سلیمانی

سلیمانی

حدیث سلسلۃ الذہب:

" اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِی‏ فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا،

خداوند کا ارشاد ہے: کلمہ لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ، میرا مضبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہو گا، وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو امام رضا (ع) نے فرمایا: البتہ اس کے کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک شرط ہوں۔

اسحاق ابن راہویہ کہتے ہیں: جب امام رضا (ع) خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر پہنچے تو مُحدِّثین کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:‌

اے فرزند پیغمبر ! آپ ہمارے شہر سے تشریف لے جا رہے ہیں، کیا ہمارے لیے کوئی حدیث بیان نہیں فرمائیں گے ؟

اس مطالبے کے بعد امام (ع) نے اپنا سر کجاوے سے باہر نکالا اور فرمایا:

میں نے اپنے والد گرامی موسی ابن جعفر (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی جعفر ابن محمّد (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی محمّد ابن علی (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی علی ابن الحسین (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی حسین ابن علی (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (ع) سے، انہوں نے رسول خدا (ص) سے، آپ (ص) نے جبرائیل سے سنا، جبرائیل کہتے ہیں پروردگار عزّ و جلّ فرماتے ہیں:

اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِی‏ فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا،

خداوند نے فرمایا ہے: کلمہ لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ میرا مضبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہو گا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو امام رضا (ع) نے فرمایا: البتہ اس کی کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک شرط ہوں۔

آج ہر طرف چراغانی ہے، مسرتوں کی انجمن ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہے، ہند و پاک ہو کہ ایران و عراق یا جہان تشیع و کائنات محبان اہلبیت اطہار علیھم السلام و محاذ حریت ہر طرف محفلیں سجی ہیں اور امام رضا علیہ السلام   کے فضائل و مناقب، آپکی تعلیمات سے آشنائی کے  ساتھ  آپ سے جڑا ہر دل یہ چاہتا ہے کہ عشرہ کرامت کے اس اختتامی دن کو یادگار بنایا جا سکے۔ یاد رہے کہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی یکم ذیقعدہ (1) سے ولادت کو لیکر ۱۱ذی قعدہ ولادت امام رضا علیہ السلام  (2) سے اس عرصے کو عشرہ کرامت کا نام دیا گیا ہے۔ اس لئے کہ جہاں بی بی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو کریمہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کہا جاتا ہے، وہیں امام رضا علیہ السلام کریم اہلبیت (ع) ہیں یوں تو اہلبیت اطہار علیھم السلام کا ہر فرد کریم ہے لیکن چونکہ معصومہ قم کو کریمہ اہلبیت (ع) کہا جاتا ہے اور امام رضا علیہ السلام کا کرم بھی کسی پر پوشیدہ نہیں، آپ کریم اہلبیت ہیں، لہٰذا بہن کی ولادت سے لیکر بھائی کی ولادت کے اس عرصے کو عشرہ کرامت کے طور پر منایا  جاتا ہے۔ ہم اس عشرہ کرامت کی اختتامی منزل پر ہیں، لہٰذا بہتر جانا کہ اس کے اختتام پر مفہوم کرامت و کرم کو سمجھتے ہوئے ہم ان قدروں کو اپنے اندر اجاگر کرنے کی کوشش کریں، جو امام رضا علیہ السلام نے ہم تک منتقل کرنا چاہی ہیں، چنانچہ پیش نظر تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ مفہوم کرامت کو واضح کرتے ہوئے امام رضا علیہ کی حیات طیبہ کے گلستان کرم و فضل کے چند ان خوشوں کو پیش کیا جائے، جن سے آج بھی راہ کرم و فضل کے سالک استفادہ کر رہے ہیں  اور رہتی دنیا تک یہ تعلیمات کرامت و شرف کی راہ میں مشعل راہ رہیں گے    

مفہوم کرامت:  
کرامت انسان کی ایسی خصوصیت ہے، جو انسان کی ایک  والا قدر اور اس کے  عظیم شرف کی ترجمان ہے، کرامت ہی کی بنیاد پر انسان ذاتا دوسری مخلوقات پر فضیلت رکھتا ہے، تمام ادیان و مکاتب فکر نے الگ الگ انداز سے انسان کی ذاتی کرامت کی تشریح کی ہے اور اسے عطائے رب جانتے ہوئے کرامت کو محفوظ رکھنے اور اس کے پھلنے پھولنے کے اصولوں کو بیان کیا ہے، یہاں تک کہ انسانی حقوق کے سلسلہ سے قائم مطالعات کی جدید دنیا میں (Human digneity) کے نام سے انسان کے موضوع پر ایک نئے مطالعہ کا باب تک کھل گیا ہے، (3) حتٰی یہ وہ موضوع ہے جس پر شاعروں اور فلاسفہ نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے اس پر خاص توجہ دی ہے، (4) اور ہمارے آئمہ طاہرین علیھم السلام خاص کر امام رضا علیہ السلام کی زندگی میں جا بجا انسانی کرامت کے بارز نمونے نظر آتے ہیں، ان نمونوں کو بیان کرنے سے قبل  ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کرامت کہتے کس کو ہیں اور اسکا مفہوم کیا ہے جب ہم نے مفہوم کرامت  کو ڈھونڈا تو ملا کہ لفظ کرامت "کرم" سے ہے اور لغت میں اسکے مختلف معانی بیان ہوئے ہیں کہیں یہ "بخشش و عطا" کے معنی میں ہے اور کہیں کسی کی "ارجمندی و بزرگی" کو بیان کرتا ہے کہیں "جلالت و شان" کو ابن منظور نے اسکے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کریم ایک ایسا اسم ہے جو اس ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کے اندر تمام سراہے جانے والے صفات موجود ہوں (5) گو تمام تر صفات حمیدہ کے حامل کو کریم کہتے ہیں۔

راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ جب یہ خدا سے متصف ہو تو بخشش و عطا کے معنی میں ہوگا۔ جب انسان کے لئے استعمال ہو تو اچھے اخلاق و کرادر کے طور پر اسکے معنی بیان ہوں گے، (6) انہیں معنی کے پیش نظر علماء نے کرامت کے معنی کو ایسی صفت جس سے عقلاء راضی و خوشنود ہوں، (7) نیز پستیوں کی ضد،  (8) بلندی کردار، پاکیزگی روح اور گوہر جان کے طور پر بھی بیان کیا ہے، (9) قرآن کریم نے بھی اسی روح کی بلندی کو بیان کرنے کے لئے لفظ کرامت کا سہارا لیا  چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ۔"وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى کَثِیرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلاً": اسی لئے علماء اس آیت کے ذیل میں گفتگو کرتے ہوئے کہیں اسے انسان سے مخصوص روحانی فضیلت تو کہیں ذاتی شرف کے طور پر پیش کیا ہے،(10) مفہوم کرامت کی مختصر وضاحت کے بعد یہ تو واضح ہو گیا یہ انسان کی ایک ایسی صفت ہے جو اسے پستیوں سے دور کرتی ہے اور انسان کے گوہر وجود کو بیان کرتی ہے، بعض علماء نے مفہوم کرامت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک ذاتی و وہبی کرامت جو خدا نے ہر ایک کو دی ہے، ذاتی کرامت سے مراد وہ بلندی کردار ہے جسکا ہر ایک انسان ذاتا حامل ہے مگر یہ کہ برائیوں اور رذائل کے ارتکاب کے ذریعہ اسے ختم کر دے اور پست ہو جائے، دوسرا مفہوم کرامت  اکتسابی ہے جہاں انسان اپنی ذات کی تعمیر و تطہیر اس طرح کرتا ہے کہ رذائل کی طرف دیکھتا ہی نہیں اور حصول کمالات کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔

یہی کرامت کا وہ مفہوم ہے جو انسان کی قدر و منزلت کو طے کرتا ہے [11] جب انسان کا کمال اسکی قدر و منزلت کو طے کرے تو تقوی سے بڑھ کر کمال اور کیا ہوگا جس کے لئے ارشاد ہو رہا ہے إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ: ...  (الحجرات/13)۔ خدا کے نزدیک برتری کی بنیاد تقوٰی پر ہے،بیشک وہ جاننے والا اور باخبر ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ہم امام رضا علیہ السلام کی زندگی میں دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ آپکی نگاہ میں خاندانی پس منظر یا آزاد و غلام ہونا معیار نہیں تھا،  بلکہ آپکی نظر میں شرف انسانیت، کرامت انسان کی دلیل انسان کا باطن تھا، چنانچہ ابا صلت کہتے ہیں میں امام کے خراسان کے سفر میں ہمراہ تھا کہ امام علیہ السلام نے دسترخوان بچھانے کا حکم دیا اور تمام  غلاموں اور خادموں کو آواز دی کہ آجائیں  میں نے کہا آقا میری جان آپ پر قربان انکے لئے عیلحدہ دسترخوان لگا دیتے، آپ نے فرمایا ہمارا خدا ایک ہ،م ہمارے ماں باپ ایک ہیں اور انسان کی جزا اسکے اعمال پر موقوف ہے، (12) اور ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی ایک مقام ہو جہاں امام علیہ السلام نے اپنے خادموں اور خود کے درمیان سے ہر فرق کو مٹا کر انہیں اپنے ساتھ بٹھایا ہو بلکہ آپکا شیوہ ہی یہی تھا آپ اپنے خادموں  اور اپنے یہاں  کام کرنے والوں سے بہت مانوس تھے، چنانچہ جب بھی آپکو فراغت ملتی تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو اپنے پاس جمع کر لیتے اور ان سے گفتگو فرماتے، یہاں تک کہ  اصطبل میں کام کرنے والوں تک کو آپ اپنے پاس بلا بھیجتے اور سب کے لئے دسترخوان لگا کر سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے، (13)کرامت نفس کی اس بلندی پر آپ کی ذات تھی۔

خدمت خلق کو اپنا فریضہ سجمھتے تھے ہر ایک کے کام آتے اگر کوئی آپکو نہیں جانتا اور آپ سے اس نے کسی خدمت کے لئے بھی کہا تو آپ نے نہیں کہا کہ تم یہ کام مجھ سے لے رہے ہو جانتے نہیں میں کون ہوں؟ بلکہ تاریخ کہتی ہے کہ آپ کو نہ پہچان پانے کی وجہ سے حمام میں موجود کسی شخص نے عام آدمی خیال کر کے کیسہ ملنے کو کہا تو آپ نے اس سے بھی انکار نہیں کیا اور اسکا میل صاف کرنے تک میں عار محسوس نہیں کی اور جب اس نے پلٹ کر دیکھا کہ وہ امام وقت سے کام لے رہا ہے تو اپنی جگہ سن رہ گیا اور معذرت کرنے لگا کہ مولا مجھے خبر نہیں تھی، امام علیہ السلام نے اس وقت بھی اس سے کہا کوئی بات نہیں ہے اور کوشش کی کہ اس کی شرمندگی کو دور کر سکیں، (14) یہ ہمارے امام علیہ السلام کی سیرت ہے، کیا ہم اپنے معاشرے کے نادار و غریب افراد کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتے ہیں جیسا کہ امام رضا علیہ السلام سب کے ساتھ فرماتے تھے؟ کیا ہم کسی کا بوجھ اس کے سر پر رکھنے کے لئے تیار ہیں؟ اٹھانے کی تو بات ہی دور ہے، کیا ہم اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ  ہمدردی و رواداری سے پیش آ سکتے ہیں، کیا ہم کسی غریب کا درد دل سن سکتے ہیں، کیا جب ہم کسی بڑی محفل میں شریک ہوتے ہیں تو ہمارے اندر یہ بات نہیں پائی جاتی کہ ہمیں اونچی جگہ ملے بڑا مقام ملے ہماری آو بھگت ہو، کیا ہم کسی پروگرام میں فقراء کے ساتھ ہم  طعم میں ہم سفرہ ہو سکتے ہیں، کیا ہم کسی انسان کا خاموشی سے کوئی کام کر سکتے ہیں اور بس اپنے اللہ سے اجر کے طالب ہو سکتے ہیں، ہمارے اندر کتنی کرامت پائی جاتی ہے ہمارے اندر کتنا ظرف پایا جاتا ہے۔

تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

روایت میں ہے کہ ایک کریم انسان  اگر کسی کے کام آتا ہے تو ضرورت مند کے سامنے منتیں نہیں کرتا بلکہ اسکی حاجت روائی کو اپنا قرض سمجھ کر ادا کرتا ہے۔ یسع بن حمزہ سے منقول ہے کہ ہم امام علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے تھے اور کافی مجمع تھا سب لوگ مسائل شرعیہ دریافت کر رہے تھے، حلال و حرام خدا کے بارے میں سوال کر رہے تھے اور مولا سب کو جواب دے رہے تھے کہ ہماری محفل میں ایک گندمی رنگت کا شخص داخل ہوا اور اس نے امام علیہ السلام کو سلام کیا اور کہا کہ میں آپکا شیعہ ہوں، میں اپنے وطن سے حج کی غرض سے آیا تھا لیکن راستے میں میری رقم کھو  گئی، آپکی خدمت میں آیا ہوں کہ فی الحال آپ میری ضرورت پوری کر دیں اور میں اپنے گھر کرج گھر پہنچ کر فورا آپکی طرف سے دی جانے والی رقم کو صدقے کے طور پر نکال دونگا، امام  علیہ السلام نے اس کی گفتگو سن کر کہا "رحمک اللہ" اور امام علیہ السلام نے اس کے ساتھ شفقت کا اظہار فرمایا، اسے اپنے پاس بٹھایا اور تھوڑی دیر کے بعد جب دو چار لوگ ہی بچے اور باقی اٹھ کر چلے گئے اور کچھ خلوت ہوئی تو  آپ نے وہاں بیٹھے لوگوں سے رخصت لے کر حجرے کا قصد کیا اور وہاں سے ایک تھیلی نکالی اور باہر  کی جانب رخ انور کر کے پوچھا وہ مرد خراسانی کہاں ہے، جو ابھی  آیا تھا وہ قریب آیا تو مولا نے اسے دو سو  درہم کی تھیلی دیتے ہوئے ہوئے کہا یہ لو یہ تمہاری رقم ہے، جسکا تم نے مطالبہ کیا تھا اور میری جانب سے صدقہ دینے کی ضرورت نہیں ہے یہ تمہاری ہی ہے، اسے اپنے ضرورت کے حساب سے خرچ کرو۔

امام علیہ السلام نے اس گفتگو کے دوران اسکے چہرے پر نظر نہیں ڈالی، کسی نے پوچھا کہ مولا آپ نے اسے دے تو دیا لیکن چھپ کر کیوں دیا اس کے چہرے کی طرف کیوں نہیں دیکھا تو آپ نے جواب دیا میں نے نہیں چاہا کہ اسکے چہرے پر اسکی شرمندگی کو دیکھوں، مجھے خدا سے خوف آیا کہ اس کے بندے کے چہرے پر خفت کو دیکھوں، کیا تم نے رسول خدا سے نہیں سنا ہے کہ جو اپنی نیکی کو پوشیدہ کرے اسے ۷۰ حج کا ثواب دیا جائے گا۔ امام علیہ السلام کا یہ عمل بتاتا ہے کہ کرامت و شرافت نفس کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کے کام آنے کے بعد ہرگز اسکی منت نہ رکھی جائے کہ ہم نے یہ کر دیا، ہم نے وہ کر دیا، بلکہ کوشش یہ کی جائے کہ سوال  کرنے والے کی عزت نفس باقی رہے اور اسے شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ عشرہ کرامت کے اس آخری دن جہاں ہم امام رضا علیہ السلام کی زیارت انکے ذکر و  فضائل و مناقب میں مشغول عبادت ہیں، وہیں  ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر کریمانہ مزاج پیدا کریں اور امام رضا علیہ السلام کی سیرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیکھیں کہ ہمارے آئمہ طاہرین علیہم السلام کرامت نفس کی کس منزل پر تھے اور ہم کہاں پر ہیں، اگر ہم اپنے آپ کو امام رضا علیہ السلام کے کردار سے نزدیک کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یقینا یہ وہ منزل ہوگی کہ عشرہ کرامت کا حسن اختتام بھی ہوگا  اور ہمارا اپنے امام علیہ السلام کے لئے حسن اتباع بھی، اگر ہم اپنے کردار کو بدلنے میں کامیاب ہو گئے تو عشرہ کرامت میں جس طرح ہمارے گھروں، شہروں، امام بارگاہوں میں چراغانی ہے اسی طرح ہماری روحوں میں بھی معنویت و کرامت نفس کی چراغانی ہوگی۔ پروردگار ہم سب کو  توفیق دے کہ ہم عزت و کرامت نفس کے ساتھ راہ بندگی پر تعلیمات اہلبیت اطہار علیھم السلام کی روشنی میں مسلسل آگے بڑھتے رہیں۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:

