سلیمانی
اسرائیل کے زوال کا مرحلہ آغاز ہوگیا ہےجس کا سلسلہ کسی وقفہ کے بغیر جاری رہےگا
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالمی یوم قدس کی مناسبت سے آن لائن خطاب میں اسرائیل کے اضمحلال اور زوال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسرائیل کے زوال کا آغاز ہوگيا ہے جس کا سلسلہ کسی وقفہ کے بغیر جاری رہےگا۔
فلسطین دنیائے اسلام کا اہم مسئلہ
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کو دنیائے اسلام کا اہم مسئلہ قراردیتے ہوئے فرمایا: عالمی سامراجی طاقتوں نے فلسطین کے مظلوم عوام کو اپنے وطن سے بے وطن اور گھر سے بے گھر کرکے ان کی جگہ غیر علاقائی صہیونیوں کو آباد کیا ۔
اسرائیل کا مقابلہ سب کا فریضہ ہے
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا: غاصب صہیونی حکومت کا مقابلہ صرف فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کی ذمہ د اری ہے کہ وہ بیت المقدس کی آزادی کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں اور اس سلسلے میں فلسطینیوں کی بھر پور حمایت کریں۔
امت مسلمہ میں تفرقہ ، ضعف اور اختلاف فلسطین کے غصب کا اصلی سبب
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: غاصب صہیونی حکومت کی 1948 میں تاسیس کی گئی لیکن اسلام کے اس حساس علاقہ پر قبضہ کا منصوبہ بہت پہلے بنایا گيا تھا۔ اس دوران مغربی ممالک کی اسلامی ممالک میں مداخلت نمایاں رہی اور انھوں نے اسلامی ممالک پر ایسے حکمرانوں کی حمایت کی، جو ان کے حامی اور تربیت یافتہ تھے۔ مغربی ممالک نے ایران ، ترکی، عرب ممالک ، مغربی ایشیاء سے لیکر شمال افریقہ تک اپنے عمال کو اقتدار تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ، جس سے یہ تلخ حقیقت نمایاں ہوجاتی ہے کہ امت مسلمہ میں تفرقہ اور اختلاف کی وجہ سے فلسطین کا المیہ رونما ہوا اور عالمی سامراجی طاقتوں نے دنیائے اسلام کے پیکر پر کاری ضرب وارد کی۔
مسلم ممالک میں فلسطین کی بنیاد پر اتحاد و یکجہتی پر تاکید
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی ممالک پر زوردیا کہ وہ فلسطین کی بنیاد پر آپسی اتحاد اور یکجہتی کو مضبوط بنائیں اور اپنے آّپ کو سامراجی طاقتوں سے مستقل رکھنے اور امت اسلامی کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو مضبوط بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ مسلم ممالک کے اتحاد سے امریکہ اور مغربی ممالک خائف ہیں اگر مسلم ممالک متحدہ ہوجائیں اور فلسطین کی آزادی کو اپنا نصب العین بنالیں تو فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
مسئلہ فلسطین میں دو فیصلہ کن عوامل
رہبر معظم نے دو عوامل کو مستقبل کے لئے فیصلہ کن قراردیتے ہوئے فرمایا: پہلا اور اہم عامل یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں استقامت اور پائداری کا سلسلہ پوری قوت اور قدرت کے ساتھ جاری رہنا چاہیے اور دوسرا عامل یہ ہے کہ تمام مسلمان اورمسلم ممالک فلسطینی مجاہدین کی بھر پور حمایت کا سلسلہ جاری رکھیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کے ساتھ خیانت اور غداری کو ناقابل معاف جرم قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی خائن اور غداروں کو کبھی معاف نہیں کرےگا۔
لبنانی اور فلسطینی شہیدوں کو خراج تحسین
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عربی زبان میں اپنے بیان میں لبنانی اور فلسطینی شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی مزاحمت کے شہیدوں کے خون کی برکت سے آج پرچم فلسطین پوری دنیا میں لہرا رہا ہے اور ایران سمیت دنیا بھر کے مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم فلسطین کی مکمل آزادی تک اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں فلسطین صرف فلسطینیوں سے متعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق پورے عالم اسلام سے ہے اور اسلامی ممالک کو فلسطین کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے۔ ہمیں فلسطین کے مظلوم عوام کی فتح پر یقین ہے اور اللہ تعالی فلسطینیوں کو کامیابی اور فتح نصیب کرےگا۔
خدا پر بھروسہ رکھنے اور اسکی راہ میں مخلصانہ قدم بڑھانیوالے عنقریب صیہونیوں کیخلاف اٹھ کھڑے ہونگے ، سید عبدالملک الحوثی
انصاراللہ یمن کے سربراہ نے اپنی گفتگو میں زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے عوام اسرائیلی دشمنوں کو پوری امتِ مسلمہ اور خطے سمیت پوری دنیا کے امن و امان کے لئے شدید خطرہ گردانتے ہیں جبکہ غاصب اور غیر قانونی اسرائیلی رژیم ایک ایسے سرطانی غدے کے مانند ہے جسے فی الفور صفحۂ ہستی سے مٹ جانا چاہئے۔ سید عبدالملک الحوثی نے بعض عرب ممالک کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ کھلی سازباز کو حق پر مبنی موقف سے عدول اور اسلام و مسلمانوں سے کھلی خیانت قرار دیا اور کہا کہ اس اقدام نے "ان کی ہمیشہ کی خیانت و منافقت"
سید عبدالملک الحوثی نے تاکید کی کہ صیہونیوں کے ساتھ سازباز کرنے والے ممالک نے فلسطینیوں کی جدوجہد کی تمام تاریخ میں منفی کردار ادا کرتے ہوئے حیلے بہانوں سے کام لیا اور ہر موثر اقدام کے اٹھائے جانے میں رکاوٹ ڈالی ہے جس کے باعث وہ ہمیشہ ہی دشمن
یمنی سپریم لیڈر نے مسجد الاقصی کے گردونواح میں غاصب صیہونیوں کے ساتھ فلسطینی جوانوں کی جھڑپوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس اقدام کو سراہا اور غاصب صیہونی رژیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگ اب ایک عظیم سختی میں گرفتار ہو چکے ہو کیونکہ وہ لوگ جو خدا پر مکمل اعتماد
