سلیمانی
غزہ میں شکست اور ایران کے انتقام کا ڈراونا خواب
ریڈیو صیہونی فوج: جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار ناحال بریگیڈ کے علاوہ پوری آرمی غزہ کی پٹی سے پسپائی اختیار کر چکی ہے۔
اسرائیل ہیوم: صیہونی فوج خان یونس میں اپنے یرغمالیوں کی بازیابی کے سلسلے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہے۔
صیہونی اخبار ہارٹز: صیہونی فوجی ایسی حالت میں جنوبی غزہ ترک کر رہے ہیں کہ اپنے مطلوبہ اہداف سے حتی قریب بھی نہیں پہنچے۔ فتح اتنی بھی قریب نہیں جس طرح نیتن یاہو کہہ رہا ہے۔ صیہونی فوج کے چند افسران نے کہا ہے کہ غزہ سے پسپائی کی وجہ جنگ میں شدید تھکاوٹ ہے اور اس کا مقصد حسن نیت یا قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہے۔
صیہونی چینل 12: جنگ شروع ہوئے چھ ماہ گزر جانے کے باوجود اب بھی ایک لاکھ آبادکار جلاوطنی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کی اپنے گھروں کو واپسی کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔
صیہونی چینل کان: اسرائیل کے پاس جنگ کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے لہذا وہ مذاکرات بھی آگے بڑھانے سے قاصر ہے۔
صیہونی چیف آف آرمی اسٹاف ہرٹزل ہالیوے: ہم ایسی جنگ میں مصروف ہیں جس کا تجربہ ہم نے اس سے پہلے نہیں کیا۔ ہم بھاری تاوان دے رہے ہیں اور ہمارے بہت سے فوجی اور افسر مارے جا چکے ہیں۔
صیہونی قومی سلامتی کونسل کا سابق مشیر: ایسے بہت سے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران جوابی کاروائی ضرور کرے گا۔ اسرائیل اسٹریٹجک لحاظ سے اپنی تاریخ میں سب سے زیادہ کمزور پوزیشن میں ہے۔ لیکن ہماری حکومت نے احمقانہ طرز عمل اختیار کر کے ہمیں ہمیشہ سے زیادہ طاقتور، پیچیدہ اور پراسرار دشمن کے مقابلے میں شکست کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ سیاسی لحاظ سے امریکہ سے اختلافات اور عالمی سطح پر اسرائیل کے چہرے کو شدید نقصان پہنچنا۔ اسرائیل تاریخ میں پہلی بار عالمی عدالت انصاف میں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔ اسرائیلی اب تک بحران کی شدت نہیں سمجھ پائے۔
ایسا دھچکہ جو سینکڑوں یا شاید ہزاروں صیہونیوں کو پہنچنے والا ہے کیونکہ وہ جس ملک میں بھی قدم رکھیں گے گرفتار ہونے کے خطرے سے روبرو ہوں گے۔ فوجی لحاظ سے صیہونی فوج شدید ترین بحران کا شکار ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف، پورا آرمی اسٹاف اور اکثر اعلی سطحی فوجی سربراہان شکست کے ذمہ دار ہیں۔ امریکہ اور ہمارے دیگر دوست ممالک غزہ میں ہماری فوجی شکست کی شدت سے چونک گئے ہیں۔ ہماری فورسز چھ ماہ بعد بہت خستہ حال ہو چکی ہیں اور ریزرو فورس بھی شدید نفسیاتی دباو کا شکار ہے۔ اگرچہ نیتن یاہو حکومت یہ ظاہر کر رہی تھی کہ غزہ میں مزاحمت کچل دی گئی ہے لیکن گذشتہ چند دنوں میں مزاحمتی کاروائیاں دوبارہ شدت اختیار کر گئی ہیں اور ایک دن میں 14 صیہونی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان اور عراقی مزاحمت نے گولان ہائٹس سے لے کر ایلات بندرگاہ تک میزائل حملے شروع کر رکھے ہیں۔
سابق صیہونی وزیراعظم ایہود براک: "ہمیں انتہائی پیچیدہ اور انوکھی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایران اور حزب اللہ لبنان اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور حماس کی شکست بھی ابھی بہت دور ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر نیتن یاہو حکومت کل یا اس سے بھی پہلے ختم ہو جانی چاہئے۔" ایسی صورتحال میں ایران کی جانب سے دمشق میں اپنے قونصل خانے پر اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والے فوجی کمانڈرز کے خون کا بدلہ لینے کے عزم نے اسرائیل کی مشکلات دوچندان کر دی ہیں۔ صیہونی حکمران ایک طرف دھمکی آمیز لہجے میں بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف ان کے ذرائع ابلاغ ان کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں۔ صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے دعوی کیا ہے: "ایران نے عمان کے ذریعے امریکہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی اور رفح پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں وہ جوابی کاروائی انجام نہیں دے گا۔"
اسرائیلی ویب سائٹ ٹیرر الارم بھی لکھتی ہے: "اگر ایران تل ابیب یا حیفا پر حملہ کرتا ہے تو اسرائیل ایران کے 9 مقامات پر حملہ کرے گا۔ ایران نے اسرائیل کو اطلاع دی ہے کہ وہ جوابی کاروائی انجام نہیں دے گا۔" ان ذرائع ابلاغ کی نفسیاتی جنگ کے برعکس ایرانی صدر کے مشیر نے اعلان کیا ہے: "ایران نے ایک خط کے ذریعے امریکی حکام کو پیغام دیا ہے کہ وہ نیتن یاہو کے جال میں مت پھنسے۔ خود کو غیر جانبدار کر لے تاکہ اسے نقصان نہ پہنچے۔ اس کے جواب میں امریکہ نے ایران سے درخواست کی ہے کہ وہ امریکی مراکز کو نشانہ نہ بنائے۔" ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے عمان کے ہم منصب سے ملاقات میں کہا: "ایران قانونی اقدامات انجام دینے کے علاوہ جارح قوتوں کو سزا بھی دے گا۔" انہوں نے دمشق میں مزید وضاحت سے کہا: "صیہونی رژیم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بین الاقوامی قانون کی پابند نہیں ہے۔ اسے سزا ملے گی اور جواب دیا جائے گا۔"
ایٹمی صنعت "مضبوط و مستحکم ایران" کی خدمت میں
ایران میں تیل کی کہانی
برسوں پہلے قاجار حکمرانوں کی طرف سے مسلط کردہ فکری محرومیوں کی وجہ سے اہل ایران کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کے قدموں تلے کون سی قیمتی چیزیں چھپی ہوئی ہیں۔ ایرانی تیل کی قیمت کو سمجھنے والے انگریزوں نے اسے لوٹنے کے لیے سب سے پہلے اسے بدبودار، بیکار اور فضول چیز کے طور پر متعارف کرایا۔ جب وقت آگے بڑھا اور لوگوں کو سمجھ میں آیا کہ یہ تو کالا سونا ہے اور بہت قیمتی ہے تو اس بار سامراجی طاقتوں نے دھونس دھاندلی سے اس پر قبضہ کر لیا اور اس قومی دولت کو یک طرفہ ٹھیکے دے کر معمولی قیمت پر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ ان ایام میں جب بھی ایران کے باشعور اور روشن خیال لوگوں نے شکایت کی تو انہوں نے حقارت سے جواب دیا کہ تیل کیسے نکالو گے۔؟ کیا آپ کے پاس علم اور مہارت ہے اور کیا ایسے وسائل، امکانات اور آلات موجود ہیں، جس سے تم تیل زمین کی گہرائیوں سے باہر نکال سکو۔؟ تیل کی کہانی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ برطانوی استعمار نے اس وقت تک روڑے اٹکائے، جب تک کہ لوگوں کو اس قیمتی مادے کی قیمت معلوم نہ ہوگئی۔
مضبوط ایران اور مقامی جوہری علم و ٹیکنالوجی
جوہری صنعت کی بھی بالکل وہی کہانی ہے، جو تیل سے متعلق تھی۔ ایک زمانے تک ایٹمی ٹیکنالوجی کے فوائد سے انکار کیا گیا اور اب بھی بعض افراد کہتے ہیں کہ ایٹمی توانائی پر اتنا خرچ کیوں کیا جائے؟ یہ شکوک و شبہات ایک طرف مغرب کا پروپگینڈا ہے تو دوسری طرف لوگوں کی زندگیوں میں جوہری توانائی کے ثمرات اور اس کے استعمال سے لاعلمی بھی ہے۔ معاشرے کے بعض طبقوں کی ایٹمی توانائی کے فوائد سے لاعلمی اور دشمن کی سازشوں کی وجہ سے ایران کی جوہری پروگرام کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ ان سازشوں میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کرنا اور فوائد کو جھٹلانا اور اسے مہنگا ثابت کرنا بھی شامل ہے۔ دوسری طرف یہ جھوٹا دعویٰ بھی کیا گیا کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن نہیں ہے اور ایران کے خلاف عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
