سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی نے جنگ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان نے گائیڈڈ میزائل " فتح ون "  کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق فتح ون میزائل روایتی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آئی ایس پی آر  کے مطابق فتح ون پاک فوج کو دشمن کے علاقے میں دور تک ہدف کو نشانہ بنانے کے قابل بنائے گا۔

حضرت امام حسین (ع) کا غم منانا سنت نبویﷺ ہے۔ فریقین (اہل سنت و شیعہ حضرات) کی کتابوں میں ایسی احادیث موجود ہیں کہ ہمارے پیارے نبی اکرمﷺ کو  اُن کی حیاتِ مبارکہ میں حضرت جبرائیل ؑ نے امام حسین ؑ کی شہادت کی خبر دی تھی اور حضورﷺ نے اپنی زندگی میں ہی متعدد مرتبہ امام حسین (ع) پر گریہ کیا تھا اور آپ ؐ غمگین ہوئے تھے۔ ہمارے درمیان آج غم منانے کی نفسیاتی کیفیات میں اختلاف ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے اگر چار بھائیوں کا باپ فوت ہو جائے تو ایک بیٹے کو کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا، وہ زور زور سے روتا ہے اور اپنے آپ کو پیٹتا ہے، جبکہ دوسرا بے تابی کا اظہار کھلے عام نہیں کرتا، وہ مہمانوں کی دیکھ بھال کرتا ہے اور تیسرا باپ کی قبر کھودنے و کفن دفن میں مشغول ہو جاتا ہے۔ اسی طرح چوتھا بیٹا باپ کیلئے قرآن خوانی و صدقہ و خیرات کے کاموں میں لگ جاتا ہے۔ یہ نفسیاتی اختلاف سگے بھائیوں، دوستوں، میاں بیوی، ہمسایوں حتی کہ استاد و شاگرد کے درمیان بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے درمیان بھی غمِ امام حسینؑ منانے کے حوالے سے یہ فرق نظر آتا ہے۔ یہ اندازِ غم کی تفریق اپنی جگہ لیکن ظالم کے خلاف احتجاج کرنے، ظالم کی مذمت کرنے، ظالم پر لعنت کرنے اور مظلوم کی مدد و نصرت اور مظلوم پر گریہ کرنے میں قرآن و سنت کی رو سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔

اہلِ سنت کے ہاں بھی محرم الحرام میں حضرت امام حسین ؑ کی یاد میں تقریبات و محافل کا انعقاد ہوتا ہے، سیمینارز منعقد ہوتے ہیں اور کانفرنسز کا اہتمام  کیا جاتا ہے۔ ان تقریبات میں رسول ؐ کی سنت کے احیاء کیلئے امام حسین ؑ پر گریہ بھی کیا جاتا ہے اور امام حسینؑ کے قیام کے فلسفے و اہداف اور قاتلوں کی اصلیت کو بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اہلِ سنت کی محافل و مجالس کا حُسن یہ ہے کہ ان محافل و مجالس میں عشق و عقیدت کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ اہلِ سنت کے بعض خطباء بڑی بیباکی سے قاتلین کے چہرے سے نقاب کشائی کرتے ہیں اور اپنی ملت کو امام حسین ؑکے نقشِ قدم پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔ محرم الحرام میں اہلِ تشیع کے ہاں بھی اسی عقیدت اور ولولے کا اظہار بدرجہ اتم کیا جاتا ہے۔ اہلِ تشیع کے ہاں امام حسین ؑ کی یاد، غم اور گریے کے حوالے سے دو طرح کی چیزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے:

1۔ وہ چیزیں جن سے غم کا سماں اور ماحول بنتا ہے۔ جیسے کالے کپڑے، سیاہ رنگ، ذوالجناح، یعنی امام حسینؑ کے گھوڑے کی شبیہ بنانا، ننگے پاوں چلنا، سر اور بالوں میں مٹی ڈالنا، حضرت امام حسین ؑ اور دیگر شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ بنانا، شہدائے کربلا کے علم و پرچم کی شبیہ بنانا، ایسے بینر اور کتبے بنانا جن سے شہدائے کربلا کے ساتھ عقیدت کا اظہار ہو، ماتمی دستے بنا کر باقاعدہ ماتم کرنا، کربلا کے پیاسوں کی یاد میں پانی، شربت اور دودھ کی سبیلیں لگانا، تبرک، کھانے اور لنگر کا وسیع انتظام کرنا، وغیرہ وغیرہ۔
2۔ وہ چیزیں جو مصیبتِ امام اور مشن امام حسینؑ کی یاد دہانی کراتی ہیں۔ جیسے نوحہ خوانی، قصیدہ گوئی، مرثیہ خوانی، تقاریر، مصائب، دوہڑے اور بند وغیرہ۔

جب ہم حقیقی و باشعور اہلِ سنت اور اہلِ علم شیعہ حضرات کے ہاں حضرت امام حسین ؑ کے بارے میں حضور نبی اکرمﷺ کی احادیث دیکھتے ہیں، آپ کا غم اور گریہ دیکھتے ہیں، امام حسینؑ کے زمانے کے حالات و واقعات دیکھتے ہیں، حضرت امام حسینؑ  کے مشن اور اہداف کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے صرف دو گروہ ہیں۔ ایک وہ ہیں جو  61 ھجری میں بھی یزید کے ہمراہ تھے، آج بھی اس کے ہمراہ ہیں اور دوسرے وہ ہیں، جو کربلا میں اگر موجود تھے تو شہید ہوگئے اور اگر موجود نہیں تھے تو وہ شہادتِ امام حسینؑ کی خبر سن کر سخت غمزدہ ہوئے اور آج بھی غمگین ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں، جو حضرت امام حسینؑ کو حق پر سمجھتے ہیں اور یزید کو مطلقاً باطل قرار دیتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ شہادت امام حسینؑ کے بعد مسلمانوں کے دو گروہ ہیں: ایک جو  بظاہر یا اندرونِ خانہ اس خونریزی پر خوش ہیں اور یزید کے مظالم پر سکوت اختیار کرنے کا پرچار کرتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں، جو اس ظلم و بربریت پر خاموشی کو بھی ظلم اور یزید کے ساتھ محشور ہونے کا باعث سمجھتے ہیں، وہ مسلسل چودہ سو سالوں سے غم ِامام حسینؑ مناتے ہیں اور یزید کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ پس اب کربلا کے نکتہ نظر سے دو طرح کے مسلمان ہیں: حسینی و یزیدی۔ باقی فقہی و فرعی تقسیم صرف نماز و روزے کے انجام دینے کے طریقے کی حد تک درست ہے۔

