سلیمانی

سلیمانی

 مسجد اعظم قم میں 27 ستمبر 2025 کو درسِ فقہ کے اختتام پر آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کے کلام «لَا یَمْنَعُ الضَّیْمَ الذَّلِیلُ» کی روشنی میں کہا کہ جس قوم کا یقین یہ ہو کہ دنیا کی زندگی چند سانسوں کی مہمان ہے اور شہادت ’’روح و ریحان‘‘ ہے، وہ کبھی بھی دھمکیوں اور دباؤ سے مرعوب نہیں ہوتی۔ اسلام کا بھی یہی پیغام ہے کہ عزت اور مزاحمت کے ساتھ جیا جائے۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’پتھر جہاں سے آیا ہے وہیں واپس پھینکو، مرد بنو اور مردانہ زندگی بسر کرو۔‘‘

انہوں نے کہا کہ روایاتِ معصومینؑ کے مطابق انسان اپنی عزت و آبرو کا مالک مطلق نہیں بلکہ اللہ کی امانت دار ہے، جس طرح عورت کی عصمت اور ناموس الٰہی امانت ہے۔ لہٰذا کوئی بھی شخص اپنی یا کسی مومن کی آبرو کو ذلت کے ساتھ برباد کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

حضرت آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے امام معصوم علیہ السلام کا فرمان نقل کیا کہ: «إنَّ اللّه فَوَّضَ إلَی المُؤمِنِ اُمورَهُ کُلَّها، و لَم یُفَوِّضْ إلَیهِ أن یَکونَ ذَلیلاً» یعنی خدا نے مؤمن کے تمام امور اس کے سپرد کیے ہیں، مگر اسے کبھی ذلت برداشت کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح ایک قوم کو بھی حق نہیں کہ وہ خود کو ذلیل کرے اور اپنی اجتماعی عزت کو پامال کرے۔

آخر میں آپ نے دعا کی کہ خداوند متعال اہل بیت علیہم السلام کی آبرو کے صدقے اس ملک کو ظہور امام زمانہؑ تک ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھے۔

25 ستمبر 2025ء کی شام جب سورج خلیج بیروت میں غروب ہو رہا تھا تو لبنان کے دارالحکومت میں قومی علامت سمجھی جانے والی مستحکم چٹان "الروشہ" شہید سید حسن نصراللہ کی تصویر سے چمکنے دمکنے لگی۔ ہزاروں کی تعداد میں لبنانی شہریوں نے ضاحیہ کے جنوبی محلوں سے لے کر دور دراز گاوں بقاع تک عظیم اجتماع تشکیل دیا تاکہ اس طرح حزب اللہ لبنان کے شہید سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی منا سکیں۔ شہید سید حسن نصراللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کی عظیم الجثہ تصاویر الروشہ چٹان پر چمکیں اور عظیم اجتماع نے اتحاد اور استقامت کے نعرے لگاتے ہوئے دنیا بھر کو ایک واضح پیغام پہنچایا۔ اگرچہ لبنان حکومت نے اس اجتماع کی تشکیل کے لیے بہت ہی محدود پیمانے پر اجازت دی تھی اور الروشہ چٹان پر شہدائے حزب اللہ کی تصاویر کی اجازت بھی نہیں دی تھی لیکن یہ عظیم اجتماع میں تبدیل ہو گیا۔
 
لبنانی شہریوں کا یہ عظیم اجتماع محض ایک برسی کے اجتماع سے ماوراء تھا اور اس میں ایسے اجتماعی عزم راسخ کا مظاہرہ کیا گیا جو جنگ کی تباہ کاریوں اور اقتصادی بحران کی شدت میں اپنی خودمختاری اور وقار کے لیے جدوجہد پر زور دیتا ہے۔ دوسری طرف مغرب نواز لبنانی وزیراعظم نواف سلام نے اس عظیم اجتماع کو اجازت نامے سے "واضح خلاف ورزی" قرار دیا اور اس کی انتظامیہ میں شامل افراد کو فوراً گرفتار کر کے ان کے خلاف عدالتی کاروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ لبنانی وزیراعظم نے حتی وزیر داخلہ، وزیر انصاف اور وزیر دفاع کو بھی فوری اقدام کا حکم دیا اور اس عظیم اجتماع کو "غیر قانونی" قرار دے دیا۔ یہ انتہاپسندانہ ردعمل نہ صرف اندرونی اختلاف کی علامت ہے بلکہ اس پالیسی کی نشاندہی بھی کرتا ہے جو لبنانی حکومت نے مغربی طاقتوں کی غلامی میں اپنا رکھی ہیں۔
 
حزب اللہ، دشمنوں کی آنکھ میں کانٹا
اس ٹکراو کی گہرائی کو جاننے کے لیے ہمیں شہید سید حسن نصراللہ کے تاریخی کردار کا جائزہ لینا پڑے گا۔ سید مقاومت، جو ستمبر 2024ء میں غاصب صیہونی رژیم کے دہشت گردانہ اقدام میں مقام شہادت پر فائز ہوئے نہ صرف حزب اللہ کے قائد تھے بلکہ غاصبانہ قبضے کے خلاف لبنان کی جدوجہد کی علامت بھی تھے۔ انہوں نے حزب اللہ لبنان کی قیادت کرتے ہوئے 2000ء میں لبنان کو اسرائیل کے غاصبانہ قبضے سے نجات دلوائی اور اس کے بعد 2024ء کی وسیع صیہونی جارحیت سمیت کئی جنگوں میں حزب اللہ لبنان کو ناقابل تسخیر قلعے میں تبدیل کر دیا۔ ان کی شہادت دیگر ہزاروں لبنانی شہریوں کی شہادت کے ہمراہ تھی اور اس نے لبنانی معاشرے کو گہرا صدمہ پہنچایا لیکن اس کے باوجود حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کے سامنے جھکنے کی بجائے نئے جذبے سے مسلح جدوجہد جاری رکھی جس کے باعث وہ دشمن کی آنکھوں میں کانٹا بنا ہوا ہے۔
 
غیر ملکی اثرورسوخ کا سایہ
شہید سید حسن نصراللہ کی برسی پر پابندی کا اقدام محض ایک اندرونی ردعمل نہیں ہے بلکہ اس وسیع منصوبے کا حصہ ہے جس کی بنیادیں بیرونی دباو پر استوار ہیں۔ مشرق وسطی کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس براک کی مدد سے امریکہ نے کئی سال پہلے سے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ اسی سلسلے میں امریکہ نے نئی لبنانی حکومت کو مالی امداد کی فراہمی بھی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے سے مشروط کر رکھی ہے اور حتی قطر اور سعودی عرب کی جانب سے لبنان کو تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو کے لیے دی جاری والی امداد بھی اسی خاطر روک رکھی ہے۔ تھامس براک نے اپنے ایک بیان میں لبنان کو "حزب اللہ کو کنٹرول کرنے کے کھیل کا گراونڈ" قرار دیا ہے اور جنوبی لبنان کے دفاع میں حزب اللہ کا کردار ختم کر دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
 
یہ منصوبہ 2025ء میں تیار کیا گیا تھا اور اس میں ایک ٹف ٹائم ٹیبل دیا گیا ہے: لبنان آرمی کو اس سال کے آخر تک جنوبی لبنان، بیروت اور بقاع کے علاقوں کو اسلامی مزاحمت کے اسلحے سے عاری بنانا ہے۔ یہ دباو واضح طور پر اسرائیلی مفادات کی خاطر ڈالا جا رہا ہے۔ اسرائیل جو اب بھی جنوبی لبنان کے کچھ حصوں پر غاصبانہ قبضہ جمائے ہوئے ہے اور نومبر 2024ء میں ہونے والی جنگ بندی کی بارہا خلاف ورزی کر چکا ہے، اب بھی لبنان پر ڈرون اور فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کر کے جنوبی لبنان کو ایک "بفر زون" کے طور پر استعمال کرنے کے درپے ہے۔ تھامس براک کی بنجمن نیتن یاہو سمیت اسرائیلی حکام سے مسلسل ملاقاتیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ منصوبہ دراصل اسرائیل کا پیش کردہ ہے۔ نواف سلام کی سربراہی میں موجودہ لبنانی حکومت امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھ میں ایک مہرے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
 
