سلیمانی

سلیمانی

((آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ))(سورة الحديد ـ 7)

ترجمہ : تم اللہ اور رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب قرار دیا ہے تم میں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے راہ خدا میں خرچ کیا ان کے لئے اجر عظیم ہے ۔

قرآن کریم کی تعلیمات میں انفاق کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اور کیوں نہ ہو؟ اس لئے کہ انفاق تو اجتماعی کفالت کا ضامن ہے اور ایک معاشرے کے امن و سکون کا معیار و  قانون ہے ۔ اس کے علاوہ یہ اجتماعی عدل و انصاف کے قیام کا نقطہ آغاز بھی ہے ۔ قرآن کریم نے ایک انسان کے اندر انفاق کی عادت پیدا کرنے کی غرض سے وہ تاکید کی ہے جس میں کسی کو شک کی گنجایش باقی نہیں رہ سکتی ۔ قرآن کریم نے مال کو خدا کا مال اور لوگوں کو اس مال میں اللہ کے عیال قرار دیا ہے ۔ لہذا یہ لوگ اس مال سے عام فائدہ حاصل کرنے کے اعتبار سے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ اس مال کا کسی کے پاس ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کا مالک مطلق ہو ۔ اور اس کا جمع کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا نہیں آدمی اس مال میں خدا کا خلیفہ ہے اور اصل مالک اللہ تعالی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اس طرح سے خرچ کرے جس میں اس کا مالک حقیقی راضی ہو ۔ کیونکہ آدمی تو اس مال میں صرف امانت دار کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا اسلام میں مال کے لحاظ سے یہ عظیم نظریہ ابھرتا ہے اور یہ کہ یہ مال انسان کی انفرادی اور اجتماعی عزت والی زندگی گزارنے کا سبب بنتا ہے۔ لہذا یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ لوگ جو جی چاہے اپنی مرضی کریں اور اپنے ان مفادات کو حاصل کرنے کے لئے مال کو جس طرح چاہیں خرچ کریں۔ اگرچہ کہ اولی یہ ہے کہ یہ مال اس کی سعادت و بہبود میں استعمال ہو جس کو اس محنت کر کے کمایا اور جمع کیا ہے۔ وہی شخص اپنے مال کے تصرف میں حق رکھتا ہے اور شارع مقدس نے بھی اس کے مذکورہ حق کو بیان فرمایا ہے ۔ البتہ اسی نے یہ حق بھی رکھا کہ اس مال سے ہی فقراء اور محتاجوں کی نیازمندی بھی دور کی جائے گی۔ یعنی دولتمندوں اور امیروں کے مال میں ہی محتاجوں اور فقراء کا حق رکھا تاکہ وہ ان ضرورتمندوں کا بھی حق ادا کریں ۔ قرآن کریم کی آیت میں مذکور حکم اسلامی کی بہتریں تاکید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ فرمان بھی  ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "لم نُبعَث لجمع المال ولكن بُعِثنا لإنفاقه."؛ ہم مال جمع کرنے کے لئے مبعوث نہیں ہوئے بلکہ مال انفاق کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں ۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ اگر جمع مال کو ہی مقصد بنا لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مال و دولت صرف امیروں اور دولت مندوں ہی کے ہاں ڈھیر لگ جائے جس کا  نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی گردش رک جائے گی اور ذخیرہ اندوزی کا ذریعہ بنے گا تقسیم و گردش کا سلسلہ منجمد ہوجائے گا۔ جس سے معاشرہ بد حالی اور بحران کا شکار ہوجائے گا اور صرف ایک خاص گروہ کے ہاتھوں میں یہ مال جمع ہوکر رہ جائے گا جس کے نتیجے میں یہ لوگ  عوام  پر ظلم و استبداد بھی کریں گے اور مال کی ذخیرہ اندوزی بھی  کریں گے۔ جس سے معاشرہ ایک بڑے اقتصادی بحران کا شکار ہوجائے گا۔  جمع مال و ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے رونما ہونے والے سماجی اور معاشرتی بحران جو تاریخ میں پیش آئے ہمارے مدعا کے  ثبوت کے لئے کافی ہیں ۔

اصول و قاعدہ یہ ہے کہ یہ کائنات اللہ کی ہے اور وہی بادشاہی کا مالک ہے :

((قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ  إِنَّكَ على كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ))(سورة آل عمران ـ 26)،

ترجمہ : کہد یجیئے کہ اے خدایا تو صاحب اقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلب کرلیتا ہے جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے ۔ سارا خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شے پر قادر ہے ۔

اسلام دولت  کو بھی اس کے مالک کی طرح اللہ کی ملکیت قرار دیتا ہے اور اسلام کی نگاہ میں دونوں کا مالک حقیقی اللہ ہی ہے ۔لہذا آدمی دولت کا اعتباری اور قراردادی مالک ہے ۔اس اعتباری مالک کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے مال و ملکیت میں جس طرح کا بھی تصرف کرنا چاہے کرے۔ چاہے اس کی وجہ سے دوسرے انسانوں کے حقوق ضائع کیوں نہ ہوجائیں۔ غرض اس طرح کا مطلق اختیار آدمی کو نہیں دیا گیا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ قرآن کریم نے انسان کے ایمان کو انفاق مال کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور  ایمان کی نشانی انفاق مال قرارر دیاگیا اور دوسری جانب صاحب مال و دولت کو اس مال میں خلیفہ کہا گیا  ہے۔ غرض یہ کہ مال کو شرع مقدس کی جانب سے بتائے ہوئے مقامات پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے ساتھ نزدیک کا رابطہ ہے۔ اس سے مال خرچ کرنے والے کو اجر و ثواب بھی مل جاتا ہے۔ اس میں بہترین بات یہ ہے کہ قرآن کریم اس انفاق کے لئے کوئی ایک مقام معین نہیں کرتا ہے جس طرح سے خمس و زکات اور صدقہ وغیرہ کا مصرف معین ہے۔ بلکہ قرآن نے اس راستے کو عام رکھا تاکہ آدمی کسی بھی جگہ انفاق کرسکے جو شرعی لحاظ سے مباح ہوں۔ اگرچہ حصول کے لحاظ سے راستے معین کئے ہین مانند تجارت اور مال کو گردش میں رکھنا اس سے فائدہ اٹھانا وغیرہ۔ بہر کیف قرآن کریم کی آیت انفاق میں مال کو انفاق کرنا مقصود ہے تاکہ ذخیرہ اندوزی اور ایک جگہ اس کا ڈھیر نہ لگ جائے ۔ کیونکہ ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے دوسرے لوگ محروم رہ جاتے ہیں ۔ اور مال کے انفاق سے بہت سارے فوائد حاصل ہوتے ہیں منجملہ محتاجوں  اور غریبوں کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں اور اچھے انداز سے ان کمزوروں کی زندگی  کا نظام چلنے لگتا ہے ۔ یوں عمومی معاشرتی کفالت کا بند وبست بھی ہوجاتا ہے ۔ علاوہ اس کے مختلف انواع و اقسام کی فضول خرچیوں  اور اسراف کا بھی سد باب ہوجاتا ہے۔