ا۔ استادی، «آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌حال او»، ص۳۰۱۔
2۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، جلد ۱ ص ۴۸۶ تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، چاپ پنجم، ۱۳۶۳ش۔
 3۔ رحیمی‌نژاد، اسماعیل و محمّد حبیب‌زاده، (1صفا387). "مجازات‌های نامتناسب؛ مجازات‌های مغایر با کرامت انسانی"۔ حقوق، دورة 2۔ ‌شمارة 115، صص 134ـ 115۔ صادقی، محمود۔ (1385)۔ کرامت انسانی؛ مبنای منع همانند سازی انسان در اسناد بین‌المللی۔ پژوهشنامة حقوق و علوم سیاسی۔ شمارة 2 و 3۔ صص 138ـ117۔
4۔ آساتوریان، فارمیک و محمّد آل‌ عصفور. (1386)۔ "کرامت انسان و محورهای اصلی  در مثنوی مولوی"۔ علوم اجتماعی و انسانی دانشگاه شیراز۔ دورة 51، شمارة 51، ص 46ـ27۔
5۔ ابن‌منظور، محمّد بن مکرم. ‌لسان‌العرب، ج 12: 75ـ74 بیروت: دار صادر. (1414ق.)۔
6۔ راغب اصفهانی، حسین بن محمّد. (1404ق.) معجم مفردات الفاظ القرآن۔ 428تهران: دفتر نشر کتاب۔
7۔ طریحی، فخرالدّین، مجمع‌البحرین..، ج 6: 152)،  تهران: مرتضوی. (1395ق.)۔
8۔ مصطفوی، حسن. ‌التّحقیق فی کلمات القرآن الکریم. ج 6: 148 تهران: وزارت ارشاد، (1416ق.)۔
9۔ جوادی آملی، عبدالله.. کرامت در قرآن. 22ـ21؛ تهران: نشر فرهنگی رجا۔ (1372)، یدالله پور، بهروز۔ (1388)۔ "معناشناسی کرامت انسان در قرآن"، پژوهش‌ نامة علوم و معارف قرآن (پیام جاویدان). دورة2۔ شمارة 2۔ صص 141ـ119)۔
10۔ جوادی آملی، عبدالله۔ (1372)۔ کرامت در قرآن۔ تهران: نشر فرهنگی رجا، جعفری، محمّدتقی۔ (1389). "حقّ کرامت انسانی"، مجلّة دانشکدة حقوق و علوم سیاسی (دانشگاه تهران). دورة 27، شمارة 27، ص 80۔ سلطانی، محمّد علی۔ (1387)۔ "کرامت از نگاه قرآن". آیینة پژوهش. دورة 102۔ شمارة 78. ص 30۔
11۔ جعفری، محمّدتقی، (1389). "حقّ کرامت انسانی". مجلّة دانشکدة حقوق و علوم سیاسی (دانشگاه تهران). دورة 27، شمارة 27، ص 80۔
 12۔ "عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّلْتِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَلْخٍ قَالَ: کُنْتُ‏ مَعَ‏ الرِّضَا (ع) فِی سَفَرِهِ إِلَى خُرَاسَانَ فَدَعَا یَوْماً بِمَائِدَةٍ لَهُ فَجَمَعَ عَلَیْهَا مَوَالِیَهُ مِنَ السُّودَانِ وَ غَیْرِهِمْ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ لَوْ عَزَلْتَ لِهَؤُلَاءِ مَائِدَةً فَقَالَ مَهْ إِنَّ الرَّبَّ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى وَاحِدٌ وَ الْأُمَّ وَاحِدَةٌ وَ الْأَبَ وَاحِدٌ وَ الْجَزَاءَ بِالْأَعْمَالِ:  (کلینی، 1365، ج 8: 230 مجلسی، محمّد باقر۔ (1403ق.)۔ بحارالأنوار؛ الجامعة لِدُرَر أخبار الأئمة الأطهار. بیروت: دار إحیاء التّراث العرق.، ج 49: 141)،
13۔ ابن‌بابویه قمی (شیخ صدوق)، محمّد بن علی، ج‏2: 159 عیون أخبار الرّضا (ع)، قم: انتشارات جهان۔ (1378ق.). 
14۔ مجلسی، محمّدباقر، (1403ق.)، بحارالأنوار؛ الجامعة لِدُرَر أخبار الأئمة الأطهار. بیروت: دار إحیاء التّراث العربی..، 49: 99)۔
15۔ کُلینی، محمّد بن یعقوب.. اصول الکافی، تهران: دار الکُتُب الإسلامیّه۔ 1365، ج 4: 24)۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت کے وقت امت مسلمہ پر سلطنت عباسی کے خلفاء کا خوف و ہیبت طاری تھی، یہاں تک کہ امام کے ایک صحابی محمد بن سنان فرماتے ہیں کہ “سیف ھارون یقطر الدم” ہارون الرشید کی تلوار سے خون ٹپکتا رہتا تھا۔ اس وقت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام تھے، جنہوں نے اس طوفانی دور میں تشیع کے شجرہ طیبہ کو گرنے نہیں دیا اور وہ نا امیدی جو امام موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام کی شہادت کی وجہ سے چھا رہی تھی، اس کو وہیں روک کر اس شجرہ طیبہ کو مرجھانے سے بچایا اور عاشورا کے بعد آئمہ علیہم السلام کی جو دشمن سے مقابلے کی روش تھی اس کو اہداف الہیٰ کی جانب تسلسل بخشا۔ 198ھ میں جب مامون الرشید اپنے بھائی امین کو اقتدار کی جنگ میں شکست دے دیتا ہے، اس وقت اسے اپنی حاکمیت کے لئے سب سے بڑے خطرہ کا احساس ہوتا ہے، یعنی وجود مبارک امام رضا علیہ السلام۔

مامون تاریخ کے زیرک، عقلمند، عالم، ہوشیار بادشاہوں کے ناموں میں سے ایک اہم نام ہے، سوچتا ہے کہ جو کام یزید سے لیکر ہارون تک ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھانے اور کٹے ہوئے گلوں کے مینار بنانے کے باوجود نہیں رک سکا، اس کے لئے کسی اور حکمت عملی کو اپنانا ہوگا۔ ساتویں امام کی قید اور شہادت جب ان علویوں کے قیام کو روک نہیں سکی تو صرف قتل کئے جانے سے یہ کام یقیناً نہیں روکا جاسکتا۔ امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان لانا اور زبردستی ولایت عہدی قبول کرانا، ان کاموں سے مامون کئی اہداف کا حصول چاہتا تھا اور اگر منصب ولایت من اللہ نہ ہوتا تو یقیناً ان سازشوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔

مامون کی زیر نظر یہ اہداف تھے:
قیاموں کی روک تھام:
تشیع اپنی مظلومیت اور تقدس کی بنیاد پر بنو عباس کے خلاف مختلف زمان و مکان میں مخفی یا علنی حالت قیام میں تھی، مامون ان اقدامات کے ذریعے اور امام علیہ السلام کو اپنے سیاسی نظام کا حصہ بنا کر ان قیاموں کی روک تھام اور ان کو سیاسی طور پر خاموش کرانا چاہتا تھا، کیونکہ اگر کسی گروہ کا رہبر و پیشوا اس خلافت کو قبول کرلے، مطلق العنان بادشاہ کا ولی عہد اور حکومتی امور میں صاحب اختیار ہو تو وہ نہ مظلوم کہلائے گا اور نہ ہی مقدس اور اس کے پیرو اور شیعہ یقیناً اس بنیاد پر خلافت کے خلاف قیام سے گریز کریں گے۔

خلافت کی مشروعیت:
ایک اور ہدف تشیع کی بنیاد کو متزلزل کرنا تھا، یعنی بنو امیہ و بنو عباس کی ظالم حکومتوں کو غاصب سمجھنا، مامون ان اقدامات کے ذریعے اپنی اور اپنے آباو اجداد کی حکومتوں کی مشروعیت ثابت کرنا چاہتا تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا کہ تشیع ایک بے بنیاد نقطہ پر کھڑی ہے، کیونکہ اگر وہ خلافتیں نامشروع تھیں تو مامون کی خلافت بھی جو ان کا تسلسل ہے، نامشروع قرار پائے گی، درحالیکہ امام رضا علیہ السلام اس سٹرکچر میں داخل ہونے اور مامون کی ولایت عہدی و جانشینی قبول کرکے اس کو مشروع اور جائز جانتے ہیں۔ پس اس کا مطلب یہ تھا کہ باقی خلیفہ بھی مشروع تھے اور یہ تشیع کا ایک جھوٹا ادعا تھا۔ نعوذ باللہ

آئمہ کے زہد و پاکیزگی کو غلط ثابت کرنا:
شیعوں کا دوسرا ادعا جو آئمہ علیہم السلام کے زہد و تقویٰ پر منحصر تھا اور آئمہ علیہم السلام کی دنیا سے بے رغبتی کو ثابت کرتا تھا، اس کو غلط ثابت کرنا بھی ایک ہدف تھا کہ جب تک دنیا ان ذوات مقدسہ کے ہاتھوں میں نہیں تھی تو دنیا سے زہد کا درس دیتے تھے، اب جبکہ دنیا کا مال و دولت و حکومت کے دروازہ ان کے لئے کھل چکے ہیں تو یہ اس کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ نعوذ باللہ

امام کو اپنے زیر اثر لانا:
امام علی رضا علیہ السلام جو مسلسل حکومت کے لئے خطرہ اور مبارزہ و مقاومت کا سرچشمہ تھے، ان کو اپنے بندوں کے ذریعے زیر نظر رکھنا اور اس سے ان کے شیعوں اور پیروکاروں کو جو ان کے گرد جمع رہتے تھے، ان کو بھی کنٹرول کیا جاسکتا تھا اور یہ کامیابی اس سے قبل بنی امیہ اور بنو عباس کا کوئی خلیفہ حاصل نہیں کرسکا تھا۔

امام اور امت میں فاصلہ:
امام علیہ السلام جو لوگوں کی امید اور مرجع تھے، انہیں اپنے محاصرے میں لے لینا، تاکہ رفتہ رفتہ عوامی رنگ ان سے دور ہو جائے اور خلافت کے بہانے ان کے اور لوگوں درمیان فاصلہ ایجاد کیا جاسکے، جس کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں امام علیہ السلام کی محبت کو کم کیا جاسکے۔

خود کو صاحب معنویت ثابت کرنا:
مامون کا ایک ہدف اپنے چہرہ کو صاف و پاکیزہ کرنا کہ جس کا جانشین ہی اس عالی مرتبہ پر فائز ہو کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ و وآلہ، مقدس و معنوی مقامات کا حامل تو وہ خلیفہ بھی جو اپنے بھائی اور رشتہ داروں سے نکل کر ایسے شخص کو اپنا جانشین بنائے، یقیناً ایک نیک و باتقویٰ انسان ہوگا۔

غلطیوں کی توجیہ:
جب عوام دیکھے گی کہ ایک ایسی شخصیت جو علم و تقویٰ کی عالیترین منازل پر فائز ہے اور اس خلافت میں شریک ہے تو خلافت کے نام پر جو کچھ انجام دیا جا رہا ہے اور جو ظلم و ستم اور خلافکاریاں انجام پا رہی ہیں، ان کی ایک توجیہ عوام کے سامنے امام کی شکل میں موجود ہوگی۔ ان تمام تدابیر کے باوجود، امام نے مامون کی سیاست کو خداوند متعال کی مدد سے بازیچہ اطفال میں بدل دیا اور مامون کی تمام تر پلاننگ اور تدابیر اسلام کے حق میں بدل دی۔

اپنی نارضایتی کا اعلان:
جب امام علیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف بلائے گئے تو امام نے مدینہ کی فضا کو افسردگی و غمگینی سے پر کر دیا، اس طرح کہ لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ مامون سوء نیت کے ساتھ امام کو ان کے وطن سے دور کر رہا ہے۔ امام علیہ السلام نے اپنے رفتار و گفتار، دعا اور اشک کی زبان سے لوگوں کو یہ پیغام دے دیا کہ یہ سفر امام علیہ السلام کا آخری سفر ہے، جس سے لوگوں کے دلوں میں مامون کے لئے جو جگہ پیدا ہو رہی تھی، وہ کینہ اور بغض میں بدل گئی۔

مامون کے جبر کو عیاں کرنا:
جب مرو کے مقام پر امام علیہ السلام سے ولایت عہدی کا تقاضا کیا گیا تو امام علیہ السلام نے واضح طور پر اسے ٹھکرا دیا اور جب تک آپ کو قتل کی دھمکی نہ دی گئی تب تک قبول نہیں کیا۔ یہ خبر لوگوں میں پھیل گئی کہ امام کو زبردستی یہ عہدہ قبول کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ مامون کے افراد کیونکہ مامون کی ان سازشوں سے لاعلم تھے، اس خبر کو بعینہ منتشر کرتے گئے، حتی فضل ابن سہل لوگوں کے درمیان اس بات کو کہتا نظر آتا ہے کہ میں نے خلافت کو اتنا ذلیل و خوار کبھی نہیں دیکھا۔ امام علیہ السلام نے لوگوں کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ میں اس خلافت کو قبول کرنے پر راضی نہیں ہوں اور یہ کام جبر و اکراہ کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے۔

امام علیہ السلام کی شرائط:
جبر و اکراہ کے باوجود امام علیہ السلام نے ولایت عہدی اس شرط پر قبول کی کہ خلافت کے کسی امور میں مداخلت نہیں کریں گے؛ جنگ، صلح، معزولی، منصوب کرنا، تدبیر امور کسی چیز میں امام رائے نہیں دینگے۔ مامون نے اس وقت سوچا کہ ابھی کام شروع ہوا ہے، قبول کر لیا جائے، بعد میں منوا لیا جائے گا اور اس طرح امام کو سیاست میں آہستہ آہستہ دھکیل دیا جائے گا۔ لیکن امام علیہ السلام نے ایسا اہتمام کیا کہ مامون کی یہ سازشین پانی پر تحریر کی مانند ہوگئیں۔ امام خلافت میں رہتے ہوئے بھی یہ ظاہر کرتے کہ وہ اس منصب اور خلافت سے راضی نہیں ہیں اور کسی قسم کے حکم یا ذمہ داری، مشورہ اور مداخلت سے بچتے۔ مامون مسلسل کوششوں میں لگا رہا اور امام اس کی تدابیر کو ٹھکراتے رہے۔

