچی ہو۔ شاید ہی کسی کا گھر محفوظ رہا ہو، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو، جہاں شہادت نہ ہوئی ہو۔ بعض فیملیز اور خاندان مکمل طور پر نابود ہوچکے ہیں، بچوں کی اتنی بڑی تعداد گذشتہ پچھتر برس میں شہید نہیں ہوئی ہوگی، جتنی بڑی تعداد میں اس ایک سال میں معصوم پھول اور کلیاں مرجھا گئیں۔ ظلم کی جو داستانیں اور مناظر دنیا نے اس ایک سال میں دیکھے، اس کا تقاضا تھا کہ مہذب کہلانے والی دنیا، اپنی تہذیب کا مظاہرہ کرتی اور اسرائیل کے خلاف عالمی قوانین، انسانی و بشری حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، جنگی جرائم کے کھلے ارتکاب اور امن عالم کو خطرہ پہنچانے کے جرم میں نیتن یاہو، اس کی کابینہ، اس کے عسکری قایدین اور ناجائز ریاست پر سخت ترین پابندیاں لگاتے، مگر ہم نے دیکھا کہ اس جنگی مجرم کو عالمی عدالت انصاف، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل، انسانی حقوق کے علمبرداروں میں سے کسی نے کچھ بھی نہیں کہا۔

اگرچہ مسلمان ممالک سے زیادہ اہل مغرب نے اسرائیل کے جنگی جرائم بالخصوص بچوں کے قتل عام کو لے کر شدید مظاہرے کیے، حتی امریکی یونیورسٹیز تک میں طالب علموں کی طرف سے شدید ردعمل دیکھا گیا، مگر عملی طور پر اسرائیل کا بال بھی بیکا نہیں ہوا، لہذا وہ آج غزہ سے آگے بڑھتے ہوئے لبنان پر حملہ آور ہے، اب غزہ کی تاریخ لبنان میں دہرائی جا رہی ہے۔ گذشتہ روز سات اکتوبر کی سالگرہ کے دن بھی بہت سے مغربی ممالک میں جہاں کی پولیس اور سکیورٹی فورسز اس موضوع پر ہونے والے احتجاج پر شدید ردعمل دکھاتی آ رہی ہیں، وہاں بھی ایک سال کے مظالم کو لے کر عوام باہر نکلے ہیں اور اپنا ردعمل دکھایا ہے، جبکہ زیادہ تر مسلم ممالک نے طوفان الاقصیٰ ٰکو ایک سال ہونے پر ایک بیان تک بھی نہیں دیا۔

اسرائیل کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت تو یہ ہے کہ حماس نے اس کے جن لوگوں کو قیدی بنایا تھا، وہ انہیں رہا کروانے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ اس ایک سال میں اس نے غزہ میں زمینی کارروائی کی جتنی کوشش کی، اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ شدید مزاحمت سے اس کو منہ کی کھانا پڑی۔ ایک محدود پٹی میں گھرے ہوئے استقامت کے استعارہ مجاہدین نے اس کی ایک نہیں چلنے دی۔ بس اس کے پاس ایک ہی آپشن ہے، جس کے ذریعے یہ ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کرتا ہے، وہ ہوائی بمبارمنٹ ہے۔ اسے بلا شبہ یہ برتری حاصل ہے، جس سے یہ فوائد اٹھا رہا ہے۔ اہل غزہ کا جتنا بھی نقصان ہوا ہے، وہ اسی فضائی بمباری سے ہوا ہے۔ غزہ کے زیر زمین مجاہدین نے بہت بڑی تعداد میں ٹنل بنا کر اپنی کارروائیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اسرائیل سیٹلایٹ اور دیگر جدید ترین آلات و زمینی جاسوسوں کے وسیع جال کے ہوتے ہوئے ان ٹنلز اور اس کے سسٹم کو ختم کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیلی قیدی انہیں ٹنلز میں رکھے گئے ہیں جبکہ بعض جگہوں پر بمباری کے بعد حماس نے بتایا کہ فلان بمباری میں اسرائیل کے اتنے شہری مارے گئے ہیں، اگر اس طرح کارپٹ بمباری کی جاتی رہی تو اس کے قیدی شہریوں کی جانوں کو شدید خطرات رہینگے۔ اس میں شک نہیں کہ صیہونی موت سے ڈرتے ہیں، ان کو موت کا ڈر ہی تو ہے کہ جنگی طیاروں سے بمباری کرکے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہیں، کسی رہائیشی عمارت، اسپتال، اسکول، سڑک، بازار، مسجد، مکتب پر بمبارمنٹ کرکے اسے زمین بوس کر دینے سے ان کی بہادری اور شجاعت نہیں دکھتی بلکہ یہ سفاکیت اور درندگی ہے، جو نہتے اور پرامن لوگوں، بچوں، عورتوں کو نشانہ بنا کر دکھانا چاہتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ عالمی اداروں، انسانی و عدالتی فورمز اور دنیا کو ایک ضابطے کا پابند کرنے کے معاہدے کرنے والوں کیلئے شرمندگی اور فکر و غور کا مقام ہے، جو ایک بدمعاش، ایک ناجائز وجود، ایک غاصب، ایک ظالم، ایک سفاک، ایک جنگی مجرم کو لگام ڈالنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