نیز یہ کہ انفاق  سے اس کے مالک کو بڑا ثواب بھی حاصل ہوتا ہے ۔یہ وہ ثواب ہے جس کا وعدہ اللہ سبحانہ و تعالی نے مؤمنین کو جنت کا دیا ہے۔ خاص طور سے اس طرح کا انفاق معاشروں  میں ظلم و فساد کو بھی روک دیتا ہے ۔کیونکہ اس طرح کے فسادات یقینا غربت و افلاس کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے آج کے نظام اقتصادی میں اس نظریہ پر تاکید کی جاتی  ہے " جو ملک و معاشرہ اقتصادی اعتبار سے فقیر ہے اس میں مال و دولت کا ایک جگہ جمع ہونے کے بجائے گردش میں ہونا اس ملک کی معیشت میں بہبودی کا باعث ہوتا ہے ۔" اور لوگ تلاش و کوشش میں مصروف ہوتے ہیں ۔ جس سے بدیہی طور پر لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور ان کی ضروریا ت پوری ہوجاتی ہیں بلکہ ان کی حالت میں بہتری آجاتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ  کہ انفاق  ہر اس ملک و معاشرے کے لئے ضروری اور  کلید ی حیثیت رکھتا ہے جو اقتصادی لحاظ سے کمزور ہے ۔ پس یہ جو تاکید کی جاتی ہے کہ دولت مندوں اور امیروں  کو اپنا مال انفاق کرنا چاہئیے اس سےمراد عام ہے یعنی یہ کہ وہ اپنی دولت کو گردش میں رکھیں اگرچہ مارکیٹ کے ذریعے سھی جس سے معاشرے میں توازن برقرار رہتا ہے اور ایک معاشرے کے اندر کفالت کا ضروری مرتبہ محقق ہوجاتا ہے ۔ یوں بنیادی ترین اقتصادی اور معیشتی بہبودی قائم ہوجاتی ہے ۔

انسان مرد ہو یا عورت ہمیشہ سے ہی ظلم و ستم کا شکار رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار اور مختلف تہذیبوں میں عورت کو ظلم و جبر کا نسبتاً زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ عورت پرپابندیاں اور ناانصافیاں مردوں سے کہیں زیادہ رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اخلاقی طور پر ضروری ہے کہ عورت کو فوری انصاف فراہم کیا جائے۔ مسلمانوں کے نظریہ کے مطابق اسلام سب سے زیادہ انصاف پر مبنی اور عادلانہ نظام رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عورت کے ساتھ انصاف کرے اور اس پر ہونے والے ظلم و ناانصافی کو ختم کرے۔ ماضی اور حال میں اسلامی معاشروں میں عورت کے ساتھ روا رکھا جانے والا ظالمانہ رویہ اور اس کے ساتھ کمتر درجے کا سلوک اسلامی تصور کے بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ یہیں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے: کیا اس صورتِ حال کا سبب خود اسلام ہے؟

چلیں اسلام کے ابتدائی دور کو دیکھتے ہیں کہ اسلام نے عورت کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ یہاں جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد قرآنِ کریم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور اہلِ بیتؑ کی تعلیمات ہیں۔ اسلام میں عورت خلقت اور انسانی وقار کے لحاظ سے مردوں کے بلکل برابر قرار دیا۔اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا)، النساء:1

اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ نگران ہے۔

جہاں تک شرعی احکام کی بات ہے تو اللہ کا خطاب مرد اور عورت دونوں کے لیے برابر اور عمومی طور پر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا)، الأحزاب: 35

یقینا مسلم مرد اور مسلم عورتیں، مومن مرد اور مومنہ عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، راستگو مرد اور راستگو عورتیں، صابر مرد اور صابرہ عورتیں، فروتنی کرنے والے مرد اور فروتن عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی عفت کے محافظ مرد اور عفت کی محافظہ عورتیں نیز اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں وہ ہیں جن کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔

یہ برابری صرف انفرادی فرائض تک محدود نہیں، بلکہ اجتماعی ذمہ داریوں جنہیں فرض کفائی کہا جاتا ہے کو بھی شامل ہے بلکہ یہاں معاملہ اور بھی واضح ہے۔ ان میں سب سے نمایاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)، التوبة: 71

اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

اسی طرح اجر میں بھی دونوں برابر ہیں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)، (النحل: 97 )جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے ۔

اسلامی نقطہ نظر سے خلقت، شرعی احکام اور جزا کے حساب سے مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں۔ ہاں، بعض احکام میں عورت کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی خصوصیات کے مطابق کچھ رعایت دی گئی ہے۔ چنانچہ صحابیہ اُمَیمہ بنت رُقَیقہ ؓ سے روایت ہے کہ:میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ عورتوں کے ساتھ بیعت کے لیے حاضر ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے فرمایا: جس قدر تم استطاعت اور طاقت رکھتی ہو۔

قرآنِ کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاکید کے نتیجے میں مسلمانوں نے عورت کو برابری کو حقوق کے دیے۔جہاں مرد کے ہر حق کے ساتھ عورت کا بھی ایک حق ہے۔ حبر امہ،حضرت ابن عباس ؓسے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:بے شک، میں اپنی بیوی کے لیے زینت کرتا ہوں، جیسے وہ میرے لیے زینت اختیار کرتی ہے۔یہ کیسے نہ ہوتا ؟ جب کہ قرآن نے خود اس کی تعلیم دی ہے؟ چنانچہ اللہ عزوجل فرماتا ہے:

(وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)، البقرة: 288

اور طلاق یافتہ عورتیں تین مرتبہ (ماہواری سے) پاک ہونے تک انتظار کریں اور اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لیے جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق کیا ہے اسے چھپائیں اور ان کے شوہر اگر اصلاح و سازگاری کے خواہاں ہیں تو عدت کے دنوں میں انہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لینے کے پورے حقدار ہیں اور عورتوں کو دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر جو ایک درجہ دیا  ہےوہ درحقیقت "قوامیت"کے معنی میں ہے۔یہ خاندان کی سربراہی سے متعلق ہے اور اس کی بنیاد مرد کی سماجی تجربہ کاری پر ہے۔ ازدواجی زندگی ایک سماجی نظام ہے اور ہر نظام کے لیے ایک سربراہ ہونا ضروری ہے۔ یہ برتری کا مفہوم ہرگز نہیں رکھتا۔ یہ صرف ذمہ داریوں کی تقسیم ہے۔ قوامیت مساوات کو ختم نہیں کرتی بلکہ ہر فرد کو اس کی فطری ساخت کے مطابق ذمہ دار بناتی ہے۔ اسی طرح عورت بھی ان امور کی ذمہ دار ہے جو اس کی فطرت سے ہم آہنگ ہیں۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا ارشاد ہے:

