سلیمانی

سلیمانی

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی نے منگل کی صبح آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پاشینیان اور ان کے ساتھ آئے وفد سے ملاقات میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مستقل اور حتمی پالیسی، پڑوسی ممالک خاص طور پر آرمینیا سے تعلقات میں فروغ پر مبنی ہے اور ہم آرمینیا سے اپنے رشتوں کو بڑھانے کا سنجیدہ عزم رکھتے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تعاون، دوسروں کی پالیسیوں کو نظر میں رکھے بغیر دوطرفہ مفادات کی بنیاد پر پوری طاقت سے جاری رہے گا۔

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے نومنتخب صدر جناب پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب اور اسی طرح اس سے قبل شہید صدر رئیسی کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے تہران آنے پر جناب پاشینیان کا شکریہ ادا کیا اور آرمینیا کی ارضی سالمیت کی حفاظت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، زنگزور کوریڈور کو آرمینیا کے نقصان میں سمجھتا ہے اور وہ اپنے اس موقف پر بدستور قائم ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ ملکوں کے تعلقات میں اغیار کو کوئي حد بندی مقرر نہیں کرنی چاہیے، کہا کہ جو چیز ملکوں کی سیکورٹی اور ان کی مصلحت کو فراہم کرتی ہے، وہ اپنے آپ اور اپنے قریبیوں پر بھروسہ ہے اور بعض لوگوں کے اقدامات جو دور سے آتے ہیں اور دوسرے ملکوں کے امور میں مداخلت کرتے ہیں، ان کے نقصان میں رہیں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح ملک کے آرمینیائي عیسائيوں کے ساتھ دیگر ایرانی عوام کے اچھے رشتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے آرمینیائي عیسائیوں نے مسلط کردہ جنگ کے دوران کافی کردار ادا کیا ہے اور میں خود اب تک بہت سے آرمینیائي عیسائيوں کے گھر جا چکا ہوں۔

انھوں نے حضرت عیسیٰ مسیح کے احترام کو مسلمانوں کا ایک مسلّمہ موضوع بتایا اور کہا کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام سمیت الہی ادیان کے بزرگوں کی اہانت، ہماری نظر میں مذموم ہے۔

اس ملاقات میں، جس میں نائب صدر جناب عارف بھی موجود تھے، آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پاشینیان نے دونوں ملکوں کے فروغ کی جانب گامزن تعلقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، صدر پزشکیان کے ساتھ اپنی بات چیت کو تعمیری اور مثبت بتایا اور کہا کہ آرمینیا نے بارہا کہا ہے کہ وہ اپنے ملک کے اندر علاقے سے باہر کی کسی بھی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔

انھوں نے ایران اور آرمینیا کے تعلقات کو اسٹریٹیجک نوعیت کا بتایا اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں فروغ اور ان میں تنوع پر خوشی کا اظہار کیا۔ انھوں نے اس عمل کے جاری رہنے پر تاکید کی۔

اسلام جدید عصری زندگی اور اس کی ضروریات کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتا ہے نیز اس کی مختلف صورتوں سے صرف نظر نہیں کرتا۔ کیوکہ اس کا آئین سب سے زیادہ درست، جامع زندگی اوراس کی مختلف صورتوں کے موافق ہے۔ چونکہ اسلام کے احکامات زندگی اور س کے لوازمات پرمشتمل ہیں اور مسائل پیش آنے کی صورت میں ان کی راہ حل اسلام پیش کرتا ہے،اس میں انسانی حقوق سمیت دیگر مخلوقات کے حقوق شامل ہیں۔

قران مجید میں اللہ ارشاد فرماتا ہے "اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ خشکی اور سمندر کی ہر چیز سے واقف ہے اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگروہ اس سے آگاہ ہوتاہےاور زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ اور خشک وتر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین میں موجود نہ ہو”سورہ انعام:59)

"اور زمین پر چلنے والے تمام جانور اورہوا میں اپنے دو پروں سے اڑنے والے سارے پرندےہیں تمہاری طرح کی امتین ہیں،ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی پھر(سب)اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے”(انعام:38)

ہماری گفتگو اسلام کی جدید عصری راہ حل کے ضمن میں ہے جس میں حیوانوں کےلئے مقرر کردہ حقوق شامل ہیں،ان میں سے کچھ مستحب ہیں جبکہ کچھ واجب ،جوکہ مکمل طور پرحیوانوں سے بہتر انداز میں پیش آنےاور اس کے استعمال سے متعلق ہیں اور یہ اختیار انسانوں کو دیا ہو اہے۔ جبکہ اس اختیار کے غلط استعمال کی صورت میں جیسے حیوان کی زندگی کو بچانے اور اسے بلاوجہ نقصان پہنچانے کے سلسلے میں اسلام نے مقرر کیے ہیں۔اگر یہ اختیار انسان کے اس نفع سے متعلق ہے جیسے وہ عقلی اور شرعی طورپرحیوانوں سے حاصل کرتا ہے اور اگر وہ اس اختیار کا درست استعمال نہ کرے تو وہ زندگی اور اس کی فطرت پرظلم کرنے اور حد سے تجاوز کرنے والا شمار ہوگا جس کی حفاظت کی خاطر خالق نے ایک متحرک نظام وضع کیاہے۔ اللہ تعالیٰ فرمایا:

“اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے بنائے تاکہ تم ان میں سے بعض پر سواری کرواوربعض کاگوشت کھاؤ،اورتمہارے لئے ان میں منفعت ہے اور تاکہ تمہارے دلوں میں حاجت ہوتو ان پر (سوارہوکر)پہنچ جاؤ نیز ان پر اور کشتیو ں پر تم سوارکیے جاتے ہو”(غافر،80-79)

"کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے دست قدرت سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کےلئے مویشی پیدا کئے چنانچہ اب یہ ان کے مالک ہیں۔اورہم نے انہیں ان کے لئے مسخر کردیا چنانچہ کچھ پر یہ سوار ہوئے ہیں اور کچھ کو کھاتے ہیں اور ان میں ان کےلئے دیگر فوائد اور مشروبات ہیں تو کیا یہ لوگ شکر ادا نہیں کرتے؟”(یس 73-71)

