سلیمانی

سلیمانی

 استاد علامه حضرت آیت الله حسن زاده آملى ماہر علوم عقلیه و نقلیه، صاحب علم و عمل، شاخص عظیم تحقیق و تفکیر، حِبر فاخر و بحر زاخر، عَلَم علم و عمل، عالم به ریاضیات عالیه از جمله هیئت و حساب و هندسه، عالم به علوم غریبه ،متحقق به حقائق الهیه و اسرار سبحانیه، مفسّر تفسیر انفسى قرآن فرقان،معلم اخلاق و عرفان،فقیہ زمان، فیلسوف دوراں،حکیم متاله،عارف سالک،شاعر و ادیب متبحر،جناب حسن بن عبدالله طبرى آملى(حفظه الله تعالى) کہ جو ” حسن زاده” کے نام سے مشہور ہیں۔

?ان کی عظمت کے لیے بس یہی جملہ کافی ہے کہ جو انکے استاد جلیل القدر و عظیم المرتبہ حضرت آیت اللہ علامہ طباطبائی نے انکے بارے میں فرمایا :

حسن زادہ کو سوائے امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کے کسی نے درک نہیں کیا

مختصر سوانح حیات

?آپ نے ۱۳۴۷ھ قمری مطابق ۱۹۲۹ء میں ابرا میں (جو شھر لاریجان آمل میں واقع ہے) آنکھ کھولی ۔ آپ کا اصلی نام حسن بن عبد اللہ طبری آملی ہے اور حسن زادہ آپکی عرفیت ہے ۔ حوزہ کے مقدماتی علوم اور ان علوم کو جو طلاب کے درمیان رائج ہیں آمل کی جامع مسجد میں حاصل کیا۔ اس عرصہ میں جو چھ سال کا تھا آپ نے آیة اللہ مرزا ابوالقاسم فرسیو، آیة اللہ غروی ، شیخ احمد اعتمادی ، شیخ ابو القاسم رجائی لتیکوھی، شیخ عزیز اللہ طبرسی اور مرحوم عبداللہ اشراقی سے کسب فیض کیا ۔ اسکے بعد ۲۲ سال کی عمر میں تہران تشریف لے گئے اور متعدد آیات عظام مرزا ابوالحسن شعرانی ، جناب مرزا مھدی الھی قمشہ ای ، جناب شیخ محمد تقی آملی ، میرزا ابوالحسن رفیعی قزوینی ، شیخ محمد حسین فاضل تونی ،مرزا احمد آشتیانی اور سید احمد لواسانی کے محضر مبارک میں زانوئے تلمذ اختیار کیا ۔ ۱۳۴۲ ھ ش میں قم تشریف لائے اور علامہ سید محمد حسین طباطبائی اور انکے بھائی سید حسن طباطبائی اور سید مھدی قاضی طباطبائی سے مستفیض ہوئے اور اسی وقت سے حوزہ علمیہ قم میں درس و تدریس و بحث و تحقیق وغیرہ میں مشغول رہے۔ آپ کی پہلی کتاب "” تصحیح و اعراب گذاری ونصاب الصبیان "” ہے ۔ آپ سے متعلق کتابوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ تالیف مستقل ، شرح ، حواشی و تعلیقات، دوسروں کی کتابوں و رسالوں کی تصحیح ۔

 

? علامہ حسن زادہ آملی فقہ، فلسفہ، اخلاق، عرفان، حکمت دینی، علم کلام، ریاضیات، نجوم، عربی اور فارسی ادب،ادبیات عرب، علوم طبیعی، طب قدیم، علوم غریبہ و باطنی جیسے علوم و موضوعات پر صاحب تصنیف ہیں۔ البتہ ان کی زیادہ تر تالیفات و افکار قرآنی مرکزیت و محوریت کے ساتھ فلسفہ و عرفان سے تعلق رکھتی ہیں۔

? علامہ کے اساتید
آیت اللہ سید مهدی قاضی ( علوم غریبه)،آیت اللہ سید محمدحسن الهی طباطبایی،آیت اللہ محمدتقی آملی
علامہ آیت اللہ سید محمدحسین طباطبایی،آیت اللہ محمدتقی آملی
آیت اللہ ابوالحسن شعرانی،آیت اللہ محمدحسین فاضل تونی،آیت اللہ مهدی الهی قمشه‌ای،آیت اللہ میرزا هاشم اشکوری،آیت اللہ ابوالحسن رفیعی قزوینی۔

? سیاسی نظریات
? پیروئے خط امام و ولایت فقیہ

?رھبر معظم کے بارے علامہ حسن زادہ کا کا قول مشہور ہے کہ :
اپنے کانوں کو رھبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے فرمودات کی جانب رکھیں کیونکہ رہبر معظم کے کان امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کے فرمودات کی جانب ہیں۔

?آیت الله حسن زاده انقلاب اسلامی کے بارے میں ایک عرفانی تعبیر استعمال کرتے ہوئے فرماتے ہیں انقلاب اسلامی ظہور صغری ہے یعنی انقلاب اسلامی امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کا مقدمہ ہے

?علامہ حسن زادہ آملی کی علمی تصانیف

?عرفانی
الهی نامه
تصحیح رساله مکاتبات
تصحیح و تعلیق تمهید القواعد
تصحیح و تعلیق رساله تحفه الملوک
تصحیح و تعلیق شرح فصوص خوارزمی
تصحیح و تعلیق شرح فصوص قیصری
رساله انّه الحق
رساله‌ای در سیر و سلوک
رساله لقاءالله
رساله مفاتیح المخازن
رساله نور علی نور در ذکر و ذاکر و مذکور
شرح طائفه‌ای از اشعار و غزلیات حافظ
شرح فصوص الحکم
عرفان و حکمت متعالیه
قرآن و عرفان و برهان از هم جدایی ندارد
کلمه علیا در توقیفیت اسماء
مشکات القدس علی مصباح الأنس
منشئات
وحدت از دیدگاه عارف و حکیم
ولایت تکوینی
دروس معرفت نفس (۱۵۳ درس در نفس‌شناسی)

?فلسفی
الاصول الحکمیه
الحجج البالغه علی تجرد النفس الناطقه
النور المتجلّی فی الظّهور الظّلّی
ترجمه و تعلیق الجمع بین الرّأیین
ترجمه و شرح سه نمط آخر اشارات
تصحیح و تعلیق شفا
تصحیح و تعلیق اشارات
تقدیم و تصحیح و تعلیق آغاز و انجام
تقدیم و تعلیق راسله اتحاد عاقل به معقول
دررالقلائد علی غررالفرائد
دروس اتحاد عاقل به معقول
رساله اعتقادات
رساله العمل الضابط فی الرّابطی و الرابط
رساله‌ای در اثبات عالم مثال
رساله جعل
رساله رؤیا
رساله مثل
رساله نفس الأمر
رساله نهج الولایه
رساله فی التضّادّ
صد کلمه
عیون مسائل نفس و سرح العیون فی شرح العیون
گشتی در حرکت
گنجینه گوهر روان
معرفت نفس
مفاتیح الأسرار لسلّاک الاسفار
من کیستم
نثرالدّراری علی نظم اللئالی
نصوص الحکم بر فصوص الحکم

?کلامی
تقدیم و تصحیح و تعلیق رساله قضا و قدر محمد دهدار
تقدیم و تصحیح و تعلیق کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد
رساله حول الرؤیه
رساله خیر الاثر در رد جبر و قدر
رساله فی الامامه
فصل الخطاب فی عدم تحریف الکتاب ربّ‌الارباب

?تفسیری
انسان و قرآن
تصحیح خلاصه تفسیر المنهج الصادقین

?روایی
انسان کامل از دیدگاه نهج البلاغه
تصحیح سه کتاب ابی الجعد، نثراللئالی، طبّ الائمه
تصحیح نهج البلاغه
تکمله منهاج البراعه
رساله‌ای در اربعین
شرح چهل حدیث در معرفت نفس
مصادر و مآخذ نهج البلاغه

?رجالی
اضبط المقال فی ضبط اسماء الرجال
وجیزه‌ای در ترجمه و شرح زندگی علامه طباطبایی قدس سرّه

?فقهی تصانیف
تعلیقات علی العروه الوثقی
مجیزه‌ای در مناسک حج

?ریاضی اور علم هیئت
استخراج جداول تقویم
تصحیح و تعلیق اکر مانالاوس
تصحیح و تعلیق الدّر المکنون و الجوهر المصون
تصحیح و تعلیق تحریر اقلیدس
تصحیح و تعلیق تحریر اکر ثاوذوسیوس
تصحیح و تعلیق تحریر مجسطی
تصحیح و تعلیق تحریر مساکن ثاوذوسیوس
تصحیح و تعلیق شرح بیرجندی بر بیست باب
تصحیح و تعلیق شرح بیرجندی بر زیج الغ بیک
تصحیح و تعلیق شرح چغمینی
تعلیقه بر رساله قبله مولی مظفر
دروس معرفت اوفاق
دروس معرفه الوقت و القبله
دروس هیئت و دیگر رشته‌های ریاضی
رساله‌ای پیرامون فنون ریاضی
رساله‌ای در مطالب ریاضی
رساله ظلّ
رساله میل کلی
رساله تعیین سمت قبله مدینه
رساله تکسیر دائره
رساله فی الصبح و الشفق
رساله فی تعیین البعد بین المرکزین و الاوج
شرح زیج بهادری
شرح قصیده کنوزالاسماء
سی فصل در دائره هندیه

?ادبی تصانیف
دیوان اشعار
امثال طبری
تصحیح کلیله و دمنه
تصحیح گلستان سعدی
تصحیح و اعراب اصول کافی
تعلیقه بر باب توحید حدیقه الحقیقه
تعلیقه بر قسمت معانی مطوّل
دیوان اشعار (کتاب «تنظیم و تصحیح دیوان اشعار علامه حسن‌زاده آملی» مجموعه‌ای است از اشعار وی که توسط سید سعید هاشمی جمع‌آوری شده و انتشارات «الف. لام. میم» آن را منتشر کرده‌است.)
قصیده ینبوع الحیات
مصادر اشعار منسوب به امیرالمؤمنین علیه السّلام
تقدیم و تصحیح و تعلیق نصاب الصبیان

?آثار متفرقه
تقدیم و تصحیح و تعلیف خزائن
ده رساله فارسی
کشکول
مجموعه مقالات
مصاحبات
هزار و یک نکته
هزار و یک کلمه
رساله رموز کنوز

شیعیت نیوز:

 اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے بحرین کے حکام کی طرف سے اسرائيل کے وزير خارجہ کے ذلیلانہ استقبال کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بحرین کے بادشاہ اور بحرینی حکومت نے اسرائیل کی ناجائز اور نامشروع حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرکے اسلام ، مسلمانوں اور فلسطینیوں کی پشت میں خنجر گھونپ دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بحرینی حکومت کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اقدام خطے کے اور بحرین کے حریت پسند عوام کی مرضی کے خلاف ہے۔ سعید خطیب زادہ نے فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم کو نظر انداز کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بحرین کی طرف سے اسرائيل کی غاصب حکومت  کو تسلیم کرنے کے باوجود اسرائيلی حکومت ناجائز اور نامشروع ہی رہےگی۔

