سلیمانی

سلیمانی

،رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ گيارہ اگست کی صبح کورونا کی بیماری کی صورتحال کے بارے میں ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے اپنے ایک پیغام میں اسے ملک کا پہلا اور فوری مسئلہ بتایا ہے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے اس پیغام کے آغاز میں سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا اصحاب کو سلام عرض کیا اور ملک کے حکام اور عوام کے لیے کچھ اہم نکات بیان کیے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کی سرکش بیماری بے تحاشا پھیل رہی ہے، صرف ایران میں نہیں بلکہ تقریبا پوری دنیا میں یہ تیز رفتاری سے پھیل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب یہ دشمن یعنی کورونا وائرس نئي شکل اختیار کر لیتا ہے تو ہماری دفاعی حکمت عملی اور کام کا طریقہ بھی اسی کے حساب سے بدل جانا چاہیے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے کورونا کو ملک کا فوری مسئلہ بتایا اور اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ اس بیماری میں مبتلا ہونے اور مرنے والوں کے اعداد و شمار دردناک ہیں، صدر مملکت کی جانب سے کورونا کی نئي لہر سے نمٹنے کے سلسلے میں اپنا موقف واضح کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت معین کیے جانے کو سراہا۔

انہوں نے میڈیکل کے شعبے کی صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹروں، نرسوں اور میڈیکل اسٹاف کے کام کو جہاد سے تعبیر کیا اور کہا: مجھے حقیقت میں دل کی گہرائي سے ان افراد کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، البتہ ہمارے شکریے کی کوئي اہمیت نہیں ہے، اصل شکریہ خدا کی طرف سے ہے جو شاکر و علیم ہے اور ان افراد کی زحمتوں کو دیکھ رہا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ سفارشات کیں اور کورونا کے مریضوں کی پہچان کے لئے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کیے جانے کو ایک اچھا اقدام بتایا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ ٹیسٹ مفت اور ملک گیر سطح پر ہونے چاہیے۔

انہوں نے ایران کو ویکسین بیچنے کے مسئلے میں مغربی ملکوں کی وعدہ خلافی کے بارے میں کہا: درآمدات کا مسئلہ اس طرح کا تھا کہ حکومت اور وزارت صحت نے پیسے دے کر بعض جگہوں سے ویکسین خریدی تھی، بعض ملکوں کو ویکسین کی قیمت بھی ادا کر دی گئی تھی لیکن انھوں نے وعدہ خلافی کی اور ویکسین نہیں دی۔ جب خود ہماری ویکسین بازار میں آ گئي اور لوگوں نے ٹیکے لگوانے شروع کر دیے تو یہ معاملہ بہتر ہو گيا یعنی درآمد کا راستہ بھی کھل گيا۔

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی کے ساتھ کہا کہ بہرحال درآمدات کے لیے بھی اور ملکی پیداوار کے لیے بھی دوہری کوشش ہونی چاہیے اور جس طرح سے بھی ممکن ہو لوگوں تک ویکسین کو پہنچایا جانا چاہیے۔ ویکسین کے دسیوں لاکھ ڈوز ہمارے پاس ہونے چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح دواؤں اور ان کی تقسیم کے نیٹ ورک کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ اس سلسلے میں ہونے والی خلاف ورزیوں اور دلالی سے سختی سے نمٹا جانا چاہیے جس کی وجہ سے دواؤں تک عوام کی رسائی محدود ہو گئی ہے۔

انھوں نے کورونا کے ابتدائي پھیلاؤ کے دوران مسلح فورسز اور عوامی رضاکاروں کی مدد کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے ان فورسز کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی ضرورت پر تاکید کی۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے عوام سے کچھ سفارشات کرتے ہوئے ان سے اپیل کی کہ میڈیکل پروٹوکولز کی  پابندی کریں کیونکہ ایسا نہ کرنا، معاشرے کی صحت کو خطرے میں ڈالنا ہے۔

انہوں نے محرم میں مجالس عزا کے انعقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان مجالس کو رحمت الہی کا موجب قرار دیا اور کہا: ہمیں ان مجالس کی ضرورت ہے، یہ مجالس ہونی چاہیے لیکن پوری ہوشیاری کے ساتھ اور میڈیکل پروٹوکولز کی پوری پابندی کے ساتھ منعقد ہونی چاہیے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے عوام سے اپیل کی کہ وہ کورونا کے پھیلاؤ کے اس وقت میں رضاکارانہ امداد جاری رکھیں۔
انھوں نے اپنے اس  پیغام کے آخر میں کہا کہ میری آخری نصیحت، خدا کے حضور دعا، توسل اور گڑگڑانا ہے۔ آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ عزاداری کی مجلسوں میں توسل اور گریہ و زاری کے ساتھ خداوند عالم سے لطف و کرم کی التجا کریں تاکہ ان شاء اللہ وہ اس خبیث بیماری سے ایران اور پوری دنیا کے لوگوں کو نجات دے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اصفہان/حجۃ الاسلام والمسلمین ناصر رفیعی نے اتوار کی شام اصفہان کے مبلغین کے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران مبلغین سے امسال ایام محرم الحرام میں ملتِ امام حسین علیہ السلام کی خصوصیات بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سورۂ مبارکۂ مؤمنون میں مؤمنین کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں،سورۂ مبارکۂ توبہ کے آخر میں شہداء کے لئے 9خصوصیات اور اسی طرح سورۂ مبارکۂ رعد میں عقلمندوں کی خصوصیت بیان ہوئی ہے لہذا ایام عزا میں ان سب پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔

جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کی اساتذہ انجمن کے رکن نے کہا کہ ان خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ عاشورا کے دن اصحاب ابا عبداللہ الحسین (ع) کی کیا خصوصیات تھیں جو امام(ع) پر جانثاری کرنے کے لئے کربلا میں جمع ہوئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی پہلی خصوصیت خدا پرستی ہے۔ اگر انسان خدائی بن جائے تو وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ خلوص، ابا عبداللہ الحسین(ع) کے ساتھیوں کی دوسری خصوصیت ہے۔

استاد رفیعی نے کہا کہ شجاعت،ملتِ امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں کی تیسری خصوصیت ہے؛شجاعت کا مطلب ہے غصے پر قابو پانا،شجاعت کی علامت صداقت ہے۔ایک بہادر اور شجاع آدمی کی زندگی میں خوف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ولایت مداری،ملتِ امام حسین (ع) کی ایک اور خصوصیت ہے۔حضرت قمر بنی ہاشم (ع) اس کی واضح مثال ہیں، ابو الفضل العباس (ع) نے اپنی زندگی کے دوران کبھی اپنے وجود کا اظہار نہیں کیا،کیونکہ آپ(ع)امام معصوم کے ساتھ تھے۔

استاد حوزہ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ عہد و پیمان کی وفاداری،ملتِ امام حسین علیہ السلام کی ایک اور خصوصیت ہے۔عہد کی وفاداری مومن کی نشانی اور عہد کی وفاداری نہ کرنا مشرک کی نشانی ہے۔

آخر میں، استاد رفیعی نے کہا کہ دشمن شناسی،ملتِ امام حسین (ع) اور کے ساتھیوں کی ایک اور خصوصیت ہے اس کے علاوہ ، دشمن کے دھوکے میں نہ آنا اور دشمن کی بے وفائی کو سمجھنا امام کے ساتھیوں کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہے۔

 محرم الحرام سن 1443 ہجری قمری کا چاند کربلا کے میدان میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہلبیت (ع) کی اسلام کو بچانے کے سلسلے میں عظیم قربانی کی یاد لیکر پہنچ گيا ہے۔ محرم کا مہینہ اہلبیت (ع) کے ساتھ محبت اور وفاداری کا مہینہ ہے۔ محرم کا مہینہ در حقیقت محمد اور آل محمد (ص) کی فتح و کامیابی اور بنی امیہ اور باطل پرست طاقتوں کی شکست اور ناکامی کا مہینہ ہے۔ محرم دین اسلام کی ابدی حیات کا پیغام لے کر پنہچ گيا ہے کربلا والوں کی یاد ایران سمیت دنیا بھر میں مذہبی اور دینی عقیدت ، جوش و ولولہ اور احترام کے ساتھ منائی جاتی ہے۔