"اور اس نے مویشیوں کو پیداکیا جن میں سے تمہارے لئے گرم پوشاک اور فوائد ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو”(نحل 05)

اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ان نعمتوں کا شکر،ان کی بقا کا انتظام اور ان کی دیکھ بھال لازمی ہوجاتی ہے،اسی لئے حضور اکرمؐ نے وصیت فرمائی ہے کہ :“جب اسے چراگاہ میں اتارا جائے تواسے چرنے دیا جائے، جب پانی کے قریب سے گزرے تو اسے پانی پلایا جائے،اس کے منہ پر نہ مارے کیونکہ وہ اپنے رب کی تسبیح کرتا ہے،اس کی پیٹھ پر نہ بیھٹےسوائے راہِ خدا میں، اس کی طاقت سے بڑھ کر نہ لا داجائے اور اس کی استعداد سے زیادہ اسے نہ چلایاجائے”

آپؐ نے اس کے علاوہ بھی حقوق مقرر فرمائے ہیں۔

روایت میں ہے کہ نبی اکرمؐ کی نظر ایک ایسی اونٹنی پر پڑی جس پر گنجائش سے زیادہ سامان لادا گیا تھا توآپؐ نے اس کےمالک کو طلب فرمایا،جب وہ نہیں ملا تو آپؐ نے فرمایا جاؤ اس کو بتادو کہ وہ کل کے بدلے کےلئے تیار ہوجائے"۔

اسی طرح آپؐ سے روایت ہے فرمایا:“۔اور میں جہنم میں ایک بلی کی مالکہ کو دیکھا جو اس کے منہ پر ماراکرتی تھی،اسے کھلاتی تھی اور نہ اسے زمین میں سے کچھ کھانے بھیجتی تھی اور میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں میں نے ایک کتے کے مالک کو دیکھا جس نے اسے پانی پلایاتھا”۔

علاوہ ازیں حضرت امیرالمؤمنین علی ؑ نے فرماتے ہین کہ :جانوروں سے شفقت سے پیش آؤ،اپنا بوجھ اس پر نہ لادو، لگام سمیت اسے پانی نہ پلاؤاور اس کی برداشت سے زائد اس پر سماان نہ لادو”۔

اسی طرح اسلام نے حیوانوں کو ذبح کرنے سے منع فرمایا مگر یہ کہ اس میں کوئی شرعی یا عقلی غرض ہو یا کوئی اور نفع ہو،جس طرح اس کے گوشت،چمڑے، اون یا کسی اور چیز کی خاطر کہ جو ایک مناسب فائدہ شمار ہوتاہے۔ چونکہ حضور نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: "کسی بھی جانور یا پرندے کو ناحق نہ مارا جائے، اگر ایسا کیاجائے تو مارنے والے کو بروز قیامت سزا ملےگی”۔

امیرالمؤمنین ؑ نے خود کبھی ایسا نہیں کیا اور نہ دسروں کو ایسا کرنے کی اجازت دی بلکہ اسلام نے جانوروں کوڈرانے اوران کو مقابلوں میں پیش کرنے سے منع فرمایا ہے نیز انہیں فخرو مباہات کے طور پر پیش کرنے سے بھی روکا ہے اور ان لوگوں پر لعنت کی ہے جنہوں نے اپنے شکار کی خاطر زندہ مرغی کو کام میں لایا اور نہ رات کے وقت پرندوں کو حفاظت کےلئے ساتھ لانے کی اجازت دی۔

اور پرندوں کے بچوں کو ان کے گھونسلوں سے نہ اٹھایا جائے جبتک وہ اڑنے کے قابل نہیں ہوتے کیونکہ ان میں اڑنے کی صلاحیت جب تک نہیں آتی وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوتے ہیں۔

جو جنگلی جانور کھانا حاصل نہیں کرسکتے ان کو کھانا فراہم کرنےکےسلسلےمیں امام رضا ؑ نے ان الفاظ میں وصیت فرمائی ہے: "جو کوئی اپنے گھر میں کھانا کھائےاور اس سے کچھ گرے تواسے کھالینا اور جو کوئی صحرا میں یا کسی کھلی جگہ کھائے تواسے گرے ہوئے کھانوں کے ٹکڑوں کو پرندوں اور بے گھر جنگلی جانوروں کےلئےچھوڑ دیناچاہیے۔

جو کوئی کسی شرعی یا کسی اور مقصد کی خاطر کسی حیوان کو ذبح کرنا چاہے تو اسلام نے ذبح کرتے وقت کچھ اخلاقیات کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی ہے۔ ان میں سے یہ کہ جانور کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنا،اس کی آنکھوں کے سامنے سے چھری کو چھپا کے رکھنا،اسے دکھاتے ہوئے نہ باندھنا،کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے وہ خود  ہی مرجائے اور ذبح کرنے میں جلدی کرنا”۔

رسول اکرمؐ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نےتمہارے اوپر ہر چیز کے ساتھ احسان کو واجب قرار دیاہےجب تم جنگ کرو تو بہتر طور پر جنگ کرو اور جب تم ذبح کرو تو بھی بہتر طریقے سے ذبح کرو تمہیں چاہئے کہ چھری تیزکرے اور ذبح تیز کرے اور ذبح کرتےہوئے جانور سے پیارکرے۔

جس طرح حضرت امام زین العابدین ؑ نے جانوروں کو ذ بح کرنے سے قبل اسے پانی پلانے کی تاکید فرمائی ہے ،ان کے نانا نبی اکرم ؐ نے ایسے حیوانوں کو ذبح کرنے سے منع فرمایاہے جس کے چھوٹے بچے ہوں مگر یہ کہ وہ بیمار ہو انہوں نے فرمایا:بغیر کسی سبب کے بچہ رکھنے والے جانوروں کو ذبح کرنا مکرو ہ ہے۔

آپؐ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:ایک ایسے گدے کو دیکھا جس کے اوپر اس کے مالک نے کوئی نشانی لگائی تھی تو آپؐ نے فرمایا کہ جس نے بھی ایسا کیاہے اس پر اللہ کی لعنت ہو ۔

