
سلیمانی
ماہ شعبان کی فضیلت واعمال
ماہ شعبان کی فضیلت واعمال
معلوم ہونا چاہئے کہ شعبان وہ عظیم مہینہ جو حضرت رسول سے منسوب ہے حضورصلىاللهعليهوآلهوسلم اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں َ سے متصل فرماتے تھے ۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینہ میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کیلئے واجب ہو جاتی ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
جب شعبان کا چاند نمودار ہوتا تو امام زین العابدین علیہ السلام تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب !
جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے ؟
یہ شعبان کا مہینہ ہے اور رسول ﷲ فرمایا کرتے تھے کہ یہ شعبان میرا مہینہ ہے۔
پس اپنے نبی صلىاللهعليهوآلهوسلم کی محبت اور خدا کی قربت کیلئے اس مہینے میں روزے رکھو ۔
اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی ابن الحسین علیہما السلام کی جان ہے میں نے اپنے پدر بزرگوار حسین ابن علی علیہما السلام سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے اپنے والد گرامی امیر المومنین علیہ السلام سے سنا کہ :
جو شخص محبت رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم اور تقرب خدا کیلئے شعبان میں روزہ رکھے تو خدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کریگا قیامت کے دن اس کو عزت و احترم ملے گا اور جنت اس کیلئے واجب ہو جائے گی ۔
شیخ نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزہ رکھنے پر آمادہ کرو ! میں نے عرض کیا آپ پر قربان ہو جاؤں اس میں کوئی فضیلت ہے ؟
آپ عليهالسلام نے فرمایا ہاں اور فرمایا رسول ﷲ جب شعبان کا چاند دیکھتے تو آپ کے حکم سے ایک منادی یہ ندا کرتا :
اے اہل مدینہ!
میں رسول خدا کا نمائندہ ہوں اور ان کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے ۔ خدا کی رحمت ہو اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے ۔ یعنی روزہ رکھے۔
صفوان کہتے ہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ :
امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے تھے جب سے منادی رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم نے یہ ندا ء دی اس کے بعد شعبان کا روزہ مجھ سے قضا نہیں ہوا اور جب تک زندگی کا چراغ گل نہیں ہو جاتا یہ روزہ مجھ سے ترک نہیں ہوگا
نیز فرمایا کہ شعبان اور رمضان دو مہینوں کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔
اسماعیل بن عبد الخالق سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا، وہاں روزۂ شعبان کا ذکر ہوا تو حضرت نے فرمایا :
ماہ شعبان کے روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے حتی کہ نا حق خون بہانے والے کو بھی ان روزوں سے فائدہ پہنچ سکتا ہے اور بخشا جا سکتا ہے۔
ماخوذ از کتاب مفاتیح الجنان
اخلاق اورکردار حسینی کے چند نمونے
کرم حسین کی ایک مثال
امام فخرالدین رازی تفسیرکبیرمیں زیرآیة ”علم آدم الاسماء کلہا“ لکھتے ہیں کہ ایک اعرابی نے خدمت امام حسین میں حاضرہوکرکچھ مانگا اورکہاکہ میں نے آپ کے جدنامدارسے سناہے کہ جب کچھ مانگناہوتوچارقسم کے لوگوں سے مانگو :
۱ ۔ شریف عرب سے
۲ ۔ کریم حاکم سے
۳ ۔ حامل قرآن سے ۴ ۔ حسین شکل والے سے ۔
میں آپ آپ میں یہ جملہ صفات پاتاہوں اس لیے مانگ رہاہوں آپ شریف عرب ہیں آپ کے ناناعربی ہیں آپ کریم ہیں ،کیونکہ آپ کی سیرت ہی کرم ہے، قرآن پاگ آپ کے گھرمیں نازل ہواہے آپ صبیح وحسین ہیں، رسول خداکاارشاد ہے کہ جومجھے دیکھناچاہے وہ حسن اورحسین کودیکھے، لہذا عرض ہے کہ مجھے عطیہ سے سرفرازفرمائیے، آپ نے فرمایاکہ جدنامدارنے فرمایاہے کہ ”المعروف بقدرالمعرفة“ معرفت کے مطابق عطیہ دیناچاہئے، تومیرے سوالات کاجواب دے ۔ بتا:
سب سے بہترعمل کیاہے؟
اس نے کہااللہ پرایمان لانا۔ ۲ ۔
ہلاکت سے نجات کاذریعہ ہے؟
اس نے کہااللہ پربھروسہ کرنا۔
۳ ۔ مردکی زینت کیاہے؟
کہا ”علم معہ حلم“ ایساعلم جس کے ساتھ حلم ہو، آپ نے فرمایادرست ہے اس کے بعدآپ ہنس پڑے۔ ورمی بالصرةالیہ اورایک بڑاکیسہ اس کے سامنے ڈال دیا۔
(فضائل الخمسة من الصحاح الستہ جلد ۳ ص ۲۶۸) ۔
امام حسین کی نصرت کے لیے رسول کریم کاحکم
انس بن حارث کابیان ہے جوکہ صحابی رسول اوراصحاب صفہ میں سے کہ میں نے دیکھاکہ حضرت امام حسین علیہ السلام ایک دن رسول خداکی گودمیں تھے اوروہ ان کوپیاررکررہے تھے ،اسی دوران میں فرمایا،
اس حدیث نبوی ؐ کی اہمیت کے پیش نظر ضروری سمجھتے ہیں کہ اسے کامل سند کے ساتھ ذکر کردیا جائے:
’’سعد(سعید)بن عبدالملک بن واقد الحرانی بن عطا بن مسلم الخقاف عن اشعث بن سلیم عن ابیہ قال سمعت انس بن حارث یقول:سمعت رسول اللہؐ یقول:ان ابنی ھذا(یعنی الحسین)یُقتل بارض یقال لھا کربلا فمن شھد منکم فلینصرہ۔‘‘
قال(العسقلانی):’’فخرج انس بن الحرث الی کربلا فقتل مع الحسین۔‘‘
صاحب فرسان نے ابن عساکر سے یوں نقل کیا ہے :
’’وقال ابن عساکر انس بن الحرث کان صحابیاً کبیرا ممن رأی النبیؐ وسمع حدیثہ وذکرہ عبدالرحمٰن السلمی فی اصحاب الصفہ۔۔۔۔۔۔‘‘(فرسان الھیجاء، محلاتی، ص۳۷۔)
«انَّ ابْنى هذا يُقْتَلُ فى ارْضٍ يُقالُ لَهَا الْعِراقُ فَمَنْ ادْرَ کَهُ فَلْيَنْصُرْهُ.»“
کہ میرا یہ فرزندحسین اس زمین پرقتل کیاجائے گاجس کانام کربلاہے دیکھوتم میں سے اس وقت جوبھی موجودہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مددکرے۔
راوی کابیان ہے کہ اصل راوی اورچشم دیدگواہ انس بن حارث جوکہ اس وقت موجودتھے وہ امام حسین کے ہمراہ کربلامیں شہیدہوگئے تھے(اسدالغابہ جلد ۱ ص ۱۲۳ و ۳۴۹ ،اصابہ جل ۱ ص ۶۸ ،کنزالعمال جلد ۶ ص ۲۲۳ ،ذخائرالعقبی محب طبری ص ۱۴۶) ۔
امام حسین علیہ السلام کی عبادت
علماء ومورخین کااتفاق ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام زبردست عبادت گزارتھے آپ شب وروزمیں بے شمارنمازیں پڑھتے تھے اورانواع واقسام عبادات سے سرفرازہوتے تھے آپ نے پچس حج پاپیادہ کئے اوریہ تمام حج زمانہ قیام مدینہ منورہ میں فرمائے تھے، عراق میں قیام کے دوران آپ کواموی ہنگامہ آرائیوں کی وجہ سے کسی حج کاموقع نہیں مل سکا۔ (اسدالغابہ جلد ۳ ص ۲۷) ۔