جس میں لوگ بلا تفریق مذہب و ملت شرکت کرتے ہیں ۔ اس سال کا محرم بھی گذشتہ سال کی طرح طبی پروٹوکول کی رعایت کے ساتھ منایا جائےگا ۔ ایران میں طبی پروٹوکول کے ساتھ  مجالس عزا کا انعقاد گذشتہ شب سے شروع ہوگيا ہے۔ کھلی جگہوں اور سڑکوں پر مجالس کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ ٹی وی چینلوں اور ریڈیو پر بھی فلسفہ شہادت امام حسین علیہ السلام کو بیان کیا جارہا ہے۔ ایران کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مساجد اور امامبارگاہوں کو سیاہ پش کردیا گیا ہے ہر طرف مجالس عزا کا سلسلہ شروع ہوگيا ہے۔ ایران کی فضاؤں میں  لبیک یا رسول اللہ (ص)، لبیک یاحسین (ع)  اور لیبیک یا ابو الفضل العباس(ع)  کی صدائیں  گونج رہی ہیں۔ ادھر پاکستان ، عراق ، شام ، ترکی، کویت ، بحرین، قطر، افغانستان ، سعودی عرب ، یمن لبنان ، فلسطین، یورپ، امریکہ  اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی عزاداری اور مجالس عزائے سید الشہداء کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔مجالس عزا میں علماء اور خطباء فضائل اور مصائب اہلبیت علیھم السلام پیش کریں گے  اور کربلا والوں کی عظيم قربانی پر روشنی ڈالیں گے۔


 

 
 
 

قتل امام حسین (ع) کے بارے میں تاریخی اسناد و دلائل:

امام حسین (ع) کے قتل کا حکم کس نے دیا تھا ؟

توضیح سوال:

کیا امام حسین (ع) کی شہادت کا حکم یزید نے دیا تھا، کیونکہ اس بارے میں ابن تیمیہ ناصبی و وہابی نے لکھا ہے کہ:

یزید ابن معاویہ کی پیدائش عثمان ابن عفان کے عہدِ خلافت میں ہوئی ، یزید دینداری اور خیر میں مشہور نہیں تھا، نوجوان مسلمان تھا، اس نے اپنے والد کے بعد حکمرانی کی باگ دوڑ سنبھالی ، اگرچہ کچھ مسلمانوں نے اسے اس لائق نہیں سمجھا ، اور کچھ اس پر راضی تھے ، تاہم اس میں بہادری اور سخاوت کے اوصاف پائے جاتے تھے، اعلانیہ طور پر گناہوں کا رسیا نہیں تھا، جیسے کہ اس کے بارے میں اس کے مخالفین کہتے ہیں۔

نیز اس نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا، اور نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر اظہارِ خوشی کیا ، نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کے دندان کو چھڑی سے کریدا، نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کا سر شام اس کے پاس لے جایا گیا، تاہم اس نے حسین رضی اللہ عنہ کو روکنے کا حکم دیا تھا، نیز سیاسی معاملات سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی، چاہے اس کیلیے مسلح راستہ اپنانا پڑے۔

لیکن یزید کے مخالفین یزید کے خلاف باتیں کرتے ہوئے بہت سی جھوٹی چیزیں بھی شامل کر دیتے ہیں۔

مجموع الفتاوى ج 3 ص 410

اسی طرح ابن تیمیہ کے شاگرد خاص ابن کثیر نے بھی لکھا ہے کہ:

یزید ابن معاویہ کے بارے میں سب سے سنگین الزام جو لگایا جاتا ہے، وہ شراب نوشی سمیت دیگر کچھ اور غلط کام ہیں، لیکن حسین رضی اللہ عنہ کا قتل نہ تو اس کے حکم سے ہوا اور نہ ہی اسے برا لگا، جیسے کہ یزید کے دادا  ابو سفیان نے احد کے دن کہا تھا۔

اور ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یزید نے کہا تھا: اگر میں حسین کے پاس ہوتا تو ایسا نہ کرتا جیسا ابن مرجانہ یعنی عبید اللہ ابن زیاد نے کیا۔

البداية والنهاية  ج11 ص 650

کتاب راس الحسین کا مصنف لکھتا ہے کہ:

یزید امام حسین کے قتل پر راضی نہیں تھا اور یہاں تک کہ اس نے اپنی اس نا خوشی کا اظہار بھی کیا ہے۔

راس الحسین ص 208

اسی طرح کتاب سؤال فی یزید ابن معاویہ کا مصنف لکھتا ہے کہ:

یزید نے امام حسین کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا، سروں کو یزید کے پاس نہیں لایا گیا اور اس نے امام حسین کے دندان مبارک کی بے حرمتی بھی نہیں کی بلکہ عبید اللہ ابن زیاد نے یہ کام انجام دئیے ہیں۔

سؤال فی یزید ابن معاویہ ص 16

دیکھیں یہ دین فروش اور جہنم تقسیم کرنے والے ناصبی و وہابی علماء کیسے یزید لعین کا دفاع کر رہے ہیں اور اسے امام حسین (ع) کے قتل سے بری کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں ؟!

جواب:

مقدمہ:

شیعہ کتب کے مطابق، یزید کے حکم سے امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک مسلم اور یقینی بات ہے،  لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اہل سنت  کی کتب میں بھی اس موضوع کے بارے میں کچھ  ذکر ہوا  ہے یا نہیں ؟ ہم اس بحث میں اسی سوال کا جواب دیں گے۔

علمائے اہل سنت کے درمیان چند افراد جیسے عبد المغيث حنبلی، ابن کثیر اور ابن تيميہ نے یہ کوشش کی ہے کہ یزید کی حمایت و طرفداری کر کے اس کو بے گناہ ثابت کریں، یا کم از کم اس بات کو ثابت کریں کہ اس نے توبہ کر لی تھی۔

لیکن اس کے بر خلاف،  دیگر علمائے اہل سنت، شیعہ علماء کی طرح اس بات پر متفق ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم، یزید ابن معاویہ نے دیا تھا۔

البتہ اس بارے میں اہل سنت کے تاریخی متون چند قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں:

1- امام حسین علیہ السلام کے مکہ جانے سے پہلے قتل کے حکم کا صادر ہونا:

2-‌ یزید کا والی کوفہ کو امام علیہ السلام کے قتل کا حکم صادر کرنا:

3- وقت، جگہ اور افراد کو معین کیے بغیر امام علیہ السلام کے قتل کے حکم کے صادر ہونے کا بیان:

1- امام  حسین(ع) کے مکہ جانے سے پہلے قتل کے حکم کا صادر ہونا:

جن کتابوں میں یہ مطلب بیان کیا گیا ہے ان میں منجملہ ابن عثم کوفی کی کتاب الفتوح ہے وہ نقل کرتے ہیں کہ یزید نے والی مدینہ کو خط لکھ کر امام حسین علیہ السلام  کو شھید کرنے کا حکم دیا تھا:

وليكن مع جوابك إليّ رأس الحسين بن عليّ، فإن فعلت ذلك فقد جعلت لك أعنّة الخيل، ولك عندي الجائزةّ والحظّ الأوفرّ والنعمة واحدة والسلام.

