سلیمانی

سلیمانی

ان الله لا یضیع اجر المحسنین- ترجمہ: بے شک اللہ احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ہے

حضرت علی علیہ السلام کے  اسلام اور مسلمین کےلئے خدمات اور قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ خدا وند منان نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں حضرت علی علیہ السلام کی عظمت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زبان مبارک سے بھی آپ ؑکے فضائل بیان ہیں ۔ ذیل میں احادیث نبویﷺ کی روشنی میں ترتیب سے، پہلے حضرت علی علیہ السلام کے وہ فضائل جو حضرتؑ کو صفت الہی سے متجلّی کرتے ہیں بیان کئے جائیں گے، پھر رسول گرامی اسلامﷺ سےمتعلق صفات بیان کی جائیں گی اور آخر میں حضرتؑ کے دیگر فضائل رسول رحمتﷺ کی زبانی بیان کیے جائیں گے۔

 

علی ؑ کا صفات الہی میں متجلّی ہونا:

 

کلام رسول گرامی اسلام ﷺ میں وہ احادیث جو صفات الہی کی تجلی علی علیہ السلام  میں قرار دیتی ہیں ،درج ذیل ہیں۔

 

علی ؑ نور الہی:

 

حضرت علی ؑ کے نور الہی ہونے کے متعلق سرور کائنات سے ابن عباسؓ یوں حدیث نقل کرتے ہیں : (( سمعت رسول الله(ص) یقول لعلی ؑ خلقت انا و انت من نور الله تعالی ))  ترجمہ:میں (ابن عباس) نے رسول خدا ﷺ کو علی ؑ سے فرماتے ہوئے سنا:میں اور تم(علیؑ) خداوند متعال کے نور سے  پیدا ہوئے ہیں۔

اس حدیث کے مطابق رسول رحمت ﷺاور امیر المؤمنینؑ دونوں نور الہی سے وجود میں آئے ہیں؛ لہذا یہ عظیم ہستیاں عالم تشریع میں ساتھ ہونے کے علاوہ عالم تکوین وخلقت میں بھی ہم قرین ہیں۔

 

علی ؑ انتخاب الہی:

 

رسول گرامی اسلامﷺ اپنی  پیاری بیٹی سے حضرت علی ؑ کے عظمت کے متعلق یوں فرماتے ہیں:

(( یا فاطمه اما ترضین ان الله عزوجل اطلع الی اهل الارض فاختار رجلین: احدهما ابو ک والآخر بعلک))  ترجمہ:اے فاطمہ (س)کیا آپ(س) راضی نہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے زمین والوں کی طرف توجہ کی اور دومردوں کو انتخاب کیا جن میں سے ایک آپ (س)کے بابا(رسول اللہ) اور دوسرے آپ (س)کے شوہر علی ؑ ہیں!یعنی خداوند  متعال نے انسانوں میں سے ان دو ہستیوں کو چنا اور ایک کو سرکار انبیاءﷺ اور دوسرے کو سید الاوصیاءؑ قرار دیا۔

 

علی ؑ محبوب الہی:

 

حضرت علی علیہ السلام کے محبوب الہی ہونے کے متعلق،احادیث کی کتابوں میں رسول اعظم ﷺ سے مختلف احادیث منقول ہیں جن میں سے (الطائر المشوی) بھنی ہو ئی مرغی زیادہ مشہور اور تواتر سے مختلف صحابہ اور تابعین سے نقل ہوئی ہے اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے: ایک بار رسول گرامی اسلام ﷺ کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی مرغی ہدیہ کے طور پر لائی گئی اور وہ مرغی رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھی گئی حضرت ﷺنے خداوند  متعال سے یوں دعا فرمائی :  (( اللهم ائتنی بأحب خلقک الیک یاکل معی))  ترجمہ: خدایا میرے پاس اپنے محبوب ترین شخص کو بھیج دے تاکہ میرے ساتھ یہ کھانا کھائے۔ علی علیہ السلام آئے اور دروازے پر دستک دی  ۔ رسول کے خادم  انس نے پوچھا کون ہے؟ اورجواب میں کہا کہ رسول خدا ﷺ مشغول ہیں حضرت علی ؑ چلے گئے اور پھر دوبارہ تشریف لائے اور دروازے پر دستک دی انس نے پھر پوچھا اور جواب میں کہا رسول اللہ ﷺ مصروف ہیں اور حضرت علی علیہ السلام چلے گئے رسول رحمت ﷺ اپنی دعا تکرار کرتے رہے تھوڑی دیر بعد علی علیہ السلام پھر آئے اور دروازے پر دستک دینے کے ساتھ اونچی آواز میں سلام کیا،رسول ﷺنے سننے کے بعد فرمایا: اے انس دورازہ کھول دو ؛ انس نے دروازہ کھولا اور علی علیہ السلام رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسول ﷺ نے فرمایا: اے خدایا میں نے تجھ سے مانگا تھا کہ اپنے محبوب ترین فرد کو بھیج دے جو میرے ساتھ مرغی کھائے ؛ تو نے علی ؑ کو بھیجا اے اللہ علی مجھ محمدﷺ کو بھی ساری مخلوق میں زیادہ محبوب ہیں۔  اس حدیث کے مطابق حضرت علی علیہ السلام ساری مخلوقات میں نہ صرف خداوند متعال بلکہ رسول خدا ﷺ کی بھی محبوب ترین ہستی ہیں۔

مذکورہ حدیث معمولی اختلاف کے ساتھ حدیث کی مختلف کتابوں میں منقول ہے۔

 

علی علیہ السلام خدا کی مضبوط رسی:

 

نبی مکرم اسلام ﷺ سے منقول ہے کہ میرے بعد جب فتنے کی تاریکی چھائی ہوئی ہوگی تو وہ نجات پائے گا جو مضبوط رسی کو تھامے گا اور مضبوط رسی سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ حدیث کی تفصیل یوں ہے: (( روی عن رسول الله انه قال ستکون بعدی فتنه مظلمة ،الناجی منها، من تمسّک بعروة الله الوثقی فقیل: یارسول الله وماالعروة الوثقی؟ قالﷺ : ولایة سیّد الوصیّین قیل :یا رسول الله ومن سیّد الوصیین؟ قال امیر المومنین قیل: ومن امیر المومنین؟ قال مولی المسلمین وامامهم بعدی قیل؟ ومن مولی المسلمین؟ قال اخی علی  بن ابی طالب۔ ترجمہ: رسول اللہ (ص) سے منقول ہے :عنقریب میرے بعد شدید فتنہ بپا ہو گا ۔ اس فتنے سے وہی نجات پائے گا جو مضبوط رسی کو تھامے گا ،پوچھا گیا :مضبوط رسی سے کیا مراد ہے؟ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ۔مضبوط رسی سےمراد سید الوصیین کی ولایت مراد ہے ۔دوبارہ سوال کیا گیا کہ سید الوصیین کون ہیں؟ حضرت(ص) نے فرمایا: جو امیر المومنین ہے وہی سید الوصیین ہے ۔پھر پوچھا گیا امیر المومنین کون ہے؟ حضرت نے فرمایا: مسلمانوں کا مولا اور میرے بعد ان کا امام ۔ سوال ہوا مسلمانوں کا مولاکون ہے؟ رسول (ص) نے فرمایا میرے بھائی علی ابن ابی طالبؑ مسلمانوں کے امام اور مولا ہیں۔

اس حدیث کے مطابق مولا علی علیہ السلام ہی خداوند کی مضبوط رسی اور مسلمانوں کے امام اور امیر المومنین ہیں۔

 

علیؑ تلوار الہی:

حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت اور بہادری کے واقعات  سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے اور حضرتؑ کے میدان جنگ کے کارناموں کو بیان کئے بغیر تاریخ اسلام ادھوری ہے جیسے  کہ درج ذیل حدیث میں پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں: (( عن انس بن مالک قال: صعد رسول الله المنبر فحمد الله واثنی علیه الی ان قال :این علی ابن ابی طالب، فقام علی و قال:انا ذا یارسول الله فقال النبی(ص) ادن منی فدنا منه فضمّه الیّ صدره وقبّل ما بین عینیه وقال بأعلی صوته" یامعاشر المسلمین هذا علی بن ابی طالب۔۔۔۔هذا اسد الله فی ارضه وسیفه علی اعدائه۔۔۔۔)) ترجمہ: انس بن مالک سے منقول ہے رسول اللہ(ص) منبر پہ تشریف لے گئے اور حمد و ثنا الہی کے بعد فرمایا علی ؑ کہاں ہے؟علی ؑ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے رسول (ص)میں حاضر ہوں ۔ رسول(ص) نے فرمایا: میرے قریب ہو جاؤ علی علیہ السلام رسول کے قریب ہوئے اور رسول(ص) نے علیؑ کو اپنے سینے سے لگایا اور علی ؑ کی دونوں آنکھوں کے درمیان چوما اور فرمایا اے لوگوں! یہ علی ابن ابی طالبؑ ہے اور خدا کی زمین پر خدا کا شیر ہے اور خدا کے دشمنوں کے مقابلے میں خدا کی تلوار ہے۔  اس حدیث شریف سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اعظم (ص) نے غدیر کی طرح متعدد مواقع پر  حضرت علی علیہ السلام کی فضلیت کا لوگوں میں اعلان فرمایا ؛  تاکہ آپ ؑ کی ولایت اور شان و منزلت کے سلسلے میں امت پر اتمام حجت ہو اور مولا کی عظمت کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔

 

علیؑ رسول اعظمﷺ کا جلوہ :

 

رسول رحمت (ص) نے اپنے عہد رسالت میں متعدد مواقع پر حضرت علی ؑ کا اپنا ولی ،وصی ،دوست ،امین ،ہم نشین ،راز دار اور علمبردار کے طور پر تعارف کروایا ہے۔ذیل میں اس نوعیت کی احادیث بیان کی جا رہی  ہیں:

 

حضرت علیؑ ختم مرتب کے پہلا ساتھی:

 

رسول اللہ ﷺ حضرت علی ؑ کی شان میں یوں فرماتے ہیں:

یا علی انت اول من أمن بی و صدقنی و انت اول من اعاننی علی امری و جاهد معی عدوی و انت اول من صلی معی و الناس یومئذ فی غفله الجهالة  ترجمہ: اے علیؑ تم سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے اور میری تصدیق کی اور تم ہی نے سب سے پہلے امر رسالت میں میری مدد کی اور میرے دشمنوں کے ساتھ جہاد کیا اور تم ہی نے سب سے پہلے میرے ساتھ نماز اداء کی جبکہ لوگ اس وقت جہالت کی غفلت میں تھے۔ اس حدیث کے مطابق، اسلام کے سارے امو ر میں علی ؑ رسول رحمت ﷺ کے پہلے یار و ناصر تھے۔ اور اسلام کے سارے امور میں علی ؑ کو دوسروں پر سبقت حاصل ہے ۔

 

حضرت علی ؑ رسول ﷺ کے دوست:

 

ہر لمحہ اور ہر قدم پر رسول ﷺ کے شانہ بشانہ رہنے والے امیر المومنین ؑ کے متعلق سرور کونین ﷺ نے متعدد مقامات پر دوست اور ساتھی کے القابات بیان فرمائے ہیں جیسے کہ ذیل کے واقعہ میں عائشہ یوں کہتی ہیں: (( عن عائشة قالت: قال رسول الله وهو فی بیتها لمّا حضر الموت ادعوا لی حبیبی فدعوت له ابا بکر فنظر الیه ثم وضع راسه ثم قال : ادعوا  لی حبیبی فدعوا  له عمر! فلمّا نظر الیه وضع راسه ثم قال ادعوا  لی حبیبی فقلت ویلکم! ادعوا  له علی ابن ابی طالب فوالله مایرید غیره فلمّا راه  افرج التوب الذی علیه ثم ادخله فیه فلم یزل محتضنه حتی قبض صلی الله علیه وآله وسلم و یده علیه))

ترجمہ: عائشہ سے روایت ہے رسول خداﷺ نے فرمایا  (جب احتضار کے وقت رسول خدا ﷺ عائشہ کے گھر میں تھے) میرے پاس میرے دوست کو بلاؤ۔ میں (عائشہ) نے ابو بکر کو بلایا، حضور نے ابو بکرکو دیکھ کر دوبارہ سر رکھا اور پھر فرمایا میرے دوست کو میرے لئے بلاؤ عمر کو بلایا گیا۔ جب حضورﷺ نے عمر کو دیکھا تو دوبارہ سر رکھ کر فرمایا میرے دوست کو میرے لیے بلاؤ،پس میں(عائشہ) نے کہا تم لوگوں پر وای ہو علی ؑ کو ان کے لئے بلاؤ  خدا کی قسم حضرتﷺ کی مرادعلیؑ کے سوا کوئی اور نہیں، جب حضور ﷺنے علی ؑ کو دیکھا تو اپنی چادر کو کھولا اور علی ؑ پیغمبر ﷺکی چادر میں داخل ہوئے اور ہم آغوش ہوئے یہاں تک کہ رسول خداﷺ کی روح عالم ملکوت کی جانب پرواز کرگئی  اور حضورﷺ  کا ہاتھ علی ؑ پر تھا۔

 اور اسی طرح سرور کائناتﷺ علی ؑ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:

(یا علی انت رفیقی فی الجنة)   ( اے علیؑ تم جنت میں میرے ہم نشین ہو)۔ عائشہ کی اس حدیث کے مطابق، رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ کی طرح آخری لمحات میں بھی سب پر واضح کردیا کہ علیؑ سب سے زیادہ آنحضرتﷺ سے قریب ہیں۔

 

علی ؑ نفس اور روح رسول ﷺ:

 

رسول رحمت ﷺ نےعلی علیہ السلام کو بعض روایات میں اپنی جان اورنفس قرار دیا ہے جیسے کہ اس حدیث میں پڑھتے ہیں:

 (( علی منی کنفسی  طاعته، طاعتی و معصیته معصیتی))  ترجمہ: علی ؑمیرےنفس کی مانند ہیں ان کی اطاعت میری اطاعت اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی ہے۔

اسی طرح دوسری حدیث میں رسول رحمت ﷺ مولا علی ؑ کو اپنی  روح قرار دیتے ہیں:

(علی بن ابی طالب منی کروحی فی جسدی)  ترجمہ: علی ابن ابی طالبؑ میرے بدن میں۔ میرے روح کی مانند ہے۔ اسی طرح سرور کونینﷺ علی ؑ کو اپنے بدن کےسر کی مانند قرار دیتے ہیں۔

((علی منی بمنزلة  راس من جسدی))  (علیؑ کا مجھ سے واسطہ میرے سر کا جسم سے واسطے کی مانند ہے)۔ دو آخری حدیثوں کی روشنی میں یہ نتیجہ لینا بے جانہ ہو گا کہ جیسے روح اور سر کے بغیر جسم نا مکمل ہے اسی طرح سرور کائنات بھی علی ؑ کے بغیر اپنے آپ کو نا مکمل قرار دے رہے ہیں۔

 

علی ؑ رسول ﷺ کے امین اور راز دان:

 

رسول اکرم ﷺ کے مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے، اہل قریش آنحضرت ﷺکو امین کہتے تھے ۔ واقعاً جسے دشمن امین کہے وہ کرامت کے بلند مرتبے پر فائز ہے اسی طرح علی علیہ السلام کا مقام بھی اظہر من الشمس ہے کیونکہ رسول رحمت ﷺ دنیا والوں کے امین جبکہ علی ؑ ان کے  امین ہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث میں رسول رحمت ﷺ کی زبانی پڑھتےہیں:

(( قال فی علی قد علمته علمی واستودعه سری وهو امینی علی امتی))  ترجمہ:رسول خداﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: میں نے علیؑ کو اپنا علم دیا اور ان کے پاس اپنے راز امانت رکھے اور وہ امت پر میرے امین ہیں ۔

اسی سلسلے میں حضرت سلمان فارسیؓ سے یوں روایت نقل ہوئی ہے :

(روی عن سلمان الفارسی قال قال رسول الله لکل نبی صاحب سرّ و صاحب سری علی بن ابی طالب)  ترجمہ: سلمان فارسیؓ سے مروی ہے کہ سرور کائنات ﷺنے فرمایا : ہر نبی کا ایک راز دار ہوتا ہے اور میرا راز دار علی ابن ابی طالب ؑ ہیں۔ ان دو احادیث کی روشنی میں ہر صاحب خرد کے لیے واضح ہے کہ رسول  اکرم ﷺ کا  امین اور رازدار ہی رسول کے جانشین اور خلیفہ ہو سکتا ہے اورجب تک راز دار اور امین ہو تو کسی اور کی مسند رسول ﷺ سنبھالنے کے باری نہیں آتی ہے۔

 

رسول ﷺکے علم کے وارث:

 

رسول گرامی اسلام ﷺ نے مختلف احادیث میں حضرت علی ؑ کو اپنے علم کا وارث اور امت میں سب سے زیادہ علم رکھنےوالا قرار دیا ہے جیسا کہ رسول گرامی اسلام ﷺ فرماتے ہیں:

(( عن سلمان الفارسی قال قال رسول الله:اعلم امتی من بعدی علی ابن ابی طالب))  ترجمہ:سلمان فارسیؓ سے منقول ہے ۔ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: امت میں میرے بعد سب سے زیادہ علم رکھنے والا علی ابن ابی طالب ؑ ہے۔ انبیاء کرام خدا وند متعال کی جانب سے علم کے خزانے ہوتے ہیں اورختمی مرتبت کے پا س تو سارے انبیاء کا علم موجود تھا۔ اس حدیث کےمطابق، رسول ﷺ کے بعد سب سے زیادہ علم حضرت علی ؑ کے پا س تھا لہذا علیؑ ہی رسول ﷺکے واقعی جانشین بن سکتے ہیں ۔

 

حضرت علی ؑ رسول ﷺ کے علمدار:

 

حضرت علی علیہ السلام کے دیگر امتیازات میں سے رسول ﷺ کا علمدار ہونا ہےجیسا کہ رسول گرامی اسلام ﷺ فرماتےہیں:

((یا ابا برزة: علی امینی غداً علی حوض وصاحب لوائی))  ترجمہ:اے ابا برزۃ علیؑ روز محشر حوض(کوثر)پر میرے امین اور میرے پرچم کے مالک ہوں گے۔ اس لواء سے مراد الحمد بھی ہو سکتا ہے اور میدان جنگ کے علم بھی ہو سکتا ہے ؛ کیونکہ علی علیہ السلام متعدد جنگوں میں اسلامی لشکر کے علم بردار تھے۔

 

حضرت علیؑ کے دیگر فضائل رسول ﷺ کی زبانی:

 

حضرت علی علیہ السلام کے بے شمار فضائل میں سے رسولﷺ کی زبانی درج ذیل فضائل قابل ذکر ہیں :

 

