سلیمانی
ابھی ہم نے شمشیر قدس نیام میں نہیں ڈالی، حماس کی صہیونی رژیم کو وارننگ
تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں مقبوضہ فلسطین کے قصبے "بیتا" کے مسلمان شہریوں کی بے مثال مزاحمت کی قدردانی کرتے ہوئے اسے اسلامی مزاحمت کیلئے رول ماڈل قرار دیا ہے۔ یاد رہے گذشتہ سو دن سے بیتا قصبے کے مسلمان فلسطینی شہری غاصب صہیونی فورسز کے مقابلے میں مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا: "بیتا قصبے میں ہمارے عزیز گذشتہ سو دنوں سے مزاحمت کر رہے ہیں۔ میں جبل صبیح کے پاسبانوں پر درود بھیجتا ہوں جو غاصب اور جارح دشمن کے مقابلے میں اپنی مٹی اور سرزمین کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ افراد ہماری نیابت میں اپنے حقوق حاصل کرنے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا: "اس سو روزہ شجاعانہ مزاحمت نے تین ایسے حقائق واضح کر دیے ہیں جو غاصب صہیونی رژیم کے ناجائز قبضے اور یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف قومی شعور کی علامت ہیں۔"
اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ پہلی حقیقت یہ ہے کہ ہماری عوام، عوامی مزاحمت کے ذریعے اور اسے وسعت دے کر اور اس کیلئے نت نئے ہتھیار بنا کر اپنے جائز حقوق کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسری حقیقت عمل کے میدان میں وحدت اور اتحاد ہے۔ اس اتحاد کی بدولت ہر گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد احتجاجی مظاہروں میں شریک ہو رہے ہیں۔ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ تیسری حقیقت یہ ہے کہ "بیتا" کا قصبہ فلسطینی عوام کی اپنی سرزمین سے وفاداری کی علامت بن چکا ہے۔ اس مزاحمت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ سازباز کے مخالف ہیں اور غاصب صہیونی رژیم کی سازشوں کے خلاف ڈٹ جانے کے قائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیتا میں شہید، زخمی اور جلاوطن ہونے والے شہریوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور غاصب اور شدت پسند یہودی آبادکاروں کی نابودی تک ان کے حامی ہیں۔
اسماعیل ہنیہ نے غاصب صہیونی رژیم کو خبردار کرتے ہوئے کہا: "قدس شریف کے دفاع کیلئے اٹھائی گئی شمشیر قدس ابھی تک نیام میں نہیں ڈالی گئی اور غاصب صہیونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد بدستور جاری ہے۔ ہماری جنگ فلسطینی قوم کی آزادی اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی تک جاری رہے گی۔" اسماعیل ہنیہ نے مغربی کنارے میں مقیم فلسطینی شہریوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بیتا قصبے کے اہالی کی مدد اور حمایت کریں۔ انہوں نے مغربی کنارے کے شہریوں سے کہا کہ وہ بیتا قصبے کے اہالی کی طرح یہودی آبادکاروں کے خلاف فیصلہ کن اور مسلح کاروائیاں انجام دیں۔ یاد رہے گذشتہ دو ماہ سے مغربی کنارے کے مختلف حصوں میں صہیونی سکیورٹی فورسز اور فلسطینی عوام کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ بیتا قصبے کے علاوہ ایویتار اور جبل صبیح کے قصبوں میں بھی یہ جھڑپیں انجام پا چکی ہیں۔ ان دو قصبوں کے شہریوں نے شدید مزاحمت کے بعد یہودی آبادکاروں اور صہیونی فورسز کو یہ علاقے خالی کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
تا قیامت قطع استبداد کرد
کربلا بھی عجب ہے کہ جب بھی اس کے بارے سوچا، اس کا خیال دل میں لائے، اس کو جاننے کی جستجو کی، اس کو پڑھنے کی کوشش کی، اس کو سمجھنے کا ارادہ کیا، اس کی معرفت کا در وا کیا، اس کے دروازے پہ دستک دی، اس کی گہرائیوں میں جھانکنے کی سعی کی، اس کی حقیقت کو پانے کی کوشش کی، اس نے پہلے سے زیادہ معرفت عطا کی۔ پہلے سے بڑھ کر پیاس اور تڑپ پیدا کی، نئے زاویئے کھولے، نئی گرہیں کھولیں، نئے در وا کئے۔ چودہ صدیاں ہوگئیں اس فاجعہ کو، ابھی تک اس پر ایسے ہی بات ہوتی ہے، جیسے بس آج کا سانحہ ہو، جیسے گزرے کل کی بات ہو۔ جو بھی ایام محرم میں اس کی طرف متوجہ ہوا کہ کچھ مل جائے، اسے معرفت کے نئے خزانے مل گئے۔ ہم جو چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس کی گہرائیوں اور اس کی معرفت کی کوشش کرکے نئے زاویوں سے آگاہ ہو کر جھوم جھوم جاتے ہیں، کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہم نے امام حسین ؑ اور ان کے نانا کو دیکھا نہیں، ہم نے ان کی زیارت نہیں کی، ہم نے ان کی مصاحبت نہیں کی۔
