سلیمانی

سلیمانی

 محرم الحرام سن 1443 ہجری قمری کا چاند کربلا کے میدان میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہلبیت (ع) کی اسلام کو بچانے کے سلسلے میں عظیم قربانی کی یاد لیکر پہنچ گيا ہے۔ محرم کا مہینہ اہلبیت (ع) کے ساتھ محبت اور وفاداری کا مہینہ ہے۔ محرم کا مہینہ در حقیقت محمد اور آل محمد (ص) کی فتح و کامیابی اور بنی امیہ اور باطل پرست طاقتوں کی شکست اور ناکامی کا مہینہ ہے۔ محرم دین اسلام کی ابدی حیات کا پیغام لے کر پنہچ گيا ہے کربلا والوں کی یاد ایران سمیت دنیا بھر میں مذہبی اور دینی عقیدت ، جوش و ولولہ اور احترام کے ساتھ منائی جاتی ہے۔

جس میں لوگ بلا تفریق مذہب و ملت شرکت کرتے ہیں ۔ اس سال کا محرم بھی گذشتہ سال کی طرح طبی پروٹوکول کی رعایت کے ساتھ منایا جائےگا ۔ ایران میں طبی پروٹوکول کے ساتھ  مجالس عزا کا انعقاد گذشتہ شب سے شروع ہوگيا ہے۔ کھلی جگہوں اور سڑکوں پر مجالس کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ ٹی وی چینلوں اور ریڈیو پر بھی فلسفہ شہادت امام حسین علیہ السلام کو بیان کیا جارہا ہے۔ ایران کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مساجد اور امامبارگاہوں کو سیاہ پش کردیا گیا ہے ہر طرف مجالس عزا کا سلسلہ شروع ہوگيا ہے۔ ایران کی فضاؤں میں  لبیک یا رسول اللہ (ص)، لبیک یاحسین (ع)  اور لیبیک یا ابو الفضل العباس(ع)  کی صدائیں  گونج رہی ہیں۔ ادھر پاکستان ، عراق ، شام ، ترکی، کویت ، بحرین، قطر، افغانستان ، سعودی عرب ، یمن لبنان ، فلسطین، یورپ، امریکہ  اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی عزاداری اور مجالس عزائے سید الشہداء کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔مجالس عزا میں علماء اور خطباء فضائل اور مصائب اہلبیت علیھم السلام پیش کریں گے  اور کربلا والوں کی عظيم قربانی پر روشنی ڈالیں گے۔

اِن بزرگ ہستیوں کے درمیان بھی بہت سی عظیم شخصیات پائی جاتی ہیں کہ جن میں سے ایک شخصیت حضرت امام حسین کی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ کہنا چاہیے کہ ہم خاکی ، حقیر اور ناقابل انسان بلکہ تمام عوالم وجود ، بزرگان و اولیائ کی ارواح اور تمام ملائکہ مقربین اور اِن عوالم میں موجود تمام چیزوں کیلئے جو ہمارے لیے واضح و آشکار نہیں ہیں، امام حسین کا نورِ مبارک، آفتاب کی مانند تابناک و درخشاں ہے۔ اگر انسان اِس نورِ آفتاب کے زیر سایہ زندگی بسر کرے تو اُس کا یہ قدم بہت سود مند ہوگا۔

توجہ کیجئے کہ امام حسین نہ صرف یہ کہ فرزند پیغمبر ۰ تھے بلکہ علی ابن ابی طالب و فاطمہ زہرا ٭ کے بھی نور چشم تھے اور یہ وہ چیزیں ہیں کہ جو ایک انسان کو عظمت عطا کرتی ہیں۔ سید الشہدا عظیم خاندان نبوت، دامن ولایت و عصمت اور جنتی اور معنوی فضاو ماحول کے تربیت یافتہ تھے لیکن اُنہوں نے صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ جب حضرت ختمی مرتبت ۰ کا وصال ہوا تو آپ کی عمر مبارک آٹھ ، نو برس کی تھی اور جب امیر المومنین نے جام شہادت نوش کیا تو آپ سینتیس یا اڑتیس سال کے نوجوان تھے۔ امیر المومنین کے زمانہ خلافت میں کہ جو امتحان و آزمایش اور محنت و جدوجہد کا زمانہ تھا، آپ نے اپنے پدر بزرگوار کے زیر سایہ اپنی صلاحیتوں اور استعداد کو پروان چڑھانے میں بھرپور محنت کی اور ایک مضبوط و مستحکم اور درخشاں و تابناک شخصیت کی حیثیت سے اُبھرے۔