امام حسین کی سخاوت
مسندامام رضا ص ۳۵ میں ہے کہ سخی دنیاکے لوگوں کے سرداراورمتقی آخرت کے لوگوں کے سردارہوتے ہیں امام حسین سخی ایسے تھے جن کی نظیرنہیں اورمتقی ایسے تھے کہ جن کی مثال نہیں، علماء کابیان ہے کہ اسامہ ابن زیدصحابی رسول علیل تھے امام حسین انھیں دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے توآپ نے محسوس کیاکہ وہ بے حدرنجیدہ ہیں، پوچھا،ائے میرے ناناکے صحابی کیابات ہے”واغماہ“ کیوں کہتے ہو،عرض کی مولا، ساٹھ ہزاردرہم کامقروض ہوں آپ نے فرمایاکہ گھبراو نہیں اسے میں اداکردوں گا چنانچہ آپ نے ان کی زندگی میں ہی انہیں قرضے کے بارسے سبکدوش فرمادیا۔
ایک دفعہ ایک دیہاتی شہرمیں آیا اوراس نے لوگوں سے دریافت کیاکہ یہاں سب سے زیادہ سخی کون ہے؟
لوگوں نے امام حسین کانام لیا، اس نے حاضر خدمت ہوکربذریعہ اشعارسوال کیا،حضرت نے چارہزاراشرفیاں عنایت فرمادیں،اس نے شعیب خزاعی کاکہناہے کہ شہادت امام حسین کے بعدآپ کی پشت پرباربرداری کے گھٹے دیکھے گئے جس کی وضاحت امام زین العابدین نے یہ فرمائی تھی کہ آپ اپنی پشت پرلادکراشرفیاں اورغلوں کے گٹھربیواؤں اور یتیموں کے گھررات کے وقت پہنچایاکرتے تھے کتابوں میں ہے کہ آپ کے ایک غیرمعصوم فرزندکوعبدالرحمن سلمی نے سورہ حمدکی تعلیم دی،آپ نے ایک ہزاراشرفیاں اورایک ہزارقیمتی خلعتیں عنایت فرمائیں (مناقب ابن شہرآشوب جلد ۴ ص ۷۴) ۔
امام شلبجی اورعلامہ محمدابن طلحہ شافعی نے نورالابصاراورمطالب السؤل میں ایک اہم واقعہ آپ کی صفت سخاوت کے متعلق تحریرکیاہے جسے ہم امام حسن کے حال میں لکھ آئے ہین کیونکہ اس واقعہ سخاوت میں وہ بھی شریک تھے۔
کتاب کا حولہ:
https://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=224
مؤلف: آل البیت محققین ذرائع: مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام
ماہ شعبان المعظم کی آمد پر حرم حضرت عباس (ع) کے نورانی منظر
پیرس سے تہران تک
یوں تو امام خمینیؒ کی زندگی کا تمام سفر ہی غیر معمولی اور بے نظیر ہے لیکن پیرس سے تہران تک کا ان کا سفر ایسا تھا جس پر دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ امام خمینیؒ یکم فروری 1979 کو اپنی طویل جلا وطنی ختم کرکے پیرس سے طہران کی طرف عازم سفر ہوئے۔ فرانس سے نکلتے وقت امام خمینیؒ رات کو ”خیابان نوفل لوشاتو“ گئے اور وہاں کے لوگوں کو خدا حافظ کہا اور ان کی زحمات پر ان سے معذرت چاہی۔ آپ نے فرانس کی عوام کے نام بھی ایک پیغام چھوڑا جس میں ان کی میزبانی کا شکریہ ادا کیا۔ اسی دوران ایک تنظیم نے ”ایسوسی ایٹڈ پریس“ کے دفتر سے رابطہ کرکے خبرداد کیا کہ اگر آیت اللہ نے پیرس سے تہران جانے کی کوشش کی تو ان کے طیارے کو تباہ کر دیا جائے گا۔ ایئر فرانس، سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر امام اور ان کے رفقاء کو تہران منتقل کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ تاہم کچھ ایرانیوں نے ایئر فرانس کے پورے طیارے کو کرائے پر لے لیا اور اس کا بیمہ بھی کروا لیا۔ صبح 5:30 بجے ایئر فرانس کے جمبو جیٹ طیارے 747 نے ٹیک آف کیا۔ تقریباً 500 کے قریب پولیس اور اسپیشل فورسز نے ”چارلس ڈی گال ایئر پورٹ“ اور اس کی طرف جانے والی سڑکوں کی حفاظت کی۔
بی بی سی کا ایک صحافی ”جان سمپسن“ جو اس طیارے میں سفر کر رہا تھا، اپنے سفر کی روداد سناتے ہوئے کہتا ہے کہ ”میں اپنے لیے اور اپنے کیمرہ مین کے لیے اس چارٹرڈ جہاز کے لیے دو ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ بی بی سی نے مجھے کہا کہ میں نہ جاؤں لیکن میرے لیے یہ موقع اپنے ہاتھ سے گنوا دینا ممکن نہیں تھا۔ البتہ مجھے جلد ہی احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی ہے۔ پرواز کے دوران امام خمینیؒ کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ایران کی فضایہ ہمارے طیارے کو مار گرانا چاہتی ہے۔ یہ جان کر جہاز میں سوار تمام صحافیوں پر کومے کی سی کیفیت طاری ہوگئی لیکن امام خمینیؒ کے وفاداروں نے نعرے لگانا شروع کر دیئے کہ ”ہم شہادت کے لیے آمادہ ہیں“۔ میں نے سفر کے دوران امام خمینیؒ کی ویڈیو بھی بنائی۔ امام فرسٹ کلاس میں اپنی سیٹ پر بیٹھے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے ہمیں نظرانداز کر رہے تھے۔ ایک صحافی نے امام خمینیؒ سے پوچھا کہ آپ اتنے عرصے کے بعد واپس اپنے وطن جاتے ہوئے کیا محسوس کر رہے؟ امام خمینی نے اس کے جواب میں بس اتنا کہا ”ھیچ“ یعنی کچھ بھی نہیں۔
ایرانی فضائیہ ہم پر حملہ کرنے سے تو باز رہی البتہ ہمارا جہاز تہران کے ہوائی اڈے کے اوپر مسلسل چکر لگاتا رہا۔ نیچے موجود حکام کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے جو طول پکڑ گئے۔ جہاز کے دائرے کی شکل میں گھومنے کی وجہ سے ہمارے دل ڈوبے جا رہے تھے۔ بالآخر ہمارا جہاز زمین پر اتر گیا۔ آیت اللہ کے استقبال کے لیے جو ہجوم اکھٹا ہوا تھا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ دلچسب بات یہ ہے کہ اس سفر کی منصوبہ بندی فرانس کے ایک ایسے گاؤں میں ہوئی تھی جہاں ٹریفک کا جام ہونا اور برف باری کا ہونا بھی ایک خبر بن جاتا ہے۔“ امام خمینیؒ کا طیارہ تقریباً آدھے گھنٹے کی تاخیر کے ساتھ 9:33 پر تہران کے ہوائی اڈے پر اترا۔ تہران کے ہوائے اڈے سے بہشت زھراء تک عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا ہجوم امام خمینیؒ کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ عوام نے امام کی آمد پر سڑکوں پر جھاڑو دیا ہوا تھا اور انہیں پانی سے دھویا ہوا تھا۔ امام کے راستے کو رنگ برنگے پھولوں سے کئی کلو میٹر تک سجایا گیا تھا۔