(كلكم راعٍ وكلكم مسؤول عن رعيته، فالأمير الذي على الناس راعٍ عليهم ومسؤول عنهم، والرجل راعٍ على اهل بيته وهو مسؤول عنهم، والمرأة راعية على بيت بعلها وولده وهي مسؤولة عنهم.. الحديث) (مجموعة ورام)، "تم میں سے ہر ایک مسئول ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ جو حاکم لوگوں پر مقرر ہے وہ ان کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگہبان ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے."  (مجموعة ورام، ج 1، ص 6)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی سنت نے اس قرآنی فہم کو بعثت کے آغاز اور ابتدائی اسلامی دور میں ہی عملی شکل دے دی۔ چنانچہ اسلام کی دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہنے والی ایک خاتون حضرت خدیجہ بنت خویلد علیہا السلام تھیں۔اسلام کی برکت سے عورت ایک بے حیثیت شے نہیں رہی، جس کے تمام امور میں مرد ہی فیصلہ کرتا تھا۔ اسلام نے عورت کو خودمختار شخصیت دی جو مالی معاملات میں خود فیصلے کر سکتی ہے، اپنی مرضی سے شریکِ حیات کا انتخاب کر سکتی ہے، گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کر سکتی ہے اور سماجی و اجتماعی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لے سکتی ہے۔

اس کے بعد کیا ہوا؟

دو اہم عوامل اس تبدیلی کا سبب بنے۔

پہلا یہ کہ امت اپنی اصل قیادت سے دور ہو گئی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصیاء اور ان کی عترت کی صورت میں تھی۔ ان کی جگہ قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی جن کا اصل مقصد اپنی سلطنت کو وسعت دینا تھا، اسلامی تعلیمات کو نافذ کرنا ان کی ترجیح نہیں تھی۔ چنانچہ فتوحات ہوئیں جن میں مختلف اقوام اور تہذیبیں اسلامی خلافت کے زیرِ سایہ آ گئیں، جس کے نتیجے میں اسلامی زندگی میں خالص اور غیر خالص (ملاوٹ شدہ) عناصر باہم گڈمڈ ہو گئے۔

دوسرا سبب یہ تھا کہ تہذیب کی ترقی، دولت کی فراوانی، علوم، فنون اور ادب کے فروغ کی وجہ سے مسلمانوں کی ثقافت پر آسائش ہو گئی اور عیش و عشرت کے اثرات نمایاں ہو گئے۔ یہ تبدیلی (عیش پرستی) مسلمانوں کو آرام طلب زندگی کی طرف لے گئی اور نتیجتاً اسلامی ریاست اپنی فوج اور طاقت کے لیے فارس، ترک اور دیلم کے افراد پر انحصار کرنے لگی۔ مؤرخ طبری عربوں  پر  اس عیش و عشرت کے اثرات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"یہی وہ پہلا ضعف تھا جو اسلام پر طاری ہوا اور یہی پہلی آزمائش تھی جس نے عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔"(شرح نہج البلاغہ، ج 11، ص 12)

ان دو عوامل کے نتیجے میں ایک ایسا غیر عرب طبقہ ابھرا، جس نے اسلام کی تشریح اپنی ثقافتوں اور سماجی پس منظر کے مطابق کی۔ اس کا اثر مسلم معاشروں پر پڑا، خصوصاً جب تہذیبی زوال کے ادوار آئےتو اس کے منفی اثرات مسلمان عورت پر بھی پڑے۔خلفاء، امراء اور فوجی سرداروں کے محلات لونڈیوں اور باندیوں سے بھر گئے۔ حالانکہ ابتدائی اسلام میں مرد اور عورتیں باہم نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر بحث کرتے تھے کہ ہم میں سے جنت میں اعلی مقام پر کون ہوگا؟ حتیٰ کہ خواتین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس شکایت لے کر آئیں اور کہا:"یا رسول اللہ! مرد آپ سے زیادہ وقت لے لیتے ہیں ہمارے لیے بھی کوئی دن مقرر کریں جس میں ہمیں تعلیم دیں!"لیکن بعد میں یہ مسابقت عورتوں کے لیے صرف زینت و آرائش اور مردوں کو لبھانے تک محدود ہو گئی۔ یہاں تک کہ اسلامی دنیا میں لونڈیوں اور غلاموں کی منڈیاں قائم ہو گئیں!یوں عورت کی اصل حیثیت تبدیل ہوگئی اور مسلمان ان اعلیٰ قدروں سے دور ہو گئے جن کی طرف اسلام نے انہیں دعوت دی تھی۔ وہ دوبارہ جاہلی دور کی طرف پلٹ گئے۔ چنانچہ مسلمان عورت، جو مجاہد، عالمہ، راویہ حدیث اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی امین تھی کو محض ایک ایسی شخصیت میں تبدیل کر دیا گیا جو مردوں کی خواہشات کو پورا کرے۔ یہاں تک کہ بعض شعرا نے اس صورت حال کو یوں بیان کیا:

مجھ پر قتل و قتال (جنگ) لازم کر دیا گیا ہے.جبکہ خوبصورت عورتوں کے لیے دامن گھسیٹ کر چلنا مقدر ہے۔بعض نے اسے (شرم) کے طور پر بھی کہا۔اس (عورت) کو صرف قبر ہی ڈھانپ سکتی ہے۔میں نے کسی شریف آدمی کے لیے ایسی کوئی نعمت نہیں دیکھی...جیسے کہ کسی عورت (عورت ہونا) کی نعمت، جو قبر کے پردے میں چھپ جائے۔

ایک دوسرے شاعر نے کہا:

عظمت اور شرف کی انتہا یہ ہے کہ بیٹے زندہ رہیں اور بیٹیاں مر جائیں۔

قرآن مجید نکاح کو ایک مضبوط عہد قرار دیتا ہے، جو محبت اور رحمت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اور سکون و رحمت کا ذریعہ بنتا ہے۔وہیں بعض فقہاء نے اپنے دور کے معاشرتی حالات کے زیرِ اثر ازدواجی تعلق کو مختلف انداز میں بیان کیا۔چنانچہ ابن القیم الجوزیہ اپنے زمانے کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"آقا اپنے غلام پر غالب ہوتا ہے، اس پر حکومت کرتا ہے اور اس کا مالک ہوتا ہے اور اسی طرح شوہر بھی اپنی بیوی پر غالب ہوتا ہے، اس پر حکمرانی کرتا ہے اور وہ اس کے اختیار اور حکم کے تحت ایسے ہوتی ہے جیسے قیدی ہے۔"(أعلام الموقعین، ج 2، ص 106)