ہم نے ان کے چہرہ انور کی زیارت کرتے ہوئے ان کی زبان وحی سے حسنین کریمین ؑ کی شان اقدس میں احادیث مبارکہ "حسین مجھ سے ہے، میں حسین سے ہوں، جو اس سے محبت رکھے گا، وہ مجھ سے محبت رکھے گا، اللہ اسے دوست رکھے گا، جو اسے دوست رکھے گا۔"، "حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔" بیان کرتے نہیں سنی۔ ہم نے مسجد نبوی میں خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ، محبوب کبریا کو خطبہ دیتے منبر سے اتر کر شہزادوں کو اٹھا کر گود میں بٹھاتے نہیں دیکھا اور ہم نے وحی کے بغیر کلام نہ کرنے والے نبی رحمت کو واجب نماز میں حالت سجدہ میں شہزادگان کو نانا کی پیٹھ پہ سوار ہو کر سواری کرتے اور سجدے کی طوالت میں نہیں دیکھا۔ ہم نے رسول خاتم کو امام حسین ؑ کی زندگی میں جب بی بی ام سلمیٰ کو ایک خاک والی شیشی دی اور فرمایا کہ اسے سنبھال لو، جب یہ خون میں تبدیل ہو جائے تو سمجھ لینا میرا حسین دشت نینوا میں شہید ہوگیا، یہ کہتے ہوئے امام حسین ؑ پر رسول خدا کو عزا برپا کرتے، گریہ کرتے نہیں دیکھا۔ پھر بھی ہم نے یقین کیا۔
ہم نے رسول خاتمؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے امام حسین ؑ کے غم میں آنسوؤں کا سیلاب برپا کر دیا، جس نے یزیدیت کی اسلام کے خلاف سازشوں کو بہا دیا۔ ہم نے چودہ صدیاں بعد بھی رسول و آل رسول کے غم کو اپنے غموں سے بڑھ کر اہمیت دی، جو بھی حسینی ہیں، اپنے غموں کو بھول کر ان ایام میں فقط آل نبی کے غموں پہ نوحہ کناں اور ماتم کناں ہوتے ہیں۔ کیا عجیب لوگ تھے، جو چودہ صدیاں پہلے رسول خدا کی زبان وحی سے سب کچھ سن کر جنت کے ان سرداروں کو اپنی تلواروں سے خون میں تر بہ تر کرنے کیلئے تل گئے۔ کیا عجیب لوگ تھے، جو خاتم الانبیاء کو بوسے دیتے، گلے لگاتے، چومتے، واجب نماز میں پیٹھ پہ سواری کرواتے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی بے قصور قتل کرنے کیلئے ایک دوسرے سے سبقت لینے کی دوڑ میں شامل نظر آئے۔ کربلا عجب ہے کہ اس نے عرب کے قبائلی تعصب، جو بہ طاہر چھپ گیا تھا اور نوزائیدہ اسلام کے وسیع مفادات کی وجہ سے بہ ظاہراً چھپ گیا تھا، رسول خاتم کی رحلت کے چند برس بعد ہی اسے کھول کر رکھ دیا کہ اب رہتی دنیا تک طلقاء کی اولادوں کے ہاتھوں اسلام پر ہونے والے حملوں اور سازشوں کا پردہ چاک کرنے میں کسی کو جھجھک نہیں ہوتی۔
ہاں اس میں بھی چودہ صدیاں پہلے کی طرح آل نبی کے ساتھ تعصب برتنے والے پیچھے نہیں رہتے، اگر اپنی آنکھوں سے رسول خاتم ؐ کو دیکھنے اور سننے والوں سے کربلا کا عظیم سانحہ رونما ہونا ممکن ہے تو آج کے چودہ صدیاں بعد کسی متعصب، ناصبی طلقاء کی اولاد سے جب یہ سنتے ہیں کہ محرم میں شادیاں رچاؤ، بہت ثواب کا کام ہے تو حیرانی کیسی۔؟ مجالس امام حسین ؑ ، جلوس ہائے عزاء کی مخالفت کرنے والے اس دور کے نام نہاد مسلمانوں کے اس عمل پر قطعاً حیرانگی نہیں ہوتی کہ اللہ کے نبی جس نے انہیں کلمہ پڑھایا، مسلمان بنایا، اس سے مسواک کا سائز، عمامے کا رنگ تک تو لینا نہیں بھولے، اگر بھولے ہی ہیں تو نبی رحمت کے فرزندان کے بارے معتبر ترین حدیث کو بھول گئے اور غم حسین منانے ؑ کی سنت بھول گئے، ایسے نام نہاد مسلمانوں کی طرف سے جب جلوس و مجالس کی مخالفت سامنے آتی ہے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیئے۔ یہی امت مسلمہ کی تاریخ ہے، یہی ان کی محبت رسول ہے، یہی ان کا دعویٰ محبت اہلبیت ؑ ہے۔
جو لوگ یزید کی وکالت کیلئے مرے جا رہے ہیں، ان کو بھی یہ ورثہ ان کی گھٹیوں میں پلایا گیا ہے، جس طرح محرم میں شادیاں کروانے پر زور دیا جا رہا ہے، دراصل یہ یزید زادے پیدا کرنے کا منظم منصوبہ ہے، علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے بجا فرمایا تھا کہ
حقیقتِ ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