جوہری پروگرام کے بہانے ایرانی قوم پر پابندیاں اور اقتصادی دباؤ ڈالنا، سائنسی پابندیاں نیز ایٹمی سائنسدانوں کا قتل بھی اس سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لیے مذاکرات کے ساتھ ساتھ گاجر اور چھڑی کی پالیسی استعمال کی گئی۔ گذشتہ دو دہائیوں میں ایران کی ایٹمی صنعت کو روکنے اور تباہ کرنے کے مغرب کے اقدامات کی ایک طویل فہرست ہے۔ ایٹمی صنعت ایک قیمتی سرمایہ ہے اور اگر آج اسے غیر ملکی دشمن کے پروپیگنڈے کی وجہ یا کسی غفلت یا بے حسی کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں یقیناً اس قومی سرمائے کے حصول اور استعمال کے بارے میں مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔
ایٹمی صنعت ملک کے لیے کیوں اہم ہے؟
ملک کے لیے جوہری صنعت کی اہمیت جاننے کے لیے ہمیں تیل کی کہانی کی طرف واپس جانا ہوگا۔ آج بہت کم محب وطن ایرانی ایسے ہیں، جو تیل نکالنے اور پیداواری صلاحیت میں ایران کی مقامی پیش رفت سے انکار یا شک کرتے ہیں اور تیل کی صنعت کو قومیانے کو ملک کا اعزاز نہیں سمجھتے۔ یہ جاننا دلچسپ ہے کہ آج تیل کے شعبے بالخصوص ریفائنریوں میں ستر فیصد تک جدید ترین جوہری آلات استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس لیے آج جوہری آلات کے بغیر تیل کی صنعت نہیں ہوسکتی۔ کان کنی، تیل اور پیٹرو کیمیکل کی صنعتوں میں جوہری علم کا استعمال ضروی ہوگیا ہے۔ یورینیم کی کانوں کی دریافت اور "ایئر بورن جیو فزکس ٹیکنالوجی" کے ذریعے تیل کے کنوؤں کی دریافت جوہری صنعت کی اہم سائنسی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ نئی ٹیکنالوجی سے 15 ہزار میٹر گہرائی تک مختلف بارودی سرنگوں اور تیل کے کنوؤں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔
ایٹمی صنعت، توانائی کے بحران سے نکلنے کا راستہ
توانائی کی قیمتوں میں بڑھاوا، تیل اور گیس کی منڈی میں عدم استحکام اور توانائی کی طلب میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والے عالمی بحران کی وجہ سے آج سلامتی اور وسائل کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف ممالک کو اپنی مطلوبہ توانائی حاصل کرنے کے لیے وسیع مسابقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ایندھن کے زیر زمین ذخائر محدود ہیں، لہذا متبادل ذرائع کی تلاش ضروری ہے۔ جوہری توانائی کا حامل ہونے سے نیز جوہری ایندھن کے ذریعے توانائی کی فراہمی کے میدان میں خود کفالت حاصل کرنا نہ صرف علم اور ٹیکنالوجی میں ترقی کا باعث بنے گا اور بلکہ اس سے مستقبل میں توانائی اور سکیورٹی کے شعبوں میں ایران کی پوزیشن بہتر ہوگی۔ اس وقت ایران کے جنوبی اور شمالی ساحلوں میں پاور پلانٹس کی تعمیر، چھوٹے اور مقامی پاور پلانٹس کی تعمیر اور بوشہر میں واٹر ڈی سیلینیشن کمپلیکس کی تعمیر نیز توانائی اور پانی کے شعبے میں کامیابی کی چند مثالیں ہیں۔ اس ترقی سےجوہری توانائی کے شعبے کی کامیابیوں میں ایرانی سائنسدانوں کی تکنیکی طاقت کا بخوبی ادراک کیا جا سکتا ہے۔
مقامی جوہری علم
اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے میدان کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک اس علم کی لوکلائزیشن یعنی مقامی ہونا ہے۔ یعنی اب ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس جوہری پاور پلانٹ ہو، لیکن اس کا مینیجر کوئی غیر ایرانی ماہر ہو۔ آج ان امور میں خودکفالت جہاں ملک کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز اور خود اعتمادی کی علامت ہے، وہاں دوسری طرف ملکی تعلیمی اور سائنسی ڈھانچے کی ترقی کی علامت اور ثبوت بھی ہے۔ ایک ایسا تعلیمی نظام جو نہ صرف وفادار نوجوانوں کی غیر معمولی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے، ان کی تربیت کرنے کا باعث بنا ہے بلکہ یہی نظام سائنس و ٹیکنالوجی کی پیداوار کو صنعتی مراحل تک پہنچانے اور آخرکار اس صنعت میں مغربی ممالک کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے قابل ہوا ہے۔
آج ایران کا نیوکلیئر فیول سائیکل مکمل ہے، جس کا مطلب یورینیم کی دریافت، زرد کیک کی تیاری، یورینیم پروسیسنگ، افزودگی، سینٹری فیوجز سلاخوں اور فیول کمپلیکس کی تیاری میں خود کفالت ہے۔ ایٹمی ری ایکٹر کے قلب میں جوہری ایندھن کا دخول اور ری ایکٹر کے فضلے کا انتظام، سبھی ملک کے اندر اور مقامی ماہرین کے زیر نگرانی انجام پا رہا ہے۔ اگرچہ ابھی تک اس صنعت کی کمرشلائزیشن کے میدان میں مزید سنجیدہ اور آپریشنل اقدامات کی ضروت ہے۔
ایٹمی میڈیسن کی تیاری میں کامیابیاں
"Tellurium 130 isotope" کی تیاری جوہری صنعت کے نوجوان سائنسدانوں کی کامیابیوں میں سے ایک ہے، جو 20 سینٹری فیوج مشینوں کی تعمیر اور ترتیب سے حاصل کی گئی ہے۔ آج طبی میدان میں، خاص طور پر ریڈیو فارماسیوٹیکل کے خام مال کی تیاری اور مختلف قسم کے کینسر، لاعلاج بیماریوں کی تشخیص اور دواسازی میں نیوکلیئر سائنسز کا وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے، جس میں ایران نے قابل رشک پیشرفت کی ہے۔ ارضیات، زراعت جیسے شعبوں میں جوہری محققین نے کارہای نمایاں انجام دئیے ہیں۔ ایران نے پچاس سے زیادہ فالج سے متعلق تشخیصی، ریڈیو فارماسیوٹیکل تیار کرنے میں کامیاب حاصل کی ہے۔ طب کے میدان میں "Hemostat" یا "خون کا جمنا" جیسی بیماریوں کے علاج کے لئے پاؤڈر کی تیاری جوہری ٹیکنالوجی کی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ یہ ٹیکنالوجی خون کو روکنے کے لیے سرجریوں میں بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ ایران ان پانچ ممالک میں شامل ہے، جو ان طبی مصنوعات کو تیار کرنے کا تکنیکی علم رکھتے ہیں۔
جوہری توانائی کے ساتھ خوراک اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے میں بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کا اہم کردار ہے۔ آج ایرانی سائنسدانوں کی غیر معمولی کوششوں سے ایٹمی علم تین شعبوں "پلازما، حیاتیاتی اور تابکاری" میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور زراعت اور خوراک کی حفاظت میں مددگار ہے۔ زرعی کیڑوں سے نمٹنا، اناج اور خوراک کو جراثیم سے پاک کرنا اور ان کی شیلف لائف کو بڑھانا زرعی شعبے میں جوہری علم کی اہم ترین خدمات میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ صنعت اور ماحولیاتی تحفظ میں جوہری علم کا استعمال ایک اور کارنامہ ہے۔ ربڑ اور پولیمر کی صنعتوں میں استعمال ہونے والے صنعتی فضلے کے خطرات سے بچنے کے لیے "الیکٹرو سٹیٹک الیکٹران" ایکسلریٹر سسٹم کے ڈیزائن اور تعمیر نے ان شعبوں میں ایک بنیادی تبدیلی پیدا کی ہے۔
نفسیاتی کارروائیوں کو شکست دینے کیلئے جوہری کامیابیوں کی وضاحت
یہ ایک فطری بات ہے کہ ایٹمی صنعت کی ان تمام کامیابیوں اور ترقی سے ایرانی قوم کے بدخواہ غصے میں آجائیں اور ایران کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائیں۔ استعماری طاقتیں اور استکباری ممالک سائنس و ٹیکنالوجی پر اپنی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایران کے دشمنوں نے ایران کی ایٹمی صنعت کی ترقی کو کم کرنے یا روکنے کے لیے (دھمکیاں، لالچ) تمام تر سازشیں اور حربے استعمال کیے ہیں۔ ایرانی سائنسدانوں کو قتل کیا گیا، بین الاقوامی دباؤ ڈالا گیا اور ایرانی قوم پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں۔ دشمن چاہتے تھے کہ ایرانی عوام اپنے ناقابل تنسیخ اور مسلمہ حق سے دستبردار ہو جائیں، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے۔ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی سے روکنے کے لئے پروپیگنڈہ جنگ کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ دشمن ایٹمی صنعت کو ایک مہنگا اور ناقابل حصول مسئلہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہا اور اب بھی اسے ترقی کے راستے کے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
