سلیمانی
لبنان کے شیعوں کی سپریم اسلامی کونسل کے سربراہ کے انتقال پر رہبر انقلاب اسلامی کا تعزیتی پیغام
،آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل کے نام ایک پیغام میں لبنان کے شیعوں کی سپریم اسلامی کونسل کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین شیخ عبدالامیر قبلان کی وفات پر تعزیت پیش کی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے تعزیتی پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حجۃ الاسلام و المسلمین جناب آقای سید حسن نصر اللہ دامت برکاتہ
مجاہد عالم دین مرحوم حجۃ الاسلام و المسلمین جناب شیخ عبدالامیر قبلان رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر میں ان کے معزز خاندان، سپریم اسلامی کونسل کی گرانقدر تنظیم، مرحوم کے تمام دوستوں اور چاہنے والوں اور لبنان کے تمام شیعوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں۔ مرحوم استقامت کے محاذ اور خود آپ کے لیے ایک گرانقدر اور باوفا دوست تھے اور انھوں نے لبنان میں اعلی اہداف کی خدمت میں ایک بابرکت عمر گزاری۔ ان کی وفات، باعث رنج و افسوس ہے۔ میں خداوند عالم سے مرحوم کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔
سید علی خامنہ ای
پنجشیر پر فوجی حملہ کی شدید مذمت کرتے ہیں، خطیب زادہ
ایرنا نیوز کے مطابق تہران میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ پنجشیر پر کل رات کے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ افغان رہنماؤں کی شہادت انتہائی افسوسناک ہے .
ایران کی نیوز ایجنسی ایسنا کے رپورٹر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے جس میں کہا گیا کہ پنجشیر کے حوالے سے تازہ ترین اخبار یہ دی جا رہی ہیں کہ اس علاقے میں کچھ مزاحمتی رہنما پاکستانی ڈرون حملہ میں مارے گئے ہیں اور یہ کہ پاکستان براہ راست اور بالواسطہ طور پر پنجشیر کے لوگوں کے خلاف طالبان کے حملوں میں ملوث تھا، سعید خطیب زادہ نے کہا کہ پنجشیر سے آنے والی خبریں پریشان کن ہیں۔ کل رات کے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ افغانستان کے رہنماؤں کی شہادت افسوسناک ہے اور آپ نے جس غیر ملکی مداخلت کا ذکر کیا ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور ہم اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی تاریخ نے ظاہر کیا ہے کہ افغانستان کے معاملات میں غیر ملکی افواج کی براہ راست اور بالواسطہ مداخلت کے نتیجے میں حملہ آور قوتوں کو شکست کے سوا کچھ نہیں ملا ، انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لوگ غیرت مند اور آزاد ہیں اور ہم کسی بھی غیر ملکی مداخلت کی مذمت کرتے ہیں۔
ایسنا نیوز ایجنسی کے مطابق سعید خطیب زادہ نے اس بات پر زور دیا کہ پنجشیر کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے اور افغان عمائدین کی ثالثی اور ان کے صلاح مشورہ کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ کسی بھی فریق کو یہ راستہ نہیں اپنانا چاہیئے جس میں افغان بھائیوں کے درمیان جنگ میں اضافہ ہو۔ طالبان کو بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ پنجشیر کے لوگ بھوک میں ہیں، ان کا پانی اور بجلی کاٹ دی گئی ہے اور پنجشیر کے لوگوں کا محاصرہ تشویش اور افسوس کا باعث ہے۔ خطے میں بین الاقوامی قانون کے تحت انسانی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ایران افغان عوام کے دکھوں کو ختم کرنے میں ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
