سلیمانی

سلیمانی

آج کی دنیا میں مرد اور عورت کی برابری کا نعرہ مقبول عام ہے۔ہم ان سے پوچھتے ہیں عورت اور مرد کی برابری سے مراد کیا ہے؟کیا مرد اور عورت کی ذمہ داریوں کا الگ ہونا برابری کے خلاف ہے؟ مغربی فکر سے متاثر لوگ یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو مرد کے مساوی مقام حاصل نہیں ہے، اسلام مرد کے مقابلے میں عورت کی گواہی کو نصف قرار دیتا ہے۔یہ کسی فقیہ کا قول نہیں بلکہ قرآن مجید کی واضح نص ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ)، البقرة: 282

پھر تم لوگ اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو (گواہ بناؤ)

اس آیت مجیدہ سے انہیں وہم ہوا ہے کہ قرآن عورت کی تکریم کے خلاف ہے اور اسے برابر کے حقوق نہیں دیتا۔

سب سے پہلے تو ہم تاریخی طور پر یہ دیکھیں گے کہ اسلام نے عورت کے ساتھ کیسا معاملہ کیا ہے؟اسلام سے ہماری مراد ثقلین ہیں یعنی اللہ کی پاک کتاب قرآن مجید اور نبی اکرم کی اہلبیتؑ ،ان کے علاوہ ہم کسی طرف نہیں جائیں گے۔قرآن عورت اور مرد کو تخلیق میں بالکل برابر قرار دیتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًاالآية)، النساء:1

۱۔ اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ نگران ہے۔

قرآن ذمہ داریوں میں بھی مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا ،قرآن مجید میں اللہ جب احکامات نازل کرتا ہے تو اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں اس میں جنس کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:

(إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا)، الأحزاب: 35

۳۵۔ یقینا مسلم مرد اور مسلم عورتیں، مومن مرد اور مومنہ عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، راستگو مرد اور راستگو عورتیں، صابر مرد اور صابرہ عورتیں، فروتنی کرنے والے مرد اور فروتن عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی عفت کے محافظ مرد اور عفت کی محافظہ عورتیں نیز اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں وہ ہیں جن کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔

یہ بات فقط انفرادی ذمہ داریوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اجتماعی ذمہ داریوں میں بھی عورت مرد کے ساتھ برابر کی شریک ہے۔جس طرح امر بالمعروف کرنا مرد پر فرض ہے بالکل اسی طرح عورت پر بھی فرض ہے۔قرآن مجیدمیں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)، التوبة: 71

۷۱۔ اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے ۔

اسی طرح اچھے عمل پر انعام میں بھی عورت مرد کے ساتھ شریک ہے اللہ قرآٓن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

(مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)، النحل: 97

۹۷۔ جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے ۔

یہاں سے ایک بات بالکل واضح ہو گئی کہ اسلام میں عورت اور مرد تخلیق برابر ہے،اسی طرح ذمہ داریوں میں بھی عورت شریک ہے اور اچھے عمل کے انعام میں بھی بالکل مرد کے برابر ہے۔یہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام نے عورت کی نفسیات اور اس کی جسمانی ساخت کی وجہ سے اسے بعض امور میں آسانیاں دی ہیں۔امیمہ بنت رقیقہ ؓ کہتی ہیں میں دوسری خواتین کے ساتھ بیعت کرنے کے لیے نبی اکرم کے پاس آئی،آپ نے فرمایا:جس کی تم استطاعت اور طاقت رکھتی ہو۔

قرآن اور نبی اکرم کی تاکید کے بعد مسلمانوں نے یہ سمجھاعورت کے حقوق برابر ہیں۔جیسے مرد کے حقوق ہیں ویسے ہی عورت کے حقوق ہیں۔حبر امت حضرت عبداللہ بن عباس ؓ روایت کرتے ہیں:میں اپنی بیوی کے لیے ویسے ہی اچھائی کو پسند کرتے ہوں جیسے اسے اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ایسا کیوں نہ ہو؟ قرآن مجید اسی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرماتا ہے:

(وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ.. الآية)، البقرة: 228

اور عورتوں کو دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسا مرتبہ ہے جو پروردگار نے مرد کو عورت سے زیادہ دیا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ)، البقرة: 228

البتہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے

یہاں پر اس برتری سے مراد وہ مقام ہے جو کسی بھی خاندان کو چلانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔خاندانی زندگی ایک اجتماعی زندگی ہے،یہ بات ہر عقل مند انسان سمجھتا ہے کہ ہر طرح کے اجتماعی یونٹ کے لیے ایک مدیر یا چلانے والا سربراہ ضروری ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں کو بطور جنس عورتوں پر ترجیح دی جائے۔یہاں مرد کا خاندانی نظام کا سربراہ ہونا مساوات کے خلاف نہیں ہے۔یہ تو نظام میں کردار کی تقسیم ہے۔انسان اس چیز کا ذمہ دار ہے جو اس کی فطرت سے مطابقت رکھتا ہے جس کے ساتھ اسے پیدا کیا گیا ہے۔خواتین بھی ان شعبوں میں ذمہ دار ہیں جو ان کے کردار کے مطابق ہیں۔نبی اکرم کی حدیث شریف میں اس کی وضاحت کی گئی ہے آپ نے فرمایا: خبردار تم میں سے ہر شخص اپنی رعیت کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) تم سے ہر شخص کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہونا پڑے گا ، لہٰذا امام یعنی سربراہ مملکت وحکومت جو لوگوں کا نگہبان ہے اس کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی، مرد جو اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اس کو اپنے گھر والوں کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی عورت جو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے ، اس کو ان کے حقوق کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی اور غلام مرد جو اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اس کو اس کے مال کے بارے میں جواب داہی کرنا ہوگی لہٰذا آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک شخص نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک شخص اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہوگا۔(مجموعة ورام)، ج 1، ص 6

ضروری ہے کہ ہم عورت کی گواہی کے آیت میں موجود حکم کو اسی سیاق و سباق میں دیکھیں۔یہاں اسلام جنس مرد کا جنس عورت پر کوئی فضیلت نہیں دے رہا۔یہاں تمام حالات اور واقعات میں ایک خصوصیت کا لحاظ رکھا گیا ہے۔اگر اس کی وجہ اسلام کا مردوں کی طرف جھکاؤ تھا تو ضروری ہے کہ مرد کی گواہی کو ہر حال میں عورت کی گواہی پر ترجیح دی جائے، جب کہ ہمیں قرآن کریم میں ایسے احکامات ملتے ہیں جن میں عورت کی گواہی کو مرد پر ترجیح دی جاتی ہے۔قر آن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:

(وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (6) وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (7) وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ (8) وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ)، النور: 6 9

۶۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے سوا کوئی گواہ نہ ہو تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ سچا ہے۔۷۔ اور پانچویں بار کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔۸۔ اور عورت سے سزا اس صورت میں ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔۹۔ اور پانچویں مرتبہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر وہ سچا ہے۔

مسئلہ یوں ہے کہ ہمارے پاس شوہر کی گواہی ہے جو کہتا ہے کہ میری زوجہ نے زنا کیا ہے۔اس کے مقابل میں عورت کی گواہی ہے وہ کہتی ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے اور وہ انکار کرتی ہے۔یہاں پر اسلام عورت کی گواہی کو مرد کی گواہی پر مقدم کرتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ یہاں ایک جنس کو دوسری جنس پر ترجیح دینے کی بات ہی نہیں ہے۔قانون کی زبان میں اس کا تعلق (جرم ثابت کرنے کی دلیلوں) سے ہے۔اسلامی قانون صاحب حق کو حق دیا جاتا ہے اب اس کے لیے اصل میں کیا ہوا تھا؟اس کو جاننے کے لیے زیادہ دلیلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کی تفصیلات کو فقہ میں گواہیوں کے باب میں دیکھ سکتے ہیں۔کچھ جرائم بہت بڑے ہیں انہیں ثابت کرنے کے لیے زیادہ گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے زنا،اسے ثابت کرنے کے لیے دو گواہ کافی نہیں ہیں بلکہ چار گواہوں کی شہادت سے ثابت ہو گا۔دوسری طرف یہ صرف عورت کی گواہی سے ثابت ہوتا ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے مرد کی گواہی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ایسا کئی مقامات پر ہوتا ہے۔اس کا اطلاق کئی صورتوں میں ہوتا ہے مثلا لڑکی کے کنوارہ پن کی گواہی،نفاس کی گواہی اور ہر وہ مقام جسے مرد نہ دیکھ سکیں۔صحیحہ ابن سنان میں ہے وہ کہتے ہیں میں نے ابا عبداللہؑ سے سنا آپ فرما رہے تھے۔۔۔عورتوں کی مردوں کو شامل کیے بغیر ہر اس مقام میں گواہی قابل قبول ہے جہاں مرد کے لیے دیکھنا جائز نہیں ہے۔الوسائل 27 : 353 / كتاب الشهادات ب 24 ح 10

جیسے اسلامی فقہ کے قرض کے باب میں عورت کی گواہی کو اس وقت قبول کیا جب اس کے ساتھ اور عورت بھی گواہی دے۔کئی ایسے موارد ہیں جہاں اکیلے مردکی گواہی قابل قبول نہیں ہے اسے ساتھ میں دوسرے مرد ملانا پڑے گا تب گواہی قبول ہے۔فقہاء کے ایک گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ بھائی کی گواہی بھائی کے لیے قابل قبول نہیں ہے اس لیے کہ دونوں کے قربت زیادہ ہے۔بات منوانے کے لیے ایک اور گواہ کی ضرورت پڑے گی۔شیخ طوسی کی طرف منسوب ہے (النھایہ ص ۳۳۰) اس پر اسماعیل بن ابی زیاد سکونی کی ایک معتبر حدیث سے استدلال کیا گیا ہے۔وہ امام جعفرؑ سے اور وہ اپنے بابا سے روایت کرتے ہیں: ’’بھائی کی اپنے بھائی کے بارے میں گواہی قبول ہے اگر وہ تسلی بخش ہو اور دوسرا گواہ ہو۔‘‘الوسائل 27 : 368 / كتاب الشهادات ب 26 ح 5 ، التهذيب 6 : 286 / 790

سید مرتضیؒ کی طرف منسوب ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قبول نہیں ہے۔(حكاه في الجواهر 41: 75، وراجع الانتصار: 496)علامہ اپنی شہرہ آفاق کتاب میں اس حوالے سے متردد ہیں ۔(التحرير 2: 209)شہید نے دروس میں اسے قبول کیا ہے۔(الدروس 2: 132) بعض متاخر علماء بھی اسی نظریے کے قائل ہوئے ہیں۔

اسی طرح مرد کی گواہی اس صورت میں قبول نہیں ہے جب وہ جس کے بارے گواہی دے رہا ہے اس میں شریک ہو۔قرض لینے والے کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی کہ اسے مال کے استعمال سے حاکم شرع نے روک دیا ہے۔اسی طرح اس مالک کی گواہی بھی اس غلام کے حق میں قبول نہیں جسے اس نے تجارت کی اجازت دی تھی۔اس پر سماعہ کی معتبر حدیث دلالت کرتی ہے ،امام سے سوال ہوا کس کی گواہی قابل قبول نہیں ہے؟آپ نے فرمایا:ناقابل اعتبار،دشمن ،شریک، دافع مغرم،اجیر،غلام،تابع اور ملزم ان سب کی گواہیاں قابل قبول نہیں ہیں۔ الوسائل 27: 378 / كتاب الشهادات ب 32 ح 3

اسی طرح اگر کسی آدمی کے اور گواہ کے درمیان جھگڑا ہو جائے تو اس کی گواہی قبول نہیں ہوتی۔ اسماعیل بن مسلم کی معتبر حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔امام جعفر صادق بن محمد باقرؑ اپنے بابا سے اور وہ اپنے آباء سے روایت کرتے ہیں فرمایا:کینہ پرور اور دین کے معاملے میں غیرت سے عاری کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔الوسائل 27: 378 / كتاب الشهادات ب 32 ح 5، الفقيه 3: 27 / 73