اور در معنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا میں فرمایا۔۔
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید
یزید فرعون، نمرود و شداد کا وارث تھا، جس کا راستہ آل ابراہیم، آل ابو ہاشم کے چشم و چراغ امام حسین ؑ نے روکا، ورنہ اسلام جو ابھی نوزائیدہ تھا، وہ آل امیہ اور طلقاء کی اولادوں کے قبضہ میں چلا گیا تھا اور ان کی ازلی سازشوں کی نذر ہو جاتا اور لوگ ان کے پراپیگنڈہ اور چکا چوند سے اصل کو بھول ہی جاتے۔
مگر امام حریت و آزادی نے اپنے اکہتر ساتھیوں سمیت ریگ زار کربلا پر ایسا تاریخ ساز معرکہ لڑا، جس کے بعد رہتی دنیا تک اسلام کی حقانیت اور اس کی تازگی شہدائے کربلا کے سرخ خون کی بدولت خوشبو بکھیرتی رہیگی اور اس واقعہ پہ لکھنے والے اپنے قلم کی سیاہی سے شہداء کے پاک لہو کی سرخی کو اوراق تاریخ پر نقش کرتے رہینگے۔ علامہ محمد اقبال (رہ) نے جو لکھا ہے، وہ انتہائی قابل غور ہے، فرمایا
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است
پس بنائے لا الہ گر دیدہ است
اب قیامت تک یزید کے پیرو، اس کے چاہنے والے، اس سے محبت اور فرزند نبی سے اپنا بغض اور دشمنی رکھنے اور دکھانے والے آتے رہیں، اس سے اسلام کو کچھ فرق نہیں پڑنے والا، اسلام تا قیامت جبر و استبداد اور بادشاہت، خاندانی وراثت کے دعویداروں کی خونی پنجوں سے آزاد ہوچکا، امام حسینؑ اور ان کے جاں نثار ساتھیوں نے وفاؤں کے جو چراغ روشن کئے، اس کے بعد اگر امت مسلمہ سے کسی نام نہاد مسلمان کے زبان و عمل سے امام عالی مقام امام حسین ؑ اور ان کے پاکباز ساتھیوں کے غم کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اس کی مخالفت کی جاتی ہے تو بھلے کرنے دو، امام حسین کو تو بس جو چاہیئے تھے، وہ شب عاشور ان کے پاس تھے اور کہہ رہے تھے۔۔۔
دیا بجھا کے کہتے تھے ساتھیوں سے یہ حسین ؑ
جو چاہو ڈھونڈ لو کوئی رستہ اماں کیلئے
کہا یہ سن کے رفیقوں نے یک زبان ہو کر
یہ جان تو وقف ہے مولائے انس و جاں کے لئے
ہماری تو منزلِ آخر ہے آستان حسین ؑ
یہ سر جھکے گا نہ اب اور کسی آستاں کے لئے
تحریر: ارشاد حسین ناصر
نائجیریا میں حضرت امام حسین (ع) کی عزاداری میں عوام کی بھر پور شرکت
نائجیریا میں نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظيم الشان قربانی کی یاد میں مجالس عزا میں عزاداروں کی بھر پور شرکت کا سلسلہ جاری ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق نائجیریا میں نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظيم الشان قربانی کی یاد میں مجالس عزا میں عزاداروں کی بھر پور شرکت کا سلسلہ جاری ہے۔
نائجیریا میں 7 ملین شیعہ آباد ہیں نائجیریا کی اسلامی تحریک شیعوں سے متعلق ہے جس کے سربراہ شیح ابراہیم زکزاکی ہیں۔ نائجیریا کے زیادہ تر شیعہ لاگوس ، زاریا اور کانو میں آباد ہیں۔
نائجیریا کے شیعوں نے ہر سال کی اس سال میں مجالس عزا برپا کی ہیں جس میں نائجیریا کے جوان بھر پور انداز میں شرکت کرکے حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ اپنی محبت اور وفاداری کا اعلان کررہے ہیں اور آنحضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کے نواسے کا پرسہ دے رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کی موجودگی میں حسینیہ امام خمینی (رہ) میں پہلی مجلس عزا منعقد
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں حسینیہ امام خمینی (رہ) میں سید الشہداء حضرت امام حسین (ع) اور ان کے بہتر ساتھیوں کی یاد میں پہلی مجلس عزا منعقد ہوئی۔ گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی کورونا وائرس کی روک تھام اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کی طرف سے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے والی قومی کمیٹی کی ہدایات پر عمل کرنے کی تاکید کی روشنی میں مجالس عزا میں عوام کو دعوت نہیں دی گئی ۔ مجالس عزا کا سلسلہ محرم الحرام کی ساتویں شب سے لیکر بارہویں شب تک جاری رہےگا۔مجالس عزا کا پروگرام ٹی وی سے براہ راست نشر کیا جائےگا۔
مستقبل کا افغانستان
