سلیمانی

سلیمانی

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ان کا دین مکمل طور پر برحق ہے، باقی ادیان یا توا سلام کے آنے اور ان ادیان کو نسخ کرنے سے پہلے ہی وہ تحریف کا شکار ہوچکے تھے اور ان میں بہت سی تبدیلیاں لائی جا چکی تھیں اور پھر اسلام آنے کے بعد وہ دین نسخ بھی ہوگئے یا پھر وہ حقیقت میں کوئی دین ہی نہ تھا بلکہ لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے ان کو دین سمجھتے تھے. اسی لئے مسلمان ان اقوام و ملل کو کہ جن سے ان کا واسطہ پڑتا تھا ،جہالت وگمراہی کے اندھیروں سے نکال کر علم و معرفت کی روشنی کی طرف لانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اس سلسلے میں وہ بہترین دلائل ، اچھا اخلاق کو ذریعہ بنا کر آسان طریقے سے دین پہنچاتے ہیں کہ جسے فطرت سلیم قبول کرے اور عقل کو اسے تسلیم کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو ۔ جبکہ اس راہ میں مسلمانوں کی روش پوری تاریخ میں )لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ( یعنی دین میں کوئی جبر نہیں ہے ، کے مسلمہ اصول پر قائم ہے۔

خربوطلی نے اپنی کتاب (نظرات فی تاریخ الاسلام) میں مستشرق دوزی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: "اھل ذمہ کے ساتھ مسلمانوں کا اچھا سلوک اور حسن عمل اس بات کا موجب بنا کہ بہت سے اھل ذمہ نے اسلام قبول کیا ،کیونکہ انہیں اسلام میں ایسی آسانی اور سادگی نظر آتی تھی کہ جس سے وہ اپنے سابقہ مذھب میں آشنا نہ تھے"). الإسلام وأهل الذمة، ص111.   (

گوستاف لوبون اپنی کتاب (حضارة العرب)میں یوں لکھتے ہیں کہ: "دنیا میں قرآن کی تعلیمات کی پھیلنے کی وجہ طاقت نہیں تھی ،کیونکہ عربوں نے اپنی مفتوحہ اقوام کو اسلام قبول کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں آزاد رکھا تھا پھر بعض نصرانی قبیلوں نے اسلام کیوں قبول کیا،اور عربی کو اپنی زبان کیوں بنائی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عرب عدل کے حوالے سے اس قدر معروف تھے کہ ان کی مثال دی جاتی تھی اور پھر اسلام پر عمل کرنے کے اعتبار سے اتنا آسان دین ہے کہ اس کی مثال باقی ادیان میں نہیں ملتی"  حضارة العرب، ص127.

مسلمان یقینا یہ جاننتے ہیں کہ پوری دنیا کے ہر انسان کو ہدایت دینا ممکن نہیں ہے ،اور لوگوں کی غالب اکثریت ایمان نہ لانے والوں کی ہے ،اسی لئے اسلامی مبلغین پر واجب ہے کہ وہ اپنی تبلیغ اور لوگوں کی ہدایت کا سلسلہ جاری رکھے ، ان کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے جو لوگ حق کے راستے پر نہیں آتے ان کا معاملہ آخرت کے دن خدا کے ہاتھ میں ہوگا جس طرح قرآن مجید نے واضح طور پر بیان فرمایا:  (وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ)  النحل: 82

یہی وجہ ہے کہ مسلمان جس شخص کو تبلیغ دین کرتا ہے اس سے کسی قسم کی لڑائی یا سختی کا احساس نہیں رکھتا، کیونکہ خدا نے ہدایت دینے کی مسؤلیت سے اسے آزاد رکھا اور یہ فرمایا ہے کہ ہدایت دینے کا کام صرف خدا کے ہاتھ میں ہے کہ جسے وہ چاہے ہدایت عطا کرے۔ خدا نے انسان کو حق و باطل میں تمیز کی صلاحیت سے نوازا ہے اور پھر انسان کو اپنی مرضی سے بغیر کسی جبر و اکراہ کے کوئی بھی عقیدہ اختیار کرنے میں آزاد رکھا ، جیسا کہ ارشاد ہوا:

(لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ) دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، البقرة: 256، اسی طرح فرمایا :

(وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ) اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں؟، يونس: 99.

واقعا مسلمانوں نے کسی کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا، ایمان ایک خالص قلبی عمل ہے لہذا جسے مجبور کرکے اسلام کا اظہار کرایا گیا ہو وہ حقیقتا مسلمان نہیں ہے ۔ اسلام نے اپنی تعلیمات میں عبادت گاہوں کا تحفظ اور اوردینی تعلیمات پر عمل کےلئے انسانی آزادی جیسے اقدار کے بارے میں بہت زور دیا ہے ۔

اسلام نے اپنے ماتحت آنے والے دیگر ادان کے پیرو کاروں کو اسلام میں داخل ہونے پر کبھی مجبور نہیں کیا ۔ بلکہ لوگوں کو ان کے عقیدوں پر چھوڑا گیا ،ان کو اپنے دینی اعمال و عبادات انجام دینے میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی گئی اور ان کے عبادت خانوں کے تحٖفظ کو یقینی بنانے کا اہتمام کیا گیا ۔

ہمارے پاس اس کی کئی مثالیں ہیں کہ مسلمانوں نے کافر ذمی قرار پانے والوں کے ساتھ ان امور پر معاہدے تحریر کر دئیے ، مثلا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اھل نجران کو یہ تحریر عطا فرمائی کہ :اھل نجران کو امان نامہ عطا کیاہے، جو کہ ان کے کی عبادت گاہوں کی حفاظت اور عبادات میں عدم تدخل کو شامل تھا ،اس پر پھر خدا اور رسول خدا کی ضمانت دی گئی۔ (الطبقات الكبرى لابن سعد، ج1، ص266، وكتاب الأموال ابن زنجويه، ج2، ص449)

یہاں ہم مشہور مسیحی مؤرخین کی اسلام کی عظمت کے بارے میں رائے کا ذکر کریں گے ، دیگر ادیان کے ساتھ اسلام کی حسن سلوک کا ذکر کریں گے ، جن کی مثال آج کی دنیا میں بھی میسر نہیں ہے

وول ڈیورانٹ لکھتے ہیں کہ :"اھل ذمہ مسیحیوں ، زردشتیوں ، یہودیوں اور صابئیوں کو اسلامی حکومت میں ایسی آسانی میسر تھی کہ جس کی نظیر ہم آج کے مسیحی حکومتوں میں بھی نہیں پاتے ۔وہ اپنے دینے فرائض کی انجام دہی اور اپنے کلیساؤں اور دیگرعبادت گاہوں کی حفاظت میں مکمل آزاد تھے " (قصة الحضارة، ج12، ص131)

دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں: "مشرق وسطی میں یہودیوں نے مسلمانوں کو خوش آمدید کہا تھا کہ جنہوں نے انہیں اپنے سابقہ ظالم حکمرانوں سے نجات دلائی تھے۔ اور پھر وہ پوری آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے ۔ اسی طرح مسیحیوں کو بھی اپنے ایام عید وغیرہ کھلم کھلا منانے کی اجازت تھی ۔ فلسطیں میں مقدس مقامات کی زیارت کے لئے مسیحی مختلف جگہوں سے جوق در جوق آتے تھے، وہ مسیحی جنہوں بازنطینیہ کے کلیسا سے بغاوت کی تھی جو کہ قسطنطنیہ ،یروشلم اسکندریہ اور انطاکیہ کے کلیسا کی جانب سے طرح طرح کی مظالم کا شکار تھے ،وہ اب مسلمانوں کی سلطنت میں آزاد شہری قرار پائے تھے ".( نفس المصدر، ص132)