پوری بحث کو خلاصہ کریں اور گواہی کی بحث پیش نظر رہے تو یہ بات سامنے آتی ہےکہ اس آیت کا مردوں کی عورتوں پر فضیلت دینےسے کوئی تعلق نہیں ہے۔اسلامی قانون اور شریعت واقع کے مطابق ہے۔اس میں چھان بین کے ذریعے حقیقت تک پہنچا جاتا ہے تاکہ حق تلفیوں کا خاتمہ ہو اور تنازعات کا فیصلہ کیا جائے۔

شیخ مقداد الربیعی: محقق و استاد حوزہ علمیہ

 

Friday, 07 February 2025 14:09

شیاطین کی خام خیالی

نومنتخب امریکی صدر واضح طور پر مخبوط الحواس ہونیکا ثبوت دے رہے ہیں۔ لیکن فلسطین، غزہ اور حماس کے بارے میں خائن عرب حکمرانوں کا رویہ صیہونی اور امریکی حکمرانوں کے لئے جسارت کا سبب بن رہا ہے۔ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے صدارتی طیارے سے غزہ کے باشندوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کے خیال پر بات شروع کی تھی اور پھر اس نے اس بات کو دو ملاقاتوں میں صحافیوں سے دہرایا اور اب نتن یاہو سے ملاقات اور پریس کانفرنس میں غزہ پر ہمیشہ کیلئے امریکی قبضے کے منصوبے کا کھل کر اظہار کیا۔ اگرچہ اس تجویز کو اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی اور مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی کی طرف سے فوری طور پر سختی سے مسترد کیا گیا۔ اسی طرح 6 عرب ممالک فلسطین، مصر، اردن، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے اس تجویز کو مشترکہ طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی سرزمین کو اس کے اصل مالکان سے خالی کرانا یا فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالنا، کسی صورت میں اور کسی بھی جواز کے تحت قبول نہیں کیا جائے گا اور بعد میں سعودی عرب کا موقف بھی سامنے آگیا۔

 لیکن اس کے باوجود ٹرمپ اپنے اس مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر سو فیصد یقین رکھتا ہے۔ اس کی وجہ عرب حکام کا زبانی کلامی جمع خرچ ہے۔ اس کے علاوہ ٹرمپ کے اس یقین کے پیچھے چند اور وجوہات و اسباب  بھی ہیں۔ بعض تجزیہ کار امریکی انتظامیہ کی جانب سے امداد کا لالچ اور فنڈز بند کرنیکی دھمکیاں، نتن یاہو سے دباو کے ذریعے معاہدہ کروانے، کولمبیا پر دباو ڈال کر تارکین وطن کو واپس بھیجنے، نتن یاہو سے دباو کے ذریعے معاہدہ کروانے، مصر کی اقوام متحدہ میں اسرائیل کیخلاف قرارداد پر پسپائی اختیار کرنے اور ٹرمپ کے گزشتہ دور صدارت میں امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی جیسی مثالوں کو مدنظر رکھ کر موجودہ امریکی صدر کے عزم کے مضبوط ہونے اور اہل غزہ کو اپنی زمین سے بے دخل کر کے امریکی افواج کی وہاں منتقلی اور اسرائیل کیساتھ مل کر امریکہ کے قبضے کے عملی ہونیکی پشین گوئی کر رہے ہیں۔ ذیل میں انہی مثالوں کو سامنے رکھ چند نکات پیش کیے جا رہے ہیں۔

نتن یاہو سے دباو کے ذریعے معاہدہ کروانا:
جوبائیڈن انتظامیہ نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے اپنی تجویز پیش کی تھی، جس میں حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی، امداد کی فراہمی اور اسرائیل کے غزہ سے انخلاء پر مذاکرات کی بات کی گئی تھی۔ یہ تجویز مئی کے مہینے میں سامنے آئی اور حماس نے اعلانیہ طور پر اس معاہدے کو قبول کرلیا، لیکن نیتن یاہو کی حکومت نے اسے کو مسترد کردیا۔ مگر جوبائیڈن نتن یاہو پر دباؤ ڈال کر اسے قبول نہیں کرا سکا۔ دوسری طرف ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور اس کے بعد، فریقین کو خبردار کیا کہ اگر جنگ بندی نہیں ہوتی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے، خاص طور پر 20 جنوری کو وائٹ ہاؤس میں میرا اپنے عہدہ سنبھالنے سے پہلے۔ اسی دوران، اس کا نمائندہ اسٹیفن وٹکوف مذاکرات میں خود شامل ہوا اور نیتن یاہو پر دباؤ ڈالا تاکہ معاہدے کو ٹرمپ کی حلف برداری سے پہلے قبول کروایا جائے۔ اس کے نتیجے میں نئی امریکی انتظامیہ کو زیادہ اعتماد حاصل ہوا۔ اب ٹرمپ غزہ پر قبضے کے لیے بھی اپنے عرب اتحادیوں پر دباؤ کا کارگر نسخہ آزمانے کی کوشش کر رہا اور وہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ دباؤ ہمیشہ نسخۂ کیمیا ثابت ہوتا رہا ہے۔ لیکن غزہ خالی کرنیکا معاملہ صیہونی غاصب ریاست کیساتھ قیدیوں کے تبادلے کی شرط پر ہونیوالے جنگ بندی کے معاہدے سے بالکل ایشو ہے، جو غیور اہل غزہ کو قبول نہیں، نہ ہی حماس کی اسرائیل کیخلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی عرب ممالک نے غزہ کا ساتھ دیا تھا، امریکی عرب اتحادی اگر مان بھی لیں تو غزہ مزاحمت کریگا، امریکہ، اسرائیل اور امریکی عرب اتحادیوں کو شکست کا سامنا ہوگا۔
 
کولمبیا پر دباو ڈال کر تارکین وطن کو واپس بھیجنا:
واشنگٹن میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ کولمبیا نے ٹرمپ کے مطالبات کے سامنے کیسے سرنڈر کرلیا اور امریکا سے بے دخل کیے جانے والے اپنے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے پر رضامند ہوگیا۔ حالانکہ کولمبیا نے ابتدا میں سختی سے انکار کیا تھا۔ جس کے جواب میں ٹرمپ نے کولمبیا پر محصولات اور انتقامی پابندیاں عائد کیں، جن میں اس کے حکومتی اہلکاروں کے امریکا میں سفر پر پابندی بھی شامل تھی۔ اس کے نتیجے میں کولمبیا کو اپنا مؤقف تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور اس نے اپنے شہریوں کو واپس لینے پر رضامندی ظاہر کی۔ کونسل آف فارن ریلیشنز کے پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر اسٹیفن کک نے غزہ کے باشندوں کو منتقل کرنے کی ٹرمپ کی تجویز پر بات کی اور کہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ مصر اور اردن کی مخالفت پر قابو پا لے گا، بالکل ویسے ہی جیسے اس نے کولمبیا کے صدر کے ساتھ کیا تھا، جو پہلے کولمبیا کے شہریوں کی واپسی پر راضی نہیں تھا، پھر اس نے اپنے مؤقف کو بدل کر قبول کر لیا۔ یہ اشارہ مصر اور اردن کے لئے تو مانا جا سکتا ہے، لیکن غزہ کولمبیا نہیں ہے۔
 
امداد کا لالچ اور فنڈز بند کرنیکی دھمکیاں:
امریکا کے پاس اقوام کو رام کرنے کے جو ذرائع ہیں، ان میں امداد بھی شامل ہے۔ مصر ہر سال 1.3 ارب ڈالر کی امریکی فوجی امداد سے فائدہ اٹھاتا ہے اور امریکا کے پاس بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) میں ایک طاقتور نشست ہے، جس پر مصر نے پچھلے دہائی بھر انحصار کیا ہے اور یہی بات اردن پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ غزہ کے باشندوں کو منتقل کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی حکومت مصر اور اردن کی بہت مدد کرتی ہے اور شاید ٹرمپ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے ملک کو اردن اور مصر کو امداد (خاص طور پر فوجی امداد) دینے کے بدلے کیا حاصل ہو رہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ دہائی میں اردن کے لیے امریکی امداد تین گنا بڑھ چکی ہے، جب کہ امریکا پچاس کی دہائی سے اردن کو اقتصادی اور فوجی امداد فراہم کر رہا ہے۔ امریکا کی اردن کے لیے دو طرفہ امداد وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کی نگرانی میں ہوتی ہے، یہ امداد مالی سال 2020 تک تقریباً 26.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی، یہ بات ایک کانگریسی تحقیقاتی سروس کے مطالعے میں سامنے آئی ہے۔

اسی طرح 2025 مالی سال کے لیے مختص امریکی بجٹ میں اردن کے لیے 1.45 ارب ڈالر کی رقم شامل ہے۔ مصر کو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سے اب تک جو امداد ملی ہے، وہ 75 ارب ڈالر سے زائد ہے اور 2025ء کے لیے مختص بجٹ مصر کے لیے 1.4 ارب ڈالر کی رقم شامل ہے۔ ٹرمپ اپنے بیک گراونڈ کے لحاظ سے ایک کاروباری شخصیت ہے، جو سودوں پر یقین رکھتا ہے، اس کی حکومتی پالیسیوں میں بھی یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ وہ جس ملک کو امداد دیتا ہے اس کے بدلے میں اسے کیا مل رہا ہے۔ خاص طور پر ان دو ممالک کے حوالے سے جو دنیا کے سب سے زیادہ تناؤ والے علاقوں میں واقع ہیں۔ جہاں تک غزہ کی بات ہے، اہل غزہ عزت و وقار کے لئے قربانیاں دینا جانتے ہیں، پندرہ مہیوں کی جنگ میں انہوں استقامت اور تدبیر کیساتھ اسرائیل کو ملنے والی اربوں ڈالر کی امریکی امداد کے باوجود جس جرات کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ انہیں امریکہ جیسے کسی ملک کی امداد کی سرے سے ضرورت ہی نہیں بلکہ امریکی سرپرستی میں ان پر جنگ کے ذریعے تسلط قائم کرنیکی کوشش والی اسرائیل جیسی طاقت کو اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ممکن نہیں رہا۔
 
مصر کی اقوام متحدہ میں اسرائیل کیخلاف قرارداد پر پسپائی:
مبصرین کے مطابق ٹرمپ 2016ء کے دسمبر میں مصر پر اپنے کامیاب دباؤ کے تجربے کو بھولا نہیں ہے۔ جب ٹرمپ انتخابات جیت کر نیا صدر بنا تھا تو اس وقت مصر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے میں آبادکاری کے جاری عمل کی مذمت کی جاتی۔ اسی دوران، سابق امریکی صدر بارک اوباما کی انتظامیہ نے اس قرارداد کو ویٹو کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ نیتن یاہو نے اس وقت ٹرمپ انتظامیہ سے بات کی اور مصر پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا۔ ٹرمپ نے مصر کے صدر السیسی سے بات کی اور اسے قرارداد واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد فوراً مصر نے اپنا موقف تبدیل کیا اور سلامتی کونسل میں امریکی وفد سے معذرت کی، جس کا سبب یہی ٹرمپ کا دباؤ تھا۔ اسی طرح اس حربے کو دوبارہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصر دوبارہ اس پسماندگی اور پسپائی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ وہ اہل غزہ کے مدمقابل بن کر اسرائیل کا جنگی اتحادی شمار ہوگا، اور ذلت ان کا مقدر بنے گی۔
 
امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی:
دسمبر 2017 میں اپنی پہلی مدت کے دوران، ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کیا اور اس کے بعد امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا، جس کا مئی 2018ء میں افتتاح کیا گیا۔ اس وقت ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسے اس عمل سے منع کیا گیا تھا اور دھمکیاں دی گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ سے قبل 5 امریکی صدور نے یہ قدم نہیں اٹھا سکے تھے، رونالڈ ریگن، جارج بش سینئر، بل کلنٹن، جارج بش جونیئر اور باراک اوباما، کیونکہ انہیں عرب ممالک کے ردعمل کا خوف تھا۔ حالانکہ ٹرمپ کا یہ اقدام بین الاقوامی قانون اور سلامتی کونسل کے فیصلوں کے خلاف تھا، لیکن عرب ممالک نے اس فیصلے کے ردعمل میں کوئی ردعمل یا سفارتی اقدام نہیں اٹھایا، جس سے ان کے اعتراض یا فیصلے کی سنگینی ظاہر ہو۔ اگرچہ زبانی کلامی ڈھینگیں بہت ماری گئیں۔ مگر نتیجہ صفر رہا۔

ان سابقہ تجربات کے پیش نظر ٹرمپ اب بھی عرب حکام کی ڈھینگوں کے باوجود غزہ کے حوالے سے اپنے مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر یقین کامل رکھتا ہے۔ کسی بھی فیصلے اسباب، عوامل اور محرکات میں سے ماضی کی کامیابیوں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ لیکن غزہ کے باسی ان مذکورہ عوامل سے کہیں زیادہ مضبوط، مستحکم اور گہری جڑیں رکھتے ہیں، جو انہیں بدر سے طوفان الاقصیٰ تک میدان جنگ میں اپنے سے کئی گنا بڑے، طاقتور اور جدید ٹیکنالوجی سے مسلح حریف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے جیسی مثالوں سے مملو ہیں۔ آج شہید یحییٰ سنوار کی اگلی نسل کربلا کو اپنے لئے مثال سمجھتی ہے، یمن، عراق، ایران اور لبنان سے

آنیوالی مسلمان بھائیوں کی امداد کو خدائی نصرت قرار دیتے ہیں، اور خدائی خزانے اور طاقت کے ذخیرے کبھی ختم نہیں ہوتے، یہ امر نہ امریکی صدر سمجھتا ہے، نہ صیہونی ظالم اور نہ عرب خائن حکمران۔ لیکن اہل غزہ اسی یقین کے جیتے، مرتے اور کٹتے ہیں، انہیں یہ شیطانی طاقتیں نہیں جھکا سکتیں۔

 ارنا کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ اور ایئر ڈیفنس فورس کے کمانڈروں نے آج جمعہ، 19 بہمن مطابق 7 فروری کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔

 یہ ملاقات اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی دس روزہ تقریبات عشرہ فجر  کے موقع پر، 1979 کی 19 بہمن کو رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے ایرانی ایئر فورس کے افسران کی بیعت کی سالگرہ کی مناسبت سے ہر سال کے معمول کے مطابق انجام پائی۔  

 اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی نے  خطاب فرمایا ۔ آپ کے خطاب کے اہم ترین نکات یہ ہیں:

امریکا سے مذاکرات، ملک کی مشکلات دور کرنے میں موثر نہیں ہوں گے۔یہ ہمیں صحیح طور پر سمجھ لینا چاہئے؛ ہم پر یہ ظاہر کرنے  کی کوشش نہ کریں کہ اگراس حکومت سے  مذاکرات کی میز پر بیٹھے تو فلاں مشکل، وہ مشکل حل ہوجائے گی۔ جی نہیں؛ امریکا سے مذاکرات سے کوئی مشکل حل نہیں ہوگی اس کا  ثبوت تجربہ ہے۔

 ہم نے 2010 کے عشرے میں امریکا سے مذاکرات کئے، دو سال میں ایک معاہدہ ہوا۔ البتہ ان مذاکرات میں اکیلا امریکا  نہیں تھا، چند دیگر ممالک بھی تھے، لیکن مرکزیت امریکا کو حاصل تھی، اہم امریکا تھا، ہماری حکومت نے بیٹھ کر مذاکرات کئے، اس دور کی حکومت نے، رفت وآمد کی ، نشست وبرخاست کی، مذاکرات انجام دیئے، گفتگو کی، ہنسے، ہاتھ ملایا،دوستی کی، ہر کام کیا، ایک معاہدہ ہوا، اس معاہدے میں ایرانی فریق نے بڑی سخاوت دکھائی، فریق مقابل کو بہت سہولتیں دیں۔ لیکن اسی معاہدے پر امریکیوں نے عمل نہیں کیا ۔

معاہد اس لئے ہوا تھا کہ امریکی پابندیاں ختم ہوجائيں، امریکی پابندیاں ختم نہیں کی گئيں! اقوام متحدہ کے سلسلے میں بھی زخم میں ایک ہڈی ایسی چھوڑی گئی  جو ہمیشہ ایران کے سر پر خطرہ بن کر منڈلاتی رہے۔

یہ معاہدہ ان مذاکرات کا نتیجہ تھا جو  دو سال، اس سے کم یا زیادہ عرصے تک چلے۔ یہ تجربہ ہے؛ اس تجربے سے کام لیں۔ ہم نے سہولتیں دیں، مذاکرات کئے، پوائنٹس دیئے، پیچھے ہٹے، لیکن وہ نتیجہ جو ہمارے مد نظر تھا، حاصل نہ کرسکے۔ یہی معاہدہ جس میں اتنے نقائص تھے، مقابل فریق نے ختم کردیا، اس کی خلاف ورزی کی اور اس کو پھاڑ دیا۔ ایسی حکومت سے مذاکرات نہیں کرنا چاہئے،اس سے مذاکرات کرنا عاقلانہ، دانشمندانہ اور شرافتمندانہ نہیں ہے۔  

یہی شخص جو اس وقت امریکا میں اقتدار میں ہے، اسی نے معاہدے کو پھاڑآ۔ کہا تھا کہ پھاڑ دے گا اور پھاڑ دیا۔ اس پر عمل نہیں کیا۔ اس کے اقتدار میں آںے سے پہلے، ان لوگوں نے بھی جنہوں نے معاہدہ کیا تھا، اس پر عمل نہیں کیا۔

امریکی بیٹھ کر کاغذ پر دنیا کا نقشہ تبدیل کررہے ہیں۔  لیکن یہ صرف کاغذ پر ہے،اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ہمارے بارے میں بھی بول رہے ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں۔ اگر وہ  دھمکی دیں گے تو ہم بھی انہیں دھمکی دیں گے، اگر دھمکی پر عمل کریں گے تو ہم بھی دھکی پر عمل کریں گے۔ اگروہ ہماری قوم کی سلامتی پر حملہ کریں گے تو ہم  بھی یقینا ان کی سلامتی پر حملہ کریں گے۔

یہ طرز عمل قرآن اور اسلام کے احکام سے لیا گیا ہے اور  ہمارا فریضہ ہے۔ امید ہے کہ خدا وند عالم ہمیں  اپنے فرائض کی انجام دہی میں کامیابی عطا فرمائے گا۔

ہمیں یقینا ملک کے اندر مشکلات کا سامنا ہے ؛مشکلات سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ معیشت میں، عوام کے اکثر طبقات کو مشکلات کا سامنا ہے، لیکن وہ چیز جو ان مشکلات کو دور کرسکتی ہے اندرونی مسئلہ ہے۔

 یہ اندرونی مسئلہ، قوم کی حمایت اور ہمراہی سے جس کا ان شاء اللہ 22 بہمن( یوم آزادی) کے جلوسوں میں آپ ملاحظہ فرمائيں گے،  ملک کے پابند عہد حکام کی مسا‏عی ہے۔

22 بہمن (یوم آزادی) کے جلوس جو ہر سال نکلتے ہیں، ملک میں ملی اتحاد اور صاحب بصیرت عوام اور انتھک مساعی میں مصروف حکام کی وحدت کے مظہر ہیں۔

 حکام مشغول  ہیں، الحمد للہ کام کررہے ہیں اور مجھے بہت امید ہے کہ کامیاب ہوں گے، یہی محترم حکومت عوام کی مشکلات کو کم کرنے میں کامیاب رہے گی۔      

 
ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے ملک کی دفاعی ترقی کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی دفاعی طاقت کا مقصد قومی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے وزارت دفاع کے ایرو اسپیس انڈسٹریز کمپلیکس کے دورے کے دوران کہا ہے کہ حکومت ملک کی دفاعی صنعتوں کی ترقی کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ ایران کی فوجی پیش رفت کسی بھی غیر ملکی جارحیت کو روکتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق صدر پزشکیان نے وزارت دفاع کے ایرو اسپیس ڈویژن کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے مختلف دفاعی اور خلائی کامیابیوں کا معائنہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب ہمارا دشمن ہم پر آزادانہ حملہ کرتا تھا۔ آٹھ سالہ جنگ کے دوران عراقی بعثی حکومت کو ہماری زمین اور فضائی حدود تک بلا روک ٹوک رسائی حاصل تھی اور دشمن اپنی مرضی کے مطابق کام کرسکتے تھے۔ آج ایران نے دفاعی شعبے میں جدید زمانے کے مطابق ترقی کی ہے، جس کی وجہ سے کوئی بھی ایران کی خود مختاری پر حملہ کرنے کی جرائت نہیں رکھتا ہے۔

صدر پزشکیان نے ایران کی فوجی طاقت کو دفاعی قرار دیتے ہوئے کہا کہ دشمن اب ماضی کی طرح ایران کو میزائل حملوں اور بمباری کا نشانہ نہیں بنا سکتے ہیں۔ آج ہم یہاں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ ایران کی دفاعی طاقت کا مظہر ہے، جسے دوسروں پر جارحیت کے لئے نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ کی حفاظت کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر اس عزم کو دہرایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی دفاعی طاقت کو مزید مستحکم کرے گا، البتہ یہ کام کسی بھی قوم کو دھمکانے کے لئے نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہے، تاکہ کوئی بھی ملک ہماری خود مختاری کی خلاف ورزی کرنے کی جرائت نہ کرے۔ ادھر سپاہ پاسداران کے کمانڈر انچیف جنرل حسین سلامی اور سپاہ کی بحریہ کے کمانڈر ایڈمیرل تنگسیری نے زیر زمین میزائل سٹی میں سپاہ کی بحریہ کی جنگی اور میزائلی توانائیوں اور آمادگی کا معائنہ کیا۔

اس زیر زمین میزائل سٹی میں، دشمن کے جنگی بحری جہازوں کی الیکٹرانک وار کا مقابلہ کرنے والے جدید ترین کروز میزائل بھی نصب ہيں۔ اس زیر زمین میزائل سٹی میں اپ گریٹیڈ کروز میزائل ہیں، جو دشمن کے الیکٹرانک حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مختصر ترین وقت میں آپریشنل ہوسکتے ہیں۔ سپاہ نے اسی طرح اپنے ایک جدید ترین دفاعی اسلحے کی بھی رونمائی کی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایران نے کئی زیر زمین میزائل شہروں کی نقاب کشائی کی ہے۔ فوجی حکام کے مطابق یہ شہر اپنی منفرد خصوصیات اور جدید صلاحیتوں کے ساتھ گائیڈڈ کروز میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایران کی دفاعی کامیابیوں کی رونمائی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پاسداران انقلاب اسلامی نے ملک کے جنوبی ساحلی علاقے میں ایک اور بحری میزائل سٹی کی نقاب کشائی کی ہے۔

بحری میزائل سٹی کی نقاب کشائی کیوں ضروری ہے؟
یہ رونمائی اسلامی جمہوریہ ایران کے اپنی فوجی طاقت اور غیر ملکی خطرات کے خلاف مزاحمت کو بڑھانے کے عزم کو ظاہر کرتی ہے اور اس طرح کے اقدامات خطے میں سیاسی اور فوجی مساوات کو متاثر کرتے ہیں۔