یہ ایک عظیم انسانی حقوق کے فوری پہلو ہیں جنہیں اسلام نے حیوانوں کے ساتھ مختص کیاہےجسے اسلام نے بہتر طور پر انسان پر فرض کیاہےجو انسان کی عالمگیریت اور اس کے جانوروں کے ساتھ برتاؤ کا بہتریں ثبوت ہے۔

غزہ کے اسپتالوں میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے امریکی ڈاکٹروں اور نرسوں نے وائٹ ہاؤس کو خط لکھ کر  غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسلحے کی فراہمی  پرپابندی کامطالبہ کیا ہے۔ 

امریکی میڈیا کے مطابق 45 امریکی ڈاکٹرز اور نرسوں کےگروپ نے صدر جوبائیڈن اور نائب صدرکملا ہیرس کوخط لکھا۔

امریکی میڈیا کے مطابق خط میں کہا گیا ہے کہ ہم نے غزہ میں جو دیکھا اس پر ہم خاموش نہیں رہ سکتے، غزہ میں بچوں کو جان بوجھ کر زخمی کیاگیا، ہم میں سے ہر ایک نے روز ایسے بچوں کا علاج کیا جنہیں سر اور سینے میں گولی ماری گئی۔

دستخط کنندگان کے خط میں کہا گیا ہے کہ چاہتے ہیں آپ وہ ڈراؤنےخواب دیکھیں جو ہمیں واپس آنےکے بعد پریشان کررہے ہیں، خواہش ہے کہ آپ ہمارے ہتھیاروں سے معذور اور زخمی بچوں کے خواب دیکھیں، خواب میں زخمی بچوں کی بے قرار مائیں ہم سے ان کی جان بچانے کی منت کرتی ہیں، آپ وہ چیخیں سن سکیں جو ہمارا ضمیر ہمیں بھولنے نہیں دیتا۔ 

امریکی ڈاکٹرز کا کہنا ہےکہ ہم اسرائیل کے غزہ پرحملےکے انسانی نقصانات پر تبصرےکےلیے اچھی پوزیشن میں ہیں، اسرائیل اور تمام فلسطینی مسلح گروپوں کو اسلحےکی فراہمی پرپابندی لگائی جائے، فوری اور مستقل جنگ بندی تک اسرائیل کی فوجی، سفارتی اور اقتصادی مدد روکی جائے۔ 

رپورٹ کے مطابق امریکی ڈاکٹرز نے اپنے خط میں لکھا کہ امریکی قانون اور بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ہماری حکومت ایساکرنےکی پابند ہے۔ 

 
 
Saturday, 27 July 2024 14:03

نہ اولمپکس نہ آدم کشی

فرانس میں 2024ء کے اولمپکس کے موقع پر، اولمپکس گیمز میں صیہونی حکومت کی ٹیم کی شرکت کی عالمی مخالفت میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور اسرائیل کو ان مقابلوں سے باہر کرنے کے لیے "نو اولمپکس، نو جینوسائیڈ"  "no Olympic  no genocide" جیسی مہم شروع کی گئی۔ غزہ پٹی پر صیہونی نسل کشی کو 10 ماہ گزر چکے ہیں۔ 39 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 90 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے ایک چوتھائی خواتین اور بچے ہیں۔ صہیونیوں کے جرائم کے خلاف مختلف ممالک میں مظاہرے کیے گئے، لیکن عالمی طاقتوں نے ان مظاہروں سے لاتعلقی کا مظاہرہ کیا۔ اب پیرس اولمپکس کے باضابطہ آغاز کے موقع پر فرانس کے مختلف شہروں سمیت پوری دنیا میں صیہونیوں کے خلاف مظاہرے بڑھ گئے ہیں۔

پیرس اولمپک میں فٹبال کے مقابلوں میں ایک میچ میں اسرائیل اور مالی کی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں۔ میزبان ملک فرانس کے لیے اس گیم کے اہم خدشات میں سے ایک میچ کے دوران اسرائیلی کھلاڑیوں کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا۔ کھیل کا آغاز پیرس کے پارک ڈی پرنس اسٹیڈیم کے باہر سکیورٹی فورسز کی بڑی موجودگی سے ہوا۔ اسرائیلی ٹیم کے ارکان پولیس کی بھاری نفری کی نگرانی میں پہنچے، جن کے آگے موٹر سائیکل سوار تھے اور ان کے پیچھے فسادات پر کنٹرول کرنے والی اینٹی ٹیریسٹ پولیس کی کئی گاڑیاں تھیں۔ مسلح پولیس اہلکار سٹیڈیم میں گشت کر رہے تھے، لیکن سٹیڈیم کے باہر کا ماحول پرسکون تھا۔

مالی کے شائقین نے فخر سے اپنا قومی ترانہ گایا، لیکن جب اسرائیل کے ترانے کی باری آئی تو فوراً ہی ہوٹنگ اور سیٹیاں بجنے لگیں۔ اسٹیڈیم میں ترانے بجانے والے اسپیکر سسٹم نے اپنی آواز کو غیر معمولی بلند کرکے اسٹیڈیم میں موجود ہجوم کے شور کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن اسرائیل کے خلاف نعروں کی گونج کم نہ ہوسکی۔ غزہ کے عوام بالخصوص خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں اور فلسطینی کھیلوں کی برادری کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم وہ اہم وجہ تھی، جس کی وجہ سے اولمپکس کے عالمی کھیلوں کے مقابلے میں صیہونی حکومت کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

صیہونیوں کے جرم کے نتیجے میں فلسطین میں 350 کھلاڑی، ریفری اور کھیلوں کے کارکن شہید ہوئے ہیں جبکہ صیہونی حملوں میں کھیلوں کی پچپن عمارتیں زمین بوس ہوگئیں اور کئی اسٹیڈیمز کو حراستی مرکز میں تبدیل کر دیا گیا۔اولمپک مقابلوں کے اندر اور باہر جہاں لوگ صہیونیوں کے مظالم اور جرائم پر احتجاج کر رہے ہیں، وہیں بین الاقوامی کھیلوں کے اداروں کی کھلی اور ننگی منافقت پر بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ غزہ میں واضح نسل کشی کے باوجود فرانسیسی اولمپکس میں اسرائیلی کھلاڑیوں کی موجودگی کو درست قرار دیا گیا جبکہ تقریباً دو سال قبل یورپی فٹ بال یونین (UEFA) نے روسی کلب ٹیموں کے یورپی مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے علاوہ روس کی قومی فٹ بال ٹیم کو قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ سے باہر کر دیا گیا تھا۔

