
سلیمانی
غزہ میں قحط، مغربی تہذیب کی سفاکیت
غزہ کی پٹی اور اس کے لاکھوں محصورین اس وقت شدید کرب کی صورتحال میں مبتلا ہیں۔ غزہ جو پہلے ہی گذشتہ انیس ماہ میں امریکی اور اسرائیلی گولہ بارود کی زد میں ملبہ کا ڈھیر بن چکا ہے اور اب گذشتہ دو ماہ سے غزہ میں بھوک اور پیاس کی شدت سے اموات ہو رہی ہیں۔ یعنی غزہ میں بدترین قحط پڑ چکا ہے۔ یہ قحط مغربی تہذیب کی سفاکیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امریکی اور اسرائیلی غاصب حکومت کے مشترکہ منصوبہ کے تحت غزہ میں آنے والی امداد کو روک دیا گیا ہے، تاکہ لوگ بھوک اور پیاس کی شدت سے مارے جائیں اور دبائو کے باعث غزہ کے علاقہ کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے دورے کے موقع پر کھلم کھلا ڈھٹائی اور غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ کے لوگوں کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ مشکلات میں ہیں۔ ہم ان کو روٹی اور پانی دینا چاہتے ہیں، لیکن وہ حماس سے الگ ہو جائیں اور غزہ سے نکل جائیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کا عرب حکمرانوں کے سامنے یہ بیان دراصل مغربی حکومتوں کے اصل مکروہ چہرہ کو عیاں کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ عرب حکمرانوں کی بے شرمی اور بے غیرتی پر دلیل بھی تھا۔ اسی طرح ٹرمپ کا یہ بیاں واضح طور پر مغربی دنیا کی سفاک تہذیب کی عکاسی کر رہا تھا کہ ہم کس طرح غزہ کے لوگوں کو بھوک اور پیاس سے مارنا چاہتے ہیں۔ چند روز قبل ہی کی بات ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے اپنے سفاک چہرے پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی اور غزہ کی سرزمین جہاں ہر سانس بھوک، خوف اور محرومی کی گواہی بن چکی ہے، وہاں قابض اسرائیل ایک نیا مکروہ کھیل کھیلنے کا ارادہ کیا۔ دو ماہ سے زائد کی مکمل ناکہ بندی کے بعد اچانک چند درجن امدادی ٹرکوں کی اجازت، انسانیت کے نام پر ایک نئی چال بازی اور دھوکہ ہے۔ ایسا دھوکہ جو بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک کر قابض ریاست کی مکروہ تصویر کو دنیا کے سامنے صاف کرنا چاہتا ہے۔
غاصب صیہونی ریاست کے اس مکر و فریب کی چال سے متعلق مرکز برائے فلسطینی انسانی حقوق نے اپنے بیان میں اس سازش کو بے نقاب کیا ہے اور کہا ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا نام نہاد انسانی رویہ درحقیقت ایک بے رحم مداخلت ہے، جو نہ صرف امدادی کارروائیوں کو محدود کر رہا ہے، بلکہ غزہ کے باسیوں پر "منظم بھوک” مسلط کرکے ان کی بنیادی انسانی اقدار کو پامال کر رہا ہے۔ غزہ کو بھوک اور قحط سے بچانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر کم سے کم 600 ٹرک امداد کی ضرورت ہے، لیکن غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے امدادی قافلوں کی غزہ آمد پر پابندی لگا رکھی ہے۔ کچھ روز قبل چند ٹرک چھوڑ کر غاصب صیہونیوں نے اپنے انسانی چہرے کو عیاں کرنے کی جو ناکام کوشش کی، اس سے مزید یہ ثابت ہوا کہ غاصب ریاست اسرائیل غزہ کے لئے امداد نہیں بلکہ غزہ کے لوگوں کو تڑپا تڑپا کر مار دینا چاہتی ہے۔