اس سے اس دور کے معاشرتی رہن سہن کا پتہ چلتا ہے جو قرآن کی اصل تعلیمات سے مختلف تھا۔ جب جدید دور آیا اور مغربی یلغار نے اسلامی معاشروں پر بھی اثر ڈالا تو خواتین کے مغربی تصور کو مسلمان خواتین پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ لبرل سرمایہ دارانہ ماڈل تھا، جس میں عورت کو تجارتی جنس کے طور پر پیش کیا گیا، جس کی نسوانیت اور حسن کو بیچا جاتا ہے دوسرا یہ کہ اسے مرد کے مقابل سمجھا گیا۔عورت کی فطری خصوصیات حیا اور عفت کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔بعض مسلمان مردوں اور عورتوں نے بھی اس طرز زندگی کو اپنا لیا، یہی وجہ ہے کہ اس کے منفی اثرات آج ہمارے معاشروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔چنانچہ مسلمان عورت دو انتہاؤں کے درمیان پھنس کر رہ گئی:پہلا ماڈل: عورت کو ایک قیدی، مجبور اور الگ تھلگ رکھنے کا تھا، جیسے عورت ہونا عار ہو۔ اس نظریے کو سلفیت اور کچھ دیگر گروہوں نے اسلام کے نام پر رواج دیا۔دوسرا ماڈل: اس میں عورت کو بے حساب آزادی دی گئی اور مردانہ خصوصیات اپنانے پر مجبور کر دیا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہم دو انتہا پسند نظریات کے درمیان پھنس گئی:پہلا گروہ عورت کے کسی بھی حق کو تسلیم نہیں کرتا۔دوسرا گروہ کسی بھی قسم کی حد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہماری معاشرتی مشکلات کے ذمہ دار یہی دو انتہا پسند نظریات ہیں اور اسلام کا ان دونوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام نے ہمیشہ عورت کے لیے ایک متوازن اور معتدل ماڈل پیش کیا ہے، جو اسے اس کی اصل فطری حیثیت، وقار اور اس کے حقوق عطا کرتا ہے۔اسلام نے موروثی روایات اور جاہلی رسم و رواج سے خود کو پاک رکھا کیونکہ ان پر واپس لوٹنا تہذیبی زوال کی علامت ہے۔

مقداد الربيعي

Wednesday, 08 October 2025 07:02

مسجد کوفہ

مسجد کوفہ مسجد الحرام، مسجد النبی، اور مسجد الاقصی کے بعد عالم اسلام کے چوتھی اہم مسجد ہے ۔اس مسجد کی عطمت کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کی بنیاد حضرت آدم (ع) نے رکھی اور اس کو وسیع قطعۂ زمین پر تعمیر کیا اور حضرت نوح (ع) نے طوفان کے بعد اس کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔

ابتداء اسلام میں حضرت سلمان فارسی رضوان الله تعالى عليه کی تجویز پر اس مسجد کی تعمیر کا دوبارہ اہتمام کیاگیا۔

حضرت علی (ع) نے بارہا اس مسجد میں نماز کے لئے قیام فرمایا،  اس کے منبر پر خطبے دیئے، بعض امور میں فیصلے کئے اور نظام حکومت کا انتظام و اہتمام کیا۔

جغرافیائی طور پر  مسجد کوفہ،نجف الاشرف کے صوبے میں واقع ہے، کوفہ مخصوصا اپنی  معتدل آب و ہوا، اچھی اور زرخیز زمین کی وجہ سے زیادہ ممتاز ہے۔ دریائے فرات اس کے قریب سے گزرتے ہیں۔

مسجد کوفہ میں صحابیحضرت میثم تماررضوان الله تعالى عليه، مسلم بن عقیل عليه السلام، ہانی بن عروہ رضوان الله تعالى عليه، اور مختار ثقفی رضوان الله تعالى عليه،  کے مراقد واقع ہیں۔ اس کے علاوہ اس مسجدمین بہت سارے انبیاء اوصیاء کرام علیھم السلام کے آرام گاہ بھی ہیں ۔

مسجد کی عمارت:

مسجد کوفہ کی لمبائی 110 میٹر اور چوڑائی 101 میٹر جبکہ اس کا رقبہ 11110 میٹر (اور بقولے 11162 میٹر) مربع ہے اور اس کو 10 میٹر اونچی دیواروں سے محفوظ بنائی گئی ہے۔ مسجد کی کھلی فضا کا رقبہ 5642 میٹر مربع اور اس کے شبستانوں کا رقبہ 5520 میٹر مربع ہے۔ اس مسجد کے ستونوں کی تعداد 187 اور میناروں کی تعداد 4 ہے جن کی اونچائی 30 میٹر ہے۔مسجد کوفہ کے دروازے 5 ہیں؛ جو "باب الحجہ (باب الرئیسی)، باب الثعبان، باب الرحمہ، باب مسلم ابن عقیل اور باب ہانی بن عروہ" ہے۔

مسجد کوفہ کے مقامات:

مسجد کوفہ میں بعض مقامات معلوم اور مشہور ہیں جو حسب ذیل ہیں

مقام رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، مقام ابراہیم علیہ السلام، مقام آدم علیہ السلام، مقام خضر علیہ السلام ، مقام امام سجاد علیہ السلام، مقام امام صادق علیہ السلام، اور مقام امام مھدی عج اللہ فرجہ بھی ہیں۔

اسی طرح اس مسجد کے اگلے حصے میں ایک مقام ہے جہاں حضرت امام علی (ع) بیٹھ کر فیصلے سناتے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر مقامات مین، مقام جبرئل علیہ السلام، اور دکۃ المعراج،جہاں شب معراج جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مسجد حرام سے مسجد اقصی کی طرف جارہے تھے، تو رسول اللہ (ص) نے خداوند متعال کی اجازت سے وہاں دو رکعت نماز پڑھی

سنی تحریک پاکستان کے زیر اہتمام ملتان میں منعقدہ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سابق سینیٹر مشتاق احمد خان اور ان کے ساتھیوں کو اسرائیلی حراست سے رہا کروائے اور وطن واپس لائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان سنی تحریک ملتان کے زیر اہتمام گلوبل صمود فلوٹیلا کے شرکاء کی گرفتاری کے خلاف غزہ، فلسطین کے مسلمانوں کی حمایت کے لیے اسرائیل مردہ باد احتجاجی مارچ منعقد کیا گیا؛ جس میں علمائے کرام، مشائخِ عظام اور قائدین نے شرکت کی۔

احتجاجی مظاہرے میں معروف میلادی رکن الدین حامدی، سماجی وسیاسی رہنما ملک یوسف، علامہ سعیداخترقادری، علامہ کامران عالم نقشبندی، ملک عبدالقدیر کھوکھر سمیت دیگر افراد شریک تھے۔