افسوس اگر اس سے ایک فی صد بھی کسی مسلمان ملک نے ایسا کیا ہوتا یا کرتا تو اس کا وجود ختم کرنے کیلئے سارا عالم کفر اکٹھا ہو جاتا اور ہمارے مسلمان حکمران بھی ان کے ساتھ کاندھا ملا کے کھڑے ہوتے۔ افغانستان، لیبیا، عراق، پاکستان، شام اور یمن اس کی مثالیں ہیں، جہاں عالمی امن و انصاف اور انسانی حقوق کے چیمپئنز نے جھوٹ اور مکر و فریب سے جنگیں مسلط کیں اور مرضی کے حکمران لانے کی سازشوں پر عمل کیا۔ ایسے میں لاکھوں انسان جان سے گئے، ان میں سے کئی ممالک کا بنیادی ڈھانچہ برباد ہوا۔ لیبیا کو دیکھیں، آج تک اس کی حالت قابل رحم ہے۔ افغانستان کے لوگوں نے گذشتہ چالیس برسوں میں انہی طاقتوں کے کھیل میں جتنی جانیں گنوائیں ہیں، وہ ایک ریکارڈ ہے۔ اب بھی وہاں لوگ انجانے سے خوف میں جیتے ہیں اور دنیا بھر میں مہاجرین کی بڑی تعداد اب بھی افغانستانیوں کی ہے، یہ سب امریکہ اور اس کے استعماری منصوبوں کا نتیجہ ہے۔

یمن پر قابض ہونے کیلئے سعودیہ نے اکتالیس ملکی اتحاد بنایا اور امریکہ، برطانیہ کیساتھ مل کر تباہی لائی۔ بہت ہی خطرناک بمبارمنٹ گذشتہ نو برس سے جاری ہے، مگر وہاں کی قیادت نے استقامت دکھائی، قیادت و عوام نے اپنے ملک، اپنی زمین پر غیروں کا تسلط برداشت نہیں کیا اور مزاحمت و مقاومت سے گذشتہ آٹھ نو برس سے دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں، بلکہ غزہ کی موجودہ جنگ میں حماس اور فلسطینیوں کی جتنی مدد اور کمک یمنیوں نے کی ہے، وہ تاریخ کا ایک خوبصورت اور سنہرا باب ہے، جسے تا دیر یاد رکھا جا ئے گا۔ بحرہ احمر سے لیکر اسرائیل کے اندر تل ابیب تک ان کی اپروچ اور میزائلوں کی بھرمار نے ان کی صلاحیتوں اور شجاعت و بہادری کے ابواب کھول دیئے ہیں۔ یمنی مقاومت، دوسرے مقاومتی گروہوں کی طرح کبھی گھبراتے نہیں، ہچکچاتے نہیں، ردعمل سے ڈرتے نہیں۔