اب یہاں پر ان چیزوں کا بھی ذکر کیا جانا ضروری ہے کہ جو ہمارے معاشرتی رویوں، ذاتی دلچسبیوں اور عوامی جہالت کی پیداوار ہیں۔ خواص کو چاہیئے کہ وہ وسعت قلبی کے ساتھ، سارے فرقوں سے برتر ہو کر عوام کو ایسی عزاداری منانے کی دعوت دیں، جو خدا اور اس کے رسولﷺ کو راضی کرنے کی باعث بنے۔ یہاں پر ضروری ہے کہ عوام کو یہ آگاہی دی جائے کہ بدعات اسلام میں ممنوع اور حرام ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو بدعت کا مفہوم اور مصادیق سمجھائے جائیں۔ مفاہیم اور مصادیق کو واضح کئے بغیر صرف بدعت کا فتویٰ دینے سے مسائل نہیں سلجھیں گے۔
ہم یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہر ایسا کام جس کی قرآن مجید اور پیغمبر ِاسلام کی زندگی میں مثال نہ ملے، اُسے بدعت کہتے ہیں۔ آسان لفظوں میں جو کام دینِ اسلام میں نہ ہو، اُسے دینی فعل کہہ کر دین میں داخل کرنے کا نام یا دین سے حذف کرنے کا نام بدعت ہے۔

مزید آسانی کیلئے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ بدعت کی دو صورتیں ہیں:
۱۔ دین میں کسی نئی چیز کا اضافہ یا کمی کرنا۔
۲۔ کسی بھی فعل کو اپنی طرف سے ایجاد کرکے اس کے احترام، ثواب یا عذاب کا عقیدہ رکھ لینا۔
یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ دینِ اسلام میں کسی بھی نوآوری کی ممانعت نہیں۔ ممانعت تب ہے، جب مسلمان کسی نئی چیز کو اختراع کرے اور اسے دین کہنا شروع کر دے۔ لہذا دین کے لیبل کے بغیر کوئی چاہے جتنی مرضی ہے تقریبات منعقد کرے اور جو مرضی ہے کرے، اُسے بدعت نہیں کہا جا سکتا۔ ذکرِ امام حسینؑ اور عزاداری و ماتم میں چونکہ عوام کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے، لہذا عام لوگ جو سوچتے ہیں، اُسے ہی اپنے طور پر ثواب سمجھ کر انجام دینا شروع کر دیتے ہیں، جو کہ گمراہی کا سبب ہے۔ عوام کو چاہیئے کہ وہ اپنی طرف سے دین سمجھ کر کسی چیز کا اضافہ کرنے کے بجائے اپنے دیندار اور باشعور علماء خصوصاً مراجع کرام اور مجتہدین سے رجوع کریں۔ ان سے پوچھیں کہ ہمارا یہ فعل کہیں بدعت اور گمراہی تو نہیں۔

اسی طرح بہت سارے ایسے سلسلے جو ماضی سے چلے آرہے ہیں، اُن پر بھی نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ مثلا نوحہ خوانی، مرثیہ خوانی اور تقاریر میں عصرِ حاضر کے یزیدوں سے مقابلے کا عنصر بھی ہونا چاہیئے۔ یہ بھی سوچا جانا چاہیئے کہ آج اگر امام حسینؑ ہمارے درمیان موجود ہوتے تو وہ آج مسلمانوں کی پسماندگی، جہالت، فرقہ واریت، شدت پسندی ایک دوسرے کے خلاف فتوے بازی، کشمیر اور فلسطین کی ماوں بہنوں کے حوالے سے ملت اسلامیہ کو کیا پیغام دیتے!؟ امام حسین کے مکتوبات و خطبات کو عصرِ حاضر کے تناظر میں بیان کیا جانا چاہیئے، تاکہ دنیا بھر کے مسلمان امام عالی مقام ؑ کے نقشِ قدم پر چل سکیں۔ راقم الحروف کی رائے یہ ہے کہ امام حسینؑ نے اپنا فریضہ اور ذمہ داری انجام دے دی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اپنے مسالک اور فرقوں کی دکانوں سے بلند ہو کر امر بالمعروف و نہی عن المنکر  کے تحت اپنے اپنے مسالک و مکاتب کے عوام کی اصلاح کریں اور کربلا والوں کا فریضہ انجام دیں۔ اگر آج بھی ہم امام عالی مقام ؑ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اصلاحِ معاشرہ کیلئے فعال ہیں تو ہم حسینی ہیں ورنہ۔۔۔۔۔

تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

افغانستان پر حکمرانی اور اپنے عروج کے دنوں میں بھی طالبان کو افغانستان کے شمالی صوبے پنج شیر سے دور رکھنے میں اہم کردار احمد مسعود کے والد احمد شاہ مسعود کا تھا۔ پنج شیر کا شمار افغانستان کے قدرے پر امن اور طالبان مخالف صوبوں میں ہوتا ہے، جو دارالحکومت کابل سے 130 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہ احمد شاہ مسعود کا آبائی علاقہ بھی ہے جنہوں نے پہلے سوویت یونین اور بعد میں طالبان کے خلاف اپنے علاقے کا کامیاب دفاع کیا تھا۔ احمد شاہ مسعود ایک ممتاز افغان جنگجو کمانڈر رہے ہیں اور انہوں نے سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے بعد کی جنگ میں دوسرے افغان رہنماؤں کی طرح اس جنگ میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ہندوکش کی برف پوش پہاڑی چوٹیوں کے دامن میں واقع پنج شیر میں سوویت شکست کے آثار اب بھی موجود ہیں روسی فوج نے اس علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کئی بار فوج کشی کی مگر ہر بار اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

القاعدہ اور طالبان جنگجوں سے بیک وقت نمبرد آزما احمد شاہ مسعود نے اتنہائی کٹھن حالات میں بھی طالبان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ میں اس وقت تک مزاحمت کروں گا جب تک میرے پاس میرے سر جتنی جگہ باقی ہوگی۔ احمد شاہ مسعود کو 9 ستمبر 2011ء کو افغانستان کے صوبے پنج شیر میں 2 عرب حملہ آوروں نے بم حملے میں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ حملہ آور صحافیوں کے بھیس میں احمد شاہ مسعود سے ملنے گئے تھے۔ طالبان جنگجوؤں کا خیال تھا کہ احمد شاہ مسعود کی موت کے بعد وہ افغانستان پر اپنے نامکمل قبضے کو مکمل کرلیں گے تاہم نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے باعث طالبان کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور امریکا شمالی اتحاد کے مدد سے کابل میں متبادل حکومت بنانے میں کامیاب ہوگیا اور پنج شیر احمد شاہ مسعود کے ہلاکت کے بعد بھی ناقابل تسخیر ہی رہا۔