گذشتہ دنوں کی بات ہے کہ غزہ کی کرم ابو سالم کراسنگ سے داخل ہونے والی امدادی گاڑیوں کی تعداد درجنوں سے آگے نہ بڑھ سکی، جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی زندہ رہنے کی بنیادی ضروریات کے لیے روزانہ کم از کم 600 ٹرک درکار ہیں، لیکن آج بھی سیکڑوں ٹن امدادی سامان، دوائیں، طبی سازوسامان اور غذائی اشیاء اسرائیلی رکاوٹوں کی نذر ہو کر غزہ کی دہلیز پر تباہی سے دوچار ہو رہے ہیں۔ غزہ کو بھوک اور قحط سے نکالنے کے لئے عالمی ادارہ برائے خوراک کی کارکردگی بھی ناقص رہی ہے۔ دوسری طرف اونروا کہ جس کا غزہ میں ایک نظام موجود تھا، اس ادارے کو بھی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے نہیں دے رہی ہے اور اس عالمی ایجنسی کے ادارے کے امدادی کارکنوں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس ساری صورتحال میں امریکی صدر ٹرمپ سمیت مغربی و یورپی دنیا کی حکومتیں فقط بیان بازیوں تک ہی محدود ہیں۔ اگر یہ صورتحال کسی اور ملک میں رونما ہوتی تو شاید امریکی اور نیٹو کی فوجیں جا کر وہاں جنگ مسلط کر دیتیں، لیکن غاصب اسرائیل کے لئے تو امریکہ اور یورپی ممالک کی حکومتیں مدد گار ہیں، نیٹو آخر یہاں کس کے لئے کاروائی کرے گی۔؟ چاہے یہاں دو لاکھ لوگ مر جائیں یا پھر بھوک کی وجہ سے غزہ کے بیس لاکھ لوگ بھی مارے جائیں، لیکن یہاں مغربی تہذیب کو نہ تو انسانیت نظر آنے کی ہے اور نہ ہی امن و امان کی بات کی جائے گی۔ کیا امریکی حکومت اس قدر بے بس ہے کہ وہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو لگام نہیں دے سکتی۔؟ ہرگز نہیں بلکہ امریکی حکومت اس قتل عام اور نسل کشی میں برابر کی شریک ہے۔ یہی مغربی دنیا کی سفاک تہذیب ہے، جو دنیا کو انارکی اور تباہی کے دہانے پر پہنچانے کا کردار ادا کر رہی ہے۔
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا منصوبہ واضح ہے۔ محدود امداد کی آڑ میں مخصوص علاقوں جیسے رفح میں فلسطینیوں کو یکجا کرنا، شمالی اور وسطی غزہ کو انسانی وجود سے خالی کرنا اور ان علاقوں کو تباہ شدہ زمین میں تبدیل کرنا، امداد یہاں ایک انسانی ذمہ داری نہیں بلکہ سیاسی آلہ کار بن چکی ہے۔ غاصب اسرائیلی حکومت یہ سب کچھ امریکی حکومت کی مدد سے انجام دے رہی ہے۔غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا یہ بیان کہ امداد کی اجازت فوجی کارروائی کے لیے ضروری ہے، دراصل اس گھناؤنے منصوبے کا کھلا اعتراف ہے کہ خوراک اور دواوں کو اب غاصب ریاست کے ہاتھوں میں ایک جنگی ہتھیار بن چکی ہے، ایک ایسا ہتھیار جو بچوں، عورتوں، مریضوں اور بزرگوں سب کو یکساں نشانہ بنا رہا ہے۔
مرکز برائے فلسطینی انسانی حقوق نے سخت الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل امدادی عمل کو دانستہ سیاسی حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے، تاکہ فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کیا جا سکے، ان کی آبادی کو منتشر کیا جا سکے اور ایک زندہ، مزاحمت کرتی قوم کو بھوک، موت اور تباہی کی سرحد پر لا کھڑا کیا جائے۔یہ ساری صورتحال مغربی دنیا کی حکومتیں خاموشی سے دیکھ رہی ہیں اور کوئی بھی عملی اقدام کرنے سے قاصر ہیں، کیونکہ مغربی تہذیب ان حکومتوں کو اجازت نہیں دیتی، اس لئے اس تہذیب کو سفاک تہذیب کہا گیا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
یورینیم کی افزودگی سرخ لکیر کیوں؟
