سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صدر ابراہیم رئیسی اور ان کی کابینہ کے ارکان کے ساتھ ملاقات میں عقلانیت کے ہمراہ انقلابی ہونے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا عوام کی خدمت کے سلسلے میں ہمت سے کام لیں اور انقلاب کی تعمیر اور فروغ کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں اقتصادی مسائل اور عوام کو درپیش مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام کے اندر اعتماد اور امید بحال کرنے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کے نفاذ اور کرپشن کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں توجہ مبذول کرنی چاہئے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں امریکہ کو سفارتی میدان میں وحشی اور خونخوار بھیڑیا قرار دیا اور افغانستان کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ افغانستان کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہے اور عالمی حکومتوں کے ساتھ ایران کے تعلقات ان کی رفتار پر منحصر ہوتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہید رجائی اور شہید باہنر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا ان دو بزرگواروں کی خدمت کی مدت اگر چہ بہت کم تھی لیکن انہوں نے اسی کم مدت میں ثابت کردیا کے وہ خلوص اور خدمت کی غرض سے میدان میں آئے ہیں اور انہوں عوامی اور مجاہدانہ طریقوں سے استفادہ کیا جو تمام حکام کے لئے نمونہ عمل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صدر اور کابینہ کے ارکان کو مالک اشتر کے نام حضرت علی علیہ السلام کے اہم فرمان کا غور سے مطالعہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: حضرت علی کی اس تاریخی فرمان میں مختلف پہلو موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ عوام اور حکام کے درمیان دوستانہ اور برادرانہ رابطہ اسلام کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عدل و انصاف کے نفاذ اور مالی بد عنوانیوں کا مقابلہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عوام کا اعتماد حکومت کے لئے بہت بڑا سرمایہ ہے اور اس سرمایے کی حفاظت کرنی چاہئے، عوام کو دیے گئے وعدوں پر عمل کرنا چاہئے اور اگر کسی وعدے پر عمل ممکن نہ ہو تو عوام سے جلدی معذرت طلب کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصاد اور تجارت کے فروغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ایران کو اپنے 15 ہمسایہ ممالک اور دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے پر اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے اور تجارتی مسئلے کو ایٹمی مسئلے سے نہیں جوڑنا چاہئے چونکہ ایٹمی مسئلہ ایک الگ موضوع ہے جسے مناسب اور قابل قبول شکل میں حل کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مشترکہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے خارج ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ نے مشترکہ ایٹمی معاہدے میں کئے گئے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا اور سب کے سامنے مشترکہ ایٹمی معاہدے سے خارج ہوگیا جبکہ یورپی ممالک نے بھی مشترکہ ایٹمی معاہدے میں کئے گئے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکہ کی موجودہ حکومت اور سابقہ حکومت میں کوئی فرق نہیں کیونکہ ایران کے ساتھ دونوں کی عداوت اور دشمنی سب کے سامنے نمایاں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے افغانستان کو ایران کا ہمسایہ اور برادر ملک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ افغانستان کے عوام کی تمام مشکلات کا ذمہ دار امریکہ ہے کیونکہ امریکہ نے 20 سال تک اس ملک میں افغان عوام کے ساتھ ظلم و ستم روا رکھا ہے اور 20 سال کے بعد ذلت آمیز طریقے سے افغانستان سے خارج ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ماضی کی طرح افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زاده نے آج کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللهیان ایک اعلی سطحی وفد کے ہمراہ عراق کے دورے پر روانہ ہوئے۔

ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے دورہ عراق پر روانگی سے قبل کہا کہ ہم عراقی حکام کی جانب سے خطے کی صورتحال کے حوالے سے ہر قسم کی جدت عمل کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

حسین امیرعبداللهیان کا کہنا تھا کہ خطے میں پائیدار امن و سلامتی کیل‏ئے شام کے اعلی حکام سے ہمارے رابطے ہیں۔ انہوں نے بغداد اجلاس اور اسی طرح علاقائی سطح پر ہر قسم کی جدت عمل اور دمشق کے ساتھ براہ راست صلاح مشورے کیلئے علاقائی ممالک کے کردار پر تاکید کی۔

ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ عراق کے ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے شام کو بھی بغداد اجلاس میں شرکت کی دعوت دینی چاہئیے تھی۔

اخلاق اسلامی کے دو اصلی منابع یعنی قرآن کریم اور روایات میں ایمان کی اہمیت اور اس کے مرتبہ کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاتاہے۔