سید عبدالملک الحوثی نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں تاکید کی کہ یمنیوں نے سعودی شاہی رژیم سے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے فوجی قیدیوں کے بدلے اپنے پاس قید حماس کے حامیوں کو آزاد کر دے لیکن اس رژیم نے ان مطالبات کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے سعودی شاہی رژیم کی جانب سے حماس کے حامیوں کو اپنی قید میں باقی
فلسطینی جدوجہد نے حجت تمام کر دی، مزاحمتی محاذ میدان میں اتر پڑے، سید حسن نصراللہ
لبنانی مزاحمتی فورس حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے عالمی یوم القدس کے حوالے سے عرب چینل المیادین کے "المنبر الموحد" نامی پروگرام سے گفتگو میں تاکید کی ہے کہ امتِ مسلمہ کو چاہئے کہ وہ فلسطینی امنگوں کے حوالے سے اپنے موقف کو مکمل سچائی اور بہادری کے ساتھ بیان کرے۔ سید حسن نصراللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک عرصے سے وقوع پذیر ہونے والے پے در پے واقعات کے باعث آج امت مسلمہ کے ہر فرد کے کاندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے؛ جیسا کہ ہم فلسطینی جوانوں کو قیام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور جیسا کہ آج پوری فلسطینی قوم نے مسئلۂ فلسطین اور اسلامی مزاحمتی محاذ کے حوالے سے اپنے اٹل موقف کو کھل کر بیان کر دیا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے تاکید کی
کہ بعض افراد کی یہ بات کہ آج فلسطینیوں نے اپنی امنگوں اور سرزمین سے ہاتھ اٹھا لیا ہے، صرف اور صرف افتراء اور فلسطینیوں کے حق میں ظلم ہے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں وقوع پذیر ہونے والے حوادث نے بخوبی ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی عوام اپنے حق کے حصول کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں جس سے انہوں نے کبھی ہاتھ نہ کھینچا تھا جبکہ یہ مسئلہ فلسطینیوں کی مدد کے حوالے سے امتِ مسلمہ کی سنگین ذمہ داری کو مزید بھاری بنا رہا ہے۔ سید مقاومت نے فلسطینی شہر نابلس کے جنوب میں غاصب صیہونی فوجیوں پر ہونے والی فائرنگ، جس کے نتیجے میں 3 صیہونی فوجی شدید زخمی ہو گئے تھے، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی فلسطینی عوام کی اپنے حق و حقوق کے حصول پر اصرار کی عکاسی کرتی ہے جبکہ جوان فلسطینی نسل اس
مقصد کے حصول کے لئے تاحال ہر قسم کی جانثاری کو تیار ہے۔
سید حسن نصراللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم ہر قسم کی صورتحال میں حتمی کامیابی کی جانب قدم بڑھاتے رہیں گے! انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ (سابق و انتہاء پسند امریکی صدر) ڈونلڈ ٹرمپ اور خطے میں اس کے چیلوں کی حکومت کا خاتمہ اور (صیہونی سازش) "صدی کی ڈیل" کی کھلی شکست خطے میں وقوع پذیر ہونے والے اہم واقعات میں سے ہیں جبکہ حال ہی میں وقوع پذیر ہونے والے دوسرے واقعات نے مزاحمتی محاذ کے پاس موجود فرصتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج خطے کی نئی صورتحال اور دشمن کی جانب سے شکست اور بند گلی میں پہنچ جانے کا اعتراف ان عوامل میں سے ہے جن کے بعد اب ہمیں اپنے پورے وجود کے ساتھ یہ محسوس کر لینا چاہئے
کہ "قدس کی آزادی نزدیک ہے"۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے تاکید کی کہ مزاحمتی محاذ ہمیشہ سے فلسطینی قوم اور فلسطین کی امنگوں کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ صیہونی رژیم کے گہرے اندرونی بحران ان عوامل میں سے ایک ہیں جن کے باعث (حاصل ہونے والی فرصتوں کے حوالے سے) ہماری ذمہ داری مزید سنگین ہو جاتی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے مختلف اسلامی عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل دوستی کے اعلانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کے ساتھ سازباز، مزاحمتی محاذ کی آواز کے بلند تر ہونے کا باعث ہے درحالیکہ (غاصب صیہونیوں کے ساتھ) سازباز کرنے والے ممالک (ماضی میں بھی) کبھی غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ مقابلے کے رستے پر نہ تھے کہ اب (سازباز کے نتیجے میں) اُن کے اپنے رستے سے ہٹ جانے کے باعث (مزاحمت
کے) اس مسئلے پر کوئی (منفی) اثر پڑے گا۔
سید حسن نصراللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی محاذ کو چاہئے کہ وہ اپنی وحدت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر میدان میں حاضر رہے اور ہر طریقے سے اپنی قوت میں اضافہ کرے کیونکہ یہ مزاحمتی محاذ ہی ہے جس کے ہاتھوں مستقبل کی تقدیر لکھی جائے گی۔ انہوں نے غاصب صیہونی رژیم کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی کہ آپ خود اپنی دینی و عقیدتی بنیادوں پر جانتے ہیں کہ اس (غاصب صیہونی) رژیم کا کوئی مستقبل نہیں اور یہ ہر صورت صفحۂ ہستی سے مٹنے والی ہے! انہوں نے کہا کہ میں اسرائیلیوں سے کہتا ہوں کہ تم نے اس معرکے میں اپنی تمام جدوجہد، کوششوں اور اپنے جوانوں کو برباد کرتے ہوئے ان کے خون کو رائیگاں بہایا ہے۔
سید مقاومت نے اپنی گفتگو