مسلمانوں نے خوش اسلوبی کے ساتھ دعوت دینے اور علمی انداز میں گفتگو کے علاوہ دیگر ادیان کے پیروکاروں کو اسلام قبول کرنے پر کبھی مجبور نہیں کیا

تھومس آرنلڈ لکھتے ہیں: ا'ہم نے کبھی کوئی ایسی کوشش نہیں دیکھی کہ جس میں باضابطہ طور پر کسی غیر مسلم کو مسلمان کرنے کوشش کی ہو، یا پھر کسی مسیحی کو دین مسیحیت چھوڑنے کے لئے ظلم کا نشانہ بنانے بارے میں سنا ہو " (الدعوة الى الإسلام، ص99)

روبرٹ سن کا کہنا ہےکہ : "صرف مسلمان ہی وہ ملت ہے کہ جن کے اندر اپنے دین کے بارے میں غیرت بھی ہے جبکہ دیگر ادیان کے ماننے والوں کے لئے درگزر کا احساس بھی ،مسلمان اس کے باوجود کہ وہ اپنے دین کی تبلیغ میں نہایت شوق کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر جو اسلام کو قبول نہ کرنا چاہے اور اپنے پسندیدہ دین پر عمل کرنے کی آزادی بھی دیتا ہے".( صفحة 128، كتاب حضارة العرب،  گوستاف لوبون )

اسی طرح راھب میشود کی کتاب (رحلۃ دینیۃ الی الشرق) میں صفحہ 29 پر یہ بات نقل کی ہے  : "افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسیحی اقوام کو درگزر کا درس مسلمانوں سے لینے کی ضرورت ہے ،جو کہ احسان کی نشانی اور اقوام و امم کے عقائد کا احترام اور ان پر کسی قسم کے عقیدے کو جبرا مسلط نہ کرنا ہے "

مسلمانوں نے نہ صرف دیگر ملتوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبورنہیں کیا بلکہ ان کو اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرنے میں دست تعاون بھی بڑھایا جس کی گواہی ٹرٹون نے اپنی کتاب )اھل الذمہ فی الاسلام) میں دی ہے: "اللہ رب العالمین نے عربوں کو دنیا پر حکمرانی عطا کی ہے تو ان عربوں کا ہمارے ساتھ سلوک کے بارے میں آپ سب جانتے ہیں ، وہ نصرانیت کے دشمن نہیں ہیں، بلکہ وہ ہماری قوم کی تعریف کرتے ہیں  ہمارے پادریوں کا احترام کرتے ہیں اور ہمارے کلیسا اور دیر کی تعمیر میں ہماری مد کرتے ہیں" (أهل الذمة في الإسلام، ص159)

یہی بات در اصل مسلمانوں کے حق میں بہت اچھی بھی ثابت ہوئی ، بہت سی اقوام نے ان کا استقبال کیا، وہ مسلمانوں کی فتح کی صورت میں اپنے دین کو چھڑنے پر مجبور ہونے کا کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے تھے، سپینش مفکر بلاسکوابانیر اپنی کتاب (ضلال الكنيسة)، ص64،پرمسلمانوں کے ہاتھوں فتح اندلسٓ کے بارے میں یوں رقم طراز ہے :"براعظم افریقہ سے آنے والے ان لوگوں کا اسپین نے بہترین استقبال کیا ،بغیر کسی مزاحمت یا دشمنی کے انہوں نے شہروں اور گاؤں کے معاملات کا اختیار ان کے ہاتھوں میں دیا ،جونہی کوئی عرب لشکر قریب آجاتا علاقے کے دروازے ان پر کھول دئے جاتے اور ان کو خوش آمدید کہا جاتا یہ لوگوں کو اسلامی تمدن سے روشناس کرانے کی جنگ کی فتح اور سزا دینے کی نہیں۔ ان قوموں نے اس سے زیادہ خوبصورت تہذیب کبھی نہیں دیکھی تھی جس میں ہر ایک کو اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کرنے کا حق حاصل تھا ،اور یہی چیز در اصل قوموں کی حقیقی عظمت کا ستون ہے ،مسلمانوں نے اپنے زیر قبضہ شہروں میں مسیحیوں کے کلیسا اور یہودیوں کے عبادت گاہوں کو قبول کیا ، مسجد نے اپنے سے پہلے موجود دیگر ادیان کی عبادت گاہوں سے خوف نہیں کھایا اس لئے ان کو رہنے کا حق دیا، ان کی حمایت کی، نہ ان سے حسد کیا اور نہ ہی ان پر حکمرانی میں دلچسپی دکھائی. (فن الحكم في الإسلام، مصطفى أبو زيد فهمي، ص387)

انگریز مؤرخ سر تھامس ارنولڈ لکھتے ہیں : "پہلی صدی ہجری ہی سے مسلمان فاتحین نے عرب مسیحیوں کے ساتھ نہایت درگزر اور حسن سلوک سے کام لیا ، پھر یہی بہترین سلوک بعد کے زمانوں میں بھی جاری رہا، ،ہم پوری دیانتداری کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب مسیحیوں نے اسلام قبول کیا انہوں نے اپنی مرضی اور ارادے سے ایسا کیا آج کے زمانے میں جو عرب مسیحی ان ملکوں میں رہ رہے ہیں وہ ہماری اس بات پر بہترین دلیل ہے ۔.( الدعوة الى الإسلام، ص51)

مستشرقہ زیغرید ھونکہ کہتی ہے کہ : "عرب فاتحین نے اپنی مغلوب قومومں کو اسلام قبول کرنے پر کبھی مجبور نہیں کیا ۔اسلام سے پہلے جو مسیحی ، یہودی اور زردشتی بدترین مظالم کا شکار تھے ،اور ہولناک دینی تعصب کا شکار تھے ،اسلام نے ان سب کو بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے اپنے دینی فرئض ادا کرنے کی جازت دے دی۔ مسلمانوں نے دیگر مذاھب کے عبادت خانوں کلیساؤں ، دہیروں، اسی طرح کاہنوں اور احبار کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا ۔ کیا یہ برداشت اور احترام کی انتہا نہیں ہے؟ کیا تاریخ نے ہمیں کہیں اور اس کی کوئی مثال نقل کی ہے؟ اگر ہے تو کب اور کون ؟" (شمس العرب تستطع على الغرب، ص364)

اسپین سے تعلق رکھنے والے مؤرخ اولاغی لکھتے ہیں: "نوی صدی کے پہلے نصف میں مسیحی اقلیت پوری آزادی کے ساتھ قرطبہ میں رہتی اور مکمل آزادنہ طور پر اپنی عبادات انجام دیتی تھی " (سعد بوفلاقة، ص14)

مسیحی قس ایلوج کہتے ہیں : (جہاں تک ہمارے عقائد کا تعلق ہے ہم ان مسلمانوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور ان کی طرف سے کسی قسم کی کوئی سختی یاتنگی کا شاکر نہیں ہیں). (نفس المصدر)

مغربی مؤرخین ہماری تاریخ کے بعض تاریک پہلؤں کو تعجب کے ساتھ نقل کیا ہے۔ لیکن بہر حال وہ اسلام کو بدنام کرنے والوں کی باتوں سے بالکل متضاد ہیں، زیغرد کہتی ہے کہ : "مسلمانوں نے مغلوب اقوام کے اوپر قبول اسلام کو مشکل بنا دیا تھا تاکہ غیر مسلموں سے حاصل ہونے والے مالی مفادات کم نہ ہوں ، جو غیر مسلموں سے وہ ٹیکس وغیرہ کی شکل میں وصول کرتے تھے " (شمس العرب تستطع على الغرب، ص365.)