حضرت علی ؑ کو دیکھنا عبادت:

 

رسول گرامی اسلام ﷺ کی مشہور روایت ہے:((النظر الی علی عبادة) علیؑ کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔

 

ذکر علیؑ عبادت:

 

رسول رحمت ﷺ علی ؑ کے ذکر کے متعلق فرماتے ہیں: ((ذکر علی عبادة)   ( علی ؑ کا ذکر کرنا عبادت ہے) ۔ جبکہ دوسری حدیث میں رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ اپنی مجالس کو ذکر علیؑ سےمزین کریں:       ((عن جابر عبد الله الانصاری قال: قال رسول الله : زیّنو مجالسکم بذکر علی ابن ابی طالب))  ترجمہ: جابر بن عبد اللہ انصاری سےمنقول ہے  رسول خداﷺ نے فرمایا اپنی مجالس کو ذکر علی ابن ابی طالبؑ سے مزین کرو۔

 

علیؑ خیر البشر:

 

رسول گرامی اسلامﷺ متعدد روایات میں علیؑ کو خیر البشر قرار دیتے ہیں جیسا کہ ابن عباس سے منقول ہے:( عن ابن عباس قال: قال رسول الله : علی خیر البشر من شک فیه کفر))                          ترجمہ: ابن عباسؓ سے روایت ہوئی ہے رسول خدا ﷺ نے فرمایا: علی ؑ خیر البشر ہیں جو اس میں شک کرے وہ کافر ہے۔

 

علیؑ ایمان اور نفاق کا معیار:

 

نبی مکرم اسلامﷺ حضرت علی علیہ السلام کے ایمان اور نفاق کے معیار ہونے  کے متعلق یوں فرماتے ہیں:(علی لا یحبه الا مؤمن ولا یبغضه الا منافق))                             

ترجمہ: حضرت علیؑ سے محبت نہیں کرتا مگر مومن اور علی ؑ سے دشمنی نہیں کرتا مگر منافق، یعنی مولا علیؑ ایمان اور نفاق کو پرکھنے  کےلئے معیار ہیں۔

 

علی ؑ قرآن کے ساتھ:

 

رسول رحمت ﷺ علیؑ کو قرآن کا ساتھی اور قرین قرار دیتے ہیں جیساکہ ام سلمہ بیان کرتی ہیں:

((عن ام سلمة قالت: لقد سمعت رسول الله یقول:علی مع القرآن و القرآن مع علی،لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض)) ترجمہ:ام سلمہ کہتی ہیں :میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا ، حضرتﷺ فرماتے ہیں :علی ؑ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علیؑ کے ساتھ ۔ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے۔

 

علیؑ حق کے ساتھ:

 

سر ور کائناتﷺ حضرت علیؑ کو حق قرار دیتے ہیں:

((قال الرسول الله : علی مع الحق و الحق مع علی ولن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامة)) ترجمہ:رسول خداﷺ نے فرمایا: علیؑ حق کے ساتھ ہے اور حق علیؑ کے ساتھ اور یہ دونوں اکھٹے رہیں گے یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملیں گے۔

 

علیؑ کعبے کی مانند:

 

رسول اکرمﷺ نے حضرت علی ؑ کو کعبے کی مانند قرار دیا ہے: (یا علی انت بمنزلة الکعبة)  ( اے علیؑ تو کعبہ کی مانند ہے) ۔

 

علی ؑ علم کے شہر کا دروازہ:

 

ختمی مرتبت ﷺ اپنے آپ کو شہر علم اور حضرت علی ؑ کو اس شہر کا دروازہ قرار دیتے ہیں، جیسا کہ ابن عباس ؓسے بیان ہوا ہے :

((عن ابن عباس قال: قال رسول الله:انا مدینة العلم و علیٌّ بابها فمن اراد المدینة فلیات الباب)) ترجمہ:ابن عباسؓ سے روایت ہوئی ہے رسول ﷺ نے فرمایا ہے: میںﷺ علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے جو شہر کا ارادہ کرے وہ دروازے سے آئے۔

 

علیؑ  انبیاء کی صفات کا مجموعہ:

 

ہر نبی کی ایک خاص صفت  ہوتی ہے جبکہ رسول ﷺ کی درج ذیل حدیث کے مطابق، علی ؑ سارے انبیاءؑ کی صفات کے مالک ہیں:

((قال رسول الله من اراد  ان ینظر الی آدم فی علمه و الی ابراهیم فی حلمه و الی نوح فی فهمه و الی یحیی بن زکریا فی زهده والی موسی بن عمران ( فی بطشه ولینظر الی علی بن ابی طالب)

ترجمہ: سرور انبیاءﷺ نے فرمایا: جو چاہے کہ آدمؑ کو اس کے علم میں اور ابراہیمؑ کو اس کے حلم میں (بردباری) نوحؑ کو اس کے فہم میں اور یحییؑ بن زکریا کو اس کے زہد میں اور موسی بن عمرانؑ کو اس کے غضب میں دیکھے تو وہ علی ابن ابی طالب ؑ کو دیکھے۔

 

حضرت علی ؑ اولیاء کے پیشوا:

 

سرور انبیاء ﷺ حضرت علیؑ کے سید الاوصیاء ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:

 ((عن انس بن مالک قال:قال رسول الله:ان الله عهد الیّ فی علی عهداً  فقال: علی رایة الهدی و منار الایمان وامام الاولیاء و نوری جمیع من اطاعنی))

 ترجمہ:انس بن مالک سے منقول ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: خداوند  متعال نے حضرت علی ؑ کے بارے میں مجھ سے وعدہ کیا ہے اور کہا ہے :علیؑ ہدایت کا پرچم ،  ایمان کی نشانی ،  اولیاء کا پیشوا  اور جو میری اطاعت کرتے ہیں سب کا نور ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت کے متعلق رسول اکرم ﷺ کی احادیث سے فریقین ( شیعہ و اہلسنت )کی کتابیں بھری ہو ئی ہیں۔  کچھ احادیث نمونے کے طور پر پیش کی گئیں ؛  تاکہ پڑھنے والے کی رہنمائی ہو کہ حضرت علی علیہ السلام کی فضائل میں رسول خدا ﷺ سے بیان شدہ  احادیث کن کن کتابوں میں دستیاب ہے خداوند  متعال ہمیں توفیق دے کہ حق کو سمجھ کر  اُس پر عمل پیرا ہوں۔(آمین)

 

والسلام علی من اتبع الهدی

............................

 

منابع :


1 ۔سورہ توبہ،آیہ 120۔

2۔الجوینی ،فرائد السمطین ،ج۱،ص۴۰۔

3۔النیشاپوری،حاکم،المستدرک علی الصحیحین ،ج۳،ص۱۴۰۔

4۔ ترمذی، صحیح ترمذی، ج۱۳،ص۱۷۰؛ابن اثیر ،جامع الاصول،ج۹،ص۴۷۱۔

5  ۔  ترمذی، صحیح ترمذی، ج۱۳،ص۱۷۰؛ابن اثیر ،جامع الاصول،ج۹،ص۴۷۱۔

6  ۔  مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار ج۳۷، ص۳۰۸۔

7۔ طبری،محب ذخائر العقبی،ص۹۲۔

8۔ عیون اخبار الرضا،ج۱،ص۳۰۳۔

9  ۔حنفی،مناقب خوارزمی،ص۶۷۔ابن شہر آشوب،مناقب ، ج۱،ص۲۳۶۔

10۔ بغدادی، خطیب،تاریخ بغداد، ج۱۲،ص۲۶۸۔

11۔ صدوق ،الخصال،ص۴۹۶،امالی صدوق ص۱۴۹۔

11۔ بدخشی،مفتاح النجاشی،ص۴۳۔

13۔ کنز العمال ج۱۱،ص۶۳۸،نمبر۳۳۰۶۲۔

14۔بحار الانوار ج۳۶،ص۱۴۵۔

15۔دیلمی،فردوس الاخبار،ج۲،ص۴۰۳۔

16  ۔  شافعی،جوینی، فرائد السمطین،ج۱،ص۹۷؛کنز العمال ج۱۱،ص۶۱۴،نمبر ۳۲۹۷۸۔

17۔ عسقلانی ۔ابن حجر،لسان المیزان،ج۶،ص۲۳۷۔

18۔موحد،محمد ابراہیم،الامام علی فی الاحادیث النبویہ،ص۱۳۴۔

19۔  الصواعق المحرقہ،ج۲،ص۳۶۰۔

20۔ کنز العمال،ج۱۱،ص۶۰۱،نمبر،۳۲۸۹۴۔

21۔بحار الانوار ،ج۳۸،ص۱۹۹۔

22۔کنز العمال،ج۶،ص۱۵۹۔

23۔ الطبرانی،معجم الکبیر، ج۲۳،نمبر ۸۸۵۔

24۔حاکم نیشاپوری،مستدرک ،حاکم ،ج۳،ص۱۲۴۔

25۔بغدادی،خطیب،تاریخ بغداد،ج۱۴،ص۳۲۱۔

26۔اسد الغابۃ۔ج۴،ص۳۱۔

27۔حاکم نیشاپوری،مستدرک الصحیحین،ج۳،ص۱۲۶۔

28۔ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ،ج۷،ص۳۵۶۔

29۔عسقلانی،ابن حجر، لسان المیزان،ج۶،ص۲۳۷۔

مؤلف: تحریر : محمد عارف حیدر 

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قطر کے وزير خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثآنی تہران کے دورے پر ہیں ، جہاں اس نے ایران کے نئے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ملاقات  اورگفتگو کی ۔ اس ملاقات میں آیت اللہ رئیسی نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں قراردیا۔

ایران کے نئے صدر نے قطر کو ایران کا برادر اور دوست ملک قراردیتے ہوئے کہا کہ قطر ایران کا ہمسایہ ملک ہے اور ایران ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو مضبوط بنانے کی پالیسی پرگامزن ہے ۔ آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ ایران نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے لئے بہترین اور قابل اعتماد ہے۔

آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ ایران ہمسایہ ممالک کی سلامتی،  ترقی و پیشرفت کا خواہاں ہے۔ قطر کے وزیر خآرجہ نے بھی اس ملاقات میں آیت اللہ رئیسی کو ایران کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی۔ قطر کے بادشاہ کا سلام بھی پیش کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط اور مستحکم بنانے پر زوردیا۔

ایام غدیر
ہر ایک انسان کا ہر دور میں کوئی شخص رول ماڈل ہوتا ہے، ہر دور میں ہر انسان کا ہر دن سے گہرا تعلق ہوتا ہے، انسان زندگی کے ہر پہلو میں اپنے پسندیدہ شخص کو دیکھ کر زندگی گزارنے کی پوری کوشش کرتا ہے، تاکہ اپنی پسندیدہ شخصیت کے معیار کے مطابق زندگی بسر کرسکے۔ اسی طرح انسان کا ہر دن بھی اس کی زندگی میں خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جو دن جس مناسبت سے مخصوص کیا جائے، اس دن کے آنے پر انسان خاص انداز میں وہ دن مناتا ہے، تاکہ اس دن کی اہمیت لوگوں کے سامنے واضح ہو جائے۔ آجکل کے معاشرے میں کچھ ایام ملکی طور پر منائے جاتے ہیں، جیسا کہ ماں کا دن، استاد کا دن، مزدور کا دن وغیرہ۔ ہم جن ایام اور شخصیات کی بات کرنے لگے ہیں، وہ کوئی عام ایام اور کوئی عام انسان نہیں ہیں، جن دنوں کی بات ہم کرنے جا رہے ہیں، ان دنوں کو عالم اسلام میں منانے کا حکم خداوند متعال نے خود دیا ہے۔١ جن ہستیوں کے بارے میں گفتگو کریں گے، ان کے بارے میں قرآن پاک میں بہت واضح کئی بار ذکر کیا گیا ہے، ان عظیم ہستیوں کو انسان اگر زندگی کے ہر پہلو میں دیکھے تو اس کے لیے باعث فخر ہوگا، ان ہستیوں کی گفتار میں ہمیشہ سچائی ملے گی۔

دس ذوالحجہ (١)
عید قربان
مسلمانوں کی بڑی عید ہے، اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حکم پر اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کے لیے آمادہ کیا اور ان کے گلے پر چھری چلائی، تاکہ خداوند عالم کے حکم کی تعمیل ہوسکے، لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ دنبہ آسمان سے نازل ہوا اور ان کی جگہ ذبح ہوا۔ وحی نازل ہوئی، اے ابراہیم علیہ السلام، آپ امتحان میں کامیاب ہوگئے۔ اسی وجہ سے سے مسلمان اللہ کے نبی کی سنت کی یاد تازہ کرتے ہوئے قربانی کرتے ہیں۔1

دس ذوالحجہ (٢)
حضرت ابو طالب علیہ السلام کی عظیم دعوت
تاریخ میں دس ذوالحجہ کے روز ایک اور واقعہ رونما ہوا، بہت کم لوگ اس واقعے سے آشنا ہیں۔ اس دن بہت بڑی قربانی کا اہتمام کیا گیا، اس عظیم انسان کی خاطر جس کا مقام پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد خدا کے نزدیک بلند ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام 13 رجب المرجب کو خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو کچھ سالوں کے بعد حضرت ابو طالب علیہ السلام نے اپنے فرزند کے عقیقے کا اہتمام کیا، جس کے بارے میں اگر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو ملتا ہے کہ اس سے بڑھ کر نہ کسی کا عقیقہ کیا، نہ ہی قربانی کی گئی۔ حضرت ابو طالب علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کے عقیقے کے لیے جو جانور ذبح کئے تھے، ان کی تعداد کچھ یوں ہے، 300 اونٹ 1000 گائے اور بکرے، تاکہ خداوند عالم کی بارگاہ میں اس بابرکت فرزند جو وصی رسول علیہ السلام ہے، حقیقی ولایت اور امامت کے حقدار ہیں، خدا کا شکرانہ ادا کیا جا سکے۔ اس سارے اہتمام کی یہ شرط تھی کہ طواف کعبہ کرنے والے حجاج کو دعوت دی جائے، جو کہ خدا کے خاص مہمان تھے، اس لحاظ سے یہ دعوت بہت عظیم تھی۔2

دس ذوالحجہ (٣)
مشرکین سے برائت کا اعلان
فتح مکہ کے ایک سال بعد 9 ھجری سورہ برائت کی آیات نازل ہوئیں (مشرکین سے بیزاری)۔ مشرکین کو دو کاموں کا حکم دیا گیا۔ اسلام لے آئیں یا مکہ سے اور حج بیت اللہ کے مراسم سے خارج ہو جائیں۔ یہ پیغام توحیدی تھا اور مکہ مکرمہ میں کفار اور مشرکین کے درمیان جا کر بیان کرنا تھا۔ لوگوں نے رائے دی کہ حضرت ابو بکر کو بھیجا جائے، تاکہ مکہ والوں کے سامنے ان آیات کو بیان کیا جائے، چونکہ جنگوں میں کوئی بھی مشرک ابوبکر کے ہاتھوں زخمی نہیں ہوا تھا، اسی لیے مشرکین مکہ ان سے کینہ نہیں رکھتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر کو بلایا اور سورہ برائت کی آیات ان کے سپرد کیں اور حکم دیا کہ ان آیات کو حج بیت اللہ ادا کرنے والوں کے سامنے بیان کرو، لیکن زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ جبرائیل رسول اللہ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ اے محمد! اس کام کو خود انجام دیں یا کسی ایسے شخص کے ذمے لگائیں، جو آپ جیسا انجام دے سکے۔3

یہ کام کسی دوسرے سے صحیح انجام نہیں دیا جائے گا، یعنی لوگوں کو جان لینا چاہیئے کہ حکومت اسلامی کی بنیاد اور مشرکین و کفار سے برائت کا اعلان ہر کسی کا کام نہیں۔ بلا فاصلہ رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام کو سورہ برائت کی آیات کا اعلان کرنے کے لیے مکہ کی طرف بھیج دیا۔ حضرت علی نے رسول اکرم کے حکم کے مطابق آیات کو ابوبکر سے لیا اور خود حج بیت اللہ کے مراسم میں شرکت کرنے کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ شجاعت اور دلیری کے ساتھ مشرکین کے درمیان کھڑے ہو کر کئی بار ان آیات کو بلند آواز کے ساتھ بیان کرتے رہے۔ ابوبکر راستے سے مدینہ روانہ ہوگئے اور یہ واقعہ دس ذوالحجہ کو پیش آیا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام 11، 12، اور 13 ذوالحجہ کو اسی طرح ان آیات کو معانی کے ساتھ بیان فرماتے رہے۔

حضرت علی علیہ السلام اس سارے واقعے کو اس طرح بیان فرماتے ہیں، جس وقت مکہ میں آیا، تاکہ سورہ برائت کی آیات کو مشرکین کے سامنے پڑھوں، کوئی بھی مکہ میں نہیں تھا۔4 و 5 وہ سب جو مجھے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے تھے، حتی کہ میرا جسم اگر کہیں تھوڑی سی خطا کرتا تو مجھے سزا دینے کے لئے آمادہ تھے، اس حد تک کہ جان و مال اور خاندان کو ختم کرنے کے لیے تیار تھے، تاکہ مجھے تکلیف دے سکیں۔ اس خطرناک حالت میں آیات قرآن کو ابلاغ کیا۔ میرے آیات سنانے کے بعد سب نے مجھے سخت جواب دیئے اور مردوں اور عورتوں نے میرے ساتھ دشمنی کا اظہار کیا، لیکن میں نے بہترین انداز میں ان سوالوں کے جواب دیئے۔6

دس ذوالحجہ (٤)
حدیث ثقلین کا اجمالی تعارف
پیامبر اکرم مختلف جگہوں اور اوقات میں بیان فرماتے رہے ہیں، حدیث ثقلین کو جگہ جگہ واضح فرمایا، ان میں سے آپ کا سفر حج اور روز عید قربان اور 11 ذوالحجہ وغیرہ اور غدیر خم 10 ھجری یعنی حجۃ الوداع ہے۔ کافی اصحاب نے اس کو نقل کیا ہے۔ اس حدیث مبارکہ کا راویان اور سند کے اعتبار سے کسی نے انکار نہیں کیا۔ سب مسلمان اس کو نقل کرتے ہیں۔ متن حدیث مبارکہ ..إِنِّی تَارِک فِیکمْ أَمْرَینِ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا- کتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ أَهْلَ بَیتِی عِتْرَتِی أَیهَا النَّاسُ اسْمَعُوا وَ قَدْ بَلَّغْتُ إِنَّکمْ سَتَرِدُونَ عَلَیَّ الْحَوْضَ فَأَسْأَلُکمْ عَمَّا فَعَلْتُمْ فِی الثَّقَلَینِ وَ الثَّقَلَانِ کتَابُ اللَّهِ جَلَّ ذِکرُهُ وَ أَهْلُ بَیتِی‏..
(٣بصائر الدرجات، ج ١، ص ٤١٣)
(٤ تقویم غدیر، ص ٢٢،٢٣)
(فضائل صحابہ، ص ٤٥)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1۔ (خصال، ج ١، ص ٤٣٣)
2۔ (امالی طوسی، ص ٧٠٩)
3۔ (سنن ترمذی، ج ٢، ص ١٨٣)
4۔ (خصال ٢، ص ١٢٨)
5۔ تقویم غدیر ٢٠
6۔ (خصال ٢ ص ١٢٨)
7۔ (٣بصائر الدرجات ج ١ ص ٤١٣)
 (فضائل صحابہ ص ٤٥)