کے آخر میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں عظیم کمانڈر اور بزرگ شہید حاج قاسم سلیمانی کی اعلی روح پر درود بھیجتا ہوں کہ جن کا نام، تصویر، روح اور تزویراتی سوچ ہمیشہ باقی رہے گی۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کی موجودگی؛ ان کے پاکیزہ سانسوں کی صورت پوری طاقت کے ساتھ مزاحمتی محاذ کے تمام میدانوں میں ہمیشہ باقی رہے گی۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ جدوجہد کے میدان میں فلسطینی عوام کی موجودگی تمام عرب و مسلمان اقوام کے لئے "عظیم الہی حجت" ہے جبکہ دنیا میں ہر آزاد انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو پہچاننے کے بعد اپنی پوری طاقت اور تمام وسائل کے ہمراہ فلسطینی عوام کے شانہ بشانہ آ کھڑا ہو۔
قدس شریف کے تشخص کی جنگ
فلسطینی استقامتی گروہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ بیت المقدس میں غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ ہماری جنگ تشخص اور بقا کی جنگ ہے اور بیت المقدس مسلم امۃ کا اصلی مسئلہ، غاصب صیہونی حکومت کے خلاف جنگ کا محور اور فلسطین کا دائمی دارالحکومت ہے اور فلسطین میں غاصبوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ استقامتی گروہوں کے بیان میں کہا گیا ہے کہ آزادی فلسطین کے لئے بہترین اور نزدیک ترین راستہ مسلح جدوجہد اور ان سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے، جن کے ذریعے فلسطینی کاز کو نابود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ قدس شریف ہمیشہ سے عربی و اسلامی رہا ہے اور رہے گا اور قدس شریف ہی مسلم امہ کا اصلی موضوع، غاصب صیہونیوں کے خلاف جدوجہد کا محور ہے اور فلسطین میں غاصبوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
فلسطینی استقامتی گروہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ قدس میں غاصبوں کے خلاف ہماری جنگ تشخص اور موجودیت کی جنگ ہے، سینچری ڈیل، زمینوں کا انضمام، غاصبانہ قبضہ اور روابط کو معمول پر لانے کی کوششیں دم توڑ رہی ہیں اور فتح و کامیابی مسلم امہ کا مقدر اور یقینی ہے۔ آج کا دور ایسا دور ہے، جس میں بیت المقدس کے مسلمان فلسطینی باشندوں نے اپنے گوشت اور خون کو مسجد الاقصیٰ کے دروازوں کی ڈھال بنا رکھا ہے۔ فلسطینیوں اور صہیونیوں کے درمیان جاری تنازعہ قدس شریف کے تشخص کی جنگ ہے اور اس پر امت مسلمہ کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ امسال بھی دنیا بھر میں یوم القدس کرونا وائرس کی مشکلات کے باوجود طبی ہدایات کی روشنی میں منایا جائیگا اور مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا جائیگا۔
مسئلہ فلسطین رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی نگاہ میں
آج بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین پر کیوں بحث کرتے ہیں، یہ مسئلہ ختم ہوگیا ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کسی صورت میں ختم نہیں ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ یہ تصور کریں کہ فلسطین کے اصلی مالک فلسطینی ہمیشہ اپنی اولاد کے ہمراہ اہنی سرزمین سے باہر رہیں گے یا جو فلسطینی مقبوضہ سرزمین میں ہیں وہ ہمیشہ دبی ہوئی اقلیت کی صورت میں زندگی بسر کریں گے اور غیر ملکی غاصب وہاں ہمیشہ رہیں گے، نہیں ایسا نہیں ہے۔ وہ ممالک جو سو سال تک دوسرے ملک کے تصرف میں رہے ہیں انہیں دوبارہ استقلال مل گیا۔ یہی قزاقستان، جارجیا اور مرکزی ایشیائی ممالک جنہیں آپ دیکھ رہے ہیں ان میں بعض سوویت یونین اور بعض سوویت یونین سے پہلے روس کے قبضے میں تھے جب سوویت یونین کا وجود بھی نہیں تھا لیکن ان کو استقلال مل گیا اور وہ اپنے عوام کو مل گئے لہذا کوئی وجہ نہیں ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کو نہ ملے، یہ کام ضرور ہوگا اور انشاء اللہ ضرور ہوکر رہے گا۔ فلسطین فلسطینی عوام کو مل کر رہے گا لہذا مسئلہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس قسم کی فکر کا تصور غلط ہے۔ آج صہیونیوں اور ان کے حامیوں ’امریکہ ان کا سب سے بڑا اور اہم حامی ہے‘ کا مکر و فریب یہ ہے کہ وہ صلح کے خوبصورت اور حسین نام سے استفادہ کرتے ہیں: صلح کیجیئے، یہ کیسی باتیں ہیں۔؟ جی ہاں، صلح ایک اچھی چیز ہے لیکن صلح کہاں اور کس سے۔؟
کوئی شخص آپ کے گھر میں داخل ہوجائے۔ طاقت کے زور پر آپ کا دروازہ توڑ دے اور آپ کو مارے پیٹے، آپ کے بال بچوں کی توہین کرے اور چلا جائے اور پھر یہ کہے کہ کیوں ادھر ادھر اس کی شکایت کرتے ہو اور مسلسل لڑائی جھگڑا کرتے ہو، آؤ ہم صلح کرلیں، کیا یہ صلح ہوگی۔؟ یہ صلح ہے کہ آپ کو آپ کے گھر سے باہر نکا دیا جائے اور اگر آپ کے گھر پر قبضہ کرنے والے کے خلاف آواز اٹھائیں یا قیام کریں تو اس وقت دشمن کے حامی آئیں اور صلح کرائیں جب کہ غاصب دشمن آپ کے گھر میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے گھر میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے آپ کے خلاف ہر ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔ اب بھی اگر اس کا ہاتھ پہنچے تو کمی نہیں چھوڑے گا۔ اسرائیل کی ذات میں حملہ اور تشدد کا عنصر ہے۔ اسرائیلی حکومت کی ماہیت اور طبیعت میں حملہ، خونخواری اور تشدد موجود ہے۔ اسرائیلی حکومت کی بنیاد اور داغ بیل تشدد، فسادات اور طاقت کے زور پر ڈالی گئی ہے، اسی بنیاد پر وہ آگئے بڑھ رہی ہے اور اس کے بغیر اس کی پیش رفت ممکن نہیں تھی اور آئندہ بھی ممکن نہیں ہوگی۔ کہتے ہیں کہ اس حکومت کے ساتھ صلح کریں۔ کیسی صلح۔؟ اگر وہ اپنے حق میں قناعت کریں ’’یعنی وہ گھر جو فلسطین کے نام سے ہے وہ فلسطینی عوام کے حوالے کردیں اور اپنے کام میں مشغول ہوجائیں یا فلسطینی حکومت سے اجازت لیں اور کہیں کہ ہم میں سے بعض کو یا سب کو یہاں رہنے کی اجازت دے دیں‘‘۔ تو کسی کو انکے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، جنگ یہ ہے کہ انہوں نے طاقت کے زور پر دوسروں کے گھر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے گھر والوں کو گھر سے باہر نکال دیا ہے اور اب بھی ان پر ظلم و تشدد کو روا رکھے ہوئے ہیں۔ علاقائی ممالک پر ظلم کرتے ہیں اور سب کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں لہذا وہ صلح کو بھی بعد والے حملے کا مقدمہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ صلح برقرار ہوجائے تاکہ یہ صلح ان کے آئندہ حملے کے لئے مقدمہ قرار پا سکے۔