مزاحمت اور صبر، لبنان کی خودمختاری کے ستون
اس دباو کے مقابلے میں لبنان کی شیعہ برادری حزب اللہ کی سربراہی میں مزاحمت اور صبر کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ حزب اللہ لبنان نے مئی 2025ء کے بلدیاتی الیکشن میں واضح کامیابی حاصل کی لیکن حکومت سے براہ راست ٹکر لینے سے گریز کیا۔ اس حکمت عملی کی وجہ کمزور ہونا نہیں بلکہ قومی اتحاد کا تحفظ ہے۔ حزب اللہ لبنان نے ملک بھر میں وسیع فلاحی نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے جس کے تحت اسپتال اور اسکول تعمیر کیے گئے ہیں اور لبنانی شہریوں کی بھرپور مدد کی جاتی ہے۔ حزب اللہ قومی سطح پر مذاکرات کی حامی ہے لیکن مسلح ہونے کو ریڈ لائن تصور کرتی ہے۔ شہید سید حسن نصراللہ نے اس بارے میں کہا تھا: "مزاحمت لبنان کے دفاع کے لیے ہے اور وہ اقتدار کے پیچھے نہیں ہے۔" لبنان آج ایک بڑے امتحان سے روبرو ہے۔ کیا وہ بیرونی طاقتوں کے دباو کا مقابلہ کامیابی سے کر پائے گا یا نواف سلام کی حکومت مزاحمت کو کمزور کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟

تحریر: فاطمہ مرادی

Sunday, 28 September 2025 12:27

انا علی العھد

ہاں ہم اپنے عہد پر قائم ہیں___ 
اس عہد پر جو ہم نے ایک مرد الہیٰ سے کیا___
یہ خون کا عہد ہے___
اس مرد الہیٰ سے 
جو ظلمتوں کی سیاہ راتوں میں عزمِ حسینی کا روشن چراغ تھا
جسے 
دار و رسن کی سختیاں
دشمنوں کی گیدڑ بھبھکیاں
اہل ستم کی دھمکیاں
خنجر و شمشیر کی چمک
نیزہ و سنان کی دمک 
زریں تاجوں کی چمک
 بارودی گولوں کی بارش
آستیں کی سانپوں کی سازش
کوئی بھی چیز 
 اُس مردِ آہنی کے قدم نہ روک سکی___

وہ جس کی آنکھوں میں
شہادت کی چمک تھی،
اور دل میں عشقِ حق کی تپش۔
سید حسن نصر اللہ!___
وہ سید لبنانی
جس کی استقامت نے ہمیں بتایا
کہ مردانگی جسم کی طاقت نہیں،
عزم و ہمت و ارادہ کی طاقت ہے 
جو روح سے متعلق ہے____ 
اور روح 
اتنی عظیم ہوتی ہے کہ اسے ہزاروں ٹن بارود گرا کر بھی نہیں مارا جا سکتا.
اس لئے کہ مردان الہیٰ کا جسم تو ان کے لئے ایک قفس کی صورت ہوتا ہے۔۔
روح جب بڑی ہو جائے تو جسم میں کہاں رکتی ہے؟۔۔۔

سچ کہا متنبی نے 
"وَإِذا كانَتِ النُفوسُ كِباراً
تَعِبَت في مُرادِها الأَجسامُ
"
بات یہاں کہاں ختم ہوتی ہے، بات کا آغاز یہاں سے ہے کہ جو بیش قیمت ہے، وہ جہاں بھی ہو، غریب ہے، چاہے اپنوں ہی کے درمیان کیوں نہ ہو، اس کا خریدار تو بس خدا ہے۔
"وهكذا كنت في أهلي وفي وطني
إِنَّ النَفيسَ غَريبٌ حَيثُما كانا
"
حسن نصراللہ (رح) کی ذات بھی ایسے ہی گوہر نایاب کی مانند تھی
جس کی قدر زمانے نے نہ کی، بالکل اس کے آقا و مولا علی (ع) کی طرح 
جس کے لئے جارج جرداق نے کہا
"*زمانے تیرا کیا بگڑ جاتا کہ ہر دور کو ایک علی (ع) مل جاتا*" 
آج ہم کہہ سکتے ہیں "*زمانے تیرا کیا بگڑ جاتا کہ ہر قوم کو ایک "نصراللہ" مل جاتا کہ ہمیں ہر ایک سے زیادہ اس کی ضرورت ہے*

وہ مرد مجاہد___
 جو  
اہل حق کے نام یہ پیغام چھوڑ گیا
کہ خوں بہے تو بہے،
جذبہ حق پرستی کبھی نہ تھمے
وفا کبھی نہ مرے
مظلوموں کی مدد سے ہاتھ کبھی نہ کھنچے
چاہے اس کی قیمت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔
"نحن شیعه علی ابن ابی طالب"  
کہنا آسان ہے__
ثابت کرنے کے لئے عزم "نصر اللہیٰ" چاہیئے 
وہ عزم____
 جو منوں ٹن بارود اور اسلحوں کی کھیپوں سے نہ دب سکا
"نعیم قاسم" کی شکل رخِ ظالم پر "طمانچہ" بن کر زندہ ہے۔
اور دنیا بھر میں عزم نصر اللہیٰ رکھنے والے جیالوں کی صورت ظالموں کی نیندیں اڑا رہا ہے

سچ ہے 
ظلم کی راتیں طویل ہو جائیں___ 
تو ایک 86 سالہ بوڑھا
نویدِ سحر لئے
خاک شفا پر سر کو خم کرکے 
جب سر اٹھاتا ہے
تو دنیا کے ظالموں کے سر
اس کے سامنے اعلان عاجزی کے ساتھ جھک جاتے ہیں اور جب وہ "*یا علی*" کہہ کر 
آگے بڑھتا ہے۔
*بنام نام حیدر جنگ آغاز می گردد
علی (ع) با ذوالفقار حیدر به خیبر باز می گردد"
 تو اہل ستم کے چہرے دھواں دھواں ہو جاتے ہیں___

اور وہ ثابت کر دیتا ہے
ہزاروں گیدڑ مل کر وہ کچھ نہیں کرسکتے جو بوڑھا شیر اپنی انگڑائی سے کر گزرتا ہے
وہ ثابت کرتا ہے کہ اگر مردانگی ہو
اور اپنے عہد پر قائم رہا جائے تو ایک اکیلا انسان
تاریخ بدل سکتا ہے
 مسلم خوابيدہ اٹھ، ہنگامہ آرا تو بھي ہو. وہ چمک اٹھا افق، گرم تقاضا تو بھی ہو.
 مانا کہ ظلم و ستم کے محاذ پر محاذ کھل رہے ہیں
 برہنہ جارحیت کا عفریت معصوموں کی لاشوں پر بھمہیت کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے
لیکن حسینیت کا پرچم لئے 
اب بھی کچھ جیالے بساط حریت پر جمے ہوئے اپنے اس عہد پر قائم ہیں
جو عہد انہوں نے سید مقاومت سے کیا۔ جو خون کا عہد ہے 
*انا علی العہد*

تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ہفتہ دفاع مقدس کی مناسبت سے اپنے پیام میں فرمایا ہے کہ شہادت جہاد کا ثمر ہے، چاہے آٹھ سالہ دفاع ہو، چاہے 12 روزہ دلیرانہ جنگ، چاہے لبنان، غزہ ہو یا فلسطین، جہاد ملی ارتقا کا ذریعہ ہے۔ ہفتہ دفاع مقدس کی مناسبت سے روز "مهمانی لاله‌ها" یعنی جنت کے پھول یا پھولوں کی دعوت کے عنوان سے دن منایا گیا۔ اس دن کی مناسبت سے رہبر انقلاب نے فرمایا کہ یہ جہاد اور شہادت کا جلوہ ہے، جس سے اقوام کو جلا ملی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام جو ملک بھر میں شہداء کی قبروں کی صفائی، عطر چھڑکنے اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے کی تقاریب میں "جنت کے پھول" کے عنوان سے جاری کیا گیا۔ اس پیغام کو شہداء و ایثار گران کی فاونڈیشن میں رہبر انقلاب کے نمائندہ حجت الاسلام موسوی مقدم نے گلزار شہداء، بہشت زہراؑ تہران میں پڑھ کر سنایا۔