تحریر: ظہیر عباس
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مقدمہ:
اسلام کی تمام تعلیمات اور احکام خواہ وہ عبادی ہوں یا اجتماعی، سب کے گونا گوں آثار اور فلسفے بیان کئے گئے ہیں۔ اسلام شناس افراد ہر دور میں ان تعلیمات کی آفاقیت اور ان کے ہماری زندگی پر اثرات سے بحث کرتے آئے ہیں۔ مثلاً اسلام کے عملی احکام نماز، روزہ، زکواۃ، خمس ، حج اور دیگر اعمال اگر ایک طرف ان میں عبادی پہلو ہیں تو دوسری طرف ان میں امت مسلمہ کے لئے اتحاد و اتفاق کا بصیرت افروز درس پنہاں ہے۔ ان ہی مہم اور وسیع انسانی زندگی پر اثرات کے حامل اعمال میں سے ایک حج ہے، جو کہ بہت سی خصوصیات کا حامل ہے۔ نماز جماعت اور حج بیت اللہ اتحاد امت کا مثالی نمونہ ہیں، حج دنیا بھر سے حجاز مقدس میں آئے ہوئے مسلمانوں کی ہم رنگی اور ہم آہنگی کے ساتھ امت کی وحدت کا بہترین اظہار ہے۔ زیر نظر مضمون میں حج کے اسی پہلو سے متعلق ان زاویوں سے گفتگو کی گئی ہے۔
1۔ اتحاد کی اہمیت اسلام کی نگاہ میں
2۔ حج کا اجتماعی پہلو قرآن سنت کی روشنی میں
3۔ حج کے اعمال میں وحدت کے آثار

1۔ اتحاد کی اہمیت اسلام کی نگاہ میں:
اسلام کی تعلیمات میں سے ایک اجتماعی حکم اتحاد ہے، اسلام مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی طرف بساط سے زیادہ توجہ رکھتا ہے اور اسلامی وحدت، اسلام کے منجملہ عظیم اہداف میں سے ایک ہدف شمار ہوتی ہے۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے: ’’واعتصمو ابحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا۔‘‘ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔(۱) اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: ’’ولاتکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ماجآء ہم البینات۔‘‘ اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا، جو واضح دلائل آنے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے۔(۲) یہ دونوں آیات مسلمانوں کی آپس میں اخوت اور اتحاد و ہم بستگی پر محکم دلیل ہیں، جن میں ہر قسم کے تفرقے اور اختلاف سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین کی احادیث اور ان کی عملی سیرت بھی اس بات کی گواہ ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے آپس میں اتحاد کو بہت ہی اہمیت دی ہے۔ احادیث میں تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا اور امور مسلمین سے غفلت برتنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج شمار کیا گیا ہے۔

یہاں اس موضوع کی مناسبت سے پیغمبرؐ کی ایک حدیث نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، آپ ؐنے فرمایا: ’’ایہا الناس ان ربکم واحد واباکم واحد کلکم لآدم وآدم من تراب ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ولیس لعربی علی عجمی فضل الا بالتقوی۔‘‘ اے لوگو! تمہارا پروردگار ایک، تمہارا باپ ایک ہے، تم سب فرزند آدم ہو اور آدم خاک سے ہیں، بے شک تم میں سے محترم وہی ہے، جو زیادہ پرہیزگار ہے، عرب کو عجم پر فضیلت حاصل نہیں مگر تقویٰ کے ذریعے۔(۳) یہ جملے وحدت و یگانگی اور ہم بستگی کی عام دعوت ہیں، جن کو پیغمبر ؐنے آخری حج کے موقع پر ارشاد فرمایا۔ کیوں اس مقام کو اس اعلان کے لئے منتخب کیا، اس لئے کہ عرصہ قیامت تک جو اعمال حج برپا ہیں، لوگ آئیں اور اپنے عظیم پیغمبر ؐ کی وصیت کو یاد کریں اور اس سے آگاہ ہوں اور اختلاف و تفرقہ میں نہ پڑیں۔ یہاں دوستی و برادری کے عنوان سے ایک دوسرے سے صمیمیت کے ساتھ ہاتھ ملائیں، اختلاف و موانع کو ختم کریں۔ مادی و معنوی عہد و پیمان اور مبادلات کے ذریعے آپس میں تحریری فرمان (agrement) برقرار کریں۔

2۔ حج کا اجتماعی پہلو قرآن سنت کی روشنی میں:
حج کے ارکان و مناسک اور اس سلسلے میں حاجی کے اوپر عائد ذمہ داریوں پر نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حج صرف اللہ سے انسان کا معنوی رابطہ ہی نہیں بلکہ اس میں امت مسلمہ کے مسائل، ان کا حل اور کفر و استکبار کے خلاف اظہار نفرت اور آپس میں تعاون و ہمکاری کی طرف بہت توجہ دی گئی ہے۔ سرزمین وحی کا یہ سالانہ اجتماع ایک بیش قیمت موقع ہے، اس میں اسلامی دینا کو درپیش مشکلات و مسائل کو بیان کیا جاسکتا ہے۔ باطل کے مقابلے میں حق کی تقویت کی راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ اسلامی فرقوں کے پیروکار و خصوصاً علماء باہمی تبادلہ خیال کے ذریعے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے اور امت واحدہ کی تشکیل کی طرف قدم بڑھائے جاسکتے ہیں۔

حج کا سب سے اہم فائدہ اتحاد امت:
’واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق۔لیشہدوا منافع لہم  ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی مارزقہم من بہیمۃ الانعام فکلوا منہاواطعموالبائس الفقیر۔‘‘ اور لوگوں میں حج کے لئے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں، تاکہ وہ ان فوائد کا مشاہدہ کریں، جو انہیں حاصل ہیں اور خاص دنوں میں اللہ کا نام لو ان جانوروں پر جو اللہ نے انہیں عنایت کیے ہیں، پس ان سے تم لوگ خود بھی کھاؤ اور مفلوک الحال ضرورت مندوں کو بھی کھلاؤ۔(۴) اس آیت میں ’’لیشہدوا‘‘ اس مقصد کی علت ہے۔ یہ آیہ بطور صراحت اعلان کر رہی ہے کہ حج دنیوی اور اخروی منافع پر مشتمل ہے اور مسلمانوں کو چاہیئے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں، اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ مختلف ممالک سے آئیں اور ایک دوسرے سے آشنا ہوں اور ایک دوسرے کے مسائل، مشکلات اور کمزوریوں سے آگاہ ہوں اور ان کو دور کرنے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ یعنی ہر فائدہ شامل ہے، لیکن ان میں سے سب سے بنیادی فائدہ مسلمانوں کی قدرت و شان و شوکت کا عملی اظہار ہے، جس سے ان میں ایک ہی امت کا تصور ابھرتا ہے اور ایک ہی مرکز سے اپنے اخوت و بھائی چارگی اور آپس میں ہمدردی کا احساس اپنے اندر پیدا کرتے ہیں اور ہر قسم کے اختلافات کا عملاً انکار ہوتا ہے۔

مسلمانوں کا آپس میں تعاون:
’’وتعاونوا علی البر والتقوی ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان۔‘‘ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو۔(۵) یہ آیت بھی احکام حج کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہر قسم کے نیک کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ہر قسم کی برائی سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حج ایک اہم موقع ہے، جہاں مسلمان پوری دنیا کو امن و محبت کا گہوا رہ بنانے کے لئے ایک عالمی منشور مرتب کریں اور اس منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہر سال حکمت عملی حج کے مبارک ایام میں ہی بنائیں اور تمام مسلمانوں کو اپنی زبان میں وہ منشور پیش کریں اور مسلمان علماء و دانشوروں کو اس سلسلے میں ایک بھاری ذمہ داری سونپ دیں، تاکہ ہر ایک علاقے، شہر اور ملک میں اس کو اجراء کرنے اور اس کو ہر فرد تک پہنچانے کی کوشش کریں، جس طرح پیغمبر نے حجۃ الوداع میں ایک عالمی منشور مسلمانوں کو پیش کیا اور حاظرین کی ذمہ داری لگائی کہ وہ یہ پیغام غائبین تک پہنچائیں۔

استکبار جہاں کیخلاف اتحاد کا عملی اظہار:
’’وآذان من اللہ ورسولہ الی الناس یوم الحج الاکبران اللہ بریء من المشرکین ورسولہ فان تبتم فہو خیر لکم۔‘‘ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لئے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول بھی مشرکین سے بیزار ہیں اور پس اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔(۶) اسلام دشمن عناصر اور مشرکین سے اظہار نفرت کا بہترین موقع حج ہے، کیونکہ اس میں دنیا کے تمام مسلمان جمع ہو کر ایک باعظمت اجتماع برپا کرتے ہیں اور ایسا اجتماع دوسرے کسی فریضے میں ممکن نہیں اور یہ اجتماع مسلمانوں کا مشترکہ اور متحد طور پر خدا و رسول کے دشمنوں سے اظہار نفرت اور برائت کے لئے بہت اہم فرصت ہے۔ جس میں اجتماعی طور پر اسلام دشمن اور استکبار جہاں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی مرتب کرسکتے ہیں۔

سیرت پیغمبر ؐ اور ائمہؑ:
حجۃ الوداع جو پیغمبرؐ کا پہلا اور آخری حج تھا، جسے آپ نے فتح مکہ کے بعد اپنے اصحاب کے ہمراہ بجا لایا، اس حج کی خصوصیت اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ پیغمبرؐ نے اعمال حج کی شکل میں اسلام کی طاقت، مسلمانوں کی عظمت و قیادت کی اہمیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور تجلی روح توحید کو، اتحاد و ہمبستگی، استحکام و استواری، یکجہتی و ہمدلی، اخلاص و طہارت نفس اور تمام کام صرف خدا کے لئے انجام دئیے جانے میں بتایا، پیغمبر اسلامؐ نے اس حج میں تمام مسلمانوں کو یہ سبق دیا کہ کس طرح بکھرے ہوئے افراد سے ایک متحدہ طاقت وجود میں لائی جاسکتی ہے، صحیح و سالم قیادت کے سائے میں اہداف و مقاصد کو متحد کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے اس حج میں مکہ و منیٰ اور عرفات کی میدانوں میں خطبات دیئے، اس میں سب سے بنیادی نکتہ مسلمانوں کے آپس کی اخوت و بھائی چارگی اور ایک دوسرے پر عائد ہونے والے حقوق اور فرائض کو ذکر کیا ہے۔

حج اور قیادت امت:
حج کے دوران مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے پیغمبر ؐ کی قیادت کا مشاہدہ کیا اور اعمال حج کی بجاآوری میں اور اس کے اہداف تک پہنچنے میں آپ کی قیادت کے کردار کو اچھی طرح درک کیا اور آپؐ نے اس عظیم اجتماع کے اختتام پر اپنے بعد ایک الہیٰ قیادت کا اعلان کیا اور اس کی اہمیت اس قدر ہے کہ امت کو متحد رکھنے اور ایک منزل اور ایک ہی ہدف کے حصول کے لئے ایک صالح قیادت ضروری ہے، کیونکہ قائد کے بغیر نہ حرم کی حرمت باقی رہے گی، نہ عرفات کی معرفت حاصل ہوگی، نہ مشعر میں شعور ہوگا، نہ منیٰ میں ایثار و فداکاری نظر آئے گی، نہ زمزم میں زندگی کی علامت ہوگی، نہ صفا میں صدق و صفا ہوگا اور پیغمبرؐ کا یہ عمل مسلمانوں کے لئے پیغام دیتا ہے کہ امت اپنے اس عظیم اجتماع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک صالح قیادت کا انتخاب کرے۔

حضرت علی ؑ حج سے متعلق اپنے کلمات میں بعض اسلامی قوانین کے فلسفہ کے بیان کے ضمن میں فرماتے ہیں: ’’والحج تقویۃ للدین۔‘‘ یعنی فلسفہ حج تقویت دین ہے۔(۷) حج کا مقصد یہ ہے کہ حلقہ بگوشانِ اسلام اطراف و اکناف عالم سے سمٹ کر ایک مرکز پر جمع ہوں، تاکہ اس عالمی اجتماع سے اسلام کی عظمت کا مظاہرہ ہو اور اللہ کی پرستش و عبادت کا ولولہ تازہ اور آپس میں روابط کے قائم کرنے کا موقع حاصل ہو۔ حج کے اجتماع سے مسلمانوں کے روابط مستحکم ہوتے ہیں، مزید مسلمانوں کا ایمان قوی ہوتا ہے، اس وسیلہ سے اسلام زیادہ قدرت مند ہوتا ہے۔ ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے: ’’لایزال الدین قائما ماقامت الکعبہ۔‘‘ جب تک کعبہ قائم و دائم ہے، اسلام بھی قائم و دائم ہے۔ یعنی جب تک حج زندہ و پائندہ ہے، اسلام بھی زندہ و باقی ہے۔ کعبہ اسلام کا مقدس پرچم ہے، مسلمانوں کی وحدت اور استقلال کا رمز و راز ہے۔

یہیں سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگ بغیر سمجھے بوجھے مکہ جائیں اور صرف ایک قسم کی خود بخود بغیر سمجھے بوجھے عبادتیں اور اعمال بجا لائیں، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ کعبہ کے پرچم تلے یعنی وہی گھر جو پہلی مرتبہ لوگوں کے درمیان خدائے یگانہ کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا، ایک قوم و ملت کی صورت میں ہم عزم، ہم رزم اور ہم بزم ہونے کے لئے جمع ہوں۔ اسلام کا اصل اور بنیادی شعار ’’توحید‘‘ ہے، کعبہ مرکز توحید ہے۔(۸) اس کے علاوہ ائمہ ؑ نے حج کے ایام میں امت کی بیداری، احیاء اسلام اور ظالموں سے مقابلہ اور امت کے اتحاد کی دعوت دی ہے، ان میں وہ عظیم خطبہ جو امام حسین ؑ نے منیٰ کی میدان میں اصحاب و تابعین کے درمیان حج کے دوران ارشاد فرمایا۔

ہشام بن حکم امام صادق ؑکے اصحاب میں سے ہیں، کہتے ہیں: میں نے امام ؑ سے فلسفہ حج اور طواف کعبہ کے بارے میں سوال کیا تو امام ؑ نے فرمایا: ’’خداوند عالم نے ان تمام بندوں کو پیدا کیا۔۔ اور دین و دنیا کی مصلحت کے پیش نظر ان کے لئے احکام مقرر کئے، ان میں مشرق و مغرب سے (حج کے لئے) آنے والے لوگوں کے لئے واجب قرار دیا، تاکہ مسلمان ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان لیں اور اس کے حالات سے باخبر ہوں، ہر گروہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں تجارتی سامان منتقل کرے اور پیغمبر ؐ کی احادیث و آثار کی معرفت حاصل ہو اور حجاج ان کو ذہن نشین کر لیں، ان کو کبھی فراموش نہ کریں(دوسروں تک پہنچائیں)(۹) امام ؑ کی یہ حدیث بتاتی ہے کہ حج کے علمی، اقتصادی پہلو ہیں اور موسم حج مسلمانان جہاں کے درمیان ایک نقطہ اتصال ہے، جس کے ذریعے ایک دوسرے کے حالات، دنیا کے حالات، پیغمبر کے آثار سے آگہی جو علماء و مفکرین کے ذریعے شرق و غرب میں نشر ہوتے ہیں۔

3۔ اعمالِ حج میں وحدت کے آثار:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، ان میں سے ایک حج ہے۔ حج اسلام کی وہ عظیم عبادی و سیاسی عبادت ہے، جس میں پورا عالم اسلام دنیا کے کونے کونے سے سمٹ کر ایک نقطہ پر جمع ہوتا ہے۔ تمام مسلمان ایک ہی رنگ، ایک ہی لباس پہنتے ہیں، سب ایک ہی لباس میں تلبیہ کہتے ہیں، ایک ہی روش پر طواف اور سعی بجا لاتے ہیں، تقصیر کرتے ہیں، عرفات، مزدلفہ اور منیٰ کے مناسک بجا لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت قاہرہ کے ذریعے سب کو ایک کر دیا ہے۔ اب یہاں سے مسلمانوں کا فریضہ شروع ہوتا ہے، جنہیں اللہ نے ایک انداز میں ایک محور پر جمع کر دیا ہو، ان کے دل بھی ایک دوسرے سے مل جانے چاہئیں اور ایک دوسرے کے لئے دھڑکنا چاہئیں، انہیں احساس ہونا چاہیئے کہ عالم اسلام میں جہاں مسلمان مشکلات کا شکار ہوں، گویا انہیں کے بھائی ہیں، جس دن حج کی اس روح کو مسلمانوں نے درک کر لیا، اس دن نہ صرف یہ زندہ عبادت ہو جائے بلکہ اللہ کی قدرت کے سایہ میں ہم بڑی طاقت سے بڑی طاقت بن جائیں گے۔(۱۰)

مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ حج کے اس پہلو کے احیاء کے لئے جدوجہد کریں اور حج کو صرف ایک رسم سے نکال کر اس روح اور حقیقت کو زندہ کریں اور عملاً مسلمانوں کے عالمی اتحاد کیلئے حج کے پلیٹ فارم کو موثر بنائے اور ان اوقات کو غنیمت شمار کرتے ہوئے عالم اسلام کے علماء، مفکرین، دانشور حج کے اس اہم پہلو پر اپنی توجہ کو مبذول کریں، تاکہ حج مسلمانوں کی تمام مشکلات و مسائل حل کرنے اور عالم استعمار کے خلاف امت کے اتحاد کا حقیقی مرکز بن سکے اور ان ایام میں ہر قسم کے ظلم و ستم اور اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا تدارک کیا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصادر و مراجع:
٭۔ البلاغ القرآن، شیخ محسن علی نجفی
۱۔ آل عمران، آیت۔۱۰۳
۲۔ آل عمران۔ ۱۰۵
۳۔ حج، ص۳۳ از شہید مطہری، ناشر مسجد جمکران قم
۴۔ الحج، ۲۷۔۲۸
۵۔ المائدہ۔۲
۶۔ التوبہ۔۳
۷۔ نہج البلاغہ،کلمات قصار نمبر۔۲۵۲  از مفتی جعفر حسین
۸۔ حج، ص ۳۷ از شہید مطہری
۹۔ ۱۱۰سوال و جواب، ناصر مکارم شیرازی
۱۰۔ سہ ماہی شعور اتحاد شمار ۔۵۔ستمبر، اکتوبر، نومبر۔ ۲۰۰۸ء