سویڈن سے تعلق رکھنے والی سیاسی ماہر اور انسانی حقوق کی محافظ "ہیلن سلرٹ" نے کہا ہے کہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی جنوبی افریقہ، بیلاروس اور روس کے کھلاڑیوں پر پابندیاں لگانے کی تاریخ رکھتی ہے، لیکن غزہ جنگ کی وجہ سے اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی بات نہیں کرتی۔ اس سے مغربی دنیا کی منافقت ظاہر ہوتی ہے۔ ایک فلسطینی سیاسی تجزیہ کار کامل ہاووش نے بھی کہا کہ اگر کھلاڑیوں کو اسرائیلی حریفوں کے خلاف کھیلنے سے انکار پر کسی طرح کی پابندی عائد کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نہ صرف اسرائیل کو اولمپکس میں شرکت کی اجازت دے رہی ہے بلکہ وہ اسرائیل کے جرائم کی مخالفت کرنے والوں کو بھی سزا دینے پر تلی ہوئی ہے۔

امن کارکن اور آئرش اسپورٹس کمیونٹی کی رکن ربیکا او کیف نے بھی کہا ہے کہ اولمپکس کھیل میں اسرائیل کے جرائم کو دھویا جارہا ہے، تاکہ غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر پردہ ڈالنے کا ایک اور موقع فراہم کیا جاسکے، لیکن دوسری طرف نیشنل اولمپک کمیٹی صرف روس پر پابندیاں لگانے پر مرکوز ہے۔ فرانسیسی پارلیمنٹ کے رکن تھامس پورٹس نے بھی کہا ہے کہ فرانسیسی سفارت کاروں کو چاہیئے کہ وہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اسرائیلی پرچم اور ترانہ بجانے پر پابندی عائد کرے، جیسا کہ روس کے خلاف کیا جاتا رہا ہے۔
تحریر: سید رضی عمادی
 
 
 

امن تعلقات کو معمول پر لانے ،جھگڑوں سے پرہیز کرنے  اور تمام فریقوں کا تناو کو ختم کرنے کا نام ہے۔اگر اسے عام اور سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ امن دراصل دوسرے فریق کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی حالت کو کہتے ہیں۔

امن ہی اصل زندگی ہے جنگ ایک غیر عادی امر ہے،امن ایک ہمیشہ رہنے والی حقیقت ہے اور جنگ آنےجانے والی جزئی ہے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امن زندگی اور جنگ موت کا نام ہے۔ شریعت اسلامی نے مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کے درمیان اصل امن کو قرار دیا ہے۔جنگ کو دشمنی روکنے،دین،مال اور جسموں کے حفاظت کے لیے ہی کرنے کا کہا ہے۔

عربی میں امن کو السلام کہتے ہیں اور "السلام" اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اس لیے یہ بھلائی اور سخاوت کا نشان ہے۔ جیسے اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ایک دار السلام ہے یہ لفظ بھلائی،محبت اور لطف پر دلالت کرتا ہے ۔ جب مسلمان ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک کہتا ہے السلام علیکم اور دوسرا جواب دیتا ہے وعلیکم السلام ۔ اسلام وہ دین ہے جو امن پر یقین رکھتا ہے اور جنگ،قتل اور افرا تفری سے روکتا ہے اسلام امن کو زندگی اور جنگ کو موت قرار دیتا ہے۔اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کیا ہے کہ یہ زندہ رہیں نہ یہ کہ قتل و غارت کریں اور مر جائیں۔اس بنیاد پر اللہ امن کے ساتھ ہے اور جنگ والوں کے ساتھ نہیں ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے اسلام امن کو پسند کرتا ہے اور اسی کو چاہتا ہے تو نبی اکرمﷺ نے کفار اور مشرکین سے جنگیں کیوں کیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ جنگ جس میں نبی اکرمﷺ شامل ہوئے وہ دفاعی جنگ تھی اقدامی جنگ نہیں تھی جیسے جنگ بدر و احد اور دوسری جنگیں۔اسلام اس وقت بالکل نیا نیا تھا اور جو بھی آغاز کر رہا ہو اس کی ابتداء میں قوت کم ہوتی ہےایسے وقت میں اگر وہ چیلنجز کا مقابلہ نہیں کرتا تو اس کے آس پاس موجود  دشمنوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ  وہ اسے ختم کر دیں۔اس لیے آغاز میں اسلام نے جہاد پر اعتماد کیا،  اس لیے نہیں کہ اس کے ذریعے دوسروں پر حملہ کیا  جائے بلکہ اس لیے کہ  دوسروں کے حملوں سے خود کو بچایا جائے ۔

جہاد کے کافی فوائد ہیں ہم ان میں سے اہم کو ذکر کرتے ہیں:

۱۔جب کفار و منافقین نے  مسلمانوں کی تیاری اور ان کی قوت دیکھی کہ وہ دفاع کر سکتے ہیں تو خوفزدہ ہو گئے اور ان کے سامنے آنے سے قطرانے لگے یہیں سے امن متحقق ہوتا ہے۔

۲۔اگر وہ اسلام میں داخل ہونے سے انکار کرتے ہیں تو  انہیں جزیہ دینا پڑے گا۔

۳۔وہ ان کفار کی مدد سے اجتناب کریں گے جو  مسلمانوں سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔

۴۔یہ بھی ہوتا ہے کہ  خوف ان کی دشمنی کو کم کرے دے اور وہ اسلام کو قبول کر لیں۔

جہاد کی اقسام :جہاد کی دو اقسام ہیں

۱۔جہاد دفاعی یعنی اپنا دفاع کرنا ،اس  کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں ہے کہ  مسلمانوں  اور ان کی  زمینوں سے  دشمنوں کو بچانے کے لیے جہاد کیا جاتا ہے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(سورہ الحج۔۳۹)

 جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔

۲۔جہاد طلبی ،اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے اس  میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنا،پھر انہیں اسلام کی دعوت دیتا  کہ وہ اسلام  قبول کر لیں،اب یہ ان پر ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں یا اپنے دین پر باقی رہیں یہ بھی درست ہے۔

اسلام نے روم و فارس سے جنگ کیوں کی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ فارس اور روم دو بڑی طاقتیں تھی جو باہم جنگیں کرتی رہتی تھیں ان دونوں طاقتوں کی عرب مملکت کی اسلامی زمینوں پر نطر تھی ،اسی لیے ان کا جواب دینا اور ان کی توسیع پسندی کو روکنا ضروری ہو گیا تھا کہ ان پر اچانک حملہ کر کے ان کے مراکز کو تباہ کر دیا جائے ۔ماہرین یہ کہتے ہیں کہ آگے بڑھ کر پہلے حملہ کرنا پیچھے رہ کر حملہ کے انتظار کرنے سے بہتر دفاع ہوتا ہے۔ ماہرین جنگ یہ کہتے ہیں کہ آگے بڑھ کر حملہ کرنا دشمن کےمنصوبوں کو خاک میں ملا دیتا ہے۔یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ اسلام جنگ،قتل وغارت اور دشمنی پر یقین نہیں رکھتا اورنہ ہی اسے کسی کے مال و دولت میں کوئی دلچسپی ہے اس لیے اسلام نے جو جنگیں کی ہیں وہ سب کی سب دفاعی جنگیں تھی کوئی بھی اقدامی جنگ نہیں تھی۔

 

اسلامی ثقافت کی تاریخ اور مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی خصوصیات کے تحقیق کاروں کے لئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دین اسلام کی خصوصیات نے بہت سارے ممالک اور شہروں میں رہنے والوں پر بہت سے آثار مرتب کئے ہیں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت اور ان کے آثار کو دیکھ کر لوگوں میں نہ صرف روحانی اعتبار سے تبدیلی آئی ہے بلکہ ان کی سوچ، فکر اورسماج پر ایک واضح تبدیلی آگئی ہے۔

دین اسلام تمام مذاہبِ عالم سے کامل و جامع اور آخری دین ہے۔ اس آخری اور کامل دین کے آثار ہر جگہ موجود ہیں۔ چونکہ ثقافت ِ اسلامی جامعیت اور جدیدیت پر مشتمل ثقافت ہے اس لئے دنیا میں موجود دیگر ثقافتوں کی نسبت اسلامی ثقافت میں وسعت پائی جاتی ہے۔ یہ ثقافت انسانی رویوں، عادتوں، ذاتی، اجتماعی اور اخلاقی پہلوؤں کو شامل ہوتی ہے۔  دین اسلام کے  پیرو کار  ہمیشہ احکام خداوندی  کی تعمیل  کے ساتھ  ان حقیقی راہوں پر گامزن ہوکر ان خصوصیات کو اپنے اندر اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی رضایت شامل ہو۔اسی لئے مسلمانوں کی نشست و برخاست اور اطاعت و بندگی غرض ان کے ہر سماجی و اخلاقی افعال میں ایک اعلیٰ رنگ نمایاں نظر آتا ہے، اس کو ثقافت اسلامی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ ثقافت بھی الٰہی حکم کی تکمیل کا ایک حصہ ہے۔سماج میں مل جل کر بیٹھنے اور اسلام کی اصل راہوں پر چلنے سے اس معاشرے میں موجود دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی فکری، عملی زندگی میں نہ صرف تبدیلی آجاتی ہے بلکہ قلبی طور پر وہ لوگ متاثر ہوکر انہی اسلامی راہوں اور تقاضوں کو اپنالیتے ہیں اور اس سے ایک بڑا مہذب معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

اسلامی ثقافت ایک مستحکم، لازوال اور فطرت سے ہم آہنگ ثقافت ہے اس لئے یہ کبھی بھی ختم یا معدوم نہیں ہو سکتی۔ جبکہ دیگر ثقافتوں میں  کوئی دوام و بقا نہیں پائی جاتی۔ اسلامی ثقافت دین اسلام کی طرح جامع اور لافانی ثقافت ہے۔ اس کی بنیاد عدل و انصاف اور شعورپر قائم ہے۔ مرور زمن کے ساتھ جدید رنگوں، اصولوں اور خیالوں کو منظم انداز میں اپنے اندر شامل کرنے کی وسعت رکھتی ہے۔ اسی لئے اسلامی ثقافت مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے لئے بھی قابل قبول ہے۔ جبکہ دیگر ثقافتوں کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو وہ صرف اپنی اقوام وغیرہ کے ساتھ محدود نظر آتی ہیں۔ آخر الامر ان اقوام اور زمانوں کے گزرنے کے ساتھ  یہ تمام غیر اسلامی ثقافتیں معدوم ہوجاتی ہیں۔

اگر ہم اسلامی ثقافت کو دیگر ثقافتوں سے موازنہ کرے تو ہمیں واضح ہوتا ہے کہ اسلامی ثقافت میں کوئی جبرو اکراہ کا پہلو نہیں ہے۔ اسی لئے غور و فکر کرنے والے  لوگ اس سے متاثر نظر آتے ہیں۔ لیکن دیگر ثقافتوں سے لوگ نالاں اور گریزاں نظر آتے ہیں۔ اسلامی ثقافت، جس میں آزادی اور انسانیت کی عظمت اور فلاح کے لئے اصول پائے جاتے ہیں اور دوسری ثقافتوں میں ظلم و بربریت وغیرہ کا پہلو نمایاں نظر آتا  ہے۔ اسلامی ثقافت کی عمارت توحید کی بنیاد پر قائم ہےاس میں ذاتی اور اجتماعی عادات واطوار کے اصول منظم طریقے سے مرتب کئے ہوئے ہیں، جبکہ دوسری ثقافتوں کی بنیاد جبر، ظلم اور ستم پر ہوتی ہے اور اس کا انجام و عاقبت اچھی نہیں ہوتی۔

