سلیمانی

سلیمانی

رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے  ہفتہ وحدت کے آغاز اور عید میلاد النبی کے موقع پر پیر کے روز ایران کے کچھ اہل سنت علماء، ائمہ جمعہ اور اہل سنت کے  مدرسوں کے پرنسپلوں سے ملاقات کی۔

رہبر انقلاب نے اس ملاقات میں کہا: اسلامی امت کا موضوع، بنیادی اور قومیت کے دائرے سے باہر کی چيز ہے اور جغرافیائی سرحدیں، اسلامی امت کی شناخت اور حقیقت کو بدلتی نہيں۔

انہوں نے مسلمانوں کو اپنی اسلامی شناخت کی جانب سے لاپروا کرنے کے لئے دشمنوں کی  مخاصمانہ کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کہ کوئی مسلمان غزہ یا دنیا کے کسی بھی گوشے  کے دوسرے مسلمان کے غموں سے غافل رہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے علمائے اہل سنت کو اسلامی شناخت اور اسلامی امت پر اعتماد کی دعوت دی اور عالم اسلام خاص طور پر ایران میں مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کی بد خواہوں کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ ذہنی، تشہیراتی اور معاشی حربوں کا استعمال کرکے ہمار ے ملک اور دوسرے تمام اسلامی علاقوں میں شیعہ- سنی کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہيں اور دونوں طرف سے کچھ لوگوں کو ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے  پر مامور کرکے ضد اور اختلافات کی آگ بھڑکاتے ہيں۔

رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ان سازشوں کے مقابلے کی واحد راہ اتحاد کو قرار دیا اور کہا کہ اتحاد حکمت عملی نہيں بلکہ قرآنی اصول ہے۔

انہوں نے " اسلامی امت" کی گراں قدر شناخت کی حفاظت کو ضروری قرار دیا اور اسلامی اتحاد کی اہمیت اور اسے کمزور کرنے کی مخاصمانہ کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ " اسلامی امت " کی بات کو کبھی نہيں بھولنا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے شیعہ و سنی کے اتحاد کو کمزور کرنے کے لئے دانستہ و نادانستہ کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یقینی طور پر اتنے وسیع پیمانے پر سازشوں کے باوجود ہمارے  اہل سنت معاشرے نے اس قسم کی کاوشوں کا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے جس کا ایک ثبوت ، مقدس دفاع اور دیگر مواقع پر 15 ہزار اہل سنت شہید اور اسی طرح حق و انقلاب کی راہ میں اہل سنت علماء کی بڑی تعداد کی شہادت ہے۔

رہبر انقلاب نے اسلامی اقتدار جیسے اہم ہدف کے حصول کو اتحاد کے علاوہ کسی اور راستے سے نا ممکن قراردیا اور کہا کہ آج ایک یقینی فریضہ غزہ و فلسطین کے مظلوموں کی حمایت ہے اور اگر کوئي اس فریضہ پر عمل نہيں کرتا تو یقینا اللہ کے سامنے اسے جواب دینا ہوگا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سٹی اف نالج پبلک اسکول جیک آباد پاکستان کے زیرِ اہتمام عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور ہفتۂ وحدت کی مناسبت سے ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ مقصود علی ڈومکی، جبکہ اعزازی مہمان ایم ڈبلیو ایم ضلع جیکب آباد کے صدر نذیر حسین جعفری تھے۔

اس موقع پر اسکول کے طلباء اور طالبات نے بارگاہ رسالت مآبﷺ میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

ربیع الاول کا مہینہ، اتحاد بین المسلمین کا عملی مہینہ ہے، علامہ مقصود علی ڈومکی

اس موقع پر طلباء و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ حضور سید الانبیاء کی ذات گرامی عالم بشریت کے لیے رہبر اور رہنما ہے ربیع الاول کا مبارک مہینہ عشق رسول ﷺ کا مہینہ ہے۔ عاشقان رسول ﷺ اپنی سیرت اور کردار سے سید الانبیاء ﷺ کے حقیقی پیروکار ہونے کا ثبوت دیں۔

انہوں نے کہا کہ ربیع الاول کا مہینہ اتحاد بین المسلمین کا مہینہ ہے، 12 سے 17 ربیع الاول ہفتہ وحدت کے موقع پر شیعہ سنی دیوبندی بریلوی اہل حدیث سب نے مل کر امت واحدہ کا ثبوت دینا ہے۔ اسلام دشمن سامراجی طاقتیں خصوصا امریکا اور اسرائیل مسلمانوں کو اپس میں لڑانا چاہتے ہیں ہم نے اپنے اتحاد اور وحدت سے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔

ربیع الاول کا مہینہ، اتحاد بین المسلمین کا عملی مہینہ ہے، علامہ مقصود علی ڈومکی

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ضلعی صدر نذیر حسین جعفری نے کہا کہ ہفتہ وحدت کے موقع پر مجلس وحدت مسلمین شیعہ سنی وحدت اور اتحاد بین المسلمین کے لیے خصوصی پروگرام کرتی ہے۔ مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان کے کارکن برادران اہل سنت کے جلوس میلاد کا پھولوں کے ہار پہنا کر اور پھول نچھاور کر کے استقبال کریں گے۔

تقریب سے مجلسِ علمائے مکتب اہل بیت علیہم السّلام ضلع جیکب آباد کے نائب صدر مولانا ارشاد علی سولنگی نے بھی خطاب کیا۔

تہران - ارنا – اتوار کی صبح تل ابیب پر یمنی میزائل حملے نے خوفزدہ صہیونیوں کو پناہ گاہوں میں جانے پر مجبور کر دیا

 ذرائع کے مطابق اس حملے میں 9 افراد زخمی ہوئے ہيں اور اس سے  ایک بار پھر  غاصب صیہونی حکومت کے دفاعی نظام کی ناکامی کا ثبوت  ملا ہے۔

صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے اتوار کی صبح تل ابیب پر یمن کے میزائل حملے اور صیہونی حکومت کے دفاعی نظام کی ناکامی کی خبر دی۔

اس میزائل حملے کے بعد بڑے پیمانے پر آگ لگ گئی ہے۔

صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا کہ یمنی میزائل بہت طاقتور اور سپرسونک تھا اور اس نے تمام دفاعی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے بن گورین ہوائی اڈے کے قریب "اللد" فوجی علاقے کو نشانہ بنایا۔

صیہونی حکومت کے اسپتال ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ تل ابیب کے مشرق میں یمنی میزائل حملے کے نتیجے میں 9 صہیونی پناہ گاہ کی طرف بھاگتے ہوئے زخمی ہوئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق صیہونی فائر فائٹرز یمنی میزائل سے لگنے والی آگ کو بجھا رہے ہیں

 
 
