سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئيسی کی موجودگي میں تہران میں 35  ویں عالمی اسلامی وحدت کانفرنس کا آغاز ہوگيا ہے۔ تہران میں 35 ویں عالمی اسلامی وحدت کانفرنس میں 52 اسلامی ممالک کے علماء اور دانشور شریک ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 35 ویں عالمی اسلامی وحدت کانفرنس " اسلامی اتحاد، صلح اور عالم اسلام میں تفرقہ اور تنازعات سے پرہیز" کے عنوان سے منعقد ہورہی ہے۔

اسلامی وحدت کانفرنس پارسیان آزادی ہوٹل میں ہورہی ہے۔ عالمی اسلامی وحدت کانفرنس میں 52 ممالک کے علماء اور دانشور حضوری اور آن لائن شریک ہیں ۔ عالمی اسلامی وحدت کانفرنس کا سلسلہ 19 اکتوبر سے لیکر 24 اکتوبر تک جاری رہےگا۔

عالمی اسلامی وحدت کانفرنس میں 39 ممالک سے  514 تقریریں مختلف موضوعات پر پیش کی جائیں گی ، جن میں اسلامی اخوت اور دہشت گردی سے مقابلہ اور تفرقہ و تنازعات سے پرہیز کے موضوعات بھی شامل ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق آج کے دن کا آغاز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 31 جبکہ صوبائی دارالحکومتوں لاہور، پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں 21، 21 توپوں کی سلامی سے ہوا۔

اس موقع پر مساجد میں دین اسلام کی سر بلندی، مسلم امہ کے اتحاد، یکجہتی، ترقی و فلاح کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔

میلاد مصطفیٰ ﷺ کے سلسلے میں حکومتی اور مذہبی تنظیموں، میلاد کمیٹیوں اور لوگوں کی جانب سے جلسے جلوس، سیرت النبی ﷺ کانفرنسز، سیمینار سمیت مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں علما، آئمہ حضرات مساجد میں سیرت النبی ﷺ اور حیات طیبہ پر روشنی ڈال رہے ہیں۔

رحمت اللعالمین ﷺ کی ولادت کے دن کی خوشی میں گھروں، دفاتر، مساجد، پارکس، تفریحی مقامات، گلیوں، مارکیٹوں، بازاروں، شاہراہوں کو سبز پرچموں، برقی قمقموں، آرائشی محرابوں، خوبصورت فلیکس سائنز، بینرز، جھنڈیوں اور دیگر زیبائشی اشیا سے دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔

 

اس سال وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر 3 سے 12 ربیع الاول تک مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر عشرہ رحمت اللعالمین ﷺ منایا جارہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق  رواں سال بھی وزارت مذہبی امور کی طرف سے سرکار دوعالم ﷺ کی سیرت طیبہ اور حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے کتب سیرت، کتب نعت، مقالات سیرت اور خواتین کے لیے مذہبی کتب کے مقابلے منعقد کیے گئے ہیں۔

دوسری جانب دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں اور فارن مشنز میں بھی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے سیرت کانفرنسز کا انعقاد کیا جائے گا۔

12ربیع الاول کے موقع پر ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے، علاوہ ازیں حکومت کی جانب سے غیر سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کی سزاؤں میں 3 ماہ کی تخفیف بھی کی گئی۔

علاوہ ازیں عیدمیلاد النبی ﷺ کی تمام تقاریب کے انعقاد کے موقع پر کووڈ 19 کے ایس او پیز کا مکمل طور پر خیال رکھا جائے گا جبکہ اس سلسلے میں سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات اور ٹریفک پلانز جاری کیے گئے ہیں۔

 
 

المسیرہ نیوز کے مطابق انصاراللہ اور حوثی رہنما سیدعبدالملک بدرالدین الحوثی نے پیغام میں گذشتہ روز کہا تھا کہ امید ہے اس سال بھی لاکھوں یمنی جشن میلاد النبی کی ریلی میں شرکت کریں گے اور عشق نبی آخر الزمان میں اپنی عقیدت کا ثبوت دیں گے۔

 

رپورٹ کے مطابق صنعا میں جشن میلاد میدان «السبعین» میں منایا گیا اور ریلی نکالی گئی۔

 

پیر کے روز صبح ہی سے لاکھوں افراد میدان میں جمع ہوئے جو مختلف شہروں سے پرچموں کے ساتھ شریک تھےاور انہوں نے مختلف بینرز اٹھائے ہوئے تھے۔

 

یمن میں میلن مارچ ریلی اور جشن میلادالنبی(ص)

جشن کمیٹیوں کے مطابق صعدہ شہر میں بھی خصوصی طور پر جشن کا اہتمام کیا گیا تھا جبکہ میدان «المیناء» جو صوبہ «الحدیده»،  «بنی مشطاء» جنوب مغربی  شهر «شفر» صوبہ «حجة»، صوبہ عمران کے اسپورٹس اسٹیڈیم، شهر الحزم صوبہ الجوف، میدان «هران» صوبہ ذمار، یونیورسٹی میدان «إب» اور شهر «یریم» میں بھی جشن میلاد کا اہتمام کیا گیا تھا۔

 

کمیته‌های سازمان‌دهنده این مراسم پرشکوه در استان‌های تعز، المحویت، ریمة، مأرب، البیضاء، الضالع نیز مکان‌های اختصاص یافته برای این گردهمایی مردمی را اعلام کرده‌اند و در خصوص آن اطلاع‌رسانی‌های لازم را انجام داده‌اند.

 

دارالحکومت کے مرکزی میدان الثورہ اسٹیڈیم میں مرکزی جشن کا اہتمام تھا جبکہ خواتین کی ریلی بھی اس موقع پر نکالی گیی۔

 

علما کرام نے میلاد نبی مکرم اسلام(ص) نے یمنی عوام سے جشن میں بھرپور شرکت کی دعوت کی تھی۔

 

 

علما کے بیان میں کہا گیا تھا کہ میلاد پیامبر اکرم(ص) وحدت امت اور فرقہ واریت سے دوری کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔

 

علما نے بیان میں افغانستان میں داعش کے حملوں کی بھی شدید مذمت کی ۔

 

جشن میلاد نبی گرامی اسلام(ص) یمن میں اس حال میں بھرپور طریقے سے منایا جارہا ہے جہاں یہ غریب پسماندہ ملک چھ سالوں سے سعودی الائنس کے حملوں کا سامنا کررہا ہے اور شدید اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے۔/

ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شیعہ رہنما علامہ سید ساجد علی نقوی نے عید میلادالنبی کی مناسبت سے 12 تا 17 ربیع الاول ملک بھر میں ”ہفتہ وحدت و اخوت“ منانے کا اعلان کرتے ہوئے عالم اسلام سمیت مسلمانان پاکستان کو مبارک باد پیش کی ہے اور کہا کہ حکم قرآنی اورسنت خاتم النبین کا تقاضا ہے کہ امت محمدی کی وحدت اور اتحاد کے لئے کام کیا جائے اور موجودہ پرفتن اور سنگین حالات میں پیغمبر گرامی کی سیرت سے درس لیتے ہوئے باہمی اختلافات اور فروعی و جزوی مسائل کے حل کے لئے امن‘ محبت‘ رواداری‘ تحمل اور برداشت کا راستہ اختیار کیا جائے تاکہ امت مسلمہ میںمسلکی تفریق و اختلافات کے خاتمے‘ امن و آشتی کے فروغ کا راستہ اپنا کر ہم خالق کائنات اور منجی بشریت‘ رحمت اللعالمین کی خوشنودی حاصل کرسکیں۔

انہوں نے تاکید کی کہ خاتم المرسلین اور حضرت امام جعفر صادق ؑکے میلا د کا جشن منانے کا سب سے بہتر اور موزوں طریقہ یہ ہے کہ امت مسلمہ بالخصوص اور عالم انسانیت بالعموم حضور اکرم اور خانوادہ رسالت کی سیرت اور فرامین پر عمل کرے اور اپنی انفرادی‘ اجتماعی‘ روحانی‘ دینی و دنیاوی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے حضور اکرم کے اسوہ حسنہ کو نمونہ عمل قرار دے۔

انکے پیغام  میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم نے اپنی سیرت عالیہ کی شکل میں عمل کیلئے جو اثاثہ ہمارے لئے چھوڑا ہے اس پر صحیح معنوں میں عمل کرنا ہی ہمارے لئے باعث نجا ت ہے۔ قرآنی تعلیمات اور اسلام کی عملی تعبیر کے لئے ہمیں سیرت رسول اکرم سے استفادہ کرنا ہوگا ۔ بدقسمتی سے امت مسلمہ عملی طور پر ان تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہے جس کی وجہ سے مسلسل مصائب و آلام میں مبتلا ہے۔

علامہ ساجد نقوی نے عوام اور کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ ہفتہ وحدت کے دوران تمام مسالک اور مکاتب فکر کے مابین وحدت و یگانگت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لئے مشترکہ پروگرامز اور اجتماعات منعقد کریں اور سینکڑوں مشترکات کو بنیاد بناکر معمولی اور جزوی نوعیت کے اختلافی مسائل کو پس پشت ڈال کر ملت اسلامیہ کی وحدت کا عملی مظاہرہ کریں اور انسانیت دشمن عناصر پر واضح کردیں کہ وہ اتحاد و وحدت کو کسی صورت نقصان نہیں پہنچاسکتے۔

عقل، احکام اسلام کی ضرورت، رسول اکرمؐ اور امیر المومنینؑ کا رویہ اور آیات و حدیث کے مفاد سے، حکومت اسلامی کی تشکیل واجب اور لازم ہے۔ بطور نمونہ ایک روایت امام رضاؑ سے نقل کرتا ہوں۔ حدیث کا آخری حصہ ہمارےمطلب کے لئے مفید ہے اس لئے اس کا تذکرہ کرتا ہوں۔

خدا نے ’’اولی الامر‘‘ کیوں معین فرمایا؟

’’ اگر کوئی پوچھے کہ خدا نے ’’اولی الامر‘‘ کیوں معین فرمایا؟ جن کی اطاعت ہم پر واجب ہے۔ اس کا جواب یوں دینا چاہئے کہ بہت سی حکمتوں اور دلیلوں کے پیش نظر خدا نے ایسا کیا ہے، ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ لوگوں کو ایک طریقہ کا پابند کر دیا گیا ہے اور یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اس کے حدود و قوانین سے آگے نہ بڑھیں ورنہ مبتلائے فساد ہوجائیں گے۔ اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک فرد (یا قدرت) ان کے لئے امین و پاسبان نہ ہو، جس کا فریضہ ہو کہ لوگوں کو ان کے حقوق سے آگے نہ بڑھنے دیں۔ دوسروں کے حقوق پر کوئی ظلم و تعدی نہ کر سکے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو لوگ اپنی لذت و منفعت کے حصول کے لئے دوسروں پر ظلم سے باز نہیں آئیں گے۔

ایک دلیل یہ بھی کہ دنیا کہ دنیا کے مختلف فرقوں اور مذہبوں میں کسی بھی ملت یا مذہب یا فرقے کا وجود بغیر رئیس کے ممکن نہیں ہوا ہے (اس لئے مسلمانوں میں بھی ایک حاکم اور رئیس ہونا چاہئے) کیونکہ دین و دنیا کے امور میں ایسے شخص کا وجود ضروری ہے۔

اسی لئے خدا خدا وند عالم کی حکمت میں یہ بات نا جائز ہے اپنے بندوں کو بغیر رہبر اور سرپرست کے چھوڑ دے۔ کیونک خدا جانتا ہے کہ مخلوق کے لئے ایسا رہبر ہونا ضروری ہے جو دشمنوں سے جنگ کر کے آمدنی کو ان کے درمیان تقسیم کرے، ان کے جمعہ و جماعت قائم کرے، مظلوموں کے دامن تک ظالموں کے ہاتھوں کو نہ پہنچنے دیں۔ علاوہ بر ایں

رہبر و امام کے تعیین کا فلسفہ

خدا اگر مخلوق کے لئے امام، امین، رہبر اور حافظ معین نہ کرے تو ملت کہنہ ہوجائے، دین برباد ہوجائے، سنت اور اس کے احکام متغیر ہو جائیں، بدعتی لوگ دین میں اضافہ کر دیں، ملحدین کمی کر دیں۔ اور اس طرح کر دیں کہ دین مسلمانوں پر مشتبہ ہو کر رہ جائے، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ ناقص ہیں، کمال کے محتاج ہیں، اس کے علاوہ آپس میں اختلافات رکھتے ہیں، ان کے حالات ان کی خواہشیں الگ الگ ہیں۔

لہذا خدا اگر لوگوں کے لئے دین کا قیم اور محافظ معین نہ کرتا تو جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں لوگ فساد میں مبتلاء ہوجاتے، شریعتیں، سنن، احکام، ایمان سب میں تغیر ہوجاتا اور اس میں پوری مخلوق کا فساد ہی فساد ہوتا۔

کتاب: حکومت اسلامی، ص ۲۷ سے ۲۸، امام خمینی رح؛ سے اقتباس

 

آج کی دنیا میں محبت کی بری تعریف پیش کی جاتی ہے ۔یہ عشق جسے بیان کیا جاتا ہے، یہ سچی محبت و عشق نہیں ہے ۔یہ وہ جنسی خواہشات اور شہوت پرستی ہے کہ جسے یہ لوگ ایک خاص شکل میں ظاہر کرتے ہیں ۔ممکن ہے کہ یہ غیر واقعی عشق و محبت ،حقیقی عشق و محبت کی جگہ نظر آئے مگر اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔وہ عشق و محبت جو قابل قدر اور ذی قیمت ہے وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے والے لڑکے اور لڑکی کے درمیان خدا کی پسندیدہ، سچی اور گہری محبت ہے جو ایک دوسرے کی نسبت احساس ذمے داری کے ہمراہ ہوتی ہے۔ 

وہ یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ اب اس نکاح اور ازدواجی زندگی کے بعد ایک جان دو قالب اور ایک ہی منزل کے راہی ہیں اور یہی وہ محبت ہے کہ جس کی بنیاد پر ایک گھرانہ تعمیر کیا جاتا ہے۔

 

 

مادی محبت اور قلبی محبت میں فرق

وہ عشق و محبت جو انسانیت سے میل نہیں کھاتی اور ظاہری چیزوں اور جلد ختم ہونے والی شہوت سے مربوط ہے، اس کی کوئی مضبوط اور مستحکم بنیاد نہیں ہوتی ہے۔ لیکن وہ محبت کہ جو انسانی و بشری اساس پر قائم ہے اور جسے خداوند متعال نے انسانی قلب کو ودیعت کیا ہے اگر اپنی خاص شرائط کے ساتھ کہ جس کی اس اسلامی رشتے ’شادی ‘ میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ، انسانی حیات میں قدم رکھے تو یہ محبت روز بروز زیادہ ہوتی جائے گی۔

 

ایک دوسرے کا احترام

میاں بیوی کو چاہیے کہ اپنی بہترین مشترکہ ازدواجی زندگی کے لئے ایک دوسرے کا احترام کریں۔ یہ احترام، ظاہری اور خانہ پوری کی حد تک نہ ہو بلکہ ایک واقعی اور حقیقی احترام ہو۔(کہ جس میں ایک شریک حیات اور ایک صاحب دل انسان کی عقلی اور فطری توقعات ،امیدوں ،آرزووں ، احساسات اور جذبات کو مدنظر رکھا جاتا ہو ۔)احترام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو القاب و آداب سے بلائیں بلکہ شوہر اپنی شریکہ حیات کی نسبت اور بیوی اپنے سرتاج کے لئے قلبی طور پر احترام کا احساس کرے اور اس کے احترام کو اپنے دل میں زندہ رکھے۔

آپ کو چاہیے کہ اس احترام کو اپنے دل میں محفوظ رکھیں اور ایک دوسرے کی حرمت کا خیال رکھیں ۔ یہ زندگی کو چلانے کے لئے بہت اہم چیز ہے۔اسی طرح میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی اہانت و تحقیر کا کوئی بھی عنصر موجود نہیں ہونا چاہیے۔ (نہ زبانی ، نہ قلبی اور نہ اشارے سے )۔

 

میاں بیوی ایک دوسرے پر اعتماد کریں

ایک دوسرے کے دل میں محبت کو اس طرح محفوظ رکھا جا سکتا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور گھر میں اعتماد کی فضا بحال کریں۔ جب گھر میں اطمئنان کی فضا قائم ہو گی تو نہ صرف یہ کہ محبت بھی مستحکم ہو گی بلکہ انس والفت بھی اس پیار بھرے ماحول میں جنم لے کر گھر کی فضا میں چار چاند لگا دیں گے۔اطمئنان وہ مضبوط بنیاد ہے کہ جو محبت کو قائم رکھتی ہے ۔اگر میاں بیوی کے درمیان اعتماد کی فضا ختم ہو جائے تو محبت بھی آہستہ آہستہ زندگی سے اپنا رختِ سفر باندھ لیتی ہے۔لہٰذا آپ کو چاہیے کہ ایک دوسرے پر اعتماد کریں ۔


اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی شریکہ حیات یا آپ کا سر تاج آپ سے زیادہ محبت کرے تو آپ کو چاہیے کہ آپ اس سے وفادار رہیں اور اس کے اعتماد کو بحال کریں ۔وہ چیز جو محبت کو ایک گھرانے میں مکمل طور پر نابود کردیتی ہے وہ میاں بیوی کے درمیان بے اعتمادی ہے۔

محبت وہ قیمتی گوہر ہے کہ جس کے وجود کا انتظام اور اس کی حفاظت کا اہتمام انسانی حیات میں اشد ضروری ہے اور اس کا راستہ یہ ہے کہ بیوی ،شوہر اور شوہر، بیوی پر اعتماد کرے ۔جب دونوں میں اعتماد کی فضا قائم ہوگی تو وفاداری اور اطمئنان کے پروں کے ذریعے یہ گھرانہ سعادت کی طرف پرواز کرے گا اور اس گھر پر محبت بھی اپنی برکتیں زیادہ نچھاور کرے گی۔

زندگی میں (ایک دوسرے کے جسم و جاں سے) وفاداری ایک بہت اہم عنصر ہے ۔اگر ایک بیوی یہ احساس کرے کہ اس کا شوہر اس سے وفادار ہے یا شوہر یہ احساس کرے کہ اس کی بیوی وفاداری کی ایک زندہ مثال ہے تو خود یہ احساس مزید محبت کی پیدائش کا باعث بنتا ہے۔جب محبت وجود میں آتی ہے تو گھر کی بنیادیں بھی مضبوط ہو جاتی ہیں، ایسی مضبوط بنیاد کہ جو سالہا سال قائم رہتی ہے۔

لیکن اگر میاں بیوی یہ احساس کریں کہ اس کی بیوی یا میاں کا دل کسی اور سے لگا ہوا ہے یا وہ یہ احساس کرے کہ وہ سچ نہیں بولتا یا منافقت سے کام لیتا یا لیتی ہے یا وہ احساس کریں کہ ان کے درمیان اعتماد نہیں ہے تو دونوں کے درمیان کتنی ہی محبت کیوں نہ ہو وہ محبت کمزور ہو جائے گی۔


کتاب: طُلوعِ عشق، رہبر معظم سید علی خامنہ ای؛ سے اقتباس

اہل تاریخ کے درمیان مشہور ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ولادت با سعادت عام الفیل میں ہوئی،عام الفیل وہ سال ہے جس میں اصحاب فیل ابرھہ کی سرکردگی میں مکہ پر حملہ آورہوئے اور ابابیل نامی پرندہ کے زریعے سے نابود ہوئے۔
اس بارے میں صحیح نظریہ دینا مشکل ہے کہ یہ واقعہ عیسوی سال کے کس سن میں پیش آیا عام طور پرسنہ 570 یا 573 تاریخ میں ذکر ہوا ہے، کیونکہ مسیحی اسلام سے پہلے دقیق اور مدون تاریخ نہیں رکھتے تھے۔  اصحاب فیل کی داستان قرآنی معجزات میں سے ہے اس واقعے کوبہت اختلاف کے ساتھ  اجمال اور تفصیل سے ذکر کیا گیاہے، ہم نے اس داستان کے مجموعے کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سوانح حیات میں تحریر کیا ہے ذیل میں کچھ توضیحات کے ساتھ بیان کیا کر رہے ہیں۔
اصحاب فیل کی داستان
ملک یمن { آج کل سعودی حکومت کے حملوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور جس میں بچے، بوڑھے،عورت سب شہید ہو رہے ہیں} جو کہ عربستان کے جنوب مغرب میں واقع ہے ایک زرخیز زمین ہے جس میں مختلف قبائلوں نے حکومت کی ہے ان میں سے ایک حمیرنامی قبیلہ ہے جس نے سالوں سال یمن پر حکومت کی۔
ذونواس، حمیر قبیلہ کا ایک بادشاہ ہے جس نے یمن پر کئی سال حکومت کی، وہ ایک سفر میں  یثرب (مدینہ) کی طرف گئے ذونواس وہاں موجود یہودی مہاجر کی تبلیغات کے زد میں آ گئے ۔ پھر اس نے بت پرستی چھوڑ کر دین یہود کو اپنایا اور جلد ہی یہ تازہ دین اس پر بہت زیادہ اثر انداز ہوا اور وہ متعصب یہودی بن گئے اور پورے جزیرۃ العرب اورتمام شہروں میں جو اس کی حکومت کے ما تحت تھے ، دین یہود کی نشر و اشاعت اور ترویج کی کوشش کی یہاں تک کہ دوسرے  ادیان کے پیروکاروں کو سختی سے سزا دیا کرتے تھے تاکہ دین یہود کو اپنا لیں، اور اسی وجہ سے کچھ عرصے میں بہت سارے عرب یہودی بن گئے۔
نجران(نجران یمن کا شمالی اور کوہستانی شھر ہے)  کے لوگوں نے  کچھ عرصے سے دین مسیح کو قبول کیا تھا اور دین مسیح نے ان کے دل میں بہت گہرا اثر چھوڑا تھا بڑی مشکل سے اپنے دین کا دفاع کیا کرتے تھے اسی لئے انہوں نے یہودی آئین کو قبول کرنے سے انکار کیا اور ذونواس کی اطاعت سے روگردانی کی۔
ذونواس ان پر بہت غضبناک ہوا اور اس نےارادہ کیا کہ ان کو بہت سخت سزا  دی جائے لھذا اس نے حکم دیا کہ ایک خندق کھودی جائے اور اس میں آگ جلائی جائے اور دین یہود کے مخالفین کو اس آگ میں ڈال دیا جائے اس طریقے سے اکثر مسیحیوں کو جلا دیا گیا اور بعض کو تلوار سے مار دیا گیا یا ان میں سے بعض کے ہاتھ، پاوں اور کان یا ناک کاٹے گئے، اس دن جو مارے گئے ان کی تعداد بیس ہزار افراد لکھی گئی ہے اور اکثر مفسرین کے عقیدے کے مطابق داستان اصحاب اخدود جوکہ قرآن کے سورہ بروج میں ذکر ہوا ہے اسی ماجرے کی طرف اشارہ ہے۔
نجران کے ایک مسیحی نے اس معرکہ سے نجات پائی، ذونواس کے افراد اس کی تلاش میں رہے وہ اس شہر سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا اور خود کو امپراطور روم (روم کے بادشاہ) ـ جو کہ قسطنطنیہ میں تھے ـ تک پہنچایا اور اس دردناک قتل کی خبر امپراطور روم کو دی جو کہ خود بھی مسیحی تھے اورذونواس سے انتقام کے لئے اس سے مدد مانگی۔
روم کا بادشاہ اس خبر سے متاثر ہوا اور اس شخص کے جواب میں یہ کہا کہ تمہارا ملک یمن ہم سے دور ہے لیکن میں ایک خط (نجاشی) حبشہ کے بادشاہ کو  لکھ دیتا ہوں تاکہ وہ تمہاری مدد کریں۔
نجاشی نے  ایک بہت بڑا لشکر جو کہ ستر(70) ہزار افراد پر مشتمل تھا یمن سے جنگ کے لئے بھیجا اور اس لشکر کا کمانڈر ابو یکسوم ابرھہ فرزند صباح کو بنایا اور ایک قول کے مطابق اریاط نامی ایک شخص کو اس لشکر کا امیر بنایا اور ابرھہ کو جو کہ ایک جنگجو آدمی تھے اس کے ساتھ بھیجا۔
اریاط حبشہ سے دریای احمر کے کنارے تک آگئے اور وہاں سے کشتی میں سوار ہو کر یمن کے ساحل پر لنگرانداز ہوئے۔ ذونواس ان کی آمد سے مطلع ہوا اور یمن کے مختلف قبیلوں سے ایک لشکر تیار کیا اور حبشیوں کے مقابلے کے لئے آیا جب جنگ شروع ہوئی تو ذونواس کا لشکر حبشی لشکر سے مقابلہ نہ کر سکا اورشکست کھائی اور ذونواس اس شکست کو تحمل نہ کر سکا اور اپنے آپ کو دریا میں گرا کر موج دریا میں غرق ہو گیا۔
حبشہ کے لوگ یمن میں داخل ہو گئے اور مدتوں وہاں پر حکومت کی کچھ دنوں بعد ابرھہ نے اریاط کو مار ڈالا اور وہ خود اسکی مسند پر بیٹھ گیا یمن کے لوگوں کو اپنا مطیع بنایا اور نجاشی کو بھی (جو کہ اریاط کے تختہ الٹنے سے اس پر غضبناک تھے ) کسی نہ کسی طریقے سے راضی کر لیا۔
 یمن میں اقامت کے دوران ابرھہ اس بات کی طرف متوجہ ہوے کہ عرب کے لوگ جو اس علاقے میں رہتے ہیں چاہے وہ بت پرست ہوں یا جس بھی  دین سے تعلق رکھتے ہوں  مکہ اور خانہ کعبہ سے خاص عقیدت اورخاص احترام کے قائل ہیں اور بہت سے لوگ ہر سال اسکی زیارت کو جاتے اور قربانی کیا کرتے تھے، وہ اس فکر میں پڑ گئے کہ جو معنوی اور اقتصادی نفوذ مکہ کو حاصل ہے اورجو رابطہ زیارت کعبہ اور عرب کے درمیان موجود ہے کہیں وہ خود اس کیلئے اور دوسرے حبشیوں کیلئے جو یمن اور عرب کی دوسری جگہوں پر سکونت پزیر ہیں مشکل کا سبب نہ بنے اور کہیں ان کووہاں سے نہ نکال دیں، اس  پریشانی سے نکلنے کے لئے اس نے یمن میں ایک عظیم معبد بنایا اور جہاں تک ممکن تھا اسکی خوبصورتی اور تزئینات میں بہت کوشش کی اور وہاں کے عرب کومختلف طریقوں سے  اس معبد کی طرف متوجہ کرایا اور خانہ کعبہ کی طرف جانے سے روکا۔
وہ معبد جو ابرھہ نے یمن میں بنایا اسکا نام (قلیس) رکھا لیکن  اتنی تزیین، بناو سنگار، تجلیل اور احترام کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور دیکھا  کہ لوگ وہی خلوص اور زور و شور سے ہر سال خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے جاتے رہے، حج کے اعمال انجام دیتے رہے اور اس کے با شکوہ معبد کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے بلکہ ایک دن اسے اطلاع دی کہ ایک عرب (کنانہ) نے رات کو اس کے معبد میں پیشاپ کر کے اور گندہ کر کے  اپنے شہر کی طرف بھاگ گیا ہے، یہ بات ابرھہ کو بہت ناگوار گزری اور اس نے یہ عہد کیا کہ مکہ میں جا کر خانہ کعبہ کو تباہ کر کے واپس یمن میں آئے وہ حبشہ کا لشکر اورمخصوص جنگی  ہاتھی لیکر خانہ خدا کو ویران کرنے مکہ کی طرف گئے۔  
جب عرب اس ماجرا سے با خبر ہوئے تو اپنے دفاع اور ابرھہ سے جنگ کے لئے آمادہ ہوئے ان میں سے ایک یمن کے اشراف زادہ نے جس کا نام ذونفر تھا اپنی قوم کو خانہ خدا کے دفاع کے لئے دعوت دی ۔ اسی طرح عرب کے دوسرے قبائل کو بھی ابرھہ سے جنگ کے لئے اکسایا اور انکی غیرت اور حمیت کو للکارا اور کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر ابرھہ سے جنگ کے لئے آیا لیکن ابرھہ کا لشکر کے ساتھ مقابلہ نہ کر سکا اور شکست کھائی وہ خود ابرھہ کے  سپاہیوں کے ہاتھوں اسیر ہو گئے ذونفر نے جب یہ دیکھا توکہا کہ مجھے قتل نہ کر شاید میرا زندہ رہنا تمہارے لئے زیادہ سود مند ہو۔
ذونفر کی شکست اور اسیری کے بعد  عرب  کے قبائل کا سرکردہ جس کا نام نفیل بن حبیب خثعمی  تھا، ایک بہت بڑی جماعت کے ساتھ ابرھہ سے مقابلہ کرنے آیا لیکن وہ بھی ذونفر کی سرنوشت سے دچار ہو گیا اور ابرھہ کی سپاہیوں کے ہاتھوں اسیر ہو گئے۔
لشکر ابرھہ سے مذکورہ قبائل کی پے در پے شکست کے بعد عرب کے دوسرے قبائل جو کہ ابرھہ سے لڑنے آئے تھے جنگ سے منصرف ہو کر،اسکے مطیع  بن گئے، ان میں سے ایک قبیلہ ثقیف تھا جو کہ طائف میں رہتا تھا جب ابرھہ کی فوج طائف میں پہنچی تو انہوں نے چاپلوسی اور چرب زبانی اختیار کی اور ان سے کہا کہ ہم تمہارے مطیع اور فرمانبردار ہیں،اور تمیہں مکہ تک پہنچانے ،تمہارے مقصد میں کامیابی تک تمہارا ساتھ رہینگے ۔اسی کے ساتھ ابو عار نامی شخص کو ان کے ساتھ بھیجا ابو عار، ابرھہ کے لشکر کو لیکر مغمس نامی جگہ تک  آیا جو کہ مکہ سے 4 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ وہ مریض ہوا اور دنیا سے چل بسا اس کو وہی پر دفن کیا، ابن ھشام لکہتا ہے کہ ابھی لوگ اس کی قبر پر پتھر مارتے ہیں۔
جب ابرھہ مغمس  پر پہنچا تو ابرھہ نے  اسود بن مقصود نامی کمانڈر کو مامور کیا کہ لوگوں کے مال مویشی غارت کر کے اس کے پاس لے آئے۔
اسود (کمانڈر) بہت سارے سپاہیوں کے ساتھ اس شہر کے گرد و نواح میں گئے اور جہاں پر بھی کوئی مال یا اونٹ وغیرہ دکھائی دیتا غارت کر کے ابرھہ کے پاس لے جاتے، ان غارت شدہ اموال میں عبدالمطلب کے 200اونٹ بھی تھے جو کہ مکہ کی چراگاہ میں تھے جن کو ابرھہ کے سپاہی  غارت کر کے لے گئے۔  جب بزرگان قریش اس واقعہ سے آگاہ ہوئے تو ابرھہ سے جنگ اور اپنے اموال کا واپس لانے کا سوچا لیکن جب دیکھا کہ ابرھہ کے سپاہی بہت زیادہ ہیں تو جنگ سے منصرف ہوئے اور اس ظلم و تعدی کو سہتے رہے۔
ابرھہ نے حناطہ نامی شخص کو مکہ میں بھیجا اور اس سے کہا کہ مکہ میں جاکر ان کے بزرگ شخص کی معلومات حاصل کرےاور جب اس کی شناخت ہوجائے تو اس سے کہو کہ ہم تم سے جنگ کے لئےنہیں آئے ہیں بلکہ ہمارا مقصد صرف خانہ کعبہ کو ویران کرنا ہے اگر تم ہمارے کام میں دخل اندازی نہ کرو، ہمیں تہماری جان سے کوئی کام نہیں اور تمہارا خون نہیں بہائیں گے اور کہا کہ اگرتم یہ دیکھو کہ  وہ جنگ کا قصد نہیں رکہتا تو اس کو میرے پاس لے آنا ۔
حناطہ مکہ میں آیا اوران کی لیڈر کے بارے میں پوچھا تو اسکو عبدالمطلب کے پاس لے گئے، حناطہ نے ابرھہ کا پیغام عبدالمطلب کو پہنچایا، عبدالمطلب نے جواب میں کہا کہ خدا کی قسم ہم ابرھہ سے جنگ کے درپے نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس مقاومت کی طاقت اور سازو سامان ہے اور یہاں پر خدا کا گھر ہے اگر خدا چاہے تو اس کو ویرانی سے روکے گا وگرنہ ہم ابرھہ سے دفاع کرنے کے قادر نہیں ہیں۔
حناطہ نے عبدالمطلب سے کہا کہ اگر ابرھہ سے لڑتےنہیں توابرھہ کے پاس چلے،عبدالمطلب اپنے بعض فرزندوں کے ساتھ ابرھہ کے لشکر گاہ کی طرف گئے اس سے پہلے کہ عبدالمطلب کو ابرھہ کے پاس لے جاتے ابرھہ کو عبدالمطلب کے بارے میں آگاہ کیا گیا کہ وہ قریش کے پیشوا اور اس سرزمین کی بزرگ شخصیت ہیں یہ ایسا شخص ہے کہ جولوگوں کو کھانا کھلاتا ہے اور غریبوں کی دیکھ باال کرتا ہے علاوہ از این عبدالمطلب خوش سیما اور با وقار انسان تھے جب آپ ابرھہ کےخیمے میں داخل ہوئے تو ابرھہ آپ کا وقار اور ھیبت کو دیکھ کر آپ کی بہت احترام کیا اور اپنے پاس بٹھایا اور کہا کہ آپکی حاجت کیا ہے؟
عبدالمطلب نے کہا کہ میری حاجت یہ ہے کہ میرے دوسو اونٹ  واپس دلا دو جو تیرےسپاہیوں نے غارت کئے ہیں، ابرھہ نے کہا کہ تمہارے وقار اور ھیبت کو دیکھ کر میں مجذوب  اور متاثرہوا تھا لیکن تمہاری چھوٹی سی خواہش نے تمہاری وقعت کو کم کیا۔ ایسے خطرناک اور حساس موقع پر جبکہ تمہارے اور تمہارے آبا و اجداد کا معبد خطرے میں ہے اور تم اور تمہاری قوم و قبیلہ کی عزت و آبرو ختم ہو رہی ہے تم چند اونٹ کے بارے میں سوال کر رہے ہے؟!
عبدالمطلب نے  جواب میں کہا: انا رب الابل و للبیت رب! میں ان اونٹ کا مالک ہوں اور کعبہ کا مالک ایک اور صاحب ہے جو کعبہ کو بچائے گا۔
ابرھہ نے کہا کوئی بھی قدرت مجھ کو اس امر سے نہیں روک سکے گی، تو جواب میں عبدالمطلب نے کہا کہ تم جانو اور کعبہ!
اس گفتگو کے بعد ابرھہ نے حکم دیا کہ عبدالمطلب کے اونٹون کو واپس کر دیا جائے ۔عبدالمطلب اونٹوں کو لیکر مکہ میں آئے اور اھل مکہ سے کہا کہ شہر مکہ سے نکل کراطراف مکہ کی  پہاڑ پر چلے جاو تاکہ ابرھہ کے سپاہیوں سے اپنی جان بچا سکو اور عبدالمطلب خود قریش کے کچھ افراد کے ساتھ خانہ خدا کی سمت آئے اور کعبہ کے دروازے کے حلقے کو تھام کر  ابرھہ کی نابودی کے لئے دعا کی جبکہ آپ کی آنکھوں سے اشک جاری اور دل بی قرار تھا اس دعا کے کچھ منظوم جملات یہ ہیں۔
یا رب لا ارجو لهم سواکا        یا رب فامنع منهم حماکا
ان عدوالبیت من عداکا        امنعهم ان یخربوا قراکا
اے پروردگار ان کے مقابلے میں صرف تم سے امید رکھتا ہوں اے پروردگار اپنی حمایت اور لطف ان سے اٹھا لے اس گھر کا دشمن وہی ہے جو تمہارا دشمن ہے آپ ان کو  اپنے گھر کی نابودی سے بچا لے۔
عبدالمطلب بھی لوگوں کےساتھ مکہ کی پہاڑیوں کی طرف نکلے اور دیکھتے رہے کہ ابرھہ اور کعبہ کے ساتھ کیا گزرتا ہے ۔ دوسرے دن ابرھہ اپنے مجہز سپاہیوں کو حکم دیتا ہے کہ شہرپر حملہ کرے اور کعبہ کو ویران کرے، ابرھہ کی شکست ابتدائی ہی حالات میں ظاہر ہوی کہ اس کا جنگی ہاتھی رک گیا اور بہت کوشش کے باوجود بھی حرکت نہیں کرتا ہے اسی دوراں مشاہدہ کرتا ہے کہ بہت سارے پرندے آسمان پر ظاہر ہوتے ہیں ان کی چونچ اور پنجے میں کنکڑیاں تھیں یہ پرندے ابرھہ کو نابود کرنے کے لئے اللہ کی طرف سے مامور تھے۔
اللہ کی طرف سے مامور پرندے اوپر سے ابرھہ کے سپاہیوں کے سر پر کنکڑیاں پھینکتے رہے اورپتھر جس کو لگا وہ ہلاک ہوگیا اور اسکے بدن کا گوشت جسم سے جدا ہونے لگا ابرھہ کے لشکر میں چہ مہ گویاں شروع ہوگئیں اور بھاگنے لگا ان میں سے بیشتر وہیں پر ہی ہلاک ہوئے۔
ابرھہ خود بھی خدا کی عذاب سے بچ نہ سکا ایک پتھر اس کےسر پر آگرا اور زخمی ہوا۔ جب ابرھہ نے یہ حالت دیکھی تو اپنے باقی ماندہ سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کو یمن کی طرف لے جائیں بہت رنج و محن کے بعد یمن میں پہنچتے ہی اس کا گوشت بدن سے جدا ہوئا اور بہت بدبختی کے ساتھ ہلاک ہو گیا۔
عبدالمطلب جو کہ اس عجیب منطر کو دیکھ رہے تھے کہ خدا نے کس طرح اپنے گھر کو بچانے کے لئے ان پرندوں کو کیسے بھیجا اور ابرھہ کو کیسے نابود کیا، فریا بلند کی اور لوگوں سے کہا کہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں  مال غنیمت اور باقی ماندہ اموال کو لے لیں۔ لوگ خوش و خرم اپنے گھروں میں واپس آئے،کہا جاتا ہے کہ اس دن اہل مکہ کو بہت سارا مال غنیمت مل گیا قبیلہ خثعم والے جوکہ چاپلوس تھے دوسرے قبائل سے زیادہ مال غنیمت ہڑپ کر گئے اور بہت سارے زر وسیم گھوڑے اور اونٹ وغیرہ ان کو مال غنیمت میں مل گئے۔ یہ تھی وہ باتیں جو روایات اور اسلامی تفاسیر سے حاصل ہوتی ہیں۔
کچھ تذکر:
1۔ بعض افراد اصحاب فیل کی داستان کو یورپ، ساسانیوں اور انوشیروان کے یمن پر حملے سے مرتبط کرنا چاہتے ہیں اور مکہ میں ابرھہ کی شکست کو آبلے اور وبا وغیرہ پر منطبق کرنا چاہتے ہیں اور کلمات میں تصرف و عبارات میں تاویلات کر کے قرآن کریم اور تاریخ کے درمیان جمع کرنا چاہتے  ہیں جس کے بعض نمونے ذیل میں ہم پیش کرتے ہے
فرید وجدی  نےاپنی کتاب دائرۃ المعارف کے مادہ عرب میں اصحاب فیل کی داستان کو ذکر کیا ہے اسکے بعد وہ رقمطراز ہے کہ (فأصابت جیش ابرھہ مصیبۃ إضطرتہ للرجوع عن عزمہ ) پس لشکر ابرھہ ایک ایسی مصیبت سے دچار ہو گیا کہ وہ اپنی نیت سے (جو کہ خانہ کعبہ مٹانا تھا ) منصرف ہو گیا اس کے بعد وہ سورہ فیل کو ذکر کرتا ہے اور لکہتا ہے کہ مفسران قرآن ابابیل نامی پرندے کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ایسے پرندے تھے جو دریا سے نکلے اور ابرھہ کے لشکر کو ان کنکریوں سے نابود کیا جو اپنی چونچ میں رکھے ہوئے تھے اور آگے وہ لکھتا ہے کہ:
کلام خدا کو اس کے خلاف ظاہر پر حمل کرنا صحیح ہے کثرت استعمال اور مجاز کی وجہ سے جو کہ زبان عرب میں پایا جاتا ہے اور قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا اور یہ کہنا صحیح ہے کہ وہ اہم اتفاق جو بغیر کسی مقدمے کے لشکر ابرھہ کو پیش آیا ان پرندوں کے زریعے سے پیش آیا ۔(1)
اور مادہ ابل اور ابابیل کی لغوی تفسیر بیان کرنے اور لفظ ابابیل کے معنی بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ ابابیل کی شکل و صورت کے بارے میں روایات بہت زیادہیں ے اور روایات اور اقوال کی کثرت ہی دلیل ہے کہ اس بارے میں رسول اکرم سے کوئی صحیح اور صریح روایت نہیں پائی جاتی ہے۔
ابن زید نے کہا ہے کہ : یہ ایسے پرندے تھے کہ دریا سے نکلے اور ان کے رنگ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے
بعض نے ان کا رنگ سفید، بعض نے سیاہ اوربعض نے سبز بیان کیا ہے اور انکی چونچ پرندوں جیسی  اور ان کے ہاتھ کتوں جیسےتھے اور بعض کا کہنا ہے کہ ان کا سر درندوں جیسا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اور سجیل کے بارے میں کہا ہے کہ گل متحجر تھی، ایک قول کے مطابق مٹی تھی، اور تیسری قول کے مطابق مٹی اور پتھر تھے اور ایک قول کے مطابق ایسے پتھر تھے جو کسی شخص کو لگیں تو اسکے جسم کو سوراخ کرکے ہلاک کر دیتے ہیں  اور عکرمہ نے کہا ہے کہ ان پرندوں کی چونچ میں جو سنگریزے تھے جس کو لگتے وہ آبلہ سے دچار ہوتے اور عمر بن حارث بن یعقوب  نے اپنے والد سے جو روایت نقل کی ہے اس کے مطابق مذکور  پرندہ کی چونچ میں جو پتھر تھے وہ جس کسی پر بھی پڑتے اس کے بدن پر آبلہ اور چھالے پڑ جاتے ۔
دائرۃ المعارف کا مؤلف ان اقوال کو ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ:
بعض ہم عصر دانشمندوں کا عقیدہ ہےکہ یہ پرندے ایسے میکروپ کو لئے ہوئے تھے جو کہ وبا اور طاعون میں مبتلا کرتے تھے یا ملیریا میں مبتلا کرتے تھے یا آبلہ کے میکروپ تھے اور آیہ شریفہ میں بھی اس نظریے سے کوئی منافی بات نہیں دکھائی دیتی ہے اس طریقے سے منقول اور معقول متحد ہوتا ہے ۔
اس کے بعد موصوف لکھتا ہے کہ (ہم بھی اس نظریے کو اپناتے اور پسند کرتے ہیں خصوصا اس نظریے کی رد میں کوئی علمی اور لغوی دلیل نہیں ہے کہ پرندے سے مراد میکروپ لے اور ایسے بہت سے موارد میں اتفاق ہوا ہے کہ طاعون نے لشکریوں میں سرایت کیا  اور ان کو ہلاک کر دیا ہے ۔)
اسکے بعد ناپلون کی عکا پر لشکر کشی کو ذکر کرتا ہے اور ناپلون چند مہینہ محاصرہ کرنے کے بعد طاعون میں مبتلا ہوتا ہے وہ ناچار اپنی فوج کو لیکر مصر میں واپس آتا ہے ۔۔۔۔(2)
اس سے پہلے آپ کو مؤلف اعلام قرآن کی بات کو بتا چکے ہیں کہ اس کے نطریے کے مطابق ابابیل جمع آبلہ ہے اور طیر کا معنی سریع اور جلدی ہے ،مؤلف اعلام قرآن کا ایک اور نطریہ ہے کہ یہ نطریہ پہلے والے سے دلچسپ نطر آتا ہے وہ یہ ہے کہ : جنگ کو یمن کے اندر لے گئے اور یمن ہی میں  ابرھہ اور اس کا لشکر نابود ہو گئے  اس کے بعد اپنا نظریہ بیان کیا ہے اور کہا ہے(حجارۃ من سجیل ) کا مطلب وہ پتھر ہے جو صنعا اور ابرھہ کو نابود کرنے کے لئے منجنیق میں رکھے گئے تھے اس بارے میں وہ لکھتا ہے:
بعض افراد کے نظریے کے مطابق سجیل، سجین کی لغت میں سے ایک ہے اور سجین قرآن میں جو ذکر ہوا ہے اس کا معنی جہنم کے دروں میں سے ایک درہ ہے یا زمین کے ساتویں طبقے کا نام ہے اگر اس آخری تصویر کو ہم قبول کرلیں اور ادبی  استعارات سے استفادہ کریں تو اس میں  اور جو ابابیل کا معنا ذکر کیا گیا میں کوئی منافات نظر نہیں آتا ۔
لیکن اگر سجیل کو معرب (کسی دوسری زبان سے عربی کیا ہوا) پتھر اور مٹی لیں تو آیہ کا اشارہ سنہ 570 یا 576 میں یمن پر ایران کی لشکر کشی  کی طرف ہو گا  جس میں ابرھہ کی شکست انوشیروان کے ہاتھوں ہوئی اور یہ تیسری آیہ اگر ایرانیوں کی لشکر کشی کی طرف اشارہ ہے تو طیر ِ،تیار یا تیارہ سے ہو  جو کہ ساسانیوں پر اطلاق ہوتا ہے تو بعید نہیں کہ (آیہ اور اس داستان کے  ) درمیان کوئی رابطہ پایا جائے اس صورت میں آیہ چھارم (ترمیهم بحجارۃ من سجیل ) اس وقت کی ایک ایرانی طرز جنگ ہو کیونکہ ایرانیوں نے مسلما اس وقت یمن کی پہاڑیوں کی بلندی سے استفادہ کیا ہے اور منجیق سے ان پر سنگ باران کیا ہے اور یمنیوں کو گیرے میں لیا تھا ۔۔۔۔۔۔(3)
اس قسم کی عجیب و غریب تأویلات کو اس زمانے کی کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے ہم اختصارا انہی دو  پر اکتفا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔
ہم اس قسم کی تأویلات اور باتوں کا جواب دینے سے پہلے ان حضرات سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو کیا ضرورت ہے کہ قرآن کریم کی آیات کو تاریخ سے مطابقت دیں اور ان دونوں کو جمع کریں در حالیکہ  تاریخ کے صحیح اور غلط ہونے کے بارے میں معلوم نہیں اوروہ مورخ جو ساسانیوں اور دوسرے بادشاہوں کے درسترخوان کے ٹکروں پر پلتے تھے جنہوں نے اپنے اور اپنے ارباب کی منفعت میں اور دوسروں کو ہرانے کے لئے تاریخ میں تحریف کی ہے یہاں تک کہا ہے کہ تاریخ مساوی با تاریک ہے اور لفظ تاریخ کو تاریک سے لیا گیا ہے ۔۔۔۔۔!
ہم فرید وجدی کی اس گفتار کو نہیں سمجھ سکے  جس میں وہ یہ کہتا ہے ( اس طریقے سے معقول اور منقول موافق ہوتا ہے) کونسا معقول اور کونسا منقول کیا قرآن منقول ہے یا معقول اور ہم یہ بھی نہیں جانتے ہیں کہ  قرآن کریم پر اعتقاد رکھنے والا شخص اس طرح کی قضاوت کرے اور ایسی رأی کو پسند کرے اور اعلام قرآن کے مؤلف کی بات بہت عجیب ہے کہ (اگر سجیل سے مراد سنگ اور گل کا معرب لے لیں تو اس بات کا معتقد ہونا پڑے گا  کہ  ایرانیوں کا  حملہ یمن پر سنہ 570 یا 576 ہے۔
ان دونوں باتوں کے درمیان کونسا ملازمہ ہے اور اس پر اعتقاد رکھنا کیوں ضروری ہے اور ان کو مطابقت کرنا کیوں ضروری ہے؟ ہمارا وظیفہ قرآن اور تاریخ کے بارے میں کیا ہے؟کیا ہمارا فریضہ ہے کہ قرآن کوتاریخ سے مطابقت کردیں خصوصا ایسی تاریخ جو کہ ہم نے بیان کی ۔۔۔۔؟
بہتر یہ کہ اس مقام پر دقت اور بہتر قضاوت  کرنے کے لئے ہم پہلے سورہ فیل کو ترجمے کے ساتھ بیان کر تے ہیں پھر اس طرح کی تأویلات کا جواب دینگے۔
سورة الفِيل‏

بِسْمِ اللَّه الرَّحْمنِ الرَّحيمِ‏
أَ لَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحابِ الْفيلِ (1) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے اصحاب فیل کے ساتھ کیا کیا
أَ لَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ في‏ تَضْليلٍ (2) کیا ان کی مکر و فریب کو تباہ نہیں کیا
وَ أَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْراً أَبابيلَ (3) اور ان پر گروہ گروہ پرندے نہیں بھیجا
تَرْميهِمْ بِحِجارَةٍ مِنْ سِجِّيلٍ (4)  ان پر پتھر (سجیل) نہیں برسایا
فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ (5) ان کو روندے ہوےے بھوسے کی مانند قرار دیا
ان آیات میں دقت کرنے سے روشن ہوتا ہے کہ ان آیات کا سیاق اور زبان ایک معجزہ اور خرق عادات کی صورت میں نظر آتا ہے یہ آیات صرف کسی تاریخی مطلب کو بیان نہیں کرتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں کچھ داستنیں  جملہ الم تر ۔۔۔۔۔ سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ یہ آیہ (ألم تر إلی الذین خرجوا من دیارهم وهم الوف حذر الموت۔۔۔۔۔) (4)
 اس گروہ کی داستان کو بیان کرتی ہے جو  موت  کے ڈر سے اپنے شہر سے بھاگ نکلے اور خدا کے حکم سے مرگئے اور دوبارہ زندہ ہوئے جس کی شرح تفاسیر اور تواریخ میں موجود ہے معجزہ  کی شکل میں ہے ۔۔۔
اور کچھ  آیتوں کے بعد طالوت اور جالوت کی داستان کو ذکر کرتا ہے وہ بھی اعجاز کی شکل میں نقل  ہوئی ہے کہ فرماتے ہیں:
(ألم تر إلی الملا من بنی اسرائیل من بعد موسی ۔۔۔۔۔)(5)
اسی طرح  کچھ آیات کے بعد نمرود کی سرگذشت کو بیان کرتا ہے اور ایک پیغمبر کی داستان بیان کرتا ہے المعروف بہ عزیر۔ اسطرح فرماتے ہیں کہ: (ألم ترالی الذی حاج ابراهیم فی ربه ۔۔۔) (6) اس کے بعد بغیر کسی فاصلے کے فرماتے ہیں کہ :(او کاالذی مر علی قریة و هی خاویة علی عروشها قال انی یحی هذه الله ۔۔۔۔) (7)خصوصا وہ آیات جو جملہ الم تر کیف کے بعد  ہے جیسا کہ (الم کیف فعل ربک بعاد ۔۔۔) (8)
 کہ خدا چاہتا ہے اپنی قدرت کاملہ کے زریعے سے  طاغوت ، باغی اور ستم کاروں کوجوکہ تمام امکانات اور طاقت سے لیس تھے  کو نابود کر کےدوسرے طاغوت تاریخ کو عبرت کا سبق سکھائے ۔
اسی طرح دوسری آیات میں جس میں لفظ کیف ہے جس کا مقصد موجودات عالم کی خلقت کی کیفیت کو بیان کرنا ہے یا موجودات عالم کی ذلت اور خواری اور نابودی مذکور ہے جو کہ معجزہ ہے اوراس طبیعی زندگی سے مختلف ہے جیسا کہ یہ آیات: (وامطرنا علیهم مطرا فانظر کیف کان عاقبة المجرمین (9)
 (واغرقنا الذین کذبوا بآیاتنا فانظر کیف کان عاقبة المنذرین) (10) (فانظر کیف کان عاقبۃ مکرهم انا دمرنا هم و قومهم اجمعین)  (11) یہ آخری آیات جو قوم ثمود کی نابودی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور مضمون کے اعتبار سے اصحاب فیل کی داستان سے شباہت رکھتی ہیں لیکن اس فرق کے ساتھ کہ سور ہ فیل میں لفظ کید ہے یہاں پر لفظ مکر ہے لیکن یہ حضرات چاہتے ہیں اپنی توجیہات اور تأویلات کے زریعے سے اس قرآنی معجزے کو جدا کردیں اور ان حضرات کے لئے لقمہ بنا کر دیں جو معجزہ اور خارق العادات چیزوں پر اعتقاد نہیں رکھتے ہیں  در حالیکہ  ان داستانوں کی تمام تر اہمیت اسی معجزہ کے لئے ہے بلکہ بعض مفسروں کے مطابق یہ  ایسے معجزات ہیں جو کہ جنبہ ارھاص رکھتے ہیں  (ارھاص کا معنی بعد میں آئیگا) جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظھور کی مقدمہ سازی کے لئے ہے ملا جلال الدین رومی نے اسے نظم کی شکل میں بیان کیا ہے
چشم بر اسباب از چہ دوختیم             گر ز خوش چشمان کرشم آموختیم
ھست بر اسباب اسبابی دگر             در سبب منگر در آن افکن نظر
انبیاء در قطع اسباب آمدند             معجزات خویش بر کیوان زدند
بی سبب مر بحر را بشکافتند             بی زراعت جاش گندم کاشتند
ریگہا ہم آرد شد از سعیشان             جملہ قرآنست در قطع سبب
عز درویش ہلاک بو لھب             مرغ با بیلی دو سہ سنگ افکند
لشکر زفت حبش را بشکسند             پیل را سوراخ سوراخ افکند
سنگ مرغی کو ببالا پر زند دم  گاو           کشتہ بر  مقتول زن  تا شود زندہ ھماندم         
در کفن حلق ببریدہ جھد از جای خویش                                      خون خود جوید ز خون پالای خویش             
ہم چنین ز آغاز ز قرآن نا تمام                                       رفض اسباب است و علت و السلام
2۔اگر کوئی ایساصحیح معنی  پیدا کرے جو اعجاز قرآن اور ظاہری  معنا کے درمیان کوئی منافات نہ ہوتو ہم تاریخ کے قرآن سے منطبق ہونے کے قائل ہو جاینگے اور کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ہم تاریخ میں کسی خاص نظریےکے قائل ہیں جو کہ ان کے نظر یہ کو قبول کرنے سے مانع ہو بلکہ ہم  واقعیات کے تابع ہیں جو قابل قبول ہوں جیسا کہ بعض تفاسیر  میں مثلا تفسیر فیض کاشانی ؒ  میں آیا ہے کہ یہ پتھر جس پر بھی لگتا اسکا جسم آبلہ سے دچار ہو جا تا اس سے پہلے وہاں پر آبلہ نہیں دیکھا گیا ۔
فخر رازی ،عکرمہ سے اور وہ ابن عباس اور سعید بن جبیر سے نقل کرتا ہے کہ:(لما ارسل الله الحجارة علی اصحاب الفیل لم یقع حجر علی احد منهم الا نفط جلده و ثار به الجدری) (12)
 یعنی جب خدا نے اصحاب فیل پر  پتھر برساتے وہ پتھر جس پر بھی لگتے  اس کے بدن کو زخمی کر دیتے اور وہ  آبلہ میں مبتلا ہو جاتا۔
یا جو ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ جب یہ پتھر ان پر لگے تو (فما بقی احد منهم الا اخذته الحکة ، فکان لا یحک انسان منهم جلده الا تساقط لحمه) (13)
 ان میں سے کوئی بھی نہیں بچ سکا مگر اس کے بدن  خارش میں مبتلا ہو جاتا جب وہ اپنے بدن کو کھجلتا  تھا تو اس کے گوشت بدن سے جدا ہو جاتا اور ہمارے ائمہ علیھم السلام سے بھی اس طرح کی روایات موجود ہیں جیسا کہ روضۃ الکافی اور علل الشرایع میں امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے ان پرندوں کی صفات میں بیان فرمایا کہ یہ ایسے پرندے تھے کہ ان کے سر اور ناخن درندوں جیسے تھے اور ان میں سے ہر کسی کے ہمراہ  تین  کنکریاں تھیں دو عدد پاوں میں اور ایک عدد چونچ میں رکھے ہوئے تھے اس کے بعد فرمایا:( فجعلت ترمیهم بها حتی جدرت اجسادهم فقتلهم بها و ما کان قبل ذالک رؤی شیئ من الجدری ولا رؤا ذلک من الطیر قبل ذالک الیوم ولا بعد ۔۔۔۔۔۔) (14)
یعنی مذکورہ پرندوں نے ان پر کنکریاں   ماریں تو ان کے جسم میں آبلہ پڑ گئے اور ان کو مار ڈالا  اس سے پہلے اور بعد میں وہاں پر اس جیسا آبلہ دکھائی دیا اور نہ ہی اس طرح کے پرندے ۔اگر مورخین اس بات سے متفق ہوں کہ پتھر کی وجہ سے جو پرندوں کے زریعے پھینکے گئے اور ان کے بدن زخمی ہوگئے اور وہ مرگئے جیسا کہ قرآن کریم فرماتے ہیں کہ ان کے جسم خرد شدہ بھوسے کی مانند ہو گئے تو ہم اس بات کو قبول کرتےہیں اگر ان کی مراد حجارہ سے ذرات اور گرد و غبار لیں اور طیر سے مراد میکروپ لیں جو ان ذرات کو لئے ہوئے تھے اور ابابیل سے مراد آبلہ لیں عصف مأکول سے مراد خون اور  پیپ لیں  یا اسی طرح کسی چیز پر حمل کریں تو ہم اس کو قبول نہیں کرتے ہیں کیونکہ یہ آیات و کلمات قرآنی کے بلکل مخالف ہے (یہ داستان ارھاصات میں سے ہے )
3۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا کہ اصحاب فیل کی داستان  معجزاتی پہلو رکھتی ہے ،اگر کوئی یہ سوال کرے کہ کیا معجزہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ معجزہ خود پیغمبر  کے ہاتھوں سے ہو؟ تو جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ بعض ایسے معجزات بھی ہیں  جو ارھاصات میں شمار ہوتے ہیں اور ارھاصات ان معجزات پر اطلاق آتا ہے جو عام طور پر کسی پیغمبر کی ولادت اور ظہور کے موقع پر  پیش آتے ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  کی ولادت کے موقع پر بعض واقعات دنیا میں رونما ہوئے جیسا کہ بہت سی روایات میں ہے کہ ساوہ کا دریا خشک ہو گیا، آتشکدہ فارس  کی آگ بجھ گئی اور ایوان کسری کی 14 ستون زمین بوس ہو گئے اسی طرح کی دوسری مثالیں جو ایک بہت ہی عظیم پیغمبر کے ظہور کی مقدمہ سازی تیی ۔
اور ارھاص کا لغوی معنی آمادہ ہونا اور خطرے کی گھنٹی ہے جو لوگوں کو ایک اہم اتفاق سے آگاہ کراتا ہے جو عام طور پر کسی بزرگ  پیغمبر کی ولادت کے موقع پر رونما ہوتا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ  عیسی اور حضرت ابراہیم علیھم السلام کی ولادت کے موقع پر  رونما ہوئے۔