نماز عید:
نماز عید کے واقعے میں بھی امام علیہ السلام کو اس بہانے کہ لوگوں کو آپ کی قدر معلوم ہو، عید کی نماز پڑھانے کی دعوت دی تو امام نے انکار کیا، جب امام کو اس کام کے لئے مجبور کیا گیا تو اس شرط پر قبول کیا کہ وہ نمازِ عید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیر المومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی طرز اور ان کی روش کے مطابق پڑھائیں گے۔ منظر یوں تھا کہ دروازہ کھلتا ہے اور امام علیہ السلام پا برہنہ باہر نکلتے ہیں، اس حال میں کہ ایک سادہ لباس، سفید عمامہ زیب تن ہے اور شباہت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیاں ہے، رخساروں پر آنسو رواں ہیں۔ لوگ امام علیہ السلام کے ہمرنگ ہونا شروع ہو جاتے ہیں، ننگے پاوں سادہ لباس سفید عمامہ، اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد کی صدا بلند ہوتی ہے اور امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اکٹھے ہوتے جاتے ہیں۔ حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیسی نماز ہے؟ یہ کیسا امام ہے؟ اگر یہ نمازِ عید ہے تو اس سے قبل جو مامون کے پیچھے پڑھیں وہ کیا تھیں۔؟ امام ایسا سادہ ہوتا ہے تو مامون کیا ہے؟ امام نے ان تمام دیواروں کو توڑ دیا، یہاں تک کہ مامون کو انقلاب کا خطرہ محسوس ہوا اور وہ امام کو روکنے پر مجبور ہوگیا۔

ولایت عہدی کو فرصت میں تبدیل کرنا:
امام علیہ السلام نے اس ولی عہدی کے معاملے کو فرصت میں تبدییل کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی تعلیمات اور تشیع کو تمام مسلمانوں اور دیگر مذاہب تک پہنچایا۔ امام کے دیگر مکاتب و مذاہب کے علماء سے مناظرے جو خود مامون، امام علیہ السلام کو نیچا دکھانے کے لئے منعقد کراتا تھا، امام علیہ السلام ان مناظروں کے ذریعے تشیع یعنی اسلام حقیقی کی ترویج کرتے تھے، اسی طرح مدح اہل بیت علیہم السلام جو اس سے قبل علی الاعلان انجام نہیں دی جاسکتی تھی، اسے ایک قانونی جواز مل گیا۔ تمام خطبوں میں اہل بیت علیہم السلام کے فضائل بیان ہونا شروع ہوگئے، لوگ حقانیت اہل بیت سے آشنا ہونے لگے اور آئمہ علیہم السلام کی شان میں اشعار و منقبت جگہ جگہ پڑھے جانے لگے۔

غیر شیعہ آبادیوں سے گزر:
مامون اتنا محتاط تھا کہ امام کو مدینہ سے خراسان ایسے راستوں سے لایا، جہاں شیعہ آبادی نہ ہو، یعنی قافلے کا گزر کوفہ اور قم کے نزدیک سے ہونے نہ دیا گیا لیکن امام نے تمام مقامات پر ولایت و اہل بیت علیہم السلام کی ترویج کی۔ اہواز میں امامت کی نشانیاں ظاہر کیں، بصرہ میں لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیا، نیشاپور میں مشہور حدیث “سلسلۃ الذھب” کا بیان اور ولایت امام علیہ السلام کی شرط ان تمام تدابیر نے لوگوں کے دلوں حق کا بیج بو دیا۔

ولایت عہدی کے متن میں مامون نے امام علیہ السلام کی حقانیت اور انکے فضائل بیان کئے، سال بھر میں امام علیہ السلام کی شخصیت اتنی واضح ہوگئی کہ لوگ سمجھ گئے کہ ولایت عہدی کے باوجود امام علیہ السلام حکومت کی کسی چیز میں مداخلت نہیں کرتے، لوگوں کا امام سے رابطہ قلبی بڑھتا گیا اور ایسے حالات ہوگئے کہ مامون کی خلافت خطر میں پڑگئی۔ آخر میں جب کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا اور ساری تدبیریں خاک میں ملتی نظر آئیں تو مامون نے بھی اپنے اجداد کی روش پر گامزن ہوتے ہوئے امام علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا۔ خداوند متعال سے دعا ہے کہ ہم سب کو اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو جاننے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تالیف: سید محمد روح اللہ رضوی
 
 
 

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں اسلامی جمہوریہ ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات میں کامیابی پر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو مبارکباد پیش کی ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے پیغام میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانے پر بھی تاکید کی ہے۔

«عمران خان» به «رئیسی» تبریک گفت

اسماعیلیہ ان فرقوں کا اسم عام ہے، جو امام صادقؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کے فرزند اسمعیل یا امامؑ کے پوتے محمد بن اسمٰعیل بن جعفر الصادق کی امامت کے معتقد ہیں اور مختلف ممالک میں مختلف ناموں "باطنیہ، تعلیمیہ، سبعیہ اور حشیشیہ، ملاحدہ، قرامطہ کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ باطنیہ: بايں معنی کہ اسماعیلی دینی متون کے لئے باطنی معانی کے قائل ہیں، مقعتقد ہیں۔[1] گو کہ افواہ عامہ ميں انہیں اس لئے باطنی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اعتقادات و احکام کو خفیہ رکھتے ہیں۔ تعلیمیہ: اس نام کا سبب یہ اسماعیلی عقیدہ ہے کہ خدا کی معرفت اور دینی تعلیمات اخذ کرنے کے لئے عقل کافی نہیں ہے، تمام متون و احکام اور عقائد و مفاہیم کی تعلیم "امام" معصوم یا امام کے داعیوں کی طرف سے دی جانی چاہیئے۔[2] بالفاظ دیگر: اسماعیلوں کو تعلیمیہ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا اعتقاد ہے بلکہ اس کے لئے ایک امام کی تعلیم و تدریس کی ضرورت ہے، جو درحقیقت معلم صادق ہے۔[3]۔[4]۔ سبعیہ: سبعیہ سبعہ سے ماخوذ ہے بمعنی (سات اماموں کے پیروکار) اور اس نام کا سبب یہ ہے کہ سات امامیوں کا فرقہ، مذہب شیعہ کے اہم مکاتب میں سے ایک تھا۔[5] حشیشیہ، ملاحدہ و قرامطہ لفظ "حشیشیہ" کا اسماعلیوں پر اطلاق، تاریخی حوالے سے ایک الزام کی حد سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔[6] ملاحدہ[7] اور انہیں قرامطہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حمدان قرمط کے پیرو تھے۔[8]۔[9] شہرستانی کے بقول اسماعیلیہ کا مشہور فرقہ باطنیہ تعلیمیہ ہے.[10]

اسماعیلیہ کا اجمالی تعارف:
ابوالخطاب محمد بن ابی زینب یا مقلاص بن ابی الخطاب، وہ شخصیت ہے، جس کو اسماعیلی مآخذ میں ایسے کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس کا اسمعیل کی امامت میں ہاتھ تھا۔[11] ابوالخطاب کے تفصیلی عقائد اور نظریات اسماعلیوں کی خفیہ کتاب بعنوان "ام الکتاب" میں مذکور ہیں۔[12] سعد بن عبداللہ اشعری لکھتے ہیں: بڑے بیٹے کی امامت بظاہر ایک روایت بن چکی تھی، چنانچہ لوگوں کا خیال تھا کہ امام صادقؑ کے بعد ان کے بڑے بیٹے اسمعیل امام ہونگے، لیکن اسمعیل امام صادقؑ کی شہادت سے قبل ہی انتقال کرگئے۔ امامت کا عہدہ سنبھالنے سے قبل اسمعیل کا انتقال امامؑ کے جانشین اور ساتویں امام کے تعین کے سلسلے میں اختلاف کا سبب بنا۔ اسماعیلی جو رائے قائم کئے ہوئے تھے کہ گویا امامؑ نے اسمعیل کی امامت کا اعلان کیا ہےـ امام موسیٰ کاظمؑ کی امامت کے اعلان کے مخالف ہوئے اور کچھ لوگ اسمعیل کی جانشینی کے اعلان کو مانتے ہوئے بداء کے قائل ہوئے اور امام موسیٰ کاظمؑ کی امامت کے قائل ہوئے اور سلسلۂ امامت ائمہ اثناء عشر انہی لوگوں سے چلا۔[13]

دیگر اقوال:
چونکہ امام صادقؑ کے کئی بیٹے تھے اور سب سے بڑے اسمعیل تھے، جن سے امام صادقؑ محبت کرتے تھے، چنانچہ بعض شیعہ تصور کرتے تھے کہ اگلے امام اسمعیل ہی ہونگے۔[14] لیکن اسماعیلیوں کا دعویٰ ہے کہ گویا امام صادقؑ نے اسمعیل کی امامت پر تصریح کی تھی۔[15] چنانچہ اس کے باوجود کہ اسمعیل امام صادقؑ کی حیات ہی میں دنیا سے رخصت ہوئے تھے، کچھ لوگوں نے اسمعیل کی موت کا ہی انکار کر دیا اور کہا کہ وہ مرے نہیں بلکہ غائب ہوئے ہیں اور امام صادقؑ تقیہ کر رہے ہیں اور یہ کہ اسمعیل ہی مہدی موعود ہیں۔ یہ لوگ اسماعیلیہ کہلائے۔ ان کے مقابلے کچھ لوگوں نے اسمعیل کی موت کا مسئلہ تسلیم کیا اور کہا کہ امامت اسمعیل کے بیٹے محمد کو ملی ہے۔ چنانچہ انھوں نے محمد بن اسمعیل کو ساتویں اور آخری امام کے عنوان سے تسلیم کیا۔ یہ لوگ اسماعیلیۂ عامہ اور سبعیہ کہلائے۔[16] یہ دونوں گروہ امام صادقؑ کی شہادت کے بعد امام موسیٰ کاظمؑ کی امامت کے منکر ہوئے اور امامیہ سے جدا ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ امامت بھائی سے بھائی کو نہیں بلکہ باپ سے بیٹے کو ملتی اور امام حسنؑ سے امام حسینؑ کو ملنے والی امامت ایک استثنا ہے، چنانچہ اسمعیل کے بعد امامت کا عہدہ امام موسیٰ کاظمؑ کے بجائے ان کے بیٹے محمد کو ملنا چاہیئے۔[17]۔[18] کچھ لوگ کوفہ میں تھے، جو ابوالخطاب محمد بن ابی زینب اسدی اجدع کے گرد جمع ہوئے تھے اور بعد میں محمد بن اسمعیل کی امامت کے قائل ہوئے۔ ابوالخطاب ایک غالی فرد تھا، جو امام صادقؑ کے سلسلے میں غلوّ کررہا تھا اور آپؑ کو خدا اور اپنے آپ کو پیغمبر سمجھتا تھا، چنانچہ اس گروہ کو خطابیہ بھی کہا جاتا تھا اور بعد میں ان لوگوں نے مبارکیہ کے ساتھ ایک جماعت تشکیل دی۔[19] موجودہ زمانے میں اسماعیلی صرف نزاری فرقوں پر مشتمل ہیں اور ایشیاء، افریقہ، یورپ اور امریکہ کے 25 ممالک میں سکونت پذیر ہیں۔

اسماعیلی اعتقادات:
"قدمائے سبعہ" کا اعتقاد رکھنے کی وجہ سے اسماعیلیوں پر کفر کا الزام لگایا جاتا رہا، اس وجہ سے وہ اللہ کی ذات سے ہر قسم کی تعریف، صفت و صورت اور ماہیت، حتی کہ وجود خدا کے ایک صفت ہونے کے لحاظ سے اس کی نفی کرتے ہیں۔[20] وہ موجودات کے معرض وجود میں آنے کو ابدا‏ع اور ایجاد کی صورت میں قبول کرتے ہیں جبکہ اخوان الصفا کا خیال ہے کہ موجودات اللہ کے فیض سے وجود میں آتے ہیں۔[21] اسماعیلی بھی امامیہ کی طرح ختم نبوت کے قائل ہیں؛ تاہم وہ سات پیغمبروں کو انبیاء اولوالعزم سمجھتے ہیں اور ہر نبی کے لئے ایک وصی (امام) کے قائل ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق "ناطق" یا اولو العزم انبیاء آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسی اور محمد (ص) ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا ایک وصی ہے۔ ان کے اوصیاء بالترتیب شيث، سام، اسماعيل، ہارون يا يوشع، شمعون صفا اور امام علىؑ۔ اسماعیلی کہتے ہیں کہ اس کائنات کے سات ادوار کے ساتویں دور میں امام مرتبۂ ناطق پر ارتقاء پاتا ہے اور چھٹے دور کا ساتواں امام [22] محمد بن اسمعیل ہے، جو پردہ ستر میں چلے گئے (اور مستور ہوگئے) اور جب ظہور کریں گے تو وہی ساتویں ناطق اور مہدی اور قائم ہوںگے۔ وہ اس عالم کے آخری دور میں وجود کے حقائق کو آشکار کرینگے اور عدل کو دنیا میں نافذ کریںگے اور اس کے دور کے بعد جسمانی دنیا کا خاتمہ ہوگا۔[23]

اسماعیلیہ آیات، احادیث اور شرعی احکام کی تاویل کے قائل ہیں اور اسی بنا پر وہ سمجھتے ہیں کہ انسانوں کے لئے ایک امام کی ضرورت ہے، جو ان تاویلات اور باطنی معانی کو ان کے لئے واضح و آشکار کر دے۔ اسماعیلی اصطلاح میں امام کی دو قسمیں ہیں "امام مستقر" اور "امام مستودع"؛ امام مستودع وہ ہے، جو امام کا بیٹا ہو اور اس کے بیٹوں میں سب سے اہم ہو اور وہ امامت کے تمام اسرار سے واقف ہو اور اپنے زمانے کے انسانوں میں سب سے بڑا ہو۔ لیکن اس کا اپنے بیٹوں پر کوئی حق نہیں ہے اور امامت صرف اس کے ہاں ایک "ودیعہ" (اور امانت یا سپردہ) ہے؛ جبکہ امام مستقر وہ ہے، جو امامت کی تمام خصوصیات کا حامل ہو اور اس کو حق حاصل ہے کہ امامت کو اپنے بیٹوں اور جانشینوں کے سپرد کرے۔[24] اسماعیلی جسمانی جہنم اور جنت پر یقین نہیں رکھتے، لیکن وہ مبتدی افراد کے لئے ان الفاظ کی تشریح ان الفاظ کے معمول کے معانی کے مطابق کرتے ہیں۔[25] اسماعیلی تناسخ کو رد کرتے ہیں اور ان کے خیال میں اسلام اور ایمان کے قلمرو الگ ہیں اور ایمان میں کمی بیشی کے امکان کے قائل ہیں۔ وہ شریعت میں سات ارکان کے قائل ہیں: طہارت، نماز، زکٰوۃ، روزہ، حج، جہاد اور ولایت؛ البتہ وہ رکن ولایت کو بقیہ ارکان سے برتر و بالاتر سمجھتے ہیں۔[26]

اسماعیلیہ کی شاخیں:
رسول جعفریان[27] کے مطابق، اسماعیلی فرقے حسب ذیل ہیں:
اسماعیلیۂ خالصہ:
یہ وہ لوگ ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ چونکہ اسمعیل کی امامت والد کی طرف سے ثابت ہے اور امام حق کے سوا کـچھ نہیں کہا کرتا، پس ثابت ہوتا ہے کہ اسمعیل نہیں مرے بلکہ زندہ اور قائم ہیں۔
اسماعیلیۂ مبارکیہ:
یہ وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ امام صادقؑ نے اسمعیل کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے اور اپنے پوتے محمد کو امامت کا عہدہ سونپ دیا ہے؛ کیونکہ بھائی (اسمعیل) کی امامت بھائی (امام کاظمؑ) کو منتقل نہین ہوتی اور امامت کی یہ منتقلی صرف امام حسنؑ اور امام حسینؑ تک محدود تھی۔ یہ فرقہ اپنے مؤسس "مبارک" کے نام پر مبارکیہ کے عنوان سے بھی مشہور ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مبارک محمد بن اسمعیل کا لقب ہے اور بعض دیگر کہتے ہیں کہ یہ اسمعیل ہی کا لقب ہے اور محمد جواد مشکور نے لکھا ہے کہ "اس گروہ کو مبارکیہ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اسمعیل کا غلام مبارک اس جماعت کی قیادت کرتا تھا اور اسمعیل کی امامت کی بات آگے بڑھاتا تھا۔[28]

