سلیمانی

سلیمانی

اسلام ساری دنیا کے لئے اللہ کا آخری دین ہے۔ قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے، حضرت محمد رسول اللہﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اور مسلمان بہترین امت ہیں۔ یہ بہترین امت اپنی محدود سوچ کی وجہ سے آج برائے نام بہترین رہ گئی ہے۔ مسلمان ایک طرف تو اسلام کو عالمین کے لئے ایک دین قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اسلامی تعلیمات کو اپنی انتہائی چھوٹی سوچ کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ  اسلام لانے کے بعد انسان کی فضیلت کی میزان فقط تقویٰ ہے اور دوسری طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رشتے داری کی بنیاد پر فضیلت کا اعلان کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اپنے اکابرین کی فضیلت یوں بیان کی جاتی ہے کہ جیسے نبی کا بیٹا، بیٹی، بیوی، ساس، سسر، داماد اور پوتا و نواسہ وغیرہ ہونا ہی باعث فضیلت ہے۔ ہماری اس محدود سوچ کی وجہ سے مستشرقین ہم پر تنقید کرتے ہیں اور منصف مزاج مسلمان بھی اس شک و تردید میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ نعوذ باللہ نبی اکرمﷺ بھی اپنوں کو نوازتے تھے، انہیں کے قصیدے پڑھتے تھے اور اُنہی کو دوسروں پر مقدم کرتے تھے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلامی اقدار کو ویسے ہی بیان کریں، جیسا کہ وہ ہیں۔ دینِ اسلام انسانوں کی تربیت و ہدایت اور کردار سازی کا دین ہے۔ اس دین میں جو حق پرست اور صاحب کردار ہے، وہی لائق تعظیم ہے۔ جو مومن و متقی ہے، چاہے جس نسل کا ہو، وہ بخارا کا ابوذر ؓ ہو یا مکے کا حمزہ ؓ ، یمن کا مقدادؓ ہو یا حبش کا بلالؓ ، قرن کا اویسؓ ہو یا حجاز کا عمار یاسرؓ، عرب کا حجر ابن عدی ہو یا عجم کا  سلمانؓ۔۔۔ یہ سب اپنے اپنے کردار کی وجہ سے صاحب تعظیم ہیں نہ کہ نبی اکرمﷺ کی رشتے داری کی وجہ سے۔ کیا یہ سب ایک نسل سے ہیں؟ یہ جس نسل سے بھی تھے، ہم ان کی حق پرستی اور غیر متزلزل کردار کو سلام کرتے ہیں اور ان کے دشمنوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر کوئی اسلام لانے کے بعد کردار کو کسی نسل کی میراث سمجھتا ہے تو وہ اسلام اور کردار دونوں کو نہیں سمجھا۔

اصل غلط فہمی یہ ہے کہ اہل بیت اور صحابہ کرام ؓ دونوں کے بارے بارے میں غلط تبلیغ کی گئی ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ نبیﷺ کے اہل بیت کی فضیلت یہ ہے کہ یہ نبی ؐ کے گھر اور خاندان والے ہیں۔ اسی طرح صحابہ کو اس لئے فضیلت ہے کہ یہ نبی ؐ کے ساتھ والے ہیں۔ یہ دونوں غلط نظریات ہیں۔ نہ نبی (ص) کے گھر اور خاندان والوں میں سے ہونے کی وجہ سے سے کوئی صاحب فضیلت ہوتا ہے اور نہ ہی نبی کریمﷺ کے ساتھ ملنے ملانے کی وجہ سے۔ جو نبی (ص) کا جتنا مطیع اور فرمانبردار ہے، وہ اتنا ہی بافضیلت ہے، چاہے گھر اور خاندان سے ہو اور چاہے ملنے ملانے اور ساتھ رہنے والوں سے۔ نبی کے افرادِ خانہ میں سے ہونا یا نبی کے ساتھ میں ہونا یہ افراد کی شناخت ہے، اُن کی فضیلت نہیں ہے۔ مثلاً اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ فلاں شخص کون ہے؟ تو ہم اس کے تعارف کے لئے بتاتے ہیں کہ یہ ہمارا اپنا ہے، ہمارے گھر کا فرد ہے، ہمارا داماد ہے، ہمارا بیٹا ہے، ہمارا کلاس فیلو ہے، ہمارا خادم اور غلام ہے۔۔۔ ان چیزوں سے تعارف ہوتا ہے، ان میں فضیلت نہیں ہوتی۔

اب مسلمانوں نے انہی چیزوں کو فضیلت کی میزان خیال کیا اور پھر انہی رشتوں اور رشتے داریوں کے ساتھ چپک گئے۔ اب رشتوں سے چپکنے کے لئے نبی کی بیٹیوں کی تعداد، دامادوں کی تعداد، ساس و سسر کے فضائل و تعداد و فلاں فلاں۔۔ حتی کہ اگر نبیﷺ نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی ؑ اس کا دروازہ ہیں تو یہ شہر کی بھی چھت اور روشندان گھڑ کر لے آئے۔ مسلمانوں نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ نبی اکرمﷺ نے یہ جو حضرت علی کی فضیلت بیان کی ہے، یہ چچا زاد بھائی یا داماد ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ واقعتاً علم میں حضرت علی کا یہی مقام و مرتبہ ہے۔ واضح رہے کہ نبی اکرمﷺ رشتے داری کی بنیاد پر حضرت علی کے فضائل بیان نہیں کرتے تھے۔ ایسا کرنا مقام رسالت و نبوت کے خلاف ہے۔ نبی کریمﷺ اسی چیز کا اعلان کرتے تھے، جو حقیقت میں ویسی ہوتی تھی۔ یوں نہیں ہے کہ نبی اکرمﷺ رشتے داری کی بنیاد پر حضرت علی ؑکو بہادر اور شجاع کہتے تھے، یا میدان غدیر میں "من کنت مولا فھذا علی مولا" کا اعلان رشتے دار و داماد اور چچا زاد ہونے کی بنیاد پر تھا بلکہ یہ سارے اعزازات و فضائل حضرت علی ؑ نے کسب کئے تھے اور پیغمبرؐ نے ان کا اعلان کیا تھا۔

قطعاً ایسا نہیں تھا کہ دعوت ذوالعشیر میں حضرت علی ؑ خاموش بیٹھے رہے تھے۔ اسلام کی پہلی دعوت تبلیغ میں جب نبی اکرمﷺ نے یہ اعلان کیا کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور میں اس کا رسول ہوں، آج کے دن جو میری تصدیق کرے گا، وہ میرا جانشین بھی ہوگا اور وصی بھی، اس اعلان کے بعد یوں نہیں ہوا کہ حضرت علی ؑ بھی بغیر تصدیق کے خاموش بیٹھے رہے اور پھر بعد میں جب پیغمبر ؐ نے انہیں اپنی بیٹی دے کر داماد بنا لیا اور اس کے بعد ایک دم میدانِ غدیر میں یہ اعلان کر دیا کہ جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی ؑ مولا ہے، لہذا آو علیؐ کی بیعت کرو۔ عقل و منطق اور تاریخ سے ہٹ کر بھی جو آدمی ختمِ نبوت پر ایمان رکھتا ہے، وہ یہ بھی ایمان رکھتا ہے کہ نبی اکرم ؑ نے حضرت علی ؑکے جتنے فضائل بیان کئے، وہ رشتے داری کی وجہ سے نہیں تھے بلکہ امام علیؑ حقیقت میں ایسے ہی تھے۔

اب رہی یہ بات کہ پیغمبر (ص) نے اپنے  اہل بیت (ع) کی فضیلت کیوں بیان کی!؟ اگر کوئی دل سے سمجھنا چاہے تو یہ واضح ہے کہ پیغمبر (ص) نے ان افراد کی (علیؑ و فاطمہ سلام اللہ علیہا و حسن ؑ و حسین ؑ) کی خود اپنے ہاتھوں سے اور اپنی آغوش میں تربیت کی تھی۔ یہ پیغمبر کی تربیت کے شہکار تھے اور پیغمبر (ص) ان کے وجود میں اپنی تربیت کے جوہر دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ پیغمبرﷺ ان کی تربیت کی وجہ سے ان کی فضیلت بیان کرتے تھے نہ کہ اقربا پروری کی وجہ سے. پیغمبر نے ان کی جتنی بھی فضیلتیں بیان کیں، وہ پیغمبرﷺ کی سچی پیشین گوئیاں ثابت ہوئیں اور بعد ازاں ان شخصیات نے بھی اپنے کردار سے ثابت کیا کہ اللہ کے آخری اور صادق نبیﷺ نے ان کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ رشتے داری کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ عین حقیقت پر مبنی تھا۔ اس میں کہیں بھی نسلی تعصب یا رشتے داری کا شائبہ تک نہیں۔