اسلامی اخلاق میں ایمان کی تاثیر


اخلاق اسلامی میں ''ایمان'' ہدایت کرنے والی سب سے زیادہ اہم نفسانی صفت کے عنوان سے بہت زیادہ مقبول ہے اور اس پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اسی وجہ سے علم ویقین کی طرح اس کے مبادی اور مقدمات کو حاصل کرنے کے لئے ترغیب و تشویق سے کام لیا گیا ہے اور اسلام کے اخلاقی نظام میں اُن ذرائع اور طریقوں کی خاص اہمیت ہے جو انسان کوان نفسانی صفات تک پہنچاتے ہیں۔ جیسے پسندیدہ فکر، خاطرات وخیالات اور الہامات۔ نفسانی صفات کے سامنے ایسے موانع اور رکاوٹیں ہیں جو انسان کو باایمان ہونے سے روکتی ہیں جیسے جہل بسیط یا مرکب، شک اورحیرت، مکاری اور فریب کاری، ناپسندیدہ نفسانی خیالات اور شیطانی وسوسہ وغیرہ۔ اِن سب کی ہمیشہ سے مذمت ہوئی ہے اوران سے روکا گیاہے۔
ایمان کی حقیقت اور اس کی شرطوں کے سلسلہ میں زمانۂ قدیم سے الٰہی مکاتب کے پیرؤوں خاص طور سے مسلمان متکلمین کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری ہے ۔
اخلاق اسلامی کے دو اصلی منابع یعنی قرآن کریم اور روایات میں ایمان کی اہمیت اور اس کے مرتبہ کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاتاہے۔
١۔ایمان کی اہمیت
ایمان کے بلند مقام ومنزلت کو بیان کرنے کے لئے یہ حدیث کفایت کرے گی کہ پیغمبر ۖنے اپنی نصیحتوں میں جناب ابوذر سے فرمایا:
''اے ابوذر !خداوندمتعال کے نزدیک اس پر ایمان رکھنے سے اور ان چیزوں سے پرہیز کرنے سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے جن چیزوں سے منع کرتا ہے ''۔
یہ بات واضح ہے کہ خدا کے ذریعہ منع کی گئی چیزوں سے پرہیز، صرف اس پر ایمان کے سایہ میں ممکن ہے اور حقیقت میں یہ ایمان کی برکتوں میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:
''خداوند متعال دنیا کو، اُن لوگوں کے واسطے بھی قرار دیتا ہے جن کو دوست رکھتا ہے اور اُن لوگوں کے واسطے بھی جن پر غضبناک ہے لیکن ایمان نہیں دیتا مگر اُن لوگوں کو جنہیں دوست رکھتا ہے ''۔
حضرت امام جعفر صادق(ع) مومن کے مقام ومنزلت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''جب بھی لوگوں کی آنکھوں سے پردہ ہٹ جائے گا اور وہ لوگ خدا اور بندۂ مومن کے درمیان وصال ورابطہ پر نظر کریں گے اس وقت اُن کی گردنیں مومنین کے سامنے جھک جائیں گی، مومنین کے امور اُن کے لئے آسان ہوجائیں گے اور اُن کے لئے مومنین کی اطاعت کرنا سہل اور آسان ہوجائے گا''۔
یہ تمام بلند درجات جو روایتوں میں ایمان کے لئے بیان ہوئے ہیں اس اثر کی وجہ سے ہیں جو ایمان انسان کے کما ل اورسعادت میں رکھتا ہے۔ ایمان ایک طرف خلیفۂ الٰہی کی منزلت پانے کے لئے سب سے آخری کڑی اور قرب معنوی کا وسیلہ ہے اور دوسری طرف قرآن وروایات کے مطابق تمام پسندیدہ نفسانی صفات اور عملی نیکیوں کے لئے مبدأ اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
٢ ۔ ایمان کی ماہیت
اگرچہ ایمان کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں مسلمان متکلمین کے درمیان اختلاف نظر پایاجاتاہے پھر بھی اُس کی اہم خصوصیتیں یہ ہیں:
ایک۔ ایمان وہ قلبی یقین، تصدیق اور اقرار ہے جو ایک طرف سے کسی امر کی نسبت نفسانی صفت اور حالت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے خالص شناخت اور معرفت سے فرق رکھتا ہے۔
دو۔ ایمان کے محقق ہونے کی جگہ نفس اور قلب ہے اور اگرچہ اس کا قولی اور فعلی اثر ہے لیکن اس کا محقق ہونا قول یا عمل پر منحصر نہیں ہے۔
تین۔ اسلام اور ایمان کے درمیان کی نسبت عام وخاص مطلق جیسی ہے یعنی ہر مومن مسلمان ہے لیکن ممکن ہے بعض مسلمان صرف ظاہر میں حق کو تسلیم کئے ہوں۔
٣ ۔ایمان کے اقسام اوردرجات
اوّلاً: ایک قسم کے لحاظ سے ایمان کی دو قسمیں ہیں: ''مستقر''اور'' مستودع''( مستودع یعنی وہ ایمان جو عاریت اور امانت کے طور پر لیا گیا ہو)۔
قرآن کریم میںارشاد ہورہاہے:
''وہ وہی ہے جس نے تم کو ایک بدن سے پیدا کیا ہے۔ پھر تمہارے لئے قرارگاہ اورامانت کی جگہ مقرر کردی۔ بے شک ہم نے اپنی نشانیوں کو اہل بصیرت اور سمجھدار لوگوں کے لئے واضح طور سے بیان کردی ہیں''۔
حضرت امام موسیٰ کاظم(ع) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
''مستقر ایمان وہ ایمان ہے جو قیامت تک ثابت وپائدار ہے اور مستودع ایمان وہ ایمان ہے جسے خداوند موت سے پہلے انسان سے لے لے گا۔
حضرت علی ـ ایمان کی قسموں کے بارے میں فرماتے ہیں:
''کچھ ایمان دل کے اندر ثابت ہوتے ہیں اور کچھ، دل اور سینہ کے درمیان، مرتے وقت تک بطور عاریت اور ناپائدار ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی سے بیزار ہو تو اتنی دیر انتظار کرو کہ اس کی موت آجائے۔ اس وقت میں اس سے بیزار ہونا بر محل ہوگا۔
ثانیاً: ایمان کی حقیقت کے مراتب اور درجات ہیں اور اس میں نقصان اورکمی کا بھی امکان ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نے اس حقیقت پر تاکید کرنے کے علاوہ ایمان کو زیادہ کرنے یا اس کے کم ہونے کے اسباب کو بھی کثرت سے بیان کیا ہے، منجملہ ان کے قرآن کریم میں آیا ہے:
''مومنین وہی لوگ ہیں جن کے دل اس وقت ڈرنے اور لرزنے لگتے ہیں جب خدا کا ذکر ہوتا ہے اور جب اُن پر اس کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تواُن کاایمان زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں ''۔
حضرت امام جعفر صادق(ع) نے اپنے ایک شیعہ سے فرمایا:
''اے عبدالعزیز! حقیقت یہ ہے کہ ایمان کے دس درجے ہیں سیڑھی کی طرح کہ اسے زینہ بہ زینہ طے کرنا چاہئے اور بلندی پر پہنچنا چاہئے۔ لہٰذا جس کا ایمان دوسرے درجہ پر ہے اسے پہلے درجہ والے مومن سے نہیں کہنا چاہئے کہ تمہارے پاس ایمان نہیں ہے اور اسی طرح تیسرے درجہ والا دوسرے درجہ والے کو یہاں تک کہ دسویں درجہ والے تک کو بھی یہی چاہئے کہ ایسا نہ کہے اور جس کا ایمان تم سے کم ہے اسے ایمان سے جدا (بغیر ایمان کے) نہ سمجھو اگر ایسا ہواتو جس کا ایمان تم سے بڑھ کر ہوگا اسے چاہئے کہ وہ تم کو ایمان سے جدا سمجھے۔ بلکہ اگر کسی کو اپنے
سے کم دیکھو تو تمہیں چاہئے کہ اسے مہر ومحبت کے ساتھ اپنے درجہ تک لے آئو اور جو کچھ اس سے ممکن نہ ہو اسے اس پر بار نہ کرو کہ اس کی کمر ٹوٹ جائے گی اور حق کی قسم اگر کوئی کسی مومن کی دل شکنی کر ے تو اس پر لازم ہے کہ اس کا جبران کرے اور اس کی دلجوئی کرے۔
شیخ صدوق کتاب خصال میں اس روایت کے تما م ہونے پر تحریر فرماتے ہیں کہ مقداد ایمان کے آٹھویں درجہ پر، ابوذر نویں درجہ پر اور سلمان دسویں درجہ پر فائز تھے۔ البتہ اس بات پر توجہ ہونی چاہئے کہ اس روایت میں ایمان کے دس درجہ کو معین کرنا صرف دس مرتبہ تک منحصر کردینے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صرف ایمان کے درجات کی کثرت کو بیان کرنا ہے۔ اسی وجہ سے دوسری روایتوںمیں ایمان کے لئے کمتر یا بیشتر درجات بھی بیان کئے گئے ہیں۔
٤ ۔ ایمان کے متعلقات
اسلام کے اخلاقی نظام میں، ایمان کس چیز کے ذریعہ سے ہدایت، اخلاقی فضائل کی آراستگی اور معنوی رفتار کا سبب بنتا ہے ؟ قرآن کریم اورمعصومین (ع) کی سیرت میں ایمان کے اصلی ترین متعلقات کے بارے میں جو کچھ ذکر ہوا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
ایک۔ عالم غیب پر ایمان :قرآن کریم نے غیب اورغیبی طاقتوں یعنی ملائکہ (وغیرہ) پر ایمان کو کتاب الٰہی سے بہرہ مند ہونے اور ہدایت پانے کی شرطوں میں سے شمار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد ہورہاہے:
''یہ وہ کتاب ہے جس کی حقانیت میں کوئی شک نہیں اور یہ ان متقین اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت کا وسیلہ ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں .....''
عالم غیب سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جنہیں ظاہری حواس کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ عقلی سیر اور باطنی شہود کے ذریعہ ان تک رسائی ہوسکتی ہے، اصولی طور پر ایمان سے مشرف ہونے اور کفر والحاد دومادہ پرستی کی غلاظت و گندگی سے نجات حاصل کرنے کے لئے غیب اور غیبی حقیقتوں، قوتوں اورامدادوںپر اعتقاد رکھنا ایک شرط ہے۔
صرف اسی شرط کے تحت حصول کے ذریعہ کتاب ہدایت کو پڑھا جاسکتا ہے اور اس کے نور کے پرتو میں کامیابی کی منزلوں کو طے کیا جاسکتا ہے۔
دو۔ خدا اور اس کی وحدانیت پر ایمان: قرآن کریم متعدد آیتوں میں خدا وند متعال پر ایمان کی ضرورت کو یاد دلاتا ہے۔ مثلاً فرماتا ہے: ''بس خدا اور اس کے پیغمبر اور اس نور پرجسے ہم نے نازل کیا ہے ایمان لائو اور تم جو کچھ انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے۔،
رسول خدا ۖ نے ایمان کی علامتوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں فرمایا:
'' ایمان کی نشانیاں چار ہیں: خدا کی وحدانیت کا اقرار، اس پر ایمان، اس کی کتاب پر ایمان اور خدا کے پیغمبروں پر ایمان۔،
تین۔ قیامت اور اس کی کیفیت پر ایمان: قیامت اور اس کی کیفیت پر ایمان اخلاق اسلامی کی افادیت اور اس کے اجرا ہونے کی ضمانت ہے۔ قرآن کریم نے خدا اور اس کی وحدانیت پر ایمان کے بعد سب سے زیادہ تاکید قیامت اور اس کی کیفیت پر کی ہے۔ جیسے قبر میں ہونے والے سوالات، عذاب قبر، قیامت کا دن اور قیامت کا حساب و کتاب، اعمال کو پرکھنے کے لئے میزان کا وجود، پل صراط سے عبور اور جنت و جہنم پر اعتقاد و ایمان۔ ذیل میں بعض آیتوں اور روایتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے، اس سلسلہ میں قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے:
'' جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جو لوگ یہودی ، صائبی اور عیسائی ہیں ان میں جو خدا و قیامت پر واقعاً ایمان لائے ہیں اور نیک کام انجام دیتے ہیں ان کے لئے کچھ بھی ڈر اور خوف نہیں ہے۔
حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:
'' ایمان یہ ہے کہ انسان دین حق کو دل سے پہچانے اور زبان سے اقرار کرے اور اپنے اعضاء بدن سے اس کے فرائض کو انجام دے اور عذاب قبر، منکر و نکیر، موت کے بعد زندہ ہونے، حساب و کتاب، صراط اور میزان کو قبول کرے اور اگر خدا کے دشمنوں سے بیزاری نہ ہو تو ایمان موجو د نہیں ہے''۔
دوسری حدیث میں پیغمبر خدا ۖ کی فرمائش کے مطابق جنت وجہنم پر ایمان بھی معاد کے دو اہم رکن ہیں۔
اس بنا پر اخلاق اسلامی کی نظر میں معاد اور اس کے اساسی ارکان پر ایمان، رہنمائی کرنے والے دو اہم رکن کی حیثیت رکھتے ہیں۔
چار۔ انبیاء ٪ کی رسالت اور آسمانی کتابوں پر ایمان: دینی تعلیم سے بہرہ مند ہونے اور دین بالخصوص اخلاق اسلامی کی طرف متوجہ ہونے کے لئے انسان کا یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ اپنے صحیح کمال اور سعادت کو پہچاننے اور ان تک پہنچنے کے لئے مناسب وسیلوں اور طریقوں کو انتخاب کرنے میں عاجز اور قاصر ہے، ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ قطعی طور پر جسے بھی اس حقیقت میں شک ہے وہ انبیاء کی رسالت اور ان کی دعوت کے مطالب پر ایمان و اطمینان حاصل نہیں کر سکتا اور اسی کے ساتھ اعتماد اور اطمینان کے بغیر کسی کی خیر خواہ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔
اس وجہ سے اخلاق اسلامی میں رسولوں کی رسالت اور ان کی کتابوں پر ایمان رکھنے کے لئے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ چونکہ سبھی انبیاء صرف ایک رسالت اور ایک ہی مقصد کے لئے کام کررہے تھے لہٰذا ان تمام انبیاء پر ایمان رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''خدا کے پیغمبر اُن کے پرور دگارکی طرف سے جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھتے ہیں اور تمام مومنین بھی خدا اور فرشتے اور کتابوں اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبروں میں سے کسی کے ساتھ فرق نہیں کریں گے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ ہم نے پیغام الٰہی کو سنا اور اس کی اطاعت کی۔ اے پرورد گار! ہم تیری بخشش کے محتاج ہیں اور ہم کو تیری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے، ،۔
پانچ۔ امامت اور ائمہ (ع) پر ایمان: شیعوں کے اصول عقائد کے مطابق امامت پر ایمان رکھنا اخلاق اسلامی کی بنیادوں اور کامیابی کی شرطوں میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں شیعہ حدیثی کتابوں میں بہت سی روایات موجود ہیں۔
ان روایتوں کے علاوہ یہ بات قرآن کے ذریعہ اور اس کی تفسیر کے سلسلہ میں مسلّم الثّبوت تاریخی واقعات سے ثابت ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہورہا ہے:
الْیَوْمَ َکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وََتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الِسْلاَمَ دِینًا
''آج کفّار تمہارے دین سے نا امید ہوگئے ہیںلہٰذا ان سے خوف نہ کھاؤ۔ اور مجھ سے خوف کھاؤ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا ہے اور اسلام کو تمہارے لئے دین کی حیثیت سے پسند کرلیا ہے ۔ ''
اس آیت کے سلسلہ میں دو سوال قابل غور ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ وہ خاص دن کون سا دن ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ واقعہ جو اس دن رونما ہوا اور اکمال دین اور بندوں پر خدا کی نعمت کے تمام ہونے کا سبب بنا، کیا تھا؟ نا قابل انکار تاریخی شواہد اور تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک وہ ١٨ ذی الحجہ ١٠ ہجری کا دن تھا اور وہ واقعہ اس دن غدیر میں پیش آیا وہ پیغمبر ۖ کی طرف سے حضرت علی(ع) کو اپنی جانشینی کے لئے انتخاب کر نا اور سلسلۂ امامت کا شروع ہونا تھا۔
ہم انبیاء ٪ کی رسالت اور ان کی کتابوں پر ایمان کی ضرورت کو اصطلاح میں دین کے نام سے یاد کرتے ہیں اور مذکورہ آیت کی روشنی میں امامت کا سلسلہ دین کی تکمیل کے لئے ہے اور اس کے بغیر دین ناقص رہے گا لہٰذا قرآن کریم کی نظر میں امامت پر ایمان بھی ایک لازمی بات ہے اور اخلاق اسلامی کے مستحکم اور مضبوط پایوں میں شمار ہوتا ہے۔
٥۔ایمان کی شرط
قرآن و راویات کے مطابق نیک عمل کا انجام دینا ایمان کی بہترین شرط ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں ایمان کو نیک عمل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اکثر آیتوں میں ایمان کے بعد بلا فاصلہ پسندیدہ اور صالح عمل کی گفتگو ہوئی ہے۔اگر چہ نیک عمل ایمان کے بنیادی عناصر میں سے نہیں ہے لیکن نیک عمل کے بغیر ایمان سے مطلوب اور مناسب فائدہ حاصل نہ ہوسکے گا۔ اس بنا پر شائستہ اور نیک عمل کو ایمان سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے شرط کے طور پر مانا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے:
'' اور جو کوئی ایمان لائے اور نیک عمل کو انجام دے اس کے لئے بہترین جزا ہے اور ہم بھی اس سے اپنے امور میں آسانی کے بارے میں کہیں گے''
قرآن مجیدنے نیک عمل کے بغیر، مومن ہونے کے دعوے کو جھوٹا قرار دیا ہے:
''اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا اور اس کے پیغمبر پر ایما ن لائے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں سے بعض لوگ منھ پھیر لیتے ہیں اور وہ لوگ واقعاً مومن نہیں ہیں۔،
حضرت علی (ع)نے بھی اس مطلب کو یوں بیان فرمایا ہے:
'' جو خدا کے احکام پر عمل کرتا ہے فقط وہی مومن ہے۔،
اس بنا پر اخلاق اسلامی کی نظر میں خدا کے احکام کی پابندی کے بغیر ایمان کا دعویٰ کرنا جھوٹ اور فریب ہے مگر یہ کہ مومن شخص عمل کرنے کی قدرت اور موقع نہ رکھتا ہو۔
٦۔ ایمان کے اسباب
دینی کتابوں میں ایمان کے وجود میں آنے، اور اس کے ثبات و کمال کے لئے مختلف عوامل بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض معرفت وشناخت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے علم، عقل اور دین میں غور و فکر کرنا۔یہ سب ایمان کے نظری مقدمات کو فراہم کرتے ہیں اور وہ عوامل علم کلام میں پائے جاتے ہیں۔ کچھ دوسرے عوامل ایسے ہیں جو ایک اعتبار سے نفسیانی صفت اور ملکہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے تقویٰ، راہ خدا میں دوستی اور دشمنی، صبر، توکل، رضا وغیرہ اور کچھ ایسے ہیں جو انسان کے عمل سے مربوط ہیں۔ جیسے انفاق، نماز کے لئے اہتمام کرنا، دوسروں کے ساتھ احسان کرنا، گناہوں سے پرہیز کرنا وغیرہ۔
خاص نظری معارف جیسے دین میں غور وفکر، انسان کی مختلف نفسیانی صفتیں اور اعمال، ایمان کی آفرینش اور اس کے ثبات و کمال میں مؤثر ہوسکتے ہیں اور یہ بات اس حقیقت سے نہیں ٹکراتی ہے کہ ایمان اپنے لحاظ سے عمل صالح کی انجام دہی کے لئے مقدمہ فراہم کرتا ہے اور بہت سے نفسانی ملکات اور صفات کے وجود میں لانے کا موجب قرار پاتا ہے اور یہاں تک کہ انسان میں بعض نظری معارف کی پیدائش کے لئے باعث بنتا ہے۔ کیونکہ انسانی وجود کے تینوں شعبوں کے درمیان آپس میں تثیر اور تثر پایا جاتا ہے۔ اس بنا پر ایمان ایک واضح نفسانی حالت کی حیثیت سے دوسرے شعبوں پر اثر انداز بھی ہوتا ہے اور ان سے تثیر بھی قبول کرتا ہے۔
٧۔ایمان کے فوائد
یہ آثار اور فوائدایمان کے اسباب اور موجبات کی طرح علمی ماہیت بھی رکھتے ہیں۔ اور نفسانی حالات بھی اور بعض اعمال و عادات سے بھی متعلق ہیں۔ یہاں ان میں سے بعض اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
ایک۔ روحی تسکین: انسان کے لئے اہم لذتوں میں سے ایک نفسانی تسکین اور اس کا آرام پانا ہے۔ بنی آدم کے لئے پریشانی اور اضطراب، سب سے بڑی تکلیف اور بہت سی گمراہیوں اور نا کامیوں کاسبب ہے۔ انسانی کوششیں اس جانکاہ درد سے نجات پانے کے لئے اس بارے میں تلخ تجربہ کی نشاندہی کررہی ہیں۔ خداوند متعال کی نظر میں انسان کو ایمان کے سایہ میں آرام و سکون میسّر ہوگا۔ جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:
''وہی ہے جس نے مومنین کے قلوب کو سکون دیا تاکہ وہ اپنے ایمان میں مزید ( ایمان کا ) اضافہ کریں، ،۔
''باخبر رہو کہ خدا کے دوستوں کے لئے نہ کچھ خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور پرہیز گاری سے کام لیتے ہیں۔
خدا نے اس سے زیادہ واضح انداز میں قلبی سکون واطمینان کو اپنے ذکر اور یاد کے ذریعہ قابل تحصیل بتایا ہے اور اس سلسلہ میں وہ فرماتا ہے: '' وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور ان کے قلوب یاد خدا سے سکون حاصل کرتے ہیں آگاہ رہو کہ یاد خدا سے ہی دلوں کو آرام ملتا ہے۔،
ب۔ بصیرت: قرآن کی نظر میںایمان، حق وباطل کے درمیان تمیز دینے کے لئے انسان کو بصیرت اور سمجھداری عطا کرتا ہے۔
قرآن میں ارشاد ہورہا ہے:
'' اے ایمان لانے والو! اگر خوف خدا رکھو گے تو خدا تم کو (حق وباطل کے درمیان) فرق کرنے کی قدرت وقوت عطا کرے گا۔، دوسری طرف ایمان نہ رکھنے والوں کو نابینا قرار دیتا ہے:
'' جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے کرداروں اور کارناموں کو ان کی نظر میں خوبصورت اور آراستہ بنا دیا ہے تا کہ وہ اسی طرح گمراہ وسرگرداں رہیں۔،
ان دو آیتوں کا مقایسہ کر نے سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ ایمان اور تقویٰ ایک طرف خود خواہی اور خود پسندی کو ختم کرنے کا سبب ہے تو دوسری طرف خدائی نور اور الٰہی ہدایت سے متصل ہونے کی وجہ سے بصیرت اور سمجھداری عطا کرتے ہیں۔
تین۔ خدا پر بھروسہ: خدا پر اعتماد اور بھروسہ کرنا کامیاب اور مفید زندگی کے ارکان میں سے ایک نادر اور قیمتی سرمایہ ہے۔ اس حالت کے ذریعہ انسان کی بہت سی الجھنیں اپنا بستر لپیٹ لیتی ہیں۔ اور حوادث کے ہولناک طوفان پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: '' بندہ کا ایمان اس وقت تک سچّا نہیں ہوسکتا جب تک کہ خدائی خزانہ پر خود اپنے ہاتھ کی دولت سے زیادہ اعتماد نہیں رکھتا ہے۔،
چار۔ دنیوی برکتیں : قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: '' اور اگر شہروں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم قطعی طور پر ان کے لئے آسمان و زمین سے برکتیں نازل کرتے۔،
یعنی ایمان نہ صرف اخروی مثبت آثار و فوائد کا حامل ہے بلکہ دنیاوی نعمتیںاور برکتیں بھی فراہم کرتا ہے۔ اگر کوئی صحیح طریقہ سے دنیاوی نعمتوں کی تلاش میں ہے تو اسے چاہئے کہ ایمان کی جستجو کرے۔
پانچ۔نیک اعمال کی انجام دہی: اس بات کے علاوہ کہ عمل صالح کی انجام دہی ایمان کی بنیادی شرط ہے، خود ایمان کے فوائد میں سے بھی ہے۔ کیونکہ ایمان، عمل کے لئے ظرف اور نیک عمل باطنی ایمان کا پھل اور نتیجہ ہے۔ علامہ طبا طبائی فرماتے ہیں:
ایمان عمل کے لئے مقدمہ فراہم کرتا ہے اور اس کے لئے لازمی شرط ہے اور عمل صالح کی سہولت یا دشواری انسان کے ایمان کے قوی یا ضعیف ہونے پر منحصر ہے اور اسی کے مقابلہ میں عمل صالح اور اس کی تکرار، ایمان کے عمیق اور زیادہ ہونے میں مفید اور مدد گار ثابت ہوتی ہے اور یہ دونوں اپنے اپنے لحاظ سے ان اخلاقی ملکات کے وجود میں آنے کے لئے ایک دوسرے کی مددکرتے ہیں جو بے شک انسان سے صادر ہونے والے اعمال صالحہ کے انجام پانے کا سبب ہیں۔
چھ۔ عوام میں محبوبیت:ایمان کا دنیوی فائدہ یہ ہے کہ ایماندار انسان لوگوں کے دلوں میں محبوب ہوتا ہے۔ لوگوں کے درمیان قلبی لحاظ سے محبوب ہونا سبھی پسند کرتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ لوگ انھیں محبت بھری نگاہوں سے دیکھیں اور لوگ اپنے لئے محبت کے آثار کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے لئے دوسروں کے اظہار محبت کی لذّت کو اتنا زیادہ شیرین پاتے ہیں کہ کسی چیز کے مقابلہ میں اس کا سودا کرنے پر تےّار نہیں ہوتے۔ بیشک محبت ایک ایسی دنیاوی نعمت ہے کہ یہ ہرمشکل کو آسان اور ہر تلخی کو شیرین اور ہر کانٹے کو پھول میں تبدیل کر دیتی ہے۔
خدا وند عالم فرماتا ہے: اگرخالص محبت کی تلاش میں ہو تو مومنین کی وادی میں داخل ہوجاؤ۔
''جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام انجام دیتے ہیں، جلد ہی(وہ) خدا( جو رحمن ہے) ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں محبت قرار دے دے گا۔
سات۔ اُخروی فلاح اور کامیابی :ایمان کے فوائد کی انتہا مومنین کی اُخروی کامیابی پر ہوتی ہے اس سے بہتر انجام اور کیا ہوسکتا ہے؟
خدا وند متعال مومنین سے ایک معنی دار سوال کرتے ہوئے فرماتا ہے:
''اے ایمان لانے والو !کیا تمہیں ایک ایسی تجارت کی راہ دکھاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دلائے گی ؟ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤاور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو۔اس فداکاری کو اگر تم جان لو گے اور سمجھ لو گے تو تمہارے لئے بہتر ہوگا۔،
حکیم لقمان اپنے فرزند کی خیرخواہانہ نصیحت میں فرماتے ہیں:
''اے میرے بیٹے !سچ ہے کہ یہ دنیا گہرے سمندر کی طرح ہے جس میں بہت سے علماء اور دانشور ہلاک ہوگئے ہیں۔ بس اس میں اپنی نجات کی کشتی، خدا پر ایمان ہونے کو قرار دو۔ ''
٨۔ ایمان کے موانع
ایمان کے وجود میں آنے کے اسباب اور عوامل کے سلسلہ میںجو کچھ بیان کیا گیا اس کے پیش نظر ایمان پر تاثیر ڈالنے والے عوامل بہت ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا نہ ہونا ایمان کے لئے رکاوٹ کاباعث ہوگا۔لیکن یہاں پر ایمان کے موانع سے مراد تنہا وہ عوامل ہیں جو ایمان کے ہادیانہ جوہر سے ٹکراتے ہیں اور مشہور اسلامی کتابوں میں عقلی قوت سے مربوط صفتوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔اس طرح کی مشہور موانع مندرجہ ذیل ہیں:
ایک۔ جہل: جہل چاہے بسیط ہو یا مرکب، ایمان کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جہل بسیط سے مراد یہ ہے کہ انسان علم نہ رکھتا ہواور اسے اپنے عالم نہ ہونے اور نہ جاننے کا یقین بھی ہو۔اس طرح کی جہالت شروع میں مذموم اور قابل مذمت نہیں ہے۔کیونکہ یہ علم حاصل کرنے کے لئے مقدمہ ہے اور جب تک انسان خود کو جاہل نہ جانے اس وقت تک علم حاصل کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوگا۔لیکن اس جہالت پر باقی رہنا اخلاقی لحاظ سے برا اور قابل مذمت ہے۔
لیکن جہل مرکب سے مراد یہ ہے کہ انسان عالم نہیں ہے اور اس کے ذہن میں واقعیت اور حقیقت سے متعلق کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر بھی اس کا خیال یہ ہے کہ وہ واقاً حقیقت تک پہنچ گیا ہے۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ نہیں جانتا ہے۔ (یعنی وہ اپنے جاہل ہونے سے بھی بے خبر ہے)۔ اس طرح وہ دو امر میں جاہل ہے۔ اسی وجہ سے اسے جہل مرکب کہا گیا ہے۔ اس طرح کی جہالت کو اخلاقی لحاظ سے سب سے بڑی برائیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہاں انسان اصلاً اپنی بیماری کے بارے میں نہیں جانتا بلکہ وہ خود کو صحیح وسالم تصور کرتا ہے۔ حالانکہ اصلاح کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم فساد اور خرابی کا یقین ہونا ہے ۔
اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ ـ نے فرمایا ہے: ''بے شک میں پیدائشی اندھے انسان اور سفید داغ کا علاج کرنے سے عاجز نہیں ہوں لیکن احمق انسان کا علاج کرنے سے عاجز ہوں''۔
دو۔ شک وتردید: ابتدائی شک، علم ویقین تک پہنچنے کے لئے ایک مبارک قدم ہو سکتا ہے۔انسان جب تک کسی چیز کو پوری طرح جانتا ہے اور وہ کسی بھی گوشہ کو پنہان اور پوشیدہ نہیں سمجھتا اس کی کوئی خاص جستجو نہیں کرتا ہے۔ بہت سی گرانقدر حقیقتیں صرف ایک ابتدائی شک وتردید کی وجہ سے منظر عام پر آئی ہیں۔ اس بنا پر شک، علم و یقین اور ایمان تک پہنچنے کے لئے ایک با اہمیت اور بے مثال پل کی حیثیت رکھتا ہے اس طرح یہ اخلاقی لحاظ سے برا نہیں ہے۔ لیکن شک وتردید، کسی بھی حالت میں منزل نہیں ہے۔ شک 'مقصد اور منزل کے عنوان سے قطعی طور پر ایک اخلاقی برائی ہے اور یقین وایمان کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق اور باطل کی پہچان کرنے اور حق وباطل کو جدا کرنے کے لئے کمزور انسان کا نفس حیران وسرگرداں ہو جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر حضرت علی ـ نے سختی کے ساتھ شک وتردید سے منع فرمایا ہے اور اسے ایمان کے خلاف اور کفر کا سبب قرار دیا ہے۔
مولائے متقیان حضرت علی(ع) ارشاد فرماتے ہیں:
''لا ترتابوا فتشکّوا 'ولا تشکّوا فتکفّروا''
(یعنی شک و تردید کو اپنے پاس جگہ نہ دو کہ شک میں پڑ جاؤ گے اور شک نہ کرو کہ کافر ہوجاؤ گے۔)
تین۔ نفسانی خیالات اور شیطانی وسوسہ: خیالات سے مراد وہ چیز ہے جو انسان کے قلب پر عارض ہوتی ہے اور اگر وہ انسان کو شر کی طرف دعوت دے تو وسوسہ ہے اوراگر وہ خیر کی طرف ہدایت کرے تو اسے الہام کہا جاتا ہے۔ شیطانی وسوسہ جو ایمان کی رکاوٹوں میں شمار کیا جاتا ہے اس کی مختلف قسمیں اور متعدد اسباب ہیں اور ہر ایک سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک خاص طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اس سے متعلق گفتگو اخلاق علمی یا تربیت اخلاقی کے ذیل میں ہونی چاہئے۔
قرآن کریم، شیطانی وسوسہ کے بارے میں خود شیطان کی زبانی ارشاد فرما رہا ہے:
'' میں تیرے بندوں کو سیدھے راستے سے گمراہ کروں گا اس وقت ان کے سامنے سے 'پیچھے سے' داہنی طرف سے اور بائیں طرف سے پہنچ جائوں گا''
چار۔ علمی وسواس: یہ دقت' جستجو، تحقیق اور عقلانیت میں افراط کی ایک قسم ہے جو ایمان کے لئے آفت اور اسے برباد کر دینے کاسبب ہے۔ یہ بات کبھی عقلی دقت کے عنوان سے اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ سب سے ابتدائی بدیہیات وواضحات میں بھی خدشہ وارد ہوجائے یہاں تک کہ انسان کو سفسطہ اور واقعیات وحقائق سے انکار کے گڑھے میں بھی گرا دیتا ہے۔ واضح ہے کہ اس طرح کا وسوسہ ہلاکت اور نابودی کو ہمراہ لاتا ہے اور ہر طرح کے ایما ن اور اطمینان سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے۔
پانچ۔ کفر اور شرک: یہ دونوں ایمان و توحید کے مقابلہ میں ہیں اور ایمان میں رکاوٹ کا باعث شمار کئے جاتے ہیں۔ کفر اور شرک کی ماہیت اور ان کے دوسرے ابعاد و جوانب کے متعلق بہت زیادہ بحثیں پائی جاتی ہیں جن میں سے بعض کو عقائد وکلام کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے، ان سبھی کے بارے میں گفتگو کرنا اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہے۔