اس موقع پر مقررین نے کہا کہ عالمی دہشتگرد اسرائیل کے غزہ، فلسطین پر ظلم وستم اور عالمی طاقتوں کی خاموشی، 57 اسلامی ممالک کا عملی اقدام نہ کرنا انتہائی شرمناک اور انسانیت سوز عمل ہے، پوری دنیا میں انسان سراپا احتجاج اور عالم اسلام کے سربراہان خاموش تماشائی کا کردار ڈوب مرنے کے مترادف ہے، اسرائیل اور اس کے حامی صیہونی طاقتوں کو اگر عملی طور پر فوری اس ظلم بربریت سے نہ روکا گیا تو یہ ظلم کی آگ پوری دنیا کو لپیٹ لے گی، اسلامی ممالک کے سربراہان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ شرم کرو شرم کرو شرم کرو اور ناجائز ریاست اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے متحد ہو جاؤ۔


7 اکتوبر 2023 کو حماس کے رہنما شہید یحییٰ سنوار کی رہنمائی، سرپرستی اور قیادت میں طوفان الاقصیٰ آپریشن کی خبر دنیا نے سنی، اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر چڑھائی شروع کی، حزب اللہ نے فلسطینی مجاہدین حمایت میں اپنا سب کچھ داو پر لگا دیا، آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ میں ان لوگوں کی دست بوسی کرتا ہوں جو اسرائیل کیخلاف نبردآزما ہیں۔ لیکن سعودی عرب، اردن اور مصر سمیت عربی اور اسلامی ممالک نے اسے حماس کی غلطی قرار دیا۔ اس کامیاب آپریشن کو دوسرا سال مکمل ہونے پر اس دوران سیاسی و عسکری پیشرفت کے بعد اس آپریشن کے بارے میں بحث ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔

اس کے علاوہ ٹرمپ امن منصوبے کیصورت میں مذاکراتی عمل کی نئی شرائط اور ٹرمپ پلان کے ساتھ حماس کے ابتدائی معاہدے نے یہ سوال مزید شدت سے ابھارا ہے کہ کیا آپریشن طوفان الاقصیٰ فلسطین اور اس سے آگے مزاحمتی محاذ کے مفاد کے لیے نتیجہ خیز اور مفید تھا یا نہیں؟۔ یہ سوال اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ دو سال کی جنگ کے بعد غزہ کے 70000 سے زیادہ شہری شہید، 200000 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں اور غزہ کا 90% سے زیادہ علاقہ تباہ ہو چکا ہے اور صیہونی حکومت نے عملی طور پر اس شہر کے اہم حصوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔

اس کے علاوہ، ایک اور زاویے سے، حزب اللہ، جو حماس کی حمایت میں اس جنگ میں شامل ہوئی تھی، ستمبر 2024 میں شدید ترین حملوں کا نشانہ بنی، جس کی انتہا حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی شہادت تھی۔ یہاں تک کہ آپریشن طوفان الاقصی کے بعض ناقدین کا دعویٰ ہے کہ 18 دسمبر 2024 کو بشار الاسد حکومت کا زوال بھی اسی آپریشن کا نتیجہ تھا اور دمشق کا سقوط، حزب اللہ کیخلاف اسرائیلی امریکی حملوں کا نتیجہ تھا۔ لیکن 7 اکتوبر کے متعلق یہ سب غلط اندازے ہیں، ان کو دو زاویوں سے چیلنج کیا جا سکتا ہے اور ایک مختلف زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ کارروائی صیہونی حکومت اور خطے کے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کا ردعمل تھی اور حماس نے یہ اقدام خود کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لئے انجام دیا۔ یہ بات مزاحمت اسلامی سے پوشیدہ نہیں تھی کہ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے نتیجے میں مزاحمت اسلامی کو صیہونی حکومت اور عالمی شیطانی طاقتوں کی طرف سے کس پیمانے پر اور کس قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور صیہونی حکومت کے ساتھ مزاحمتی لڑائیوں کا تجربہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ مشکل حالات درپیش ہونگے۔ 

اسی لئے حماس نے دو دہائیوں کی جنگ اور اقتصادی ناکہ بندی اور محاصرے برداشت کرنے کے بعد مکمل طور پر خاتمے کی بجائے ایک جرات مندانہ اقدام کے ساتھ کھیل کے اصولوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور کم از کم اب تک تمام تر مصائب کے باوجود مسئلہ فلسطین کو دوبارہ توجہ کے مرکز بنانے کا ہدف حاصل کر لیا گیا ہے۔ اب نہ صرف سماجی سطح پر، شمالی امریکہ سے لے کر مشرقی ایشیا تک دنیا کے مختلف ممالک کی سڑکیں فلسطین کی حمایت میں مظاہروں کے لیے میدان بن چکی ہیں، بلکہ بہت سی حکومتیں، حتیٰ کہ یورپ میں، جو صیہونی حکومت کے روایتی حلیف ہیں، وہ بھی ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔

7 اکتوبر سے پہلے زیادہ تر ممالک صیہونی حکومت اور امریکہ کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کی وجہ سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ دوسرا، فوجی اور سیکورٹی کے نقطہ نظر سے، طوفان الاقصیٰ فلسطین کی جغرافیائی سیاسی حیثیت کو بچانے کے لیے محض ایک خودکش کارروائی نہیں تھی، بلکہ طاقت کے نشے اور کامیابیوں کے گمان میں ڈوبے دشمن پر ایک کارگر وار تھا۔ کیونکہ صیہونی حکومت آپریشن سے پہلے ہی حماس کی ساری قیادت کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اور اس سازش کو غزہ کے اندر فلسطینی اسلامی تحریک کے رہنماؤں نے سمجھ لیا تھا، لیکن اب یہ معاملہ غزہ اور حماس سے بھی آگے نکل گیا ہے۔

طوفان الاقصیٰ سے پہلے صیہونی حکومت نہ صرف غزہ میں حماس کے تمام رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوشش کر رہی تھی بلکہ لبنان میں حزب اللہ کو ایک مہلک دھچکے کیساتھ نمٹانے کے لیے صفر لمحے کا انتظار کر رہی تھی۔ صہیونی چینل 12 پر پیجر آپریشن کے حوالے سے نشر ہونے والی ایک دستاویزی فلم کے مطابق، مہلک آلات ستمبر 2023 میں آپریشن طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے کم از کم ایک ماہ قبل لبنان میں بھیجے گئے تھے اور یہ سارا آپریشن مہینوں سے صیہونی حکومت کی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے ایجنڈے پر تھا۔ دوسرے لفظوں میں، اگر حزب اللہ غزہ کے حمایتی محاذ میں داخل نہ ہوتی تب بھی یہ مجرم اسرائیلی حکومت کے حملے سے محفوظ نہ رہتی۔