ویل دیورانٹ خلیفہ عمر بن عند العزیز کے بارے میں بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: "ان کے آباء واجداد جو کہ بنی امیہ سے تھے، وہ اپنی سلطنت میں غیر مسلم لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی طرف ترغیب نہیں دلایا کرتے تھے ، تاکہ ان پر لگائے گئے مختلف قسم کے ٹیکسزمیں کمی نہ آئے لیکن عمر بن عبد العزیز نے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کیا جن میں مسیحی ، یہودی اور زرتشتی شامل ہیں ، جب اس کے خزانہ کے مسؤلین نے ان سے کہا کہ اس طرح تو آپ کا خزانہ خالی ہو جائے گا، تو عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا : خدا کی قسم میری خواہش ہے کہ تمام لوگ اسلام قبول کرے اور پھر ہم سب کھیتی باڑی کرنے والے بن جائیں اور اپنے ہاتھوں کی کمائی کھائیں ". (قصة الحضارة)

تھامس آرنلڈ ہمیں بتاتے ہیں کہ ::عثمان کے زمانے میں مصر کا خراج 12 ملین دینار تھا ، معاویہ کے دور میں کم ہو کر 5 ملین پر پہنچا اسی طرح خراسان کا بھی  یہی مسلہ ہتھا، اسی وجہ سے بعض حکمرانوں نے اھل ذمہ میں سے اسلام قبول کرنے والے لوگوں کا خراج معاف نہیں  کیا، اسی وجہ سے عمر بن عبد العزیز نے خراسان میں اپنے گورنرجراح بن عبد اللہ الھکمی کو معزول کر دیا تھا ،اور اس کو لکھا تھا کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہادی بنا کر بھیجا ہے لوگوں سے مال لینےوالا بنا کر نہیں بھیجا. (طبقات ابن سعد، ج5، ص283، اور الدعوة الى الإسلام، لأرنولد، ص93)

اگر  صورحال یہ تھی کہ جیسا بیان ہوا تو پھر مختلف قبیلوں کا قبول اسلام کی وجہ کیا تھی؟

کہا جاتا ہے : " عرب فاتحین کے عفو و درگزر اور احترام انسانیت کے جذبات وہ اہم چیز تھی کہ جس سے مؤرخین اکثر لا علم تھے جبکہ یہی عفو در گزر ہی اسلام کے تیزی سے پھیلنے اور لوگوں کا اس دین سے زیادہ سے زیادہ متاثر ہونے کی وجہ بنی تھی ، حق یہ ہے کہ اقوام عالم نے مسلمان فاتحین سے زیادہ درگزر کرنے والے نہیں دیکھے ۔ اور نہ ہی اسلام سے زیادہ درگزر کرنے والا کوئی دین دیکھا ہے ". (حضارة العرب، ص605.)

ویل دیورانٹ اس کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : "اسی چشم پوشی اور در گزر کی پالیسی کو شروع کے مسلمانوں نے اپنا وطیرہ بنائے رکھا،اور اسی پالیسی کی وجہ سے بہت سے مسیحیوں ، تمام زردشتیوں اور ایک قلیل تعداد کے علاوہ تمام بت پرستوں نے اس جدید دین کو قبول کیا ۔ اسلام نے لاکھوں لوگوں کے دلوں پر راج کیا جو کہ چین سے لے کر انڈونیشیا اور مراکش و اندلس تک پھیلے ہوئے تھے،اسلام ان کے خیالوں مین بستا اور اخلاق پر حاکم تھا ،ان کی زندگیوں کو بہتر کرتا اوران میں امید کی کرن پیدا کرتا جس سے ان کی زندگی کی تھکن دور ہو جاتی ".( قصة الحضارة، ج13، ص133)

رابرٹسن اپنی کتاب (تاريخ شارلكن)میں لکھتے ہیں : "لیکن ہمیں اسلام کے کسی خاص دینی طبقے کا علم نہیں ہے ، نہ لشکروں کے پیچھے خصوصی تبلیغی گروہ آتے تھے نہ فتح کے بعد اس علاقوں میں رہبانیت کا پرچار کرتے تھے ،نہ تلوار و زبان سے کسی کو مجبور کرتے تھے بلکہ لوگ اپنے شوق اور عشق کے ساتھ اس دین میں داخل ہو جاتے تھے ، اس کی وجہ قرآن میں موجود بہترین حکمت علمی اور اسلوب تعامل تھا ".( روح الدين، عفيف طبارة، ص412)

آدم متز کہتے ہیں "چونکہ شریعت اسلامی مسلمانوں کے ساتھ خاص تھی اس لئے اسلامی حکومت نے دیگر اقوام و ملل کو ان کے اپنے خاص عدالتوں کے اوپر ، اور ان عدالتوں کے حوالے سے جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ کلیسا کی عدالتیں تھیں ،ان عدالوں کے قاضی مسیحی علماء ہوتے تھے ۔ ان لوگوں نے بہت سی قانونی کتابیں لکھیں ، ان میں صرف زواج کے مسائل بیان نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ میراث ،اور مسیحیوں کے آپسی وہ معمالات کہ جن کا حکومت کا کائی تعلق نہیں وہ بھی ان کتابوں میں درج کئے گئے ہیں" ( الحضارة الإسلامية في القرن الرابع الهجري، ج2، ص93.)

وہ مزید لکھتے ہیں : "اندلس میں ہمیں باوثوق زرائع سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں نصاری اپنے آپس کے تنازعات کو اپنے درمیان ہی حل کر لیتے تھے اور کہیں شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا تھا کہ مسئلہ قاضی کے پاس پہنچ جائے ".) نفس المصدر، ج2، ص95.)

شیخ مقداد الربیعی: محقق و استاد حوزہ علمیہ

روزہ مادی اور معنوی، جسمانی اور روحانی لحاظ سے بہت سارے فوائد کا حامل ہے۔ روزہ معدہ کو مختلف بیماریوں سے سالم اورمحفوظ رکھنے میں فوق العادہ تاثیر رکھتا ہے۔ روزہ جسم اور روح دونوں کو پاکیزہ کرتا ہے۔
پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا: المعدۃ بیت کل داء۔ والحمئۃ راس کل دواء(۱)۔
معدہ ہر مرض کا مرکز ہے اور پرہیزاور (ہر نامناسب غذا کھانے سے) اجتناب ہر شفا کی اساس اور اصل ہے۔
اور نیز آپ نے فرمایا:صوموا تصحوا، و سافروا تستغنوا۔
روزہ رکھو تا کہ صحت یاب رہو اور سفر کرو تاکہ مالدار ہو جاؤ۔ اس لیے سفر اور تجارتی مال کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانا اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں لیجانا، انسان کی اقتصادی حالت کو بہتر بناتا ہے اور اس کی مالی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔
حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمایا: لکل شی ء زکاۃ و زکاۃ الابدان الصیام (۲)
ہر چیز کے لیے ایک زکات ہے اور جسم کی زکات روزہ ہے۔
امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں: و مجاهدة الصيام في الايام المفروضات، تسكينا لاطرافهم و تخشيعا لابصارهم، و تذليلا لنفوسهم و تخفيفا لقلوبهم، و اذهابا للخيلاء عنهم و لما في ذلك من تعفير عتاق الوجوه بالتراب تواضعا و التصاق كرائم الجوارح بالارض تصاغرا و لحوق البطون بالمتون من الصيام تذللا.(3)
جن ایام میں روزہ واجب ہے ان میں سختی کو تحمل کر کے روزہ رکھنے سے بدن کے اعضاء کو آرام و سکون ملتا ہے۔ اور اس کی آنکھیں خاشع ہو جاتی ہیں اور نفس رام ہو جاتا ہے اور دل ہلکاہو جاتا ہے اور ان عبادتوں کے ذریعے خود پسندی ختم ہو جاتی ہے اور تواضع کے ساتھ اپنا چہرہ خاک پر رکھنے اور سجدے کی جگہوں کو زمین پر رکھنے سے غرور ٹوٹتا ہے۔ اور روزہ رکھنے سے شکم کمر سے لگ جاتے ہیں۔
۱: روزہ اخلاص کے لیے امتحان ہے۔
حضرت علیؑ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں: و الصیام ابتلاء الاخلاص الخلق(۴)
روزہ لوگوں کے اخلاص کو پرکھنے کے لیے رکھا گیا ہے۔
روزہ کے واجب ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ لوگوں کے اخلاص کا امتحان لیا جائے۔ چونکہ واقعی معنی میں عمل کے اندر اخلاص روزہ سے ہی پیدا ہوتا ہے۔