اگر رشتے ناطے باعث نجات ہوتے تو پیغمبرﷺ کی بیٹی فاطمہ ؑ نمازیں نہ پڑھتیں اور روزے نہ رکھتیں۔۔۔۔ امام علی (ع) جب نماز پڑھتے تھے تو آنسووں سے آپ کی داڑھی تر ہو جاتی تھی۔۔۔۔ امام حسن (ع) جب مصلی عبادت پر کھڑے ہوتے تھے تو خوف خدا سے آپ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔۔۔۔ حضرت امام حسین عبادتِ خدا میں طولانی سجدے  کرتے تھے۔۔۔ کیا یہ اطاعت ِخدا و رسولﷺ ہے یا نسل پرستی اور اقربا پروری۔۔۔ کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ کہا یا ہمارے نبی کریمﷺ نے کبھی یہ کہا کہ بس رشتے داری کام دکھائے گی. دوسری طرف  صحابہ کرام کو بھی نہیں سمجھا گیا۔ وہاں بھی پیغمبرﷺ کی اطاعت اور تربیت کے بجائے ہم نے خود سے معیار بنا لئے اور کردار کے بجائے وہاں بھی خالہ و خالو اور ساس و سسر اور ماموں و ممانی۔۔۔ جیسے رشتوں وغیرہ کے نام لے کر ہر قسم کے لوگوں کے فضائل لکھے بھی گئے اور بیان بھی کئے گئے، یوں رشتے داروں کے فضائل گھڑ کر صحابہ کرام ؓ کی توہین کی گئی۔

جب آپ رسول کے غیر مطیع افراد کو رشتے دار ہونے کی وجہ سے صحابہ کرام میں شام کریں گے تو اس سے نبی اکرمﷺ کے مطیع صحابہ کرام کی حق تلفی، توہین اور امت کی گمراہی کا دروازہ کھل جائے جائے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے بعد صرف نبی کی اطاعت و تربیت ہی معیار فضیلت ہے، باقی رشتے ناطے باعث نجات نہیں ہیں۔ نبی اکرمﷺ نے بھی اہل بیت کے جو فضائل بیان کئے ہیں، وہ اہلیت و حقیقت کے ترجمان ہیں، نہ کہ رشتے داری کی وجہ سے ہیں۔ صحابہ کرام کو بھی نبی اکرمﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی وجہ سے ہی  تقدس و شرف حاصل ہے، نہ کہ رشتوں و ناطوں کی وجہ سے۔ مقامِ ختمِ نبوت کے خلاف ہے کہ کسی میں ایک فضیلت و خوبی اور اہلیت نہ ہو اور نعوذ باللہ نبی اکرمﷺ اُس کے لئے اپنی رشتے داری کی وجہ سے وہ فضیلت بیان کر دیں۔

تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

 وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے علی مسجد ماڈل ٹاﺅن میں خطبہ جمعہ میں واضح کیا ہے کہ قرآنی تعلیمات کی رو سے رزق، روزگار، آمدنی نہ ہونے کے خدشہ سے بچوں کی پیدائش روکنا ٹھیک نہیں۔ موجودہ مخلوق اور پیدا ہونے والوں کے رزق کا ضامن اللہ ہے۔ ہر شخص کے دنیا میں آنے اور جانے کا نظام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ انسانی کوششیں لا حاصل ثابت ہوتی ہیں۔ کئی لوگ بچوں کی پیدائش روکنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جسے پیدا ہونا ہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے۔ اس کے برعکس کتنے لوگ اولاد کی خواہش میں کتنے جتن کرتے ہیں لیکن بچہ نہیں ہوتا۔ یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر نظامِ قدرت میں آبادی کم کرنا ہو تو اس کے کئی اسباب بن جاتے ہیں۔ 2005ء میں ہونے والے زلزلہ سے 75 ہزار شہری موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ اب کرونا سے بھی گذشتہ سال سے کافی اموات واقع ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماہ ِ مبارک مغفرت کا مہینہ ہے، اس کی قدر کی جانا چاہیئے۔ شام کے وقت جب روزہ سے خشتگی بڑھ جاتی ہے تو روزہ دار کی دوسروں کی شفاعت کی دعا بھی قبول ہوتی ہے، بشرطیکہ یہ اس کے تمام اعضاء و جوارح کا روزہ ہو۔ بعض افراد کے نیکی نہ کرنے کے باوجود نعمتوں اور ترقی پر تعجب نہیں کرنا چاہیئے۔ قرآن بتاتا ہے کہ انہیں تدریجی طور پر عذاب کی طرف لے جایا جا رہا ہے، پھر اچانک ان کی گرفت ہوگی۔ نعمت سے زیادہ اہم اللہ کی رحمت ہے، جس کے بغیر ایک لمحہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ ”ہوا“ اللہ کی رحمت ہے، جس کے بغیر جینا محال ہے۔

حافظ ریاض نجفی نے کرونا کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کو لازم قرار دیتے ہوئے کہا کہ دیگر مقامات کے علاوہ مسجد میں بھی ماسک اور فاصلے کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ انسانی صحت و زندگی کی خاطر مجتہدین نے فقہی قواعد کے مطابق نماز جماعت میں دو افراد اور صفوں کے مابین تین سے چار فٹ فاصلہ کی اجازت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن میں کافی انبیاء و رسل کا تذکرہ ہے لیکن سب کو ”اُسوہ“ یعنی نمونہ نہیں کہا گیا۔ فقط حضرت ابراہیم ؑ اور آںحضور کو اُسوہ قرار دیا گیا۔ حضرت ابراہیمؑ کے لئے دو مرتبہ اور حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے لئے ایک مرتبہ یہ کلمہ استعمال کیا گیا ہے۔ اب اِس حکومت میں کچھ اور ہستیوں کو بھی ”اسوہ“ کے طور پر شامل کیا جا رہا ہے۔ دینی بزرگان، صحابہؓ، صحابیاتؓ حد درجہ قابلِ احترام ہیں۔ ان کے اچھے کاموں کی پیروی کی جانا چاہیئے، بہت سے اصحاب ؓ کی دین کے لئے بہت قربانیاں ہیں، لیکن جب تمام انبیاء کو قرآن اسوہ قرار نہیں دیتا تو پھر کسی صحابی یا صحابیہ کو کیسے کہا جا سکتا ہے؟ ریاستِ مدینہ میں کسی صحابی کو نہیں بلکہ حضور کو اسوہ قرار دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو دین میں نئی باتیں شامل کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے، جن سے تفرقہ اور بگاڑ پیدا ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کا حکم دیا گیا اور جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا۔ اس سے بعض مفسرین نے قرآن مراد لیا اور بعض نے حضرت علیؑ۔ انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں بیان کئے گئے انبیاء اور سابقہ امتوں کے واقعات اور قصے عبرت حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ حضرت ابراہیم کے قصہ میں اللہ پر توکل، بھروسہ اور اس سے عشق کا سبق ملتا ہے۔ اللہ کی رضا کی خاطر بے آب و گیاہ سرزمین میں نوزائیدہ بچے اور شریکِ حیات کو یکہ و تنہا چھوڑ دینا معمولی بات نہیں۔ بیٹے کو اللہ کی رضا کے لئے ذبح کرنا، آگ میں ڈالے جانے کے امتحان میں کسی کی مدد قبول نہ کرنا اور اس طرح کی مثالوں میں سامانِ عبرت ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے بعد حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے، جنہوں نے اپنے قبیلہ کو اللہ کی طرف دعوت دی تو اس کے امراء نے مطالبہ کیا کہ غریب اور کم درجہ کے لوگوں کو خود سے دور کریں۔ حضرت نوح ؑنے ان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا۔ رسول اکرم سے بھی یہی مطالبہ کیا گیا تھا کہ امیروں کے لئے ایک خاص وقت مقرر کریں تو اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ اے حبیب! ہرگز ایسا نہ کرنا، ورنہ آپ کو نقصان ہوگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک ایمان معیار ہے، مال، دولت یا منصب و مقام نہیں۔

فلسطین کے صدر محمود عباس نے 15 برس کے دوران ہونے والے پہلے  پارلیمانی انتخابات انعقاد سے کچھ وقت پہلے ہی ملتوی کردیئےجس کے بعد فلسطینی عوام نے احتجاج شروع کردیا ہے۔ ادھر فلسطینی تنظیم حماس نے صدر محمود عباس کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔فلسطینی صدر محمود عباس نے اعلان کیا کہ ملک میں 22 مئی کو ہونے والے قانون ساز فورم کے انتخابات کو آئندہ اطلاع تک ملتوی کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تک انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب تک کہ مشرقی مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینی عوام کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ادھر فلسطینی عوام نے صدر کے اس فیصلے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے سابق وزير دفاع اور قومی دفاع یونیورسٹی کے سربراہ جنرل احمد وحیدی نے کہا ہے کہ خطے میں غاصب صہیونی حکومت کی عسکری اور غیر عسکری موجودگی کو برداشت نہیں کیا جائےگا۔