رہبر انقلاب کے بقول ہمیں اس مذموم منصوبے کے خلاف کھڑا ہونا چاہیئے۔ "اگر آپ ایک مضبوط ایران چاہتے ہیں، ہر کوئی ایران سے محبت کرتا ہے، ہر کوئی اسلامی جمہوریہ سے محبت کرتا ہے، ہر کوئی قوم سے محبت کرتا ہے اور اس ملک کی مضبوطی کا مطالبہ کرتا ہے تو آپ کو سائنسی، تحقیقی، صنعتی اور کاروباری کوششوں اور سرگرمیوں کے اس حصے پر توجہ دینی چاہیئے۔ (3/21/1402) جوہری صنعت کے حکام کو بھی اس عظیم صلاحیت کو لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہیئے۔ "لوگوں کی زندگی کے تمام حصوں میں، یہ صنعت ایک مؤثر اور مفید موجودگی رکھ سکتی ہے۔ یہ بات لوگوں کو بتائیں، تاکہ لوگ اس صنعت کی تعریف کریں اور کہیں کہ "یہ ہمارا مسلمہ حق ہے"، وہ واقعی جان لیں کہ یہ ان کا مسلمہ حق ہے۔ (21/3/1402)
آخری بات یہ ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں جوہری صنعت کی کامیابیوں اور ایک مضبوط و طاقتور ایران کے لئے ایٹمی توانائی کے کردار کی اہمیت کو لوگوں کو بتایا جائے، تاکہ اسلامی جمہوریہ کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو سیاہ بنا کر پیش کرنے کی دشمن کی وسیع نفسیاتی کارروائیاں ناکام ہو جائیں۔ ایران کے آج اور کل کو تعمیر کرنے کے لئے ایرانی عوام نے ماضی کی تاریخ سے سبق سیکھ لیا ہے۔ ایرانی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ جوہری ترقی کے موجودہ دشمن وہی عناصر ہیں، جو ماضی میں ایران کے تیل کی لوٹ مار میں ملوث تھے، البتہ آج انہوں نے اپنا روپ بدل لیا ہے۔
عید “مظلوم مسلمانوں” کی یاد میں منائیں
شیعہ علماء کونسل پاکستان کی جانب سے جاری ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ تمام عالم اسلام کو عید سعید الفطر کے پرمسرت موقع پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ عید “مظلوم مسلمانوں” کی یاد میں منائیں، ان سے اظہار یکجہتی کریں۔ پورے دنیا کو پیغام دیں اور عید کے اجتماعات میں خصوصی دعائوں کا اہتمام کریں
اسلامی ممالک جان لیں، صیہونی حکومت کی مدد خود انکی اپنی نابودی میں مدد ہے، آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای
اسلام ٹائمز۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ 10 اپریل 2024ء کی صبح ملک کے اعلی رتبہ حکام، تہران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفراء اور عوامی طبقوں کی ایک تعداد سے ملاقات کی۔ انہوں نے اس موقع پر اپنے خطاب میں عالمی یوم قدس کی ریلیوں میں ایرانی قوم کی حیرت الگيز موجودگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ یوم قدس کی ریلی ایک حیرت انگيز سیاسی اور بین الاقوامی اقدام تھا اور ماہر افراد کی رپورٹ کے مطابق لوگوں کی زبردست اور پچھلے برسوں سے زیادہ شرکت حقیقی معنی میں ایک اجتماعی گھن گرج میں تبدیل ہو گئی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ غزہ کا مسئلہ نظر انداز کیے جانے کے لائق نہیں، یہ عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ہم سب کو غزہ کے سلسلے میں ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیئے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اس سلسلے میں کہا کہ اقوام یہاں تک کہ غیر مسلم اقوام کے دل بھی فلسطین اور غزہ کے مظلوموں کے ساتھ ہیں جس کی نشانی افریقا، ایشیا، یورپ یہاں تک کہ خود امریکا میں صیہونیوں کے جرائم کے خلاف بے مثال ریلیاں ہیں۔ انہوں نے عالمی میڈیا پر صیہونیوں کے طویل مدتی کنٹرول اور ان کی جانب سے فلسطین کی آواز اور پیغام کو دوسری جگہوں تک پہنچنے سے روکنے کے باوجود سب سے اہم موضوع کی حیثیت سے مسئلۂ فلسطین پر اقوام کی توجہ کو عالم اسلام میں نئی تبدیلیوں کا غماز بتایا اور کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ اقوام کی جانب سے ذمہ داری محسوس کیے جانے کے باوجود حکومتیں اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بچوں اور عورتوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائے کے اوج پر ہونے کے باوجود بعض اسلامی ملکوں کی جانب سے اس حکومت کی مدد کو زیادہ افسوسناک حقیقت قرار دیا۔ انہوں نے صیہونی حکومت سے اسلامی حکومتوں کے سیاسی اور معاشی روابط کے خاتمے کو اسلامی جمہوریہ ایران کی حتمی تجویز اور توقع قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی ملکوں میں ریفرنڈم کرائے جانے کی صورت میں تمام مسلم اقوام اس توقع پر متفق ہوں گی، کہا کہ کم ترین توقع یہ ہے کہ اسلامی ممالک عارضی طور پر سہی صیہونی حکومت کے جرائم جاری رہنے تک اس سے اپنے تعلقات ختم کرلیں اور اس کی مدد نہ کریں۔
یوم القدس اور ہماری ذمہ داریاں
غزہ اس وقت ایسا میدان جنگ ہے، جس میں مظلوم فلسطینی اور ظالم صیہونی ناجائز ریاست اسرائیل برسر پیکار ہیں۔ فلسطینیوں پر ہر وقت موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ آبادیاں کھنڈرات بن چکی ہیں۔ ہسپتالوں پر بھی حملے جاری ہیں۔ مسلم عرب ریاستیں قریب ہی موجود تو ہیں مگر مدد کی جرات نہیں رکھتیں۔ مزاحمتی تحریک حماس کے مجاہدین اپنی طاقت کے مطابق اسرائیلی مظالم کا جواب دے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں عوام سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں مگر حکمران بے حسی اور بے شرمی کی چادر لئے سو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کی قراردادیں بھی ظالم اسرائیل نے ہوا میں اڑا دی ہیں۔ گویا عالمی طاقتیں بھی اسرائیل کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق 7 اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصیٰ کے نام سے اسرائیل میں آپریشن شروع کرنیوالی حماس کے مجاہدین بڑی تعداد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، جبکہ فلسطینی عوام کی قربانیوں کا لفظوں میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ بہادری اور صبر کی تصویر یہ فلسطینی عوام کہ جنہیں پتہ ہے کہ اگلے ہی مرحلے میں اسرائیلی بمباری میں مارے جائیں گے لیکن وہ اپنی سرزمین کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔
ماہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی اپنے اختتام کو بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ 44 سال سے جمعة الوداع بانی انقلاب اسلامی امام خمینیؒ کی اپیل پر یوم القدس کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں سے عالمی سطح پر اظہار یکجہتی کا آغاز انقلاب اسلامی کے ابتدائی دنوں میں ہی 1979ء میں شروع ہوگیا تھا۔ رہبر امت کی دوراندیشی کے باعث عالمی سطح پر مسلمانوں کو ہم آواز کرنے کا آغاز بھی انقلاب اسلامی کیساتھ ہی کر دیا گیا تھا۔ اس کے فکری اثرات دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مرتب ہوئے۔ سرور کائنات خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم ولادت باسعادت عید میلادالنبیﷺ کے عنوان سے پاکستان میں جس جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے، اس کی مثال شاید کہیں اور نہیں ملتی۔ برادران اہلسنت کے مطابق 12 ربیع الاول اور شیعہ نقطہ نظر سے 17 ربیع الاول کو یوم ولادت سید المرسلین پر اختلاف ہے، لیکن رہبر انقلاب امام خمینیؒ نے امت مسلمہ کو اختلافی نقطے پر متحد کرنے کی ابتدا 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول تک "ہفتہ وحدت" کا نام دے کر دی۔ دنیا بھر میں اعلان کیا کہ عید میلادالنبیﷺ کو پورے ہفتہ منائیں گے۔