اہم نکات:
 ایران کی بحریہ کے کروز میزائل آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے آپریٹ ہوتے ہیں۔ ایران کے پاس گائیڈڈ میزائل کی ایک بڑی تعداد ہے۔ ان میزائلی شہروں کی رونمائی کا مقصد دشمنوں کو متنبہ کرنا ہے، تاکہ وہ سوچ سمجھ کر ایران پر حملے کے بارے کوئی فیصلہ کریں۔ دشمن کو ایران کی دفاعی صلاحیت کے بارے میں حساب کتاب کی غلطیاں روکنے کے لیے یہ رونمائی کی گئی ہے۔ ان شہروں کو دشمن کے حملوں سے بچانے کے لیے زیر زمین گہرائی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس اقدام سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کی مسلح افواج اپنی صلاحیتوں کو مسلسل اپ ڈیٹ کر رہی ہیں۔ ان زیر زمین شہروں کی رونمائی نہ صرف ایران کی فوجی پیش قدمی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ بیرونی خطرات کے خلاف ایک روکاوٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔ اس اقدام سے ایران کے دشمنوں کو پیغام جاتا ہے کہ ایران کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔

قطع رحمی اور رشتہ داروں سے بد سلوکی:
قطع رحمی گناہ کبیرہ ہےیہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا نتیجہ آخرت سے پہلے دنیا میں ظاہر ہونے لگتا ہے جبکہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک ایسی نیکی ہے جو بخشش اور خدا کی خوشنودی کا سبب ہے صلہ رحمی سے عمر اور رزق دونوں بڑھتے ہیں اور دنیاو آخرت کی مشکلات آسان ہوتی ہیں۔
قرآن مجید میں قطع رحمی کرنے والوں پر لعنت کی گئی ہے ارشاد خداوندی ہے:
’’والذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ و یقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل ویفسدون فی الارض اولئک لھم لعنۃ ولھم سوء الدار‘‘
’’وہ لوگ جو خدا سے پختہ عہد کے بعد اس کوتوڑتے ہیں اور جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں ان کے لیے لعنت اور بدترین گھر ہے‘‘۔
(سورہ رعد ، آیت ۲۵)
’’فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمۡ وَ اَعۡمٰۤی اَبۡصَارَہُمۡ‘‘
’’پھر اگر تم حکمران بن جاؤ تو تم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو گے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے لہٰذا انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے‘‘۔
(سورہ محمد آیت ۲۲،۲۳)
’’وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ‘‘
’’اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)‘‘۔
(سورہ نساء آیت۰۱)
قطع رحمی کے متعلق معصومین علیھم السلام کے ارشادات:
۱۔ حذیفہ بن منصور بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
’’اتقواالحالقۃ فانھا تمیت الرجال، قلت و ما الخالقۃ؟ قال قطیعۃ الرحم‘‘
’’آپؑ نے فرمایا کہ حالقہ سے ڈرتے رہو حالقہ مردوں کو قبل از وقت موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہے، میں نے عرض کیا حالقہ کیا ہے آپ نےفرمایا اس کا مطلب قطع رحمی ہے‘‘۔
۲۔ عثمان بن عیسیٰ بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی نے امام کی خدمت میں عرض کیا:
مولا میرے بھائیوں اور چچا زادبھائیوں نے مجھ پر ظلم کیا ہےانہوں نے پورے مکان پر جو میری اور ان کی مشترکہ ملکیت ہے اس پر قبضہ کر لیا ہے اور مجھے ( مع اہل خانہ) ایک کمرے میں رہنے پر مجبور کردیا ہے اگر میں ان کی شکایت کروں تو اپنا حق لےسکتا ہوں( آپ فرمائیں میں کیا کروں)؟
امام علیہ السلام ے فرمایا:
’’ تم صبر کرو اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے لیے آسانیاں پیدا کردے گا‘‘
اس نے امام کا فرمان سنا اور چلا گیا پھر اسی سال سن ۱۳۱ھ میں طاعون پھیلا اور میرے سارے رشتہ دار اس وبا سے ہلاک ہوگئے۔
’’میں جب دوبارہ امام کی خدمت میں پہنچا تو امام نے پوچھا تمہارے رشتہ داروں کا کیا حال ہے۔
میں نے عرض کیا وہ سب طاعون میں مر گئے ہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
انہوں نے قطع رحمی کی تھی اور تمہارا حق غصب کیا تھااس لیے وہ ہلاک ہوگئے کیا تم چاہتےتھے کہ وہ ظلم کر کے بھی زندہ رہیں؟
میں نےعرض کیا
مولا ، مگر میں ان کی موت کا خواہش مند نہیں تھا‘‘۔
۳۔امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا :
’’ کتاب علی علیہ السلام میں لکھا ہے کہ تین عادتیں ایسی ہیں جن کا وبال آدمی آخرت سے پہلے دنیا میں ہی دیکھ لیتا ہے۔
لوگوں کا حق مارنا
قطع رحمی کرنا
جھوٹی قسم کھانا‘‘
پھر آپؑ نے فرمایا:
’’ کوئی بھی نیکی عمل صلہ رحمی سے بڑھ کر انسان کو فائدہ نہیں پہنچا تا۔ بعض اوقات بدکار افراد صلہ رحمی کرتے ہیں تو خدا ان کے مال میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں مالا مال کردیتا ہے جھوٹی قسم کھانااور قطع رحمی کرنا شہروں کو ویران کر دیتا ہے اور قطع رحمی نسلوں کو منقطع کردیتی ہے‘‘۔
۴۔ عنبسہ بن عابد بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور اس نے اپنے رشتہ داروں کے ظلم کی شکایت کی۔
آپ علیہ السلام نے اسے فرمایا:
’’صبر کرو اور اپنےکام میں مشغول رہو‘‘۔
اس نے کہا مولا کیسے صبر کروں انہوں نے مجھ پر یہ ظلم کیا ہے وہ ظلم کیا ؟
آپؑ نے فرمایا:
’’ کیا تم بھی ان جیسا بننا چاہتے ہو۔ اگر تم بھی ان جیسے بن گئے تو خدا تم میں سے کسی کی طرف بھی نگاہ کرم نہیں کرے گا‘‘۔
۵۔ ابو حمزہ ثمالی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ امیرالمومنین علیہ السلام نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’میں ایسے گناہوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو فوری بربادی کاموجب بنتے ہیں‘‘۔
خارجیوں کا ایک سردار عبد اللہ بن کواء کھڑا ہوا اور بولا:
اے امیر المومنین ۔!کیا کوئی گناہ ایسا بھی ہے جو فوری بربادی لاتا ہے؟
آپؑ نے فرمایا:
’’ قطع رحمی۔ یاد رکھو کچھ لوگ گنہ گار ہوتے ہیں مگر آپس میں تعلقات کوبڑی اہمیت دیتے ہیں اور اس صلہ رحمی کےنتیجے میں خدا ان کو وسیع رزق دیتا ہے اور کچھ لوگ پرہیز گارہوتے ہیں مگر آپس میں میل ملاپ نہیں رکھتے اور ایک دوسرے سے تعلقات توڑ لیتے ہیں۔خدا اس قطع رحمی کی وجہ سے ان کو وسعت رزق سے محروم کر دیتا ہے‘‘۔
( مذکورہ تمام روایات اصول کافی ج ۲، ص ۳۴۸،۳۴۹ پر مرقوم ہیں)
۶۔ محاسن برقی مین مرقوم ہے کہ قبیلہ خثعم کا ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا :
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ کو سب سے زیادہ کون سا عمل ناپسند ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا:
’’ اللہ کو شرک سب سے زیادہ ناپسند ہے‘‘۔
اس نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سے عمل ہے؟
آپ نے فرمایا:
’’شرک کے بعد قطع رحمی اللہ کو نا پسند ہے‘‘۔
اس نےپوچھا کہ قطع رحمی کے بعد کون سے عمل اللہ کو ناپسند ہے؟
آپ نے فرمایا:
برائی کا حکم دینا اور نیکی سے روکنا‘‘۔
(محاسن برقی ج۱، ص۲۹۵)
۷۔امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کہ مجھ سے میرے والد ماجد نے بیان فرمایا:
’’ پانچ قسم کے لوگوں سے دوستی نہ کرنا، بات نہ کرنا اور اس کو اپنا ہم سفر نہ بنانا‘‘۔
میں نے عرض کیا باباجان! وہ کون لوگ ہیں؟
آپ نے فرمایا:
’’جھوٹے سے دوستی نہ کرناوہ سراب کی مانند ہوتا ہےوہ جھوٹ بول کر قریبی چیز کو بعید بتائے گا اوردور کی چیز کو نزدیک بتائے گا۔
فاسق سے دوستی نہ کرنا، وہ تجھے ایک لقمے یا اس سے بھی کم قیمت میں بیچ دے گا۔
کنجوس سے دوستی مت کرنا وہ مشکل وقت میں تمہاری مدد نہیں کرےگا۔
احمق سے دوستی نہ کرنا،وہ اپنی طرف سے تمہارےلیے بھلائی چاہے گا لیکن حماقت کی وجہ سے نقصان پہنچائے گا۔
قاطع رحم سے دوستی نہ کرنا، کیوں کہ میں نے قرآن کریم میں اسے ملعون پایا ہے‘‘۔
(اصول کافی ج۲، ص۳۷۶)
۸۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرائیل نے خبر دی ہے کہ
’’ جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی مسافت سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے لیکن والدین کا نافرمان، قاطع رحم اور بوڑھا زانی اس خوشبو کو نہیں سونگھ سکے گا‘‘۔
(بحار الانوار ج۷۶، ص۴۴ بحوالہ معانی الاخبار ص۲۰۰)
ایسے گناہ جن سے عمر کم ہوجاتی ہے
۱۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:
’’والذنوب التی تعجل الفناء: قطیعۃ الرحم، والیمین الفاجرۃ والاقوال الکاذبۃ والزنا و سد الطرق المسلمین وادعا الامامۃ بغیر حق‘‘
’’قطع رحمی کرنا،جھوٹی قسم کھانا،جھوٹی بات کرنا،زنا کرنا،مسلمانوں کے راستے بند کرنا، امامت کا جھوٹا دعوی کرنا، یہ وہ گنا ہیں جن کی وجہ سے عمریں گھٹ جاتی ہیں‘‘۔
(معانی الاخبار ص۲۷۱)
۲۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے منصور دوانیقی سے فرمایا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
’’جب کوئی انسان صلہ رحمی کرتا ہےتو اگر اس کی عمر تین سال باقی ہو تو اللہ اس کو تیس سال میں بدل دیتا ہے اور جب کوئی شخص قطع رحمی کرتا ہے اگراس کی عمر تیس سال باقی ہو تو اللہ اس کی عمر تین سال میں بدل دیتا ہے‘‘۔
جب امام نے یہ حدیث بیان کی تو اس نے کہا یہ نہایت عمدہ حدیث ہے لیکن میں اس موضوع کی اور حدیث سننا چاہتا تھا۔
۳۔تو امام علیہ السلام نے فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’صلۃ الرحم تعمر الدیار وتزید فی الاعماروان کا اھلھا غیر اخیار‘‘
’’صلہ رحمی سے شہر آباد ہوتے ہیں اور عمریں بڑھتی ہیں اگرچہ صلہ رحمی کرنے والے نیکوکار نہ بھی ہوں۔‘‘
منصور نے کہا یہ حدیث بھی نہایت عمدہ ہے لیکن میں اس موضوع میں کوئی اور حدیث سننا چاہتا تھا۔
۴۔آپؑ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے
’’صلۃ الرحم تھون الحساب و تقی میتۃ السوء‘‘
’’صلہ رحمی آخرت کے حساب آسان بناتی ہےاور بری موت سے بچاتی ہے‘‘۔ منصور نے کہا میں یہی حدیث سننا چاہتاتھا۔
(سفینۃ البحار ج۱، ص۲۱۴)
۵۔امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
’’صلہ رحمی سے عبادت میں پاکیزگی ہوتی ہے۔ اموال کی نشونما ہوتی ہے،بلائیں دور ہوتی ہیں،حساب آخرت میں آسانی پید اہوتی ہے اورعمریں بڑھ جاتی ہیں‘‘۔
۶۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے:
’’اوصی الشاھد من امتی والغائب ومن فی اصلاب الرجال ارحام النساء الی یوم القیامۃ،ان یصل الرحم وان کانت منہ علی مسیرۃ سنۃ فان ذلک من الدین‘‘
’’میں اپنی امت کے موجودہ اور غائب بلکہ جو قیامت تک باپوں کے صلب اور ماوں کے رحم میں ہیں اس سب کو صلہ رحمی کی سفارش کرتا ہوں اگرچہ رشتہ دار ایک سال کی مسافت پر بھی کیوں نہ رہتا ہو۔صلہ رحمی دین کا حصہ ہے‘‘۔
امام وقت سے قطع رحمی کا نتیجہ
ہارون نے جعفربن محمدبن اشعث کو اپنے بیٹے امین کا تالیق مقرر کیا تو ہاروں کے وزیر یحیی بن خالد بر مکی کو حسد ہوا کہ اگر ہارون کے بعد خلافت امین کو ملی تو مجھے لازمی برطرف کرکے جعفر بن محمد بن اشعث کووزیر بنا دیا جائے گا چناچہ یحیی بن خالد نے جعفر سے راہ و رسم بڑھائی تاکہ اس کے راز جان کرہارون کو اس کے خلاف لگائی بجھائی کرسکے اور ہارون کو اس سے بد گمان کردے۔
جب اسے معلوم ہوا کہ یہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا شیعہ ہے اور ان کی امامت کا قائل ہے تو اس نے ہارون کو جا کر یہ بات بتا دی۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے حالات کا پتا چلانے کے لیے یحیی نےاپنے بھروسے کےآدمی سے کہا کیا تم آل ابی طالب کے کسی ایسے فرد کو جانتے ہو جو تنگدست ہو اور مجھے اطلاعات فراہم کرے جو میں چاہتا ہوں۔ اس آدمی نے یحیی سے کہا کہ علی بن اسماعیل سے رابطہ کروجو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا بھتیجاہے۔ چناچہ یحیی نے اسے کچھ رقم بھیجی حالانکہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام بھی اس پر شفقت فرمایا کرتے تھے اور بعض اوقاتاس کو اپنا ہم رازز بھی بنایا کرتے تھے۔
یحیی بن خالد برمکی نے اپنے آدمی سے کہا علی بن اسماعیل کو بغداد بھیج دو۔ اس وقت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے محسوس کیا کہ ان کے خلاف سازش ہورہی ہے انہوں نے اپنے بھتیجے کو بلا کر پوچھا کہ کہاں جارہے ہو؟ اس نےکہا بغداد جارہا ہوں۔ امام علیہ السلام نے کہا وہاں کیا کام ہے؟ اس نے کہا مقروض اور تنگدست ہوں شاید اللہ وہاں فضل کردے اور میرا قرض ادا ہوجائے۔ آپؑ نے فرمایا میں تمہارا قرض اد اکردوں گا اس کے علاوہ بھی جو کچھ ہوسکا کروں گا لیکن علی بن اسماعیل اپنےارادے پر قائم رہا اور آمادہ سفرہوا۔ امام نے دوبارہ اس سے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو؟ اس نے جواب دیا اس کے سوا میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ تب امام علیہ السلام نے فرمایا:
’’ بھتیجے خیال رکھنا بغداد جاکر میری اولاد کو یتیم نہ کرنا۔‘‘
یہ تمہارے لیے انتہائی خطر ناک ثابت ہوگا۔ یہ کہہ کر آپ نے اسے تین سو دینار اور چار ہزار درہم دئیے۔ جب وہ رخصت ہوا تو آپ نے حاضرین مجلس سے کہا:
’’بخدا! یہ میرا خون بہانے کی کوشش میں کامیاب ہوجائے گا اور میرے بچے یتیم ہوجائیں گے‘‘۔
لوگوں نے کہا جب آپ کو یہ بات معلوم ہے تو آپ نے اتنی نوازش کیوں فرمائی؟ آپؑ نے فرمایا کہ ہمارے آبائے کرام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی ہے:
’’رشتہ داری جب ایک طرف سے کاٹ دی جاتی ہےتو اسے دوسری طرف سے جوڑا جائے پھر بھی اسے کاٹا جائے تو کاٹنے والا برباد ہوجاتا ہے‘‘۔
علی بن اسماعیل سیدھا وہاں سے نکل کر یحیی بن خالد کے پاس آیا ۔ یحیی نے اس سے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے متعلق معلومات حاصل کیں اوراس سے کہیں بڑھا چڑھا کر ہارون کےکان بھرے پھر علی بن اسماعیل کو لے کر ہارون کے پاس آیا ۔ ہارون نےاس سے سوال کیا تو اس نے کہا کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے پاس ملک کے طول و عرض سے اموال آتے ہیں حال ہی میں انہوں نے مدینہ میں تیس ہزار دینار میں ایک کھیت خریدا ہے ادئیگی کے وقت کھیت کے مالک نے کہا کہ میں ان سکوں میں سےقیمت نہیں لوں گا مجھے فلاں سکوں میں ادائیگی کریں تو انہوں نے وہ سکے منگوائے اورادائیگی کی۔
یہ سن کر ہارون نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو قید کرنے کا حکم دیا اوربعد میں شہید کردیااس نے علی بن اسماعیل کو دو لاکھ درہم کا انعام دیا تاکہ وہ بغداد میں اپنے لیے گھر خرید سکے علی بن اسماعیل نے بغداد کے مشرق میں ایک گھر کو پسند کیا اوراس کے آدمی دو لاکھ درہم لینے ہارون کےگھر گئے۔ علی ان کی واپسی کے انتظار میں دن گنتا رہا۔ ایک دن اسے پیٹ میں پیچش کا مروڑ اٹھا۔ وہ بیت الخلاء میں گیا اورزور لگایا تو اس کی ساری آنتیں باہر نکل آئیں۔ وہ گر پڑا ۔ لوگوں نے ہر چندکوشش کی کہ آنتیں اندر واپس چلی جائیں مگر ممکن نہ ہوسکا وہ نزع کے عالم میں تھا کہ اس کے دو آدمی دو لاکھ درہم لے کر آئے اس نے کہا اب اس رقم کو لے کر کیا کروں گا میں تو مرر رہا ہوں۔ یہ کہا اورمر گیا۔
(الارشاد، بحار االانوار)
کتاب "محرمات اسلام "سے اقتباس