اسلامی ثقافت اخلاق سے آراستہ ہے اور اخلاق کی نسبت سے ہی وہ ممتاز ہے۔ دنیا کے کسی ایسے معاشرے میں جہاں قانون ناپید ہو اور اخلاقی قدریں روبہ زوال ہوں وہاں اسلامی ثقافت کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔اسلامی ثقافت کی ایک خوبی خوشدلی ہے یعنی انفرادی واجتماعی تعلقات میں سامنے والے کو خوشحالی کے ساتھ قبول کرنا ہے۔جبکہ دیگر ثقافتیں پستی اور قید کاشکار ہیں جو انفرادی طور سے منفی اثرات مرتب کرتی ہے،بلکہ یہ اپنے ماننے والوں کے لئے دوسروں کے خلاف اس طرح بدگمانی پیداکرتی ہے۔

اسلامی ثقافت کے اندر یکساں روحانی وجسمانی توازن کا تصور موجود ہے جودراصل دین اسلامی کا معیار ہے۔یہاں روح جسم سے الگ نہیں ہے اورنہ ہی بشری جسم کو روح پر کوئی فوقیت حاصل ہے،بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں کے اپنے حقوق موجود ہیں بشری تقاضے کے مطابق جس کے اثرات اس کے ماننے والوں پرجسمانی اور روحانی اعتبار سے پڑتے ہیں ،جو انسان کی ضروریات کے توازن قائم کرتا ہے۔ دین اسلام جہاں دنیا سنوارنے کی تاکیدکرتا ہے وہاں آخرت کی درستگی اور خیر کی آرزو رکھنے پر بھی زور دیتا ہے۔ دین اسلام اپنے والوں کوایک بہترین امت قرار دیتا ہے۔جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ۔

تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔آل عمران:110۔

 

 

مسجد براثا کی تاریخ

یہ ایک مقدس مقام ہے جو وسط عراق میں موجود ہے، اور اس کی بہت پرانی تاریخ ہے، ابتداءِ عصورِ اسلامی میں یہ مسیحیوں کی ایک عبادت گاہ (صومعۃ) تھی، بعد میں جب اس کے راہب نے اسلام قبول کیا تو صومعہ کو مسجد میں تبدیل کردیا گیا۔ یہ یہ واقعہ سنہ ۳۷ ہجری قمری بمطابق ۶۵۴ عیسوی میں پیش آیا۔

براثا راہب کی کہانی

روایات میں آیا ہے کہ جب امیر کائنات سرکارِ امام علی ابن ابی طالب علیھما السلام نے جنگ نہروان میں خوارج کے ساتھ ہونے والا معرکہ فتح کرکے وسط عراق میں ( جسے آج کل بغداد کہا جاتا ہے) مسیحیوں کے صومعہ کے قریب  پڑاو ڈالا، جہاں پر ایک مسیحی راہب رہتا تھا جس کا نام براثا تھا۔  آپؑ نے وہاں نماز پڑھی اور چار دن تک وہیں سکونت اختیار کی۔ انہی دنوں میں آپؑ اور اس راہب کے درمیان مکالمے بھی ہوتے رہے، اور امام علیؑ کی باتوں نے اس پر بہت ہی گہرا اثر ڈالا، اور راہب نے متاثر ہوکر مولیٰ علیؑ سے پوچھا:

کیا آپ نبی ہیں؟

امام علیؑ نے جواب دیا: نہیں میں نبی نہیں ہوں۔

براثا پھر سوال کرتا ہے: پھر آپ نبی کے وصی اور جانشین ہیں؟

امام علیؑ نے فرمایا: ہاں، میں نبی آخر الزمان کا وصی ہوں۔

ان سوالوں کے جواب سننے کے بعد راہب نے مولیٰ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا، اور یہ کہا: کہ ہماری کتابوں میں ایک روایت موجود ہے جو یہ کہتی ہے اس جگہ پر نبی برحق یا اس کا وصی و جانشینِ برحق ہی نماز پڑھے گا۔

مزید کہتا ہے کہ میں نے پڑھا ہے کہ اس جگہ پر نبی برحق جو نیکوکاروں کا محافظ اور نگہبان ہے کا جانشین برحق إیلیا یعنی علی نماز پڑھے گا  وہ نبی خاتم تمام گزشتہ انبیاء اور رسولوں کا خاتم ہوں گے، اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

اس دن سے یہ صومعہ (چرچ) مسجد بن گئی ہے۔ یہ واقعہ  سنہ ۳۷ ہجری بمطابق ۶۵۴ میلادی عیسوی میں پیش آیا۔ راہب نے اسلام کو قبول کرنے کے بعد مولیٰ کے ساتھ کوفہ تک مرافقت کی۔

مسجد براثا قرن سوئم کے آواخر اور قرن چہارم کی ابتداء سے ہی شیعہ مسلمانوں کی عبادت گاہ بن گئی تھی، اور مکتب اہل البیت ؑ کے پیروکار اس وقت سے لیکر آج تک اسی میں اقامہ نماز کے ساتھ ساتھ دیگر شعائر دینی کا انعقاد کرتے آرہے ہیں۔  اور اس میں شیعوں کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کی وجہ سے بنی عباس کے خلفاء غضبناک ہوتے رہے، یہاں تک بادشاہ مقتدر عباسی نے سنہ ۳۱۳ ہجری بمطابق ۹۲۵ عیسوی میں  اس مسجد کو گراکر زمین بوس کردیا، اور اس میں موجود مؤمنین کو یرغمال  بناکر اسیر بنایا، جب کہ اس وقت  لوگ بڑی تعداد میں نماز جمعہ پڑھنے وہاں موجود تھے۔  