احمد مسعود کا اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کا اعلان
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں جنگ ختم ہوگئی ہے تاہم پنج شیر میں موجود سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح کا کہنا ہے کہ وہ اشرف غنی کی غیر موجودگی میں نگراں افغان صدر ہیں اور یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ طالبان کے دوبارہ کابل پر قبضے کے بعد آج بھی پنج شیر واحد صوبہ ہے جو طالبان کے کنٹرول سے باہر ہے اور وہاں پر احمد شاہ مسعود کے بیٹے اور ان کے سینئر ساتھی امراللہ صالح اس وقت طالبان کے خلاف ایک بار پھر مزاحمت کی تیاری کررہے ہیں۔ جہاں ایک طرف امرللہ صالح تمام طالبان مخالف دھڑوں کو مزاحمتی تحریک کا حصہ بننے کی دعوت دے رہے ہیں، وہیں احمد مسعود بیرونی سطح پر طالبان کے خلاف جنگ کے لئے اتحادی ڈھونڈنے کے لئے کوشاں ہے۔ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طالبان کے خلاف جنگ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے ایک حالیہ مضمون میں احمد مسعود کا کہنا تھا کہ اگر امریکی حکومت ان کو اسلحہ مہیا کرے تو وہ انتہا پسند طالبان کو پنج شیر پر قبضے سے روک سکتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے جنگجوؤں کے ہمراہ طالبان کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لئے تیار ہوں۔ احمد مسعود کا کہنا ہے کہ انہیں ہتھیاروں کی فراہمی کے علاوہ امریکی تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں مزید لکھا کہ امریکا کو افغان عوام کو طالبان کے رحم و کرم پر تنہا نہیں چھوڑنا چاہیئے بلکہ طالبان مخالف قوتوں کے ساتھ تعاون جاری رکھنا چاہیئے۔ طالبان اپنے حریفوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرچکے ہیں اور انسانی و خواتین کے حقوق کی ضمانت بھی دے رہے ہیں، تاہم طالبان کے ماضی کو دیکھتے ہوئے افغان عوام میں اس حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔

کیا طالبان اس مرتبہ پنج شیر پر قبضہ کر پائیں گے؟
نوے کی دہائی میں بھی جب طالبان نے افغانستان کے مختلف صوبوں پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت بھی وہ پنج شیر کا کنٹرول حاصل نہیں کر پائے تھے۔ احمد شاہ مسعود کی قیادت میں شمالی اتحاد نے پنج شیر میں طالبان کو اپنے قدم جمانے نہیں دیئے تھے۔ افغان اُمور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کہتے ہیں کہ کوہ ہندو کش کی بلند و بالا پہاڑیوں میں گھری وادیٔ پنج شیر اپنے محل و وقوع کی وجہ سے طالبان کی پہنچ سے دُور رہی ہے۔ اُن کے بقول یہ قدرتی طور پر ایک محفوظ علاقہ ہے جس کا ایک ہی راستہ کابل کی طرف نکلتا ہے جب کہ تین اطراف سے یہ ایک طرح سے بند ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کسی بھی حملہ آور کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بریگیڈیئر محمود شاہ کا کہنا تھا کہ احمد شاہ مسعود ایک پرعزم جنگجو تھا جس کے ساتھ کئی وفادار ساتھی طالبان کے ساتھ لڑتے رہے تھے۔ البتہ اُن کے بقول اب صورتِ حال مختلف ہے کیوں کہ احمد مسعود کے ساتھ جو جنگجو ہیں وہ اتنے پرعزم نہیں ہیں، لہذٰا طالبان نے پنج شیر کی جانب پیش قدمی کی صورت میں وہ اس علاقے پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں طالبان کے خلاف مزاحمت کے لئے احمد شاہ مسعود اور شمالی اتحاد کو ایران کا تعاون بھی حاصل رہا ہے۔ تاہم اب ایران بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے جس کے بعد احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود کے پاس بہت کم آپشنز باقی بچے ہیں۔

پنج شیر اب تک ناقابل تسخیر کیوں ہے؟
وادی پنج شير کو اس کا محل وقوع دفاعی اعتبار سے مضبوط بناتا ہے وادی تک رسائی صرف دريائے پنج شير کے ساتھ ايک تنگ راستے سے ممکن ہے۔ پنج شیر کی وادی مشہور ہندوکش پہاڑی سلسلے کے ساتھ واقع ہے جبکہ دریائے پنچ شیر افغانستان کے اہم دریاؤں میں سے ایک ہے۔ پنج شیر اوسطً سطح سمندر سے 2200 میٹر کی بلندی پر واقع ہے جبکہ اس کے بعض مقامات سطح سمندر سے 6 ہزار میٹر کی بلندی پر بھی ہیں۔ پنج شیر وادی میں زمرد کی کان کنی اور افغانستان کے لئے توانائی کا ایک بڑا مرکز بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ پنج شیر ہمیشہ ایک اہم شاہراہ رہا ہے، تقریباً 100 کلومیٹر لمبا یہ ہندوکش کے دو راستوں کی طرف جاتا ہے۔

خاوک پاس شمالی میدانی علاقوں کی طرف جاتا ہے اور انجمن پاس بدخشان میں داخل ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم اور تیمور کی فوجوں نے انہیں استعمال کیا تھا۔ یہ خطہ دریاؤں اور ندیوں کے ایک پیچیدہ نظام پر مشتمل ہے جو گھاٹیوں سے گزرتا ہے لہذا وہ جنگ کے دوران ایک بہترین قدرتی پناہ گاہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ علاقہ ایک قلعے کی صورت میں ہے جس کے باعث یہ بیرونی حملہ آوروں کے لئے ہمیشہ سے ایک مشکل محاذ ثابت ہوا ہے۔ جب سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو سوویت افواج کو یہاں پر سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اور متعدد کوششوں کے باوجود وہ اس وادی پر قبضہ نہیں کرسکے تھے اور یہ وادی روسی فوجیوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا تھا۔

رپورٹ: ایم رضا

افغانستان سے امریکہ کا اچانک اور ایمرجنسی حالت میں فوجی انخلاء جو انخلاء سے زیادہ فرار سے شباہت رکھتا ہے آج کل مختلف ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بن چکا ہے۔ حال ہی میں معروف امریکی میگزین Washington examiner نے اپنے فرنٹ پیج پر بہت دلچسپ کارٹون شائع کیا ہے۔ اس میں امریکی صدر جو بائیڈن کو دکھایا گیا ہے جو امریکی فوجی ہیلی کاپٹر کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جبکہ ان کے پیچھے بڑی تعداد میں طالبان جنگجو دوڑ رہے ہیں۔ جو بائیڈن کے چہرے پر خوف اور وحشت کے آثار واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ واشنگٹن ایگزیمینر نامی مجلے نے اپنے اس کارٹون کا یہ عنوان انتخاب کیا ہے کہ: "بائیڈن بھاگ رہا ہے۔" اس کارٹون سے امریکہ کے سیاسی حلقوں میں افغانستان سے فوجی انخلاء کے بارے میں تشویش صاف ظاہر ہے۔
 