حوالہ جات:

(1) دائرۃ المعارف جلد 6 ص 253۔ 254
(2) دائرۃ المعارف ج  1 ص33 ۔34
(3) اعلام قرآن خزائلی ص 159۔160
(4) سورہ بقرہ آیۃ 243
(5)  آیۃ 246
(6) آیۃ 258
(7) آیۃ 259
(8) سورۃ فجر آیۃ 6
(9) سورۃ اعراف آیۃ 84
(10) سورۃ یونس آیۃ 73
(11) سورۃ نمل آیۃ 51
(12) تفسیر مفاتیح الغیب ج 32 ص 100
(13) بحار الانوار ج 15 ص 138
(14) بحار الانوار ج 15 ص 142 و  159

 تحریر: سید ہاشم رسول محلاتی
مترجم: محمد علی مقدسی

اسلام ٹائمز۔ چین نے اگست میں ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ہائپرسونک میزائل کا تجربہ کر کے امریکا کو حیران کر دیا۔ فنانشنل ٹائمز کی رپورٹ کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ پانچ نامعلوم ذرائع نے میزائل کے تجربے کی تصدیق کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی فوج نے ہائپرسونک راکٹ لانچ کیا جس نے "لو اوربٹ" میں دنیا کے گرد چکر لگایا اور اپنے ہدف سے 40 کلومیٹر دور گرا۔ رپورٹ میں لوگوں کو انٹیلی جنس کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس ٹیسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ چین نے ہائپرسونک ہتھیاروں کے حوالے سے حیرت انگیز پیش رفت کی ہے اور امریکی حکام کے سمجھنے سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ امریکا اور روس ہائپرسونک میزائل بھی تیار کر رہے ہیں اور گزشتہ ماہ شمالی کوریا نے کہا تھا کہ اس نے ایک نئے تیار کردہ ہائپرسونک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ 2019ء کی ایک پریڈ میں چین نے اپنے ہائپرسونک میزائل بشمول ڈی ایف -17 کے نام سے معروف ہتھیاروں کو پیش کیا تھا۔ بیلسٹک میزائل آؤٹر اسپیس (بیرونی خلا) میں اڑتے ہیں۔ ہائپرسونک ہتھیاروں کا دفاع کرنا مشکل ہے کیونکہ وہ کم اونچائی پر اہداف کی طرف اڑتے ہیں لیکن آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ یا تقریباً 6 ہزار 200 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار حاصل کر سکتے ہیں۔ روس نے 2018ء کے اوائل میں بین البراعظمی ہائپر سپرسانک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ اس حوالے سے روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے "ایونگارڈ" نامی ہائپر سانگ میزائل کے کامیاب تجربے پر کہا تھا کہ ہائپر سپرسانک میزائل سے دفاعی نظام غیر معمولی مضبوط ہو گیا۔ اس سے قبل مارچ 2017ء کو روس نے کنزحال نامی ہائپرسانک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا تھا جو آواز کی رفتار سے 10 گنا تیز سفر کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے کاظمی قمی کو افغانستان میں اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کے بعد اعلان کیا ہے کہ ایران ، افغانستان میں پائدار امن و صلح کے قیام کے لئے ہمہ گیر تعاون فراہم کرنے کے لئے آمادہ ہے۔

ایرانی صدر نے افغانستان میں مساجد پرحملوں اور مسلمانوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری پر زوردیا ہے کہ وہ افغان عوام کے مصائب کو کم کرنے کے سلسلے میں اپنا فعال کردار ادا کرے۔

صدر رئیسی نے قندہار کی فاطمیہ مسجد میں نمازیوں کی شہادت پر افغان عوام ، حکومت اور متاثرہ خاندانوں کو تعزیت اور تسلیت پیش کرتے ہوئے کہا ہےکہ داعش دہشت گردوں نے امریکہ کے افغانستان میں ناکام اور شکست خوردہ منصوبوں کی تکمیل اور مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کے لئے دہشت گردانہ حملوں کا آغاز کردیا ہے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ امریکہ نے گذشتہ 20 برسوں میں افغانستان کو بڑے پیمانے پر تباہ وبرباد کیا ہے اور باقی ماندہ کسر اب وہ داعش کے ذریعہ پوری کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کے شیعہ اور سنی مسلمانوں کو باہمی اتحاد کے ساتھ امریکہ کے شوم منصوبوں کو ناکام بنانا چاہیے۔

 صدر رئیسی نے کہا کہ ایران ، افغانستان میں پائدار امن و صلح کے قیام کے لئے ہمہ گیر اور جامع تعاون فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس سے قبل صدر رئیسی نے اپنے ایک حکم میں  جناب کاظمی قمی کو افغانستان کے امور میں اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کیا تھا۔

 مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی کی موجودگی میں کل 35 ویں عالمی اسلامی وحدت کانفرنس منعقد ہوگی۔ جس میں دنیائے اسلام کے 52 ممالک کے علماء اور دانشور شرکت کریں گے۔

مجمع تقریب بین المذاہب کے رابطہ عامہ کی رپورٹ کے مطابق 35 ویں عالمی اسلامی وحدت کانفرنس " اسلامی اتحاد، صلح اور عالم اسلام میں تفرقہ اور تنازعات سے پرہیز" کے عنوان سے منعقد ہوگی۔ کانفرنس کا انعقاد پارسیان آزادی ہوٹل میں ہوگا۔ عالمی اسلامی وحدت کانفرنس میں 52 ممالک کے علماء اور دانشور حضوری اور آن لائن شرکت کریں گے جبکہ 35 ویں اسلامی وحدت کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے ایرانی صدر سید ابراہیم رئيسی خطاب کریں گے۔ عالمی اسلامی وحدت کانفرنس کا سلسلہ 19 اکتوبر سے لیکر 24 اکتوبر تک جاری رہےگا۔