جنرل احمد وحیدی نے آج صبح " خلیج فارس ہمارا گھر" کے عنوان سے منعقد سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس پر توجہ کا مسئلہ خاص اہمیت کا حامل مسئلہ ہے۔ خلیج فارس ہمارا گھر ہے اور ہم اپنے گھر کی سلامتی کو کسی بھی قیمت میں خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ علاقہ ہمارا گھر ہے جس میں وسیع ظرفیتیں موجود ہیں اور ہم باہمی تعاون کے ساتھ ان ظرفیتوں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خلیج فارس میں غیر علاقائي طاقتوں کی موجودگی سے خلیج فارس کے امن و اماں  اور سلامتی  کو خطرات لاحق ہیں۔  غیر علاقائی طاقتیں علاقائي ممالک میں اختلاف کا سبب ہیں۔ اسرائيل خطے میں شرارت اور بد امنی کا اصلی محور ہے اور اسرائيل کی خطے میں موجودگی کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائےگا۔ انھوں نے کہا کہ ایران علاقائی ممالک کے ساتھ قریبی تعاون کا خواہاں ہے۔

Thursday, 29 April 2021 06:32

صفات اولیاء الٰہی

حدیث :

عن انس بن مالک قال:قالوا:یارسول اللّٰه ،من اولیاء اللّٰه الذین لا خوف علیهم ولاهم یحزنون؟فقال :الذین نظروا الیٰ باطن الدنیاحین نظرالناس الیٰ ظاهرها،فاهتموا بآجلها حین اهتم الناس بعاجلها،فآمتوا منها ما خشوا ان یمیتهم ،وترکوا منها ما علموا عن سیترکهم فما عرض لهم منها عارض الا رفضوه،ولا خادعهم من رفعتها خادع الا وضعوه،خلقت الدنیا عندهم فما یجددونها،وحربت بینهم فما یعمرونها،وما تت فی صدورهم فما یحبونها،بل یهدمونها فیبنون بها آخرتهم ،ویبیعونها فیشترون بها ما یبقیٰ لهم ،نظروا الیٰ اهلها سرعی قد حلت بهم المثالات ،فما یرون اماناً دون ما یرجون،ولا خوفاً دون ما یحذرون [1]
ترجمہ :

انس ابن مالک نے روایت کی ہے کہ پیغمبر سے پوچھا گیا کہ اے الله کے رسول، الله کے دوست (جن کو نہ کوئی غم ہے ا ور نہ ہی کوئی خوف)کون لوگ ہیں؟آپ نے فرمایا:” یہ لوگ وہ ہیں جب دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں تو ا سکے باطن کو بھی دیکھ لیتے ہیں،اسی طر ح جب لوگ اس دوروزہ دنیا کے لئے محنت کرتے ہیں تو اس وقت وہ آخرت کے لئے کوشش کرتے ہیں،بس وہ دنیا کی محبت کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اس لئے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ دنیا ان کی ملکوتی اور قدسی جان کو تباہ کردے گی،اور اس سے پہلے کہ دنیا ان کو توڑے وہ دنیا کو توڑدیتے ہیں ،وہ دنیا کو ترک کردیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا انھیں جلد ہی ترک کردے گی،وہ دنیا کی تمام چمک دمک کو ردکردیتے ہیں اور اس کے جال میں نہیں پھنستے،دنیا کے نشیب و فراز ان کو دھوکہ نہیں دتیے بلکہ وہ لوگ تو ایسے ہیں جو بلندیوں کو نیچے کھینچ لاتے ہیں ان کی نظر میں دنیا پرانی اورویران ہے لہٰذا وہ اس کو دوبارہ آباد نہیں کرتے ،ان کے دلوں سے دنیا کی محبت نکل چکی ہے لہٰذا وہ دنیا کوپسند نہیں کرتے بلکہ وہ تو دنیا کو ویرا ن کرتے ہیںاور پھر اس ویرانہ میں ابدی (ہمیشہ باقی رہنے والا)مکان نباتے ہیں،اس ختم ہونے والی دنیا کو بینچ کر ہمیشہ باقی رہنے والے جہان کو خریدتے ہیں،جب وہ دنیا پرستوں کودیکھتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خاک پر پڑے ہیں اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہیں،وہ اس دنیا میں کسی بھی طرح کاامن و امان محسوس نہیں کرتے وہ تو فقط الله اور آخرت سے لو لگائے ہیں اور صرف الله کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔
حدیث کی شرح :

 

غم اور خوف میں فرق:غم اور خوف کے فرق کے بارے میںمعمولاً یہ کہا جاتا ہے کہ خوف مستقبل سے اور غم ماضی سے وابستہ ہے۔اس حدیث میں ایک بہت اہم سوال کیا گیا ہے جس کے بارے میں غوروفکر ضروری ہے ۔پوچھاگیا ہے کہ اولیاء الٰہی جو کہ نہ مستقبل سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ماضی سے غمگین ہیں کون افراد ہیں؟ حضرت نے اولیاء الٰہی کو پہچنوایتے ہوے ارشاد فرمایاکہ” اولیاء الٰہی کی بہت سی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دنیاپرستوں کے مقابلے میں باطن کو دیکھتے ہیں ۔قرآن کہتا ہے کہ دنیا پرست افراد آخرت سے غافل ہیں یعلمون ظاهراً من الحیاة الدنیا وهم عن الآخرة غافلون [2]اگر وہ کسی کو کوئی چیز دیتے ہیں تو حساب لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں نقصان ہوگیاہے ،ہمارا سرمایہ کم ہوگیا ہے [3] لیکن باطن کو دیکھنے والے افراد ایک دوسرے انداز میں سوچتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ مثل الذین ینفقون اموالهم فی سبیل اللهکمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مآئة حبةوالله یضاعف لمن یشاء والله واسع علیم [4] جو لوگ اپنے مال کو الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں (انکا وہ مال) اس بیج کی مانند ہیں جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں اور الله جس کے لئے بھی چاہتا ہے اس کو دوگنا یا کئی گنا زیادہ کردیتا ہے الله (رحمت اور قدرت کے اعتبار سے وسیع) اور ہر چیز سے دانا تر ہے۔
جو دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر سود لیں گے تو ہمارا سرمایہ زیادہ ہو جائے گا لیکن جو باطن کو دیکھنے والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہی نہیں کہ زیادہ نہیں ہوگا بلکہ کم بھی ہو جائے گا ۔قرآن نے اس بارے میں دلچسپ تعبیر پیش کی ہے یمحق الله الربوا ویربی الصدقات والله لا یحب کل کفارا اثیم [5] الله سود کو نابود کرتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور الله کسی بھی ناشکرے او ر گناہگار انسان کو دوست نہیں رکھتا۔
جب انسان دقت کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ جس سماج میں سود رائج ہوتا ہے وہ سماج آخر کار فقر و فاقہ اور ناامنی میں گرفتا ر ہو جاتا ہے لیکن اسی کے مقابلے میں جس سماج میں آپسی مدد اور انفاق کا وجود پایا جاتاہے وہ کامیاب اور سربلند رہتاہے ۔
انقلاب سے پہلے حج کے زمانے میں اخبار اس خبر سے بھرے پڑے تھے کہ حج انجام دینے کے لئے مملکت کا پیسہ باہر کیوںلے جاتے ہو؟ کیونکہ وہ فقط ظاہر کو دیکھ رہے تھے لہٰذا اس بات کو درک نہیں کر رہے تھے کہ یہ چند ہزار ڈالر جو خرچ ہوتے ہیں اس کے بدلے میں حاجی لوگ اپنے ساتھ کتنا زیادہ معنوی سرمایہ ملک میں لاتے ہیں ۔یہ حج اسلام کی عظمت ہے اور مسلمانوں کی وحدت و عزت کو اپنے دامن میں چھپائے ہے کتنے اچھے ہیں وہ دل جو وہاں جاکر پاک وپاکیزہ ہو جاتے ہیں ۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس دنیا کی دو دن کی زندگی کے لئے لوگ کتنی محنت کرتے جبکہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس محنت کا سکھ بھی نصیب ہوگا یانہیں مثال کے طور پر تہران میں ایک انسان نے ایک گھر بنایا تھا جس کی نقاشی میں ہی صرف ڈیڑھ سال لگ گیا تھا ،لیکن وہ بیچارہ اس مکان سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا، بعد میں فقط اس گھر میں اس کا چہلم منایا گیا۔ اس دنیاکے لئے جس میں چار روز زندہ رہنا ہے کتنی زیادہ بھاگ دوڑ کی جاتی ہے لیکن اخروی زندگی کے لئے کوئی کام نہیں کیا جاتا اس کی کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔
یہ حدیث اولیاء الٰہی کے صفات کا مجموعہ ہے۔اگر ان صفات کو جمع کرنا چاہیں تو ان کا خلاصہ ان تین حصوں میں ہو سکتا ہے :
1. اولیاء الٰہی دنیا کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ چند روزہ اور نابود ہونے والی ہے ۔
2. وہ کبھی بھی اس کی رنگینیوں کے جال میںنہیں پھنستے ہیں اور نہ ہی اس کی چمک دمک سے دھوکہ کھاتے ہیں۔کیونکہ وہ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں
3. وہ دنیا سے صرف ضرروت کے مطابق ہی استفادہ کرتے ہیں،وہ فنا ہونے والی دنیا میں رہ کر ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کے لئے کام کرتے ہیں،وہ دنیا کوبینچتے ہیں اور آخرت کو خریدتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ الله نے کچھ لوگوں کو بلند مقام پر پہونچایا ہے ۔سوال یہ ہے کہ انھوںنے یہ بلند مقام کیسے حاصل کیا؟جب ہم غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ وہ افراد ہیں جو اپنی عمر سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں ،اس خاک سے آسمان کی طرف پرواز کرتے ہیں ،پستی سے بلندی پر پہونچتے ہیں ۔حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہمالسلام نے جنگ خندق کے دن ایک ایسی ضربت لگائی جو قیامت تک جن و انس کی عبادت سے برتر ہے۔”ضربة علی یوم الخندق اٴفضل من عبادة الثقلین“ کیونکہ اس دن کل ایمان کل کفر کے مقابلے میں تھا ۔بحارالانوار میں ہے کہ ”برز الایمان کلہ الیٰ کفر کلہ“علی علیہ السلام کی ایک ضربت کا جن و انس کی عبادت سے برتر ہونا تعجب کی بات نہیں ہے ۔
اگر ہم ان مسائل پر اچھی طرح غورکریں تو دیکھیں گے کہ کربلا کے شہیدوں کی طرح کبھی کبھی آدھے دن میں بھی فتح حاصل کی جاسکتی ہے ۔اس وقت ہم کو اپنی عمر کے قیمتی سرمایہ کی قدر کرنی چاہئے اور اولیاء الٰہی (کہ جن کے بارے میں قرآن میںبھی بحث ہوئی ہے ) کی طرح ہم کو بھی دنیاکو اپنا ہدف نہیں بنانا چاہئے۔
——————————————————————————–
[1] بحارالانوار ،ج/ ۷۴ ص/ ۱۸۱
[2] سورہ روم آیہ/ ۷
[3] پیغمبر اسلام (ص) کی حدیث میں ملتا ہے کہ ”اغفل الناس من لم یتعظ بتغیر الدنیا من حال الیٰ “ سب سے زیادہ غافل وہ لوگ ہیں جو دنیا کے بدلاؤس سے عبرت حاصل نہ کرے اور دن رات کے بدلاؤ کے بارے میں غوروفکر نہ کرے ۔(تفسیر نمونہ،ج/ ۱۳ ص/ ۱۳ )
[4] سورہٴ بقرة آیہ/ ۲۶۱
[5] سورہٴ بقرة آیہ:

حدیث :

عن انس بن مالک قال:قالوا:یارسول اللّٰه ،من اولیاء اللّٰه الذین لا خوف علیهم ولاهم یحزنون؟فقال :الذین نظروا الیٰ باطن الدنیاحین نظرالناس الیٰ ظاهرها،فاهتموا بآجلها حین اهتم الناس بعاجلها،فآمتوا منها ما خشوا ان یمیتهم ،وترکوا منها ما علموا عن سیترکهم فما عرض لهم منها عارض الا رفضوه،ولا خادعهم من رفعتها خادع الا وضعوه،خلقت الدنیا عندهم فما یجددونها،وحربت بینهم فما یعمرونها،وما تت فی صدورهم فما یحبونها،بل یهدمونها فیبنون بها آخرتهم ،ویبیعونها فیشترون بها ما یبقیٰ لهم ،نظروا الیٰ اهلها سرعی قد حلت بهم المثالات ،فما یرون اماناً دون ما یرجون،ولا خوفاً دون ما یحذرون [1]
ترجمہ :

انس ابن مالک نے روایت کی ہے کہ پیغمبر سے پوچھا گیا کہ اے الله کے رسول، الله کے دوست (جن کو نہ کوئی غم ہے ا ور نہ ہی کوئی خوف)کون لوگ ہیں؟آپ نے فرمایا:” یہ لوگ وہ ہیں جب دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں تو ا سکے باطن کو بھی دیکھ لیتے ہیں،اسی طر ح جب لوگ اس دوروزہ دنیا کے لئے محنت کرتے ہیں تو اس وقت وہ آخرت کے لئے کوشش کرتے ہیں،بس وہ دنیا کی محبت کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اس لئے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ دنیا ان کی ملکوتی اور قدسی جان کو تباہ کردے گی،اور اس سے پہلے کہ دنیا ان کو توڑے وہ دنیا کو توڑدیتے ہیں ،وہ دنیا کو ترک کردیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا انھیں جلد ہی ترک کردے گی،وہ دنیا کی تمام چمک دمک کو ردکردیتے ہیں اور اس کے جال میں نہیں پھنستے،دنیا کے نشیب و فراز ان کو دھوکہ نہیں دتیے بلکہ وہ لوگ تو ایسے ہیں جو بلندیوں کو نیچے کھینچ لاتے ہیں ان کی نظر میں دنیا پرانی اورویران ہے لہٰذا وہ اس کو دوبارہ آباد نہیں کرتے ،ان کے دلوں سے دنیا کی محبت نکل چکی ہے لہٰذا وہ دنیا کوپسند نہیں کرتے بلکہ وہ تو دنیا کو ویرا ن کرتے ہیںاور پھر اس ویرانہ میں ابدی (ہمیشہ باقی رہنے والا)مکان نباتے ہیں،اس ختم ہونے والی دنیا کو بینچ کر ہمیشہ باقی رہنے والے جہان کو خریدتے ہیں،جب وہ دنیا پرستوں کودیکھتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خاک پر پڑے ہیں اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہیں،وہ اس دنیا میں کسی بھی طرح کاامن و امان محسوس نہیں کرتے وہ تو فقط الله اور آخرت سے لو لگائے ہیں اور صرف الله کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔
حدیث کی شرح :