Sunday, 15 September 2024 09:03

فتح کی نوید دلاتا پیغام

حال ہی میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ یحیی السنوار نے غزہ سے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کو ان کے خط کا جواب بھیجا ہے جو درحقیقت فلسطین اور لبنان میں سرگرم اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان موجود گہرے اتحاد کی علامت ہے۔ یاد رہے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد حماس کے نئے سربراہ کے طور پر یحیی السنوار کو خط لکھا تھا جس میں شہید ہنیہ کی شہادت کی مناسبت سے تعزیت اور تبریک پیش کی گئی تھی۔ یحیی السنوار نے اپنے جواب میں سید حسن نصراللہ کے خط کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا: "میں آپ کی اظہار حمایت اور ہمدردی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو سچے اور اعلی جذبات پر مشتمل تھا۔ آپ کی جانب سے حمایت کا یہ اظہار اسلامی مزاحمتی محاذوں پر آپ کے بابرکت اقدامات کے ہمراہ ہیں۔"
 
حماس کے سربراہ یحیی السنوار کے پیغام میں مزید آیا ہے: "ابوالعبد، طوفان الاقصی میں ہمارے کمانڈر تھے جو ہماری قوم کی تاریخ میں سب سے زیادہ شرافت مندانہ معرکہ تھا۔ وہ شہید ہو چکے ہیں۔ ہمارے کمانڈر کی شہادت اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے کمانڈرز اور مجاہدین کا خون اپنے ہم وطن افراد کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ یہ پاکیزہ خون اور شہداء کے مبارک قافلے قابض قوتوں کے خلاف ہماری طاقت اور استقامت میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ ہم جس راہ پر قدم آگے بڑھائیں گے وہ جہاد اور مزاحمت کے گرد فلسطینی قوم کا اتحاد ہے۔ اسی طرح ہم وحدت کی راہ پر گامزن ہوں گے جس کی مرکزیت صیہونزم کے خلاف وحدت پر استوار ہے۔ ہم قابض قوتوں کو نکال باہر کرنے اور قدس شریف کی مرکزیت میں مکمل حاکمیت سے برخوردار خودمختار ملک تشکیل دینے تک اپنے ان اصولوں پر گامزن رہیں گے۔"
 
یحیی السنوار کی جانب سے سید حسن نصراللہ کو لکھے گئے خط کے مختلف پہلو واضح کرنے کیلئے اس نکتے پر توجہ دینا ضروری ہے کہ آج اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل تمام قوتیں غاصب صیہونی رژیم نامی واحد دشمن کے خلاف متحد ہو چکی ہیں۔ طوفان الاقصی آپریشن کے دوران انجام پانے والی کامیاب کاروائیوں اور اس معرکے کا مقبوضہ فلسطین کے دیگر حصوں تک پھیل جانے نے نئے علاقائی نظم کے بارے میں بہت سے تجزیوں اور مفروضات کو جنم دیا ہے۔ ان سب کا مشترکہ نکتہ اس بات پر مبنی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کو اسٹریٹجک لحاظ سے شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور خطے اور عالمی سطح پر نئی مساواتیں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ یقیناً ان نئے حالات میں غاصب صیہونیوں اور ان کے مغربی حامیوں کو مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
 
طوفان الاقصی آپریشن ایک ہائبرڈ فتح کی علامت سمجھا جاتا ہے جس کا نتیجہ غاصب صیہونی رژیم پر اسلامی مزاحمتی بلاک کی اسٹریٹجک برتری کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل مختلف قوتیں ایک خونخوار اور وحشی دشمن کے مقابلے میں متحدہ طور پر سرگرم عمل ہو چکی ہیں۔ غاصب صیہونی رژیم کے فوجی اور سیاسی سربراہان اس نکتے پر متفقہ رائے رکھتے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین کے تمام حصے اسلامی مزاحمت کے میزائلوں کی زد میں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں صیہونی حکمران سمجھ چکے ہیں کہ اب ان کے پاس کوئی "محفوظ مقام" باقی نہیں رہا۔ دوسرا اہم مسئلہ انتفاضہ ہے۔ تقریباً گذشتہ ایک عشرے سے صیہونی حکمرانوں کی پوری توجہ غزہ پر مرکوز رہی ہے لیکن اس وت پورا خطہ بلکہ پوری دنیا اسلامی مزاحمت کا نیا مورچہ بن چکی ہے۔ غزہ جنگ تاریخ ساز اور تحریک ساز ہے جس نے صیہونیوں کی موجودیت خطرے میں ڈال دی ہے۔
 
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ کے نام حماس کے سربراہ یحیی السنوار کے جوابی خط کا ایک اہم نتیجہ دشمن کی نرم جنگ ناکام بنانا ہے۔ امریکہ، یورپی یونین اور غاصب صیہونی رژیم نے دنیا بھر میں فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد ظاہر کرنے کیلئے جو بھرپور پراپیگنڈہ شروع کر رکھا تھا وہ پوری طرح ناکام ہوا ہے اور آج مغربی ممالک سمیت دنیا بھر میں اہل غزہ کے حق میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ لندن جیسے شہر میں برطانوی شہری اس ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ کر کے فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک میں شدید حکومتی دباو اور پولیس کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کے باوجود آئے دن فلسطینیوں کے حق میں عوامی مظاہرے برپا ہو رہے ہیں۔ یہ مغرب کی بہت بڑی شکست ہے جو صرف غزہ جنگ تک محدود نہیں بلکہ درحقیقت نیو ورلڈ آرڈر تشکیل پا رہا ہے۔
 
یقیناً اس نئے عالمی نظام میں صیہونی رژیم، اس کے مغربی حامیوں اور اس سے سازباز کرنے والے عرب حکمرانوں کی حقیقی ہار اور شکست ہو گی۔ یہ حقیقت ہر زمانے سے زیادہ واضح ہو چکی ہے۔ لہذا امریکہ اور غزہ میں صیہونی رژیم کی نسل کشی کے دیگر حامیوں کی نرم جنگ نہ صرف مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ ان کے خلاف عالمی رائے عامہ پروان چڑھ رہی ہے۔ یحیی السنوار کا حالیہ خط صرف حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کے نام نہیں تھا بلکہ اس میں عالمی رائے عامہ کو مخاطب قرار دیا گیا تھا اور ان تمام بیدار ضمیر انسانوں کا شکریہ ادا کیا گیا تھا جو غزہ اور خان یونس میں صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات پر خاموش نہیں بیٹھے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے میں مصروف ہیں۔ نرم جنگ میں عوام کی سوچ اور عقائد کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسلامی مزاحمت نے اسی محاذ پر دشمن پر جوابی وار کیا ہے۔

چمران 1 ریسرچ سیٹلائٹ کو ایران الیکٹرانک انڈسٹریز اسپیس گروپ صا ایران نے ایرو اسپیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور  نالج بیسڈ نجی کمپنیوں کے تعاون اور شراکت  سے تیار کیا ہے۔

اس سیٹلائٹ کا وزن تقریباً 60 کلو گرام ہے اور اس کا بنیادی مشن ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر سسٹمز کی جانچ کرنا ہے ۔

قائم- 100  سیٹیلائٹ لانچر ٹھوس ایندھن  سے چلتا ہے ۔ اسے پاسداران انقلاب فوج کے ایرو اسپیس یونٹ کے ماہرین نے  تیار کیا ہے ۔ یہ لانچر  اپنے دوسرے آپریشن میں چمران 1 سیٹلائٹ کو کامیابی کے ساتھ  خلاء میں پہنچانے میں کامیاب رہا۔