طالبان کی تیز رفتار پیشقدمی جاری ہے۔ طالبان اندازوں سے کہیں زیادہ سرعت سے کابل کے قریب پہنچ جائیں گے۔ غزنی اور قندھار کے بعد مزار شریف بھی طالبان کے ہاتھوں سقوط کر گیا ہے۔ افغانستان کے شہر مزار شریف کے مکمل سقوط کر جانے کی خـبریں کنفرم ہوچکی ہیں۔ طالبان کے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ صوبہ بلخ کا صدر مقام مزار شریف مکمل طور پر ان کے قبضے میں آگیا ہے۔ مزار شریف شمالی افغانستان کا اہم ترین شہر شمار ہوتا ہے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہر میں داخل ہونے کے بعد مزار شریف جیل میں موجود تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا ہے۔ مزار شریف ماضی میں طالبان سے فتح نہیں ہوسکا تھا۔ اس بار طالبان نے جنگی حکمت عملی تبدیل کرکے اس اہم شھر پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کمانڈر عطاء محمد نور اور مارشل دوستم جو مزار شریف کا دفاع کر رہے تھے، حیرتان نامی علاقے کی جانب کوچ کرگئے ہیں، بعض خبروں میں ان کے تاجکستان فرار کی خبریں موصول ہوئي ہیں۔
طالبان کا پورے افغانستان پر قبضہ اب نوشتہ دیوار ہے۔ ایران سمیت تمام ہمسایہ ممالک ان کو تسلیم کرنے پر تیار نظر آرہے ہیں۔ ایران کی پہلی ترجیح افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء ہے۔ امریکہ پینترا بدل کر پلان بی پر عمل درآمد ضرور کرے گا۔ افغانستان میں ناامنی جاری رہے گی اور یہی امریکی خواہش ہے۔ امریکہ کا بی پلان کیا ہے، اس ہر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ فوجی انخلاء کے باوجود ایک فور اسٹار امریکی جرنیل کی تعیناتی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ مزار شریف پر قبضے سے پہلے طالبان گروہ، شبرغان، نیمروز، قندوز، سرپل، سمنگان، پلخمری، تخار اور فراہ پر قبضہ کرچکا ہے جبکہ غزنی، ہلمند، قندھار اور ہرات پر بھی طالبان کا تسلط ہے۔ ادھر امریکی ذرائع ابلاغ دارالحکومت کابل پر قبضے کی بات کر رہے ہیں۔
روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کا قبضہ سی آئی اے کی پیش گوئی سے پہلے ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اخبار کے مطابق سی آئی اے نے پیش گوئی کی تھی کہ امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد چھے ماہ سے ایک سال کے اندر طالبان کابل میں داخل ہوسکتے ہیں، لیکن اب ایک انٹیلی جینس افسر نے صاف صاف کہا ہے کہ ہر چیز غلط راستے پر جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ ادھر صدر جو بائیڈن نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا ہے کہ ہم نے بیس سال کے دوران ٹریلینز ڈالر افغانستان پر خرچ کیے ہیں اور اب افغانیوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے اور اپنے ملک کے لیے خود جنگ کریں۔ افغانستان کے عوامی اور سیاسی رہنماء ملک کی موجودہ صورتحال کو امریکہ اور طالبان کے درمیان خفیہ معاہدے کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری دوہزار بیس میں ہونے والے معاہدے کے تحت امریکی فوجی افغانستان سے نکلنا شروع ہوگئے ہیں، یہ عمل گیارہ ستمبر سے پہلے مکمل ہو جائے گا۔ امریکی فوجیوں کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان نے افغانستان میں حملے تیز کر دیئے تھے اور اس وقت ملک کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرچکے ہیں۔ چین، روس ایران اور پاکستان طالبان کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ ادھر افغان صدر اقتدار سے الگ ہونے کے لئے جو شرط عائد کر رہے ہیں، طالبان اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اشرف غنی انتخابات یا موجودہ آئین کے اندر رہ کر شرکت اقتدار کی بات کرتے ہیں جبکہ طالبان موجودہ افغان آئین کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے اور امارت اسلامی کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔
پاکستان کی طرف سے یہ کہنا کہ کابل پر طاقت کے ذریعے اقتدار میں آنے والے کو قبول نہیں کیا جائیگا، ایک واضح اشارہ ہے کہ طالبان مختلف گروہوں کو ملا کر اقتدار میں آئے۔ طالبان کی حکمت عملی کے پیچھے اسلام آباد کے بالواسطہ مشورے شامل ہیں اور طالبان کابل کے مکمل محاصرے کے بعد مختلف گروہوں کو ملا کر شرکت اقتدار کا ایک جامع منصوبہ سامنے لائے گا، جس کو پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک حتی عالمی ادارے بھی تسلیم کر لیں گے۔ طالبان کے عمل و کردار میں ماضی کی نسبت کیا تبدیلی آسکتی ہے، وہ ان کی مرکزی قیادت میں تو قابل درک ہے، لیکن مقامی قدامت پسند اور روایتی ملاں مرکزی قیادت سے کتنے ہم آہنگ ہوسکتے ہیں، اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ امریکہ بہادر، چین، روس اور ایران کو ایسا افغانستان ہرگز نہیں دے سکتا، جو امریکی مفادات کی بجائے ان ممالک کے لئے سودمند ثابت ہو۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
امام حسین علیہ السلام مولانا طارق جمیل کی نظر میں
حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کو جب آپؓ کی روانگی کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے بیٹے کے ہاتھوں حضرت حسینؓ کو خط روانہ کیا، جس میں ان کو مکہ واپسی کا مشورہ دیا۔ جب یہ خط حضرت حسینؓ کو پہنچایا گیا تو آپ نے اپنے اس عزم کوفہ کو اسی طرح برقرار رکھا اور اپنے اس عزم کی ایک اور وجہ بھی بیان کی کہ میں نے رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھا ہے۔ مجھے آپﷺ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے، میں اس حکم کی بجا آوری کی طرف جارہا ہوں، خواہ مجھ پر کچھ بھی گزر جائے۔ (گلدستہ اہل بیتؑ: ص ۳۴۹) کوفہ کے قریب پہنچ کر امام حسینؑ کا سامنا حر بن یزید ریاحی کے لشکر سے ہوا۔ اس کے حوالے سے لکھتے ہیں: حُر نے کہا: مجھے آپ سے جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ یہ حکم ہے کہ میں آپ سے اس وقت تک جدا نہ ہوں، جب تک آپ کو کوفہ نہ پہنچا دوں۔ حُر مع اپنے لشکر کے، حضرت حسینؓ کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔
اسی اثناء میں حضرت حسینؓ نے ایک اہم تقریر کی، جو حضرت حسینؓ کے اس سفر کوفہ کی غرض واضح کرتی ہے، چنانچہ آپؓ نے حمد و ثناء کے بعد فرمایا: أَیُّهَا النّاسُ؛ إِنَّ رَسُولَ اللّهِ(صلى الله علیه وآله) قالَ: «مَنْ رَأى سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ، یَعْمَلُ فِی عِبادِاللهِ بِالاِثْمِ وَ الْعُدْوانِ فَلَمْ یُغَیِّرْ عَلَیْهِ بِفِعْل، وَ لاَ قَوْل، کانَ حَقّاً عَلَى اللهِ أَنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ». ألا وَ إِنَّ هؤُلاءِ قَدْ لَزِمُوا طاعَةَ الشَّیْطانِ، وَ تَرَکُوا طاعَةَ الرَّحْمنِ، وَ اَظْهَرُوا الْفَسادَ، وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَاسْتَأْثَرُوا بِالْفَیءِ، وَ أَحَلُّوا حَرامَ اللّهِ، وَ حَرَّمُوا حَلالَہُ۔۔۔ "اے لوگو! رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی ایسے ظالم بادشاہ کو دیکھے، جو اللہ کے حرام کو حلال سمجھے اور اللہ کے عہد کو توڑ دے، سنت رسول اللہﷺ کی مخالفت کرے، اللہ کے بندوں کے ساتھ گناہ اور ظلم و عدوان کا معاملہ کرے اور یہ شخص اس بادشاہ کے ایسے افعال و اعمال دیکھنے کے باوجود کسی قول یا فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ اس کو بھی اس ظالم بادشاہ کے ساتھ اس کے ٹھکانے (یعنی دوزخ) میں پہنچا دے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یزید اور اس کے امراء و حکام نے شیطان کی پیروی کو اختیار کر رکھا ہے، رحمن کی اطاعت کو چھوڑ رکھا ہے، زمین میں فساد پھیلا دیا ہے، حدود الٰہیہ کو معطل کر دیا ہے، اسلامی بیت المال کو اپنی ملکیت سمجھ لیا ہے اور اللہ کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرا رکھا ہے۔۔۔‘‘(گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۵۰)