News Code 1908360

شیعیت نیوز: عراق سے موصولہ رپورٹ کے مطابق لاکھوں زائرین ایک طویل مسافت طے کرنے کے بعد کربلائے معلیٰ پہنچ چکے ہیں۔ دوسری طرف امام حسین علیہ السلام کے حرم مبارک میں ’’ کلّا کلّا اسرائیل ‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔

نجف، کاظمین اور سامرا میں بھی مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام کے چاہنے والوں کا ہجوم اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے۔

نجف کربلا شاہراہ سے موصولہ خبریں بھی کربلا کی جانب گامزن لاکھوں زائرین کی حکایت کرتی ہیں۔

ایران و عراق کی حکومتوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ اس سال عراق جانے کے لئے صرف ہوائی سرحدیں کھولی جائیں گی اور کورونا سے جڑے مسائل کا خیال رکھتے ہوئے زمینی سرحدوں کو بند رکھا جائے گا تاہم یہ اعلان حسینی پروانوں کو سرحدوں کی جانب آنے سے نہ روک سکا۔

 

مکتب کربلا کے پروردہ سوگواروں نے سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے حرم مبارک میں ’’ کلّا کلّا اسرائیل ‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔

 

اربعین کربلائے معلیٰ میں مظلوم کربلا، سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کا حرم مبارک ’’ کلّا کلّا اسرائیل ‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔

یاد رہے کہ دو روز قبل عراقی کردستان کے صدر مقام اربیل میں کچھ عناصر نے فلسطینی کاز سے غداری کرتے ہوئے صیہونی حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ کے تناظر میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس پر عراقی حکومت، عدلیہ اور سیاسی و مذہبی تنظیموں کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا۔

مظلومِ کربلا کے سوگواروں نے ان کے حرم مبارک میں ’’کلّا کلّا اسرائیل‘‘ کے نعرے لگا کر یہ اعلان کر دیا کہ عراقی عوام بدستور مظلوموں بالخصوص فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ ہے اور قبلہ اول اور سرزمین فلسطین پر قابض صیہونی دشمن کے ساتھ کسی بھی قسم کے رشتے کو کسی قیمت پر تسلیم نہیں کریں گے۔

قابل ذکر ہے کہ بعض روایات کے مطابق ۲۰ صفر کو اسیران کربلا کا قافلہ کوفہ و شام کی دشوار منازل طے کرنے کے بعد واپس کربلا لوٹا جہاں پہنچ کر انہوں نے اپنے عزیزوں اور پیاروں کا غم منایا۔ ایک روایت کے مطابق صحابی رسول جابر بن عبد اللہ انصاری بھی کربلا پہنچے جو بعدِ کربلا قبر امام حسین علیہ السلام کے پہلے زائر قرار پائے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری ادارے کے سربراہ محمد اسلامی روس کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے روس کی حکومتی کمپنی روس ایٹم کے سربراہ الیکسی لیخاچف  سے ملاقات اور گفتگو کی۔ اس ملاقات میں روس میں ایران کے سفیر کاظم جلالی ، ایرانی جوہری ادارے کے بین الاقوامی امور کے معاون کمالوندی  اور ایران کی ایٹمی ایجنسی کے بعض دیگر اعلی حکام بھی موجود تھے ۔ اس ملاقات میں ایران اور روس کے جوہری اداروں کے سربراہان نے ایٹمی انرجی کے موضوعات کے سلسلے میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔

بیس صفر کو امام حسین کی زیارت کے دو طریقے ہیں پہلا طریقہ وہ ہے جسے شیخ نے تہذیب اور مصباح میں صفوان جمال ﴿ساربان﴾ سے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا مجھ کو میرے آقا امام جعفر صادق - نے زیارت اربعین کے بارے میں ہدایت فرمائی کہ جب سورج بلند ہو جائے تو حضرت کی زیارت کرو اور کہو:

 

اَلسَّلَامُ عَلَی وَلِیِّ اﷲِ وَحَبِیبِه اَلسَّلَامُ عَلَی خَلِیلِ اﷲِ وَنَجِیبِه اَلسَّلَامُ عَلَی

سلام ہو خدا کے ولی اور اس کے پیارے پر سلام ہو خدا کے سچے دوست اور چنے ہوئے پر سلام ہو خدا کے

 

 

صَفِیِّ اﷲِ وَابْنِ صَفِیِّه، اَلسَّلَامُ عَلَی الْحُسَیْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهیدِ، اَلسَّلَامُ عَلَی

پسندیدہ اور اس کے پسندیدہ کے فرزند پر سلام ہو حسین(ع) پر جو ستم دیدہ شہید ہیں سلام ہو حسین(ع) پر

 

 

ٲَسِیرِ الْکُرُباتِ وَقَتِیلِ الْعَبَرَاتِ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَشْهدُ ٲَنَّه وَلِیُّکَ وَابْنُ وَلِیِّکَ، وَصَفِیُّکَ

جو مشکلوں میں پڑے اور انکی شہادت پر آنسو بہے اے معبود میں گواہی دیتا ہوںکہ وہ تیرے ولی اور تیرے ولی کے فرزند تیرے پسندیدہ

 

 

وَابْنُ صَفِیِّکَ، الْفَائِزُ بِکَرَامَتِکَ، ٲَکْرَمْتَه بِالشَّهادَة، وَحَبَوْتَه بِالسَّعَادَة، وَاجْتَبَیْتَه

اور تیرے پسندیدہ کے فرزند ہیں جنہوں نے تجھ سے عزت پائی تونے انہیں شہادت کی عزت دی انکو خوش بختی نصیب کی اور انہیں

 

 

بِطِیبِ الْوِلادَة، وَجَعَلْتَه سَیِّداً مِنَ السَّادَة، وَقَائِداً مِنَ الْقَادَة، وَذَائِداً مِنَ الذَّادَة،

پاک گھرانے میں پیدا کیا تو نے قرار دیاانہیں سرداروںمیں سردار پیشوائوں میں پیشوا مجاہدوں میں مجاہداور انہیں

 

 

وَٲَعْطَیْتَه مَوَارِیثَ الْاََنْبِیَائِ، وَجَعَلْتَه حُجَّة عَلَی خَلْقِکَ مِنَ الْاََوْصِیَائِ، فَٲَعْذَرَ فِی

نبیوں کے ورثے عنایت کیے تو نے قرار دیاان کو اوصیائ میں سے اپنی مخلوقات پر حجت پس انہوں نے تبلیغ کا

 

 

الدُّعَائِ، وَمَنَحَ النُّصْحَ، وَبَذَلَ مُهجَتَه فِیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الْجَهالَة، وَحَیْرَة

حق ادا کیابہترین خیر خواہی کی اور تیری خاطر اپنی جان قربان کی تاکہ تیرے بندوں کو نجات دلائیں نادانی وگمرا ہی کی پریشانیوں سے

 

 

الضَّلالَة، وَقَدْ تَوَازَرَ عَلَیْه مَنْ غَرَّتْه الدُّنْیا، وَبَاعَ حَظَّه بِالْاََرْذَلِ الْاََدْنیٰ، وَشَرَیٰ

جب کہ ان پر ان لوگوں نے ظلم کیا جنہیں دنیا نے مغرور بنا دیا تھا جنہوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے بیچ دیں اور اپنی

 

 

آخِرَتَه بِالثَّمَنِ الْاََوْکَسِ، وَتَغَطْرَسَ وَتَرَدَّیٰ فِی هوَاه وَٲَسْخَطَکَ وَٲَسْخَطَ نَبِیَّکَ

آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کیا انہوں نے سرکشی کی اور لالچ کے پیچھے چل پڑے انہوں نے تجھے غضب ناک اور تیرے نبی(ص) کو

 

 

وَٲَطَاعَ مِنْ عِبادِکَ ٲَهلَ الشِّقاقِ وَالنِّفاقِ، وَحَمَلَه الْاََوْزارِ، الْمُسْتَوْجِبِینَ النَّارَ،

ناراض کیا انہوںنے تیرے بندوں میں سے انکی بات مانی جو ضدی اور بے ایمان تھے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ لے کرجہنم کیطرف چلے گئے

 

 

فَجاهدَهمْ فِیکَ صابِراً مُحْتَسِباً حَتَّی سُفِکَ فِی طَاعَتِکَ دَمُه وَاسْتُبِیحَ حَرِیمُه۔

پس حسین(ع) ان سے تیرے لیے لڑے جم کرہوشمندی کیساتھ یہاں تک کہ تیری فرمانبرداری کرنے پر انکا خون بہایا گیا اور انکے اہل حرم کو لوٹا گیا

 

 

اَللّٰهمَّ فَالْعَنْهمْ لَعْناً وَبِیلاً، وَعَذِّبْهمْ عَذاباً ٲَلِیماً۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ اﷲِ،

اے معبود لعنت کر ان ظالموں پر سختی کے ساتھ اور عذاب دے ان کو درد ناک عذاب آپ پر سلام ہو اے رسول(ص) کے فرزند

 

 

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ سَیِّدِ الْاَوْصِیائِ ٲَشْهدُ ٲَنَّکَ ٲَمِینُ اﷲِ وَابْنُ ٲَمِینِه عِشْتَ سَعِیداً

آپ پر سلام ہو اے سردار اوصیائ کے فرزند میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے امین اور اسکے امین کے فرزند ہیں آپ نیک بختی میں زندہ رہے

 

 

وَمَضَیْتَ حَمِیداً، وَمُتَّ فَقِیداً، مَظْلُوماً شَهیداً، وَٲَشْهدُ ٲَنَّ اﷲَ مُنْجِزٌ

قابل تعریف حال میںگزرے اور وفات پائی وطن سے دور کہ آپ ستم زدہ شہید ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا آپ کو جزا دے گا

 

 

مَا وَعَدَکَ، وَمُهلِکٌ مَنْ خَذَلَکَ، وَمُعَذِّبٌ مَنْ قَتَلَکَ، وَٲَشْهدُ ٲَنَّکَ

جسکا اس نے وعدہ کیا اور اسکو تباہ کریگا وہ جس نے آپکا ساتھ چھوڑا اور اسکو عذاب دیگا جس نے آپکو قتل کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ

 

 

وَفَیْتَ بِعَهدِ اﷲِ، وَجاهدْتَ فِی سَبِیلِه حَتّی ٲَتَاکَ الْیَقِینُ، فَلَعَنَ اﷲُ مَنْ قَتَلَکَ،

آپ نے خدا کی دی ہوئی ذمہ داری نبھائی آپ نے اسکی راہ میں جہاد کیا حتی کہ شہیدہو گئے پس خدا لعنت کرے جس نے آپکو قتل کیا