ان پر اسرائیل، امریکہ، برطانیہ، سعودیہ اور ان کے اتحادی بھی فضائی حملے کرتے ہیں، یمن کو تاراج کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ عجیب سخت قوم ہے، جو پھٹے پرانے لباس، بنا جوتوں کے میدان میں مشین گنیں اٹھا کر دشمن پر شیروں کی طرح حملہ کرتے ہیں۔ ان کا رعب، ان کی بہادری، ان کی جراتمندی سے انہیں فتح ملتی ہے۔ اگر زمینی حقائق اور طاقت کا تقابل کیا جائے تو اب تک یمنیوں کو سرنگوں ہو جانا چاہیئے تھا کہ ان کا مقابلہ اکتالیس ملکی اتحاد، امریکہ، اسرائیل، برطانیہ جیسی قوتوں کیساتھ براہ راست ہے اور ان کو اتنے برس ہوچکے ہیں۔ غزہ جنگ میں یمنیوں نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ اسرائیل، امریکہ، اس کے اتحادی ممالک کے بحری جہازوں اور کشتیوں کو میزائلوں سے تباہ کرنا ان کا ہی کام ہے۔ یہ جرءات کسی اور میں نہیں کہ امریکہ کو للکارے۔

ایک گولی بھی چلانا بدترین حماقت سمجھا جاتا ہے، جبکہ یمنیوں نے امریکہ کے جدید ترین جاسوسی ڈرونز جن کی مالیت بیسیوں ملینز امریکی ڈالرز ہے، انہیں کامیابی سے نشانہ بنایا ہے اور خاک یمن پر اتارا ہے۔ یمنیوں نے اس ایک سال میں شاید گیارہ قیمتی ترین جدید امریکی ڈرونز اتارے ہیں، ان ڈرونز کی مالیت کیساتھ ان کی مارکیٹ بھی خراب کر دی ہے، ایسے ڈرون جنہیں یمن جیسا پسماندہ ملک بلکہ ایک تنظیم باآسانی اتار لے، ان کو خریدنے میں کسے دلچسپی ہوسکتی ہے، جبکہ اس کے مقابل ایران کے ڈرونز کی شاہد سیریز نے روس کو یوکراین میں کامیابیوں سے حیران کر دیا، جس کا نتیجہ کئی ممالک کا ایران سے یہ ڈرون جاسوسی طیارے خریدنے کیلئے رجوع کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
 

لبنان میں حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل شہید سید عباس الموسوی کی بہن ہدی الموسوی نے ایکنا کو انٹرویو دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ آج ہمیں ایک ہمہ گیر جنگ کا سامنا ہے اور کہا: صیہونی فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے ہیں، اس جنگ میں ہمیں ایک جنگلی دشمن کا سامنا ہے جو کسی پر رحم نہیں کرتا۔ لبنان میں فلسطینی سرزمین کے دفاع کے لیے مزاحمت کا محور اور سپورٹ فرنٹ تشکیل دیا گیا ہے۔
          
لبنان کی حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل کی بہن نے غزہ میں فلسطینی عوام کے دفاع میں لبنان کی حزب اللہ کے اقدامات کے حوالے سے کہا: حزب اللہ کا غزہ کے عوام کا دفاع انسانی وقار کا دفاع ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کہا ہے: «وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ»: ۔. (اسرا /70) کا مطلب ہے کہ جن تمام لوگوں کو انسانی خصوصیات دیا گیا ہے ان کا احترام کیا جانا چاہیے اور ہمیں ان کا دفاع کرنا چاہیے۔. یہ ایک مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے جس کی وجہ سے حزب اللہ کے نوجوان غزہ کے لوگوں کے شانہ بشانہ اور صہیونی دشمن کے خلاف ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔
 
انہوں نے اسلامی اتحاد کی تشکیل اور تقسیم کو ختم کرنے میں اسلامی جمہوریہ ایران میں ہر سال منعقد ہونے والی اتحاد کانفرنس کے کردار کے بارے میں کہا: اس کانفرنس کی کامیابیوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کرتی ہے اور یہ سب اس پر مبنی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک قوم ہیں۔ وہ قرآن کی میز پر جمع ہوتے ہیں۔ یہ کانفرنس امام خمینی کی کوششوں کے نتائج اور ثمرات میں سے ایک ہے، جنہوں نے اسے ہفتہ وحدت کا نام دیا۔
 