اس خط کے جواب کے ساتھ، حسین [ علیہ السلام ] کا سر بھی ہونا چاہیے اگر تم نے ایسا کر دیا تو ہماری طرف سے بڑے انعام کے حقدار بنو گے۔

والسلام

الفتوح ، ج 3، جزء 5، ص 18

2-‌ یزید کا والی کوفہ کو امام  حسین(ع) کے قتل کا حکم صادر کرنا:

اہل سنت کے ایک دوسرے عالم، ابن اثیر جزری اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ عبید الله ابن زیاد نے اتنا بڑا ظلم ( قتل امام حسین علیہ السلام ) کیوں کیا، اسی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

أما قتلي الحسين فإنه أشار علي يزيد بقتله أو قتلي فاخترت قتله

مجھ کو یزید نے میرے قتل ہونے اور حسین کے قتل کرنے کے درمیان اختیار دیا تھا ( یا مجھ عبید اللہ بن زیاد کا قتل ہو گا یا حسین کا ) اور میں نے ان دونوں میں سے حسین کے قتل کا انتخاب کیا۔

أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم الشيباني الوفاة: 630هـ ، الكامل في التاريخ  ج 3 ، ص 474 ، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1415هـ ، الطبعة: ط2 ، تحقيق: عبد الله القاضي

نیز اہل سنت کے ایک دوسرے عالم، قرمانی کا کہنا ہے کہ یزید نے عبید الله ابن زياد کو حکم دیا تھا کہ امام حسین (ع) کو شہید کر دے:

و بلغ الخبر الي يزيد فولي العراق عبيد الله بن زياد و امره بقتال الحسين.

یزید نے والی عراق عبید اللہ ابن زیاد کو حکم دیا تھا کہ حسین ابن علی [ علیہما السلام ] کو قتل کر دے۔

القرماني، احمد بن يوسف، المتوفي:‌ 1019، اخبار الدول و آثار الاُوَل في التاريخ، ج 1، ص 320،  تحقيق: احمد حطيط – فهمي سعد، ناشر: عالم الكتب.

ابن اعثم كوفی نے بھی اس واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

فكتب عبيد الله بن زياد إلى الحسين: أما بعد يا حسين ! فقد بلغني نزولك بكربلاء ، وقد كتب إلي أمير المؤمنين يزيد بن معاوية أن لا أتوسد الوثير ولا أشبع من الخبز ، أو ألحقك باللطيف الخبير أو ترجع إلى حكمي وحكم يزيد بن معاوية – والسلام.

عبيد الله ابن زياد نے امام حسین علیہ السلام کو خط میں لکھا: اما بعد، اے حسین ! مجھے خبر ملی ہے کہ آپ کربلا میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یزید ابن معاویہ نے مجھے لکھا ہے کہ میں آرام سے نہ بیٹھوں اور سیر ہو کے کھانا نہ کھاؤں [ اس بات سے کنایہ ہے کہ آپ کے بارے میں جلد از جلد فیصلہ کروں ] یہاں تک کہ آپ کو خدا سے ملحق کر دوں یا پھر میرے اور یزید کے حکم کو تسلیم کر لیں۔ والسلام

الفتوح - أحمد بن أعثم الكوفي - ج 5 ص 84- 85

مطالب السؤول في مناقب آل الرسول ( ع ) - محمد بن طلحة الشافعي - ص 400؛‌

مقتل الحسین، خوارزمی، ج 1 ، ص 340، محقق: محمد السماوی، ناشر: انوار الهدی، قم، چاپ اول، 1418 هـ.ق.

جیسا کہ ہم نے ابتدا میں کہا تھا کہ ابن اعثم نے نقل کیا تھا کہ یزید نے والی مدینہ کو حکم دیا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کو قتل کر دے۔ یہاں پر ابن اعثم نے نقل کیا ہے کہ والی کوفہ عبید اللہ ابن زیاد کو بھی یہی حکم دیا تھا۔ اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ یزید نے ایک بار نہیں بلکہ دو بار امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم صادر کیا تھا۔

3- وقت، جگہ اور افراد کو معین کیے بغیر امام  حسین(ع )کے قتل کے حکم کے صادر ہونے کا بیان:

دوسری تاریخی کتابوں میں صرف یہ بات بیان ہوئی ہے کہ یزید ملعون نے امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا تھا، لیکن یہ مسئلہ کہ قتل کا حکم کہاں اور کس شخص کو یا کس مقام پر دیا گیا، اس  کے بار ے میں کچھ  ذکر نہیں ہوا۔

اہل سنت کے ایک بزرگ عالم شمس الدين ذہبی نے یزید سے عوام کی دوری اور نفرت کے بارے میں لکھا ہے کہ:

قلت: ولما فعل يزيد بأهل المدينة ما فعل، وقتل الحسين وإخوته وآله، وشرب يزيد الخمر ، وارتكب أشياء منكرة ، بغضه الناس ، وخرج عليه غير واحد ، ولم يبارك الله في عمره

جب یزید نے اہل مدینہ کے ساتھ جو کرنا تھا وہ [ واقعہ حرہ ] کر دیا، اور [امام] حسین [ علیہ السلام ]، ان کے بھائیوں اور اعزاء و اقرباء کو شہید کیا، شراب خواری اور ہر قسم کے حرام اور خلاف [ شرع ] اعمال انجام دئیے تو عوام یزید سے متنفر ہو گئی اور بہت سے لوگوں نے یزید کے خلاف خروج (قیام) کیا اور اللہ نے اس کی عمر کو مبارک قرار نہیں دیا۔

شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي الوفاة: 748هـ ، تاريخ الإسلام  ج 5 ، ص 30، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت - 1407هـ - 1987م ، الطبعة: الأولى ، تحقيق: د. عمر عبد السلام تدمرى

نیز ابن جوزی نے بھی اسی بات کا اعتراف کیا ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ اس نے اپنے بیان میں یزید پر لعنت بھی کی ہے۔ چنانچہ سبط ابن جوزی [ ابن جوزی کا نواسہ ] نے اپنے اساتذہ سے نقل کرتے ہو ئے لکھا ہے:

و حکى لی بعض اشیاخنا عن ذلک الیوم: ان جماعة سألوا جدی عن یزید فقال ما تقولون فی رجل ولّی ثلاث سنین فی السنة الأولى قتل الحسین فی الثانیة أخاف المدینة و اباحها و فی الثالثة رمى الکعبة بالمجانیق و هدمها، فقالوا نلعن فقال فالعنوه.

میرے بعض اساتذہ نے اس روز کا قصہ میرے لیے بیان کیا تھا کہ میرے نانا [ ابن جوزی ] سے یزید کے متعلق کچھ لوگوں نے پوچھا، تو میرے نانا نے جواب دیا: آپ لوگوں کی رائے اس شخص کے بارے میں کیا ہے کہ جس نے تین سال حکومت کی، پہلے سال حسین [ علیہ السلام ] کو شہید کیا ، دوسرے سال مدینہ پر حملہ کیا اور تین دن تک مدینہ کے مسلمانوں کی جان، مال، اور ناموس کو اپنے فوجیوں کے لیے ہر کام کے لیے جائز کر دیا، اور تیسرے سال منجنیق کے ذریعے خانہ کعبہ کو تاراج کر دیا۔ ؟! حاضرین نے کہا ہم ایسے شخص پر لعنت بھیجتے ہیں، تو میرے نانا [ سبط جوزی ] نے بھی کہا اس پر لعنت بھیجو۔

سبط بن الجوزي الحنفي، يوسف بن قزغلي ، تذكرة الخواص الأمة في خصائص ائمة عليهم السلام، صص 291-292، ناشر: مكتبة نينوي الحديثة، تهران.

ہاں یزید کا چار سال کا دور ظلم و ستم اور جرم و جنایت سے اتنا بھرا ہوا ہے کہ مشہور مؤرخ یعقوبی نے سعيد ابن مسيب سے نقل کرتے ہوئے یزید کی حکومت کے دور کو منحوس دور قرار دیا ہے:

وكان سعيد بن المسيب يسمي سني يزيد بن معاوية بالشؤم في السنة الأولى قتل الحسين بن علي وأهل بيت رسول الله والثانية استبيح حرم رسول الله وانتهكت حرمة المدينة والثالثة سفكت الدماء في حرم الله وحرقت الكعبة.