 

 

وَلَعَنَ اﷲُ مَنْ ظَلَمَکَ، وَلَعَنَ اﷲُ ٲُمَّة سَمِعَتْ بِذلِکَ فَرَضِیَتْ بِه۔ اَللّٰهمَّ إنِّی

خدا لعنت کرے جس نے آپ پر ظلم کیا اور خدا لعنت کرے اس قوم پرجس نے یہ واقعہ شہادت سنا تو اس پر خوشی ظاہر کی اے معبود میں

 

 

ٲُشْهدُکَ ٲَنِّی وَلِیٌّ لِمَنْ والاه وَعَدُوٌّ لِمَنْ عاداه بِٲَبِی ٲَنْتَ وَٲُمِّی یَابْنَ رَسُولِ اﷲِ

تجھے گواہ بناتا ہوں کہ ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں میرے ماں باپ قربان آپ پراے فرزند رسول خدا

 

 

ٲَشْهدُ ٲَنَّکَ کُنْتَ نُوراً فِی الْاََصْلابِ الشَّامِخَة، وَالْاََرْحامِ الْمُطَهرَة، لَمْ تُنَجِّسْکَ

(ص)میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نور کی شکل میںرہے صاحب عزت صلبوں میں اور پاکیزہ رحموں میں جنہیں جاہلیت نے اپنی نجاست

 

 

الْجاهلِیَّةبِٲَنْجاسِها وَلَمْ تُلْبِسْکَ الْمُدْلَهمَّاتُ مِنْ ثِیابِها وَٲَشْهدُ ٲَنَّکَ مِنْ دَعائِمِ الدِّینِ

سے آلودہ نہ کیا اور نہ ہی اس نے اپنے بے ہنگم لباس آپ کو پہنائے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ دین کے ستون ہیں

 

 

وَٲَرْکانِ الْمُسْلِمِینَ، وَمَعْقِلِ الْمُؤْمِنِینَ، وَٲَشْهدُ ٲَنَّکَ الْاِمامُ الْبَرُّ التَّقِیُّ الرَّضِیُّ

مسلمانوں کے سردار ہیں اور مومنوں کی پناہ گاہ ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امام (ع)ہیں نیک و پرہیز گار پسندیدہ

 

 

الزَّکِیُّ الْهادِی الْمَهدِیُّ وَٲَشْهدُ ٲَنَّ الْاََئِمَّة مِنْ وُلْدِکَ کَلِمَة التَّقْوی وَٲَعْلامُ الْهدیٰ

پاک رہبر راہ یافتہ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جو امام آپ کی اولاد میں سے ہیں وہ پرہیز گاری کے ترجمان ہدایت کے

 

 

وَالْعُرْوَة الْوُثْقی وَالْحُجَّة عَلَی ٲَهلِ الدُّنْیا وَٲَشْهدُ ٲَنِّی بِکُمْ مُؤْمِنٌ وَبِ إیابِکُمْ مُوقِنٌ

نشان محکم تر سلسلہ اور دنیا والوںپر خدا کی دلیل و حجت ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا اور آپ کے بزرگوں کا ماننے والا

 

 

بِشَرائِعِ دِینِی وَخَواتِیمِ عَمَلِی وَقَلْبِی لِقَلْبِکُمْ سِلْمٌ وَ ٲَمْرِی لاََِمْرِکُمْ مُتَّبِعٌ

اپنے دینی احکام اور عمل کی جزا پر یقین رکھنے والا ہوں میرا دل آپکے دل کیساتھ پیوستہ میرا معاملہ آپ کے معاملے کے تابع اور میری

 

 

وَنُصْرَتِی لَکُمْ مُعَدَّة حَتَّی یَٲْذَنَ اﷲُ لَکُمْ فَمَعَکُمْ مَعَکُمْ لاَ مَعَ عَدُّوِکُمْ صَلَواتُ

مدد آپ کیلئے حاضر ہے حتی کہ خدا آپکو اذن قیام دے پس آپکے ساتھ ہوں آپکے ساتھ نہ کہ آپکے دشمن کیساتھ خدا کی رحمتیں ہوں

 

 

اﷲِعَلَیْکُمْ وَعَلَی ٲَرْواحِکُمْ وَ ٲَجْسادِکُمْ وَشاهدِکُمْ وَغَائِبِکُمْ وَظَاهرِکُمْ وَبَاطِنِکُمْ

آپ پر آپ کی پاک روحوں پر آپ کے جسموں پر آپ کے حاضر پر آپ کے غائب پر آپ کے ظاہر اور آپ کے باطن پر

 

 

آمِینَ رَبَّ الْعالَمِینَ۔

ایسا ہی ہو جہانوں کے پروردگار۔

اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اپنی حاجات طلب کرے اور پھر وہاں سے واپس چلا آئے

د

اسلامی ثقافت اور علم عرفان  مىں چالیس كى عدد كو خاص قسم كى اہمىت حاصل ہے، جیسے حاجات کے لیے، عرفانى سیىر وسلوك كے اہم ترىن مقامات تک  رسائى كے لىےچالیس  روزہ چلّہ كشى،چہل حدیث، چالیس  روز كا اخلاص كى روایت:
من أخلص‏ لله‏ أربعين‏ صباحا ظهرت ينابيع الحكمة من قلبه على لسانه۔
جامع الأخبار(للشعيري) ؛ ص94)

چالیس سال كى عمرمىں  بلوغ عقل والى حدیث،چالیس مؤمنىن كے لىے دعا كرنے كى تاكید، بدھ كى چالیس  راتیں  ، مؤمن كے ساتھ چالیس لوگوں كا امضاء شدہ شہادت نامہ دفنانا وغىرہ ہمارى روایات میں  بہت زیادہ ہیں۔

  • اسلامی ثقافت ميں حضرت امام حسین علیہ  السلام اور آپؑ كے جانثاروں كى شہادت كے چالیسوہں  روز کو كہتے ہیں۔، امام مظلومؑ كى شہادت كے پہلے چالیسویں كو رسول خدا ﷺ كے بزرگ صحابى حضرت جابر بن عبد اللہ انصارىؓ اور عطیہ  عوفى نے سب سے پہلے آپؑ كى قبر مطہر پر آكر زیارت كى، اور بعض روایات  كے مطابق اسیران آل محمدؐ پہلے اربعین كو كربلا پہنچے اور وہاں  جابرابن عبداللہ سے ملاقات كى، جبكہ دىگر بعض مؤرخین نے اس رواىت  كى نفى كرتے ہوئے كہا كہ اہل بیتؑ پہلے اربعین  كو كربلا نہیں پہنچے
    (منتہى الآمال ج۱، ص ۳۴۲)۔

اربعىن حسینى اور پیدل مارچ تارىخ انسانیت  میں  ایک  بے نظیركارنامہ ہونے كے ساتھ  امام حسین  علیہ  السلام كے مقدس اہداف كے تحقق ، شیعہ مذہب كے پرچار، عالمى سطح پر سیرت نبوى اور علوى پر مشتمل سماج كى تشكیل مىں سنگ میل كى حیثیت  ركھتى ہے، اس عظیم ظرفیت اور موقع  سے استفادہ كرتے ہوئے پورى دنیا مىں اسلام كے نورانى چہرے كو روشناس كراسكتے ہیں،
اس بہترىن موقع پر زائرین ابا عبد اللہ امام حسین علیہ السلام كى ذمہ دارى دو چنداں ہوجاتى ہے كیونكہ  اس عظیم اجتماع كا بندوبست امام حسین ؑ ، اہل بىت پىغمبرؐ اور اصحاب باوفا خود ہى كردىے ہىں، پورى دنىا سے ہر رنگ ونسل، ہر مذہب وفرقہ، ہرطبقہ زندگى سے تعلق ركھنے والے بے اختیار امام حسینؑ كى قبر مطہر كى طرف كھینچتے چلے آرہے ہىں ،  كىونكہ رسول خداﷺ كا فرمان پاک  ہےكہ: قتل حسینؑ مؤمنین كے نفس وجان  مىں شعلہ جوالہ بن كر بھڑک  رہا ہے جو تا صبح قیامت خاموش نہىں ہوگا
*قال إن لقتل‏ الحسين‏ حرارة في قلوب المؤمنين لا تبرد أبدا*
مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل  ج‏10 ، 318 ، 49 ص : 311)
امام حسینؑ سے لوگوں كى محبت ومودّت مىں روز  افزوں اضافہ دىكھنے كو مل رہا ہے، اور اس عشق  ومحبت كے ایجاد میں كسى بھى انسان كا كوئى ہاتھ نہىں بلكہ یہ سب كچھ آپؑ كى عظیم اور لازوال قربانى كا نتیجہ ہے كہ آج پورى دنىا كے لوگ رنگ ونسل ، مذہب وفرقے كے جھگڑے، زبان و طبقہ بندى سے ماوراء ہوكر لبیک  یاحسینؑ كا نعرہ مستانہ بلند كرتے ہوئے راستے كى تمام تر مشكلات كو پشت سر گزارتے ہوئے كربلا معلى كى طرف ٹھاٹھیں  مارتے  سمندر كى  امنڈ كر آرہے۔ اس عظیم  اجتماع كے وقوع كے بارے مىں كسى قسم كى فكر نہىں ہونى چاہىے كیونكہ یہ  اللہ كى منشاء كے مطابق وقوع پذىر ہوچكا لیکن فكر اس بات كى ہے كس حد تک اس بحر بیکراں اجتماع كے توسط سے  درس كربلا اور اہداف عاشورا كو پورى دنىا كے كونے كونے تک پہنچانے اور  فرعونوں ،یزىدیوں ، نمرودوں كے ظلم و ستم كى چكى مىں پسی ہوئی انسانىت كو ان كے چنگل سے كیسے نجات دلائى جائے،  مفاد پرستوں،  عیاشى كے دلدادہ  لوگوں، مقام ومنصب كے اسیروں كو اس دلدل سے كیسے باہر نكالے جائیں ، اور ان كو عاشورائى اور كربلائى بنایاجائے، زائرىن اباعبداللہ ؑ مىں سے ہر ایک  اپنى صلاحیت اور استعداد ومہارت كے مطابق اپنى ذمہ دارى كا تعین كرئے۔ان وظائف مىں بعض كا ہم یہاں ذكر كرىں گے۔