فارس نیوز کے مطابق وزارت امور خارجہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ترجمان خطیب زادہ نے افغانستان میں پاکستان کی فوجی مداخلت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ پنجشیر سے آنے والی خبریں تشویشناک ہیں۔ کل رات کے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ افغان رہنماؤں کی شہادت انتہائی افسوسناک ہے۔ ہم غیر ملکی مداخلت پر غور کر رہے ہیں۔
ایران اور پاکستان کے وزراء خارجہ کی ٹیلیفون پر گفتگو
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیرعبداللہیان اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ٹیلیفون پرگفتگو میں افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان ایران سے تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔ایرانی وزیر حسین امیر عبداللہیان نے مربوط لائحہ عمل کے لیے پاکستانی وزیر خارجہ کی کوششوں کو سراہا۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے افغانستان کی بدلتی صورتحال پر مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ اس سے قبل ایران کےدورے کے دوران بھی ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات اور گفتگو کرچکے ہیں۔ دونوں ممالک افغانستان میں پائدار امن اور ہمہ گیر حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں کوشش کررہے ہیں ۔
انسانی زندگی میں دعا کا کردار از رہبر انقلاب
دعا ایمان کو قوی اور الہی وعدوں کو پورا کرتی ہے
دعا انسان کو خدا سے نزدیک کرتی ہے۔ معارف دینی کو انسان کے دل میں اثر انداز اور قائم رکھتی ہے۔ دعا ایمان کو قوی کرتی ہے یعنی دعا کئی زاویوں سے برکتوں اور رحمتوں کی حامل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بارہا دعا اور بندگان صالح کے ذریعے کی گئی دعاؤں سے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔ انبیائے الہی مسائل و مشکلات کے وقت خدا کی بارگاہ میں دعا کرتے تھے ۔خدا سے مدد کی التماس کرتے تھے۔ ’’فدعا ربہ انی مغلوب فانتصر‘‘ جو حضرت نوح ٴ سے منقول شدہ دعا ہے یا حضرت موسیٰ کی زبانی قرآن فرماتا ہے: ’’فدعا ربہ ان ہٰولائ قوم مجرمون‘‘ ۔
قرآن کریم میں خدا وند عالم نے متعدد آیتوں میں دعاؤں کی قبولیت اور استجابت کا وعدہ فرمایا ہے مثلاً: ’’وقال ربکم ادعونی استجب لکم‘‘ یعنی تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعاؤں کو مستجاب کروں گا ۔
اسی طرح ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ’’وسئلوا اللہ من فضلہ ان اللہ بکل شئی علیماً‘‘ یعنی اگر چہ خدا عالم ہے اور ہماری حاجتوں سے آگاہ بھی ہے مگر اس کے باوجود تم خدا سے طلب کرو۔ دعائے ابو حمزہ ثمالی میں امام سجادٴ اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں : ’’ولیس من صفاتک یا سیدی ان تامر باموال و تمنع العطیۃ‘‘ پروردگار تیری یہ صفت نہیں ہے کہ اپنے بندوں کو طلب کرنے کا حکم دے اور ان کے طلب کرنے پر انہیں عطا نہ کرے یعنی خد اکے کرم اور اس کی قدرت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ کہتا ہے کہ مجھ سے طلب کروتو در حقیقت اس نے ارادہ کر لیا ہے کہ استجابت بھی کرے۔
’’واذا سئلک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان‘‘ ۔یعنی جب بھی میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو اے پیغمبر آپ کہدیجئے کہ میں ان کے قریب ہی ہوں ان کی دعاؤں کو سنتا اور استجاب کرتا ہوں۔
دعا کی قبولیت کی شرط
اگر کوئی شخص خدا سے کچھ طلب کرتا ہے تو فوراً اس کو حاصل ہو جاتا ہے: ’’بکل مسئلۃ منک سمع حاضر و جواب عتید‘‘ یہ خدا کا قطعی اور سچا وعدہ ہے یعنی خدا ہر طلب و دعا کا جواب دیتا ہے لیکن اس وعدے کے ساتھ کچھ شرائط بھی ہیں جن میں سے ایک عمل صالح ہے: ’’من عمل صالحاً فلنفسہ و من اساء فعلیہ‘‘ ۔