حضرت امام سید سجادعلیہ السلام کاطریقۂ تبلیغ دعا کے پیکر میں اسلامی معارف کا بیان کرنا ہے ،ہم جانتے ہیں کہ دعا انسان اور پروردگار کے درمیان معنوی پیوند اور لگاؤ ہے جو تربیتی اور اخلاقی اثر کی حامل ہے ،اس اعتبار سے کہ اسلام کی نظر میں دعا کا ایک خاص مقام ہے۔ اگر پیغمبر اسلام ص وائمۂ معصومین (علیہم السلام )کی طرف سے جو دعائیں ہم تک پہونچی ہیں جمع کردی جائیں تو ایک بہت بڑا مجموعہ بن جائے گا ۔یہ دعائیں عظیم تربیت کا ایک مکتب ہے جو انسانوں کے رشد ونما اور ان کی اخلاقی تربیت میں ایک اہم کردار کی حامل ہیں ۔
جیسا کہ چوتھے امام حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کےزمانےمیں حالات بہت زیادہ پرآشوب اور خراب تھے ،امام اپنے اغراض ومقاصد کو دعا اور مناجات کی شکل میں بیان کرتے تھے ،آپ کی دعاؤں کا مجموعہ جو صحیفۂ سجادیہ کے نام سے مشہور ہے قرآن مجید اور نہج البلاغہ کے بعد سب سے عظیم واہم حقائق اور الٰہی معارف کا گرانقدر خزانہ سمجھاجاتا ہے کہ جسے ہمارے جلیل القدر علما ء نے اخت القرآن (قرآنکی بہن)،انجیل اہل بیت اور زبور آل محمد ص کالقب عطاکیا ہے۔
صحیفۂ سجادیہ صرف خداوند عالم کی بارگاہ میں رازونیاز ،مناجات ،دعا اور طلب ِ حاجات پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اسلامی علوم ومعارف کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا بے کراں سمندر ہے کہ جس میں عقیدتی ،ثقافتی ،سیاسی مسائل ،بعض طبیعی قوانین اور شرعی احکام دعا کی شکل میں بیان کئے گئے ہیں۔
مرجع فقید مرحوم آیت اللہ العظمیٰ نجفی مرعشی قدس سرہ نے ١٣٥٣ھمیں علامۂ معاصر مؤلف تفسیر طنطاوی (مفتی اسکندریہ)کی خدمت میں صحیفۂ سجادیہ کا ایک نسخہ قاہرہ روانہ کیا ،انھوں نے اس گراں قدر ہدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواب میں اس طرح تحریر فرمایا ہے :
"یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ یہ گراں قدر کتاب جو میراث نبوت سمجھی جاتی ہے اب تک ہم اس سے محروم تھے اور میں جتنا بھی اس میں مشاہدہ اور غورو فکر کرتا ہوں اسے کلام مخلوق سے افضل وبرتر اور کلام خالق سے کمتر پاتا ہوں ۔ ”
صحیفہ ٔ سجادیہ ، ترجمہ سید صدر الدین صدر بلاغی ، تہران ، دار الکتب الاسلامیة ، مقدمہ ، ص ٣٧
صحیفۂ سجادیہ کی بے نظیر اہمیت اور اس کے نہایت معتبر ہونے کی وجہ سے تاریخ اسلام میں عربی اور فارسی زبان میں اس کتاب کی بہت زیادہ شرحیں لکھی گئی ہیں ۔
مرحوم علامہ شیخ آغا تہرانی نے کتاب الذریعہ میں ترجمہ کے علاوہ تقریباً اس کی پچاس شرحوں کا نام تحریر کیا ہے ۔
شیخ آغا بزرگ ، الذریعۃ الیٰ تصانیف الشیعۃ ، الطبعۃالثانیۃ، ج ٣،ص٣٤٥۔٣٥٩
ان شرحوں کے علاوہ گزشتہ اور معاصر کے جلیل القدر علماء کی ایک جماعت نے اس کا متعدد ترجمہ کیا ہے ۔
صحیفۂ سجادیہ 54دعاؤں پرمشتملہےکہجنکےعناوین کی فہرست اس طرح ہے :
١۔خداوندعالمکی حمد وثناء
٢۔رسولاکرم صاورانکی آل پر درود و صلوات
٣۔حاملانعرشفرشتوںپردرودوصلوات
٤۔انبیا ء کی تصدیق کرنے والوں پر درود و صلوات
٥۔اپنےاوراپنےقرابتداروںکےسلسلہمیں دعا
٦۔صبحوشامکےوقتکی دعا
٧۔مشکلاتکےوقتکی دعا
٨۔طلبپناہکےسلسلہکی دعا
٩۔طلبمغفرتکےسلسلہکی دعا
١٠۔خداکی پناہ طلب کرنے کی دعا
١١۔انجامبخیر ہونے کی دعا
١٢۔اعترافگناہکےبارےمیں دعا
١٣۔طلبحاجاتکےسلسلہمیں دعا
١٤۔ایسے ظلم و ستم کے بارے میں دعا جو ان پر ڈھائے گئے
١٥۔بیماری کی وقت کی دعا
١٦۔گناہوںسےطلببخششکےبارےمیں دعا
١٧۔شیطان پر لعن و نفرین کرنے کے بارے میںدعا
١٨۔دفعبلیات کے سلسلہ میں
١٩۔طلببارانکی دعا
٢٠۔نیک اور پسندیدہ اخلاق کے بارے میں دعا
٢١۔آپکےمحزونوغمگین ہونے کے وقت کی دعا
٢٢۔شدتوسختی کے وقت کی دعا
٢٣۔طلبعافیت کی دعا
٢٤۔والدین کے لئے دعا
٢٥۔اولادکےلئےدعا
٢٦۔پڑوسیوں اور دوستوں کے بارے میںدعا
٢٧۔اسلامی ممالک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کے لئے دعا
٢٨۔بارگاہخداوندی میں پناہ طلب کرنے کے وقت کی دعا
٢٩۔تنگی رزق کے وقت کی دعا
٣٠۔ادائےقرضکی دعا
٣١۔دعائےتوبہ
٣٢۔نمازشبکےبعدکی دعا
٣٣۔دعائےاستخارہ
٣٤۔مشکلاتاورگناہوںکی رسوائی میں گرفتار ہونے کے وقت کی دعا
٣٥۔الٰہی قضا و قدر پر راضی رہنے کے موقع کی دعا
٣٦۔بجلی کڑک اور بادل کی گرج سننے کے وقت کی دعا
٣٧۔شکرپروردگارکےبارےمیں دعا
٣٨۔عذرخواہی کے سلسلہ میں دعا
٣٩۔طلبعفووبخششکی دعا
٤٠۔موتکو یاد کرنے کے وقت کی دعا
٤١۔گناہوںسےپردہپوشی طلب کرنے کے بارے میں دعا
٤٢۔ختمقرآنکےبعدکی دعا
٤٣۔دعائےرویت ہلال
٤٤۔استقبالماہرمضانکی دعا
٤٥۔وداعماہرمضانکی دعا
٤٦۔عیدین اور جمعہ کے دن کی دعا
٤٧۔روزعرفہکی دعا
٤٨۔ عید قربان اور جمعہ کی دعا
٤٩۔دشمنکےمکروفریب کے دفع ہونے کی دعا
٥٠۔خوفالٰہی کے سلسلہ میں دعا
٥١۔تضرعوزاری کے سلسلہ کی دعا
٥٢۔خداسےباربارالتماسکرنےکےسلسلہکی دعا
٥٣۔بارگاہخداوندی میں عجز و انکساری کی دعا
٥٤۔رنجوغمکےدورہونےکی دعا