امام خمینیؒ کے ایئر پورٹ ہال میں داخل ہوتے ہی ایئر پورٹ اللہ اکبر کی صدا سے لرز اٹھا۔ طلباء کے ایک گروہ نے ”خمینی ای امام“ کا ترانہ گاتے ہوئے امام کی آمد کے جوش و خروش کو سامعین کے آنسووں سے جوڑ دیا۔ امام نے ہوائی اڈے پر آنے والی عوام کا شکریہ ادا کیا اور شاہ کی روانگی اور اپنی آمد کو فتح کی جانب پہلا قدم قرار دیا۔ شاہ پور بختیار کی جانب سے وعدے کے باوجود امام کی آمد کی تقریب کی براہ راست نشریات کو چند منٹوں کے بعد ہی منقطع کر دیا گیا جس کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ عوامی دباؤ پر گورنر نے تین دن کے لیے مارچ اور مظاہروں کی اجازت دے دی۔ شاہی کونسل کے دوسرے رکن ڈاکٹر علی آبادی کے مستعفی ہونے کی خبر شائع ہوئی۔ یونیورسٹی میں دھرنا دیئے ہوئے علماء نے امام کی آمد کے بعد اپنا حتمی بیان جاری کرکے اپنا دھرنا ختم کردیا۔
توقع سے زیادہ استقبال کو دیکھتے ہوئے آیت اللہ طالقانی اور آیت اللہ بہشتی نے امام خمینیؒ کو بہشت زھرا کا پروگرام منسوخ کرنے کا مشورہ دیا۔ امام نے اطمینان سے پوچھا۔” گاڑی کہاں ہے؟ میں نے بہشت زھرا جانے کا وعدہ کیا ہے۔“ امام کے سفر کے لیے بلیزر کار چند دن قبل ہی تیار کی گئی تھی۔ ڈرائیور کی سیٹ اور اور پچھلی سیٹ کے درمیان بلٹ پروف شیشہ لگایا گیا تھا۔ امام کو جب اس کا علم ہوا تو وہ اگلی سیٹ پر براجمان ہوگئے۔ استقبال کرنے والی کمیٹی نے امام کی حفاظت کے لیے کار کے علاوہ متعدد موٹر سائیکل سوار بھی تیار کئے ہوئے تھے۔ اس گروہ کے سربراہ شہید محمد بروجردی کو بعد میں ”مسیح کردستان“ اور کردستان کا بہادر کمانڈر کا لقب دیا گیا۔ بروجردی اور گروپ کے باقی ارکان رش میں پھنس گئے۔ صرف محمد رضا طالقانی جو بلیرز پر بیٹھے تھے، گاڑی کے ساتھ جا سکے۔ گاڑی ”خیابان رجائی“ کے راستے میں اچانک رک گئی۔ امام نے گاڑی سے اترنے اور بہشت زھراء تک کا باقی رستہ پیدل طے کرنے پر اصرار کیا۔
آخر ہیلی کاپٹر آگیا اور امام اس میں سوار ہوئے۔ امام خمینیؒ دوپہر دو بجے بہشت زھرا کے قطعہء 17 پر پہنچے جہاں 17 شہریور کے شہداء کو دفن کیا گیا تھا۔ سب سے پہلے قیام کے مقام پر قرآن خوانی کی گئی۔ اس کے بعد ترانہ ”برخیزید ای شہیدان راہ خدا“ گایا گیا۔ بعد ازاں امام کی آواز فضا میں گونجی جس نے حق و حقیقت کے مشتاقان اور شیفتگان کی قلب و روح کو سرشار کر دیا۔ امام کا خطاب 3:30 پر ختم ہوا۔ امام خمینیؒ کو لینے کے لیے آنے والے ہیلی کاپٹر نے تین بار اترنے کی کوشش کی لیکن ہجوم کے سبب ناکام رہا۔ حاج احمد آغا اور جناب ناطق نوری امام کو تھامے ہوئے ایک آئل کمپنی کی ایمبولینس تک لے گئے۔ ایمبولینس قم کی جانب محو سفر ہوئی۔ ہیلی کاپٹر اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ یہاں تک کہ ہیلی کاپٹر ایک مقام پر اترا اور امام اس میں سوار ہوگئے۔ ہیلی کاپٹر کا پائلٹ ہیلی کاپٹر کو اپنی مرضی کے مقام پر اتارنا چاہتا تھا لیکن اسے ”امام خمینیؒ ہسپتال“ جو انقلاب سے پہلے رضا شاہ پہلوی کے نام سے موسوم تھا، میں اترنے کا مشورہ دیا گیا۔ چنانچہ امام کا ہیلی کاپٹر اس ہسپتال کے احاطے میں اترا۔
امام کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ امام بہشت زھرا سے ”مدرسہء رفاہ“ جائیں گے لیکن امام نے اپنی بھتیجی، آقای پسندیدہ کی بیٹی کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ امام رات دس بجے تک وہاں رہے تاکہ راستہ ذرا پر سکون ہو جائے۔ ادھر مدرسہء رفاہ میں سب پریشان تھے۔ کسی کو امام کے بارے میں خبر نہ تھی۔ آخر رات کے آخری پہر کسی نے خبر دی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی ہے۔ دروازہ بند تھا۔ دروازہ کھلا اور ” امام آگئے “۔ امام مدرسے میں داخل ہونے کے بعد مدرسے کی سیڑھیوں کی طرف بڑھے اور سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئے۔ اس کے بعد امام خمینیؒ اپنے عقب میں آنے والے ہجوم کی طرف متوجہ ہوئے اور لوگوں سے چند منٹ تک گفتگو کی۔ رات اپنے اختتام کو پہنچی اور ایران کی اگلی صبح اپنے دامن میں ایک ایسا آفتاب لیے ہوئی تھی جو تمام مستضعفین عالم کے لیے ایک صبح نو کا پیغام لایا تھا۔
عید بعثت منانے کا مقصد کیا ہے؟
روز بعثت، رسول اللہ (ص) کی نبوت کے اعلان کا دن ہے۔ یہ اسلام کی تاریخ کا وہ اہم ترین دن ہے، جس میں بشریت کو ہدایت، حکمت اور انسانی اعلیٰ قدروں پر مبنی نظام ملا۔ عید مبعث منانا نہ صرف معنوی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے، بلکہ مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کے لیے بے شمار فوائد کا حامل ہے۔ عید بعثت مسلمانوں کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ نبی اکرم کی بعثت کے مقصد کو یاد کریں۔ قرآن میں بعثت کا بنیادی مقصد انسان کا تزکیہ نفس سمیت حکمت اور عدل کی تعلیم دینا قرار دیا گیا ہے۔ اس دن کو منانے سے مسلمان اپنے مقصدِ حیات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور اپنی زندگی کو نبی اکرم (ص) کی تعلیمات کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔
آج کے مسلمانوں کو دنیاوی مسائل، اخلاقی گراوٹ اور خود غرضی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ عید بعثت ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ نبی اکرم (ص) کی بعثت کا مقصد اخلاقی بلندی کو فروغ دینا اور انسانوں کو معنوی بلندی کی طرف گامزن کرنا تھا۔ اس دن مسلمانوں کو اپنے اخلاق کو نبی اکرم (ص) کے اخلاق کے مطابق ڈھالنے کی تحریک ملتی ہے۔ عید بعثت کے ذریعے مسلمانوں کو اس بات کی یاد دہانی کرائی جا سکتی ہے کہ نبی کی تعلیمات میں امت مسلمہ کے اتحاد کو خاص اہمیت دی گئی تھی۔ قرآن اور حدیث میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ آج کے دور میں جب امت مسلمہ فرقہ واریت اور تنازعات میں تقسیم ہو رہی ہے، عید بعثت اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دینے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔
عید بعثت مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کی اہمیت کا درس دیتی ہے۔ قرآن کی پہلی وحی "اقرأ" (پڑھو) کے ذریعے علم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ آج کے مسلمانوں کے لیے اس دن کو منانا اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ترقی اور کامیابی کے لیے علم حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر ترقی خواب بن کر رہ جائے گی۔ نبی اکرم (ص) کی بعثت کا ایک اہم مقصد معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا تھا۔ آپ (ص) نے ظلم کے خاتمے، غریبوں کی مدد اور یتیموں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کیا۔ آج کے دور میں عید بعثت کو منانے سے مسلمانوں کو یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ وہ معاشرتی انصاف کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
عید بعثت ہمیں دین اسلام کی جامعیت اور اس کی تعلیمات کی آفاقیت کی یاد دلاتی ہے۔ یہ دن مسلمانوں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اسلام کی معنوی، معاشرتی اور اقتصادی تعلیمات کا مطالعہ کریں اور انہیں اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں۔ نبی اکرم (ص) کی بعثت، دعوت و تبلیغ کا پیغام تھی۔ آج کے مسلمانوں کے لیے عید بعثت کا دن اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ وہ اسلام کے حقیقی پیغام کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور لوگوں کو حکمت، دلیل اور محبت کے ساتھ دین کی طرف راغب کریں۔ عید بعثت ہمیں یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم نبی اکرم (ص) کی تعلیمات کی روشنی میں عصر حاضر کے مسائل کا حل تلاش کریں۔ خواہ وہ اخلاقی مسائل ہوں، سماجی ناہمواری، یا سیاسی و اقتصادی چیلنجز، نبی اکرم ﷺ کی سیرت تمام مسائل کے حل کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
رسول خدا (ص) نے بعثت کے بعد معاشرے کی اصلاح پر زور دیا اور ہر انسان کو اس کی ذمہ داریوں کا شعور دیا۔ آج کے مسلمانوں کے لیے عید بعثت کو منانا اس بات کی یاد دہانی ہے کہ وہ اپنے سماجی فرائض کو سمجھیں اور معاشرے کی بہتری کے لیے کام کریں۔ عید بعثت کا دن مسلمانوں کو اللہ کے قریب ہونے اور اپنی معنوی حالت کا جائزہ لینے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ اس دن عبادت، ذکر اور دعا کے ذریعے مسلمان اپنی معنوی زندگی کو مضبوط کرسکتے ہیں اور اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کا عہد کرسکتے ہیں۔ عید بعثت کا حقیقی فائدہ تب ہے، جب مسلمان آنحضرت (ص) کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں عملی طور پر نافذ کریں۔ آج کے مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اس دن کو مناتے ہوئے اپنے اندر اخلاقی، روحانی اور سماجی تبدیلی پیدا کریں۔ بعثت کا پیغام صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے، جو قیامت تک انسانیت کے لیے ہدایت اور رہنمائی فراہم کرتا رہے گا۔
تحریر: محمد حسن جمالی
نبوت و رسالت
اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے سلسلہ انبیاء کا کو جاری فرمایا،تمام کے تمام انبیاء معصوم اور بڑی فضیلتوں کے مالک ہیں ۔حضرت محمد مصطفی ﷺ اللہ کی طرف سے نبی بھی ہیں اور رسول بھی ہیں اللہ تعالی ارشاد فر ماتا ہے:
((إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ . ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ٣٤)) (آل عمران ـ33 ـ34)
اللہ نے آدم علیہ السّلام,نوح علیہ السّلام اور آل ابراہیم علیہ السّلام اور آل عمران علیہ السّلام کو منتخب کرلیا ہے۔
((أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا))(مريم ـ58)
یہ سب وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے نعمت نازل کی ہے ذرّیت آدم میں سے اور ان کی نسل میں سے جن کو ہم نے نوح علیہ السّلام کے ساتھ کشتی میں اٹھایا ہے اور ابراہیم علیہ السّلام و اسرائیل علیہ السّلام کی ذرّیت میں سے اور ان میں سے جن کو ہم نے ہدایت دی ہے اور انہیں منتخب بنایا ہے کہ جب ان کے سامنے رحمان کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔
رسول اور نبی کے درمیان عموم خصوص کی نسبت ہے یعنی ہر رسول ﷺ نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے۔اللہ تعالی نے بعض انبیاءؑ کو درجہ رسالت پر فائز کیا ہے۔
ان دونوں کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کی جائے گی پہلے لغوی تعریف ملاحظہ ہو:
نبی اصل میں نبا سے لیا گیا جس کے معنی خبر کے ہیں نبی آسمانی خبریں لیتا اور بتاتا ہے، اس کی جمع انبیاء ہے۔ نبی اللہ سے خبر دینے والا ہوتا ہے۔
رسول اصل میں رسل سے لیا گیا ہے کسی بھی گروہ کو کہتے ہیں، مرسل اس شخص کو کہا جاتا ہے جو پیغام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیکر جاتا ہے،اللہ کے رسول آسمان سے آئے پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔
اصطلاح میں نبی اس شخصیت کو کہا جاتا ہے جو اللہ سے خبریں لیتا ہے اور بندوں تک پہنچاتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ اللہ نبی کو عزت و شرف عطا کرتا ہے۔دوسرے الفاظ میں جو آسمانی پیغام اللہ سے لیکر بندوں تک پہنچاتا ہے ،یہ اللہ کی طرف سے عزت و شرف ہے۔
ایک اور طرف سے نبی اور رسول کے درمیان عموم خصوص کی نسبت ہے۔نبی کو مبعوث کیا گیا ہو چاہے انہیں تبلیغ کا حکم دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو وہ نبی ہوتا ہے،جبکہ رسول ہوتا ہے تو وہ اللہ کی طرف سے بندوں تبلیغ رسالت پر مشغول ہوتا ہے۔اسی لیے انبیاءؑ کی تعداد زیادہے اور رسولوں کی تعداد کم ہے۔حضرت موسی ؑ منصب رسالت پر فائز کیا گیا اور آپ کے ماننے والے یہودی کہلائے،اسی طرح حضرت مسیح ؑ اس عہدہ پر فائز ہوئے آپ کے ماننے والےمسیحی کہلاتے اور اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد ﷺ ہیں آپ کے پیروکار مسلمان کہلاتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی رسول ہیں ہر عہدہ رسالت رکھنے والے پر ہمارا درود و سلام ہو۔