بسم الله الرّحمن الرّحیم
اس سال مختلف مقامات پر اسلامی مزاحمت کی راہ پر چلنے والی سرکردہ شخصیات اور بہادر جوانوں کی شہادت کی بدولت ہفتہ دفاع مقدس ایک نئی جہت اختیار کرچکا ہے۔ شہادت جہاد کا صلہ و ثمر ہے، چاہے 8 سالہ دفاع میں، 12 روزہ جنگ ہو یا لبنان، غزہ اور فلسطین میں جدوجہد، قومیں انہی کاوشوں سے ارتقا پاتی اور انہی شہادتوں سے جلا حاصل کرتی ہیں۔ لازم ہے کہ حق کی فتح اور باطل کے زوال کے بارے میں خدائی وعدے پر یقین رکھیں اور خدا کے دین کی نصرت کے لئے اپنے فریضے کو انجام دیتے رہیں۔
سید علی خامنہ ای
2 مہر 1404
 
 
 

مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيۡهِ‌ۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ قَضٰى نَحۡبَهٗ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّنۡتَظِرُ‌ ۖ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِيۡلًا ۞ "مومنوں میں کچھ ایسے (ہمت والے) مرد ہیں، جنہوں نے اس عہد کو سچا کر دکھایا، جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا۔ سو ان میں سے بعض نے (شہید ہوکر) اپنی نذر پوری کردی اور ان میں سے بعض منتظر ہیں اور انہوں نے (اپنے وعدہ میں) کوئی تبدیلی نہیں کی۔" وہ جب گفتگو کرتے تو ایسا لگتا کہ وارث منبر سلونی کی صدا ہے، جو دل میں اترتی جا رہی ہے۔ ان کے الفاظ، ان کا انداز، ان کی حرکیات، ان کے گفتگو کے اشارے ہر ایک تو بغور دیکھے، سمجھے جاتے اور ان کے مطالب نکالے جاتے، ان کی تشریحات کی جاتیں، ان کی ہر ایک بات، ہر ایک جملہ کی تفسیریں کی جاتیں۔۔۔ کبھی ایسا ہوتا کہ وہ سید الشہداءؑ کے مصائب بیان کرتے ہوئے گریہ کی کیفیت میں دکھائی دیتے، جبکہ ایک جہادی تنظیم کے سربراہ کے طور پر ان کا آنسو بہانا شاید بہت سوں کے نزدیک دشمن کو خوش کرنے کا موقع دینا سمجھا جاتا ہے، مگر یہ ان کی فکر باطل ہے، اس لیے کہ وہ جن کو اپنا رہبر و پیشوا مانتے تھے، وہ خود کئی ایک بار شہدائے کربلا کا تذکرہ گریہ کیساتھ کرتے اور سنتے ہیں۔

ان کی شخصیت کا اس سے بڑا اثر اور کیا ہو کہ وہ دنیا میں رہبر معظم امام خامنہ ای کے بعد دوسری شخصیت تھے، جن کے الفاظ کی قدر، ان کی منزلت، ان کی ارزش، ان کی اہمیت اور اثر پذیری تھی۔ ایسی ہی اثرپذیری و صداقت و سچائی جیسی ولی امر المسلمین کے الفاظ کی ہے، وہ ولی امر المسلمین کی طرح ایک آس تھے، ایک امید تھے، ایک اعتماد تھے، ایک آسرا تھے۔۔۔ جن لوگوں نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی۔۔۔ کیساتھ کام کیا ہے، ان سے وابستہ رہے ہیں، وہ اس دور کو یاد کریں تو میری اس بات کو بخوبی سمجھ اور درک کرسکتے ہیں۔ شہید مقاومت کی شخصیت پوری دنیا کے مقاومین کیلئے ایک اعتماد، ایک قرار، ایک امید، ایک یقین کی مانند تھی۔ اللہ نے انہیں جو عزت و شرف عطا کیا تھا، وہ کسی اور کے حصہ میں شاید ہی آئے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ۔۔ "یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ" ﴿۲۹﴾انفال "اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقوٰی اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لئے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا اور تمہارے (دامن) سے تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔"

سید حسن نصراللہ نے اپنا عہد نبھایا، وہ عہد نبھانے والوں میں سے تھے، ان کا خالص ہونا، وہ تقویٰ کی اس منزل پہ فائز تھے، جہاں پر اللہ کریم اپنے متقی بندوں کو فرقان عطا کرتا ہے۔ فرقان یعنی حق و باطل میں تمیز، یعنی غلط و صحیح کا ادراک۔ لوگ ساری عمر گزار دیتے ہیں اور انہیں حق کے رستے کی پہچان و معرفت نہیں ہوتی، وہ اس راستے کی نا فقط معرفت رکھتے تھے بلکہ اس پر گامزن تھے اور اسی کے داعی تھے۔ ان کی ہر گفتگو، ہر تقریر، ہر خطاب میں ولایت فقیہ کا درس، اس سے تمسک، اس سے توسل اور اس سے برملا مرتبط ہونا ظاہر ہوتا تھا، جبکہ ہمارے ہاں لوگ اس کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں بلکہ ولی فقیہ کے اختیارات، ان کے مختلف ایشوز پر انہیں مشورے دے رہے ہوتے ہیں۔ سید مقاومت ایسے نا تھے، وہ ولی امر المسلمین کے مطیع تھے۔ انہوں نے اپنی جماعت اور لبنانی قوم کو جس مقام پر پہنچایا، اس کی بدولت انہیں ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔

بلا شبہ ان کی قربانی اہل فلسطین کیلئے تھی، وہ ہمیشہ ارض مقدس فلسطین کی ناجائز قابض اسرائیل سے آزادی کے متمنی اور اس کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عزم رکھتے تھے اور اسی پر گامزن تھے۔ جو شخص اسرائیل، جسے دنیا ایک عالمی طاقتور فوجی ریاست سمجھتی ہے، جس کے سامنے عرب و عجم لیٹ چکے ہوں، اس کی حیثیت مکڑی کے کمزور جالے سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کو عملی طور پر سید نے ثابت بھی کیا۔ کئی ایک ایسے مواقع ان کی زندگی میں دیکھے جا سکتے ہیں، جب انہوں نے اپنے اس خیال و قول کو عملی طور پر ثابت کیا ہے۔ بالخصوص قیدیوں کی رہائی کیلئے کی جانے والی جدوجہد کے وقت تو اسرائیل کی بے بسی کا تماشا بارہا دیکھا گیا۔ سید مقاومت سید حسن نصراللہ کی عجیب شخصیت تھی کہ وہ کسی حکومتی عہدے پر فائز نا تھے، مگر جب ان کا بیروت میں خطاب ہونا ہوتا تو اعلیٰ حکومتی عہدیدار، بعض ممالک کے سفیر، دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہ و سیاسی شخصیات فرنٹ لائن میں تشریف فرما ہوتے۔ در حالی کہ یہ خطاب اکثر اوقات کسی خفیہ مقام سے لائیو ہوتا تھا۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہو کس قدر موثر و موثق تھے۔سید حسن نصراللہ شہید جنہیں آج بھی شہید لکھتے ہوئے عجیب سا لگ رہا ہے، عالم جوانی میں جب حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل بنائے گئے، تب سے وہ اسرائیل و معاون ممالک و ایجنسیز کے نشانہ پر تھے۔ اللہ نے انہیں بارہا قاتلانہ حملوں اور سازشوں سے محفوظ رکھا۔ اس میں شک نہیں کہ جہاد و شہادت کو اوڑھنا بچھونا بنانے والوں کیلئے شہادت کا تاج سر پر سجانا ہمیشہ زندگی کا اولین مقصد و خواہش ہوتی ہے۔ اس راہ کے راہی اس کیلئے تڑپتے ہیں، دعا و مناجات کرتے ہیں۔ نا وہ گھبراتے ہیں، نا ڈرتے ہیں، نا راستہ سے پیچھے ہٹتے ہیں۔ اس کے باوجود شخصیات کا چلے جانا تحریکوں، تنظیموں اور انقلابوں کیلئے کسی بھی طور سود مند نہیں ہوتا۔ بعض شخصیات اس مقام و منزلت پر فائز ہوتی ہیں کہ ان کا وجود مبارک ہی بہت سی برکات و الطاف الہیٰ کا باعث ہوتا ہے۔ ان کا نورانی وجود ہر ہر لمحہ تاریک راہوں میں روشن دیئے کی مانند راستہ بھٹکنے سے بچاتا ہے۔

