سلیمانی

سلیمانی

انقلاب کے بعد تہران کا خطبہ جمعہ بڑی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ یہ انقلاب کی آواز بنا رہا اور آج بھی ہے۔ یہاں سے ایران کے مسائل پر بالخصوص اور امت کے مسائل پر بالعموم بہت زیادہ بات کی جاتی ہے۔ یہاں خطبہ دینے والی شخصیات دراصل ایران اور انقلاب کی بڑی قدآور شخصیات ہوتی ہیں۔ ایران سے اور بعض مواقع پر بیرون ممالک سے بھی لوگ ان نماز ہائے جمعہ میں شریک ہوتے ہیں۔ اس جمعہ میں اسلامی تعلیمات کے مطابق امت کو درپیش چیلنجز کو ڈسکس کیا جاتا ہے۔ یہاں دیئے جانے والے خطبات پر ایران میں مفصل ڈیبیٹس ہوتی ہیں۔ جنگ کے دوران رہبر معظم سید علی خامنہ ای دام عزہ خطبہ دے رہے تھے، ایسے میں منافقین خلق کی طرف سے بم حملہ کیا گیا۔ زور دار دھماکہ ہوا اور کچھ افراتفری کا ماحول پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ ایسے میں ایک مکبر آگے بڑھا اور اس نے اعلان کیا کہ اپنی اپنی نشستوں پر تشریف رکھیں، آغا خامنہ ای دام عزہ خطبہ جاری رکھیں گے۔

جشم فلک نے دیکھا کہ ایک سید سب کے سامنے کھڑا خطبہ جمعہ دے رہا ہے اور بم دھماکے کا دھواں بھی اٹھ رہا ہے۔ یہ عام حالات نہیں تھے، تہران میں شہید مطہریؒ جیسی عظیم شخصیات ان ظالموں کے ظلم کا نشانہ بن چکی تھیں۔ ایران میں پارلیمنٹ تک کو اڑایا جا چکا تھا، ایسے میں یہ سید بزرگوار اپنا خطبہ جاری رکھتا ہے۔ یہ دلیرانہ انداز اہل اسلام کو آج بھی یاد ہے۔ تہران میں اسماعیل ہانیہؒ کی شہادت اور اب سید المقاومہ سید حسن نصراللہؒ کی شہادت نے اسلامی مزاحمتی محور  کی قیادت کو ٹارگٹ کرنے کی اسرائیلی پالیسی، جو بربریت پر مبنی ہے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہو کر طاقت کے توازن کو اسرائیل کے حق میں کر رہے ہیں۔ ایسے میں بہت ضروری ہوگیا تھا کہ ایران کے اندر سے اٹھنے آوازوں کو سنا جائے اور مزاحمتی تحریکوں کی براہ راست مدد کی جائے۔اسرائیل کے خلاف ایسی کارروائی کی جائے، جس سے اسے ظلم سے باز رکھا جا سکے۔

اسلامی جمہوری ایران نے اسرائیل پر براہ راست حملہ کرکے طاقت کے توازن کو بحال کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس سے اسرائیل کے دفاعی نظام کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم بھی ٹوٹ گیا ہے۔ اسلام میں بے گناہ انسان کو قتل کرنا درست نہیں ہے، اس اسلامی حکم پر عمل کرتے ہوئے صرف فوجی مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور بتا دیا گیا ہے کہ آپ کا دفاعی نظام اب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ اس حملے سے  اہل غزہ کے بجھے چہروں پر بھی خوشی نظر آئی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ صہیونی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے ردعمل کی صورت میں ہمارا جواب پہلے سے زیادہ سخت ہوگا۔ اگرچہ اسرائیل کے عزائم یہی بتا رہے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا، جس سے خطے پر اس کی مصنوعی دھاک برقرار رہے۔

اس حملے کے بعد مغربی اور ان کی پیروی میں پاکستانی میڈیا نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ رہبر معظم کسی محفوظ مقام میں منتقل ہوگئے ہیں۔ اس سے اسرائیل کی برتری اور اس سے خوف کا اظہار کرنا تھا۔ ایسے میں سید نے خود جمعہ پڑھانے کا اعلان کر دیا۔ تین دن پہلے اعلان کیا گیا اور زیر آسمان اسی روایتی مصلی پر خطبہ دیا گیا اور بتایا گیا کہ دیکھ لو ہم پوری طرح سے میدان میں موجود ہیں۔ کئی ملین لوگ براہ راست اس نماز جمعہ میں شریک ہوئے اور کئی ملینز نے لائیو اس خطبہ جمعہ کو سنا۔ آپ کا پورا خطاب اہم تھا، اس میں چند امور بڑے پالیسی ساز ہیں۔ رہبمر معظم نے کہا کہ اسرائیل کو خطے سے یورپ تک توانائی کی برآمد کا راستہ بنانا مقصود ہے، اسرائیل کبھی بھی حزب اللّٰہ اور حماس پر فتح یاب نہیں ہوگا، خطے میں مزاحمت پیچھے نہیں ہٹے گی، اسرائیلی حکومت کے جرائم اس کے خاتمے کا باعث بنیں گے۔ اسرائیل سے یورپ کا رومانس اسی لیے ہے کہ وہ مشرق میں واقع ہے اور مغرب کی پالیسی کو نافذ کرنے والا ہے۔