میں تحریک جعفریہ کے کارکن کے طور پر اہلسنت برادران کی طرف سے منعقد کئے گئے عید میلاد النبیﷺ کے جلوسوں میں شریک ہوتا رہا ہوں۔ اس حوالے سے ریلوے اسٹیشن پر جناب آفتاب ربانی کی قیادت میں عید میلاد النبیﷺ کے پروگرام کا انعقاد اور بعد ازاں درود و سلام کا ورد کرتے ہوئے جلوس کا داتا دربار پر اختتام، شرکاء جلوس کی دستار بندی رسول اللہﷺ سے عقیدت کا ایک انداز تھا۔ امام خمینیؒ کی وفات کے بعد بھی اسلامی جمہوریہ ایران نے بانی انقلاب اسلامی کے مشن کو جاری رکھا۔ اتحاد امت کی فضا کے قیام کیلئے "ہفتہ وحدت" کی مناسبت سے ماہ ربیع الاول میں تہران میں کانفرنس کا انعقاد اور اس میں دنیا بھر سے سنی شیعہ علماء کی شرکت اتحاد کے عملی اظہار کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ اسی طرح ماہ رمضان المبارک میں حسن قرات کے مقابلے کی میزبانی ایران کا اچھا اقدام ہے۔ حال ہی میں مانسہرہ کے ایک نوجوان قاری ابوبکر بن ثاقب ظہیر یہ مقابلہ جیت کر آئے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ امام خمینیؒ کے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے پیغام کی روشنی میں پاکستان میں قائد ملت اسلامیہ نمائندہ ولی فقیہ علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی اپیل پر پاکستان میں یوم القدس کے جلوس نکالنے کی ابتدا کی گئی۔ تحریک جعفریہ اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے لاہور میں ناصر باغ سے پنجاب اسمبلی ہال چوک تک پہلا جلوس نکالا تو پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کر دیا۔ اسی جلوس میں ہمارے دوست سید غضنفر علی بخاری بھی شامل تھے۔ جب پولیس سے ہمارا آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے پولیس سے ڈنڈے چھین کر انہیں پر برسائے اور پھر پولیس نے بھی ہم پرتشدد کیا۔ کارواں چلتا رہا، قیادت تبدیل ہوئی۔ ایران میں امام خمینیؒ کی جگہ آیت للہ سید علی خامنہ ای اور پاکستان میں علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی جگہ علامہ ساجد علی نقوی قائد منتخب ہوئے تو انہوں نے بھی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ جو آج تک جاری ہے۔ یوم القدس کے جلوسوں کو منظم کرنے میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور آئی ایس او کے نوجوانوں کا قابل فخر کردار ہمیشہ ناقابل فراموش رہا ہے۔
مجھے یہاں حماس کی جراتمندانہ جدوجہد کو سلام ضرور پیش کرنا ہے کہ جس نے فلسطینیوں کی آواز بن کر اسرائیل کی سینے پر چڑھ کر اسے باور کروایا ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور پھر اس نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے کو بھی جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ لبنان امت مسلمہ کا جرات مند بازو ثابت ہوا ہے، جس نے حماس کے شانہ بشانہ فلسطینی مسلمانوں کیلئے اسرائیل کیخلاف اپنا عسکری کردار ادا کیا ہے۔ یمن کے بہادر حوثیوں کی تنظیم انصاراللہ نے سمندر میں امریکی بحری بیڑوں پر حملے کرکے اسرائیل کی مدد کرنیوالوں کیلئے مشکلات پیدا کی ہیں اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی مدد کیلئے آنیوالے مجاہدین کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ البتہ عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ افغانستان اور عراق میں خود کو مجاہدین کہنے والے عسکری گروہ داعش، طالبان، القاعدہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کیخلاف لڑتے کہیں نظر کیوں نہیں آرہے۔؟
افسوس ہے ان عرب ریاستوں اور مسلمان ممالک پر، جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرکے فلسطین کے کیس کو عالمی سطح پر کمزور کیا۔ اطلاعات ہیں کہ امریکہ مزید مسلم ریاستوں پر دباو بڑھا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔ حماس کو جب محسوس ہوا کہ متحدہ عرب امارات کے بعد مزید کئی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں تو فلسطینی مزاحمتی تحریک نے ”اب نہیں تو کبھی نہیں“ نعرے کے تحت طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع کرکے ان ریاستوں کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عزائم کو بے نقاب کرکے شرمندہ تعبیر ہونے کا عمل روک دیا۔ 1967ء میں عرب ممالک نے اسرائیل سے اپنے علاقے واپس لینے کے لیے جنگ کی، مگر اسے سات دن سے زیادہ جاری نہ رکھ سکے تھے، مگر 7 اکتوبر سے تادم تحریر اسرائیل کی اکیلے حماس سے جنگ جاری ہے۔ اس میں ابھی تک اسرائیل کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے، حالانکہ پورا عالم کفر صیہونی ریاست کی پشت پناہی کر رہا ہے، مگر وہ حماس کو شکست نہیں دے سکا۔ ہاں شہادتیں ہوئی ہیں، مزید بھی ہوں گی لیکن یہ حقیقت ہے کہ کوئی آزادی شہادتوں کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مظلوم فلسطینیوں کا خون اور سسکیاں ضرور رنگ لائیں گی۔
بحیثیت پاکستانی مسلمان، مجھے شرم محسوس ہو رہی ہے کہ یورپ کا کوئی ایک ملک بھی نہیں کہ جس میں فلسطین کی حمایت میں اسرائیلی مظالم پر عوام نے احتجاج نہ کیا ہو، مگر مسلم ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے۔ پاکستان میں توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ حماس کے لیے مالی امداد ادویات اور خوراک بھیجی جائے گی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نہ حکومت کی سطح پر حماس کے نوجوانوں کی حمایت میں کوئی اعلان کیا گیا اور نہ ہی فلسطین کے لاکھوں زخمیوں کے علاج کیلئے کوئی میڈیکل ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، جو کہ ان مظلوم انسانوں کے علاج کیلئے مددگار ثابت ہوتیں۔ ہاں جماعت اسلامی کی الخدمت فاونڈیشن کی خدمات غزہ میں قابل تعریف ہیں، جبکہ اس سال یوم القدس کے موقع پر جماعت اسلامی کا جلوس بھی فلسطینیوں کی حمایت میں اضافے کا باعث ہوگا۔ آج میں پاکستان کے عوام سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ یوم القدس کے جلوسوں میں بلا تفریق مذہب و مسلک تمام بنی نوع انسان جو انسانیت میں رواداری کو ترجیح دیتے اور مظلوموں کے ساتھی ہیں، وہ فلسطین پر ہونیوالے ظلم وستم، ریاستی دہشت گردی، خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے قتل کیخلاف سڑکوں پر نکلیں اور مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔
تحریر: سید منیر حسین گیلانی
ایران کے سفارتخانہ پر اسرائیلی حملہ شکست کا اعتراف
غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے یکم اپریل کو دمشق میں ایران کے سفارتخانہ پر حملہ کیا ہے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق ایران کی القدس فورس کے اعلیٰ سطحی کمانڈر جنرل زاہدی سمیت سات افراد کی شہادت کی تصدیق ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اس قدر جنون کا شکار ہے کہ سفارتخانہ پر بھی حملہ سے گریز نہیں کیا۔ سرزمین فلسطین پر قائم کی جانے والی صیہونیوں کی اس جعلی ریاست نے ہمیشہ خطے میں دوسرے ممالک اور اقوام کے خلاف دہشت گردانہ عزائم جاری رکھے ہیں۔ آج بھی غزہ میں اپنی شکست کا بدلہ نہ لینے کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار صیہونی غاصب حکومت کبھی لبنان میں حماس رہنماؤں کو قتل کرتی ہے تو کبھی شام میں ایران کے عہدیداروں کو نشانہ بنایا جا تا ہے۔
حقیقت میں غاصب صیہونی حکومت غزہ میں چند سو حماس اور جہاد اسلامی کے نوجوانوں کے سامنے شکست خوردہ ہوچکی ہے۔ غزہ میں ایک سو اسی دن سے جاری جنگ میں اسرائیل کی ناجائز حکومت کو ایک بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تل ابیب میں صیہونی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوچکے ہیں۔ دسیوں ہزار صیہونی آباد کار نیتن یاہو کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ نیتن یاہو کی حکومت یعنی اسرائیل نابودی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ غاصب صیہونی حکومت سنہ1948ء سے اب تک ہمیشہ خطے میں کئی جنگوں کا آغاز کرنے کا ماہر رہا ہے۔ ہمیشہ جنگوں کو مقبوضہ فلسطین سے باہر لڑائی کی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ہمیشہ عرب افواج کو نقصان ہوا ہے۔ عرب علاقوں میں اسرائیل کی توسیع پسندی کو تقویت ملی ہے۔
لیکن اس مرتبہ غزہ کا معرکہ مختلف ہوچکا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اس جنگ میں خود اندر لڑائی میں مشغول ہے۔ اسرائیل کی امریکہ کے ساتھ مل کر پہلے دن سے کوشش ہے کہ جنگ کو فوری طور پر غزہ سے باہر نکال کر خطے میں پھیلا دیا جائے، تاکہ اسرائیل کو سکون میسر ہو، لیکن اس مرتبہ کی جنگ بھی منفرد ہے۔ غزہ اور مقبوضہ فلسطین کے اندر جاری رہنے کے ساتھ ساتھ جنوبی لبنان کے محاذ سے بھی صیہونیوں کے لئے زمین تنگ کی جا چکی ہے۔ یمن کے انصاراللہ اور عراق کے حشد الشعبی اور کتائب حزب اللہ نے بحیرہ روم اور بحیرہ احمر میں غاصب صیہونی حکومت کی معاشی ناکہ بندی کر دی ہے، جس کی وجہ سے اسرائیل کی رہی سہی طاقت بھی دھڑام ہوچکی ہے۔