۲: روزہ عذاب الٰہی کے مقابلہ میں ڈھال ہے۔
امام علیؑ نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں: صوم شھت رمضان فانہ جنۃ من العقاب(۵)
روزہ کے واجب ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ روزہ عذاب الٰہی کے مقابلے میں ڈھال ہے اور گناہوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے۔
جب امام رضاؑسے روزہ کے فلسفہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا: بتحقیق لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تا کہ بھوک اور پیاس کی سختی کا مزہ چکھیں۔ اور اس کے بعد روزہ قیامت کی بھوک اور پیاس کا احساس کریں۔ جیسا کہ پیغمبر اکرمؐ نے خطبہ شعبانیہ میں فرمایا: واذکروا بجوعکم و عطشکم جوع یوم القیامۃ و عطشہ۔ اپنے روزہ کی بھوک اور پیاس کے ذریعے قیامت کی بھوک و پیاس کو یاد کرو۔ یہ یاد دہانی انسان کو قیامت کے لیے آمادہ اور رضائے خدا کو حاصل کرنے کے لیے مزید جد و جہد کرنے پر تیار کرتی ہے۔(۷)
امام رضاؑ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں۔ روزہ رکھنے کا سبب بھوک اور پیاس کی سختی کو درک کرنا ہے تا کہ انسان متواضع، متضرع اور صابر ہو جائے۔ اور اسی طرح سے روزہ کے ذریعے انسان میں انکساری اور شہوات پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔
ہاں، روزہ سب سے افضل عبادت ہے۔ شریعت ا سلامی اور احکام خدا وندی نے شہوات کو حد اعتدال میں رکھنے کے لیے روزہ کو وسیلہ قرار دیا ہے اور نفس کو پاکیزہ بنانے اور بری صفات اور رذیلہ خصلتوں کو دور کرنے کے لیے روزہ کو واجب کیا ہے۔ البتہ روزہ رکھنے سے مراد صرف کھانے پینے کو ترک کرنا نہیں ہے۔ بلکہ روزہ یعنی ” کف النفس” نفس کو بچانا۔جیسا کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: روزہ ہر انسان کے لیے سپر اور ڈھال ہے اس لیے روزہ دار کو چاہیے کہ بری بات منہ سے نہ نکالے اور بیہودہ کام انجام نہ دے۔
پس روزہ انسان کو انحرافات، لغزشوں اور شیطان کے فریبوں سے نجات دلاتاہے۔ اور اگر روزہ دار ان مراتب تک نہ پہنچ سکے تو گویا اس نے صرف بھوک اور پیا س کوبرداشت کیا ہے اور یہ روزہ کا سب سے نچلا درجہ ہے۔
حوالہ جات
1- اركان اسلام، ص 108 .
2- كافي، ج 4، ص 62.
3- نهج البلاغہ، خطبہ 192.
4- نهج البلاغہ، حكمت 252.
5- نهج البلاغہ، خطبہ 110.
6- وسائل الشيعہ، ج 7، ص 3.
7- وہی، ص 4.
8- علل الشرايع، شيخ صدوق، باب الصوم
https://alhassanain.org/urdu

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ میں واقع مدرسہ عالی امام خمینیؒ میں منعقدہ ہفتہ وار درس اخلاق میں استاد محمدباقر تحریری نے عبادت میں سستی اور دینی فرائض کی انجام دہی میں کاہلی کے موضوع پر گفتگو کی۔

انہوں نے امام سجاد علیہ السلام کی دعائے مکارم الاخلاق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس دعا میں عبادت میں سستی سے محفوظ رہنے کی دعا کی گئی ہے، عبادت میں سستی کی دو قسمیں ہیں: جسمانی اور روحانی، جو یا تو دینی امور سے بے رغبتی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے یا پھر انسان کے مقصدِ تخلیق سے غفلت اس کا سبب بنتی ہے۔

استاد تحریری نے وضاحت کی کہ اگر کوئی شخص اپنی خلقت کے بلند مقصد سے بے خبر ہو جائے تو آہستہ آہستہ دینی فرائض میں سستی کا شکار ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اس سستی کو صرف نماز و روزے تک محدود نہ سمجھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ خمس، زکات اور حج جیسے مالی عبادات میں بھی داخل ہو سکتی ہے۔

انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو شخص دنیاوی معاملات میں بے پرواہ ہو جائے، وہ دینی ذمہ داریوں میں بھی سستی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دنیا اور آخرت کے معاملات میں توازن رکھا جائے اور ہر قسم کی غفلت سے بچا جائے۔

استاد اخلاق نے درس کے اختتام پر تاکید کی کہ انسان کو ہمیشہ اپنی تخلیق کے اعلیٰ مقاصد پر غور کرتے رہنا چاہیے، کیونکہ جتنا اس کی معرفت میں اضافہ ہوگا، اتنا ہی اس کی عبادات میں شوق و نشاط بڑھے گا۔

بچوں کی پرورش اور تربیت بغیر وقت صرف کرنے کے ممکن نہیں ہے تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ جو بچے اپنے ماں باپ اور خاندان کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے ہیں وہ کم افسردہ ہوتے ہیں اور ان کے ہاں بد رفتاری کم نظرآتی ہے یہ بچے ذہین ہوتے ہیں اور مدرسے کی مشقوں اور تمرینات کو اچھی طرح انجام دیتے ہیں بچوں کی حفاظت اور نگرانی ان کی تربیت سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے بچوں کی بہترنگرانی کے لئےہم بعض جگہ محدودیت ایجاد کرنے پر مجبور ہیں اکثر والدین یہ خیال کرتے ہیں کہ لفظ نہ کہنے سے والدین اور بچے کے قریبی روابط میں خلل پیدا ہوجاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ محدودیت ایجاد کرنے سے بچے کی صحیح سمت میں تربیت کرنے میں کافی مدد ملتی ہے جو درحقیقت بچے کے مستقبل کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہے اور یہی محدودیتیں بچے کوبہت سے خطرات سے محفوظ رکھتی ہیں

محدودیتوں کی اہمیت :

