سلیمانی

سلیمانی

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت حجر (حا کو ضمہ اور جیم کو ساکن کے ساتھ) بن عدی الکندی کا مقبرہ شہر دمشق کے شمال مشرق میں واقع مرج عذراء شہر میں موجود ہے۔ اور یہ دمشق سے ۳۰کلومیٹر کے فاصلہ پر حمص کی طرف جانے والی سڑک کے دائیں جانب واقع ہے۔ یہ غوطہ دمشق ( دمشق کا وہ خوبصورت مقام جو باغات، میوہ جات، اور  پھولوں کی کثرت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے) کا ایک چھوٹا سا  قریہ ہے۔ اسے عذاراء بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے باشندے دشمنوں کے شرو اور مکروفریب سے محفوظ رہے۔

اس خوبصورت وادی میں بھورے رنگ کے میناروں کے ساتھ ایک بلندوبالا گنبد دیکھائی دیتا ہے جو درحقیقت حجر بن عدی اور آپ کے باعظمت ساتھیوں کی قبور ہیں، اس مقبرہ کا صحن بہت ہی خوبصورت اور وسیع ہے جس کی چاروں اطراف اور تمام دیواریں قیمتی تحائف سے مزین ہیں، اس کی زمین قیمتی اور خوبصورت قالینوں اور جائےنمازوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔

 

 
 

شہیدوں کی راہ جاری رہے گی!

استقامتی محاذ کے علمبردار اور مظلوموں کے بہادر محافظ کی شخصیت کا اثر ان کی شھادت کے بعد مزید پھیلے گا۔

 

جدوجہد میں تیزی آئے گی!

خطے کی اقوام اور مجاہد فی سبیل اللہ افراد ان کی شھادت کے پیغام یعنی اللہ پر زیادہ سے زیادہ توکل، زیادہ مضبوط اتحاد، صیہونی دشمن کی شکست اور اس کی نابودی تک بنا کسی تردد کے زیادہ طاقت سے جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔

 

مومنین کا آپس میں اتحاد، کامیابی کی ضمانت!

آپس میں لگاؤ، ھمدلی اور تعاون پر مبنی مسلمانوں میں دوستی، اللہ کی طرف سے حکیمانہ و کریمانہ مدد کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں دشمنوں پر کامیابی ملے گی اور اس راہ میں آنے والے موانع برطرف ہوں گے۔

 

یاد خدا سے غافل نہ ہوں!

ذکر یعنی یاد خدا، یاد خدا سے غافل نہ ہوں۔ دعا ومناجات اور تلاوت قرآن سے دور نہ ہوں۔ میں ہمیشہ قرآن سے انسیت کی تاکید کرتا ہوں۔ قرآن کی معرفت حاصل کریں۔ اس سے آپ کو اس عظیم راہ میں بہت مدد ملے گی۔

 

شکر یعنی نعمتِ خدا کی شناخت!

شکر یعنی خدا کی نعمتوں کو پہچانیں اور انہیں فراموش نہ کریں۔ آپ کو خدا سے عظیم نعمتیں ملی ہیں۔ ایک ایسے نظام کی نعمت جس نے ظلم، سامراج، زور زبرستی، اور بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف جدوجہد کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ عظیم ترین نعمت ہے۔ اس کے علاوہ دیگر نعمتیں بھی ہیں۔

 

معصومینؑ کی دعاؤں میں ذکر و شکر!

مختلف دعاؤں میں یہ جملہ آیا ہے کہ:لاتجعلنی ناسیا لذکرک فیما اولیتنی ولا غافلا لاحسانک فیما اعطیتنی”۔ (اے خدا جو کچھ مجھے عطا کیا ہے یا مجھ پر احسان کیا ہے اس میں اپنے ذکر و شکر سے عادل نہ کر)۔احسان الہی سے غلفت نہ کریں؛ خدا کی نعمتوں اور مہربانیوں سے غافل نہ ہوں۔

 

 

عہد بندگی ، رہبر معظم

اسلامی ثقافت میں مثالی خاتون!