یہ تمام حالات غاصب صیہونی حکومت کی شکست خوردہ عکس بندی کر رہے ہیں۔ایسے حالات میں اسرائیل شدید ترین دباؤ اور تناؤ کا شکار ہو کر شام اور لبنان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور مسلسل شام میں ایران کے فوجی عہدیداروں کو کہ جو شام کی حکومت کی درخواست پر شام کے ساتھ مختلف سکیورٹی منصوبوں میں کام میں مصروف ہیں، ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یکم اپریل کو ایران کے سفارتخانہ کو اسرائیلی دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو تمام تر عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ کیا اب کوئی سلامتی کونسل جاگے گی؟ کیا افغانستان اور عراق کی طرح غاصب اسرائیل کے خلاف بھی نیٹو کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی؟ اگر ایسا نہیں کیا جا رہا ہے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اقوام متحدہ کا نظام ہو یا پھر نیٹو جیسے الائنس، یہ سب کے سب اس لئے بنائے گئے ہیں کہ ایشیائی اور افریقی ممالک کے قدرتی ذخائر کو ہڑپ کرکے امریکہ اور مغربی حکومتوں کے قدموں میں پیش کریں۔
دمشق میں ایران کے سفارتخانہ پر حملہ اور عہدیداروں کی شہادت کے واقعہ کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کو اس طرح کی بدمعاشی اور دہشتگردانہ کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ کیونکہ اسرائیل صرف طاقت اور مزاحمت کی زبان ہی سمجھتا ہے۔ مبصرین کا یہی کہنا ہے کہ اسرائیل کی شام اور لبنان میں اس طرح کی کارروائیاں جس میں حماس اور ایران کے اعلیٰ سطحی عہدیداروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جانا واضح طور پر اسرائیل کی شکست اور کمزوری کو ظاہر کر رہا ہے، تاہم عالمی نظام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کو لگام دے۔
اسرائیل کی جانب سے دمشق میں ایران کے سفارتخانہ پر حملہ کے بعد دنیا بھر میں دیگر ممالک کے سفارتخانوں کے سکیورٹی تحفظات بھی بڑھ گئے ہیں۔ ان حالات میں اب اقوام متحدہ پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ ویانا کنونشن کی قراردادوں پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ ایک طرف اقوام متحدہ نے اس غاصب اور ناجائز ریاست کو وجود بخشا ہے تو دوسری جانب اب تمام تر غیر قانونی اقدامات پر خاموش تماشائی ہے۔ ایران کے سفارتخانہ پر اسرائیلی حملہ کے بعد سے اب
ایران کا جائز حق ہے کہ وہ بھی دنیا بھر میں اسرائیل کے سفارتخانوں کو نشانہ بنائے اور اپنے شہریوں کی قیمتی جانوں کا انتقام لے اور اس معاملہ میں اب دوہرا معیار رکھنے والی اقوام متحدہ کو بھی خاموش تماشائی ہی رہنا چاہیئے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
ماہ مبارک، رحمت، بخشش، عطاء، استغفار
زندگی کی چکا چوند اور بھاگ دوڑ میں مشغول حضرت انسان کے خالق نے انسانوں کیلئے ان کی فطرت تخلیق کو پیش نظر رکھا اور انہیں کسی مقام، کسی ساعت، کسی گھڑی میں رک جانے، ٹھہر جانے، اپنا جائزہ لینے، اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے، اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اگلے سفر کو مزید بہترین بنانے کا موقعہ دیا۔ لیجیے ایک بار پھر ماہ مبارک آن پہنچا، اللہ کریم و رحیم کی پاک کتاب میں آیت کریمہ سنائی دی: "یا أیّھا الّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون۔"، "اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں، جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے، شاید تم اس طرح متّقی بن جاؤ۔" ماہ مبارک رمضان وہ مبارک اور باعظمت مہینہ ہے، جس میں مسلسل رحمت پروردگار نازل ہوتی رہتی ہے۔ اس مہینہ میں پروردگار نے اپنے بندوں کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے گا۔ ہمیں ایک بار پھر اس ماہ مبارک کی سعادت مل رہی ہے تو یہ باعث خوش بختی و خوش نصیبی ہے۔ یقیناً یہ توفیق پروردگار کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
پروردگار نے یہ توفیق عطا کی کہ ہم اس ماہ مبارک و بابرکت میں اپنے گناہوں کیلئے استغفار کرسکیں، نیکیوں کی بہار سے لطف اندوز ہوسکیں اور اپنی آخرت کا ساماں کرسکیں، ورنہ کتنے ایسے لوگ ہیں، جو پچھلے سال ہمارے اور آپ کے ساتھ تھے، لیکن آج وہ اس دار فنا سے دار بقاء کی طرف منتقل ہوچکے ہیں، اللہ کریم ان پر اپنا فضل و رحمت نازل کرے۔ اس عنوان سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ ہم سب کو اس ماہ مبارک و پربرکت کی باسعادت گھڑیوں کی قدر کرنا چاہیئے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیئے، ممکن ہے کہ یہ مبارک گھڑیاں ہماری آخری گھڑیاں ہوں، آئندہ برس یہ مبارک و باسعادت گھڑیاں ملیں یا نا ملیں۔
کسی شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا: یارسول اللہ! "ثواب رجب أبلغ أم ثواب شھر رمضان؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لیس علی ثواب رمضان قیاس"، "یارسول اللہ! رجب کا ثواب زیادہ ہے یا ماہ رمضان کا؟ تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ماہ رمضان کے ثواب پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔" گویا خداوند متعال بہانہ طلب کر رہا ہے کہ کسی طرح میرا بندہ میرے سامنے آکر جھکے تو سہی۔ کسی طرح آکر مجھ سے راز و نیاز کرے تو سہی، تاکہ میں اس کو بخشش دوں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ مبارک کی فضیلت بیان فرماتے ہیں: "انّ شھر رمضان، شھر عظیم یضاعف اللہ فیہ الحسنات و یمحو فیہ السیئات و یرفع فیہ الدرجات۔"، "ماہ مبارک عظیم مہینہ ہے، جس میں خداوند متعال نیکیوں کو دو برابر کر دیتا ہے۔ گناہوں کو مٹا دیتا اور درجات کو بلند کرتا ہے۔"
رئیس مکتب جعفری امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "قال اللہ تبارک و تعالٰی: یا عبادی الصّدیقین تنعموا بعبادتی فی الدّنیا فانّکم تتنعّمون بھا فی الآخرة۔"، "خداوند متعال فرماتا ہے: اے میرے سچے بندو! دنیا میں میری عبادت کی نعمت سے فائدہ اٹھاؤ، تاکہ اس کے سبب آخرت کی نعمتوں کو پا سکو۔" یعنی اگر آخرت کی بےبہا نعمتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر دنیا میں میری نعمتوں کو بجا لاؤں، اس لئے کہ اگر تم دنیا میں میری نعمتوں کی قدر نہیں کرو گے تو میں تمہیں آخرت کی نعمتوں سے محروم کر دوں گا اور اگر تم نے دنیا میں میری نعمتوں کی قدر کی تو پھر روز قیامت میں تمھارے لئے اپنی نعمتوں کی بارش کردوں گا۔ انہیں دنیا کی نعمتوں میں سے ایک ماہ مبارک اور اس کے روزے ہیں کہ اگر حکم پرور دگار پر لبیک کہتے ہوئے روزہ رکھا، بھوک و پیاس کو برداشت کیا تو جب جنّت میں داخل ہونگے تو آواز قدرت آئے گی: "کلوا و اشربوا ھنیئا بما أسلفتم فی الأیّام الخالیة"، "اب آرام سے کھاؤ پیو کہ تم نے گذشتہ دنوں میں ان نعمتوں کا انتظام کیا ہے۔"
علمائے اخلاق فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک خود سازی کا مہینہ ہے، تہذیب نفس کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں انسان اپنے نفس کا تزکیہ کرسکتا ہے اور اگر وہ پورے مہنیہ کے روزے صحیح آداب کے ساتھ بجا لاتا ہے تو اسے اپنے نفس پر قابو پانے کا ملکہ حاصل ہو جائے گا اور پھر شیطان آسانی سے اسے گمراہ نہیں کر پائے گا۔ احادیث و روایات سے ثابت ہے کہ اللہ کریم کو اس کا شکر ادا کرنا بہت زیادہ پسند ہے۔ اس مبارک مہینہ کے روز و شب انسان کے لئے نعمت پروردگار ہیں، جن کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہنا چاہیئے۔ ہاں تو حضرت انسان کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان بابرکت اوقات اور اس زندگی کی نعمت کا کیسے شکریہ ادا کیا جائے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "من قال أربع مرّات اذا أصبح، ألحمد للہ ربّ العالمین فقد أدّٰی شکر یومہ و من قالھا اذا أمسٰی فقد أدّٰی شکر لیلتہ"، "جس شخص نے صبح اٹھتے وقت چار بار کہا: "الحمد للہ ربّ العالمین" اس نے اس دن کا شکر ادا کر دیا اور جس نے شام کو کہا، اس نے اس رات کا شکر ادا کر دیا۔"
