سلیمانی

سلیمانی

صدیوں سے سانحہ کربلا اور قیام امام حسین علیہ السلام کے بارے مختلف انداز میں تجزیئے کئے جا رہے ہیں، جن میں اس کے علل و اسباب، پس منظر، اہداف و مقاصد وغیرہ پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کے بعد 28 رجب 60 ہجری کو مدینہ سے روانگی سے لے کر 10 محرم 61 ہجری کربلا میں شہادت تک امام عالی مقامؑ نے اپنے اس قیام کے حوالے سے متعدد خطوط تحریر فرمائے۔ کئی مقامات پر خطاب فرمایا، جس کی تفصیل بہت طویل ہے۔ ان چند سطور میں امامؑ کے چند خطوط و خطبات، کلمات کے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں، جس سے تاریخ اسلام کے اس بے مثال قیام و سانحہ کے کئی پہلو واضح ہوتے ہیں۔

آخر رجب 60 ہجری میں حاکم مدینہ کی طرف سے یزید کی بیعت کے اصرار پر امام حسینؑ نے اپنا دوٹوک موقف ان الفاظ میں بیان فرمایا ”ہم اہلبیت نبوت، معدن رسالت، فرشتوں کی آمد و رفت کے اعزاز کے حامل ہیں، جبکہ یزید ایک فاسق، شراب خوار، بے گناہوں کا قاتل اور سرعام گناہ کرنیوالا ہے۔ مجھ جیسا اس جیسے کی ہرگز بیعت نہیں کر سکتا۔“ اس موقع پر مروان بن حکم نے بھی بیعت کیلئے مطالبہ کیا تو آپ نے مزید فرمایا ”امت اسلامی پر جب یزید جیسا حاکم مسلط ہو جائے تو اسلام پر فاتحہ پڑھ لی جائے۔“

قیام کا مقصد:
مدینہ سے روانگی سے قبل اپنے بھائی جناب محمد بن حنفیہ کے نام خط میں لکھا ”میں فتنہ و فساد برپا کرنے یا اپنی شہرت کیلئے نہیں بلکہ اپنے جد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے امور کی اصلاح کیلئے نکل رہا ہوں۔ میں نے نیکیوں کا حکم دینے، برائیوں سے روکنے اور اپنے جد بزرگوار اور والد علی ابن ابی طالب کی سیرت کی پیروی کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔‘‘ مکہ پہنچ کر بصرہ کے عمائدین کے نام آپ کے خط کا ایک اہم جملہ یہ تھا ”سنت رسول (ص) کو پس پشت ڈال دیا گیا، ایک کے بعد دوسری بدعت ظاہر ہو رہی ہے۔ میں تمہیں کتاب خدا اور سنت رسول (ص) پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔“ اس دوران کوفہ سے بارہ ہزار کے قریب خطوط امام حسینؑ کو ملے، جن میں آپ کو کوفہ تشریف لانے کی درخواست کی گئی تھی، تاکہ لوگ آپ کی بیعت کریں۔ آپؑ نے ان سب کے جواب میں ایک مختصر خط تحریر فرمایا۔

”حسینؑ بن علیؑ کی طرف سے مسلمانوں اور مومنوں کی ایک جماعت کے نام‘‘
اما بعد: ہانی و سعید تمہارے خطوط لے کر میرے پاس پہنچے۔ تم نے لکھا کہ ہمارا کوئی امام و رہبر نہیں، ہمارے پاس آنے میں جلدی کیجئے، ہوسکتا ہے کہ خدائے متعال آپ کے ذریعے ہمیں راہ حق کی ہدایت کر دے۔ میں اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو جو کہ میرے معتمد ہیں، تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔ اگر انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ اہل فضل و عقل تمہارے خطوط اور تمہارے قاصدوں کے پیغام کی تائید کرتے ہیں تو میں عنقریب تمہارے پاس پہنچ رہا ہوں، ان شاء اللہ۔۔ قسم اپنی جان کی، امام صرف وہ ہے جو کتاب خدا سے حکم کرتا ہے، عدل اختیا کرتا ہے، دین خدا کو قبول کرتا ہے اور خود کو رضائے خدا کیلئے وقف کر دیتا ہے۔

چند ماہ بعد جب امام کے قافلہ کی مکہ سے عراق روانگی کی مدینہ اطلاع پہنچی، تو آپ کے قریبی عزیز جناب عبداللہ بن جعفر نے خط کے ذریعے اس سفر سے رکنے کی التجا کی اور قتل ہو جانے کا خدشہ ظاہر کیا۔ آپؑ نے جواب میں لکھا ”اپنے نانا رسول خدا کو خواب میں دیکھا ہے، انہوں نے مجھے اس چیز کے بارے خبر دی ہے۔ مجھے اس کی انجام دہی کی کوشش کرنی چاہیئے، خواہ اس میں میرا فائدہ ہو یا نقصان۔ بھائی! اگر میں چیونٹی کے سوراخ میں بھی چلا جاﺅں، تب بھی یہ بنی اُمیہ باہر نکال کر قتل کر دیں گے۔ خدا کی قسم وہ مجھ پر اسی طرح ظلم و ستم روا رکھیں گے، جس طرح یہودیوں نے ہفتہ کے دن روا رکھے تھے۔“ امام عالی مقامؑ کا قافلہ عراق کی طرف بڑھ رہا تھا کہ حر کے لشکر نے پیشقدمی سے روک دیا۔

امام حسینؑ ان سے یوں مخاطب ہوئے ”لوگو! خدا سے ڈرو! پرہیزگار بن جاﺅ اور حق کو ان افراد کے اختیار میں دو، جو اس کے اہل ہیں، اس طرح خدا کو خوشنود کرو، اس لحاظ سے ہم اہلبیت تمہارے ولی بننے کے ان لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں، جو اس کے مدعی ہیں، وہ تمہارے ساتھ عدل سے پیش نہیں آتے اور تمہارے حق میں ظلم کرتے ہیں۔ اگر تم ہمارے لئے ایسے حق کے قائل نہیں ہو اور ہماری اطاعت نہیں کرنا چاہتے اور تمہارے خط اور قول میں یکسانیت نہیں تو میں یہیں سے واپس پلٹ جاﺅں گا۔“ پھر فرمایا ”کیا تم نہیں دیکھتے کہ لوگ حق پر عمل نہیں کرتے اور باطل سے پرہیز نہیں کرتے۔ ایسے میں مومن کو خدا سے ملاقات کا مشتاق ہونا ہی چاہیئے۔ میں موت کو سعادت اور ظالموں کیساتھ زندہ رہنے کو ننگ و عار سمجھتا ہوں۔“