ایران اور مغرب کے درمیان دو دہائیوں پر محیط جوہری مذاکرات کے دوران اختلاف کا سب سے اہم نکتہ "یورینیم کی افزودگی" کا مسئلہ رہا ہے۔ افزودگی دونوں فریقوں کے درمیان اس قدر متنازعہ کیوں ہے؟ اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جوہری ٹیکنالوجی میں، (جو برسوں سے بنی نوع انسان کے لیے دلچسپی کا باعث رہی ہے) "ایٹمی ایندھن کی پیداوار کے سائیکل" کو ایک کلیدی عنصر سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی ملک اس عمل پر مکمل کنٹرول رکھتا ہو تو اسے حقیقی معنوں میں جوہری طاقت کہا جاتا ہے۔ اس سائیکل میں، جو سرنگوں سے یورینیم نکالنے سے شروع ہوتا ہے اور اس کی دوبارہ پروسیسنگ تک جاری رہتا ہے، اس میں سب سے اہم مرحلہ "یورینیم کی افزودگی میں اضافہ" ہے، تاکہ اسے توانائی کی پیداوار کے لیے تیار کیا جا سکے۔ دوسرے لفظوں میں، نیوکلیئر ہونے کا انحصار مکمل نیوکلیئر فیول سائیکل ہونے پر ہے اور ایک مکمل نیوکلیئر فیول سائیکل صنعتی طور پر یورینیم کو افزودہ کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔
افزودگی کے عمل میں سنٹری فیوجز کی اعلیٰ سطح کا ہونا ضروری ہے، جس میں مصنوعات کو حاصل کرنے کے لیے ایک خاص درستگی اور معیار کا ہونا ضروری ہے۔ درحقیقت، جوہری ایندھن کی پیداوار کے سلسلے کا سب سے پیچیدہ حصہ افزودگی ہے۔ بلاشبہ، افزودگی مختلف سطحوں اور فیصدوں پر کی جاتی ہے اور افزودگی کی یہ شرح مختلف مصنوعات میں استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کم افزودگی (5 فیصد تک) بنیادی طور پر جوہری توانائی پیدا کرنے کے مقصد کے لیے ہے، درمیانی افزودگی (20 فیصد تک) کا استعمال ادویات اور زراعت میں ریڈیو آسوٹوپس بنانے کے لیے کیا جاتا ہے، زیادہ افزودگی (60 فیصد تک) جدید آلات جیسے آبدوزوں میں استعمال کی جا سکتی ہے اور 90 فیصد اور اس سے اوپر کی افزودگی فوجی ایپلی کیشن یا ایٹم بم کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
تحریر: محمد جواد اخوان
سنوار زندہ ہے
اسرائیلی سفارت خانے کے دو ملازمین کو ہلاک کرنے والا نوجوان امریکی "مزاحمت" اور "اسرائیل کے ڈراؤنے خواب" کی علامت بن گیا ہے اور سوشل میڈیا کے صارفین اس کا موازنہ یحییٰ سنوار سے کر رہے ہیں۔ فارس نیوز ایجنسی انٹرنیشنل گروپ کے مطابق، عربی بولنے والے اور ترکی بولنے والے صارفین نے X-Space پر یحییٰ سنوار اور الیاس روڈریگز کی تصویر شیئر کی، جس میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کی حمایت کرنے کے لیے ان دونوں افراد کی ہمت اور آزادی کی تعریف کی گئی ہے۔ کارکنوں نے سنوار کو قتل کر دیا۔ سنوار واشنگٹن کے مرکز میں زندہ ہوگیا۔ بدھ کی شام 11 مئی کو امریکی نوجوان الیاس روڈریگز نے واشنگٹن ڈی سی میں یہودی میوزیم کے سامنے اسرائیلی سفارت کاروں کے ایک گروپ پر حملہ کیا اور صیہونی حکومت کے سفارت خانے کے دو ملازمین کو نشانہ بنایا۔