قرامطۂ بحرین:
اسماعیلی دعوت کے تیز رفتار پھیلاؤ ہی کے موقع پر اچانک اسماعیلی تحریک میں اہم دراڑ پڑ گئی۔ حمدان قرمط، جو سنہ 260 ہجری سے عراق اور نواحی علاقوں میں اسماعیلی تحریک کا سربراہ تھا اور سلمیہ کے راہنماؤں کے ساتھ مسلسل خط و کتابت کرتا تھا،اس نے سنہ 286 میں عبیداللہ کے اسماعیلیہ کے سربراہ کے عنوان سے تعین پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے لئے بھی اور اپنے آباء و اجداد کے لئے بھی،جو کہ سابق مرکزی زعماء میں شمار ہوتے تھے، امامت کا دعویٰ کیا۔ حمدان نے سلمیہ اور مرکزی قیادت کے ساتھ قطع تعلق کیا اور اپنے ماتحت داعیوں کو حکم دیا کہ اپنے علاقوں میں دعوت کا سلسلہ بند کریں۔ کچھ ہی عرصہ بعد حمدان لاپتہ ہوا اور اس کا بہنوئی عبدان بھی عراق کے ایک اسماعیلی داعی "ذکرویہ بن مہدویہ"، جو ابتداء میں عبیداللہ اور اس کی اعتقادی اصلاحات کا حامی تھا، کی سازش سے مارا گیا۔

اسی سال ابو سعید جنابی، جو حمدان اور عبدان کی ہدایت پر بحرین میں متعین ہوا تھا، نے اس خطے کو قرمطی دعوت کا اصلی مرکز قرار دیا اور سنہ 470 عیسوی تک مشرقی علاقوں میں فاطمیون کے اثر و رسوخ کے سامنے رکاوٹ بنا۔ عبیداللہ کے پیروکاروں کا مرکز یمن تھا، جہاں علی بن فضل قرمطی دھڑے میں شامل ہوا اور مہدویت کا دعویٰ کیا، تاہم ابن حوشب آخر عمر تک عبیداللہ کا وفادار رہا۔ ذکرویہ، جو ابتداء میں عبیداللہ کا حامی اور وفادار تھا، بعد میں قرامطہ میں شامل ہوا اور عراق اور شام میں قرمطی بغاوتوں کا اہتمام کیا اور حتی کہ سنہ 290 میں سلمیہ میں عبیداللہ کے اڈے پر حملہ آور ہوا۔ قرمطی دھڑا جبال، خراسان،[[ماوراء النہر (وسطی ایشیا)، فارس اور دوسرے علاقوں میں پھیل گیا۔

مصر و مغرب (شمالی افریقہ) کے "فاطمیون":
مصر اور مغرب کے فاطمیون (حکومت: سنہ 297 تا 567 ہجری)، کی بنیاد ابتداء میں عبیداللہ مہدی نے رقادہ، میں، بعدازاں قیروان اور اس کے بعد قاہرہ میں رکھی۔ عبیداللہ مہدی کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اسماعیلی تاریخ کے "ائمۂ مستور" کا دور اختتام پذیر ہوا۔ یہ حکومت صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں زوال پذیر ہوئی۔ دروزی، نزاریان اور مستعلویان اس کی ذیلی شاخیں ہیں۔

دروزی اسماعیلی:
سنہ 408 ہجری چند اسماعیلی داعیوں نے قاہرہ (کی مسجد ریدان) میں اس مذہب کی بنیاد رکھی، لیکن حمزہ بن علی بن احمد زوزنی المعروف بہ الباد، کو اس مذہب کا اصل بانی سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ نہ صرف الحاکم بامر اللہ کو بلکہ القائم کے بعد کے تمام فاطمی خلفاء کے لئے الوہیت کے قائل تھے۔ اس مذہب کو زيادہ تر بانیان کے شمالی علاقے حاصبیا کی وادی تیم اور موجودہ شام اور لبنان کے علاقوں مغربی حلب، جبل ہرمن اور جبل حوران میں رواج اور فروغ ملا۔ سنہ 435 کے بعد دروزی دعوت ایک بند معاشرے میں بدل گئی، جس میں نہ ہی کسی نئے مائل بہ دروزی اسماعیلیت شخص کو قبول کیا جاتا تھا اور نہ ہی اس کے پیروکاروں میں سے کسی کو ارتداد کی اجازت دی جاتی تھی۔

نزاریہ یا نزاریان:
سنہ 487 ہجری میں مستنصر فاطمی کے انتقال پر فاطمیون میں اختلاف پیدا ہوا؛ جو لوگ مستنصر کی نص (اور حکم و اعلان) کے مطابق اس کے بیٹے نزار کی امامت کے قائل تھے، نزاریہ کے نام سے مشہور ہوئے۔

مستعلویہ:
سنہ 487 ہجری میں مستنصر فاطمی کے انتقال کے بعد مستعلی کی امامت کے معتقدین مستعلویہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ اس کی درج ذیل دو شاخیں ہیں:

حافظیہ یا حافظیان(مجیدیہ):
سنہ 526 ہجری میں مقتول خلیفہ بنام "آمر" کے ایک چچا زاد بھائی بنام (عبدالمجید) الملقب بہ (الحافظ) تخت خلافت پر بیٹھا۔ سنہ 567 میں فاطمیون کے زوال تک آنے والے فاطمی خلفاء عبدالمجید حافظ کی اولاد میں سے تھے۔ اس سلسلے کی امامت کو مصر اور شام میں کافی فروغ ملا جبکہ فاطمیہ کے آخری خلفاء کو یمن میں عدن کے چند امراء اور صنعا کے چند حکام کے سوا کسی نے تسلیم نہیں کیا۔ موجودہ اسماعیلیوں کے درمیان اس فرقے کا نام و نشان تک نہیں رہا۔

طیبیہ یا طیبیان (آمریہ):
سنہ 524 میں مستعلی کے جانشین "آمر" کے انتقال کے ساتھ ہی اسماعیلی دعوت میں مزید تقسیمات معرض وجود میں آئیں۔ آمر کا بیٹا "طیب" آٹھ ماہ کی عمر میں ان کا جانشین مقرر ہوا، لیکن حکومت کی باگ ڈور ان کے چچا زاد عبدالمجید ملقب بہ حافظ کے ہاتھ میں چلی گئی۔ جو لوگ طیب کی خلافت کے معتقد تھے، وہ طیبیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ طیبیہ دعوت کو ابتداء میں مصر و شام کے مستعلویوں کی قلیل تعداد نے قبول کیا، لیکن یمن کے اسماعیلیہ میں اس کو وسیع پذیرائی ملی۔ یمنی میں صلیحی باضابطہ طور پر طیب کے دعوے کی حقانیت کے قائل ہوئے۔ ابراہیم حامدی، جو سنہ 557 تک صنعا کے یام نامی غیر اسماعیلی فرقے (یا قبیلے) کے امراء کے درمیان سرگرم عمل تھا، طیبی فرقے کا مؤسس اور بانی تھا۔ رفتہ رفتہ طیبی جماعت مصر اور شام میں ناپید ہوگئی، لیکن یہ جماعت آج تک یمن اور ہندوستان (اور شاید پاکستان) میں زندہ اور فعال ہے۔

بوہری جماعت:
طیبیہ کی ذیلی شاخ "بوہری جماعت" کہلاتی ہے۔ طیبی داعی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بڑی تعداد میں پیروکار اس فرقے میں شامل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ ہندوستان میں اپنے مسلک کو "دعوت ہادیہ" کا نام دیتے ہیں اور لفظ "بوہرہ" (بمعنی تاجر) سے استفادہ کرتے ہیں۔ مدتوں تک یمن کا داعی مطلق مغربی ہندوستان کے طیبیوں کا مرجع بھی تھا۔ فاطمیوں کی دعوت غالباً ایک یمنی داعی بنام عبداللہ، کے توسط سے ہندوستان پہنچی اور کہا جاتا ہے کہ عبداللہ سنہ 460 ہجری میں گجرات پہنچا تھا۔ طیبی جماعت سنہ 999 ہجری داعی مطلق داؤد بن عجب شاہ کے انتقال پر دو شاخوں داؤدیہ اور سلیمانیہ میں بٹ گئی۔[29] بوہری جماعت کی دو :سلیمانی اور داؤدی شاخیں ہیں۔

داؤدیہ:
جن طیبی بوہریوں نے داؤد بن برہان الدین کی جانشینی قبول کرلی، وہ داؤدیہ کہلائے۔ ان کا سربراہ بمبئی میں ہوتا ہے اور ان کا مرکز "سورت" میں واقع ہے۔ ان کی مشہور زیارتگاہیں احمد آباد، سورت، جام نگر، مانڈوی، اجین اور برہانپور میں ہیں۔[30] موجودہ زمانے میں داؤدی بوہریوں کی نصف آبادی گجرات میں اور باقی ماندہ بمبئی اور ہندوستان کے مرکزی علاقوں میں سکونت پذیر ہیں۔ پاکستان، یمن اور مشرق بعید میں بھی داؤدیوں کے منتشر گروپ بسیرا کئے ہوئے ہیں۔ وہ سب سے پہلے ایشیائی تھے، جو زنگبار[31] اور افریقہ کے مشرقی ساحلی علاقوں کی طرف ہجرت کرگئے۔ داؤدی بوہریوں کے پیشوا اور 52ویں داعی محمد برہان الدین[32] سنہ 2014ء میں انتقال کرگئے اور ان کے بیٹے مفضل سيف الدين کو داؤدی جماعت کا پيشوا اور 53واں داعی مقرر کیا گیا۔[33]

سلیمانیہ:
جن بوہریوں نے "سلیمان بن حسن ہندی" کی جانشینی کو تسلیم کیا، وہ سلیمانیہ کہلائے۔ وہ شمالی یمن کے علاقوں حراز اور ملک سعودی عرب سے ملے ہوئے سرحدی علاقوں نیز سعودی عرب کے جنوبی سرحدی علاقوں میں سکونت پذیر ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہندوستان کے علاقوں بمبئی، بڑودھا اور احمد آباد میں پائی جاتی ہے اور یمن، ہندوستان اور پاکستان کے باہر ان کی موجودگی زیادہ محسوس نہیں ہے۔

اسماعیلی علماء:
ابو حاتم رازی،
ابو عبداللہ نسفی(نخشبی)،
قاضی نعمان،
ابو یعقوب سجستانی،
حمید الدین کرمانی،
مؤید الدین شیرازی،
ناصر خسرو قبادیانی[34]

اسماعیلی ائمہ:
اسماعیلی ائمہ کا سلسلہ خلافت فاطمیہ تک:
منابع نے شیعہ مکتب کی شاخیں گنواتے ہوئے لکھا ہے: اسماعیلی اپنے ائمہ کا آغاز علی بن ابی طالبؑ سے کرتے ہیں[35] اور امامت امام علیؑ کے توسط سے امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو ملی اور ان سے زین العابدینؑ، ان سے امام باقرؑ اور پھر امام صادقؑ کو ملی اور امام صادقؑ کے تین شاخیں نمودار ہیں اور امامت اسمعیل، عبداللہ اور امام موسیٰ کاظمؑ کے ذریعے جاری رہی۔ اسمعیل کے بعد امامت علی اور محمد مکتوم (میمون) کو ملی؛ محمد مکتوم کے بعد چھ شاخوں میں تقسیم ہوتی ہے اور احمد، اسمعیل، عبداللہ، علی لیث، حسین اور جعفر کو ملی؛ عبداللہ کے ذریعے ابراہیم اور احمد اور احمد کے ذریعے حسین اور محمد حکیم کو، حسین سے ابو محمد اور عبداللہ سعید المعروف بہ عبیداللہ مہدی کو اور محمد حکیم کے ذریعے ابوالقاسم محمد المعرف بہ القائم بامر الله کو۔ اسماعیلی اماموں یا خلفائے فاطمی کا سلسلہ القائم بامراللہ سے جاری ہو جاتا ہے۔[36]۔[37]

اسماعیلی امام خلافت فاطمیہ کے دور میں:
القائم بامر اللہ ابو محمد عبیداللہ
المہدی باللہ
ابوالقاسم محمد القائم بامر اللہ
ابوطاہر اسمعیل المنصور باللہ،
ابوتمیم معد المعز لدین اللہ،
ابو منصور نزار العزیز باللہ،
ابوعلی المنصور الحاکم بامراللہ،
الحسن علی الظاہر لاعزاز دین اللہ،
ابوتمیم معد المستنصر باللہ،
المستنصر باللہ کے بعد امامت تین افراد کے تحت تین شاخوں میں بٹ گئی:
نزار، المستعلی باللہ اور ابوالقاسم محمد۔
المستعلی باللہ سے امامت الآمر باحکام اللہ اور اس سے الطیب اور اس سے غائب طیبی اماموں کو پہنچی، جبکہ ابوالقاسم محمد سے عبدالمجید الحافظ کو ملی اور الحافظ سے یوسف اور الظافر کو منتقل ہوئی۔ یوسف سے العاضد کو اور پھر بعد کے حافظی اماموں کو پہنچی اور الظافر سے الفائز کو منتقل ہوئی۔[38]۔[39]

اسماعیلیہ کا مسکن:
اسماعیلیہ کی پہلی مسلحانہ دعوت کا آغاز سنہ 268 میں ملک یمن میں ہوا۔[40] اسماعیلیہ تشیع کے پیکر سے الگ ہونے کے بعد بہت جلد دو حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے مصر میں خلافت فاطمیہ کی بنیاد رکھی اور اندرونی تقسیم کے بعد اَلَمُوت میں نزاری حکومت قائم کی اور یہ دو حکومتیں عباسی سلطنت کے لئے مغرب اور مشرق میں بڑا خطرہ ثابت ہوئیں۔[41] فاطمی اور نزاری حکومتوں کے زوال کے بعد اسماعیلی ہرگز سابقہ طاقت اور اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور عالم اسلام کے دور افتادہ علاقوں، بالخصوص یمن اور برصغیر ہند و پاک میں پناہ حاصل کرکے بس گئے۔ موجودہ زمانے میں اسماعیلی دنیا کے پچیس ممالک میں منتشر ہیں اور ان کی زيادہ تر تعداد ہندوستان، پاکستان، افغانستان و تاجیکستان نیز مرکزی ایشیاء اور چین میں پامیر کے قریبی علاقوں میں سکونت پذیر ہے۔[42]

اسماعیلیہ آج دو فرقوں "آغا خانیہ اور بوہرہ میں بٹے ہوئے ہیں، جو بالترتیب نزاری اور مستعلوی فرقوں کے پسماندگان ہیں۔ اول الذکر فرقے کے تقریباً 10 لاکھ افراد ایران، وسطی ایشیاء، افریقہ اور ہندوستان میں منتشر ہیں اور ان کا پیشوا (پرنس) کریم آغا خان۔[43] ہے، مؤخر الذکر جماعت کی آبادی تقریباً 50000 ہے، جو جزیرۃ نمائے عرب اور خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں اور شام میں سکونت پذیر ہیں[44] جو بظاہر داؤدی بوہریوں سے مختلف ہیں۔ اسماعیلیہ شام کے علاقوں قلعۂ مصیاف، قلعۂ القدموس]] اور سلمیہ اور ایران کے علاقوں کہک، محلات، قم نیز خراسان کے شہروں بیرجند، قائن اور افغانستان کے علاقوں بلخ اور بدخشان جبکہ وسطی ایشیا کے شہروں خوقند اور قرہ تکین میں سکونت پذیر ہیں۔