معرکۂ کربلا کی تاریخ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ لشکر یزید کا سپہ سالار عمر بن سعد آپ سے مذاکرات کرتا رہا اور اس کی خبر کوفہ میں یزید کے گورنر عبید اللہ بن زیاد کو دیتا رہا، لیکن بالآخر ابن زیاد نے شمر ابن ذی الجوشن کے ہاتھ عمر ابن سعد کے نام ایک مکتوب روانہ کیا۔ کتاب میں اس مکتوب کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’اما بعد! میں نے تمھیں اس لیے نہیں بھیجا کہ تم جنگ سے بچو، یا ان کو مہلت دو، یا ان کی سفارش کرو۔ سنو! اگر حسین اور ان کے ساتھی میرے ہی حکم پر صلح کرنا اور میرے پاس حاضر ہونا چاہتے ہیں تو ان کو صحیح سالم یہاں پہنچا دو، ورنہ ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ ان کو قتل کر دو۔ مُثلہ کرو (یعنی۔ نعوذ باللہ۔ ان کے ناک، کان، ہاتھ، پائوں کاٹ دو) کیونکہ وہ اس کے مستحق ہیں اور پھر قتل کے بعد ان کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے روند ڈالو۔ اگر تم نے ہمارے اس حکم کی تعمیل کی تو تم کو ایک فرمانبردار کی طرح انعام ملے گا اور اگر اس کی تعمیل نہیں کرتے تو ہمارے لشکر کو فوراً چھوڑ دو اور چارج شمر کے سپرد کردو۔ والسلام۔‘‘ (گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۵۲)
امام حسینؑ لشکر یزید کے سامنے آئے اور بقول مصنف ’’دشمن کی فوج کو مخاطب کرکے ایک درد انگیز اور دلوں کو ہلا دینے والی تقریر کی۔‘‘ اس تقریر کا ایک اقتباس ان الفاظ میں درج کیا گیا ہے: "اے لوگو! تم میرا نسب دیکھو، میں کون ہوں؟ پھر اپنے دلوں میں نگاہ ڈالو: کیا تمھارے لیے جائز ہے کہ تم مجھے قتل کرو اور میری عزت پر ہاتھ ڈالو؟ کیا میں تمھارے نبیﷺ کی صاحبزادی سلام اللہ و رضوانہ علیہا کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا یہ مشہور حدیث تمھیں معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھے اور میرے بھائی حسنؓ کو جنت کے نوجوانوں کا سردار فرمایا ہے؟" (گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۵۳و۳۵۴) شہدائے کربلا میں سے مختلف شخصیات کا ذکر کرنے کے بعد امام حسینؑ کی شہادت کو ان الفاظ میں بیان کو گیا ہے: اس کے بعد شمر دس آدمی ساتھ لے کر حضرت حسینؓ کی طرف بڑھا (کہ عمر بن سعد نے شمر کو لشکر کے بائیں حصے کا امیر مقرر کر رکھا تھا)۔
آپؓ کی جب اس پر نظر پڑی تو فرمایا: اللہ اور اس کے رسولﷺ سچ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: كَأَنّي أنظُرُ إلى كَلبٍ أبقَعَ يَلَغُ في دِماءِ أهلِ بَيتي’’ گویا میں ایک دھبے دار جسم والے کتے کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ میرے اہل بیت کا خون پی رہا ہے۔‘‘(بدبخت شمر کو برص کی بیماری تھی، جس سے جسم پر سفید دھبے بن جاتے ہیں)۔ حضرت حسینؓ شدید پیاس اور اپنے زخموں کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کر رہے تھے اور جس طرف بڑھتے تو یہ لوگ ایسے بھاگتے نظر آتے تھے، جیسے شیر کے سامنے بکریاں بھاگتی ہیں۔ اہل تاریخ نے کہا ہے کہ یہ ایک بے مثل واقعہ ہے کہ جس شخص کی اولاد اور اہل خانہ قتل کر دیے گئے ہوں، خود اس کو شدید زخم لگے ہوں اور وہ شدت پیاس کے باوجود پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم ہو اور وہ اس حالت میں اس طرح ثابت قدمی سے مقابلہ کر رہا ہے کہ جس طرف رخ کرتا ہے، مسلح سپاہی بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگنے لگتے ہیں۔ شمر نے جب یہ دیکھا کہ حضرت حسینؓ کو قتل کرنے سے ہر شخص بچنا چاہتا ہے تو آواز دی کہ سب مل کر اکٹھے حملہ کرو۔ اس پر بہت سے بدنصیب آگے بڑھے، نیزوں اور تلواروں سے ایک دم اکٹھے حملہ کیا اور رسول اللہﷺ کے اس صاحبزادے اور اس وقت کی روئے زمین کی سب سے عظیم ہستی نے ظالموں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے ہوئے حق کی خاطر جان دے دی اور شہید ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ (گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۵۵و۳۵۶)
امام حسینؑ کے فضائل کے حصے میں متعدد احادیث نقل کی گئی ہیں۔ چند ایک ملاحظہ کیجیے:
۱۔ حُسَیْنُ مِنّی وأنا مِنَ الحسین، أحَبَّ اللہُ مَنْ أحَبَّ حُسَیْنًا، حُسَینٌ سِبطٌ مِنَ الا سباطِ ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں(یعنی حسین کا مجھ سے گہرا تعلق ہے)۔ اللہ اس سے محبت کرے، جو حسین سے محبت کرے۔ حسین (میرا خاص) نواسہ ہے۔"(بحوالہ:سنن ابن ماجہ:۱/۵۱)