مسئلہ فلسطین کا یہ جھوٹ اور فریب پر مشتمل راہ حل اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتا۔ مسئلہ فلسطین کا راہ حل صرف یہ ہے کہ فلسطین کے اصلی عوام (نہ غاصب اور قابض مہاجرین) خواہ وہ فلسطین میں مقیم ہوں یا فلسطین سے باہر ہوں وہ خود اپنے ملک کا حکومتی ڈھانچہ بنائیں اور اگر جمہوریت کے دعوے داروں کا یہ دعوٰی سچ ہے کہ وہ کسی ملت کی رائے کا احترام کرتے ہیں تو پھر ملت فلسطین بھی ایک ملت ہے لہذا اسے اپنی سرنوشت تعین کرنے کا حق ہے اور وہ جو اسرائیل کے نام پر غاصب حکومت تشکیل دی گئی ہے اسے اس سرزمین پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ وہ جھوٹ، فریب اور ظالم طاقتوں کے بل بوتے پر معرض وجود میں آئی تھی لہذا فلسطینی عوام سے اسے تسلیم کرنے کا مطالبہ بالکل غلط ہوگا۔ اگر جہان اسلام میں سے کوئی بھی اس غلطی کا ارتکاب کرے اور اس ظالم و قابض حکومت کو تسلیم کرلے تو ایک تو اس نے اپنے لئے ننگ و عار کو مول لیا ہے اسکے علاوہ اس کا یہ کام بے فائدہ بھی ہے کیونکہ اس غاصب حکومت کو دوام نہیں ہے۔ صہیونیوں کا خیال ہے کہ وہ فلسطین پر قابض اور مسلط ہیں اور ہمیشہ کے لئے فلسطین ان سے متعلق رہے گا، نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے کہ بلکہ فلسطین کی سرنوشت یہ ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن آزادی حاصل کرے گا کیونکہ ملت فلسطین نے اس راہ میں قربانیاں دی ہیں۔ مسلمان اقوام اور اسلامی حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ فلسطین کی آزادی تک پہنچنے میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے جد و جہد کریں تاکہ ملت فلسطین جلد از جلد اپنی آرزو تک پہنچ سکے۔
فلسطین مسئلہ کا بہترین حل موجود ہے اور وہ راہ حل یہ ہے کہ دنیا کا بیدار اور باشعور طبقہ اور وہ تمام لوگ جو آج کی دنیا میں رائج مفاہیم پر ایمان رکھتے ہیں وہ مجبور ہیں کہ اس بات کو قبول کریں۔ یہ وہ راہ حل ہے جو کو ہم نے پہلے پیش کیا تھا اور ہماری اسلامی حکومت کے ذمہ دار افراد نے عالمی اداروں میں بھی اسے بارہا بیان کیا ہے اور آج بھی ہم اس پر تاکید کریں گے کہ خود فلسطینی عوام سے رائے لی جائے اور ان تمام فسلطنیوں کو کہ جو اپنے وطن لوٹ کر آنا چاہتے ہیں ان سب سے رائے لی جائے وہ فلسطینی جو لبنان، اردن، کویت، مصر اور دوسرے عرب ممالک میں مہاجرت کی زندگی گزار رہے ہیں یہ سب فلسطینی واپس آئیں ہم یہ نہیں چاہتے کہ کسی کو زبردستی واپس لایا جائے اور وہ لوگ جو اسرائیل کی جعلی حکومت بننے سے پہلے یعنی پہلے سے فلسطین میں موجود تھے خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی اور خواہ یہودی ہو ان سب سے رائے لی جائے اور عام ریفرنڈم کے ذریعے فلسطین کا حکومتی نظام متعین کیا جائے یہ جمہوریت ہے۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جمہوریت سب دنیا کے لئے تو اچھی ہو لیکن فلسطینی عوام کے لئے جمہوریت اچھی نہ ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام دنیا کی عوام کو تو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنی سرنوشت خود متعین کریں لیکن فلسطینی عوام اس حق سے محروم ہو۔ کوئی شخص بھی اس بات میں شک و تردید نہیں کرسکتا کہ فلسطین پر آج جو حکومت قابض ہے وہ طاقت اور فریب کے بل بوتے پر بنائی گئی ہے وہ زبردستی ٹھونسی جانے والی حکومت ہے لہذا فلسطینی عوام جمع ہوکر ریفرنڈم کے ذریعے حکومتی ڈھانچہ کا انتخاب کریں کس طرح کا وہ نظام حکومت چاہتے ہیں اس پر اپنا ووٹ دیں۔ جب حکومت بن جائے تو پھر ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے جو کہ بعد میں فلسطین میں داخل ہوئے ہیں جو بھی فیصلہ ہو اسے عملی جامہ پہنایا جائے اگر فیصلہ انکے حق میں ہوتا ہے تو وہ رہیں اگر فیصلہ انکے خلاف ہوتا ہے تو وہ جائیں یہ ہے عوام کی رائے کا احترام۔ یہ ہے جمہوریت اور یہی انسانی حقوق کی پاسداری کا تقاضا ہے جو موجودہ دنیا کے رائج قوانین کے عین مطابق ہے۔ یہ ہے راہ حل اور اسی راہ حل کا نفاذ ہونا چاہیئے۔
غاصب حکومت تو اس راہ حل کو خوش اسلوبی سے قبول نہیں کرے گی۔ لہذا تمام عرب ممالک، اسلامی ممالک، دنیا کی مسلمان اقوام، بالخصوص ملت فلسطین اور عالمی ادارے ان سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس راہ حل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جد و جہد کریں۔ بعض لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ راہ حل خواب و خیال پر مبنی ہے اور اسے عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے۔ نہیں ایسا کرنا بالکل ممکن ہے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ ممالک جو برسوں تک سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہے وہ آج مستقل اور آزاد ہوگئے اور قفقاز کے بعض ممالک تو سوویت یونین کی تشکیل سے برسوں پہلے روس کے زیر تسلط تھے لیکن آزاد ہوگئے۔ آج قزاقستان، آذربائیجان، گرجستان وغیرہ سب آزاد ہوگئے ہیں پس ایسا ہونا ممکن ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی انوکھا کام ہو البتہ اس کے لئے عزم و ارادہ، جرات اور دلیری کی ضرورت ہے۔ اب یہ بہادری کا جوہر کون دکھائے۔؟ اقوام یا حکومتیں۔ اقوام تو بہادر ہیں اور انہوں نے اپنی بہادری کے مختلف مواقع پر ثابت کیا ہے کہ وہ تیار ہیں۔
میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنا حق پلٹانے کے سلسلے میں فلسطینی قوم کی کامیابی اسلامی جمہوریہ کے قیام کے سلسلے میں ایرانی قوم کی کامیابی سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اُس دن جدوجہد کے دوران ہمارے پاس وسائل کی اس سے کہیں زیادہ قلت تھی جو آج غزہ اور مغربی کنارے میں آپ کے عوام کے پاس ہیں لیکن یہ واقعہ بہر صورت رونما ہوا، یہ ناممکن کامیابی حاصل ہوئی اور انجام کو پہنچی۔ جدوجہد کے تسلسل کی برکت سے، خدا پر توکل کی برکت سے، ہمارے امام بزرگوار کی پرعزم اور مضبوط قیادت کی برکت سے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ ممکن ہے کہ یہ صورتحال پیش آئے کہ کچھ لوگ میدان پر نظر ڈالیں، امریکی طاقت کو دیکھیں، صہیونیوں کو حاصل مغرب کی پشت پناہی کو دیکھیں، امریکہ اور دنیا کے دوسرے نقاط میں صہیونیوں کے نیٹ ورک کی طاقت کو دیکھیں اور ان کی تشہیری طاقت کو دیکھیں اور سمجھیں کہ فلسطین کا فلسطینیوں کے پاس پلٹانا ایک ناممکن امر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نہیں، یہ ناممکن امر ممکن ہوجائے گا۔ بشرطیکہ استقامت اور پامردی ہو۔ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے “فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ” (۲۸) استقامت لازمی ہے، پامردی اور جم کر رہنا لازمی ہے، راستے پر مداومت سے چلتے رہنا لازمی ہے۔
ترتیب و تزئین: جاوید عباس رضوی
علی ابن ابی طالب (ع) کون ہیں؟
کتاب فضل تو را آب بحر کافی نیست
که تر کنم سر انگشت و صفحه بشمارم
وہ علی :جو عین اسلام تھا۔
وہ علی :جو کل ایمان تھا۔
وہ علی: جوخانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔
وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب تھا ۔
وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی تھا۔
وہ علی :جوفاطمہ الزہرا(س) کا شوہر تھا۔
وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔
وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔
وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔
وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔
وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اور جو کی خشک روٹی کھاتا رہا۔
وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔
وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا اعلان کیا۔
وہ علی: جس کے عدل کی یہ شان تھی کہ اپنے دور خلافت میں اپنی زرہ کے جھوٹےدعوی کے مقدمہ کے قاضی کی عدالت میں ایک معمولی یہودی کے برابر کھڑا ہو گیا اور اپنے خلاف قاضی کے فیصلہ کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا۔
وہ علی :جس کی قوت فیصلہ کی شان یہ ہے کہ رسول خدا نے اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا: اقضاکم علی
وہ علی :جس کی شجاعت ضرب المثل تھی اور ہاتف غیبی نے جنگ احد میں جسے یوں داد شجاعت دی: لا فتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار۔
وہ علی :جس نے بدر و احد کی سخت جنگوں میں اسلام کو فتح مند کیا اورہر معرکے مین پرچم اسلام کو سر بلند کر کے نصرت و کامرانی کے جھنڈے گاڑ دئے۔
وہ علی :جس کی جنگ خندق کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت پر بھاری تھی اورجس نے کل ایمان بن کر کل کفر پر فتح حاصل کیا۔ضربۃ علی یوم الخندق افضل من عبادۃ الثقلین۔
وہ علی: جس نے ایک ہاتھ سے در خیبر اکھاڑ کر جنگ کا نقشہ بدل دیا اوررسول خدا سے سند افتخار لی۔
وہ علی :جس نے مشرکین مکہ کے سامنے سورہ برائت کی تلاوت کی۔
وہ علی :جس نے فتح مکہ کے دن علم اسلام کو اٹھایا۔
وہ علی: جو رسول خدا کے دوش مبارک پر بلند ہو کر خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا اور{طہر بیتی لطائفین} کا حق ادا کیا۔
وہ علی :جو رزم و بزم دونوں میں یکساں تھا اگر میدان جنگ میں بے مثال سپاہی و سپہ سالار تھا تو مجلس میں ایک بے نظیر حاکم اورشفیق استاد تھا۔
وہ علی: جس کی فصاحت و بلاغت کے سامنے دنیا عاجز تھی اورجس کے زور بیان کے آگے عرب و عجم کے خطبا زبان کھولنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔
وہ علی :جو شب ہجرت بستر رسول خدا پر بے خوف و خطر آرام کی نیند سویا اورنفس مطمئنہ کا لقب بارگاہ یزدی سے حاصل کیا۔
وہ علی :جو نماز فجر کے سجدے میں ابن ملجم کے تلوار کے وار سے زخمی ہوا اوراکیس رمضان المبارک کے دن درجہ شہادت پر فائز ہوا۔
وہ علی: جس نے محنت و مزدوری کر کے اورباغوں کو پانی دے کر روزی کمانے کو فخر سمجھا۔
وہ علی :جس کا طرز جہانبانی قیامت تک کے لئے مشعل راہ ہے ۔
وہ علی : جس نے امیری اور غریبی کے فرق کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔
وہ علی :جس کی فضیلت کے بارے میں جب خلیل ابن احمد سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: ؛میں کیسے اس شخص کی توصیف و تعریف کروں جس کے دشمنوں نے حسادت اور دوستوں نے دشمنوں کے خوف سے اس کے فضائل پر پردہ پوشی کی ہو ان دو کرداروں کے درمیان مشرق سے مغرب تک فضائل کی دنیا آباد ہے۔