افغانستان میں انہیں مفتدی کہا جاتا ہے اور ان کی خاصی آبادی کافرستان (نورستان)، جلال آباد علاقۂ جیحون اعلی، ساری گل، خوان اور یاسین میں سکونت پذیر ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں اسماعیلی مراکز دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ ہیں اور ہندوستان کے علاقوں مرواڑہ، اجمیر اور راجپوتانہ، بمبئی اور برودھا کھورج (Khoraj) نیز کشمیر میں اسماعیلی عبادتگاہیں واقع ہوئی ہیں۔ جان لینا چاہیئے کہ پاکستان اور ہندوستان کے تمام اسماعیلی آغا خانی نہیں ہیں اور بوہری جماعت کے داعی الگ ہیں اور وہ ہندوستان کے علاوہ عمان اور مسقط اور زنگبار اور تنزانیہ میں بکثرت آباد ہیں۔[45] بوہریوں کے بعض اصول اور عقائد و احکام ہیں، جن کی طرف حوالہ جات یا بیرونی حوالوں میں اشارہ ہوا ہے، جبکہ آغا خانیوں کے عقائد و عبادات زیادہ واضح نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
 صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص103۔
 صابری، وہی ماخذ۔
 عطا ملک جوینـی، تاریـخ جهانگشای، ج3، ص195۔
 رشید‌الدین فضل‌الله، جامع التواریخ، ج1، ص105_107۔
 صابری، وہی ماخذ۔
 | حشیشیہ، حقیقت کیا ہے؟
 ملاحدة. ملحد کی جمع (جمع منتہی الجموع) (غیاث اللغات) و (آنندراج ) مأخوذ از عربی، ملحد اور بےدین لوگوں اور دین سے پلٹے ہؤوں کو کہا جاتا ہے۔(ناظم الاطباء).
 صابری، وہی ماخذ۔
 اشعری، المقالات و الفرق، ص213
 شهرستانی، کتاب الملل والنحل، ص149
 مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص47۔
 مشکور، وہی ماخذ، ص48۔
 نک، اشعری، المقالات والفرق، ص14-213۔
 مفيد، الارشاد، ج2، ص209۔
 نوبختي، فرق الشيعه، ص36۔
 عبدالقاهر بغدادي، الفرق بين الفرق، ص34۔
 مشكور، موسوعه فرق اسلامي، ص103۔
 نوبختي، وہی ماخذ، ص39۔
 نوبختي، پيشين، صفحه 39۔
 صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص147۔
 بدوی، تاریخ اندیشه های کلامی در اسلام، ص4-322۔
 ابتدائی اسماعیلیوں کی رائے کے مطابق۔
 صابری، تاریخ فرق اسلامی ج2، صص152-151۔
 مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص49۔
 وہی ماخذ، ص3-52۔
 صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص153۔
 اطلس شیعه، ص 29۔
 مشكور، موسوعه فرق اسلامي، ص103۔
 | اسماعیلیہ (بوہرہ)۔
 | داودی بوہرہ۔
 زنگبار یا زنجبار (Zanzibar) (عربی: زنجبار، فارسی: زنگبار) مشرقی افریقہ میں تنزانیہ کا ایک نیم خود مختار حصہ ہے۔
 | بانی بوہری جماعت محمد برہان الدین۔
 | مفضل سيف الدين۔
 صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، صص74-153۔
 البتہ ابتدائی اسماعیلی عقائد میں امام علیؑ کو امام اول سمجھتے تھے، لیکن بعض میں امامؑ کو اساس قرار دیا گیا اور امامت کا آغاز مام حسینؑ سے کیا گیا اور امام حسینؑ اسماعیلیوں کے پہلے امام ٹھہرے۔ گو کہ نزاریہ امام علیؑ کو امام اول سمجھتے تھے۔ رجوع کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص119۔
 صابری، وہی ماخذ۔
 دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیه، ص627۔
 صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص123۔
 دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیه، ص628۔
 مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص50۔
 سایت اندیشه قم، متعلق به مرکز مطالعات و پاسخگویی به شبهات حوزه علمیه قم۔
 دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیه،‌ ص3۔
 | کریم آغا خان۔۔
 مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص53۔
 وہی ماخذ، ص51۔

ترتیب: محمد جان حیدری
ایم فل کلام و عقاید اسلامی
بشکریہ شیعہ ویکی پیڈیا

ایران کے 13ویں صدارتی انتخابات میں ملت ایران نے بیک وقت کئی محاذوں پر تاریخی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ایک طرف ایران پر اقتصادی پابندیاں لگانے والے امریکی بلاک کو دندان شکن جواب دیا ہے۔ دوسری طرف ایران کے اندر مالی بدعنوانیوں میں ملوث اشرافیہ کے خلاف واضح فیصلہ سنا دیا ہے۔ جمعہ 28 خرداد سال 1400 ہجری شمسی بمطابق سات ذیقعد 1442 ہجری قمری (18 جون 2021ء) کے صدارتی الیکشن میں آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو صدر منتخب کرکے ایرانی قوم نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ یہ انتخابات کئی حوالوں سے تاریخی قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ صبح سات بجے پولنگ کے آغاز کا وقت معین تھا۔ طے پایا تھا کہ رات بارہ بجے تک ووٹنگ کی اجازت ہوگی۔ ایران میں الیکشن کا انعقاد وزارت کشور (یعنی وزارت داخلہ) کے تحت ہوتا ہے۔ البتہ بہت سے پولنگ اسٹیشن پر پولنگ دیر سے شروع ہوئی۔ بعض جگہوں پر بیلٹ پیپرز تاخیر سے پہنچے یا ووٹرز کی تعداد سے کم بیلٹ پیپرز تھے۔ صدارتی انتخابات لڑنے والے امیدواروں سید ابراہیم رئیسی اور سید امیر حسین قاضی زادہ ھاشمی کے حامیوں کی جانب سے ایسی شکایات تحریری طور پر وزارت داخلہ کو ارسال کی گئیں۔ رات بارہ بجے جب پولنگ کا اضافی وقت بھی اختتام کو پہنچا، تب بھی ایران کے مختلف مقامات پر پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر ووٹرز جمع تھے۔ لہٰذا صدارتی الیکشن کے چاروں امیدواروں کی درخواست پر پولنگ کا وقت رات دو بجے تک بڑھا دیا گیا، یعنی 19 گھنٹے تک ووٹ کاسٹ کیے جاتے رہے۔

ایران کے وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فضلی نے صدارتی الیکشن کے حتمی نتائج کا اعلان کر دیا ہے۔ دو کروڑ نواسی لاکھ تینتیس ہزار چار ووٹرز نے ووٹ ڈالے ہیں۔ سید ابراہیم رئیسی کے حق میں ایک کروڑ اناسی لاکھ چھبیس ہزار تین سو پینتالیس ووٹ ڈالے گئے۔ دوسرے نمبر پر محسن رضائی کے حق میں چونتیس لاکھ بارہ ہزار سات سو بارہ اور تیسرے نمبر پر عبدالناصر ھمتی کے حق میں چوبیس لاکھ ستائیس ہزار دو سو ایک ووٹ آئے، جبکہ سید امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی نے نو لاکھ ننانوے ہزار سات سو اٹھارہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ایرانی ووٹرز نے اس مرتبہ پہلے ہی راؤنڈ میں ایک امیدوار کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے۔ ورنہ ایران کے صدارتی الیکشن میں پہلے راؤنڈ میں کم ترین مطلوبہ پچاس فیصد ایک ووٹ کا حاصل کرنا ناممکن کی حد تک مشکل ہوچکا تھا۔ صدارتی الیکشن کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی قوم کافی حد تک منسجم و متحد ہے اور سبھی عدل کو حقیقی معنوں میں واقعی طور پر نافذ ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ سید ابراہیم رئیسی نے عوام کی حکومت برائے قوی ایران یعنی مضبوط و مستحکم و توانا ایران کے نعرے کے تحت عوام کے ووٹ حاصل کیے ہیں۔ یہ ایک تاریخی فتح ہے، جو ایران کے ووٹرز نے رئیسی صاحب کے نام کر دی ہے۔

ملت ایران نے ایک ایسا صدر منتخب کیا ہے، جس پر یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا نے پابندی لگا رکھی ہے۔ یوں ایرانی قوم نے سید ابراہیم رئیسی کو صدر منتخب کرکے درحقیقت براہ راست امریکا اور پورے امریکی زایونسٹ عربی غربی بلاک کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ تمہاری پابندیوں کو پاؤں تلے روندتے ہیں۔ یہ جمہوری اسلامی ایران کے عوام کا مینڈیٹ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا اور اسکے اتحادی نیٹو و غیر نیٹو ممالک کی حکومتیں ایران کے عوام کے جمہوری مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں یا نہیں!؟ ایرانی قوم نے بال امریکی بلاک کی کورٹ میں داخل کر دی ہے۔ امریکی، یورپی اور ان کے اتحادی سعودی عرب کا میڈیا ایرانی عوام کے اس مینڈیٹ سے متعلق منفی رپورٹنگ میں مصروف رہا ہے۔ اس میڈیا نے ایرانی عوام کے اس منتخب صدر کے ساتھ لاحقے و سابقے لگا کر جو رپورٹس دنیا کے سامنے پیش کی ہیں، یہ جمہوری اقدار کی توہین کے مترادف ہے۔ خاص طور پر امریکا کے اتحادی وہ ممالک جہاں موروثی شاہ و شیوخ آغاز سے مسلط ہیں یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین وغیرہ۔ ایرانی قوم نے آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو صدر منتخب کیا ہے۔ ہارڈ لائنر، کنزرویٹو یا الٹرا کنزرویٹیو کے لاحقے سابقے سے ایرانی قوم کے جمہوری مینڈیٹ کی حقانیت اور اہمیت کو کم کرنے کی یہ کوشش اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ مغربی اور سعودی ذرایع ابلاغ بالکل بھی آزاد نہیں ہیں۔ بہرحال اب دنیا کو ایرانی عوام کے منتخب کردہ اسی نئے صدر کے ساتھ روابط قائم کرنے ہوں گے، خواہ امریکا اور امریکی بلاک کو ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔

ایرانی قوم نے ایران کے اندر ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی حق رائے دہی استعمال کرکے امریکی زایونسٹ عربی غربی بلاک کے پراکسیز کی اصلیت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یورپی ممالک میں ایرانی ووٹرز کو ایران کے سفارتی مشنز میں قائم پولنگ اسٹیشنز پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے سابق شاہ ایران کے حامیوں اور ایران کے اسلامی انقلاب کے دیگر مخالفین نے سر توڑ کوششیں بھی کیں۔ بعض جگہوں پر انہوں نے ایرانی ووٹرز کو مارا پیٹا بھی۔ خاص طور پر برمنگھم میں ایک ایرانی خاتون ووٹر کو شدید زدو کوب کیا گیا۔ یہ زمینی حقائق بیک وقت دو مختلف رخوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک رخ یہ ہے کہ دیگر ممالک میں آبا ایرانی بھی اپنے ملک ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ اس کے حال و مستقبل کے لیے فکرمند بھی ہیں اور اپنی اس ملت کی سرنوشت میں اپنا انفرادی حصہ ڈالنے کے لیے ہمہ وقت آمادہ ہیں۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ ایرانی قوم کے بنیادی حقوق کے منکر اور دشمنوں کے آلہ کار خائن اور منافق بھی اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے اپنے ہی ایرانی بہن بھائیوں کی آزادی اور جمہوری حق پر حملہ آور ہیں۔ یعنی جس طرح امریکا اور امریکی زایونسٹ بلاک ایران کی اسلامی جمہوریت سے خار کھاتا ہے اور اسے ختم کرنے کے درپے رہتا ہے، یہ خائن و منافق بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔ حالانکہ جتنا موقع پہلوی شاہ ایران کو ملا یعنی باپ بیٹے کی بادشاہت کے مسلسل 6 عشرے، اور تب بھی وہ ایرانی قوم کی تعمیر و ترقی کرنے کی بجائے ذاتی و خاندانی استحکام کو ترجیح دیتے رہے۔ اسی طرح دیگر گروہ ہیں کہ جنہوں نے بیرونی جارحین کی جارحیت سے ایران کا دفاع کرنے کی بجائے غیر ملکی جارح سے ہاتھ ملا لیا تھا، اس ففتھ کالم خائن و غدار ٹولے کو ایرانی قوم کیسے اپنا ہمدرد مان لے!؟

یہ بھی یاد رہے کہ اس صدارتی الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کی تاکید رہبر معظم انقلاب اسلامی امام سید علی حسینی خامنہ ای صاحب نے کی تھی۔ انہوں نے اپیل کی تھی کہ عوامی شکایات بجا ہیں، لیکن الیکشن میں ووٹ ڈالنے سے ہی مسائل و مشکلات حل کیے جاسکتے ہیں۔ باشعور عوام نے مسائل و مشکلات کی وجہ سے حکومت سے ناراضگی کے باوجود الیکشن میں بھرپور شرکت کرنے کی نصیحت پر عمل کیا۔ یوں ایرانی قوم نے ولی فقیہ کے ساتھ اپنی عقیدت و احترام کو بھی ظاہر کیا تو ایک مطیع امر رھبری قوم ہونے کا ثبوت بھی دیا۔ باوجود این کہ کورونا وائرس کی وجہ سے حفاظتی تدابیر پر بھی عمل کیا گیا، لیکن اگر کورونا نہ ہوتا تو ووٹرز کا ٹرن آؤٹ اس مرتبہ بہت زیادہ ہوتا۔ پھر بھی ایرانی قوم نے جمہوری اسلامی نظام پر اپنے اعتماد کو رسمی طور پر ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔ امام خامنہ ای صاحب نے بھی ملت ایران کے اس مینڈیٹ، اس فیصلے کی قدردانی کی ہے۔ انہوں نے الیکشن کا سب سے بڑا فاتح ملت ایران کو قرار دیا ہے۔ کوئی چیز ملت ایران کے عزم پر فائق نہیں آسکی۔ اس الیکشن کے بعد ان کے بیان کا آخری جملہ پوری دنیا کے مظلوم و مستضعف انسانوں کے لیے توجہ کا باعث ہونا چاہیئے کہ ایران اور ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے اصل سربراہ تو حضرت ولی اللہ الاعظم (امام مہدی عج) ہیں۔ یقیناً دنیا کے محروم و مستضعف انسانوں کے اس نجات دہندہ پر غیر متزلزل اعتقاد ہی مظلوم و محکوم و محروم انسانوں کی آخری امید ہے اور امریکی زایونسٹ بلاک کی ذلت و رسوائی کے لیے یہی کافی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارتی الیکشن کو اور نیتن یاہو اسرائیلی حکومت کے الیکشن کو فراڈ قرار دے رہا ہے۔ ایرانی عوام نے ان فراڈیوں کے خلاف ایران کے شفاف اسلامی جمہوری نظام کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ اب دنیا پر لازم ہے کہ ایرانی قوم کے جمہوری فیصلے کا احترام کرتے ہوئے ایران کے خلاف پابندیاں ختم کرے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ بین الاقوامی تعلقات میں ایران کا بھی حق ہے، بحیثیت ایک نیشن اسٹیٹ ایران کا یہ حق تسلیم کیا جانا چاہیئے۔

تحریر: محمد سلمان مہدی

مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس  کے مطابق علامہ محمد امین شہیدی حوزہ علمیہ قم کے فارغ التحصیل اور پاکستان کے جید علمائے کرام میں سے ہیں، جن کی اتحاد بین المسلمین کے لئے  کاوشیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ سینئر نائب صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان، اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے سابق رکن، مجلس وحدت مسلمین کے بانی ممبر اور کئی برس تک مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے  ڈپٹی سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں، اس وقت  " امت واحدہ " کے سربراہ ہیں اور پاکستان کے ہر فورم  خصوصا میڈیا پر ملت تشیع کے  حقوق کا دفاع کر تے رہتے ہیں۔ مہر نیوز ایجنسی نے ایران میں جاری صدارتی الیکشن کے متعلق آپ سے جو گفتگو کی ہے، وہ قارئین کے پیش خدمت ہے:

مہر نیوز :ایران کے حالیہ انتخابات کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟

میرا خیال ہے کہ اگر ہم انقلاب اسلامی کے بعد ایران میں ہونے والے گزشتہ چار دہائیوں کے الیکشنز کا جائزہ  لیں تو حالیہ الیکشن کو  بنی صدر کے دور کے حالات سے تشبیہ دے سکتے ہیں،  مثال کے طور پر شہید رجائی جیسی عظیم شخصیت  کی شہادت کے بعد حضرت  آیت اللہ العظمیٰ  خامنہ ای کا الیکشن میں کھڑا ہونا، اگر چہ  بعض جہات سے یہ منظر مختلف بھی ہے جیسے اس وقت انقلابی طبقہ اپنے عروج پر تھااور امام خمینی ؒ بھی حیات تھے، انقلابی ولولہ، آگاہی، جذبہ  اور بیداری اپنی عروج پر تھی،  جنگ بھی اپنی عروج پر تھی اس لئے پوری قوم متحد تھی، لہٰذا اس وقت آیت اللہ خامنہ ای کو فتنوں اوراستکباری سازشوں کے مقابلے میں  جیتنے  کے حوالے سے پوری قوم کی حمایت حاصل  رہی اور اس دور کے الیکشن میں ایران کے تمام دوسرے انتخابات کی نسبت سب سے زیادہ ووٹ کاسٹ ہوئے اور آیت اللہ خامنہ ای نے سب سے زیادہ ووٹ بھی حاصل کئے اور آج تک ان کے ریکارڈ کو کوئی نہیں توڑ سکا۔ آج کے حالات اندرونی اور بیرونی شرائط کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔ایرانی صدارتی الیکشن میں مغرب کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام انقلاب کے شانہ بشانہ رہیں گے

 اندورنی طور پر فتنہ پرستوں کے ایک گروہ کو تیار کیا جاچکا ہے اگر آیت اللہ رئیسی جیت جاتے ہیں تو اس کے بعد انقلاب کا ایک نیا جنم اور نئی پیدائش ہوگیاور نئی نسل کو انقلاب سے دور  اور مایوس کرنے کا منطوبہ تیار ہے۔ اس سے پہلے بھی مختلف فتنے اٹھائے جاچکے ہیں اور انقلاب اسلامی کے خلاف دنیا بھر کی تمام پروپیگنڈہ مشنری پوری  آب و تاب کے ساتھ متحرک ہے ۔ اس کے علاوہ گزشتہ آٹھ سال میں  ایسی حکومت بر سر اقتدار رہی ہے جس کے ثمرات امریکی سمیٹ رہے ہیں، جبکہ  ایرانی قوم،  انقلاب اسلامی اور ولایت کے ماننے والوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑاہے۔ ایسے ماحول میں آیت اللہ رئیسی کا آگے آنا اور ان کے مقابلے میں کچھ مخصوص  لوگوں کا میدان میں اترنا۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ انقلاب اسلامی ایک بار پھر اپنے ثمرات اور برکات سے ایرانی قوم کو نوازنے کے لئے آمادہ ہے۔  اگر آیت اللہ رئیسی جیت جاتے ہیں تو اس کے بعد انقلاب کا ایک نیا جنم اور نئی پیدائش ہوگی ۔چونکہ گزشتہ آٹھ سالوں میں اور اس سے پہلے کے کچھ ادوار میں کافی حد تک لوگ انقلاب کے ثمرات سے محروم رہے،  انقلابی نظریات کو کچلنے اور کمزور کرنے کی کوششیں ہوئیں، انقلاب کے راستے کو مخدوش کرنے اور لوگوں میں شکوک وشبہات پھیلانے کے مواقع فراہم کئے گئے، عالمی اور استکباری میڈٰیا نے انقلاب کے چہرے کو مسخ کرنے کی بھرپور  کوشش کی۔ اگر قاسم سلیمانی جیسے عظیم ترین شہداء کا خون نہ گرتا تو شاید اس وقت انقلاب کے لئے اتنی آسانی سے سنبھلنا آسان نہ ہوتا۔ اب اس صورتحال میں آنے والا الیکشن بتائے گا کہ انقلاب کی عمر کیا ہے اور انشاءاللہ انقلاب اسلامی اس الیکشن کے نتیجے  میں مزید مضبوط، طاقتور اور سربلند  ہوگا اور عوامی امنگوں پر پورا اترے گا  اور دنیا کی استبدادی اور طاغوتی طاقتیں متحد اور یکجا  ہوکر انقلاب اسلامی کے خلا ف اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھے ہوئے ہیں  لیکن انھیں ماضي کی طرح اس بار بھی شکست اور ناکامی سے دوچار ہونا پڑے گا ۔

ایران کے تیرہویں صدارتیالیکشن میں انقلابی طبقے کا بھی امتحان ہے اور ایران کے باشعور عوام کا بھی امتحان ہے۔  مجھے یقین ہے کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہوں گے ۔ ان سات نمائندوں میں جو مرد میدان ہوگا اس مرد میدان کا نام آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی ہے ۔ میں اس کو اس حوالے سے بھی دیکھتا ہوں کہ بنی صدر کے بعد فتنے کے اس دور میں جس طرح سے آیت اللہ خامنہ ای نے اس ملک کو اور انقلاب کو سنبھالا تھا اور شہید رجائی کے بعد اس نا گفتہ بہ صورتحال میں ان کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئی تھیں، اسی طرح سے اس انتخابات کے ذریعے لوگ  آیت اللہ رئیسی کا  تابناک چہرہ دیکھیں گے۔  گزشتہ ادوار میں ان کی قاطعیت،  عدلیہ میں کرپشن سے مقابلہ اور کرپشن میں ملوث  سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کا پکڑنا اور انکو منطقی انجام  تک پہنچانا اور قانون کے مطابق ان سے سلوک کرنا یہ سب آیت اللہ رئیسی کے کارناموں میں شامل ہے ۔اس حوالے سے وہ ان شاء اللہ جیت بھی جائینگے اور جیتنے کے بعد ایک نئے ولولے  اور نئی انقلابی روح کے ساتھ ایک نئی حکومت بھی  تشکیل دیں گے۔

مہر نیوز : آپکی نظر میں ایران کا صدارتی الیکشن پاکستان کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے؟

ایران کے اندر جتنی طاقتور،  پائیدار، مضبوط، انقلابی، امریکہ دشمن، استعمار ستیز اور نظریاتی شخصیت کی حکومت آئے گی اس سے پاکستان کو یقینا فائدہ پہنچے گا، وہ حکومت پاکستان کے استحکام کا باعث بنے گی اور پاکستان اور ایران کے  تعلقات مزید مضبوط اور مستحکم ہوں گے ۔ حکمران جتنے خالص ہوتے ہیں ملکوں کے  تعلقات اتنے ہی خالص ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کو بھی اس وقت امریکیوں  کے حوالے سے بڑی مشکلات کا سامنا ہے لیکن چونکہ پاکستان اقتصادی اور سیاسی طور پر کمزور ہے اس لئے ایران کی طرح کھل کر استعمار اور امریکہ کے مقابلے میں من حیث حکومت کھڑا نہیں ہوسکتا، لیکن اگر ان انتخابات میں نظریاتی، انقلابی اور ولایت فقیہ کی پیروکار حکومت آتی ہے تو اس سے میرا خیال ہے گزشتہ حکومت کی نسبت ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں مزید استحکام آئے گا اور ایک نئے اور امریکہ مخالف، مغرب مخالف، علاقائی  بلاک کی تشکیل میں پیشرفت ہوگی، اسی طرح روس، ایران، چین، پاکستان اور خطے کے بعض دیگر ممالک کے اشتراک سے ایک نئے بلاک کی تشکیل کی راہ ہموار ہوگی اور یہ بلاک مزید طاقت کے ساتھ سامنے آئے گا ۔ اس الیکشن میں آیت اللہ رئیسی جیسی شخصیت کا آنا اور انکا جیتنا بڑا اہم بھی ہے اور پاکستان کے لئے  مبارک بھی ہے۔

مہر نیوز: عالمی سطح پر ایرانی صدارتی انتخابات کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

امریکیوں کے لئے انتہائی اہم ہے کہ اس انتخابات میں رئیسی نہ جیتے

ایران کے اندر گزشتہ آٹھ سالہ حکومت میں جو بات کھل کر سامنے آئی وہ یہ ہے کہ اس حکومت نے اپنے دونوں ادوار میں امریکیوں سے اور مغربی دنیا سے اپنے رابطے کو استوار کرنے کے لئے انقلابی ویلیوز اور دینی ویلیوز کو پامال کیا اور دیگر ممالک کی طرح سے مفادات کی سیاست  کا راستہ  اپنایا اور کرپشن کے دورازے کھولے، اپنے زور بازو پر اعتماد کے بجائے مغرب پر اعتماد کو فروغ دیا جس کے  نتیجے میں بہت  نقصانات ہوئے۔ ایران کے ایٹمی پروگراموں پر پابندی لگی، اسے قدم بہ قدم پیچھے ہٹنا پڑا اور  ملک کے اندر دو نظریات کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آئے، ایک مغرب پرستوں کا نظریہ جو حکومت کا بھی نکتہ نظر تھا اور دوسرا ان افراد کا نظریہ جو خود کو انقلاب کا امین اور محافظ سمجھتے ہیں ۔ اس حوالے سے یہ الیکشن عالمی طاقتوں کے لئے بھی اہم ہے اور عالمی سطح پہ امریکہ اور دیگر ممالک کی کچھ توقعات ہیں۔ وہ اس حوالے سے بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ ایسی حکومت قائم ہو جو ان کی باتوں کو فورا تسلیم کرے،  کیونکہ مغرب کو ایران کے ایٹمی پروگرامز کے حوالے سے بڑی امیدیں تھیں کہ صدر روحانی کی حکومت میں انکا پروگرام رول بیک کردیا جائے گا لیکن رہبر معظم کی حکمت عملی ، فراست اور انقلابی طبقے کی بیداری نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اگرچہ پچھلے ادوار میں اس طرح کے پروگرام کو بہت زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، اب امریکہ اس معاہدے میں واپس آنا چاہتا ہے اور اس معاہدے کو دوبارہ عملی شکل دینا چاہتا ہے تو اس اعتبار سے امریکیوں کے لئے انتہائی اہم ہے کہ اس انتخابات میں رئیسی نہ جیتے بلکہ کوئی ایسا فرد آئے جو امریکی اور مغربی مفادات کو تحفظ فراہم کر سکے۔ ایرانی صدارتی الیکشن میں مغرب کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام انقلاب کے شانہ بشانہ رہیں گے

دوسری طرف خطے کے اندر اسلامی مزاحمتی بلاک نے اس عرصے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دست پروردہ دہشت گرد تنظيم داعش اور اسرائیل کو شکست دے کر اوریمنیوں  کی حمایت کرکے جس طرح کی فضاء قائم کررکھی ہے اس کے نتیجے  میں انقلابی طبقات پوری دنیا میں مضبوط ہوئے ہیں ۔ فلسطینیوں کی ۱۲ روزہ جنگ کی فتح کے نتیجے میں پوری دنیا میں مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہوا ہے فلسطینیوں  سمیت عرب ممالک میں موجود حریت پسندوں کا مورال بلند ہوا ہے اور یہی کیفیت شام اور عراق کی ہے  اور یہ سارے کام اس وقت انجام پائے  جب ایران خود مشکلات میں گرفتار تھا۔ فلسطینیوں کی ۱۲ روزہ جنگ کی فتح کے نتیجے میں پوری دنیا میں مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔
اب اگر اس الیکشن میں کوئی انقلابی شخصیت آتی ہے تو اس کے نتیجے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کو بہت زیادہ قوت ملے گی، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے انقلابیوں  کو ایک نئی روح حاصل ہوگی اور اسرائیل کو زیادہ نقصان پہنچے گا ۔ اسی طرح خطے کے اندر جو قوتیں انقلاب کا راستہ روکنا چاہتی ہیں، وہ امام زمان (عج) کے  ظہور کو اپنے لئے سب سے بڑا چیلنج سمجھتی ہیں ان کو  رئیسی جیسی شخصیت کی کامیابی میں اپنی اور اپنے نظریات کی شکست نظر آرہی ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خدا دشمن قوتوں کو اس انتخابات میں رئیسی جیسے شخص کی کامیابی کی صورت میں بہت بڑی ناکامی اور شکست کا سامنا ہوسکتا ہے اور یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جس کے اثرات  پوری دنیا پر مرتب ہونگے اور ان اثرات کو دنیا دیکھے گی۔ اگر رئیسی صاحب کامیاب ہوتے ہیں تو اس سے پورے خطے  پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور خطے میں استعماری اور سامراجی طاقتوں کے شوممنصوبے ناکام ہوجائيں گے اور ان کی کمزوریاں اور ان کی تلملاہٹ کھل کر سامنے آجائے گی۔

مہر نیوز: تمام صدارتی امیدواروں کا کہنا ہے کہ ہم آئندہ دور میں ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے تو آپ کی نظر میں پاک ایران تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کونسے اقدامات کی ضرورت ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے ملک کے مفادات سے بالاتر ہوکر اسرائیل دشمنی میں انقلابی سب سے آگے ہیں۔

انتخابات سے پہلے ہر صدر یہ کہتا ہے کہ ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار کرنے کی بھرپور کوشش کرینگے لیکن ایک انقلابی اور غیر انقلابی، ایک مغرب پرست اور ایک انقلابی اور دینی اقدار کے حامل شخص میں بڑا فرق ہوتا ہے۔  ایک انقلابی شخص کا سارا دارومدار دین کی پالیسی پر ہوتا ہے جبکہ غیرانقلابی اور مغرب سے متاثر لوگ اپنے مفادات کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے ملک کے مفادات سے بالاتر ہوکر اسرائیل دشمنی میں انقلابی سب سے آگے ہیں اگرچہ اس کا نقصان ایران کو اٹھانا پڑتا ہے اور وہی طبقہ جب کشمیر کی بات آتی ہے تو انڈیا سے اپنے تمام تر اپنے اقتصادی تعلقات کے باوجود انڈیا کے مقابلے میں کھڑا ہوجاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں جو مغرب پرست اور دینی اقدار سے محروم لوگ ہیں وہ صرف اپنے اقدار کو دیکھتے ہیں تو اس اعتبار سے اس الیکشن کے بعد میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر انقلابی طبقہ،  انقلابی اور ولایت فقیہ کا قائل طبقہ میدان میں آتا ہے تو یقینا وہ اپنے نظریات کی  بنیاد پر کشمیریوں کی حمایت کے لیے بھی کھل کر سامنے آئے گا اور فلسطینیوں کی حمایت کے لئے بھی کھل کر سامنے آئے گا ۔  اگر کشمیر کے مسئلے  پر کوئی ملک پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو پاکستان اور اس ملک کے درمیان تعلقات کا بہتر ہونا عام سی بات ہے، لہذا پاک ایران تعلقات کے استحکام میں یہ موارد بہت اہم ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اگر پاکستان کے اندر بھی کوئی آزاد منش حکومت آجائے تو وہ ایران کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرکے ایران اور پاکستان کی معیشت، در آمدات اور برآمدات کی موجودہ فضا  میں بہتری لاکر دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے مفادات کا محافظ بناسکتی ہے، یہ کام پاکستانی حکومت اور ایرانی حکومت کی مشترکہ جدوجہد اور مشترکہ مفاہمت سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اس اعتبار سے بھی میرا خیال یہی ہے کہ رئیسی صاحب باقی تمام لوگوں کی نسبت بہتر طور پر یہ کام کرسکتے ہیں۔  ڈاکٹر سعید جلیلی بھی اس حوالے سے روشن فکر اور بہتر  شخصیت ہیں اور محسن رضائی صاحب بھی اس حوالے سے نظریاتی شخصیت ہیں وہ بھی بہتر طور پر کام کرسکتے ہیں۔ اگر دونوں حکومتیں درآمدات اور برآمدات، اقتصادی معاملات کی  مضبوطی، خطے میں امن و امان کی بحالی اور خطے کے ممالک کے درمیان  عداوتوں اورمخالفتوں  کو ختم کرنے کے حوالے سے باہمی طور پر مفاہمت کی طرف آئیں  تو اس سے بڑا مثبت اثر پڑے گا اور ان انتخابات میں زیادہ اس چیز کی ضرورت ہے کہ انتخابات کے بعد جوبھی برسر اقتدار آئے ، اسے اپنی توجہ  ان امور کی طرف مبذول کرنی چاہیے ۔