صحیفۂ سجادیہ کے سیاسی پہلو
صحیفۂ سجادیہ صرف بارگاہ خداوندی میں دعا ،مناجات اور طلب ِ حاجات پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں سیاسی ،سماجی ،ثقافتی اور عقیدتی پہلو بھی پائے جاتے ہیں ۔حضرت امام سید سجاد ؑ نےاپنی دعاؤں کے ضمن میں کئی مقامات پر سیاسی مباحث بالخصوص مسئلۂ امامت اور اسلامی معاشرہ کی رہبری کو پیش کیا ہے کہ جن کے چند نمونے یہ ہیں:
١۔امام علیہ السلام بیسویں دعا ،دعائے مکارم الاخلاق میں اس طرح فرماتے ہیں :
اے خدا!محمد وآل محمدصپردرودبھیج اور مجھے اس شخص کے مقابلہ میں جو مجھ پر ظلم کرتا ہے قدرت وتوانائی عطا کر اور اس شخص کے مقابلہ میں کہ جس نے مجھ سے مجادلہ کیا ہے زبان گویا عنایت فرما اور اس شخص کے مقابلہ میں کہ جو مجھ سے دشمنی رکھتا ہے فتح وظفر عنایت فرما اور اس شخص کے مقابلہ میں جو مجھے فریب دیتا ہے راہ چارہ اور تدبیر عطا فرما اور اس شخص کے مقابلہ میں جو مجھے اذیت پہونچاتا ہے قدرت وطاقت عنایت فرما اور اس شخص کے مقابلہ میں میری عیب جوئی اور مجھے سب وشتم کرتا ہے جھٹلانے کی قوت عنایت فرما اور دشمنوں کے خطرات سے محفوظ فرما ۔
کیاعبد الملک کے کارندوں (جیسے ہشام بن اسماعیل مخزومی)کے علاوہ وہ کون لوگ تھے کہ جن کی وجہ سے امام علیہ السلام پرظلموستم  ڈھائےگئےاورانھیں اذیت پہوچائی گئی ؟اس بناء پر درحقیقت امام کی یہ دعائیں حکومت وقت کی سینہ زوری کے مقابلہ میں ایک اعتراض اور شکایت تھیں اسی لحاظ سے سیاسی پہلو کی حامل ہیں ۔
٢۔امامـکی وہ دعا جو آپ عید قربان اور جمعہ کے دن پڑھتے تھے ان دعاؤں میں اس طرح بیان ہوا ہے
"اے خدا !یہ مقام (خلافت اور امت مسلمہ کی رہبری جو عید قربان اور جمعہ کے دن اقامۂ نماز اور جمعہ کے در خطبے اسی کی شان ہے)تیرے خلفاء اور تیری برگزیدہ ہستیوں سے مخصوص ہے اور تیرے امانتداروں کا مقام ہے کہ جس کو تو نے بلند وبالا درجہ میں قرار دیا ہے ،لیکن ظالموں نے اسے غصب کرلیا ہے یہوں تک کہ تیری برگزیدہ ہستیاں اور تیرے خلفاء مظلوم و مقہور واقع ہوئے اس حال میں کہ وہ مشاہدہ کررہے ہیں کہ تیرے احکام تبدیل کردیئے گئے ہیں، تیری کتاب میدان عمل سے دور کردی گئی ہے ،فرائض وواجبات میں تحریف کردی گئی ہے اور تیرے پیغمبر ص کی سنت کو ترک کردیا گیا ہے ۔
اے خدا! اپنے برگزیدہ بندوں کے تمام دشمنوںاوران لوگوں پر لعنت بھیج جو ان کے اس عمل سے راضی ہیں ،نیز ان کے ساتھیوں اور ان کے پیروکاروں پر لعنت بھیج اور اپنی رحمت سے دور کر ۔
اما م علیہ السلام نےاسدعامیں بڑی صراحت کے ساتھ امامت ورہبری کے مسئلہ کو جو خاندان پیغمبر صسےمخصوصہےبیان کیا ہے اور بتا یا ہے کہ ظالموں نے اسے غصب کرلیا ہے اس لئے حکومت بنی امیہ کے جائز اور شرعی ہونے کی نفی کرتے ہیں ۔

٣۔”پروردگارا! درودبھیج اہل بیت عصمت وطہارت پر کہ جن کو تو نے امت کی رہبری اور اپنے اوامر کو اجرا کرنے کے لئے منتخب کیا ہے اور اپنے علم کا خزانہ دار ،اپنے دین کا محافظ ونگہبان ،روئے زمین پر اپنا خلیفہ اور اپنے بندوں پر اپنی حجت قرار دیا اور اپنے ارادہ ومشیت سے ان کو ہر نجاست سے پاک وپاکیزہ اور دور رکھا اور انھیں اپنی بارگاہ میں پہونچنے اور بہشت میں داخل ہونے کا وسیلہ قرار دیا…
پروردگارا ! تونے ہر زمانے میں کسی امام کے ذریعہ اپنے دین کی تائید و تصدیق فرمائی ہے کہ جس کو اپنے بندوں کا رہبر ، پیشوا اور قائد بنایاہے اور زمین پر مشعل ہدایت ، اپنی خوشنودی کا وسیلہ اور اس کی پیروی کو واجب قراردیاہے اور اس کی نافرمانی سے ڈرایاہے اور جس چیزکو انجام دینے کا حکم دیاہے اس کی اطاعت اور جس چیز سے منع کیاہے اس کو قبول کرنے کا حکم دیاہے اور یہ مقرر کیاہے کہ نہ کوئی شخص اس سے سبقت کرے اور نہ کوئی اس کی پیروی سے چشم پوشی کرے …”
نیز آپ علیہ السلام نے اس دعا میں الٰہی نمائندوں اور خاندان نبوت کے اماموں کا خاص نقش اور ان کے امتیازات کو بیان کیاہے اس کے معنی یہ ہیں کہ بنی امیہ کی حکومت ناحق اور غاصب حکومت ہے اور جو اصل حقدار ہیں ان کی صفات و خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔لہذا صحیفہ سجادیہ دعا و مناجات کے علاوہ علوم الہیہ کا مخزن اور سمندر بے کراں ہے کہ جس سے فیص پانے والا خالی ہاتھ نہیں لوٹتا ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان مقدس کلمات سے بھر پور فیض حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام سجادؑ  کی ذاتی شخصیت:

یہاں پر ہم امام سجادؑ  کی عظیم شخصیت کو اہل سنت کے بزرگان و علماء کے اقوال کی روشنی میں ذکر کرتے ہیں۔

زہری ، ابو حازم ، سعيد ابن مسيب اور مالک:

ابن عماد حنبلی نے ان چاروں کے قول کو امام سجادؑ کے بارے میں ایسے نقل کیا ہے کہ:

قال الزهري ما رأيت أحدا أفقه من زين العابدين لكنه قليل الحديث وقال أبو حازم الأعرج ما رأيت هاشميا أفضل منه وعن سعيد بن المسيب قال ما رأيت أورع منه وقال مالك بلغني أن علي بن الحسين كان يصلي في اليوم والليلة ألف ركعة إلى أن مات وكان يسمى زين العابدين لعبادته.زہری نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی زین العابدین سے زیادہ فقیہ و عالم نہیں دیکھا، لیکن ان سے بہت کم روایات نقل کی گئیں ہیں۔ابو حازم نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی امام سجادؑ سے بالا تر نہیں دیکھا۔سعید ابن مسیب سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی امام سجادؑ سے با تقوی تر نہیں دیکھا۔مالک نے بھی کہا ہے کہ: مجھے خبر ملی تھی کہ علی ابن حسینؑ  مرتے دم تک دن رات میں ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، اور انکو کثرت عبادت کیوجہ سے زین العابدین کہا جاتا تھا۔

العكري الحنبلي، عبد الحي بن أحمد بن محمد (متوفى1089هـ)، شذرات الذهب في أخبار من ذهب، ج 1 ص 105 ، تحقيق: عبد القادر الأرنؤوط، محمود الأرناؤوط، ناشر: دار بن كثير – دمشق، الطبعة: الأولي، 1406هـ. .

یعقوبی:

یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں ایسے لکھا ہے کہ:

وكان أفضل الناس وأشدهم عبادة وكان يسمى زين العابدين وكان يسمى أيضا ذا الثفنات لما كان في وجهه من أثر السجود وكان يصلي في اليوم والليلة ألف ركعة ولما غسل وجد على كتفيه جلب كجلب البعير فقيل لأهله ما هذه الآثار قالوا من حمله للطعام في الليل يدور به على منازل الفقراء. قال سعيد بن المسيب ما رأيت قط أفضل من علي بن الحسين.

وہ اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے بالا و برتر تھے اور ان میں سب سے زیادہ عبادت کرنے والے تھے، اسی وجہ سے ان کو زین العابدین کہا جاتا تھا اور اسی طرح سے انکو ذا الثفنات بھی کہا جاتا تھا، کیونکہ انکی پیشانی پر سجدوں کے بہت آثار تھے اور وہ دن رات میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے اور ان کی شہادت کے بعد جب ان کو غسل دیا جا رہا تھا، تو انکے کندھوں پر زخم کے نشانات تھے۔ جب انکے گھر والوں سے پوچھا گیا کہ یہ کندھوں پر نشانات کیسے ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ راتوں کو فقراء و ضرورت مندوں کے لیے روز مرہ کی ضروریات زندگی کی اشیاء اٹھانے کی وجہ سے یہ نشانات پڑے ہیں۔سعيد ابن مسيب نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی علی ابن حسین سے برتر نہیں دیکھا۔

اليعقوبي، ج 2 ص 303 ، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح (متوفى292هـ)، تاريخ اليعقوبي، ناشر: دار صادر – بيروت.

ابو نعیم اصفہانی:

ابو نعیم اصفہانی نے ایسے لکھا ہے کہ:

علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنهم زين العابدين ومنار القانتين كان عابدا وفيا وجوادا حفيا.