سید حسن نصراللہ شہید کیلئے بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم سب راہ استقامت، راہ القدس، راہ مقاومت کے راہی ان کے قدموں کے نشانوں پر چلتے ہوئے تاریک راستوں میں چل رہے تھے کہ ان کے وجود کو ناپید پایا ہے۔ ایک بار تو ہمیں ایسا لگا کہ منزل کھو دینگے، راستہ سے بھٹک جائیں گے، تاریکی اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہاتھ پائوں مارتے مارتے ہمیں قرآن مجید کی آیہ مبارکہ کانوں میں پڑتی ہے۔ فرمان الہیٰ ہے: "یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ" ﴿۳۲﴾ "وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ (یہ بات) قبول نہیں فرماتا، مگر یہ (چاہتا ہے) کہ وہ اپنے نور کو کمال تک پہنچا دے، اگرچہ کفار (اسے) ناپسند ہی کریں۔" اور پھر دوسری آیہ کریمہ۔۔ "وَلَا تَهِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏"، "اور نہ کمزوری دکھاؤ اور نہ غم کھاؤ، اگر تم کامل مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔" (سورہ آل عمران) اور یہ شعر بھی یاد آرہا ہے۔۔
قتل کرنا سہل سمجھے ہیں مرا صاحب چہ خوش
یہ نہیں سمجھے، دو عالم خوں بہا ہو جائے گا

بھلا کربلا کے اس حقیقی وارث کے جسم پر ٹنوں کے حساب سے بارود ڈالنے سے کیا ان کو دفن کرسکے ہیں، ہرگز نہیں، جس شان کے ساتھ سید کا جنازہ اٹھا، جس عظمت و سربلندی کیساتھ انہیں رخصت کیا گیا، جس محبت کیساتھ ان کی تدفین و تشیع ہوئی، بھلا وہ کسی کو نصیب ہوئی ہے۔
اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
سید مقاومت، شہید مقاومت، سردار عرب و عجم سید حسن نصراللہ ہر غیرت مند، ہر دردمند، ہر مظلوم، ہر مقاوم، ہر مزاحمت کار، ہر ولائی، ہر حسینی، ہر کربلائی کے دل میں مکین ہیں۔ ان کو ختم کرنے کی سوچ رکھنے والوں کو ان دلوں سے نکالنا ناممکن ہے۔ لہذا وہ شہادت پا کر فتح مند ہیں۔ وہ ٹنوں کے حساب سے بارود جھیل کر بھی زندہ ہیں۔ ان کی فکر زندہ ہے، ان کا نظریہ زندہ ہے، ان کا راستہ زندہ ہے، ان کا ہدف زندہ ہے، ان کا رہبر زندہ ہے۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر

 ہندوستانی حکام نے ایک بار پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو آگاہ کیا ہے کہ اس کی ریفائنریوں کی جانب سے روسی تیل کی درآمد میں نمایاں کمی کی وجہ سے  واشنگٹن  کی یہ ذمہ داری ہے کہ  وہ نئی دہلی کو ایران اور وینزویلا سے خام تیل خریدنے کی اجازت دے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک باخبر ذریعہ نے بلومبرگ کو بتایا کہ اس ہفتے امریکہ کا دورہ کرنے والے ہندوستانی وفد نے امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں اس درخواست کو دہرایا۔

باخبر ذرائع کے مطابق، ہندوستانی وفد نے زور دیا ہے کہ دنیا میں تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک  روس، ایران اور وینزویلا سے ہندوستانی ریفائنریوں کو تیل کی فراہمی ایک ساتھ بند ہونے سے  تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

یہ خبر ایسے وقت سامنے آئی ہے جب روسی تیل کی خریداری پر گزشتہ چند مہینوں میں امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تجارتی کشیدگی بڑھ گئی ہے اور واشنگٹن کا الزام ہے کہ دہلی حکومت ، روس سے تیل خرید کرکے  یوکرین جنگ  اس کا ساتھ دے رہی ہے۔

ایک توسیع پسندانہ منصوبے اور خطے کے امن، سلامتی اور ثبات و استحکام کے لیے ایک سنجیدہ خطرے کی حیثیت سے گریٹر اسرائيل کے نظریے سے مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر اس نظریے کے خلاف سنجیدہ ردعمل نہیں دکھایا گیا اور متحد ہو کر مزاحمت نہیں کی گئی تو اسلامی اور عرب ملکوں کو بہت سخت چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا جو نہ صرف ان کی قومی حکمرانی کو خطرے میں ڈالیں گے بلکہ عالمی سطح پر وسیع انسانی اور سماجی بحران بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ محاذ بنانا اور مؤثر اسٹریٹیجیز اختیار کرنا، مغربی ایشیا کے علاقے کے ملکوں اور عالم اسلام کی سلامتی اور تشخص کی حفاظت کے لیے ایک حیاتی کام ہے۔
     

12 اگست 2025 کو صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کا ایک انٹرویو آئی-24 نیٹ ورک پر نشر ہوا جس میں انھوں نے واضح طور پر "گریٹر اسرائیل" کے خیال کا ذکر کیا اور اسے اپنا روحانی اور تاریخی مشن قرار دیا۔ یہ واضح بیان درحقیقت مزاحمت کے حامیوں کے اس نظریے کی تصدیق کرتا ہے کہ صیہونی حکومت زمینی اور سیکورٹی کی توسیع کے درپے ہے اور یہ توسیع محض 1948 اور 1967 کے مقبوضہ علاقوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے جبک کئی عرب اور غیر عرب گروہ اور ممالک دو ریاستی حل اور صیہونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کے خیال کے حامی ہیں تاکہ مغربی ایشیا کے خطے میں ثبات و استحکام پیدا ہو سکے اور وہ اس بنیاد پر مزاحمت کو خطے کے لیے ایک مہنگی چیز سمجھتے ہیں حالانکہ اس معاملے کی صحیح سمجھ، خطے کے حالات کے زیادہ درست تجزیے پر منتج ہو سکتی ہے۔

'گریٹر اسرائیل' کا خیال ایک مرکزی نظریے کے طور پر، اسرائیل کی زمینی توسیع پسندی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ خیال، جس کی جڑیں "ارض اسرائیل" (سرزمین اسرائیل) کے تصور کی غلط مذہبی اور تاریخی تشریحوں میں پیوست ہیں، توسیع پسندی کے دائرۂ کار اور جغرافیا کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ اس خیال کی ترویج کرنے والے، پیدائش، اعداد، تثنیہ اور حزقیایل جیسی کتابوں کے حوالوں کی بنیاد پر نیل سے فرات تک کے علاقوں پر دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ نظریاتی تناظر، توسیع پسندانہ اقدامات کو روحانی اور تاریخی جواز فراہم کرتا ہے اور اسے ایک خالص سیاسی پروگرام سے ایک تشخصی مشن میں تبدیل کر دیتا ہے۔

مغرب، یہاں تک کہ عالم اسلام کی بیشتر تحریروں میں اس بات کی کوشش کی گئي ہے کہ اس نظریے کو دائیں بازو کے انتہا پسند صیہونی دھڑوں سے جوڑا جائے جو صیہونی حکومت کے سیاسی اقتدار پر حاکم اصل دھڑے سے الگ ہیں۔ تاہم اگر بغور دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ نظریہ اسرائیل کے اسٹریٹجک فیصلوں اور عملی اقدامات کا محرّک رہا ہے۔ اسی سوچ کے ذریعے عسکریت پسندی، وسیع پیمانے پر سیکورٹی اداروں کی تشکیل، مختلف طرح کے سیکورٹی بفر زونز کی تعمیر، علاقائی سیکورٹی آرڈرز کی تشکیل، صیہونی کالونیوں کی تعمیر اور مقبوضہ علاقوں پر فوجی کنٹرول جیسی پالیسیوں کو نہ صرف جائز ٹھہرایا جاتا ہے بلکہ اس مقصد کے حصول کی راہ میں ضروری قدم قرار دیا جاتا ہے۔