۲۔ جب عبیداللہ بن زیاد کے پاس حضرت امام حسینؓ کا سر مبارک لایا گیا، تو وہ بدبخت آپؓ کے سر کو ایک ’’طشت‘‘میں رکھ کر اسے چھڑی سے کریدنے لگا اور آپؓ کے حسن و جمال کے بارے میں کوئی نازیبا بات بھی کہی۔ مشہور صحابی حضرت انسؓ وہاں موجود تھے، انھوں نے جرأت کرکے اس سے کہا: ’’یہ تو حضورﷺ کے بہت مشابہ تھے۔‘‘ اس وقت حضرت امام حسینؓ کے بالوں میں ’’وسمہ‘‘ کا خضاب لگا ہوا تھا۔(بحوالہ:صحیح البخاری:۵/۲۶)
۳۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُحِبُّہٗ فَاَ حِبَّہٗ ۔۔۔اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت فرما۔( بحوالہ:المستدرک علی الصحیحین للحاکم:۳/۱۹۶)
۴۔ حضورؐ نے حضرت امام حسینؓ کے بارے میں فرمایا: مَنْ أَحَبَّ ھَذَا فَقَدَ أَحَبَّنِی۔ جس نے اس سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی۔(بحوالہ:مجمع الزوائد و منبع الفوائد:۹/۱۸۶ )(گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۶۹و۳۷۰)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: اس حصے میں تمام عبارتیں جن میں قوسین کے اندر موجود عبارتیں بھی شامل ہیں، اصل کتاب سے من و عن نقل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ راقم کے مضمون کی عبارتیں واضح طور پر جدا موجود ہیں۔ حوالہ جات بھی کتاب ’’گلدستۂ اہلِ بیت سلام اللہ و رضوانہ علیہم‘‘ ہی سے درج کیے گئے ہیں۔
کربلا والوں نے ہمیں حقیقی معنوں میں اللہ تعالی کی اطاعت اور حریت کا درس دیا
مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ محرم الحرام وہ مقدس مہینہ ہے جس میں دین اسلام کی بقا اور دوام کے لئے نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین (ع) نے اپنا پورا کنبہ لٹا دیا، اور اپنے اعزا و اقربا اور اصحاب کے خون سے اسلام کی آبیاری کی۔ ۔واقعہ کربلا محض ایک واقعہ یا اسلامی تاریخ کا ایک باب نہیں بلکہ یہ رہتی دنیا تک کے لئے ایک واضح مثال ہے۔سانحہ کربلا نے دنیا میں بنی نوعِ انسان کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا اور حق و باطل کے مابین ایک واضح لکیر کھینچ دی ۔ آج بھی ایک گروہ حضرت امام حسین (ع) اور ان کے بہتر ساتھیوں کا پیروکار اور شیعہ ہے جو حق اور سچ کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہے جبکہ دوسرا گروہ یزید ، معاویہ ، ابوسفیان اور ہندہ جگر خوارہ کا طرفدار ہے جو آج بھی ظلم اور ظالم کا طرفدار ہے۔
واقعہ کربلا کی حقانیت آج بھی ہر باضمیر انسان کےچہرے سےچھلکتی ہے،اگرچہ اسکا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو ۔اگر کسی بھی شخص کا ضمیر زندہ ہے اور اسکے دل میں انسانیت کے لئے درد پنہاں ہے تو وہ حسینی (ع) ہے ۔
کربلا کے معرکے کے بارے میں سوچیں تو روح تھر تھرکانپ جاتی ہے اور جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ۔یہ ایک ایسا خونچکاں واقعہ ہے جس میں ایک جانب اطاعت خداوندی ،ایثار ، قربانی اور عبادات کے پہلو ملتے ہیں تو دوسری جانب ظالم حکمران کا اپنی عددی طاقت کی بنا پر غرور اور کبر نظر آتا ہے ۔ کربلا کی سرزمین تو وہ ہےجس کو امام حسین (ع) کے مقدس خون کی وجہ سے بے مثال مقام مل گیا ۔ آج اسی سرزمین ننیوا کو کربلائے معلیٰ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسے مظلوم کا مقتل ہے جو نبی کریم کے خاندان کا چشم و چراغ اور آنحضور کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ،جو کل بھی دینِ محمد(ص) کا محافظ تھا اور آج بھی محافظ ہے ۔ تاریخ میں ہے کہ جب نواسہ رسول (ص) سرزمین کربلا پر اترے اور آپؓ کو بتایا گیا کہ یہ کربلا ہے تو آپ سن کر بہت روئے اور فرمایا کہ یہاں سے ایک مشت خاک اٹھا کر مجھے دے دو ۔ آپ کے حکم کی تعمیل کی گئی ۔ امام عالی مقامؓ نے وہ مٹی سونگھی اور پھر اپنے کرتے کی جیب میں سے ایک مٹھی مٹی نکالی اور فرمایا کہ یہ وہی مٹی ہے کہ جو جبرائیل علیہ السلام کے توسط سے اللہ تعالی نے میرے نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیل و آلہ وسلم کو بھیجی تھی اور کہا تھا کہ یہی حسین (ع) کی تربت کی مٹی ہے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام وہ عظیم اور ذی وقار ہستی ہیں جن کے لئے پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں ، جس نے اس سے محبت کی اس نے گویا مجھ سے محبت کی اور جس نےا سے اذیت دی اس نے گویا مجھے اذیت دی ‘ لیکن حیف ہے ایسی جاہل اُمت پرکہ جنہوں نے کلمہ پڑھ کر امام حسین (ع) کی گردن پر کند خنجر چلا دیا ۔ اس گردن کو تہ تیغ کر دیا جس پر ہمارے پیارے نبی (ص) بوسے دیا کرتے تھے ۔