پھر بہت عرصے کے بعد دوبارہ تعمیر نو کی گئی،چونکہ بنی عباس کے خلفاء ، حضرت  علی ابن ابی طالب  علیھما السلام سے دشمنی کی وجہ سے ہمیشہ مؤمنین کے تعاقب میں رہتے تھے ان کی اس وحشت اور دہشت کی وجہ سے وہاں لوگ نہیں آتے تھے، یہاں تک سنہ ۴۵۰ ہجری بمطابق ۱۰۵۸ قمری کو ان سے یہ برداشت بھی نہیں ہوسکی اوربنی عباس کے خلیفہ کے حکم پر مسجد کو مکمل طور پر بند کردیا، یوں یہ عظیم عبادت گاہ بہت عرصہ تک بغیر کسی مصلی کے باقی پڑی رہی، اوردسویں صدی میں اس کی  تعمیر نو کی گئ ۔

گزشتہ صدی سنہ ۱۳۷۵ ھجری بمطابق ۱۹۵۰ عیسوی کو مؤمنین کی ایک جماعت نے اس کی پھر سے تعمیرنو آغاز کیا، اور اس وقت یہ مسجد، قبرستان اورضمیمہ جات سمیت ۴۰۰۰ مربع میٹر رقبہ پر مشتمل ہے، اور یہ مساحت اور ایریا ماضی کی نسبت بہت ہی کم ہے۔

مسجد براثا کی اہمیت

مسجد براثا  کو ایک اہم مذہبی اور ثقافتی ورثہ شمار کیا جاتا ہے، جس کی بہت پرانی تاریخ ہے۔ روایات میں اس مسجد کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے، اور روایات کہتی ہیں بہت سارے انبیاء کرام علیھم السلام اور صالحین نے اس کی زیارت کی، ان زیارت کرنے والوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت دانیال علیہ السلام، حضرت ذوالکفل علیہ السلام، حضرت عیسی ابن مریم علیھما السلام، اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام شامل ہیں۔

مسجد کے مختلف حصے

یہ مسجد ایک بہت بڑا ہال، دو مینارے، ایک صحن، اور ایک کنویں جسے بئر امام علی علیہ السلام کہا جاتا ہے پر مشتمل ہیں۔ اسی طرح ایک قدیم مقبرہ اور بہت پرانی لائبریری جس میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں کو بھی اس میں ضم کیا گیا ہے۔ عالم تشیع کے عظیم فقیہ، ممتاز شخصیت، اور عالم اسلام کے نامور مجتہد اور سکالر شیخ مفید اسی مسجد میں قیام فرماتے تھے، شیخ مفیدؒ اپنے زمانے میں علم، تقویٰ، اور کمال میں اپنی مثال آپ تھے، شیخ مفید خود ہی اس زمانے میں فکری اور اعتقادی کے لحاظ سے ایک عظیم مکتب تھے، جس کی گواہی دوست اور دشمن سبھی دیتے ہیں، مختلف مسالک، مکاتب، اقوام اور نسلوں کے  لوگ آپ سے اپنی علمی پیاس بجھانے کی غرض اسی مسجد میں  آتے تھے، یوں شیخ مفید کی زیرسرپرستی میں یہ مسجد ہروقت علمی مباحثے، مناظرے، مکالمے اور دروس پڑھنے والے علماء اور طلباء دینی  سے بھری رہتی تھی۔ شیخ مفید نے اپنی حیات مبارکہ  میں مختلف علوم  اور موضوعاتِ  فقہیہ پر دو سو سے زیادہ کتابیں مدون کی ہیں۔

 

مسجد النور 1

مسجد النور 3

ایکنا نیوز؛ المنار نیوز چینل کئ مطابق، لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے منگل کی شام ایک تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ «Storm Al-Aqsa» کی جنگ کی ایک اہم کامیابی اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں کمی کی وجہ ہے.


 سید حسن نصراللہ نے عاشورہ کی رات کے موقع پر اپنی تقریر کے آغاز میں سوگ کی تقریب میں لوگوں کی موجودگی کا شکریہ ادا کیا اور ان کی تعریف کی. انہوں نے حسینی سوگواروں کی حفاظت کو برقرار رکھنے پر سیکورٹی فورسز کا شکریہ بھی ادا کیا اور ان کی تعریف کی.
نصراللہ نے کل رات عمان کے دارالحکومت مسقطق کے مضافات میں سید الشہدہ (ع) کی سوگ کی تقریب میں فائرنگ کے واقعے کا مزید ذکر کیا اور اس ملک کی حکومت اور عوام سے تعزیت کا اظہار کیا.


اپنے بیان کے ایک اور حصے میں انہوں نے الاقصیٰ طوفان کے آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اس آپریشن کی نعمتوں میں سے ایک اور معاون محاذوں کی یکجہتی یہ ہے کہ اس کے فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے میں مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں، جب کہ مغربی جاسوسی ایجنسیوں نے گزشتہ دہائی میں اس کے لیے (فرقہ وارانہ کشیدگی) نے منصوبہ بندی کی تھی اور اس پر اعتماد کیا تھا.
انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس کا افق اور نقطہ نظر واضح ہو اور ہم نے قرآنی وعدہ پر عمل کیا ہے کہ صہیونی حکومت تباہ ہو جائے گی. طوفان الاقصیٰ کی جنگ ان طویل ترین اور سب سے بڑی لڑائیوں میں سے ایک ہے جسے دشمن نے تسلیم کیا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ جنگ محور اور مزاحمتی ممالک کی لڑائی ہے.
 سید حسن نصراللہ نے کہا: ہم امام حسین (ع) کے ساتھ، ان کے وارث اور صاحب عصر کے ساتھ، ان کے حقیقی نمائندے امام خامنہ ای اور اپنے شہید علماء اور رہنماؤں کے ساتھ اپنی بیعت کی تجدید کرتے ہیں، اور ہم فتوحات کے حصول کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور اس طرح، ہم موت سے بالکل نہیں ڈرتے اور ہمیں اس کا کوئی خوف نہیں ہے.

 
اس نے زور دے کر کہا: جو لوگ ہمیں امریکہ، اسرائیل، مغرب اور موت سے ڈرانا چاہتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ہم ایسے لوگ ہیں جو نہ تو جنگ سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی موت سے ڈرتے ہیں، کیونکہ جنگ جو زیادہ سے زیادہ لا سکتی ہے وہ فتح ہے یا شہادت.
 