یورپ کی ترقی کی بنیاد جس توانائی پر ہے، اس توانائی کی بلا تعطل فراہمی اسرائیل کے ڈنڈے کے ذریعے کرانے کا پروگرام ہے۔ اپنوں کی نااہلیوں کی وجہ سے عملی طور پر ایسا ہی ہے اور مزید ایسا ہونے جا رہا تھا، یہ تو درمیان میں طوفان الاقصی آگیا، جس کی وجہ سے انہیں وقتی ناکامی ہوئی ہے۔ رہبر معظم نے نمازِ جمعہ کے خطبے میں مسلم اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان مظلوم لوگوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کریں، مسلمان قوموں کو افغانستان سے یمن، ایران سے غزہ اور لبنان تک دفاعی لائن بنانا ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر ملک کو جارح کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، ایران کا دشمن فلسطین، لبنان، عراق، مصر، شام اور یمن کا دشمن ہے، فلسطینی حق پر ہیں اور ہم فلسطین کے ساتھ ہیں، قرآن کا درس ہے کہ مسلم اقوام متحد رہیں، امتِ مسلمہ کے دشمن مشترکہ ہیں، قرآن میں مومنین کے اتحاد سے مراد رحمتِ الہٰی ہے۔

یہ بہت اہم بات ہے کہ مسلمان اپنی دفاعی لائن کھینچیں، ایسا نہ ہو کہ ماضی کی طرح ہر مسلمان ملک کو الگ الگ کرکے مارا جاتا رہے۔ جن ممالک کے رہبر معظم نے نام لیے ہیں، یہ براہ راست مغربی استعماری حملوں کا شکار رہے ہیں۔ اسرائیل اور مغرب رکنے والے نہیں ہیں، وہ ایک ایک کرکے تمام اہم مسلمان ممالک کو شکار کریں گے۔ جاوید چوہدی صاحب نے اپنے کالم میں لکھا ہے: "دوسرا سوال کیا پاکستان اسرائیلی جارحیت سے بچ جائے گا؟ جی نہیں، ایران اور ترکی کے بعد پاکستان کی باری ہے، اسرائیل کے لیے پاکستان کا ایٹم بم ناقابل برداشت ہے، لہٰذا یہ اسے چھین کر رہے گا، پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ بھی ہمارا ایٹمی پروگرام ہے، یہ اسے بند کرانے کے لیے پیدا کیا گیا اور جان بوجھ کر روز بروز اس میں اضافہ کیا جا رہا ہے، تاکہ پاکستان اپنی ٹانگوں پر کھڑا نہ ہوسکے، بی ایل اے بھی اس کی ایک کڑی ہے اور ٹی ٹی پی بھی۔"

عقل مند وہ ہوتا ہے، جو آنے والے وقت کے لیے عملی اقدامات کرتا ہے۔ آج نہیں تو کل یہ وطن عزیز کے درپے ہوں گے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم آج سے تیاری کریں اور دشمن کو دشمن سمجھیں کہ وہ ہمارے پیچھے ہیں اور ہم نے اس سے اپنا اور اپنی امت کا دفاع کرنا ہے۔ رہبر معظم کا خطاب آنے والے وقت کی ہلکی سے جھلک دکھا رہا ہے، باقی مستقبل کا منظر نامہ ہم نے خود سمجھنا ہے۔ رہبر معظم کے اس خطبے کو سن کر سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے اقبال کی خواہش، جو اقبال نے شعر کی صورت کہی لکھی ہے:
طہران ہو گر عالَمِ مشرق کا جینوا
شاید کُرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے!
 
 تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
 

 اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ کو تمغہ فتح سے نوازا۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے کمانڈر جنرل حاجی زادہ کو ایک خصوصی تقریب میں تمغۂ فتح پہنایا۔ پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ کو یہ تمغہ اسرائیل پر 200 سے زائد بیلسٹک میزائل سے حملے پر دیا گیا، جسے آپریشن “True Promise” یعنی سچا وعدہ کا نام دیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ ایران میں فتح کا تمغہ اسلام کے جنگجوؤں اور ان آپریشنز کے فاتحین کی فاتحانہ کارروائیوں کی علامت ہے۔

یہ تمغہ کھجور کے تین پتوں اور خرمشہر گرینڈ مسجد کے گنبد اور اسلامی جمہوریہ ایران کے جھنڈے پر مشتمل ہے۔ آیت اللہ کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے پاسداران انقلاب کے ایرو اسپیس کمانڈر کو اسرائیل پر اسلامی جمہوریہ کے میزائل حملوں کے لیے اس اعزاز سے نوازا ہے۔ یاد رہے کہ 62 سالہ جنرل امیر علی حاجی زادہ 2009ء میں تشکیل دی گئی پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس کی پہلے دن سے سربراہی کر رہے ہیں۔

 
7 اکتوبر 2024ء طوفان الاقصی آپریشن کی سالگرہ کا دن ہے۔ آج ایک سال مکمل ہونے پر ہم اس عظیم تاریخی کامیابی کے بارے میں فخر اور عزت کا احساس کر رہے ہیں جو صہیونی دشمن کے خلاف جدوجہد کا تاریخی موڑ ثابت ہوا ہے۔ یہ آپریشن فلسطین کی مزاحمت کے پس منظر میں محض ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ اپنی سرزمین اور اپنے دفاع پر مبنی مظلوم فلسطینی عوام کے جائز حق کی تجلی تھی۔ طوفان الاقصی آپریشن ایسے دشمن کو منہ توڑ جواب تھا جو جنگی جرائم، نسل کشی اور دہشت گردی سمیت ملت فلسطین کے خلاف کسی قسم کے مجرمانہ اقدام سے دریغ نہیں کرتا تھا اور اس کے یہ تمام تر اقدامات عالمی طاقتوں کی واضح حمایت سے انجام پاتے تھے۔
طوفان الاقصی کے اسباب
طوفان الاقصی آپریشن ہماری قوم کی تاریخ کے حساس مرحلے میں انجام پایا تھا۔
 
جب صہیونی دشمن امریکہ کی بے دریغ اور بھرپور حمایت سے ایسے استعماری منصوبے پر عملدرآمد کرنے کے درپے تھا جس کا مقصد فلسطین کاز کا خاتمہ اور اسرائیل کو خطے کی واحد برتر طاقت میں تبدیل کرنا تھا۔ اس منصوبے کا نشانہ صرف فلسطینی عوام نہیں تھے بلکہ اصل مقصد خطے میں تمام امریکہ اور صہیونزم مخالف قوتوں کا خاتمہ کر کے پوری امت مسلمہ کو غاصب صہیونی رژیم کے زیر تسلط لانا تھا۔ طوفان الاقصی آپریشن اس منحوس سازش کے خلاف انجام پایا تھا اور اس نے اس استعماری منصوبے کے حامیوں کو یہ پیغام دیا کہ فلسطینی مزاحمت اور خطے کی حریت پسند قوتیں ہر گز اس منصوبے کو عملی جامہ پہنائے جانے کی اجازت نہیں دیں گی۔ طوفان الاقصی آپریشن دشمن اور صہیونی امریکی اتحاد پر کاری ضرب تھی۔ وہ خطے میں نئے استعماری زمینی حقائق ایجاد کرنے کے درپے تھے لیکن طوفان الاقصی آپریشن نے ان کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا اور ان کی خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکی۔
 
طوفان الاقصی کے اثرات
طوفان الاقصی آپریشن نہ صرف ایک فوجی ضرب تھی بلکہ اس نے غاصب صہیونی رژیم کی پیش کردہ تصویر بھی نابود کر کے رکھ دی۔ صہیونی رژیم ہمیشہ سے دنیا والوں پر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی تھی کہ وہ ناقابل شکست ہے۔ یہ جھوٹی تصویر اس طرح سے نابود ہوئی ہے کہ اب اس کی دوبارہ تعمیر بھی نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح فلسطین کی اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں صہیونی رژیم کی کمزوری کھل کر سامنے آئی ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد صہیونی رژیم نے زیادہ شدت سے انسانیت سوز مظالم انجام دیے ہیں اور یوں اس شکست کا بدلہ لینے کی کوشش کی ہے جبکہ اسے مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے جو بدستور اس رژیم کی سیاسی، فوجی، سفارتی، مالی اور اخلاقی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا یہ انسانیت سوز جرائم دنیا والوں کو خاموش رہنے پر مجبور نہیں کر سکے۔
 
