سلیمانی

سلیمانی

صیہونی حکومت کی غزہ پر جاری جارحیت کو 140 دنوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور جنگ کو روکنے کے لیے غیر نتیجہ خیز بین الاقوامی کوششوں کے درمیان غزہ کے شہری مختلف قسم کے انسانیت سوز جرائم کا شکار ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے اطلاع دی ہے کہ انہیں "معتبر اور قابل اعتماد" شواہد ملے ہیں کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے اور اقوام متحدہ کے ماہرین اس واقعہ کے مزید پہلوؤں کو واضح کرنے کے لیے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ گارڈین اخبار کے مطابق اقوام متحدہ کی ماہر کمیٹی نے بتایا کہ کم از کم دو کیسز ریپ اور دیگر کیسز میں جنسی تشدد، تذلیل اور ریپ کی دھمکیوں کے باقاعدہ شواہد ملے ہیں۔

خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ریم السلم نے کہا کہ جنسی تشدد کی حقیقی شرح اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہوسکتا ہے کہ ہم متاثرین کی صحیح تعداد کو طویل عرصے تک نہ جان سکیں۔" انتقام کے خوف سے جنسی حملوں کے واقعات کی رپورٹنگ میں پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جنگ میں فلسطینی خواتین، بچوں اور شہریوں کے ساتھ تشدد اور غیر انسانی سلوک اب ایک معمول بن گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے گذشتہ پیر کو جاری کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ "ہم خاص طور پر ان رپورٹس سے پریشان ہیں کہ حراست میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو بھی جنسی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، مرد اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے فلسطینی خواتین کو برہنہ کرنا اور تلاشی لینا بھی اس میں شامل ہے۔

غزہ میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 30،000 کے قریب پہنچ رہی ہے۔ دوسری طرف بعض ماہرین ان رپورٹس کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جن میں خواتین اور لڑکیوں کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ خودسرانہ سزائے موت کے خطرے سے دوچار کیا جاتا ہے، جن میں اکثر بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ "ان میں سیکڑوں انسانی حقوق کے محافظ۔ اور صحافی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی خواتین کو غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک اور شدید مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں ماہواری کے دوران ضروری حفظان صحت کی اشیاء، خوراک اور ادویات کی فراہمی سے  بھی انکار کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے  کہ "ہم فلسطینی خواتین اور بچوں کو ان مقامات پر جہاں انہوں نے پناہ لی ہوتی ہے، دانستہ طور پر نشانہ بنانے اور غیر قانونی طور پر قتل کرنے کی خبروں سے حیران و پریشان ہیں۔

اطلاعات کے مطابق بعض اوقات ایسے بھی ہوا کہ ان میں سے کچھ  فلسطینیوں نے سفید کپڑے (ہتھیار ڈالنے کی علامت کے طور پر) اٹھائے ہوئے تھے، اس کے باوجود انہیں اسرائیلی فورسز نے گولی مار دی۔ ان نامہ نگاروں میں سے ایک نے فرانس 24 ٹی وی کو فلسطینی لڑکیوں اور خواتین کی جانب سے ملنے والی انتہائی چونکا دینے والی شہادتوں کے بارے میں بتایا ہے، ان کا کہنا ہے ’’ہم تک پہنچنے والی رپورٹس کے مطابق غزہ میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو من مانی طور پر انفرادی یا گروہی طور پر قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ خاندان کے افراد کے ساتھ اور کبھی کبھی اپنے بچوں کے ساتھ قتل کی جاتی ہیں۔ اس طرح کے زیادہ واقعات دسمبر 2023ء اور جنوری 2024ء میں پیش آئے۔ اس رپورٹ میں مغربی کنارے اور غزہ میں غیر قانونی اور من مانی حراستوں میں خواتین کی وسیع پیمانے پر موجودگی کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے اور غزہ میں گرفتار ہونے والی خواتین کو رات کے لباس  میں گھروں سے سڑکوں پر لے جایا گیا اور بغیر کوئی ثبوت فراہم کیے انہیں حماس سے وابستہ جنگجو قرار دیا گیا۔

حماس کا موقف
اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے اقوام متحدہ سے بین الاقوامی تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے جواب میں ایک بیان میں کہا کہ یہ جرائم، نسل کشی اور نسلی تطہیر کے علاوہ ہیں، جو قابضین  اور نیتن یاہو کو جنگی مجرم ثابت کرتے ہیں۔ نیتن یاہو کی نازی فوج ہمارے لوگوں کے خلاف اس طرح کے متعدد جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ قابض فوج فلسطینی خواتین کے خلاف جنسی جارحیت کے علاوہ خود سرانہ پھانسیاں، من مانی گرفتاریاں، شدید مار پیٹ اور دوران حراست خوراک اور ادویات سے محروم کرنے جیسے اقدام کو جائز سمجھتی ہے۔ تحقیقات کے دوران عصمت دری اور توہین کی دھمکیوں کے علاوہ کئی غیر انسانی اقدامات سامنے آئے ہیں۔

حماس اس بدمعاش حکومت کے خلاف بین الاقوامی تحقیقات کے آغاز کا مطالبہ کرتی ہے اور اس کے رہنماؤں کو ان کے وحشیانہ جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہراتی ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ رپورٹ واحد اور پہلی رپورٹ نہیں ہے، جس میں حالیہ جنگ کے دوران فلسطینی خواتین کے خلاف منظم جرائم کے امکان کا اعلان کیا گیا ہے، جیسا کہ اس سے قبل دسمبر 2023ء میں فلسطینی العودہ مرکز نے ایک بیان میں غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں عصمت دری اور جنسی تشدد کے واقعات سے مطلع کیا تھا۔ اس مرکز نے قابض فوج اور اس کے سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے جنسی حملوں کی طویل تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینی خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے اکثر فوجیوں کو سزا نہیں ملتی۔

بہت سی فلسطینی لڑکیاں اور خواتین اس مسئلے کے بارے میں شکایت کرنے کو تیار نہیں ہیں، کیونکہ اس کا تعلق ان کی عزت و آبرو اور ان کے خاندانوں سے ہوتا ہے، وہ ان جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف شکایت کرنے اور عدالت میں پیش ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتیں، تاہم 2017ء میں ایک فلسطینی خاتون کی شکایت کے بعد مغربی کنارے میں اسرائیلی حراستی مراکز میں خواتین کے حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ حراستی مرکز میں صہیونی فوجیوں کی طرف سے تشدد اور جنسی زیادتی سے متعلق اس خاتون کے چونکا دینے والے اعترافات کے بعد، "Haaretz اخبار" کے معروف اسرائیلی صحافی امر اورین نے 3 اپریل 2016ء کو ایک رپورٹ شائع کی، جس میں فوجی استغاثہ کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیلی فوج کی آرکائیو اور دستاویزات میں فلسطینی قیدیوں کے قتل، ان پر حملہ اور عصمت دری سمیت مختلف جنگی جرائم کے شواہد ملے ہیں۔

ان جرائم پر صہیونی حکام نے جرائم کے مرتکب افراد کو سزا دیئے بغیر ان کیسز پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ اس فلسطینی خاتون کو ان بے شمار مقدمات میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان دستاویزات سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہوئی کہ عصمت دری اور جنسی حملے خاص طور پر خواتین کے خلاف منظم طریقے سے ہوتے ہیں، کیونکہ اسرائیلی فوج کے چیف ربی نے فلسطینی خواتین کے خلاف تشدد اور عصمت دری کے جائز ہونے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ ان دستاویزات میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج کے چیف ربی "عیال کریم" نے "اسرائیلی فوجیوں کے لیے جنگ کے دوران فلسطینی خواتین اور لڑکیوں یعنی غیر یہودی خواتین کی عصمت دری کرنا جائز قرار دیا ہے۔"

بین الاقوامی عدالتوں میں فلسطینی خواتین کی عصمت دری کی پیروی
اقوام متحدہ کے نامہ نگاروں کی حالیہ رپورٹ غزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی طرف سے انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم کے بارے میں ایک وسیع اور مفصل بین الاقوامی تحقیقات کے لیے ایک روزن اور ثبوت ثابت ہوسکتی ہے۔جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ میں نسل کشی کے بارے میں ہیگ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت میں شکایت کے بعد گذشتہ ہفتوں میں اس عدالت کی طرف سے صیہونی حکومت کی مذمت کی گئی ہے۔ اس عدالتی کارروائی نے حالیہ جنگ کے دوران غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کے جرائم کے خلاف دوسرے ممالک کی طرف سے مزید شکایات کے لیے راستہ کھول دیا ہے۔بین الاقوامی فوجداری عدالت کے آئین (آرٹیکل 7 کے پیراگراف 1) میں واضح طور پر جنسی تشدد کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس شق سے مراد عصمت دری، جنسی غلامی، جبری جسم فروشی، جبری حمل، جبری نس بندی یا کسی بھی طرح کا جنسی تشدد ہے۔

اس کے علاوہ، چوتھے جنیوا کنونشن (1949ء) اور اس کے ضمیموں میں، خواتین کے خلاف پرتشدد رویئے کی مذمت پر کئی بار زور دیا گیا ہے، اس بین الاقوامی دستاویز کے پیراگراف 27 میں، خواتین کے وقار کی خلاف ورزی، عصمت دری، جبری جسم فروشی اور کسی بھی خلاف عصمت و عفت اقدام کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جنگوں میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کو بڑھانے کے لیے کئی دیگر کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ ویانا اعلامیہ اور رہنماء خطوط، جو جون 1993ء میں انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس کے ذریعے جاری کیے گئے تھے، اسی طرح بیجنگ اعلامیہ اور رہنماء خطوط، جو ستمبر 1995ء میں خواتین کے بارے میں اقوام متحدہ کی چوتھی کانفرنس کے ذریعے جاری کیے گئے تھے، اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان دونوں میں عورت کی تذلیل اور خواتین کے جنسی تشدد کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

صہیونی، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت کی وجہ سے ہیگ کی عدالت کے حالیہ فیصلے سمیت بین الاقوامی فیصلوں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔صیہونی تمام دنیا کی مخالفت کے باوجود رفح میں شہریوں پر نئے حملوں کی بڑی ڈھٹائی سے تیاری کر رہے ہیں۔ بہرحال جنگی جرائم کا کمیشن صیہونی حکومت کی حمایت کرنے والے ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے کو غلط ثابت کرنے کے لئے صیہونی مظالم کی حمایت کرنے والے ممالک کے سیاسی حکام اور تل ابیب کے رہنماؤں کو جوابدہ بنانے میں اہم کردار ادا کرے، تاکہ انہیں ان کے اعمال کی سزا دی جاسکے۔
 
 ترتیب و تنظیم: علی واحدی
 

شبہ کا بیان:

ابن تيميہ حرانی ناصبی نے کتاب منہاج السنہ نے حضرت مہدی عجل الله تعالی فرجہ الشريف کے بارے میں لکھا ہے کہ:

قد ذكر محمد بن جرير الطبري وعبد الباقي بن قانع وغيرهما من أهل العلم بالأنساب والتواريخ أن الحسن بن علي العسكري لم يكن له نسل ولا عقب والإمامية الذين يزعمون أنه كان له ولد يدعون أنه دخل السرداب بسامرا وهو صغير منهم من قال عمرة سنتان ومنهم من قال ثلاث ومنهم من قال خمس سنين... .