اگر ایک انسان کا حوصلہ اور ہمت ہمارے جیسے انسانوں کی مانند ہو تو وہ کہے گا کہ بس اتنی ہمت و حوصلہ کافی ہے، بس اتنا ہی اچھا ہے اور خدا کی عبادت اور دین کی خدمت کیلئے ہمت و حوصلے کی اتنی مقدار ہمارے لیے کافی ہو گی لیکن یہ حسینی ہمت و حوصلہ نہیں ہے۔ امام حسین نے اپنے برادر بزگوار کے زمانہ امامت میں کہ آپ ماموم اور امام حسن امام تھے، اپنی پوری طاقت و توانائی کو اُن کیلئے وقف کردیا تاکہ اسلامی تحریک کو آگے بڑھایا جاسکے ؛ یہ دراصل اپنے برادر بزرگوار کے شانہ بشانہ وظائف کی انجام دہی ، پیشرفت اور اپنے امامِ زمانہ کی مطلق اطاعت ہے اور یہ سب ایک انسان کیلئے عظمت و فضیلت کا باعث ہے۔ آپ امام حسین کی زندگی میں ایک ایک لمحے پر غور کیجئے۔ شہادت امام حسن کے وقت اور اُس کے بعد جو ناگوار حالات پیش آئے ، آپ نے اُن سب کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا اور تمام مشکلات کو برداشت کیا۔ امام حسن کی شہادت کے بعد آپ تقریباً دس سال اور چند ماہ زندہ رہے؛ لہٰذا آپ توجہ کیجئے کہ امام حسین نے واقعہ کربلا سے دس سال قبل کیا کام انجام دیئے۔

 

 

دین میں ہونے والی تحریفات سے مقابلہ

امام حسین کی عبادت اورتضرّع وزاری، توسُّل ، حرم پیغمبر ۰ میں آپ کا اعتکاف اور آپ کی معنوی ریاضت اور سیر و سلوک؛ سب امام حسین کی حیات مبارک کا ایک رُخ ہے۔ آپ کی زندگی کا دوسرا رُخ علم اور تعلیمات اسلامی کے فروغ میںآپ کی خدمات اور تحریفات سے مقابلہ کیے جانے سے عبارت ہے۔ اُس زمانے میں ہونے والی تحریف دین درحقیقت اسلام کیلئے ایک بہت بڑی آفت و بلا تھی کہ جس نے برائیوں کے سیلاب کی مانند پورے اسلامی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اسلامی سلطنت کے شہروں، ممالک اور مسلمان قوموں کے درمیان اِس بات کی تاکید کی جاتی تھی کہ اسلام کی سب سے عظیم ترین شخصیت پر لعن اور سبّ و شتم کریں۔ اگر کسی پر الزام ہوتا کہ یہ امیر المومنین کی ولایت و امامت کا طرفدار اور حمایتی ہے تو اُس کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی، ’’اَلقَتلُ بِالظَنَّةِ وَالآَخذُ بِالتُّهمَةِ ‘‘،(صرف اِس گمان و خیال کی بنا پر کہ یہ امیرالمو منین کا حمایتی ہے ، قتل کردیا جاتا اور صرف الزام کی وجہ سے اُس کا مال و دولت لوٹ لیا جاتا اور بیت المال سے اُس کاوظیفہ بند کردیا جاتا)۔