*۱: امام حسین ؑ كى زیارت اور پیادہ روى مىں شركت*
زیارت اربعىن اور پىادہ روى اہل بیت پىغمبرﷺ كى سنت مىں سے ایک  ہےكہ جو دور حاضرمیں زور پكڑتى جارہى ہے، اس سنّت حسنہ كے احیاء اور اجراء كے لىے تمام مؤمنىن خاص كر علماء دین، طلاب كرام كو خصوصى دلچسپى لینى چاہئے۔ كىونكہ روایات میں امام حسین علیہ السلام  كى زیارت كو حج وعمرہ سے بالاتر گردانتے ہوئے امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں:
قال الصادق : زيارة الحسين‏ تعدل‏ مائة حجة مبرورة و مائة عمرة متقبلة.
كشف الغمة في معرفة الأئمة (ط – القديمة) ؛ ج‏2 ؛ ص41
امام حسینؑ كى زیارت سو مقبول حج اور سو مقبول عمرہ كے برابر ہے۔
دوسرى روایت مىں  صادق آل محمدؑ زیارت حسینؑ كو واجب قرار دىتے ہوئے یوں فرماتے ہیں:
قال الصادق جعفر بن محمد ع:
زيارة الحسين بن علي ع واجبة على كل من يقر للحسين ع بالإمامة من الله عز و جل.
كشف الغمة في معرفة الأئمة (ط – القديمة) ؛ ج‏2 ؛ ص41
آپؑ كى امامت كا اقرار  كرنے والے ہر شخص پر امام حسین علىہ السلام كى زىارت واجب ہے۔
معتبر روایت مىں آیا ہے كہ ثروت مند افراد سال میں تین بار اور فقراء سال مىں حد اقل ایک بار  امام حسینؑ كى زىارت كے لىے كربلا  تشرىف لے چلے۔
امام حسن عسكرى ؑ نے مؤمن كى پانچ علامات  ذكر فرماىا ہے:
علامات المؤمن خمس: صلاة الخمسين، و زيارة الاربعين، و التختم فى اليمين، و تعفير الجبين و الجهر ببسم الله الرحمن الرحيم.
وسائل الشيعه، ج 10 ص 373 ۔ التهذيب، ج 6 ص 52
ان میں سے ایک   زیارت اربعىن ہے۔
ہمارى ذمہ داریوں میں سے سب پہلے خود امام حسىنؑ كى زیارت كو عظیم سے عظیم تر اور پر رونق انداز مىں بجالانا ہے،زیارت اربعین  شعائر اللہ مىں سے ہے ، لہذا  اس  كے لىے جتنا ممكن  ہو سكے باشكوہ  انداز مىں  منعقد كرنا ہم سب كا فریضہ ہے ۔دوسرى طرف اس مقدس سفر كے آداب جیسے زائرىن كے ساتھ مہربانى سے پیش آنا، اول وقت نماز كى ادائیگى، كثرت سے صلوات پڑھنا، ذكر پڑھتے رہنا، زیارت امام حسینؑ كے آداب کی رعایت  كرنا واجب ہے۔

*۲: ثقافتى كاموں كو اہمیت دینا*
زیارت امام حسینؑ فقط تعبدى اور عبادى پہلو نہیں  ركھتى بلكہ اس كے كئى جہات ہیں ، ان میں  سے ایک اہم پہلو دنیا  كے مختلف ملكوں سے آئے ہوئے  زائرىن كو  مذہب اہل بیت  كى غنى ثقافت سے  آشنا كرنا ہے،كیونكہ امام حسین ؑ سے بڑا كوئى اوروسیلہ نہیں  كہ جس كے ذرىعےسے لوگوں كو تو حید، عدل، نبوت، امامت ، معاد، نماز، روزہ، حج ، زكوٰة، خمس، امر معروف، نہى از منكر، تولى وتبرىٰ اور دىگر ضروریات دین كے بارے مىں بتاىا جائے، واجبات كى اہمیت اور بجاآورى كى ضرورت كے متعلق لوگوں كى معرفت میں اضافہ کیا جائے، كیونكہ یہ امور ہزاروں مساجد بنانے،بے شمار كار خیر بجالانے،لاكھوں  فقراء كى مدد كرنے سے بھى زیادہ تاثیر گذار ہے،بلكہ بہت كم وقت اور نہاىت قلیل خرچ كے ساتھ بے شمار لوگوں كے قلب وروح  پرگہرا  اور جاودانہ اثرات مرتب كرسكتے ہیں۔
ثقافتى فعالیت  میں سے بعض یہ ہیں ۔ مجالس ابا عبد اللہ ؑ كا انعقاد، خوبصورت روایت گرى، شیعہ مذہب كے اہم  ترىن واقعات كو كارٹونزكى شكل میں لوگوں مىں تقسیم كرنا، امام حسینؑ كے گوہربار كلمات كے ساتھ بینرز نصب كرنا، علماء ومراجع عظام اور شہدا كى تصاویركى نمائش، بچوں كے لىے بینٹنگ  كے مقابلے ، كوئز مقابلے،پمفلٹ شائع كركے تقسیم كرنا، واقعہ عاشورا، اربعین  كى زیارت كى اہمیت  كے متعلق روایات   پر مشتمل تحقیقی  میگزین كى اشاعت جیسے  ہزاروں  ثقافتى كام كرنا لازمى ہے، ہرموكب مىں معمم عالم دین كا وجود اور مختلف سرگرمىوں میں حصہ لىتے رہنا،  ان فعالیات میں سے ایک  اوّل وقت كى نماز باجماعت اور بىان احكام شرعى ، ادعیہ  وزیارات كو خوبصورت وجذاب لحن مىں پڑھنا ہے ۔

*۳: اربعین  كى ثقافت كا نشر واشاعت*
میڈىا پیغام رسانى كا ایک بہترىن وسیلہ  ہے ،لیكن  ہمارے دشمن اس وسیلے كو ہمارے ہى خلاف نہاىت خطرناك انداز میں استعمال كررہا ہے، طاغوت اور ان كے اشاروں پہ چلنے والے بے دىن حكمران مسلمانوں میں  افتراق واختلاف كا بیج  بوكر اپنے سیاہ  كرتوتوں کو  لوگوں كى توجہ ہٹانے كے لیے  میڈیاپر ہمارے خلاف زہر افشانى كرتے ہىں ،نجف اشرف سے كربلا معلى تک متصل پیدل چلنے والے  كروڑوں انسانوں كے اس سیلاب کا  دنیا كى میڈیا پر كہىں بھى تذكرہ نہىں ہوتا، بلكہ اس بے نظیر اجتماع پر پردہ ڈالنے كے لىے سرتوڑ كوشش كرتے ہیں،حد الامكان اس كو چھپاتے ہیں ، كیونكہ یہ عظیم اجتماع دنیا بھر كے ستمگر، بے غیرت، بے دىن، ہوا  وہوس كے اسیر حكمرانوں اورانسانى اقدار سے بے خبر،عوام كے خون چوسنے والے مفاد پرست ٹولےكے خلاف  سراپا احتجاج  اور ان سے اظہار بیزارى كا نام ہے، اس لیے وہ دنیا كے سب سے بڑے اجتماع كو میڈیا كى زینت بنانے سے كتراتے ہىں،  اس لیے  ہمارے درمیان بہت ماہر اور تربىت یافتہ گروہ ہونا چاہىے جو صرف ابا عبد اللہ امام حسینؑ كے عشق مىں كربلا كى طرف بڑھتے عوامى سمندر کو كوریج دے،  پیغام كربلا ، صدائے حق، لبیك ىا حسینؑ  كى آواز كو پورى دنیا كے انسانوں تک پہنچائے۔تاكہ حق  كے متلاشى اور حقىقت كى جستجو كرنے والوں تک  پىغام عاشوراءپہنچنے مىں كوتاہى نہ ہو۔
پىادہ روى اربعین  اپنے تمام تر زیبائى و خوبصورتى كے ساتھ ساتھ ایک  بہترىن فرصت ہے كہ ہم جدید  اسلامى تمدن كو ملموس انداز مىں میڈیا كے ذرىعے سے دنیا تک  پہنچائے، اس عظیم موقع سے استفادہ كرتے ہوئے امام حسین علیہ  السلام كے انسان ساز قیام كے اہداف  كو سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا  اور الیکڑونک میڈیا  كے وسیلے سے دنیا كو دكھایا جائے،میڈیا  پیادہ روى اربعین كے صرف عاطفى اور احساساتى پہلو پر توجہ مركوز ركھنے كى بجائے اہداف كى تبیین، اربعین  كى خصوصیات اور زیارت كے ثواب، قیام  اما حسینؑ كے مقاصد ،  آپؑ كے دشمنوں كے سیاہ كرتوت اور امام ؑ كا راہ ہدایت كى طرف نصیحت كے ساتھ بلند اہداف كے حصول كے لىے جان ومال واولاد كى قربانى،  شہدا كربلا كے ایثار وفداكارى  كا جذبہ جیسے بے شمار حسن وجمال سے بھرے پہلووں كو بھى روشن  كرایا  جائے، حماسہ حسینى نے طول تارىخ اپنے استمرار میں كبھى خلل آنے نہىں دیا، كبھى ہاتھ پاِؤں كٹوا كر تو كبھى عزىز واقارب كى جان كى قربانى دے كر، كبھى چھپ كر تو كبھى كھلے عام زیارت ابا عبد اللہ امام حسین ؑ كى زیارت كا سلسلہ جارى وسارى رہا، میڈیا كبھى اس خوبصورت پہلو كو بھى اپنے پروگرام كى زینت بنائے۔

*۴: امام زمان عجل اللہ فرجہ الشرىف كے ظہور كے لىے زمینہ سازى كرنا.*
اربعین كے اس عظیم اجتماع میں  فرزند زہراء سلام علیہا، منتقم خو ن سیدالشہداؑ حضرت امام مہدى ارواحنا لہ الفداہ ضرور تشرىف لاتے ہیں، اپنے ظہور اور امّت كى مظلومیت دیكھ كر اپنے جدّ بزرگوار امام حسین كے روضہ اطہر پر گریہ كرتے ہونگے، تو كیوں نہ ہم ان كے ظہور اور  عافیت كے لىے دعا  وگریہ  نہ كرىں،اہداف عاشوراء كا تحقق آپؑ كے بابركت  ظہور كے ساتھ منسلک ہے،اس لىے اربعین كے بے نظىر اجتماع كے دوران بعض موكب اور خیموں كو امام مہدىؑ كے وجود مقدس، ظہور بابركت، ظہور کی  علامات، ظہور كے بعد كے حالات و واقعات،عالمی  حكومت ، عدالت وانصاف  كے قیام كا دور،ظالم وستگروں كا انجام، آپؑ كى حكومت كى كیفیت وخدو خال وغیرہ كے متعلق احادیث كى تبیین،و تحلیل  كے لىے مختص كیاجانا چاہىے كیونكہ عالمى عدالت سے خوفزدہ دشمنوں كى طرف سے امام مہدىؑ كى ولادت، ظہور، امام عسكرى ؑ كے فرزند ہونے، دنىا كو عدل وانصاف سے بھرنے ، ظالموں و خونخواروں كى حكمتوں كا قلع وقمع كے بارے میں  ہزاروں قسم كے شبہات ایجاد کئے  جارہے ہىں، خود مؤمنین كے ذہنوں كو مشوّش  اور اقسام وانواع كے شبہات پیدا كیے گئے ہیں۔