نبی اور سول دونوں اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہوتے ہیں تاکہ جو بھی ان پر نازل ہو اس کو پہنچائیں ۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)) (الحج ـ 52)
اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا رسول یا نبی نہیں بھیجا ہے کہ جب بھی اس نے کوئی نیک آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی تو پھر خدا نے شیطان کی ڈالی ہوئی رکاوٹ کو مٹا دیا اور پھر اپنی آیات کو مستحکم بنادیا کہ وہ بہت زیادہ جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے۔
نبی اور رسول ہر دو لوگوں کی ہدایت کے لیے آتے ہیں،نبی اللہ کی طرف سے لوگوں کو وہ غیب کی خبریں بھی بتاتا ہے جو اللہ نے اس پر نازل کی ہوتی ہیں رسول کی ذمہ داریاں نبی سے زیادہ ہوتی ہیں۔نبی لوگوں کی معاش،آخرت اور زندگی میں پیش آنے والے معاملات میں رہنمائی کرتا ہے یعنی اصول دین اور فروع دین میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے،یہ اللہ کی طرف سے لوگوں پر نظر کرم ہے،رسول اللہ کی طرف سے خوشخبری لانے والا اور ڈرانے والا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
((رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا))(النساء ـ165)
یہ سارے رسول بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اس لئے بھیجے گئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسانوں کی حجت خدا پر قائم نہ ہونے پائے اور خدا سب پر غالب اور صاحب ه حکمت ہے۔
امام جواد ؑ فرماتے ہیں:
نبی خواب میں دیکھتا اور سنتا ہے لیکن فرشتے کو نہین دیکھتا اور رسول آواز کو سنتا ہے خواب میں دیکھتا ہے اسی طرح فرشتوں کو بھی دیکھتا ہے۔
سب سے اہم فرق یہ ہے کہ رسول کی شان و مرتبہ نبی سے زیادہ ہوتا ہے ،دونوں تبلیغ کرتے ہیں،دونوں پر وحی نازل ہوتی ہے ،نبی پر نیند اور خواب میں وحی ہوتی ہے،رسول حضرت جبرائیلؑ کو دیکھتے ہیں اور آمنے سامنے براہ راست وحی کو وصول کرتے ہیں۔نبوت و رسالت دونوں اعلی شان و مرتبے کے عہدے ہیں البتہ رسالت نبوت سے بڑا مرتبہ ہے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پہلے کوئی شخصیت عہدہ نبوت پر فائز ہوتی ہے اور بعد میں اللہ تعالی اس نبی کو عہدہ رسالت بھی عطا کر دیتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کے معاملہ میں ہوا۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
((وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا))(مريم ـ41)
اور کتاب خدا میں ابراہیم علیہ السّلام کا تذکرہ کرو کہ وہ ایک صدیق پیغمبر تھے۔
اسی طرح حضرت اسماعیلؑ کے بارے میں فرمایا:
((وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا (54))(مريم ـ54)
اور اپنی کتاب میں اسماعیل علیہ السّلام کا تذکرہ کرو کہ وہ وعدے کے سچے ّاور ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر علیہ السّلام تھے۔
حضرت موسیؑ بھی پہلے نبی اور بعد میں رسول ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:
((وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَىٰ ۚ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا))(مريم ـ51)
اور اپنی کتاب میں موسٰی علیہ السّلام کا بھی تذکرہ کرو کہ وہ میرے مخلص بندے اور رسول و نبی تھے۔
حضرت محمد ﷺ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
((وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ))(آل عمران ـ144)
اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں کیااگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم اُلٹے پیروں پلٹ جاؤ گے تو جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا تو عنقریب شکر گزاروں کو ان کی جزا دے گا۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
((الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ))(الأعراف ـ157)
جو لوگ کہ رسولِ نبی امّی کا اتباع کرتے ہیں جس کا ذکر اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتاہے اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان پر سے احکام کے سنگین بوجھ اور قیدوبند کو اٹھا دیتا ہے پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کا احترام کیا اس کی امداد کی اور اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی درحقیقت فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
((مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا))(الأحزاب ـ40)
محمد تمہارے مُردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن و ہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیائ علیہ السّلام کے خاتم ہیں اوراللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ ہر نبی اور ہر رسول صاحب کتاب نہیں ہوتا کیونکہ کتب سمایہ تو چار ہیں تورات،انجیل،زبور اور قرآن مجید۔ارشاد باری تعالی ہے:
((انَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ))(البقرة ـ213)
( فطری اعتبار سے) سارے انسان ایک قوم تھے . پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیائ بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں اور اصل اختلاف ان ہی لوگوں نے کیا جنہیں کتاب مل گئی ہے اور ان پر آیات واضح ہوگئیں صرف بغاوت اور تعدی کی بنا پر----- تو خدا نے ایمان والوں کو ہدایت دے دی اور انہوں نے اختلافات میں حکم الٰہی سے حق دریافت کرلیا اور وہ تو جس کو چاہتا ہے صراظُ مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ وہ پیغام الہی کو پہنچانے کے ذمہ دار تھے،ہر وہ شخصیت جن کو اللہ نے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے چن لیا وہ نبی ہے اور جب اس نبی کے لیے عہدہ رسالت بھی عطا ہو جائے تو وہ رسول بھی بن جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ایک عہدہ امامت ہے جو اللہ تعالی بعض خاص بندو کو عطا کرتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
((وَإِذِ ابتلى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ))(البقرة ـ124).