مزید  ربیع الاول کا مہینہ، محبتِ رسول اور اِصلاحِ اَعمال کا پیغام

غم اور خوف میں فرق:غم اور خوف کے فرق کے بارے میںمعمولاً یہ کہا جاتا ہے کہ خوف مستقبل سے اور غم ماضی سے وابستہ ہے۔اس حدیث میں ایک بہت اہم سوال کیا گیا ہے جس کے بارے میں غوروفکر ضروری ہے ۔پوچھاگیا ہے کہ اولیاء الٰہی جو کہ نہ مستقبل سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ماضی سے غمگین ہیں کون افراد ہیں؟ حضرت نے اولیاء الٰہی کو پہچنوایتے ہوے ارشاد فرمایاکہ” اولیاء الٰہی کی بہت سی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دنیاپرستوں کے مقابلے میں باطن کو دیکھتے ہیں ۔قرآن کہتا ہے کہ دنیا پرست افراد آخرت سے غافل ہیں یعلمون ظاهراً من الحیاة الدنیا وهم عن الآخرة غافلون [2]اگر وہ کسی کو کوئی چیز دیتے ہیں تو حساب لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں نقصان ہوگیاہے ،ہمارا سرمایہ کم ہوگیا ہے [3] لیکن باطن کو دیکھنے والے افراد ایک دوسرے انداز میں سوچتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ مثل الذین ینفقون اموالهم فی سبیل اللهکمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مآئة حبةوالله یضاعف لمن یشاء والله واسع علیم [4] جو لوگ اپنے مال کو الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں (انکا وہ مال) اس بیج کی مانند ہیں جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں اور الله جس کے لئے بھی چاہتا ہے اس کو دوگنا یا کئی گنا زیادہ کردیتا ہے الله (رحمت اور قدرت کے اعتبار سے وسیع) اور ہر چیز سے دانا تر ہے۔
جو دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر سود لیں گے تو ہمارا سرمایہ زیادہ ہو جائے گا لیکن جو باطن کو دیکھنے والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہی نہیں کہ زیادہ نہیں ہوگا بلکہ کم بھی ہو جائے گا ۔قرآن نے اس بارے میں دلچسپ تعبیر پیش کی ہے یمحق الله الربوا ویربی الصدقات والله لا یحب کل کفارا اثیم [5] الله سود کو نابود کرتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور الله کسی بھی ناشکرے او ر گناہگار انسان کو دوست نہیں رکھتا۔
جب انسان دقت کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ جس سماج میں سود رائج ہوتا ہے وہ سماج آخر کار فقر و فاقہ اور ناامنی میں گرفتا ر ہو جاتا ہے لیکن اسی کے مقابلے میں جس سماج میں آپسی مدد اور انفاق کا وجود پایا جاتاہے وہ کامیاب اور سربلند رہتاہے ۔
انقلاب سے پہلے حج کے زمانے میں اخبار اس خبر سے بھرے پڑے تھے کہ حج انجام دینے کے لئے مملکت کا پیسہ باہر کیوںلے جاتے ہو؟ کیونکہ وہ فقط ظاہر کو دیکھ رہے تھے لہٰذا اس بات کو درک نہیں کر رہے تھے کہ یہ چند ہزار ڈالر جو خرچ ہوتے ہیں اس کے بدلے میں حاجی لوگ اپنے ساتھ کتنا زیادہ معنوی سرمایہ ملک میں لاتے ہیں ۔یہ حج اسلام کی عظمت ہے اور مسلمانوں کی وحدت و عزت کو اپنے دامن میں چھپائے ہے کتنے اچھے ہیں وہ دل جو وہاں جاکر پاک وپاکیزہ ہو جاتے ہیں ۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس دنیا کی دو دن کی زندگی کے لئے لوگ کتنی محنت کرتے جبکہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس محنت کا سکھ بھی نصیب ہوگا یانہیں مثال کے طور پر تہران میں ایک انسان نے ایک گھر بنایا تھا جس کی نقاشی میں ہی صرف ڈیڑھ سال لگ گیا تھا ،لیکن وہ بیچارہ اس مکان سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا، بعد میں فقط اس گھر میں اس کا چہلم منایا گیا۔ اس دنیاکے لئے جس میں چار روز زندہ رہنا ہے کتنی زیادہ بھاگ دوڑ کی جاتی ہے لیکن اخروی زندگی کے لئے کوئی کام نہیں کیا جاتا اس کی کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔
یہ حدیث اولیاء الٰہی کے صفات کا مجموعہ ہے۔اگر ان صفات کو جمع کرنا چاہیں تو ان کا خلاصہ ان تین حصوں میں ہو سکتا ہے :
1. اولیاء الٰہی دنیا کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ چند روزہ اور نابود ہونے والی ہے ۔
2. وہ کبھی بھی اس کی رنگینیوں کے جال میںنہیں پھنستے ہیں اور نہ ہی اس کی چمک دمک سے دھوکہ کھاتے ہیں۔کیونکہ وہ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں
3. وہ دنیا سے صرف ضرروت کے مطابق ہی استفادہ کرتے ہیں،وہ فنا ہونے والی دنیا میں رہ کر ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کے لئے کام کرتے ہیں،وہ دنیا کوبینچتے ہیں اور آخرت کو خریدتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ الله نے کچھ لوگوں کو بلند مقام پر پہونچایا ہے ۔سوال یہ ہے کہ انھوںنے یہ بلند مقام کیسے حاصل کیا؟جب ہم غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ وہ افراد ہیں جو اپنی عمر سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں ،اس خاک سے آسمان کی طرف پرواز کرتے ہیں ،پستی سے بلندی پر پہونچتے ہیں ۔حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہمالسلام نے جنگ خندق کے دن ایک ایسی ضربت لگائی جو قیامت تک جن و انس کی عبادت سے برتر ہے۔”ضربة علی یوم الخندق اٴفضل من عبادة الثقلین“ کیونکہ اس دن کل ایمان کل کفر کے مقابلے میں تھا ۔بحارالانوار میں ہے کہ ”برز الایمان کلہ الیٰ کفر کلہ“علی علیہ السلام کی ایک ضربت کا جن و انس کی عبادت سے برتر ہونا تعجب کی بات نہیں ہے ۔
اگر ہم ان مسائل پر اچھی طرح غورکریں تو دیکھیں گے کہ کربلا کے شہیدوں کی طرح کبھی کبھی آدھے دن میں بھی فتح حاصل کی جاسکتی ہے ۔اس وقت ہم کو اپنی عمر کے قیمتی سرمایہ کی قدر کرنی چاہئے اور اولیاء الٰہی (کہ جن کے بارے میں قرآن میںبھی بحث ہوئی ہے ) کی طرح ہم کو بھی دنیاکو اپنا ہدف نہیں بنانا چاہئے۔
——————————————————————————–
[1] بحارالانوار ،ج/ ۷۴ ص/ ۱۸۱
[2] سورہ روم آیہ/ ۷
[3] پیغمبر اسلام (ص) کی حدیث میں ملتا ہے کہ ”اغفل الناس من لم یتعظ بتغیر الدنیا من حال الیٰ “ سب سے زیادہ غافل وہ لوگ ہیں جو دنیا کے بدلاؤس سے عبرت حاصل نہ کرے اور دن رات کے بدلاؤ کے بارے میں غوروفکر نہ کرے ۔(تفسیر نمونہ،ج/ ۱۳ ص/ ۱۳ )
[4] سورہٴ بقرة آیہ/ ۲۶۱
[5] سورہٴ بقرة آیہ:

فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خود سے متعلق چیزوں اور اپنے عزیزوں سے زیادہ محبت کرتا ہے اور اس میں کبھی کبھی حد سے بھی بڑھ بھی جاتا ہے، خصوصاً جب انسان کے نفس کی تربیت نہ ہوئی ہو تو اپنے عزیز اور محبوب کا ہر عمل بھلا لگتا ہے، اگرچہ اصولوں اور قوانین کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ پس کسی کے لئے ہم جیسے عام انسان کی تائید، تصدیق اور تشویق زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، چونکہ ہم اکثر اپنے احساسات و عواطف اور جذبات سے متاثر ہوتے ہیں، لیکن تاریخ میں ایسی ہستیاں  بھی گزری ہیں، جنہوں نے کبھی بھی کوئی بات جذبات، احساسات اور عواطف کی بنیاد پر نہیں کہی، ان میں سے ایک ہستی ایسی بھی ہے، جب کسی سے اظہار محبت کرتی ہے اور حد سے زیادہ چاہت دکھاتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اپنی طرف سے کچھ  نہیں کہتی، ان کی محبت اور دشمنی ہمیشہ خدا کے لئے ہوتی ہے۔

تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ *مَایَنطَقُ عَنِ الھَوَا اِن ھُوَ اَلاَّ وَحیٍ یُّوحَی* کی مالک شخصیت جب کسی ہستی سے اتنی محبت کا اظہار کرتی ہے تو یقیناً انسانی جذبات اور احساسات سے ہٹ کر یہ عمل انجام دے رہی ہوتی ہے، جس کا اظہار وہ خود اپنے بہت سے فرامین میں کرچکی ہے، جس میں اپنے لاڈلوں سے اظہار محبت ہمیشہ کچھ معمول سے ہٹ کر کیا ہے، کبھی حسنین شریفین کے لئے ناقہ بنتے نظر آئے تو کبھی خطبہ دینے کے دوران منبر سے اتر کر ان کو اپنی گود میں   لیتے تو کبھی فرامین کے ذریعے دنیا والوں کو ان کی اہمیت اور شخصیت بتانے کی کوشش کی۔ ان ہستیوں کی طہارت اور اہمیت کی گواہی قرآن نے دی ہے، لیکن اس کے باوجود امت مسلمہ نے آپ کے جانے کے فوراً بعد ان ہستیوں کی حرمت کا کوئی پاس نہیں رکھا۔ طرح طرح کی تہمتیں لگائیں اور اذیتیں پہنچانے سے گریز نہیں کیا۔

امام حسن مجتبیٰ (ع) کی ولادت
?الارشاد میں مرحوم شیخ مفید علیہ الرحمہ کے مطابق آپ کی کنیت ابو محمد ہےو  شہر مدینہ میں پندرہ رمضان المبارک تیسری ہجری کو آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کی ماں دختر رسول فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے ایک ایسے جنت کے کپڑے میں لپیٹ کر (کہ جو جبرئیل رسول خدا کے لئے جنت سے لایا تھا) اپنے بابا کے پاس لے آئیں اور آنحضرت نے آپ کا نام حسن رکھا۔(1) جبکہ بعض دیگر حدیثی کتب کے مطابق جب آپ کی ولادت ہوئی تو حضرت فاطمہ (س) نے علی علیہ السلام سے فرمایا ہمارے اس بچے کے لئے نام رکھیں، آپ نے فرمایا اس بچے کو نام رکھنے میں، میں رسول خدا پر سبقت نہیں لوں گا۔ جب رسول اللہ تشریف لائے تو آپ ہی نے دائیں کان میں اذان، بائیں کان میں اقامت پڑھی اور علی علیہ السلام سے پوچھا اس بچے کے لئے کیا نام رکھا ہے۔؟ آپ نے فرمایا یارسول اللہ میں نام رکھنے میں آپ پر سبقت نہیں لوں گا اس وقت آنحضرت نے فرمایا میں بھی اپنے رب پر سبقت نہیں لوں گا، اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا کہ آپ کو اللہ نے مبارک باد دی ہے اور فرمایا ہے کہ آپ اور علی کی نسبت موسیٰ اور ہارون کی سی ہے(علی کو آپ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی) لہذا اس بچے کا ہارون کے بیٹے کا نام رکھ دیں، آپ نے پوچھا ان کا نام کیا تھا؟؟ جبرئیل نے کہا شبّر فرمایا میری زبان عربی ہے، کیا رکھوں۔؟ فرمایا حسن، اس طرح آنحضرت نے آپ کا نام حسن رکھا۔۔۔(2)