ہدف تک پہنچنے کا قرآنی اصول
قرآن مجید میں خدا نے اپنے بندوں سے جا بجا وعدے فرمائے ہیں۔ مثلاً: ’’انا لا نضیع اجر من احسن عملاً‘‘ یعنی جو شخص کار خیر انجام دیتا ہے خدا اس کی جزا اور اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے۔ ایک جگہ فرماتا ہے: ’’من کان یرید العاجلۃ عجلنا لہ فیھا ما نشاء لمن یرید‘‘ یعنی کوئی انسان دنیا کو اپنا ہدف بنا لے تو ہم اس کے ہدف تک رسائی میں اس کی مدد کرتے ہیں لیکن کب ؟ جب وہ کوشش کرے ، جستجو کرے اقدام کرے اور آگے بڑھے ۔ اس کے بعد فرماتا ہے: ’’و من اراد الآخرۃ و سعی لھا سعیھا و ہو مومن فاولئک کا ن سعیہم مشکوراً‘‘ اس آیت میں فرماتا ہے کہ جو لوگ آخرت کی خواہش کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں سعی و کوشش کرتے ہیں ہم ان کی بھی مدد کرتے ہیں۔
ایک آیت میں دنیا کا تذکرہ ہے اور دوسری میں آخرت کا اور دونوں میں شرط یہ ہے کہ سعی و کوشش کی جائے۔ اگر انسان سعی و کوشش کرے تو خدا وند عالم یقینا اسے اس کے مقصد تک پہنچاتا ہے۔ یہ سنت الہی ہے۔ خدا کسی کی بھی زحمتوں اور کوششوں کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔
کتاب: اخلا ق و معنویت، رہبر معظم سید علی خامنہ ای سے اقتباس
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی پیر المپک کارواں کا شکریہ ادا کیا
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ایک پیغام میں ٹوکیو میں پیر المپک مقابلوں میں ایرانی کارواں کی شاندار کارکردگی پر شکریہ ادا کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں فرمایا: میں ایرانی عوام کو خوشحال کرنے پر پیرالمپک کاررواں کا دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
واضح رہے کہ جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں پیر المپک مقابلوں میں ایرانی کارواں نے شاندار کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 24 تمغے حاصل کئے ہیں جن میں ایک کانسی کا تمغہ ، 12 سونے کے تمغے اور 11 چاندی کے تمغے شامل ہیں۔
مذاکرات میں دباؤ کو قبول نہیں کریں گے/ افغانستان سمیت ہمسایہ ممالک کی سلامتی ایران کی سلامتی ہے
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے ایرانی ٹی وی کے چینل ایک کے ذریعہ عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مذاکرات کے حامی اور طرفدار ہیں لیکن مذاکرات میں دباؤ اور دھمکیوں کو قبول نہیں کریں گے۔
صدر رئیسی نے کورونا وائرس کو ملک کا سب سے اہم مسئلہ قراردیتے ہوئے کہا کہ عوام کی سلامتی اہم ہے اور کورونا وائرس کو مہار کرنے کے لئےہم نے کورونا ویکسین کی بڑی مقدار باہر سے خرید لی ہے۔
ایرانی صدر نے اپنے انتخاباتی وعدوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سال میں ایک ملین گھروں کی تعمیر کا پروگرام مکمل کیا جائے گا اور کرپشن کے خلاف بھی تمام اداروں کو ضروری اقدامات کی ہدایت کردی گئي ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں عوام کے ساتھ سچ بولنا چاہیے، حکام کو صادق الوعد ہونا چاہیے۔ جہاں مشکل ہوگی عوام کو آگاہ کردیا جائےگا۔
صدر رئیسی نے کہا کہ ہم حال یا مستقبل کی زبان میں عوام سے بات نہیں کریں گے بلکہ ماضی کی زبان میں عوام سے بات کریں گے کہ ہم نے فلاں کام انجام دیدیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عوام کا اعتماد بہت بڑا سرمایہ ہے اور ہمیں اس عظیم سرمایہ کی بھر پور انداز میں حفاظت کرنی چاہیے۔