وہ علی :جس کے بارے میں رسول خدا نے فرمایا:{ یا علی ما عرف اللّه حق معرفته غیری و غیرک و ما عرفک حق معرفتک غیر اللّه و غیری} اے علی! خدا کو میرے اور آپ کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا، اور آپ کو میرے اور خدا کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا۔
وہ علی :جس کی فضائل حساب نہیں کر سکتے ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تمام درخت قلم، تمام دریا سیاہی، تمام جن حساب کرنے اور تمام انسان لکھنے بیٹھ جائیں تب بھی علی علیہ السلام کے فضائل کا شمار نہیں کر سکتے۔
وہ علی :جس میں تمام انبیاء کی صفات بطور کامل موجود تھیں۔ جیسا کہ حدیث نبوی ہے: جو شخص آدم (ع) کے علم کو، نوح (ع) کے تقویٰ کو، ابراہیم (ع) کے حلم کو اور موسی(ع) کی عبادت کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ علی بن ابی طالب پر نگاہ کرے۔
وہ علی :جونفس پیغمبر ’’ انفسنا‘‘ کی مصداق بن کر میدان مباہلہ میں اترا ۔
وہ علی :جن کی فضائل و کمالات بیان کرنے میں رسول خدا نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی یہاں تک کہ غدیر کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں کے مجمع میں آپ کا ہاتھ اٹھا کر فرمایا کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا یہ علی مولی ہیں۔
وہ علی :جو حق کا محور اور مزکر تھا۔ علیّ مع الحقّ و الحقّ مع علیّ و لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامة؛علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ روز قیامت حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔
وہ علی :جس کے بارے میں رسول خدا نے عمار سے فرمایا: اے عمار! اگر تم دیکھو کہ علی ایک طرف جا رہے ہیں اور دیگر تمام لوگ دوسری طرف جا رہے ہیں تو تم علی کے ساتھ جانا اور باقی لوگوں کو چھوڑ دینا اس لیے کہ علی گمراہی کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے اور راہ ہدایت سے الگ نہیں کریں گے۔
وہ علی :جو قسیم النار و الجنہ ہے۔
وہ علی :جسے کھو کر دنیا ایک فقیہ،ایک حکیم،ایک فلسفی،ایک منطقی،ایک انشاپرداز،ایک خطیب،ایک عالم،ایک مومن،ایک مفتی،ایک قاضی،ایک عادل،ایک صف شکن،ایک زاہد،ایک عابد،ایک مجاہد،ایک انسان مجسم اور ایک انسانیت کے عدیم المثال قائد سے محروم ہوگئی۔ آخر میں امام علی علیہ السلام کے بارے میں چند اشعار ذکر کر کے اس تحریر کو ختم کرتا ہوں۔
جس نے اصنام کو کعبے سے نکالا وہ علی
ہر اندھیرے کو کیا جس نے اجالا وہ علی
جس کا رتبہ ہے رسولوں سے بھی بالا وہ علی
جس نے اس دین کی کشتی کو سنبھالا وہ علی
جو ملائک سے بھی ہے رتبے میں برتر وہ علی
جس کے خدام ہیں سلمان و ابوذر وہ علی
جو ہر جنگ میں ہے سب سے مقدم وہ علی
جس نے مجمع کئے کفار کے برہم وہ علی
علی امام من است و منم غلام علی
هزار جان گرامی فدای نام علی
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
مسئلہ فلسطین، یوم النکبہ سے میزائلوں کے ذریعے مزاحمت تک
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے اپنی ناجائز تشکیل کے پہلے دن سے امریکہ اور بعض عرب ممالک کی غیر مشروط حمایت اور عالمی تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی کے سائے تلے تسلط پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھا ہے۔ جب ستر سال پہلے مغربی ایشیا خطے میں اس منحوس رژیم کی بنیاد ڈالی گئی تو کوئی یہ سوچ بھی سکتا تھا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کا دعوی کرنے والی عالمی تنظیمیں مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں ظالم صہیونی رژیم کے ظالمانہ اور مجرمانہ اقدامات کے سامنے اس حد تک مجرمانہ خاموشی اختیار کریں گی۔ فلسطینیوں نے 15 مئی 1948ء کے دن کو "یوم النکبہ" قرار دیا۔ یہ وہ دن ہے جب غاصب صہیونی رژیم کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ لیکن علاقائی اور عالمی سطح پر حالات صہیونی رژیم کے سخت خلاف ہیں۔
اگرچہ 1948ء سے لے کر آج تک اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم مختلف قسم کے بحرانوں سے روبرو رہی ہے لیکن حالیہ چند برسوں سے یہ رژیم بدترین سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ 2018ء کے آخر میں بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ ٹوٹ جانے کے بعد 9 اپریل 2019ء کے دن وقت سے پہلے مڈٹرم پارلیمانی الیکشن منعقد ہوئے۔ لیکن اس کے بعد بھی نیتن یاہو حکومتی اتحاد تشکیل دینے میں ناکام رہے۔ یوں چھ ماہ بعد 17 ستمبر 2019ء کے دن دوبارہ پارلیمانی الیکشن کا انعقاد کیا گیا۔ لیکن اس بار بھی کوئی سیاسی جماعت بھاری اکثریت حاصل کر کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ آ سکی۔ لہذا ایک عبوری حکومت تشکیل دے دی گئی اور طے پایا کہ حکومت کچھ عرصے تک لیکوڈ پارٹی کے سربراہ نیتن یاہو اور کچھ عرصہ بنی گانٹیز کے سپرد کی جائے گی۔