اِن دشوار حالات میں امام حسین ایک مضبوط چٹان کی مانند جمے رہے اور آپ نے تیز اور برندہ تلوار کی مانند دین پر پڑے ہوئے تحریفات کے تمام پردوں کو چاک کردیا، (میدان منی میں) آپ کا وہ مشہور و معروف خطبہ اور علما سے آپ کے ارشادات یہ سب تاریخ میںمحفوظ ہیں اور اِس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ امام حسین اِس سلسلے میں کتنی بڑی تحریک کے روح رواں تھے۔

 

 

 

 

امر بالمعروف و نہی عن المنکر

آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی وسیع پیمانے پر انجام دیا اور یہ امر و نہی، معاویہ کے نام آپ کے خط کی صورت میں تاریخ کے اوراق کی ایک ناقابل انکار حقیقت اور قابل دید حصّہ ہیں۔ اتفاق کی بات تو یہ ہے کہ اِ س خط کو کہ جہاں تک میرے ذہن میں ہے، اہل سنت مورخین نے نقل کیا ہے، یعنی میں نے نہیں دیکھا کہ شیعہ مورخین نے اُسے نقل کیا ہویا اگر نقل بھی کیا ہے تو سنی مورخین سے نقل کیا ہے۔ آپ کا وہ عظیم الشّان خط اور آپ کا مجاہدانہ اور دلیرانہ انداز سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دینا دراصل یزید کے سلطنت پر قابض ہونے سے لے کر مدینے سے کربلا کیلئے آپ کی روانگی تک کے عرصے پر مشتمل ہے۔ اِس دوران آپ کے تمام اقدامات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھے۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ’’اُرِیدُ اَن آمُرَ باِلمَعرُوفِ و اَنهٰی عَنِ المُنکَرِ ‘‘، ’’میں نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

 

 

زندگی کے تین میدانوں میں امام حسین کی جدوجہد

توجہ فرمائیے کہ ایک انسان مثلا امام حسین اپنی انفرادی زندگی _ تہذیب نفس اور تقوی_ میں بھی اتنی بڑی تحریک کے روح رواں ہیں اورساتھ ساتھ ثقافتی میدان میں بھی تحریفات سے مقابلہ، احکام الہی کی ترویج و اشاعت ، شاگردوں اور عظیم الشان انسانوں کی تربیت کو بھی انجام دیتے ہیںنیز سیاسی میدان میں بھی کہ جو اُن کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے عبارت ہے، عظیم جدوجہد اور تحریک کے پرچم کو بھی خود بلند کرتے ہیں۔ یہ عظیم انسان انفرادی ، ثقافتی اور سیاسی زندگی میں بھی اپنی خود سازی میں مصروف عمل ہے۔

 کتاب : امام حسین ، دلربائے قلوب

صاحب اثر : حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای حَفَظَہُ اللّٰہُ

 
Tuesday, 10 August 2021 06:05

قیام حسینی ع اور بیداری

سيد الشہداؑ نے ايک ايسا کام انجام ديا کہ طاغوتي حکومتوں کے دور ميں کچھ ايسے افراد پيدا ہوئے کہ جو اوائلِ اسلام سے زماني فاصلہ رکھنے کے با وجود امام حسن مجتبيٰ کے دور ميں ظلم و ستم کي حکومت سے مقابلے کرنے والے افرادسے زيادہ عزم و ارادے کے مالک تھے۔ صحيح ہے کہ يہ قيام اور تحريکيں سرکوب کردي گئيں ليکن بہرحال اِن لوگوں نے ظالمانِ وقت کے خلاف قيام کيا۔



 قیام امام حسین ع اور بیداری

سيد الشہداؑ نے ايک ايسا کام انجام ديا کہ طاغوتي حکومتوں کے دور ميں کچھ ايسے افراد پيدا ہوئے کہ جو اوائلِ اسلام سے زماني فاصلہ رکھنے کے با وجود امام حسن مجتبيٰ کے دور ميں ظلم و ستم کي حکومت سے مقابلے کرنے والے افرادسے زيادہ عزم و ارادے کے مالک تھے۔ صحيح ہے کہ يہ قيام اور تحريکيں سرکوب کردي گئيں ليکن بہرحال اِن لوگوں نے ظالمانِ وقت کے خلاف قيام کيا۔