تحریر: سکندر علی بہشتی

 



تحریر: ایس ایم شاہ


ایک سوال ہمیشہ سے میرے ذہن میں کھٹکتا رہتا تھا، جس سے میرا ذہن ہمیشہ اضطراب میں رہتا تھا، میری ہمیشہ سے کوشش یہ رہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح اس مشکل کو حل کیے بغیر نہیں رہوں گا، اس سوال نے مجھے مختلف لائبریریوں تک پہنچا دیا، مختلف دانشوروں سے سوال کرنے پر مجبور کیا، مختلف شہروں میں پھرایا، آخر کار جب مجھے قانع کنندہ جواب ملا تب مجھے اطمینان محسوس ہوا، شاید یہ سوال آپ کے ذہن میں بھی موجزن ہو، وہ سوال تھا کہ جن بزرگان دین کو ہم اپناپیشوا مانتے ہیں، ان کی ستائش اور تعریف و تمجید کو ہم اپنا وطیرہ بنا رکھتے ہیں، کیا وہ حقیقت میں ہی ان مقامات عالیہ پر فائز ہیں یا ہمارے والدین کی تربیت کے باعث ہمارے ذہنوں میں ان کا ایک ایسا مقام بن گیا ہے؟ میں نے مختلف اسلامی کتابوں کا مطالعہ کیا، ہر جگہ ان ہستیوں کی فضیلتوں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے تھے، پھر بھی میں مطمئن نہیں ہوا، شاید دینی پیشوا ہونے کی بناپر مسلم تاریخ دانوں اور سیرت نگاروں نے حقیقت کو دیکھے بغیر اپنی ذاتی عقیدت کی بنا پر ایسا کیا ہو، اس کے بعد میرے ذہن میں ایک تدبیر آئی کہ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ میں غیرمسلموں کے آثار اور کتابوں کا ذرامطالعہ کرکے دیکھتا ہوں کہ وہ ان ہستیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں، کیونکہ حقیقی فضیلت وہ ہوا کرتی ہے جس کی شہادت دشمن بھی دے، میں نے حضور اکرم (ص) کے حوالے سے دیکھا ، سبھی دوست و دشمن ان کے مداح پائے، حضرت زہرا ؑ کے حوالے سے میں نے تحقیق شروع کی۔ مسیحیوں اور دوسرے غیرمسلموں کی ان کی شان میں مستقل کتابوں اور مقالوں نے ان سے میری عقیدت میں پختگی کا سامان فراہم کیا، پھر میں تمام مسلمانوں کے پیشوا حضرت علیؑ کے حوالے سے دقت نظر سے تحقیق شروع کی، ان کے حوالے سےمختلف کتابوں کا میں نے مطالعہ کیا، غیرمسلم دانشوروں اور مستشرق افراد سے ان کے حوالے سے رائے لی، "ایک مسیحی پولس سلامہ (Poul Salama) کا کہنا ہے: ہاں میں ایک مسیحی ہوں، وسعت نظر ہوں، تنگ نظر نہیں ہوں، میں خود تو مسیحی ہوں لیکن ایک ایسی شخصیت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں تمام مسلمانوں کا کہنا ہے کہ خدا ان سے راضی ہے، پاکیزگی اس کے ساتھ ہے، شاید خدا بھی ان کا احترام کرے، مسیحی اپنے اجتماعات میں ان کو موضوع سخن قرار دیتے ہیں اور ان کے فرامین کو اپنے لیے نمونہ عمل سمجھتے ہیں، ان کی دینداری کی پیروی کرتے ہیں، آئینہ تاریخ نے پاک و پاکیزہ اور اپنے نفس کو سرکوب کرنے والی بعض نمایاں ہستیوں کی واضح تصویر کشی کی ہے، ان میں علیؑ کو سب سے برتری حاصل ہے۔یتیموں اور فقراء  کی حالت زار دیکھ کر غم سے نڈھال ہوکر آپ کی حالت ہی غیر ہوجاتی تھی۔ اے علیؑ آپ کی شخصیت کا مقام ستاروں کے مدار سے بھی بلند و برتر ہے۔ یہ نور کی خاصیت ہے کہ پاک و پاکیزہ باقی رہتا ہے اور اور گرد و نواح کے گرد و غبار اسے داغدار اور آلودہ نہیں کرسکتے۔وہ شخص جو شخصیت کے اعتبار سے آراستہ پیراستہ ہو وہ ہرگز فقیر نہیں ہوسکتا، آپ کی نجابت و شرافت دوسروں کے غم بانٹنے کے ذریعے پروان چڑھی تھی۔ دینداری اور ایمان کی حفاظت میں جام شہادت نوش کرنے والا مسکراہٹ اور رضامندی کے ساتھ درد و الم کو قبول کرتا ہے"۔ پھر میں نے  فرانس کے میڈم ڈیلفو Madame Dyalfv)کو آپ کی خصوصیات یوں بیان کرتے پایا" حضرت علیؑ کااحترام شیعوں کے نزدیک بہت زیادہ ہےاور یہ بجا بھی ہے۔ کیونکہ اس عظیم ہستی نے اسلام کی ترویج کے لیے بہت ساری جنگوں میں اپنی فداکاری کا مظاہرہ کیا،ساتھ ہی علم، فضائل، عدالت اور دوسرے صفات حمیدہ میں بھی آپ بے نظیرتھے، آپ نے اپنے صلب سے ایک پاکیزہ نسل چھوڑی، آپ کے بچوں نے بھی آپ کی سیرت کو اپنایا، اسلام کی سربلندی کے لیے  مظلومیت کے ساتھ وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے،حضرت علیؑ وہ باعظمت ہستی ہیں جس نے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا جسے عرب یکتا خدا کے شریک ٹھہراتے تھے۔اس طرح آپ توحید پرستی اور یکتا پرستی کی تبلیغ کرتے تھے، آپ ہی وہ ہستی ہیں جس کا ہر عمل اور کام مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ ہوا کرتا تھا، آپ ہی وہ ہستی ہیں جس کی خوشخبری اور دھمکی دونوں حتمی ہوا کرتی تھیں۔ اس  کے بعدمادام دیالافوائے مسیحی اپنے آپ سے یوں مخاطب ہوتا ہے: اے میری آنکھیں!آنسوبہالو اور میری آہ و بکاء میں اسے شامل کرلو اور اولاد پیغمبر کی جنہیں مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا عزاداری کرو!ان غیر مسلموں  کے کتابوں کا میں  جتنا مطالعہ کرتا گیا، ان کی غیر جانبدارنہ اظہار عقیدت نے حضرت علیؑ سے میری عقیدت میں مزید اضافہ کرتا گیا۔ میرے مطالعے کا شوق بھی بڑھتا گیا۔ پھر مجھے ایک مشہور برطانوی مستشرق جرنل سرپرسی سایکس(Journal Sir Percy Sykes)کے اظہار عقیدت اور حقیقت بیانی کو پڑھنے کا موقع ملا، "حضرت علیؑ دوسرے خلفاء کے درمیان شرافت نفس، بزرگواری اور اپنے ماتحت افراد کا خیال رکھنے کے اعتبار سے بہت مشہور تھے۔ بڑے لوگوں کی سفارشات اور خطوط آپ کی کارکردگی پر اثرانداز نہیں ہوتےتھے اور نا ہی ان کے تحفے تحائف پر آپ ترتیب اثر دیتے تھے۔ آپ کےحریف، غدار اور داغدار چہرہ معاویہ سے آپ کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ تو اپنے ہدف کو پانے کے لیے بڑے بڑے جرائم کے ارتکاب سے بھی  دریغ نہیں کرتا تھا۔ساتھ ہی اپنے مقصد کو پانے کے لیے پست ترین چیزوں کا بھی سہارا لیتا تھا۔ امانتوں  کے معاملے میں حضرت علیؑ کی بہت زیادہ باریک بینی اور آپ کی ایمانداری  کے باعث لالچی عرب  آپ سے نالاں تھے۔ جنھوں نے اتنی بڑی سلطنت کو غارت کررکھا تھا۔ سچائی، پاکیزہ عمل، کامل دوستی، حقیقی عبادت و ریاضت،  اخلاص ، وارستگی اور بہت سارے صفات حمیدہ سے آراستہ ہونے کے باعث آپ کو ایک خاص حیثیت حاصل تھی۔ ایرانی جو ان کی ولایت کے قائل ہوگئے ہیں اور ان کو خدا کی طرفسے حقیقی امام اور مربی مانتے ہیں حقیقت میں بھی ان کا یہ اعتقاد بہت ہی قابل تحسین اور اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ حضرت علیؑ کا مقام و رتبہ اس سے کہیں بلند و بالا ہیں" حقائق کے دریچے کھلتے گئے، میرا اشتیاق بڑھتا گیا۔ایک فرانسوی پروفیسر اسٹانسیلاس (Professor Astansylas) کاایک منفصفانہ فیصلہ میری نظروں سے گزرا، " معاویہ نے مختلف جہات سے اسلام کی مخالفت کی ہے۔ علی بن ابی طالب جو پیغمبر اسلام کے بعد سب سےباعظمت، سب سے دلیر، سب سے افضل اور عرب کے بہترین خطیب ہیں، معاویہ ان سے جنگ پر تلے آئے، اب  مسیحی میخائیل نعیمہ(Makahial Naima) نے جو علیؑ کی شجاعت کی تصویر کشی تھی وہ مزید میری دلچسپی کا سبب بنی، "حضرت علیؑ کی پہلوانی صرف میدان کارزار تک محدود نہ تھی بلکہ آپ روشن فکری، پاکیزہ وجدان، فصیح بیان، انسانیت کی گہرائی اور کمال پر فائز ہونےکے علاوہ  ایمان کی حرارت اور جذبہ ایمانی سے بھی سرشار تھے، آپ کے حوصلے بلنداور فکر وسیع تھی، آپ ظالم و جابر کے مقابلے میں ستمدیدہ اور مظلوموں کی مدد اور حمایت کرتے تھے۔ حق کے لیے آپ صاحب حق کے ساتھ فروتنی سے پیش آتے اور باطل کے خلاف آپ پہلوان ہوتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی شخص جتنا بھی ذہین اور برجستہ شخصیت کے حامل اور نکتہ سنج ہی کیوں نہ ہواس کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ1000 صفحات میں حضرت علیؑ کی کامل تصویر کشی کرسکے، نہ ہی  آپ کی زندگی میں جو حالات رونما ہوئے ہیں ان سب کو  مناسب انداز میں کوئ بیان کرسکتے ہیں۔ بنابریں علیؑ نے جن چیزوں کے بارے میں غور فکر کیا ہے وہ بھی بیان سے بالاتر ہے، اسی طرح عرب کے اس عظیم شخصیت نے اپنے اور اپنے خدا کے درمیان جو راز و نیاز کی باتیں کی ہیں اور جن چیزوں کو عملی جامہ پہنچایا ہے، یہ سب ایسے امور ہیں جسے نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے۔ جن چیزوں کو نوک قلم سے صفحہ قرطاس پر اتارا گیا یا زبان سے ظاہر ہواوہ سب ان امور کےشمارسے بہت ہی کم ہے"۔مجھے نہ تھکاوٹ محسوس ہورہی تھی اور نہ ہی بھوک پیاس کا احساس تھا، فضیلتوں کے باغوں کی سیر نے دنیاومافیھا سے میری توجہ کو ہٹادیا تھا، بعدازاں جب میری نظر"گیبریل ڈانگیرے" (Gabriel Dangyry) کی تحریر پر پڑی تو مجھے ایسا لطف اور ایسا کیف محسوس ہورہا تھا کہ جس کے بیان کے لیے میرے پاس ذخیرہ الفاظ نہیں،" حضرت علی ؑ میں دو ایسی ممتاز اور برجستہ خصوصیات پائی جاتی ہیں جو آج تک کسی بھی پہلوان میں جمع نہ ہوسکی۔ ایک تو یہ ہے کہ آپ ایک نامور پہلوان ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے امام و پیشوا بھی تھے۔ جہاں آپ میدان جنگ میں کبھی شکست سے دوچار نہ ہونے والے کمانڈر ہیں تو الہی علوم کے عالم اور صدر اسلام کے فصیح ترین خطیبوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے ۔ حضرت علیؑ کی دوسری منفرد خصوصیت یہ تھی کہ آپ کو اسلام کے تمام مکاتب فکر عزت و وقار کی نظر سے دیکھتے ہیں، ساتھ ہی آپ کی خواہش نہ ہوتے ہوئے بھی تمام اسلامی فرقے آپ کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں۔ جبکہ ہمارے نامور مذہبی پیشواؤں کو اگر ایک کلیسا والے مانتے ہیں تو دوسرے اس کے انکاری ہیں۔علیؑ ایک زبردست خطیب، بہترین قلمکار، بلندپایہ قاضی تھے اور مکاتب فکرکے موسسین میں آپ پہلے درجے پر فائز ہیں۔ جس مکتب کی بنیاد آپ پر پڑی، وہ واضح و روشن اور منطقی استحکام اور ترقی و جدت کے اعتبار سے ممتاز ہے۔ علیؑ شرافت و شجاعت میں بے مثل تھے۔ آپ کی بلاغت اس قدر اعلی درجے کی ہے کہ گویا سونے کے تاروں سے ان کو جوڑا گیا ہو"۔ میرے سامنےفضیلتوں کا ایسا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نمودار ہوا ،جن کی شمارش سے میں قاصر تھا ۔ میں نے جلدی جلدی بعض اہم شخصیات کے ایک ایک جملے کو اخذ کرنے کی کوشش کی۔" حضرت علی نے اپنی دانش سے ثابت کیا کہ وہ  ایک عظیم ذہن رکھتے ہیں اوربہادری ان کے قدم چھوتی ہے۔(سکاڈش نقاد اور مصنف تھامس کارلائل (1795-1881) "حضرت علیؑ کی فصاحت تمام زمانوں سانس لیتی  رہے گی، خطابت ہو یا تیغ زندی وہ یکتا تھے۔ برطانوی ماہر تاریخ ایڈوڈ گیبن(1737-1794)"حضرت علیؑ لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں پر فراخ دل تھے۔ "(امریکی پروفیسرفلپ کے حتی1886-1978)"سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی انھوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسول خدا کے نام کردیا تھا۔ سرویلیم مور (1905-1918)"حضرت علیؑ ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی میں مثال رہیں گے"۔ (برطانوی ماہر حرب جیرالڈ ڈی گورے 1897-1984)"حضرت علیؑ کا اسلام سے  مخلصانہ پن اور معاف کرنے کی فراخدلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی"۔معروف برطانوی ماہر تعلیم دلفرڈ میڈلنگ(1930-2013)"خوش نصیب ہے وہ قوم  جس میں علیؑ جیسا عادل اور مرد شجاع پیدا ہوا۔ نبی اکرم (ص) سے انہیں وہی نسبت ہے جو حضرت موسی سے حضرت ہاروں کو تھی"۔معروف مورخ چارلس ملز(1788-1826)"خانہ خدا میں حضرت علیؑ کی ولادت ایک ایسا خاصہ ہے جو کسی اور کا مقدر نہیں"۔ برطانوی ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720)"علیؑ ایسے صاحب فصاحت تھےعرب میں ان کی باتیں زبان زد عام ہیں،آپٖ ایسے غنی تھے مساکین کا ان کے گرد حلقہ رہتا تھا"۔ امریکی تاریخ دان واشنگٹن آئیورنگ(1783-1859)ٖ"میرے نزدیک علیؑ کو سمجھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے"۔بھارتی صحافی ڈی ایف کیرے(1911-1974)اس وقت میں دھنگ رہ گیا جب میں غیرمسلموں کے حضرت علیؑ سے اظہار عقیدت کو دیکھتے دیکھتے میری آنکھیں جواب دے گئیں، میرے ہاتھوں نے  کام کرنا چھوڑ دیا، میرے کانوں میں اب مزید فضائل برداشت کرنے کی طاقت نہ رہی۔ اب میں اس حقیقت تک جاپہنچا کہ اگر کائنات کی تمام درخت قلم، جن و انس لکھنے والے اور سارے سمندر سیاہی بھی بن جائےتب بھی حضرت علیؑ کی فٖضیلتوں کے سمندر کے کنارے بھی نہیں پہنچنا ممکن نہیں۔اب بھی اگر لوگ علی ؑ کو دوسرے غیر معصوموں سے فضیلت میں مقائسہ کرنے لگ جائیں تو سراسر ان کے ساتھ ناانصافی ہے، سمندر کو قطرے سے مشابہت دینے کی مانند ہے۔اب میرے سوال کا کماحقہ جواب مجھے مل گیا ہے۔ اب یہ میرے ایمان کا پختہ حصہ بن گیا ہے کہ کائنات میں حضور اکرمؐ کے بعد سب سے افضل ہستی امام علیؑ ہیں۔  
حوالہ جات:
1.    www.yjc.ir
2.    farsi.balaghah.net
3.    Dawn News pk

امام دہم حضرت امام علی بن محمد النقی الہادی علیہ السلام 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری، مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے (1)
آپ (ع) کا نام "علی" رکھا گیا اور کنیت ابوالحسن، (2)
اور آپ (ع) کے مشہور ترین القاب "النقی اور الہادی" ہیں۔ (3)
اور آپ (ع) کو ابوالحسن ثالث اور فقیہ العسکری بھی کہا جاتا ہے۔ (4) جبکہ امیرالمؤمنین (ع) اور امام رضا (ع) ابوالحسن الاول اور ابوالحسن الثانی کہلاتے ہیں۔
آپ (ع) کے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام "سیدہ سمانہ المغربیہ" ہے۔ (5) امام ہادی علیہ السلام عباسی بادشاہ معتز کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ (٭٭)
آپ (ع) کی عمر ابھی چھ سال پانچ مہینے تھی کہ ستمگر عباسی ملوکیت نے آپ کے والد کو ایام شباب میں ہی شہید کردیا اور آپ (ع) نے بھی اپنے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی طرح چھوٹی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا (6) اور آپ کی مدت امامت 33 سال ہے۔ (7)
امام علی النقی الہادی علیہ السلام اپنی عمر کے آخری دس برسوں ـ کے دوران مسلسل متوکل عباسی کے ہاتھوں سامرا میں نظر بند رہے۔ (8) گو کہ سبط بن جوزی نے تذکرةالخواص میں لکھا ہے کہ امام علیہ السلام 20 سال اور 9 مہینے سامرا کی فوجی چھاؤنی میں نظر بند رہے۔ آپ کی شہادت بھی عباسی ملوکیت کے ہاتھوں رجب المرجب سنہ 254 کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔ (9)
آپ (ع) شہادت کے بعد سامرا میں اپنے گھر میں ہی سپرد خاک کئے گئے۔ (10)
امام ہادی علیہ السلام اپنی حیات طیبہ کے دوران کئی عباسی بادشاہوں کے معاصر رہے۔ جن کے نام یہ ہیں: معتصم عباسی، واثق عباسی، متوکل عباسی، منتصر عباسی، مستعین عباسی اور معتز عباسی۔ (11)