مہلک وائرلیس آلات کی موجودگی کے پیش نظر زخمیوں اور شہیدوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی تھی جو واقعہ طوفان الاقصیٰ کے بعد پیش آنے سے سامنے آئی۔ ہمیں اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ مزاحمت پر مبنی جنگ برسوں پہلے شروع ہو چکی تھی اور طوفان الاقصیٰ اس جنگ کی چنگاری تھی، لیکن اس کا انتخاب مزاحمت نے خود کیا۔ فرق یہ تھا کہ اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مزاحمت کا محور مکمل طور پر اچانک حملوں کا شکار ہوتا اور اسے پچھلے دو سالوں سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لڑائی جاری ہے اور مزاحمت کا محور ابھی تک صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ ​​میں مصروف ہے، جس نے انہیں ایک لمحہ بھی سکون نہیں دیا۔

اسلام ٹائمز

 خطیب حرم حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا، حجت الاسلام والمسلمین محمد ہادی ہدایت نے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے فضائل اور قم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے خبر دی تھی کہ ایک خاتون جن کا نام "فاطمہ" ہوگا، قم میں دفن ہوں گی اور جو بھی ان کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوگی۔ اس بشارت نے قم کو اہل بیت علیہم السلام کے حرم اور دنیائے تشیع کے مرکز کی حیثیت دی۔

انہوں نے کہا کہ قرآن مجید کے سورہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے "حرم امن" کا ذکر کیا ہے اور روایات کے مطابق قم کو بھی اہل بیت علیہم السلام کا حرم قرار دیا گیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق جس طرح مکہ، مدینہ اور کوفہ کو خاص فضیلت حاصل ہے، ویسے ہی قم کو بھی یہ شرف حاصل ہے کہ اسے اہل بیت علیہم السلام کا حرم کہا گیا۔

حجت الاسلام والمسلمین ہدایت نے بتایا کہ ملک میں ہزاروں امامزادے ہیں لیکن حضرت عباس علیہ السلام، حضرت علی اکبر علیہ السلام اور حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا وہ ہستیاں ہیں جن کے لیے زیارتنامہ موجود ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ "ہمارا ایک مزار تمہارے درمیان ہے" اور یہ مزار حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا ہے جو حقیقت میں اہل بیت علیہم السلام کا حرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی کرامت صرف حاجت روائی یا مریضوں کے علاج تک محدود نہیں بلکہ ان کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ انہوں نے ایک سنسان علاقے کو علم و دین کا مرکز بنا دیا۔ آج حوزہ علمیہ قم جیسی عظیم دینی درسگاہ انہی کے طفیل قائم ہے۔

اس محقق کے مطابق حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کا اصل راز یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کی مدد کے لیے مدینہ سے سفر کیا اور اسی راستے میں شہادت پائی۔ لیکن قم میں مختصر قیام کے دوران انہوں نے اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کو عام کیا اور شیعوں کو تربیت دی۔

انہوں نے کہا کہ اہل قم ہمیشہ فخر کرتے ہیں کہ ان کا شہر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی آرام گاہ ہے۔ آپ کی شخصیت اس لیے منفرد ہے کہ آپ امام کی بیٹی، امام کی بہن اور امام کی پھوپھی ہیں۔ جس طرح حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے کربلا کے پیغام کو زندہ کیا، ویسے ہی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے علم و کرامت کے ذریعے تشیع کو تقویت بخشی۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا صرف زیارت کا مقام نہیں بلکہ ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں سے علما اور فضلاء تیار ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج تک تمام بڑے علما انہی کی برکت سے پروان چڑھے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔

گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے غزہ کے لئے ایک نام نہاد امن منصوبہ، جسے ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ کہا جا رہا ہے، پیش کیا تھا۔ اس منصوبہ سے متعلق وزیراعظم پاکستان نے سب سے پہلے حمایت کا اعلان کیا، لیکن یہ حمایت اس وقت بھاری پڑ گئی، جب ملک بھر میں وزیراعظم کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بہرحال بعد ازاں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس موضوع سے متعلق صفائی پیش کی اور کہا کہ وزیراعظم سفر میں تھے اور مکمل نہیں پڑھ سکے اور حمایت کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ یہ صفائی بھی کمزور اور خود وزیراعظم کی قابلیت پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ اسی طرح وزیر خارجہ نے یہ بھی بیان دیا کہ ہم آٹھ ممالک نے ٹرمپ کے ساتھ جس معاہدے پر بات کی تھی، یہ وہ معاہدہ نہیں ہے۔ یعنی یہ معاہدہ مشکوک قرار دیا گیا۔

دوسری جانب فلسطین کی حامی جماعتوں اور قوتوں کا ایک ہی موقف ہے کہ فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر کسی کو بھی فلسطین کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ انہی حالات میں مورخہ 03 اکتوبر کو رات گئے حماس کی جانب سے موقف سامنے آیا، جس میں حماس نے ٹرمپ کے منصوبہ پر اپنے ردعمل کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ سمیت مقامی ذرائع ابلاغ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ حماس نے ٹرمپ کے منصوبہ کی حمایت کر دی ہے۔ حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ٹرمپ پلان کو حماس نے کن شرائط پر قبول کیا۔؟ حماس نے ٹرمپ کی تجویز کو اپنے حق میں کیسے موڑ دیا؟ ان سوالات کو میڈیا نے فراموش کرتے ہوئے ایسی خبریں نشر کیں، جس سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ حماس نے امریکی صدر کے منصوبہ کے ساتھ حامی بھر لی ہے۔

حقیقت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کے جواب میں حماس کا تازہ ترین بیان بیانیہ کی جنگ میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ یعنی حماس نے ٹرمپ کے منصوبہ کو تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ اس کو از سر نو تشکیل کیا ہے اور بال دوبارہ سے امریکی صدر کے کورٹ میں پہنچا دی ہے۔ حماس نے اپنے بنیادی اصولوں کی حفاظت کرتے ہوئے بین الاقوامی ثالثوں کے سامنے تعمیری نظر آتے ہوئے سفارتی طور پر چال چلنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یعنی ایک طرف تو حماس نے ٹرمپ کی تجویز کو مسترد نہیں کیا اور دوسری طرف اس کے بجائے، اس نے اسے اپنی شرائط پر اسی پلان کو از سر نو دوبارہ ترتیب دیا ہے۔ حماس نے صیہونی قیدیوں کے تبادلے کو قبول کرنے کی تیاری کا اعلان کیا ہے، لیکن صرف ٹرمپ کے بیان کردہ فارمولے کے مطابق نہیں بلکہ فلسطینی قیدیوں کے تبادلہ کے ساتھ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ قبولیت دشمنی کے مکمل خاتمے اور غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے مکمل انخلاء سے منسلک ہے۔