محمد ابن جرير طبری ، عبد الباقی ابن قانع اور علم نسب شناسی و علم تاریخ کے علماء نے کہا ہے کہ [امام] حسن ابن علی عسكری [عليہ السلام] کا کوئی بیٹا نہیں تھا، لیکن امامیہ گمان کرتے ہیں کہ انکا ایک بیٹا تھا اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ سرداب میں داخل ہوا ہے، حالانکہ وہ چھوٹا تھا۔ بعض شیعوں نے کہا ہے کہ وہ دو سال کے تھے، بعض نے کہا ہے کہ وہ تین سال اور بعض نے کہا ہے کہ وہ پانچ سال کے تھے۔

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفي 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج4، ص87، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولي، 1406هـ.

احسان الہی ظہير وہابی ناصبی نے بھی اپنی كتاب الشيعة وأهل البيت میں اپنے ناصبی استاد ابن تیمیہ کی بات کو تکرار کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

من أكاذيب الشيعة علي اهل البيت انهم نسبوا اليهم الأقوال والروايات التي تنبيء بخروج القائم من اولاد الحسن العسكري الذي لم يولد له مطلقا ...

اہل بیت پر شیعوں کے جھوٹوں میں سے یہ ہے کہ وہ ایسی باتوں اور روایات کی انکی طرف نسبت دیتے ہیں کہ جن میں ذکر ہوا ہے کہ اولاد امام حسن عسکری میں سے قائم خروج کرے گا، حالانکہ ہرگز انکا کوئی بیٹا نہیں تھا۔

الشيعة وأهل البيت، ص244 .

باقی وہابیوں نے بھی انہی بے ہودہ اور فالتو مطالب کو تکرار کیا ہے اور آج تک تکرار کرتے آ رہے ہیں:

جیسے احمد محمود صبحی نے كتاب نظرية الإمامة، ص409

 اور ڈاکٹر قفاری نے کتاب اصول مذہب الشيعه، ج1، ص 451

میں ان مطالب کا ذکر کیا ہے۔

بحث او رتحقیق:

اہل سنت کے بزرگان کا حضرت مہدی (عج) کی ولادت کا اعتراف کرنا:

زمانہ ماضی سے لے کر آج تک اہل سنت کے بہت سے بزرگان اور علماء نے حضرت مہدی (عج) کی ولادت کا اعتراف کیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ وہ حضرت 15 شعبان المعظم سن 255 ہجری شہر سامرا میں دنیا میں آئے تھے۔ ان علماء میں سے بعض کے اسماء کو ہم ذکر کریں گے۔

ایک شیعہ عالم جناب فقیہ ایمان نے کتاب الإصالة المهدوية، لکھی ہے اور اس میں اہل سنت کے 112 علماء کا نام ذکر کیا ہے کہ جہنوں نے امام زمان (ع) کی ولادت کا واضح طور پر اعتراف کیا ہے:

1. شمس الدين الذہبی (متوفی748 ہجری)

اہل سنت کے علم رجال کے مشہور و معروف عالم شمس الدين ذہبی نے اپنی چند کتب میں حضرت مہدی (ع) کی ولادت کا اعتراف کیا ہے۔ اس نے کتاب العبر فی اخبار من غبر، میں لکھا ہے کہ:

وفيها [سنة 256 ه ] محمد بن الحسن العسكري بن علي الهادي محمد الجواد بن علي الرضا بن موسي الكاظم بن جعفر الصادق العلوي الحسيني أبو القاسم الذي تلقبه الرافضة الخلف الحجة وتلقبه بالمهدي وبالمنتظر وتلقبه بصاحب الزمان وهو خاتمة الاثني عشر... .

سن 255 ہجری میں م ح م د بن الحسن العسكری [عليہما السلام] دنیا میں آئے، رافضیوں نے اسکو خلف ، حجت، مہدی ، منتظر اور صاحب الزمان جیسے القابات دیئے ہیں، وہ بارہ آئمہ میں سے آخری امام ہے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، العبر في خبر من غبر، ج2، ص37، الطبعة: الثاني، 1984.

اور ذہبی نے کتاب تاريخ الإسلام ان حضرت کی وفات کو سن 256 یا 258  ہجری میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

أبو محمد الهاشمي الحسيني أحد أئمة الشيعة الذين تدعي الشيعة عصمتهم . ويقال له الحسن العسكري لكونه سكن سامراء ، فإنها يقال لها العسكر . وهو والد منتظر الرافضة...

وأما ابنه محمد بن الحسن الذي يدعوه الرافضة القائم الخلف الحجة ، فولد سنة ثمان وخمسين ، وقيل : سنة ست وخمسين . عاش بعد أبيه سنتين ثم عدم ، ولم يعلم كيف مات . وأمه أم ولد .

ابو محمد ہاشمی حسينی شیعوں کے آئمہ میں سے ایک امام ہے کہ شیعہ اس امام کی عصمت کا دعوی کرتے ہیں اور وہ اس امام کو حسن عسکری کہتے ہیں، اسلیے کہ وہ سامرا میں رہتے تھے اور سامرا کو عسکر کہتے ہیں، وہ (امام عسكری) اس امام کے والد ہیں کہ جسکے آنے کا رافضہ انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔۔

بہرحال اسکا بیٹا م ح م د بن الحسن ہے کہ رافضی اسے قائم، خلف اور حجت کہتے ہیں، وہ سن 258 ہجری میں دنیا میں آئے تھے، بعض علماء نے کہا ہے کہ وہ سن 256 ہجری میں دنیا میں آئے تھے اور اپنے والد کے دو سال بعد تک زندہ تھے اور پھر وہ دنیا سے چلے گئے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کیسے فوت ہوئے تھے، اسکی ماں ایک کنیز تھی۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج19، ص113، الطبعة: الأولي، 1407هـ - 1987م.

وہ چیز جو ہمارے لیے مہم ہے، وہ یہ ہے کہ بس یہ ثابت ہو کہ حضرت مہدی (ع) دنیا میں آئے تھے، اور رہی یہ بات کہ وہ دنیا سے گئے ہیں یا نہیں ؟ اس بارے میں بعد میں تفصیل سے تحقیقی مطالب پیش کیے جائیں گے۔

اور ذہبی نے كتاب سير أعلام النبلاء میں کہا ہے کہ:

المنتظر الشريف أبو القاسم محمد بن الحسن العسكري بن علي الهادي ابن محمد الجواد بن علي الرضي بن موسي الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن زين العابدين بن علي بن الحسين الشهيد بن الامام علي بن أبي طالب العلوي الحسيني خاتمة الاثني عشر سيدا الذين تدعي الامامية عصمتهم... .

منتظر شريف، ابو القاسم م ح م د بن الحسن العسكری .... وہ بارہ آئمہ میں سے آخری امام ہے کہ شیعہ اس امام کی عصمت کا دعوی کرتے ہیں۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج13، ص119،  الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

2. فخر الدين الرازی (متوفی604 ہجری)

اہل سنت کے معروف مفسر قرآن فخر الدين رازی نے امام عسكری عليہ السلام اور انکی اولاد کے بارے میں لکھا ہے کہ:

أما الحسن العسكري الإمام (ع) فله إبنان وبنتان ، أما الإبنان فأحدهما صاحب الزمان عجل الله فرجه الشريف ، والثاني موسي درج في حياة أبيه وأم البنتان ففاطمة درجت في حياة أبيها ، وأم موسي درجت أيضاً.

امام حسن عسكری عليہ السلام کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، ان حضرت کے بیٹوں میں سے ایک صاحب الزمان عجل الله تعالی فرجہ الشريف ہیں اور دوسرا بیٹا موسی ہے کہ جو امام عسکری کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ اسی طرح ان امام کی بیٹیاں اور موسی کی والدہ، امام عسکری کی زندگی میں ہی دنیا سے چلے گئے تھے۔

الرازي الشافعي، فخر الدين محمد بن عمر التميمي (متوفي604هـ)، الشجرة المباركة في أنساب الطالبية، ص78 ـ 79

3. ابن حجر ہيثمی (متوفی973 ہجری)

ابن حجر ہيثمی نے اپنی كتاب الصواعق المحرقہ میں کہ جسکو اس نے شیعوں کے خلاف لکھا ہے، اس نے اعتراف کیا ہے کہ امام عسکری کا ایک بیٹا تھا کہ جسکا نام ابو القاسم الحجة تھا:

ولم يخلف غير ولده أبي القاسم محمد الحجة ، وعمره عند وفاة أبيه خمس سنين ، لكن أتاه الله فيها الحكمة ، ويسمي القائم المنتظر... .

امام عسكری عليہ السلام کا ابو القاسم م ح م د حجت کے علاوہ کوئی بیٹا نہیں تھا، ان حضرت کی وفات کے وقت اس بیٹے کی عمر پانچ سال تھی، لیکن اسکے باوجود بھی خداوند نے اسکو حکمت سیکھائی تھی اور اسکا نام قائم منتظر رکھا گیا تھا۔

الهيثمي، ابو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفي973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج2، ص601، الطبعة: الأولي، 1417هـ - 1997م.

4. ابن اثير الجزری (متوفی630 ہجری)

وفيها توفي الحسن بن علي بن محمد بن علي بن موسي بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب (ع) ، وهو أبو محمد العلوي العسكري ، وهو أحد الأئمة الإثني عشر علي مذهب الإمامية ، وهو والد محمد الذي يعتقدونه المنتظر بسرداب سامرا ، وكان مولده سنة إثنتين وثلاثين ومائتين.