اسلامی نظام میں خواتین کو سیاسی سمجھ بوجھ ہونا ضروری ہے۔ انہیں گھر کی دیکھ بھال اور خاندان کی دیکھ بھال کے فن کا علم ہونا چاہیے۔ انہیں سماجی، سیاسی، سائنسی اور خدمت کے میدانوں میں تقویٰ، پاکیزگی اور عظمت کا مجسم ہونا چاہیے۔

 

مغربی ثقافت اور انسان کی پستی!

آج مغربی ثقافت پر غور کریں۔ مرد یا عورت کے وقت کا ایک بڑا حصہ خواتین سے متعلق مسائل، خوبصورتی، میک اپ، فیشن، خواتین کی کشش اور مرد اور عورت کے درمیان موجود جنسی ہوس کے مسئلے کی طرف سب کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش میں صرف ہوتا ہے۔

 

حجاب کی پابندی اور خواتین کی آزادی!

یہ ظاہر ہے کہ مغربی ثقافت میں عورت اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے قاصر ہے، جو غلط اور خطرناک ہے۔ انہیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ اس کے لیے پہلی شرط ان کا حجاب کی پابندی ہے۔ کیونکہ حجاب کے بغیر عورت کو وہ ذہنی سکون حاصل نہیں ہوگا جو اعلیٰ درجات تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔

 

 

عہد زندگی ، آیت اللہ العظمی خامنہ ای

 سید عباس عراقچی نے منگل کے روز پاسداران انقلاب کے جنرل ہیڈ کوارٹر کے کمانڈروں اور عملے سے خطاب میں کہا کہ ہم نے وعدہ صادق 3 سے متعلق بتا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف اسرائیل کی حالیہ کارروائی ایران کے نقطہ نظر سے ایک نئی یلغار ہے۔ اسرائیل کے اس دعوے کے برعکس کہ اسکی کارروائیاں خود دفاعی ہیں، آپریشن وعدہ صادق 1 و 2  پچھلے حملوں پر ہماری طرف سے دفاعی ردعمل تھے۔ ہم نے عالمی برادری کو باضابطہ طور پر بتا دیا ہے کہ صیہونی حکومت کی حالیہ جارحیت ایک نئی جارحیت ہے اور وہ ہمارے جواب کا مستحق ہے۔ ہم رد عمل کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور صحیح وقت پر اور جس طرح سے ہم مناسب سمجھیں گے جواب دیں گے۔

عراقچی نے کہا کہ پچھلے 12 مہینوں میں اور اس سے پہلے بھی، ہم بہت ہوشیاری اور تدبر سے کام لیتے رہے ہیں۔ ہمارے فیصلے جذباتی نہیں ہیں اور دشمن کی ممکنہ سازشوں سمیت تمام حالات اور امکانات پر غور کرتے ہوئے کیے گئے ہیں۔ ہم نے بروقت اور انتہائی ہوشیار اور منظم انداز میں جواب دیا اور جنگ کی آگ کو بھڑکنے سے روک دیا، برخلاف اسکے اسرائیل اس تنازع میں امریکہ کے پاؤں گھسیٹنا چاہتا ہے۔ ہم نے اس مسئلے کو سفارت کاری کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم دشمن کو حساب کتاب سے جواب دیں گے تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ اگر وہ اسلامی جمہوریہ پر حملہ کریں گے تو ان کا جواب نہیں ملے گا۔ اگر ہم دشمن کو یہ تاثر دیتے ہیں تو ہم نے کسی نہ کسی طرح انہیں مزید حملہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہ یقینی طور پر نہیں ہوگا۔ ہم رد عمل کا حق محفوظ رکھتے ہیں، اور یہ ردعمل صحیح وقت پر تدبیر اور حکمت کے ساتھ کیا جائے گا۔