علی ابن الحسین،امام سجاد علیہ السلام عبادت کرنے والوں کی زینت اور عابد لوگوں کے لیے ایک علامت و نشان تھے۔ وہ ایک عابد، وعدے کے پابند اور شرف و وقار کے ساتھ چلنے والے انسان تھے۔

الأصبهاني، ابونعيم أحمد بن عبد الله (متوفى430هـ)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، ج 3 ص 133 ، ناشر: دار الكتاب العربي – بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ..

ابو الولید الباجی:

اس نے امام سجادؑ کی شخصیت کے بارے میں زہری کے قول کو نقل کرتے ہوئے ایسے لکھا ہے کہ:

حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال حدثني علي بن الحسين وكان أفضل أهل سنة وأحسنهم طاعة.

علی ابن الحسین میرے ساتھ کلام کیا کرتے تھے اور وہ سنت پر عمل کرنے والوں میں سب سے بہترین تھے اور ان میں سے سب سے زیادہ اطاعت گزار بندے تھے۔

الباجي، سليمان بن خلف بن سعد ابوالوليد (متوفى474هـ)، التعديل والتجريح لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح، ج 3 ص 956 ، تحقيق: د. ابولبابة حسين، ناشر: دار اللواء للنشر والتوزيع – الرياض، الطبعة: الأولى، 1406هـ – 1986م.

ابن ابی حازم:

بیہقی نے ابن ابی حازم سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

قال ابن أبي حازم وهو من العلماء السلف: ما رأيت هاشمياً أفضل من زين العابدين علي بن الحسين رضي اللّٰه عنهما.

ابن ابی حازم نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی علی ابن الحسین سے افضل و بالا تر نہیں دیکھا۔

البيهقي، أبو الحسن ظهير الدين علي بن زيد، الشهير بابن فندمه (متوفي 565هـ) لباب الأنساب والألقاب والأعقاب، ج 1 ص 13 ، دار النشر: طبق برنامه الجامع الكبير.

ابن عساکر:

ابن عساکر شافعی نے بھی ان امام کے بارے میں لکھا ہے کہ:

وكان يسمى بالمدينة زين العابدين لعبادته.

وہ امام سجاد علیہ السلام شہر مدینہ میں زیادہ عبادت کرنے کی وجہ سے سجاد کہلاتے تھے۔

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 41 ص 379 ، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر – بيروت – 1995.

ابن خلکان:

ابن خلکان نے بھی حضرت امام سجاد سلام اللہ علیہ کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

زين العابدين أبو الحسن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي اللّٰه عنهم أجمعين المعروف بزين العابدين…هذا وهو أحد الأئمة الأثني عشر ومن سادات التابعين قال الزهري ما رأيت قرشيا أفضل منه.زين العابدين،ابو الحسن علی ابن الحسين ابن علی ابن ابی طالب معروف بہ زين العابدين… وہ بارہ آئمہ میں سے ایک امام اور بزرگ تابعی تھے۔

زہری نے کہا ہے کہ: میں نے کسی ہاشمی کو بھی ان ( علی ابن الحسین) سے افضل نہیں دیکھا۔

إبن خلكان، ابو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفى681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج 3 ص 267 ، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة – لبنان.

یحیی ابن سعید:

ابن سعد اور ابن عبد البر نے قول یحیی ابن سعید سے ایسے نقل کیا ہے کہ:

حدثنا حماد بن زيد عن يحيى بن سعيد قال سمعت علي بن حسين وكان أفضل هاشمي أدركته.

یحیی ابن سعید نے نقل کیا ہے کہ: میں نے علی ابن الحسین سے روایت کو سنا ہے اور میں نے جتنے بھی ہاشمیوں کو دیکھا تھا، وہ ان سب میں سے افضل و بالا تر تھے۔

البصري الزهري، محمد بن سعد بن منيع أبو عبد الله (متوفي230 هـ)، الطبقات الكبرى ، ج 5 ص 214 ، دار النشر : دار صادر – بيروت ، طبق برنامه الجامع الكبير…

سعید ابن مسیب:

مزی اور ذہبی نے سعید ابن مسیب کے قول سے نقل کرتے ہوئے ایسے لکھا ہے کہ:

قال رجل لسَعِيد بن المُسَيب : ما رأيت أحدا أورع من فلان. قال هل رأيت علي بن الحسين ؟ قال : لا ، قال : ما رأيت أورع منه.

ایک بندے نے سعید ابن مسیب سے کہا کہ: میں نے فلاں شخص سے کسی کو با تقوی تر نہیں دیکھا۔ سعید ابن مسیب نے اس سے کہا: کیا تم نے علی ابن الحسینؑ کو دیکھا ہے ؟ اس نے کہا: نہیں، سعید نے کہا: میں نے علی ابن الحسینؑ سے با تقوی تر کسی کو نہیں دیکھا۔

المزي، ابو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن (متوفى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 20 ص 389 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

ابن حجر:

ابن حجر مکی نے اپنی کتاب الصواعق میں امام سجادؑ کی عظیم شخصیت کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

وزين العابدين هذا هو الذي خلف أباه علما وزهدا وعبادة وكان إذا توضأ للصلاة اصفر لونه فقيل له في ذلك فقال ألا تدرون بين يدي من أقف.

زین العابدین علم،زہد اور عبادت میں اپنے والد کے جانشین تھے اور جب وہ نماز کے لیے وضو کرتے تھے تو انک ے چہرے کا رنگ زرد ہو جاتا تھا اور جب اس بارے میں ان سے سوال ہوا تو، انھوں نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں کس ذات کے سامنے کھڑا ہونے جا رہا ہوں ؟!

الهيثمي، ابو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفى973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج 2 ص 582 ، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركي – كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة – لبنان، الطبعة: الأولى، 1417هـ – 1997م.

مزّی اور ابن حجر:

اہل سنت کے دو علم رجال کے بزرگ علماء مزی اور ابن حجر نے مالک کے قول سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

وَقَال ابن وهب ، عن مالك : لم يكن في أهل بيت رسول اللّٰه مثل علي بن الحسين.

مالک سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ: رسول خدا کے اہل بیت میں کوئی فرد بھی علی ابن حسینؑ کی طرح کا نہیں تھا۔

المزي، ابو الحجاج يوسف بن الزكي عبد الرحمن (متوفى742هـ)، تهذيب الكمال، ج 20 ص 387 ، تحقيق: د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولى، 1400هـ – 1980م.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابو الفضل (متوفى852هـ)، تهذيب التهذيب، ج 7 ص 269 ، ناشر: دار الفكر – بيروت، الطبعة: الأولى، 1404 – 1984 م.

ابن تیمیہ:

ابن تیمیہ حرّانی نے بھی امام سجادؑ کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:وأما على بن الحسين فمن كبار التابعين وساداتهم علما ودينا… وكان من خيار أهل العلم والدين من التابعين.علی ابن الحسين بزرگ تابعین اور علم و دین کے لحاظ سے انکے بزرگوں میں سے تھے۔۔۔۔ اور وہ تابعین میں سے اہل علم و دین کے لحاظ سے برگزیدہ تھے۔

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابو العباس أحمد عبد الحليم (متوفى 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 4 ص 49 ، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ..

امام سجادؑ کی ہیبت اور فرزدق شاعر کے اشعار:

امام سجادؑ کے حج کرنے اور انکی ہیبت کا واقعہ شیعہ و سنی کی کتب تاریخ میں بہت مشہور ہے۔

تنوخی اور ابن سمعون نے اس داستان کو ابو الفرج اصفہانی کے قول سے ایسے نقل کیا ہے کہ:

قال أبو الفرج الأصبهاني: حدثني بن محمد بن الجعد ومحمد بن يحيى قالا: حدثنا محمد بن زكريا العلاني قال: حدثنا ابن عائشة قال: حج هشام بن عبد الملك في خلافة الوليد أخيه ومعه أهل الشام فجهد أن يستلم الحجر فلم يقدر من ازدحام الناس، فنصب له منبر فجلس عليه ينظر إلى الناس، فأقبل زين العابدين علي بن الحسين رضي اللّٰه عنهما، وهو أحسن الناس وجهاً، وأنظفهم ثوباً؛ وأطيبهم رائحة، فطاف بالبيت فلما بلغ الحجر تنحى الناس كلهم له وأخلوا الحجر ليستلمه، هيبة له وإجلالاً، فغاظ ذلك هشاماً وبلغ منه، فقال رجل لهشام: من هذا أصلح اللّٰه الأمير؟ قال: لا أعرفه، وكان به عارفاً، ولكنه خاف أن يرغب فيه أهل الشام ويسمعوا منه. فقال الفرزدق، وكان لذلك كله حاضراً: أنا أعرفه فسلني يا شامي من هو، قال: ومن هو؟ قال:

هذا الذي تعرف البطحاء وطأته … والبيت يعرفه والحل والحرم

هذا ابن خير عباد الله كلهم … هذا التقي النفي الطاهر العلم …

ہشام ابن عبد الملک اپنے بھائی کے دور خلافت میں اہل شام کے کچھ لوگوں کے ساتھ حج پر گیا۔ وہاں پر موجود لوگ حجر اسود کو بوسہ دینا چاہتے تھے، لیکن بہت زیادہ رش کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے۔ ہشام کے لیے اس جگہ ایک منبر لگایا گیا اور وہ اس پر بیٹھ کر لوگوں کو دیکھنے لگا۔ اتنے میں امام سجادؑ بھی وہاں پر آ پہنچے۔ وہ خوبصورتی کے لحاظ سے، سب سے زیادہ خوبصورت اور پاکیزگی کے لحاظ سے ، انکا لباس پاک ترین لباس تھا۔ وہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے کرتے جب حجر الاسود کے نزدیک پہنچے تو ایک دم سے سب لوگ ایک طرف ہو گئے اور حجر اسود کو امام کے لیے خالی کر دیا، تا کہ وہ اس پتھر کو ہاتھ سے مس کر سکیں۔ امام کی بزرگی اور ہیبت بہت زیادہ تھی۔ ہشام نے جب امام کی اس جلالت و عظمت کو دیکھا تو بہت غصے میں آ گیا۔ ایک بندے نے کہا اے امیر یہ کون ہے ؟ ہشام نے امام کو جاننے کے باوجود کہا: نہیں میں اسکو نہیں جانتا۔ اس بات کو فرزدق شاعر کھڑا سن رہا تھا، اس نے ہشام سے کہا: میں اس (امام) کو جانتا ہوں۔ اے شامی ادھر آؤ مجھ سے پوچھو کہ وہ کون ہے۔ شامی نے فرزدق سے پوچھا، وہ کون ہے ؟ اس موقع پر فرزدق نے اپنے اشعار میں اس شامی کو جواب دیا:

1- یہ وہ شخص ہے کہ جس کو مکہ کی سرزمین جانتی ہے، حتی اسکے پاؤں کے نشان کو بھی یہ زمین جانتی ہے، خانہ کعبہ، مدینہ کے صحرا، حلّ اور حرم تمام اسکو جانتے ہیں۔

2- یہ خداوند کے بہترین بندگان کا بیٹا ہے، یہ وہی پرہیزگار اور پاکیزہ انسان ہے کہ جو زمین پر خداوند کی آیت و علامت ہے۔

البغدادي، أبو الحسين محمد بن أحمد بن إسماعيل بن عنبس (متوفى387هـ)، أمالي ابن سمعون، ج 1 ص 8 ، طبق برنامه الجامع الكبير.

التنوخي، أبو علي المحسن بن علي، (متوفي: 384هـ) ، المستجاد من فعلات الأجواد ، ج 1 ص 303 ، طبق نرم افزار الجامع الکبير..