 

معاشرے کے ہادی و راہنما

چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد معاشرے کی ہدایت و راہنمائی کی ذمہ داری ائمہ طاہرین علیہم السلام پر عائد کی گئی ہے چنانچہ ائمہ علیہم السلام نے اپنے اپنے عصری حالات کے پیش نظر یہ ذمہ داری بطور احسن نبھا دی اور اصل و خالص محمدی اسلام کی ترویج میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ائمہ علیہم السلام کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کے عقائد کو انحرافات اور ضلالتوں سے باز رکھیں اور حقیقی اسلام کو واضح کریں چنانچہ امام علی النقی الہادی علیہ السلام کو بھی اپنے زمانے میں مختلف قسم کے انحرافات کا سامنا کرنا پڑا اور انحرافات اور گمراہیوں کا مقابلہ کیا۔ آپ (ع) کے زمانے میں رائج انحرافات کی جڑیں گذشتہ ادوار میں پیوست تھیں جن کی بنیادیں ان لوگوں نے رکھی تھیں جو یا تو انسان کو مجبور محض سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ انسان اپنے افعال میں مختار نہیں ہے اور وہ عقل کو معطل کئے ہوئے تھے اور ذاتی حسن و قبح کے منکر تھے اور کہہ رہے تھے کہ کوئی چیز بھی بذات خود اچھی یا بری نہیں ہے اور ان کا عقیدہ تھا کہ خدا سے (معاذاللہ) اگر کوئی برا فعل بھی سرزد ہوجائے تو درست ہے اور اس فعل کو برا فعل نہیں کہا جاسکے گا۔ ان لوگوں کے ہاں جنگ جمل اور جنگ جمل کے دونوں فریق برحق تھے یا دوسری طرف سے وہ لوگ تھے جنہوں نے انسان کو مختار کل قرار دیا اور معاذاللہ خدا کے ہاتھ باندھ لئے۔ یا وہ لوگ جنہوں نے دین کو خرافات سے بھر دیا اور امام ہادی علیہ السلام کے دور میں یہ سارے مسائل موجود تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کو بھی ان مسائل کا سامنا تھا چنانچہ امام علیہ السلام نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کیا اور ہر موقع و مناسبت سے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کا اہتمام کیا۔

 

جبر و تفویض

علم عقائد میں افراط و تفریط کے دو سروں پر دو عقائد "جبر و تفویض" کے نام سے مشہور ہیں جو حقیقت میں باطل عقائد ہیں۔
شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا (جلد 1 صفحہ 114) میں اپنی سند سے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
برید بن عمیر شامی کہتے ہیں کہ میں "مرو" میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (ع) سے عرض کیا: آپ کے جد بزرگوار امام صادق علیہ السلام سے روایت ہوئی کہ آپ (ع) نے فرمایا: نہ جبر ہے اور نہ ہی تفویض ہے بلکہ امر دو ان دو کے درمیان ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص گمان کرے کہ "خدا نے ہمارے افعال انجام دیئے ہیں [یعنی ہم نے جو کیا ہے وہ درحقیقت ہم نے نہیں کیا بلکہ خدا نے کئے ہیں اور ہم مجبور ہیں] اور اب ان ہی اعمال کے نتیجے میں ہمیں عذاب کا مستحق گردانے گا"، وہ جبر کا عقیدہ رکھتا ہے۔ اور جس نے گمان کیا کہ خدا نے لوگوں کے امور اور رزق وغیرہ کا اختیار اپنے اولیاء اور حجتوں کے سپرد کیا ہے [جیسا کہ آج بھی بہت سوں کا عقیدہ ہے] وہ درحقیقت تفویض [خدا کے اختیارات کی سپردگی] کا قائل ہے؛ جو جبر کا معتقد ہوا وہ کافر ہے اور جو تفویض کا معتقد ہوا وہ مشرک ہے۔
راوی کہتا ہے میں نے پوچھا: اے فرزند رسول خدا (ص) ان دو کے درمیان کوئی تیسرا راستہ ہے؟
فرمایا: یابن رسول اللہ (ص(! "امرٌ بین الامرین" سے کیا مراد ہے؟
فرمایا: یہی کہ ایک راستہ موجود ہے جس پر چل کر انسان ان چیزوں پر عمل کرتا ہے جن کا اس کو حکم دیا گیا ہے اور ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے جن سے اس کو روکا گیا ہے۔ [یعنی انسان کو اللہ کے واجبات پر عمل کرنے اور اس کے محرمات کو ترک کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے یہی وہ تیسرا اور درمیانی راستہ ہے]۔
میں نے عرض کیا: یہ جو بندہ اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرتا ہے اور اس کی منہیات سے پرہیز کرتا ہے، اس میں خدا کی مشیت اور اس کے ارادے کا کوئی عمل دخل ہے؟
فرمایا: وہ جو طاعات اور عبادات ہیں ان کا ارادہ اللہ تعالی نے کیا ہے اور اس کی مشیت ان میں کچھ یوں ہے کہ خدا ہی ان کا حکم دیاتا ہے اور ان سے راضی اور خوشنود ہوتا ہے اور ان کی انجام دہی میں بندوں کی مدد کرتا ہے اور نافرمانیوں میں اللہ کا ارادہ اور اس کی مشیت کچھ یوں ہے کہ وہ ان اعمال سے نہی فرماتا ہے اور ان کی انجام دہی پر ناراض و ناخوشنود ہوجاتا ہے اور ان کی انجام دہی میں انسان کو تنہا چھوڑتا ہے اور اس کی مدد نہیں فرماتا۔

 

جبر و تفویض کا مسئلہ اور امام ہادی علیہ السلام

شہر اہواز [جو آج ایران کے جنوبی صوبے خوزستان کا دارالحکومت ہے] کے عوام نے امام ہادی علیہ السلام کے نام ایک خط میں اپنے لئے درپیش مسائل کے سلسلے میں سوالات پوچھے جن میں جبر اور تفویض اور دین پر لوگوں کے درمیان اختلافات کی خبر دی اور چارہ کار کی درخواست کی۔
امام ہادی علیہ السلام نے اہواز کے عوام کے خط کا تفصیلی جواب دیا جو ابن شعبہ حرانی نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔
امام (ع) نے اس خط کی ابتداء میں مقدمے کی حیثیت سے مختلف موضوعات بیان کئے ہیں اور خط کے ضمن میں ایک بنیادی مسئلہ بیان کیا ہے جو ثقلین (قرآن و اہل بیت (ع)) سے تمسک ہے جس کو امام علیہ السلام نے مفصل انداز سے بیان کیا ہے۔ اوراس کے بعد آیات الہی اور احادیث نبوی سے استناد کرکے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت اور عظمت و مقام رفیع کا اثبات کیا ہے۔ (12)
شاید یہاں یہ سوال اٹھے کہ "اس تمہید اور جبر و تفویض کی بحث کے درمیان کیا تعلق ہے؟"؛ چنانچہ امام علیہ السلام وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ہم نے یہ مقدمہ اور یہ امور تمہید میں ان مسائل کے ثبوت اور دلیل کے طور پر بیان کئے جو کہ جبر و تفویض کا مسئلہ اور ان دو کا درمیانی امر ہے۔ (13)
شاید امام ہادی علیہ السلام نے یہ تمہید رکھ کر جبر و تفویض کے مسئلے کو بنیادی طور حل کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر لوگ ثقلین کا دامن تھامیں اور اس سلسلے میں رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکامات پر عمل کریں تو مسلمانان عالم کسی بھی صورت میں گمراہ نہ ہونگے اور انتشار کا شکار نہ ہونگے اور کبھی منحرف نہ ہونگے۔
امام ہادی علیہ السلام اس تمہید کے بعد موضوع کی طرف آتے ہیں اور امام صادق علیہ السلام کے قول شریف "لا جَبْرَ وَلا تَفْویضَ ولكِنْ مَنْزِلَةٌ بَيْنَ الْمَنْزِلَتَيْن"؛ (14) کا حوالہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:
"اِنَّ الصّادِقَ سُئِلَ هلْ اَجْبَرَ اللّه الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی؟ فَقالَ الصّادِقُ علیه‏السلام هوَ اَعْدَلُ مِنْ ذلِكَ۔ فَقیلَ لَهُ: فَهلْ فَوَّضَ اِلَيْهمْ؟ فَقالَ علیہ‏السلام : هوَ اَعَزُّ وَاَقْهَرُ لَهمْ مِنْ ذلِكَ"؛ (15)
امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا خدا نے انسان کو نافرمانی اور معصیت پر مجبور کیا ہے؟
امام علیہ السلام نے جواب دیا: خداوند اس سے کہیں زیادہ عادل ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔ (16)
پوچھا گیا: کیا خداوند متعال نے انسان کو اس کے حال پہ چھوڑ رکھا ہے اور اختیار اسی کے سپرد کیا ہے؟
فرمایا: خداوند اس سے کہیں زیادہ قوی، عزیز اور مسلط ہے ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔
امام ہادی علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: مروی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"النّاسُ فِی القَدَرِ عَلی ثَلاثَةِ اَوْجُهٍ: رَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ الاَْمْرَ مُفَوَّضٌ اِلَيْهِ فَقَدْ وَهنَ اللّه‏َ فی سُلْطانِهِ فَهوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه جَلَّ و عَزَّ اَجْبَرَ الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی وَكَلَّفَهمْ ما لا يُطیقُون فَقَدْ ظَلَمَ اللّه‏َ فی حُكْمِهِ فَهوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه‏َ كَلَّفَ الْعِبادَ ما يُطیقُونَ وَلَمْ يُكَلِّفْهُمْ مالا يُطیقُونَ فَاِذا أَحْسَنَ حَمَدَ اللّه‏َ وَاِذا أساءَ اِسْتَغْفَرَ اللّه؛ فَهذا مُسْلِمٌ بالِغٌ"؛ (17)
لوگ "قَدَر" پر اعتقاد کے حوالے سے تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں:
٭ کچھ کا خیال ہے کہ تمام امور و معاملات انسان کو تفویض کئے گئے ہیں؛ ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے تسلط میں سست گردانا ہے، چنانچہ یہ گروہ ہلاکت اور نابودی سے دوچار ہوگیا ہے۔
٭ کچھ لوگ وہ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسانوں کو گناہوں اور نافرمانی پر مجبور کرتا ہے اور ان پر ایسے افعال اور امور واجب قرار دیتا ہے جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے! ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے احکام میں ظالم اور ستمگر قرار دیا ہے چنانچہ اس عقیدے کے پیروکار بھی ہلاک ہونے والوں میں سے ہیں۔ اور
٭ تیسرا گروہ وہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسان کی طاقت و اہلیت کی بنیاد پر انہیں حکم دیتا ہے اور ان کی طاقت کے دائرے سے باہر ان پر کوئی چیز واجب نہیں کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر نیک کام انجام دیں تو اللہ کا شکر انجام دیتے ہیں اور اگر برا عمل انجام دیں تو مغفرت طلب کرتے ہیں؛ یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی اسلام کو پاچکے ہیں۔
اس کے بعد امام ہادی علیہ السلام مزید وضاحت کے ساتھ جبر و تفویض کے مسئلے کو بیان کرتے ہیں اور ان کے بطلان کو ثابت کرتے ہیں۔
فرماتے ہیں:
"َاَمّا الْجَبْرُ الَّذی يَلْزَمُ مَنْ دانَ بِهِ الْخَطَأَ فَهُوَ قَوْلُ مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّه‏َ جَلَّ وَعَزَّ أجْبَرَ الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی وعاقَبَهُمْ عَلَيْها وَمَنْ قالَ بِهذَا الْقَوْلِ فَقَدْ ظَلَمَ اللّه فی حُكْمِهِ وَكَذَّبَهُ وَرَدَّ عَليْهِ قَوْلَهُ «وَلا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدا» (18) وَقَوْلَهُ «ذلكَ بِما قَدَّمَتْ يَداكَ وَاَنَّ اللّه لَيْسَ بِظَلاّمٍ لِلْعَبید"۔ (19) ۔۔۔؛ (20)
ترجمہ: جہاں تک جبر کا تعلق ہے ـ جس کا ارتکاب کرنے والا غلطی پر ہے ـ پس یہ اس شخص کا قول و عقیدہ ہے جو گمان کرتا ہے کہ خداوند متعال نے بندوں کو گناہ اور معصیت پر مجبور کیا ہے لیکن اسی حال میں ان کو ان ہی گناہوں اور معصیتوں کے بدلے سزا دے گا!، جس شخص کا عقیدہ یہ ہوگا اس نے اللہ تعالی کو اس کے حکم و حکومت میں ظلم کی نسبت دی ہے اور اس کو جھٹلایا ہے اور اس نے خدا کے کلام کو رد کردیا ہے جہاں ارشاد فرماتا ہے "تیرا پرورد‏گار کسی پر بھی ظلم نہیں کرتا"، نیز فرماتا ہے: "یہ ( عذاب آخرت ) اُسکی بناء پر ہے جو کچھ تُمہارے اپنے دو ہا تھوں نے آگے بھیجا ، اور بے شک اللہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے"۔
امام علیہ السلام تفویض کے بارے میں فرماتے ہیں:
"وَاَمَّا التَّفْویضُ الَّذی اَبْطَلَهُ الصّادِقُ علیه‏السلام وَاَخْطَأَ مَنْ دانَ بِهِ وَتَقَلَّدَه فَهوَ قَوْلُ الْقائِلِ: إنَّ اللّه جَلَّ ذِكْرُه فَوَّضَ إِلَی الْعِبادِ اخْتِیارَ أَمْرِه وَنَهْيِهِ وَأَهمَلَهمْ"؛ (21)
ترجمہ: اور جہاں تک تفویض کا تعلق ہے ـ کس کو امام صادق علیہ السلام نے باطل کردیا ہے اور اس کا معتقد غلطی پر ہے ـ خداوند متعال نے امر و نہی [اور امور و معاملات کے پورے انتظام] کو بندوں کے سپرد کیا ہے اور اس عقیدے کے حامل افراد کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔
فرماتے ہیں:
"فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ اللّه‏َ تَعالی فَوَّضَ اَمْرَه وَنَهيَهُ إلی عِبادِهِ فَقَدْ أَثْبَتَ عَلَيْهِ الْعَجْزَ وَأَوْجَبَ عَلَيْهِ قَبُولَ كُلِّ ما عَملُوا مِنْ خَيْرٍ وَشَرٍّ وَأَبْطَلَ أَمْرَ اللّه‏ِ وَنَهْيَهُ وَوَعْدَه وَوَعیدَه، لِعِلَّةِ مازَعَمَ اَنَّ اللّه‏َ فَوَّضَها اِلَيْهِ لاَِنَّ الْمُفَوَّضَ اِلَيْهِ يَعْمَلُ بِمَشیئَتِه، فَاِنْ شاءَ الْکفْرَ أَوِ الاْیمانَ کانَ غَيْرَ مَرْدُودٍ عَلَيْهِ وَلاَ مَحْظُورٍ۔۔۔"؛ (22)
ترجمہ: پس جس نے گمان کیا کہ خدا نے امر و نہی [اور معاشرے کے انتظامات] کا کام مکمل طور پر اپنے بندوں کے سپرد کیا ہے اور ان لوگوں نے گویا خدا کو عاجز اور بے بس قرار دیا ہے اور انھوں نے [اپنے تئیں اتنا اختیار دیا ہے] کہ اپنے ہر اچھے اور برے عمل کو قبولیت کو اللہ پر واجب قرار دیا ہے! اور اللہ کے امر و نہی اور وعدہ و وعید کو جھٹلاکر باطل قرار دیا ہے؛ کیونکہ اس کہ وہم یہ ہے کہ خداوند متعال نے یہ تمام امور ان ہی کے سپرد کئے گئے ہیں اور جس کو تمام امور سپرد کئے جاتے ہیں وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ پس خواہ وہ کفر کو اختیار کرے خواہ ایمان کا راستہ اپنائے، اس پر کوئی رد ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی رکاوٹ ہے۔
امام ہادی علیہ السلام یہ دونوں افراطی اور تفریطی نظریات کو باطل کرنے کے بعد قول حق اور صحیح نظریہ پیش کرتے ہیں جو "امرٌ بین الأمرین" سے عبارت ہے؛ فرماتے ہیں:
"لكِنْ نَقُولُ: إِنَّ اللّه‏َ جَلَّ وَعَزَّ خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِه وَمَلَّكَهُمْ اِسْتِطاعَةَ تَعَبُّدِهمْ بِها، فَاَمَرَهمْ وَنَهاهُمْ بِما اَرادَ، فَقَبِلَ مِنْهُمُ اتِّباعَ أَمْرِه وَرَضِىَ بِذلِكَ لَهمْ، وَنَهاهمْ عَنْ مَعْصِيَتِهِ وَذَمّ مَنْ عَصاه وَعاقَبَهُ عَلَيْها"؛ (23)
ترجمہ: لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ: خداوند عزّ و جلّ نے انسان کو اپنی قوت سے خلق فرمایا اور ان کو اپنی پرستش اور بندگی کی اہلیت عطا فرمائی اور جن امور کے بارے میں چاہا انہیں حکم دیا یا روک دیا۔ پس اس نے اپنے اوامر کی پیروی کو اپنے بندوں سے قبول فرمایا اور اس [بندوں کی طاعت و عبادت اور فرمانبرداری] پر راضی اور خوشنود ہوا اور ان کو اپنی نافرمانی سے روک لیا اور جو بھی اس کی نافرمانی کا مرتکب ہوا اس کی ملامت کی اور نافرمانی کے بموجب سزا دی۔

 