امریکہ کے سیاسی حلقوں میں افغانستان سے فوجی انخلاء کے بارے میں تشویش اور اضطراب کی پہلے سے توقع کی جا رہی تھی۔ خاص طور پر موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے ریپبلکن سیاسی حریف ڈیموکریٹ حکومت کو کمزور کرنے کیلئے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ دوسری طرف ایسا دکھائی دیتا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے اثرات کا دائرہ صرف امریکہ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے نتائج اور اثرات ظاہر ہوں گے۔ امریکہ نے جب 7 اکتوبر 2001ء کے دن نائن الیون کے بہانے افغانستان پر فوجی چڑھائی شروع کی تو اس کے قریبی اتحادی برطانیہ میں ٹونی بلیئر وزارت عظمی کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے بھی حال ہی میں افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء پر اظہار خیال کیا ہے۔
 
برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اپنے کالم میں افغانستان سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے فوجی انخلاء کو "فرار" قرار دے کر اسے احمقانہ، خطرناک اور غیر ضروری جانا ہے۔ اسی طرح انہوں نے امریکہ اور نیٹو کے اس اقدام کی مذمت بھی کی ہے۔ اگرچہ گذشتہ کافی عرصے سے ٹونی بلیئر کسی حکومتی عہدے پر فائز نہیں رہے لیکن افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے برطانوی پارلیمنٹ کے حالیہ خصوصی اجلاس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کے اراکین پارلیمنٹ بھی موجودہ صورتحال سے راضی نہیں ہیں اور ان میں سے بعض نے تو امریکی صدر جو بائیڈن کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ کنزرویٹو پارٹی سے وابستہ برطانوی رکن پارلیمنٹ ٹام ٹوگینڈتھ، جو سابقہ فوجی افسر بھی ہیں ان میں سے ایک تھے۔
 
ٹام ٹوگینڈتھ نے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی کارکردگی پر اعتراض کرنے کو "شرمناک" قرار دیا۔ اسی طرح لیبر پارٹی سے وابستہ برطانوی رکن پارلیمنٹ نے بھی اس بارے میں جو بائیڈن کے موقف کو "قابل مذمت اور غلط" قرار دیا۔ لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے سربراہ ایڈ ڈیوی نے بھی افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کو ایک بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک غلطی ہی نہیں بلکہ ایسی غلطی تھی جس سے بچنا ضروری تھا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ امریکی حکومت کے فیصلوں اور اقدامات کے بارے میں برطانوی سیاست دانوں اور حکومتی عہدیداروں کی جانب سے ایسے بیانات کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ خاص طور پر برطانیہ کے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے امریکی صدر پر اس قدر واضح اور شدید تنقید ایک انوکھا واقعہ ہے۔
 
چونکہ افغانستان پر فوجی جارحیت کے آغاز میں برطانیہ امریکہ کا اصلی اور بنیادی اتحادی تھا، لہذا برطانوی حکام اور سیاست دان امریکی حکومت سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ افغانستان سے فوجی انخلاء جیسے اہم فیصلے اور اقدام میں ضرور اسے اعتماد میں لے گا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے نہ صرف برطانوی حکمرانوں کو اس فیصلے سے آگاہ نہیں کیا بلکہ افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے 36 گھنٹے بعد تک برطانوی وزیراعظم بوریس جانسن کے ٹیلی فون کا جواب بھی نہیں دیا۔ برطانوی حکمرانوں کی جانب سے امریکہ سے شدید ناراضگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ درحقیقت ابھی یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ جو بائیڈن نے نہ صرف برطانوی حکام بلکہ کسی بھی یورپی اتحادی کو اپنے فیصلے میں شامل نہیں کیا اور یکطرفہ طور پر افغانستان سے فرار اختیار کیا ہے۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان سے امریکہ کی بوکھلاہٹ کی حالت میں فرار کے بعد نہ صرف اس کے مغربی اتحادی موقف کی حد تک شدید نالاں ہیں بلکہ مستقبل قریب میں ان کے عمل سے بھی امریکہ سے دوری ظاہر ہونا شروع ہو جائے گی۔ بروکینگز تھنک ٹینک میں سکیورٹی، اسٹریٹجی اور ٹیکنالوجی سنٹر کی اعلی سطحی رکن، فیڈریکا سائنی فاسانوٹی کا خیال ہے کہ جو بائیڈن کی موجودہ سیاست کے باعث اٹلی کے حکمران بڑی مشکل کا شکار ہو چکے ہیں اور اب ان کے پاس افغانستان میں ہلاک شدہ اٹلی فوجیوں کے اہلخانہ کو وضاحت پیش کرنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ لہذا مستقبل میں امریکہ مغربی ممالک کے ساتھ فوجی اتحاد تشکیل دے کر مشترکہ آپریشنز انجام دینے میں شدید مشکلات کا شکار ہو گا۔ اس کی بنیادی وجہ مغربی ممالک کا امریکہ پر ختم ہوتا اعتماد ہے۔
تحریر: سید رحیم نعمتی
 
 
 
Tuesday, 24 August 2021 06:33

جناب رباب

اریخ اسلام کی ایک بہت ہی مشہور و معروف اور فضائل و کمالات ، وفا و صبر سے سرشار خاتون جناب رباب ہیں جو امرؤ القیس کی صاحبزادی ، حضرت امام حسین علیہ السلام کی شریک حیات اور جناب حضرت علی اصغر و جناب سکینہ کی مادر گرامی ہيں جن کا نام تاریخ کے اوراق پر سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے ۔

تاریخ اسلام کے مشہور مورخ ہشام کلبی نے جناب رباب کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ کا شمار بہترین اور بافضیلت خواتین میں ہوتا تھا۔ امرؤ القیس نے جو ایک نہایت مشہور و معروف شخصیت کے حامل تھے خلیفہ دوم کے زمانے میں اسلام لائے اور مستقل طور پر مدینے میں سکونت اختیار کرلی جن کی تین لڑکیاں تھیں آپ نے خاندان اہل بیت عصمت و طہارت سے بے پناہ الفت و محبت کی وجہ سے اپنی تینوں لڑکیوں کی شادی اسی گھرانے یعنی ایک بیٹی کی شادی حضرت علی علیہ السلام ، دوسری بیٹی کی شادی حضرت امام حسن علیہ السلام اور تیسری بیٹی کی شادی جن کا نام رباب تھا امام حسین علیہ السلام سے کردی جناب رباب کی دو اولادیں ہوئیں ایک حضرت سکینہ اور دوسرے حضرت علی اصغر . حضرت علی اصغر میدان کربلا میں چھ مہنیے کی عمر میں اسلام اور اپنے امام وقت کا دفاع کرتے ہوئے باپ کے ہاتھوں پر شہید ہوگئے اور جناب سکینہ سلام اللہ علیہا بھی واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور کربلا سے کوفہ و شام پر رنج و الم راہوں میں یزيدیت کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی رہیں آپ کا شمار بھی عالم اسلام کی عظیم خواتین میں ہوتا ہے ۔