اس سے قبل امریکی فوج کے ایک پائلٹ ایرون بشنیل نے بھی غزہ کی جنگ اور تل ابیب کے جنگی جرائم کی امریکہ کی بھرپور حمایت کے خلاف احتجاجاً اپنی جان خطرے میں ڈال کر واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی۔ اس معاملے میں جس چیز نے صارفین کی توجہ مبذول کروائی، وہ یہ ہے کہ روڈریگز شوٹنگ کے بعد موقع سے فرار نہیں ہوئے بلکہ میوزیم کے گیٹ کے قریب پولیس کے آنے کا انتظار کرتے رہے۔ شکاگو سے تعلق رکھنے والے ایک امریکی مصنف اور محقق جو افریقی نژاد امریکی رہنماؤں کی سوانح حیات کو دستاویزی شکل دینے میں مہارت رکھتے ہیں، انہوں نے پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے پر "فلسطین کو آزاد کرو" کا نعرہ لگایا اور کہا کہ اس نے یہ کام فلسطینی عوام کی حمایت میں کیا ہے۔
اس نوجوان امریکی کے بارے میں سوشل میڈیا کے صارفین کے کچھ تبصرے درج ذیل ہیں: "امریکہ میں دو صہیونیوں کی موت کی خبر سے شروع ہونے والا دن خدا کا دن ہے، تعطیل اور چھٹی کا دن۔ محترم الیاس روڈریگز، ہمیں یاد دلانے کے لیے آپ کا شکریہ کہ صیہونیوں کے لیے اب کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ آپ کا یہ عمل اور کورونا وائرس دونوں بہت زیادہ تیزی سے پھیلے، لیکن آپ کا عمل مثبت تھا اور دوسرا انفیکشن منفی تھا۔ لاطینی کرسچن #Elias_Rodriguez اس نے تاریخ کا مطالعہ کیا اور پھر اسے بنایا۔ اس نے جو دیکھا، وہ برداشت نہ کرسکا۔ ٹی وی پر غزہ کے لوگوں کے بارے میں پروگرام چل رہے تھے، وہ ان کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے طریقے سے بدلہ لیا۔ ایسا لگتا ہے کہ الیاس کا رول ماڈل ابو ابراہیم السنور تھا۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ نے سنور کو مارا ہے، لیکن وہ ہر اس جگہ ظاہر ہوتا ہے، جہاں آپ کو لگتا ہے کہ آپ سب سے محفوظ ہیں، وہ آپ کے دماغ میں جاکر پھٹتا ہے۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی
شیراز مرصع کاری ہاؤس
شیرازی مرصع کاری،اہم ترین اور خالص ترین ایرانی مرصع کاری شمار ہوتی ہے جس کی تاریخ ایک ہزار برس سے زیادہ ہے۔ مرصع کاری کے شیرازی فنکار، معیاری سامان خاص قسم کی لکڑیوں اور قدرتی ہڈیوں پر اپنی منفرد مہارت کے ساتھ فنکاری کے جوہر دکھاتے ہیں اور اس بات نے شیرازی مرصع کاری کو ممتازکردیا ہے۔ شیرازی مرصع کاری کے ممتاز فنکار، حمید اطمینان نے اپنے ذاتی خرچ سے اس شہر کی ایک تاریخی عمارت میں، " خانہ خاتم شیراز" یعنی شیراز مرصع کاری ہاؤس کے نام سے شیرازی مرصع کاری کا ایک میوزیم بنایا ہے جو ایران کی ایک ثقافتی میراث، شیراز کے مخصوص فن مرصع کاری کو متعارف کرانے اور معروف فنکاروں کے تیار کردہ نادر فنپاروں کے تحفظ اور نمائش کا مرکز شمار ہوتا ہے۔
شہید رئیسی چیلنجوں کے مقابلے میں کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوئے، مشیر رہبر انقلاب
، ایران کی عدلیہ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین محسنی ایجی نے شہید رئیسی کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً 1976ء کے بعد کے سالوں میں، دینی مدارس میں ایک نیا ماحول تھا، اور جن لوگوں نے سیاسی مسائل کو اٹھایا، ان میں سے ایک شہید بہشتی تھے، اس دور کے نوجوان ان بزرگوں سے قریب ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ تب سے میری شہید رئیسی سے شناسائی شروع ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں انقلاب سے پہلے ان سے واقف نہیں تھا، اور انقلاب کے بعد ہی میں شہید رئیسی سے آشنا ہوا۔" انقلاب کے بعد نوجوان عدلیہ میں آنے لگے۔ اس وقت ایک انقلابی ماحول اور بدعنوانی کے خلاف جنگ (کسی بھی قسم کی بدعنوانی کے خلاف جنگ) غالب تھی، اس وقت ہمارے رابطے میں اضافہ ہوا۔