23 مارچ 2021ء کے دن مقبوضہ فلسطین میں دو سال کے اندر چوتھی بار پارلیمانی الیکشن منعقد کئے گئے۔ اس کے بعد ایک بار پھر صدر نے بنجمن نیتن یاہو کو کابینہ تشکیل دینے کی دعوت دی۔ نیتن یاہو کو 4 مئی تک دیگر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر نئی حکومت تشکیل دینے کی مہلت دی گئی ہے۔ اگر وہ اس مدت میں حکومت تشکیل نہیں دے پاتے تو یہ مہلت ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کو دے دی جائے گی۔ بنجمن نیتن یاہو اب تک نئی کابینہ کی تشکیل کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے میں ناکام رہے ہیں۔ دوسری طرف ان کے سیاسی حریف بنی گانٹیز نے ان پر شدید تنقید کا آغاز کر رکھا ہے اور کہا ہے کہ وہ اب تک ملک کا نیا بجٹ منظور کروانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔
معروف صہیونی تھنک ٹینک "یہود ایجنسی" کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 70 فیصد صہیونی شہریوں کا خیال ہے کہ اگر انہیں کسی دوسرے ملک میں بہتر مواقع میسر آتے ہیں تو وہ مقبوضہ فلسطین چھوڑ دیں گے۔ اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 68 فیصد صہیونی شہری دیگر ممالک کی شہریت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں جبکہ 73 فیصد صہیونیوں کا عقیدہ ہے کہ صہیونی حکمران ان کے بچوں کیلئے بہتر مستقبل کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتے۔ 1948ء میں مقبوضہ فلسطین پر ناجائز صہیونی ریاست کی تشکیل کے آغاز سے ہی صہیونی حکمرانوں نے اپنے لئے ایک جعلی تشخص ایجاد کرنے کی سرتوڑ کوششیں کی ہیں۔
صہیونی رژیم نے جعلی تشخص پیدا کرنے کیلئے مختلف قسم کے اقتصادی، فوجی، سیاسی اور حتی علمی ہتھکنڈے بروئے کار لائے ہیں۔ ان کا ایک علمی ہتھکنڈہ تاریخ میں تحریف ایجاد کرنا ہے۔ لیکن امریکہ اور برطانیہ جیسی عالمی طاقتوں کی غیر مشروط حمایت اور ان شیطانی ہتھکنڈوں کے باوجود اپنے مقصد میں ناکام رہی ہے۔ دنیا کی اکثر عوام خاص طور پر مغربی ایشیا خطے کے افراد اب تک صہیونیوں کو غاصب اور قابض تصور کرتے ہیں جبکہ فلسطینی باشندوں کو اس سرزمین کا حقیقی مالک قرار دیتے ہیں۔ صہیونی حکمران "نیل سے فرات تک" کے منحوس تصور کی روشنی میں ناقابل عمل آرزوئیں دل میں لئے بیٹھے تھے لیکن فلسطینیوں کی شجاعانہ مزاحمت نے انہیں اپنی چار دیواری میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔
قابض صہیونی رژیم نے مقبوضہ فلسطین خاص طور پر قدس شریف کو یہودیانے کی بھرپور کوشش انجام دی لیکن سات عشرے گزر جانے کے باوجود اور بعض عرب حکمرانوں کی غداری اور غاصب صہیونی رژیم سے سازباز کے باوجود وہ قدس شریف اور مقبوضہ فلسطین کا اسلامی تشخص ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ فلسطینی عوام نے صہیونی قوتوں کے ہاتھوں اپنی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ قائم ہو جانے کے باوجود استقامت اور مزاحمت برقرار رکھی ہے اور مسلسل اپنے جائز حقوق کے دفاع کیلئے جدوجہد میں مصروف رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی یہ مزاحمت سادہ ترین آلات سے شروع ہوئی ہے اور آج وہ ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے میزائلوں سے لیس ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف غاصب صہیونی رژیم روز بروز زیادہ منفور، کمزور، گوشہ نشین اور شکست خوردہ ہوتی جا رہی ہے۔
تحریر: محسن ایران دوست
علی ایک سمندر ہیں
وہ مسجد میں شہید ہوا، کیونکہ میدان میں اس کا مقابلہ ممکن نہیں تھا۔ مضمون شروع کرنے سے پہلے اپنی پستی اور ذلت کا ادراک رکھتا ہوں اور پھر صاحب بلاغت کی عطا کردہ مدحت کی زبان سے ان کی شجاعت کا تذکرہ کرنے جا رہا ہوں اور خدا سے مدد طلب کرتا ہوں کہ میں جلال علی بیان کر سکوں کہ وہ علی جو ہر میدان کا فاتح ہے، مگر اس نے اپنی فتح کا اعلان مسجد میں ضرب کھانے کے بعد کیا کہ:
فزت ورب الكعبة "رب کعبہ کی قسم میں (علی) کامیاب ہوگیا۔" جو آج بھی سوچنے والوں کے لیے ایک سوال ہے کہ وہ علی جو ہر میدان میں فاتح ہے، وہ مسجد اور محراب عبادت میں ہی کیوں کامیاب ہوا۔؟ ہاں وہ اتنا بہادر ہے کہ اس کی ایک ضرب ثقلین کی عبادت سے افضل ہے اور وہ آج بھی اتنے جلال کا مالک ہے کہ جب کوئی بہادر بہادری دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ در علی سے داد شجاعت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بے ساختہ زبان سے یاعلی مدد کا نعرہ لگاتا ہے۔
لیکن جس علی کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں، وہ فقط بہادر ہی نہیں بلکہ عالم اور باب العلم بھی ہے۔ جس کی دلیل دعویٰ سلونی ہے کہ قیامت تک کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ہر چیز کا علم رکھتا ہوں، تنہاء علی ہے کہ جنھوں نے فرمایا: ’’مجھ سے جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو، مجھ سے سوال کرو، قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو، کیونکہ میرے پاس اولین و آخرین کا علم ہے۔‘‘ لیکن وہ فقط عالم ہی نہیں بلکہ حکمت کا سمندر بھی ہے، جس کے موتی آج بھی دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جس کا فرمانا ہے کہ "حکمت مومن ہی کی گمشدہ چیز ہے، اسے حاصل کرو، اگرچہ منافق سے لینا پڑے" اور فرماتے ہیں کہ "دنیا میں عذاب خدا سے دو چیزیں باعث امان تھیں، ایک ان میں سے اٹھ گئی، مگر دوسری تمہارے پاس موجود ہے، لہٰذا اسے مضبوطی سے تھامے رہو۔ وہ امان جو اٹھالی گئی وہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم تھے اور وہ امان جو باقی ہے وہ توبہ و استغفار ہے۔"