بچوں کے ساتھ صادق رہیں ۔ جب کسی خطرناک جگہ جانے کے لئےآپ سے کہے تو آپ ان سے کہیں : کیا مجھ پر تمہیں اعتماد نہیں ہے؟ صاف کہیں : میں بھی جب تمہاری عمراور تمہارے سن وسال میں تھا تو اس وقت مجھے اپنے اوپراعتماد نہیں تھا اور میں اس قسم کی خطرنا ک جگہوں پرقدم رکھنے کی جرئت نہیں رکھتاتھا اور باپ کی حیثیت سے میری ذمہ داری ہے کہ تمہیں بھی خطرناک جگہوں سے دور رکھنے کی کوشش کروں ۔
یہ جواب بچے کو ناراحت کرےگا لیکن اس جواب میں ایک اہم پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ آپ اس کی کافی حد تک حفاظت و نگرانی کررہے ہیں اور اس کو راہ راست پر چلنے کے لئے مدد فراہم کررہے ہیں بچوں کو انکے حال پر رہا کرنا آپ کے لئے آسان تر ہوگا لیکن آپ بچوں کی حفاظت و نگرانی کے لئے اس سختی کوبرداشت کررہے ہیں۔
بچے ان مسائل سے آگاہی کے باوجود آپ کا امتحان لیتے ہیں:
یہ تصور کہ محدودیت پیدا کرنے سے بچے ہمیں دوست نہیں رکھتےلہذامحدودیت ایجاد کرنے کے سلسلے میں انسان کے اندر شکوک و شبہات پیدا ہوجاتے ہیں ان شکوک و شبہات کی علت ہمارے ماضی میں ہے ہم سب اپنے باطن میں اچھی رفتار یا بری رفتار کے والدین لئے ہوئے ہیں باطنی والدین ہمارے احساسات پر اثر مرتب کرتے ہیں ان کی بڑی قدرت اور طاقت ہے اگر بچپن میں ایسی ماں ملی جو صبح سویرے اٹھ کر گرم ناشتہ تیار کرتی تھی تو اسوقت آپ بھی ویسا ہی عمل کرنے میں رغبت دکھائیں گے باطنی والدین اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ ہم بچوں کی نسبت مہربان رہیں سختی نہ کریں یا بر عکس سخت روش اختیارکریں وہ ہمیں منطقی محدودیت کی نسبت غافل اور نابینا بنا دیتے ہیں اگر آپ کے ماں باپ آپ سے بچپن میں محبت اور مہربانی سے پیش نہیں آئے تو ممکن ہےآپ کا عمل اس کے برعکس ہواورآپ اپنے بچوں پر حد سے زیادہ مہربان ہوں یہ بہت اہم بات ہے کہ ہم جان لیں کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ باطنی والدین کے عنوان سے گفتگو کررہے ہیں یا ایسے باپ کے عنوان سے جسے ہم نے خود انتخاب کیا ہے کس وقت ہم اپنے بچپن کی محرومیت کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کس وقت اپنی شخصیت کے طور پران سے گفتگو کرتے ہیں
باطنی والدین میں تبدیلی ایجاد کی جاسکتی ہے اور اس کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے فقط ان کو پہچاننے اور انھیں کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے

باطنی والدین کی شناخت:

بہترین والد بننے کے لئےکچھ وقت باطنی والدین کی شناخت پر صرف کرنا چاہیے ماضی کے بہترین واقعات کو یاد کرناچاہیےاور اگر اکثر وقت بد رفتار والدین یاد آتے ہیں تو کوئی مشکل نہیں ہے اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ زندگی کے ایک دور میں وہ تھے تاکہ تم اس وقت اچھے والدین بن سکواب جبکہ محدودیت کی افادیت سمجھ میں آگئی ہے تو گھر میں ایسے قوانین بنائےجائیں جن پر ہمیشہ عمل درآمد ہوتا رہے اور عمل نہ کرنے کی صورت میں تنبیہ کو مد نظر رکھنا چاہیے اورتنبیہ جھاڑو لگانا اور برتن دھونا بھی ہوسکتی ہے

ہر مرحلے میں ایک روش کو تبدیل کیجئے:

بچوں کی رفتار کو بدلنے کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں :
1 : بچے کے ساتھ گفتگو کا انداز۔
2 : رفتار بدلنے کے اہداف کا مشخص ہونا۔
بچوں کی رفتار بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے ساتھ اس طرح گفتگو کی جائے کہ انھیں شرمندگی کا احساس نہ ہو اگر بچہ یہ احساس کرے کہ آپ کو اس کے تعاون کی ضرورت ہے تو بچہ آپ کے دستور اور حکم کے بجائے آپ کے ساتھ بھر پور تعاون کرنے کے لئے تیار ہوجائے گا مجھے تم سے پانچ منٹ تک کچھ ضروری گفتگو کرنی ہے کیا تمہارے پاس وقت ہے ؟ میں کافی عرصے سے گھر میں شور و غل کے بارے میں فکر کررہا ہوں اور اس سلسلے میں تمہارے تعاون کی ضرورت ہے گھر کی کچھ ذمہ داریاں تم اپنے دوش پر لے لو ،گندے کپڑوں کو اکٹھا کرکے ایک جگہ رکھو ، اپنی الماری کی کتابوں کو مرتب رکھو، میں جانتا ہوں تم یہ کام کرسکتے ہو اگر بچے کو ڈراؤ گے کہ اگر تو نے گندے لباس کو ایک جگہ جمع نہ کیا تو میں تجھے ایک ہفتے تک جیب خرچہ نہیں دوں گا تو اس کا غلط اورالٹا اثر پڑے گا اور بچوں کے ساتھ اس لب لہجے میں گفتگو نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دھمکی آمیز گفتگو کا اثر وقتی ہوتا ہے نیزگھر کے قوانین پر عمل کرنے کے لئے بچے کو کافی فرصت دینی چاہیے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو خزب اور اچھی طرح نبھا سکے ۔
 

 

نہضت اسی طرح باقی رہے گی!

ہماری قوم ایسی ہے۔ اگر بعد میں بھی ہماری کچھ شخصیات خدا نخواستہ، شہید ہو جائیں، تو ہماری قوم بھی یہی قوم رہے گی اور ہماری نہضت بھی اسی طرح قائم رہے گی۔

 

ایسا انقلاب کبھی ناکام نہیں ہوتا!

اہم بات یہ ہے کہ جب کوئی کام لوگوں کے لیے نہیں بلکہ محض خدا کے لیے کیا جائے تو ایسا کام کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ وہ ملک اور وہ قوم شخصیات کے چلے جانے سے تباہی کا شکار ہوتی ہے جن کا بھروسہ اور لگاؤ شخصیات پر ہوتا ہے۔

 

افراد کے چلے جانے کے بعد بھی خدا موجود ہے!

ایک ایسا ملک جس نے دل خدا سے لگایا ہے، خدا کے لیے قیام کیا ہے اور اللہ اکبر کی پکار کے ساتھ اسکے بوڑھے اور جوان، مرد و خواتین میدان میں حاضر ہوئے اور اس نہضت کو اور اس انقلاب کو برپا کیا، ایسی قوم اسی طرح باقی رہے گی، کیونکہ خدا موجود ہے۔ اگر دوسرے ہم میں نہیں ہیں تو خدا موجود ہے۔

 رہبر معظم انقلاب کے نمائندے حجت الاسلام محمد حسن اختری نے لبنان میں شہید ہاشم صفی الدین کی تشییع جنازہ کے اجتماع سے خطاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم رہبر معظم کی جانب سے لبنان اور مزاحمت سے اظہار ہمدردی لئے شہدائے مقاومت کی تشییع جنازہ میں حاضر ہوئے ہیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ ہم رہبر معظم کا تعزیتی پیغام پہنچانے نیز ایرانی قوم کی جانب سے تعزیت کے لئے اس اجتماع میں شریک ہیں۔

حجۃ الاسلام اختری نے مزاحمت کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کی وسیع حمایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم لبنان اور مزاحمت کے ساتھ کھڑے رہیں گے کیونکہ یہ الہی راستہ ہے۔ 