سن 260 ہجری میں حسن بن علی ... عليہم السلام دنيا سے چلے گئے، وہ ابو محمد علوی عسكری اور شیعہ عقیدے کے مطابق بارہ آئمہ میں سے ایک امام کے والد ہیں، م ح م د کے والد ہیں کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ منتظر اور سامرا کے سرداب میں ہے۔ امام عسکری سن 232 ہجری میں دنیا میں آئے تھے۔

ابن أثير الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفي630هـ) الكامل في التاريخ، ج6 ص249 ـ 250، الطبعة الثانية، 1415هـ.

البتہ امام زمان (عج) کی سامرا میں غیبت اور سرداب میں غائب ہونے کے بارے میں انشاء اللہ تفصیل سے ثابت کیا جائے گا کہ یہ بات بنی امیہ اور ابن تیمیہ کی اولاد کی طرف سے شیعوں پر ایک ناجائز تہمت ہے، کیونکہ شیعوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ حضرت مہدی (عج)سامرا کے سرداب میں غائب ہوئے ہیں۔

5. شمس الدين ابن خلكان (متوفی681 ہجری)

ابن خلكان نے اگرچہ ولادت حضرت مہدی عجل الله تعالی فرجہ الشريف کو واضح ذکر کیا ہے، لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ اس نے بھی اہل سنت کے بعض علماء کی طرح آنکھیں بند کر کے بغیر تحقیق کے شیعوں پر تہمت لگاتے ہوئے کہا ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام زمان سرداب میں غائب ہوئے ہیں اور وہ سرداب سے ہی اپنے امام کے ظاہر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں:

562 أبو القاسم المنتظر :

أبو القاسم محمد بن الحسن العسكري بن علي الهادي بن محمد الجواد المذكور قبله ثاني عشر الأئمة الاثني عشر علي اعتقاد الامامية المعروف بالحجة وهو الذي تزعم الشيعة أنه المنتظر والقائم والمهدي وهو صاحب السرداب عندهم وأقاويلهم فيه كثيرة وهم ينتظرون ظهوره في آخر الزمان من السرداب بسر من رأي

كانت ولادته يوم الجمعة منتصف شعبان سنة خمس وخمسين ومائتين ولما توفي أبوه وقد سبق ذكره كان عمره خمس سنين واسم امه خمط وقيل نرجس والشيعة يقولون إنه دخل السرداب في دار أبيه وامه تنظر إليه فلم يعد يخرج إليها وذلك في سنة خمس وستين ومائتين وعمره يومئذ تسع سنين.

ابو القاسم م ح م د بن الحسن العسكری ... کہ جو شیعہ اعتقاد کے مطابق بارویں امام ہیں کہ جو حجت کے نام سے مشہور ہیں اور شیعہ گمان کرتے ہیں کہ وہ منتظر، قائم، مہدی اور صاحب سرداب ہے۔ شیعوں نے اپنے اس امام کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ انکا امام آخر الزمان میں سرداب سے ظہور کرے گا۔

انکی ولادت 15 شعبان بروز جمعہ سن 255 ہجری کو واقع ہوئی۔ جب انکے والد دنیا سے گئے تو وہ پانچ سال کے تھے۔ انکی والدہ کا نام خمط تھا، بعض نے کہا ہے کہ نرجس تھا۔ شیعوں کا اعتقاد ہے کہ وہ اپنے والد کے سرداب میں داخل ہوئے ہیں اور اس حالت میں کہ انکی والدہ انکی طرف دیکھ رہی تھی، وہ غائب ہو گئے ہیں اور ابھی تک سرداب سے نہیں نکلے۔ یہ واقعہ سن 265 ہجری میں رونما ہوا تھا اور اس وقت انکی عمر 9 سال تھی۔

إبن خلكان، ابوالعباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفي681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج4، ص176، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.

6. صلاح الدين الصفدی (متوفی764 ہجری)

اہل سنت کے ایک نامور عالم صلاح الدين صفدی نے حضرت مہدی عليہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ:

الحجة المنتظر محمد بن الحسن العسكري بن علي الهادي ابن محمد الجواد بن علي الرضا بن موسي الكاظم بن محمد الباقر بن زين العابدين علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنهم الحجة المنتظر ثاني شعر الأئمة الأثني عشر هو الذي تزعم الشيعة انه المنتظر القائم المهدي وهو صاحب السرداب عندهم وأقاويلهم فيه كثيرة ينتظرون ظهوره آخر الزمان من السرداب بسر من رأي ولهم إلي حين تعليق هذا التاريخ أربع مائة وسبعة وسبعين سنة ينتظرونه ولم يخرج ولد نصف شعبان سنة خمس وخمسين.

حجت منتظر م ح م د بن الحسن العسكری .... کہ جو شیعہ اعتقاد کے مطابق بارویں امام ہیں اور شیعہ گمان کرتے ہیں کہ وہ منتظر، قائم، مہدی اور صاحب سرداب ہے۔۔۔۔۔

شیعوں کو اس تاریخ تک 477 سال گزر گئے ہیں کہ وہ انکا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ ان حضرت کی ولادت 15 شعبان بروز جمعہ سن 255 ہجری کو واقع ہوئی۔

الصفدي، صلاح الدين خليل بن أيبك (متوفي764هـ)، الوافي بالوفيات، ج2، ص249، تحقيق أحمد الأرناؤوط وتركي مصطفي، ناشر: دار إحياء التراث - بيروت - 1420هـ- 2000م.

7. سبط ابن الجوزی (متوفی654 ہجری)

سبط ابن جوزی کہ جو ابو الفرج ابن الجوزی کا نواسہ ہے، پہلے وہ حنبلی تھا اور پھر اس نے مذہب حنفی اختیار کر لیا۔ اس نے شیعوں کے بارویں امام کے بارے میں کہا ہے کہ:

محمد بن الحسن بن علي بن محمد بن علي بن موسي بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب ، وكنيته أبو عبد الله وأبو القاسم وهو الخلف الحجة صاحب الزمان القائم والمنتظر والتالي وهو آخر الأئمة ، وقال : ويقال له ذو الإسمين محمد وأبو القاسم قالوا : أمه أم ولد يقال لها : صقيل.

م ح م د بن الحسن بن علی ... کہ انکی كنيت ابو عبد الله اور ابو القاسم ہے، وہ جانشين و حجت، صاحب الزمان، قائم، منتظر اور آخری امام ہیں۔ کہا گیا ہے کہ ان حضرت کے دو نام ہیں: 1- م ح م د، 2- ابو القاسم۔ کہا گیا ہے کہ انکی والدہ ایک کنیز تھی کہ جنکا نام صیقل تھا۔

سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبو المظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي (متوفي654هـ)، تذكرة الخواص، ص204، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 1401هـ ـ 1981م.

8. خير الدين زركلی (متوفی1410 ہجری)

معروف وہابی خير الدين زركلی نے حضرت حجت عجل الله تعالی فرجہ الشريف کے بارے میں لکھا ہے کہ:

محمد بن الحسن العسكري الخالص بن علي الهادي أبو القاسم ، آخر الأئمة الإثني عشر عند الإمامية ، وهو المعروف عندهم بالمهدي ، وصاحب الزمان ، والمنتظر ، والحجة وصاحب السرداب ، ولد في سامراء ، ومات أبوه وله من العمر نحو خمس سنين ، ولما بلغ التاسعة أو العاشرة أو التاسعة عشر دخل سرداباً في دار أبيه ولم يخرج منه .

م ح م د بن الحسن العسكری ... کہ جو شیعہ اعتقاد کے مطابق بارہ آئمہ میں سے آخری امام ہیں اور شیعوں کے نزدیک وہ مہدی، صاحب الزمان، منتظر، حجت اور صاحب سرداب مشہور ہیں۔ وہ شہر سامرا میں دنیا میں آئے اور جب انکے والد دنیا سے گئے تو وہ پانچ سال کے تھے، وہ 9 سال یا 10 سال، یا 19 سال کی عمر میں اپنے والد کے گھر موجود سرداب میں داخل ہوئے اور پھر دوبارہ وہاں سے باہر نہیں نکلے۔

پھر وہ (خير الدين زركلی) ابن خلکان کے کلام کو سامرا کے سرداب میں غائب ہونے اور وہاں سے باہر نکلنے کو نقل کرتے اور ردّ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:

قال إبن خلكان : والشيعة ينتظرون خروجه في آخر الزمإن من السرداب بسر من رأي. إن الشيعة لا تنتظر خروج الإمام المصلح من السرداب في سامراء وإنما تنتظر خروجه من بيت الله الحرام ، وقد أشرنا إلي ذلك ودللنا عليه في كثير من بحوث هذا الكتاب.

ابن خلكان نے کہا ہے کہ: شیعہ ان حضرت کے آخر الزمان میں سامرا میں موجود سرداب سے خارج ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، حالانکہ شیعہ اس امام مصلح کا سامرا میں واقع سرداب سے ظاہر ہونے کے منتظر نہیں ہیں، بلکہ وہ اس امام کے بیت اللہ الحرام سے ظاہر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں کہ ہم نے اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کتاب کے بہت سے مطالب بھی  اسی بات پر استدلال کر رہے ہیں۔

خير الدين الزركلي (متوفي1410هـ)، الأعلام قاموس تراجم لأشهر الرجال والنساء من العرب والمستعربين والمستشرقين ، ج6، ص80، ناشر: دار العلم للملايين ـ بيروت، الطبعة: الخامسة، 1980م

9. عاصمی مكی (متوفی1111 ہجری)

عاصمی مكی عالم شافعی مذہب ہے، اس نے حضرت مہدی (ع) کی ولادت کے بارے میں لکھا ہے کہ:

الإمام الحسن العسكري بن علي الهادي ... ولده محمدا أوحده وهو الإمام محمد المهدي بن الحسن العسكري بن علي التقي بن محمد الجواد ابن علي الرضا بن موسي الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله تعالي عنهم أجمعين.

ولد يوم الجمعة منتصف شعبان سنة خمس وخمسين ومائتين وقيل سنة ست وهو الصحيح أمه أم ولد اسمها أصقيل وقيل سوسن وقيل نرجس كنيته أبو القاسم ألقابه الحجة والخلف الصالح والقائم والمنتظر وصاحب الزمان والمهدي وهو أشهرها صفته شاب مربوع القامة حسن الوجه والشعر أقني الأنف أجلي الجبهة ولما توفي أبوه كان عمره خمس سنين.

امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے وہی امام م ح م د بن الحسن العسكری ہے کہ جنکی ولادت 15 شعبان بروز جمعہ سن 255 ہجری کو واقع ہوئی ، اور بعض نے کہا ہے کہ ولادت سن 256 ہجری کو ہوئی تھی کہ یہی قول صحیح ہے۔ انکی ماں ایک کنیز تھی کہ جسکا نام اصیقل تھا، بعض نے سوسن اور بعض نے نرجس بھی کہا ہے۔ انکی کنیت حضرت ابو القاسم اور انکے القاب حجت، خلف، صالح، قائم، منتظر، صاحب الزمان، جبکہ انکا مشہور ترين لقب حضرت مہدی ہے۔ انکی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ درمیانے قد ، خوبصورت چہرے و خوبصورت بالوں ، باریک ناک اور چوڑے ماتھے والے ایک جوان ہیں۔

العاصمي المكي، عبد الملك بن حسين بن عبد الملك الشافعي (متوفي1111هـ)، سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج4، ص150، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود- علي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية.

10. ابو محمد يافعی (متوفی768 ہجری)

وفيها وقيل في سنة ستين توفي الشريف العسكري الحسن بن علي بن محمد ابن علي بن موسي الرضي بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين ابن الحسين بن علي بن ابي طالب رضي الله تعالي عنهم أحد الائمة الاثني عشر علي اعتقاد الامامية وهو والد المنتظر صاحب السرداب.

سن 260 ہجری میں امام حسن عسكری عليہ السلام، کہ جو شیعہ کے عقیدے کے مطابق بارہ آئمہ میں سے ایک امام ہیں، دنیا سے چلے گئے، وہ منتظر صاحب سرداب کے والد ہیں۔

اليافعي، ابو محمد عبد الله بن أسعد بن علي بن سليمان (متوفي768هـ)، مرآة الجنان وعبرة اليقظان، ج2، ص107، ناشر: دار الكتاب الإسلامي - القاهرة - 1413هـ - 1993م.

11. ابن الوردی (متوفی749 ہجری)

ولد محمد بن الحسن الخالص سنة خمس وخمسين ومائتين ، ويزعم الشيعة أنه دخل السرداب في دار أبيه ب (سر من رأي) وأمه تنظر إليه فلم يعد إليها ، وكان عمره تسع سنين ، وذلك في سنة مائتين وخمس وستين ، علي خلاف.

م ح م د بن الحسن العسكری سن 255 ہجری میں دنیا میں آئے اور شیعہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اپنے والد کے گھر سامرا میں ایک سرداب میں داخل ہوا ہے، اسکی والدہ اسکے آنے کی منتظر تھی، لیکن وہ واپس نہیں آیا، وہ اس وقت 9 سال کا تھا اور یہ سن 265 ہجری کا واقعہ ہے۔

إبن الوردي - تاريخ إبن الوردي - في ذيل تتمة المختصر

12. ابن صباغ المالكی (متوفی855 ہجری)

ولد أبو القاسم محمد الحجه بن الحسن الخالص بسر من رأي ليلة النصف من شعبان سنة 255 للهجره ، وأما نسبه أباً وأماً فهو أبو القاسم محمد الحجه بن الحسن الخالص بن علي الهادي بن محمد الجواد بن علي الرضا بن موسي الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين بن علي بن أبي طالب (ع) ، وأما أمه فأم ولد يقال لها : نرجس خير أمة ، وقيل : إسمها غير ذلك ، وأما كنيته فأبو القاسم ، وأما لقبه فالحجه والمهدي والخلف الصالح والقائم المنتظر وصاحب الزمان وأشهرها المهدي.

ابو القاسم م ح م د الحجہ بن الحسن ، جو 15 شعبان 255 ہجری میں شہر سامرا میں دنيا میں آئے۔ اسکے والد امام حسن عسكری فرزند علی الہادی ہے اور اسکی والدہ ایک بہت اچھی کنیز تھی کہ جسکا نام نرجس تھا۔ ان حضرت کی کنیت ابو القاسم اور القاب حجت، مہدی، خلف، صالح، قائم، منتظر اور صاحب الزمان تھے، لیکن ان حضرت کا مشہور ترین لقب مہدی ہے۔

ابن صباغ المالكي المكي ، علي بن محمد بن أحمد (متوفي855هـ) الفصول المهمة في معرفة الأئمة، ج2، ص682، تحقيق: سامي الغريري ، ناشر: دار الحديث ـ قم، 1380ش.

البتہ اہل سنت کے بزرگان جیسے قندوزی حنفی، عبد الحليم جندی، سيد ابو الحسن يمانی، شمس الدين ابن طولون، كمال الدين الشامی، علامہ مولوہ ہندی، علامہ عثمان العثمانی، علامہ حمداوی و ... نے بھی ولادت حضرت مہدی عجل الله تعالی فرجہ الشريف کو نقل کیا ہے، لیکن کسی نے بھی بیان اور قبول نہیں کیا کہ یہ وہی مہدی ہے کہ جسکے بارے میں رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ: وہ ظاہر ہو کر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ بہرحال اہل سنت کے علماء کے ان اقوال کو نقل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ابن تیمیہ ناصبی اور اسکے پیروکاروں کو منہ توڑ جواب دیا جائے کہ جو دعوی کرتے تھے کہ امام عسکری (ع) جب شہید ہوئے تو انکی کوئی اولاد اور کوئی جانشین نہیں تھا۔

نتيجہ:

اولا:

ابن تیمیہ وہابی و ناصبی نے جو دعوی طبری اور عبد الباقی ابن قانع سے نقل کیا ہے کہ امام عسکری (ع) بغیر اولاد اور جانشین کے دنیا سے گئے ہیں، یہ دعوی سراسر جھوٹ ہے، کیونکہ ان دونوں علماء کی کتابوں میں ایسا دعوی بالکل موجود و مذکور نہیں ہے۔ پس معلوم و واضح ہوا کہ ابن تیمیہ جھوٹا اور دشمن اہل بیت (ع) ہے۔

ثانيا:

اگر فرض بھی کریں کہ طبری اور عبد الباقی نے ایسا دعوی بھی کیا ہو تو، یہ بات انکی جہالت اور تعصب کو ثابت کرتی ہے، اس لیے کہ اہل سنت کے بہت سے معتبر علمائے تاریخ نے ولادت حضرت حضرت حجت عليہ السلام کو اپنی اپنی کتب میں ذکر کیا ہے، حتی واضح طور ولادت کے دن، مہینے اور سال تک کو ذکر کیا ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو طبری اور عبد الباقی کے دعوے کی کیا علمی اہمیت رہ جاتی ہے کہ اسکی طرف توجہ کی جائے ؟

ثالثا:

در حقیقت ابن تیمیہ سے لے کر آج دور حاضر تک کے تمام وہابیوں اور ناصبیوں کا مختلف بہانوں سے امام حسن عسکری (ع) کے جانشین کے انکار کرنے سے اصل ہدف اور مقصد، امام زمان (عج) کے مبارک وجود کا انکار کرنا ہے۔ لیکن باطل پھونکوں سے حق کے اس روشن چراغ کو بجھایا نہیں جا سکتا۔

يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُـوْرَ اللّـٰهِ بِاَفْوَاهِهِـمْۖ وَاللّـٰهُ مُتِمُّ نُـوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُوْنَ ،

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے مونہوں (پھونکوں) سے بجھا دیں، اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا، اگرچہ کافر برا ہی کیوں نہ مانیں۔

 سور صف آیت 8

ا



 
 
 
Friday, 23 February 2024 18:15

حضرت امام مہدی(ع)

قائم آل محمد، منجی عالم بشریت حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے یوم ولادت باسعادت

اسی مناسبت سے رسول اللہ کے بارہویں جانشین حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حیات طیبہ کے چند پہلوؤں کا ذکر کرتے ہیں:

 

نام و لقب:

آئمہ اہل بیت میں سےبارہویں اور آخری امام کا نام ’’م ح م د‘‘ ہے کہ جو حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے اکلوتے بیٹے ہیں ان کا معروف ترین لقب ’’مہدی‘‘ ہے اسی لقب کی وجہ سے آپ کو ’’امام مہدی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ولادت باسعادت: امام زمانہ(عج) کی ولادت باسعادت عباسی خلیفہ معتمد کی حکومت کے دوران 15شعبان 255ہجری کو سامراء میں ہوئی۔ امام زمانہ(عج) کی ولادت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام نے دس ہزار رطل روٹی اور دس ہزار رطل گوشت تقسیم کیا اور تین سو دنبے عقیقہ کے طور پر ذبح کیے۔ والدہ ماجدہ: امام زمانہ(عج) کی والدہ کا نام جناب ’’نرجس‘‘ہے۔ اپنے بابا کی شہادت کے وقت امام زمانہ(عج) کی عمر پانچ سال تھی۔ جس طرح اللہ نے حضرت یحیی کو بچپن میں ہی نبوت عطا کی اور حضرت عیسی کو گہوارے میں ہی اپنا رسول بنایا اسی طرح اللہ تعالی نے امام زمانہ کو کم سنی میں ہی امامت کے منصب پہ فائز کیا انھیں دانائی اور حق وباطل میں تمیز کرنے والے فصل الخطاب سے نوازا اور انھیں پوری دنیا کے لیے اپنی حجت اور نشانی قرارا دیا۔ اس کتاب کے’’امام مہدی منتظر‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے باب میں ہم کہہ چکے ہیں کہ اسلام میں امام مہدی(عج) اور ان سے متعلق تمام امور کے بارے میں عقیدہ رکھنے کا پہلا اور بنیادی سبب اہل سنت اور شیعوں کی معتبر کتابوں میں موجود احادیثِ نبویہ(ص) ہیں، ہر دور میں مسلمانوں کا اس بات پہ اتفاق رہا ہے کہ آخری زمانہ میں اہل بیت میں سے مہدی نام کا ایک فرد ظہور کرے گا جو دین کی مدد و تائید کرے گا اور عدل و انصاف کی بات کرے گا اور پوری دنیا پر حکومت حاصل کرنے کے بعد اسے عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ غیبت: امام مہدی(عج) کی دو غیبتیں ہیں: پہلی غیبت کو غیبت صغری کہتے ہیں اور دوسری غیبت کو غیبت کبری کہا جاتا ہے۔

غیبتِ صغری:

اس پہلی غیبت میں امام مہدی سوائے چند خاص لوگوں کے تمام لوگوں سے پوشیدہ رہے اور شیعوں سے ان کا رابطہ اپنے نمائندوں اور سفراء کے ذریعے رہا، شیعہ اپنے سوالات اور خطوط امام مہدی(عج) کے خاص سفیر کو دیتے اور وہ سفیر شیعوں کے خطوط کو امام مہدی تک پہنچا دیتا۔ امام مہدی(عج) کی طرف سے سوالوں اور خطوط کے جوابات کو متعلقہ افراد تک پہنچانا بھی امام کے سفیر کی ہی ذمہ داری تھی امام مہدی(عج) کی طرف سے لکھے گئے خطوط وغیرہ پہ امام کی مہر اور ان کے دستخط ہوا کرتے تھے۔