حجت الاسلام اژہ ای نے مزید کہا کہ 1987 کے بعد سے ان کی شہادت تک، کبھی بھی ہمارے رابطے میں خلل نہیں پڑا اور ان چالیس سالوں کے دوران، ہم نے سب سے زیادہ تعاون کیا۔
انہوں نے شہید رئیسی کی نمایاں خصوصیات کے بارے میں کہا کہ انقلاب کے بعد ایسے لوگ تھے جو ظاہری طور پر انقلابی تھے لیکن بعد میں انہوں نے اپنا راستہ بدل لیا، تاہم کچھ لوگ انقلاب کے آغاز سے ہی صراط مستقیم اور رہبری اور نظام کے راستے پر قائم رہے، میری رائے میں یہ ان اہم خصوصیات میں سے ایک ہے جو شہید رئیسی میں موجود تھی اور وہ آخر تک اس راستے پر قائم رہے۔
ایرانی چیف جسٹس نے کہا کہ شہید رئیسی کی ایک اور خصوصیت مسائل کی پیروی تھی، اور یہ میرے لیے دلچسپ تھا، جب وہ عدلیہ کے سربراہ تھے تو میں ان کا نائب تھا اور میں نے شہید رئیسی کی مختلف مسائل میں باقاعدہ پیروی کا مشاہدہ کیا، اپنے اہداف کے حصول میں انتھک رہنا ان کی واضح خوبیوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے شہید رئیسی کی شہادت کے حوالے سے کہا: ہم اس دن کو کیسے بھول سکتے ہیں، ہم نے معاشرے کی ایک عظیم اور ہر دلعزیز شخصیت کو کھو دیا۔ مجھے صحیح وقت یاد نہیں، لیکن مجھے یاد ہے جب مجھے بتایا گیا کہ ہیلی کاپٹر غائب ہے۔ میں شہید رئیسی کو جانتا تھا اور مجھے یہ خبر سن کر کوئی صدمہ نہیں ہوا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ کسی گاؤں میں رک گئے ہیں، لیکن اس کے بعد آنے والی خبروں نے میری پریشانی بڑھا دی۔ ان کی شہادت کی خبر بہت دل دہلا دینے والی تھی۔
ایران کا فضائی دفاعی نظام پہلے سے کئی گنا مضبوط ہوگیا ہے، جنرل باقری
، اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے کہا ہے کہ ایران کی فضائی دفاعی صلاحیتوں اور تیاریوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
تہران میں فضائی دفاع کے کمانڈروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بعض شعبوں میں ہم نے غیر ملکی طاقتوں کی سرگرمیوں کی شناخت اور نگرانی کی صلاحیت میں پانچ گنا اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مشکوک پروازوں اور انہیں تباہ کرنے والے نظاموں کی صلاحیتیں دو سے تین گنا بہتر ہو چکی ہیں۔
جنرل باقری نے دشمنوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے دشمنوں کو کسی بھی قدم سے پہلے کئی بار سوچنا چاہیے۔ وہ جان لیں کہ ہمارے فضائی حدود کی خلاف ورزی ان کے لیے بھاری نقصان کا باعث بنے گی۔ ان کا نقصان متوقع فوائد سے کئی گنا زائد ہوگا۔
شہید رئیسی آغاز سے ہی نظام ولایت کے راستے پر ثابت قدم رہے، ایرانی چیف جسٹس
مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی عدلیہ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین محسنی ایجی نے شہید رئیسی کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً 1976ء کے بعد کے سالوں میں، دینی مدارس میں ایک نیا ماحول تھا، اور جن لوگوں نے سیاسی مسائل کو اٹھایا، ان میں سے ایک شہید بہشتی تھے، اس دور کے نوجوان ان بزرگوں سے قریب ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ تب سے میری شہید رئیسی سے شناسائی شروع ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں انقلاب سے پہلے ان سے واقف نہیں تھا، اور انقلاب کے بعد ہی میں شہید رئیسی سے آشنا ہوا۔" انقلاب کے بعد نوجوان عدلیہ میں آنے لگے۔ اس وقت ایک انقلابی ماحول اور بدعنوانی کے خلاف جنگ (کسی بھی قسم کی بدعنوانی کے خلاف جنگ) غالب تھی، اس وقت ہمارے رابطے میں اضافہ ہوا۔