Saturday, 14 September 2024 08:09

مغربی کنارے میں انتفاضہ

صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی طرف سے جنگ بندی کے مذاکرات کی ناکامی کے بعد صیہونی فوج نے غزہ میں خونریزی کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں اسے دردناک ردعمل بھی ملا ہے۔ غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے سیاہ ریکارڈ میں ایک اور خونی جرم کا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف مغربی کنارے میں غاصبوں کو نشانہ بنانا فلسطین سے متعلق تازہ ترین خبروں میں شامل ہے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ پٹی میں پناہ گزینوں کے خیموں پر صیہونی حکومت کے جنگی طیاروں کے حملوں میں سو سے زیادہ فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ صیہونی حکومت کے فوجیوں نے خان یونس کے ان علاقوں میں فلسطینی پناہ گزینوں کو نشانہ بنایا، جنہیں وہ محفوظ علاقے قرار دیتے تھے۔

غزہ پٹی کی ریلیف اینڈ ریسکیو آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر نے اعلان کیا ہے کہ ان حملوں کے نتیجے میں 40 سے زائد شہید اور 60 زخمی ہوئے ہیں۔ صہیونی فوجیوں نے امدادی گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا، جس سے غزہ پٹی کے جنوب میں ریسکیو اور ریلیف کا عمل نہایت مشکل ہوگیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ صیہونی حکومت نے غزہ پٹی میں فلسطینی پناہ گزینوں کے خیموں کو نشانہ بنایا ہے، البتہ اس بار ان وحشیانہ حملوں کے متاثرین کی تعداد زیادہ ہے اور ان میں استعمال ہونے والے بموں کی مقدار نے اس پٹی میں خون کی ہولی کھیلی گئی ہے۔

صیہونی فوجیوں کا فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر جان لیوا حملہ
فلسطینی وزارت صحت نے غزہ کی پٹی میں اعلان کیا ہے کہ گیارہ ماہ سے جاری اس پٹی پر صیہونی حکومت کے جارحیت کے متاثرین کی تعداد 40,988 شہید اور 94,825 زخمی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل "انتونیو گوٹیرس" نے بھی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات پر زور دیا ہے کہ "جب سے وہ اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے طور پر منتخب ہوئے ہیں، انہوں نے اس سطح کی ہلاکت اور تباہی کبھی نہیں دیکھی، جس کا وہ غزہ میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ "غزہ میں صیہونی حکومت کی طرف سے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے استعمال نے خطرناک اخلاقی اور قانونی خدشات پیدا کر دیئے ہیں۔"

فلسطینی وزارت صحت نے ایک بیان جاری کیا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ  "غزہ میں صحت کا نظام ایک منظم جنگ اور بڑی تباہی سے دوچار ہے۔" اس حوالے سے ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے گذشتہ اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ  ’’8700 سے زائد فلسطینی لاپتہ ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق غزہ پٹی سے ہے، جبکہ قابض حکام نے ان کے بارے میں نہ تو کوئی معلومات فراہم کی ہیں اور نہ ہی ریڈ کراس کو ان سے ملنے کی اجازت دی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ کی پٹی کے خلاف تباہی کی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ اس عرصے کے دوران غزہ کی پٹی کے 70% مکانات اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے اور بدترین محاصرہ اور شدید انسانی بحران کے ساتھ ساتھ بے مثال قحط اور بھوک نے اس علاقے کے مکینوں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کے انفارمیشن آفس نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی قابض فوج نے 120 اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو مکمل طور پر تباہ کردیا اور 340 دیگر یونیورسٹیوں اور اسکولوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ان تمام جرائم کے باوجود صیہونی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ 11 ماہ کی جنگ کے بعد بھی وہ ابھی تک اس جنگ کے اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ صیہونی حکومت کا مقصد تحریک حماس کو تباہ کرنا اور غزہ کی پٹی سے صیہونی قیدیوں کی واپسی ہے۔ دوسری جانب غزہ میں جنگ کے آغاز سے اب تک مغربی کنارے میں صیہونی مخالف کم از کم 4,973 آپریشن کیے جا چکے ہیں، جن کے دوران 38 آبادکار، 12 فوجی اور تین پولیس اہلکار ہلاک اور 285 دیگر زخمی ہوچکے ہیں۔

الکرامہ کراسنگ میں شوٹنگ کا نیا آپریشن
 غزہ میں تقریباً 12 ماہ سے جاری جنگ اور تشدد کے دوران غزہ کے عوام کے خلاف قابض صہیونی فوج کی نسل کشی سے اردنی شہریوں اور فلسطینی نژاد اردنی باشندوں کے غم و غصے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ مغربی کنارے میں حالیہ پیش رفت صیہونی مظالم کا ردعمل ہے۔ اردن اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر واقع الکرامہ کراسنگ پر شوٹنگ کی کارروائی میں تین صیہونیوں کی موت واقع ہوئی، اس گاؤں سے تعلق رکھنے والا 47 سالہ شہید "عبدالسلام خالد سلیم الزوبی" ہے۔ جو صبح 10 بجے کے قریب اردن اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر الکرامہ کراسنگ میں داخل ہوا اور اس کراسنگ میں موجود صہیونیوں پر پوائنٹ بلینک رینج سے فائرنگ شروع کر دی۔ اس کارروائی میں تین اسرائیلی مارے گئے اور آپریشن کے آپریٹر کو سکیورٹی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

واضح رہے کہ اس شہادت پسندانہ آپریشن کے بعد اردنی باشندے پرجوش ہوئے اور انہوں نے مقبوضہ فلسطین کے درمیان گزرگاہ پر مٹھائیاں تقسیم کیں۔ قابض فوج پہلے ہی مغربی کنارے میں کشیدگی کے دائرہ کار میں توسیع اور ایک اور انتفاضہ کے قیام کے حوالے سے اپنی تشویش کا اعلان کرچکی ہے۔ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل کی سکیورٹی سروسز کے بیانات نے اس دعوے کی تصدیق کی ہے کہ شاباک اور IDF نے مغربی کنارے میں 1,100 سے زیادہ بڑی کارروائیوں میں حصہ لیا ہے۔ ماضی میں، مزاحمتی کارروائیاں صرف جنین اور اس کے کیمپ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے کے شمال میں منسلک علاقوں تک محدود تھیں۔ لیکن اب اسے مغربی کنارے کے جنوب تک بڑھا دیا گیا ہے

زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ مغربی کنارے اور اسرائیل کے اندر کچھ گوریلا کارروائیاں ایسے نوجوان کرتے ہیں، جن کا تعلق کسی تنظیم سے نہیں ہے، جس نے اسرائیل کے لیے پہلے سے زیادہ مشکل بنا دی ہے۔ اسرائیل مغربی کنارے کو اپنی بنیادی کمزوری اور سب سے خطرناک محاذ سمجھتا ہے، کیونکہ یہ جغرافیائی طور پر اسرائیل کی گہرائی سے جڑا ہوا ہے۔ اگرچہ صیہونی حکومت مغربی کنارے میں مزاحمتی قوتوں کے خلاف نت نئے فوجی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، لیکن وہ صورت حال پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور مزاحمتی حملوں کا سلسلہ بتدریج اردن تک پھیل رہا ہے، جہاں پناہ گزینوں کی آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ موجود ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان بدھ کے دن اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر بغداد پہنچے، جہاں عراق کے وزیراعظم محمد شیعاع السوڈانی نے ان کا استقبال کیا۔ سرکاری استقبالیہ تقریب کے بعد ڈاکٹر پزشکیان اس ملک کے صدر عبداللطیف راشید سے ملاقات کے لیے عراقی صدارتی محل گئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اس کے بعد وزیراعظم کے محل میں السوڈانی سے ملاقات کی اور اس کے بعد دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود کے ارکان کی مشترکہ ملاقات ہوئی۔ عراق میں صدر پزشکیان اس ملک کے اعلیٰ حکام سے اقتصادی، سیاسی، ثقافتی اور سکیورٹی سمیت مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کے حوالے سے مشاورت کریں گے۔ مقامات مقدسہ کی زیارت بھی اس پروگرام میں شامل ہے۔

عراق کے لیے روانگی سے قبل اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے تاکید کی ہے کہ ان پالیسیوں کی بنیاد پر جو اس سے پہلے اعلان کی جا چکی ہیں، پڑوسیوں کے ساتھ قریبی تعلقات کے حوالے سے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی اعلان کردہ پالیسی کی بنیاد پر دوست ملک عراق کا دورہ کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا عراق کے  ایران سے بہت سے شعبوں میں تعلقات چلے آرہے ہیں اور وہ ہمارے ملک کے ساتھ اقتصادی، سیاسی اور سماجی شراکت دار ہے۔ ہمارا اس ملک کے ساتھ بہت زیادہ تعاون ہوسکتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان بہت سے معاہدوں پر دستخط ہوچکے ہیں۔ ایرانی صدر عراق کے کردستان علاقے اربیل اور سلیمانیہ کے شہروں میں بھی جائیں گے اور اس علاقے کے حکام سے دوطرفہ تعاون کی توسیع کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ صدر پزشکیان کے پہلے غیر ملکی دورے کے طور پر عراق کو کیوں منتخب کیا گیا، وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا: "عراق کو پہلے ملک کے طور پر منتخب کیا جانا دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ عراق ایران کے لیے پڑوسی ملک سے زیادہ ہے۔ عراق ہمارا دوست و برادر ملک ہے اور ہمارے درمیان بہت سے نکات مشترک ہیں۔

ایران اور عراق؛ مشترکہ مقاصد کے حامل دو ممالک ہیں
مسعود پزشکیان کا بغداد کا دورہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران عراق کے ساتھ سیاسی، سکیورٹی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے اور اس کے علاوہ دونوں ممالک کی حکومتوں اور قوموں کے درمیان تعلقات کو وسعت دینے کی حکمت عملی ایک اہم قدم ہے، جو تہران کے لیے خصوصی اور اولین ترجیح ہے۔ عراق میں عوامی طاقتوں کی پوزیشن سمیت خطے میں مزاحمتی گروہوں کے بااثر کردار کو دیکھتے ہوئے نیز صیہونی حکومت اور ان کے اہم حامی امریکہ کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مزاحمتی گروہوں کی حمایت کے لیے ایران اور عراق کی حکومتوں کے درمیان زیادہ تعاون اور ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے۔

ایرانی صدر کا عراق کا دورہ خطے میں ایران عراق تعاون کی اہمیت اور اثرات کی علامت ہے۔ دونوں ممالک کے کاروبار کی توسیع کے حوالے سے دوطرفہ مشاورتی معاہدوں پر عمل پیرا ہونا اور غیر ملکی مداخلت کو کم کرنے کے مقصد سے دوطرفہ اور علاقائی تعاون کو بڑھانا ان بنیادی مسائل میں سے ایک ہے، جن پر اس سفر میں توجہ دی جائے گی۔ ایران اور عراق، اوپیک کے تیل برآمد کرنے والے ممالک کے دو بااثر رکن ہونے کے ناطے، توانائی کی عالمی منڈی میں فیصلہ کن کردار رکھتے ہیں اور اس شعبے میں دونوں ممالک کا موثر تعاون اس شعبے کی ترقی اور خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کی اہم حکمت عملی پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی ترقی اور فروغ ہے اور صدر مسعود پزشکیان کا عراق کا دورہ تہران کے علاقائی کردار کو مزید تقویت دے گا اور غیر ملکیوں کے تخریبی اقدامات کا مقابلہ کرنے میں ایک موثر عنصر ثابت ہوگا۔

9 ربیع الاول کا دن امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد پہلا دن ہے لہذا اسے امام زمانہ عج کی امامت کے آغاز کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن امام زمانہ عج سے تجدید بیعت کی جاتی ہے اور جس قدر یہ دن اہم ہے اس قدر توجہ کا مرکز قرار نہیں پا سکا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ محبین اور پیروکاران اہلبیت اطہار علیہم السلام اس دن کو مناتے نہیں بلکہ اسے اس طرح نہیں مناتے جس طرح اس کا حق ہے۔ اس سال ایران بھر میں یہ دن "سپاہی بننے کے عہد کی صبح" کے طور پر منایا جائے گا جس میں سب اپنے غائب لیکن حاضر امام سے تجدید بیعت کریں گے۔ خداوند متعال نے قرآن کریم میں "ایام اللہ" کو اہمیت دینے اور ان کی یاد تازہ رکھنے پر زور دیا ہے۔ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی بھی اس بارے میں فرماتے ہیں: "ایام اللہ کی یاد منانا جس کا حکم خدا نے بھی دیا ہے انسان ساز ہے۔ ایام اللہ کے دنوں میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں وہ تاریخ اور انسانوں کیلئے سبق آموز اور بیدار کرنے والے ہیں۔"
 
امام زمانہ عج سے تجدید عہد کرنے کا ایک اہم نتیجہ یہ ہے کہ منتظرین اپنی ذمہ داریوں اور مشن پر توجہ دیتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں ظالم حکمران جن بڑے چیلنجز سے روبرو رہے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم میں "اولی الامر" کی اطاعت واضح طور پر لازمی قرار دی گئی ہے۔ سورہ نساء کی آیت 59 میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے: يٰا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اَللّٰهَ وَ أَطِيعُوا اَلرَّسُولَ وَ أُولِي اَلْأَمْرِ مِنْكُمْ ۔۔۔۔۔۔ (اے ایمان والو، خدا کی اطاعت کرو اور رسول خدا ص اور اولی الامر کی اطاعت کرو)۔ اسی طرح خداوند متعال سورہ نحل کی آیت 90 میں فرماتا ہے: إِنَّ اَللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ اَلْإِحْسٰانِ۔۔۔ (یقیناً خداوند متعال عدل اور نیکی کا حکم دیتا ہے)۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ وہ اولی الامر جن کی پیروی اور اطاعت کا حکم خداوند متعال نے دیا ہے انہیں معصوم ہونا چاہئے۔
 