غزہ میں غاصب صہیونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت، بچوں، خواتین اور بوڑھوں کا قتل عام اور باقاعدہ منصوبے سے غزہ کا انفرااسٹرکچر تباہ کرنا کسی پر پوشیدہ نہیں ہے اور عالمی رپورٹس نے ان حقائق کو عیاں کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمی رائے عامہ تیزی سے مسئلہ فلسطین کے حق میں تبدیل ہو رہی ہے اور اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف دنیا بھر میں آواز اٹھ رہی ہے اور وہ ملت فلسطین کے حقوق کا دفاع کر رہے ہیں۔
طوفان الاقصی کے بعد
آج ہم صہیونی رژیم کے خلاف جدوجہد کے نئے اور خطرناک مرحلے میں ہیں۔ ہم ایک تاریخی ذمہ داری سے روبرو ہیں جو تمام محاذوں پر پوری طاقت سے صہیونی امریکی سازش کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے پر مبنی ہے۔ ہمیں دشمن پر زیادہ طاقت سے ضرب لگانی ہو گی۔ نہ صرف فوجی محاذ پر بلکہ میڈیا، سیاسی اور سفارتی محاذوں پر بھی فعال کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ صہیونی رژیم کا جھوٹا چہرہ دنیا والوں کے سامنے عیاں کر سکیں۔
 
شہید سید حسن نصراللہ مزاحمت کی علامت
آج ہم انتہائی غم کے عالم میں مجاہد کمانڈر، سید حسن نصراللہ کی شہادت کا سوگ بھی منا رہے ہیں۔ ایسی شخصیت جو اسلامی مزاحمت کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوئی اور ان کا شمار اسلامی جدوجہد کی موثر ترین اور کامیاب ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ شہید سید حسن نصراللہ نے اپنی کامیابیوں کے ذریعے سرحدوں سے ماوراء عمل کیا اور صہیونی اور امریکی تسلط کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئے۔ وہ نہ صرف لبنان بلکہ پوری عرب اور اسلامی دنیا میں مزاحمت کی علامت ہیں۔ سید حسن نصراللہ کی شہادت بہت بڑا نقصان ہے لیکن ساتھ ہی اسلامی مزاحمت جاری رکھنے پر تاکید بھی ہے جسے استحکام عطا کرنے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ شہید سید حسن نصراللہ نے عرب دنیا کی موثر ترین شخصیت کے طور پر اسلامی مزاحمت کو تاریخی کامیابیوں سے ہمکنار کیا اور غاصب صہیونی رژیم کو کمزور کیا۔
 
شہید سید حسن نصراللہ کی میراث، ان کے تمام حامیوں اور محبین نیز دنیا بھر کے حریت پسند انسانوں کے دل و دماغ میں ان کی روح اور الفاظ کی صورت میں زندہ رہے گی۔ ان کی تقریریں اور الفاظ ہمیشہ سے دوسروں کی رہنما رہیں اور جن اقوام نے ان سے استقامت اور مزاحمت کا سبق سیکھا ان کے ذہنوں میں محفوظ ہو چکی ہیں۔ یہ عظیم میراث ایک روشن چراغ کی مانند سب کیلئے آزادی اور مزاحمت کا راستہ روشن کرتی رہے گی۔ آج ہم صہیونی رژیم کے خلاف جدوجہد کے نئے اور حساس مرحلے میں ہیں۔ میں تاکید کرتا ہوں کہ یہ اسلامی مزاحمت جس کا نمائندہ سید حسن نصراللہ تھے، ہمیشہ جاری رہے گی۔ شہداء خاص طور پر سید حسن نصراللہ کا خون ہر گز بے ثمر نہیں ہو گا۔ ان کی روحانی اور جہادی میراث روشنی کی مانند مزاحمت کے راستے پر چمکتی رہے گی۔ آخر میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ سید حسن نصراللہ کا راستہ جاری رہے گا اور فتح قریب ہے، باذن اللہ۔
 
 تحریر: ناصر ابوشریف (ایران میں اسلامک جہاد فلسطین کے نمائندے)
 

چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے میڈیا سیل سے جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایک سال سے جاری اسرائیل کے وحشیانہ مظالم بھی حماس کے حملے نہ روک سکے، غاصب صہیونی ریاست اپنی تمام تر سفاکیت کے باوجود غزہ کی نہتی عوام پر غلبہ نہ پا سکی، دنیا کے جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس اسرائیلی فوج سال بھر ہسپتالوں، سکولوں، رہائشی عمارتوں اور مساجد سے لڑتی رہی ہے، خوراک کے حصول کیلئے جمع ہونے والے معصوم بچوں پر بے تحاشہ بارود کی بارش کی گئی، بے گھر کھلے آسمان تلے پڑے اور زخموں سے چور عوام پر درندگی کی انتہاء کی گئی اور سر عام قتل عام کیا گیا، لیکن ناکامی و ندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا، فلسطینی عوام ثابت قدمی کے ساتھ اسرائیل اور امریکہ کی بربریت کا سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کے دل فلسطین اور لبنان کے غیور مسلمان بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ہم دل و جان سے اپنے غزہ و لبنان کے مظلومین مگر شجاع عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان سے اظہار یکجہتی وہمدردی کرتے ہیں، شہداء فلسطین اور لبنان کی عظیم قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، اسرائیل کی کھلی جارحیت امریکہ و مغرب کی کھلم کھلا حمایت کی بدولت ہے اور مسلم دنیا کے لیئے باعث عبرت و شرمندگی ہے، شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید اسماعیل ہنیہ کی عظیم شہادت اسرائیلی نابودی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی، اسرائیل غزہ و لبنان کی نہتی عوام پر اپنے مظالم جاری رکھ کر اپنی ایک سالہ ہزیمت و رسوائی کو چھپانا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے جنگی جرائم پر پردہ نہیں ڈال سکے گا اور غزہ کے مظلومین کا بدلہ لبنان کی سرزمین پر دے گا۔ ان شاءاللہ