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ کانفرنس مسلمانوں کے اتحاد کو اس طرح مضبوط کرتی ہے کہ جب تمام مسلمان قرآن کی میز پر اکٹھے ہوں تو یہ یاد دہانی ہے کہ ہمارا قرآن ایک ہے۔. اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی دعوت دی ہے کہ: «وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا»: اور خدا کی رسی پکریں اور تفرقے میں نہ پڑیں اور اس نعمت کو یاد رکھیں جو خدا نے آپ کو عطا کی ہے: جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اور اس نے تمہارے دلوں کو ایک دوسرے پر مہربان کیا اور اس کے فضل سے تم بھائی بن گئے۔. (العمران/103)
 
اتحاد؛ پیار پیدا کرنے اور مسلمانوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کا عنصر
 
لبنان کی حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل کی بہن نے مزید کہا: اسلامی اتحاد وحدت پیدا کرتا ہے اور مسلمانوں کے درمیان ایمان کو مضبوط کرتا ہے، اور جب مسلمانوں میں پختہ ایمان ہوتا ہے، تو وہ اپنی پوری طاقت سے دشمنوں کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں اور ایک جسم بن سکتے ہیں اور وہ مضبوط اور سب سے زیادہ طاقت اور ہمت ہو گی. اس طرح دشمن مسلمانوں میں ہر ممکن طریقے سے اختلافات پیدا نہیں کر سکتا۔
 
تمام مسلمانوں کا مقصد فلسطینی سرزمین کی آزادی ہے
 
انہوں نے مزید کہا: الحمد اللہ، آج، اس اتحاد کانفرنس کی بدولت، مسلمانوں کے درمیان ایک اتحاد قائم کیا گیا ہے، اور ہر کوئی جانتا ہے کہ ایک مقصد ہے اور ہم مسلمانوں کا نقطہ نظر اور مقصد ایک ہی ہے. ہم سب کا مقصد فلسطین کی سرزمین کو آزاد کرنا اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کو بحال کرنا ہے۔
 
ہدی الموسوی نے اتحاد پیدا کرنے اور اختلافات سے بچنے کے لیے پیغمبر اسلام (ص) کی سیاسی زندگی سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں کہا: مقدس پیغمبر (ص) رحمت کے نبی اور الہی رحمت کے منبع تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام (ص) کو بھیجا تو اس نے اسے پوری انسانیت کے لیے روشن نور بنایا، اور پہلا عمل جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجے جانے کے بعد کیا وہ مسلمانوں میں بھائی چارہ پیدا کرنا تھا۔. اس لیے اس وقت اسلامی اتحاد کی چابی فارسیوں اور رومیوں کے درمیان یہ بھائی چارہ تھا۔
 
 
الموسوی کا کہنا تھا: رسول اکرم اس بات پر معین تھے کہ آسمانی تعلیمات کا اجرا کرتے، جیسا کہ فرماتے ہیں:
 «إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً»: اور یہ امت حقیقت میں ایک امت ہے (مؤمنون/۵۲) لہذا رسول اکرم(ص) نے وحدت پیدا کی تاکہ مسلمان دشمن کے مقابلے طاقت حاصل کریں، کیونکہ اس صورت شکست نہیں کھاتے اور اس کا راز وحدت ہے۔/

 

طوفان الاقصیٰ آپریشن اور بالخصوص سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد خطے کی پیش رفت میں لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کی ناقابل تردید پوزیشن مزید واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ غزہ میں بے دفاع خواتین اور بچوں کے قتل عام اور ان کی نسل کشی کے بعد صیہونی حکومت نے ماضی کی طرح ایک بار پھر ریاستی دہشت گردی کو اپنے ایجنڈے پر رکھا ہوا ہے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد صیہونیوں کا اس جھوٹے تصور کو کہ وہ لبنان سمیت خطے کے مزاحمتی گروہوں کے سرکردہ رہنماؤں کو قتل کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کر لیں گے، اسے آج مزاحمتی تحریک نے ناکام بنا دیا ہے۔ صیہونیوں کی مجرمانہ کارروائی اور حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے قتل نے واضح طور پر ثابت کر دیا ہے کہ نہ صرف فلسطین میں بلکہ پورے خطے میں مزاحمت کی تحریک مزید ابھر کر سامنے ائی ہے۔ صیہونیوں کی طرف سے مزاحمتی قیادت کو ختم کرنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، کیونکہ اس پھل دار درخت نے اپنی جڑیں ہر جگہ پھیلا رکھی ہیں اور مقاومت و استقامت صیہونی دشمن کے مقابل میں استوار و سربلند ہے۔

سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد عالم اسلام میں ہمدردی، یکجہتی اور رفاقت کی لہر میں اضافہ ہوا ہے اور لبنان اور خطے کے مختلف ممالک میں بہت سے نوجوانوں نے ریلیوں اور یادگاری تقریبات کا انعقاد کرکے حزب اللہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ خطے میں نیوز نیٹ ورکس نے بھرپور آواز اٹھائی اور مغرب یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوا کہ مزاحمتی تحریک کی جڑیں عوام بالخصوص نوجوان نسل میں مضبوط اور مستحکم ہیں۔ صیہونی مجرموں اور ان کے امریکی اور مغربی حامیوں کے خلاف ڈٹ جانا، صیہونی حکومت کی جارحیت کے مقابلے میں عوام کی حفاظت اور اپنی سرحدوں کی حفاظت جیسے اہم عوامل نے خطے کی مساوات میں اسلامی مزاحمت کے مقام اور کردار کو نمایاں کردیا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ، یمن کی انصاراللہ نیز عراق اور فلسطین کے دیگر مزاحمتی گروہوں نے حالیہ مہینوں میں صیہونی حکومت کے خلاف استقامت اور جرأت کا شاندار مظاہرہ کیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ صیہونی ریاست حالیہ مہینوں میں اس استقامت اور مقاومت کی طاقت پر حیران و پریشان ہے۔ صیہونی مزاحمت کے سامنے اپنی نااہلیت کو تسلیم کرتے  نظر آرہے ہیں۔

حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے 4 اکتوبر کو نماز جمعہ کے بیانات میں شہید حسن نصراللہ کی شخصیت، ان کی روح، ان کے طریقے اور ان کی آواز کو پائیدار قرار دیا اور فرمایا: وہ ظالم اور جابر شیاطین کے خلاف مزاحمت کا ایک بلند پرچم تھے۔ وہ ایک فصیح زبان اور مظلوموں کے بہادر محافظ اور مجاہدین اور حقوق کے متلاشیوں کے لیے حوصلہ اور عزم کا ذریعہ تھے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: سید حسن نصراللہ عالم اسلام کے ترجمان تھے۔ ہم سید حسن نصراللہ کے لئے سوگوار ہيں، لیکن ہمارا سوگ مایوسی کی وجہ سے نہيں ہے بلکہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی طرح ہے، یعنی ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے۔ سید حسن نصراللہ کا جسم ہمارے درمیان نہيں ہے، لیکن ان کے افکار، ان کی جدوجہد اور ان کی روح ہمارے درمیان ہے۔ ان کے اثرات کا دائرہ لبنان و ایران سے بہت آگے تھا۔ اب ان کی شہادت سے اس اثر میں اضافہ ہوگا۔

رہبر انقلاب نے مزید فرمایا آپ اپنی کوشش اور طاقت میں اضافہ کریں، اپنی یکجہتی کو دوگنا کریں۔ جارح دشمن کے خلاف ایمان اور توکل کو مضبوط کرکے اسے شکست دیں۔ ہمارے شہید سید اپنی قوم، مزاحمتی بلاک اور پوری امت اسلامیہ سے یہی چاہتے ہیں۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے نتائج نے خطے میں مزاحمتی گروہوں کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ نے صیہونیوں کے ساتھ مختلف محاذوں پر جدوجہد اور لڑائی کی ایک طویل تاریخ کے ساتھ حالیہ پیش رفت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صیہونی حکومت نے مزاحمتی گروہوں کا براہ راست مقابلہ کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اب منظم دہشت گردی کی طرف رخ کر لیا ہے، لیکن ان مجرمانہ اقدامات سے صیہونیوں کے زوال کی تیزی اور سرعت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان شاء اللہ

تحریر: احسان شاہ ابراہیم