لشکر حر سے ایک اہم خطاب:
کچھ منزلیں طے کرنے کے بعد ایک بار پھر لشکر حر کو خطاب فرمایا ”لوگو! رسول (ص) نے فرمایا کہ جو شخص ظالم بادشاہ کو خدا کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال قرار دیتے، خدا کے عہد کو توڑتے، سنت خدا کی مخالفت کرتے اور خدا کے بندوں پر ظلم روا رکھتے ہوئے دیکھے اور قول و فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ بنی اُمیہ نے شیطان کے حکم کے تحت خدا کی اطاعت سے روگردانی کر لی ہے، فساد پھیلا رہے ہیں، خدا کی حدود کا کوئی پاس و لحاظ نہیں کرتے۔ بیت المال کو اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے۔ خدا کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال سمجھ لیا ہے۔ انہیں ان بدکاریوں سے روکنے کا میں خود کو زیادہ اہل سمجھتا ہوں۔“

اسی سفر میں جب مشہور شاعر فرزدق نے آپ کو متوجہ کیا کہ لوگوں کے دل آپ کے ساتھ مگر تلواریں بنو اُمیہ کیساتھ ہیں تو آپ نے یہ حکیمانہ کلمات ارشاد فرمائے ”لوگ دنیا کے بندے ہیں، اس وقت تک دین کا دم بھرتے ہیں، جب تک ان کی دنیا بنی رہے۔ جب کوئی آزمائش، امتحان درپیش ہو تو سچے دیندار کم رہ جاتے ہیں۔“ دوران سفر آپ سے یہ شعر بھی منسوب ہے کہ ”اگر محمد (ص) کا دین میرے قتل کے بغیر نہیں قائم رہ سکتا تو اے تلوارو مجھ پر ٹوٹ پڑو۔“

روزِ عاشور چند اہم خطاب
شبِ عاشور امام حسینؑ نے دو دن کی پیاس کے باوجود اپنے اہلبیت و اصحاب کے ہمراہ دعا، تلاوت قرآن و عبادت میں گزاری۔ 10 محرم کی نماز فجر کے بعد جنگ کا آغاز ہوا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنا گھوڑا طلب کیا، سوار ہوئے اور بلند آواز میں عمر بن سعد کے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا "لوگو! میری بات سنو! جنگ کرنے میں اس وقت تک عجلت نہ کرو، جب تک کہ میں تمہیں اس چیز کی نصیحت نہ کر دوں، جس کا ادا کرنا میرے اوپر فرض ہے۔ میں تمہارے سامنے حقیقت بیان کئے دیتا ہوں۔ اگر انصاف سے کام لو گے تو خوش بخت ہو جاﺅ گے اور اگر قبول نہیں کرو گے اور حق و انصاف کی راہ سے کنارہ کشی کرو گے اور اپنے ارادہ کو عملی جامہ پہناﺅ گے اور ہم سے جنگ کرو گے تو خدا میرا آقا و مولا ہے کہ جس نے قرآن نازل کیا اور نیکو کاروں کے اختیار میں دے دیا۔

لوگو! میرا نسب یاد کرو، سوچو میں کون ہوں؟ ہوش میں آﺅ اپنے نفسوں پر ملامت کرو اور غور کرو کیا مجھے قتل کرنا اور میری حرمت پامال کرنا تمہارے لئے روا ہے۔؟ کیا میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا اور رسول کے وصی کا فرزند اور آنحضرت کے ابن عم کا پسر نہیں ہوں؟ کیا میں اس کا نور چشم نہیں ہوں، جو سب سے پہلے ایمان لایا اور رسول کی ان باتوں کی تصدیق کی جو وہ خدا کی طرف سے لائے تھے۔ کیا سید الشہداء حضرت حمزہ میرے چچا نہیں ہیں؟ کیا جعفر طیار کہ جنہیں خدا نے دو پر عطا کئے ہیں، جن کے ذریعے وہ بہشت میں پرواز کرتے ہیں، وہ میرے چچا نہیں ہیں؟ کیا تم نہیں جانتے کہ رسول خدا نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا ہے یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ جابر بن عبداللہ انصاری، ابو سعید خدری، سہیل بن سعد ساعدی، زید بن ارقم اور انس بن مالک سے پوچھ لو وہ تمہیں بتائیں گے کہ رسول سے کیا سنا ہے۔ اس سے میری باتوں کی تصدیق ہو جائے گی، آیا یہ گواہیاں تمہیں میرا خون بہانے سے باز نہیں رکھتی ہیں۔؟"

جب عمر بن سعد امام حسین ؑ سے جنگ کیلئے اپنی فوج کو تیار کرچکا، پرچم گاڑ دیئے اور فوج کا میمنہ و میسرہ منظم کرچکا، تو قلب لشکر کے سپاہیوں سے کہا ثابت قدم رہو اور امام حسین ؑ کو چاروں طرف سے گھیر لو، اسی وقت امام حسین ؑ فوج کوفہ کے سامنے کھڑے ہوئے اور فرمایا "خاموش ہو جاﺅ " لیکن وہ خاموش نہ ہوئے آپ نے ان سے فرمایا "خدا تمہیں سمجھے، اگر تم میری بات سن لو گے تو تمہارا کیا بگڑ جائے گا؟ میں تمہیں صراط مستقیم کی طرف بلاتا ہوں، جو میری اطاعت کرے گا، وہ ہدایت پا جائے گا اور جو میری نافرمانی کرئے گا، وہ ہلاک ہوگا۔ تم سب میرے فرمان سے سرکشی کرتے ہو اور میری باتوں پر کان نہیں دھرتے، کیونکہ تمہارے پیٹ حرام مال سے بھرے ہوئے ہیں اور تمہارے دلوں پر بدبختی و شقاوت کی مہر لگ چکی ہے۔ وائے ہو تم پر! کیا تم خاموش نہیں ہو گے اور میری بات نہیں سنو گے؟"

اس پر عمر بن سعد کے ساتھیوں نے آپس میں ایک دوسرے پر ملامت کی اور کہنے لگے ان کی بات سنو! جب دشمن کی فوج خاموش ہوگئی تو امام ؑ نے فرمایا: "اے گروہ! خدا تمہیں ہلاکت و مصیبت میں مبتلا کرے، تم نے ہمیں فریاد و عاجزی سے پکارا، تاکہ ہم تمہاری فریاد کو پہنچیں اور ہم جلدی سے تمہاری فریاد رسی کیلئے آگئے تو تم نے وہی تلوار ہمارے اوپر کھینچ لی، جو ہم نے تمہارے ہاتھ میں دیدی تھی اور تم نے وہی آگ ہمارے لیے بھڑکائی، جو ہم نے اپنے اور تمہارے دشمنوں کیلئے روشن کی تھی۔ اپنے دوستوں سے جنگ اور اپنے دشمنوں کی نصرت کیلئے کھڑے ہوگئے ہو، اگرچہ نہ وہ تمہارے درمیان انصاف کرتے ہیں اور نہ تم ان سے کسی بھلائی کی توقع رکھتے ہو اور یہ سب اس صورت میں ہے کہ ہم سے ایسی کوئی چیز صادر نہیں ہوئی کہ جس کی پاداش میں ہم سے ایسی دشمنی کی جائے اور ہم پر حملہ کیا جائے۔ خدا تمہیں سمجھے، ہمیں اس وقت کیوں پریشان کیا، جب تلواریں غلاف میں تھیں اور دلوں کو سکون تھا۔ مکھیوں کی مانند فتنہ کی طرف اڑے اور پروانوں کی طرح ایک دوسرے کی جان کی فکر میں پڑ گئے۔