*۵: اتحاد وىكجہتى كا مظاہرہ كرنا*
اربعین حسینى كے بے مثال اجتماع میں متعدد ممالک ، مختلف زبان بولنے والے، مختلف ادیان ومذاہب كے لوگ شریک  ہوتے ہیں۔کیونکه  ان سب كو حسین  بن علىؑ اپنے عشق مىں یکجا کئے ہیں، دنیا كا امن دگرگون ہونے كے بعد ، فرقہ پرستى كے جنّ تھیلى سے باہر آنے كےبعد، قوم وزبان علاقہ پرستى كے دلدل مىں پھنس جانے كے بعد، ایک  دوسرے كى تكفیر كے بعد، دین و مذہب كے نام  پر لاكھوں انسانوں  كو بے جرم وخطا نابود كرنے كے بعداب انسانوں كو امام حسینؑ كى زیارت اربعین  كى شكل مىں اتحاد ویکجہتى كا عظیم پلیٹ فارم ہاتھ آیاہے جسے دیکھ كر مشرق ومغرب كے طاغوت اور ان كے پىروكاروں پر وحشت ودہشت طارى ہوچكى ہے اور آئے روز اتحاد كے اس عظىم نكتے كو خراب  كرنے،  دوسرے فرقوں كے مقدسات كے خلاف غلیظ زبان استعمال كروا كر ایک دوسرے كے جانى  دشمن بنانے، نشوونماپاتے  نوخیز  تمدن اسلامى كو  ابتدائى مرحلے مىں ہى تباہ كرنے كے در پے ہیں۔ لیكن امام حسینؑ كى ذات ہى ایسى ہے كہ ہر انسان آپؑ كے عشق و محبت  مىں اربعین كے ایام میں  ٹھاٹھیں مارتے انسانى سمندر میں  غوطہ زن ہونے كے لىے بے تاب نظر آتے ہیں۔كیونكہ امام حسین علیہ السلام نكتہ وحدت واتحاد ہے، اس لىے ہمیں ہر اس چىز سے اجتناب كرنا چاہىے جو ہمارے درمیان اختلاف و تفرقے كا باعث ہو، مشتركات اور عامل اتحاد كى رعایت  كرتے ہوئے آپس میں  محبت واحترام، ایثار وفداكارى، عزت و مہربانى اور عطوفت ورحمدلى سے پىش آنا چاہىے،تاكہ دنیا ہمارے کردار  اور آداب دیكھ كر خود امام حسینؑ كے مقدس اہداف كے بارے مىں غور وفكر كرنے پر مجبور ہوجائے، اگر ہم  امام حسینؑ كے عشق مىں بیتاب بعض افراد كے مذہب كے  خلاف نازىبا الفاظ استعمال كرئے یا  ان كى مذہبى شخصیات كى توہین كرئے یا مقدسات مذہب كے خلاف نازیبا  زبان استعمال كرئے تو یقیناہم امام حسینؑ كے اہداف كے خلاف دشمن كا آلہ كار بنے ہوئے ہیں، كىونكہ اسلام اور ہمارا مذہب اس بات كى ہرگز اجازت نہىں دیتا كہ ہم آپس مىں دست وگریباں ہوں اور دشمن كے اہداف كے حصول میں ان كا معاون ومددگار ہو، لہذا اىسے عوامل واسباب  كى حوصلہ شكنى ہونى چاہىے جو تفرقے  اور دنگا فساد كا سبب ہو۔

*شیخ حسین چمن آبادى*

*پیشکش:مجمع طلاب شگر

۱۔ ان تعلیمات کا حاصل کرنا جو دنیا کو انسان کی نگاہ میں پست و حقیر کردے اور خدا کو عظیم و بزرگ، تاکہ دنیا کی کوئی چیز اسے اپنے معبود سے راز و نیاز کرتے وقت، خدا سے منحرف کر کے اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے۔
۲۔ دنیا کے ذرق و برق اور مختلف حرکات و سکنات کی طرف توجہ، مبذول ہونے کی وجہ سے حواس متمرکز نہیں ہوپاتے ہیں انسان جسقدر بیہودہ مشغلوں سے اپنے کو دور رکھے گا اتنا ہی اس کی عبادتوں میں حضور قلب و غیرہ کا اضافہ ہوگا۔
۳۔ نماز، دعا اور تمام عبادات کو انجام دینے کیلئے اچھی جگہ کا انتخاب کرے کیونکہ دعا کے موثر ہونے میں اس کا بہت بڑا اثر ہے، اسی وجہ سے ایسی چیزوں کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ ہے جو انسان کے ذہن کو اپنے آپ میں مشغول کرلیتی ہیں، اسی طرح کھلے ہوئے دروازوں، لوگوں کے آنے جانے کی جگہ، شیشہ (آئینہ) کے سامنے اور تصویروں وغیرہ کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ ہے ، اسی وجہ سے مسلمانوں کی مسجدیں اور عبادت گاہیں جس قدر بھی سادہ اور زرق و برق سے خالی ہوں بہتر ہے کیونکہ اس سے حضور قلب میں مدد ملتی ہے۔
۴۔ گناہوں سے پرہیز کرنا بھی دعا کے قبول ہونے میں موثر ہے ، کیونکہ گناہ، قلب کے آئینہ کو مکدر کردیتا ہے اور محبوب حقیقی کے جمال کو اس میں منعکس ہونے سے مانع ہوتا ہے اور دعا کرنے والے انسان یا نماز گزار کو جو حجاب پیش آتے ہیں وہ اپنے آپ کو اس میں منحصر نہیں سمجھتا اسی دلیل کی بنیاد پر ہر نماز اور دعا سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردینا چاہئے ۔ نماز کے مقدمہ میں جو اذکار بیان ہوئے ہیں ان کی طرف توجہ بہت زیادہ مفید ہے۔
۵۔ نماز، دعا کے معنی سے آشنائی اور افعال و اذکار کے فلسفہ سے آشنائی بھی بہت حضور قلب کے لئے بہت زیادہ موثر ہے کیونکہ انسان جب عبادت کے معانی اور فلسفہ کو جانتا ہے اور اس کی طرف متوجہ رہتا ہے تو حضور قلب کی راہیں ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں۔
۶۔ مستحبات نماز، عبادت اور دعا کے مخصوص آداب کو انجام دینا، چاہے نماز کے مقدمات میں اور چاہے اصل نماز میں حضور قلب کیلئے بہت زیادہ مدد فراہم کرتا ہے۔
۷۔ ان تمام باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہر کام کیلئے تمرین ، استمرار اور اس کی طرف توجہ ضروری ہے ، بہت زیادہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی کام کے شروع میں ایک لمحہ یا چندلمحہ کیلئے حضور قلب اور اپنی فکر کو متمرکز کرتا ہے لیکن اس کام کو ہمیشہ انجام دینے اور اس کی طرف توجہ رکھنے سے اس کے نفس کے اندر اتنی زیادہ قدرت آجاتی ہے کہ وہ نماز او ردعا کے وقت اپنی فکر کے تمام دریچوں کو غیر معبود کیلئے بند کردیتا ہے اور اپنے آپ کو خدا کے حضور میں دیکھتا ہے اور اس کے ساتھ راز و نیاز کرنے لگتا ہے۔
اس بناء پر تمام لوگوں خصوصا جوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ہوش و حواس کو پراکندہ ہونے اور اپنی عبادت میں حضور قلب نہ ہونے کی وجہ سے رنجیدہ اور مایوس نہ ہوں ، اس بتائے ہوئے طریقہ پر چلتے رہیں انشاء اللہ ایک روز ضرور کامیاب ہوں گے۔
۸۔ جو عبادتیں بار بار انجام دی جاتی ہیں جیسے نماز تو ان کی ظاہری شکل کو تبدیل کرنے سے حضور قلب میں مدد ملتی ہے مثلا نماز میں سورہ حمد کے بعد جو سورہ پڑھے جاتے ہیں ان کو بدلتا رہے ، رکوع و سجود میں کبھی ذکر”سبحان اللہ“ اور کبھی ”سبحان ربی العظیم و بحمدہ“ اور ”سبحان ربی الاعلی و بحمدہ“ پڑھے دعائے قنوت کو بدل بدل کر پڑھے یا مثلا دعائے کمیل کو کبھی عام طریقہ سے اور کبھی ترتیل اور کبھی آواز کے ساتھ پڑھے ، نماز اور دعا کو پڑھتے وقت اپنے آپ کو مکہ اور مدینہ کے حرم وغیرہ میں تصور کرے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ ظاہری صورت کو بدلنے سے حضور قلب اور فکر کو متمرکز کرنے میں مدد ملتی ہے۔
۹۔ جن غذاؤں میں حرام یا نجس ہونے کا شبہ پایا جائے ان سے پرہیز کرنا، دعا کی قبولیت میں بہت زیادہ موثر ہے۔
۱۰۔ ان سب باتوں کے باوجود، اپنے تمام وجود کے ساتھ دعا، نماز اور زیارتوں میں حضور قلب جیسی نعمتوں کی خداوند عالم سے درخواست کرے وہ کریم اور رحیم ہے اور کوشش کرنے والے کو ناامید نہیں کرتا۔
چنین شنیدم کہ لطف ایزد بہ روی جویندہ در نبندد!
دری کہ بگشاید از حقیقت بر اہل عرفان، دگر نبندد!

 رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آیت اللہ حسن زادہ آملی کے انتقال پر تعزیتی پیغام ارسال کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں فرمایا: آیت اللہ حسن زادہ آملی کے انتقال کی خبر سن کر سخت صدمہ ہوا ۔ آیت اللہ حسن زادہ آملی نادر ، معدود اور ممتاز افراد میں شامل تھے ۔ مرحوم بہترین دانشور، ذو فنون  اور ممتاز علمی و معنوی شخصیت کے مالک تھے ۔علوم و معارف کے دوستداروں کے لئےان کی تالیفات و تصنیفات مشعل راہ ثابت ہوں گی۔میں مرحوم کے انتقال پر ان کے اہلخانہ، دوستداروں اور شاگردوں خاص طور پر آمل کے مؤمن اور مخلص عوام کو تعزیت و تسلیت پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالی مرحوم پر اپنی رحمت اور مغفرت نازل فرمائے۔

شیعہ تاریخی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو انسانی معاشرے کا تکامل صرف اور صرف  ائمہ معصومین علیهم السلام کی ولایت پر منحصر ہے، تقرب الہیٰ کے حصول اور توحید الہیٰ تک پہنچنے کا واحد راستہ یہی ہے اور تمام شعبہ ہائے حیات میں توحید پر مبنی زندگی کے اصولوں کا حصول ولایت ائمہ معصومین علیهم السلام کے بغیر ہرگز ممکن نہیں، کیونکہ الہیٰ تعلیمات کے تناظر میں ائمہ معصومین علیهم السلام کی ذوات مقدسہ کو ارکان توحید، دعائم دین کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے، چنانچہ زیارت جامعہ کبیرہ میں "ارکان توحیدک"، "دعائم دینک"، "محال معرفه الله "مساکن برکتہ اللہ "معادن حکمه الله"، "المخلصین فی توحید الله"(1) جیسی تعبیرات اسی بات کی غماض ہیں۔ چنانچہ اسی نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے ائمہ معصومین علیهم السلام کے قول و فعل اور تقریر کی ظرفیت واضح ہو جاتی ہے، جس میں تمام عالم بشریت کی ہدایت کیلئے تمام ادوار میں ہر جہت سے انسانی تکامل کی گنجایش موجود ہے۔