حضرت امام حسین علیہ السلام اور جناب رباب سلام اللہ علیہا کی محبت و الفت کا تذکرہ ہر خاص و عام کی زبان پر ہے اور آپ کی سیرت دنیا میں موجود افراد کے لئے شریک حیات کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لئے بہترین نمونہ ہے ۔اسی طرح شوہر کی خدمت و اطاعت میں جناب رباب کا کردار قیامت تک آنے والی عورتوں کے لئے بہترین اسوہ و نمونہ ہے ۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے جناب رباب سے اپنی الفت و محبت کا ذکر بہت سے اشعار میں کیا ہے آپ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں : تمہاری قسم میں اس گھر سے بہت محبت کرتا ہوں جس میں سکینہ و رباب ہوں ۔

جناب رباب بھی حضرت امام حسین علیہ السلام سے والہانہ محبت کرتی تھیں امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد جناب رباب نے اپنی وفاداری و خلوص کا اظہار عملی کردار اور اشعار کی زبان میں کیا ہے۔ جب اسیروں کے ہمراہ آپ دربار ابن زياد میں داخل ہوئیں اور آپ کی نظريں امام حسین علیہ السلام کے سر بریدہ پر پڑی تو آپ اسیروں کے درمیان سے نکل کر سر مبارک کی طرف گئیں اور حاکم کوفہ ابن زیاد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سرمبارک کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگایا اور کہا: میں ہرگز امام حسین کو فراموش نہیں کرسکتی ، ہاں یہ حسین مظلوم جنہیں دشمنوں نے کربلا کے میدان میں تین دن کا بھوکا پیاسا شہید کردیا اور ان کے سر کو نیزہ پر بلند کیا۔

جناب رباب کربلا کے دلخراش مناظر اور راہ کوفہ و شام میں پڑنے والے مصائب و آلام کو برداشت کرتے ہوئے جب رہا ہوکر مدینے پہنچیں تو امام حسین علیہ السلام سے وفا و خلوص اور سچی محبت و الفت کی بناء پر کبھی بھی سایہ میں نہ بیٹھیں بلکہ جب تک زندہ رہیں سورج کے نیچے بیٹھی رہیں اور رات کی تاریکی میں کبھی بھی چراغ روشن نہیں کیا۔

آپ نے اپنے باوفا شوہر کے غم میں بہت سے اشعار کہے ہیں جن میں سے کچھ کا ترجمہ یہ ہے :

وہ نور جس سے لوگ بہرہ مند ہوتے تھے اسے دشمنوں نے کربلا کے میدان میں خاموش کردیا اور دفن کرنے کے بجائے ان کی لاش کو کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں چھوڑ دیا۔ پھر امام حسین علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتی ہیں اے میرے سید و سردار، آپ عظمت و شرافت کی عظیم چٹان تھے جس میں میں پناہ حاصل کرتی تھی اورآپ محبت و الفت اور دین مبین کے ساتھ میرے ہمراہ تھے آپ کی شہادت کے بعد اب کون ہے جو یتیموں اور اسیروں کی خبر گیری کرے گا ؟ خدا کی قسم آپ کے بعد میں ہرگز سائے میں نہیں بیٹھوں گی یہاں تک کہ قبر میں چلی جاؤں ،

جناب رباب امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ایک برس سے زيادہ زندہ نہ رہیں اور حضرت کے غم میں آنسو بہاتے بہاتے اس دنیا سے عالم جاوداں کی طرف رخصت ہوگئیں ۔

ملایشیا کے پوترا جایا جھیل کے کنارے ، ایک خوبصورت مسجد واقع ہے جس کا نام ‘’توانکو میزان” زین العابدین ہے ، یہ مسجد مقامی لوگوں اور وہاں آنے والے سیاحوں کے درمیان فولادی مسجد کے نام سے مشہور ہے۔  

 

مسجد  کے اندر ، شرعی اوقات معلوم کرنے کی گھڑی۔

 

اس مسجد کا شمار ملیشیا کی بڑی مسجدوں میں ہوتا ہے، جو  ماہ رمضان ۱۴۳۰ ھ  کو  پوترا جایا شہر میں تعمیر ہوئی ہے۔

 

اس مسجد کی تعمیر میں تین مفہوم ، صاف ھوا ، سادگی ، اور شفافیت کو مد نظر رکھا گیا ہے۔  اس کی معماری میں ماڈرنیزم اور روایت کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ مسجد میں کسی قسم کا کوئی مینار نہیں ہے ، اوریہ مسجد پوتر جایا شھر کی  دوسری بڑی مسجد ہے۔

مسجد کی تعمیر ایک ایسے طرز کی ہے کہ  اس کے اندر حاضرین کو پانی میں ہونے کا احساس ہوتا ہے۔

 

چونکہ یہ مسجد عدالتی محل کے سامنے تعمیر ہوئی ہے۔ ملایشیا کے سابقہ صدر مھاتیر محمد نے اس شھر کے آفیسروں اور ملازموں کو یہ نصیحت کی کہ : آپ کو قوم کے لئے انجام دی جانے والے کاموں میں خدا کی خوشنودی کو  مد نظر رکھنا چاھیئے اور جان لینا چاھیئے کہ لوگوں کا کام نپٹانا بھی مسجد میں عبادت کرنے کے برابر ہے ، اس راہ میں کسی بھی قسم کی سستی نہیں کرنی چاھیئے ، ورنہ تمہارا واسطہ میرے ساتھ اور عدالت کے ساتھ پڑے گا”

 

  مسجد کے اندر سے  عدالتی محل کا نظارہ 

 فولادی مسجدی ایک خوبصورت جھیل کے کنارے بںائی گئی ہے ۔ جس کے تینوں طرف پانی ہی پانی ہے۔

 

 اس مسجد کی تعمیر میں پانچ سال لگے ہیں ، ۲۰۰۴ میں کام کا آغاز ہوا اور ایک حصہ کی تجدید تعمیر کی گئی جس کا کام ۲۰۰۹ میں مکمل ہوا۔ اس مسجد کا ۱۱ جون ۲۰۱۰ میں ہوا۔

 

 اس مسجد کی تعمیر میں چھ ھزار ٹن فولاد کا استعمال کیا گیا ہے، جو اس مسجد کی تعمیر کے مصالح کا  ۷۰ فی صد حصہ ہے۔

 

 

اس مسجد میں استعمال شدہ فولاد بالکل رولنگ کی شکل میں لایا گیا ہے جو جرمن اور چین سے خصوصی طور پر لایا گیا ہے۔

 

س طرح کے فولادی ڈھانچے کو اس سے پہلے سپین کے شہر ماڈریٹ ،کے سٹیڈیم میں استعمال کیا گیا ہے۔

 

 

مسجد کی تعمیر میں باقی ۳۰ فی صد سیمنٹ استعمال ہوا ہے۔

 

مسجد کے محراب کے دو حصوں میں تیرہ میٹر لمبے شیشوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ اور ان  شیشوں  پر سورہ بقرہ اور آل عمران  کی آیات مبارکہ کو نسخ کے خوبصورت خط میں لکھا گیا ہے۔ 

 

ان شیشوں کو ایسے لگایا گیا ہے کہ ان کے اندر سے کم سے کم روشنی گزرتی ہے ۔اس طرح دیکھنے والے کو یہ احساس ہوتا ہے  کہ ان پر لکھی ہوئی آیات قرآنی ، ہوا میں لٹکائیں گئیں ہیں.