یعنی اس معاہدےمیں حماس کی مہم ترین شرط غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلاء سے مشروط ہے۔ جہاں تک گہرے سیاسی مسائل کا تعلق ہے، جیسے کہ غزہ یا فلسطینی ریاست کا مستقبل، حماس نے انہیں ایک وسیع تر فلسطینی قومی اتفاق رائے کے لیے موخر کیا، نہ کہ واشنگٹن یا تل ابیب کے حکم پر۔ اس سے حماس اپنی سرخ لکیروں کی حفاظت کرتے ہوئے تعاون پر مبنی نظر آئی، نہ کہ رکاوٹ ڈالنے والی۔ یعنی دشمن کا سارا پراپیگنڈا حماس نے زائل کر دیا ہے کہ حماس اپنے اقتدار کی خاطر جنگ کر رہی ہے بلکہ حماس نے ثابت کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے مستقبل کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

حماس کی جانب سے معاہدے کو از سر نو تشکیل دینے میں ایک اور اہم کام جو انجام پایا ہے، وہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی جانب سے جاری طویل مدتی مہم کا خاتمہ ہے، یعنی مہینوں سے نیتن یاہو اور ٹرمپ نے اسرائیلی قیدیوں کو اپنے ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کیا اور اسرائیل کی فوجی مہم کو انسانی بنیادوں پر ضروری قرار دیا۔حماس نے اس بیانیے کو الٹا کر دیا ہے۔ فلسطینی قیدیوں کے بدلے زندہ اور مردہ تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادگی کا اعلان کرتے ہوئے، حماس نے اسرائیل سے جنگ کو طول دینے کا بنیادی جواز چھین لیا۔ اگر اب بھی لڑائی جاری رہتی ہے تو اس کی ذمہ داری اسرائیل اور امریکہ پر عائد ہوتی ہے، حماس پر نہیں۔ حماس نے غزہ کی انتظامیہ کو آزاد فلسطینیوں کی ایک ٹیکنوکریٹک باڈی کو منتقل کرنے پر رضامندی سے اپنی سیاسی شبیہہ کو بھی مضبوط کیا، بشرطیکہ اسے قومی اتفاق رائے اور عرب اسلامی حمایت حاصل ہو۔

یہ اقدام ان الزامات کا مقابلہ کرتا ہے کہ حماس غزہ میں اقتدار سے چمٹی ہوئی ہے۔ اس کے بجائے،یہ تحریک کو اپنے سیاسی کنٹرول پر فلسطینی عوام کی بقا اور اتحاد کو ترجیح دینے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ٹرمپ کا نام نہاد امن پلان دراصل ٹرمپ کو دنیا کے سامنے ایک امن پسند شخصیت کے طور پر پیش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔لیکن اب صورتحال اس کے بر عکس ہوچکی ہے۔ یعنی حماس نے فلسطینیوں کی خواہش کو مدنظر رکھا اور اعلان کیا کہ کوئی بھی امن منصوبہ فلسطین کے عوام کے لئے انصاف فراہم کرنے پر مبنی ہونا چاہیئے۔ یعنی جارحیت کا مکمل خاتمہ، نقل مکانی کو روکنا اور غزہ پر دوبارہ قبضہ نہ ہونے کی ضمانت۔ اگر ٹرمپ اور نیتن یاہو اب معاہدے کو مسترد کرتے ہیں، تو وہ خود کو امن کو روکنے والوں کے طور پر بے نقاب ہو جائیں گے۔

شاید حماس کے ردعمل کا سب سے اہم حصہ اس بات پر اصرار ہے کہ غزہ کے طویل مدتی مستقبل اور وسیع تر فلسطینی کاز کو امریکہ یا اسرائیل کی طرف سے حکم نہیں دیا جائے گا۔ حماس نے زور دیا کہ ان سوالات کو بین الاقوامی قانون اور اجتماعی مرضی کی بنیاد پر قومی فلسطینی فریم ورک کے ذریعے حل کیا جانا چاہیئے۔ ایسا کرنے سے حماس نے ٹرمپ کے وژن میں آنے سے گریز کیا اور اس اصول کی توثیق کی کہ فلسطینی تنہاء ان کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ حماس نے درحقیقت ٹرمپ کے معاہدے سے انکار کر دیا ہے، پھر بھی اس نے سفارتی اور اسٹریٹجک طریقے سے ایسا کیا۔ تحریک نے اس تجویز کے انسانی اور فوری جہتوں (جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے، حکمرانی کے انتظامات) کو قبول کر لیا جبکہ اس کے سیاسی جال کو مسترد کر دیا۔

یہ تدبیر اسرائیل کے قیدیوں کے بیانیے کو بے اثر کرتی ہے اور امریکہ اور اسرائیل پر بوجھ ڈالتی ہے کہ یا تو اس کی تعمیل کریں یا امن کی راہ میں اصل رکاوٹوں کے طور پر سامنے آئیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ حماس نے ٹرمپ کے امن پلان پر عمل درآمد کو غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلاء کے ساتھ مشروط کر دیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اتوار شام چھ بجے تک اسرائیل غزہ سے اپنی فوج کے مکمل انخلا کا اعلان کرتا ہے یا نہیں؟ اگر یہ اعلان ہوگیا تو واقعی ایک بریک تھرو ہوگا۔ یہ یقینی طور پر حماس اور فلسطینی عوام کی کامیابی قرار پائے گا۔
 
 
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

جمعرات کے دن اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کی جانب گامزن انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا میں شامل کشتیوں پر جارحیت کر کے اس میں شریک تمام امدادی کارکنوں اور اہم شخصیات کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس حملے نے ماضی میں حنظلہ کشتی پر صیہونی جارحیت کی یاد تازہ کر دی ہے جو غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے امدادی سامان لے کر غزہ جا رہی تھی۔ صیہونی رژیم کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ صمود فلوٹیلا میں شامل تمام افراد مقبوضہ فلسطین میں قید ہیں اور ان کی صحت بالکل درست ہے۔ لیکن صیہونی وزارت خارجہ کا یہ بیان عالمی سطح پر انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا پر حملے کی وجہ سے پائے جانے والے غم و غصے کو کم نہیں کر سکا اور دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف عوامی مظاہرے انجام پا رہے ہیں۔ مظاہرین اسرائیل کی جانب سے غزہ کا محاصرہ جاری رکھے جانے پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
 
مزاحمتی فلوٹیلا کی آواز
بدھ کی شام انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا جو غزہ کے ساحل سے تقریباً 139 کلومیٹر دور تھا صیہونی فوج کی یلغار کا نشانہ بن گیا۔ اس میں پانچ سو کے قریب افراد سوار تھے جن میں چند اراکین پارلیمنٹ، وکیل اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن بھی شامل تھے۔ اخبار گارجین کے مطابق اس فلوٹیلا کا مقصد غزہ کا محاصرہ توڑنا تھا اور وہ اپنے ساتھ انسانی امداد لے کر جا رہے تھے۔ صیہونی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں سویڈن سے تعلق رکھنے والے ماحولیات کے سرگرم کارکن گرتا تونبرگ کو دیکھا جا سکتا ہے جو "آلما" نامی کشتی کے فرش پر بیٹھے ہوئے تھے اور صیہونی فوجیوں نے انہیں گھیرا ہوا تھا۔ صمود فلوٹیلا میں شامل کچھ کشتیاں تو غزہ سے چودہ یا پندرہ کلومیٹر فاصلے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھیں لیکن آخرکار صیہونی فوج نے انہیں روک دیا۔
 