74سال تک یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا اس عرصہ کو غیبتِ صغری کا نام دیا جاتا ہے اور اسے غیبت صغری اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس عرصہ میں امام مہدی(عج) کا لوگوں سے مکمل طور پر رابطہ منقطع نہیں تھا۔

  • امام مہدی(عج) کے پہلے سفیر:

امام مہدی(عج) کے پہلے سفیر اور نمائندے عثمان بن عمرو عمری اسدی تھے جناب عثمان بن عمرو پہلے امام علی نقی علیہ السلام اور پھر امام حسن عسکری علیہ السلام کے نمائندے تھے اور آخر میں امام مہدی(عج) کے نمائندے اور سفیر کی حیثیت سے آخری دم تک فرائض سرانجام دیتے رہے۔

  • امام مہدی(عج) کے دوسرے سفیر:

جب امام کے پہلے سفیر عثمان بن عمرو کا انتقال ہوا تو امام زمانہ(عج) کے حکم مطابق سفارت اور نمائندگی کے فرائض پہلے سفیر کے بیٹے محمد کو سونپ دیے گئے اس طرح محمد بن عثمان امام زمانہ(عج) کے دوسرے سفیر اور نمائندے بن گئے۔

  • امام مہدی(عج) کے تیسرے سفیر:

دوسرے سفیر کی وفات کے بعد حسين بن روح نوبختی کو امام زمانہ(عج) کے خاص نمائندے اور سفیر بننے کا شرف حاصل ہوا۔

  • امام مہدی(عج) کے چوتھے سفیر:

اپنے تیسرے سفیرکے اس دنیا سے رخصت ہونے پہ علی بن محمد سمری کو امام زمانہ(عج) نے اپنا سفیر اور نمائندہ مقرر کیا۔

غیبتِ كبرى:

جب چوتھے سفیر بھی انتقال کر گئے تو ان کے انتقال کے ساتھ ہی غيبت صغرى بھی اختتام پذیر ہو گئی اور غیبت کبری کا آغاز ہو گیا۔

غيبت كبرى کا آغاز پندرہ شعبان 328ہجری سے ہوا، اس کے بعد شیعوں کا امام زمانہ(عج) سے خصوصی نمائندوں اور سفراء کے ذریعے رابطہ منقطع ہو گیا اور اللہ تعالی ہی اس کی اصل وجہ اور اس میں پوشیدہ حکمت سے آگاہ ہے۔

غیبت کبری کا مسئلہ اللہ کے اسرار میں سے ہے اور خدائی اسرار میں شک سرکشی ہے کیونکہ خدا کے اسرار سے آگاہ نہ ہونا ان سے انکار کا عذر نہیں بن سکتا کیونکہ جو کچھ بھی اس کائنات میں موجود ہے اسے تفصیلی طور پر جاننا ضروری نہیں ہے ہم سب مسلمان قرآن کے ایک ایک حرف پہ ایمان رکھتے ہیں حالانکہ ہم میں سے اکثریت کو قرآنی الفاظ کے معانی معلوم نہیں ہیں۔ قرآن کی سورتوں کی ابتدا میں موجود ’’الم‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ کے معانی سے ہم میں سے کوئی بھی آگاہ نہیں ہے کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ ان کے معانی کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ ان کا علم صرف اللہ اور حضرت محمد(ص) کے پاس ہے جبکہ ہم شیعہ کہتے ہیں قرآن کی سورتوں کی ابتدا میں موجود ’’الم‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ کے معانی کا علم اللہ تعالی، رسول خدا(ص) اور آئمہ طاہرین(ع) کے پاس ہے۔

 
امام حسین(ع) اور امام مہدی(عج) کی شباہتیں + دعائے تعجیل فَرَج

امام زمانہ(عج) امام حسین(ع) کے فرزند ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ امام مہدی(عج) امام حسین(ع) کے حقیقی منتقم اور خون خواہ ہیں۔ ظہور کے بعد امام زمانہ(عج) کا سب سے پہلا کلام امام حسین(ع) کی یاد ہے۔