سعید ابن مسیب، یزید کے دور حکومت کو منحوس دور کے نام سے یاد کرتا تھا کہ جس کے پہلے سال میں اس نے امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شہید کیا، دوسرے سال حرم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مدینہ کی بےحرمتی کی، اور تیسرے سال حرم الہی [ مسجد الحرام ] میں بے گناہوں کا خون بہایا اور خانہ کعبہ کو آگ لگا کر جلا دیا۔

أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح اليعقوبي الوفاة: 292 ، تاريخ اليعقوبي  ج 2 ، ص 253، ناشر: دار صادر – بيروت.

عالم اہل سنت سیوطی نے لکھا ہے کہ:

یزید نے والی عراق عبید اللہ ابن زیاد کو حسین (ع) ابن علی (ع) کے قتل کا حکم صادر کیا تھا۔

تاریخ الخلفاء ص 193

اہل سنت کے مشہور دانشمند جلال الدین سیوطی نےتاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ:

فكتب يزيد إلی واليه بالعراق عبيد الله بن زياد بقتله فوجه إليه جيشاً أربعة آلاف عليهم عمر بن سعد بن أبي وقاص۔

یزید نے کوفہ کے والی ابن زیاد کو حکم دیا کہ حسین بن علی کو قتل کر دو، اس نے عمُر ابن سعد کے ساتھ چار ہزار کا لشکر  امام حسین کو قتل کرنے کے لیے روانہ کیا۔

تاريخ الخلفاء - ،ج 1 ،ص 84

سبط ابن جوزی کہتا ہے کہ: جب ابن زیاد یزید کے پاس آیا یزید نے اس کا استقبال کیا، اسکی پیشانی چومی اور اسے اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا اور ساقی کو دستور دیا کہ ہمیں سیراب کرو۔ اسے اور عمر ابن سعد کو دس لاکھ انعام کے طور پر عطا کیے۔

تذکرۃ الخواص ص 290

یزید کا امام حسین (ع) کے قتل پر فخر ومباہات:

ابن اثیر لکھتا ہے کہ: واقعہ کربلا کے بعد جب یزید نے عمومی ملاقات کی اجازت دی اور لوگ مجلس میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ امام حسین (ع) کا سر اقدس اس کے سامنے رکھا ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہے کہ جس کےساتھ وہ امام (ع) کے گلے کی بے حرمتی کر رہا ہے اور کچھ اشعار کو گنگنا رہا تھا کہ جو امام (ع) کے قتل پر فخر و مباہات پر دلالت کر رہے تھے۔

کامل ابن اثیر، ج3 ص 298

اسی مطلب کو سیوطی، سبط ابن جوزی نے بھی نقل کیا ہے۔ سبط جوزی کہتا ہے کہ: یزید امام حسین (ع) کے سر کی توہین کرتے ہوئے ابن زبعری کے اشعار کو گنگنا رہا تھا جن کا مضمون کچھ یوں تھا کہ:

ہم نے بنی ہاشم کے بزرگان کو بدر کے مقتولین کے بدلے کے طور پر قتل کیا ہے۔

تذکرۃ الخواص، ص 235

ابن زیاد کو کوفہ کا والی بنانے میں یزید کا مقصد:

جب امام حسین (ع) یزید کی بیعت سے انکار کر کے مکہ تشریف لے گئے اور وہاں سے اہل کوفہ کی دعوت قبول کر کے کوفے کا ارادہ کیا اور کوفہ کے حاکم نعمان بن بشیر وہاں کے حالات کو حالت سنبھال نہ سکا، تو یزید نے ابن زیاد کو بصرہ کے علاوہ کوفہ کی حاکمیت بھی دیدی۔ اس مطلب کو اہل سنت کے مایہ ناز مؤرخ جناب طبری اس طرح بیان کرتے ہیں کہ:

جب کوفہ کے بارہ ہزار افراد نے مسلم ابن عقیل کی بیعت کی تو یزید کے ایک حامی نے کوفہ کی حالت اور نعمان کی ناتوانی کی اطلاع یزید کو خط کے ذریعے سے دیدی۔ اس نے اپنے مسیحی مشاور سرجون غلام سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ اس وقت اگر معاویہ زندہ ہو جائے اور وہ تجھے کوئی حکم دیدے تو کیا تم اس کے حکم کو مان لو گے ؟ جب اس نے اثبات میں جواب دیا تو سرجون نے معاویہ کا خط نکال کر یزید کو  دیا جس میں کوفہ پر ابن زیاد کی ولایت کا حکم لکھا ہوا تھا، اور سرجون سے کہا ہوا تھا کہ مناسب وقت پر اس حکم نامے کو یزید کے حوالہ کر دو۔ سرجون نے یزید سے کہا: اس وقت کوفہ، ابن زیاد کے علاوہ کوئی اور نہیں سنبھال سکتا، تو یزید نے ابن زیاد کو بصرہ کے علاوہ کوفہ کا گورنر بھی مقرر کر دیا اور اسے لکھا کہ مسلم ابن عقیل کو قتل کر دو۔

تاريخ الطبري - ،ج 4 ،ص 258

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یزید نے ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر صرف امام حسین (ع) کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا تھا۔ جب وہ ابن زیاد کو کوفہ کا حاکم بنا رہا تھا، تو اسے کس حیثیت کے ساتھ وہاں بھیجا تھا، تین قسم کے احتمالات یہاں متصور ہیں:

یزید کا ابن زیاد کو کوفہ کا حاکم  بناتے وقت اسے کیا کیا احکامات  دیئے تھے ؟ تین قسم کے احتمالات دئیے جا سکتے ہیں:

الف: یزید نے ابن زیاد کو تمام امور کے بارے میں پورا پورا اختیار دے دیا تھا، ان میں سے ایک  امام حسین (ع) کا قتل بھی تھا۔

ب: اسے کہا گیا تھا کہ تمام مسائل میں یزید سے مشورہ کر لے، چاہے وہ مسئلہ بڑا ہو یا چھوٹا، اس کی اجازت کے بغیر کوئی کام انجام نہ دیا جائے، انہی  مسائل میں سے ایک واقعہ عاشورا ہے۔

ج: یزید نے اس سے کہا تھا کہ بڑے مسائل کا فیصلہ اس کی اجازت اور مشورت کے بغیر انجام نہ دیا جائے۔

ان تینوں میں سے کسی بھی ایک احتمال کو قبول کر لینے کی صورت میں  یزید اپنے آپ کو امام حسین کے قتل سے بری قرار نہیں دے سکتا۔

الادلۃ علي تورط يزيد بدم الحسين  ،ج 1 ،ص 3-5   

اگر ہم پہلے احتمال کو قبول کر لیں ( اگرچہ یہ بعید ہے ) اور کہیں کہ یزید نے تمام اختیارات  ابن زیاد کے حوالے کر دئیے تھے اور انہی اختیارات میں سے ایک فرزند رسول کا قتل تھا۔ اس بناء پر اگر یزید ابن زیاد کے اس کام سے بے خبر تھا، تو بعد میں جب با خبر ہو گیا تھا، تو اس وقت  ابن زیاد کو سزا کیوں نہیں دی اور کم از کم اسے اپنے منصب سے کیوں نہیں ہٹایا ؟

تایخ طبری اور کامل التاریخ کی روایت میں قتل کی بجائے، یہ الفاظ ذکر ہوئے ہیں:

بالبيعة أخذا شديداً ليست فيه رخصة حتی يبايعوا۔

الكامل في التاريخ - ،ج 2 ،ص 151۔

اس عبارت سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یا بیعت کرو یا قتل کرو، کوئی تیسری راہ محتمل نہیں ہے۔

امام حسین (ع) کو یزید کی سازش کی خبر ہونا:

تاریخ طبری اور الکامل کی نقل کے مطابق امام حسین (ع) جب مکہ چھوڑ رہے تھے تو لوگوں کو اس کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