اور اس وقت کو یاد کرو جب خدانے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم علیہ السّلام کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں. انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت? ارشاد ہوا کہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا۔
ظافرة عبد الواحد خلف
شب مبعث کے موقع پر ضریح حرم امام امیرالمؤمنین (ع) کی گل آرائی
بعثت انبیاء قرآن کی روشنی میں
بعثت کا معنیٰ و مفہوم:
لفظ بعثت کی اصل بعث ہے جو عربی لفظ ہے۔ اسی کا حقیقی معنیٰ ابھارنا ہے(التحقیق فی کلمات القرآن ج ۱ ص ۲۹۵)۔
قرآن مجید میں یہ لفط موت کے بعد دوبارہ قبر سے اٹھائے جانے کے بارے میں استعمال ہوا ہےقرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہےمَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا ۔ہمیں ہماری قبروں سے کون اٹھائے گا۔(سورہ یا سین ۵۲) اور اسی معنیٰ میں قیامت کو یوم البعث کہا گیا ہے۔
اس کے علاوہ قرآن مجید میں یہ لفظ بھیجنے کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ (فطری اعتبار سے ) سارے انسان ایک قوم تھے ، پھر خدا نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے۔(سورہ بقرہ آیت ۲۱۳)
اور اصطلاح میں بعثت سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنی طرف سے ہادی و رہبر بھیجے۔ اسی لئے جس دن رسول اکرم ﷺپر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ کواپنا پیغام رسالت لوگوں تک پہنچانے کا حکم ملااس دن کو روز بعثت اور عید مبعث کہا جاتا ہے۔اور اس دن کے بعد سے ہجری تک کے زمانے کو سن بعثت کہا جاتا تھا۔
ضرورت بعثت:
دنیا کےتمام مذاہب و ادیان میں کسی نہ کسی صورت میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ان کی ہدایت کے لئےاللہ کی جانب سے کوئی ہادی و رہبر آیا ہے۔ مثلا عیسائی جناب عیسیٰ علیہ السلام اور ان سے قبل کے انبیاءکو اللہ کے پیغمبر مانتے ہیں،یہودی موسیٰ اور انبیاء بنی اسرائیل کو اللہ کے نمائندےسمجھتے ہیں،ہندو دھرم کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بھگوان وشنو، رام اور کرشن کے بھیس میں؛بھولے ناتھ شنکر، ہنومان کے روپ میں اور دیگر دیوتا لباس بشر میں انسانوں کی ہدایت کے لئے آئے۔ دنیا کےتمام انسانوں کایہ عقیدہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو ہر دور میں ایک الہی ہادی و رہبر کی ضرورت ہے، انسان صرف اپنی ناقص عقل کی بنیاد پر زندگی کا سفر طے نہیں کر سکتا۔
قرآن مجید بھی اس عقیدہ کی تائید کرتا ہےکہ ہر دور میں ایک ہادی و رہبر رہا ہےارشاد ہوتا ہے۔ إِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں ڈرانے والا نہ گذرا ہو۔ (سورہ فاطر آیت ۲۴)
قرآن مجید میں سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے۔لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤﴾ خدا وند عالم نے مؤمنین پر احسان کیا انہیں میں ایک رسول کو بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات سناتا ہےاور ان کا تزکیہ کرتا ہےاور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
مذکورہ بالا آیت میں تعلیم و تربیت کو رسول کے اہم وظائف میں بتایا گیا ہے۔ کیوں کہ انسان جاہل پیدا ہوتا ہےاور جاہل انسان کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے اورصحیح راہ دکھانے کے لئےہادی و رہبر کا ہونا ضروری ہے۔اور اگر ہادی نہیں ہوگا تو لوگ جہالت کے تاریک سمندر میں غرق ہو جائےگیں۔ اس جانب آیت کے آخری حصہ میں اشارہ کیا گیا ہے کہإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔ جو ہادی کے نہ ہونے کا لازمہ ہے۔ اسی لئے اللہ ہر زمانے میںکسی نبی یا رسول کو بھیجا۔
مقصد بعثت :
بالائی سطور سے انبیاء الٰہی اور ہادیان بر حق کی ضرورت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ذیل میں ہم قرآ ن کریم کی رو سے انبیاء ِالٰہی کےاہم مقاصدکی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
(۱)خدا کی عبادت اور طاغوت سے پرہیز
خدا کے وجود کا عقیدہ انسان کے فطرت میں ہے۔ اس فطری غریزہ کی صحیح راہ کی جانب راہنمائی ضروری ہے ورنہ انسان کم عقلی اور صحیح تعلیمات سے دوری کی وجہ سےگمراہ ہو جائے گا۔شاید اسی لئے انبیاء الہی کی تمام تر تعلیمات کا دارومدار عقیدہ توحید رہا ہے۔تمام رسولوں کا یہی پیغام تھا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور غیر اللہ کے سامنے اپنا سر نہ جھکاؤ۔ انسان حقیقت توحید کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک غیر اللہ کی عبادت سے پرہیز نہ کرے اس لئےکہ دو متضاد چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی اس لئے خدا کی عبادت کے ساتھ طاغوت کی اطاعت سے پرہیز کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ کلمہ توحید میں بھی پہلے غیر اللہ کی نفی ہے پھر اللہ کی الوہیت کا اقرار ہے۔انبیاء کی تمام تر تعلیات کا دارمدار یہی پیغام تھا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ اور یقیناہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے پرہیز کرو۔(سورہ نحل ایت ۳۶)
اس آیت میں اللہ نے بعثت انبیاء کا مقصد اللہ کی عبادت اور طاغوت سے دوری بتایا ہے ۔تمام انبیاء کا پہلا پیغام یہی تھا کہ قولوا لا الہ اللہ تفلحواکہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور نجات پا جاؤ۔ یہ عقیدہ انسان کی شخصیت سازی کا معمارہےجس کا عقیدہ اللہ پر ہوگا وہ کبھی غیر اللہ کے سامنے سر نہیں جھکائے گا ۔ اور جو اللہ کے سامنے نہیں جھکے گا وہ ہر ایرے غیرے کے سامنےجھکا ہوا ملے گا ۔ اور جو اللہ کے سامنے سر جھکائے گا وہ دنیا میں بھی با عزت رہے گا اور آخرت میںکامیاب و کامران رہے گا اگر اس کامشاہدہ کرنا ہو تو دور حاضر میں ایران اور دیگر اسلامی ممالک کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایران کسی سوپر پاؤر کے اگے نہیں جھکا آج بھی سر بلند ہے ۔بقیہ ممالک ہر ایرے غیرے کے سامنے جھکے ہیں نتیجہ میں آج ذلیل و خوار ہیں۔
(۲)تعلیم کتاب و حکمت و تزکیہ نفوس
تعلیم انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے انسان جب دنیا میں آتا ہے تو جاہل آتا ہے ۔ اسی لئے اللہ نے اس کے لئے سب سے پہلے ایسے معلم کا انتظام کیا جسے اپنے پاس سے علم دے کر بھیجا ۔ اور ہر دور میں ایک معلم و ہادی کا انتظام کیا۔ تا کہ انسان اپنی جہالت و کم عقلی کی بنا پر راہ راست سے بہک نہ جائے۔