مہر نیوز : آپ کی نظر میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا اور اس منصوبے کی تکمیل کیسے ممکن ہے؟اس وقت پاک ایران پائپ گیس لائن کے حوالے سے مسئلہ ایران کا نہیں ہے، بلکہ  پاکستان کا بھی نہیں ہے، جبکہ یہ مسئلہ ان عالمی طاقتوں کا ہے 

پاک ایران پائپ لائن کے حوالے سے عرض کروں کہ یہ مسئلہ اندرونی نہیں، بلکہ ایک  بیرونی مسئلہ ہے۔  اگر گیس پائپ لائن شروع ہوجائے تو ایک طرف سے  "یو اے ای" دھمکیاں دیتا ہے تو دوسری طرف سے سعودی عرب  اور امریکہ دھمکیاں دیتے ہیں  کہ ہم تمہاری امداد بند کردیں گے۔ لہٰذا  یہ پاکستان کی مجبوری ہے کیونکہ وہ اقتصادی طور پر ایک کمزور ملک ہے اور جو ملک جتنا بھی اقتصادی حوالے سے کمزور ہوتا ہے وہ اتنا ہی دوسروں کی پالیسیوں سے متاثر ہوتا ہے۔لہٰذا  اس وقت پاک ایران پائپ گیس لائن کے حوالے سے مسئلہ ایران کا نہیں ہے، بلکہ  پاکستان کا بھی نہیں ہے، جبکہ یہ مسئلہ ان عالمی طاقتوں کا ہے جو ایران اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب آنے سے روکنا چاہتی ہیں، لہذا جس طرح ایران ہمت اور جرئت  کا مظاہرہ کرتا ہے پاکستان کے اندر بھی ہماری حکومت جرئت و ہمت کا مظاہرہ کرے تو یہ صورتحال بد ل سکتی ہے اور یہ گیس پائپ لائن کا باقاعدہ آغاز ہوسکتا ہے اور اس منصوبے پر فوری کام شروع بھی کیا جاسکتا ہے لیکن جیسے ہم سب کو پتہ ہے کہ خود اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے "یو اے ای" اور سعودی عرب  کی طرف سے ہماری حکومت پر کتنا دباؤ اور پریشر تھا۔ ہمارے قارئین کو پتہ ہے کہ کوالامپور  کانفرنس میں شرکت سے روکنے کے لیے سعودیوں اور اماراتیوں نے کس طرح سے ہماری حکومت پر  دباؤ ڈالا اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اس کانفرنس کے بانی ہونے کے باوجود اس کانفرنس میں نہیں گئے اور تاریخ میں یہ ذلت ہماری پیشانی پر لکھی گئی۔ لہذا معیشت کے حوالے سے ہم اتنے کمزور ہوں تو ایک ایسے گیس پائپ لائن پر سائن کرنا پاکستان کے لیے آسان نہیں ہے اس کے لیے ہمت  چاہیے اس کے لیے غلامی اور خوف کی طاقتوں کو توڑنے کی طاقت  کی ضرورت ہے اس کے لیے خطے کے عرب بادشاہوں کی طاقتوں کے حصار سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ جونہی  یہ تبدیلی پاکستا ن میں آئے گی پھر پاکستان سے مشکلات کا خاتمہ شروع ہوگا تو اس لیے پاک ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے جو مشکل ہے وہ خطے کے ان ممالک کی طرف سے ہے جنکے زیر اثر پاکستان  ہے ۔

مہر نیوز : عالمی طاقتوں کی  اکثریت اپنے ملکوں میں شفاف انتخابات نہیں کرا سکتیں، وہ ایرانی صدارتی الیکشن پر حساس کیوں ہوجاتی ہیں؟

ایرانی عوام کو اپنے سسٹم اور اپنے نظام پر اعتماد ہےایرانی عوام نے گزشتہ چالیس سالوں میں تمام تر کٹھن حالات، بین الاقوامی پابندیوں، آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ  میں استعماری حملوں اورہتھکنڈوں کے باوجود اپنی حکومت  اور اپنے رہبر پر اعتماد کا مظاہرہ کرکے انقلاب کو کمزور ہونے سے بچایا۔ اس کے ساتھ انہوں نے فلسطینی اور عراقی مظلوموں  کا ساتھ دیا، یمن اور کشمیر کے مظلوموں کی حمایت کی، شام کے عوام کا ساتھ دیا اور داعش دہشت گردوں کو انہی بہادر عوام اور جوانوں نے شکست سے دوچار کیا۔لہٰذا اسلامی  انقلاب کی ویلیوز ہیں جن پر ایرانی عوام کو بھرپور اعتماد ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پارلیمنٹ کے الیکشن میں انہوں نے مغرب پرست عناصر کو اس طرح سے باہر کیا جس طرح سے گھی میں سے مکھی کو نکالا جاتا ہے۔یہ ایرانی عوام کے  شعو ر کا امتحان بھی تھا اور اس امتحان میں ایرانی عوام کامیاب بھی ہوئے ۔ لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایرانی عوام کو اپنے سسٹم اور اپنے نظام پر اعتماد ہے، مغرب کی تمام تر سازشوں کے باوجود انہوں نے کبھی دھوکہ نہیں کھایا اور اب تک اپنے  دینی رہبر و راہنما پر مکمل اعتماد کر کے  اپنے اعلی اہدا کی سمت  ثابت قدمی کے ساتھ گامزن ہیں ، لہٰذا حالیہ  انتخابات میں بھی مغرب کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام انقلاب کے شانہ بشانہ رہیں گے اور اپنے اس انقلاب کو منطقی نتیجے تک پہنچانے کے لیے تیار رہیں گے۔ 

مہر نیوز :ایرانی صدراتی الیکشن پر وہ ممالک بھی تنقید کرتے نظر آتے ہیں جن میں  صدیوں سے الیکشن کا کوئی نظام ہی نہیں، اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ایرانی صدارتی الیکشن میں مغرب کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام انقلاب کے شانہ بشانہ رہیں گے

ایرانی صدارتی انتخابات پر عرب ممالک کے بڑے بڑے اعتراضات دیکھ کر ہنسی آتی ہے، جہاں بادشاہت ہے۔ جولوگ سراپا ننگے ہیں وہ لباس والوں پر اعتراض کرتے ہیں۔ ایران میں پچھلے چالیس سالوں سے  آئین کے تحت کوئی الیکشن ملتوی نہیں ہوا۔  نجی سطح سے لے کر اوپر کی سطح تک کے فیصلے عوام کی امنگوں کے مطابق  ہوئے اور عوام نے بھرپور شرکت کی ۔  جنگ کے سخت ترین حالات میں پارلیمنٹ کو بم سے اڑانے کے باوجود، اسی طرح  صدر، وزیر اعظم، چیف جسٹس، ائمہ جمعہ سمیت بڑی بڑی شخصیات کو شہید کرنے کے باوجود الیکشن میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوئی اب ایسے نظام پر سعودی، اماراتی  یا کویتی  اگر اعتراض کریں اور الیکشن پر انگلی اٹھائیں جہاں پر استبداد اور ڈکٹیٹر شپ ہے اور امریکیوں کے بٹھائے ہوئے گماشتے حکومت کر رہے ہیں  تو ایسی باتوں پر ہنسی آتی ہے، کیونکہ یہ باتیں ساری دنیا میں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔  لوگ اب سمجھنے لگے ہیں لہذا ان کے اعتراضات نقش  بر آب ثابت ہوں گے اور اس الیکشن یا وہاں کے  عوام پر کسی طرح کا اثر ان شاءاللہ نہیں پڑے گا۔

مہر نیوز :آپ اسلامی جمہوریہ ایران میں صدارتی انتخابات اور دوسرے ملکوں میں انتخابات کو کیسے دیکھتے ہیں؟

اسلامی جمہوریہ  ایران میں صدراتی انتخابات کے جو معیارات ہیں یا اس کے لیے جو اصول وضع کیے گئے ہیں، اس لحاظ سے اگر ایران کےانتخابات دنیا کے جدید ترین اور ترقی یافتہ ملکوں کے صدارتی انتخابات سے بہت آگے نہیں تو  پیچھےہرگز نہیں ہیں۔اگر آپ الیکشن کے لیے وضع شدہ قوانین  اور صدارتی امیدواروں کے شرائط  اور انکی صلاحیتوں کے حوالے سے دیکھیں  تو آپ کو یہ لگے گا کہ دنیا کے ترقی یافتہ  ممالک سے ایران کے صدارتی انتخاب کا نظام زیادہ بہتر اور مضبوط  ہے اور بعض جہات سے دنیا کا کوئی ملک اس نظام کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔  اگر امریکہ کے اندر انتخابات ہوتے ہیں تو صدارتی امیدوار مختلف سرمایہ داروں سے پیسے لیتا ہے اور انتخابات میں بے دریغ پیسہ خرچ کرتا ہے ۔ جب وہ صدر بن جاتا ہے تو وہی سرمایہ دار اس صدر کے اختیارات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کرپشن کرتے ہیں اور اپنا پیٹ بھرتے ہیں،  لیکن ایران کے اندر ایسے سارے دروازے بند کررکھے ہے لہذا صدارتی امیدواروں کو خود ریاست سپورٹ  کرتی ہے، ریاست کے چینلز سپورٹ کرتے ہے اور برابری کی سطح پہ ایک گمنام ترین فرد اور ایک مشہور ترین فرد میں کوئی  فرق نہیں رکھاجاتا۔ دونوں کو برابر ٹائم دے کر مناظروں کی صورت میں سوالات کی صورت میں برابری کی سطح پر تشہیر کی جاتی ہے۔ جس سے پوری دنیا کو یہ پیغام  پہنچتا ہے کہ اسی کو  عدل اور انصاف کی حکمرانی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا  اس اعتبار سے ایرانی صدارتی الیکشن باقی ممالک کے صدارتی انتخابات سے بہت زیادہ بہتر  و منصفانہ اور مقبول عام ہے۔

مہر نیوز : ایرانی عوام کے لئے کوئی خاص پیغام؟

ایرانی عوام کے لئے پیغام یہی ہے کہ: پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔  رہبری اور ولایت فقیہ ہی ایران کی سربلندی کی بنیاد ہے۔ جب تک قوم اس نظرئیے  اور اس منصب سے وفادار رہے گی تب تک دنیا بھر کی طاقتیں مل کر بھی اس انقلاب کا کچھ نہیں بگاڑ  سکتیں۔ ایرانی قوم نے ماضی میں یہ ثابت کیا ہے اور اس کے بعد بھی انشاءاللہ یہ ثابت کردکھانے کی طاقت رکھتی ہے کہ وہ ولایت کی پیروکار ہے، ولایت فقیہ کو  مانتی ہے اور اسلامی نظام کی بقا اور حمایت میں کھڑی ہے۔  یہی ایرانی قوم کا طرہ امتیاز ہے اور اگر اس نے اس امیتاز کی حفاظت کی تو  پوری دنیا میں یہ قوم سربلند اور سرافراز رہےگی۔

مہر نیوز : آئندہ آنے والے صدر کے لیے کوئی پیغام؟میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایرانی صدر جہاں اپنے ملک اور اپنے قوم کے لیے درد مند ہو  وہاں پر وہ امت مسلمہ کے درمیان یکجہتی کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کرے

آئندہ آنے والے صدر کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ گزشتہ چالیس برسوں میں مختلف صدور آئے اور چلے گئے، لیکن جن صدور نے ولایت فقیہ سے اپنا تعلق مراد اورمرید والا بنایا وہ ہمیشہ سرخروبھی رہے اور کامیاب بھی رہے اور اس کی کامیابی میں اضافہ بھی ہوتا رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں  جن صدور نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے آُپ کو مقتدر سمجھ کر ولایت کے آگے کھڑے ہونے کی اور سینہ تاننے کی کوشش کی وہ بھلا جتنے بھی انقلابی تھے ذلت نے انہیں  کہیں کا رہنے نہیں دیا، جس کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔  میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایرانی صدر جہاں اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے درد مند ہو  وہاں پر وہ امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کرے، وہ اسلام کی بالادستی اور دین کے بنیادی اقدار اور ویلیوز کی بھی حفاظت کرے  اور ساتھ ساتھ ولی فقیہ کا بھی مکمل تابع اور پیرو کار رہے ۔ اگر ایسا ہوا تو کوئی مائی کا لال اس ملک اور اس نظام کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران میں 18 جون کو صدارتی انتخابات منعقد ہورہے ہیں ۔ ایران میں ہر چار سال بعد صدر کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے کیا جاتا ہے۔ ایران کے الیکش کمیشن کے ترجمان سید اسماعیل موسوی نے کہا ہے کہ ایران میں 59 ملین 3 لاکھ 10 ہزار اور 307 افراد ووٹنگ میں حصہ لینے کے اہل ہیں۔ ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات میں ملک بھر میں 72 ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کئے جارہے ہیں۔

ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات میں صدارتی عہدے تک پہنچنے کے لئے 7 امیدوار میدان میں موجود ہیں۔ ان اُمیدواروں میں موجودہ چیف جسٹس ابراہیم رئیسی، سابق جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی، پاسدارانِ انقلاب کے سابق سربراہ محسن رضائی، ایران کے مرکزی بینک کے سربراہ عبدالناصر ہمتی، ایرانی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر سید امیر حسین قاضی زادہ ہاشمی، سابق نائب صدر مہر علی زادہ اور پارلیمنٹ ممبر علی رضا زاکانی شامل ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت امام خمینی (رہ) کی 32 ویں برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں انتخابات کی اہمیت کی طرف اشارہ  کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ "حضرت امام خمینی (رہ) نے بہت سے اہم اقدامات انجام دیئے جن میں اسلامی جمہوری نظریہ پر مبنی انتخابات شامل ہیں جو ان کی سب سے اہم خلاقیت ، جدت اور نوآوری ہے ، یہی دینی  اور مذہبی جمہوریت ہے۔ امام خمینی (رہ) کے اس یادگار اقدام کی دور حاضر اور مستقبل میں حفاظت اور نگہبانی ضروری ہے۔"

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: " اسلامی جمہوری نظام کے مخالفین دو قسم کے ہیں، ایک لیبرل نظریہ کے حامی ہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ دین اور مذہب  کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ جبکہ دوسرا نظریہ داعشی نظریہ ہے یہ لوگ دینی حاکمیت کے قائل ہیں لیکن عوام اور جمہوریت کے خلاف ہیں۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے اللہ تعالی کی ذات پر ایمان و توکل اور عوام پر یقین رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریت کا نظریہ پیش کیا اور گہری دینی معرفت کے ساتھ  اپنے اس نظریہ پر قائم رہے یہاں تک کہ اسے عملی جامہ پہنا دیا۔"

 

ادھر ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف کا کہنا ہے کہ ایرانی عوام نے گذشتہ 4 دہائيوں سے انتخابات میں شرکت کرکے ثابت کردیا ہے کہ ایران اسلامیت اور جمہوریت کا گہوارہ ہے ایران میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوگئی ہیں اور ایران میں سیاسی قیادت کے انتخاب میں عوام کا بنیادی اور اساسی کردار ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے اپنے ایک ٹوئیٹر بیان میں صدارتی انتخابات کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی عوام کی انتخابات میں بھر پور شرکت ایران کے تمام حامیوں اور طرفداروں کے لئے مفید اور مؤثرثابت ہوگي۔

انھوں نے کہا کہ انتخاب عوام کا حق ہے اور انتخابات میں شرکت ہر ایرانی کی قومی اور شرعی ذمہ داری ہے۔ اسلامی جمہوری نظام عوام کا اور عوام کے لئے ہے۔صدارتی انتخابات میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت ملکی ترقی اور پیشرفت کے لئے اہم اور مفید ثابت ہوگی ۔