انہوں نے تاکید کی کہ مزاحمت خدا کی مدد سے فتح یاب ہوگی اور یہ الہی وعدہ ہے۔

(120 نحل ) بیشک ابراہیم ایک مستقل امّت اور اللہ کے اطاعت گزار اور باطل سے کترا کر چلنے والے تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے 

ستمبر 2024ء کے آخری ایام میں جب صیہونی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی تیاری کر رہے تھے، بین الاقوامی میڈیا شمالی محاذ پر ممکنہ جنگ بندی کی خبریں دے رہا تھا۔ لبنانی رہنما امریکی ثالثی سے مثبت نتائج کی امید کررہے تھے لیکن اسی دوران حزب اللہ اور سپاہ پاسداران کے اعلی حکام نے بیروت میں ایک خفیہ اجلاس بلایا تاکہ میدان جنگ کی تازہ صورتحال کا جائزہ لیا جاسکے۔ نتن یاہو نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر سے چند لمحے قبل اسرائیلی فوج کو سید حسن نصراللہ اور حزب اللہ کے دیگر کمانڈرز پر حملے کا حکم دیا۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے بیروت میں حزب اللہ کے مرکزی دفتر پر بمباری کی تاکہ یقینی طور پر حزب اللہ کی قیادت کو ختم کیا جاسکے۔ اگرچہ اسرائیلیوں کا خیال تھا کہ اس حملے سے حزب اللہ کی طاقت ختم ہوجائے گی مگر یہ حملہ درحقیقت لبنانی مزاحمت میں ایک نئی روح پھونکنے کا سبب بنا۔ حسن نصراللہ کی شہادت نے حزب اللہ کو مزید متحد اور مضبوط کردیا، اور لبنانی عوام میں ان کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا۔

طالب علم سے حزب اللہ کی قیادت تک
چالیس سال قبل جب اسرائیلی ٹینک فلسطینی آزادی کی تنظیم کے خلاف کارروائی کے بہانے بیروت کی سڑکوں پر گشت کر رہے تھے، لبنانی مجاہدین کی ایک جماعت تحریک امل سے وجود میں آئی، جو بعد میں لبنان کی اسلامی مزاحمت حزب اللہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ لبنانی مجاہدین نے انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینی (رح) کی فکر سے متاثر ہو کر ولایت فقیہ کے نظریے کو اپنایا اور غیر ملکی قابضین کے خلاف مسلح جدوجہد کا عزم کیا۔ 23 اکتوبر 1983ء کو بیروت میں قابض امریکی فوجی مرکز پر ہونے والے حملے میں 241 امریکی میرینز اور 58 فرانسیسی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس وقت جب امریکی، فرانسیسی اور اسرائیلی فوجی بیروت کی سڑکوں پر گشت کر رہے تھے، لبنانی مجاہدین نے اپنے محدود وسائل کے باوجود دشمنوں کے انخلا کی بنیاد رکھ دی، جو 21ویں صدی کے آغاز تک مکمل ہوا۔ اس وقت مقاومت کے حامیوں کو امید ہوگئی کہ حزب اللہ ایک ناقابل تسخیر قوت بن چکی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے، شہید عباس موسوی کے بعد، ایک چھوٹے سے گوریلا گروہ کو لبنان کی سب سے بڑی سیاسی و عسکری طاقت میں بدل دیا۔

لبنان کی ریاست سازی میں شہید نصر اللہ کا کلیدی کردار
لبنان کی تعمیر کے عمل میں شہید سید حسن نصراللہ نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی قوم پرستی اور لبنان کی سلامتی سے غیر متزلزل وابستگی کا سب سے نمایاں مظاہرہ طوفان الاقصی کے دوران سامنے آیا۔ جب عزالدین قسام بریگیڈ نے اسرائیل کے خلاف غیر متوقع آپریشن کیا، تو مزاحمتی محور کے بعض رہنماؤں نے حزب اللہ سے شمالی محاذ پر براہ راست مداخلت کا مطالبہ کیا۔ اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے سید حسن نصراللہ کو لبنانی پارلیمان کی سربراہی اور 54 بلین ڈالر امداد کی پیشکش کی، بشرطیکہ وہ فلسطینی محاذ سے دور رہیں۔ تاہم سید حسن نصراللہ نے سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مدبرانہ راستہ اختیار کیا۔ ان کی حکمت عملی نے لبنان کے اندر مختلف سیاسی و فکری حلقوں میں مزاحمت کے نظریے کی مقبولیت کو مزید تقویت دی۔ آج لبنان میں مختلف مذاہب اور سیاسی نظریات سے وابستہ لوگ روزمرہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر شہید نصراللہ کو ایک قومی شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

محور مقاومت خطے کی سلامتی کی ضامن
سید حسن نصر اللہ اور اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد نتن یاہو نے غزہ سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا منصوبہ عملی بنانے پر زور دینا شروع کیا۔ سعودی عرب نے اپنے روایتی موقف کے تحت دو ریاستی فارمولے پر تاکید کی تو نتن یاہو نے انتہائی جسارت کے ساتھ کہا کہ فلسطینیوں کے ساتھ اتنی ہمدردی ہے تو ان کو سعودی عرب میں زمین دے کر بسائیں۔ حالیہ عرصے میں صہیونی حکام کے بیانات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مشرق وسطی کی سلامتی کے لیے شہید حسن نصر اللہ جیسے رہنماؤں کی کس قدر ضرورت ہے۔ اگر حزب اللہ جیسی تنظیمیں مقاومت نہ کریں تو عرب ممالک خطے کی جغرافیائی سرحدیں بدلنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔

حاصل سخن
آج، اتوار 23 فروری کو، لبنان کے لوگ اور تمام مقاومت کے حامی سید حسن نصر اللہ کی تشییع جنازہ میں شرکت کی جو نہ صرف لبنان بلکہ علاقے کی سلامتی کا ضامن بھی تھا۔ آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں یہ بات ثابت ہوگی کہ شہید سید حسن نصر اللہ نے لبنان کی خود مختاری اور سالمیت کی حفاظت کی، بلکہ عربی-اسلامی عزت و شرافت کو بھی غاصب صہیونی رژیم کے سامنے برقرار رکھا۔ 23 فروری کا دن حزب اللہ کی لبنانی سیاست میں واپسی اور مشرق وسطی میں مقاومت کے دوبارہ عروج کا نکتہ آغاز بن گیا ہے۔

خصوصی تحریر

ستائیس ستمبر سے لے کر تئیس فروری تک ہم نے ہر لمحہ سخت تکلیف اور غم میں گذارا ہے، یہ ایام لگ بھگ پانچ ماہ بنتے ہیں، ان پانچ مہینوں میں سید مقاومت کی شہادت کی خبر نے ایسا رنجیدہ اور دکھی و مغموم رکھا ہے کہ اس کا اظہار ممکن نہیں۔ ان کیفیات کو الفاظ کے معانی نہیں پہنائے جا سکتے، جن سے ہم گذرے ہیں۔ آنسوئوں کیساتھ پانچ مہینوں کے ہر لمحہ میں ان کی یاد نے جیسے آنکھوں کو سیلاب زدہ کر دیا تھا۔ جب بھی خیال آتا، ان کی تصویر سامنے آتی، ان کی کوئی تقریر کا کلپ سنتے اور ان کی مانوس آواز، دلربا لہجہ کانوں میں پڑتا تو آنسوءوں کی جھڑی لگ جاتی۔ ہاں۔۔ ہم نے۔۔ سید کی جدائی میں رونے میں قطعاً شرم نہیں کی۔ بلا شبہ ہم نے سید کیلئے برملا گریہ کیا، تنہائی میں کیا، دوستوں کیساتھ محفلوں میں کیا۔ اپنوں اور غیروں کے سامنے تذکرہ کرتے ہوئے کیا، ہم نے انہیں سوچتے ہوئے گریہ کیا، ان کو دیکھتے ہوئے آنسو بہائے۔