عراغچی نے مزید کہا کہ جو چیز جنگ کے وقوع کو روکتی ہے وہ دراصل جنگ کی تیاری ہے۔ واضح رہے کہ اگر خوف کی معمولی سی علامت بھی ایسی صورت حال میں دکھائی دیتی ہے جہاں جنگ کا خطرہ ہو تو سمجھ لیں کہ جنگ  آپ پر طاری ہے۔ جنگ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی طاقت اور تیاری کا واضح طور پر اعلان کریں اور یہ بتائیں کہ آپ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر چھوٹی سی کمزوری ظاہر ہو جائے جو جنگ کی تیاری کی کمی کو ظاہر کرتی ہو تو تم پر جنگ مسلط کر دی جائے گی۔ دھمکیاں دینے والے دشمن درحقیقت دوسری طرف سے کمزوری کے آثار کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں۔ اس لیے نازک اور خطرناک حالات میں مضبوط اور ثابت قدم رہنا بہت ضروری ہے تاکہ آپ جنگ کو ہونے سے روک سکیں۔

اسماعیل بقائی نے اپنے ایکس پیج پر لکھا کہ 20 نومبر، عالمی یوم اطفال، امن اور سلامتی میں رہنے کے تمام بچوں کے حق کی یاد دلاتا ہے۔ یہ غزہ کے بچوں کے رنج و الم کو یاد کرنے کا موقع بھی ہے۔

ترجمان وزارت خارجہ نے لکھا ہے کہ غزہ بمباریوں کے تلے، بچوں کے قبرستان میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ایک سال کے اندر 17000 فلسطینی بچوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا، ہزاروں بچے غائب ہو چکے ہیں، دسیوں ہزار بچے زخمی ہیں اور بغیر بیہوشی دیے ہوئے ان کے زخمی اعضا کو کاٹا گیا ہے۔ 35000 سے زیادہ یتیم اور ان میں سے بہت سوں کے تمام اہل خانہ شہید ہوچکے ہیں۔ 4000 سے زیادہ بچے بھوک کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور بے شمار تعداد کی جان کو بھوک، بیماری، آوارہ وطنی اور ابتدائی ضرورتوں کی قلت کی وجہ سے سنجیدہ خطرہ لاحق ہے۔

اسماعیل بقائی نے اپنے اس پیغام میں لکھا کہ فلسطین میں انسانی حقوق کی رپورٹر فرانچیسکا آلبانیز نے رپورٹ دی ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں سیکڑوں بچوں کو صیہونی حکومت نے اغوا کیا ہے یا پھر یرغمال بنایا ہے۔

ترجمان وزارت خارجہ نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ معصوم فلسطینی بچوں کے قتل عام اور ان پر تشدد نے انسانیت کے جسم پر گہرے زخم ڈال دیے ہیں اور اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دعوے دار اداروں نے ان زخموں پر مرہم لگانے کے بجائے اپنی بے عملی اور لاپرواہی سے ان گہرے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔

اسماعیل بقائی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ دنیا، فلسطینی بچوں پر گھناؤنے مظالم ڈھانے والے مجرموں کی سزا سے رہائی کو ختم کرے۔

اس حملے میں یونٹ 8200 کو نشانہ بنایا گیا جو کہ صیہونی فوج کی خفیہ آپریشنز کی ذمہ دار ہے۔

غاصب فوج کا یہ جاسوسی مرکز لبنان کی سرحدوں سے 110 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

حزب اللہ کے اعلان کے مطابق یہ حملہ خاص نوعیت کے میزائل سے کیا گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ گلیلوت فوجی مرکز غاصب صیہونی فوج کا انتہائی اہم اور حساس مرکز سمجھا جاتا ہے جہاں فوجی انٹیلی جنس کے مرکز "آمان" اور فوج کا انٹیلی جنٹ سگنل اور سائبر مرکز یونٹ 8200 واقع ہے۔ اس کے علاوہ یونٹ9900 بھی اسی مرکز میں واقع ہے جو کہ ویژول انٹیلی جنس کا مرکز ہے۔

قابل ذکر ہے کہ حزب اللہ نے منگل کی صبح سے لیکر اب تک 17 کارروائیاں کرکے صیہونی فوج کے مراکز اور صیہونی کالونیوں کو نشانہ بنایا ہے۔