والله لانْ اقتل خارجاً منها بشبر أحب اليَّ من ان اقتل داخلا منها بشبر وأيم الله لو كنت في حجر هامَّة من هذه الهوام لاستخرجوني حتی يقضوا فيَّ حاجتهم،

خدا کی قسم مکہ سے باہر قتل ہونا ، اگرچہ ایک بالشت کے فاصلہ پر ہو، میرے لیے مکہ میں قتل ہونے سے بہتر ہے۔ خدا کی قسم اگر میں حشرات کے بلوں میں بھی چھپ کے رہوں، تب بھی وہ لوگ مجھے نکال کر قتل کر دیں گے۔

الكامل في التاريخ ،ج 2،ص 161

تاريخ الطبري،ج4،ص 289

امام حسین (ع) کو یزیدیوں کے ہدف کا علم تھا، لہذا آپ نے مکہ سے خارج نہ ہونے کی صورت میں یقینی طور پر اپنے قتل  اور کعبہ و مکہ کی حرمت  پائمال ہونے سے لوگوں کو آگاہ کیا۔

اہل سنت کے معروف عالم و دانشور اخطب خوارزم لکھتے ہیں کہ:

جب حرّ نے امام حسین کے کربلا پہنچنے کی خبر ابن زیاد کو دی تو اس نے امام کو خط لکھا: مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ کربلا وارد ہوئے ہیں، لیکن مجھے یزید نے حکم دیا ہے کہ آپ کو کسی قسم کی رعایت نہ دوں مگر یہ کہ یا آپ یزید کی بیعت کریں یا آپ کو قتل کیا جائے۔

الادله علي تورط يزيد بدم الحسين،ج 1، ص 32،بنقل از کتاب، مقتل الحسين للخوارزمي ج1  ص،340

ونقل نص الكتاب ابن أعثم في كتاب الفتوح وهو من أعلام القرن الرابع الهجري ج5 ص150

یزید کے نام ابن عباس کا خط:

جب امام حسین (ع) مکہ سے نکلے تو ابن زبیر نے خلافت کا اعلان کر دیا، لیکن عبد اللہ ابن عباس  نے ابن زبیر کی بیعت نہیں کی ۔ یزید نے ابن عباس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ایک خط لکھا اور کہا کہ تم نے ابن زبیر کی بیعت نہ کر کے صلہ ارحام کا لحاظ رکھا ہے۔ میں اس نیکی کو فراموش نہیں کروں گا اور تیری محبت کا جبران کروں گا اور تجھ سے ایک تقاضا ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھی ابن زبیر کی بیعت کرنے سے روکو، کیونکہ لوگوں کے نزدیک تم ایک قابل اعتماد شخص ہو۔ ان کلمات پر مشتمل خط کے جواب میں ابن عباس نے یزید کو جواب میں لکھا:

اے یزید، ابن زبیر کی بیعت نہ کرنا تیری محبت کی وجہ سے نہیں ہے، خدا میری نیت سے آگاہ ہے تمہیں میرے ساتھ نیکی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ میں تم سے کوئی نیکی نہیں دیکھوں گا، میں کس طرح تیری حمایت کروں جبکہ تم نے حسین اور آل ابو طالب کے جوانوں کو قتل کر دیا ہے، تو میرے بارے میں یہ نہ سوچنا کہ حسین اور خاندان عبد المطلب کے جوانوں کو بھول جاؤںگا:

…وانت قتلت حسيناً … لا تحسبني لا أباً لك نسيتُ قتلك حسيناً وفتيان بني عبد المطلب۔

تاريخ اليعقوبي،ج 1،ص 208

ابن عباس نے یزید کو قاتل امام حسین (ع) کے عنوان سے پہچنوایا ہے اور ابن عباس کی عظمت اور ان کا مقام سب پر عیاں ہے کہ وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں ہیں کہ بلا وجہ کسی پر تہمت لگا دے بلکہ ان کے تقویٰ اور عدالت پر امت مسلمہ کا اجماع قائم و موجود ہے۔

یزید کے کفر آمیز اشعار:

اہل سنت کی تاریخ نقل کرتی ہے کہ یزید نے اہل بیت (ع) کو دربار میں اسیروں کی حالت میں حاضر کر کے کفر آمیز اشعار کہ کر واقعہ کربلا کو اپنے لیے افتخار شمار کیا ہے:

ليت أشياخي ببدر شهدوا  *  جزع الخزرج من وقع الاسل

قد قتلنا الكثير من أشياخهم *  وعد لناه ببدر فاعتدل

لست من خندف إن لم أنتقم *  من بنی أحمد ما كان فعل

لعبت هاشم بالملك فلا     *    خبر جاء ولا وحی نزل

اے کاش ہمارے وہ آباء و اجداد جو بدر میں مارے گئے، وہ زندہ ہوتے تو وہ دیکھ لیتے کہ آل احمد سے ہم نے کیسے انتقام لیا۔ ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کر کے بدر کا بدلہ چکا دیا ہے۔ اگر آل احمد سے بدلہ نہ لیا ، تو میں بنی خندف سے نہیں ہوں، بنی ہاشم نے حکومت کے ساتھ کھیل کھیلا ہے ان پر نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ کوئی فرشتہ اتر آیا ہے !

ابن جوزی، المنتظم ،ج 2،ص 199

ابو الفرج اصبہانی، مقاتل الطالبيين ،ج 1 ،ص 34

ابن المطهر ،البدء والتاريخ ،ج 1،ص 331

الدولة الأموية للصلابي ،ج 2،ص 256

البداية والنهاية ،ج 8،ص 192

تاريخ الطبري ،ج 8،ص 187

تاريخ الطبري - ،ج 8 ،ص 188

یزید کا ابن زیاد کو اپنے عہدے پر برقرار رکھنا:

اگر یزید کی مرضی و حکم کے بغیر ابن زیاد نے امام حسین (ع) کو قتل کیا تھا، تو کیا یزید نے اس کے خلاف کوئی قدم اُٹھایا ہے ؟ کیا اسے قتل امام حسین کے جرم میں سزا دی گئی ؟ کم از کم خلیفہ کی نافرمانی کرنے کی بناء پر اسے عہدہ سے ہٹا دیا گیا ؟ تاریخ نہ فقط اس کی تائید نہیں کرتی، بلکہ اس کے برخلاف گواہی دیتی ہے !

و: ابن زیاد مامور تھا نہ خود مختار:

کچھ ایسے قرائن و شواہد بیان کیے جائیں گے کہ جن سے واضح ہو گا کہ یزید نہ صرف ابن زیاد کے کام سے ناراض نہیں تھا، بلکہ ابن زیاد کو اس کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اسی بناء پر معرکہ کربلا یزید لعین کے حکم پر وجود میں آیا تھا:

الف: ابن زیاد کو خود یزید نے کوفہ میں حضرت مسلم کے زیر قیادت وجود میں آنے والے انقلاب کو روکنے کے لیے بھیجا تھا ۔ اگر واقعہ کربلا یزید کی اطلاع کے بغیر اور اس کی مرضی کے خلاف واقع ہوا تھا، تو خلیفہ کے حکم اور مرضی کے خلاف اقدام کرنے پر ابن زیاد کو مجرم قرار پانا چاہیے تھا۔

ب: اگر ابن زیاد نے امام حسین (ع) کو شہید کیا ہے، تو آل محمد کو شام کے کوچہ و بازار میں کس نے پھرایا اور کس کی اجازت سے پھرایا گیا ؟ امام حسین کے سر مبارک کو سامنے رکھ کر کس نے چھڑی سے دندان مبارک کی بے حرمتی کی ؟ یزید کے دربار میں خاندان عصمت کو کس نے ستایا ؟ قتل امام حسین پر فخر کرتے ہوئے کفر اور شرک آمیز اشعار کس نے کہے ؟ اسرائے آل محمد کو کس نے زندان میں بند کر دیا تھا ؟ اس قسم کے بہت سے سوالات تاریخ کے سینے میں ضبط ہیں، کہ جن کا فقط اور فقط ایک واضح جواب ہے کہ یزید لعین و ناصبی نے امام حسین (ع) کو قتل کیا ہے۔