کنیز کی اولادو! گروہوں کے پسماندگان! کتاب خدا سے منہ پھیرنے والو! خدا کی آیات میں تحریف کرنے والو! سنت رسول کو فراموش کرنیوالو! انبیاء کی اولاد اور ان کے اوصیاء کی عترت کو تہ تیغ کرنے والو! مجہول النسب کو صاحبان نسب سے ملحق کرنے والو! مومنوں کو آزار پہنچانے والو اور قرآن کو پارہ پارہ کرنے والو! کفار کا ڈھنڈورا پیٹنے والو! خدا تمہیں غارت کرے، خدا کی قسم بیوفائی اور پیمان شکنی تمہاری عادت ہے، تمہارا خمیر مکر و بیوفائی سے آمیختہ ہے، اس کے مطابق تمہاری پرورش ہوئی ہے، تم بدترین میوہ ہو، اپنے باغبان کیلئے گلے کی ہڈی، راہزنوں اور غاصبوں کیلئے خوش مزہ۔ خدا لعنت کرے ان پیمان شکن لوگوں پر جنہوں نے محکم شدہ میثاقوں کو توڑ دیا۔ تم نے خدا کو اپنا کفیل قرار دیا تھا، خدا کی قسم وہ پیمان شکن تم ہی ہو۔ آج ولدالزنا ابن ولدالزنا (عبید اللہ بن زیاد) نے مجھے دو چیزوں کے درمیان لاکھڑا کیا ہے، تلوار کھنچنے یا ذلت قبول کرنے کا، میں ہرگز ذلت قبول نہیں کروں گا۔ خدا اور اس کا رسول اور مومنین ہرگز ذلت پسند نہیں کرتے، ہماری پرورش کرنے والے پاک دامن، بیدار مغز اور غیرتمند ہیں، ہم ہرگز پست و کمین کی اطاعت نہیں کریں گے۔ اس مختصر جماعت کیساتھ میں تم سے جنگ کروں گا اگرچہ مجھے مدد گاروں نے تنہا چھوڑ دیا ہے۔"

اس کے بعد آپ نے کچھ اشعار پڑھے کہ جن کا ترجمہ یہ ہے "اگر ہم کامیاب ہوتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں، ہم تو ایک زمانہ سے کامیاب ہیں اور اگر مغلوب ہوتے ہیں تو بھی ہم مغلوب نہیں ہیں، ڈرنا ہماری عادت نہیں، لیکن دوسرں کی بدولت قتل ہونا ہماری عادت ہے۔ اے کفران پیشہ لوگو! خدا کی قسم میری شہادت کے کچھ دنوں بعد ہی، اتنی ہی دیر بعد کہ جتنی دیر میں ایک سوار اپنے گھوڑے پر سوار ہوتا ہے، زمانہ تمہیں چکی کے پاٹوں کی طرح پیس دے گا اور تم کو خوف و ہراس کے دریا میں ڈبو دے گا۔ یہ وعدہ میرے والد نے میرے جد کی طرف سے مجھ سے کیا ہے، تم اپنی اور اپنے ساتھیوں کی رائے کے بارے میں ایک بار پھر غور کرو، تاکہ تم زمانہ کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہ سکو، میں نے تو اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا ہے، میں جانتا ہوں کہ خدا کی قدرت بالغہ کے بغیر روئے زمین پر کسی چیز کو حرکت نہیں ہوتی۔

اے اللہ! اس قوم کو آسمان کی بارش سے محروم کر دے، انہیں یوسف کے قحط جیسے قحط میں مبتلا کر دے اور ان پر ثقفی غلام کو مسلط کر دے کہ وہ انہیں زہر کے جام پلائے۔ میرا، میرے اہلبیت ؑ، میرے اصحاب اور میرے شیعوں کا ان سے انتقام لے کہ انہوں نے ہمیں جھٹلایا اور ہمیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ تو ہی ہمارا پروردگار ہے، ہم تجھ ہی سے لو لگائے ہیں، تجھ ہی پر توکل کرتے ہیں اور تیری ہی طرف ہماری بازگشت ہے۔“ پھر یزیدی لشکر کے سپہ سالار عمر بن سعد سے فرمایا؛ ”تم مجھے قتل کرو گے؟ تم یہ سمجھتے ہو کہ عبیداللہ بن زیاد تمہیں ”رے“ کی حکومت بخش دے گا؟ خدا کی قسم! تمہاری یہ آرزو ہرگز پوری نہ ہوگی۔ جو چاہو کرو، میرے بعد تم نہ دنیا میں خوش رہو گے اور نہ آخرت میں، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ کوفہ میں تمہارا سر نیزہ پر نصب ہے اور بچے اس کا نشانہ لے رہے ہیں۔"

تحریر: حافظ سید ریاض حسین نجفی
صدر وفاق المدارس الشیعہ پاکستان

جنوبی افریقہ ایک عیسائی ملک ہے جس کی پانچ کروڑ آبادی میں ساڑھے چھ لاکھ  لوگ مسلمان ہیں۔ لیکن زمین کے جنوبی نیم دائرے کی سب سے بڑی مسجد میڈرانڈ شھرجوہانسبرگ اورپریٹوریا کے درمیان  ایک ایسی پہاڑی پر موجود ہے جو مشھور سڑک NI کے کنارے واقع ہے ۔  یہ مسجد ان لوگوں کو اپنی جانب جذب کرتی ہے جو  آئے دن  پری ٹوریا سے جوہانسبرگ کے درمیان سفر کرتے رہتے ہیں ۔

مسجد نظامیہ اپنی خوبصورتی کے علاوہ رات کے وقت بھی خاص خوبصورت  روشنیوں کے ذریعے اور بھی خوبصورت اور دل ربا نظر آتی  ہےاور ہر دیکھنے والے کی نظروں کو اپنی جانب جذب کرتی ہے۔

 

 