صدر رئيسی نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار امریکہ کو قراردیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے جہاں بھی قدم رکھا وہاں اس نے تباہی مچائی ہے افغانستان میں بھی امریکہ نے تباءي مچآئی ہے جو عالمی برادری کے سامنے ہے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کی حکومت کو عوامی ارادوں پر مشتمل ہونا چاہیے اور جو بھی حکومت عوامی ارادوں پر مشتمل ہوگی ہم اسے قبول کریں گے اور اس کے ساتھ تعاون کریں گے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ افغانستان کی سلامتی ایران کی سلامتی ہے ایران اپنے تمام ہمسایہ ممالک کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتا ہے۔
جہادِ سید ِ سجاد (ع)
بنی امیہ نے جب حکومت ہاتھ میں لی تو میڈیا سے بہت فائدہ اٹھا یا اور شام میں پوری پروپیگنڈہ مشینری کو حکومت اسلامی کے حقیقی وارثوں کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف کردیا ، درباری محدثین ،مورخین، علمائ، خطبائ ،شعرأ وغیرہ کی خدمات حاصل کی جانے لگیں اور شامیوں کو یہ باور کرادیا کہ حکومت اسلامی کے حقیقی وارث بنی امیہ ہی ہیں ،بنی امیہ کی اس پروپیگنڈہ مشینری میں سب سے زیادہ خطرناک عنصر حدیثیں گھڑنے والوں کا تھا ،حدیثیں گھڑنے والوں نے تو پیسے کے لالچ میں اسلام ہی کو تہہ و بالا کرڈالا، بہت سے درباری محدثین تھے جنھوں نے بنی امیہ کے سکوںکے لالچ میں اسلام محمدی (ص) کا چہرہ ہی مسخ کرڈالا، جس کی مثالوں سے کتابیں بھری ہوئی ہیں ، بنی امیہ کے ذریعہ اہل بیت (ع) کے خلاف قائم کردہ اس ماحول میں امام حسین (ع)کی شہادت، اسلامی معاشرے کے لئے اتنی موثر نہ ہوتی اگراپنی شہادت کے بعد امام حسین (ع)نے اپنے مقصد کی تبلیغ اور بنی امیہ کے پروپیگنڈے کو بے اثر کرنے کی ذمہ داری امام زین العابدین (ع) اور جناب زینب (ع) کے سپرد نہ کی ہوتی اور آپ کا مقصد عورتوں اور بچوں کو کربلا میںساتھ لانے کا یہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ جب آپ (ع) بنی امیہ کی فاسد حکومت پر کاری ضرب لگائیں تو امام زین العابدین (ع) اور جناب زینب (ع) شہر شہر ،قریہ قریہ امام حسین (ع) کی فکر اور ان کے مقصد شہادت کو عام کردیں اور بنی امیہ کی پروپیگنڈہ مشینری کو ناکام بنادیں ،اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ منصوبۂ کربلا میں امام زین العابدین (ع) کا بہت اہم کردار ہے ،اگر بعد شہادت امام حسین (ع) ،حضرت امام زین العابدین (ع) نے یہ جہاد نہ کیا ہوتا تو کربلا میں شہدا کی دی گئی عظیم قربانیاں رائیگاں چلی جاتیں ،جہاد کی کئی قسمیں ہیں جن میں جہاد بالنفس کا مقام سب سے بالا ہے اور جہاد بالسیف یا اسلحے سے جہاد کرنے کی منزل سب سے آخر میں ہوتی ہے اس بیچ جہاد باللسان یعنی زبان سے جہاد اور جہاد بالقلم کی بڑی اہمیت ہے ،
کربلا میں جب امام حسین (ع) اور آپ کے اعزا و انصار شہید ہوچکے تو بنی امیہ نے امام زین العابدین (ع) کو قیدی بناکر ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں لیکن ہتھکڑیاں ڈال کرتلوار کا جہاد ہی روکا جاسکتاتھا ،
یزیدیوں کے بس میں یہ ہرگز نہ تھا کہ امام زین العابدین (ع) کو زبان کے ذریعہ جہادکرنے سے روک سکیں، لہٰذا امام زین العابدین (ع) نے ہر گام پر زبان سے ایسا جہاد کیا جس سے بنی امیہ کی 30 سالہ سلطنت شاہی میں زلزلہ آگیا ،امام کو لٹے ہوئے قافلے کے ہمراہ جب ابن زیاد کے دربار میں پیش کیا گیا تو ابن زیاد نے غرور و نخوت بھرے لہجے میں امام (ع) سے کہا کہ :تم کون ہو؟ امام نے جواب دیا میں علی بن الحسین (ع) ہوں،ابن زیاد نے کہا کہ کیا خدا نے علی بن الحسین (ع)کو قتل نہیں کیا؟امام سجاد (ع) نے جواب دیا : کہ میرے بھائی بھی علی بن الحسین ﴿علی اکبر (ع)﴾ تھے جنہیں لوگوں نے قتل کردیا ،ابن زیاد پھرکہتاہے کہ علی بن الحسین (ع)﴿ علی اکبر (ع) ﴾ کوخدا نے قتل کیا ہے ،