چنانچہ افعال معصومین علیهم السلام میں واقعہ عاشورا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، یہاں تک کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی بعثت بھی اسی واقعے کی مرہون منت ہے۔ اسی لئے تاریخ میں واقعہ عاشورا کو بڑی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا  گیا ہے، اگر واقعہ عاشورا  معرض وجود میں نہ آتا تو یزید جیسا فاسق اور فاجر شخص "لَعِبَتْ هاشِمُ بِالْمُلْکِ فَلاَ *** خَبَرٌ جاءَ وَ لاَ وَحْىٌ نَزَلْ(2) کے مذموم خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے اسلام کی بساط کو لپیٹ کر مقصد بعثت نبوی پر اس طرح پانی پھیر دیتا کہ لوگ اسلام کی حقیقت سے بیگانہ ہو جاتے اور انہیں اس بات کا علم نہ ہوتا کہ اسلام کس شریعت کا نام ہے، ایسے میں امام حسین علیه السلام کا یہ فرمان "علی الاسلام السلام" (3) عملی طور پر محقق ہو جاتا۔ چنانچہ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو واقعہ عاشوراء در حقیقت "برز الایمان کلہ علی الشرک کلہ(4)  کا دوسرا رخ تھا، جسے میدان کربلا میں معرکہ حق و باطل کی صورت میں پیش کیا جا رہا تھا۔

جس میں ایک طرف پورا اسلام اور دوسری طرف تمام کفر کھڑا تھا، حق اور باطل کے اس عظیم پیکار میں جہاں ایک طرف علی بن ابی طالب علیہ السلام  کی نیابت میں حسین بن علی علیہ السلام، تعلیمات اسلامی پر مبنی اسلامی تہذیب کے تمام نمونوں کو انسانیت کے سامنے پیش کر رہا تھا۔ وہی دوسری طرف یزید بن معاویہ  عمرو بن عبدود کا نمایندہ بن کر تمام شرک اور شیطانی رذائل کو عملی شکل دے رہا تھا، لہذا اس اعتبار سے ضرورت اس بات کی ہے کہ واقعہ عاشورا کو اس سے متصل تمام حلقوں کے ساتھ  ملا کر تحلیل کرتے ہوئے ایمانی اور اسلامی معاشرے کی بنیاد میں عاشورا کے کردار کو  واضح کیا جائے، چنانچہ سیرہ اہلبیت علیهم السلام میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت نیز ان کی مصیبت پر گریہ کرنے کی فضیلت کے حوالے سے وارد شدہ روایات، اسی بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اگر ایمانی اور اسلامی نہج پر سماج میں اسلامی تہذیب کو وسیع پیمانے پر بڑی تیزی کے ساتھ فروغ مل سکتا ہے تو وہ امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی سے عقیدت ہے۔

اس ضمن میں امام صادق علیہ السلام کا یہ فرمان "کُلُنا سُفُن النّجاة و لکن سَفینة جَدّی الحُسُین أوسَع وفی لُجج البحار أسرع"(5) بھی اسی  نکتے کی جانب اشارہ کرتا ہے، چنانچہ امام حسین علیہ السلام سے عقیدت کا عظیم جلوہ اربعین حسینی کی صورت میں چہلم کے موقع پر دیکھنے کو ملتا ہے، جس میں اسلامی تہذیب کے خوبصورت جلوے ہر طرف بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آج کے ماڈرن دور میں جہاں مغربی تہذیب کی یلغار کے نتیجے میں ہر طرف مادیت کو پروموٹ کیا جا رہا ہے، اگر کہیں اسلامی تہذیب کی حقیقی جھلک نظر آتی ہے تو وہ اربعین حسینی کا ملین مارچ ہے، جو روز بروز آفاقی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے، جس نے کفر اور و الحاد کے ایوانوں کو لرزہ بر اندام کرتے ہوئے اسلامی دنیا کے افق پر تہذیب اسلامی کے نئے آفتاب کا مژدہ سنایا ہے۔ یہ عظیم اجتماع، عالمی موضوع بن گیا ہے، جو معرفت حسینی کی ترویج اور نئے اسلامی تمدن کی تشکیل کیلئے بہترین ذریعہ ہے۔

چنانچہ اس نکتے کے پیش نظر کہ امام حسین علیہ السلام  پوری انسانیت سے تعلق رکھتے ہیں، اربعین حسینی کے موقع پر ہر نسل و رنگ سے تعلق رکھنے والے انسانوں کا بحر بیکراں نظر آتا ہے، جس میں مسلمانوں کے علاوه غیر مسلم حضرات بھی کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور اس میں شریک ہر انسان امام حسین علیہ السلام سے عقیدت کو اصول زندگانی سمجھتے ہوئے اسے اتحاد کا مرکز قرار دیتا ہے  اسی لئے تو شاعر نے کہا تھا:
در حسین پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ
یہ اتحاد کا مرکز ہے آدمی کیلئے
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف گوشوں سے لوگ یہاں آکر عشق حسین علیہ السلام سے لبریز ہوتے ہوئے یکجان و یک روح ہو کر عملی صورت میں خالص انسانی اصولوں پر قائم اسلامی تہذیب و تمدن کے ایسے جوہر دکھاتے ہیں، جس میں چاروں طرف   انسانی اقدار کی موجیں ٹھاتیں مارتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

ایک دوسرے سے محبت،  دوسروں کا احترام، ایثار و فداکاری، تواضع اور خلوص، مہمان نوازی اور سینکڑوں دیگر  اخلاقی اور اسلامی اقدار، اربعین حسینی کے وہ خوبصورت جلوے ہیں، جس میں ہر شخص دوسروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جس کا  جوہر اصلی محبت حسین علیہ السلام ہے اور "حب الحسین یجمعنا" کی عملی تفسیر یہاں آکر متحقق ہوتی ہے، جس میں ہر انسان  خالص انسانی اور ایمانی جذبے کے تحت قدم بڑھاتے ہوئے مشی کے صحیح مفہوم  کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہی سے اربعین حسینی کی عظیم تاثیر واضح ہو جاتی ہے، چنانچہ یہ تاثیر واقعہ عاشورا کی دین ہے، جس میں امام عالی مقام نے  عظیم قربانی پیش کرکے انسانی اور ایمانی معاشرے میں ایک ایسی حرارت پیدا کر دی ہے، جو گزرتے وقت کے ساتھ کبھی بھی ٹھندی ہونے والی نہیں اور زمان و مکان کی حدود و قیود سے ماوراء ہو کر ہر مومن انسان کے دل میں گرمایش ایجاد کرتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ "اِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَیْنِ علیه السّلام حَرارَةً فى قُلُوبِ الْمُؤ منینَ لا تَبْرُدُ اَبَداً"(6) کی تفسیر کی صورت میں مهدی موعود علیه السلام کے ظهور پرنور تک ایمانی معاشرے کے قلب میں خون کی طرح گردش کرتی رہے گی۔

چنانچه اربعین حسینی کے موقع پر کڑوڑوں انسانوں کا عظیم اجتماع اس کی واضح مثال ہے، جو اسی حرارت کی بنا پر اپنی حرکت کو جاری رکھتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے اہداف اور امنگوں کی تکمیل کیلئے لمحہ بہ لمحہ قدم آگے بڑھاتا ہے اور یہاں آکر رنگ، نسل، قومیت اور قبیلہ سب سے کے سب اپنا رنگ کھو بیٹھتے ہیں  اور "حب الحسین یجمعنا" کی اساس پر اسلامی تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے، جس میں ایثار و فداکاری، مہر و محبت جیسی بہت سی الہیٰ صفات کو معراج حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو اربعین حسینی کی عظیم ریلی، تہذیب اسلامی کے فروغ کے لئے بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے، جس میں دنیائے اسلام   کا دانشور طبقہ تہذیب اسلامی کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات پر مشتمل    اپنی آراء و نظریات کو  دنیا بھر سے آنے والے زائرین امام حسین علیہ السلام کے توسط سے دنیا کے گوشہ و کنار تک پہنچا سکتا ہے۔

اسی لئے حوزات علمیہ، دانشگاہوں اور علمی اداروں سے وابستہ افراد کی شرکت،  دوسرے طبقات کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور اربعین حسینی کے موقع پر دانشور طبقہ اپنی حاضری کو یقینی بنا کر مغربی سیکولر نظریات پر مشتمل تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تعلیمات کی رو سے عاشورائے حسینی کے اہداف کے تناظر میں تہذیب اسلامی کے خدوخال کو بہترین انداز میں پیش کرسکتا ہے، چنانچہ ماہرین نفسیات کے مطابق اربعین حسینی کا عظیم اجتماع خالص انسانی رجحانات پر مبتنی ہے، جس میں فطرت انسانی سے ہم آہنگ اسلامی اور ایمانی معارف کی قبولیت کیلئے انسانی وجود میں اعلیٰ ظرفی پائی جاتی ہے، جہاں ہر انسان، اپنے آپ کو دوسروں کی خدمت کیلئے وقف کر دیتا ہے، جو اس کے قلب کی پاکیزگی کی   علامت ہے اور پاکیزہ قلب ظرف بن کر معارف اہلبیت علیہم السلام کے لئے ہمیشہ آمادہ رہتا ہے، جسے معارف ناب اہلبیت علیہم السلام کے مظروف سے پر کرنا علماء اور دانشوروں کا کام ہے۔

چنانچہ اس  عظیم اجتماع میں ہر طرح کی انانیت دم توڑ دیتی ہے، جس کے نتیجے میں ہر طرح کی کثرت وحدت میں بدل کر کعبہ دل، حسین علیہ السلام کے گرد چکر کاٹ رہی ہوتی ہے اور اسی مدار پر کڑوڑوں کے اس بے نظیر اجتماع کا ہر فرد حبل االلہ سے متمسک ہوکر قرآن کریم کی آیت مبارکہ "وَاعْتَصِمُواْ بحَبْلِ اللّهِ جمِیعًا وَلاَ تفَرَّقُواْ وَاذْکرُواْ نعْمَتَ اللّهِ عَلَیکمْ إِذْ کنتُمْ أَعدَاء فَأَلَّفَ بَینَ قُلُوبِکمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًاO(7) کو لائحہ عمل بناتے ہوئے تہذیب اسلامی کے بنیادی ستوں یعنی اخوت اور برادری کو جامہ عمل پہنانے کی کوشش کرتا ہے، لہذا اربعین حسینی کے موقع پر اس بات کا بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح امام حسین علیہ السلام کی محبت نے کڑوڑوں کی تعداد میں عقیدت مندوں کے پروانوں کو شمع امامت کے گرد جمع کیا ہے اور آئے دن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں جوش ملیح آبادی کا وہ شعر شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین

اربعین حسینی کے جلووں میں سے ایک جلوہ یہ ہے کہ انسان کو ایسی طرز زندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ایمان کی اساس پر قائم ہے، جس میں معنویت اپنے عروج پر ہوتی ہے اور امامت کے محور پر عشق اور محبت کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر ایثار و فداکاری کی عظیم مثال قائم کر رہا ہوتا ہے، ایمان اور معنویت کی رو سے ہر شخص  دوسروں کو اپنے اوپر مقدم کرتے ہوئے "وَ یؤْثِرُونَ عَلی اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ کانَ بهِمْ خصاصَةٌ"(8) کی تفسیر کا عملی مظاہرہ کرتا ہے اور ہر زائر حسینی میزبانوں کے اسی جذبہ ایمانی کی سوغات کو دل میں بسا کر خالص اسلامی تہذیب کو اپنے تمام تر معیارات کے ساتھ فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ ایثار و فداکاری وہ عظیم جوہر ہے، جس کے سائے میں ایمانی اصول پر مشتمل ایک خوبصورت سماج کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ لہذا اربعین حسینی کی تمام تر ظرفیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی تہذیب کو عالمی سطح پر عام کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے مرحلے میں دانشور طبقے کی سرپرستی اور نظارت میں ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے، جو ہمیشہ اس واقعے کے تہذیبی پہلوؤں کی تحقیقات کرتے ہوئے اسلامی تہذیب کے اصولوں کو عالم اسلام کے قومی، علاقائی اور عالمی حالات کے مطابق پیش کریں۔

دوسرے مرحلے میں اس ملین مارچ کو کسی خاص فرقے کا رنگ دیئے بغیر امت مسلمہ کی یکجہتی اور اتحاد کے مظہر کے طور پر پیش کیا جائے، تاکہ اربعین حسینی، ہر قسم کے مسلکی اور مذہبی رنگ و بو سے بالاتر ہو کر عالمی استکبار کے مقابلے میں اسلامی دنیا کے اتحاد کی علامت کے طور پر سامنے آسکے۔ تیسرے مرحلے میں اربعین حسینی کو قومی، لسانی اور طبقاتی امتیازات پر مشتمل اوہام پرستی کے بتوں سے پاک کرکے اسلامی طرز زندگی کے سائے میں اس کی سادگی پر توجہ نہایت ضروری امر ہے۔ چوتھے مرحلے میں اربعین حسینی میں جو چیز محوریت رکھتی ہے، وہ عزاداری ہے، جس کے اندر  "مظلوموں کی حمایت کے ساتھ مستکبرین جہاں سے بیزاری اور ان کے خلاف جدوجہد" کا پہلو مضمر ہے، لہذا اس پہلو کو کم رنگ ہونے سے بچایا جائے۔ پانچویں مرحلے میں تمام مسلمانوں کی  شرکت کیلئے زمینہ ہموار کیا جائے، تاکہ دنیا کا ہر مسلمان اربعین حسینی کے اس سفر عشق میں شریک ہو کر اس کے فیوضات سے بہرہ مند ہوتے ہوئے اپنے ملک اور قوم کیلئے تہذیب اسلامی کا سفیر قرار پائے۔

چھٹے مرحلے میں اربعین حسینی کے موقع پر رونما ہونے والے اسلامی تہذیب کے شاہکاروں کو کلیپ، موویز، ڈاکومنٹری اور سیریل کی شکل میں بڑے پیمانے پر میڈیا  کے ذریعے دنیا میں پھیلانے کیلئے تمامتر صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے۔ ساتویں اور آخری مرحلے میں اربعین حسینی کے ذریعے امام زمانہ کے عالمی انقلاب کیلئے راہ ہموار کرنے کی غرض سے تمام ذمہ دار افراد اپنا وظیفہ شرعی سمجھ کر عقیدہ مہدویت کو فروغ دیتے ہوئے انتظار کی کیفیت میں بہتری لانے کے ساتھ تمام مومنین کو امام زمانہ کی عالمی حکومت کیلئے آمادہ کریں، تاکہ عاشورائے حسینی کے سرخ اور عقیدہ مہدویت کے سبز پهلو کے سائے میں اسلامی تہذیب کا طائر پرواز افق عالم پر اس قدر اونچی اڑان بھرے کہ استعماری سازشوں کے تمامتر سیاسی، اقتصادی، اجتماعی، ثقافتی حربے کسی طرح کارگر ثابت نہ ہوں اور ان کے زہر آلود تیر اسے شکار کرنے سے عاجز رہیں اور یوں اسلامی تعلیمات پر مبنی اسلامی تہذیب کے نقوش، دنیا کی دیگر تہذیبوں پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرتے ہوئے امام زمانہ کی عالمی حکومت کیلئے زمینہ فراہم کریں، جہاں ارسطو جیسے معلم اول کے مدینہ فاضلہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 حواله جات:

  1. 1۔ ابراهيم كفعمى «المصباح» ص505، قم‏: دار الرضي، 1405 ق‏، چاپ دوم/ محمد باقر مجلسی «بحار الأنوار» ج97 ص223، بیروت: مئوسسه الوفاء، 1983 م، چاپ دوم۔
    2۔ ابن عماد حنبلى‏ «شذرات الذهب‏» ج1 ص 278، دمشق: دار ابن كثير، 1006ق، چاپ اول۔
    3۔ أحمد بن اعثم الكوفى «الفتوح‏» تحقیق: علی شیری، ج5 ص17، بيروت، دارالأضواء، 1411ق، چاپ اول/ ابن طاووس، اللهوف على قتلى الطفوف» ص24، تهران: نشر جهان، 1348ش، چاپ اول۔
    4۔ عبد الحميد ابن أبي الحديد معتزلی «شرح نهج البلاغة» تحقیق: ابراهيم، محمد ابوالفضل‏، ج13 ص261، قم: کتاب خانه آیت الله مرعشی، 1404ق‏، چاپ اول/ علامه حلى، «نهج الحقّ و كشف الصدق‏» ص217، بیروت: دار الكتاب اللبناني‏، 1982 م‏، چاپ اول‏۔
    5۔ محمد باقر مجلسی «بحار الانوار» ج ۲۶، ص ۳۲۲، بیروت: مئوسسه الوفاء، 1983 م، چاپ دوم۔
    6۔ حسين نورى، «مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل‏» ج10 ص318، قم‏: مؤسسة آل البيت عليهم السلام‏، 1408 ق‏، چاپ اول‏۔
    7۔ سورہ آل عمران، آیت نمبر: 103۔
  2. 8۔ سوره حشر، آیت نمبر: 9۔