مسجد نظامیہ ترکیہ کے سرمایہ داروں کے ذریعے تعمیر ہوئی ہے۔ اس تعمیری پروجیکٹ میں مسجد کے علاوہ  تین سو طالب علموں کی گنجائش کے ساتھ  ایک ہوسٹل ، ایک سٹیڈیم ،ایک ھزار مھمانوں کی گنجائش والا ریسٹورنٹ ،آٹھ سو آدمیوں کے لئے آڈیٹوریم ، ،ایک بڑی کلینک ، تجارتی مرکز اور ایک مقبرے پر مشتمل ہے۔  اس پروجیکٹ کی لاگت پانچ کروڑ ڈالرآئی ہے۔ اوراس پروجیکٹ کی تعمیر میں سب ضروری چیزیں جیسے سنگ مرمر اور مختلف ٹائلیں ترکیہ سے لائیں گئیں ہیں اور ترکیہ سے پانچ سو مزدوروں کو مسجد کی تعمیر کیلئےلایا گیا۔

 اس مسجد کے پروجیکٹ کی  تعمیر میں تین سال لگ گئے ہیں اور ۲۰۱۲ کے ستمبر کے مہینے میں اس کا افتتاح کیا گیا ہے۔

 

مسجد نظامی اسلامی پروجیکٹس کے درمیان مسجد سلیمیہ کے نقشے کے مطابق بنی ہوئی ہے جو سولہویں صدی عیسوی میں عثمانی سلطنت کے درباری معمار (معمار سینان) نے مغربی ترکیہ کے  شھر ادیرنہ جو اس وقت عثمانی سلطنت کی راجدھانی تھی، تعمیر کی گئی ہے۔

اس مسجد کےایوان اور ستون اور گنبد اور اس کی خوبصورتی حتی کہ خطی نوشتہ جات بھی مسجد سلیمیہ کے مانند ہیں۔

 

مسجد نظامیہ کے تین بڑے دروازے ہیں اور اس میں ۲۰۰ سو سے زائد کھڑکیاں ہیں اس مسجد کے چارمینار ہیں جو  کہ سطح زمین سے  ۵۵ میٹر بلند ہیں۔

 

اس مسجد کے گنبد کا قطر چوبیس میٹر ہے جو زمین سے ۳۲ میٹر اونچا ہے ،اس مسجد میں چھ ہزار لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ محراب کے ساتھ میں ایک ستون یشمی پتھر کا بنا ہوا ہے جو متحرک ہے اور جو زلزلہ کے دوران دوسرے ستونوں کو خراب ہونے سے بچاتا ہے ۔ چھت کی نقاشی کا کام مشھور نقاشوں کے ذریعے انجام پایا ہے اور فرش پر اسی ھنر سے ہاتھ کے بنے ہوئے قالین  شھر قونیہ کے قالی بافوں کے ذریعے بنائے گئے ہیں جو بالکل چھت کے نیچے بچھائے گئے ہیں۔

 

مدرسہ

مدرسہ نظامی میں ۳۰۰ طالب علموں کے لئے رہنے کی جگہ ہے جس میں ۲۰۰ طالب علم چوبیس گھنٹے وہاں رہتے ہیں اس مدرسہ میں ایک ورزشی سٹیڈیم اور آڈیٹوریم ہال ہے جس میں ۸۰۰ آدمیوں کی جگہ ہے۔

کلینک

 “نلسن مانڈیلا ” کی درخواست پر اس مسجد کے ساتھ  ایک ھزار میٹر مربع پر کلینک تعمیر ہوئی ہے جس میں دس سپشل ڈپارٹمنٹ ہیں، اس کلینک  کے اخراجات جنوبی افریقا کی ہیلتھ منسٹری ادا کرتی ہے۔ اس میں ہر طرح کا علاج مفت فراھم کیا جاتا ہے۔

ریسٹورنٹ

اس پرجیکٹ کے بیسمنٹ (تھہ خانہ) میں ایک ھزار آدمیوں کی جگہ ہے جس میں ماہ مبارک رمضان کے دوران  عثمانی حکومت کے طرز پر روزہ دار افطار کرتے ہیں ، یہ افطار خرما اور سوپ اور ہلکے غذاؤں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ افطار کرنے کے بعد نماز جماعت ادا کی جاتی ہے۔

اس ریسٹورنٹ میں سائنسی اور مذھبی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں اور مسلمانوں کی شادیوں کے لئے دعوت کی سہولت بھی مہیا ہے۔

عثمانی بازار

یہ بازار دس عدد دکانوں پر مشتمل ہے جس میں دستکاری کے اشیاء ،فوڈ کورٹ ، میٹھائی کی دکان، کافی شاپ ، کپڑوں کی دکان ، گھریلو ضروریات کی دکان، اور کتابیں اور سٹیشنری وغیرہ دستیاب ہیں۔  جو جنوبی آفریقا میں رہنے والے ترک لوگوں کو کرایہ پر دی گئی ہیں تا کہ وہ ترکیہ کا آداب و رسوم اور کلچر یہاں کے لوگوں کو سمجھائیں۔

 

اس مسجد کی افتتاحی تقریب میں جنوبی افریقہ کے صدر ” جاکوب جوما” اور ریاست “خاتنگ” کی سرکاری شخصیات ، اسلامی ممالک کے سفراء وغیر موجود تھے۔ جاکوب جوما نے اپنے افتتاحی تقریر میں ” اس مسجد کی تعمیر کو ادیان کے درمیان وحدت کا ایک مظھر قرار دیا”

اسلامی اثرکی نمائش

نمائش کے مرکز میں ،عظیم  اسلامی آثارکو رکھا گیا ہے جو ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف جذب کرتے ہیں۔ ان آثار میں عثمانی دور کے آثار، ھندوستان کا تاج محل اور . . .  وغیر شامل ہے۔

 تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں مقبوضہ فلسطین کے قصبے "بیتا" کے مسلمان شہریوں کی بے مثال مزاحمت کی قدردانی کرتے ہوئے اسے اسلامی مزاحمت کیلئے رول ماڈل قرار دیا ہے۔ یاد رہے گذشتہ سو دن سے بیتا قصبے کے مسلمان فلسطینی شہری غاصب صہیونی فورسز کے مقابلے میں مزاحمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا: "بیتا قصبے میں ہمارے عزیز گذشتہ سو دنوں سے مزاحمت کر رہے ہیں۔ میں جبل صبیح کے پاسبانوں پر درود بھیجتا ہوں جو غاصب اور جارح دشمن کے مقابلے میں اپنی مٹی اور سرزمین کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ افراد ہماری نیابت میں اپنے حقوق حاصل کرنے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا: "اس سو روزہ شجاعانہ مزاحمت نے تین ایسے حقائق واضح کر دیے ہیں جو غاصب صہیونی رژیم کے ناجائز قبضے اور یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف قومی شعور کی علامت ہیں۔"
 
اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ پہلی حقیقت یہ ہے کہ ہماری عوام، عوامی مزاحمت کے ذریعے اور اسے وسعت دے کر اور اس کیلئے نت نئے ہتھیار بنا کر اپنے جائز حقوق کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسری حقیقت عمل کے میدان میں وحدت اور اتحاد ہے۔ اس اتحاد کی بدولت ہر گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد احتجاجی مظاہروں میں شریک ہو رہے ہیں۔ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ تیسری حقیقت یہ ہے کہ "بیتا" کا قصبہ فلسطینی عوام کی اپنی سرزمین سے وفاداری کی علامت بن چکا ہے۔ اس مزاحمت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ سازباز کے مخالف ہیں اور غاصب صہیونی رژیم کی سازشوں کے خلاف ڈٹ جانے کے قائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیتا میں شہید، زخمی اور جلاوطن ہونے والے شہریوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور غاصب اور شدت پسند یہودی آبادکاروں کی نابودی تک ان کے حامی ہیں۔
 
اسماعیل ہنیہ نے غاصب صہیونی رژیم کو خبردار کرتے ہوئے کہا: "قدس شریف کے دفاع کیلئے اٹھائی گئی شمشیر قدس ابھی تک نیام میں نہیں ڈالی گئی اور غاصب صہیونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد بدستور جاری ہے۔ ہماری جنگ فلسطینی قوم کی آزادی اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی تک جاری رہے گی۔" اسماعیل ہنیہ نے مغربی کنارے میں مقیم فلسطینی شہریوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بیتا قصبے کے اہالی کی مدد اور حمایت کریں۔ انہوں نے مغربی کنارے کے شہریوں سے کہا کہ وہ بیتا قصبے کے اہالی کی طرح یہودی آبادکاروں کے خلاف فیصلہ کن اور مسلح کاروائیاں انجام دیں۔ یاد رہے گذشتہ دو ماہ سے مغربی کنارے کے مختلف حصوں میں صہیونی سکیورٹی فورسز اور فلسطینی عوام کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ بیتا قصبے کے علاوہ ایویتار اور جبل صبیح کے قصبوں میں بھی یہ جھڑپیں انجام پا چکی ہیں۔ ان دو قصبوں کے شہریوں نے شدید مزاحمت کے بعد یہودی آبادکاروں اور صہیونی فورسز کو یہ علاقے خالی کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

کربلا بھی عجب ہے کہ جب بھی اس کے بارے سوچا، اس کا خیال دل میں لائے، اس کو جاننے کی جستجو کی، اس کو پڑھنے کی کوشش کی، اس کو سمجھنے کا ارادہ کیا، اس کی معرفت کا در وا کیا، اس کے دروازے پہ دستک دی، اس کی گہرائیوں میں جھانکنے کی سعی کی، اس کی حقیقت کو پانے کی کوشش کی، اس نے پہلے سے زیادہ معرفت عطا کی۔ پہلے سے بڑھ کر پیاس اور تڑپ پیدا کی، نئے زاویئے کھولے، نئی گرہیں کھولیں، نئے در وا کئے۔ چودہ صدیاں ہوگئیں اس فاجعہ کو، ابھی تک اس پر ایسے ہی بات ہوتی ہے، جیسے بس آج کا سانحہ ہو، جیسے گزرے کل کی بات ہو۔ جو بھی ایام محرم میں اس کی طرف متوجہ ہوا کہ کچھ مل جائے، اسے معرفت کے نئے خزانے مل گئے۔ ہم جو چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس کی گہرائیوں اور اس کی معرفت کی کوشش کرکے نئے زاویوں سے آگاہ ہو کر جھوم جھوم جاتے ہیں، کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہم نے امام حسین ؑ اور ان کے نانا کو دیکھا نہیں، ہم نے ان کی زیارت نہیں کی، ہم نے ان کی مصاحبت نہیں کی۔

ہم نے ان کے چہرہ انور کی زیارت کرتے ہوئے ان کی زبان وحی سے حسنین کریمین ؑ کی شان اقدس میں احادیث مبارکہ "حسین مجھ سے ہے، میں حسین سے ہوں، جو اس سے محبت رکھے گا، وہ مجھ سے محبت رکھے گا، اللہ اسے دوست رکھے گا، جو اسے دوست رکھے گا۔"، "حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔" بیان کرتے نہیں سنی۔ ہم نے مسجد نبوی میں خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ، محبوب کبریا کو خطبہ دیتے منبر سے اتر کر شہزادوں کو اٹھا کر گود میں بٹھاتے نہیں دیکھا اور ہم نے وحی کے بغیر کلام نہ کرنے والے نبی رحمت کو واجب نماز میں حالت سجدہ میں شہزادگان کو نانا کی پیٹھ پہ سوار ہو کر سواری کرتے اور سجدے کی طوالت میں نہیں دیکھا۔ ہم نے رسول خاتم کو امام حسین ؑ کی زندگی میں جب بی بی ام سلمیٰ کو ایک خاک والی شیشی دی اور فرمایا کہ اسے سنبھال لو، جب یہ خون میں تبدیل ہو جائے تو سمجھ لینا میرا حسین دشت نینوا میں شہید ہوگیا، یہ کہتے ہوئے امام حسین ؑ پر رسول خدا کو عزا برپا کرتے، گریہ کرتے نہیں دیکھا۔ پھر بھی ہم نے یقین کیا۔

ہم نے رسول خاتمؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے امام حسین ؑ کے غم میں آنسوؤں کا سیلاب برپا کر دیا، جس نے یزیدیت کی اسلام کے خلاف سازشوں کو بہا دیا۔ ہم نے چودہ صدیاں بعد بھی رسول و آل رسول کے غم کو اپنے غموں سے بڑھ کر اہمیت دی، جو بھی حسینی ہیں، اپنے غموں کو بھول کر ان ایام میں فقط آل نبی کے غموں پہ نوحہ کناں اور ماتم کناں ہوتے ہیں۔ کیا عجیب لوگ تھے، جو چودہ صدیاں پہلے رسول خدا کی زبان وحی سے سب کچھ سن کر جنت کے ان سرداروں کو اپنی تلواروں سے خون میں تر بہ تر کرنے کیلئے تل گئے۔ کیا عجیب لوگ تھے، جو خاتم الانبیاء کو  بوسے دیتے، گلے لگاتے، چومتے، واجب نماز میں پیٹھ پہ سواری کرواتے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی بے قصور قتل کرنے کیلئے ایک دوسرے سے سبقت لینے کی دوڑ میں شامل نظر آئے۔ کربلا عجب ہے کہ اس نے عرب کے قبائلی تعصب، جو بہ طاہر چھپ گیا تھا اور نوزائیدہ اسلام کے وسیع مفادات کی وجہ سے بہ ظاہراً چھپ گیا تھا، رسول خاتم کی رحلت کے چند برس بعد ہی اسے کھول کر رکھ دیا کہ اب رہتی دنیا تک طلقاء کی اولادوں کے ہاتھوں اسلام پر ہونے والے حملوں اور سازشوں کا پردہ چاک کرنے میں کسی کو جھجھک نہیں ہوتی۔