یہ حملے مسلسل جاری ہیں۔

Sunday, 17 November 2024 02:53

نامه اعمال کیسی کتاب ؟

 آیت 13، سورہ مبارکہ اسراء کی مجموعی آیات میں سے ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:«وَ كُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَ نُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً اقْرَأْ كِتابَكَ» اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو اس کے گلے کا طوق بنا دیا ہے، اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب نکالیں گے جو وہ کھلی ہوئی پائے گا۔ (اس سے کہا جائے گا:) 'اپنی کتاب پڑھو۔'
 
اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہر انسان کے تمام اعمال، تفصیلات کے ساتھ، ایک کتاب میں درج کیے گئے ہیں، اور قیامت کے دن اگر وہ نیکوکار ہے تو اس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، اور اگر بدکار ہے تو بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
 
یہ کتاب عام کتاب یا دستاویز نہیں ہے، اسی لیے کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ نامۂ اعمال دراصل "انسان کی روح" ہے جس میں تمام اعمال کے اثرات ثبت ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہم جو بھی عمل انجام دیتے ہیں، اس کا ہماری روح اور شخصیت پر اثر ضرور ہوتا ہے۔
 
قرآنی آیات اور روایات میں نامۂ اعمال کی تفصیل اور تشریح کا بنیادی مقصد تربیتی اثرات پیدا کرنا ہے۔ جس شخص کو یہ علم ہو کہ ہر وقت ایک ریکارڈر اور کیمرہ اس کے اعمال اور اقوال کو ریکارڈ کر رہا ہے، چاہے وہ خلوت میں ہو یا جلوت میں، اس کے باطن اور ظاہر کو محفوظ کر رہا ہے اور بالآخر قیامت کے دن یہ تمام ریکارڈز ایک عظیم عدالت میں پیش کیے جائیں گے، تو یقیناً ایسا شخص اپنی زندگی میں احتیاط کرے گا اور تقویٰ اختیار کرے گا۔
 
نامۂ اعمال پر ایمان، جس میں ہر چھوٹا اور بڑا عمل درج ہے، اور ان فرشتوں پر ایمان جو دن رات انسان کے اعمال کو ریکارڈ کرتے ہیں، قیامت کے دن جب یہ نامہ اعمال سب کے سامنے کھول دیا جائے گا اور تمام چھپے گناہ ظاہر ہو جائیں گے، یہ سب باتیں گناہوں سے باز رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
 
اسی طرح نیکوکاروں کا نامۂ اعمال ان کے لیے باعثِ عزت اور فخر ہوگا، اور اس کا اثر عام ریکارڈنگ یا فلم سے بھی زیادہ ہوگا، اور یہی چیز نیکی کے اعمال کی ترغیب دیتی ہے۔ البتہ بعض اوقات ایمان کی کمی یا غفلت کے حجاب کی وجہ سے انسان ان حقائق سے دور ہو جاتا ہے، ورنہ اس قرآنی حقیقت پر ایمان ہر انسان کی تربیت کے لیے کافی ہے۔

ایکنا نیوز، نیوز عرب 48 کے مطابق، اسرائیل کی چینل 12 کے سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ طویل جنگ کے باعث صہیونی شہریوں کی ترجیحات تبدیل ہو رہی ہیں۔
 
اس سروے کے مطابق، 69 فیصد صہیونیوں کا ماننا ہے کہ اس وقت سب سے اہم مقصد غزہ میں قید اسرائیلی قیدیوں کے تبادلے کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنا ہے، جبکہ 20 فیصد کا خیال ہے کہ غزہ میں جنگ کو جاری رکھنا سب سے اہم مقصد ہے۔
 
جب بات نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ کے موازنے کی آتی ہے، تو بینیٹ نے سروے میں شامل افراد میں سے 37 فیصد ووٹ حاصل کیے، جبکہ صرف 35 فیصد نے نیتن یاہو کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے بہتر انتخاب سمجھا۔
 