دوسری طرف یہ بھی خداوند متعال کیلئے شائستہ نہیں کہ اس نے اولی الامر کی اطاعت کا حکم تو دیا ہے لیکن اولی الامر کو متعارف نہ کروایا ہو۔ اسی طرح اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ صرف خدا ہی جان سکتا ہے کہ کون سا انسان معصوم ہے کیونکہ صرف خدا ہی انسانوں کے باطن سے آگاہ ہے۔ لہذا خدا ہی معصوم کو متعارف کروا سکتا ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ رسول خدا ص کی بات درحقیقت خدا کی بات ہے اور انہوں نے اپنی کئی احادیث میں نام لے کر اپنے بعد 12 برحق خلیفوں (ائمہ معصومین ع) کو پہچنوا دیا ہے اور یوں امت مسلمہ کیلئے اتمام حجت کر دی ہے۔ یہ حقائق بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم حکمرانوں کی نظر سے اوجھل نہیں تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ ائمہ معصومین ع کو اپنا سب سے بڑا اور خطرناک دشمن سمجھتے تھے کیونکہ ائمہ معصومین ع اپنی الہی ذمہ داری کے تحت ہمیشہ ظالموں کے خلاف آواز اٹھتے اور اسلامی معاشرے میں عدالت کی برپائی کیلئے کوشاں رہتے تھے۔
 
جس طرح سے تاریخ کے دوران ظالم حکمران اور سادہ لوح مبلغین پرچار کرتے آئے ہیں، الہی فرامین اور اسلام کے حیات بخش قوانین صرف فردی اور شخصی دستورات اور شرعی احکام تک محدود نہیں ہیں۔ اس بارے میں امام خمینی رح فرماتے ہیں: "آپ پچاس سے زیادہ فقہی کتب کا ملاحظہ فرمائیں، ان میں سے صرف سات یا آٹھ کتابیں ایسی ہیں جو عبادات کے بارے میں ہے جبکہ باقی تمام کتابیں سیاسیات، سماجیات اور معاشرتی امور کے بارے میں ہیں۔" دوسری طرف شرعی احکام اور الہی قوانین کو لاگو ہونے کیلئے سیاسی طاقت کی ضرورت ہے اور اسی سیاسی طاقت کو حکومت اسلامی کہا جاتا ہے۔ بعض ایسے افراد اور گروہ جو غیبت امام زمانہ عج میں اسلامی حکومت کا انکار کرتے ہیں وہ سمجھتے ہوئے یا ناسمجھی میں شرعی احکام اور الہی قوانین کا انکار کر رہے ہوتے ہیں۔ دین مبین اسلام کا دائرہ صرف فردی شرعی احکام تک محدود نہیں بلکہ اس میں سماجی نظامات بھی شامل ہیں۔
 
قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کا ایک اہم ہدف عدل و انصاف کی خاطر قیام ذکر ہوا ہے۔ سورہ حدید کی آیت 25 میں ارشاد ہوتا ہے: لَقَدْ أَرْسَلْنٰا رُسُلَنٰا بِالْبَيِّنٰاتِ وَ أَنْزَلْنٰا مَعَهُمُ اَلْكِتٰابَ وَ اَلْمِيزٰانَ لِيَقُومَ اَلنّٰاسُ بِالْقِسْطِ۔۔۔۔ (بالتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو معجزات کے ہمراہ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب بھی نازل کی ہے تاکہ عوام عدل کیلئے قیام کریں۔۔)۔ واضح ہے کہ جب ایک معاشرے میں اسلامی قوانین کا نفاذ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو استکباری اور طاغوتی طاقتیں اسے ہر گز برداشت نہیں کریں گی اور اسے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور اقدامات انجام دیں گی جن کا مقابلہ سیاسی طاقت اور اسلامی حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ سوچ اس سیکولر اسلام کے بالکل برعکس ہے جسے تاریخ کے دوران ظالم حکمرانوں نے اسلامی معاشروں میں فروغ دیا ہے۔ یہ دراصل حقیقی محمدی ص اسلام ہے اور اس میں سیاست اور جہاد بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔
 
امام زمانہ عج کے انتظار کا صحیح معنی تمام معاشرتی میدانوں میں حاضر رہ کر اسلام کی سربلندی کیلئے جدوجہد انجام دینا ہے۔ ائمہ معصومین ع کے فرامین میں ذکر ہوا ہے کہ امام زمانہ عج کے منتظرین کی ایک اہم علامت یہ ہے کہ ان کی باتیں اور عمل اسلام دشمن عناصر کے شدید غصے کا باعث بنتی ہیں۔ امام خامنہ ای مدظلہ العالی جہاد کی تعریف میں فرماتے ہیں: "جہاد ہر وہ عمل اور اقدام ہے جو اسلام دشمن عناصر کے خلاف انجام پاتا ہے اور انہیں غصے کا شکار کر دیتا ہے۔" آج کے زمانے میں اس کا اہم مصداق مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت کرنا اور امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے خلاف سرگرم عمل ہونا ہے۔ لہذا 9 ربیع الاول یعنی امام زمانہ عج کی امامت کا آغاز کے دن درحقیقت تجدید عہد کا دن ہے۔ امام زمانہ عج جو اگرچہ غائب ہیں اور ظاہر نہیں ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ حاضر ہیں اور امت مسلمہ کی سرپرستی فرمانے میں مصروف ہیں۔

تحریر: حسین شریعتمداری

اللہ تعالی قرآن مجید میں اپنے نبی ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:

((فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ))(سورة آل عمران ـ 159 )

(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

حسن سلوک ،نرمی اور مہربانی :

تشدد اور سختی انسان میں پائی جانے والی دو نا پسندیدہ صفات ہیں اور ان کے مقابلے میں حسن سلوک اور نرمی ہیں۔لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو رفق  اصل میں نفع کو کہتے ہیں۔اسی لیے عرب کہتے ہیں کہ فلاں فلاں سے زیادہ نفع بخش ہے جب ایک دوسرے سے فائدہ زیادہ ہو۔کسی کو رفیق  کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شخص دوسرے کی صحبت سے منافع اٹھا رہا ہوتا ہے۔مرافق البیت گھر کے ان مقامات کو کہا جاتا ہے جن سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

ہمارا یہاں پر رفق سے مراد وہ معنی ہے جس میں نرمی،مہربانی ،سہولت اور آسانی پائی جاتی ہو۔اسی لیے رفق کا ایک مومن انسان کی زندگی میں بڑا اہم کردار ہے۔جب انسان عملی زندگی میں لوگوں کے ساتھ میل جول کرتا ہے تو اس کا اظہار ہر جگہ ہوتا ہے۔نرمی اور حسن سلوک کی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت اہمیت ہے اور یہ زندگی خوبصورت کر دیتا ہے۔حسن سلوک سے مزین انسان ایک خوبصورت انسان ہوتا ہے اور اس کی زندگی میں استقامت اور اعتدال پایا جاتا ہے۔نرمی اور حسن سلوک وہ اعلی صفات ہیں جو کسی کے مقابلے میں نہیں ہوتی  بلکہ یہ خود کے تکامل کے لیے ہوتی ہے اس سے معاشرے کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان کے دوسرے کے ساتھ تعلقات بہتر انداز میں تشکیل پاتے ہیں یوں ایک بہت ہی خوبصورت معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔اسلام نے ان اعلی اخلاقی اقدار سے خود کو مزین کرنے اور پھر لوگوں کو اس کی طرف محبت سے دعوت دینے کا حکم دیا ہے تاکہ یہ صفت حسنہ معاشرے میں عملی طور پر نافذ ہو اور  اسلام جن خصوصیات پر مشتمل معاشرے کی تشکیل کی دعوت دیتا ہے ان پر عمل در آمد ہو سکے۔