کتنا آسان طریقہ بتا دیا امام علیہ السلام نے اور پھر اس مہینہ میں تو ہر عمل دس برابر فضیلت رکھتا ہے۔ ایک آیت کا ثواب دس کے برابر، ایک نیکی کا ثواب دس برابر۔۔ کیا ہم ان مبارک ساعتوں میں اس طرح شکر ادا کرکے اپنے رب، جو کریم ہے، اسے راضی نہیں کرسکتے، ہاں یہ کام بھی توفیق الہیٰ سے ہی ممکن ہے۔ لہذا ہمیں ادائے شکر کی توفیق بھی طلب کرنا چاہیئے، جو لوگ اس جانب متوجہ ہی نہیں کہ کسی عمل کی توفیق کا چھن جانا بھی بہت بڑا نقصان ہے، انہیں متوجہ کرنا چاہیئے اور ہر دم توفیق طلب کرتے رہنا چاہیئے۔ یہ ماہ یقیناً پروردگار کی عنایات کا مہینہ ہے، اس میں جو مانگو مل سکتا ہے۔
دوستان عزیز و محترم! نیکیوں کی اس باہرکت اور پربرکت گھڑیوں میں اللہ کریم و رحیم اور آئمہ طاہرین و معصومین ؑنے مخلوق خدا کیساتھ بھلائی اور اچھے برتائو کے بارے بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ اس مبارک مہینہ میں دنیا بھر کی طرح اہل پاکستان بھی جی بھر کر راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور صدقات و خیرات کے ذریعے مخلوق خدا کی خدمت کا جذبہ زوروں پہ ہوتا ہے، بہت سے گروہ، جماعتیں، شخصیات اور انجمنیں اس ماہ مبارک میں مستحقین تک راشن، نقد رقوم اور دیگر ضروریات زندگی پہنچانے کیلئے سرگرم عمل رہتے ہیں، جو ایک قابل تعریف و قابل تقلید عمل ہے، جس کو ہر ایک شخص کو اپنے تئیں اپنانا چاہیئے، ممکن ہے کہ کسی کی توفیق کسی ایک گھر کو راشن لے کر دینے کی ہو، کسی کی توفیق کسی ایک گھر کو ایک افطاری یا سحری کروانے کی ہو، اسے یہ عمل سرانجام دیتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کرنا چاہیئے، بلکہ پروردگار سے توفیق مزید طلب کرتے ہوئے اپنے اخلاص سے یہ عمل سرانجام دینا چاہیئے۔
ہاں جن کو مالک و خالق نے بے بہا دیا ہے، انہیں اگر توفیق حاصل ہو تو انہیں ہاتھ کھلا رکھنا چاہیئے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے انہیں کسی قسم کی تنگی نہیں ہوگی، نہ کمی ہوگی بلکہ جس پروردگار نے انہیں پہلے دیا ہے، وہی اس میں برکت ڈال دیگا اور ان کے رزق میں فراوانی و کشادگی ہوگی۔ ہاں اہل خیر کو مستحقین تک ضروریات پہنچانے میں سستی نہیں کرنا چاہیئے۔ یہاں مجھے مولا کا فرمان یاد آگیا، مولائے کائنات امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں اے انسان تیرے پاس تین ہی تو دن ہیں، ایک کل کا دن، جو گزر چکا اور اس پر تیرا قابو نہیں چلتا، اس لئے کہ جو اس میں تو نے انجام دینا تھا، دے دیا۔ اس کے دوبارہ آنے کی امید نہیں اور ایک آنے والے کل کا دن ہے، جس کے آنے کی تیرے پاس ضمانت نہیں، ممکن ہے کہ زندہ رہے، ممکن ہے کہ اس دنیا سے جانا پڑ جائے، تو بس ایک ہی دن تیرے پاس رہ جاتا ہے اور وہ آج کا دن ہے، جو کچھ بجا لانا چاہتا ہے، اس دن میں بجا لا۔
اگر کسی غریب کی مدد کرنا ہے تو اس دن میں کر لے، اگر کسی یتیم کو کھانا کھلانا ہے تو آج کے دن میں کھلا لے، اگر کسی کو صدقہ دینا ہے تو آج کے دن میں دے، آج اس مبارک مہینہ میں اپنے ربّ کی بارگاہ میں سرجھکا لے، خدا رحیم ہے، تیری توبہ قبول کر لے گا۔ یقیناً یہ ماہ مبارک عبادت، بندگی، دعا و مناجات، تزکیہ نفس، خدمت خلق، احساس، درد، بخشش، توبہ کا مہینہ ہے۔ یہ واحد مہینہ ہے، جس میں سانس لینا اور سونا بھی عبادت شمار ہوتا ہے، پروردگار سے توفیق طلب کرتے ہیں کہ ہمیں اس ماہ مبارک و سعادت میں اس کی مرضی و قرب کے حصول کی منزلیں پانے کی مزید توفیقات عطا ہوں، تاکہ جب امام ؑکا ظہور ہو اور ہم ان کی بارگاہ میں پیش ہوں تو ان کے طرفداروں میں، ان کے یاوروں اور ان کے ساتھیوں میں شمار ہوں۔ وما توقفی الا باللہ۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر
مسجدالاقصی میوزیم کے تاریخی آثار
رهبر انقلاب کے قرآنی مستندات مستکبروں سے مقابلہ حق کی پیشرفت کا لازمہ
ایکنا نیوز کے مطابق مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے نمائندوں کے حالیہ اجلاس میں سورہ بقرہ کی 279 آیات، 76 سورہ نساء اور 8 سورہ "ممتحنہ" کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے بیانات کے کچھ حصے کی وضاحت میں بیانات فرمائے۔
اس مضمون میں ہم سورہ نساء کی آیت نمبر 76 سے متعلق نکات اور تشریحات بیان کرنے جارہے ہیں۔
اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دین اور اسلام کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت کے کام کی بنیاد «لا تَظلِمونَ وَ لا تُظلَمون»۔ ; ایمان والے اللہ کی راہ میں لڑیں گے۔" ظلم اور ظالم سے لڑیں گے۔
آیت کا متن: الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا»
آیت کا ترجمہ: ’’جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ اور جنہوں نے کفر کیا ہے وہ ظلم کی راہ میں لڑتے ہیں۔ لہٰذا شیطان کے دوستوں سے لڑو، کیونکہ شیطان کی چال [بالآخر] کمزور ہے۔"
اس آیت میں اللہ تعالیٰ مجاہدین کی حوصلہ افزائی اور انہیں دشمن کے خلاف لڑنے کی ترغیب دینے اور مجاہدین کی صفوں اور اہداف کو بتانے کے لیے فرماتا ہے: ایمان والے لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کچھ خدا کے بندوں کے فائدے کے لیے ہے، لیکن بے ایمان لوگ ظالموں یعنی تباہ کن طاقتوں کی راہ میں لڑتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کسی بھی صورت میں جدوجہد سے پاک نہیں ہے، لیکن کچھ لوگ حق کی راہ میں لڑتے ہیں اور کچھ لوگ برائی اور شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں۔
رہبرانقلاب اسلامی نے بھی اپنی تقریر میں اس آیت کا حوالہ دیتے ہوئے تاریخ میں حق کے لیے جدوجہد کی اہمیت کے بارے میں فرمایا: تمام انبیاء نے دولت اور طاقت کے مالکوں، دنیا کے غاصبوں، دنیا کے ظالموں، فرعونوں کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے سامنا کیا اور وہ ان کے ساتھ لڑے۔ حق کی جدوجہد کے بغیر باطل پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں ہوگا۔ یہ حقیقت کہ انسانی تاریخ کے آغاز سے لے کر آج تک انسانیت روز بروز علم الہی کے قریب تر ہوتی جارہی ہے، اس کی وجہ جدوجہد ہے۔ کیونکہ حق کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔ جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور جو کافر ہیں وہ اللہ کی راہ والوں سے لڑیں گے۔ ظالموں، جابروں، بدخواہوں، ظالموں اور جابروں کے خلاف لڑے بغیر حق آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جدوجہد ضروری ہے، اور انبیاء نے یہی کیا، اور توحید میں اس جدوجہد کے اصول، اور بنیادی خطوط شامل ہیں۔" (حکومتی حکام اور اسلامی ممالک کے سفیروں کے درمیان ملاقات میں بیانات سے اقباس)
ماہ خدا اور ہماری ذمہ داریاں
حوزہ نیوز ایجنسی | الحمد اللہ ہم سب کی زندگی میں ایک بار پھر رحمتوں، برکتوں اور مغفرت کا مہینہ یعنی ماہ رمضان المبارک آگیا، اس مبارک ماہ کا آغاز در حقیقت تمام مسلمانوں کے لئے پیغامِ بہاراں و مسرت ہے۔ لہذا اس مبارک ماہ کی مبارک باد تمام قارئین کی خدمتِ اقدس میں پیش کرتے ہیں- اور اس مہینے کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے کی ضرورت ہے۔
صرف روزہ رکھ لینا کمال نہیں ہے بلکہ وہ روحانی تبدیلی ہمارے اندر آنی چاہیئے کہ جو اللہ اس مہینے کی برکت سے چاہتا ہے، کمال اور امتیاز اس بات پر ہے کہ ماہِ رمضان گزر جانے کے بعد ہم تبدیل ہوے یا نہیں، اگر تبدیلی آئی تو ہم نے اس ماہ سے حقیقی استفادہ حاصل کیا اور اگر کوئی تبدیلی نہیں آئی تو ہمیں اپنے نفس جا جائزہ لینا چاہیے.