 

 

واقعہ کربلا اور بیداری

 اہل مدينہ کے قيام سے جو ’’واقعہ حرّہ‘‘ کے نام سے معروف ہے ، شروع کيجئے اور بعد کے واقعات اور توابين و مختار کے قيام تک اور وہاں سے بني اميہ اور بني عباس کے زمانے تک مختلف قسم کے قيام مسلسل وجود ميں آتے رہے ، اِن تمام قياموں کا باني کون تھا؟ حسين ابن علي !


قیام حسینی اور احساس مسئولیت

 اگر سيد الشہدا قيام نہيں فر ماتے تومعاشرے کي سستي و کاہلي اور ذمہ داريوں سے فرارکي عادت، ظلم ستيزي اور ذمہ داري کو قبول کرنے ميں تبديل نہيں ہوتي۔ کيوں کہتے ہيں کہ اُس معاشرے ميں ذمہ داريوں کو قبول کرنے کي حس مرچکي تھي؟ اُس کي دليل يہ ہے کہ امام حسين ، اسلام کي عظيم اور بزرگ ہستيوں کے مرکز ’’شہر مدينہ‘‘ سے مکہ تشريف لے گئے؛ ’’ابن عباس ‘‘ ، ’’پسر زبير ‘‘،’’ ابن عمر ‘‘ اور صدر اسلام کے خلفا کے بيٹے سب ہي مدينے ميں موجود تھے ليکن کوئي ايک بھي اِس بات کيلئے تيار نہيں ہوا کہ اُس خوني اور تاريخي قيام ميں امام حسين کي مدد کرے۔

 

 

 

عظیم درس

پس قيام امام حسين کے شروع سے قبل عالم اسلام کے خاص الخاص افراد اور بزرگ ہستياں بھي ايک قدم اٹھانے کيلئے تيار نہيں تھيں ليکن امام حسين کے قيام و تحريک کي ابتداء کے بعد يہ روح زندہ ہوگئي۔ يہ وہ عظيم درس ہے کہ جو واقعہ کربلا ميں دوسرے درسوں کے ساتھ موجود ہے اور يہ ہے اِس واقعہ کي عظمت!

 

يہ جو کہا گيا ہے کہ ’’اَلمَدعُوّ لِشَھَادَتِہِ قَبلَ اِستِھلَالِہِ وَوِلَادَتِہ‘‘ِ يا اُن کي ولادت باسعادت سے قبل ’’بَکَتہُ السَّمَآئُ وَ مَن فِيھَا وَالاَرضُ وَمَن عَلَيھَا‘‘ کہا گيا ہے اور لوگوں کو امام حسين کے اِس عظيم غم اور عزا اور اُس کے خاص احترام کي طرف متوجہ کيا گيا ہے اور اِن دعاوں اور زيارت کي تعبيرات ميں اُن پر گريہ کيا گيا ہے تو اِن سب کي وجہ يہي ہے ۔

 

کتاب: امام حسین ع دلربائے قلوب، رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے اقتباس

انسان کا خدا سے رشتہ اور تعلق

قرآن کریم نے خدا کے ساتھ انسان کے رشتہ اور تعلق کو دلکش ترین انداز میں بیان کیا ہے‘ قرآن کا خدا‘ فلسفیوں کے خدا کے برخلاف ایک خشک و بے روح اور بشر سے یکسر بیگانہ وجود نہیں ہے۔ قرآن کا خدا انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس سے نزدیک ہے‘ انسان کے ساتھ لین دین رکھتا ہے اور اس کے مقابل میں انسان کو اپنی رضا و خوشنودی عطا کرتا ہے‘ اس کو اپنی طرف جذب کرتا ہے اور اس کے دل کے آرام و سکون اور اطمینان کا سرمایہ ہے: الابذکر اللّٰہ تطمئن القلوب( سورہ رعد‘ آیت ۲۸)
انسان خدا سے انسیت اور الفت رکھتا ہے‘ بلکہ تمام موجودات اس کو چاہتے ہیں اور اسی کو پکارتے ہیں۔ تمام موجودات عالم اپنے اپنے وجود کی گہرائی سے اس کے ساتھ رازدارانہ رابطہ اور تعلق رکھتے ہیں‘ اس کی حمد بجا لاتے ہیں اور اس کی تسبیح کرتے ہیں:
ان من شئی الا یسبح بحمدہ و لکن لا تفقہون تسبیحھم (سورہ اسراء‘ آیت ۴۴)۔