بقلم: میرصادق سیدنژاد۔ ترجمہ وترتیب: زیدی

امام حسین(ع) اور امام مہدی(عج) کی شباہتیں + دعائے تعجیل فَرَج

امام حسین علیہ السلام اور امام زمانہ علیہ السلام دونوں "ثاراللہ" (1) ہیں؛ دونوں "طرید" (2) اور "شرید" (3) اور "وتر الموتور" (4) ہیں۔ (5)
دونوں اماموں کے اہداف مشترکہ ہیں۔ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: جب ہمارا قائم قیام کرے تو وہ باطل کو حتمی طور پر نیست و نابود کریں گے۔ (6)
اور امام حسین(ع) کا ہدف بھی زیارت اربعین میں مذکور ہے: امام حسین(ع) اپنا خون تیری (یعنی اللہ کی) راہ میں قربان کیا تاکہ انسانون کو نادانی اور گمراہی سے نجات دلائیں۔ (7)
6۔ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، زیارت اربعین۔
ان دونوں کی عصری صورت حال ایک جیسی ہے اور دونوں کا زمانہ فساد اور گناہ و بے دینی اور بدعتوں کی عالمی ترویج کے لحاظ سے ایک جیسا ہے اور دونوں کے اصحاب خاص ایک جیسی معرفت و محبت و اطاعت کے مدارج پر فائز ہیں۔ (8)
عاشورا اور انتظار
عاشورائی تعلیم و تہذیب تہذیبِ انتظار کا سرچشمہ ہے۔ انتظار عاشورا کا تسلسل ہے اور ایک دنیا جتنی وسیع کربلا میں دوسرے حسین(ع) کا چشم براہ ہونا۔
زیارت عاشورا کے دو حصوں میں حضرت مہدی(عج) کے رکاب میں امام حسین(ع) کی خونخواہی اور انتقام کی خبر دی جارہی ہے۔
چنانچہ انتظار در حقیقت، انتقام عاشورا کا انتظار ہے اور حضرت مہدی(عج) کے اصحاب سب عاشورائی ہیں۔ صرف وہ لوگ امام مہدی(عج) کے رکاب میں لڑ کر امام حق کی مدد کرسکتے ہیں جو مکتب عاشورا میں صیقل ہوئے ہوں اور حق و باطل کے معیار کو صحیح طریقے سے پہچان چکے ہوں اور بصیرت کی چوٹیوں تک پہنچے ہوں کیونکہ حسین(ع) خود حق و باطل کا معیار و میزان ہیں اور تولا اور تبرا اور سلم و حرب کا پیمانہ ہیں۔
قیام مہدی(عج) عاشورا کے اہداف کا حصول
امام حسین(ع) قرآن اور سنت نبوی کے احکام اور سنتوں کے احیاء اور بنوامیہ کی حاکمیت کی وجہ سے پھیلنے والی بدعتوں اور دین میں رائج ہونے والی تحریفات کے خاتمے کے لئے اٹھے اور مکہ معظمہ سے کربلائے معلی کی طرف سفر کے دوران راستے میں اپنے قیام کے محرکات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
میں اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت میں اصلاح کے لئے اٹھا ہوں؛ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ اور اپنے والد امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام کی سیرت پر کاربند رہنا اور عمل کرنا چاہتا ہوں۔ (9)
امام حسین(ع) کے کلام کے مجموعے سے تحریک عاشورا کے اعلی و اہداف و اغراض کا بخوبی اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ(ع) قرآن، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور سیرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب(ع) کے احیاء اور انجرافات اور گمراہیوں اور بدعتوں کے ختم، حق کو حاکم بنانے اور حق پرستوں کو حاکمیت بخشنے، ستمگروں کی حکومت کی استبدادیت و آمریت کو نابود کرنے اور سماجی و معاشی شعبوں میں عدل و قسط کے فروغ کے لئے کربلا تشریف فرما ہوئے تھے اور یہی قیام عاشورا کے اہداف و مقاصد تھے۔
دوسری طرف سے جب ہم عالم بشریت کے نجات دہندہ حضرت امام مہدی(عج) کے قیام اور آپ(عج) کی عالمی حکومت کے مطمع نظر کا جائزہ لیتے ہیں وہاں بھی یہی اہداف و مقاصد نظر آتے ہیں اور حتی کہ عبارات اور الفاظ بھی ایک جیسے ہیں۔
امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام حضرت مہدی(عج) کی حکومتی روش کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب دوسرے ہوائے نفس اور نفسانی خواہشات کو ہدایت پر مقدم رکھیں اور ترجیح دیں، امام مہدی(عج) نفسانی امیال و خواہشات کو ہدایت کی طرف لوٹاتے ہیں اور ایسے حالات میں ـ جب دوسرے اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کرتے ہیں ـ امام مہدی(عج) آراء و عقائد کو قرآن کی طرف لوٹائیں گے۔ وہ لوگوں کو بتا دیں گے کہ کس طرح نیک سیرت اور روش کے ساتھ عدل و قسط کے مطابق عمل کیا جاسکتا ہے اور وہ قرآن سیرت نبوی کو زندہ کریں گے۔ (10)
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
قائم آل محمد(ص) لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور ولایت علی بن ابی طالب علیہما السلام اور ان کے دشمنوں سے بیزاری و برائت کی طرف دعوت دیں گے۔ (11)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
حضرت مہدی(عج) عالمی سطح پر دین میں رائج ہونے والی بدعتوں کا خاتمہ کریں گے اور ان کے بدلے رسول اللہ(ص) کی تمام سنتوں کو یکے بعد دیگرے رائج و نافذ کریں گے۔ (12)
حضرت مہدی(عج) امام حسین(ع) کے خون کے منتقم:
امام مہدی(عج) کے القاب میں سے ایک "منتقم" ہے۔ امام(عج) کے لئے اس لقب کے انتخاب کے لئے اہل بیت(ع) کی روایات میں متعدد اسباب بیان ہوئے ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ اللہ کے آخری ولی اور حجت کو قائم کیوں کہا جاتا ہے؟
امام(ع) نے فرمایا:
کیونکہ جب دشمنوں نے میرے جد امجد امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا تو فرشتے مغموم ہوئے اور روتے اور آہ و نالہ کرتے ہوئے بارگاہ الہی میں عرض کیا: خداوندا! پروردگارا! کیا تو ان لوگوں سے درگذر کرے گا جنہوں نے تیرے برگزیدہ بندے اور تیرے برگزیدہ بندے کے فرزند کو بزدلانہ طریقے سے قتل کیا؟
تو خداوند متعال نے فرشوں کے جواب میں ارشاد فرمایا: اے میرے فرشتو! میری عزت و جلال کی قسم! میں ان سے انتقام لونگا گوکہ اس میں کافی طویل عرصہ لگے گا۔
اس کے بعد خداوند متعال نے امام حسین علیہ السلام کے فرزندوں کا سایہ دکھا دیا اور پھر ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا جو حالت قیام میں تھے اور فرمایا: میں اس قائم کے ذریعے امام حسین(ع) کے دشمنوں سے انتقام لونگا۔ (13)
آیت کریمہ "وَمَنْ قُتِلَ مظلوماً فقد جَعَلْنا لِوَلیّه سلطاناً..."۔ (14) (اور جو مظلومیت کے ساتھ قتل ہو، ہم نے اس کے وارث کو تسلط عطا کیا ہے) کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"اس آیت میں مظلوم سے مراد امام حسین علیہ السلام ہیں جو مظلومیت کے ساتھ قتل کئے گئے اور "جَعَلنا لِوَلیِّه سلطاناً" سے مراد حضرت امام مہدی(عج) ہیں۔ (15)
امام محمد باقر علیہ السلام بھی فرماتے ہیں:
"ہم امام حسین علیہ السلام کے خون کے وارث ہیں۔ جب ہمارے قائم قیام کریں گے، خون امام حسین(ع) کا معاملہ اٹھائیں گے"۔
نتیجہ:
اہداف کے مشترک ہونے کے علاوہ، امام مہدی(عج) کے قیام کے بعد عالمی حکومت کے قیام کے زمانے میں وہ تمام تر اہداف و مقاصد جامہ عمل پہنیں گے جو امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں بیان کئے تھے اور تحریک عاشورا بار آور ہوجائے گی اور تحریک حسینی اور ظہور مہدی(عج) کی برکت سے پوری دنیا میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا۔ اور آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ تک، تمام انبیاء علیہم السلام کے اہداف حاصل ہوجائیں گے اور آدم کے فرزند صلح و امن و سلامتی اور سعادت کا مزہ چکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ "ثار" کی جڑ "ثَأر" اور "ثُؤرة" بمعنی انتقام و خونخواہی نیز بمعنی خون آیا ہے۔ الطريحى، مجمع البحرين، ج 1، ص 237، فرہنگ محمد معين، ج 1، ص 1185، مفردات راغب اصفہانی، ص 81. "ثار اللہ" کے لئے کے لئے مختلف معانی ذکر کئے گئے ہیں اور ہر ایک اپنی جگہ تفسیر طلب ہے۔ مجموعی طور پر اس کے معنی یہ ہیں کہ: خداوند متعال امیر المؤمنین اور امام حسین علیہما السلام ـ جن کو ثار اللہ کہا گیا ہے زیارات میں پڑھتے ہیں "السلام علیک یا ثار اللہ وابن ثارہ" ـ کے خون کا ولی و وارث خود خدا ہے اور خدا خود ہی ان کے خون کا بدلہ ان کے قاتلوں سے لے گا۔ کیونکہ ان دو بزرگواروں کا خون بہا کر دشمنان دین اس مقدمے میں خدا کے سامنے مدعا علیہ کے طور پر فریق بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہ حریم الہی کے خلاف جارحیت و تجاوز کے مرتکب ہوئے ہیں۔
2۔ طريد، بمعنی خانہ و کاشانہ چھوڑنے پر مجبور کیا جانے والا اور برکنار کیا جانے والا۔
3۔ شريد طرید کی مانند ہے اور اس کے معنی بےوطن ہونے والا اور وطن کو چھوڑنے پر مجبور کیا جانے والا۔
4۔ وتر الموتور: 1۔ وہ فرد جو خود بھی جرم کا نشانہ بنے اور اس کے اہل خاندان پر بھی ظلم کیا جائے۔ 2۔ وہ انسان جس کو اس کے اہل خاندان کے ساتھ قتل کیا گیا ہو۔ 3۔ وہ اکیلا فرد جس کے خاندان کے افراد کو قتل کیا گیا ہو۔ 4۔ وہ تنہا انسان جس کو اہل خاندان کے ہمراہ قتل کیا گیا ہو اور اس کا انتقام نہ لیا گیا ہو۔ 5۔ یگانۂ دوران یعنی وہ جو انسانی کمالات میں بے مثل و منفرد ہو۔ ان تفسیروں اور تشریحات کی تفصی ل کے لئے کتاب "بر رسی و تحلیلی پیرامون زیارت عاشورا"، ص 82 کے بعد، سے رجوع کیا جائے۔ کتاب کے مؤلف مجید حیدری فر ہیں۔ نیز کتاب ابوالفضل تہرانی کی کتاب "مدرسه عشق" ص 137 سے رجوع کریں۔ نیز کتاب "پاسخ به پرسش های دانشجویی"، "مبحث قیام امام حسین (ع)"، سے نیز کتاب "شفاء الصدور ص 162" سے رجوع کریں۔
5۔ ابن بابویه، کمال الدین،ج1 ص318۔
6۔ کلینی، اصول کافی، ج8، ص278۔
7۔ مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص308و 386۔
8۔ بحارالانوار، ج45، ص6۔
9۔ بحارالانوار، ج51، ص130۔
10۔ الزام الناصب، ص177۔
11۔ ینابیع الموّدة، ج3، ص62۔
12۔ دلائل الامامة، ص239۔
13۔ سورہ اسراء آیت 33۔
14۔ البرهان فى تفسیر القرآن، ج4، ص559۔
15۔ وہی ماخذ ج 4 ص 560۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع :
نشریه : موعود نامه،انتشارات مشهور، ص 478
مقاله : یزدی حائری، شیخ علی، الزام الناصب، ج2، ص282
مقاله : تونه ای، مجتبی، موعود نامه،انتشارات مشهور، ص 478/ پور سعید آقایی، عاشورا و انتظار، ص42
کتاب بحار الانوار ،علامه مجلسی ،مجلدات 1،45،51۔

 


source : www.sibtayn.com

حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق، جامعۃ الزہرا (س) کی استاد محترمہ ریحان حقانی نے حجاب سے متعلق سوالات و شبہات کے سلسلہ میں "صدرِ اسلام کی تاریخ میں خواتین کا پردہ" کے عنوان پر منعقدہ ایک خصوصی ریڈیو پروگرام میں کہا: اگر ہم حجاب کے مسئلہ کو پوری طرح اور واضح طور پر بیان کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں معاشرے میں ثقافتی اور لباس پہننے کی کیا صورتحال تھی۔ پھر یہ دیکھیں گے کہ آیا ہمارا حجاب اس دور کے حجاب جیسا ہونا چاہیے یا نہیں۔

انہوں نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگ آزادی کا مطلب مختلف انداز سے رہنا سمجھتے ہیں اور فکر کرتے ہیں کہ آزادی کا مطلب پابندیوں اور برہنگی سے آزادی کا نام ہے، حالانکہ آزادی کا یہ مفہوم انسانی عقل و شعور کے بھی خلاف ہے۔

محترمہ ریحان حقانی نے مزید کہا: میں نے حجاب کے سلسلہ میں ان تمام الفاظ اور عنوانات کا استخراج کیا ہے جو دورِ جاہلیت اور صدر اسلام کے متون میں ہر قسم کے حجاب اور پردے کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا: زمانۂ جاہلیت میں جب اسلام سرزمین حجاز اور عرب میں داخل ہوا تو اس وقت کے لوگوں میں بھی بے حجابی اور برہنگی کا کلچر عام نہیں تھا اور تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت حجاز میں عورتیں امیر سے غریب تک مختلف سطح پر معاشرہ میں موجود تھیں اور اس وقت بھی معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے حجاب انتہائی اہمیت رکھتا تھا اور ان کی ثقافت ایسی نہیں تھی کہ وہ بے پردہ اور برہنہ ہوں یا وہ کوئی مناسب لباس نہ پہنتی ہوں۔

حوزہ علمیہ کی اس استاد نے مزید کہا: پس تاریخی اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاب اور پردہ زمانۂ جاہلیت میں بھی موجود تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں اسلام سے صدیوں قبل تاریخ کے حامل ملنے والے پتھروں کے نوشتہ جات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی پردے کا وجود تھا۔ اس کے علاوہ جب ہم عربوں کے دورۂ جاہلیت کے متون و نصوص اور ادب کا مشہدہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کا ادب اور لٹریچر ایسے مواد سے بھرا ہوا ہے کہ اگر اس وقت کوئی پردہ کو اہمیت نہی دیتا تو وہ اسے برا جانتے تھے اور اس پر تنقید کیا کرتے تھے۔

جامعۃ الزہرا (س) کی استاد نے آخر میں کہا: پردہ کرنے والا شخص اپنی عقل اور فطرت کے مطابق برتاؤ کر رہا ہوتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے بہت سے دلائل موجود ہیں کہ اسلام بھی حجاب کا حکم دیتے وقت یہی کہتا ہے کہ خواتین کے حجاب اور پردے کا معاشرے میں احترام کیا جانا چاہیے۔ ہمارے اسلامی معاشرہ میں حکومت اسلامی ہے اور ہمارے قوانین بھی مذہبی تعلیمات سے ماخوذ ہیں لہٰذا ان قوانین کی پابندی ایک سالم اور متشرع یا قانون پسند شخص کے اس کے مذہبی اور اسلامی اصولوں پر کاربند رہنے کو ظاہر کرتی ہے۔

شیعہ نیوز: رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ آج عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ غزہ ہے اور عالم اسلام صیہونیت کے سرطانی ٹیومر کی تباہی کا مشاہدہ کرے گا۔

رپورٹ کے مطابق آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے آج جمعرات 22 فروری کو اسلامی جمہوریہ ایران میں منعقدہ 40 ویں بین الاقوامی قرآنی مقابلے کے شرکاء سے ملاقات کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کتاب انذار ہے ہمیں اس انذار (انتباہ) کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں ان خطرات سے آگاہ کیا جائے جو اس دنیا اور آنے والی دنیا میں جو حقیقی زندگی ہے، انسانیت کے لیے خطرہ ہیں۔

 
 

رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ قرآن کریم انسانی غموں کا علاج کرنے والی کتاب ہے، خواہ وہ انسانوں کے روحانی، اور فکری غم ہوں یا جنگوں، مظالم، ناانصافیوں جیسے انسانی معاشروں کے غم ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی ایران کے عوام اور پوری امت اسلامیہ میں قرآن کی تعلیمات کو سمجھنے کی خواہش روز بروز بڑھنا چاہیے کیونکہ یہ قرآن کتاب ہدایت ہے اور ہم سب کو اس کی ضرورت ہے۔ قرآن ذکر کی کتاب ہے اور عموماً ہم غافل ہیں اور انسان اپنی معلومات کو بھول جاتے ہیں اور قرآن ہمیں یاد دھانی کراتا ہے۔

 

اس ملاقات میں رہبرانقلاب اسلامی کے بیانات کے چند اہم محور حسب ذیل ہیں:

 

*۔ آج عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ غزہ ہے
*۔ اسلامی ممالک کے سربراہان صیہونیت کی حمایت بند کرنے کا اعلان کیوں نہیں کرتے ؟
*۔ یقیناً عالم اسلام غزہ کے لیے سوگوار ہے
*۔ دنیا بھر غیر مسلم آزاد منش لوگ بھی غزہ کے لیے سوگوار ہیں
*۔ اسلامی دنیا صیہونیت کے سرطانی ٹیومر کی تباہی کا مشاہدہ کرے گی

Monday, 19 February 2024 13:29

غزہ میں قحط

غزہ میں رہنے والے صحافیوں میں سے ایک "ابراہیم مسلم" نے "اسلام ٹائمز" کے ساتھ گفتگو میں ان دنوں شمالی غزہ کی تازہ ترین صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ شمالی غزہ کی صورت حال اب بھی انتہائی نازک ہے۔ صیہونی حکومت نے اس علاقے پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور آئے روز مزاحمتی قوتوں اور صیہونی فوج کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ان دنوں غزہ میں جو انسانی حالات انتہائی ابتر ہیں اور غزہ کے شمال میں ان علاقوں کے مکینوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے انسانی امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پینے تک کا پانی بہت کم ہے۔

غزہ میں رہنے والے اس رپورٹر نے تاکید کی ہے کہ شمالی غزہ میں نقصانات اور تباہی کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ میونسپلٹی ابھی تک سڑکوں کو کھول نہیں سکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان گھروں تک پانی نہیں پہنچایا جاسکتا، جہاں مالکان اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں، شمالی غزہ کی اس نازک صورت حال پر کسی کو شک و شبہ کی ضرورت نہیں ہے اور آنے والے دنوں میں حالات مزید نازک ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا ہے کہ خوراک کا ذخیرہ ختم ہو رہا ہے، مثال کے طور پر، غزہ جنگ کے آغاز سے ابھی تک شمالی غزہ میں آٹے کی تھوڑی سی مقدار بھی داخل نہیں ہوئی ہے، اسی طرح غزہ میں چینی اور چاول کا ذخیرہ بھی ختم ہو رہا ہے۔ یہ صورت حال شمال غزہ میں انسانی حالات کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ صیہونی حکومت غزہ کے عوام کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے جان بوجھ کر شمالی غزہ کو قحط کی طرف دھکیل رہی ہے۔

"ابراہیم مسلم" نے مزید کہا: ادویات کے لحاظ سے صحت عامہ اور طبی سامان کی سہولیات بہت کم ہیں۔ فلسطینی رپورٹر نے مزید کہا ہے کہ شمالی غزہ میں بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی واپسی ہو رہی ہے اور پناہ گزینوں کے لیے اسکولوں وغیرہ کی جگہوں کا انتظام کیا گیا ہے، لیکن ان اسکولوں اور رہائشی علاقوں میں پناہ گزینوں کی بستیوں میں پانی یا صفائی کی سہولیات بالکل نہیں ہیں۔
انٹرویو: معصومہ فروزان
 
 
 

وفاق ٹائمز، ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد خواتین کی کامیابیوں کا ذکرکریں تو ہمیںاس شعبے میں بہت ساری کامیابیاں نظر آرہی ہیں جس کے بارے میں عالمی خاص طورپر مغربی میڈیا غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اور حق اور سچائی کو پوری طرح مسخ کر کے بیان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اسلامی انقلاب کے بعد عورت کو صنفی امتیاز اور ایک شے کے طور پر دیکھنے کے بجائے عورت کو جہاں تکریم و عزت دی گئی وہاں انہیں ان کا جائز مقام دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے جس کے باعث ایران میں آج خواتین تمام شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں بلکہ کئی شعبوں میں مردوں سے بھی آگے ہیں جس کا عالمی غیرجانبدادارے اعتراف بھی کرتے ہیں ،زیرنظر رپورٹ کو پڑھ کرآپ مغربی خاص پر امریکہ اوراسرائیلی سے وابستہ میڈیا کی غلط بیانی کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں اور یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ جو عالمی اور مغربی میڈیا میں کہا اور بتایا جارہا ہے وہ ایران دشمنی اور ایران کے خلاف میڈیا وار کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
خواتین اور صحت
ایران میں فی 100,000 خواتین کے تناسب سے60 دائیاں اور 2.8 زچگی کے ماہرین ڈاکٹرز کی موجود ہیں۔ 100 فیصد شہری رہائشیوں اور 99فیصد دیہاتیوں اور خانہ بدوشوں کے لیے قومی ہیلتھ کوریج نیٹ ورک کا نفاذ ہے۔خواتین کی اوسط عمرمیں20سال اضافہ کے ساتھ 78 سال ہوگئی ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی اموات میں فی 100000 پیدائش میں 8.2 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ 5 سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں فی ایک لاکھ میں14.2فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ ملک میں 98 فیصد گائناکالوجسٹ اور اسی شعبے سے وابستہ سرجن خواتین ہیں۔ 40% ماہر ڈاکٹرز اور 30% اعلیٰ مہارت کی حامل ڈاکٹر زخواتین ہیں۔ سروائیکل کینسر سے موت کی سب سے کم شرح کے لحاظ سے دنیا میں 10ویں نمبر پر ہے۔
خواتین اور تعلیم
خواتین یونیورسٹی فیکلٹی ممبران کے تناسب کو 3.33 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی میڈیکل سائنسز یونیورسٹیوں کے فیکلٹی ممبران میں خواتین کی تعداد 34% ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کی ناخواندگی میں99.30% فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملک میںسرکاری یونیورسٹیوںمیں زیرتعلیم سٹوڈنٹس کی56 فیصد خواتین ہیں۔ ملک میں پرائمری اور سیکنڈری تعلیم میں صنفی تفریق کا خاتمہ ہوا ہے۔ خواتین مصنفین کی تعداد9500 سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ 840 خواتین پبلشرز کی اس وقت نشرو اشاعت کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ پرائمری اسکول میں طالبات کے اندراج کی شرح میں 115 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ہائی اسکول میں طالبات کے اندراج کے فیصد میں 84% تک اضافہ ہوا ہے۔ طالب علموں کے مقابلے خواتین طلبہ کی تعداد میں48 فیصد کے تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔
ورزش کے میدان میں خواتین کی کامیابیاں
عالمی مقابلوں میں خواتین کھلاڑیوں نے 3302 تمغے جیتے ہیں۔ خواتین اور پیشہ ور کھلاڑیوں کی طرف سے اولمپک اور پیرا اولمپک کوٹے کا بیک وقت حصول دیکھنے میں آیا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں 88,366 خواتین ریفریز کی سرگرمی اور عالمی کھیلوں کی فیڈریشنوں میں 97 بین الاقوامی نشستوں پرایرانی خواتین کی موجودگی نیز خواتین کے لیے 16,111 سپورٹس کلبوں کا قیام ساتھ ہی سپورٹس فیڈریشنز میں51 خواتین صدور اور نائب صدورخدمات سرانجام دے رہی ہیں مزید صوبائی سطح پر کھیلوں کی 70ٹیموں کی سربراہ خواتین ہیں۔
حکمرانی اور فیصلہ سازی کے میدان میں خواتین
25.2 فیصدخواتین سرکاری اداروں میںاہم عہدوں پر فائز ہیں، بشمول اعلیٰ، درمیانی اور بنیادی ایگزیکٹو عہدوں پرخدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ نیز نائب صدر برائے خواتین اور خاندانی امور کا عہدہ خواتین کے لئے مختص ہے مزید ملک میں 1121 خواتین ججز کی مختلف عدالتوں میں عوام کو انصاف کی فراہمی کے حوالے سے خدمات سرانجام دے رہی ہیں اور اسلامی کونسل میں خواتین کی شرکت کی شرح میں 5.59% تک اضافہ ساتھ ہی خواتین نے حکومت کے گیارہویں دورمیں اسلامی کونسل میں 111 نشستیں حاصل کیں۔ 11ویں دور میں پارلیمنٹ کی نمائندگی کے لیے رضاکارانہ طور اپنی خدمات پیش کرنے والی خواتین کی تعداد میں 227 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ماحو لیات اور آب و ہوا کے شعبے میں خواتین کا کردار
انوائرنمنٹ آرگنائزیشن میں 40 اعلی عہدوں کی انچارج خواتین ہیں، ملک کی ماحولیاتی انتظامی پوسٹوں کا ایک چوتھائی حصہ خواتین کیلئے مختص ہیں، انوائرنمنٹ آرگنائزیشن میں 40 اعلی عہدوں کی انچارج خواتین ہیں، دیہی اور خانہ بدوش خواتین کے لیے صحت مند، معیاری اور مصدقہ مصنوعات تیار کرنے اور استعمال کرنے کے بارے میں ثقافتی بیداری کو فروغ دینے اور بڑھانے کے قومی منصوبے پر عمل درآمد ہے۔ 2021ء میں سیلاب زدہ علاقوں میں 117072 خواتین کے لیے بنیادی ضروریات (پانی، خوراک، کپڑے، کمبل)کی فراہمی۔ نیز 4مدتوں تک ماحولیات کی تنظیم کی صدرات خواتین کے پاس رہی ۔مزید 2021 میں موسمیاتی بحران سے متاثرہ 299120 خواتین کو ماہانہ گزارہ الاونس کی ادائیگی اور 2021 میں زلزلہ زدہ علاقوں میں خواتین کے عارضی قیام کے لیے 20166 محفوظ پناہ گاہوں کا قیام ساتھ ہی آبادی کے تناسب سے ایک چوتھائی حصہ سے زیادہ خواتین ماحولیاتی انتظامی عہدوں پر فائز ہیں، 2012 میں سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین کیلئے 21014 محفوظ بستیوں کا قیام۔
کاروبار اور روزگار کے میدان میں خواتین کا کردار
خواتین کی بے روزگاری کی شرح میں 13.7 فیصد تک کمی ہوئی ہے علم پر مبنی کمپنیوں کی منیجنگ ڈائریکٹرز کے عہدوں پر735 خواتین کی اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ خواتین کی طرف سے 250 علم پر مبنی کمپنیوں کا قیام ہوا ہے مزید علم سے وابستہ کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر کے طور پر 2390 خواتین کی ملک کی خدمات میں سرگرم ہیں۔ ملازمت کے متلاشی خواتین کو ملازمت کے مواقع کے حصول اور مارکیٹ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ”پائیدار خاندان پر مبنی کاروباری نیٹ ورک” کے قومی منصوبے کا نفاذ ساتھ ہی دیہی اور قبائلی خواتین کیلئے روزگار میں اضافہ کے غرض سے قومی منصوبے کا اجراء اور خواتین کوآپریٹیو اور ان کی یونینوں کے لئے زمین کی فراہمی اور قدرتی وسائل تک رسائی میں اضافہ ممکن بنانے کے لئے اقدامات اور LNSIE ماڈل کی بنیاد پر دیہی اور قبائلی خواتین کے چھوٹے کاروبار کے لیے ایک منظم حکمت عملی پروگرام کا اجراء و دیہی خواتین اور لڑکیوں کے لیے سوشل سیکیورٹی انشورنس کا اجراء اور گھریلو خواتین کے لیے سوشل سیکیورٹی انشورنس کی فراہمی و گھر کی خواتین سربراہوں کے لیے سوشل سیکیورٹی انشورنس کا اجراء۔
خواتین اور میڈیا
انفارمیشن ٹیکنالوجی میں خواتین کی شرکت میں 31.5 فیصد اضافہ ہوا ہے خواتین کے لیے معلومات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی تک رسائی میں اضافہ نیز فلم انڈسٹری میں 903 خواتین فلم سازوں کی فعال شمولیت اور سینماانڈسٹری میں پس پردہ2000 ماہرخواتین ماہرکی فعال موجودگی و 45بین الاقوامی فلمی میلوں میں جیوری کے طور پرایرانی خواتین ہدایت کاروں اور اداکاراں کی شرکت نیز خواتین فلم ساز وں نے مشہور فلم فیسٹیولز میں 114 قومی اور 128 قومی اوربین الاقوامی ایوارڈ اپنے نام کئے۔
معلومات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی تک خواتین کی رسائی میں اضافہ
موبائل فون تک رسائی۔26 ملین لوگ (کل موبائل صارفین کا 45 فیصد)، کمپیوٹر تک رسائی:14.5 ملین لوگ (کل صارفین کا 48 فیصد)، انٹرنیٹ تک رسائی:لوگوں کو 18.7 ملین(صارفین کی کل تعداد کا 48 فیصد)،انٹرنیٹ تک رسائی:18.7 ملین لوگوں کو (صارفین کی کل تعداد کا 48 فیصد)۔