 

مسجد کا محراب

  اس فولادی مسجد کی خصوصیات میں سے اس کے ھوا کا سیسٹم ہے کہ جو بالکل قدرتی ہے اور اس میں کسی قسم کا ائیر کنڈیشنر استعمال نہیں ہوا ہے۔

 

وزیر اعظم کے آفس  اور پوتراجا کی گلابی مسجد کا اندرونی نظارہ ( مغربی حصہ )

اصلی ایوان بالکل کھلا ہوا ہے  جو  ایک پانی کے حوض کی طرح بنایا گیا ہے۔ یہ منظر جزیرہ میں ہونے کا احساس دلاتا ہے اور قدرتی ھوا کو اندر کی طرف لے آتا ہے۔

 

مغربی نظارہ مسجد کے اندر  سے  پوترا جھیل اور پل کا نظارہ

 

ایوان کے ارد گرد پانی کا حوض بغیر کسی جنگلے یا کھڑکی کے ہے۔

 

 اس مسجد کے اصلی دروازے کو  شیشوں اور سیمنٹ سے تعمیر کیا گیا ہے جو  بہت خوبصورت یے اوریہ مسجد کا ایک دلکش نظارہ پیش کرتا ہے۔

 

 

ایوان کے باہر بھی مسجد کے ساتھ ساتھ ۴۰ فٹ کے برآمدے بںائے گئے ہیں جو مسجد سے باہر نماز ادا کرنے والوں کو بارش  سے بچاتا ہے


 

شمالی حصہ  ( مسجد کے اندر سے وزارت عدلیہ کے سامنے سے )

 

اسماء حسنی شمالی ایوان کے دروازے کے دونوں طرف

اس مسجد کی تعمیر پر ۲۰۸ میلیون رینگٹ (  ۶۷ میلن امریکی ڈالر )  خرچہ آیا ہے۔ اور اس میں ۲۰ ھزار سے زیادہ نماز پڑھنے والوں کی جگہ ہے۔

 یہ مسجدپوتراجایا شھر کی ایک خوبصورت تفریح گاہ اور پوتراجایا کے مسلمانوں کےلئے ایک خوبصورت عبادت گاہ کے طور پر جانی جاتی ہے۔

 

مسجد کا مغربی نظارہ

 

 

مسجد کا شمالی نظارہ

مسجد کا جنوب مغربی نظارہ

 

مسجد کا شمالی حصہ ( اصلی گیٹ )

 

شمالی گیٹ

 

مشرقی نظارہ

 

مسجد کا وضو خانہ

 

 

وضو خانہ کا دوسرا حصہ

 

مسجد کے اندرونی حصہ

 

مسجد کے  اندرونی چھت  کا نظارہ

 

مسجد کا اندرونی چھت جس پر کلمہ ” اللہ ” لکھا گیا ہے۔

 

مسجد کا مغربی حصہ

 

 

 

رات کے وقت مغربی نظارہ

 

 

 تہران میں ماسکو کے سفیر کہنا ہے کہ ایران، روس اور چین کی بحریہ دسمبر کے آخری میں یا جنوری کے آغاز میں فوجی مشقیں کریں گی۔

فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق تہران میں روس کے سفیر کا کہنا تھا کہ ان فوجی مشقوں کا مقصد، جہاز رانی کی سیکورٹی فراہم کرنا اور سمندر راہزنی سے کشتیوں کو محفوظ رکھنا ہے۔

روس کی خبر رساں ایجنسی نے بھی پیر کے روز اپنی رپورٹ میں خلیج فارس میں ایران، روس اور چین کی بحریہ کی فوجی مشقوں کی خبر دی ہے۔

اس رپورٹ کی بنیاد پر تہران میں روسی فیڈریشن کے سفیر لوان جاگاریان نے کہا کہ ایران، روس اور چین کی بحریہ 2021 کے آخری دنوں میں یا 2022 کے شروعاتی دنوں میں فوجی مشقیں کریں گی۔۔