اسلام معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا نظام پیش کرتا ہے جس میں اخلاقی اقدار کی بڑی اہمیت ہے اسی لیے سچ ،نیکی، احسان،بھلائی،معاف کرنا،پیار و محبت  اور سلامتی سمیت کئی اہم اچھائیاں شامل ہیں۔ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ خصوصیات کسی حکم کے ذریعے پیدا نہیں کی جاتیں بلکہ یہ خصوصیات ہر انسان میں موجود ہوتی ہیں کیونکہ یہ پہلے سے اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھ دی ہیں۔فطرت میں تخلیق کردہ ان صفات میں اللہ کی سنت کے مطابق کوئی تبدیلی نہیں آتی۔جتنا مرضی زمانہ گزر جائے کیونکہ  فطرت کا یہ پیغام اتنا واضح ہے کہ  اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ کبھی کوئی معاشرہ ایسا نہیں ہو گا جہاں جھوٹ،دھوکے،ملاوٹ اور دغا بازی کو اچھا سمجھ کر اس کی اشاعت کی جائے ا س کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان اخلاقیات کی بنیاد فطرت ہے۔

حسن سلوک  لوگوں کو سچائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے:

لین دین میں نرمی کرنا رفق کہلاتا ہے۔مقالہ کے شروع میں جس آیت مجید کا ذکر کیا گیا اس کا معنی یہ ہے کہ اے رسول ﷺ آپ نرمی فرماتے ہیں اور آپ کی یہ نرمی اور حسن سلوک ان کے لیے دین اسلام میں داخل ہونے کا باعث بنتا ہے۔نبی اکرمﷺ کی ادلہ اور آپ  کی طرف سے پیش کیے گئے استدلات کے ساتھ  حسن سلوک باعث بنتا ہے کہ لوگ اسلام میں داخل ہوں۔اگر نبی اکرمﷺ کے اخلاق کریمہ میں یہ حسن سلوک اور نرمی والا پہلو نہ ہوتا تو لوگ دین مبین اسلام میں اس طرح داخل نہ ہوتے۔نرمی،حسن سلوک،اپنائیت اور وحدت کا احساس وہ عظیم صفات ہیں جن کو تبلیغ دین میں بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ جب بھی حق کا پیغام دینے لگیں تو خود کو حسن سلوک اور نرمی جیسی عظیم صفات سے مزین کریں۔جب تبلیغ کے لیے جائیں تو لوگوں کے ساتھ  بڑی مہربانی سے پیش آئیں،ان کے لیے تنگی پیدا نہ کریں،ان کا کھلے دل سے استقبال کریں،انہیں وہ چیز دیں جس کی انہیں ضرورت ہو،ان کی پریشانیوں کو بانٹیں،ان کی فکر کریں،ہمیشہ ان کی دیکھ بھال کریں،ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں،ان  کے ساتھ رواداری کا معاملہ کریں تاکہ وہ آپ سے اطمنان اور دوستی محسوس کریں۔

وہ حسن سلوک اور نرمی جو اللہ تعالی تبلیغ حق کے لیے چاہتا ہے اس کی تاکید مذکورہ بالا آیت کریمہ میں آئی ہے۔اس میں عملی طور پر نرمی اور حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہےکہ مومنین کیسے اسے انجام دیں گے۔اسلام کے نظام اخلاق میں ایک انتہائی اہم چیز جس کی اسلام نے بہت تاکید کی اور تقاضا کیا کہ اسے معاشرے میں پھیلایا جائے وہ  لوگوں کی غلطیوں پر انہیں معاف کرنا اور اس ثقافت کو عام کرنا ہے تاکہ معاشرے میں حسن سلوک کا دور دورہ ہو اور اس حسن سلوک کی وجہ سے معاشرے کی نبویﷺ کے طریقے پر تربیت ہو:

((فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ))

پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں

حسن سلوک کا اس سے بڑا مظاہرہ کیا ہو گا کہ آپ ﷺ کو صحابہ سے مشورہ کرنے کا کہا گیا۔یہ بات ہم جانتے ہیں کہ جنگ احد میں لوگ نبی اکرمﷺ کو چھوڑ گئے تھے  پھر بھی آپ کو مشورہ کا کہا گیا :

((وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ......))

اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں

مشورے کے بعد آپﷺ کو حکم ہوا کہ آپ اس میں سے جسے بہتر سمجھتے ہیں اس پر عمل کریں:

((فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّه))

تو اللہ پر بھروسہ کریں

یہ آیت مجیدہ حسن سلوک کی وضاحت کرتی ہےجس کے ذریعے اللہ تعالی انسانی معاشرے کا تکامل چاہتا ہے اور اس کے انبیاءع نے اس کے لیے کاوشیں کی ہیں۔

مسلمانوں کی زندگی میں حسن سلوک کی اہمیت :

نرمی ،حسن سلوک اور رحم کی مسلمانوں کی زندگی میں خاص اہمیت ہے ہم اسے مزید بھی بیا ن کریں گے۔ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی زندگی مبارکہ میں ایسے مواقع آئے جس میں لوگوں نے آپ کو مشکل وقت میں چھوڑ دیا جیسے غزوہ احد میں لوگوں نے آپﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کی،اس مخالفت کے بہت ہی برے نتائج برآمد ہوئے،دشمن نے حملہ کر دیا،آپ ﷺ کے ساتھ لوگ ثابت قدم نہ رہے،لوگ شکست کھاتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھ گئے اور نبی اکرمﷺ کو چند مخلص صحابہ کے درمیان چھوڑ دیا گیا۔آپﷺ پر حملہ کیا گیا جس میں آپﷺ کے دندان مبارک شہید ہو گئے۔آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر زخم آئے آپ بلاتے رہے مگر لوگ نہ پلٹے۔لوگوں نے اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور جو ان کی ذمہ داری تھی اسے ادا نہیں کیا  اس سب کے باوجود نبی اکرمﷺ نے ان کے ساتھ جو حسن سلوک اور نرمی کی ،اس سے یہ لگتا ہی نہیں تھا کہ کچھ ہوا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ........))