امام علی النقی الہادی علیہ السلام اور غلات (نصیریوں) کا مسئلہ

ہر دین و مذہب اور ہر فرقے اور قوم میں ایسے افراد پائے جاسکتے ہیں جو بعض دینی تعلیمات یا اصولوں میں مبالغہ آرائی سے کام لیں یا بعض دینی شخصیات کے سلسلے میں غلو کا شکار ہوتے ہیں اور حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ برادر مکاتب میں میں صحابیوں کی عمومی تنزیہ اور ان سب کو عادل سمجھنا اور بعض صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فوقیت دینا یا صحابہ کی شخصیت اور افعال کا دفاع کرنے کے لئے قرآن و سنت تک کی مرضی سے تأویل و تفسیر کرتے ہیں اور اگر صحاح سے رجوع کیا جائے تو ایسی حدیثوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو ان ہی مقاصد کے لئے وضع کی گئی ہیں۔
لیکن یہ بیماری دوسرے ادیان و مکاتب تک محدود نہیں ہے بلکہ پیروان اہل بیت (ع) یا شیعہ کہلانے والوں میں بہت سے افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے زمانے سے جاری رہا اور ہمیشہ ایک گروہ یا چند افراد ایسے ضرور تھے جو ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی نسبت غلو کا شکار تھے اور غالیانہ انحراف میں مبتلا تھے۔
غالیوں کے یہ گروہ حضرات معصومین علیہم السلام کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کرکے ان کے سلسلے میں غلو آمیز آراء قائم کرتے تھے اور بعض تو ائمہ معصومین علیہم السلام کو معاذاللہ الوہیت تک کا درجہ دیتے ہیں چنانچہ غلو کی بیماری امام ہادی علیہ السلام کے زمانے میں نئی نہیں تھی بلکہ غلو بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند ایک تاریخی پس منظر کا حامل تھا۔
غلو کے مرض سے دوچار لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد ہر دور میں نظر آرہے ہیں۔ حتی کہ امام سجاد علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہ لوگ حاضر تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے اعتقادی مسائل پیدا کررہے تھے۔
نہ غالی ہم سے ہیں اور نہ ہمارا غالیوں سے کوئی تعلق ہے
امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام غالیوں سے یوں برائت ظاہر کرتے ہیں:
"إنَّ قَوْما مِنْ شیعَتِنا سَيُحِبُّونا حَتّی يَقُولُوا فینا ما قالَتِ الْيَهودُ فی عُزَيْرٍ وَقالَتِ النَّصاری فی عیسَی ابْنِ مَرْيَمَ؛ فَلا همْ مِنّا وَلا نَحْنُ مِنْهمْ"۔ (24)
ترجمہ: ہمارے بعض دوست ہم سے اسی طرح محبت اور دوستی کا اظہار کریں گے جس طرح کہ یہودی عزیز (ع) کے بارے میں اور نصرانی عیسی (ع) کے بارے میں اظہار عقیدت کرتے ہیں نہ تو یہ لوگ (غالی) ہم سے ہیں اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے۔
امام سجاد علیہ السلام کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام اپنے عصری تقاضوں کے مطابق اس قسم کے انحرافات کا مقابلہ کرتے تھے اور اس قسم کے تفکرات کے سامنے مضبوط اور فیصلہ کن موقف اپناتے تھے اور ممکنہ حد تک انہیں تشیع کو بدنام نہیں کرنے دیتے تھے۔
امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
"أَحِبُّونا حُبَّ الاِْسْلامِ فَوَاللّه‏ِ ما زالَ بِنا ما تَقُولُونَ حَتّی بَغَّضْتُمُونا إلَی النّاسِ"۔ (25)
ترجمہ: ہم سے اسی طرح محبت کرو جس طرح کا اسلام نے تمہیں حکم دیا ہے؛ پس خدا کی قسم! جو کچھ تم [غالی اور نصیری] ہمارے بارے میں کہتے ہو اس کے ذریعے لوگوں کو ہماری دشمنی پر آمادہ کرتے ہو۔
یہاں اس بات کی یادآوری کرانا ضروری ہے کہ غلو آمیز تفکر مختلف صورتوں میں نمودار ہوسکتا ہے۔ مرحوم علامہ محمد باقر مجلسی بحارالانوار میں لکھتے ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں غلو کا معیار یہ ہے کہ کوئی شخص
٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام ائمہ (ع) کی الوہیت [اور ربوبیت] کا قائل ہوجائے؛
٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام ائمہ (ع) کو اللہ کا شریک قرار دے؛ کہ مثلاً ان کی عبادت کی جائے یا روزی رسانی میں انہیں اللہ کا شریک قرا دے یا کہا جائے کہ خداوند متعال ائمہ رسول اللہ (ص) یا ائمہ کی ذات میں حلول کر گیا ہے۔ یا وہ شخص
٭ اس بات کا قائل ہوجائے کہ رسول اللہ (ص) خدا کی وحی یا الہام کے بغیر ہی علم غیب کے حامل ہیں؛
٭ یا یہ کہ دعوی کیا جائے کہ ائمہ انبیاء ہی ہیں؟
٭ یا کہا جائے کہ بعض ائمہ کی روح بعض دوسرے ائمہ میں حلول کرچکی ہے۔
٭ یا کہا جائے کہ رسول اللہ (ص) اور ائمہ علیہم السلام کی معرفت و پہچان انسان کو ہر قسم کی عبادت اور بندگی سے بے نیاز کردیتی ہے اور اگر کوئی ان کی معرفت حاصل کرے تو ان پر کوئی عمل واجب نہ ہوگا اور نہ ہی محرمات اور گناہوں سے بچنے اور پرہیز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (26)
جیسا کہ آپ نے دیکھا ان امور میں سے کسی ایک کا قائل ہونا غلو کے زمرے میں آتا ہے اور جو ان امور کا قائل ہوجائے اس کو غالی بھی کہتے ہیں اور بعض لوگ انہیں نصیری بھی کہتے ہیں۔
علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ جو غلو کی ان قسموں میں کسی ایک کا قائل ہوگا وہ کافر اور ملحد ہے اور دین سے خارج ہوچکا ہے۔ جیسا کہ عقلی دلائل، آیات امو مذکورہ روایات وغیرہ بھی اس بات کا ثبوت ہیں۔ (27)
امام علی النقی الہادی علیہ السلام کے زمانے میں غالی سرگرم تھے اور اس زمانے میں ان کے سرغنے بڑے فعال تھے جو اس گمراہ اور گمراہ کن گروپ کی قیادت کررہے تھے چنانچہ امام علیہ السلام نے اس کے سامنے خاموشی روا نہ رکھی اور مضبوط اور واضح و فیصلہ کن انداز سے ان کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس منحرف غالی گروہ کے سرغنے: علی بن حسکہ قمی، قاسم یقطینی، حسن بن محمد بن بابای قمی، محمد بن نُصیر فہری اور فارِس بن حاکم تھے۔ (28)
احمد بن محمد بن عیسی اور ابراہیم بن شیبہ، امام ہادی علیہ السلام کے نام الگ الگ مراسلے روانہ کرتے ہیں اور اس زمانے میں غلات کے عقائد اور رویوں و تفکرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان کے بعض عقائد بیان کرتے ہیں اور اپنے زمانے کے دو بدنام غالیوں علی بن حسکہ اور قاسم یقطینی کی شکایت کرتے ہیں اور امام علیہ السلام واضح اور دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہیں کہ:
"لَيْسَ هذا دینُنا فَاعْتَزِلْهُ"؛ (29)
ترجمہ: یہ ہمارا دین نہیں ہے چنانچہ اس سے دوری اختیار کرو۔
اور ایک مقام پر امام سجاد، امام باقر اور امام صادق علیہم السلام کی مانند غالیوں پر لعنت بھیجی:
محمد بن عیسی کہتے ہیں کہ امام ہادی علیہ السلام نے ایک مراسلے کے ضمن میں میرے لئے لکھا:
"لَعَنَ اللّه الْقاسِمَ الْيَقْطینی وَلَعَنَ اللّه‏ عَلِىَّ بْنَ حَسْكَةِ الْقُمىّ، اِنَّ شَيْطانا تَرائی لِلْقاسِمِ فَيُوحی اِلَيْهِ زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُورا"؛ (30)
ترجمہ: اللہ تعالی قاسم یقطینی اور علی بن حسکمہ قمی پر لعنت کرے۔ ایک شیطان قاسم الیقطینی کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور باطل اقوال اقوال کو خوبصورت ظاہری صورت میں اس کو القاء کرتا ہے اور اس کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اس کو دھوکا دیتا ہے۔
نصر بن صبّاح کہتے ہیں: حسن بن محمد المعروف ابن بابائے قمی، محمد بن نصیر نمیری اور فارس بن حاتم قزوینی پر امام حسن عسکری علیہ السلام نے لعنت بھیجی۔ (31)
ہم تک پہنچنے والی روایات سے معلوم ہوتا ہے غلو اور دوسرے انحرافات کے خلاف کہ امام ہادی علیہ السلام کی جدوجہد اظہار برائت اور لعن و طعن سے کہیں بڑھ کر تھی اور آپ (ع) نے بعض غالیوں کے قتل کا حکم جاری فرمایا ہے۔
محمد بن عیسی کہتے ہیں:
"إنَّ اَبَا الحَسَنِ العَسْكَرِی علیهالسلام أمَر بِقَتلِ فارِسِ بْنِ حاتم القَزْوینىّ وَضَمِنَ لِمَنْ قَتَلَهُ الجَنَّةَ فَقَتَلَهُ جُنَيْدٌ"؛ (32)
ترجمہ: امام ہادی علیہ السلام نے فارس بن حاتم قزوینی کے قتل کا حکم دیا اور اس شخص کے لئے جنت کی ضمانت دی جو اس کے قتل کرے گا چنانچہ جنید نامی شخص نے اس کو ہلاک کردیا۔

 

تجسیم اور تشبیہ

بعض فرقے آج بھی خدا کے لئے جسم اور شبیہ کے قائل تھے اور بعض آج بھی ایسے ہی ہیں۔ بندہ اسی کے عشرے میں حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا تو کافی چیزیں بلاد الحرمین میں نظر آئیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ سنی مکاتب کے ہاں ان کی مثال ملتی اور نہ ہی شیعہ دنیا میں لیکن سب سے اہم بات ہمارے اس موضوع سے متعلق تھی۔
وہاں بادشاہی نظام ہے جس پر آل سعود مسلط ہے اور مذہبی ونگ وہابیت کو دیا گیا ہے اور یہ درحقیقت وہابیت اور آل سعود کے درمیان بہت پرانے معاہدے کا نتیجہ ہے اور اگر ایک طرف سے حکومت بعض خدمات حجاج کرام کو پیش کرتی ہے تو دوسری طرف سے وہابیت کے نمائندے حجاج کی بے حرمتیاں کرکے لوگوں کے دلوں کو نفرت سے بھر کر بلادالحرمین سے رخصت کردیتی۔ وہابیت اتنی سختگیریوں اور لوگوں کو متنفر کرنے کے باوجود ان کو وہابیت کی دعوت بھی دیتی ہے جو وہابیت کے عجائب میں سے ہے۔ کیونکہ دنیا کے تمام مذاہب حتی کہ غیر اسلام مکاتب میں تبلیغ کے لئے محبت کے پھول نچھاور کئے جاتے ہیں لیکن یہاں نفرت کے کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور پھر تبلیغ کی جرأت بھی کی جاتی ہے، جو باعث حیرت ہے۔
بہر حال ہم میدان عرفات میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں جنوب ایشیا کے بعض باشندے ـ جو بظاہر کسی وہابی مدرسے یا پھر کسی تبلیغی مرکز سے وابستہ تھے ـ کتابوں کے بڑے بڑے بستے لے کر عرفات میں پہنچے جہاں انسان احرام کی حالت میں شرعی لحاظ سے مختلف پابندیوں کا سامنا کررہا ہوتا ہے۔ انھوں نے ہر حاجی کو کئی کئی کتابیں دیں جن میں وہابی اسلام کی تعلیمات ہمیں سکھانے کی کوشش کی گئی تھی جبکہ ان ہی دنوں مکہ معظمہ میں ال سعود کے سپاہیوں نے فائرنگ کرکے چھ سو کے قریب نہتے حاجیوں کا قتل عام کیا ہوا تھا۔ بہرحال ان میں سے ایک کتاب میں نے کھولی تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہاں عرفات اور اے حاجیو! خوشخبری ہو تمہیں کہ آج کے دن خدا عرفات کے اوپرپہلے آسمان پر آکر بیٹھا ہوا ہے اور وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور تمہارے اعمال کی نگرانی کررہا ہے۔ میں نے کئی بار یہ جملہ پڑھا حتی کہ میری غلط فہمی دور ہوگئی اور معلوم ہوا کہ وہابی اسلام کے پیروکار تجسیم کی بظاہر مخالفت کرتے ہیں لیکن باطن میں وہ تجسیم کے قائل ہیں اور ان کا خدا دنیا کے آسمانوں میں اتر کر بیٹھتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ اگر وہ دنیا کے آسمان پن اترا کر آیا ہے تو دوسرے آسمانوں کا کیا بنے گا اور زمینوں کا کیا بنے گا کیونکہ اس وقت تو دوسری جگھوں میں خدا نہیں ہے نا۔ معاذاللہ
بہرحال تجسیم کا یہ عقیدہ ابتدائے اسلام سے تھا۔ یہ عقیدہ بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند موجود تھا حتی کسی وقت یہ عقیدہ شیعیان آل محمد (ص) میں بھی رسوخ کرگیا تھا۔ اہل تشیع میں یہ عقیدہ نمودار ہوا تھا کہ خداوند متعال جسمانیت کا حامل ہے یا یہ کہ خدا کو دیکھا جاسکتا ہے یا نہیں۔
ظاہر ہے کہ شیعہ عقائد مدینۃالعلم (رسول اللہ (ص)) اور باب مدینۃالعلم (امیرالمؤمنین) اور ان کے فرزندوں کے شفاف علی سرچشمے سے منسلک ہونے کے باعث ہمیشہ انحرافات سے دور رہتے تھے اور ہمیشہ اسلام اور پیروان اہل بیت (ع) کے لئے باعث فخر و اعتزاز تھے لیکن کبھی بعض عوامل کی بنا پر ـ جن کا جائزہ لینے کے لئے ای مستقل اور مفصل تحقیق کی ضرورت ہے ـ بعض عقائد نے پیروان آل محمد (ص) میں بھی رسوخ کیا ہے جو تشیع کے اوپر تہمت و بہتان کی بنیاد بن گئے ہیں حالانکہ ان کا تشیع سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ دوسرے مکاتب سے تشیع میں نہیں بلکہ تشیع کے بعض پیروکاروں میں درآمد ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام اور ائمہ (ع) کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے اکابرین نے ان انحرفات کے خلاف قیام کیا ہے اور تشیع کے مبارک چہرے سے ہر قسم کی دھول دھوتے چلے آئے ہیں۔
یہ سطحی اور درآمد شدہ انحرافات ہی اس بات کا سبب بنے ہیں کہ ہمارے علماۂء بیٹھ کر اس سلسلے میں عظیم علمی کااوشیں خلق کریں۔ مرحوم شیخ صدوق اپنی کتاب "التوحید" کو اس لئے لکھا شروع کیا کہ بعض مخالفین تشیع پر نہایت ناروا اور بہت شدید قسم کے الزمات لگا رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ شیعہ تشبیہ اور جبر کے قائل ہیں چنانچہ میں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تشیع جبر و تشبیہ کا قائل ہو! اور میں نے اللہ کا نام لیا اور قربت الہی کی نیت سے اس کتاب کو تالیف کردی جس کا نام ہے " جو تشبیہ اور جبر و تفویض کی نفی میں لکھی گئی ہے۔ (33)
چنانچہ یہ مسئلہ اتنا غیر اہم نہ تھا کہ آئمہ علیہم السلام اس کو نظرانداز کرتے کیونکہ اس طرح کے عقائد درحقیقت توحید کے بنیادی اصول سے متصادم ہیں۔
صقر بن ابی دلف امام ہادی علیہ السلام سے توحید کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں اور امام ہادی علیہ السلام کا جواب دیتے ہیں:
"إنَّهُ لَیسَ مِنّا مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّه‏َ عَزَّوَجَلَّ جِسْمٌ وَنَحْنُ مِنْهُ بَراءٌ فِی الدُّنْیا وَالاْخِرَةِ، يَابْنَ [أبی] دُلَفِ إنَّ الْجِسْمَ مُحْدَثٌ واللّه مُحدِثُهُ وَمُجَسِّمُهُ" (34)
ترجمہ: جو شخص گمان کرے کہ خداوند متعال جسم ہے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم دنیا اور آخرت میں ان سے بیزار ہیں۔ اے ابی دلف کے فرزند! جسم مخلوق ہے اور وجود میں لایا گیا ہے اور اللہ تعالی خالق ہے اور جسم کو معرض وجود میں لانے والا۔
نیز سہل بن ابراہیم بن محمد ہمدانی سے نقل کرتے ہیں: میں نے امام ہادی علیہ السلام کے لئے لکھا کہ آپ کے محبین توحید میں اختلاف سے دوچار ہوگئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ خداوند متعال جسم ہے اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ خداوند متعال صورت ہے۔
امام علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے لکھا:
"سُبْحانَ مَنْ لاَ يُحَدُّ وَلا يُوصَفُ، لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَی‏ءٌ وَهوَ السَّمیعُ الْعَلیم"؛ (35)
ترجمہ: پاک و منزہ ہے وہ جس کو محدود نہیں کیا جاسکتا اور [اشیاء کی مانند] اس کی حدیں معین نہیں کی جاسکتیں، کوئی شیئے بھی اس کی مانند نہیں وہ بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ دیکھنے والا ہے۔
کیا خدا کو دیکھا جاسکتا ہے؟
بعض لوگوں کے کلام سے نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ گویا ان کہ عقیدہ تھا کہ خداوند متعال کو دیکھا جاسکتا ہے اور انسان اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ سکتا ہے۔
ائمہ طاہرین علیہم السلام نے اس قسم کی سوچ کا بھی مقابلہ کیا۔
امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
"جاءَ حِبْرٌ إلی أمیرِ الْمُؤْمِنینَ علیہ‏السلام فَقالَ: یا أَمیرَ الُؤْمِنینَ هلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ حینَ عَبَدْتَهُ؟ فَقالَ وَيْلَكَ ما كُنْتُ اَعْبُدُ رَبّا لَمْ اَرَه۔ قالَ: وَكَيْفَ رَأَيْتَهُ؟ قالَ وَيْلَكَ لاَ تُدْرِكُهُ الْعُيُونُ فی مُشاهِدَةِ الاَْبْصارِ وَلكِنْ رَأَتْهُ الْقُلُوبُ بِحَقائِقِ الاْیمانِ"۔ (36)
ترجمہ: ایک حبر (یہودی عالم) امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: کیا آپ نے عبادت کے وقت خدا کو دیکھا ہے؟
امیرالمؤمنین علیہ السلام: وائے ہو تم پر! میں نے ایسے خدا کی عبادت نہیں کی ہے جس کو میں نے دیکھا نہ ہو۔
حبر: آپ نے خدا کو کس طرح دیکھا؛ (خدا کو دیکھنے کی کیفیت کیا تھی)۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام: وائے ہو تم پر آنکھیں دیکھتے وقت اور نظر ڈالتے وقت اس کا ادراک نہیں کرسکتیں لیکن دل (قلوب) حقیقت ایمان کی مدد سے اس کا ادراک کرتے ہیں۔
احمد بن اسحق نے امام ہادی علیہ السلام کے لئے خط لکھا اور آپ (ع) سے اللہ کی رؤیت کے بارے میں پوچھا اور اس سلسلے میں لوگوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی طرف اشارہ کیا تو حضرت امام ہادی علیہ السلام نے جواب میں تحریر فرمایا:
"لا یجوز الرؤیة ما لم یکن بین والمرئی هواء ینفذه البصر، فإذا انقطع الهواء وعدم الضیاء بین الرائی والمرئی لم تصح الرؤیة وکان فی ذلک الاشتباه لان الرائی متی ساوی المرئی فی السبب الموجب بینهما فی الرؤیة وجب الاشتباه وکان فی ذلک التشبیه، لان الاسباب لابد من اتصالها بالمسببات"۔ (37)
ترجمہ: رؤیت (دیکھنا) ممکن نہیں ہے جب تک دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان ہوا اور فضا نہ ہو ایسی ہوا جس میں انسان کی نظریں نفوذ کریں اور جب تک دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان روشنی نہ ہو تو دیکھنے کا عمل انجام نہیں پاتا [اور پھر دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کو ایک ایسے مقام پر متعین ہونا چاہئے جہاں وہ جگہ گھریں تا کہ دیکھنے کا عمل انجام پاسکے اور اگر دونوں ایک مقام پر جگہ گھریں تو دونوں ایک دوسرے کی مانند اور دونوں محدود ہونگے اور] اور اس عمل میں اشتباہ اور شباہت کا واقع ہونا لازم آئے گا کیونکہ جب دیکھنے والا سبب یعنی وسیلۂ رؤیت کے حوالے سے برابر ہونگے تو اس بھی اشتباہ اور شباہت کا واقع ہونا لازم آئے گا اور اسی میں تشیبہ ہے کیونکہ اسباب کے لئے مسببات کے ساتھ متصل ہونا ضروری ہے۔
یہاں امام ہادی علیہ السلام کے کلام شریف کا ماحصل ـ حق تعالی کی رؤیت کے امتناع کو ثابت کرنے کے لئے ـ قیاس استنثنائی (Exceptive Syllogism) ہے اور یوں کہ "اگر حق تعالی قابل رؤیت ہوں تو خدا اور رائی (دیکھنے والے) کے درمیان ہوا اور روشنی ہوگی کیونکہ ہوا اور روشنی رؤیت کے وسائل و شرائط ہیں پس رؤیت ان وسائل اور شرائط کے بغیر ممکن نہیں ہے جس طرح کہ یہ دوسرے وسا‏ئل اور شرائط کے بغیر بھی ناممکن ہے اور اس کے سوا رؤیت باطل ہے چنانچہ اللہ تعالی کی رؤیت کا نظریہ ناممکن ہے کیونکہ اس میں تشابہ لازم آتا ہے دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان یعنی یہ کہ وہ دونوں مرئی (اور قابل رؤیت) ہیں اور دونوں رؤیت کا اسباب و وسائل میں ایک دوسرے کے برابر ہیں کہ وہ دونوں جگہ گھریں اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے والی سمتوں میں ہوں اور ان کے درمیان ہوا اور روشنی ہو چنانچہ اس لحاظ سے ایک جسم رکھنے والے رائی اور اللہ تعالی کے درمیان تشابہ لازم آئے گا اور اللہ تعالی کے لئے جگہ گھرنے کا تصور لازم لائے گآ اور اللہ تعالی پاک و منزہ اور برتر و بالاتر ہے ان اوصاف سے۔ اور ہاں یہ کہنا بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کو اس سبب کے بغیر دیکھا جاسکتا ہے۔
اللہ کی عظمت و معرفت
"إلهی تاهتْ اَوْهامُ الْمُتَوَهمینَ وَقَصُرَ طُرَفُ الطّارِفینَ وَتَلاشَتْ اَوْصافُ الْواصِفینَ وَاضْمَحَلَّتْ اَقاویلُ الْمُبْطِلینَ عَنِ الدَّرَكِ لِعَجیبِ شَأْنِكَ أَوِ الْوُقُوعِ بِالْبُلُوغِ اِلی عُلُوِّكَ، فَاَنْتَ فىِ الْمَکانِ الَّذی لا يَتَناهی وَلَمْ تَقَعْ عَلَيْكَ عُيُونٌ بِاِشارَةٍ وَلا عِبارَةٍ هيْهاتَ ثُمَّ هَيْهاتَ یا اَوَّلىُّ، یا وَحدانىُّ، یا فَرْدانِىُّ، شَمَخْتَ فِی الْعُلُوِّ بِعِزِّ الْكِبْرِ، وَارْتَفَعْتَ مِنْ وَراءِ كُلِّ غَوْرَةٍ وَنَهايَةٍ بِجَبَرُوتِ الْفَخْرِ"؛ (38)
ترجمہ: بار پروردگارا! توہم کا شکار لوگوں کے گماں بھٹک گئے ہیں اور دیکھنے والوں کی نظروں کا عروج [تیرے اوصاف] تک نہیں پہنچ سکا ہے، اور توصیف کرنے والوں کی زبان عاجز ہوچکی ہے اور مبطلین [حق کو باطل کرنے کے لئے کوشاں لوگوں] کے دغوے نیست و نابود ہوگئے ہیں کیونکہ تیرا جاہ و جلال اور تیری شان و شوکت اس سے کہیں بالاتر ہے کہ انسانی عقل اس کا تصور کرسکے۔
تو جہاں ہے اس کی کوئی انتہا نہیں ہے اور کوئی آنکھ تیری طرف اشارہ نہیں کرسکتی اور تجھ کو نہیں پاسکتی اور کسی عبارت میں تیری توصیف کی اہلیت و توانائی نہیں ہے؛ کس قدر بعید ہے کس قدر بعید ہے [حواس انسانی کے ذریعے تیرا ادراک] اے پورے عالم وجود کا سرچشمہ! ای واحد و یکتا! تو اپنی عزت اور کبریائی کے لباس میں ہر قوت سے بالا تر اور ماوراء تر ہے اور ہر متفکر و مفکر کی زد سے برتر و بالاتر ہے۔ (39)