صیہونی فوج کے ترجمان "دانیئل ہگاری" نے اعلان کیا ہے کہ عراق سے داغے گئے ڈرون کے دھماکے میں 13ویں گولانی بریگیڈ کے دو فوجی ہلاک ہو گئے۔

صہیونی فوج کے ترجمان نے مزید کہا: مذکورہ ڈرون کے حملے میں 23 دیگر فوجی زخمی ہوئے۔

چند گھنٹے قبل عراقی اسلامی مزاحمتی محاذ  نے ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ اس نے تین الگ الگ کارروائیوں میں مقبوضہ فلسطین میں تین اہداف کو نشانہ بنایا۔

جمعرات  کو بھی عراق کی اسلامی مزاحمت نے پہلی بار ایک جدید ڈرون کے ذریعے مقبوضہ علاقوں کے جنوب میں ایک  ٹھکانے کو نشانہ بنانے کی اطلاع دی تھی۔

واضح رہے عراقی مزاحمت نے گزشتہ ہفتے اور مہینوں میں مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں واقع ایلات میں حساس اور اہم اہداف کو نشانہ بنایا تھا۔

کل تہران میں نماز جمعہ کی امامت رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت‌ الله‌ العظمیٰ "سید علی خامنه‌ ای" نے انجام دی۔ اس شرعی وظیفے کی ادائیگی کے پہلے حصے میں دو خطبے پڑھے جاتے ہیں۔ جس کے ابتدائی حصے میں رہبر انقلاب نے کہا کہ میں اپنے بھائیوں، بہنوں، عزیزوں اور خود کو تقویٰ الہی اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ نصیحت کرتا ہوں کہ حدود خدا کا پاس رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ قرآنی آیات کی تشریحات میں مومنین کی باہمی یکجہتی کا ذکر آتا ہے اور یہ یکجہتی ایک مومن کا دوسرے مومن پر حق کہلاتی ہے۔ اگر ہم سب مسلمان ایک ہو جائیں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں تو خداوند متعال کی مدد شامل ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کی بھی یہی حکمت عملی ہے کہ ہم سب مسلمان آپس میں ایک ہوں۔ یہی اتفاق، خدا کی مدد و نصرت سے دشمن پر غلبہ پانے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دشمن یعنی مستکبرین اور جارحین تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فارمولے پر گامزن ہیں۔ تفرقہ، دشمن کا ہتھیار ہے۔ انہوں نے اسی ہتھیار کو مسلمان ملکوں میں استعمال کیا اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ لیکن اب قومیں بیدار ہو رہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج وہ دن ہے جب امت مسلمہ اسلام دشمنوں کے اس حیلے سے جان چھڑا سکتی ہیں۔