 
 

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا ہے کہ صہیونی نے گذشتہ نو مہینوں سے غزہ میں جارحیت کی انتہا کرتے ہوئے اب تک تقریبا 8600 طلباء اور 500 سے زائد اساتذہ کو شہید کردیا ہے۔

سکولوں کی عمارتوں میں کسی قسم کی تعلیمی سرگرمی نہیں ہورہی ہے اس کے باوجود صہیونی حکومت مسلسل حملے کرکے عمارتوں کو بھی تباہ کررہی ہے۔

کنعانی نے کہا کہ صہیونی فوج نے تازہ ترین واقعے میں غزہ کے قصبے الزیتون میں ایک اسکول پر حملہ کرکے درجنوں کو شہید اور متعدد کو زخمی کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صہیونی حکومت اور اس کے مغربی آقاؤں کو معلوم ہونا چاہئے کہ جنایات کے ذریعے کبھی بھی غزہ میں ہونے والی شکستوں پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو حکومت اپنی بقا کے لئے جنایت اور ظلم کا سہارا لے رہی ہے تباہی اور خاتمہ اس کا انجام ہے جو کہ بہت نزدیک ہے۔

شیعہ اور سنی مآخذ و منابع میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھوٹے نواسے امام حسین (ع) کی خوبیوں، کمالات اور فضائل کے بارے میں بہت سی روایتیں بیان کی گئی ہیں. چونکہ امام حسین (ع) کی پرورش پیغمبر (ص) کی بانہوں میں ہوئی تھی اور ان کی پرورش وحی کے خاندان میں ہوئی تھی، اس لیے ان کے پیارے پوتے کے بارے میں پیغمبر مقدس کی روایات کا حوالہ کافی ہے. دوسری طرف، پیغمبر (ص) کے بیانات کو دنیا میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں نے قبول کیا ہے، اور اس لیے امام حسین (PBUH) کے القابات کے بارے میں پیغمبر کے الفاظ  و احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے سنی، شیعہ وغیرہ سند پیش کرتے ہیں۔
اس نوٹ میں جن احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سنیوں کی اکثریت زبانی یا روحانی تعدد کے لحاظ سے قبول کرتی ہے. لہٰذا، سنیوں کے قبول کردہ ذرائع میں امام حسین (ع) کے فضائل پر نظر ڈالنا مذاہب کے میل جول اور اہل بیت (ع) کے حوالے سے شیعہ اور سنی نظریات کے اتحاد کو پیدا کرنے میں اہم ہے۔
ریحانہ النبی
بخاری کی صحیح کتاب میں، جو سنیوں کی طرف سے قبول کردہ حدیث کے سب سے معتبر ذرائع میں سے ایک ہے، اس موضوع کے ساتھ ایک روایت بیان کی گئی ہے: «ابن ابی نعیم نے کہا: میں ابن عمر کے ساتھ تھا جب کسی نے ان سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھا۔. ابن عمر نے اس سے کہا: تم کہاں سے ہو؟ اس نے جواب دیا: عراق. اس نے کہا: اس شخص کو دیکھو جو مجھ سے مچھروں کے خون کے بارے میں پوچھتا ہے، جب کہ عراق کے لوگ وہ تھے جنہوں نے خدا کے نبی کے بیٹے کو قتل کیا، جب کہ میں نے نبی (ص) کو یہ کہتے سنا: یہ دونوں حسن (ع) اور حسین (ع) میرے خوشبو ہیں ۔
یہ حدیث احمد ابن حنبل کی مسند اور ترمذی کی سنن سمیت دیگر اہم سنی ماخذوں میں معمولی فرق کے ساتھ بیان کی گئی ہے. جب کہ پیغمبر اسلام (ص) بچے کو والدین کے لیے خدا کی طرف سے ایک میٹھا اور خوشبودار پھول سمجھتے تھے اور ان سے محبت کرنے اور چومنے کی انتہائی سفارش کرتے تھے، وہ حسنین (ص) کے ساتھ اپنے رویے میں بھی ایسا ہی تھا. وہ حسنین (ع) کے ساتھ کھیلتا تھا اور کہتا تھا: «درحقیقت، وہ دنیا میں میرے خوشبودار پھول ہیں۔» سنان الکبری میں ایک عظیم سنی محدث ناصعی کی روایت کردہ ایک اور حدیث میں انس بن مالک کا حوالہ دیتے ہوئے نبی مہربانی کہتے ہیں: «یہ دونوں (حسنین)، میرے پھول اسی امت سے ہیں۔
آسمان کا عظیم نوجوان
ممتاز اور اولین درجے کے سنی علماء اور احادیث کے علماء جیسے احمد ابن حنبل نے اپنی مسند کتاب میں ابن ماجہ سنن میں اور حکیم نیشابوری مستدرک میں پیغمبر القدس (ص) سے منتقل ہونے والی احادیث میں امام حسین (ع) کے آقا ہونے کے حوالےسے۔ جنت کے نوجوانوں کے بیانات کے ساتھ مختلف لوگوں نے نشاندہی کی ہے: رسول خدا (ص) نے کہا: «الحسن اور الحسین سیدہ شباب اہل الجنہ
حسن و حسین جت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں امام حسین (ع) کے خصوصی مقام کو ظاہر کرنے والی روایتوں میں مشہور حدیث «حسین منی اور وانا من الحسین" ہیں جو حرم سیدالشهدا(ع) کے مزار کے دروازے پر بھی کندہ ہیں۔ کتاب المصنف ابن ابی‌شیبه»،  جو سب سے قدیم ماخذ ہے اس میں یہ حدیث درج ہے.
حکیم نیشابوری نے سلمان فارسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پیغمبر (ص) نے کہا: «حسن اور حسین میرے بیٹے ہیں. جو شخص ان سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو مجھ سے محبت کرتا ہے تو خدا اس سے محبت کرے گا اور جس سے خدا محبت کرتا ہے اسے جنت میں داخل کرے گا. جو شخص ان دونوں کو ناراض کرے گا تو مجھے ناراض کرے گا اور جو مجھے ناراض کرے گا وہ خدا کو ناراض کرے گا اور جو خدا کو ناراض کرے گا خدا اسے آگ میں داخل کرے گا۔

ایکنا: