سلیمانی

سلیمانی

 اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے آسٹریا کے صدر اعظم سباسٹین کرٹس کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم افغانستان میں امن و صلح برقرار کرنے کے سلسلے میں تعاون اور مدد کے لئے آمادہ ہیں۔

صدر رئیسی نے ایران اور آسٹریا کے درمیان 500 سالہ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اور آسٹریا کے درمیان طویل تعلقات دونوں ممالک کا گرانقدر سرمایہ ہے جس کی حفاظت ضروری ہے۔

صدر رئیسی نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر افغانتسان کی موجودہ  تاریخ کا غور سےمطالعہ کیا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ امریکہ نے جس دن سے افغانستان میں مداخلت شروع کی ،  اس دن سے افغان عوام نے ایک دن بھی آرام اور سکون سے بسر نہیں کیا۔  انھوں نے کہا کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغان گروہوں کو باہمی مذاکرات کے ذریعہ معاملات کو حل کرنا چاہیے اور افغانستان میں ہمہ گیر اور جامع حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ ایران ظالمانہ پابندیوں کے باوجود گذشتہ 40 برس سے افغان قوم اور افغان مہاجرین کی مدد اور حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ آسٹریا کے صدر اعظم نے دونوں ممالک کے تعلقات کو فروغ دینے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی طرف سے افغان مہاجرین کی میزبانی اور مدد قابل قدر اور تعریف ہے۔

 برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے افغانستان سے امریکہ کے انخلا کو احمقانہ اقدام قراردیدیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کسی بڑی حکمت عملی کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ سیاسی بنیاد پر ہوا ہے۔ ٹونی بلیئر نے اپنے انسٹیٹیوٹ کی ویب سائٹ پر مضمون شائع کیا جس میں اس نے لکھا کہ " افغانستان اور افغان عوام کو تنہا چھوڑنا تباہ کُن، خطرناک اور غیر ضروری عمل تھا۔"

ٹونی بلیئر نے لکھا کہ یہ غیرضروری عمل نہ تو افغانستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ہمارے مفاد میں۔

اُنہوں نے لکھا کہ افغانستان سے انخلا محض مستقل جنگی ختم کرنے کے احمقانہ سیاسی نعرے کی پیروی میں کیا گیا۔

سابق برطانوی وزیراعظم نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا کہ2001ء میں امریکہ کی قیادت کا افغانستان پر حملہ خطرناک اور غیرضروری عمل تھا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے نامزد وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا ہے کہ ہم منطقی مذاکرات کی میز سے فرار نہیں کریں گے اور وزارت خارجہ کو مشترکہ ایٹمی معاہدے سے گرہ بھی نہیں لگائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق ایرانی پارلیمنٹ میں تیرہویں حکومت کے وزراء کو اعتماد کا ووٹ دینے کے سلسلے میں بحث اور تحقیق کا سلسلہ جاری ہے ۔ ایران کے نامزد وزیر خارجہ نے وزارت خارجہ میں اپنے منصوبوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سفارتکاری اور میدانی طاقت دو مضبوط بازو ہیں جن کے ذریعہ قومی اور ملکی مفادات کو تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے۔ ہم عاشورا کے ماننے والے ہیں اور ہم اسلامی ، انقلابی، انسانی اور اخلاقی اقدار کا عالمی سطح پر بھر پور دفاع کریں کریں گے۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہم ظالمانہ پابندیوں کو ختم کرانے کے سلسلے میں اپنی تمام توانائیوں اور صلاحیتوں سے استفادہ کریں گے اور اس سلسلے میں ملکی اور قومی مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں منطقی اور مفید مذاکرات انجام دیں گے ۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا ایرانی کی ترجیحی پالیسیوں کا حصہ ہے ہم تمام علاقائی ممالک کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے آمادہ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان کے امور پر ہماری گہری نظر ہے، افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے ہم نے ہمیشہ افغان عوام کی حمایت کی ہے ہم افغان عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور ہم بین الافغانی مذاکرات اور افغانستان میں پائدار امن کے قیام کے سلسلے میں کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کریں گے۔

انھوں نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام مسلمان عربستان کونزول وحی کی سرزمین  سمجھتے ہیں اور ہم سعودی عرب کے ساتھ تعلقات اور تعاون  کو علاقائی مسلمانوں اور خطے کے استحکام کے لئے کافی اہم سمجھتے ہیں

مہر خبررساں ایجنسی نے جیو نیوز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ افغانستان کے لیے چین کے خصوصی نمائندے ژیاؤ یانگ نے امریکہ کو افغانستان کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار قرار دے دیاہے۔ چینی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ افغانستان کی صورت حال کا ذمہ دار امریکہ ہے۔

افغانستان کے لیے چین کے خصوصی نمائندے ژیاؤ یانگ نے  کہا کہ امریکہ نے سیاسی حل نکالے بغیر افغانستان کو چھوڑ دیا، طاقت کے استعمال اور اندرونی معاملات میں مداخلت سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ سنگین ہوتے ہیں۔ چین کے نمائندہ خصوصی نے کہا کہ توقع ہے طالبان سب قومیتوں کو ملا کر قابلِ قبول حکومت بنائیں گے، ایسٹ ترکستان اسلامی موومنٹ کو پناہ دینے جیسی غلطی نہیں دہرائیں گے

 حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے اسلامی مزاحمت کے ایک کمانڈر کی یاد میں منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ لبنان میں امریکہ اور سعودی عرب کے تخریبی کردار کا سلسلہ جاری ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے لبنان کی اسلامی مزاحمت کے کمانڈر حاج عباس الیتامی کی شہادت کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں شہید حاج عباس کو قریب سے جانتا ہوں ۔ شہید عباس الیتامی 17 سال کی عمر میں اسلامی مزاحمت کے ساتھ منسلک ہوئے۔ شہید حاج عباس بہت ہی دلیر اور بہادر انسان تھے۔

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ امریکہ وہابی تکفیریوں کا حامی ہے اور وہابی تکفیری امریکہ کے حامی ہیں۔ امریکہ لبنان میں اعلانیہ طور پر تکفیریوں کی حمایت کررہا ہے اور تکفیری دہشت گردوں کے خلاف لبنانی حکومت کو کارروائی کرنے سے بھی روک رہا ہے۔ لبنان میں امریکی سفارتخانہ دہشت گردوں کی بھر پور حمایت کررہا ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ لبنان میں امریکی اور سعودی عرب کے سفارتخانے داخلی جنگ بھڑکانے کی تلاش و کوشش کررہے ہیں۔ وہ اسلامی مزاحمت کے خلاف دہشت گردوں کی بھر پور مدد کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں لبنان میں شکست اور ناکامی کا سامنا ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ امریکہ نے لبنان کے اقتصاد اور معیشت کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ لبنان کے داخلی امور میں امریکی سفارتخانہ کی مداخلت نمایاں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایران کی طرف سے دوسری کشتی بھی لبنان پہنچنے والی ہے تیسری کشتی بھی لبنان آئے گی اور جب تک لبنان کو ضرورت ہوگی ایران سے کشتیوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہےگا۔ ایران نے ہمیشہ مشکل وقت میں لبنانی عوام اور حکومت کی مدد کی ہے ۔ ایران کی مدد کسی خاص گروہ یا حزب سے مخصوص نہیں ، ایران کی مدد لبنانی قوم سے مختص ہے ایران کی مدد سے لبنانی قوم کو فائدہ پہنچےگا۔

وفاداری کرو تاکہ قابل اعتماد بنو !

محبت کرنا وہ امر ہے کہ اس (مشترکہ زندگی کی) راہ کی ابتدا میں خداوندِ عالم نے آپ کو جس کا حکم دیا ہے اور یہ وہ سرمایہ ہے کہ جسے خداند مہربان، مشترکہ ازدواجی زندگی کی ابتدا میں لڑکے لڑکی کو ہدیہ کرتا ہے اور یوں ازدوجی سفر کے راہی آپس میں محبت کرتے ہیں۔ لہٰذا اِس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ آپ کی زوجہ یا شوہر کی آپ سے محبت ،آپ کے عمل سے وابستہ ہے۔

اگر آپ کی خواہش ہے کہ آپ کے شریک حیات کی محبت آپ کے لئے باقی رہے تو آپ اس سے محبت آمیز برتاو کریں۔یہاں معلوم ہوتا ہے کہ انسان کیا کام انجام دے تاکہ اس کی محبت رنگ لائے؟ پس آپ کو چاہیے کہ زندگی کے ہر لمحے میں وفاداری کا ثبوت دیں۔

سامنے والے کو اپنی امانت داری کا یقین دلائیں، اپنی سچائی اور خلوصِ نیت کو اس پر واضح کریں، سامنے والے سے بے جا توقعات نہ رکھیں، اس سے تعاون اور اظہارِ محبت کریں۔ یہی وہ چیزیں ہیں کہ جو محبت کی ایجاد کا باعث بنتی ہیں اور یہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ محبت اور تعاون کو زندگی میں ہر حال میں موجود ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ بے جا قسم کی اُمیدیں وابستہ رکھنے اور بات بات پر کیڑے نکالنے سے آپ کی زندگی اجیرن ہو جائے۔

 

 

بے اعتمادی کو گھر میں اپنے منحوس قدم نہ رکھنے دیں

اعتماد وہ چیز نہیں ہے جو کسی کے کہنے سے ہو جائے کہ آو تم مجھ پر اعتماد کرو اور میں تم پر اعتماد کرتا ہوں ،ایسا ہر گز نہیں ہے! اعتماد وہ چیز ہے جو ایک دوسرے کو دینا اور اس کا یقین کرنا چاہیے یعنی اچھے عمل، اخلاق و آداب کی رعایت کرنے اور شرعی حدود اور اسلامی اقدار کا خیال رکھنے سے۔ 

اگر گھر کی فضا میں بے اعتمادی کے سیاہ بادل چھا جائیں تو گھر، محبت کے اجالے سے محروم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ آپ کا وظیفہ ہے کہ آپ بے اعتمادی کو گھر میں اپنے منحوس قدم نہ رکھنے دیں۔ بے وفائی بدن میں پوشیدہ سرطان کی مانند محبت کو کھا کر ختم کر یتی ہے۔

 

 

محبت اور عتماد کی حفاظت کریں

اگر میاں یا بیوی یہ احساس کرے کہ اس کی بیوی یا شوہر اس سے جھو ٹ بول رہا ہے تو زندگی میں اس احساس کے آتے ہی سچی محبت رخصت ہو جائے گی۔ 

یہی وہ چیز ہے کہ جو محبت کی بنیادوں کو کمزور بنا تی ہے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ محبت کی فضا قائم رہے تو اپنے درمیان اعتماد کی حفاظت کریں اور اگر آپ کی خواہش ہے کہ آپ کی پیار بھری زندگی پائیدار ہو تو محبت کو کسی بھی صورت میں اپنے درمیان سے جانے نہ دیں۔

 

 

 کتاب: طُلوعِ عشق از رہبر معظم سید علی خامنہ ای؛ سے اقتباس

دنیا کی کوئی بھی طاقت افغانستان میں امن و استحکام نہیں لا سکتی، جو کہ تاریخ میں عالمی قوتوں کے قبرستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ الفاظ ہیں عالمی طاقت امریکہ کے صدر کے، جن کی ریاست بیس برس افغانستان میں خرچ کرکے یہاں سے چلتی بنی ہے۔ پاکستان کے لکھاری عدنان خان کاکٹر اس نظریئے کے خلاف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ تاریخ انسانی کی پہلی بڑی سلطنت ایرانی بادشاہ سائرس (کوروش اعظم) کی تھی۔ اڑھائی ہزار سال پہلے وہ پہلا بادشاہ تھا، جس نے شہنشاہ کا لقب اختیار کیا یعنی شاہوں کا شاہ۔ افغانستان سائرس کی ہخامنشی سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔ اسی طرح سکندر اور اس کے بعد اس کے مشرقی جانشین سلیوکس اور دیگر یونانی بادشاہوں نے طویل عرصے تک افغانستان پر حکومت کی۔ چندر گپت موریہ اور اس کے جانشین موجودہ افغانستان ٹیکسلا اور پاٹلی پتر کے موریہ پر حاکم تھے۔ ساسانی بادشاہ بھی افغانستان پر قابض رہے۔ اموی دور حکومت میں افغانستان کا علاقہ خراسان میں شامل تھا۔ سمرقند اور بخارا کے سامانی بادشاہ افغانستان پر قابض رہے، ان کا ترک گورنر الپتگین اس وقت غزنی کا حاکم تھا، جو خود مختاری کا اعلان کر دیتا ہے۔ یوں غزنوی سلطنت قائم ہوئی۔

اسی اثناء میں پچاس برس کے مختصر عرصے کے لئے دور افتادہ افغان علاقے غور سے غوری سلطنت ابھرتی ہے، جس نے 1163ء میں سلطان غیاث الدین غوری کے بادشاہ بننے کے بعد عروج پایا اور باقی ماندہ غزنوی سلطنت پر قبضہ کیا، لیکن 1215ء میں اس کا خاتمہ ہوگیا۔ غوریوں کے متعلق افغان نیشنسلٹ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پشتون تھے، مگر محققین کا عمومی اتفاق ہے کہ وہ تاجک النسل تھے اور ان کا ایران سے تعلق تھا۔ وہ خود کو شنسبانی کہتے تھے۔ مورخین کا خیال ہے کہ یہ ساسانی نام وشنسپ سے بگڑ کر عربی میں آل شنسب کہلایا اور فارسی میں شنسبانی یعنی یہ بھی مقامی افغان خاندان نہیں تھا۔ اس کے بعد سمرقند سے امیر تیمور نامی تاتاری اٹھا اور افغانستان اس کی سلطنت کا صوبہ بن گیا۔ ازبک سلطان شیبانی خان بھی اس پر قابض رہا۔ پھر کابل کا علاقہ فرغانہ کے حکمران ظہیر الدین بابر نے فتح کر لیا اور یوں یہ مغل سلطنت کا حصہ بنا۔ بابر سے اورنگ زیب تک مغل اس پر حکمران رہے۔

مغلوں کے کمزور پڑنے پر ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار نے افغانستان پر تسلط جمایا۔ نادر شاہ افشار کے قتل ہونے کے بعد افغانستان نامی ملک پہلی مرتبہ وجود میں آیا، جب نادر شاہ افشار کے سردار احمد شاہ ابدالی نے 1747ء میں افغان علاقوں پر حکمرانی کا دعویٰ کر دیا۔ اس سے پہلے کابل اور قندھار عام طور پر ہندوستانی تخت کا حصہ رہتے تھے، ہرات وغیرہ ایرانی سلطنتوں کا اور مزار شریف وغیرہ کے علاقے وسطی ایشیائی سلطنتوں وغیرہ کے صوبے ہوا کرتے تھے۔ احمد شاہ ابدالی کی سلطنت میں ایرانی شہر نیشا پور، موجودہ افغانستان، موجودہ پاکستان اور راجھستان کے کچھ علاقے شامل تھے۔ برطانیہ نے بھی افغانستان سے وسیع علاقے لئے، پہلی اینگلو افغان جنگ میں کابل میں موجود برطانوی گیریژن نے امن معاہدہ کیا۔ واپسی پر اس پر حملہ کیا گیا۔ شروع شروع میں یہ سمجھا گیا کہ صرف ایک سپاہی ڈاکٹر ولیم برائیڈن ہی پندرہ ہزار افراد میں سے زندہ بچ سکا ہے۔ اس پر لیڈی بٹلر نے ایک مشہور پینٹنگ بنائی۔ اس جنگ کے بعد افغانستان کی سلطنتوں کا قبرستان ہونے کی غلط فہمی پھیل گئی۔

1878ء سے 1880ء تک ہونے والی دوسری اینگلو افغان جنگ میں افغانستان کو شکست ہوئی۔ پورے افغانستان پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ بھی سوچا گیا کہ اس کے حصے بخرے کر دیئے جائیں اور ہر حصے پر الگ حکمران بنا دیا جائے۔ مگر پھر امیر عبدالرحمان کو حکمران بنا دیا گیا۔ معاہدے کے تحت کوئٹہ، کرم اور پشین کی وادیاں، سبی، درہ خیبر سمیت بہت سے علاقے برطانوی راج کو دے دیئے گئے۔ افغانستان کے امور خارجہ بھی برطانیہ کے حوالے کر دیئے گئے۔ بدلے میں برطانیہ نے کسی غیر ملکی حملے کی صورت میں افغانستان کی مدد کرنے کی ذمہ داری لی۔ افغانستان کو صرف ایک چیز نے بچایا۔ انگریز اپنی ہندوستانی سلطنت اور روسی سلطنت کے درمیان افغانستان کو ایک بفر زون کے طور پر رکھنا چاہتے تھے۔ اس تحریر میں ابھی سفید ہنوں، کشان، منگولوں کا ذکر نہیں کیا گیا جو اس علاقے پر قابض رہے۔

وہ لوگ جو افغانستان کو سلطنتوں کا قبرستان قرار دیتے ہیں، وہ اپنی تاریخ کا آغاز برطانیہ اور روس کی شکست سے کرتے ہیں۔ اس میں برطانوی مورخین کا اہم کردار ہے۔ سیتھ جونز کی کتاب ”In The Graveyard Of Empires“ میں جونز لکھتا ہے کہ افغانستان ایسی بے رحم دھرتی ہے کہ جن بادشاہتوں نے اسے زیر کرنا چاہا، وہ ناکام رہیں بلکہ بربادی تک پہنچ گئی۔ سمتھ جونز نے ان ناکام کوششوں میں سوویت یونین کی بربادی کا اور ناکام امریکی مہم کا ذکر کیا ہے۔ عدنان کاکٹر کے پیش کردہ حقائق کو دیکھا جائے تو انسان کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ افغانستان پر طول تاریخ میں کوئی افغانی حاکم نہیں رہا بلکہ ہمیشہ خارجی حکمران اس سرزمین پر مسلط رہے ہیں، تاہم اگر برطانیہ، روس اور اب امریکہ کی شکست کو دیکھا جائے تو انسان یہ باور کرتا ہے کہ واقعی افغانستان کئی سلطنتوں کو کھا گیا۔ بہرحال یہ ایک معمہ ہے، جو اب تک مورخین کے لیے قابل حل نہیں۔

میرے خیال میں افغانستان پر قبضہ کرنا شاید اتنا مشکل نہیں ہے بلکہ یہاں حکومت کرنا، امن و امان بحال رکھنا اور خوشحالی لانا ایک مشکل امر ہے، جس کے لیے بے پناہ وسائل اور حوصلہ درکار ہیں۔ فی الحال افغانستان میں وسائل کا ایسا کوئی قابل ذکر ذریعہ موجود نہیں ہے، جس سے استفادہ کرکے افغانستان کے امور کو چلایا جاسکے اور حاکم ریاست بھی اس تسلط سے کوئی فائدہ اٹھا سکے۔ شاید یہی سبب ہے کہ افغانستان پر قبضہ کرنے والے جلد ہی اس علاقے کو چھوڑ گئے یا اس خطے کے امور کو چلاتے چلاتے تاریخ کے اوراق میں غرق ہوگئے۔ امریکہ کو بھی یہ حقیقت جلد ہی سمجھ آگئی ہے، لہذا اس نے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔ بائیڈن نے یہی کہا کہ افغانستان سے نکلنے کا یہ مناسب ترین وقت ہے، یعنی اگر امریکہ مزید اس علاقے میں اپنے وسائل کو خرچ کرتا ہے تو اس کا حال سوویت یونین سے مختلف نہیں ہوگا۔
 
 تحریر: سید اسد عباس
 
 

امام زین العابدین علیہ السلام نے 61 ہجری میں عاشور کے دن امامت کی عظیم ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر سنبھالیں اور 94 ہجری میں آپ کو زہر سے شہید کر دیا گیا۔ اس پورے عرصے میں آپ (ع) اسی الہیٰ مقصد کی تکمیل کے لئے کوشاں رہے، جس پر آپ سے پہلے دیگر آئمہ کوشاں رہے۔ وہ تمام ارشادات جو آپ (ع) کے دہن مبارک سے جاری ہوئے، وہ اعمال جو آپ (ع) نے انجام دیئے، وہ دعائیں جو لب مبارک تک آئیں، وہ مناجاتیں اور راز و نیاز کی باتیں جو آج صحیفہ کاملہ کی شکل میں موجود ہین، ان سب کی امام (ع) کے اسی بنیادی موقف کی روشنی میں تفسیر و تعبیر کی جانی چاہیئے۔ چنانچہ اس پورے دور امامت میں مختلف موقعوں پر حضرت (ع) کے موقف اور فیصلوں کو بھی اسی عنوان سے دیکھنا چاہیئے۔ مثال کے طور پر اسیری کے دوران کوفہ میں عبید اللہ ابن زیاد اور پھر شام میں یزید پلید کے مقابلہ میں آپ (ع) کا موقف جو شجاعت و فداکاری سے بھرا ہوا تھا۔

امام زین العابدین علیہ السلام کے مختلف موقفوں اور اقدامات کا بڑی باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس بنیادی موقف کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام جزئیات و حوادث کا جائزہ لیا جائے تو بڑے ہی معنی خیز حقائق سامنے آئیں گے۔ امام کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو عظیم ہستی ایک ایسا انسان نظر آئے گی، جو اس روئے زمین پر خداوند وحدہ لا شریک کی حکومت قائم کرنے اور اسلام کو اس کی اصل شکل میں نافذ کرنے کو ہی اپنا مقدس مقصد سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر کوشش و کاوش بروئے کار لاتا رہا ہے اور جس نے پختہ ترین اور کار آمد ترین کارکردگی سے بہرہ مند ہوکر نہ صرف یہ کہ اسلامی قافلہ کو اس پراگندگی اور پریشاں حالی سے نجات دلائی ہے، جو واقعہ عاشور کے بعد دنیائے اسلام پر مسلط ہوچکی تھی بلکہ قابل دید حد تک اس کو آگے بھی بڑھایا ہے۔ دو اہم اور بنیادی فریضے جو ہمارے تمام ائمہ علیہم السلام کو سونپے گئے تھے، ان کو امام سجاد علیہ السلام نے بڑی خوش اسلوبی سے جامہ عمل پہنایا ہے۔

امام علیہ السلام کی زندگی کا وہ مختصر اور تاریخ ساز دور، معرکہ کربلا کے بعد آپ (ع) کی اسیری کا زمانہ ہے، جو مدت کے اعتبار سے مختصر، لیکن واقعات و حالات کے اعتبار نہایت ہی پرہیجان اور و سبق آموز ہے، جہاں اسیری کے بعد بھی آپ کا موقف بہت ہی سخت اور مزاحمت آمیز رہتا ہے۔ بیمار اور قید ہونے کے باوجود کسی عظیم مرد مجاہد کی مانند اپنے قول و فعل کے ذریعے شجاعت و دلیری کے بہترین نمونے پیش کئے ہیں۔ ایام اسیری  میں امام (ع) کے اقدامات بالکل کسی پرجوش انقلابی کی مانند نظر آتے ہیں، جس کے لئے کوئی معمولی سی بات بھی برداشت کر لینا ممکن نہیں ہے۔ لوگوں کے سامنے بلکہ پھرے مجمع میں بھی مغرور و بااقتدار دشمن کا دندان شکن جواب دینے میں کسی طرح کا تامل نہیں کرتے۔

کوفہ کا درندہ صفت خونخوار حاکم، عبیداللہ ابن زیاد جس کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے، جو فرزند رسول (ص) امام حسین علیہ السلام اور ان کے اعوان و انصار کا خون بہا کر مست و مغرور اور کامیابی کے نشہ میں بالکل چور ہے، اس کے مقابلہ میں حضرت (ع) ایسا بے باک اور سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں کہ ابن زیاد آپ (ع) کے قتل کا حکم جاری کر دیتا ہے۔ چنانچہ اگر جناب زینب سلام اللہ علیہا ڈھال کی مانند آپ (ع) کے سامنے آکر یہ نہ کہتیں کہ میں اپنے جیتے جی ایسا ہرگز نہ ہونے دوں گی اور ایک عورت کے قتل کا مسئلہ درپیش نہ آتا نیز یہ کہ قیدی کے طور پر دربار شام میں حاضر کرنا مقصود نہ ہوتا تو عجب نہیں ابن زیاد امام زین العابدین علیہ السلام کے خون سے بھی اپنے ہاتھ رنگین کر لیتا۔

بازار کوفہ میں آپ (ع) اپنی پھوپھی جناب زینب (ع) کے ساتھ ہم صدا ہو کر تقریر کرتے ہیں، لوگوں میں جوش و خروش پیدا کرتے ہیں اور حقیقتوں کا انکشاف کر دیتے ہیں۔اسی طرح شام میں چاہے وہ یزید کا دربار ہو یا مسجد میں لوگوں کا بے پناہ ہجوم، بڑے ہی واضح الفاظ میں دشمن کی سازشوں سے پردہ اٹھا کر حقائق کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت (ع) کے ان تمام خطبوں اور تقریروں میں اہلبیت (ع) کی حقانیت، خلافت کے سلسلہ میں ان کا استحقاق اور موجودہ حکومت کے جرائم اور ظلم و زیادتی کا پردہ چاک کرتے ہوئے نہایت ہی تلخ اور درشت لب و لہجہ میں غافل و ناآگاہ عوام کو جھنجوڑنے اور بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس قید و بند کے سفر میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار جناب زینب سلام اللہ علیہا کے کردار سے بالکل ہم آہنگ ہے۔ دونوں کا مقصد حسینی انقلاب اور پیغامات کی تبلیغ و اشاعت ہے۔ اگر لوگ اس بات سے واقف ہو جائیں کہ حسین علیہ السلام قتل کر دیئے گئے، کیوں قتل کر دیئے گئے؟ اور کس طرح قتل کئے گئے تو آئندہ اسلام اور اہلبیت علیہم السلام کی دعوت ایک نیا رنگ اختیار کر لے گی، لیکن اگر عوام ان حقیقتوں سے ناواقف رہ گئے تو انداز کچھ اور ہوگا۔ لہٰذا معاشرہ میں ان حقائق کو عام کر دینے اور صحیح طور پر حسینی (ع) انقلاب کو پہچنوانے کے لئے اپنا تمام سرمایہ بروئے کار لاکر جہاں تک ممکن ہوسکے اس کام کو انجام دینا ضروری تھا۔

آپ کی حیات طیبہ کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے، جب آپ (ع) مدینہ رسول (ص) میں ایک محترم شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور اپنا کام پیغمبر اسلام (ص) کے گھر اور آپ (ع) کے حرم (مسجد النبی (ص)) سے آغاز کرتے ہیں۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام کے آئندہ موقف اور طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کی حالت و کیفیت اور اس کے تقاضوں پر بھی ایک تحقیقی نظر ڈال لی جائے۔ جب عاشور کا المناک حادثہ رونما ہوا، پوری اسلامی دنیا میں جہاں جہاں بھی یہ خبر پہنچی، خصوصاً عراق اور حجاز میں مقیم ائمہ علیہم السلام کے شیعوں اور طرفداروں میں ایک عجیب رعب و وحشت کی فضا پیدا ہو گئی، کیونکہ یہ محسوس کیا جانے لگا کہ یزیدی حکومت اپنی حاکمیت کو مسلط کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتی ہے، حتیٰ اس کو عالم اسلام کی جانی پہچانی عظیم، مقدس اور معتبر ترین ہستی فرزند رسول (ص)حسین ابن علی علیہما السلام کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنے میں بھی کسی طرح کا کوئی دریغ نہیں ہے اور اس رعب و وحشت میں جس کے آثار کوفہ و مدینہ میں کچھ زیادہ ہی نمایاں تھے، جو کچھ کمی رہ گئی تھی، وہ بھی اس وقت پوری ہوگئی جب کچھ ہی عرصہ بعد بعض دوسرے لرزہ خیز حوادث رونما ہوئے، جن میں سرفہرست حادثہ ”حرہ“ ہے۔

اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے زیر اثر علاقوں یعنی حجاز خصوصاً مدینہ اور عراق خصوصاً کوفہ میں بڑا ہی گھٹن کا ماحول پیدا ہوگیا تھا، تعلقات و ارتباطات کافی کمزور ہوچکے تھے۔ وہ لوگ جو ائمہ طاہرین علیہم السلام کے طرفدار تھے اور بنو امیہ کی خلافت و حکومت کے زبردست مخالفین میں شمار ہوتے تھے، بڑی ہی کسمپرسی اور شک و شبہ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ حضرت امام سجاد (ع) نے اپنی سیرت اور نہج کے ذریعے کبھی بھی گوشہ نشینی، صوفیت یا رہبانیت کی نمائندگی نہیں کی، امام سجاد (ع) نے سانحہ کربلا سے ناقابل تصور صدمہ اٹھایا اور اس کے بعد اپنی سیرت و کردار اور سچے گفتار و بیان کے ذریعے جہاد کیا اور اپنے گرد موجود لوگوں کو ایسے ہدایت یافتہ گروہوں میں تبدیل کر دیا کہ جنہوں نے ظالموں کے دلوں میں زلزلہ برپا کر دیا اور ان کے تاج و تخت کو ہلا کر رکھ دیا۔

امام سجاد سانحہ کربلا کے بعد تمام ھم و غم اور الم و دکھوں کے باوجود معاشرے کے درمیان رہے، جس کی وجہ سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد آپ کے گرد جمع ہوگئی اور چشمہ امامت سے سیراب ہونے لگی، آپ کے علم و فضل، بزرگی و دانائی اور فضائل و مناقب کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ حضرت امام سجاد (ع) کی دعاؤں میں سے صرف چند دعائیں ہی ہم تک کتابی صورت میں پہنچیں ہیں، جو دنیا میں صحیفہ سجادیہ کے نام سے جانی جاتی ہیں، لیکن ان دعاؤں میں موجود عظیم ترین مفاہیم و معانی کے لعل و جواہر کو مدنظر رکھتے ہوئے بابصیرت لوگ دعاؤں کے اس مجموعے کو "زبور آل محمد" کہتے ہیں۔ ان دعاؤں نے عارفین کے دلوں کو حرمِ خدا اور معرفتِ الہیٰ کی ناقابلِ تصور بلندیوں تک پہنچا دیا، عابدوں کے لیے محرابِ عبادت میں وہ لذت مہیا کر دی کہ جس نے ان کے لیے فانی دنیا کی لذتوں کو بے معنی کر دیا، زاہدوں کو ایسا زادِ راہ عطا کیا، جس سے وہ دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہوگئے۔۔۔۔۔

حضرت امام سجاد (ع) ایسے بلند اخلاق کے مالک تھے کہ مومنین کے دل ان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور بشری پیکر میں موجود اس مشعلِ نور سے ہدایت حاصل کرتے تھے۔۔۔۔۔ ہشام بن عبد الملک تخت حکومت پر بیٹھنے سے پہلے ایک مرتبہ حج کے لیے آیا تو طواف کے بعد حجر اسود کا بوسہ لینے کے لیے اس نے حجر اسود تک پہنچنے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ لوگوں کے رش کی وجہ سے حجر اسود تک نہ پہنچ سکا، پھر اس کے لیے حطیم میں زم زم کے کنویں کے پاس ایک منبر لگا دیا گیا، جس پر بیٹھ کر وہ لوگوں کو دیکھنے لگا اور اہل شام اس کے گرد کھڑے ہوگئے۔ اسی دوران حضرت امام سجاد (ع) بھی آکر خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگے اور جب وہ حجر اسود کی طرف بڑھے تو لوگوں نے امام سجاد (ع) کو خود ہی راستہ دے دیا اور وہ حجر اسود کے پاس بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ گئے۔

یہ منظر دیکھ کر ایک شامی نے کہا: یہ کون ہے، جس کی لوگوں کے دلوں میں اتنی ہیبت و جلالت ہے کہ لوگ اس کے لیے دائیں بائیں ہٹ کر صف بستہ کھڑے ہوگئے؟ ہشام نے اس شامی کو جواب دیتے ہوئے کہا: میں اس کو نہیں جانتا۔ (حالانکہ ہشام خوب اچھی طرح سے امام سجاد (ع) کو جانتا اور پہنچانتا تھا لیکن پھر بھی اس نے جھوٹ بولا کہ کہیں ان شامیوں کے دل میں امام سجاد (ع) کی ہیبت و جلالت نہ بیٹھ جائے)۔ فرزدق بھی وہیں پر موجود تھا، اس نے سوال کرنے والے شامی سے کہا: میں اس شخص کو جانتا ہوں۔ اس شامی نے کہا: اے ابا فراس کون ہے یہ؟ تو فرزدق نے اس کے جواب میں ایک ایسا قصیدہ پڑھا کہ جس نے باطل کے پردوں کو ہٹا کر ہر طرف حق کا نور پھیلا دیا، اس قصیدہ کے چند اشعار کا ترجمہ سامعین کے نظر ہے: "یہ وہ شخصیت ہیں، جن کے نشانِ قدم کو بھی وادئ بطحاء (مکہ) پہنچانتی ہے، انھیں خانہ کعبہ، حرم اور حرم سے باہر کا سارا علاقہ پہنچانتا ہے۔ یہ تمام بندگان خدا میں سے بہتر و افضل ہستی کے فرزند ہیں، یہ متقی و پرہیزگار پاک و پاکیزہ اور عَلمِ ہدایت ہیں۔ یہ علی ہیں اور ان کے بابا رسول خدا (ص) ہیں، کہ جن کے نور سے امت تاریکیوں میں ہدایت حاصل کرتی ہے۔ جب قریش انھیں دیکھتے ہیں تو کہنے والے کہتے ہیں، ان کے بلند مرتبہ اخلاق پہ جود و سخا کی انتہاء ہوتی ہے۔ انھیں عزت و شرف کی وہ بلندی نصیب ہوئی ہے، جس کو پانے سے عرب و عجم قاصر ہیں۔

اگر یہ حجر اسود کا بوسہ لینے نہ آتے تو حجر اسود والا کونہ خود ان کی ہتھیلی کو چومنے ان کے پاس پہنچ جاتا۔ وہ حیا و شرافت کی وجہ سے آنکھیں جھکائے رکھتے ہیں اور لوگ ان کی ہیبت و جلالت کی وجہ سے آنکھیں نیچی رکھتے ہیں اور ان سے صرف اس وقت بات کی جا سکتی ہے جب وہ مسکرا رہے ہوں۔ اگر تم ان کو نہیں جانتے تو جان لو یہ فرزندِ فاطمہ ہیں، ان کے جد امجد پر تمام انبیاء کی نبوت کا اختتام ہوتا ہے۔ لوگوں کا ان (آل رسول) سے محبت کرنا عین دین ہے اور ان سے بغض و کینہ رکھنا عین کفر ہے، ان کا قرب ہی نجات دینے والا اور بچانے والا ہے۔ ان کی محبت کے صدقہ میں شر اور بلائیں دور ہوتی ہیں اور ان کے وسیلے سے احسان خدا اور نعمات الہیٰ کو حاصل کیا جاتا ہے۔ ذکرِ خدا کے بعد ہر روز ان کا ذکر سب سے مقدم و افضل ہے اور انھی کے ذکر کے ساتھ کلام کا اختتام ہوتا ہے۔ اگر اہل تقویٰ کو شمار کیا جائے تو یہ متقیوں کے امام نظر آئیں گے اور اگر کوئی کہے زمین پر سب سے افضل کون ہیں؟ تو بھی کہا جائے گا، سب سے افضل یہی ہیں۔"