اس نظریے کی حامل جماعتیں اور تحریکیں اسے سرکاری پالیسی میں تبدیل کر کے توسیع پسندانہ منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری سیاسی عزم فراہم کرتی ہیں اور اسے زمین پر ناقابل تردید آبادیاتی اور جغرافیائی حقائق کی شکل میں پیش کرتی ہیں۔ یقیناً یہ نقطۂ نظر زیادہ عمیق اور گہرا ہے اور گریٹر اسرائیل کے نظریے کو محض انتہا پسند اور ذیلی گروہوں سے متعلق سمجھنا ایک سطحی اور گمراہ کن تجزیہ ہے جو زمینی حقائق اور صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ تاریخ کو نظر انداز کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 27 مارچ 1992 کو رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے بیان میں فرمایا: "صیہونی اپنے اہداف سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے 'نیل سے فرات تک' کے اپنے اعلان کردہ ہدف کو واپس نہیں لیا ہے۔ ان کا ارادہ اب بھی یہی ہے کہ وہ نیل سے فرات تک کے علاقے پر قبضہ کر لیں! البتہ، صیہونیوں کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ پہلے دھوکے اور مکر و فریب سے اپنے قدم مضبوط کریں اور جب ان کا قدم جم جائے تو دباؤ، حملے، قتل و غارت اور تشدد کے ذریعے جہاں تک ممکن ہو آگے بڑھیں! جب بھی ان کا سامنا کسی سنجیدہ مقابلے سے ہوتا ہے، خواہ وہ سیاسی مقابلہ ہو یا فوجی تو وہ رک جاتے ہیں اور دوبارہ فریب اور سازش کی راہ اختیار کرتے ہیں تاکہ مکر کے ذریعے ایک قدم اور آگے بڑھ سکیں! جب وہ ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں تو دوبارہ وہی دباؤ اور تشدد کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو وہ ساٹھ ستر سال سے آج تک کرتے آ رہے ہیں۔"

اس نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے صیہونی حکومت کے اقدامات

یہ نظریہ، چاہے خفیہ اور چاہے اعلانیہ، صیہونزم کی اسٹریٹیجی پر حاکم ایک بڑے نظریے میں تبدیل ہو چکا ہے جو اس حکومت کے اصل سیاسی اور عسکری دھڑوں کے اقدامات کا تعین کرتا ہے۔ مندرجہ ذیل باتوں کو اس کے مصادیق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

  1. سرکاری عہدے داروں کے بیانات: نیتن یاہو کے علاوہ دیگر سرکاری عہدے داروں نے بھی گریٹر اسرائیل کے بارے میں براہ راست اور بالواسطہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جن میں سب سے اہم بن گورین کا بیان ہے۔ اس حکومت کے بانی اور پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گورین کا، اپنے بیٹے آموس کو 5 اکتوبر 1937ء کو پیئل کانفرنس کے بعد لکھا گیا خط سب سے واضح دستاویزات میں سے ایک ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ "گریٹر اسرائیل" کا خیال ایک ذیلی آرزو نہیں تھی بلکہ شروع ہی سے صیہونی منصوبے کے اصل معماروں کے ذہنوں میں موجود ایک منصوبہ تھا جس نے ان کے روڈ میپ کو طے کر دیا تھا۔ بن گورین نے اس خط میں لکھا تھا: "(پیئل کمیشن کی تجویز کے مطابق) ایک جزوی یہودی ریاست، ہماری منزل نہیں ہے، بلکہ اس راہ کا محض آغاز ہے ... ہم اپنی طاقت بڑھائیں گے اور طاقت میں کسی بھی طرح کا اضافہ، پوری سرزمین کو اپنی ملکیت میں لینے میں ہماری مدد کرے گا ... ہم (سرحدوں کی) تقسیم کا خاتمہ اور پورے فلسطین میں اپنا پھیلاؤ بند نہیں کریں گے۔"

ایہود اولمرٹ نے بھی 29 مارچ 2006 کو الیکشن کے بعد کھل کر کہا تھا: "ہزاروں سال سے ہم گریٹر اسرائیل کے خواب کو اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ یہ سرزمین ہمیشہ کے لیے، اپنی تاریخی سرحدوں کے ساتھ ہماری روح کے ساتھ جڑی رہے گی۔ ہم کبھی بھی اپنے دلوں کو ان جگہوں سے جدا نہیں کریں گے جو ہماری ثقافت کا گہوارہ ہیں اور جہاں سے ایک قوم کے طور پر ہماری سب سے قیمتی یادیں وابستہ ہیں۔"

ان بیانوں سے پتہ چلتا کہ صیہونی حکومت کے سرغنہ، چاہے ان کی سیاسی اور مذہبی سوچ جیسی بھی ہو، آخر کار گریٹر اسرائیل کے خیال کو خطے پر تسلط کے لیے یہودیوں کے بڑے نظریے کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور گریٹر اسرائیل کا دعویٰ صیہونیوں کے درمیان کسی خاص طبقے تک محدود نہیں ہے۔

  1. فلسطینی علاقوں کو صیہونی حکومت میں ضم کرنے کے منصوبے: غرب اردن اور جولان کی پہاڑیوں کو 55 سال سے زیادہ عرصے سے غاصبانہ فوجی قبضے میں باقی رکھنا اور انھیں سرکاری طور پر باقاعدہ ضم کرنے کی کوششیں اس بات کی گواہ ہیں۔ یہ غاصبانہ قبضہ صرف ایک عارضی سیکورٹی مسئلہ نہیں ہے بلکہ زمین، وسائل (خاص طور پر پانی) اور لوگوں پر کنٹرول کا ایک انٹگریٹیڈ سسٹم ہے جو صیہونی حکومت کے توسیع پسندانہ منصوبے کو نافذ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ لیبر پارٹی کے ایک اہم وزیر، یگال آلون نے 1967 کی جنگ کے فوراً بعد غرب اردن کو اسرائيل میں شامل کرنے کا ایک منصوبہ پیش کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت وادئ اردن کو "اسرائیل کی سلامتی کی سرحد" کے طور پر مستقل طور پر اسرائیل کی سرزمین میں شامل کیا جانا تھا۔ اسٹریٹیجک زاویے سے یہ وادی، مشرق اور بین النہرین (موجودہ عراق) کی طرف پہلا قدم سمجھی جاتی تھی۔
  2. عسکری اور سیکورٹی اقدامات: علاقائی توسیع والے فوجی اور سیکورٹی اقدامات، جیسے 1956 اور 1967 کی جنگوں میں صحرائے سینا پر غاصبانہ قبضے کے لیے سیکورٹی اقدامات اور شام میں "ڈیوڈ کوریڈور" بنانے کے لیے فوجی کارروائیاں، 'نیل سے فرات تک' کے ہدف کو عملی شکل دینے کے سب سے واضح اقدامات سمجھے جا سکتے ہیں۔
  3. صیہونی کالونیوں کی تعمیر: صیہونی حکومت میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر کو تمام پارٹیوں سے بالاتر ایک قومی منصوبے کے طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اگرچہ دائیں بازو کی جماعتیں ان کالونیوں کی سب سے زیادہ تشہیر کرتی ہیں لیکن غرب اردن اور مشرقی بیت المقدس میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر "بائیں بازو" یا لیبر پارٹی جیسی نام نہاد "اعتدال پسند" جماعتوں کے برسر اقتدار ہونے کے زمانے میں بھی وسیع پیمانے پر جاری رہی ہیں۔ مثال کے طور پر 1967 کی جنگ کے بعد صیہونی کالونیوں کی تعمیر کی سب سے بڑی لہر لیبر پارٹی کی لوئی اشکول حکومت کے دور میں شروع ہوئی۔ اسحاق رابین، جو بظاہر امن پسند شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں، خود کئی صیہونی کالونیوں کے بانیوں میں سے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی کالونیوں کی تعمیر، جغرافیائی اور آبادیاتی حقائق کو بدلنے اور "گریٹر اسرائیل" کے نظریے کو تدریجی طور پر آگے بڑھانے کا ایک اسٹریٹیجک ذریعہ ہے، چاہے حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو۔

گریٹر اسرائيل کے نظریے کے ممکنہ نتائج

اگر "گریٹر اسرائیل" کے نظریے کا سنجیدگی سے مقابلہ نہ کیا گیا اور اس کے خلاف بھرپور مزاحمت نہ کی گئی تو یہ علاقائی اور اسلامی اور عرب ممالک میں داخلی سطح پر بحرانوں اور چیلنجوں کا باعث بن سکتا ہے جن میں سب سے اہم یہ ہیں:

  1. خطے کے حقائق پر مبنی علاقائی سسٹمز کی تباہی: اس نظریے کے عملی جامہ پہننے کا مطلب موجودہ سرحدوں اور متعدد ممالک کی قومی خودمختاری پر اثرانداز ہونا ہے جن میں فلسطین، اردن، شام، لبنان اور مصر اور سعودی عرب کے کچھ حصے شامل ہیں۔ یہ صورتحال خطے کو عدم تحفظ کے ایک مستقل گرداب میں دھکیل دے گی اور ایران اور ترکی جیسے اطراف کے علاقے وسیع پیمانے پر غیر ملکی مداخلت میں گھر جائیں گے۔ اس منصوبے کا نفاذ خطے کے تمام ممالک اور یہاں تک کہ عالمی طاقتوں کی بلاواسطہ یا بالواسطہ شرکت کے ساتھ ایک تباہ کن جنگ کے آغاز کے مترادف ہوگا۔
  2. عدم استحکام میں اضافہ: 'گریٹر اسرائيل' کے نظریے کے عملی جامہ پہننے کا کم ترین اثر اطراف کے ممالک کی خودمختاری کی کمزوری کی شکل میں سامنے آئے گا۔ قومی حکومتوں کا خاتمہ اور ان کی جگہ صیہونیوں کے پٹھو افراد کا آنا اقتدار میں شدید خلا پیدا کرے گا۔ اس کے نتیجے میں داخلی جھڑپیں، بغاوتیں اور نسلی و مذہبی جنگیں ہوں گی جن کا محور ملک کے اندر اور ملک کے باہر کی قوتوں کے نیٹ ورک ہوں گے۔
  3. انسانی المیہ: اس منصوبے کے عملی جامہ پہننے کے لیے نسلی تصفیے، جبری جلا وطنی اور نسل کشی کی ضرورت ہوگی جو، اس وقت جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر ہوگی۔ یہ چیز دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑے انسانی المیے کو جنم دے گی۔ اس سے پناہ گزینوں اور آوارہ وطنوں کا ایک عظیم سیلاب آ جائے گا جو نہ صرف خطے بلکہ یورپ اور پوری دنیا کو ایک عدیم المثال بحران سے دوچار کر دے گا۔
  4. ثقافتی ورثے کی تباہی: گریٹر اسرائيل کا منصوبہ خطے کے سب سے مالامال ثقافتی ورثے اور قدیم تمدنوں کے خاتمے کا باعث بنے گا اور قوموں کی تاریخی شناخت مٹا دے گا۔ اس دعوے کے ثبوت کے طور پر بیت المقدس میں صیہونی حکومت کی جانب سے جان بوجھ کر کی گئی تحریفوں کو پیش کیا جا سکتا۔

کل ملا کر کہا جا سکتا ہے کہ ایک توسیع پسندانہ منصوبے اور خطے کے امن، سلامتی اور ثبات و استحکام کے لیے ایک سنجیدہ خطرے کی حیثیت سے گریٹر اسرائيل کے نظریے سے مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ نظریہ، جس کی صیہونی حکام نے واشگاف لفظوں میں تایید کی ہے، علاقائی سسٹمز کی تباہی، انسانی المیے اور ثقافتی ورثے کی نابودی پر منتج ہو سکتا ہے۔ اگر اس نظریے کے خلاف سنجیدہ ردعمل نہیں دکھایا گیا اور متحد ہو کر مزاحمت نہیں کی گئی تو اسلامی اور عرب ملکوں کو بہت سخت چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا جو نہ صرف ان کی قومی حکمرانی کو خطرے میں ڈالیں گے بلکہ عالمی سطح پر وسیع انسانی اور سماجی بحران بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ بنابریں اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ محاذ بنانا اور مؤثر اسٹریٹیجیز اختیار کرنا، مغربی ایشیا کے علاقے کے ملکوں اور عالم اسلام کی سلامتی اور تشخص کی حفاظت کے لیے ایک حیاتی کام ہے۔

 

تحریر: حسین آجر لو، بین الاقوامی روابط کے محقق

رہبر انقلاب اسلامی نے منگل 23 ستمبر 2025 کی رات عوام سے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے بارہ روزہ جنگ میں ایرانی قوم کی وحدت و یکجہتی، یورینیم کی افزودگي کی اہمیت، امریکا کی دھمکیوں کے مقابلے میں ایرانی قوم اور نظام کے مضبوط اور عاقلانہ موقف جیسے اہم موضوعات پر روشنی ڈالی۔
     

انھوں نے اپنے خطاب کے ابتدائي حصے میں زراعت، صنعت، ماحولیات، قدرتی ذخائر، حفظان صحت، علاج، غذائی اشیاء اور تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں افزودہ یورینیم کے گوناگوں استعمال کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے ملک میں یورینیم کی افزودگي کی صنعت کے بارے میں بتایا کہ ہمارے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں تھی اور دوسرے ممالک بھی ہماری ضرورتیں پوری نہیں کر رہے تھے، اسی لیے کچھ باحوصلہ عہدیداروں اور سائنسدانوں کی کوششوں سے تیس پینتیس سال قبل ہم نے اس راہ پر قدم بڑھائے اور اس وقت ہم اعلی سطح پر یورینیم کی افزودگی کر رہے ہیں۔

آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بعض ممالک کی جانب سے یورینیم کی 90 فیصد تک افزودگي کا مقصد، ایٹمی ہتھیار بنانا بتایا اور کہا کہ چونکہ ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہے اور ہم نے اس ہتھیار کو نہ بنانے اور نہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے ہم نے یورینیم کی 60 فیصد تک افزودگي کی جو بہت عمدہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایران، دنیا کے 200 سے زیادہ ملکوں کے درمیان یورینیم کی افزودگي کی صنعت رکھنے والے دس ممالک میں سے ایک ہے اور اس پیشرفتہ ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے کے علاوہ ہمارے سائنسدانوں کا ایک اہم کام، افراد کی ٹریننگ بھی رہا ہے چنانچہ آج دسیوں ممتاز سائنسداں اور پروفیسر، تحقیق میں مصروف سیکڑوں اسٹوڈنٹس اور ایٹمی موضوع سے جڑے ہوئے سبجیکٹس میں ہزاروں تعلیم یافتہ افراد کام میں مصروف ہیں اور مسلسل کوشش کر رہے ہیں اور دشمن کو لگتا ہے کہ بعض تنصیبات پر بمباری کر نے یا بمباری کی دھمکی دینے سے یہ ٹیکنالوجی ایران سے ختم ہو جائے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے اور یورینیم کی افزودگی ختم کر دینے کے لیے منہ زور طاقتوں کے کئي عشروں کے دباؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم یورینیم کی افزودگي کے معاملے میں نہ جھکے تھے اور نہ جھکیں گے اور کسی دوسرے معاملے میں بھی ہم دباؤ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی پہلے کہتے تھے کہ آپ کو یورینیم کو اونچی سطح پر افزودہ نہیں کرنا چاہیے اور اپنے افزودہ یورینیم کو ایران کے باہر منتقل کر دینا چاہیے تاہم اب وہ اس بات پر بضد ہیں کہ آپ کو یورینیم کی افزودگی کرنی ہی نہیں چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اس منہ زوری کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس عظیم کارنامے کو جو بہت زیادہ سرمایہ کاری اور مسلسل کوششوں سے حاصل ہوا ہے، نابود کر دیجیے لیکن ایران کی غیور قوم، ہرگز اس بات کو تسلیم نہیں کرے گی اور ایسا کہنے والے کے منہ پر تھپڑ رسید کرے گی۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں امریکا سے مذاکرات کے لاحاصل ہونے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فریق نے اپنی رائے کے مطابق پہلے ہی مذاکرات کے نتائج کو طے کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ایسے مذاکرات چاہتا ہے جن کا نتیجہ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں اور ایران کے اندر یورینیم کی افزودگي کے بند ہونے کی صورت میں نکلے۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا مطلب فریق مقابل کے ڈکٹیشن، مطالبات تھوپنے اور منہ زوری کو تسلیم کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ٹرمپ نے یورینیم کی افزودگي بند کرنے کی بات کہی ہے لیکن ایک امریکی عہدیدار نے کچھ روز قبل کہا ہے کہ ایران کے پاس میڈیم اور شارٹ رینج کے میزائیل بھی نہیں ہونے چاہیے، مطلب یہ کہ ایران کے ہاتھ اس طرح باندھ دیے جائیں کہ اگر اس کے خلاف جارحیت ہو تو وہ امریکیوں کے اڈے پر بھی جوابی حملہ نہ کر سکے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکی عہدیداروں کی اس طرح کی توقع اور بیانات کو، ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ کے بارے میں ان کی عدم شناخت اور ایران اسلامی کے فلسفے، بنیاد اور روش سے ان کی لاعلمی کی نشانی بتایا اور کہا کہ اس طرح کی باتیں، چھوٹا منہ، بڑی بات کا مصداق ہیں اور ان کی کوئي حیثیت نہیں ہے۔