حجت الاسلام اژہ ای نے مزید کہا کہ 1987 کے بعد سے ان کی شہادت تک، کبھی بھی ہمارے رابطے میں خلل نہیں پڑا اور ان چالیس سالوں کے دوران، ہم نے سب سے زیادہ تعاون کیا۔
انہوں نے شہید رئیسی کی نمایاں خصوصیات کے بارے میں کہا کہ انقلاب کے بعد ایسے لوگ تھے جو ظاہری طور پر انقلابی تھے لیکن بعد میں انہوں نے اپنا راستہ بدل لیا، تاہم کچھ لوگ انقلاب کے آغاز سے ہی صراط مستقیم اور رہبری اور نظام کے راستے پر قائم رہے، میری رائے میں یہ ان اہم خصوصیات میں سے ایک ہے جو شہید رئیسی میں موجود تھی اور وہ آخر تک اس راستے پر قائم رہے۔
ایرانی چیف جسٹس نے کہا کہ شہید رئیسی کی ایک اور خصوصیت مسائل کی پیروی تھی، اور یہ میرے لیے دلچسپ تھا، جب وہ عدلیہ کے سربراہ تھے تو میں ان کا نائب تھا اور میں نے شہید رئیسی کی مختلف مسائل میں باقاعدہ پیروی کا مشاہدہ کیا، اپنے اہداف کے حصول میں انتھک رہنا ان کی واضح خوبیوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے شہید رئیسی کی شہادت کے حوالے سے کہا: ہم اس دن کو کیسے بھول سکتے ہیں، ہم نے معاشرے کی ایک عظیم اور ہر دلعزیز شخصیت کو کھو دیا۔ مجھے صحیح وقت یاد نہیں، لیکن مجھے یاد ہے جب مجھے بتایا گیا کہ ہیلی کاپٹر غائب ہے۔ میں شہید رئیسی کو جانتا تھا اور مجھے یہ خبر سن کر کوئی صدمہ نہیں ہوا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ کسی گاؤں میں رک گئے ہیں، لیکن اس کے بعد آنے والی خبروں نے میری پریشانی بڑھا دی۔ ان کی شہادت کی خبر بہت دل دہلا دینے والی تھی۔
صدر پزشکیان: ملت ایران کی ترقی و پیشرفت کے لئے ہم کسی سے اجازت نہیں لیں گے
در ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے پیر کی شام عراق کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ فواد حسین سے ملاقات میں، کہا کہ ایران اور عراق کے روابط کا تعلق آج یا کل سے نہیں ہے بلکہ ہمارے تعلقات کی بنیادیں کئی ہزار سال پرانی اور محکم ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ ایران اور عراق دونوں ملکوں کے عوام کے قومی، لسانی اور ثقافتی اشتراکات، ان کے اٹوٹ رشتوں اور محکم روابط کی عکاسی کرتے ہیں۔
صدر ایران نے کہا کہ ہم سے جہاں تاک ممکن ہوگا، مختلف میدانوں، منجملہ، تجارت، صنعت، صحت اور علاج معالجے، اعلی تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے میدانوں میں باہمی روابط اور تعاون کو فروغ دیں گے۔
انھوں نے دونوں ملکوں کے سرحدی صوبوں کی انتظامیہ کے اچھے روابط پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات سرحدی تجارت اور علاقائی تعاون میں فروغ کی بنیاد بن سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ریلوے لائن سمیت مشترکہ مواصلاتی پروجکٹوں کی تکمیل، ایران اورعراق کے روابط کے استحکام پر منتج ہوگی۔