آزادی کی لہروں پر
ابتدائی رپورٹس کے مطابق صمود فلوٹیلا میں شامل "میکنو" نامی کشتی غزہ ساحل کے قریب فلسطینی پانیوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ صمود فلوٹیلا میں شامل افراد نے بتایا کہ میکنو کشتی سے ہمیں یہ پیغام ملا کہ "ہمیں ساحل دکھائی دے رہا ہے۔" فلوٹیلا میں ترکی سے تعلق رکھنے والے کارکن رمضان تونچ نے بتایا: "میں آپ کو یہ اچھی خبر سنانا چاہتا ہوں کہ شدید رکاوٹوں کے باوجود ہماری ایک کشتی غزہ پہنچ گئی ہے اور اس نے وہ کام کر دکھایا ہے جسے سب ناممکن سمجھتے تھے۔" بعد میں موصول ہونے والی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے غزہ ساحل سے تقریباً 17 کلومیٹر دور صیہونی فوج نے روک دیا اور اس میں سوار افراد کو کتسیعوت جیل منتقل کر دیا گیا۔ یہ ایک بڑا جیل ہے جس میں فلسطینی قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔
 
صیہونزم کی قید میں
انٹرنیشنل صمود فلوٹیلا میں شامل وہ افراد جو صیہونی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے ہیں دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے اور حتی مغربی شہری بھی اس فلوٹیلا میں موجود تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ظلم و ستم کی وجہ سے اسرائیل سے نفرت پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ صمود فلوٹیلا کے گرفتار شدگان میں آئرلینڈ کے 9 شہری بھی شامل ہیں جن میں شین فن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کرس ایندروز بھی ہیں۔ اسی طرح اٹلی کے دو رکن پارلیمنٹ، فرانس سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمنٹ کے رکن اما فورو، پولینڈ کے رکن پارلیمنٹ فرانسسک استرچفسکی اور برطانوی فضائیہ کے ریٹائرڈ 72 سالہ پائلٹ میلکم داکر بھی اس فلوٹیلا میں شامل تھے۔ میلکم داکر صمود فلوٹیلا میں شامل "ایل این" نامی کشتی چلا رہے تھے۔
 
20 سالہ محاصرے پر خاموشی کا اختتام
غاصب صیہونی رژیم نے 2007ء میں غزہ کے الیکشن میں حماس کی فتح کے بعد غزہ کی پٹی کے خلاف محاصرے کا آغاز کیا تھا اور 2009ء میں محاصرے کی شدت بڑھا دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ اب تک کئی بار اس محاصرے کی مذمت کر چکی ہے اور اسے "انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی" قرار دے چکی ہے۔ صمود انٹرنیشنل فلوٹیلا میں شامل افراد اس بات پر زور دے رہے تھے کہ ان کا اقدام غیر مسلح اور غیر فوجی اقدام ہے اور صرف انسانی بنیادوں پر استوار ہے۔ یاد رہے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنا جرم جانا جاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی غزہ کا محاصرہ توڑنے کی کئی کوششیں انجام پا چکی ہیں۔ 2010ء میں غزہ کی جانب گامزن مرمرہ کشتی پر صیہونی فوج کے کمانڈوز نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں دسیوں ترک شہری شہید ہو گئے تھے۔
 
صیہونیوں کے خلاف عالمی احتجاج
غاصب صیہونی فوج کی جانب سے صمود فلوٹیلا میں شریک تمام افراد کو گرفتار کر لینے کے بعد یورپ سمیت پوری دنیا میں صیہونی رژیم کے خلاف وسیع احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ اسپین کی حکومت نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ صمود فلوٹیلا میں شریک افراد کی سلامتی یقینی بنائے۔ اٹلی میں عظیم احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں بیس لاکھ کے قریب مظاہرین نے شرکت کی۔ اسی طرح کے مظاہرے برسلز، ایتھنز اور برلن میں بھی منعقد ہوئے ہیں۔ عالمی رائے عامہ کے دباو میں آکر برطانوی وزارت خارجہ نے جمعرات کے دن صیہونی رژیم سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر صمود فلوٹیلا میں شامل افراد کو آزاد کر دے۔ ترکی کی وزارت خارجہ نے بھی صمود فلوٹیلا پر صیہونی فوج کے حملے کو "دہشت گردی" قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں عام شہریوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔

تحریر: علی احمدی

 اسپیکر قومی اسمبلی محمد باقر قالیباف نے کہا ہے کہ روس اور چین نے سلامتی کونسل کے دو مستقل اراکین کی حیثیت سے ایک سرکاری بیان میں اس بات پر زور دیا کہ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بحالی غیر قانونی ہے اس کی تعمیل لازمی۔ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران بھی خود کو ان غیر قانونی قراردادوں پر عمل کرنے کا پابند نہیں سمجھتا۔

اسپیکر نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یورینیم کی افزودگی کا ہمارا حق آج بھی بین الاقوامی قانون سے منظور شدہ ہے۔

  انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کوئی ملک ان غیر قانونی قراردادوں کی بنیاد پر ایران کے خلاف کارروائی کی کوشش کرتا ہے تو اسے ایران کی جانب سے سنگین اور جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس غیر قانونی اقدام کے پیچھے جو تین یورپی ممالک ہیں انہیں بھی ہمارے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 آفیسرز یونیورسٹی میں کمیشن افسران سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے خبردار کیا کہ دشمن جان لے کہ ایرانی قوم اپنی صلاحیتوں، توانائيوں اور اعلی نظریات سے فتح حاصل کرے گی۔

 کمیشن افسران سے خطاب کرتے میجر جنرل امیر حاتمی کا آپ نے ایک ایسے وقت میں فوج میں شمولیت کا فیصلہ کیا جب دشمن نے اپنی نادانی اور غلط حساب کتاب کی بنیاد پر وطن عزیز کی سلامتی، ارضی سالمیت، آزادی اور اسلامی نظام کو خطرہ میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن اسے عظیم ایرانی قوم کی استقامت اور مسلح افواج کی مزاحمت کے نتیجے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

بری فوج کے سربراہ نے کہا کہ ہماری طاقتور افواج  نے قوم کی حمایت اور سپریم کمانڈر کی دانشمندانہ قیادت میں دشمن  کے دانت کھٹے کر دیئے اور اسے شکست تسلیم کرنے پر مجبور کردیا۔