 

حوالہ جات:

٭۔ اس مجموعۂ موضوعات میں بعض اضافات کئے گئے اور اس کے بیشتر موضوعات کے بارے میں تحقیق کی گئی اور انہیں Authentic اور قابل استناد بنایا گیا۔ / مترجم
1. ارشاد، مفید، بیروت، دارالمفید، 211 من سلسلہ مؤلفات الشیخ المفید، ص297.
2. مناقب آل ابی‏طالب، ابن شہر آشوب، انتشارات ذوی‏القربی، ج1، 1379، ج4، ص432.
3. جلاء العیون، ملامحمدباقر مجلسی، انتشارات علمیہ اسلامیہ، ص568.
4. مناقب، ص432.
5. ارشاد شیخ مفید، ص432.
٭٭۔ شیخ مفید، ارشاد، ص327.
6. مناقب، ص433.
7. مناقب، ص433.
8. مناقب، ص433؛ ارشاد، ص297.
9. ارشاد، ص297.
10. اعلام الوری، طبرسی، دارالمعرفہ، ص339.
11. مناقب، ص433.
12. تحف العقول، ابن شعبہ حرّانی، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، صص339 ـ 338.
13. تحف العقول ، ص340.
14. تحف العقول. انسان نہ مجبور ہے نہ ہی اللہ نے اپنے اختیارات اس کو سونپ دیئے ہیں بلکہ امر ان دو کے درمیان ہے یا درمیانی رائے درست ہے۔
15. تحف العقول.
16. معنی این کلام، این است کہ اگر قائل بہ جبر شویم، باید بگوییم کہ ـ العیاذ باللّہ‏ ـ خداوند، ظالم است، در حالی کہ خود قرآن می‏فرماید: «وَلا يَظْلِمْ رَبُّكَ اَحَدا» (کہف/49).
17. تحف العقول صفحہ 371.
18. کہف/49.
19. حج/10.
20. تحف العقول صفحہ 461. اما الجبر الذی
21. تحف العقول صفحہ 463.
22. تحف العقول صفحہ 464.
23. تحف العقول صفحہ 465۔
24. اختیار معرفة الرجال، طوسی، تصحیح و تعلیق حسن مصطفوی، ص102.
25. الطبقات الکبری، ابن سعد، دار صادر، ج5، ص214. امام سجاد علیہ السلام سے تاریخ دمشق میں بھی ایک روایت نقل ہوئی ہے جو کچھ یوں ہے: أحبونا حب الإسلام ولا تحبونا حب الأصنام ! فما زال بنا حبکم حتی صار علینا شیناً )! (تاریخ دمشق:41/392) ترجمہ: ہم سے اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی بنیاد پر محبت کرو اور ہم سے بت پرستوں کی مانند محبت نہ کرو کیونکہ تمہاری اس حد تک بڑھ گئی کہ ہمارے لئے شرم کا باعث ہوگئی۔ [یہاں بھی غلو اور محبت میں حد سے تجاوز کرنے کی مذمت مقصود ہے]۔
26. بحار الانوار، ج25، ص346.
27. بحار الانوار، ج25، ص346.
28. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، ص603.
29. اختیار معرفة الرجال (رجال کشی)، صص518 ـ 516.
30. رجال کشی ، ص518.
31. رجال کشی ، ص520.
32. رجال کشی ، ص524.
33. رجال کشی ، صص18 ـ 17.
34. بحارالانوار جلد 3 صفحہ 291.
35۔ اصول کافی جلد 1 صفحہ: 136 روایة: 5
36. توحید، شیخ صدوق ص109، ح6.
37. التوحید ص109، ح7. اصول کافی جلد 1 ص 30 ؛حدیث 5)
38. التوحید ، ص66، ح19.
39. ترجمہ از کتاب زندگانی امام علی الہادی علیہ‏السلام ، باقر شریف قرشی، دفتر انتشارات اسلامی، ص112۔

مؤلف: حسین مطہری محب

 

حضرب امام ھادی (ع ) کی تاریخ ولادت کے بارے میں بعض مورخین نے ان کی ولادت 15 ذی الحجہ اور بعض نے 2 یا 5 رجب بتائي ھے، اسی طرح ولادت کے سال کے بارے میں بھی بعض نے 212 ھجری قمری اور بعض نے 214 ھ بیان کیا ھے(1)


رجب میں امام ھادی علیہ السلام کی پیدایش کی ایک دلیل

دعای مقدسہ ناحیہ ھے، جس میں اس جملہ کا استعمال ھوا ھے کہ: "الھم انی اسلک باالمولودین فی رجب ، محمد بن علی الثانی و ابنہ علی ابن محمد المنتجب"(2)
آپ کا نام گرامی علی اور لقب ،ھادی، نقی ۔ نجیب ،مرتضی ، ناصح ،عالم ، امین ،مؤتمن ، منتجب ، اور طیب ھیں، البتہ ھادی اور نقی معروف ترین القاب میں سے ھیں،آنحضرت کی کنیت " ابو الحسن " ھے اور یہ کنیب آنحضرت کے علاوہ دوسرے تین اماموں یعنی امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام،امام موسی ابن جعفر علیہ السلام ،امام رضا علیہ السلام کی ھے، لیکن کنیت(ابو الحسن) کا تعین اور تمیز امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لۓ مخصوص ھے اور امام موسی بن جعفر علیہ السلام کو ابو الحسن اول ،امام رضا علیہ السلام کو ابو الحسن الثانی، اور امام علی النقی علیہ السلام کو ابو الحسن الثالث کہا جاتا ھے(3)


امام دھم کے والد گرامی کا نام

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور والدہ ماجدہ کا نام سمانہ مغربیہ ھے،
امام ھادی علیہ السلام نے اپنی والدہ کے بارے میں فرمایا: میری والدہ میری نسبت عارفہ اور بھشتیوں میں سے تھی، شیطان کبھی بھی اس کے نزدیک نہیں جا سکتا اور جابروں کے مکر و فریب اس تک نہیں پہنچ سکتے، وہ اللہ کی پناہ میں ھے جو سوتا نھیں اور وہ صدیقین اور صالحین کی ماؤں کو اپنی حالت پر نھیں چھوڑتا" (4)
امام علی النقی الھادی علیہ السلام کی ولادت مدینہ منورہ کے ایک گاؤں " صریا " میں ھوئی،صریا مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے کہ جسے امام موسی ابن جعفر نے آباد کیا اور کئ سالوں تک آنحضرت کی اولاد کا وطن رھا ھے


حضرت امام علی النقی علیہ سلام جو کہ ھادی اور نقی کے لقب سے معروف ہیں 3 رجب اور دوسری قول کے مطابق 25 جمادی الثانی کو سامرا میں شھید کۓ گۓ،(5)
امام علی النقی علیہ سلام نے ذیقعدہ سن 220 ھجری میں جب انکے والد گرامی" نویں امام" شھید کۓ گۓ میراث امامت کے اعتبار سے آپ امامت کے منصب پر فائز ھوۓ،
شایان ذکر ھے کہ جب امام ھادی(ع) امامت کے منصب پر فائز ھوۓ توآنحضرت کی عمر 8 سال 5 مھینے سے زیادہ نہ تھی،آپ(ع) اپنے والد کے مانند بچپن میں ہی امامت کےعظیم الھی منصب پر فائز ھوۓ،
حضرت امام علی النقی علیہ سلام کا دور امامت،6 عباسی خلیفوں( معتصم ، واثق، متوکل ،منتصر ،مستعین ، اور معتز کے ھمعصر تھا۔

 

 

امام علی النقی علیہ سلام کے ساتھ ان خلیفوں کا سلوک مختلف تھا جن میں سے کسی نے امام کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو کسی نے حسب معمول برا ، البتہ سب کے سب خلافت کو غصب کرنے اور امامت کو چھیننے میں متفق اور ھم عقیدہ تھے،جن میں سے متوکل عباسی (دسواں عباسی خلیفہ)اھل بیت اور خاندان امامت و علوی کے نسبت سب سے زیادہ دشمنی رکھنے میں نامدار تھا اور ھر طریقے سے انکو آزار و اذیت پھچانے میں کوئی کسر باقی نھیں چھوڑی ، حد تو یہ تھی کہ ا‏ئمہ ھدی کی ھر یاد گار کو مٹانا چاھتا تھا، اماموں کی قبروں کو خراب کیا ، خاص کر قبر مطھر سید الشھدا حضرت امام حسین علیہ سلام اور اس کے اطراف کے تمام گھروں کو ویران کرنے اور وھاں کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیا۔ (6)
متوکل نے امام کو سن 243 ھجری میں مدینہ منورہ سے نکلوا کر سامرا نقل مکانی کروائی اسطرح آنحضرت کو اپنے آبائی وطن سے دور کیا۔(7)
ان 6 عباسی خلیفوں میں سے صرف منتصر عباسی ( گیارواں عباسی خلیفہ ) نے اپنے باپ متوکل کی ھلاکت کے بعد اپنی مختصر دور خلافت میں علویوں اور خاندان امامت و رسالت کے ساتھ قدرے نیک سلوک کیا،جبکہ جو مظالم عباسی خلیفوں نے ان پر ڈھاۓ ناقابل تھا،
حضرت امام علی النقی علیہ سلام کو سامرا " عباسیوں کے دار الخلافہ" میں 11 سال ایک فوجی چھاونی میں جلا وطنی کی حالت میں رکھا گیا اور اس دوران مکمل طور پر اپنے دوستوں کے ساتھ ملاقات کرنے سے محروم رکھا گیا۔ آخر کار 3 رجب اور دوسری روایت کے مطابق 25 جمید الثانی سن 254 ھجری میں معتز عباسی کی خلافت کے دور میں خلیفہ کے بھای معتمد عباسی کے ھاتھوں زھر دے کر شھید کیا گیا،
شھادت کے وقت امام علیہ سلام کے سر ھانے انکے فرزند حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام کے سوا کوئي نہ تھا،

حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام  اپنے والد گرامی کی شھادت پر بہت روۓ اور گریبان چاک کیا اور آنحضرت کا خود ھی غسل دیا کفن اور دفن کیا، اور کچھ نادان اور متعصب لوگوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام کی تنقید کی کہ انھوں نےکیوں گریبان چاک کیا؟ ، آنحضرت نے انکو جواب دیا کہ" آپ احکام خدا کے بارے میں کیا جانتے ھیں؟ حضرت موسی بن عمران علیہ سلام نے اپنے بھائی ھارون علیہ سلام کے ماتم میں گریبان چاک کیا" (8)

امام ھادی علیہ سلام کا جنازہ نھایت شان سے اٹھا، اھل بیت اطھار کے چاھنےوالوں ، فقیھوں ، قاضیوں، دبیروں اور امیروں کے علاوہ خلیفہ کے دربار کے بزرگوں نے شرکت کی اور امام کواپنے ایک حجرہ میں دفن کیا گیا،(9)
اس وقت آنحضرت کا مرقد مطھر شھر سامرا میں ھے جھاں آپ (ع) کے جوار میں آپکے فرزند حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام ، انکی بھن حکیمہ خاتون امام جواد علیہ سلام کی بیٹی اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ شریف کی والدہ ماجدہ نرگس خاتون دفن ھیں،

 

 

مدارک اور ماخذ :

1 {الارشاد (شیخ مفید)، ص 635؛ کشف الغمہ ( علی ابن عیسی اریلی) ج،3، ص،23 ؛ مننتھی الامال ( شیخ عباس قمی)، ج 2 ، ص،361؛ الکافی ( شیخ کلینی) ، ج 1، ص،497؛ وقایع الایام ( شیخ عباس قمی)،ص497}
2 {مفاتیح الجنان، ماہ رجب کی چٹی دعای }
3 {منتھی الامال،ج2،ص،361؛وقایع الایام، ص 296}
4 { منتھی الامال ج2 ، ص 361 }
5 الارشاد (شیخ مفید)، ص 649؛ منتہی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج2، ص 384.
6 منتہی الآمال، ج2، ص 383.
7_ منتہی الآمال، ج2، ، ص 377 و الارشاد، ص 646.
8_ منتھی الآمال، ج2، ص 385.
9_ نک: الارشاد، ص 635؛ کشف الغمہ (علی بن عیسی اربلی)، ج3، ص

1 – مذہب کے بارے میں تحقیق کیوں ؟

اللہ نے بہترین راستہ اختیار کرنے والوں کو بشارت دی ہے ۔

اللہ کا ارشاد گرامی ہے :

{فَبَشِّرْ عِبَادِي * الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمْ اللهُ وَأُوْلَئِكَ هُمْ أُوْلُوا الاَلْبَابِ} الزمر: 17 – 18

اے پیغمبر !آپ میرے ان بندوں کو بشارت دیں کہ جو مختلف باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو صاحبانِ عقل ہیں۔

 فرقہ ناجیہ کا گمراہ اور باطل فرقوں سے انتخاب :

شیعہ اور اھل سنت کے ہاں نقل شدہ معتبر روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : «وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً». میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائے گی اور ان میں ایک کے علاوہ باقی سب جہنمی ہوں گے ۔

سنن الترمذي : ج 4 ص 135 ح 2779 .