لکھتے ہوئے ہمارے گالوں پر بہنے والے آنسو ان کے "وعد الصادق" ہونے کی گواہی دیتے رہے۔ یہ پانچ ماہ ہم نے جس کرب اور درد سے گذارے، اس میں دل کے کسی خانے میں اک آس، اک امید، اک خواہش بھی موجود رہی۔ اے کاش۔۔۔ سید زندہ ہوں، سید محفوظ ہوں، سید یک دم اپنے توانا وجود کیساتھ ظاہر ہوں اور دنیا کو ایک معجزہ کی کیفیت میں ورطہء حیرت میں ڈال دیں۔ مگر۔۔ پھر وہ دن آیا، جب حزب اللہ نے ان کی تشیع جنازہ اور تدفین کی تاریخ مقرر کی۔ تب امید دم توڑ گئی، آس کے دیئے کی لو ماند پڑتی پڑتی بالآخر بجھ ہی گئی اور یقین ہو چلا کہ "سید" اپنے فانی وجود کیساتھ شاید کبھی نظر نہیں آسکیں گے۔ تب سے پوری دنیا کی طرح ہمیں بھی سید کے جنازے و تدفین کے دن کا انتظار تھا۔ گذشتہ روز 23 فروری کا دن اس عنوان سے تاریخی تھا کہ اس روز ایک عظیم قائد، ایک عالمی مبارز، مقاوم اور مزاحمتی شخصیت کا جنازہ اپنی شان و شوکت اور عظمت و شرف کیساتھ ہونا قرار پایا تھا۔

سید حسن نصراللہ بلا شک و شبہ اس صدی کے ایک دیو مالائی کردار کی حیثیت رکھتے تھے، ان کا جنازہ بھی ایک لازوال اور بے مثال ہونا چاہیئے تھا، وہ مزاحمت کا ایسا استعارہ بنے کہ عرب و عجم نے انہیں اپنے دل میں بسا لیا، یہ بہت عرصہ کے بعد ہوا تھا کہ ایک پیرو اہلبیت، ایک عاشق اہلبیت، ایک سید عزیز، ایک کربلا کے فرزند کو امت نے اپنے قلوب میں بسایا۔ وگرنہ تعصب کی اندھے گڑھے میں گرے ہوئے بہت بڑے بڑے نام بھی اپنے خبث باطن کو ظاہر کر دیتے ہیں۔ اس کی مثال بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی ذات مقدسہ ہے، جنہیں متعصب اور جاہل لوگوں نے فقط ایک شیعہ شخصیت کے طور پر پہچانا، ان کے لافانی و آفاقی کردار کی ہمیشہ نفی کی، جبکہ وہ ایک آفاقی، الہیٰ انسان تھے، جو صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ بقول شاعر
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انساں نکلتا ہے

سید مقاومت، سید حسن نصراللہ اپنے کردار، اپنے عمل، اپنے سچے وعدوں، اپنے اخلاص، اپنے افکار، اپنے خیالات، اپنے اظہارات، اپنی جدوجہد، اپنے احساسات کی وجہ سے صدیوں بعد سامنے آنے والی شخصیت کے مالک تھے۔ لہذا ان کا جنازہ بھی اتنا ہی بلند شان اور باشکوہ ہونا چاہیئے تھا۔ ایسے موقع پر جب اسرائیل حماس کے سات اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ کے بعد سے مسلسل ہزیمت اٹھا رہا ہے اور جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے مراحل میں اسے روز شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے اور لبنان میں اس کی جارحیتوں کے خلاف حزب اللہ نے اسے بہت بڑی ضربیں لگائی ہیں، بالخصوص اس کے دفاعی نظام کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں جب اسرائیل شام جیسے ملک پر قابض ہو چلا ہے اور نام نہاد مسلمان اسے قبول کرتے ہوئے خطے کا چودھری قبول کرتے ہوئے اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ ایسے میں مقاومت لبنان کی طرف سے سید مقاومت کا پرشکوہ جنازہ درحقیقت اس قوت کا اظہار ہے، جس کی بنیاد پر حزب اللہ اپنے دشمنوں کو دھول چٹاتی آرہی ہے اور اپنے عظیم رہنماوں کی قربانیوں سے عبارت داستان شجاعت کے اوراق لکھتی آرہی ہے۔

سید مقاومت کا جنازہ اس داستان شجاعت کی کتاب کا وہ سر ورق ہیں، جن کے جنازے سے بھی دشمن بہت گھبرایا ہوا تھا۔ اس نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے، جمہوری اسلامی ایران کی بیروت پر پروازوں پر پابندی لگوائی، اسرائیل جسے 80 ٹن سے زیادہ بارود کے ملبے تلے دبا چکا تھا اور اسے سید حسن نصراللہ کی لاش ملنے کی امید نہیں تھی۔ کجا ان کی میت کو شایان شان طریقہ سے الوداع کہنا اور دنیا کے بیسیوں ممالک کے مقاومت پسند رہنماوں اور شخصیات کی بھرپور شرکت، اپنے اظہارات اور شہید مقاومت سے اپنی وابستگی اس عہد کیساتھ کہ ہم اس عہد کو نبھائیں گے، اس راستے کو جاری رکھیں گے، اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے ہر قربانی پیش کریں گے، جس کیلئے آپ نے اپنی جان نچھاور کی، وہ کردار کبھی نہیں مرے گا، جس کو دیکھ کر اسرائیل نے آپ کو ہم سے جدا کیا، وہ کردار ہر دور میں زندہ رہیگا، فرزندان روح اللہ میں سے ہر دور میں یہ کردار ادا کرنے والے سامنے آتے رہینگے۔

شہید مقاومت کے جنازہ میں دنیا بھر سے شریک ہونے والے بھاری وفود کیساتھ اہل لبنان کی اپنے خانوادوں، اپنے بچوں، اپنے بوڑھوں بالخصوس ہر طبقہ زندگی و مکتب و مذہب کی نمائندگی اور لبیک یاحسن نصراللہ و "انا علی العھد" کے شعار بہت ہی متاثر کن ماحول کا تاثر دے رہے تھے، جبکہ اسرائیل کا اس دوران جنگی طیاروں کے غول میں نیچی پرواز کرتے ہوئے خوف و دہشت پھیلانے کا خام خیال بھی باطل ثابت ہوا کہ لوگ ان جنگی طیاروں کو دیکھ کر پر زور اور پرجوش انداز میں لبیک یا نصراللہ کے نعرے لگاتے ہوئے مکے لہرا رہے تھے۔ بعض تو جوتے بھی دکھا رہے تھے، یعنی تمہارے بموں کو ہم جوتوں کی نوک پر رکھتے ہیں۔ یہ وہ امت ہے، جسے امت حزب اللہ کہا جاتا ہے، جسے فرزندان خمینی کہا جاتا ہے۔ یہ فرزندان انقلاب اسلامی ہیں، یہ امام سید موسیٰ صدر کے لگائے ہوئے پودے کی مضبوط جڑوں جن میں ہزاروں پاکباز شہداء کا پاک لہو سینچا گیا ہے، ان کا قبیلہ ہے۔ اس قبیلہ کا ہر فرد منفرد کردار کا حامل ہے۔ بقول شاعر
میرے قبیلہء سرکش کا تاجور ہے، وہ شخص
بڑھے جو دار کی جان پیغمبروں کی طرح