حضرت امام سجاد (ع) ہی وہ شخضیت ہیں کہ جن کا خشوع و خضوع، زہد و تقویٰ اور عبادت و خدا پرستی ضرب المثل بن گئی اور آج تک آپ کو زین العابدین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت امام سجاد (ع) نے اپنے کردار و عمل سے ظالموں اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو خوف میں مبتلا کر رکھا تھا۔ امام سجاد (ع) کبھی تو اپنے مظلوم بابا حضرت امام حسین (ع) کی شہادت اور سانحہ کربلا کے مصائب پر گریہ کرتے، کبھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے اور کبھی اپنے کردار و عمل کے ذریعے لوگوں کو ہدایت کے راستے کی رہنمائی کرتے۔۔۔۔۔۔ حضرت امام سجاد (ع) کے طرز عمل سے لوگوں کو امام حسین (ع) اور اہل بیت رسول (ص) کی مظلومیت سے آگاہی مل رہی تھی، نسل در نسل اہل بیت کے حقوق کو غضب کرنے والوں کے اصل چہرے لوگوں پہ عیاں ہو رہے تھے، لوگوں کے دلوں پہ حکمرانوں کی بجائے اہل بیت کا اقتدار مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا تھا۔۔۔۔۔

اور یہی وہ بات تھی، جس نے بنی امیہ کے لیے حضرت امام سجاد (ع) کے مقدس وجود کو خطرہ بنا دیا تھا اور وہ نبوت کی نیابت میں جلنے والی اس شمعِ امامت کو بجھانے کے درپے ہوگئے، آخر میں اس ظلم کو ڈھانے کی ذمہ داری ولید بن عبدالملک اور بعض روایات کے مطابق ہشام بن عبد الملک کو سونپی گئی کہ جس نے ایک کھانے میں زہر ملا کر حضرت امام سجاد (ع) کو کھلا دیا۔ آپ (ع) پوری سیاسی بصیرت اور شجاعت و شہامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت ہی احتیاط اور باریک بینی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے، یہاں تک کہ تقریبا 35 سال کی انتھک جدوجہد اور الٰہی نمایندگی کی عظیم ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد آپ (ع) سرفراز و سربلند اس دارفانی سے کوچ کر گئے اور اپنے بعد امامت و ولایت کا عظیم بار اپنے فرزند و جانشین امام محمد باقر علیہ السلام کے سپرد فرما دیئے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد اسرائیلی فضائیہ نے غزہ پروحشیانہ  بمباری کی ہے۔اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے بعض ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔ ذرائع کے مطابق حملے میں فوری طور پر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔اس سے پہلے سرحدی علاقے میں اسرائیلی فوج اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئی تھیں، اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور شیلنگ سے 41 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ ميں حماس کے 4 ٹھکانوں پر بمباری کی تصدیق کی ہے۔ ادھر فلسطینیم زاحتمی تنظيموں نے بھی اسرائیل کو منہ توڑ جواب دینے کی دھمکی تھی۔

ایران پریس کی رپورٹ کے مطابق ایران کے بلوچستان صوبے کے صدر مقام زاہدان کے امام جمعہ مولانا عبد الحمید نے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے نام ایک مراسلہ ارسال کیا جس میں انہوں نے ایک اہلسنت کو بحریہ کا کمانڈر بنانے پر انکی قدردانی کی اور انکے اس اقدام کو ایک خداپسندانہ اقدام قرار دیا۔

مولانا عبد الحمید نے مزید لکھا کہ قائد انقلاب اسلامی کے اس فیصلے نے ایران کی اہلسنت برادری میں ایک خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔

زاہدان کے امام جمعہ نے ساتھ ہی یہ امید ظاہر کی کہ حکومت قائد انقلاب اسلامی کے اس فیصلے کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دے کر ملک میں اتحاد و برادری کی فضا کو مزید مستحکم بنائے گی۔

قابل ذکر ہے قائد انقلاب اسلامی اور ایران کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے گزشتہ منگل کے روز کوموڈور شہرام ایرانی کو ملک کی بحریہ کا کمانڈر مقرر کیا۔

قائد انقلاب اسلامی کے اس اقدام سے دشمن کے کھوکلے اور بے بنیاد پروپیگنڈے پر پانی گیا جس میں یہ دعوا کیا جاتا رہا ہے کہ ایران میں اہلسنت کو حساس عہدے نہیں دئے جاتے۔ یہ پروپیگنڈا ایسے حالات میں کیا جاتا رہا ہے کہ ایران کے مختلف سطح کے سرکاری عہدوں پر اس وقت اہلسنت خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہیں جن میں ملک کے سفرا بھی شامل ہیں۔