نتیجہ مطالب:

حضرت سجاد امام زین العابدین ؑ کے ذاتی اور اخلاقی فضائل و کمالات اتنے زیادہ ہیں کہ ان سب کو اس مختصر تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا، لیکن پھر بھی اس تحریر میں نمونے کے طور پر امام کی عظیم شخصیت کو اہل سنت کے بزرگ علماء کے اقوال کی روشنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ کمال یہ نہیں ہوتا کہ اپنے اور چاہنے والے ہی ایک انسان کے فضائل کو بیان کریں، بلکہ کمال یہ ہے کہ انسان کے مخالف نہ چاہتے ہوئے بھی اس انسان کے کمالات کو بیان کریں۔

يا اَبَا الْحَسَنِ يا عَلِىَّ بْنَ الْحُسَيْنِ يا زَيْنَ الْعابِدينَ يَا بْنَ رَسُولِ اللّٰهِ يا حُجَّةَ اللّٰهِ عَلى خَلْقِهِ يا سَيِّدَنا وَمَوْلينا اِنّا تَوَجَّهْنا وَاسْتَشْفَعْنا وَتَوَسَّلْنا بِكَ اِلَى اللّٰهِ وَقَدَّمْناكَ بَيْنَ يَدَىْ حاجاتِنا يا وَجيهاً عِنْدَ اللّهِ اِشْفَعْ لَنا عِنْدَ اللّٰهِ.

 

 

یا صاحب الزمان علیہ السّلام! ہم آپ کی خدمت میں آپ کے جد، سید الساجدین، امام زین العابدین علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی پر مسرت گھڑیوں میں ہدیہ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں، یہ وہ دن ہے جب عبادت و بندگی کا آفتاب چمکا، صبر و استقامت کا درس دنیا کے سامنے آیا اور وہ ہستی اس دنیا میں جلوہ گر ہوئی جو ظلم کے مقابلے میں خاموش مگر مضبوط مزاحمت کی علامت بنی۔

عزیز دوستو!

یہ دن ہم سب کے لیے رحمت اور ہدایت کا پیغام لے کر آیا ہے۔ امام زین العابدینؑ کی زندگی ہمیں صبر، اخلاق، عبادت اور حقوق العباد کی تعلیم دیتی ہے۔ آئیے، اس موقع پر ہم عہد کریں کہ ہم امام کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں گے، خاص طور پر آج کے اس جدید دور میں جہاں نئی قسم کی آزمائشیں ہمارے سامنے ہیں۔

آج کی دنیا میں ہم ایک ایسی غلامی میں گرفتار ہو چکے ہیں جسے "ڈیجیٹل غلامی" کہا جا سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غلامی صرف جسمانی قید و بند کا نام ہے، مگر حقیقت میں یہ ذہن، وقت، سوچ، اور فیصلوں پر قابو پانے کا نام بھی ہے۔ ہم ہر لمحہ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے اسیر ہیں۔ہماری پرائیویسی، فیصلے، اور زندگی کی ترجیحات ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں۔

یہ غلامی کسی یزیدی جبر سے کم نہیں، جو انسان کی آزادی اور خودمختاری کو ختم کر رہی ہے۔امام زین العابدینؑ کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ حقیقی آزادی کیا ہے۔ آپؑ قید میں تھے، مگر آپ کا دل اور روح آزاد تھی۔آپؑ پر ظلم ہوا، مگر آپ نے کبھی حق کا دامن نہیں چھوڑا۔آپؑ نے "رسالہ حقوق" لکھ کر دنیا کو سکھایا کہ ہر انسان کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔آج کے ڈیجیٹل دور میں، ہمیں امامؑ سے سیکھنا ہوگا کہ کیسے ہم خود کو ڈیجیٹل غلامی سے آزاد کر سکتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل دنیا میں امامؑ کی تعلیمات پر عمل کیسے کریں؟

1. ڈیجیٹل ڈیٹوکس اپنائیں یعنی کچھ وقت کے لیے ڈیجیٹل دنیا سے دوری اختیار کریں اور ہر روز کچھ وقت اسکرین سے ہٹ کر دعا، غور و فکر اور حقیقی زندگی کے تعلقات پر توجہ دیں۔

2. غلط معلومات اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے بچیں سوشل میڈیا پر ہر بات پھیلانے سے پہلے تحقیق کریں، جیسا کہ امام زین العابدینؑ نے ہمیشہ حق اور سچائی کا دامن تھامے رکھا۔

3. اپنی نجی زندگی اور وقار کا تحفظ کریں اگر امامؑ نے ظالم حکمرانوں کے سامنے تقیہ اور حکمت سے کام لیا، تو ہمیں بھی اپنی معلومات اور پرائیویسی کو محفوظ رکھنا چاہیے۔

4. سوشل میڈیا کو مثبت استعمال میں لائیں اور امامؑ کے علم، اخلاق، اور دعاؤں کو دنیا تک پہنچانے کے لیے ٹیکنالوجی کا تعمیری انداز میں استعمال کریں۔

یا صاحب الزمان علیہ السّلام!

ہم آپ کے جد، امام زین العابدینؑ کی سیرت کو مشعلِ راہ بنا کر اس جدید دنیا میں گمراہی کے طوفان سے بچنے کا عزم کرتے ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ہمیں وہ شعور عطا ہو کہ ہم ٹیکنالوجی کے غلام بننے کے بجائے اسے امامؑ کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے استعمال کر سکیں۔

اللّٰہُمَّ عَجِّلْ لِوَلِیِّکَ الْفَرَج والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

تحریر: مولانا سید عمار حیدر زیدی قم

ایران کے اکتالیسویں بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کے شرکاء، اساتذہ ، حفاظ اور قرآء نے تھران کے حسینیه‌ امام خمینی(ره) میں رھبرملاقات سے ملاقات کی۔
 
 
غزہ میں 15 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ رک جانے کے بعد اب مختلف سیاسی حلقوں میں اس موضوع پر گرما گرم بحث شروع ہو چکی ہے کہ خطے کا مستقبل کیا رخ اختیار کرے گا؟ غاصب صیہونی رژیم کے فوجی و سیکورٹی اداروں کی گذشتہ توقعات کے برخلاف غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کا ملٹری ونگ عزالدین قسام بٹالینز پوری قوت سے موجود ہے اور عوام کی بھرپور حمایت سے فلسطینی مجاہدین نے قیدیوں کے تبادلے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں اسلامی مزاحمت زندہ اور باقی ہے۔ مڈل ایسٹ آئی سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکاف نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ابومازن محمود عباس کے ممکنہ جانشین حسین الشیخ سے ملاقات کی ہے۔
 
ایک اندازے کے مطابق اس ملاقات میں جو موضوع زیر بحث لایا گیا ہے وہ غزہ پر بھی فتح آرگنائزیشن کی حکومت قائم کرنے کی حکمت عملی تلاش کرنا ہے۔ ویٹکاف اور حسین الشیخ کے درمیان یہ مذاکرات ایسے وقت انجام پا رہے ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خصوصی ایلچی اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ مشرق وسطی خطے کے مستقبل کے بارے میں صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس کا نقطہ نظر ایک ہی ہے۔ لہذا یہ کہنا بجا ہو گا کہ وائٹ ہاوس سعودی حکمرانوں کی وساطت سے فلسطین اتھارٹی اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ غزہ پر حکمرانی کے لیے فلسطین اتھارٹی کا ممکنہ امیدوار زیاد ابو عمرو ہے جو محمود عباس کا مشیر اور قریبی ساتھی ہے۔ وہ غزہ میں پیدا ہوا تھا اور اس نے 2014ء کی جنگ کے بعد غزہ کی تعمیر نو کی یہ کہہ کر شدید مخالفت کی تھی کہ اسرائیل ایسا نہیں چاہتا۔
 
فلسطین اتھارٹی، جو فتح آرگنائزیشن کی ایک شاخ ہے، بائیں بازو کے رجحانات رکھنے والی سیکولر تنظیم ہے اور اس کی تشکیل سرد جنگ کے دوران انجام پائی تھی جب سامراج مخالف افکار اپنے عروج پر تھے۔ اگرچہ اس تنظیم نے کئی عشروں تک غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد انجام دی لیکن 1990ء کے عشرے میں تل ابیب سے سازباز کا راستہ اختیار کیا اور غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ اوسلو 1 اور اوسلو 2 معاہدوں پر دستخط بھی کیے۔ غاصب صیہونی فوج کے ساتھ قریبی تعاون کے باعث اس وقت غزہ کی پٹی کے علاوہ مغربی کنارے میں بھی فلسطین اتھارٹی سے شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ فلسطین اتھارٹی کے سیاسی اداروں نے ہتھیار پھینک دینے کے بعد اقتصادی سرگرمیوں کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں وہ شدید کرپشن کا شکار ہو چکے ہیں۔
 
جب فتح آرگنائزیشن غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے انتظامی امور چلانے میں ناکام ہو گئی نیز اس نے 2006ء میں پارلیمانی الیکشن کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا تو غزہ کی پٹی میں حماس نے اپنی تحریک کا آغاز کر دیا۔ حماس کو فتح آرگنائزیشن کی حکومت کے خلاف اس جدوجہد میں عوام کی بھرپور حمایت بھی حاصل تھی۔ دوسری طرف امریکی حکمرانوں نے غزہ میں فلسطین اتھارٹی کی حکومت بچانے کی خاطر اس پر دباو ڈالا کہ وہ اپنے اندر سیاسی، اقتصادی اور سماجی اصلاحات انجام دے۔ پہلے مرحلے میں فلسطین اتھارٹی کو محمود عباس کی پوزیشن واضح کرنی تھی جو آٹھ سال سے صدر تھے اور عوام میں ان کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگلے قدم میں فتح آرگنائزیشن کو قومی آمدن کی منصفانہ تقسیم کی جانب آگے بڑھنا تھا جس کے تحت مزید فلسطینی عوام کو بہرہ مند ہونے کا موقع فراہم کیا جانا تھا۔
 
واشنگٹن کے سیاسی اداروں کی راہداریوں میں غزہ کی پٹی میں فلسطین اتھارٹی کو استعمال کرنے کی حمایت کی جا رہی ہے اور حمایت کرنے والوں میں مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے اسٹیو ویٹکاف، قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور ٹرمپ کا داماد جرڈ کشنر شامل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وائٹ ہاوس، واشنگٹن کے زیر اثر فلسطین اتھارٹی کو غزہ پر قابض کر کے فلسطین کی اسلامی مزاحمت ختم کرنے کے درپے ہے۔ مشرق وسطی خطے میں امریکہ کی حکمت عملی غاصب صیہونی رژیم کی سربراہی میں ایک مشترکہ سیاسی سیکورٹی بلاک تشکیل دینے پر مبنی ہے جس کا سیاسی پہلو خیانت آمیز "ابراہیم معاہدہ" اور اس کا اقتصادی پہلو "آئیمک راہداری" جانا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ بنانے والوں کا اصل مقصد بحر ہند سے لے کر بحیرہ روم تک اسرائیل اور عرب ممالک میں مشترکہ سیکورٹی تجارتی مفادات ایجاد کرنا ہے۔
 
لہذا واشنگٹن غاصب صیہونی رژیم کے انتہاپسند وزیروں کی اس رائے کے مخالف ہے کہ مغربی کنارے کو بھی صیہونی رژیم سے ملحق کر دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی حکمران 7 اکتوبر 2023ء کے بعد پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں اسلامی دنیا کی نظر میں مقبوضہ فلسطین کے اندر اور اس سے باہر فلسطینی تشخص کی اہمیت کو جانچ چکے ہیں۔ اگرچہ اکونومسٹ کا دعوی ہے کہ مغربی کنارے پر غاصب صیہونی رژیم کی موجودہ جارحیت کا مقصد سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان پر دباو ڈالنا ہو سکتا ہے تاکہ اسے جلد از جلد اپنے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے پر تیار کیا جا سکے۔ یعنی سعودی معاشرے میں فلسطین کاز کے بارے موجود حساسیت سعودی ولیعہد کو تمام تنازعات ختم کر دینے پر مجبور کر دے گی جس کا واحد راستہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی ہے۔
 
 
تحریر: علی احمدی