امام حسن قرآن کی نگاہ میں
❄️ تمام شیعہ علماء اور بعض اہل سنت علماء کے مطابق امام حسن علیہ السلام آیہ تطہیر کے مصادیق میں سے ہیں۔ آیہ تطہیر آپ کے گھر والوں کی طہارت اور 
پاکیزگی پر گواہ ہے۔ "إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً"(3) آپ اصحاب مبابلہ میں سے ہیں، جن کی شان میں آیہ مباہلہ نازل ہوئی، جس کے بارے میں اہل سنت علماء کا بھی اتفاق ہے۔ "فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ"(4) آیہ مودت آپ ہی کے اقرباء  کی شان میں نازل ہوئی، جس میں آپ کی محبت کو واجب قرار دیا گیا ہے۔(5)
سورہ دھر کی آیت 5 سے دس تک آپ ہی کے گھرانے کی شان میں نازل ہوئیں۔ مرحوم علامہ امینی نے الغدیر میں اس آیت کا شان نزول اہل بیت علیہم السلام ہونے کو اہل سنت کی 34 کتابوں سے ذکر کیا ہے اور مرحوم قاضی نوراللہ شوشتری نے ان کی 36 کتابوں سے نقل کیا ہے۔(6)

امام حسن پیغمبر گرامی اسلام (ص) کی نظر میں
?آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ایسے اوصاف کے ذریعے اپنے نواسوں کو یاد کیا ہے کہ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ آپ کی مرتبت حضور کی نگاہوں  
 میں کتنی تھی۔ آپ کی فضلیت کے لئے صرف حدیث ثقلین کافی ہے، جس میں اہل بیت کو قیامت تک کے لئے قرآن کا ہم پلہ اور قرآن سے جدا ناپذیر قرار دیا۔۔۔ براء بن عازب کہتے ہیں "رایت النبی صلی اللہ والحسن علی عاتقہ یقول اللھم انی احبہ فاحبہ۔۔" "میں نے رسول خدا کو یہ کہتے ہوئے سنا، جب آپ کے پاس امام حسن بیٹھے تھے، اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر" اور ایک روایت میں آپ فرماتے ہیں "اللّهُمَّ إنّي اُحِبُّهُ فأحِبَّهُ، و أحِبَّ مَن يُحِبُّهُ"(7) پيامبر خدا صلى الله عليه و آله نے امام حسن عليہ السلام کے بارے میں فرمایا: "خدايا! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے اور اس کے دوستوں سے بھی محبت کر۔۔" رسول اللہ کی وہ حدیث جو امام حسین علیہ السلام کے بارے میں معروف ہے، اسی مضمون کے ساتھ امام حسن کے بارے میں بھی ملتی ہے: "قال رسول الله (صلی الله علیه وآله وسلم):«حَسَنٌ مِنّی وَاَنا مِنه، اَحَبّ اللهُ مَن اَحَبّه.." آنحضرت نے فرمایا حسن مجھ سے ہے اور میں حسن سے ہوں، خدا اس سے محبت کرتا ہے، جو حسن سے محبت کرتا ہے"(8)

كنز العمّال کی روایت ہے: وفَدَ المِقْدامُ بنُ مَعْدِيكَرِب و عَمرو بنُ الأسودِ إلى قِنِّسْرِينَ، فقالَ معاويةُ للمِقْدامِ: أعَلِمْتَ أنّ الحسنَ بنَ عليٍّ تُوفّي؟ فاسْتَرجَعَ المِقدامُ، فقالَ لَه معاويةُ: أتَراها مُصيبةً؟! قال: و لِمَ لا أراها مُصيبةً و قد وضَعَهُ رسولُ اللّه ِصلى الله عليه و آله في حِجْرِهِ فقالَ: هذا مِنّي؟!(9) "مقدام بن معديكرب و عمرو بن اسود قِنّسرين گئے۔ معاويہ نے مقدام سے کہا: تمہیں پتہ ہے کہ حسن بن على کی وفات ہوئی ہے۔؟ مقدام نے آيہ «إنّا للّه و إنّا إليه راجعون» پڑھی۔ معاويہ نے اس سے کہا: آيا اس کو مصیبت سمجھتے ہو؟! مقدام نے جواب میں کہا: کیسے مصيبت نہ سمجھوں، جبکہ پيغمبر خدا صلى الله عليه و آله وسلم نے اس کو اپنے زانو پر بٹھایا اور فرمایا یہ مجھ سے ہے۔۔۔" رسول اللہ سے منقول ہے، ھَذا (حسن) مِنّی و حُسین من علی رضی اللہ عنھما۔۔ "یہ (حسن) مجھ سے ہے اور حسین علی سے"(10) ابو ہریرہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ میں جب بھی حسن بن علی کو دیکھتا ہوں، میری آنکھوں سے آنسوؤ جاری ہوتے ہیں، چونکہ میں نے خود رسول اللہ کو دیکھا کہ اپنے لبوں کو حسن کے لبوں پر رکھ کر فرماتے تھے: اللھم اِنِّی اُحَبہ فاحبہ واحب من یُحبّہ.. "خدایا میں اس (حسن) سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے اور اس سے محبت کرنے والوں سے محبت رکھ ۔۔۔۔"(11 )

امام حسن اور یاد خدا
امام حسن جب بھی مسجد جاتے سر مبارک کو آسمان کی طرف کرکے بارگاہ الہیٰ میں فرماتے تھے، خدایا تیرا مہمان تیرے در پر آیا ہے، اے نیکی دینے والے رب، ایک گنہگار تیری بارگاہ میں آیا ہے، اے کریم! تیرے خوبصورت فضل و کرامت کا واسطہ میرے گناہوں سے درگذر فرما۔۔ آپ جب بھی عبادت کے لئے تیار ہوتے تو آپ کا رنگ تغییر کرتا  تھا اور جسم لرزنے لگتا تھا۔(12)

امام کی زندگی کے مراحل
☀️امام کی زندگی دو مرحلوں میں تقسیم ہوتی ہے، امامت سے پہلے اور بعد کی زندگی۔۔ خود امامت سے پہلے کی زندگی یعنی علی علیہ السلام کی شہادت سے پہلے کی زندگی تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔
 1۔ آپ کا بچپنا: یعنی 7 سال اپنے نانا رسول خدا کے ساتھ گزارے، اس مختصر عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے مختلف مواقع میں آپ کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کرنے سے کوئی فرصت فروگزار نہیں کی۔ جب بھی موقعہ ملتا تھا، ان دونوں ہستیوں کا تعارف کرایا اور ان دونوں کو جنت کے جوانان کے سردار قرار دیا۔

2۔ خلفاء ثلاثہ (تینوں خلفاء کا دور)* ان ادوار میں بھی آپ نے اپنے بابا کے ساتھ اسلام کی خدمت میں گزاری۔ بلاذری سند معتبر کے ساتھ انساب الاشراف میں لکھتے ہیں: «وَحَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ حماد بن سلمه، عن هشام ابن عُرْوَه، عَنْ عُرْوَه قَالَ: خَطَبَ اَبُو بَکْرٍ یوما فجاء الحسن فقال انْزِلْ عَنْ مِنْبَرِ اَبِی۔۔۔۔۔۔۔ عروه نقل کرتا ہے، ایک دن ابوبکر خطبہ دے رہا تھا. امام حسن (علیه‌ السّلام) آئے۔۔ آپ نے ایک مرتبہ بلند آواز میں فرمایا میرے بابا کے منبر سے اتر جا، ابوبکر نے کہا قسم بہ خدا درست کہا، یہ منبر تیرے باپ کا ہے، نہ میرے باپ کا۔۔(13)

3۔ اپنے بابا کی حکومت کا دور: جہاں تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ تینوں جنگوں (جمل، صفین، نہروان) میں آپ کا کردار نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ جنگ جمل کے لئے افرادی قوت جمع کرنے میں محمد بن ابی بکر اور محمد بن جعفر جب کوفہ سے ناکام لوٹے تو آپ اور عمار گئے اور تاریخ نگاروں کے مطابق آپ نے ابو موسیٰ اشعری  کو والی کوفہ کے منصب سے برطرف کرکے مسجد کوفہ میں ایک ایسا خطبہ دیا، جس سے ہزاروں کا لشکر اپنے ہمراہ لانے میں کامیاب ہوئے۔۔۔(14) جنگ صفین میں بھی آپ کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ رسول خدا کے دونوں نواسوں کی جنگ دیکھ کر علی علیہ السلام نے فرمایا، ان دونوں کو جنگ سے روکو، کہیں ان کی شہادت سے نسل رسول منقطع نہ ہو جائے۔۔۔۔