رسول اسلام ﷺ پر روز مبعث جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں ارشاد ہوا
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿٥﴾ اپنے پروردگار کے نام سے پڑھو جس نے خلق کیا ہے اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے۔ جس نےقلم کے ذریعہ تعلیم دی اور انسان کو سب کچھ بتایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔(سورہ علق)
رسول ﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی سے دو باتیں آشکار ہو جاتی ہیں ایک تعلیم ہے جو بعثت انبیاءکےبنیادی مقاصد میں سے ہے۔ دوسرے لباس و جود میںآنے کے بعد انسان سب سے پہلی ضرورت علم ہے۔
اور انسان حقیقت علم تک اس وقت تک نہیں پہونچ سکتا جب تک تعلیم کی منفی چیزوں کو دور نہ کرے اسی کا نام تزکیہ ہے ۔ تزکیہ انسان کے نفس کو اس لائق بنا دیتا ہے کہ انسان علم کی حقیقت کو درک کر سکے۔ اور اگر انسان بغیر تزکیہ کےلفظیں رٹ بھی لیتا ہے تو یہ علم اس کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتا۔ یہی وجہ کہ انسان اتنی ترقی اور علم کی اس بلندی پر ہونے کے باجود بھی پر سکون نہیں ہے اس کی حیرانی اور پریشانی کی وجہ حقیقت علم سے دوری ہے۔ جو بغیر تزکیہ کے نصیب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے انبیاء کے مقاصد میں تعلیم و تربیت قرآن مجید میں باربار بیان کیا گیا ہے سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے۔
’’پروردگار ان کے درمیان ایک رسول کو بھیج جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے بے شک تو عزیز و حکیم ہے۔‘‘
سورہ جمعہ میں ارشاد ہوتا ہے
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢﴾اللہ وہی ہے جس نے مکہ والوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
مندرجہ بالا آیات سے یہ واضح ہے تعلیم کتاب و حکمت و تزکیہ نفوس انبیاء کی بعثت کے اہم مقاصد میںسے ہے۔اور اگر تعلیم اور تزکیہ نہیں ہوگا انسان تو ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتابلکہ ہمیشہ گمراہی میں رہے گا جیسے بعثت سے قبل کے لوگوں کے لئے کہا گیا ہے کہ وہ گمراہی میں تھے۔
(۳)قیام عدل و انصاف
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عدل و انصاف معاشرہ کی بنیادی ضروریات میں سے ہیںکیوں کہ اگر معاشرہ میں عدل و انصاف نہیں ہوگا ایک دوسرے کے حقوق پائمال کئے جائیں گے۔ کمزوراوربے سہارا افراد کو ستایا جائے گا ۔اورمعاشرہ ظلم و ستم سے بھر جائے گا۔ اس لئے ہر ملک، ہر صوبہ اور ہر شہر و دیہات میں ایک حاکم کاانتخاب کیا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ معاشرہ کے مسائل کو حل کرے اور عد ل و انصاف قائم کرے۔
خداوندعالم نے روز اول سے اس ضرورت کا خیال رکھا اور ہر دور میںہادی عادل بھیجاتا کہ وہ لوگوں کے درمیان عد ل و انصاف کرے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تا کہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں شدید جنگ کا سامان ہے اور بہت سے فائدے ہیں ۔
مذکورہ آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ نے رسولوں کے ساتھ کتاب و میزان کو نازل کیا۔ اس لئے کہ عدل و انصاف کے لئے ایک پیمانہ اور معیار ہونا چاہیے جو اللہ نے رسولوںکو کتاب و میزان کی شکل میں دے کر بھیجا۔ اور معاشرہ میں عدل انصاف کا قیام اسان نہیں ہے اس کے لئے کبھی تلوار اٹھانا پڑے گی کھبی جنگ کرنا ہوگی اسی لئے اللہ نے آسمان سے لوہا بھی نازل کیا۔ تا کہ اس کے نمائندوں کو عدل و انصاف کے قیام میں کو ئی مشکل پیش نہ آئے۔
مذکورہ آیت میںایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ تاکہ لوگ عدل و انصاف کے ساتھ قیام کریں۔ یہ نہیں کہا گیا کہ انبیاء عدل و انصاف قائم کریں۔ بلکہ لوگ خود عدل و انصاف کو ساتھ قیام کریں گے۔یہ رہبران الٰہی کی معراج انصاف ہے کہ اگر انہیں عدل و انصاف کرنے دیا جائے تو وہ معاشرہ کو اس بلندی پر پہونچا دیں گے کہ پھر انہیں کسی عدل و انصاف کرنے والے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ لوگ خود عدل و ا نصاف سے قیام کرنے لگیں گے۔ خدا وندعالم ہمارےامام عادل کے ظہور میں تعجیل فرمائے عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرنے والوں میں سے قرار دے اور اس کے ظہور میں تعجیل فرما جو معاشرہ کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔آمین
تحریر: محمد تبریز
غاصب صیہونی رژیم پر غزہ جنگ کے اثرات
1)۔ اندرونی سطح پر ظاہر ہونے والے اثرات
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم پر غزہ جنگ کا ایک اہم اثر یہ ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی موجودہ کابینہ شدید سیاسی بحران کا شکار ہو چکی ہے۔ جنگ بندی کے اعلان کے بعد اب تک کئی وزیر استعفی دے چکے ہیں جن میں قومی سلامتی کا وزیر اتمار بن گویر بھی شامل ہے۔ بن گویر نے جنگ بندی کو حماس کی فتح اور اسرائیل کی شکست قرار دی ہے۔ بن گویر کے ساتھ ساتھ اس کی پارٹی کے دو دیگر وزیر، اسحاق واسرلاوف اور عامیحای الیاہو نے بھی استعفی دے دیا ہے۔ بن گویر نے صیہونی وزیر خزانہ بیزلل اسموٹریچ کو بھی استعفی دینے پر راضی کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ دوسری طرف صیہونی فوج کے سربراہ جنرل ہرتزے ہالیوے نے بھی استعفی دے دیا ہے۔ اسی طرح بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ شاباک کا سربراہ بھی عنقریب اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائے گا۔
ایسے میں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ جنگ اور اس کے بعد جنگ بندی کا غاصب صیہونی رژیم پر ایک اہم اثر حکمران طبقے میں پڑنے والی گہری دراڑ ہے۔ یاد رہے بنجمن نیتن یاہو نے 2022ء میں دائیں بازو کے انتہاپسند سیاسی رہنماوں بن گویر اور بیزلل اسموٹریچ سے مل کر اتحادی حکومت تشکیل دی تھی لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس کے دو بنیادی اتحادی غزہ میں جنگ بندی کے شدید مخالف ہیں۔ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں اسموٹریچ اور بن گویر کا ووٹ بینک بھی کم ہو گیا ہے۔ اس بارے میں تازہ ترین سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیزلل اسموٹریچ کی سربراہی میں مذہبی صیہونزم پارٹی 3.25 فیصد عوامی حمایت حاصل نہیں کر پائی جس کے باعث آئندہ الیکشن میں اسے کینسٹ میں کوئی سیٹ ملنے کا امکان نہیں ہے۔ لہذا توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ کچھ مہینوں میں نیتن یاہو کی کابینہ تحلیل ہو جائے گی اور وقت سے پہلے مڈٹرم الیکشن منعقد کروائے جائیں گے۔