آیت‌ الله‌ العظمیٰ سید علی خامنه‌ ای نے کہا کہ ایرانی عوام کا دشمن وہی ہے جو فلسطینی عوام کا دشمن ہے، جو لبنان کا دشمن ہے جو عراق، مصر، شام اور یمن کا دشمن ہے۔ دشمن ایک ہی ہے مگر مختلف ملکوں میں اس کا طریقہ واردات مختلف ہے۔ ایک جگہ نفسیاتی جنگ کا حربہ آزماتا ہے تو دوسری جگہ اقتصادی دباو بڑھاتا ہے۔ اگر کسی جگہ ٹنوں وزنی بم گراتا ہے تو دوسری جگہ اپنی شریر منافقانہ مسکراہٹ سے کام دکھاتا ہے۔ لیکن اس کا ایک آپریشن روم ہے جہاں سے یہ رہنمائی لیتا ہے۔ جہاں سے اسے مسلم آبادیوں اور اقوام پر حملوں کا حکم ملتا ہے۔ رہبر انقلاب نے مزید کہا کہ اگر کسی ملک میں دشمن کی مذکورہ بالا چالیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو وہ اس کے بعد دوسرے ملک کا رُخ کرتا ہے۔ اسے ایسا نہیں کرنے دینا چاہئے۔ ہر قوم جو دشمن کے مفلوج محاصرے سے بچنا چاہتی ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنی آنکھیں کُھلی رکھے اور بیدار رہے۔ جب ہم دیکھیں کہ دشمن ایک معاشرے کو تباہ کرنے کے بعد دوسرے کی جانب بڑھ رہا ہے تو ہمیں متاثرہ قوم کے ساتھ خود کو شریک سمجھنا چاہئے، اس مظلوم قوم کی مدد کرنی چاہئے اور اُن کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے تا کہ وہ دشمن کے چنگل سے نجات حاصل کر لیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ہمیں افغانستان سے یمن، ایران سے غزہ و لبنان اور تمام اسلامی ممالک و اقوام تک اپنی دفاعی، آزادی و وقار کی پٹی کو مضبوط کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آج میری گفتگو کا یہ پہلا حصہ تھا جسے میں چاہتا تھا کہ بیان کروں۔ اس کے علاوہ میری زیادہ تر گفتگو لبنانی اور فلسطینی بھائیوں کے لئے ہے جو اس وقت مشکل میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے دفاعی احکام میں ہماری ذمے داریوں کا تعی٘ن کیا گیا ہے۔ ان وظائف کا تعی٘ن ہمارے اسلامی و بنیادی حتیٰ اُن بین الاقوامی قوانین نے بھی کیا ہے کہ جنہیں بنانے میں ہماری مذہبی تعلیمات کا کوئی اثر نہیں۔ لیکن یہی بین الاقوامی قوانین ہمارے مس٘لمات میں سے ہیں اور وہ یہ کہ ہر قوم کو اپنی سرزمین و مفادات کے دفاع کا قانونی حق حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے گھروں، زمینوں، سرزمین اور جمع پونجی پر حملہ آور دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اس وقت عالمی قوانین بھی اس بات کی تائید کر رہے ہیں کہ یہ محصور علاقہ فلسطینی عوام کا ہے۔ یہاں پر قابض کون ہیں؟۔ کہاں سے آئے ہیں؟۔ فلسطین کس کا ہے؟۔ فلسطینی عوام کون ہے؟۔ ملت فلسطین کو حق ہے کہ وہ ان سب کے خلاف کھڑے ہو۔

کوئی بھی ادارہ، کوئی مرکز، کوئی بین الاقوامی تنظیم فلسطینیوں پر اعتراض نہیں کر سکتی کہ وہ کیوں صیہونی رژیم کے سامنے سینہ سپر کئے ہوئے ہیں۔ وہ افراد جو فلسطینوں کی مدد کر رہے ہیں وہ اپنا وظیفہ انجام دے رہے ہیں۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کی اساس پر کسی شخص کو حق حاصل نہیں کہ وہ ملت لبنان اور حزب الله پر اعتراض کرے کہ وه کیوں غزہ و فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں۔ وہ اپنی ذمے داری نبھا رہے ہیں۔ یہی اسلام کا حکم ہے یہی عقل کا اور یہی عالمی و بین الاقوامی قوانین کی منطق بھی۔ فلسطینی اپنی سرزمین کا دفاع کر رہے ہیں۔ اُن کا یہ دفاع قانونی ہے۔ اُن کی مدد کرنا قانونی ہے۔ اسی بِنا پر گزشتہ سال انجام پانے والا آپریشن طوفان الاقصیٰ بین الاقوامی قوانین کی رو سے عین منطقی ہے۔ فلسطینیوں کا یہ عمل بالکل جائز ہے۔ فلسطینی عوام کے لئے لبنانیوں کی مخلصانہ حمایت اسی حکم کی وجہ سے ہے۔ یہ حمایت قانونی بھی ہے اور معقول بھی، منطقی بھی ہے اور عقلی بھی۔ کسی کو حق نہیں کہ وہ اس قانونی دفاع کے حق پر اعتراض کرے اور کہے کہ آپ کیوں اس کام میں گھس گئے ہیں۔ دو تین شب قبل ہماری مسلح افواج کا شاندار عمل قانونی بھی تھا اور جائز بھی۔