ہاں اس میں بھی چودہ صدیاں پہلے کی طرح آل نبی کے ساتھ تعصب برتنے والے پیچھے نہیں رہتے، اگر اپنی آنکھوں سے رسول خاتم ؐ کو دیکھنے اور سننے والوں سے کربلا کا عظیم سانحہ رونما ہونا ممکن ہے تو آج کے چودہ صدیاں بعد کسی متعصب، ناصبی طلقاء کی اولاد سے جب یہ سنتے ہیں کہ محرم میں شادیاں رچاؤ، بہت ثواب کا کام ہے تو حیرانی کیسی۔؟ مجالس امام حسین ؑ ، جلوس ہائے عزاء کی مخالفت کرنے والے اس دور کے نام نہاد مسلمانوں کے اس عمل پر قطعاً حیرانگی نہیں ہوتی کہ اللہ کے نبی جس نے انہیں کلمہ پڑھایا، مسلمان بنایا، اس سے مسواک کا سائز، عمامے کا رنگ تک تو لینا نہیں بھولے، اگر بھولے ہی ہیں تو نبی رحمت کے فرزندان کے بارے معتبر ترین حدیث کو بھول گئے اور غم حسین منانے ؑ کی سنت بھول گئے، ایسے نام نہاد مسلمانوں کی طرف سے جب جلوس و مجالس کی مخالفت سامنے آتی ہے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیئے۔ یہی امت مسلمہ کی تاریخ ہے، یہی ان کی محبت رسول ہے، یہی ان کا دعویٰ محبت اہلبیت ؑ ہے۔

جو لوگ یزید کی وکالت کیلئے مرے جا رہے ہیں، ان کو بھی یہ ورثہ ان کی گھٹیوں میں پلایا گیا ہے، جس طرح محرم میں شادیاں کروانے پر زور دیا جا رہا ہے، دراصل یہ یزید زادے پیدا کرنے کا منظم منصوبہ ہے، علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے بجا فرمایا تھا کہ
حقیقتِ ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
اور در معنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا میں فرمایا۔۔
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید
یزید فرعون، نمرود و شداد کا وارث تھا، جس کا راستہ آل ابراہیم، آل ابو ہاشم کے چشم و چراغ امام حسین ؑ نے روکا، ورنہ اسلام جو ابھی نوزائیدہ تھا، وہ آل امیہ اور طلقاء کی اولادوں کے قبضہ میں چلا گیا تھا اور ان کی ازلی سازشوں کی نذر ہو جاتا اور لوگ ان کے پراپیگنڈہ اور چکا چوند سے اصل کو بھول ہی جاتے۔

مگر امام حریت و آزادی نے اپنے اکہتر ساتھیوں سمیت ریگ زار کربلا پر ایسا تاریخ ساز معرکہ لڑا، جس کے بعد رہتی دنیا تک اسلام کی حقانیت اور اس کی تازگی شہدائے کربلا کے سرخ خون کی بدولت خوشبو بکھیرتی رہیگی اور اس واقعہ پہ لکھنے والے اپنے قلم کی سیاہی سے شہداء کے پاک لہو کی سرخی کو اوراق تاریخ پر نقش کرتے رہینگے۔ علامہ محمد اقبال (رہ) نے جو لکھا ہے، وہ انتہائی قابل غور ہے، فرمایا
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است
پس بنائے لا الہ گر دیدہ است

اب قیامت تک یزید کے پیرو، اس کے چاہنے والے، اس سے محبت اور فرزند نبی سے اپنا بغض اور دشمنی رکھنے اور دکھانے والے آتے رہیں، اس سے اسلام کو کچھ فرق نہیں پڑنے والا، اسلام تا قیامت جبر و استبداد اور بادشاہت، خاندانی وراثت کے دعویداروں کی خونی پنجوں سے آزاد ہوچکا، امام حسینؑ اور ان کے جاں نثار ساتھیوں نے وفاؤں کے جو چراغ روشن کئے، اس کے بعد اگر امت مسلمہ سے کسی نام نہاد مسلمان کے زبان و عمل سے امام عالی مقام امام حسین ؑ اور ان کے پاکباز ساتھیوں کے غم کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اس کی مخالفت کی جاتی ہے تو بھلے کرنے دو، امام حسین کو تو بس جو چاہیئے تھے، وہ شب عاشور ان کے پاس تھے اور کہہ رہے تھے۔۔۔
دیا بجھا کے کہتے تھے ساتھیوں سے یہ حسین ؑ
جو چاہو ڈھونڈ لو کوئی رستہ اماں کیلئے
کہا یہ سن کے رفیقوں نے یک زبان ہو کر
یہ جان تو وقف ہے مولائے انس و جاں کے لئے
ہماری تو منزلِ آخر ہے آستان حسین ؑ
یہ سر جھکے گا نہ اب اور کسی آستاں کے لئے

تحریر: ارشاد حسین ناصر

نائجیریا میں حضرت امام حسین (ع) کی عزاداری میں عوام کی بھر پور شرکت

نائجیریا میں نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظيم الشان قربانی کی یاد میں مجالس عزا میں عزاداروں کی بھر پور شرکت کا سلسلہ جاری ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق نائجیریا میں نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظيم الشان قربانی کی یاد میں مجالس عزا میں عزاداروں کی بھر پور شرکت کا سلسلہ جاری ہے۔

نائجیریا میں 7 ملین شیعہ آباد ہیں نائجیریا کی اسلامی تحریک شیعوں سے متعلق ہے جس کے سربراہ شیح ابراہیم زکزاکی ہیں۔ نائجیریا کے زیادہ تر شیعہ لاگوس ، زاریا اور کانو میں آباد ہیں۔

حال و هوای مراسم عزاداری سالار شهیدان در نیجریه‌

 

نائجیریا کے شیعوں نے ہر سال کی اس سال میں مجالس عزا برپا کی ہیں جس میں نائجیریا کے جوان بھر پور انداز میں شرکت کرکے حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ اپنی محبت اور وفاداری کا اعلان کررہے ہیں اور آنحضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کو ان کے نواسے کا پرسہ دے رہے ہیں۔