امام (ع) نے جواب میں قرآن مجید کے سورۂ زمرکی آیت 42کی تلاوت فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ:’’خدا ہی لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں ﴿اپنی طرف ﴾ کھینچ بلاتا ہے .‘‘ قیدی ہونے کے باوجودامام زین العابدین (ع) نے ابن زیاد کے دربار میں بنی امیہ کی بساط الٹ دی ،اوربنی امیہ کے بزرگوں کے اس نظریئے کو مردود قرار دے دیا جس کو ڈھال بناکر بنی امیہ اپنے حریفوں پر ظلم کیا کرتے تھے، بنی امیہ کے ایک بزرگ کا نظریہ تھا کہ خیر و شر اللہ کی طرف سے ہوتا ہے ،بندہ مختار نہیں ہے لوگوں کی قتل و غارت گری کے لئے بھیجاگیا بنی امیہ کے ایک بزرگ کا قریبی سپاہی ’’بسر بن ارطاۃ ‘‘جب دل کھول کرلوگوں کو قتل کرچکا توان بزرگ کو اس کی رپورٹ پیش کی کہ میں نے کس بے دردی سے لوگوں کو قتل کیا ہے،توبنی امیہ کے بزرگ نے سن کر کہا کہ :اے بسر ! یہ مظالم تونے نہیں بلکہ اللہ نے انجام دیئے ہیں﴿شرح نہج البلاغہ ،شارح سنی دانشور ابن ابی الحدید ،جلد ۲، صفحہ 17 ،ناشر دار احیائ التراث العربی، بیروت لبنان﴾اسی نظریہ کو ابن زیاد بھی اپنے دربار میں چوتھے امام کے سامنے دہرا رہا ہے لیکن امام نے قرآن مجید کی روشنی میںاس نظریئے کی ہمیشہ کے لئے بھرے دربار میںتردید کردی ،جس کو سن کر ابن زیاد تلملا کر رہ گیا ،ابن زیاد نے یزید کے حکم پرامام سجاد(ع) کو اس قافلے کے ہمراہ شام کے لئے روانہ کردیا ،اہل شام صرف بنی امیہ کو اسلام کے حقیقی وارث کے طور پر پہچانتے تھے اور اس میں بنی امیہ کے پروپیگنڈے کا بڑا ہاتھ تھا اسی لئے جب اہل بیت(ع) کا قافلہ شام میں داخل ہوا تو ایک شامی امام زین العابدین (ع) کے قریب آیا اور کہنے لگا: ’’خدا کا شکر ہے جس نے تمہیں ہلاک کیا اور امیر﴿یزید﴾ کو تم پر فتح دی‘‘امام زین العابدین (ع)سمجھ گئے کہ اس پر بنی امیہ کا رنگ چڑھ گیا ہے آپ نے شامی سے فرمایا کہ : کیا تونے قرآن پڑھا ہے؟اس شخص نے جواب دیا :ہاں پڑھا ہے،امام (ع) نے فرمایا کہ کیا یہ آیت بھی پڑھی ہے: ’’اے رسول(ص)! تم کہہ دو کہ میں اس تبلیغ رسالت کا اپنے قرابتداروں ﴿اہل بیت (ع)﴾کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا ﴿سورۂ شوریٰ ،آیت 23﴾
شامی نے کہا کہ ہاںپڑھی ہے ،امام (ع) نے فرمایا کہ اس آیت میں قربیٰ سے مراد ہم ہی تو ہیں،پھر امام (ع) نے سوال کیا کہ یہ آیت بھی پڑھی ہے کہ: اے رسول (ص)! اپنے قرابتدار کاحق دے دو﴿سورۂ روم ،آیت۸۳و سورۂ اسرأ ،آیت ۶۲﴾؟ شامی نے جواب دیا ہاں ،امام (ع) نے فرمایا کہ وہ قرابتدار ہم ہی تو ہیں، امام (ع) نے پھر سوال کیا کہ یہ آیت پڑھی ہے کہ ’’اورجان لوکہ جو کچھ تم غنیمت حاصل کرو اس میں پانچواں حصہ مخصوص خدا اور رسول (ص) اور رسول (ص) کے قرابتداروں .کا ہے‘ ‘ ﴿سورۂ انفال، آیت 41﴾
شامی نے کہاہاں،پڑھی ہے، امام (ع) نے فرمایا وہ قرابتدار ہم ہی تو ہیں،امام (ع) نے پھر سوال کیا کہ یہ آیت پڑھی ہے ’’اے پیغمبر (ص) کے اہل بیت (ع) خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے﴿سورۂ احزاب ، آیت ۳۳﴾شامی نے کہا ہاں ، امام (ع) نے فرمایا وہ اہل بیت (ع) ہم ہی تو ہیں،بوڑھے شامی نے کہا: خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، آپ جو کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں، امام (ع) نے فرمایا:خدا کی قسم ہم ہی وہ ﴿قرابتدار﴾ ہیں ،اپنے جد رسول خدا (ص) کے حق کی قسم ہم ہی وہ ﴿اہل بیت (ع) ﴾ ہیں ، شامی گریہ کرنے لگا اور اپنا سر و سینہ پیٹتے ہوئے سر آسمان کی طرف بلند کرکے کہنے لگا:پروردگار ! میں آل محمد (ص) کے دشمنوں سے بیزار