عربی زبان میں دئیے گئے خطبہ جمعہ میں رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ اس مرحلے میں، میں عالم اسلام خصوصی طور پر فلسطین و لبنان کی عزیز قوم کو مخاطب کر رہا ہوں۔ ہم سب سید حسن نصر اللہ کی شہادت پر سوگرار ہیں۔ اس عظیم فقدان نے ہمیں عزادار کر دیا۔ تاہم ہمارے غمگین ہونے کا مطلب نا امیدی نہیں ہے۔ بلکہ یہ عزاداری ایک طرح سے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے لئے ہے جو ہمارے لئے امید افزاء اور درس آمیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ مادی طور پر سید حسن نصر الله ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی روح ہمارے ساتھ ہے اور رہے گی۔ وہ ستمگروں کے سامنے مقاومت کا بلند پرچم تھے۔ وہ مظلومین کے لئے شجاع مدافع اور بلند آواز تھے۔ اُن کی مقبولیت اور اثر و رسوخ ایران و لبنان بلکہ عرب ممالک سے بڑھ چکا تھا۔ اُن کی شہادت کے بعد ان کی یہ مقبولیت مزید بڑھ چکی ہے۔ اُن کا لبنان کی وفادار عوام کے لئے اپنی مادی زندگی میں یہ عملی پیغام تھا کہ "امام موسی الصدر" رہ اور "سید عباس موسوی" رہ جیسی عظیم شخصیات کے داغ مفارقت کے باوجود ناامید اور مایوس نہ ہونا تھا۔ شہید کا پیغام تھا کہ جدوجہد ترک نہ کی جائے اور مزید کوشش کر کے اپنی توانائی بڑھائی جائے۔ دشمن کے مقابلے میں مضبوطی ایمان کے ساتھ مقاومت پر بھروسہ کریں۔ 

رہبر انقلاب نے کہا کہ دشمن، مقاومت کے انفراسٹرکچر کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ناپاک دشمن چون کہ "حزب‌ الله"، "حماس"، "جہاد اسلامی" اور دیگر جہادی تنظیموں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا اس لئے بمباری، قتل و غارت گری اور نہتے شہریوں کو نقصان پہنچانا اپنی فتح سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس عزیز سید نے اپنی زندگی کے 30 سال سخت ترین جدوجہد میں گزار دئیے۔ انہوں نے حزب الله بیج کو اپنے ہاتھوں سے پروان چڑھایا۔ سید حسن نصر الله کی حکمت عملی نے حزب الله کو مرحلہ وار، صبر اور منطقی طور پر ترقی دی۔ جس کے بعد حزب الله نے صیہونی دشمن کو مختلف اوقات میں اپنے وجود کے آثار دکھائے۔ حزب الله حقیقی طور پر شجرہ طیبہ ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر اور دنیا بھر کی اسلامی مزاحمتی تحریکوں کے مرشد اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے چار اکتوبر جمعہ کو تہران میں نماز جمعہ کی امامت کی اور عربی و فارسی میں دو الگ خطبات دیئے۔ اپنے خطبات میں انہوں نے فلسطین کی مزاحمت کو قانونی و جائز قرار دیا اور پوری دنیا کو واضح کر دیا کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن اور فلسطینی زمین پر فلسطینیوں کا حق ہے۔ تاہم فلسطینی قوم کی جدوجہد اپنے حق کی خاطر ہے اور جو کوئی بھی فلسطینی قوم کی حمایت کر رہا ہے، وہ بھی تمام بین الاقوامی قوانین کے مطابق جائز کام ہے، لہذا جو کچھ آج حزب اللہ غزہ کے دفاع اور حمایت میں کر رہی ہے، دنیا کی کوئی طاقت اور قانون اس جہاد کو ناجائز قرار نہیں دے سکتا۔ یعنی اگر فلسطینی قوم کی جدوجہد قانونی اور ان کی حمایت کرنا بھی قانونی طور پر جائز ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کی جانب سے غاصب اسرائیل کے خلاف کارروائی اور فلسطینیوں کی حمایت بھی ہر لحاظ سے قانونی اور جائز ہے۔

سپریم لیڈر نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے دو روز قبل غاصب صیہونی حکومت کو دیئے گئے جواب کو غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے جرائم پر کم ترین سزا سے تشبیہ دی ہے، یعنی اس بات کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ آئندہ دنوں میں غاصب صیہونی دشمن کو مزید سزا دی جا سکتی ہے اور اسی بات کا آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر میں بھی ذکر کیا کہ اگر صیہونی غاصب دشمن نے کوئی قدم اٹھایا تو ایران کا ردعمل بھرپور ہوگا، جو کہ جلد بازی پر نہیں بلکہ عسکری ماہرین کی رائے اور مشاورت سے وقت کے حساب کتاب کے ساتھ ہوگا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی روش کو وضاحت سے بیان کر دیا کہ انقلاب اسلامی ایران کے اقدامات اور کامیابیاں نہیں رکیں گی۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے سید حسن نصراللہ کی شہادت کو ایک بڑا نقصان قرار دیا ہے اور حزن و غم کا اظہار کرنے کے ساتھ خطے کی عوام بالخصوص حزب اللہ اور لبنانی عوام سے عربی میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات پر ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