2)۔ علاقائی سطح پر اثرات
علاقائی سطح پر بھی غزہ جنگ نے غاصب صیہونی رژیم پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اہم ترین اثر عرب ممالک اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے عمل کا رک جانا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے جب جنوری 2022ء میں نئی کابینہ تشکیل دی تو اس کا اہم ترین ہدف خطے کے عرب ممالک سے تعلقات معمول پر لانا تھا۔ اس کی توجہ کا مرکز بھی سعودی عرب سے سفارتی اور دوستانہ تعلقات بحال کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے ابراہیم معاہدہ انجام پایا جس میں چند عرب ممالک جیسے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے۔ لیکن طوفان الاقصی آپریشن کے بعد جب غزہ پر صیہونی فوجی جارحیت کا آغاز ہوا تو یہ عمل بھی تعطل کا شکار ہو گیا جو اب تک رکا ہوا ہے۔ سعودی عرب نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی شرط آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام قرار دیا ہے جو پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
دوسری طرف غزہ جنگ اور اس میں صیہونی رژیم کی بربریت اور انتہائی درجہ وحشیانہ پن نے بھی عرب ممالک سے تعلقات کی بحالی کے عمل کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین، جنہوں نے ابراہیم معاہدے کے تحت اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے تھے، اسلامی دنیا میں اسرائیل کی ایک اچھی تصویر پیش کرنے کے درپے تھے۔ لیکن گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام اور نسل کشی نے ان کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین، جنہوں نے 2020ء میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے تھے، یہ تاثر دینے کی کوشش میں مصروف تھے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی خطے میں امن اور استحکام کا باعث بنے گی اور اسرائیل بھی یہی چاہتا ہے، لیکن غزہ جنگ کے دوران جو کچھ بھی ہوا اس نے دنیا والوں کے سامنے اسرائیل کا حقیقی چہرہ کھول کر رکھ دیا۔
3۔ عالمی سطح پر سیاسی اثرات
غزہ جنگ سے پہلے، غاصب صیہونی رژیم دنیا پر مسلط مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعے عالمی سطح پر اسرائیل کا مثبت اور اخلاقی چہرہ پیش کرنے کی کوشش میں مصروف تھی۔ لیکن غزہ جنگ میں اسرائیل نے ایسے جنگی جرائم انجام دیے ہیں جو بہت واضح تھے اور حتی عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت نے صیہونی حکمرانوں پر فرد جرم عائد کی اور ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ یاد رہے کہ مختلف عالمی قانونی دستاویزات جیسے بین الاقوامی قانونی معاہدوں، کنونشنز اور منشورات میں ایسے اقدامات یقینی طور پر جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی مخالفت قرار پا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دوران بڑے بڑے مغربی ممالک میں وسیع پیمانے پر عوامی احتجاجی مظاہرے منعقد ہوتے رہے جن میں صیہونی رژیم کے ظالمانہ اقدامات می مذمت کی گئی اور فلسطینی قوم کی حمایت کا اعلان کیا گیا۔
عالمی سطح پر غزہ جنگ کا ایک اہم اثر اسرائیل کے خارجہ تعلقات پر پڑا ہے۔ غزہ جنگ سے پہلے تمام یورپی ممالک غیر مشروط طور پر اسرائیل کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے تھے لیکن گذشتہ ڈیڑھ برس تک غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی انجام پانے کے بعد یورپی ممالک کی رائے عامہ میں اسرائیل کی حیثیت اس قدر خراب ہوئی ہے کہ اب حتی یورپی حکومتیں بھی کھل کر اسرائیل کی حمایت کرنے سے کتراتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ 470 دنوں میں مختلف یورپی ممالک میں 30 ہزار سے زیادہ اسرائیل مخالف مظاہرے اور ریلیاں منعقد ہوئی ہیں۔ دوسری طرف عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے صیہونی حکمرانون کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو جانے کے بعد اب بہت سے مغربی ممالک بھی صیہونی حکمرانوں کو اپنے ملک آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ عالمی سطح پر اسرائیل کے گوشہ نشین ہو جانے کی یہ واضح دلیل ہے۔
غاصب اسرائیلی فوجیوں کے ہتھیاروں کے ساتھ فلسطین کے استقامتی محاذ کی طاقت کی نمائش
ارنا نے فلسطین کی شہاب نیوز ایجنسی کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ چار خاتون صیہونی جنگی قیدیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کئے جانے کی کی تصاویر میں نظرآتا ہے کہ حماس کے فوجی بازو القسام بریگیڈ اور جہاد اسلامی فلسطین کے فوجی بازو سرایا القدس کے جوانوں کے ہاتھوں میں غاصب اسرائیلی فوج کی اسپیشل فورس کے مخصوص اسلحے ہیں۔
عبرانی نیوز سائٹ " واللا" میں شائع میں ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ یہ اسلحے آپریشن طوفان الاقصی کے دوران، خاص طور پر اسرائیلی فوج کی غزہ ڈیویژن کے ہیڈکوارٹر پر القسام کے جوانوں کے حملے میں ضبط کئے گئے ہیں۔
دوسری طرف عبرانی سائٹ ایکسپریس نے رپورٹ دی ہے کہ القسام بریگیڈ کے جوانوں نے توفان کے نام سے مشہور یہ مشین گنیں، جنگی قیدیوں کے تبادلے کے وقت خاتون صیہونی جنگی قیدیوں کی سیکورٹی کے لئے ہاتھوں میں لے رکھی تھیں۔
IMI TAVOR TAR 21 مشین گن جنگی مشین گن ہے جو غاصب اسرائيلی فوج کی اسپیشل فورس کا مخصوص اسلحہ ہے اور اپنی نوعیت کی بہترین مشین گن کی حیثیت سے اس کو عالمی شہرت حاصل ہے۔
اسی سلسلے میں صیہونی حکومت کی خفیہ سروس شاباک کے ایک سابق سینیئر افسر موشے پوزیلوف نے جنگی قیدیوں کے تبادلے کے موقع پر آشکارا طور پر استقامتی فلسطینی محاذ کے جوانوں کے ہاتھوں میں ان مشین گنوں کی موجودگی کو طاقت کی نمائش سے تعبیر کیا ہے۔