حال و هوای مراسم عزاداری سالار شهیدان در نیجریه‌

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں حسینیہ امام خمینی (رہ) میں سید الشہداء حضرت امام حسین (ع) اور ان کے بہتر ساتھیوں کی یاد میں  پہلی مجلس عزا منعقد ہوئی۔ گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی کورونا وائرس کی روک تھام اور رہبر معظم انقلاب اسلامی  کی طرف سے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے والی قومی کمیٹی کی ہدایات پر عمل کرنے کی تاکید کی روشنی میں مجالس عزا میں عوام کو دعوت نہیں دی گئی ۔ مجالس عزا کا سلسلہ محرم الحرام کی ساتویں شب سے لیکر بارہویں شب تک جاری رہےگا۔مجالس عزا کا پروگرام ٹی وی سے براہ راست نشر کیا جائےگا۔

Sunday, 15 August 2021 09:22

مستقبل کا افغانستان


طالبان کی تیز رفتار پیشقدمی جاری ہے۔ طالبان اندازوں سے کہیں زیادہ سرعت سے کابل کے قریب پہنچ جائیں گے۔ غزنی اور قندھار کے بعد مزار شریف بھی طالبان کے ہاتھوں سقوط کر گیا ہے۔ افغانستان کے شہر مزار شریف کے مکمل سقوط کر جانے کی خـبریں کنفرم ہوچکی ہیں۔ طالبان کے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ صوبہ بلخ کا صدر مقام مزار شریف مکمل طور پر ان کے قبضے میں آگیا ہے۔ مزار شریف شمالی افغانستان کا اہم ترین شہر شمار ہوتا ہے۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہر میں داخل ہونے کے بعد مزار شریف جیل میں موجود تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا ہے۔ مزار شریف ماضی میں طالبان سے فتح نہیں ہوسکا تھا۔ اس بار طالبان نے جنگی حکمت  عملی تبدیل کرکے اس اہم شھر پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کمانڈر عطاء محمد نور اور مارشل دوستم جو مزار شریف کا دفاع کر رہے تھے، حیرتان نامی علاقے کی جانب کوچ کرگئے ہیں، بعض خبروں میں ان کے تاجکستان فرار کی خبریں موصول ہوئي ہیں۔

طالبان کا پورے افغانستان پر قبضہ اب نوشتہ دیوار ہے۔ ایران سمیت تمام ہمسایہ ممالک ان کو تسلیم کرنے پر تیار  نظر آرہے ہیں۔ ایران کی پہلی ترجیح افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء ہے۔ امریکہ پینترا بدل کر پلان بی پر عمل درآمد ضرور کرے گا۔ افغانستان میں ناامنی جاری رہے گی اور یہی امریکی خواہش ہے۔ امریکہ کا بی پلان کیا ہے، اس ہر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ فوجی انخلاء کے باوجود ایک فور اسٹار امریکی جرنیل کی تعیناتی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ مزار شریف پر قبضے سے پہلے طالبان گروہ، شبرغان، نیمروز، قندوز، سرپل، سمنگان، پلخمری، تخار اور فراہ پر قبضہ کرچکا ہے جبکہ غزنی، ہلمند، قندھار اور ہرات پر بھی طالبان کا تسلط ہے۔ ادھر امریکی ذرائع ابلاغ دارالحکومت کابل پر قبضے کی بات کر رہے ہیں۔

روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ  افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کا قبضہ سی آئی اے کی پیش گوئی سے پہلے ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اخبار کے مطابق سی آئی اے نے پیش گوئی کی تھی کہ امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد چھے ماہ سے ایک سال کے اندر طالبان کابل میں داخل ہوسکتے ہیں، لیکن اب ایک انٹیلی جینس افسر نے صاف صاف کہا ہے کہ ہر چیز غلط راستے پر جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ ادھر صدر جو بائیڈن نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا ہے کہ ہم نے بیس سال کے دوران ٹریلینز ڈالر افغانستان پر خرچ کیے ہیں اور اب افغانیوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے اور اپنے ملک کے لیے خود جنگ کریں۔ افغانستان کے عوامی اور سیاسی رہنماء ملک کی موجودہ صورتحال کو امریکہ اور طالبان کے درمیان خفیہ معاہدے کا نتیجہ قرار  دے رہے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری دوہزار بیس میں ہونے والے معاہدے کے تحت امریکی فوجی افغانستان سے نکلنا شروع ہوگئے ہیں، یہ عمل گیارہ ستمبر سے پہلے مکمل ہو جائے گا۔ امریکی فوجیوں کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان نے افغانستان میں حملے تیز کر دیئے تھے اور  اس وقت ملک کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرچکے ہیں۔ چین، روس ایران اور پاکستان طالبان کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ ادھر افغان صدر اقتدار سے الگ ہونے کے لئے جو شرط عائد کر رہے ہیں، طالبان اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اشرف غنی انتخابات یا موجودہ آئین کے اندر رہ کر شرکت اقتدار کی بات کرتے ہیں جبکہ طالبان موجودہ افغان آئین کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے اور امارت اسلامی کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔

پاکستان کی طرف سے یہ کہنا کہ کابل پر طاقت کے ذریعے اقتدار میں آنے والے کو قبول نہیں کیا جائیگا، ایک واضح اشارہ ہے کہ طالبان مختلف گروہوں کو ملا کر اقتدار میں آئے۔ طالبان کی حکمت عملی کے پیچھے اسلام آباد کے بالواسطہ مشورے شامل ہیں اور طالبان کابل کے مکمل محاصرے کے بعد مختلف گروہوں کو ملا کر شرکت اقتدار کا ایک جامع منصوبہ سامنے لائے گا، جس کو پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک حتی عالمی ادارے بھی تسلیم کر لیں گے۔ طالبان کے عمل و کردار میں ماضی کی نسبت کیا تبدیلی آسکتی ہے، وہ ان کی مرکزی قیادت میں تو قابل درک ہے، لیکن مقامی قدامت پسند اور روایتی ملاں مرکزی قیادت سے کتنے ہم آہنگ ہوسکتے ہیں، اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ امریکہ بہادر، چین، روس اور ایران کو ایسا افغانستان ہرگز نہیں دے سکتا، جو امریکی مفادات کی بجائے ان ممالک کے لئے سودمند ثابت ہو۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ محرم الحرام   وہ مقدس مہینہ ہے جس میں دین اسلام کی بقا اور دوام کے لئے نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین (ع) نے اپنا پورا کنبہ لٹا دیا، اور اپنے اعزا و اقربا اور اصحاب کے  خون سے اسلام کی آبیاری کی۔ ۔واقعہ کربلا محض ایک  واقعہ یا اسلامی تاریخ کا ایک باب نہیں  بلکہ یہ رہتی دنیا تک کے لئے ایک واضح مثال ہے۔سانحہ کربلا نے دنیا میں  بنی نوعِ انسان کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا اور حق و باطل کے مابین ایک واضح لکیر کھینچ دی ۔ آج بھی ایک  گروہ حضرت امام حسین (ع) اور ان کے بہتر ساتھیوں کا پیروکار اور شیعہ ہے جو حق اور سچ کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہے جبکہ دوسرا گروہ یزید ، معاویہ ، ابوسفیان اور ہندہ جگر خوارہ کا طرفدار ہے جو آج بھی ظلم اور ظالم کا طرفدار ہے۔