جی ہاں یہ بات اس لئے بیان کی گئی، کیونکہ اسلامی مزاحمت کی تاریخ شہادت پر مبنی ہے۔ سید حسن نصراللہ سے پہلے بھی سیکڑوں شخصیات نے قربانیاں دی ہیں، لیکن مزاحمت جاری ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو میں لبنانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جارح دشمن کا مقابلہ کریں۔ طوفان الاقصیٰ کا اقدام ایک تاریخی اور درست اقدام تھا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے غاصب صیہونی دشمن کی شکست پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان کیا کہ آج اسرائیل غزہ میں چھوٹے سے گروہوں کے سامنے بے بس ہوچکا ہے، حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ سمیت خطے کی دیگر مزاحمتی تنظیموں نے اسرائیل کو شکست دے دی ہے، تاہم اب وہ مزاحمت کے کمانڈروں کے قتل کے ذریعے بتانا چاہتا ہے کہ فتح اس کی ہے، جو واضح جھوٹ ہے، کیونکہ اسرائیل حماس اور جہاد اسلامی سمیت حزب اللہ کے مزاحمتی ڈھانچہ کو ختم کرنے یا نقصان پہنچانے میں ناکام ہوا، تاہم کمانڈروں کو نشانہ بنایا گیا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے حزب اللہ لبنان کی توصیف بیان کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ اور اس کے شہید رہنماء ایک شجرہ طیبہ ہیں، سید حسن نصر اللہ کا جسم ہمارے درمیان نہیں ہے، لیکن ان کی شخصیت، روح، نقطہ نظر اور مخلصانہ آواز ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے۔ ہم سب کے پیارے اور عزیز سید حسن نصراللہ کی شہادت سے ہمیں انتہائی دکھ پہنچا ہے، لیکن یاد رکھیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مایوس ہو جائیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے عربی خطبہ میں فلسطینی و لبنانی قوم کو کہا کہ یقین رکھیں، غاصب اسرائیل کا وجود کچھ نہیں ہے اور اس کا وجود باقی نہیں رہے گا، ان شاء اللہ۔ آیت اللہ خامنہ ای نے پوری دنیا میں فلسطین کی حمایت کرنے والوں کے لئے ایک قانون مرتب کر دیا کہ جو کوئی بھی فلسطینی قوم کی حمایت کر رہے ہیں، وہ درست راستے پر ہیں۔ انہوں نے مزاحمت کرنے والوں کے لئے واضح کر دیا ہے کہ کوئی بھی اقدام جو غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے وجود کو نقصان پہنچائے، یہ پورے خطے کے انسانوں اور عوام کی خدمت ہے۔ آج خطے کی مزاحمت سے ثابت ہوچکا ہے کہ فتح مزاحمت کرنے والوں کی ہے۔ شہادتوں سے حوصلہ پست نہیں بلکہ بلند ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ غاصب صیہونی دشمن اسرائیل کی مسلسل دھمکیوں کے باوجود ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اپنے پروگرام اور طے شدہ وقت پر تشریف لائے اور خطبات دینے کے بعد نماز جمعہ اور نماز عصر بھی ادا کی۔ آج پوری دنیا اس بات کا مشاہدہ کر رہی ہے کہ غزہ کی مزاحمت نے دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں اور طاقتوں کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے فلسطینی اور لبنانی مزاحمت کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اور لبنانی جوانوں کی مزاحمت نے آج غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو ستر سال پیچھے دھکیل کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے خطے میں امریکی مداخلت کی مذمت کی اور مسلمان اقوام کو باہمی تعاون کرنے کی تلقین کی کہ اگر مسلمان اقوام باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں تو یقیناً جلد کامیابی حاصل ہوگی۔ انہوں نے فلسطین پر فلسطینی قوم کے حق کو بیان کیا اور کہا کہ فلسطینی کون ہیں؟ آخر وہ کیوں جدوجہد کر رہے ہیں۔؟ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ فلسطینی قوم کی حمایت میں کھڑے ہوں۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

امت مسلمہ کا تشخص!

امت مسلمہ کے تشخص کا مسئلہ، ایک بنیادی اور قومیت سے آگے کا مسئلہ ہے اور جغرافیائی سرحدیں امت مسلمہ کی حقیقت اور تشخص کو نہیں بدل سکتیں۔

 

ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان سے غفلت!

یہ بات اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کہ ایک مسلمان، غزہ یا دنیا کے کسی دوسرے حصے میں دوسرے مسلمان کی تکلیف سے غافل رہے۔

 

اختلاف اور دشمن کے ہتھکنڈے!

دشمن فکری، تشہیراتی اور معاشی حربے استعمال کر کے ہمارے ملک میں اور ہر اسلامی خطے میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے درپے ہیں اور فریقین کے بعض افراد کو ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی کی ترغیب دلانے جیسے اقدامات کے ذریعے اختلافات کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