ابن زیاد، یزید کی ہلاکت کے بعد بھی اپنے عہدہ پر برقرار تھا۔ اور وہ بصرہ اور کوفہ دونوں پر حکومت کر رہا تھا۔ اگر اس نے یزید کی مرضی اور حکم کے خلاف امام حسین کو قتل کیا تھا تو اپنے منصب پر باقی رہنا کس بناء پر تھا۔ جبکہ یزید نے مدینہ کےحاکم ولید کو امام حسین سے بیعت نہ لے سکنے اور امام کو قتل نہ کرنے پر فورا ًمعزول کر دیا تھا۔

الكامل في التاريخ ،ج 2،ص 195

یزید، ابن زیاد سے نہ صرف ناراض نہیں تھا، بلکہ اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا تھا، جیسا کہ ابن ابن اثیر نے نقل کیا ہے کہ:

جب امام کا سر مبارک شام پہنچا تو یزید نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ابن زیاد کی تعریف کی۔

الكامل في التاريخ ،ج 2،ص 181

ج: قتل امام حسین (ع) پر ابن زیاد کی عزت اور احترام میں اضافہ کرنا:

ابن زیاد کو یزید اپنا صاحب اسرار اور امین مانتا تھا، جیسا کہ اہل سنت کے مایہ ناز مؤرخ مسعودی نے اپنی کتاب مروج الذہب میں لکھا ہے کہ:

جب واقعہ کربلا کے بعد ابن زیاد شام آیا تو یزید نے ابن زیاد کو اپنے پہلو میں بٹھایا اور اپنے خدمت گار سے کہا:

اسقني شربة تُروِّي مشاشي *  ثم مل فاسقِ مثلها ابن زياد

صاحب السروالامانة عندي * ولتسديد مغنمي وجهادي

مجھے شراب کا جام پلاؤ اور ایک جام ابن زیاد کے لیے بھر دو کیونکہ وہ میرا صاحب اسرار اور امین ہے اور جہاد و غنیمت کے جمع کرنے میں میرا مدد گار ہے۔

مروج الذهب،ج 1،ص 377

معاویہ ابن یزید کا اعتراف:

یزید کے بیٹے کا اعتراف اس بات پر اچھی طرح دلالت کرتا ہے، کہ امام حسین (ع) کو قتل کرنے میں یزید کا ہاتھ تھا۔ یزید کی ہلاکت کے بعد اس نے اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ میرا باپ یزید، حسین کا قاتل ہے اور میرے دادا معاویہ نے علی سے خلافت کو غصب کیا ہے اور مجھے اس خلافت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

ابن حجر مکی صواعق محرقہ میں لکھتا ہے کہ معاویہ ابن یزید نے کہا:

إن هذه الخلافة حبل الله وإن جدي معاوية نازع الامر أهله ومن هو أحق به منه علي بن أبي طالب وركب بكم ما تعلمون حتی أتته منيته فصار في قبره رهينا بذنوبه ثم قلد أبي الامر وكان غير أهل له ونازع ابن بنت رسول الله ثم بكی وقال إن من أعظم الامور علينا علمنا بسوء مصرعه وبئيس منقلبه وقد قتل عترة رسول الله وأباح الحرم وخرب الكعبة،

خلافت خدا کی رسی ہے میرے دادا معاویہ نے اسے علی ابن ابی طالب سے ناحق غصب کیا اور جو کچھ چاہا کر دیا… پھر میرے باپ کی باری آئی اور وہ بھی خلافت کا اہل نہیں تھا ۔ فرزند رسول سے دشمنی کی! پھر وہ رویا اور کہا …، اس نے عترت رسول خدا کو قتل کیا، شراب کو حلال قرار دیا، کعبہ کو خراب کیا اور وہ جہنمی ہے۔

الصواعق المحرقة - ،ج 2 ،ص 641

ط۔ ابن زیاد کا اعتراف:

ابن زیاد کو یزید کی طرف سے حسین کے قتل کا حکم  دئیے جانے کا اعتراف خود ابن زیاد نے بھی کیا ہے:

أما قتلي الحسين فإنه أشار إليّ يزيد بقتله أو قتلي فاخترت قتله،

یزید نے مجھے دو کاموں میں مخیر کیا تھا کہ: یا تو حسین کو قتل کر دوں یا میں خود قتل ہو جاؤں، لہذا میں نےحسین کے قتل کو انتخاب کیا !

الكامل في التاريخ - ،ج 2 ،ص 199

یزید کے اظہار ندامت کی علت:

بعض متعصب لوگ یزید کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یزید نے ابن زیاد پر امام حسین (ع) کو شہید کرنے کی وجہ سے لعنت کی ہے اور پشیمانی کا اظہار بھی کیا ہے اور اہل بیت کو با عزت طور پر مدینہ پہنچایا ہے۔

یزید کے برتاؤ میں تبدیلی، اسکے نیک ہونے اور واقعہ کربلا کی ذمہ داری سے بری الذمہ کی دلیل نہیں ہے۔ یزیدی تبلیغی مشینری نے پروپیگنڈا کر رکھا تھا کہ اسلامی ریاست کے خلاف کسی غیر مسلم نے بغاوت کی ہے اور اسلامی لشکر نے اس بغاوت کو کچل دیا ہے، لیکن جب اہل بیت شام پہنچے تو کچھ ایسے حالات واقع ہوئے اور شام کی فضا یزید کے خلاف اور آل رسول کے حق میں تبدیل ہونے لگی تو یزید بھی اپنی پالیسی میں تبدیلی لانے پر مجبور ہوا اور یزید نے اپنے اصل چہرے پر پردہ ڈالنے اور لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ وہ عوامل جن کی بناء پر یزید نے اپنی سیاست بدل دی ان میں سے چند یہ ہیں:

الف: امام حسین (ع) کے سر مبارک کا نوک نیزے پر قرآن پڑھنا:

امام حسین (ع) کے معجزات میں سے ایک معجزہ جو آپ کے سر مبارک سے نمایاں ہوا، وہ نیزے پر قرآن پڑھنا ہے، اہل سنت کے مؤرخ ابن عساکر جو خود بھی شام سے ہے، لکھتا ہے کہ:

امام حسین کے سر مبارک کو تین دن تک شہر میں ایک جگہ پر رکھا گیا اور سر مبارک سے اس آیت کی تلاوت کی آواز آ رہی تھی:

أم حسبتم أن أصحاب الكهف والرقيم كانوا من آياتنا عجبا،

کیا تم لوگ گمان کرتے ہو کہ اصحاب کہف اور رقیم ہماری عجیب نشانیوں میں سے ہیں۔

سورہ کہف، آیت 9

مختصر تاريخ دمشق - ،ج 1 ،ص 3418

نوک سنان پر سورہ کہف کی تلاوت جہاں ایک طرف سے معجزہ تھا  آپ کا، وہاں لوگوں کو یہ بات سمجھا رہے تھے کہ حسین اور ان کے ساتھی اصحاب کہف کی طرح حق پرست ہیں، جبکہ یزید اور اس کے پیرو کار دقیانوس کی طرح کافر اور ظالم ہیں۔ اس کی وجہ سے وہاں کے مسلمانوں کی ذہنیت میں تبدیلی آ گئی تھی۔

ب:  امام سجاد (ع) اور حضرت زینب (س) کے انقلابی خطبے:

دوسرا عامل جس نے شام کے لوگوں کو بیدار اور یزید کو رسوا کیا، وہ امام سجاد کا مسجد اموی میں خطبہ دینا ہے۔ اسی طرح حضرت زینب نے دربار یزید میں بنی امیہ کے چہرے سے پردہ ہٹایا۔ امام سجاد نے بازار شام میں خاندان رسالت کا صحیح تعارف کروایا۔ آپ نے کسی شامی کے جواب میں فرمایا : کیا تم نے قرآن پڑھا ہے ؟ اس نے جب اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا: کیا تم نے اس آیت کو پڑھا ہے:

قل لا اسئلکم عليه اجرا الا المودة فی القربیٰ،

سورہ شوری، آیت 23

کہا : کیا آپ اس آیت کے مصداق ہیں ؟ فرمایا: ہاں۔

الدر المنثور ،ج 9 ،ص 66

تفسير الطبري - ،ج 21 ،ص 528

جب اہل شام غفلت کی نیند سے بیدار ہوئے تو شہر کی حالت بدل گئی اور یزید کو خوف ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت نہ کر دیں، لہذا یزید نے حکم دیا کہ اہل بیت کو زندان سے رہا کیا جائے اور دربار کی عورتوں کو اسرائے آل محمد کے استقبال کرنے کا حکم دیا۔ اور تین دن تک سید الشہداء کے لیے عزاداری کرنے کی اجازت دی گئی۔

سید علی میلانی، ناگفتہ ہای حقائق عاشورا، ص148

اب تک کے مطالب کے روشنی میں معلوم ہوا کہ امام حسین (ع) کی شہادت اور آل رسول (ص) کی اسارت کا ذمہ دار یزید اور اس کا والی ابن زیاد ہے۔ خدا ہم سب کو حقیقت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

نتيجہ بحث:

گذشتہ بحث و تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ علمائے شیعہ، اور اکثر علمائے اہل سنت کے نظریہ کے مطابق، امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم یزید ابن معاویہ لعنۃ اللہ علیہ نے دیا تھا۔

دشمن کا اس واقعہ کو مخدوش کرنا اس کے ناپاک عزائم کا منہ بولتا ثبوت ہے، اور علمائے اہل سنت کے نزدیک یہ حکم، نہ صرف ایک بار بلکہ دو بار حکم دیا گیا تھا۔ اسی بناء پر یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس افسوسناک اور دلسوز واقعہ [ شہادت امام حسین ] کا اصلی مجرم و مقصر یزید ابن معاویہ ہے، حتی تاریخ میں ہے کہ خود یزید نے دربار شام کے تخت پر بیٹھ کر امام حسین (ع) کو شہید کرنے کا اعتراف کیا تھا اور اس خوشی کے موقع پر اس نے کفر آمیز اشعار بھی پڑھے تھے، لیکن آج چودہ سو سال کے اسی بنی امیہ کی نسل سے تعلق رکھنے والے وہابی اور بعض سنی، اسی یزید لعین کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یزید نے امام حسین (ع) کے شہید کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، حالانکہ خود یزید کہتا ہے کہ میں نے خود امام حسین (ع) کو قتل کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔

ابن تیمیہ، ابن کثیر اور آج کے دور کے وہابی اور بعض اہل سنت یا سعودی عرب کے وہابی علماء کی سایٹ پر اور اس کے چینلز پر صبح شام شیعوں پر لعنتیں کی اور گالیاں دی جاتی ہیں، سر عام شیعوں کو کافر کہا جاتا ہے، غلط اور جھوٹا بہانہ یہ ہے کہ شیعہ صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر تم بنی امیہ کی نسل سے نہیں ہو، یا تم لوگ اگر بنی امیہ، معاویہ و یزید کا دفاع نہیں کرتے، تو جس طرح تم صحابہ کو برا بھلا کہنے کی وجہ سے شیعوں پر لعنت کرتے ہو اور انھیں کافر قرار دیتے ہو، تو اس بات پر قرآن و سنت اور مسلم امت کے تمام فرقوں کا اجماع و صد در صد اتفاق ہے کہ اہل بیت، صحابہ سے ہر چیز میں افضل و بالا تر ہیں۔ اب تمام شیعہ علماء اور اکثر اہل سنت کے علماء کا اتفاق ہے کہ یزید امام حسین (ع) کا قاتل ہے۔

تو اب وہابیوں اور بعض اہل سنت کے مسلمانوں تم کیوں الفاظ سے کھیلتے ہو، کیوں اپنے آپ اور اپنی کتابیں پڑھنے والوں کو زحمت میں ڈالتے ہو، یزید لعین کے دفاع میں صاف چھپتے بھی ہو، صاف سامنے آتے بھی نہیں ہو، صرف اور صرف رسول خدا (ص) کے دل کو خوش کرنے کے لیے تم یزید کو کہ جس نے اہل بیت کو قتل کیا، صحابہ کو قتل کیا اور خانہ کعبہ کی حرمت کو پامال کیا ، صاف صاف کافر کیوں قرار نہیں دیتے ؟؟؟ !!!

التماس دعا 

یہ محبت اہل بیت ہے جو گمراہی کے راستوں کو مسدود کرتی ہے، گناہوں کو دھو ڈالتی ہے اور اچھی صفات کو جذب کر لیتی ہے۔

اہل بیتؑ سے خالصانہ محبت ہونی چاہیے اور ائمہ معصومینؑ کی ہدایات اور دستورات کے مطابق ہونی چاہیے ورنہ قیامت کے دن غیر خالص اور بے یقینی کی حامل محبتوں کو ائمہ معصومینؑ کا لطف شامل نہیں ہوگا

 

 

 

 

 

شفاعت اہل بیتؑ کا جلوہ

اس عالم خاکی میں شافعین( پیامبر اکرم ص اور اہلبیتؑ) کی شفاعت کا جلوہ ان کی ہدایت ہے اور اس عالم باطن(آخرت) میں ہدایت ان کی شفاعت ہے۔ اگر تو ہدایت سے محروم رہا تو (نتیجتاً) شفاعت سے محروم ہوجائے گا اور جس قدر ہدایت پاو گے اس قدر شفاعت حاصل ہو جائے گی۔

 

رسول اکرم  ص کی شفاعت اور رحمت خدائے مطلق 

رسول اکرم صلّی الله علیه و آله وسلّم کی شفاعت، خدائے مطلق کی رحمت کی مانند ہے، قابل طبیعتوں( اہلیت رکھنے والوں) کو اس رحمت مطلقہ سے استفادہ کرنا چاہیے۔

اگر خدا ںخواستہ شیطان پلید نے (گمراہی کے) وسائل کے ذریعے تیرے ایمان کو اچک لیا تو اس وقت پیامبرﷺ کی رحمت اور شفاعت حاصل کرنے کی اہلیت اور قابلیت کھو بیٹھے گا۔

 

کتاب: چهل حدیث،ص151-150۔ص576، امام خمینی رح کا ترجمہ و اقتباس

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے عراق کے وزیر خارجہ سے ملاقات میں خطے میں غیر علاقائی طاقتوں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں غیر علاقائی طاقتوں کی مداخلت کشیدگی اور بحران کا اصلی سبب ہے۔۔ ایرانی صدر نے عراق کے ہمسایہ ممالک کے اجلاس میں عراقی وزیر اعظم کی دعوت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ عراق کا یہ اقدام بڑا اچھا اور مبارک اقدام ہے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ ایران علاقائي مسائل کو علاقائی ممالک کے ساتھ ملکر حل کرنے کے اصول پر قائم ہے۔  علاقائي ممالک کو آپسی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔ صدر رئیسی نے عراق اور ایران کے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ  ہم عراق کی سلامتی کو ایران کی سلامتی سمجھتے ہیں۔

عراق کے وزير خارجہ نے اس ملاقات میں عراق میں ہمسایہ ممالک کے اجلاس میں شرکت کے سلسلے میں عراقی وزير اعظم کے دعوتنامہ کو صدر رئیسی کو پیش کیا ۔ عراقی وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے میں امن و سلامتی ایران اور عراق کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔ ایران اور عراق کا خطے کے امن و سلامتی میں اہم کردار ہے۔