انھوں نے امریکا سے مذاکرات کے لاحاصل ہونے کی تشریح کے بعد اس کے نقصانات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ فریق مقابل نے دھمکی دی کہ اگر آپ نے مذاکرات نہ کیے تو ہم ایسا کر دیں گے، ویسا کر دیں گے، بنابریں اس طرح کے مذاکرات کو ماننے کا مطلب، دھمکی سے مرعوب ہو جانا، خوفزدہ ہو جانا اور دھمکی کے مقابلے میں ایران اور ایرانی قوم کا گھٹنے ٹیک دینا ہے۔ انھوں نے امریکا کی دھمکیوں کے سامنے جھکنے کو، اس کے منہ زوری پر مبنی اور کبھی نہ ختم ہونے والے مطالبات کے جاری رہنے کا سبب بتایا اور کہا کہ آج وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ نے یورینیم کی افزودگی کی تو ہم ایسا اور ویسا کر دیں گے اور کل وہ میزائيل رکھنے یا فلاں ملک سے تعلقات رکھنے یا نہ رکھنے کو دھمکی دینے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کا بہانہ بنائيں گے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ کوئي بھی عزت دار اور غیرت مند قوم، دھمکی کے ساتھ مذاکرات کو تسلیم نہیں کرے گی اور کوئي بھی عقلمند سیاستداں اس کی تصدیق نہیں کرے گا۔ انھوں نے فریق مقابل کی جانب سے اپنے مطالبات تسلیم کیے جانے کی صورت میں پوائنٹس دینے کے وعدے کو جھوٹ بتایا اور ایٹمی معاہدے (JCPOA) کے تجربے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے دس سال پہلے امریکیوں سے ایک معاہدہ کیا جس کی بنیاد پر ایٹمی بجلی پیدا کرنے والا ایک مرکز بند کیا جائے اور افزودہ یورینیم ملک سے باہر بھیجا جائے یا رقیق کر دیا جائے تاکہ اس کے عوض پابندیاں اٹھا لی جائيں اور آئي اے ای اے میں ایران کا مسئلہ معمول کی حالت پر آ جائے تاہم آج دس سال پورے ہونے کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ ہمارا ایٹمی مسئلہ معمول پر نہیں آیا ہے بلکہ آئی اے ای اے اور سلامتی کونسل میں اس کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔

انھوں نے تجربات کو فراموش نہ کیے جانے کو ضروری بتایا اور کہا کہ فی الحال میں یورپ کے ساتھ کوئي مسئلہ اٹھانا نہیں چاہتا تاہم فریق مقابل یعنی امریکا نے ہر معاملے میں وعدہ خلافی کی ہے، وہ جھوٹ بولتا ہے اور کبھی کبھی فوجی دھمکی بھی دیتا ہے اور اگر اس کا بس چلتا ہے تو وہ عزیز قاسم سلیمانی جیسی ہماری شخصیات کو قتل کر دیتا ہے یا ہمارے مراکز پر بمباری کرتا ہے۔ کیا ایسے فریق کے ساتھ اعتماد اور بھروسے کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کیے جا سکتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ایٹمی مسئلے اور شاید دیگر مسائل کے لیے امریکا سے مذاکرات، اپنے آپ کو پوری طرح سے بند گلی میں پہنچانا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کو اس کے موجودہ صدر کے لیے مفید اور ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ان کی دھمکیوں کے کارگر ہونے کی بات کے پرچار کا ذریعہ بتایا۔ انھوں نے ملک کے علاج اور اس کی پیشرفت کی واحد راہ، سبھی عسکری، علمی و سائنسی، سرکاری اور انفراسٹرکچر کے میدانوں میں مضبوطی بتایا اور کہا کہ مضبوط اور طاقتور ہونے کی صورت میں فریق مقابل دھمکی تک نہیں دیتا۔

انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں قوم کے اتحاد کو بارہ روزہ جنگ میں دشمن کی مایوسی کا اصل سبب بتایا اور کہا کہ کمانڈروں اور بعض دیگر بااثر شخصیات کا قتل، ایک وسیلہ تھا تاکہ دشمن ملک میں اور خاص طور پر تہران میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہنگامے اور آشوب شروع کر دے اور ملک کے امور کو مختل کر کے نظام کو نشانہ بنائے اور اگلی سازشوں کے تحت اس ملک سے اسلام کا ہی خاتمہ کر دے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے شہید کمانڈروں کے جانشینوں کو فوری طور پر منصوب کیے جانے، مسلح فورسز کے استحکام اور قوی جذبہ اور نظم و نسق کے ساتھ ملک کا انتظام چلائے جانے کو دشمن کی شکست کے مؤثر عناصر میں شمار کیا تاہم اس بات پر زور دیا کہ قوم کی وحدت و یکجہتی، دشمن کی ناکامی کا سب سے مؤثر عنصر تھی۔ انھوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ وہ فیصلہ کن اتحاد، بدستور باقی ہے اور بہت مؤثر ہے۔

انھوں نے اس وقت کے ایران کو، رواں سال کے تیرہ اور چودہ جون کا ایران بتایا اور کہا کہ ان دنوں لوگوں سے بھری سڑکیں اور صیہون ملعون اور مجرم امریکا کے خلاف فلک شگاف نعرے قوم کی وحدت و یکجہتی کے عکاس تھے اور یہ اتحاد بدستور قائم ہے اور قائم رہے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں شہید سید حسن نصر اللہ کی شہادت کی برسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس عظیم مجاہد کو عالم اسلام، تشیع اور لبنان کے لیے ایک بے پایاں ثروت بتایا اور کہا کہ حزب اللہ سمیت جو ثروت سید حسن نصر اللہ نے تیار کی وہ باقی ہے اور اس اہم ثروت کی جانب سے لبنان اور دوسری جگہوں پر غفلت نہیں برتی جانی چاہیے۔

یہ بات انہوں نے ہفتہ دفاع مقدس کے موقع پر آرمی ہیڈ کوارٹرز میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر میجر جنرل محمد پاکپور سے ملاقات کے دوران کہی۔

ان کا کہنا تھا کہ چھوٹی سے چھوٹی جارحیت کی صورت میں دشمن کو ایرانی فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے جوان  مشترکہ، فوری، اسمارٹ اور طاقتور جواب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بری فوج کے سربراہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج اور پاسداران انقلاب اسلامی کے درمیان موجود اتحاد اور ہم آہنگی قومی سلامتی کا ایک ٹھوس ستون ہے اور فتح کی کلید ہے۔


دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ یورپی ممالک نے دنیا کے بڑے حصے کو خون میں نہلا دیا تھا۔ شہر کے شہر کھنڈر بن چکے تھے۔ ساحلوں سے لے کر شہروں کے قلب تک لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ ہر طرف آگ اور خون کا بازار گرم تھا، لیکن اس تباہی کے باوجود انسانیت کے دشمن مطمئن نہ تھے۔ لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن چکے تھے، مگر جنگی جنون رکھنے والے افراد پلک جھپکنے میں لاکھوں اور انسانوں کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے۔ اسی مقصد کے تحت امریکہ اور جرمنی دونوں ایٹم بم بنانے کی دوڑ میں شامل ہو چکے تھے۔ دونوں جانب جان لیا گیا تھا کہ جو فریق یہ ہلاکت خیز ہتھیار پہلے بنائے گا اور استعمال کرے گا، وہی اس جنگ کا فاتح ٹھرے گا۔