ہوں،اس موقع پر تلوار بھی وہ کام نہ کرتی جو امام (ع) کی زبان مبارک نے کردیا ،کیونکہ اگر تلوار سے اس شامی کو قتل بھی کردیا جاتا تو وہ صرف ایک شخص کا قتل ہوتا ،لیکن شامی کے توبہ کرلینے سے اس تحریک پر ضرب پڑی جس کو چلانے کے لئے بنی امیہ نے خزانوں کے منھ کھول رکھے تھے بہر حال امام زین العابدین (ع) میر کارواں بن کر یزید کے دربار میں وارد ہوئے اور یزید فتح کے نشے میں چور تخت پر بیٹھا ہوا تھا ،یزید نے درباری خطیب کو تقریر کرنے کا حکم دیا تاکہ امام زین العابدین (ع) کی موجودگی میں آپ کے والد گرامی اور دادا حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کی شان میں گستاخی کرے اور امام کو دربار میں نیچا دکھائے ،خطیب منبر پر گیا اور وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو یزید چاہتا تھا ،امام نے درباری خطیب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ: ’’تجھ پر وائے ہو کہ تونے خلق ﴿لوگوں﴾کی خوشنودی کو خالق ﴿اللہ﴾ کی ناراضگی کے عوض خرید لیا اور اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالیا ، بھرے دربار میں اک قیدی سے اپنے بارے میں جہنمی ہونے کا اعلان جب اس درباری خطیب نے سنا ہوگا تو کتنی رسوائی ہوئی ہوگی ؟جب یہ درباری خطیب منبر سے اتر آیا تو امام نے اپنے لئے بھی منبر پر جانے کے لئے یزید سے اجازت چاہی یزید نے چار و ناچار امام زین العابدین (ع) کو اجازت دے دی یہی وہ موقع تھا کہ امام (ع)کو زبان کے ذریعہ جہاد کرکے بنی امیہ کے طرز فکر پر کاری ضرب لگانی تھی ،آپ (ع) نے حمد و ثنا کے بعد لوگوں کے سامنے اپنا تعارف کرایا اور لوگوں کے ذہنوں سے بنی امیہ کا پروپیگنڈہ دھو ڈالا اور لوگوں کو اچھی طرح باور کرادیا کہ ہم نے حکومت ِاسلامی یا خلیفہ ٔ رسول پر خروج نہیں کیا ہے بلکہ یہ حکومت و خلافت ہمارا حق تھا جس پر یزید ناحق بیٹھا ہے اور اس نے ہمارا پورا گھر تباہ کرڈالااور پھر آپ نے بنی امیہ کے شجرۂ ملعونہ کو بھی لوگوں کے سامنے بیان کیا ،دربار میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں حتی کہ بعض افراد کے گریہ کی آوازیں بھی بلند ہونے لگیں ،یزید کو محسوس ہوا کہ وہ یہ مورچہ بھی ہار چکا ہے لہٰذا اُس نے امام زین العابدین (ع) کو خاموش کرنے کے لئے بے وقت اذان کہلوادی ،اگر چہ یزید اذان کے ذریعہ امام زین العابدین (ع) کو خاموش کرنا چاہتا تھا ،اذان کے احترام میں امام (ع) خاموش بھی ہوگئے لیکن جیسے ہی موذن نے ’’اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدُ الرَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘کہا امام (ع) نے موذن کو روک دیا اور بھرے دربار میں یزید سے سوال کرلیا کہ :بتا !محمد رسول اللہ (ص) تیرے جد ہیں یا میرے ؟ یزید کے پاس امام زین العابدین (ع) کے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا ،درباری سمجھ چکے تھے کہ یزید نے حکومت کے باغیوں کو نہیں بلکہ اولاد رسول (ص)کو قتل کرڈالا ،یزید کی مخالفت اور نفرت کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوگیا ،امام زین العابدین (ع)اپنے بہترین جہاد میں کامیاب ہوگئے ،کیونکہ اہل بیت (ع) کی اسیری اور جناب زینب (ع) اورامام زین العابدین (ع) کے خطبوں کے ذریعہ کربلا ،کوفہ اور شام اور ان کے راستوں میں آنے والی آبادیوں کے مکینوں کو معلوم ہوچکا تھا کہ یزید نے ناحق اہل بیت (ع) رسول (ص) کوستایا ہے جس کی وجہ سے مملکت اسلامی میں لوگ بنی امیہ کو خائن اور ظالم سمجھنے لگے اور بنی امیہ کی فکر کو برا سمجھا جانے لگا ،یہ امام زین العابدین (ع) کے جہاد کا ہی اثر ہے کہ آج بھی ہر انسان یزید ی فکر سے نفرت کرتا ہے...