نیتن یاہو کو اسلامی مزاحمت کا سامنا کرنے میں ناکامی اور غزہ اور لبنان میں سنگین جرائم کے ارتکاب کے باعث ایک طرف صہیونیوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے، اور دوسری طرف غزہ اور لبنان میں جنگی جرائم کے ارتکاب کے سبب انہیں بین الاقوامی عدالت کی طرف سے بھی مذمت کا سامنا ہے۔/

 

Sunday, 17 November 2024 02:34

امریکی انصاف کا مذاق

امریکہ کے نئے صدر کی حیثیت سے ٹرمپ جلد ہی وائٹ ہاؤس میں براجمان ہو جائیں گے۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ اس متنازعہ سیاستدان کی اقتدار میں موجودگی کے دوران ان کے خلاف جاری عدالتی مقدمات کا کیا ہو گا؟ کیا ان پر لگائے گئے الزامات اور جرائم ثابت ہو جانے کے باعث ان کے ٹرائل کا عمل مکمل ہو جائے گا یا ہم اس بارے میں کسی اور عمل کا مشاہدہ کریں گے؟ موجودہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہترین ممکنہ صورت میں، ٹرمپ کے مقدمات ان کی نئی صدارت کے خاتمے کے بعد ہی، یعنی 2029ء میں گردش میں آئیں گے، اور حتی انہیں قید کی سزا سنائے جانا بھی وائٹ ہاؤس میں ان کی موجودگی میں رکاوٹ ثابت نہیں ہو گی۔ مزید برآں، ڈونلڈ ٹرمپ صدر کے خصوصی اختیارات کا سہارا لے کر متعدد مقدمات میں خود کو اور دیگر مجرموں کو معاف کر سکتے ہیں اور امریکی سپریم کورٹ کی مدد سے اپنے خلاف مقدمات بند بھی کروا سکتے ہیں۔
  
ٹرمپ پر عائد فرد جرم
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ متعدد مقدمات میں ڈونلڈ ٹرمپ پر فرد جرم عائد ہو چکی ہے جن میں نیویارک میں ان کی کمپنیوں کی ٹیکس چوری، فحش فلموں کی اداکارہ کو خاموشی اختیار کرنے کے لیے رشوت دینا اور اسے چھپانا، 6 نومبر 2021ء کے دن کانگریس پر حملہ اور ہنگامے اور اپنے ذاتی گھر (فلوریڈا میں ڈونلڈ ٹرمپ کا ذاتی بنگلہ پام بیچ) میں خفیہ دستاویزات رکھنا شامل ہیں۔ 2024ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت، نیویارک میں ان کے مقدمات کی سماعت کرنے والے جج کے سامنے یہ سوال اٹھاتی ہے کہ "کیا وہ منتخب صدر کو سزا سنا کر عدالتی کاروائی کا عمل جاری رکھ سکتے ہیں؟ یا کیا یہ مسئلہ ٹرمپ کو اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھانے سے روک سکتا ہے؟ ان مقدمات کی سماعت کرنے والے جج، خوان ایم مرچن نے سماعت کم از کم 19 نومبر تک ملتوی کر دی ہے تاکہ وہ اور دونوں فریقین کے وکلاء یہ دیکھ سکیں کہ آگے کیا ہونا چاہیے۔
 
لہذا عدالت کے جج نے ٹرمپ کے خلاف مقدمات کا فیصلہ سنانے کی تاریخ 26 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔ مئی 2024ء میں، ڈونلڈ ٹرمپ کو نیویارک میں "کاروباری دستاویزات" کی جعل سازی کے مقدمے میں 34 الزامات میں قصوروار پایا گیا۔ ججوں کے بینچ کے مطابق، ان پر فحش فلموں میں ایک اداکارہ کو خاموشی اختیار کرنے کے لیے رشوت دینے کے مقدمے میں تمام الزامات ثابت ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کے وکلاء نے جج مرچن سے کہا ہے کہ وہ سزا سنانے کا عمل روک دیں۔ ایسا فیصلہ جس میں امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ایک سابق اور آئندہ صدر کو سزا سنائی جائے گی۔ البتہ جج خوان مرچن کے پاس ایک اور راستہ بھی ہے جس کے ذریعے وہ عدالتی کاروائی بھی نمٹا سکتا ہے اور صدر کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ کی سرگرمیوں میں کسی قسم کا خلل پیدا ہونے کی روک تھام بھی کر سکتا ہے۔
 