تحریر: محمد علی جوہری

حضرت امام حسین ؑ نے اپنے اعزاء اور اصحاب کے ساتھ اسلام کی بقاء کیلئے عظیم قربانی پیش کی ۔ اس راہ میں امام عالی مقام ؑ نے کسی چیز سے بھی دریغ نہیں فرمایا یہاں تک کہ چھ مہینے کےشیرخوار بچے کو بھی بقاء اسلام کیلئے قربان کردیا ۔
اسلام کو مٹانے کی کوششیں
اسلام کو مٹانے کی کوششیں پیغمبر اکرم کی وفات سے ہی شروع ہوگئیں ۔ بنی امیہ نے اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا تھا ، اس کی حدود کو توڑ کر اس کے عہد و پیمان کو پارہ پارہ کردیا تھا ۔ اسلام نبوی پر اسلام اموی کا لبادہ ڈال دیا گیا تھا ۔ ظلم و بربریت ، درندگی و حیوانیت ، نکبت و رسوائی لوگوں کا مقدر بن چکی تھی ، وہ اسلام میں جاہلیت کے احکام نافذ کرنے لگے تھے ، کفر و شرک اور نفاق جیسی موذی مرض کو ہوا دینے لگے تھے ، ہر طرف ایک دھشت و خوف کا عالم تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے زمین و آسمان سب کچھ متغیر ہوکر رہ گیا ہے ۔تاریخ کہتی ہے کہ : ابوسفیان (ملعون) سید الشہداء حضرت حمزہ ؑ کی قبر پر ٹھوکر مارکر تمسخر و استہزاء آمیز لہجہ میں کہتا ہے :(اسلام کی زمام اب ہمارے ہاتھ میں ہے وہ حکومت ( جس کے ہم اور ہمارے لوگ متمنی تھے) جسے ہم نیزہ و تلوار کے ذریعے تم سے حاصل نہ کر پائے تھے اور تم نے ہمیں صدر اسلام میں بدر و احد جیسی جنگوں میں ذلیل و رسوا کیا تھا آج وہ ہمارے بچوں کے ہاتھ میں آگئی ! اٹھو اے بنی ہاشم کے بزرگو ! دیکھو وہ کس طرح اس سے کھیل رہے ہیں۔۔۔ ( تلقفوها تلقف الکرۃ)جیسے گیند بازی میں ایک دوسرے کو پاس دیتے ہیں اسی طرح یہ بھی حکومت کو اپنے بعد ایک دوسرے کے سپرد کررہے ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ حکومت ، حکومتاسلامی ہے لیکن بادشاہت جاہلیت کی ہے ۔ پس فورا ً( اے عثمان ! تو ) تمام حکومتی مسائل و مقامات پر بنی امیہ کے افراد کو مقرر کردے ۔ دیر نہ کرکہ کہیں یہ آئی ہوئی حکومت ہمارے ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔(1)معاویہ کی سازشیں :
معاویہ کے دور میں اس کے ہاتھ دو خطرناک ترین امور پایہ تکمیل کو پہنچے جن کی داغ بیل گذشتہ لوگوں کے عمل نے ڈالی تھی ۔ انہی دو امور نے اسلامی معاشرےکو پستی کی طرف دھکیل دیا۔
پہلا :
رسول اکرم کی عترت و اہل بیت ؑ جو کہ حامیان دین تھے اور قرآن کے ہم پلہ تھے ان کو اسلام سے کلی طور پر حذف کردیا گیا۔
دوسرا :
اسلامی نظام حکومت میں یکسر تغیر پیدا کرکے استبدادی سلطنت میں تبدیل کردیا ۔
معاویہ نے مملکت اسلامی پر قبضہ کیا اور اپنے لئے میدان خالی دیکھا تو مخالفت اہل بیت ؑ اور ان کے فضائل لوگوں کے دلوں سے ہٹانے کو اپنا معمول بنالیا ، بقول ابن ابی الحدید معاویہ نے اپنے تمام ملازمین اور حکام کو اس مضمون کا فرمان بھیجا : (ہر اس فرد کیلئے کوئی امان نہیں جو ابوتراب اور ان کے خاندان کے فضائل بیان کرے) (2)
نیز یہ بھی منقول ہے کہ تمام مساجد کے خطیبوں کو حکم دیا گیا : (منبروں سے حضرت علی ؑ اور ان کےخاندان کے ساتھ ناروا باتوں کو نسبت دی جائے ) ۔ پس اس حکم کے بعد حضرت علی ؑ اور ان کے خاندان پر گالی گلوچ کی جانے لگی۔معاویہ نے اپنے تمام حاکموں کو پیغام بھیجا :(اگر کسی کے بارے میں شیعہ علی ؑ و اہلبیت رسول ہونے کا پتہ چل جائے تو اس کی گواہی کسی معاملے میں قبول نہ کی جائے اور اگر کوئی علی ؑ کی کسی فضیلت کو حدیث رسول سے بیان کرے تو فوراً اس کے مقابلے میں ایک حدیث جعل کرواکر بیان کردی جائے ) ۔ ایک دوسرے فرمان میں اس نے لکھا :توجہ رہے کہ اگر کسی کیلئے ثابت ہوجائے کہ وہ شیعہ علی ؑ ہے تو اس کا نام فورا ً رجسٹر سے کاٹ دیا جائے اور اس کی تنخواہ و انعامات کو ختم کردیا جائے)۔(3) اسی فرمان کے ساتھ دوسرا حکم تھا کہ اگر کسی پر شبہہ ہوجائے کہ وہ اہلبیت ؑ کا دوست ہے تو اس کے گھر کو تباہ و برباد کرکے اسے شکنجے میں کس دیا جائے ۔۔۔)(4) معاویہ کے اس تمام پروپیگنڈے اور فرامین کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ حضرت علی ؑ پر سبّ و شتم کرنے کو ایک عبادت سمجھنے لگے اور بہت سے ایسے بھی تھے کہ اگر ایک دن علی ؑ کو ناسزا کہنا بھول جاتے تو اگلے دن اس کی قضاء کرتے تھے ۔یزید کی بالجبر بیعت :
معاویہ نے آخری مؤثرترین ضربت جو پیکر اسلام پر لگائی وہ یزید کی بالجبر بیعت تھی۔ اس نے اپنے نالائق اور پست ترین بیٹے یزید کیلئے لوگوں سے بیعت لی۔ خلافت اسلامی کو اپنا خاندانی ورثہ قرار دے دیا۔ تمام مورخین متفق ہیں کہ یزید حکومت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لائق نہ تھا۔ یزید عیش و عشرت کی زندگی کا دلدادہ تھا۔ ہر وقت شراب کے نشے میں مست رہتا تھا۔ اس کی راتیں مستی اور دن خمار میں بسر ہوتے تھے۔ وہ غیر از شراب اور معشوق کچھ نہ جانتا تھا۔ طہ حسین لکھتے ہیں کہ وہ لہو لعب ، فسق و فجور سے ملول ہوتا اور تھکتا نہ تھا ۔ (5)یعقوبی لکھتا ہے جب عبداللہ بن عمر سے یزید کی بیعت کے لئے کہا گیا تو انہوں نے یوں جواب دیا اس کی بیعت کروں جو بندرباز ، کتےّباز ہے ، شرابخوار ہے اور اعلانیہ فسق و فجور کے علاوہ اسے کوئی کام نہیں۔ میں خدا کے حضور اس کی بیعت کا کیا جواز پیش کروں گا ۔(6)امام حسینؑ کا یزید کی بیعت سے انکار:
محافظ اسلام و قرآن حسینؑ بن علیؑ نے اپنے قیام سے پہلے لوگوں کو بنی امیہ کی سازشوں سے آشنا کیا پھر یزید بن معاویہ ملعون کی بیعت نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے دنیا کے سامنے یزیدکے متنفر وجود پہچنوا کے ابنائے اسلام کے ضمیروں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا پھر آواز دی کہ اے لوگو: مجھے اور یزید فاسق و فاجر کو پہچانو! میں کہاں صاحب لولاک کا بیٹا اور کہاں یابن الطلقاء ، کہاں راکب دوش رسول اور کہاں لاعب کلوب ، کہاں آغوش رسالت میں پرورش پانے والا ! اور کہاں شام کے اندھیروں کا پروردہ ! (انا اهل بیت النبوة و معدن الرسالة ومختلف الملائکة و بنافتح الله و بنا ختم الله )( ہم خاندان نبوت و معدن رسالت ہیں ہمارا گھر فرشتوں کے آمد و رفت کی جگہ ہے ہم سے خدا کا فیض شروع ہوتا ہے اور ہم ہی پر اس کا فیض ختم ہوجاتا ہے…) ؛ اے لوگو!کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ کس طرح حق کو روپوش کیا جار ہا ہے اور نہ ہی باطل پر عمل سے لوگوں کو روکا جا رہا ہے ؟! ایسے حالات میں اے اہل ایمان آؤ ! راہ خدا میں شہادت اور اس کی ملاقات کے لئے آمادہ ہو جاؤ ! یاد رکھو ابو سفیان کا پوتا معاویہ کا فرزند یزید ملعون! ( رجل فاسق ، شارب الخمر ، قاتل النفس المحترمة ، معلن بالفسق و مثلی لا یبایع مثله…) ایسا شخص ہے جو شراب کا پینا والا ، لوگوں کو بے گناہ قتل کرنے والا ، کھلے عام فسق و فجور کو انجام دینے والا ، مجھ جیسا یزید ملعون جیسے کی بیعت ہرگز نہیں کرسکتا ! ) انا للہ و انا الیہ راجعون و علی الاسلام السلام اذ قد بلیت الامۃ براع مثل یزید ولقد سمعت جدی رسول اللہ یقول: الخلافۃ محرمۃ علی آل ابی سفیان ) (ایسے)اسلام پر فاتحہ پڑھ دینا چاہئیے جس کی زمامداری یزید جیسے (فاسق وفاجر شخص)کے ہاتھوں میں ہو ! میں نے اپنے جد امجد (حضرت رسالتمآب سے سنا ہےکہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ:آل ابی سفیان پر خلافت حرام ہے(7)
آل ابی سفیان کی حکومت کا اصل ہدف اور مقصد اسلام کو مٹانا اور قوم و ملت کی گردن پر مسلّط ہونا تھا۔ جیسا کہ یزید بے حیاء کا یہ کہنا اس بات کی روشن دلیل اس کا یہ معروف شعر ہے:
لعبتھاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل
(یہ سب بنی ہاشم کا ڈھونگ اور کھیل تماشا تھا !کون کہتا ہےکہ رسول پر ملائکہ نازل ہوا کرتے تھے اور ان پر وحی نازل ہوا کرتی تھی) تاریخ کے مطابق امام عالی مقامؑ نے 28 رجب المرجب 61 ہجری کو اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مدینہ منورہ سے کوچ کیا اور جب لوگوں نے آپؑ سے مدینہ کو خیر باد کرنے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا : ( خط الموت علی ولد آدم مخط القلادۃ علی جیدالفتاۃ…)بنی آدم کیلئے موت کا نوشتہ یوں آویزاں ہےجیسے دوشیزہ کے گلے میں گلوبند ہوتا ہے۔ مجھے اپنے بزرگوں سے ملنے کا وہی اشتیاق ہے جو یعقوبؑ کو یوسفؑسے ملنے کا تھا ، میری قتلگاہ ، گویا میں بیابانوں کے درندوں (کوفہ کے فوجیوں )کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ کربلا کی سرزمین پر میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں ۔۔۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ تم میں سے جو شخص بھی ہماری راہ میں اپنی جان کو قربان کرنے کا جذبہ رکھتا ہے وہ کل صبح ہمارے ساتھ سفر کیلئے تیار ہوجائے ۔(8) یاد رہے !(انی لم اخرج اشرا ولا بطرا ولا مفسدا ولا ظالما وانما خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی رسول اللہ ارید ان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر و اسیر بسیرۃ جدی و ابی علی بن ابیطالب ؑ )(9) (میں کسی تفریح ، بڑا بننے ، فتنہ و فساد اور ظلم ستم کیلئے اپنے وطن کو نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ میرے مدینے سے نکلنے کا مقصد اپنے جد رسول اللہ کی امت کی اصلاح ہے ، میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں ، اور چاہتا ہوں کہ اپنے نانا اور اپنے بابا علی بن ابیطالب ؑ کی سیرت پر عمل پیرا ہوں)۔ دیکھنا یہ ہے کہ کس قسم کی اصلاح تھی جو کہ مطلوب تھی ؟ آیا معاشی اصلاح تھی کہ لوگ مال حرام کھارہے تھے یا فکری اصلاح تھی ، کہ لوگ باطل اعتقادات کے شکار ہورہے تھے وغیرہ وغیرہ ۔ اس مقام پر زیارت اربعین کا یہ انمول فقرہ کیفیت اصلاح کی نشاندہی کرتا ہے:(و بذل مهجتة فیک لیستنقذ عبادک من الجهالة و حیرۃ الضلالة) (10)(اے خدا !)حسین ؑ نے اپنا خون جگر تیری راہ میں بہایا تاکہ تیرے بندوں کو جھالت ، گمراہی اور سرگردانی سے نجات دیں ۔ بنی امیہ نے بندگان خدا کو جہالت ، گمراہی اور سرگردانی میں رکھا ہوا تھا ۔ اگر امام حسین ؑ کا قیام نہ ہوتا تو خدا جانے لوگ کب تک اسی گمراہی اور جھالت و سرگردانی میں باقی رہتے !مؤرخین کے بقول واقعہ کربلا کے بعد ۳۰ سال کے اندر بنی امیہ و ۔۔۔ کی غاصب و مطلق العنان حکومت کے آگے ۲۰ مختلف انقلاب اسلامی ایسا سینہ سپر ہوگئے کہ جس کے باعث بنی امیہ کو اپنی بساط حکومت لپیٹ دینا پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے بنی امیہ کے ظلم و جبر کا خاتمہ ہوا اور ہر طرف ان کی مخالفت ہونے لگی اور جو لوگ اہل بصیرت ہیں آج تک ان سے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں اور ہر ظالم و جابر حکومت و حکمرانوں کے خلاف ( ہل من ناصر ینصرنا ) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں ۔
………………..

منابع :

(1) علی و شہر بی آرمان ، ص ۲۶۔

(2) ۔ شرح ابن ابی الحدید ، خطبہ ۲۰۰۔

(3) ۔ شرح ابن ابی الحدید ، ج ۳ ، ص ۲۴ ، طبع بیروت

(4) ایضا

(5) علیؑ و دو فرزندش ، ص262

(6) تاریخ یعقوبی ، ج 2 ، ص165

(7) لہوف ، ص11 ؛ بحارالانوار ، ج44 ، ص325

(8) سخنان حسین بن علی ؑ از مدینہ تا کربلا ، ص ۵۷۔

(9) بحار الانوار ، ج ۴۴ ، ص ۳۲۹ ۔ ۳۳۴۔

(10) مفاتیح الجنان ، زیارت اربعین۔