قرآن کا خدا انسان کی دلبستگی کا سرمایہ
فلسفیوں کا خدا جس کو وہ لوگ صرف محرک اول اور واجب الوجود کے نام سے پہچانتے ہیں اور بس ایک ایسا موجود ہے‘ جو بشر سے بالکل بیگانہ ہے‘ جس نے انسان کو صرف پیدا کر دیا ہے اور اسے دنیا میں بھیج دیا ہے‘ لیکن قرآن کا خدا ایک ”مطلوب“ ہے‘ انسان کی دلبستگی کا سرمایہ ہے‘ وہ انسان کو پرجوش بناتا اور ایثار و قربانی پر آمادہ کرتا ہے‘ کبھی کبھی تو اس کی رات کی نیند اور دن کے سکون کو بھی چھین لیتا ہے کیوں کہ وہ ایک غیر معمولی مقدس خیال و تصور کی صورت میں مجسم ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔

 

قرآن نے الٰہیات کو عروج بخشا
مسلمان فلاسفہ نے قرآن سے آشنا ہونے اور قرآنی مفاہیم و مطالب کو پیش کرنے کے نتیجے میں الٰہیات کی بحث کو اس عروج پر پہنچا دیا ہے۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ ایک اُمّی اور ناخواندہ شخص جس نے نہ تو کسی استاد کے پاس تعلیم حاصل کی اور نہ کسی مکتب میں گیا ہو‘ اس حد تک الٰہیات میں ترقی کر جائے کہ افلاطون اور ارسطو جیسے فلاسفہ سے ہزاروں سال آگے بڑھ جائے؟

 

 

کتاب: وحی اور نبوت، تالیف شہید مرتضی مطہری سے اقتباس

 

 

 

Monday, 09 August 2021 07:01

اسلام اور حجاب

مرد اور عورت کي درمياني ’’حد‘‘ پر اسلام نے بہت  تاکيد  اور رہنمائی فرمائی ہے ۔ يہاں ايک بنيادي نکتہ ہے کہ جس پر اسلام نے بہت زيادہ تاکيد کي ہے اور وہ يہ ہے کہ تاريخ ميں مردوں کے مزاج ،عورتوں کي بہ نسبت سخت اور اِن کے ارادے مشکلات کا مقابلہ کرنے کي وجہ سے قوي اور جسم مضبوط رہے ہيں۔ اِسي وجہ سے انہوں نے اہم ترين کاموں اور مختلف قسم کي ذمہ داريوں کو اپنے عہدے ليے ہوا تھا اور يہي وہ چيز ہے کہ جس نے مردوں کيلئے اپني جنس مخالف سے اپنے فائدے کيلئے سوئ استفادہ کرنے کے امکانات فراہم کيے ہيں۔ آپ ديکھئے کہ بادشاہوں، ثروت مند، صاحب مقام و صاحب قدرت افراد ميں سے کون نہيں ہے کہ جس نے اپنے اپنے درباروں اور اپنے اپنے دارئرہ کار ميں اپنے مال و دولت اور مقام قدرت وغيرہ کے بل بوتے صنف نازک سے سوء  استفادہ ،دست درازي اور بے آبروئي کيلئے اقدامات نہ کيے ہوں؟!

يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام اپني پوري قوت و قدرت کے ساتھ احکامات جاري کرتا ہے اور معاشرے ميں مرد وعورت کے درميان حد اور فاصلے کو قرار ديتا ہے اور ان کے درميان تعلقات ميں سختي و پابندي کرتا ہے۔ اسلام کي رو سے کسي کو بھي يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ اِس حد کو پائمال کرے اور اس قانون کي بے احترامي کر ے ، کيونکہ اسلام نے خاندان اور گھرانے کو بہت زيادہ اہميت دي ہے۔ گھر کے گلشن ميں مرد و عورت کا باہمي رابطہ کسي اور قسم کا ہے اور معاشرے ميں کسي اور قانون کے تابع۔ اگر معاشرے ميں مردو عورت کے درميان حائل فاصلوں کے قانون کا خيال نہ رکھا جائے تو نتيجے ميں خاندان اور گھرانہ خراب ہوجائے گا۔ گھرانے ميں عورت پر اکثر اوقات اورمرد پر کبھي کبھار ممکن ہے ظلم ہو۔ اسلامي ثقافت ، مرد وعورت کے درميان عدم اختلاط کي ثقافت ہے۔ ايسي زندگي، خوشبختي سے آگے بڑھ سکتي ہے اورعقلي معيار وميزان کي رعايت کرتے ہوئے صحيح طريقے سے حرکت کرسکتي ہے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام نے سختي کي ہے۔

اسلام کي رو سے اگر معاشرے ميں (نامحرم) مرد اور عورت کے درميان فاصلے اور حد کو عبور کيا جائے، خواہ يہ خلاف ورزي مرد کي طرف سے ہو يا عورت کي طرف سے تو اسلام نے اِس معاملے ميں سخت گيري سے کام ليا ہے۔ اسي نکتے کے بالکل مقابل وہ چيز ہے کہ جسے ہميشہ دنيا کے شہوت پرستوں نے چاہا اور اس پر عمل کرتے رہے ہيں۔ صاحبان زر و زمين اور قدرت وطاقت رکھنے والے مرد،خواتين ، اُن کے ماتحت افراد اور اُن افراد نے کہ جنہوں نے اِن افراد کے ساتھ اور اِن کيلئے زندگي بسر کي، يہي چاہا ہے کہ مردو عورت کادرمياني فاصلہ اور حجاب ختم ہوجائے۔ البتہ خود يہ امر معاشرتي زندگي اورمعاشرتي اخلاق کيلئے بہت برا اور مُضّر ہے۔ يہ فکر و خيال اورعمل معاشرتي حيا و عفت کيلئے باعث زياں اور گھر و گھرانے کيلئے بہت نقصان دہ اور برا ہے اور يہ وہ چيز ہے کہ جو خاندان اورگھرانے کي بنيادوں کو متزلزل کرتي ہے

 اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے کورونا ویکسین کا ٹیکہ لگوانے کے بعد عوام سے طبی دستورات کی رعایت کرنے پر زوردیا ہے۔

صدر رئیسی نے ایران کی تیار کردہ کورونا ویکسین لگوانے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں طبی عملے کی مجاہدانہ تلاش و کوشش پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور ہمیں ملک کے اندر زیادہ سے زیادہ کورونا ویکسین کو تیار کرنا چاہیے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ میں نے کورونا وائرس کامقابلہ کرنے والی قومی کمیٹی کے ساتھ ملاقات میں تاکید کی ہے اور آج پھر تاکید کرتا ہوں کہ ہمیں فصل سرما کے آنے سے پہلے عمومی سطح پر کورونا ویکسین لگانے کی تیاری کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ عوام کی صحت و سلامتی حکومت کی پہلی ترجیحات میں شامل ہے۔

صدر رئيسی نے کہا کہ جہاں تک ممکن ہوا ایرانی ویکسین برکت سے استفادہ کیا جائے گا اور کمی کی صورت میں معتبر غیر ملکی ویکسین کو در آمد کیا جائےگا۔ ایرانی محققین نے کوایران برکت ویکسین ملک کے اندر تیار کی ہے جس کے بعد ایران کورونا ویکسین تیار کرنے والے چند ممالک کی صف میں شامل ہوگیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے جان ارنو نے حسین امیر عبداللہیان سے ملاقات اور گفتگو کی ۔ اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے بین الاقوامی امور کے مشیر حسین امیر عبداللہیان نے بین الافغان مذاکرات پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن و صلح برقرار کرنے کے لئے تمام افغان گروہوں کو مذاکرات میں حصہ لینا چاہیے۔