گذشتہ روز جنازے کے اجتماع میں ہم نے آہوں، سسکیوں، الم و درد اور غموں سے بھرپور ملت لبنان، امت حزب اللہ کو پرعزم، پرجوش اور متعہد دیکھا، ان کو دیکھ کر ہر ایک کو حوصلہ ہوا، ہر ایک نے اس عہد کو دہرایا اور سید کیساتھ وفا کی حلف برداری کی، ہم مغموم، دکھی اور کرب و الم کی کیفیات میں شہید کی ذات کیساتھ اس عزم کو دہراتے ہیں کہ ان کا راستہ زندہ رکھیں گے۔ ان کی جلائی شمع مزاحمت کو اپنے لہو سے روشن رکھیں گی اور کربلا والوں کی طرح کبھی بھی پیٹھ نہیں دکھائیں گے۔
اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کیساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
 تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
 
حزب اللہ کے شہید سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی بیٹی سیدہ زینب نصراللہ نے اپنے والد کی نجی اور خاندانی زندگی کے کئی پوشیدہ پہلوؤں کو اجاگر کیا اور انہیں اپنا فخر قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ بچپن میں انہیں دیگر بچوں کی طرح اپنے والد کی رفاقت حاصل نہیں تھی۔ میرے والد کی مصروفیات کی وجہ سے میں ان کے ساتھ وہ تعلق قائم نہ کر سکی جو عام طور پر بیٹیوں کا اپنے والد سے ہوتا ہے، لیکن میری والدہ نے ہماری تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ والد کے اکثر غیر حاضر ہونے کے باوجود تربیتی اصولوں میں ان کے ساتھ ہم آہنگ تھیں۔

زینب نصراللہ نے مزید کہا کہ سید حسن نصراللہ نے اپنی زندگی میں کچھ اصولی حدیں مقرر کی تھیں اور وہ انہی کی سختی سے پاسداری کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیں انہی اصولوں پر تربیت دی۔ وہ ایک مثالی انسان تھے اور ان کا اخلاق اہل بیت علیہم السلام کے اخلاق کے عین مطابق تھا۔ میرے والد انتہائی شفاف، جذباتی اور مہربان شخصیت کے حامل تھے۔ وہ ہم پر کبھی کچھ مسلط نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کی نصیحتیں اتنی مؤثر ہوتیں کہ ہم خود بخود قائل ہو جاتے۔

زینب نصراللہ نے اپنے بھائی شہید ہادی کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد نے ان پر کبھی جہاد کا دباؤ نہیں ڈالا، تاہم ہادی کی شہادت نے نہ صرف ہمارے اندر مزید حوصلہ اور یقین پیدا کیا بلکہ ہمیں شہداء کے خانوادوں کے قریب کردیا۔

حزب اللہ لبنان کے شہید سیکرٹری جنرل کی بیٹی زینب نصراللہ نے اپنے اہل خانہ کی نجی محفلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نواسے ہمیشہ ماہ رمضان کا انتظار کرتے تھے کیونکہ اس مقدس مہینے میں پورے خاندان کے لیے اجتماعی افطار کا اہتمام کیا جاتا تھا۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ سیکیورٹی پابندیاں صرف ان کے والد کی زندگی تک محدود نہیں تھیں، بلکہ شہادت کے بعد بھی ان کے خاندان کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان کے عارضی مزار کی زیارت سے روک دیا گیا۔

زینب نصراللہ نے اپنے شہید شوہر حسن قصیر کو بھی یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی جہادی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ وہ نوجوانی سے ہی ایک مجاہد تھے اور اپنی زندگی کا اختتام شہادت پر کیا۔ وہ ہمیشہ محاذ جنگ کی صف اول میں موجود رہے۔ حسن قصیر نے متعدد فوجی آپریشنز میں شرکت کی، جن میں 1999 میں بیت یاحون پر حملے کی معروف کارروائی بھی شامل تھی۔

زینب نصراللہ نے اپنے شوہر اور والد کے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے شوہر سید حسن نصراللہ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ یہ محبت محض داماد ہونے کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ ایک قائد اور کارکن کے درمیان خلوص اور ایثار کا جذبہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ والد کی جدائی کا غم ناقابلِ بیان ہے۔ ہم عوام کے درد کو سمجھتے ہیں جو انہیں کھونے کے بعد محسوس کر رہے ہیں، لیکن ذرا سوچیں کہ ان کے اہلِ خانہ کے لیے یہ جدائی کیسی ہوگی؟

زینب نصراللہ نے اپنے والد کی عوام سے گہری وابستگی کے بارے میں کہا کہ وہ عوام کو اپنے خاندان کی طرح سمجھتے تھے اور ہمیشہ خود کو ان کے لیے ذمہ دار محسوس کرتے تھے۔

حزب اللہ لبنان کے شہید سیکرٹری جنرل کی بیٹی زینب نصراللہ نے اپنے والد کے ساتھ آخری رابطے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ عاشورا سے قبل ہوا تھا۔ میرے والد ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ ہمیں لوگوں کو اللہ سے قریب کرنا چاہئے۔ وہ نہ صرف عوام کے معاشی اور سماجی حالات کی بہتری کے لیے کوشاں رہتے، بلکہ ان کے ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی بے حد محنت کرتے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سید حسن نصراللہ نے اپنی آخری ملاقات میں شہید سید عباس موسوی کی ایک نصیحت کو دہرایا، جو وہ ہمیشہ عوام سے کہا کرتے تھے کہ ہم خلوص اور صدق دل سے آپ کی خدمت کرتے ہیں۔

یہ جملہ ہمیشہ ان کے والد کے پیش نظر رہا، اور وہ عوام کی ضروریات کو پورا کرنے میں کبھی غافل نہ ہوئے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی تقریریں ہر عمر، ہر طبقے اور ہر ثقافت کے افراد کے لیے مؤثر اور جامع ہوتی تھیں۔

زینب نصراللہ نے کہا کہ ان کے والد امت مسلمہ کے لئے باپ کی ہمدردی رکھتے تھے اور ان کی شہادت کے بعد امت خود کو یتیم محسوس کررہی ہے۔ سید حسن نصراللہ اور عوام کے درمیان محبت کا رشتہ اتنا گہرا تھا کہ شاید ان کا فراق لوگوں کے لیے اپنے بچوں، عزیزوں اور شریک حیات کی جدائی سے بھی زیادہ دردناک ہو۔

انہوں نے کہا کہ ان کے والد امام موسی صدر سے گہرا فکری اور روحانی تعلق رکھتے تھے اور ان کو اپنی زندگی کے ہر پہلو میں بطور نمونہ دیکھتے تھے۔ اسی تعلق کی بدولت میرے والد بھی قیادت، ایمان اور انسانیت کا ایک منفرد نمونہ بنے۔

زینب نصراللہ نے بتایا کہ ان کے والد شہادت تک تحصیل علم میں مصروف رہے اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے درس خارج کا علم حاصل کرتے رہے، جو حوزہ علمیہ میں اعلی ترین علمی سطح سمجھی جاتی ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ فتح حاصل ہوچکی ہے لیکن ہم خود کو یتیم محسوس کرتے ہیں۔ عوام بھی یہی محسوس کرتے ہیں اور آج بھی ان کے منتظر ہیں کہ وہ آئیں اور اس فتح کی خوشخبری انہیں خود دیں۔
https://taghribnews.com/vdccx4qe42bqep8.c7a2.html