(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے۔۔۔

دشمنوں نے آپﷺ پر تہمتیں لگائیں ،آپ ﷺ کے خلاف چالیں چلیں مگر آپ ﷺ کا پیغام دنیا میں پھیل گیا اور اللہ نے آپﷺ کو ان کے مقصد میں کامیاب فرمایا۔

نبی اکرمﷺ کی بعثت کا مقصد لوگوں کو حق کی طرف بلانا تھا۔لوگ کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے انہیں ایک درد مند دل جو نبی اکرمﷺ کی طرح ہودرکار تھا جس میں تمام انسانوں کے لیے وسعت ہو اور اس میں کسی جاہل کی جہالت کی وجہ سے کوئی تنگی نہ آئے اور نہ ہی کوئی اسے کمزور کر سکے۔

روایات میں حسن سلوک :

نبی اکرمﷺ اور اہلبیت ؑ کی روایات میں حسن سلوک کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہے اور اس حوالے سے روایات کافی زیادہ ہیں۔

نبی اکرمﷺ سے مروی ہےحسن سلوک کثرت کا باعث ہے اور تجاوز کرنا بدبختی ہے۔اس حدیث مبارکہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ حسن سلوک میں برکت ہےجو لوگوں دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں اللہ انہیں برکت دیتا ہے اور وہ لوگوں کے دلوں میں جو محبت کا بیج بوتے ہیں اس میں برکتیں ہوتی ہیں اور اللہ تعالی آسمان سے ان کے لیے برکتیں نازل فرماتا ہے۔

نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہےبے شک حسن سلوک جب کسی کے ساتھ آتا ہے تو اس کی زینت میں اضافہ کر دیتا ہے اور جب جاتا ہے تو اس کی شان و شوکت کو بھی لے جاتا ہے۔ یہ حدیث اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ حسن سلوک کے ساتھ زینت و جمال کا تعلق ہے جو بھی حسن سلوک کرتا ہے و ہ صاحب زینت و جمال بن جاتا ہے۔جو خود کو حسن سلوک سے مزین کرتا ہے حسن سلوک اس کی خوبصورتی،وقار اور ھیبت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔لوگ اس شخص میں موجود نقائص کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے اور لوگوں میں کامل فرد بن جاتا ہے۔ایک شخص ایسا ہے جو حسن سلوک نہیں کرتا  مگر دوسری  بہت سی نیکیاں کرتا ہےاس انسان کی مثال ایسے شخص کی سی ہے  جو خود سے لوگوں کو دور کر دیتا ہے  کیونکہ عملی اخلاق میں حسن اخلاق اور احسان کا بنیادی کردار ہے جس کے ذریعے انسان دوسرے لوگوں کے ساتھ معاملات کر رہا ہوتا ہے۔

امام  محمد باقر علیہ السلام  فرماتا ہے ہر چیز کےلئے ایک تالا ہے اور ایمان کا تالا حسن سلوک ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز کی حفاظت کرنے والی کوئی چیز ہوتی ہے اور ایمان کی حفاظت کرنے والی چیز حسن سلوک ہے جو اسے خراب اور برباد ہونے سے بچاتا ہے۔یہ ایک معنوی چیز کی ایک محسوس چیز سے تشبیہ ہے جس کے ذریعے بات کو سمجھایا گیا ہے۔ایمان کے تالے کو حسن سلوک کہنا اس لیے ہے کہ حسن سلوک ایمان کی ختم ہونے اور فاسد ہونے سے حفاظت کرتا ہے۔جب کوئی حسن سلوک اور نرمی کو ترک کر دیتا ہے تو وہ مخلوق پر زبان و عمل سے تشدد کرتا ہے اور وہ حسن سلوک نہیں کرتا تو ایمان کی حفاظت نہیں رہتی۔حسن سلوک کرنے کا انسان کے معاملات پر اثر پڑتا ہے۔حسن سلوک ایسا امر ہے جس کے ذریعے انسان بہت سی خرابیوں اور آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔

امام  محمد باقر علیہ السلام فرماتا سے مروی ہے اللہ  تعالی نرمی فرمانے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو سختی پر عطا نہیں کرتا۔ہم دیکھتے ہیں کہ یہ حدیث مبارکہ حسن اخلاق پر دلالت کرتی ہے یہ حدیث اس بات کا بھی بیان ہے کہ انسان کو وہ صفات اپنے اندر پیدا کرنی چاہیں جو خدا کی صفات ہیں ان جیسی پیدا نہیں کر سکتے تو اس سے ملتی جلتی پیدا کر لیں جیسے  اللہ کریم ہے کرم کو پسند کرتا ہے،کرم اچھی صفات میں سے ہے،اللہ برد بار ہے بردباری کو پسند کرتا ہے۔سخاوت اچھائی ہے اور اللہ تعالی سخی ہےاسی لیے کہا گیا ہے کہ خود کو اللہ کے اخلاق سے مزین کرو۔اللہ تعالی ایسا وجودِ کمال ہے جو تمام کمالات سے مزین ہے اور تمام نقائص سے پاک ہے اس لیے اگر تمام کمالات کو پانا چاہتے ہیں تو خود کو الہی اخلاقیات سے مزین کرنا ہو گا۔

نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں ایمان کا بہترین وزیر علم ہے،علم کا بہترین وزیر بردباری ہے،بردباری کا بہترین وزیر حسن سلوک ہے اور حسن سلوک کا بہترین وزیر صبر ہے۔وزیر وہ ہے جو امیر کا بوجھ اٹھاتا ہے اور اس کے کاموں میں اس کی مدد کرتا ہے۔علم ایمان کا وزیر ہے یہ تو واضح ہے کیونکہ الہی معارف اور دینی مسائل کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم دل میں نور علم کو قوی کرتا ہے،ایمان کو قوی کرنے والے امور کی تدبیر کرتا ہے اور تمام ارکان ایمان کی حفاظت کرتا ہے اور ان کی ہر طرح کی مصیبت سے حفاظت کرتا ہے اور انسان کو ہر ایسے عمل کے صادر کرنے سے مانع بنتا ہے جو ایمان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔حلم وہی خود اطمنان ہے جس میں غضب نہیں آتا اور نہ ہی کسی چیز کو دیکھ لینے سے بھڑک اٹھتا ہے۔علم نفس کی تنابین اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیےمدد گار بنتا ہے۔روحانی منازل طے کرنے کے لیے فقط علم کافی نہیں ہے۔جب تک بادشاہ کے پاس حلم نہیں ہو گا اس کا علم اسے عوام کے معاملات میں انصاف سے کام نہیں لینے دے گا کیونکہ بادشاہ کے پاس  ایک ظالم نفس ہے جو ہر انسان کو بھٹرکانے کی کوشش کرتا ہے۔اگر وزیر حلم کی صورت میں نہیں ہوگا تو امور مملکت بگڑ جائیں گے اور معاملات ہاتھوں سے نکل جائیں گے۔

حسن سلوک حلم کا وزیر ہے وہ اس لیے کہ یہ حسن سلوک ہی بتاتا ہے کہ حلم موجود ہے۔حلم کا پتہ اسی سے چلتا ہے اور یہ حلم دیکھنے کا پہلا پیمانہ ہے اور حسن سلوک کو حلم برقرار رکھنے اور اس کے نظام کو جاری رکھنے کا بڑا ذریعہ ہے۔

جہاں تک یہ بات ہے کہ صبر حسن سلوک کے لیے وزیر ہے وہ یوں کہ صبر وہ عظیم صفت ہے جو حسن سلوک کے باقی رہنے کا باعث بنتی ہے کیونکہ جب مشکلات آتیں ہیں تو صبر کے ذریعے ان سے نمٹا جاتا ہے۔

علم،حلم اور حسن سلوک :

نبی اکرمﷺ نے علم کو ایمان کے لیے زینت قرار دیا،حلم کو علم کے لیے زینت قرار دیا ،حسن سلوک کو بردباری کے لیے زینت قرار دیا اور صبر کو حسن سلوک کے لیے زینت  قرار دیا۔اس پورے عمل کے نتیجے میں ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ایمان،علم اور اخلاق میں باہمی رابطہ اور تعلق موجود ہے۔جو چاہتا ہے کہ علم حاصل کرے تو اسے چاہیے کہ خود کو بردباری سے زینت دے یوں اس کا علم فائد مند ہو جاتا ہے۔وہ علم جس کے ساتھ غرور،تکبر اور عجب ہو وہ منزل تک پہنچانے والا علم نہیں ہوتا۔وہ جو چاہتا ہے کہ اس کا علم نافع ہو اور اس میں حسن سلوک  پیدا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر بردبادی پیدا کرے ۔

حسن سلوک میں بزرگی،کرامت،تواضع،وسعت  اور لوگوں کے ساتھ ان کی عقلوں کے مطابق مکالمہ ہوتا ہے،لوگوں کے گناہوں سے درگزر کرنا ہوتا ہے،جو اول فول بولتے ہیں اس سے خود کو بلند کرنا ہوتا ہے۔ حسن اخلاق نرمی سے بڑھتا ہے،جہاں بھٹکنے کا خطرہ ہو وہاں راستہ دکھاتا ہے،جب کوئی اس پر عمل کرتا ہے تو پچھتاتا نہیں ہے،جھگڑے کی صورتحال درپیش ہوتو بھی کام آتا ہے،جب غصہ اور بغاوت کے آثار ہوں تو بھی راہ اعتدال پر رکھتا ہے۔نبی اکرمﷺ ہمیں ایمان علم اور اخلاق کے ساتھ جڑا دیکھنا چاہتے ہیں،آپﷺ کی ذات گرامی حق مجسمہ اخلاق تھی۔آپﷺ کی سنت عملی سنت ہے جسے قرآن مجید خلق عظیم سے تعبیر کرتا ہےآپﷺ کا روشن اخلاق زمانے کے لیے نمونہ عمل ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

 ((وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ))(سورة القلم ـ 4)

۴۔ اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔

نبی اکرمﷺ کا فرمان ہےدوساتھیوں میں سے اللہ کے ہاں بڑے اجر کا حقدار اور محبوب وہ ہے جو ان میں سے زیادہ حسن اخلاق رکھتا ہے۔

اللہ کے لیے تعلق رکھنا اللہ کا پسندیدہ عمل ہے اس کے ذریعے سے اللہ نے اسلام کو بڑی برکت دی،اسی پر لوگوں کو ابھارا ہے اور اس پر عمل کرنےو الوں کے لیے بڑا اجر اور اعلی منازل رکھی ہیں۔جو اللہ کے لیے تعلق رکھتے ہیں ان کے درمیان فرق ہے اور ان اجر و منزل میں فرق کی کیا وجہ ہے؟

اللہ کے نبی ﷺ نے ہمارے لیے اس راز کو بتا دیا ہے جس کی وجہ سے فضیلتیں زیادہ ہوتی ہیں اور یہ حسن سلوک ہے۔حسن سلوک وہ صفت ہے جس کی وجہ سے دو ساتھیوں میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح ملتی ہے،اسی  کےذریعے شرف میں اضافہ ہوتا ہے اور اللہ کی محبت ملتی ہے۔اللہ تعالی دنیا میں لوگوں کو حسن اخلاق پر جزا دیتا ہے اور آخرت میں منازل بلند ہوں گی نبی اکرمﷺ نے اس کی وضاحت کی ہے۔آپ ﷺ فرماتے ہیں:

حسن سلوک میں برکت اور کثرت ہےجو حسن سلوک سے محروم ہے وہ بھلائی سے محروم ہے۔ امام صادق ؑ فرماتے ہیں جب اہلبیت ؑ کو حسن سلوک میں سے عطا کیا تو اللہ نے ان پر رزق کو وسیع کر دیا اور کوئی چیز انہیں عاجز نہیں کر سکتی۔فضول خرچی کے ساتھ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے اللہ تعالی خود بھی رفیق ہے اور دوسروں میں بھی رفق کو پسند کرتا ہے

ارنا کے مطابق ایڈمیرل شہرام ایرانی نے فوجیوں کے ایک ٹریننگ سینٹر میں اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد  ملک  کی فوج اور دیگر مسلح افواج نے دفاع اور سیکورٹی کے شعبوں میں اہم اور قابل فخر پیشرفت کی ہے۔  

 انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے سپاہی نائب امام زمانہ(یعنی رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای) کے ہاتھوں سے  تمغہ افتخار دریافت کرتے ہیں جس سے مقدس اسلامی جمہوری نظام کی خدمت کے لئے ان کے حوصلے اور محرکات بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں اور ان کے  سامنے اعلی ترین اہداف ہوتے ہیں۔  

 ایڈمیرل شہرام ایرانی نے کہا کہ اسلامی انقلاب اور  آٹھ سالہ مقدس دفاع  میں کامیابی میں فوج کے نمایاں کردار کا بارہا ذکر کیا گیا ہے اور شجر نظام اسلامی کی آبیاری میں  فوج کا یہ کردار اس شجر کے تناور اور ثمر دار ہونے میں موثر رہا ہے۔  

انھوں نے  کہا کہ یہ راہ خدا جاری ہے اور فوج کے اہلکار اپنی بے دریغ مجاہدتوں سے اس راہ پرفروغ کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔

 ایڈمیرل شہرام ایرانی نے کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران  ایرانی فوج کی بحریہ کی تمام تر توجہ خلیج فارس پر مرکوز رہی لیکن گزشتہ چند برسوں میں  رہبر انقلاب اسلامی کی اسٹریٹیجک تدابیر کے سائے میں، بین الاقوامی سمندروں میں بھی اس نے اہم مشن انجام دیئے ہیں۔

 انھوں نے کہا کہ اسلامی نظام کی آج کی طاقت و توانائی کا اس سے پہلے کے کسی بھی دور سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا اور ہم نے دفاع کے میدان میں اتنی پیشرفت کرلی ہے کہ علاقے یا علاقے سے باہر کی کسی بھی طاقت کا سامنا کرنے سے ہرگز نہیں گھبراتے۔

 ایڈمیر شہرام ایرانی نے کہا کہ اسلامی نظام کی برکت سے ملک کے سبھی بحری جہازپوری قوت وتوانائی اور سربلندی کے ساتھ بین الاقوامی سمندروں میں دنیا کے ہر نقطے تک رفت وآمد کرتے ہیں اور ہم نے خلیج عدن میں اپنے جںگی بیڑے سے بحری سلامتی قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ امریکا جیسا ملک سو جدید ترین جںگی جہازوں کے ساتھ بھی خود کو استقامتی گروہوں کے حملوں سے محفوظ اور اپنے جنگی بیڑوں کو سلامتی نہ فراہم کرسکا۔

ایڈمیرل شہرام ایرانی نے  کہا کہ آج بحر ہند کے ساحلی ملکوں کی سمندری افواج کی سیکورٹی کی ذمہ داری اسلامی جمہوریہ ایران کو سونپی گئی ہے اور ہم ملت ایران کی نمائندگی میں وہاں موثر کردار  ادا کررہے ہیں۔