ایرانی اسپیکر کے بین الاقوامی امور کے مشیر نے افغانستان کے بارے میں ایرانی مؤقف کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ایران بین الافغان مذاکرات میں تمام افغان گروہوں کی شرکت کو ضروری سمجھتا ہے اور افغانستان کے اندر امن و صلح قائم کرنے سے مہاجرین کی سرحدوں کی جانب موج کو روکا جاسکتا ہے۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ اقوام متحدہ ، افغانستان میں امن و صلح برقرار کرنے کے سلسلے میں اپنا اہم کردار کرسکتا ہے اور ایران اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی بھر پور حمایت کرنے کے لئے تیار ہے۔

اس ملاقات میں اقوام متحدہ کے نمائندے نے افغانستان کے مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کے سلسلے میں تاکید کی۔

 حزب اللہ نے اسرائیل کے فضائی حملے کے ایک روز بعد جوابی کارروائی میں اسرائیلی ٹھکانوں پر کئي درجن راکٹ فائر کئے ہیں۔ فلسطینی تنظیم حماس نے حزب اللہ کے حملوں کا خیر مقدم کیا ہے۔

حزب اللہ لبنان نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا ہے کہ اسرائیل کے وحشیانہ ہوائی حملوں کے جواب میں اس نے اسرائیلی فوج کے ٹھکانوں پر درجنوں راکٹ فائر کئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اسرائیل نے جنوب لبنان پر بمباری کے دوران  فاسفورس بموں سے استفادہ کیا ہے۔

صابرین نیوز کے مطابق حزب اللہ لبنان نے مقبوضہ علاقوں  گولان اور مزارع شبعا پر 20 راکٹ فائر کئے ہیں ۔ اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی اچانک جوابی کارروائی کا فلسطینی تنظیم حماس نے استقبال کیا ہے۔ ادھر حزب اللہ کی جوابی کارروائی پر اسرائيلی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔

 مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ایران کے نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی کو عہدے کا چارج سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی ہے۔انہوں نے توقع ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ انتخاب دونوں ممالک کے مضبوط برادرانہ تعلقات کو مزید وسعت دینے میں معاون ثابت ہو گا۔انہوں نے کہا کہ پاک ایران تعلقات یکساں مذہبی اور ثقافتی اقدار کے حامل ہیں۔پاکستان افغانستان سمیت خطے میں امن و صلح کی کاوشوں اور کوششوں میں شریک  ہے۔دونوں ممالک کے باہمی تعلقات، تجارت، سرمایہ کاری،تعلیم، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دفاع سمیت مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔پڑوسی ممالک ہونے کے باعث ہمارے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جو شر انگیز طاقتیں منفی پروپیگنڈہ کے ذریعے دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے بدگمان کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہیں۔انہیں حکمت ،بصیرت اور دانائی کے ساتھ شکست دینا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ خطے کے امن کو سبوتاژ کر کے عدم استحکام کی فضا ہموار کرنا اسلام دشمن عالمی طاقتوں کا ایجنڈا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری طاقت کی منتقلی کے عمل سے سخت خائف ہیں۔امریکہ اپنے اقتصادی ڈھانچے کو تباہی سے بچانے کے لیے مشرق وسطی میں سازشوں کے جال بچھا رہا ہے۔پڑوسی ممالک کے تعلقات جتنے مضبوط اور پائیدار ہوں گے دشمن طاقتوں کے بیانیے کو اتنی ہی شدید شکست ہو گی۔ انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے نئے صدر کا انتخاب ایک اچھے اور خوشحال دور کا آغاز ثابت ہوگا۔