بغیر سزا کے جرم
اگر جج مرچن چاہے کہ اعلان شدہ ایجنڈے کے مطابق عدالتی کاروائی بھی آگے بڑھے اور امریکی صدر ہونے کے ناطے ڈونلڈ ٹرمپ کے سرکاری فرائض میں کوئی رکاوٹ بھی پیش نہ آئے، تو وہ ان کے خلاف جاری مقدمات میں سزا سنائے جانے کے عمل کو 2029ء میں ان کی مدت صدارت ختم ہونے تک ملتوی کر سکتا ہے۔ اس وقت تک ٹرمپ 82 سال کے ہو جائیں گے اور ان کے خلاف عائد الزامات سے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہو گا۔ ایک اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ 2029ء تک ان مقدمات کا جج تبدیل ہو جانے اور مقدمات خود بخود ختم ہو جانے کا امکان بھی پایا جاتا ہے۔ اگر جج مرچن سزا کا عمل ٹرمپ کی مدت صدارت ختم ہونے تک مؤخر کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو عین ممکن ہے وہ خود جج باقی نہ رہ سکیں کیونکہ اس وقت تک وہ ریٹائر ہو جائیں گے۔ یوں ٹرمپ کو کوئی سزا نہیں ملے گی۔
  
ایسا مقدمہ جسے ختم ہونا چاہیے!
یہاں ایک دوسرا راستہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ٹرمپ کے خلاف جاری عدالتی کاروائی اختتام پذیر ہو جائے۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے مقدمے کا جج، خوان مرچن، ٹرمپ کی جانب سے استغاثہ کو منسوخ کرنے کی سابقہ ​​درخواست کے ساتھ ساتھ اس ملک کے سابق صدور کے عدالتی استثنیٰ کے حوالے سے جولائی میں امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا سہارا بھی لے سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، ٹرمپ اپنے ذاتی اختیارات استعمال کیے بغیر بھی اپنے خلاف عدالتی کاروائی کو اس مرحلے میں اختتام پذیر تصور کر سکتے ہیں! جج نے اس سے پہلے کہا تھا کہ وہ منگل کو ٹرمپ کے مقدمے کا فیصلہ جاری کریں گے تاہم یہ فیصلہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے پہلے کیا گیا تھا۔ ٹرمپ کے وکلاء نے دلیل پیش کی ہے کہ استغاثہ نے اس مقدمے کو غیر معتبر کر دیا ہے۔
 
ان کا کہنا ہے کہ پیش کی جانے والی گواہیاں اور دستاویزات، ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت سے متعلق ہیں۔ جج ممکن ہے ایک نئی عدالت تشکیل پانے کا حکم دے ڈالے، جس صورت میں اس کی تشکیل ٹرمپ کی مدت صدارت کے خاتمے سے پہلے ممکن نہیں ہو گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ، 34 الزامات میں سزا سنائے جانے کے باوجود (جن کا تعلق چار اہم مقدمات سے ہے)، آسانی سے سزا سے بچ سکتے ہیں اور وہ اس بچ جانے کو قانونی بھی قرار دے سکتے ہیں! یہ ہے امریکی انصاف! ایسا انصاف جس میں جرم ثابت ہو جانے کے بعد بھی صدر کو سزا نہیں ملتی۔ یہاں کئی اہم سوالات اور ابہامات پائے جاتے ہیں، جیسے: ٹرمپ کے خلاف مختلف مقدمات کی سماعت گزشتہ چار سالوں میں کیوں ملتوی ہوتی رہی؟ عدالتی اور سیکورٹی اداروں نے انتخابات تک ان کے خلاف حتمی فیصلہ کیوں نہیں آنے دیا؟ جواب واضح ہے: امریکی عدالتی نظام کا مکمل طور پر سیاسی ہونا اور اس ملک میں بنیادی ترین قوانین کا بھی حقیقی نہ ہونا۔
 
 
تحریر: محمد علی زادہ