ہٹلر کی نگاہوں میں جرمنی کے یہودی دشمن تصور کیے جاتے تھے۔ اسی سوچ کے تحت اُس نے ان کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار کیں۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں  ۳ جون ۱۹۳۳ء کو ۲۶ ممتاز جرمن سائنسدانوں میں سے ۱۴ نے ملک چھوڑ دیا۔ ان میں البرٹ آئن اسٹائن بھی شامل تھے، جنہوں نے بعد ازاں امریکہ میں ایٹمی تحقیق کے سلسلے کو آگے بڑھایا اور ایٹم بم کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی ٹیم میں میکس بورن، جیمز فرانک، ماریا گوپرٹ مایر اور دیگر اہم سائنسدان شامل تھے۔ یوں دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ کو کامیاب بنانے اور عالمی طاقت بنانے میں ان سائنسدانوں، خصوصاً یہودی سائنسدانوں  کا اہم کردار رہا۔ جرمنی سے ہجرت کرنے والے بعض یہودی سائنسدان برطانیہ اور بعض فرانس چلے گئے۔ یہودی سائنسدانوں کی اس خدمات  اور اتحاد   کا اثر ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔

دوسری جنگِ عظیم کے اختتام کے قریب، ۱۶ جولائی ۱۹۴۵ء کو امریکہ نے نیو میکسیکو میں فزکس کے ممتاز سائنسدان رابرٹ اوپن ہائیمر کی سربراہی میں ایٹم بم کا پہلا تجربہ کیا۔ ایٹم بم کی ایجاد کے بعد، ۶ اگست ۱۹۴۵ء کو صبح ۸ بج کر ۱۵ منٹ پر امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا، جس سے لاکھوں جاپانی شہری لقمہ اجل بنے اور پورا شہر تباہ ہوگیا۔ تین دن بعد، ۹ اگست کو ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا گیا، جس نے مزید لاکھوں جانیں لیں اور شہر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے اب تک تیس کے قریب ملکوں پر حملے کیے ہیں۔ لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا، اور آج خود کو "عالمی امن کا علمبردار" قرار دیتا ہے جبکہ امن عالم کو انہیں سے سب سے ذیادہ خطرہ رہا ہے اور رہے گا۔

امریکہ کے بعد اگر دنیا میں کسی ملک نے سب سے زیادہ مظالم ڈھائے ہیں تو وہ اسرائیل ہے۔ غزہ میں بچوں، عورتوں، اسپتالوں، خیمہ بستیوں اور حتیٰ کہ میڈیا سینٹرز تک کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل چھ عرب ممالک کے ساتھ جنگ کرچکا ہے اور اب فلسطین، لبنان، شام اور حال ہی میں ایران میں مختلف تنصیبات پر حملے کر چکا ہے۔ ان حملوں میں جیلوں، تعلیمی اداروں، گھریلو مقامات، حتیٰ کہ ہسپتال اور خیمہ بستیاں بھی محفوظ نہیں رہے۔ اگر دنیا اسرائیل اور امریکہ کی اس جارحیت پر خاموش رہی تو یہ دونوں ممالک دنیا میں کسی ملک کو پُرامن نہیں رہنے دیں گے۔ وقت ہے کہ عالمی برادری جاگے، اس سے پہلے کہ سب کچھ کچلا جائے۔ امریکہ و اسرائیل عالمی قوانین کی سب سے ذیادہ خلاف ورزی کرنے والے لاپرواہ  ممالک ہیں۔

دونوں ممالک خود کئی ایٹم بم بنا رکھے ہیں اور ایٹم بم سمیت انتہائی کیمیائی اور مہلک ہتھیار استعمال کر کے ہیں۔ دونوں ممالک کو ایران کا پرامن ایٹمی پروگرام اور حق قبول نہیں ہے۔ آج سے سات سال قبل جوہری ہتھیاروں کے بارے میں یہ رپورٹ عام تھی جس کے مطابق دنیا میں ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کی تعداد ۹ ہے، جن کے پاس مجموعی طور پر ہزاروں ایٹم بم ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق: امریکہ اور روس کے پاس سب سے زیادہ ایٹم بم ہیں، جن کی تعداد بالترتیب تقریباً ۳۳۰ سے زائد ہے۔ چین کے پاس تقریباً ۲۸۰، برطانیہ کے پاس ۲۲۵ کے قریب، پاکستان کے پاس ۱۵۰ کے لگ بھگ، بھارت کے پاس ۱۴۰ کے قریب، شمالی کوریا کے پاس ۳۰ سے ۴۰، اسرائیل کے پاس بھی تقریباً ۴۰ سے ۹۰ ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔

پاکستان، ایران اور دیگر ۳۵ ممالک انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے رکن ہیں، جو عالمی قوانین کے مطابق اپنی جوہری پالیسیز کو پُرامن انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسرائیل نہ صرف IAEA کا رکن نہیں ہے، بلکہ اُس پر کوئی عالمی دباؤ بھی نہیں کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیار ظاہر کرے یا پُرامن رویہ اختیار کرے۔ اُسے کھلی چھوٹ ہے کہ چاہے غزہ پر حملہ کرے یا شام و لبنان اور یمن پر، کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ دوسری طرف ایران، جو IAEA کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، اُس پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں ۱۲ جون کو امریکہ نے IAEA میں ایک قرارداد پیش کی، جس میں ایران کے جوہری پروگرام کو "دنیا کے لیے خطرہ" قرار دیا گیا۔ روس، چین اور برکینا فاسو نے اس قرار داد کے خلاف ووٹ دیا۔ پاکستان پر بھی ایران کے خلاف ووٹ دینے کے لیے شدید دباؤ تھا، تاہم پاکستان نے حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے رائے شماری میں شرکت نہ کرنے کو مناسب سمجھا۔

امریکہ، مغربی طاقتوں اور بعض مسلم ممالک کے دباؤ کے باوجود پاکستان کا مؤقف اس موقع پر نہایت متوازن، حقیقت پسندانہ اور باوقار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں سرکاری و عوامی سطح پر پاکستان کے اس موقف کو سراہا جا رہا ہے اور شکریہ ادا کیا جا رہا ہے۔ ۱۲ جون کو امریکی قرار داد کے بعد، اسرائیل نے رات کی تاریکی میں ایران پر ایک بڑا حملہ کیا۔ داخلی و خارجی حملوں کا سامنا کرنے کے باوجود، ایران نے نہ صرف دفاع کیا بلکہ پوری طاقت سے جواب دینا بھی شروع کر دیا۔ دنیا اس وقت حیران ہے کہ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی، بالخصوص بیلسٹک میزائل، ہائپرسونک میزائلز اور کروز میزائلز کس طرح امریکی، برطانوی، اردنی اور فرانسیسی دفاعی نظام کو ناکارہ بنا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیل کا مشہور دفاعی نظام آئرن ڈوم بھی کئی مرتبہ مکمل ناکام ہوا، اور ایران نے تل ابیب اور حیفا جیسے شہروں میں اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔

یہ دنیا میں پہلا موقع ہے کہ بعض دعووں کے مطابق متعدد F-35 جیسے جدید جنگی طیارے مار گرائے گئے ہیں البتہ اس کی ابھی تک باقاعدہ تصدیق نہیں ہوئی۔ امریکی و اسرائیلی ڈرونز کو گرانا ایرانی دفاعی نظام کے لیے اب معمول بن چکا ہے۔ اب تو ڈرون حملا کرنا اور دشمن کا ڈرون گرانا یمنیوں کا معمول بن چکا ہے۔ ان تمام صورت حال میں، امریکہ جو خود کو عالمی امن کا محافظ کہتا ہے، اس جنگ میں براہِ راست شامل ہوچکا ہے۔ اسرائیل پہلے ہی اس تنازع کا مرکزی فریق ہے۔ یہ دونوں ممالک، اپنے اقدامات کی بنیاد پر، عالمی سطح پر امن کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ دنیا کو چاہیئے کہ مل کر ان ظالم ملکوں کو لگام دیں اور عملی میدان میں ایران کا ساتھ دیں تاکہ دنیا ایک پرامن جگہ بن سکے اور یہاں سب برابری کی بنیاد پر بین الاقوامی اصولوں کے مطابق جی سکیں۔

تحریر: محمد بشیر دولتی