واقعہ کربلا کی  حقانیت  آج بھی ہر باضمیر  انسان  کےچہرے سےچھلکتی ہے،اگرچہ اسکا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو ۔اگر کسی بھی شخص کا   ضمیر زندہ ہے اور اسکے دل میں انسانیت کے لئے درد پنہاں ہے تو وہ حسینی (ع)  ہے ۔ 

کربلا کے معرکے کے بارے میں سوچیں تو روح تھر تھرکانپ جاتی ہے اور  جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ۔یہ ایک ایسا خونچکاں  واقعہ ہے  جس میں ایک جانب اطاعت خداوندی ،ایثار ، قربانی  اور عبادات کے پہلو ملتے ہیں تو دوسری جانب ظالم حکمران کا  اپنی عددی طاقت کی بنا پر غرور اور کبر نظر آتا ہے ۔ کربلا کی سرزمین تو وہ ہےجس کو امام حسین (ع)  کے مقدس خون کی وجہ سے بے مثال مقام مل گیا ۔ آج اسی سرزمین ننیوا کو  کربلائے معلیٰ کہا جاتا ہے۔  یہ ایک ایسے  مظلوم کا مقتل ہے  جو نبی کریم کے خاندان کا چشم و چراغ اور آنحضور کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ،جو کل بھی دینِ محمد(ص) کا محافظ تھا اور آج بھی محافظ  ہے ۔ تاریخ میں ہے کہ جب نواسہ رسول (ص) سرزمین کربلا پر  اترے  اور آپؓ کو بتایا گیا کہ یہ کربلا ہے تو آپ  سن کر بہت روئے اور فرمایا کہ یہاں سے ایک  مشت خاک اٹھا کر مجھے دے دو ۔ آپ کے حکم کی تعمیل کی گئی ۔ امام عالی مقامؓ نے وہ مٹی سونگھی   اور پھر اپنے کرتے کی جیب میں سے ایک مٹھی مٹی نکالی  اور فرمایا کہ یہ وہی مٹی ہے  کہ جو جبرائیل علیہ السلام کے توسط سے اللہ تعالی نے میرے نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیل و آلہ وسلم کو بھیجی تھی  اور کہا تھا کہ یہی حسین (ع) کی تربت کی مٹی ہے ۔

 حضرت امام حسین علیہ السلام  وہ  عظیم اور ذی وقار ہستی ہیں جن کے لئے پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں ، جس نے اس سے محبت کی اس نے گویا مجھ سے محبت کی اور جس نےا سے اذیت دی اس نے گویا مجھے اذیت دی ‘ لیکن حیف ہے ایسی جاہل اُمت پرکہ جنہوں نے کلمہ پڑھ کر امام حسین (ع) کی گردن پر کند خنجر چلا دیا ۔ اس گردن کو تہ تیغ کر دیا جس پر ہمارے پیارے نبی (ص)  بوسے دیا کرتے تھے ۔ 

دیکھا جائے تو کربلا کے شہیدوں نے ہمیں حقیقی معنوں میں  اطاعتِ خداوندی اور حریت کا درس دیا ۔انھوں نے بتایا  کہ  صرف نمازیں پڑھنا یا اذانیں دینا ہی کافی نہیں،قرآن کے ساتھ ساتھ ناطقِ قرآن کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ 

کربلا کا معرکہ آج بھی جاری و ساری ہے ۔ آج بھی ایک جانب مظلوم اور محکوم اقوام ہیں تو دوسری جانب  ظالم اور جابرحکمراں ہیں۔ حق و باطل کا معرکہ فلسطین، یمن ، لبنان اور دیگر مقامات پر جاری ہے جہاں ایک طرف اس دور کے یزید امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں اور ایک طرف فلسطین ، یمن اور لبنان کی مظلوم اقوام ہیں۔

 لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سيد حسن نصر اللہ نے محرم الحرام کی تیسری شب کے حوالے سے خطاب میں نفسیاتی جنگ کے بارے خبردار کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ بعض عناصر لبنان میں فتنے کا بازار گرم کرنے کے لئے زمینہ فراہم کر رہے ہیں لہذا مزاحمتی محاذ کے حامیوں کو بیدار رہنا چاہئے۔ العہد کے مطابق سید مقاومت نے اپنے خطاب کے دوران مزاحمتی محاذ کے حامیوں کو چند ایک نصیحتیں کیں اور حقیقت نقل کرنے میں صداقت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بغیر ثبوت کے کسی پر افتراء نہیں باندھنا چاہئے، کسی پر الزام عائد نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی کسی کو برا بھلا کہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کے ساتھ اختلاف نظر کا مطلب اس پر حملہ نہیں.. تنقید ایک چیز ہے اور حملہ دوسری۔

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ علماء یا میڈیا پرسنز میں سے اگر کوئی سیاست کے بارے کچھ کہہ دے تو ہمیں اس کا جواب دینے کا حق حاصل ہے لیکن اس شخص پر حملہ کئے بغیر.. کیونکہ برا بھلا کہنا اور توہین کرنا کمزوری کی علامت ہے۔ سربراہ حزب اللہ نے کہا کہ حزب اللہ میں موجود تمام ذمہ دار افراد و علماء وغیرہ سے توقع ہے کہ اگر کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو وہ اس کے بارے وضاحت پیش کریں اور نفسیاتی جنگ کو ہلکا نہ سمجھیں۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں تاکید کی کہ ہمارا ملک انتہائی حساس مرحلے میں اور ہم ایک سخت و طولانی معرکے میں ہیں لہذا مزاحمتی محاذ کے حامیوں کو بیدار رہنا چاہئے اور ہم میں سے ہر ایک شخص ایک ذمہ داری اٹھا لے۔

واضح رہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جارحیت کے خلاف حزب اللہ لبنان کی جانب سے صیہونی اہداف پر ہونے والے جوابی حملے کے بعد لبنان کے میرونائٹ عیسائیوں کے سربراہ بشاره پطرس الراعی نے حزب اللہ کے خلاف بیان دیتے ہوئے لبنانی فوج سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس تنظیم کو روکے جس کے بعد لبنانی مزاحمتی محاذ میں اس حوالے سے ناراضگی پائی جاتی تھی جس کے اثرات سوشل میڈیا پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