آپ کی امامت کا دور
  ?یہ دور  دو حصوں پرمشتمل ہے، لوگوں کی بیعت سے صلح تک اور صلح سے شہادت تک، گرچہ ظاہری طور پر بھی امام حسن کی بیعت بھی باقی خلفاء کی بیعت کی طرح تمام تقاضوں کے مطابق ہوئی۔ آپ نے اپنے بابا کی شہادت کے بعد ایک معنی خیز خطبہ ارشاد فرمایا! "اے لوگوا اس رات میں قرآن نازل ہوا اور جناب عیسیٰ بن مریم کو آسمان پر اٹھایا گیا اور یوشع بن نون قتل ہوئے اور میرے بابا بھی اس رات کو شہید ہوئے۔ خدا کی قسم میرے بابا سے پہلے اور بعد کے اوصیاء میں سے کوئی بھی ان سے پہلے بہشت میں نہیں جائے گا، جب بھی رسول خدا ان کو جنگجووں سے لڑنے بھیجتے تو جبرئیل دائیں طرف اور میکائیل بائیں طرف لڑتے تھے، انہوں نے کوئی مال و دولت نہیں چھوڑی۔۔۔۔۔"(15) امام کے خطبے کے بعد عبیداللہ بن عباس اٹھے اور مسلمانوں کو بیعت کرنے پر آمادہ کیا اور کہا: اے لوگو یہ تمہارے پیغمبر کے فرزند اور تمہارے امام کے جانشین ہیں۔۔ لہذا اس کی بیعت کریں۔۔ لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور کہا آپ سب سے زیادہ شائستہ ہیں۔(16) لیکن معاویہ نے ان تمام اصولوں کو پامال کرتے ہوئے آپ کی حکومت کو ماننے سے انکار کیا اور آپ پر جنگ مسلط کی گئی۔

دشمنوں کا امام کی شخصیت پر وار
?یہ امام اس وقت بھی اور آج بھی مظلوم ہیں۔ جھوٹی تاریخ اور جعلی روایتوں کے ذریعے اس عظیم ہستی کی شخصیت کو پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔  بنی امیہ کی پوری مشینری کی طرف سے علی و آل علی کے خلاف ان کی شخصیت کو کم اور خراب کرنے کے لئے طرح طرح کی روایتیں گھڑی گئیں اور خصوصاً امام حسن کی شخصیت کو خراب کرنے میں ناداں دوستوں اور آگاہ دشمنوں خصوصاً  منصور عباسی کے مکروہ عزائم نے سب سے زیادہ اپنا کردار ادا کیا۔ بنی عباس نے بنی ہاشم پر ہونے والے مظالم کو وسیلہ اور انتقام خون حسین علیہ السلام کا دلسوز نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کیا، لیکن جب اقتدار پر مکمل قابض ہوگئے تو پھر یہ ان لوگوں نے بھی بنی امیہ کی سیرت کو ہی اپنانا شروع کر دیا، جس پر اولاد حسن بن علی کی طرف سے مختلف ادوار میں حکومت بنی عباس کے ظلم کے خلاف شورش برپا کر دی۔ ان بغاوتوں کو دبانے اور آل حسن کی تحریکوں کو ناکام اور بےاثر کرنے کے لئے امام حسن کی شخصیت کشی کی گئی، تاکہ لوگ اولاد حسن بن علی کا ساتھ نہ دیں۔

اس میں ہمارے ہی کچھ سادہ لوح افراد اور کچھ بزرگوں کے سہو قلم کی وجہ سے اپنی کتابوں میں ان واقعات کو لکھ ڈالا، جو کہ تحلیل اور تحقیق کے طالب ہیں۔
صلح امام کی پیچیدگیوں کو امام کے بعض قریبی اصحاب بھی سمجھنے سے قاصر رہے، امام کے قریبی ساتھی حجر بن عدی جیسی ہستی نے بھی زبان اعتراض اور شکایت دراز کی، جس پر  *وَغَمَزَالحُسَینُ حُجرَ* امام حسین (ع) نے حجر کو خاموش کرایا۔(17) آپ علیہ السلام نے صلح خوشی سے نہیں کی بلکہ آپ پر مسلط کی گئی تھی، لیکن امام کی بہترین تدبیر نے معاویہ کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے نمایاں کر دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں کہ اگر صلح امام حسن نہ ہوتی تو واقعہ کربلا بھی نہ ہوتا، اگر واقعہ کربلا نہ ہوتا تو آج پوری دنیا سے اٹھنے والی تحریکیں بھی نہ ہوتیں۔۔(18)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1) الارشاد شیخ مفید، جلد دوم، ص 1
2) معانی الاخبار، ص 57، علل الشرائع، ص137، بحارالانوار، ص 43/ص 240 حدیث8
3) سورہ احزاب آیت 33
4) آل عمران/61 
5) شورا 23
6) الغدیر، ج،3 ص107/ احقاق الحق، ج 3، ص157
7) كنز العمّال: 37640 (ماخوذ از کتابخانه احادیث الشیعه)
8) مجلسی بحار الانوار، ج43، ص 306
9) كنز العمّال: 37658 (ماخوذ از کتابخانہ احادیث الشیعہ)
10) مسند احمد 132/4 چاپ مصر1313ھ ماخوذ از پیشوایان ہدایت گروہ مولفان سید منذر حکیم، وسام بغدادی، مجمع جہانی اہل بیت
11) تاریخ دمشق ابن عساکر 10/7، چاپ دارالفکر1405ھ
12) مناقب 180/3 بحارالانوار 339/43
13) بلارزی احمد بن یحی انساب الاشراف ج 3، ص 26/صواعق محرقہ 175۔۔ تاریخ الخلفا۔
14) پیشوای ہدایت سبط اکبر، ص 116 (سید منذ الحکیم و گروه مولفان)
15) امالی، ص 192
16) ابوالفرج اصفهانی مقاتل الطالبین، ص 34 
17) انسان 250 ساله (مجموعه تقاریر رہبر انقلاب اسلامی)
18) دو امام مجاہد، ص 11(رہبر انقلاب کی تقاریر کا مجموعہ)

تحریر: محمد علی شریفی

سن 3 ھ ق : امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت ۔ امام حسن بن علی بن ابیطالب علیہ السلام شیعوں کے دوسرے امام ہیں ۔ آپ پندرہ رمضان سن 3 ھ ق کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانےمیں مدینہ منورہ میں پیدا ہوے۔ (1)
آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے نواسے اور پہلے امام اور چوتھے خلیفہ امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام اور سیدۃ نساء العالمین فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کے فرزندہیں ۔
امام حسن مجتبی علیہ السلام ایسے گھرانےمیں پیدا ہوے جو وحی اور فرشتوں کے نازل ہونےکی جگہ تھی ۔وہی گھرانا کہ جس کی پاکی کے بارے میں قرآن نے گواھی دی ہے : ” إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّه لِيُذْهبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ اهلَ الْبَيْتِ وَيُطَهرَكُمْ تَطْهيرًا ” ۔یعنی: (بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اھل بیت علیہم السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے) ۔ (2) اس طرح خدای سبحان نے قرآن کریم میں اس گھرانے کی بار بار تحسین اور تمجید کی ہے ۔
امام حسن مجتبی علیہ السلام ، امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب (ع) اور سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زھرا(س) کے پہلے فرزند تھے ۔ اس لۓ آنحضرت کا تولدپیغمبر(ص) انکے اھل بیت اور اس گھرانے کے تمام چاہنے والوں کی خوشیوں کا باعث بنا ۔
پیغمبر (ص) نے مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائيں کان میں قامت کہی اور مولود کا نام ” حسن ” رکھا ۔(3)
امام حسن مجتبی علیہ السلام کے القاب کئ ہیں ازجملہ : سبط اكبر، سبط اول، طيب، قائم، حجت، تقي، زكي، مجتبي، وزير، اثير، امير، امين، زاھد و برّ مگر سب سے زیادہ مشھور لقب ” مجتبی ” ہے اور شیعہ آنحضرت کو کریم اھل بیت کہتے ہیں ۔
آنحضرت کی کنیت ، ابو محمد ہے ۔(4)
پیغبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کو بہت چاہتے تھے اور بچپن سے ہی نانا رسولخدا (ص) اور والدامیر المؤمنین علی(ع) اور والدہ سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زھرا (س) کے ملکوتی آگوش میں پروان چڑھے اور ایک انسان کامل اور امام عادل جہان کو عطا کیا ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ایک حدیث کےذریعے اپنی نور چشم حسن مجتبی (ع) کی فضیلت یوں بیان فرمائي ہے ۔ فرمایا: البتہ ، حسن میرا فرزند اور بیٹا ہے ، وہ میرا نور چشم ہے ، میرے دل کا سرور اور میرا ثمرہ ہے وہ بہشت کے جوانوں کا سردار ہے اور امت پر خدا کی حجت ہے ۔ اس کا حکم میرا حکم ہے اسکی بات میری بات ہے جس نے اسکی پیروی کی اس نے میری پیروی کی ہے جس نے اس کی مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی ہے ۔ میں جب اسکی طرف دیکھتا ہوں تومیرے بعد اسے کیسے کمزور کریں گے ، اس یاد میں کھو جاتا ہوں؛ جبکہ یہ اسی حالت میں اپنی زمہ داری نبھا تا رہے گا جب تک کہ اسے ستم و دشمنی سے زھر دے کر شھید کیا جاۓ گا ۔اس وقت آسمان کے ملائک اس پر عزاداری کریں گے ۔اسی طرح زمین کی ھر چیز ازجملہ آسمان کے پرندے ، دریاؤں اور سمندروں کی مچھلیاں اس پر عزادری کریں گے ۔(6)