مؤلف: پیغمبر نوگانوی ذرائع: WWW.FAZAEL.COM
ایران اور بھارتی وزراء خارجہ کی ٹیلیفون پر گفتگو
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے بھارتی وزير خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہے۔ ایران اور بھارت کے وزراء خارجہ نے دو طرفہ تعلقات اور عالمی امور کے بارے میں بات چیت کی۔ اس گفتگو میں بھارتی وزير خارجہ نے ایک بار پھر ایرانی وزیر خارجہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے دونون ممالک کے تعلقات کو فروغ دینے پر تاکید کی۔ بھارتی وزیر خارجہ نے ایرانی وزیر خارجہ کو دورہ ہندوستان کی دعوت بھی دی۔ دونوں ممالک کے وزراء خارجہ نے افغانستان کی صورت حال کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا اور اس سلسلے میں باہمی مشاورت کو جاری کرھنے پر تاکید کی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے ایران اور ہندوستان کے درمیان تجارت کو فروغ دینے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ چاہ بہار منصوبہ پر بھی جلد از جلد عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
کشمیری حریت رہنماء سید علی گیلانی انتقال کرگئے
تحریک آزادی کشمیر کی توانا آواز سمجھے جانے والے حریت رہنماء سید علی گیلانی 92 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق حریت کانفرنس کے سابق ترجمان شیخ عبدالمتین نے سید علی گیلانی کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے بانی رہنماء اب ہم میں نہیں رہے۔ وہ آج شام اپنے گھر میں رحلت پاگئے ہیں۔ قابض بھارتی فوج نے سید علی گیلانی کو گذشتہ 12 برس سے سرینگر میں گھر میں مسلسل نظر بند کر رکھا تھا، جس کی وجہ سے ان کی صحت انتہائی گر چکی تھی۔ 29 ستمبر 1929ء کو پیدا ہونے والے سید علی گیلانی تحریک حریت جموں کشمیر اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین بھی رہے۔ وہ 3 مرتبہ جموں اور کشمیر کے حلقے سے کشمیر اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔
حزب اللہ لبنان کی نئی حکمت عملی اور اقتصادی میدان میں مزاحمت کا آغاز
ایک سال پہلے لبنان کی بندرگاہ پر شدید اور تباہ کن دھماکے کے بعد سے اب تک اس ملک میں رونما ہونے والے واقعات کا جائزہ لینے سے یوں دکھائی دیتا ہے کہ بعض واضح اور خفیہ ہاتھ لبنان میں اقتصادی اور سماجی بحران ایجاد کرنے کیلئے باہمی تعاون میں مصروف ہیں۔ لبنان کے قومی مفادات کے خلاف جاری ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہر کسی میں نہیں اور جن محدود گروہوں میں یہ طاقت پائی جاتی ہے ان میں حزب اللہ لبنان کا نام سرفہرست ہے۔ حزب اللہ لبنان ملک کی سب سے زیادہ طاقتور اور اثرورسوخ کی حامل جماعت ہونے کے ناطے ان سازشوں کا بخوبی مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر امریکہ، یورپی ممالک اور سعودی عرب سمیت خطے میں ان کے پٹھو ممالک نے لبنانی عوام کے خلاف شدید ظالمانہ پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
لبنان کے خلاف ایسے اقتصادی اقدامات کا مقصد لبنان کی عوام، سیاسی رہنماوں نیز سیاسی جماعتوں کو مغرب نواز سیاسی رہنما سعد حریری کو وزارت عظمی کے عہدے پر فائز کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ لیکن لبنانی عوام کے ساتھ ساتھ اس ملک کی پارلیمنٹ اور صدر مائیکل عون نے بھی اس بارے میں اپنی مخالفت کا کھل کر اظہار کیا اور یوں ملک دشمن قوتوں سے سازباز کرنے سے انکار کر دیا۔ لبنان کی قومی آمدن کا بڑا حصہ سیروسیاحت کی صنعت سے حاصل ہوتا ہے۔ گذشتہ دو برس سے کرونا وائرس کے پھیلاو کے پیش نظر یہ صنعت دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ہی ماند پڑ چکی ہے۔ لہذا لبنان ان سالوں میں شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہو چکا ہے۔ ایسے حالات میں لبنان کے کچھ ریاستی اداروں میں بیٹھے مغرب کے مہرے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔
ان مغرب نواز مہروں میں سے ایک اسٹیٹ بینک کے گورنر ہیں۔ انہوں نے مغربی طاقتوں کے اشارے پر زر مبادلہ کے ذخائر ملک سے خارج کر دیے جس کے باعث لبنانی عوام مزید معیشتی دباو کا شکار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف گذشتہ کافی عرصے سے لبنان میں پیٹرول اور ڈیزل کی کمی پائی جاتی تھی جبکہ اسٹیٹ بینک کے گورنر نے ایندھن پر سبسڈی کا بھی خاتمہ کر دیا اور یوں اس کی قیمت آسمان کو چھونے لگی۔ ایک بڑی تعداد میں مفاد پرست عناصر نے پیٹرول اور ڈیزل کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی اور انتہائی مہنگے داموں عوام کو بیچنا شروع کر دیا۔ ایسے حالات میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اسلامی جمہوریہ ایران سے پیٹرول اور ڈیزل خریدنے کا اعلان کر دیا۔
چونکہ حزب اللہ لبنان دنیا کے مختلف حصوں میں اقتصادی اثرورسوخ کی حامل ہے اور اس کے پاس عالمی سطح پر اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے کیلئے کافی حد تک وسائل بھی موجود ہیں لہذا اس کا یہ فیصلہ کارگر ثابت ہوا۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران چونکہ خود بھی عرصہ دراز سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی ظالمانہ اقتصادی پابندیوں سے روبرو ہے لہذا اس نے لبنانی عوام سے ہمدردی کرتے ہوئے فوراً اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا۔ یوں حزب اللہ لبنان نے اپنی تاجر برادری کی مدد سے ایران سے پیٹرول اور ڈیزل خریدنا شروع کر دیا۔ حزب اللہ لبنان کے اس اقدام نے سعدی حریری سمیت مغرب نواز حلقے میں شدید غصے اور بغض کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ حلقے لبنان کی سیاست اور اقتصاد کو بیرونی قوتوں سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں۔
لبنان میں مغربی طاقتوں کے پٹھو حلقوں نے حزب اللہ اور ایران کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کر دیا اور عوام کو ان دونوں سے بدظن کرنے کی کوشش کی لیکن لبنانی عوام نے ان پر کوئی توجہ نہ دی۔ اسی طرح انہوں نے میڈیا پر بھی ایران اور حزب اللہ کے خلاف منفی فضا بنانے کی کوشش کی ہے۔ البتہ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے فوری طور پر پیٹرول اور ڈیزل کے آئل ٹینکر لبنان کی جانب روانہ کر دینے کی وجہ سے یہ کوشش بھی ناکامی کا شکار ہو چکی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کا یہ شجاعانہ فیصلہ اور اقدام لبنان کی سیاسی اور سکیورٹی فضا میں حزب اللہ کی برتری کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح اس اقدام نے ثابت کر دیا ہے کہ حزب اللہ لبنان سکیورٹی میدان میں مزاحمت کے ساتھ ساتھ اقتصادی مزاحمت کے مرحلے میں بھی داخل ہو چکی ہے۔
حزب اللہ لبنان کی نئی حکمت عملی اس وقت سامنے آئی جب اس کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے ایران سے لبنان کیلئے پیٹرول اور ڈیزل لانے والے آئل ٹینکرز کو لبنانی سرزمین کا حصہ قرار دیا اور اس پر کسی بھی ممکنہ حملے کا منہ توڑ اور موثر جواب دینے کی وارننگ دی۔ انہوں نے ان آئل ٹینکرز پر ہر قسم کی جارحیت کو لبنانی قوم اور حزب اللہ کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف قرار دیا اور شدید نتائج کی دھمکی دی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی بندرگاہوں سے پیٹرول اور ڈیزل کے حامل آئل ٹینکرز لبنان کی جانب روانہ ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ بعض آئل ٹینکرز شام کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ یوں علاقائی سطح پر حزب اللہ لبنان نے ملک کے اقتصادی مفادات کے دفاع کا بھی آغاز کر دیا ہے۔
تحریر: سید رضا صدر الحسینی