 

 

 

قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم:

يَا فَاطِمَةُ كُلُّ عَيْنٍ بَاكِيَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا عَيْنٌ بَكَتْ عَلَي مُصَابِ الْحُسَيْنِ فَإِنَّهَا ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ بِنَعِيمِ الْجَنَّة.

بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 44، ص: 293.

اے فاطمہ(س) ہر آنکھ قیامت والے دن روئے گی مگر وہ آنکھ کہ جو غم حسین(ع) میں دنیا میں گریہ کرے گی، پس ایسی آنکھ قیامت میں جنت کی نعمتوں پر خوشحال و مسرور ہو گی۔

 گریہ و عزا داری فطرت انسانی       

انسان کے وجود و فطرت میں خدا وند کی سنن میں سے ایک سنت یہ ہے کہ انسان خوشی اور غم کے مواقع پر اپنی طرف سے مختلف رد عمل دکھاتا ہے یعنی خوشی کے موقع پر خوشی اور غم کے موقع پر غمی کا اظہار کرتا ہے۔      

وہ چیز کہ جو انسان کی حالت کو غم کی حالت میں تبدیل کرتی ہے اس حالت کو مصیبت و رنج کی حالت کہتے ہیں، کہ انسان کا رد عمل اس موقع پر اشک بہانا اور بے تابی کرنا ہوتا ہے۔

جس طرح کہ خوشی کے مواقع پر اپنی خوشی کا اظہار کرتا ہے اور اسکی یہ حالت سب کو واضح طور پر نظر آتی ہے۔

وہ ماں کہ جس کا بیٹا یا کوئی بھی عزیز دنیا سے چلا جاتا ہے تو اسکے اشک اس کی اندرونی غم والی حالت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس غم کی حالت میں وہ بے تابی کرتی ہے۔ یہ ماں کی فطرت میں سے ہے کہ نہ یہ کہ کوئی اس ماں کی مذمت نہیں کرتا بلکہ سب ایسی دل سوز ماں کی تعریف کرتے ہیں اور اسکے ساتھ اسکے غم میں شریک بھی ہوتے ہیں۔

لہذا نوحہ و مرثیہ خوانی اور عزا داری کرنا یہ ایک فطری عمل ہے کہ جو انسان کی ذات اور فطرت میں پایا جاتا ہے۔ اس عمل کی نفی یا مخالفت کرنا گویا اک شئ کی ذات سے اس کی ذاتیات کو نفی کرنا ہے۔

آئمہ معصومین علیہم السلام کی صفات و خصوصیات فقط انہی کی ذات کے ساتھ مخصوص تھیں کہ عام عادی انسانوں میں وہ خصوصیات نہیں پا‏ئی جاتیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی جو صفات و خصوصیات ہیں وہ فقط انہی کے ساتھ خاص ہیں اور وہ کسی دوسرے معصوم میں نہیں پائی جاتیں۔ مثلا یہ کہ تمام انبیاء اور انکے اوصیاء نے امام حسین علیہ السلام کی ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد ان کے مصائب پر گریہ کیا ہے اور وہ سب اس گرئیے کو اپنے لیے باعث شرف و عزت سمجھتے تھے۔

ہم اس تحریر میں رسول خدا(ص) کے امام حسین(ع) کے غم میں گرئیے کے چند نمونے بیان کرتے ہیں البتہ اس بارے روایات اس قدر زیادہ ہیں کہ اس مختصر تحریر میں ان سب کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہم بہلے چند روایات کو شیعہ کتب سے اور پھر بعد میں اہل سنت کی معتبر کتب سے چند روایات کو ذکر کریں گئے۔

گريه پيامبر اسلام(ص) در روايات شيعه

اس بارے میں شیعہ کتب میں بہت سی روایات ذکر ہوئی ہیں ہم فقط ان میں سے چند روایات کو ذکر کرتے ہیں۔

شیخ صدوق(رح) اپنی کتاب عیون اخبار الرضاء میں لکھتے ہیں:

... فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ حَوْلٍ وُلِدَ الْحُسَيْنُ(عليه السلام) وَ جَاءَ النَّبِيُّ(صلي الله عليه و آله و سلم) فَقَالَ يَا أَسْمَاءُ هَلُمِّي ابْنِي فَدَفَعْتُهُ إِلَيْهِ فِي خِرْقَةٍ بَيْضَاءَ فَأَذَّنَ فِي أُذُنِهِ الْيُمْنَي وَ أَقَامَ فِي الْيُسْرَي وَ وَضَعَهُ فِي حَجْرِهِ فَبَكَي فَقَالَتْ أَسْمَاءُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي مِمَّ بُكَاؤُكَ قَالَ عَلَي ابْنِي هَذَا قُلْتُ إِنَّهُ وُلِدَ السَّاعَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ مِنْ بَعْدِي لَا أَنَالَهُمُ اللَّهُ شَفَاعَتِي ثُمَّ قَالَ يَا أَسْمَاءُ لَا تُخْبِرِي فَاطِمَةَ بِهَذَا فَإِنَّهَا قَرِيبَةُ عَهْدٍ بِوِلَادَتِه...

عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج 2، ص 26.

اسماء کہتی ہے کہ: بعد والے سال میں حسین(علیہ السلام) پیدا ہوئے، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و سلم نواسے کو دیکھنے کے لیے بیٹی کے گھر آئے اور فرمایا: اے اسماء میرے بیٹے کو لاؤ ۔ اسماء حسین(‏ع) کو اس حالت میں حضرت کے پاس لائی کہ وہ ایک سفید کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے ۔ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی ۔ پھر رسول خدا(ص) حسین(ع) کو گود میں لے کر رونے لگے ۔

اسماء نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ اس خوشی کے موقع پر کہ آپ کا بیٹا دنیا میں آیا ہے، کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ(ص) نے فرمایا: میں اس لیے اپنے بیٹے کی حالت پر رو رہا ہوں کہ ظالم لوگ میرے بعد میرے اسی بیٹے کو شہد کریں گئے ۔ خدا وند ہر گز ان کو میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا ۔ پھر فرمایا کہ: اے اسماء اس شھادت کی خبر اس کی ماں کو نہ بتانا کیونکہ اس کا یہ بیٹا ابھی دنیا میں آیا ہے۔

مرحوم شيخ مفيد رحمۃ الله عليه اپنی كتاب الإرشاد ميں لکھتے ہیں کہ:

 عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ خَرَجَ مِنْ عِنْدِنَا ذَاتَ لَيْلَةٍ فَغَابَ عَنَّا طَوِيلًا ثُمَّ جَاءَنَا وَ هُوَ أَشْعَثُ أَغْبَرُ وَيَدُهُ مَضْمُومَةٌ فَقُلْتُ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لِي أَرَاكَ أَشْعَثَ مُغْبَرّاً فَقَالَ أُسْرِيَ بِي فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ إِلَي مَوْضِعٍ مِنَ الْعِرَاقِ يُقَالُ لَهُ كَرْبَلَاءُ فَرَأَيْتُ فِيهِ مَصْرَعَ الْحُسَيْنِ وَ جَمَاعَةٍ مِنْ وُلْدِي وَ أَهْلِ بَيْتِي فَلَمْ أَزَلْ أَلْتَقِطُ دِمَاءَهُمْ فِيهَا هِيَ فِي يَدِي وَ بَسَطَهَا فَقَالَ خُذِيهِ وَ احْتَفِظِي بِهِ فَأَخَذْتُهُ فَإِذَا هِيَ شِبْهُ تُرَابٍ أَحْمَرَ فَوَضَعْتُهُ فِي قَارُورَةٍ وَ شَدَدْتُ رَأْسَهَا وَ احْتَفَظْتُ بِهَا فَلَمَّا خَرَجَ الْحُسَيْنُ(عليه السلام) مُتَوَجِّهاً نَحْوَ أَهْلِ الْعِرَاقِ كُنْتُ أُخْرِجُ تِلْكَ الْقَارُورَةَ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ فَأَشَمُّهَا وَ أَنْظُرُ إِلَيْهَا ثُمَّ أَبْكِي لِمُصَابِهَا فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْعَاشِرِ مِنَ الْمُحَرَّمِ وَ هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي قُتِلَ فِيهِ أَخْرَجْتُهَا فِي أَوَّلِ النَّهَارِ وَ هِيَ بِحَالِهَا ثُمَّ عُدْتُ إِلَيْهَا آخِرَ النَّهَارِ فَإِذَا هِيَ دَمٌ عَبِيطٌ فَضَجِجْتُ فِي بَيْتِي وَ كَظَمْتُ غَيْظِي مَخَافَةَ أَنْ يَسْمَعَ أَعْدَاؤُهُمْ بِالْمَدِينَةِ فَيُسْرِعُوا بِالشَّمَاتَةِ فَلَمْ أَزَلْ حَافِظَةً لِلْوَقْتِ وَ الْيَوْمِ حَتَّي جَاءَ النَّاعِي يَنْعَاهُ فَحُقِّقَ مَا رَأَيْتُ.

الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج 2، ص130، فصل في فضائل الإمام الحسين و مناقبه. و إعلام الوري بأعلام الهدي، ص 219، الفصل الثالث في ذكر بعض خصائصه و مناقبه و فضائله.

ام سلمہ(س) سے روایت ہے کہ: ایک رات کو رسول خدا(ص) ہم سے دور ہو گئے اور یہ دوری تھوڑی طولانی ہو گئی ۔ جب رسول خدا(ص) واپس آئے تو میں دیکھا کہ غبار آلود اور غمناک ہیں ۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ میں آپکو یہ کس حالت میں دیکھ رہی ہوں ؟ حضرت نے فرمایا: مجھے آج رات عراق لے جایا گیا اور زمین بنام کربلا دیکھائی گئی اور مجھے بتایا گیا کہ اس سر زمین پر میرے بیٹے حسین کو اپنے اہل بیت اور اصحاب کے ساتھ شھید کیا جائے گا۔ میں نے ان سب کے خون کو جمع کیا ہے اور یہ وہی خون ہے جو اب میرے پاس موجود ہے۔

یہ کہہ کر رسول خدا(ص) نے وہ خون مجھے دیا اور کہا کہ: اس کو اپنے پاس رکھو ۔ میں نے خون ان سے لے لیا کہ جو سرخ رنگ کی خاک کی طرح تھا۔ میں نے اس خون کو اک شیشی میں رکھ دیا ۔ جب حسین علیہ السلام عراق ہجرت کر کے چلے گئے تو میں ہر روز اس شیشی کو دیکھتی اور سونگھتی تھی ۔ ہر روز حسین(ع) کی مصیبت پر گریہ کیا کرتی تھی ۔ جب دس محرم کا دن آیا تو میں نے صبح کے وقت شیشی کو دیکھا تو اپنی پہلی ہی حالت میں تھی لیکن جب میں نے اسے عصر کے وقت دیکھا تو سرخ خاک خون میں تبدیل ہو چکی تھی ۔ میں نے یہ دیکھ کر چیخ ماری لیکن دشمن کے ڈر سے میں نے اس بات کو کسی کو نہ بتایا۔ میں ہمیشہ انتظار کی حالت میں تھی کہ ایک دن مدینے میں اعلان ہوا کہ حسین ابن علی(ع) کو کربلاء میں اہل و عیال کے ساتھ شھید کر دیا گیا ہے۔

اور پھر لکھتے ہیں کہ:

وَ رَوَي السَّمَّاكُ عَنِ ابْنِ الْمُخَارِقِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ(صلي الله عليه و آله و سلم) ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسٌ وَ الْحُسَيْنُ(عليه السلام) فِي حَجْرِهِ إِذْ هَمَلَتْ عَيْنَاهُ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَاكَ تَبْكِي جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ جَاءَنِي جَبْرَئِيلُ(عليه السلام) فَعَزَّانِي بِابْنِيَ الْحُسَيْنِ وَ أَخْبَرَنِي أَنَّ طَائِفَةً مِنْ أُمَّتِي سَتَقْتُلُهُ لَا أَنَالَهُمُ اللَّهُ شَفَاعَتِي.

الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج 2، ص130، فصل في فضائل الإمام الحسين و مناقبه. و إعلام الوري بأعلام الهدي، ص 219.

ام سلمہ کہتی ہے کہ: ایک دن رسول خدا(ص) بیھٹے ہوئے تھے اور حسین(ع) بھی ان کی گود میں بیٹھے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ حضرت کی آنکھیں اچانک اشکوں سے بھر گئی ہیں ۔ میں نے عرض کیا:

یا رسول اللہ کیا ہوا ہے آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ(ص) نے فرمایا کہ:جبرائیل ابھی مجھ پر نازل ہوا ہے اور مجھے میرے بیٹے حسین کی شھادت کی تعزیت پیش کی ہے اور مجھے بتایا ہے کہ میری امت میں سے ایک گروہ حسین(ع) کو شھید کرے گا اور  خدا وند ہر گز ان کو میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا ۔

الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج 2، ص129، فصل في فضائل الإمام الحسين و مناقبه.

گريه پيامبر اسلام(ص) در روايات اهل سنت:

شمس الدین ذھبی عالم اہل سنت اپنی کتاب تایخ الاسلام میں لکھتا ہے کہ:

وقال الإمام أحمد في مسنده ثنا محمد بن عبيد ثنا شرحبيل بن مدرك عن عبد الله بن نجي عن أبيه أنه سار مع علي وكان صاحب مطهرته فلما حاذي نينوي وهو سائر إلي صفين فنادي اصبر أبا عبد الله بشط الفرات قلت وما ذاك قال دخلت علي النبي صلي الله عليه وسلم وعيناه تفيضان فقال قام من عندي جبريل فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات وقال هل لك أن أشمك من تربته قلت نعم فقبض قبضة من تراب فأعطانيها فلم أملك عيني أن فاضتا وروي نحوه ابن سعد عن المدائني عن يحيي بن زكريا عن رجل عن الشعبي أن علياً قال وهو بشط الفرات صبراً أبا عبد الله وذكر الحديث

وقال عمارة بن زاذان ثنا ثابت عن أنس قال استأذن ملك القطر علي النبي صلي الله عليه وسلم في يوم أم سلمة فقال يا أم سلمة احفظي علينا الباب لا يدخل علينا أحد فبينا هي علي الباب إذ جاء الحسين فاقتحم الباب ودخل فجعل يتوثب علي ظهر النبي صلي الله عليه وسلم فجعل النبي صلي الله عليه وسلم يلثمه فقال الملك أتحبه قال نعم قال فإن أمتك ستقتله إن شئت أريتك المكان الذي يقتل فيه قال نعم فجاءه بسهلة أو تراب أحمرقال ثابت فكنا نقول إنها كربلاء

عمارة صالح الحديث رواه الناس عن شيبان عنه

وقال علي بن الحسين بن واقد حدثني أبي ثنا أبو غالب عن أبي أمامة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لنسائه لا تبكوا هذا الصبي يعني حسيناً فكان يوم أم سلمة فنزل جبريل فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم لأم سلمة لا تدعي أحداً يدخل فجاء حسين فبكي فخلته أم سلمة يدخل فدخل حتي جلس في حجر رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال جبريل إن أمتك ستقتله قال يقتلونه وهم مؤمنون قال نعم وأراه تربته رواه الطبراني

وقال إبراهيم بن طهمان عن عباد بن إسحاق وقال خالد بن مخلد واللفظ له ثنا موسي بن يعقوب الزمعي كلاهما عن هاشم بن هاشم الزهري عن عبد الله بن زمعة قال أخبرتني أم سلمة أن رسول الله صلي الله عليه وسلم اضطجع ذات يوم فاستيقظ وهو خاثر ثم اضطجع ثم استيقظ وهو خاثر دون المرة الأولي ثم رقد ثم استيقظ وفي يده تربة حمراء وهو يقبلها فقلت ما هذه التربة قال أخبرني جبريل أن الحسين يقتل بأرض العراق وهذه تربتها

وقال وكيع ثنا عبد الله بن سعيد عن أبيه عن عائشة أو أم سلمة شك عبد الله أن النبي صلي الله عليه وسلم قال لها دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها فقال لي إن ابنك هذا حسيناً مقتول وإن شئت أريتك من تربة الأرض التي يقتل بها

رواه عبد الرزاق عن عبد الله بن سعيد بن أبي هند مثله إلا أنه قال أم سلمة ولم يشك

وإسناده صحيح رواه أحمد والناس

وروي عن شهر بن حوشب وأبي وائل كلاهما عن أم سلمة نحوه

تاريخ الإسلام ذهبي ج5/ص102

احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند میں کہا ہے کہ..... وہ علی(ع) کے ساتھ جا رہا تھا اور پانی کا ایک برتن بھی میرے پاس تھا۔ جب وہ صفین جا رہے تھے تو راستے میں جاتے ہوئے نینوا پہنچے ۔ اچانک آواز دی کہ اے ابا عبد اللہ نہر فرات پر صبر کرو ۔ میں نے کہا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ علی(ع) نے فرمایا کہ: میں رسول خدا کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور ان کی آنکھیں چشمے کی طرح اشک بہا رہی تھیں پھر انھوں نے مجھے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے بتایا ہے کہ تیرا بیٹا حسین(ع) نہر فرات کے کنارے شھید کیا جائے گا اور کہا کہ کیا تم اس خاک کربلاء کی خوشبو کو سونگھنا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا جی، پھر انھوں نے اس خاک کو مجھے دیا ۔ یہ دیکھ کر میں بھی اپنے اشکوں کو نہ روک سکا۔

انس سے نقل ہوا ہے کہ جس دن رسول خدا حضرت ام سلمہ کے گھر تھے بارش نازل کرنے والے فرشتے نے رسول خدا(ص) سے وضو کرنے کی اجازت مانگی۔ رسول خدا(ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن(ع) آئے اور اصرار کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور ان کی کمر مبارک پر بیٹھ گئے ۔ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کے بوسے لینا شروع کر دیا۔ اس پر  بارش نازل کرنے والے فرشتے نے رسول خدا(ص) سے کہا کہ کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی ۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ ہاں دکھا‍‍‌‌ؤ ۔ پھر فرشتے رسول خدا(ص) کو ایک سرخ رنگ کی خاک کی ڈھیری کے پاس لایا ۔

ثابت کہتا ہے کہ ہم اسکو کربلاء کی زمین کہتے ہیں ۔

.....رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم اپنی بیویوں سے فرماتے تھے کہ اس بچے(حسین ع) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن کے رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے کہ جبرائیل نازل ہوا ۔ رسول خدا(ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں  آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن(ع) آئے اور اصرار و گریہ  کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور رسول خدا(ص) کی گود میں آ کر بیٹھ گئے۔ جبرائیل نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی ۔ حضرت نے کہا کہ کیا وہ اس کو شھید کریں گئے اس حالت میں کہ وہ مؤمن بھی ہوں گئے ؟ جبرائیل نے کہا ہاں ایمان کا دعوی کرنے والے ہوں گئے۔ پھر اس نے خاک کربلاء کو حضرت کو دکھایا۔

...ام سلمه نے مجھے بتایا کہ ایک دن رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہو ئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے ؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین(ع) کو  عراق میں شھید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے جہاں پر حسین(ع) کو شھید کیا جائے گا۔

رسول خدا نے فرمایا کہ آج میرے پاس ایسا فرشتہ آیا ہے جو پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ اسی فرشتے نے بتایا ہے کہ آپکے بیٹے حسین کو شھید کر دیا جائے گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔۔۔۔۔

اس روایت کی سند صحیح ہے احمد بن حنبل اور دوسرے محدثین نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔

حاكم نيشاپوری اپنی كتاب المستدرك علي الصحيحين میں لکھتا ہے کہ:

( أخبرنا) أبو عبد الله محمد بن علي الجوهري ببغداد ثنا أبو الأحوص محمد بن الهيثم القاضي ثنا محمد بن مصعب ثنا الأوزاعي عن أبي عمار شداد بن عبد الله عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَي رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ حُلْماً مُنْكَراً قَالَ وَ مَا هُوَ قَالَتْ إِنَّهُ شَدِيدٌ قَالَ مَا هُوَ قَالَتْ رَأَيْتُ كَأَنَّ قِطْعَةً مِنْ جَسَدِكَ قُطِعَتْ وَ وُضِعَتْ فِي حَجْرِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) خَيْراً رَأَيْتِ تَلِدُ فَاطِمَةُ غُلَاماً فَيَكُونُ فِي حَجْرِكِ فَوَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَيْنَ(عليه السلام) فَقَالَتْ وَ كَانَ فِي حَجْرِي كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) فَدَخَلْتُ بِهِ يَوْماً عَلَي النَّبِيِّ ص فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ ثُمَّ حَانَتْ مِنِّي الْتِفَاتَةٌ فَإِذَا عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ(صلي الله عليه وآله وسلم) تُهْرَاقَانِ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ قَالَ أَتَانِي جَبْرَئِيلُ(عليه السلام) فَأَخْبَرَنِي أَنَّ أُمَّتِي سَتَقْتُلُ ابْنِي هَذَا وَ أَتَانِي بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاء.

المستدرك، الحاكم النيسابوري، ج 3، ص 176 - 177 و تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 196 - 197 و البداية والنهاية، ابن كثير، ج 6، ص 258 و.

ام الفضل حارث کی بیٹی ایک دن حضور رسول خدا(صلي الله عليه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ کل رات میں نے ایک خطر ناک خواب دیکھا ہے ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ کیا خواب دیکھا ہے ؟ کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے بدن کا ایک ٹکڑا آپ کے بدن سے الگ ہو کر میری گود میں آ گرا ہے۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے ۔

بہت جلد فاطمه(عليها السلام) کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا اور وہ بچہ تمہاری گود میں آئے گا۔ کہتی ہے کہ جب حسین(ع) دنیا میں آئے تو میں نے انکو اپنی گود میں اٹھایا۔

ایک دن میں حسین|(ع) کو گود میں اٹھائے رسول خدا(ص) کے پاس گئی ۔ وہ حسین(ع) کو دیکھتے ہی اشک بہانے لگے۔ میں نے کہا  میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ابھی جبرائیل مجھ پر نازل ہوا ہے اور اس نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے اس بیٹے کو میرے بعد جلدی شھید کر دے گی پھر اس نے مجھے شھادت والی جگہ کی خاک بھی دکھائی اور دی ہے۔

حاكم نيشابوري اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.

اور ایک دوسری جگہ پر لکھتا ہے کہ:

أخبرناه أبو الحسين علي بن عبد الرحمن الشيباني بالكوفة ثنا أحمد بن حازم الغفاري ثنا خالد بن مخلد القطواني قال حدثني موسي بن يعقوب الزمعي أخبرني هاشم بن هاشم بن عتبة بن أبي وقاص عن عبد الله بن وهب بن زمعة قال أخبرتني أم سلمة رضي الله عنها ان رسول الله صلي الله عليه وآله اضطجع ذات ليلة للنوم فاستيقظ وهو حائر ثم اضطجع فرقد ثم استيقظ وهو حائر دون ما رأيت به المرة الأولي ثم اضطجع فاستيقظ وفي يده تربة حمراء يقبلها فقلت ما هذه التربة يا رسول الله قال أخبرني جبريل(عليه الصلاة والسلام) ان هذا يقتل بأرض العراق للحسين فقلت لجبريل أرني تربة الأرض التي يقتل بها فهذه تربتها هذ حديث صحيح علي شرط الشيخين ولم يخرجاه.

المستدرك، الحاكم النيسابوري، ج 4، ص 398.

عبد الله بن زمعه کہتا ہے کہ: ام سلمہ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک دن رسول خدا صلي الله عليه وآله وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہو ئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے ؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین(ع) کو عراق میں شھید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے جہاں پر حسین(ع) کو شھید کیا جائے گا۔ اس پر میں نے جبرائیل سے چاہا کہ اس سر زمین کی خاک مجھے دکھائے ۔ یہ خاک وہی خاک ہے جو اب میرے ہاتھ میں ہے۔

حاكم نيشابوري کہتا ہے:یہ حديث بخاري و مسلم کے مطابق بھی صحیح ہے، لیکن انھوں نے اپنی اپنی کتاب میں اس حدیث کو نقل نہیں کیا۔

طبراني نے معجم كبير، هيثمي نے مجمع الزوائد اور متقي هندي نے كنز العمال میں بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے:

وعن أم سلمة قالت كان رسول الله صلي الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال لا يدخل علي أحد فانتظرت فدخل الحسين فسمعت نشيج رسول الله صلي الله عليه وسلم يبكي فأطلت فإذا حسين في حجره والنبي صلي الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي فقلت والله ما علمت حين دخل فقال إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت قال أفتحبه قلت أما في الدنيا فنعم قال إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها كربلاء فتناول جبريل من تربتها فأراها النبي صلي الله عليه وسلم فلما أحيط بحسين حين قتل قال ما اسم هذه الأرض قالوا كربلاء فقال صدق الله ورسوله كرب وبلاء، وفي رواية صدق رسول الله صلي الله عليه وسلم أرض كرب وبلاء.

المعجم الكبير، الطبراني، ج 23، ص 289 - 290 و مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 188 - 189 و كنز العمال، المتقي الهندي، ج 13، ص 656 - 657 و....

ام سلمه کہتی ہے کہ رسول خدا(ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن(ع) آئے اور اصرار کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور ان کی کمر مبارک پر بیٹھ گئے ۔ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کے بوسے لینا شروع کر دیا۔ اس پر فرشتے نے رسول خدا(ص) سے کہا کہ کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی ۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ ہاں دکھا‍‍‌‌ؤ ۔ پھر فرشتہ رسول خدا(ص) کو ایک سرخ رنگ کی خاک کی ڈھیری کے پاس لایا ۔

ام سلمه کہتی ہے کہ: پھر فرشتے نے تھوڑی سی خاک رسول خدا(ص) کو دکھائی۔

جب دشمن کے لشکر نے امام حسین(ع) کو محاصرے میں لیا ہوا تھا اور وہ امام حسین(ع) کو شھید کرنا چاہتے تھے تو امام نے ان سے پوچھا کہ اس سر زمین کا کیا نام ہے ؟ انھوں نے کہا کہ اس کا نام کربلاء ہے۔ امام حسين عليه السلام نے فرمایا کہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سچ فرمایا تھا کہ یہ زمین کرب و بلا ہے۔

هيثمي اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ:

رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.

اسی طرح، هيثمي مجمع الزوائد میں ، ابن عساكر تاريخ مدينه دمشق میں، مزّي تهذيب الكمال میں  اور ابن حجر عسقلاني  تهذيب التهذيب میں لکھتے ہیں کہ:

عن أم سلمة قالت كان الحسن والحسين يلعبان بين يدي رسول الله صلي الله عليه وسلم في بيتي فنزل جبريل فقال يا محمد إن أمتك تقتل ابنك هذا من بعدك وأومأ بيده إلي الحسين فبكي رسول الله صلي الله عليه وسلم وضمه إلي صدره ثم قال رسول الله صلي الله عليه وسلم يا أم سلمة وديعة عندك هذه التربة فشمها رسول الله صلي الله عليه وسلم وقال ويح وكرب وبلاء قالت وقال رسول الله صلي الله عليه وسلم يا أم سلمة إذا تحولت هذه التربة دما فاعلمي أن ابني قد قتل قال فجعلتها أم سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر إليها كل يوم وتقول إن يوما تحولين دما ليوم عظيم.

تهذيب التهذيب، ابن حجر، ج 2، ص 300 - 301 و تهذيب الكمال، المزي، ج 6، ص 408 - 409 و تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 192 - 193 و ترجمة الإمام الحسين(ع)، ابن عساكر، ص 252 - 253 و مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 189 و...

ام سلمه سے روايت ہوئی ہے کہ:

امام حسن و حسين عليهما السّلام میرے گھر میں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل نازل ہوا اور کہا اے محمد(ص) آپ کی رحلت کے بعد آپ کی امت آپکے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی۔  رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے  گريہ کیا اور حسين عليه السلام کو سينے سے لگا لیا۔

پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ خاک جو جبرائیل نے رسول خدا(ص) کو دی تھی، اپنے ہاتھ میں لیا سونگھا اور فرمایا کہ اس خاک سے کرب و بلا کی بو آ رہی  ہے۔ پھر اس خاک کو ام سلمہ کو دیا اور فرمایا کہ اے ام سلمہ اس کا خیال رکھنا اور جب یہ خاک خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین(ع) شھید ہو گیا ہے۔

ام سلمه نے خاک کو ایک شیشی میں رکھ دیا اور ہر روز اس کو دیکھا کرتی تھی اور خاک سے کہتی تھی کہ اے خاک جس دن تو خون میں تبدیل ہو جائے گی وہ دن بہت غم و عزا والا ہو گا۔

ابن حجر عسقلاني اس حديث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

و في الباب عن عائشة و زينب بنت جحش و أم الفضل بنت الحارث و أبي أمامة و أنس بن الحارث و غيرهم.

اس بارے میں  روايات عايشه، زينب بنت جحش، ام فضل دختر حارث، ابو امامه، انس بن حارث اور دوسروں سے بھی نقل ہوئی ہیں۔

اسی طرح هيثمي ایک دوسری روايت نقل کرتا ہے کہ:

عن أبي أمامة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لنسائه لا تبكوا هذا الصبي يعني حسينا قال وكان يوم أم سلمة فنزل جبريل فدخل رسول الله صلي الله عليه وسلم الداخل وقال لام سلمة لا تدعي أحدا أن يدخل علي فجاء الحسين فلما نظر إلي النبي صلي الله عليه وسلم في البيت أراد أن يدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغيه وتسكنه فلما اشتد في البكاء خلت عنه فدخل حتي جلس في حجر النبي صلي الله عليه وسلم فقال جبريل للنبي صلي الله عليه وسلم إن أمتك ستقتل ابنك هذا فقال النبي صلي الله عليه وسلم يقتلونه وهم مؤمنون بي قال نعم يقتلونه فتناول جبريل تربة فقال بمكان كذا وكذا فخرج رسول الله صلي الله عليه وسلم قد احتضن حسينا كاسف البال مغموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبي عليه فقالت يا نبي الله جعلت لك الفداء انك قلت لنا لا تبكوا هذا الصبي وأمرتني ان لا أدع أحدا يدخل عليك فجاء فخليت عنه فلم يرد عليها فخرج إلي أصحابه وهم جلوس فقال إن أمتي يقتلون هذا.

مجمع الزوائد، الهيثمي، ج 9، ص 189 و المعجم الكبير، الطبراني، ج 8، ص 285 - 286 و تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 14، ص 190 - 191 و ترجمة الإمام الحسين(ع)، ابن عساكر، ص 245 - 246 و....

ابو امامه سے روايت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیویوں سے کہا کہ اس بچے(حسین ع) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن کے رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے کہ جبرائیل نازل ہوا ۔ حضرت رسول صلّي اللّه عليه و آلهنے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں  آنے کی اجازت نہ دینا۔ حسين عليه السلام آئے جونہی اپنے نانا کو دیکھا تو چاھا کہ کمرے میں داخل ہوں۔ ام سلمہ نے حسین(ع) کو اپنے سینے سے لگایا تو حسین(ع) نے رونا شروع کر دیا اس نے بہت کوشش کی لیکن حسین(ع) کا گریہ بڑھتا گیا اور اسی گرئیے کی حالت میں رسول خدا کے کمرے میں چلے گئے اور جا کر اپنے نانا کی گود میں بیٹھ گئے۔

جبرئيل نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خبر دی کہ آپ کے بعد آپکی امت آپکے بیٹے کو شھید کرے گی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جبرائیل کی اس بات پر تعجب کیا اور کہا کہ کیا میری امت ایمان کی حالت میں میرے بیٹے کو شھید کرے گی۔ جبرائیل نے کہا ہاں وہ ایمان کا دعوی کرنے والی امت ہو گی لیکن پھر بھی اپنے رسول کے بیٹے کو  بھوکا پیاسا شھید کر دے گی۔

جبرئيل نے زمین کربلاء کی خاک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دی اور کہا کہ یہ خاك اسی زمین کی ہے کہ جس پر آپکے بیٹے کو شھید کیا جائے گا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غم کی حالت میں حسين علیہ السلام کو اٹھائے ہوئے گھر سے باہر چلے گئے۔

ام سلمہ کہتی ہے کہ میں نے گمان کیا کہ شاید حسین(ع) کو رسول خدا(ص) کے کمرے میں جانے دیا ہے اس لیے وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا اے اللہ کے رسول(ص) میری جان آپ پر قربان ہو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ حسین(ع) کو رونے نہ دینا اور آپ نے خود ہی کہا تھا کہ کسی کو کمرے میں میں نہ آنے دینا میں بھی مجبور تھی کیا کرتی حسین(ع) بھی خود ہی کمرے میں داخل ہو گیا ہے۔ پيغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلمہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اصحاب کے پاس چلے گئے۔ اصحاب ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول خدا(ص) نے ان سے کہا کہ میری امت میرے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔

التماس دعا ۔۔۔۔

 

 

مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے لبنان کی پہاڑیوں کی آزادی کی چوتھی سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ الجرود کی فتح لبنانی عوام کے صبر اور استقامت سے حاصل ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ پہاڑیوں کی آزادی، مفت میں حاصل نہيں ہوئی بلکہ اس کے لئے بہت زیادہ قربانیاں دی گئیں۔

سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ چار سال پہلے پہاڑی علاقوں میں جو فتح حاصل ہوئی وہ شام کے خلاف عالمی جنگ اور خطرناک منصوبے کا حصہ تھی جو علاقے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔

حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ داعش شام پر قبضہ کرنا چاہتا تھا اور لبنان بھی اس کے منصوبے کا حصہ تھا۔ داعش کا ہدف یہ تھا کہ شام کے صحرائی علاقے تدمر کو قلمون سے جوڑ دے اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتا تو جنگ اور بھی سخت ہو جاتی۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ کا کہنا ہے کہ امریکہ، داعش کے ساتھ جنگ میں لبنانی حکومت کے راستے میں مانع تراشی کرتا رہا اور امریکہ نے ہی داعش کے کچھ سرغنوں کو افغانستان منتقل کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا امریکہ افغانستان کے تمام پڑوسیوں کو غیر مستحکم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ داعش کو امریکہ نے بنایا ہے اور افغانستان کا تجربہ خطے کے تمام ممالک کے لیے سبق ہونا چاہیے۔

سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ لبنان اور شام کے عوام کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف ہماری لڑائی اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت سے ممکن ہے۔ الجرود کی جنگ لبنان میں قوم، فوج اور مزاحمت کے مثلث کے لیے ایک نیا تجربہ ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کا اس جنگ میں حصہ لینے کا ہدف لبنان کی حمایت اور اس کی زمینوں کو آزاد کرانا اور دشمن سے لڑنا تھا۔

 ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے افغانستان کے دارالحکومت  کابل کے ایئر پورٹ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ کابل ایئر پورٹ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں بچوں اور عورتوں سمیت متعدد افراد جاں بحق ہوگئے ۔ اس حملے کی ذمہ داری وہابی دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدرڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی اپنے بعض وزراء کے ہمراہ  پہلے صوبائی دورے پر آج صبح خوزستان پہنچے، جہاں انھوں نے صوبہ کے اعلی حکام کے ساتھ اہم مسائل اور عوامی مشکلات کو دور کرنے کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا۔

صدر رئیسی نے صوبہ خوزستان کے دورے کے دوران بعض تعمیری اور ترقیاتی پراجیکٹوں کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ صدر رئیسی نے اہواز کے رازی اسپتال کا دورہ کیا اور وہاں خدمت میں مشغول ڈاکٹروں اور طبی عملے کے اہلکاروں کی خدمات پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ رازی اسپتال کورونا بیماروں کے لئے مخصوص اسپتال ہے۔

صدر رئیسی نے صوبہ خوزستان ےک دیہاتوں میں آب رسانی کے پروجیکٹ کا بھی افتتاح کیا ۔ ایرانی صدر نے ہورالعظیم کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا۔ صدر رئیسی نے صوبائی حکام پر زوردیا کہ وہ عوام کی خدمت کو سعادت اور نیکی سمجھ کر انجام دیں ، کیونکہ اس طرح وہ آخروی اجر سے بھی بہر مندہ  ہوسکیں گے۔

واضخ رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی آج صوبح صوبہ خوزستان کے عوام کی مشکلات کا قریب سے جائزہ لینے کے لئے اہواز پہنچے۔ ایرانی صدر کا یہ پہلا صوبائي دورہ ہے صدر رئيسی  کے ہمراہ  بعض وزراء بھی ہیں جن میں بجلی، زراعت ، صحت  اور داخلہ شامل ہیں۔

 اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر داخلہ احمد وحیدی نے نامہ نگاروں سے گفتگو میں  افغانستان کو ایران کا اہم ہمسایہ اور برادر ملک قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران ہمیشہ کی طرح افغانستان کی عظیم و بزرگ قوم کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کا حامی ہے۔ انھوں نے ایرانی عوام کی خدمت کو بہت بڑی سعادت قراردیتے ہوئے کہا کہ  اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اس عہدے کے ذریعہ عوام کی خدمت کا موقع عطا کیا ۔ احمد وحیدی نے کہا کہ عوام کو درپیش مشکلات حل کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے اور ایران کے تمام صوبوں کے گورنر ، ضلعی اور دیہی حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو درپیش مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں اپنے منصبی فرائض سنجیدگی کے ساتھ ادا کریں۔

احمد وحیدی نے افغانستان کے شرائط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں جاری شرائط کی وجہ سے بعض افغان شہری ایران کی سرحدوں کے اندر آگئے اور ہم نے انھیں سہولیات فراہم کی ہیں جو افغانستان میں حالات سازگار ہونے کے بعد واپس چلے جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان سےملحقہ سرحد پر کوئي مشکل نہیں ہے۔ افغانستان ہمارا اہم ہمسایہ ملک ہے اور ہم افغانستان کی عظيم قوم کی حمایت میں ماضي کی طرح کھڑے رہیں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی تہران میں وزارتِ خارجہ آمد پر ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیر عبداللہیان نے ان کا خیر مقدم کیا. 

وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ایمبیسڈر محمد صادق ،ایران میں تعینات پاکستانی سفیر رحیم حیات قریشی اور دیگر سینئر افسران بھی پاکستانی وزیر خارجہ کے ہمراہ تھے. 

پاکستانی وزیر خارجہ نے اس ملاقات میں وزارتِ خارجہ کا منصب سنبھالنے پر ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیر عبداللہیان کو مبارکباد دی. 

ملاقات میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، ایران کے ساتھ دو طرفہ برادرانہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔ اپریل 2021 میں میرے گذشتہ دورہ  ایران کے دوران، پاکستان اور ایران کے مابین بارڈر مارکیٹوں کے قیام اور نئے بارڈر کراسنگ پوائنٹ کھولنے کے حوالے سے اہم مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہوئے۔ ان معاہدوں پر عملدرآمد سے دونوں ممالک کے مابین نہ صرف تجارت کو فروغ ملے گا بلکہ آمدو رفت میں بھی سہولت پیدا ہو گی. 

پاکستان کے وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان اور ایران کے مابین تجارتی مراسم بڑھانے کیلئے، ادارہ جاتی میکنزم کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے. 

 فلسطینی تنظیم جہاد اسلامی کے ایک اعلی رکن محمد الہندی نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ذلت آمیز تھا۔

جہاد اسلامی کے اعلی رکن نے کہا کہ امریکی، افغانستان پر 20 سال تک قبضہ کرنے کے بعد آخر کار  ذلت آمیز طریقہ سے خارج ہونے پر مجبور ہوگئے، جو خطے میں  امریکہ کی شکست اور ناکامی کا مظہر ہے۔  جہاد اسلامی کے رہنما نے جنگ شمشیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ شمشیر میں اسلامی مزاحمت کی کامیابی دنیا کے سامنے نمایاں ہوگئی۔

انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران خطے کی ایک عظيم طاقت میں تبدیل ہوگیا ہے جو اپنے استقلال ، آزادی اور ملکی اور قومی سلامتی کے لئے تلاش و کوشش کررہا ہے۔ ایران امریکی ظالمانہ پابندیوں کے باوجود ترقی اور پیشرفت کی سمت گامزن ہے۔