دیکھا جائے تو کربلا کے شہیدوں نے ہمیں حقیقی معنوں میں اطاعتِ خداوندی اور حریت کا درس دیا ۔انھوں نے بتایا کہ صرف نمازیں پڑھنا یا اذانیں دینا ہی کافی نہیں،قرآن کے ساتھ ساتھ ناطقِ قرآن کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
کربلا کا معرکہ آج بھی جاری و ساری ہے ۔ آج بھی ایک جانب مظلوم اور محکوم اقوام ہیں تو دوسری جانب ظالم اور جابرحکمراں ہیں۔ حق و باطل کا معرکہ فلسطین، یمن ، لبنان اور دیگر مقامات پر جاری ہے جہاں ایک طرف اس دور کے یزید امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں اور ایک طرف فلسطین ، یمن اور لبنان کی مظلوم اقوام ہیں۔
عالمی یوم علی اصغر (ع) کے موقع پر حرم معصومہ قم کا منظر
فتنے کیلئے زمینہ فراہم کیا جا رہا ہے، مزاحمتی محاذ کے حامی بیدار رہیں، سید حسن نصراللہ
لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سيد حسن نصر اللہ نے محرم الحرام کی تیسری شب کے حوالے سے خطاب میں نفسیاتی جنگ کے بارے خبردار کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ بعض عناصر لبنان میں فتنے کا بازار گرم کرنے کے لئے زمینہ فراہم کر رہے ہیں لہذا مزاحمتی محاذ کے حامیوں کو بیدار رہنا چاہئے۔ العہد کے مطابق سید مقاومت نے اپنے خطاب کے دوران مزاحمتی محاذ کے حامیوں کو چند ایک نصیحتیں کیں اور حقیقت نقل کرنے میں صداقت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بغیر ثبوت کے کسی پر افتراء نہیں باندھنا چاہئے، کسی پر الزام عائد نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی کسی کو برا بھلا کہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کے ساتھ اختلاف نظر کا مطلب اس پر حملہ نہیں.. تنقید ایک چیز ہے اور حملہ دوسری۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ علماء یا میڈیا پرسنز میں سے اگر کوئی سیاست کے بارے کچھ کہہ دے تو ہمیں اس کا جواب دینے کا حق حاصل ہے لیکن اس شخص پر حملہ کئے بغیر.. کیونکہ برا بھلا کہنا اور توہین کرنا کمزوری کی علامت ہے۔ سربراہ حزب اللہ نے کہا کہ حزب اللہ میں موجود تمام ذمہ دار افراد و علماء وغیرہ سے توقع ہے کہ اگر کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو وہ اس کے بارے وضاحت پیش کریں اور نفسیاتی جنگ کو ہلکا نہ سمجھیں۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں تاکید کی کہ ہمارا ملک انتہائی حساس مرحلے میں اور ہم ایک سخت و طولانی معرکے میں ہیں لہذا مزاحمتی محاذ کے حامیوں کو بیدار رہنا چاہئے اور ہم میں سے ہر ایک شخص ایک ذمہ داری اٹھا لے۔
واضح رہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جارحیت کے خلاف حزب اللہ لبنان کی جانب سے صیہونی اہداف پر ہونے والے جوابی حملے کے بعد لبنان کے میرونائٹ عیسائیوں کے سربراہ بشاره پطرس الراعی نے حزب اللہ کے خلاف بیان دیتے ہوئے لبنانی فوج سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس تنظیم کو روکے جس کے بعد لبنانی مزاحمتی محاذ میں اس حوالے سے ناراضگی پائی جاتی تھی جس کے اثرات سوشل میڈیا پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
پاکستان کا آج 75 واں یوم آزادی منایا جارہا ہے
مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کا آج 75 واں یوم آزادی منایا جارہا ہے اس موقع پر دارالحكومت اسلام آباد میں 31 اور صوبائی دارالحكومتوں میں 21،21 توپوں كی سلامی دی گئی۔
پاکستان میں جشن آزادی کے حوالے سے مرکزی تقریب دارالحکومت اسلام آباد میں ہوئی جس میں صدر ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، وفاقی وزرا، اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ اور مختلف ممالک کے سفرا نے شرکت کی، اس کے علاوہ کراچی میں مزار قائد اور لاہور میں مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی روایتی تقاریب منعقد ہوئیں۔