یہ ضیافت الہی کا مہینہ ہے، یہ اپنے گناہوں کو بخشوانے کا مہینہ ہے، یہ اللہ کی بارگاہ میں استغفار کا مہینہ ہے، اس مہینے میں مومنین اور وہی افراد ضیافت پروردگار کے دسترخوان پر بیٹھنے کا شرف حاصل کر پاتے ہیں جو اس مہمانی کے قابل ہیں۔ یہ اللہ تعالی کے دسترخوان کرم سے مختلف دسترخوان ہے۔ اللہ تعالی کا عمومی دسترخوان لطف و کرم تمام انسانوں ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات کے لئے بچھا ہوا ہے اور سب کے سب اس سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ یہ (ماہ مبارک رمضان میں بچھنے والا) ضیافت الہی کا دسترخوان خاصان خدا سے مخصوص ہے۔ ماہ رمضان کے سلسلے میں سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان ایسے بے شمار علل و اسباب میں گھرا ہوا ہے جو اسے ذکر الہی سے غافل اور راہ پروردگار سے منحرف کر دیتے ہیں۔ گوناگوں خواہشیں اور جذبات اسے پستی و تنزلی کی جانب دھکیلتے ہیں۔ ماہ مبارک رمضان کی آمد پر اس انسان کو ایک موقع ملتا ہے کہ اپنی روح اور پاکیزہ باطن کوجو فطری اور قدرتی طور پر کمال و تکامل کی جانب مائل ہوتا ہے، بلندیوں کی سمت لے جائے، قرب الہی حاصل کرے اور اخلاق حسنہ سے خود کو آراستہ کر لے۔ تو ماہ مبارک رمضان انسان کے لئے خود سازی اور نفس کی تعمیر نو کا مہینہ اور پروردگار سے مانوس اور قریب ہونے کے لئے سازگار موسم بہار ہے۔
ماہ مبارک رمضان کی برکتیں ان افراد سے شروع ہوتی ہیں جو اس مبارک مہینے میں اللہ تعالی کا مہمان ہونا چاہتے ہیں۔ یہ برکتیں ان مومنین کے قلوب سے شروع ہوتی ہیں۔ اس مہینے کی برکتوں کی برسات سب سے پہلے مومنین، روزہ داروں اور اس مہینے کی مقدس فضا میں قدم رکھنے والوں پر ہوتی ہے۔ ایک طرف اس مہینے کے روزے، دوسری طرف اس با برکت مہینے میں تلاوتِ قرآن اور اس کے علاوہ اس مہینے کی مخصوص دعائيں انسان کے نفس کو پاکیزہ اور اس کے باطن کو طاہر بنا دیتی ہیں۔ ہر سال کا ماہ رمضان بہشت کے ایک ٹکڑے کی حیثیت سے ہماری مادی دنیا کے تپتے صحرا میں اتار دیا جاتا ہے اور ہم اس مبارک مہینے میں ضیافت پروردگار کے دسترخوان پر بیٹھ کر جنت کے موسم بہاراں سے آشنا اور لطف اندوز ہونے کا موقع پا جاتے ہیں۔ بعض افراد اس مہینے کے تیس دنوں میں جنت کی سیر کرتے ہیں اور بعض خوش نصیب تو اس ایک مہینے کی برکت سے پورے سال وادی جنت میں گھومنے پھرنے کا بندو بست کر لیتے ہیں جبکہ بعض، اس کی برکتوں سے پوری عمر جنت کا لطف اٹھاتے ہوئے گزارتے ہیں۔ اس کے بر عکس بعض افراد ایسے بھی ہیں جو آنکھیں بند کئے اور کانوں میں تیل ڈالے اس مہینے کے نزدیک سے گزر جاتے ہیں اور اس کی برکتوں کو ایک نظر دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ یہ بڑے افسوس کا مقام اور ان کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے۔ جو شخص ماہ مبارک رمضان کی برکت سے ھوی و ہوس اور نفسانی خواہشات کو قابو میں کرنے میں کامیاب ہو گیا اس نے در حقیقت بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اسے چاہئے کہ اس کی دل و جان سے حفاظت کرے۔ جو شخص نفسانی خواہشات اور ہوسرانی سے پریشان ہے اس مبارک مہینے میں اپنی ان خواہشات پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے۔ انسان کی تمام بد بختیوں کی جڑ، نفسانی خواہشات کی پیروی اور ان کا اسیر ہو جانا ہے۔ جو بھی ظلم اور نا انصافی ہوتی ہے، جتنے فریب اور دھوکے دئے جاتے ہیں، تمام ظالمانہ جنگیں، بد عنوان حکومتیں یہ ساری کی ساری برائیاں نفسانی خواہشات کی پیروی کا نتیجہ ہے۔ اگر انسان اپنے نفس پر غالب آ جائے تو اسے نجات حاصل ہو جائے گی اور اس کے لئے بہترین موقع ماہ مبارک رمضان ہے۔ بنابریں سب سے اہم مسئلہ گناہوں سے پرہیز کا ہے، ہمیں چاہئے کہ اس مہینے میں تہذیب نفس کریں اور گناہوں سے دور رہنے کی کوشش اور مشق کریں۔ اگر ہم نے خود کو گناہوں سے دور کر لیا تو عالم ملکوت میں ہماری معنوی پرواز کے لئے فضا ہموار ہو جائے گی اور انسان معنوی سفر کرتے ہوئے وہ راستہ طے کرے گا جو اس کے لئے معین کیا گیا ہے لیکن اگر اس کی پشت پر گناہوں کی سنگینی باقی رہی تو یہ چیز ممکن نہ ہوگی۔ ماہ مبارک رمضان گناہوں سے دور ہونے کا بہترین موقع ہے۔روزہ جسے الہی فریضہ کہا جاتا ہے در حقیقت ایک الہی نعمت اور تحفہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے ایک سنہری موقع ہے جو روزہ رکھنے کی توفیق حاصل کرتے ہیں۔ البتہ اس کی اپنی سختیاں اور صعوبتیں بھی ہیں۔ جتنے بھی با برکت، مفید اور اہم اعمال ہیں ان میں دشواریاں ہوتی ہیں۔ انسان دشواریوں کا سامنا کئے بغیر کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ روزہ رکھنے میں جو سختی برداشت کرنا ہوتی ہے وہ اس جزا اور ثمرے کے مقابلے میں ہیچ ہے جو روزہ رکھنے کے نتیجے میں انسان کو ملتا ہے۔
روزے کے تین (٣) مراحل ذکر کئے گئے ہیں اور یہ تینوں مراحل اپنے مخصوصی فوائد اور ثمرات کے حامل ہیں۔ سب سے پہلا مرحلہ، روزہ کا یہی عمومی مرحلہ ہے، یعنی کھانے پینے اور دیگر مبطلات روزہ سے پرہیز کرنا۔ اگر ہمارے روزے کا لب لباب انہی مبطلات روزہ سے پرہیز ہے تب بھی اس کی بڑی اہمیت و قیمت اور بڑے فوائد ہیں۔ اس سے ہمارا امتحان بھی ہو جاتا ہے اور ہمیں کچھ سبق بھی ملتا ہے۔ تو یہ روزہ درس بھی اور زندگی کے لئے امتحان بھی۔ ساتھ ہی یہ مشق اور ورزش بھی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ “لیستوی بہ الغنی و الفقیر” اللہ تعالی نے روزہ اس لئے واجب کیا کہ ان مخصوص ایام میں مخصوص اوقات کے دوران غنی و فقیر برابر ہو جائیں۔ جو افراد تہی دست اور غریب ہیں وہ ہر وہ چیز نہیں حاصل کر سکتے ہیں جو ان کی خواہش ہوتی ہے لیکن غنی و دولتمند انسان کا جب جو کھانے اور پہننے کا دل کرتا ہے اس کے لئے وہ چیز فراہم رہتی ہے۔ چونکہ امیر انسان کی ہر خواہش فوراً پوری ہو جاتی ہے اس لئے اسے تہی دست اور غریب کا حال نہیں معلوم ہو پاتا لیکن روزہ رکھنے کی صورت میں سب یکساں اور مساوی ہو جاتے ہیں اور سب کو اپنی خواہشیں دبانا پڑتی ہیں۔ جو شخص بھوک اور پیاس تحمل کر چکا ہوتا ہے اسے ان سختیوں کا بخوبی اندازہ رہتا ہے اور وہ ان صعوبتوں کو برداشت کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔ ماہ مبارک رمضان انسان کو سختیوں اور دشواریوں سے نمٹنے کی طاقت و توانائی عطا کرتا ہے۔ فرائض کی ادائیگی کی راہ میں صبر و ضبط سے کام لینے کی مشق کرواتا ہے۔ تو اس عمومی مرحلے میں بھی اتنے سارے فوائد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انسان کا شکم جب خالی رہتا ہے اور وہ ایسے بہت سے کاموں سے روزے کی وجہ سے پرہیز کرتا ہے جو عام حالات میں اس کے لئے جائز ہیں تو اس کے وجود میں ایک نورانیت اور لطافت پیدا ہوتی ہے جو واقعی بہت قابل قدر ہے۔