ڈونلڈ ٹرمپ جس نے قبل ازیں افغانستان کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن سے استعفا دینے کا مطالبہ کیا تھا، فاکس نیوز کے مشہور میزبان شان ہینٹی (Sean Patrick Hannity) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "کبھی بھی ہمارے ملک کی اتنی تذلیل نہیں ہوئی ہے"۔
شان ہینٹی نے ابتداء میں ٹرمپ سے کہا: بعض ذرائع اور افراد نے مجھ سے کہ آپ نے بذات خود مذاکرات میں طالبان کو (مذاکرات میں) کچھ انتباہات دیئے تھے، اب جو بائیڈن آپ (افغانستان کی موجودہ صورت حال اور اس ملک پر طالبان کے تسلط) کے سلسلے میں قصور وار ٹہرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں پہلے آپ کو جواب کا موقع دیتا ہوں، افغانستان کی موجودہ صورت حال کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے، نیز ہمیں طالبان کے سرکردہ افراد کے ساتھ اپنی گفتگو کے بارے میں بتایئے۔
ٹرمپ: شان (ہینٹی) مجھے خوشی ہے کہ آپ کے ساتھ ہوں۔ لیکن اس وقت ہمارا ملک ایک ہولناک دور سے گذر رہا ہے۔ میرے خیال میں طویل عرصے سے ہمارے ملک کی اس قدر تذلیل نہیں ہوئی تھی، میں یہ نہیں جانتا کہ اس کو عسکری شکست کا نام دیں یا نفسیاتی شگست کا۔ لیکن آج تک ہمیں اس طرح کے واقعے کا سامنا نہیں ہؤا ہے۔ ہمیں جمی کارٹر کے زمانے میں ایران میں ہمارے یرغمالیوں کے مسئلے سے بھی بری طرح کی خفت کا سامنا ہے۔ ہم اس کو شرمساری کا سبب سمجھتے تھے لیکن رونلڈ ریگن نے ہمیں اس مسئلے سے خارج کردیا۔ لیکن افغانستان کا مسئلہ کئی گنا زیادہ ہولناک ہے۔ ہزاروں امریکی اور دوسرے ممالک کے باشندے افغانستان میں پھنس گئے ہیں۔ صورت حال ایسی ہے کہ مجھے یقین نہيں آرہا تھا کہ اس طرح کا واقعہ رونما ہورہا ہے۔ جب آپ نے ایک بڑے فوجی طیارے کو دیکھا جس کے دو پہلؤوں سے لوگ سوار ہوکر افغانستان سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے یہ سب ان حالات کا نتیجہ تھا جس سے یہ لوگ خائف تھے۔ ان میں سے کچھ افراد 2000 میٹر کی بلندی سے طیارے سے نیچے گر گئے۔ کسی نے بھی ایسا واقعہ نہیں دیکھا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورت حال ویت نام میں ہیلی کاپٹر کے واقعے کے ساتھ قابل قیاس نہیں ہے؛ اور ہم امریکہ کو درپیش خفت آمیز ترین دور سے گذر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے بعدازاں طالبان کے ساتھ اپنی حکومت کی مفاہمت کی طرف اشارہ کیا اور اپنی کارکردگی کی تعریف کی۔
انھوں نے کہا: جی ہاں ہم نے طالبان کے ساتھ مفاہمت پر کافی کام کیا اور مائک پامپیو اور کئی دوسرے افراد نے شب و روز اس مسئلے پر کام کیا اور طالبان سے ملاقاتیں کی؛ بےشک طالبان سے ملاقات کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ آپ کو بات چیت کرنا پڑتی ہے۔ میں نے طالبان کے مذاکرات کاروں کے سربراہ سے کئی مرتبہ ملاقات کی۔ ہماری گفتگو کافی مضبوط تھی۔ میں نے گفتگو کے آغاز پر ہی اس سے کہہ دیا کہ "اگر امریکیوں کو کوئی حادثہ پیش آیا، اور اگر تم ہماری سرزمین کی طرف آئے، تو تمہیں ایسی طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا جو کسی بھی ملک کے خلاف آج تک استعمال نہیں ہوئی ہے؛ نقصان اٹھاؤ گے، اتنی بڑی قوت تمہارے خلاف استعمال ہوگی جس کا تمہیں یقین تک نہیں آتا۔ میں نے اس شخص کے گاؤں کا نام لیا اور کہا کہ سب سے پہلا بم تمہارے گاؤں پر گرا دیا جائے گا"۔
شان ہینٹی: آپ نے یہ باتیں کس شخص سے کہہ دیں؟
ٹرمپ: ملا (عبدالغنی) برادر سے؛ جو غالبان طالبان کے اعلی قائدین میں سے ایک ہے۔ البتہ کوئی نہیں جانتا کہ طالبان کا اصلی قائد کون ہے۔ ہماری بات چیت بہت مضبوط تھی، گوکہ اس کے بعد بھی ہمارے درمیان بات چیت ہوئی جو کافی اچھی تھی۔ ۔۔۔ میں نے ان سے کہا کہ افغان حکومت کے ساتھ مفاہمت کریں، لیکن میرا افغان صدر اشرف غنی پر کبھی بھی اعتماد نہیں تھا۔ میں نے یہ بات خفیہ طور پر بھی اور اعلانیہ بھی کہہ دی تھی۔ میرے خیال میں وہ ایک بدعنوان شخص تھا۔
ٹرمپ نے دعوی کیا کہ امریکی سینٹروں کے درمیان اشرف غنی کی اپنی لابی تھی جبکہ میں اسے کبھی بھی نہیں چاہتا تھا۔ اب خبر آرہی ہے کہ وہ بڑی رقوم لے کر ملک سے فرار ہوگیا ہے اور میرے خیال میں یہ خبر درست ہے۔ اشرف غنی افغانستان میں ہمارے لئے ایک مشکل مسئلہ تھا۔
میرے خیال میں طالبان کے ساتھ مذاکرات اشرف غنی کے ساتھ مذاکرات سے زیادہ اہمیت رکھتے تھے کیونکہ افغانستان کا اصل مسئلہ طالبان تھے اور وہ عرصۂ دراز سے وہاں تھے اور اچھے جنگجو ہیں جو جم کر لڑتے ہیں۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بہت سارے ریپلکن اور ڈیموکریٹ راہنما افغانستان میں امریکی کی موجودگی جاری رکھنے پر زور دے رہے تھے۔
ٹرمپ نے کہا: میں نے آپ کے اس پروگرام اور دوسرے پروگراموں میں لوگوں کی باتیں سنی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں افغانستان میں رہنا چاہئے۔ انہیں معلوم نہیں ہے کہ ہم ہر سال 42 ارب ڈالر افغانستان میں خرچ کئے ہیں۔ ہر سال 42 ارب ڈالر سالانہ۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں روس اپنی پوری فوج کے لئے سالانہ 40 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ لیکن ہم صرف افغانستان میں 42 ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ یہ سب مہمل ہے۔ ہم برسوں سے سالانہ 42 ارب ڈالر اس ملک کے دفاع کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ 20 سال سے نہیں بلکہ 21 سال چھ مہینوں سے، ہم وہاں موجود ہیں اور وہاں سے ہمیں کچھ بھی نہ ملا۔
سابق امریکی صدر نے جارج بش جونیئر کو ایک بار پھر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس نے امریکہ کو افغانستان اور عراق کی جنگ میں جھونک دیا تھا۔
ٹرمپ نے کہا: ہم دنیا کی سب سے بڑی فوج کے مالک ہیں لیکن جو واقعات رونما ہوئے ہیں، ہم اس فوج کو بدنام کررہے ہیں۔ ہم نے اس خوفناک علاقے (افغانستان) پر (2001ء) میں قابض ہوئے، ایسے ملک میں جہاں ہمیں مداخلت کرنا ہی نہیں چاہئے تھی، اور یہ ایک ہولناک فیصلہ تھا کہ ہم مشرق وسطی میں داخل ہوئے۔ میں جانتا ہوں کہ بش خاندان کو میری ان باتوں سے خوشی نہيں ہوگی لیکن مجھے یقین ہے کہ جب ہم نے مشرق وسطی میں مداخلت کا فیصلہ کیا۔ یہ ہمارے ملک کی تاریخ کا بدترین فیصلہ تھا اور "واضح ہؤا کہ وہاں ایک دلدل ہے" اور ہمارے اس فیصلے نے مشرق وسطی کو نیست و نابود کیا۔ مشرق وسطی کی صورت حال 20 21 سال پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہوچکی ہے۔ یہ بہت برا فیصلہ تھا جس کی وجہ سے ہمیں کئی ٹریلین ڈالر خرچ کرنا پڑے۔ جب میں دونوں فریقوں پر نظر ڈالتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ ہمارا یہ فیصلہ کئی ملین انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنا ہے اور مشرق وسطی کی حالت پہلے سے بہتر نہیں بلکہ بدتر ہوئی ہے۔
ٹرمپ نے کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے محاصرے اور اس اڈے میں موجود کثیر تعداد میں امریکیوں کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: طالبان اچھے جنگجو ہیں جو برسوں سے لڑے ہیں اور آپ کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ وہ اچھے جنگجو ہیں وہ ایک ہزار برسوں سے لڑ رہے ہیں اور اب طالبان نے کابل کے ہوائی اڈے کو گھیر لیا ہے۔ تو اب کون پیش گوئی کرسکتا ہے کہ وہ محصور ہوائی اڈے میں (امریکیوں اور دیگر) محصورین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھیں گے؟ میں پوری سچائی کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ بڑے زیرک ہیں اور انہیں چاہئے کہ امریکیوں کو نکلنے کی اجازت دیں۔ ہماری حالت کچھ ایسی ہے کہ شاید اس وقت 40 ہزار امریکی اور امریکیوں کے مقامی معاونین افغانستان میں موجود ہیں، اور ممکن ہے کہ انہیں یرغمال بنایا جائے۔ 40 ہزار ممکنہ یرغمالی!۔
ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی انخلاء کے سلسلے میں سابقہ امریکی انتظامیہ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا: منصوبہ یہ تھا کہ ابتداء میں غیر فوجیوں کو نکالا جائے اور سب سے آخر میں فوجیوں کو۔ گوکہ میرا یہ بھی منصوبہ تھا کہ اپنے تمام فوجی وسائل اور ہتھیاروں کو بھی افغانستان سے نکال دوں۔ افغانستان میں ہمارا اربوں ڈالر کا اسلحہ موجود ہے جن میں بلیک ہاک (Sikorsky UH-60 Black Hawk) ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں، اور اب روسی ماہرین ان کا جائزہ لیں گے نیز چین اور دوسرے! بھی۔ افغانستان میں ہمارے جدید ماڈل کے ٹینک اور گولہ بارود بشمول مختلف میزائل، بھی ہیں۔ میں ان سب کو بھی افغانستان سے نکال لاؤں، کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ (ہماری بنائی ہوئی افغان فوج) کبھی بھی نہیں لڑے گی۔
ٹرمپ نے کہا: میں نے یہ سوال اٹھایا کہ افغانی (یعنی افغان فوجی) طالبان کے خلاف کیوں لڑ رہے ہیں۔ لیکن بہت سارے افراد نے مجھے غلط معلومات فراہم کیں اور آخرکار ہم نے افغانستان کو ترک کردیا اور انھوں نے طالبان کے خلاف لڑنا، ترک کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں سے بڑی تنخواہیں لینے والے سپاہی تھے اور وہ تنخواہ کی خاطر طالبان کے خلاف لڑ رہے تھے اور ہم نے انہیں تنخواہ دینے کا سلسلہ بند کیا اور وہاں سے باہر نکل آئے اور انہوں لڑنے کا سلسلہ بند کردیا۔ ۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم افغان فوجیوں کو بڑی بڑی رقوم دے رہے تھے، اور حالت کچھ یوں تھی کہ گویا ہم انہيں رشوت دے رہے تھے کہ وہ لڑیں۔ ۔۔۔ یہ جو اب ہم افغانستان کو چھوڑ رہے ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے لیکن (اس سے پہلے) کسی نے بھی جو بائیڈن کی طرح ایک المناک فوجی پسپائی کا انتظام نہیں کیا تھا اور "یہ ہمارے ملک کی تاریخ میں ہماری شرمساری کا سب سے بڑا واقعہ ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