كليني کہ جو شیعوں کا بہت بڑا عالم ہیں آپ  امام باقر عليه السلام سے اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگی : «اثْنَتَانِ وسَبْعُونَ فِرْقَةً فِي النَّارِ وفِرْقَةٌ فِي الْجَنَّةِ» ان میں سے ۷۲ فرقے جہنم میں اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا ۔

كافي: ج8 ص224 .

لہذا رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے اس نورانی کلام کی رو سے ہمیں ناجی اور اھل حق فرقے کی پہچان اور اس کی پیروی کرنی چاہئے ۔

2 – شیعوں کا فرقہ ناجیہ ہونے کے بارے میں پیغمبر صلی ‌الله عليه وآله کی احادیث سے استدلال ؛

قیامت کے دن بشارت :

پیغمبر صلي الله عليه واله وسلم نے اميرالمؤمنين علي عليه السلام کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيِدِهِ إِنَّ هَذَا وشيعَتَهَ لَهُمُ الفَائِزُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ» اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے (علي عليه السلام) اور ان کے شیعہ ہی قیامت کے دن کامیاب ہوں گے .

 فتح القدير ج 5 ص 477

حضرت علي عليه السلام کے شیعوں کو بہشت کی بشارت :

ابن مَرْدَوَيْه نے حضرت علي عليه السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : اس امت کے ۷۳ فرقے ہوں گے سب جہنم میں چلے جائیں گے سوای ایک کے «وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَهُمْ أَنَا وَشِيْعَتِي» ایک فرقہ بہشت میں جائے گا اور وہ میں اور میرے شیعہ ہوں گے ۔   مناقب ابن مردويه ص44.

اهل بيت  نجات کی کشتی ہیں  :

حاكم نيشابوري نے رسول اكرم صلی ‌الله عليه وآله سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : مَثَلُ أَهْلٍ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ ، مَنْ رَكِبَهَا نَجَا ، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ» میرے اھل بیت کی مثال حضرت نوح کی کشتی کی ہے ،جو اس میں سوار ہوگا وہ نجات پائے گا، جو اس میں سوار نہیں ہوگا وہ گمراہی کے دریا میں غرق ہوگا۔

حاكم نيشابوري کہتا ہے : یہ روایت صحیح ہے اور صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق ہے .

مستدرك ج 2 ص 343.

–قرآن و سنت سے امامت الهي اور علي عليه السلام  کی خلافت بلا فصل ہونے کے دلائل ۔

آيه ولايت:

{إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَهُمْ رَ كِعُونَ} .

المائدة : 55.

ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔

  اهل سنت کے بزرگ علماء نے مجاهد سے یہ روایت نقل کی ہے {إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ} نَزَلَتْ فِي عَلي بن أبي طالب تَصَدَّقَ وَهُوَ راكِعٌ. جس وقت علی ابن ابی طالب حالت رکوع میں تھے اور آپ نے حالت رکوع میں صدقہ دیا تو یہ آیت آپ کی شان میں نازل ہوئی  تفسير الطبري ج 6 ص 390

اسی طرح  ابن ابي حاتم از عتبه بن ابي حکيم نے اسی مطالب کو نقل کیا ہے .تفسير ابن أبي حاتم ج 4 ص1162 .

ابن تيميه ان دو تفاسیر کے بارے میں کہتا ہے : تفاسيرهم متضمّنة للمنقولات التي يعتمد عليها في التفسير  طبري اور ابن ابي حاتم کی تفاسیر  ایسی تفاسیر میں سے ہیں کہ کہ جن میں ایسی احادیث اور باتیں موجود ہیں کہ جن پر قرآن کی تفسیر کے لئے اعتماد کیا جاسکتا ہے ۔

آلوسي سلفي کہتا ہے: « وغالب الأخباريّين على أنّ هذه الآية نزلت في ‌علي‌» اکثر اخباریوں کا یہ نظریہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے نازل ہوئی ہے .تفسير روح المعاني ج6ص167.

اسی طرح آلوسی کہتا ہے: «والآية عند معظم المحدثين نزلت في علي» اکثر محدثین کا یہ نظریہ ہے کہ آیت، علي بن ابي طالب کے بارے نازل ہوئی ہے .

تفسير روح المعاني ج6ص186.

آيه ابلاغ:

{يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ} المائدة: 67.

اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔

اھل سنت کے بڑے عالم ابن ابي حاتم نے ابو سعيد خُدْرِي سے نقل کیا ہے  : «نزلت هذه الآية . . . في علي بن أبي طالب» یہ آيه ابلاغ حضرت علی ابن ابی  طالب علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

تفسير ابن أبي حاتم ج 4 ص1172.

آلوسی کہ جو اھل سنت ہی بڑے علماء سے ہیں۔ انہوں نے عبد الله بن مسعود کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ہم  رسول الله صلي الله عليه وآله کے زمانے میں  اس آیت کی اس طرح سے تلاوت کرتے تھے : «بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ إنّ عليّاً وليُّ المؤمنين وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ» یہ جو چیز آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی ہے "علی مومنوں کے ولی ہیں " اس کو لوگوں تک پہنچائے اگر ایسا نہیں کیا تو گویا آپ نے رسالت کے کام کو نہیں پہنچایا۔

روح المعاني ج6 ص193

سيوطي ،شوكاني ، محمد رشيد رضا وغیرہ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے .

الدر المنثور ج2ص298 و فتح القدير ج 2 ص60 والمنار: ج 6ص463 .

آيه اکمال دين:

{أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الاِسْلاَمَ دِيناً}. المائدة: 3

-آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے.

خطيب بغدادي کہ جو اهل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں ،انہوں نے ابوهريره سے نقل کیا ہے : غدير خم کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علي بن ابي طالب علیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایا : «أَلَسْتُ وَلِيَّ المُؤْمِنِين؟» کیا میں مومنوں کے ولی اور ان کا سرپرست نہیں ہوں؟ سب نے کہا جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! ۔ اس وقت آپ نے فرمایا : «مَنْ كُنْتَ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» جس کا میں مولی ہوں علی اس کا مولا ہیں  . اس کے بعد عمر بن خطاب نے کہا  : اے ابو طالب کے فرزند مبارک ہو مبارک ہو ، آپ میرے اور سارے مسلمانوں کے ولی بن گئے  اور پھر یہ آیت نازل ہوئی "آج آپ کے دین کو ہم نے کامل کیا (اس روایت کی سند معتبر ہے )

تاريخ بغداد ج8 ص284

ابن کثير کی نقل کردہ روایت کے مطابق عمر بن خطاب نے کہا : «أَصْبَحْتَ الْيَومَ وَلِيَّ كُلِّ مُؤْمِنٍ» يا علي! آج کے بعد آپ تمام مومنوں کے ولی بن گئے.

البداية والنهاية ج 7 ص350 .

سنت اور ادله امامت الهي و خلافت بلا فصل علي عليه السلام ۔

حديث ولايت:

حاكم نيشابوری کہ جو اھل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں،انہوں نے  پیغمبر صلي الله عليه وآله کی یہ روایت نقل کی ہے : «إنَّ عَلِيّاً مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي» علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ، علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں ۔

یہ روایت مسلم کی شراط کے مطابق صحیح ہے اسی طرح ذھبی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا یے .

مستدرك ج 3 ص 110

وهابي فکر والے بڑے عالم آلبانی نقل کرتا ہے کہ پیغمبر صلی الله عليه وآله نے  اميرالمؤمنين عليه السلام سے خطاب میں فرمایا : «أَنْتَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ» تم میرے بعد تمام مومنین مرد اور عورتوں کے ولی ہیں. حاکم  اور ذهبي نے اس  روايت کو صحیح قرار دیا ہے  جب ان دو نے کہا ہے تو اس روایت کی سند صحیح ہے۔

السلسلة الصحيحة ، ج 5 ص263 . المستدرك ج3 ص133.

حديث الخلافة :

ابن أبي عاصم کہ جو اھل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں،انہوں نے پیغمبر صلی الله عليه وآله کی اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ آپ نے اميرالمؤمنين سے خطاب میں فرمایا : «وَأنْتَ خَلِيفَتِي فِي كُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِي» آپ میرے بعد میرا جانشین اور تمام مومنوں کے ولی ہیں ۔

 كتاب السنة 551 .

 

وھابی عالم آلبانی نقل کرتا ہے : پیغمبر صلی الله عليه وآله نے اميرالمؤمنين سے خطاب میں فرمایا : «لَا يَنْبَغِي اَنْ اَذْهَبَ اِلَّا وَأَنْتَ خَلِيفَتِي» سزاوار نہیں ہے کہ میں جاوں مگر یہ کہ آپ میرا جانشین ہو ۔  الباني کہتا ہے کہ : حاکم اور ذهبي نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔جس طرح سے ان دو نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ،یہ صحیح ہے ۔

سلسلة الصحيحة ج 5 ص263 .

حديث امامت:

حاكم نيشابوري نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر صلی الله عليه وآله نے فرمایا : مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ «علي إمام المتقين» علی متقین کے امام ہیں. اس روايت کی سند بھی صحیح ہے .

مستدرك حاكم ج3 ص133 .

خوارزمي کہ جو اهل سنت کے علماء میں سے ہے ،انہوں نے رسول اللہ  صلی ‌الله عليه وآله، سے نقل کیا ہے کہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا : «أَنْتَ إِمَامُ كُلِّ مُؤْمنٍ وَمُؤْمِنَةٍ» آپ تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے امام ہیں .  مناقب ص 61.

امام باقر عليه السلام نے آیت ولاية ، آیت ابلاغ  اور آیت  اكمال کے ذریعے سے امام علی علیہ السلام کی ولایت اور خلافت پر استدلال کیا ۔

كليني نے صحیح سند نقل کیا ہے کہ امام باقر عليه السلام نے فرمایا : اللہ نے رسول اكرم صلی الله عليه وآله کو ولايت علي عليه السلام کے اعلان کا حکم دیا ، سوره مائده آيه 55 ، {إِنَّما وَلِيُّكُمُ‏ اللَّهُ...} کو نازل کیا «وفَرَضَ وَلَايَةَ أُولِي الْأَمْرِ» اور اولی الامر کی ولایت کو ضروری قرار دیا۔

اسی طرح سوره مائده کی آيه 67 میں فرمایا  «يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ‏ مِنْ رَبِّكَ» اس میں آپ کو یہ حکم دیا کہ آپ جو بات آپ پر وحی ہوئی ہے وہ آپ لوگوں تک پہنچائے اور  رسول اللہ صلی ‌الله عليه وآله نے بھی اللہ کے حکم کو عملی جامعہ پہنایا « فَقَامَ بِوَلَايَةِ عَلِيٍّ × يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ» اور غدیر کے دن علي عليه السلام کی ولایت کا اعلان فرمایا اور یہ حکم دیا کہ اس حکم کو جو غائب ہیں ان تک پہنچائے .

پھر امام باقر عليه السلام نے فرمایا : اور اس آخری واجب کو کہ جو حضرت علي عليه السلام کی ولایت تھا، سوره مائده کی آیت نمبر ۳ کی نزول کے بعد کامل کیا ،{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ‏ وأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي} آج آپ کے دین کو کامل کیا اور آپنی نعمتوں کو آپ پر کامل کیا «قَدْ أَكْمَلْتُ لَكُمُ الْفَرَائِضَ» در حقیقت سارے واجبات کو آپ پر مکمل کیا ۔كافي، ج1، ص 289 ح 4.

4 - اگر حضرت علي عليه السلام خليفه بلافصل ہوتے تو کیا ہوتا؟

علي عليه السلام كتاب اور  سنت پر عمل کرنے کا زمینہ فراہم کرتے :

اهل سنت کے علماء میں سے ابن شُبّه نُمَيري نے خليفه دوم سے نقل کیا ہے  ابن عباس نے نقل کیا ہے : إنَّ أَحْراهُمْ إنْ وَلِيَهَا أَنْ يَحْمِلَهُمْ عَلَى كِتَابِ اللّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ صَاحِبُكَ، يَعِنِي عَلِيّاً. جو شخص مسلمان کو قرآن اور سنت کے مطابق عمل کرانے کے لئے سب سے زیادہ مناسب اور اھلیت رکھتا ہے ، وہ آپ کے  دوست علی ابن ابی طالب ہیں ،

تاريخ المدينة المنورة ج 3 ص 883.

لوگوں کو صراط مستقم کی طرف دعوت دینے کا باعث بنتے :

حنبلي فرقے کے بڑے امام ، احمد بن حنبل نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله سے صحیح سند روایت نقل کیا ہے : واِن تُؤَمِّرُوا عَلِيًّا رضي الله عنه وَلاَ أُرَاكُمْ فَاعِلِينَ يَأْخُذُ بِكُمُ الطَّرِيقَ الْمُسْتَقِيمَ.

اگر علي کو  امير (المؤمنين) قرار دئے تو { اگرچہ میں جانتا ہوں ایسا نہیں کروگے  }  تو آپ سب لوگوں کو ہدایت کی راہ پر لے جاتے ۔

مسند أحمد ج 1 ص 537.

ابو نعيم اصفهاني کہ جو اهل سنت کے بڑے علماء میں سے ہے انہوں نے  رسول اللہ  صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے : «إِنْ تَسْتَخْلِفُوا عَلِيّاً وَمَا أَرَاكُمْ فَاعِلِينَ تَجِدُوهُ هَادِياً مَهْدِيّاً ، يَحْمِلُكُمْ عَلَى الْمَحَجَّةِ الْبَيْضَاءِ». آگر علی کو اپنا خلیفہ قرار دئے آگرچہ میں جانتا ہو تم لوگ ایسا نہیں کرو گے، تو تم لوگ ان کو ہدایت کرنے والے اور اھل ہدایت پاتے یہ  تم لوگوں کو روشن اور سیدھے راستے پر چلاتے ۔

حلية الأولياء ج 1 ص 64.

اسلامی اتحاد کا موجب بنتے :

حاكم نيشابوري نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے کہ علي عليه السلام سے فرمایا : «أَنْتَ تُبَيِّنُ لِأُمَّتِي مَا اخْتَلَفُوا فِيهِ بَعْدِي». تم ای علی میرے بعد، جو فتنہ اور اختلاف ہوگا، تم اس کو صاف اور روشن کرو گے.

 آپ میرے بعد میری امت کو اس چیز کو بیان کریں گے جس میں وہ لوگ اختلاف کرئے ۔ یہ روایت صحیح اور صحیح بخاری اور مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے ۔

المستدرك: ج 3 ص 122.

ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا : «وَأَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأُمَّتِي مِنَ الْاِخْتِلافِ» میرے اھل بيت امت کے لئے اختلافات سے آمن اور  امنیت  کا باعث ہے اور جو بھی قبیلہ ان سے اختلاف کرئے وہ شیطان کے گروہ سے ہے۔

یہ حدیث بھی صحیح ہے ۔

مستدرك ج 3 ص 149.

لوگوں کی دنیوی زندگی میں آسائش اور رفاہ کا باعث :

حضرت صديقه طاهره سلام اللہ علیہا نے اپنے مشہور خطبے میں ارشاد فرمایا : «يَالَلّهِ لَوْ تَكَافَؤُا عَلِي زِمَامٍ نَبَذَهُ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله ...لَفُتِحَتْ عَلَيْهِمْ بَرِكَاتٌ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ» اللہ کی قسم ! اگر زمام خلافت کو اسی کے حوالے کرتے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معین فرمایا تھا تو زمین اور آسمان کی برکتوں کے دروازے ان پر کھل جاتے .

بلاغات النساء، ص24 .

سلمان نے فرمایا : «لَوْ بَايَعُوا عَلِيّاً لَأَكَلُوا مِنْ فَوقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ» اگر علی کی بیعت کرتے تو آسمان اور زمین کی برکتوں سے استفادہ کرتے ۔

أنساب الأشراف ج 2 ص 274. مصنف ابن أبي شيبة ج 7 ص 443.

حضرت امير عليه السلام نے فرمایا : «وَلَو أَنَّ الْأُمَّةَ مُنْذُ قَبَضَ اللهُ نَبِيَّهُ، اِتَّبَعُونِي وَأَطَاعُونِي لَأَكَلُوا مِنْ فَوقِهِمْ وَمِنْ تَحْتَ أَرْجُلِهِم رَغَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ». اگر امت پیغمبر صلی الله عليه وآله کی رحلت کے وقت میری اتباع اور اطاعت کرتے تو زمین اور آسمان کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے اور قیامت تک خوش اور آسائش کے ساتھ زندگی گزارتے۔ .

كتاب سليم بن قيس ج 1 ص 658 و احتجاج طبرسي ج 1 ص 223.

اخروی زندگی میں سعادت کے ضامن :

عبد الرزاق صنعاني نے عبد الله بن مسعود کے توسط سے  رسول اكرم صلی الله عليه وآله سے نقل کیا ہے : «أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بيده، لَئِنْ أَطَاعُوهُ لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ أَجْمَعِينَ أَكْتَعِينَ». اگر لوگ میرے بعد علي عليه السلام کی اطاعت کرئے تو سب کے سب ایک ساتھ جنت میں داخل ہوجاتے ۔

المصنف، ج 11، ص 317.

 اسلامی جمہوریہ ایران کی بحری جنگی کشتی سہند روس کی بندگاہ "سینٹ پیٹرزبرگ" پہنچ گئی ہے، جہاں وہ روس میں منعقد ہونے والی بحری پریڈ میں شرکت کرےگی۔

۔ یہ پریڈ روسی بحریہ کی تشکیل کی سالگرہ کی مناسبت سے منعقد کی جارہی ہے۔ ایران کی دوسری بحری کشتی مکران  پریڈ کی جگہ سے 25 میل کی دوری پر مستقر رہےگی۔ کیونکہ پریڈ کی جگہ پانی کی گہرائی کم ہے۔

پاکستان کے زیرانتظآم آزاد کشمیرمیں انتخابات کے لیے پولنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کی 45 نشستوں کے لیے 32 لاکھ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں جب کہ انتخابات میں 742 امیدوار حصہ لے رہے ہیں، پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