صدر ایران نے اپنی گفتگو کے ایک اور حصے میں ایران امریکا بالواسطہ مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکی حکومت اپنے اس دعوے میں سچی ہو کہ اسے یہ تشویش ہے کہ ایران ایٹمی اسلحہ نہ بنالے تو ہم اس کو مطمئن کرسکتے ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ ایران زور زبردستی ہرگز قبول نہیں کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ ہم اپنے عوام کو صحت، علاج معالجے، زراعت اور صنعات میں پر امن ایٹمی ٹیکنالوجی کے فائدوں سے ہرگز محروم نہیں کریں گے اور اپنی قوم کی ترقی و پیشرفت کے لئے ہمیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
چور مچائے شور
ایک دن ایک چور بھاگ رہا تھا اور لوگ اس کی چوری کو دیکھ کر اس کا پیچھا کر رہے تھے اور چیخ رہے تھے۔ چور، چور، چور کو پکڑو۔ چوری کرنے اور فرار میں ماہر اس چالاک چور نے لوگوں کی گرفت سے بچنے کے لیے ایک عجیب و غریب چال کا سہارا لیا۔ اس نے دوسروں سے زیادہ زور سے چیخنا چلانا شروع کر دیا اور کہنے لگا۔ ارے چور، چور کو پکڑو اور وہ دوسروں کی طرف ہاتھ سے اشارہ بھی کر رہا تھا کہ دیکھو چور اس طرف فرار کر رہا ہے۔ اب اس چور کی کہانی عالمی سطح پر ایک عجیب انداز میں دہرائی جا رہی ہے۔ صیہونی حکومت کی من گھڑت سازشوں کی وجہ سے مغربی ایشیائی خطہ کئی دہائیوں سے شدید ترین بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس قبضے سے ایک مظلوم قوم کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے اور اب غزہ میں اس قوم کا ایک حصہ انتہائی مشکل اور ناقابل بیان حالات میں ہر روز ایک نئے سانحے سے نبرد آزما ہے۔
ان تمام جرائم، قتل و غارت اور لوٹ مار کی اصل وجہ ماضی میں انگلستان اور حال میں امریکہ جیسی مغربی حکومتیں ہیں۔ ٹرمپ اس وقت صیہونی حکومت کے تمام جرائم میں اس کا اصل حامی اور پشت پناہ ہے۔ اب یہ ظالم، جابر اور صیہونی جلادوں اور دیگر دہشت گرد غنڈوں کا حامی اپنے عجیب و غریب موقف سے، پوری ڈھٹائی سے دوسروں کو خطے میں بحران پیدا کرنے کا سبب بتا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے ساتھ ایک نجی ملاقات کے دوران ایران کے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام پر تشویش کا اظہار کیا۔ بعد ازاں، خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے رہنماؤں سے بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو دہشت گردی کی سرپرستی بند کرنی چاہیئے، اپنی خونی پراکسی جنگوں کو ختم کرنا چاہیئے اور مستقل طور پر اور تصدیق شدہ طور پر اپنے جوہری ہتھیاروں کے حصول کو ختم کرنا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتے۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تہران پر تنقید کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایران کسی بھی قسم کی دھمکی یا غنڈہ گردی کے آگے نہیں جھکے گا۔ امریکی ایران کے خلاف یہ دعوے ایسے عالم میں کر رہے کہ جب امریکہ کی فوجی مداخلتوں نے علاقے کی صورتحال کو جنگ، آشوب اور تقسیم ہونے سے دوچار کر دیا ہے۔ مغربی ایشیاء کی افسوسناک موجودہ صورتحال، کہ جو امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی حمایت سے دہشت گرد گروہوں کی جولانگاہ بن چکی ہے، اسی حقیقت کا ثبوت ہے۔ امریکہ نے مغربی ایشیاء سے شمالی افریقہ تک کے علاقوں میں امن قائم کرنے کے بہانے اپنے یکطرفہ اقدامات کے ذریعے اس پورے علاقے کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ امریکہ نے گذشتہ چار عشروں کے دوران عملی طور پر بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ علاقے میں امن و امان قائم کرنے کے درپے نہیں ہے۔