روزے کا دوسرا مرحلہ گناہوں سے دوری اور اجتناب کا ہے۔ روزے کی وجہ سے انسان، آنکھ، کان، زبان اور دل حتی جلد جیسے جسمانی اعضاء و اجزاء کو گناہوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا درجہ پہلے مرحلے کی بنسبت زیادہ بلند ہوتا ہے۔ رمضان کا مہینہ انسان کے لئے گناہوں سے اجتناب کی مشق کا بہت مناسب موقع ہوتا ہے۔ لہذا دوسرے مرحلے کا روزہ وہ ہوتا ہے جس کے ذریعے انسان خود کو گناہوں سے پاک و منزہ بنا لیتا ہے، تمام نوجوانوں کا فریضہ ہے کہ خود کو گناہوں سے محفوظ رکھیں۔ آپ ابھی نوجوان ہیں۔ نوجوانی میں انسان کے پاس طاقت و توانائی بھی زیادہ ہوتی اور اس کا دل بھی پاک و پاکیزہ ہوتا ہے۔ ماہ رمضان میں نوجوانوں کو ان خصوصیات سے کما حقہ استفادہ کرنا چاہئے۔ اس مہینے میں آپ گناہوں سے دوری و اجتناب کی مشق کیجئے جو روزے کا دوسرا مرحلہ ہے۔ روزے کا تیسرا مرحلہ ایسی ہر چیز سے پرہیز ہے جو انسان کے دل و دماغ کو ذکر الہی سے غافل کر دے۔ یہ روزے کا وہ مرحلہ ہے جس کا مقام بہت بلند ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں روزہ، روزہ دار کے دل میں ذکر الہی کی شمع روشن کر دیتا ہے اور اس کا دل معرفت پروردگار سے منور ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے میں انسان کے لئے ہر وہ چیز مضر ہے جو اسے ذکر پروردگار سے غافل کر سکتی ہو۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو روزہ داری کی اس منزل پر فائز ہیں۔
ماہ رمضان، دعا و مناجات اور تقویٰ و پرہیزگاری کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہم عبادات اور اذکار کے ذریعے روحانی و معنوی قوت حاصل کرکے سنگلاخ وادیوں اور دشوار گزار راستوں سے گزر کر منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ماہ رمضان، قوت و توانائی کا سرچشمہ ہے۔ اس مہینے میں لوگوں کو چاہئے کہ خود کو معنوی خزانوں تک پہنچائيں اور پھر حتی المقدور اس خزانے سے سرمایہ حاصل کریں اور آگے بڑھنے کے لئے آمادہ ہوں۔ ماہ رمضان میں روزہ، نماز، دعا و مناجات،بندگی و عبادات کا ایک خوبصورت گلدستہ ہمارے سامنے ہوتا ہے اگر ہم اس پر توجہ دیں اور تلاوت کلام پاک کی خوشبو کا بھی اس میں اضافہ کر لیں، کیونکہ ماہ رمضان کو قرآن کے موسم بہار سے تعبیر کیا گيا ہے، تو خود سازی اور تہذیب نفس، سعادت و خوشبختی کی بڑی حسین منزل پر ہمارا ورود ہوگا۔ ماہ مبارک رمضان کے شب و روز میں آپ اپنے دلوں کو ذکر الہی سے منور رکھئے تاکہ شب قدر کے استقبال کے لئے آپ تیار ہو سکیں۔
“لیلۃ القدر خیر من الف شھر تنزل الملائکۃ و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر” یہ وہ شب ہے جس میں فرشتے زمین کو آسمان سے متصل کر دیتے ہیں۔ قلوب پر نور کی بارش ہوتی ہے اور پورا ماحول لطف الہی کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے۔ یہ رات معنوی سلامتی اور دل و جان کی جلا، اخلاقی، معنوی، مادی، سماجی اور دیگر بیماریوں سے شفا کی شب ہے۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جو بد قسمتی سے بہت سی قوموں حتی مسلم اقوام میں سرایت کر گئی ہیں۔ ان سب سے نجات اور شفا شب قدر میں ممکن ہے بس شرط یہ ہے کہ پوری تیاری کے ساتھ اس رات میں داخل ہوا جائے۔ ہر سال کو اللہ تعلی کی جانب سے ایک پیش قیمتی موقع عطا کیا جاتا ہے اور وہ موقع و وقت ماہ مبارک رمضان ہے۔ اس مہینے میں قلوب میں لطافت، روح میں درخشندگی پیدا ہو جاتی ہے اور انسان رحمتِ پروردگار کی خاص وادی میں قدم رکھنے کے لائق بن جاتا ہے۔ اس مہینے میں ہر شخص اپنی بصاعت کے مطابق ضیافتِ پروردگار سے استفادہ کرتا ہے۔ جب یہ مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے تو ایک نیا دن شروع ہوتا ہے جو عید کا دن ہوتا ہے۔ یعنی وہ دن جب انسان ماہ رمضان میں حاصل ہونے والے ثمرات اور توفیقات کے ذریعے پورے سال کے لئے صراط مستقیم کا انتخاب کرکے کجروی سے خود کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ عید فطر کاوشوں اور زحمتوں کا ثمرہ حاصل کرنے اور رحمت الہی کے دیدار کا دن ہے۔ عید فطر کے تعلق سے بھی ایک اہم بات اس دن پورے سال کے لئے آمادگی کا سنجیدہ فیصلہ ہے۔ یہیں سے آئندہ سال کے ماہ مبارک رمضان کے خیر مقدم کی تیاری شروع ہوتی ہے، اگر کوئی چاہتا ہے کہ ماہ رمضان میں اللہ تعالی کا مہمان بنے اور شب قدر کی برکتوں سے بہرہ مند ہو تو اسے پورے گیارہ مہینے بہت محتاط رہنا ہوگا۔ عید کے دن اسے یہ عہد کرنا ہوگا کہ پورا سال اسے اس انداز سے بسر کرنا ہے کہ ماہ رمضان خود اس کا استقبال کرے اور وہ ضیافت الہی کے دسترخوان پر بیٹھنے کے قابل ہو۔ یہ ایک انسان کو ملنے والا سب سے بڑا فیض ہو سکتا ہے۔ یہ ایک انسان اور اس کے تمام متعلقین نیز اسلامی معاشرے سے وابستہ تمام امور میں کامیابی و کامرانی کا بہترین وسیلہ ہے۔ اگر ہم پوری بیداری اور شعور کے ساتھ ماہ رمضان میں داخل ہوئے تو ضیافت الہی سے حقیقی استفادہ کر سکیں گے ہم ایک زینہ اوپر پہنچ جائیں گے اور ہمارا درجہ بلند ہوگا۔ پھر ہم اپنے دل و جان کی گہرائيوں میں بھی اور اپنے گرد و پیش کے حالات میں بھی وہ مناظر مشاہدہ کریں گے جن سے ہمیں حقیقی لطف اور مسرت حاصل ہوگی۔
آخرِ تحریر میں اللہ کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ پروردگار اس مبارک ماہ کی برکت سے تمام مخلوق کی حفاظت فرماں۔
تحریر : مولانا جاوید حیدر زیدی زیدپوری