ایران میں تیرہویں صدارتی انتخابات 18 جون کومنعقد  ہوں گے۔ایرانی صدر حسن روحانی 2 مرتبہ صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد سبکدوش ہو جائیں گے، ایران میں مسلسل 3 مرتبہ صدر بننے کی قانون میں اجازت نہیں ہے۔ ایرانی قانون کی شق 66  کے مطابق  امیدواروں کی طرف سے تبلیغات کا سلسلہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ناموں کے اعلان کے بعد سے شروع ہوجاتا ہے جبکہ صدارتی تبلیغات کا سلسلہ ووٹنگ سے 24 گھنٹہ پہلے ختم ہوجاتا ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران کے 13 ویں صدارتی انتخابات ایک انتہائی حساس علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال میں منعقد ہورہے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ انتخابات ایک طرف ایرانی عوام کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں تو دوسری جانب ہمسایہ ممالک کے عوام کے لئے بھی اہم ہیں.  صدارتی انتخابات میں ایرانی عوام کی بھرپور شرکت اہمیت کی حامل ہے۔ ایرانی عوام صدارتی انتخابات میں بھر پور شرکت کرکے انقلاب اسلامی کے دشمنوں کی تمام گھناؤنی سازشوں کو خاک میں ملا دیں گے اور اسلامیت و جمہوریت کی بقا کا شاندار مظاہرہ کریں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس

معروف صہیونی اخبار یدیعوت آحارنوٹ میں فوجی امور کے ماہر رون بن یشای نے ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں فلسطینیوں کے مقابلے میں تل ابیب کی سکیورٹی حکمت عملی کو مکمل طور پر شکست خوردہ قرار دیا گیا ہے۔ اس مقالے میں تاکید کی گئی ہے کہ صہیونی فوج کے غلط فیصلوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ رون بن یشای نے اپنے مقالے میں مزید لکھا کہ فلسطینیوں کے مقابلے میں ہماری حکمت عملی مختلف سطح پر مکمل ناکامی کا شکار ہو چکی ہے جن میں سے اہم ترین سطح فیصلہ سازی کی سطح ہے۔ اہم فیصلوں کے وقت "گریٹر اسرائیل" نامی آرزو اور دائیں بازو کے شدت پسند سیاسی رہنماوں کی آراء کو قومی سلامتی پر ترجیح دی جاتی ہے جس کے باعث اسٹریٹجک امور پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔
 
یہ فوجی ماہر اپنے مقالے میں لکھتا ہے کہ اسرائیل کی مختلف حکومتوں نے اپنے سکیورٹی اور فوجی فیصلوں میں بہت بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں جن کے باعث اسرائیلی شہریوں کو بھاری جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں میں پائے جانے والے مذہبی رجحانات کو درست انداز میں درک کرنے سے قاصر ہے جس کے باعث اسرائیلی حکام مشرقی بیت المقدس میں بھی نظم و نسق برقرار نہیں رکھ پا رہے۔ رون بن یشای نے لکھا کہ ہماری حکومتیں شدت پسند یہودیوں کو مسجد اقصی میں بدامنی اور بدنظمی پھیلانے سے بھی اسی وجہ سے نہیں روک پائیں۔ اسی وجہ سے ہمیں بہت زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ 2014ء کے بعد غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس اسلحہ کے ذخائر کے لحاظ سے بہت زیادہ ترقی کر کے طاقتور ہو چکی ہے۔
 
رون بن یشای نے اپنے مقالے میں لکھا کہ اسرائیلی حکام نے فلسطین اتھارٹی اور محمود عباس کے ساتھ بہت ہی تحقیر آمیز اور بے ادبانہ رویہ اختیار کیا اگرچہ محمود عباس مقبوضہ فلسطین میں مسلح کاروائیوں کی مخالفت کرتے تھے اور ہماری سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محمود عباس ہمارے ساتھ پرامن طریقے سے زندگی بسر کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن حماس ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کرتی اور یہودی ریاست کو مسترد کرتی ہے۔ یدیعوت آحارنوٹ میں لکھتے ہوئے اس فوجی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ صہیونی سیاست دانوں اور موساد اور دیگر حساس اداروں کے درمیان بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ حالیہ جنگ میں ہمارے سیاست دان فتح کے دعوے کر رہے ہیں جبکہ سکیورٹی حکام انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

امام جعفر صادقؑ مسلمانوں کے چھٹے امام ہیں، شیعہ و سنی سب کے ہاں آپ کا عظیم مقام ہے۔ جناب ابو حنیفہ آپ کو مسلمانوں میں سب سے زیادہ علم و معرفت کا حامل سمجھتے تھے۔ وہ آپؑ کو مسلمانوں میں سب سے زیادہ دین شناس اور علم و معرفت کا حامل قرار دیتے تھے۔ ابن ابی الحدید المعتزلی کا کہنا ہے کہ جناب ابو حنیفہ، احمد بن حنبل اور شافعی مستقیم یا غیر مستقیم امام صادقؑ کے شاگرد رہے ہیں. اسی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حقیقت میں دینِ اسلام نے ایک ہی جڑ سے نشو و نما پائی ہے۔ آپ کی امامت کے دوران چونکہ بنی امیہ اپنے زوال کے ایام سے گزر رہے تھے، اسلئے آپ کو دوسرے آئمہ کی نسبت زیادہ علمی امور کی انجام دہی کا موقع ملا۔ آپ کے شاگردوں اور راویوں کی تعداد 4000 ہزار تک بتائی گئی ہیں۔

اہل بیتؑ سے منسوب احادیث میں سے اکثر احادیث امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں۔ اسی بنا پر شیعہ مذہب کو مذہب جعفریہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپؑ نے امام علیؑ کا مرقد جو اس وقت تک مخفی تھا، مشخص فرمایا اور اپنے پیروکاروں کو دکھایا۔ حدیثی منابع کے مطابق آپ نے امام کاظمؑ کو اپنے بعد بعنوان امام اپنے اصحاب کے سامنے متعارف کروایا۔ امام صادقؑ کے دور امامت میں بنی امیہ اپنی اقتدار اور بقا کی جنگ لڑ رہی تھے، اسی بنا پر لوگوں کو کسی حد تک مذہبی آزادی نصیب ہوئی، جس سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے امام عالی مقام نے مختلف موضوعات پر علمی مباحث کا سلسلہ شروع فرمایا۔ اس علمی اور مذہبی آزادی جو آپ سے پہلے والے اماموں کو کمتر نصیب ہوئی تھی کی وجہ سے علم دانش کے متلاشی آپ کے علمی جلسات میں آزادی سے شرکت کرنے لگے۔ یوں فقہ، کلام اور دیگر مختلف موضوعات پر آپ سے بہت زیادہ احادیث نقل ہوئیں۔ ابن‌ حَجَر ہیثمی کے بقول لوگ آپ سے علم و معرفت کے خزانے دریافت کرتے تھے اور ہر جگہ آپ ہی کا چرچا تھا۔

ابو بحر جاحظ لکھتے ہیں کہ ان کی فقہ اور علم پوری دنیا میں پھیل چکا تھا۔ حسن بن علی وَشّاء لکھتے ہیں کہ انہوں نے 900 لوگوں کو دیکھا جو مسجد کوفہ میں امام صادقؑ سے حدیث نقل کرتے تھے۔ امام صادقؑ کے متعلق لکھی گئی کتابوں کی تعداد 800 تک بتائی جاتی ہے، جن میں سے ایک اخبار الصادق مع ابی حنیفہ و اخبار الصادق مع المنصور ہے جسے محمد بن وہبان دبیلی نے چوتھی صدی ہجری میں لکھا، اس سلسلے کی قدیمی کتابوں میں سے ہیں۔ "آپ سے متعلق بعض دوسری کتابوں میں زندگانی امام صادق جعفر بن محمدؑ مصنف سید جعفر شہیدی، الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ، مصنف اسد حیدر، پیشوائے صادق، مصنف سید علی خامنہ ای اور موسوعۃ الإمام الصادق، مصنف باقر شریف قَرَشی کا نام لیا جا سکتا ہے"۔ سنہ 1378 ہجری میں الأزہر یونیورسٹی مصر کے چانسلر شیخ محمود شلتوت نے مذہب جعفریہ کو سرکاری طور پر قبول کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کو بھی جائز قرار دیا۔

تألیفات امام صادق:
امام صادقؑ کا اپنے اصحاب کے نام خط۔، یہ خط امامؑ کی ان سفارشات پر مشتمل ہے جو آپ نے زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے اپنے پیروکاروں کیلئے ارشاد فرمایا ہے۔ یہ خط کتاب کافی میں بھی آیا ہے۔ رسالہ شرایع الدین بہ روایت اَعمَش۔ یہ رسالہ اصول دین اور فروع دین کے متعلق ہے جسے ابن بابویہ نے نقل کیا ہے۔ قرآن کی تفسیر سے متعلق ایک خط کا ایک حصہ "الرسالۃ الأہوازیہ" یہ خط آپ نے اہواز کے گورنر نجاشی کو تحریر فرمایا تھا, جس کا متن شہید ثانی کی کتاب کشف الریبہ میں آیا ہے۔ توحید المُفَضَّل یا کتاب فکِّر۔ یہ رسالہ خدا شناسی سے متعلق امامؑ کے ارشادات کا خلاصہ ہے جسے آپ نے مُفَضَّل بن عمر کیلئے ارشاد فرمایا تھا اور اس کتاب میں "فَکِّر یا مُفَضَّل" (اے مفضل غور و فکر کرو) کی تکرار کی وجہ سے قدیم زمانے میں یہ کتاب "کتاب فَکِّر" کے نام سے بھی مشہور تھی۔

"رسالہ اَہلیلَجہ" اس رسالے میں امام صادقؑ نے کسی ہندوستانی ڈاکٹر کے ساتھ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی غرض سے گفتگو فرمائی ہے۔ نجاشی نے اس کتاب کو "بِدءُالخَلق و الحَثُّ عَلَی الاِعتبار" کے نام سے یاد کیا ہے۔ تفسیر امام صادقؑ کے نام سے مشہور کتاب، تفسیر النُعمانی بھی آپ کی احادیث پر مشتمل ہے۔ بعض کتابیں ایسی ہیں جو آپؑ کے شاگردوں نے آپ کے ارشادات سے اقتباس کرتے ہوئے تحریر کی ہیں۔ من جملہ ان کتابوں میں سے بعض جو شایع ہوئی ہیں درج ذیل ہیں: "الجعفریات" یا "الاَشعَثیات" مصنف محمد بن محمد بن اشعث۔ "نثر الدُرَر" اس کتاب کے متن کو ابن شُعبہ حَرّانی نے تحف العقولمیں نقل کیا ہے۔ "الحِکَم الجعفریہ" امامؑ کے مختصر کلام کا مجموعہ جس کے راوی سلمان بن ایوب ہیں اور اس کا متن کتاب فرائِدُ السَمَطَین میں جوینی نے نقل کیا ہے۔

شاگرد اور روات:
بعض علما نے اپنی کتب میں تقریبا 3200 راویوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے امام صادقؑ سے حدیث نقل کی ہیں۔ کتاب الارشاد میں آپ کے راویوں کی تعداد 4000 تک نقل کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امام صادقؑ کے راویوں سے متعلق ابن‌ عقدہ کی ایک کتاب تھی جس میں انہوں نے بھی ان کی تعداد 4000 بتائی ہیں۔ اصول اربع مائہ کے اکثر مصنفین امام صادق کے شاگرد تھے۔ اسی طرح دوسرے آئمہ کی نسبت آپ کے شاگردوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہیں۔ جو آئمہ معصومین کے اصحاب میں سب سے زیادہ مورد اعتماد راویوں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کے بعض مشہور شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں: "زُرارَۃ بن اَعین، بُرَید بن معاویہ، جَمیل بن دَرّاج، عبداللہ بن مُسکان، عبداللہ بن بُکَیر، حَمّاد بن عثمان، حماد بن عیسی، اَبان بن عثمان، عبداللہ بن سنان، ابو بصیر، ہشام بن سالم، ہشام بن حَکَم وغیرہ شامل ہیں۔ امام صادقؑ کے شاگردوں کے مناظرے پر مبنی حدیث جسے کَشّی نے نقل کی ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی شاگرد مختلف علمی شعبوں میں تخصص رکھتے تھے۔ اس حدیث کے مطابق حُمران بن اَعیَن علوم قرآنی میں، اَبان بن تَغلِب ادبیات عرب میں، زُرارہ فقہ میں اور مومن الطاق اور ہِشام بن سالم علم کلام میں تخصص رکھتے تھے۔ اسی طرح علم کلام میں تخصص رکھنے والے آپ کے دیگر شاگردوں میں حُمران بن اَعیَن، قیس ماصِر اور ہشام بن حَکَم کا نام لیا جا سکتا ہے۔

مناظرات اور علمی گفتگو:
حدیثی منابع میں امام صادقؑ اور دوسرے مذاہب کے متکلمین نیز بعض ملحدین کے درمیان مختلف مناظرات اور علمی گفتگو نقل ہوئی ہیں۔ ان مناظرات میں سے بعض میں امام علیہ السلام کے شاگردوں نے اپنے متعلقہ شعبوں میں آپ کی موجودگی میں دوسروں کے ساتھ مناظرہ کئے ہیں۔ ان مناظروں میں امام عالی مقام مناظرے کی نگرانی فرماتے اور کبھی کبھار ضرورت پڑنے پر خود بھی بحث میں حصہ لیتے تھے۔ مثلا ایک شامی جو آپ کے شاگردوں کے ساتھ مناظرہ کرنے کا خواہاں تھا، امام نے ہشام بن سالم جو علم کلام میں تخصص رکھتا تھا سے اس شامی کے ساتھ مناظرہ کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح ایک اور شخص جو خود امامؑ سے مناظرہ کرنا چاہتا تھا، آپ نے فرمایا پہلے جس موضوع پر بھی گفتگو کرنا چاہتا ہے آپ کے شاگردوں سے مناظرہ کرنے کا کہا اور ان پر غالب آنے کی صورت میں اپنے ساتھ مناظرہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اس شخص نے قرآن سے متعلق حُمران بن اَعیَن کے ساتھ ادبیات عربی سے متعلق اَبان بن تَغلِب کے ساتھ فقہ میں زُرارہ اور کلام میں مؤمن طاق اور ہِشام بن سالم کے ساتھ مناظرہ کیا اور ہر میدان میں وہ مغلوب ہوا۔

احمد بن علی طبرسی نے اپنی کتاب الاحتجاج میں امام صادقؑ کے مناظرات کو جمع کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:
ایک منکر خدا کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
 ابوشاکر دَیصانی کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
ابن ابی العوجاء کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ۔
ابن ابی العوجاء کے ساتھ عالَم کے حدوث پر مناظرہ۔
خدا کے منکر ایک شخص کے ساتھ خدا کے وجود اور بعض دیگر مسائل پر طولانی مناظرہ‌۔
امام ابوحنیفہ کے ساتھ حکم شرعی کے استنباط کے طریقے خاص کر قیاس سے متعلق مناظرہ۔
معتزلہ کے بعض علماء کے ساتھ حاکم کے انتخاب کا طریقہ کار اور بعض دوسرے فقہی مسائل پر مناظرہ۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے علوم دینیہ تک ہی نشر و اشاعت کو محدود نہیں رکھا بلکہ دیگر علوم مثلا ریاضیات و فلسفہ و علوم افلاک اور کیمسٹری جیسے علوم کے لئے بنیادیں ڈالیں اور آپ کے مشہور شاگردوں میں کیمیادان جابر بن حیان بھی شامل ہے۔

شہادت:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو منصور کے حکم پر زہر دی گئی جس کے باعث امام علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی۔۔ضرورت اس امر کی ہےکہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی تاسی (سنت) میں ہم بھی تمام علوم کے حصول کے لیے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لائیں تاکہ ہم ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افراد کی ہر ممکنہ خدمت کر سکیں۔۔سلام ہو آپ پر اے منبعِ علم و معرفت کہ آپ سے علم و معرفت کے چشمے  پھوٹتے ہیں۔
 
 تحریر: ذہین کاظمی