امریکہ نے داعش دہشت گرد گروہ کی جو مدد کی ہے، اس سے اس دہشت گرد گروہ کو پرامن ماحول میں سرگرمیاں جاری رکھنے کا موقع فراہم ہوا ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل بھی القاعدہ کی حمایت سے وہ مشرق وسطیٰ کے علاقے پر تسلط اور اثرو نفوذ کے درپے رہا ہے۔ امریکی اقدامات سے علاقے اور دنیا کی قوموں کو دہشت گردی، جنگ، تقسیم اور بدامنی میں شدت کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ ایرانی صدر نے امریکی صدر اور دیگر حکام کے حالیہ خلیجی ممالک کے دورے کے دوران دیئے گئے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ "کیا آپ ہمیں ڈرانے کے لیے آئے ہیں؟ ہم ایسے ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرتے اور شہادت کی موت ہمارے لیے بستر پر مرنے سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔"
حقیقت یہ ہے کہ خطے کی اقوام کے وسائل اور ذخائر کا اصل چور اور لوٹ مار کرنے والا، نیز غزہ میں بحرانوں، قتل و غارت، جرائم اور نسل کشی کا اصل سبب امریکہ ہے۔ اس ملک کے صدر نے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران ایران کو خطے میں عدم استحکام اور بحرانوں کی اصل وجہ کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد کے سالوں میں ایران کے کردار کا خطے کے تناظر میں خلاصہ ان الفاظ میں کیا جا سکتا ہے کہ ایران نے خطے کی قوموں کے لیے خیر خواہی اور ایرانیوں کے لیے قومی وقار کو یقینی بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔ فلسطین کے مظلوموں کی مدد کرنا، قبضے کے خلاف جنگ، ملت اسلامیہ کے اتحاد کا دفاع، مظلوم قوموں کی مدد کرنا، غنڈہ گردی اور استبداد کا مقابلہ کرنا اور بالآخر، ایک نئی اسلامی تہذیب کی تعمیر اور اسلامی دنیا کو سربلند کرنے کے نقطہ نظر کے علاوہ ایران نے ان 47 برسوں میں کیا اقدامات انجام دیئے ہیں۔
مندرجہ بالا اقدامات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی قوم اور ملت اسلامیہ کے لیے ولایت فقیہ ایک نعمت سے کم نہیں۔ اسلامی جمہوری نظام کی طرف سے انسانی خیر خواہی، آزادی، انصاف اور پیشرفت کی تلاش ایک ایسا نقطہ نظر ہے، جو تسلط پسند نظام کے مفادات اور امریکہ جیسے عالمی استکبار کی منشا و اہداف سے متصادم ہے۔ لہٰذا، یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایسے حالات میں، ٹرمپ سمیت تسلط پسند نظام کے رہنماء، اپنی چوری، لوٹ مار، جرم اور تسلط کو جاری رکھنے کے لیے دھوکہ دہی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور ظالم اور مظلوم نیز قاتل اور مقتول کی جگہ بدل دیتے ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بہتر ہے کہ "نیکی" اور "برائی" کی جگہ بدل دیتے ہیں۔ لیکن آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ روشن و تابندہ چاند ہمیشہ سیاہ بادلوں کے پیچھے نہیں رہتا، ایک ایسا وقت ضرور آتا ہے، جب اس کی چمک سب کو ماند کر دیتی ہے۔
تحریر: یداللہ جوانی