مدارک اور مآخذ:

1- الارشاد (شیخ مفید)، ص 346؛ رمضان در تاریخ (لطف اللہ صافی گلپایگانی)، ص 107؛ منتہی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج1، ص 219؛ کشف الغمہ (علی بن عیسی اربلی)، ج2، ص 80؛ تاریخ الطبری، ج2، ص 213؛ البدایہ و النہایہ (ابن کثیر)، ج8، ص 37
2- آیہ تطہیر ]سورہ احزاب(33)، آیہ 33[
3- بحارالانوار (علامہ مجلسی)، ج43، ص 238؛ کشف الغمہ، ج2، ص 82
4- منتہی الآمال، ج1، ص 219؛ رمضان در تاریخ، ص 111؛ کشف الغمہ، ج2، ص 86
5- منتہی الآمال، ج1، ص 220؛ کشف الغمہ، ج2، ص 87؛ البدایہ و النہایہ، ج8، ص 37
6- بحارالانوار، ج44، ص 148

مؤلف: آغا سید عبدالحسین بڈگامی

بیت المقدس میں صیہونی ریاست اسرائیل کے مسلمانوں پر مظالم پہ امت مسلمہ کو خاموشی اختیار کرنے کے بجائے عالم کفر کے خلاف یکجا ہوکر عالمی سطح پر احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدرعارف حسین  نے کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار پھر ماہ مضان المبارک کے دوران غاصب صیہونی اسرائیل نے بیت المقدس کے مسلمانوں کو مظالم کا نشانہ بنایا ہے اور حملہ میں سو سے زائد فلسطینی مسلمان زخمی ہوئے ہیں۔مرکزی صدر نے کہا کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم نے انسانی زندگی کو محصور کردیا ہے۔اور انہیں عبادت سے بھی روک دیا گیا ہے۔مرکزی صدر نے مزید کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کے فوجیوں اور صیہونی آبادکاروں کی جانب سے مسلمانوں کے قبلہ اول مسجدالاقصی کو متعدد بار جارحیت کا نشانہ بنایا جا چکا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے اس مقدس مقام اور شہر بیت المقدس کا اسلامی تشخص ختم کر کے اسے صیہونیوں کا شہر بنانا ہے۔جس میں وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے انشا اللہ وہ دن دور نہیں جب فلسطینیوں کی مزاحمت اور استقامت کی بدولت بیت المقدس غاصب ریاست کے چنگل سے آزاد ہوگا۔مرکزی صدر کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایس او پاکستان امسال بھی ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم القدس کے موقع پر ملک کے تمام شہروں میں فلسطینیوں کی حمایت اور عالمی استکبار و استعمار کے مظالم کے خلاف القدس ریلیوں کا انعقاد کرے گی  ۔

ایران کی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کے کمانڈر انچیف میجر جنرل حسین سلامی نے مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کے حساس فوجی مراکز میں ہونے والے حالیہ دھماکوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ غاصب صیہونیوں کی جانب سے پورے خطے میں اٹھائے جانے والے شیطانی اقدامات بالآخر اُنہی کی جانب پلٹیں گے۔ میجر جنرل حسین سلامی نے میڈیا کے ساتھ گفتگو میں ایرانی جوہری تنصیبات "نطنز" پر ہونے والی صیہونی تخریب کاری کے حوالے سے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اسرائیل کے ہر شیطانی اقدام کا جواب کہیں زیادہ شدت کے ساتھ دے گا۔

سپاہ پاسداران کے چیف کمانڈر نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ غاصب صیہونیوں کی جانب سے پورے خطے میں اٹھائے جانے والے شیطانی اقدامات خود انہی کے دامنگیر ہوں گے، جن کے باعث وہ مستقبل قریب میں بڑے خطرات سے دوچار ہو جائیں گے۔ میجر جنرل حسین سلامی نے خبردار کیا کہ اگر غاصب صیہونی رژیم نے اپنے شیطانی اقدامات کو مزید جاری رکھا تو اس کا وجود پیش کردہ تخمینے سے کہیں پہلے ختم ہو جائے گا، درحالیکہ اس وقت بھی اس کے خاتمے کے لئے ضروری تمام امکانات فراہم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے آخر میں تاکید کی کہ گذشتہ چند روز سے غاصب صیہونی رژیم کا کوئی شیطانی اقدام بے جواب نہیں گیا جبکہ مستقبل قریب میں یہ ردعمل کئی گنا بڑھ جائے گا۔

 تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے اختلافات ختم کرکے مسئلہ فلسطین کو سرکاری سطح پر منانے کے حق میں آواز بلند کریں، مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا مسئلہ ہے، پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک مقبوضہ فلسطین کی آزادی کیلئے مشترکہ جدوجہد کریں، ان خیالات کا اظہار رہنماء تحریک انصاف و پارلیمانی سیکرٹری آفتاب جہانگیر، پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر، رہنماء ایم کیو ایم ڈاکٹر فاروق ستار، مرکزی صدر آئی ایس او عارف حسین الجانی، اے این پی کے رہنماء  یونس بونیری، پی ایس پی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر یاسر، ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ناصر عباس شیرازی، مولانا احمد اقبال رضوی، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ مولانا امین شہیدی، شیعہ ایکشن کمیٹی کے رہنماء علامہ مرزا یوسف حسین، شیعہ علماء کونسل سندھ کے صدر علامہ ناظر تقوی، جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما قاضی احمد نورانی، علامہ باقر زیدی، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل صابر ابو مریم، سابق رکن قومی اسمبلی قمر عباس، جعفریہ الائنس کے رہنماء شبر رضا، ڈاکٹر عالیہ امام، رہنماء (ن) لیگ اظہر ہمدانی، پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی رہنماء راؤ کامران، فنکشنل لیگ کے رہنماء سلمان فیاض، بابر جہانگیر و دیگر سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کے زیر اہتمام ہوٹل مہران میں منعقدہ آزادی القدس کل جماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

سیاسی و مذہبی رہبنماؤں نے کہا کہ تحریک آزادی فلسطین کی حمایت تمام عالم اسلام کی ذمہ داری ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنے والے مسلم ممالک نے مظلوم فلسطینیوں کی پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنا مسئلہ فلسطین سے غداری ہے۔ رہنماؤں نے کہا کہ جمعۃ الوداع کو سرکاری سطح پر عالمی یوم القدس کے عنوان سے منایا جائے اور پارلیمنٹ میں مسئلہ فلسطین کے حق میں قرارداد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی کیلئے عالمی سطح پر مسلم ممالک کو ایک فورم پر جمع کرنے کیلئے کوششوں کو تیز کرے۔ رہنماؤں نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ اس وقت انتہائی سنگین دور سے گزر رہا ہے، اس حوالے سے اس حکومتی سطح پر کمیٹی قائم کرنے کی ضرورت ہے، جو مسئلہ فلسطین کے حق میں قرارداد پیش کرے کہ یوم القدس سرکاری طور پر منایا جائے۔ رہنماؤں نے کہا کہ القدس کا مسئلہ کسی ایک مسلک کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ عالم اسلام کا مسئلہ ہے اور ہمیں ایک قدم بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے، ناجائز ریاست اسرائیل نے امت مسلمہ کے مقدس ترین مقام یعنی قبلہ اول پر ناجائز قبضہ کرکے وہاں پر موجود معصوم و مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ جو ظلم و ستم کی داستانیں رقم کی ہیں، ان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

رہنماؤں نے کہا کہ اگر عالم اسلام اسرائیل کے خلاف متحد ہو جائے تو کچھ لمحوں میں اسرائیل کا وجود دنیا سے ختم ہوسکتا ہے، مگر افسوس کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں موجود اسلامی ممالک کے منہ کو تالے لگ جاتے ہیں اور ان کی آوازیں سنائی نہیں دیتی، اسرائیل کے اس جرم میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی برابر کی شریک ہیں، جو اس دہشتگردی کے خلاف آواز بلند نہیں کرتیں۔ کانفرنس کے آخر میں شرکاء نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس کے عنوان سے منایا جائے اور پارلیمنٹ میں مسئلہ فلسطین کے حق میں قرارداد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی کیلئے عالمی سطح پر مسلم ممالک کو ایک فورم پر جمع کرنے کیلئے کوششوں کو تیز کرے۔ کانفرنس میں اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان، اسلامی جمعیت طلبہ، آل پاکستان متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پنجابی اسٹوڈنس ایسوسی ایشن و دیگر طلباء تنظیموں کے نمائندہ وفود نے بھی شرکت کی۔ اے پی سی سے فلسیطنی مزاحمتی تحریک حماس کے رہنما خالد قدومی نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