قائد انقلاب اسلامی کی دشمن شناسی اور سکیورٹی کے حوالے سے انکی دور اندیشی اور سوجھ بوجھ کے طفیل میں ایران دشمن کی بہت سی سازشوں سے محفوظ رہا ہے، یہ بات ایران کی سپاہ پاسداران کے ایرو اسپیس شعبے کے کمانڈر بریگیڈیر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے کہی۔

ایران کی دفاعی صنعت میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی بصیرت و تدبیر اور پالیسیوں کا کردار عنوان کے تحت ایک ورچوئل اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے میجر جنرل حاجی زادہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین دہائیوں میں دشمن کی جانب سے ایران کے لئے بہت سی سازشیں رچی گئیں اور ایران کی راہ میں بہت سے جال بچھائے گئے، مگر وہ، قائد انقلاب اسلامی کی ذہانت و زیرکی کے باعث ان مرحلوں سے بحفاظت گزر گیا۔

انہوں نے افغانستان، عراق، شام اور لبنان کی سیاسی و عسکری صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان ممالک کو عسکری میدان میں بہت سے چیلنجوں اور مشکلوں کا سامنا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ان ممالک کی افواج کو کمزور کرنے کے مقصد سے ہی کھڑی کی گئی ہیں، مگر ایران میں دشمن کا یہ منصوبہ قائد انقلاب اسلامی کی ذہانت و بصیرت کے طفیل میں ناکام رہا۔

سپاہ پاسداران کے ایرو اسپیس شعبے کے کمانڈر نے کہا کہ گزشتہ برسوں میں جس وقت عراق و شام میں داعش کے خلاف جنگ جاری تھی تو بعض کا یہ کہنا تھا کہ ایران کو اس سے دور رہنا چاہئے، مگر قائد انقلاب اسلامی نے داعش کے خلاف جنگ کی مکمل حمایت کا فیصلہ کیا اور اگر یہ فیصلہ نہ ہوا ہوتا تو آج ہم اندرون ایران داعشی عناصر سے لڑ رہے ہوتے۔

انہوں نے واضح کیا کہ آج ایران کی مسلح افواج دفاعی شعبے میں عالمی سطح پر ایک مقام رکھتی ہیں جس کا اعتراف دشمن کو بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ اب ایران کے خلاف عسکری آپشن کے استعمال کی بات لا یعنی ہے۔

 اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا ہے کہ ایران ، افغانستان میں ہمہ گیر اور جامع حکومت کی تشکیل کا استقبال اور خیر مقدم کرےگا۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایران افغان عوام کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھےگا ، ہم افغان عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ خطیب زادہ نے کہا کہ ہم افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں جس میں افغانستان میں موجود تمام اقوام  اور قبآئل کی نمائندگی ہو۔ انھوں نے کہا کہ ہم افغانستان کی صورتحال کا قریب سے جائزہ لے رہے ہیں۔ ایران افغانستان میں امن و صلح کا خواہاں ہے افغان عوام نے گذشتہ 40 برسوں میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے ۔افغان عوام کو درپیش مشکلات کا خآتمہ ہونا چاہیے۔ اب افغانستان کی پیشرفت اور ترقی کا دور ہے ہم افغانستان میں امن و ثبات کو افغانستان کے ہمسایہ اور خطے کے ممالک کے لئے اہم سمجھتے ہیں۔

خطیب زادہ نے کہا کہ افغانستان کی تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ افغانستان کے بحران کا راہ حل فوجی نہیں بلکہ سیاسی مذاکرات میں مضمر ہے۔ایران افغانستان میں امن و ثبات کے لئے میں اپنی کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرےگا۔ ہم گذشتہ 40 برس سے افغان عوام کے ساتھ ہیں اور ان کے ساتھ رہیں گے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ افغان عوام کی مال و جان، عزت و ناموس کی حفاظت اور آفغانستان کے تاریخي اور ثقافتی آثار کی حفاظت افغان عوام اور عالمی برادری کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