:نورنیوز ویب سائٹ نے پیر کی رات اطلاع دی کہ موصولہ معلومات کی بنیاد پر ، ایک اسرائیلی ڈولفن قسم کی آبدوز گذشتہ بدھ کو خفیہ طور پر نہر سوئز کو عبور کر کے بحیرہ احمر میں داخل ہوئی جس کے بعد دو صہیونی ناؤ شکن نے بھی ایک ہی وقت میں نہر سویز کو عبور کیا ، جو غالبا اس آبدوز کی حفاظت کر رہی تھیں۔
واضح رہے کہ  صہیونی حکومت کا یہ اقدام عمان کے سمندر میں اسرائیلی آئل ٹینکر دھماکے پر ماحول سازی کے جنون کے تناظر میں  جبکہ یہ زیادہ ڈرامائی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ نئی تل ابیب حکومت امریکی اور برطانوی اپنے کے ساتھ تہران کو باہمی ردعمل کی دھمکی دے  میں ایران کے خلاف کسی اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکام رہی ہے ،تاہم وہ خود مہم جوئی  کی سمت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
 نفتالی بینیٹ کے تصور کے خلاف  جو بظاہر اپنے شیطانی رویے میں نیتن یاہو کی پیروی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جیسا کہ  متعدد مغربی صہیونی حکام اور ماہرین انتباہ دے چکے ہیں کہ صہیونی حکومت اسلامی جمہوریہ کی زمینی ، سمندری اور بحری صلاحیتوں  کے پیش نظر اس ملک سے مقابلہ نہیں کر سکتی ہے ۔
تاہم  ایسا لگتا ہے کہ صہیونی حکومت کے نئےوزیر اعظم اپنی جلد بازی اور احمقانہ حرکتوں کو تیز کرتے ہوئے مزید ایک جال میں الجھا رہے ہیں جس سے نکلنا یقینی طور پر ان کے اور مقبوضہ علاقوں کے باشندوں کے لیے بہت بھاری قیمت لے کر آئے گا۔

ولایت پورٹل:اسپوٹنک نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق  نیشنل انٹرسٹ کے کالم نگار مارک کاٹز نے اپنے کالم  میں ان نشانیوں کا حوالہ دیا ہے جن سے یہ معلوم ہوتا  ہےکہ دنیا میں امریکی تسلط کم ہو رہا ہے،کاٹز کے مطابق  دنیا میں بین الاقوامی تعلقات کے دو قطبی نظام کے دور میں  سوویت یونین اور امریکہ کی دو بڑی طاقتوں نے ایک دوسرے کا مقابلہ کیا ، آخر کار سوویت یونین کے ٹوٹنے اور سوشلسٹ بلاک کے ساتھ ممالک ، امریکہ واحد طاقت لگتا تھا یہ دنیا پر غالب تھا،تاہم اکیسویں صدی کے اوائل کے چیلنجوں نے اس نظریہ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، ان کے خیال میں مندرجہ ذیل واقعات واشنگٹن کی بالادستی کے خاتمے کی گواہی دیتے ہیں۔
1۔امریکہ افغانستان اور عراق میں بڑے پیمانے پر فوجی کاروائیوں میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
2۔امریکہ نے جارجیا میں 2008 اور یوکرین میں 2014 کے واقعات کے دوران روس کو کمزور جواب دیا۔
3۔واشنگٹن نے مشرق وسطیٰ میں شام اور یمن کے ساتھ ساتھ لیبیا میں تنازعات کو حل کرنے کے لیے ماسکو ، تہران اور انقرہ کے حوالے کیا۔
4۔ امریکہ چین کو اپنی طاقت کو مضبوط کرنے ، مشرقی چین کے سمندر اور جنوبی چین پر حاوی ہونے اور ون بیلٹ ون روڈ اکنامک انیشیٹو کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے سے نہیں روک سکا ۔
5۔امریکہ نے اپنے مخالفین کے قریب جانے کی ناکام کوشش کی جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا اور یہاں تک کہ ایران کے ساتھ ایسا کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ  واشنگٹن اپنے حلیفوں کے ساتھ تعاون کرنے سے اپنے اتحادیوں کو روکنے کے قابل نہیں رہا ہے۔
کاٹز نے یہ بھی کہا کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا اور 2021 کے آخر میں عراق سے منصوبہ بند انخلاء امریکہ کی زیر قیادت یک قطبی دنیا ،اگر کوئی ہے، کے خاتمے کی آخری علامات ہیں،کالم نگار نے مزید کہاکہ  مستقبل کے عالمی نظام کے بارے میں ماہرین میں کوئی اتفاق نہیں ہے، کچھ کا خیال ہے کہ چین اگلی غالب طاقت ہو سکتا ہےجبکہ دوسروں کو یقین ہے کہ بیجنگ اور واشنگٹن کے مراکز کے ساتھ دنیا ایک بار پھر دو قطبی ہو جائے گی، تاہم اس نظام میں ایک تیسری قوت ہوسکتی ہے جو چین اور امریکہ ، روس کے درمیان توازن قائم کرسکتی ہے۔
ا

0
 

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ مرحوم قائدین کے راستے و مشن کو زندہ رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے اور ان کی یاد منانے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان کے مشن و راستے کو زندہ رکھا جائے۔ عزا خانہ زہرا (ع) کے باہر ایس یو سی کراچی کے تحت برسی قائدین و شہدائے ملت جعفریہ کی مناسبت سے منعقدہ کانفرنس سے اپنے ٹیلیفونک خطاب میں علامہ ساجد نقوی کا کہنا تھا کہ عزاداری سید الشہداء ہماری شہ رگ حیات ہے، مجالس پر بلاجواز پابندیوں جبکہ جلوسوں میں رکاوٹ، محدودیت، بونڈ فیلنگ اور این او سی کی شرط عائد کرنے جیسے اقدامات ناقابل قبول ہیں۔

علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ عزادارانِ سید الشہداء پیغام وحدت امت اور اختلافات کو ہوا دینے سے گریز کرتے ہوئے ملت واحدہ کے عظیم مشن کو پیش نظر رکھیں جبکہ بانیان مجالس سے توقع ہے کہ وہ ان عوامل کو ملحوظ خاطر رکھیں، جن سے عزاداری کے تحفظ و فروغ میں مدد ملے۔ ان کا کہنا تھا کہ نصاب تعلیم اور نصابی کتب کے بارے میں وفاق المدارس الشیعہ کا ارسال شدہ موقف حتمی ہے جسے مدنظر رکھا جائے۔ علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ کورونا وباء کی احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کیا جائے۔ آخر میں کراچی ڈویژن کے ذمہ داران کو کانفرنس کے انعقاد پر سراہا اور دعائے خیر کی۔

 اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے فرانسیسی صدر میکروں کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو میں ایرانی عوام کے حقوق اور مفادات کے تحفظ پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی ممالک کو مشترکہ ایٹمی معاہدے میں کئے گئے اپنے وعدوں پر عمل کرنا چاہیے۔

صدر سید ابراہیم رئیسی نے امریکہ کی طرف سے مشترکہ ایٹمی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی اور تین یورپی ممالک کی طرف سے اپنے وعدوں پرعمل نہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا کہ امریکہ نئی پابندیاں عائد کرکے اپنے وعدوں کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے۔ صدر رئیسی نے ایرانی عوام کے حقوق کے تحفظ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات میں ایرانی عوام کے حقوق اور مفادات کا تحفظ لازمی ہے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ ایران کے لئے خلیج فارس کا امن بڑی اہمیت کا حامل ہے اورخلیج فارس کا امن برباد کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔

فرانس کے صدر میکرون نے گفتگو میں مشترکہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے خارج ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ  فرانس مشترکہ ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں دوبارہ مذاکرات کے آغاز کی تلاش و کوشش کررہا ہے ۔ فرانسیسی صدر نے تہران اور پیرس کے درمیان باہمی گفتگو کے جاری رکھنے پر بھی زوردیا۔