عورت کی ایک اہم ترین ذمہ داری گھر کی خانہ داری ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ میرا یہ ماننا نہیں ہے کہ عورتوں کو سیاسی اور سماجی کاموں سے دور رہنا چاہئے، نہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس کے معنی یہ لیے جائيں کہ ہم "خانہ داری" کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں تو یہ گناہ ہوگا۔ خانہ داری، ایک کام ہے، بڑا کام ہے، اہم ترین و حساس ترین کام ہے، مستقبل ساز کام ہے۔ افزائش نسل ایک عظیم مجاہدت ہے۔

امام خامنہ ای

1 مئی 2013

اہل تبریز کے 18 فروری 1978 کے تاریخی قیام کی سالگرہ پر صوبۂ مشرقی آذربائيجان کے ہزاروں لوگوں نے اتوار کی صبح رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
     

اس موقع پر اپنے خطاب میں آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے پہلی مارچ 2024 کو ہونے والے پارلیمنٹ اور ماہرین اسمبلی کے انتخابات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے سامراجی محاذ کو ایران کے انتخابات کا مخالف قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن، نظام کی جمہوریت کا مظہر ہے اور اسی لیے سامراجی طاقتیں اور امریکا، جو جمہوریت کے بھی مخالف ہیں اور اسلام کے بھی خلاف ہیں، انتخابات اور الیکشن میں عوام کی بھرپور شرکت کے مخالف ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام سے ماضی کے ایک الیکشن میں شرکت نہ کرنے کی امریکا کے ایک سابق صدر کی اپیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس امریکی صدر نے نادانستگی میں ایران کی مدد کی کیونکہ لوگوں نے اس کی ضد میں اور اس کی مخالفت میں ہمیشہ سے زیادہ اور بھرپور طریقے سے ووٹنگ کی اور اسی وجہ سے اب امریکی اس طرح کی بات نہیں کرتے ہیں لیکن مختلف طریقوں سے لوگوں کو الیکشن سے دور رکھنے اور الیکشن کے سلسلے میں انھیں مایوس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پچھلے عشروں کے درمیان الیکشن میں کبھی بھی ویسی گڑبڑی کا مشاہدہ نہیں کیا گيا جس طرح کی گڑبڑی کا دشمن دعویٰ کرتے ہیں اور ان کی یہ بات بے بنیاد ہے۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ بعض مواقع پر کچھ دعوے کیے گئے اور تحقیق و تفتیش کے بعد بعض خلاف ورزیاں ثابت ہوئيں لیکن کبھی بھی وہ خلاف ورزیاں، الیکشن کے مجموعی نتیجے میں تبدیلی پر منتج نہیں ہوئيں اور ملک میں انتخابات ہمیشہ صحیح، سالم اور شفاف طریقے سے منعقد ہوئے ہیں۔

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے حادثات اور سازشوں کے طوفان کے درمیان اپنی اب تک کی 45 سال کی عمر میں اسلامی انقلاب کی پیشرفت اور مزید مضبوط ہونے کے عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قوم اور نظام کے معنی میں یہ انقلاب، سخت اور دشوار گزار راستوں سے گزر کر زیادہ مضبوط، زیادہ طاقتور، زیادہ با اثر رائے اور زیادہ اثر و رسوخ والا بن چکا ہے اور آج ہمیں اصل ذمہ داریوں کو بروقت سمجھ کر، ان پر بروقت عمل کرنا چاہیے۔

رہبر انقلاب کے مطابق خود پر اور دشمن پر نظر رکھنا سبھی کے دو بنیادی فرائض ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنا اور دشمن دونوں کا صحیح اندازہ ہونا چاہیے اور اس فریضے سے غفلت ایک بڑی مصیبت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی شناخت کا ہدف، قدردانی، مضبوط نکات کی حفاظت و تقویت اور کمزوریوں کو دور کرنا بتایا اور انقلاب اور قوم کے مضبوط پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ پوری طرح سے بدعنوان، بے ایمان، حق پامال کرنے والے، ظالم، آمر اور سلطنتی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، انقلاب کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ وہ ایسا نظام تھا جو عوام کو کسی طرح کا حق اور احترام دیے جانے کا قائل نہیں تھا اور بہت سے معاملوں میں وہ عملی طور پر امریکیوں اور برطانوی سفارتخانے کے حکم پر کام کرتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت اس زوال پذیر نظام کے بالکل برخلاف، عوام ملک اور نظام کے مالک ہیں اور بالواسطہ یا بلاواسطہ انتخابات کے ذریعے، ملک چلانے کے لیے ملک کے اہم حکام کا تعین کرتے ہیں۔

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ انقلاب کے افکار و اقدار کا فروغ خاص طور خطے میں ان کا پھیلاؤ، مغربی تمدن کے پھیلاؤ کو روکنے کی راہ میں حاصل ہونے والی کسی حد تک کامیابی، اپنے آپ عوامی گروہوں کی تشکیل، ملک کے تمام علاقوں میں سہولتوں اور سروسز کا پھیلاؤ اور مختلف میدانوں میں سائنسدانوں اور دانشوروں کی تربیت، ایسی کامیابیان ہیں جو انقلاب نے اپنے اب تک کے سفر میں حاصل کی ہیں۔

انھوں نے قومی اتحاد و یکجہتی کی حفاظت کو عوام کا فریضہ بتایا اور کہا کہ سبھی کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ ان ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائيگی، دشمن کے مقابلے میں ایک جہادی کام ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ یہ ذمہ داریاں ادا کی جائيں اور اسی وجہ سے وہ اسلامی جمہوریہ میں انجام پانے والے ہر کام کے مخالف ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دوسرے اہم فریضے یعنی دشمن پر نظر رکھنے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دشمن اور اس کے حربوں، عیاریوں اور ہتکنڈوں سے غافل نہیں رہنا چاہیے اور اسے کمزور اور ناتواں نہ سمجھنے کے ساتھ ہی اس کے خطرات، دباؤ اور رجز خوانی سے مرعوب بھی نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے ایران کا برا چاہنے والوں کی سازشوں اور نفسیاتی دباؤ کی وجہ، اسلامی انقلاب کے مضبوط نکات اور پیشرفتوں کو بتایا اور کہا کہ دشمنوں کے مقابل میں کبھی پسپا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کی پالیسی فریق مقابل کو رسوا اور پسپا کرنا ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر 11 فروری کو زبردست جلوس نکالنے پر پورے ملک کے عوام کا دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ قوم نے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور دیہی علاقوں میں اپنے انقلابی حوصلے، جوش اور گرمی حیات کا مظاہرہ کیا اور ان لوگوں کو متحیر کر دیا جو ایرانی عوام کے دل کو پژمردہ بنانے اور 22 بہمن (11 فروری انقلاب کی سالگرہ) کو بھلا دینے کے خواہاں تھے۔

انھوں نے اپنے خطاب میں اسی طرح آذربائیجان کے عوام کو تاریخ، موجودہ دور اور حالیہ عشروں میں حمیت، عشق، جوش اور ایمان کا مظہر بتایا۔

انھوں نے اہل تبریز کے 18 فروری 1978 کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے تاریخ رقم کرنے والا واقعہ بتایا اور کہا کہ اس واقعے نے اہل قم کے 9 جنوری 1978 کے قیام کو بے ثمر نہیں ہونے دیا اور پورے ملک میں قیام کا جذبہ اور انقلابی جوش پھیلا کر اسلامی انقلاب کی کامیابی کی راہ ہموار کر دی۔