خیر ہم فقط ایک حکیم کا تذکرہ ہی نہیں کر رہے بلکہ ایک متقی اور زاہد کا بھی تذکرہ کر رہے ہیں، جس کا فرمانا ہے کہ ’’خدا کی قسم اگر (حجاب قدس کے) پردے ہٹا دیئے جائیں تو بھی میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا۔" یوں تو علی علیہ السلام ایک ہی وقت میں مزدور بھی ہیں اور حاکم بھی اور مزدوری میں اتنے ہی ایماندار ہیں کہ کافر لوگ بھی ان کی ایمانداری کی سند دیتے ہیں اور حاکم ایسے ہیں کہ حکومت کو اپنے پیوند لگے جوتے سے بھی کم تر جانتے ہیں۔ اگر عدالت علی کی مثال لیں تو فرماتے ہیں کہ ’’خدا کی قسم اگر مجھے سات اقلیم اس لئے دیئے جائیں کہ میں الله کی نافرمانی کرتے ہوئے چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا چھین لوں تو میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘
مزید فرماتے ہیں کہ ’’خدا کی قسم اگر میرے لئے ایک مسند بچھائی جائے، اس پر بیٹھ کر میں توریت والوں کو (ان کی) توریت سے، انجیل والوں کو (ان کی) انجیل سے، اہل زبور کو (ان کی) زبور سے اور قرآن والوں کو (ان کے) قرآن سے فیصلے سناؤں، اس طرح کہ ان کتابوں میں سے ہر ایک کتاب بول اٹھے گی کہ پروردگارا علی (ع) کا فیصلہ تیرا فیصلہ ہے، خدا کی قسم میں قرآن اور اس کی تاویل کو ہر مدعی علم سے زیادہ جانتا ہوں، قرآن مجید کی آیت کے متعلق میں تمہیں یوم قیامت تک خبر دے سکتا ہوں‘‘
مولا علی ہر ایک کے لئے ایک سمندر ہیں، جس سے جو کوئی جو کچھ نکالنا چاہے نکال سکتا ہے۔ کائنات میں ایسی مثل لانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں بہادر، عالم، متقی، زاہد، حکیم اور وہ سب کچھ ہو، جو اساطیری کردار کے حامل خواب و خیال کے ہیرو میں ہوتی ہیں، یقیناً وہ تمام چیزیں علی میں ہیں، لیکن بدقسمتی سے آج بھی ہم علی کو پہچان نہیں پائے، ورنہ غیروں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ خوش نصیب ہے وہ قوم، جس میں علی جیسا عادل پیدا ہوا۔ حرف آخر آج بھی ہماری حالت حسنین اکبر کے اس شعر کی طرح ہے کہ
ایسے ہم ساقی کوثر کی طرف دیکھتے ہیں
جس طرح پیاسے سمندر کی طرف دیکھتے ہیں
تحریر: مہر عدنان حیدر
قدس فورس پسپائی پر مبنی سفارت کاری روکنے والا سب سے مؤثر عنصر ہے، آیت اللہ خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کو مغربی ایشیا میں پسپائی پر مبنی سفارت کاری کا سلسلہ روکنے والا سب سے مؤثر عنصر قرار دیتے ہوئے زور دیکر کہا کہ قدس فورس نے علاقے میں اسلامی جمہوریہ کی خود مختار اور پروقار پالیسی کو وجود عطا کیا۔ یوم شہادت حضرت علی علیہ السلام، یوم محنت کشاں اور یوم استاد کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی نے ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر والی اپنی تقریر میں اسلامی جمہوریہ ایران میں قدس فورس کے کردار کے بارے میں کہا کہ ان دنوں ملک کے بعض حکام سے ایسی باتیں سننے میں آئیں جو تعجب خیز اور افسوس ناک ہیں، ہم نے سنا کہ اسلامی جمہوریہ کے دشمن اور مخالف ذرائع ابلاغ نے ان باتوں کو نشر کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ انسان یہ باتیں سن کر واقعی افسوس کرتا ہے، ان میں بعض باتیں دشمن کی معاندانہ باتیں ہیں، امریکہ کی باتوں کو دہرایا گيا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی تو برسوں سے علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر و رسوخ سے ناراض اور پریشان ہیں، اسی وجہ سے قدس فورس سے ناراض ہیں، اسی وجہ سے شہید سلیمانی سے بھی ناراض تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے شہید سلیمانی کو شہید کیا، جو چیز بھی علاقے میں اسلامی جمہوریہ کے فکری اثر و رسوخ کا سبب بنے وہ ان کی نظر میں بری ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے یاد دہانی کرائی کہ ملکی پالیسی کے پروگرام گوناگوں اقتصادی، عسکری، سماجی، علمی، ثقافتی پروگراموں نیز سفارتی روابط اور خارجہ تعلقات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ساری چیزیں مل کر کسی ملک کی پالیسی کے خدوخال طے کرتی ہیں،سارے شعبوں کو باہمی ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے اور ایک ساتھ آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اگر ایک شعبہ دوسرے شعبے کی نفی کرے اور دوسرا شعبہ اس پہلے شعبے کی نفی کرے تو یہ بے معنی ہے، یہ بہت بڑی غلطی ہے جو اسلامی جمہوریہ کے عہدیدار سے، اسلامی جمہوریہ کے عہدیداران سے سرزد نہیں ہونی چاہیئے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے قدس فورس کے کردار کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ واقعی قدس فورس مغربی ایشیا میں پسپائی پر مبنی سفارت کاری کا سلسلہ بند کرنے والا سب سے مؤثر عنصر ہے، قدس فورس نے مغربی ایشیا میں اسلامی جمہوریہ کی خود مختار پالیسی اور اسلامی جمہوریہ کی پروقار سیاست کو وجود عطا کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مغربی طاقتوں کی ضد ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کا رجحان ان کی طرف ہو اور وہ ان کے پرچم تلے آگے بڑھے وہ بھی فرمانبرداری کی شکل میں، کیونکہ برسوں تک یہی صورت حال تھی۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ قاجاریہ دور کے اواخر میں بھی اور اور پہلوی حکومت کی طولانی مدت کے دوران بھی ایران مغرب کی سیاست کے زیر تسلط تھا، اسلامی انقلاب نے ایران کو مغرب کے قبضے سے باہر کھینچ لیا جس کے بعد ان چالیس برسوں میں مغربی ممالک، یورپ اور امریکہ نے مستقل یہ کوشش کی کہ اس ملک پر ان کا پرانا تسلط بحال ہوجائے، اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ جب چین، روس اور اپنے ہمسایہ ممالک سے سیاسی و اقتصادی روابط قائم کرتا ہے تو انہیں بہت غصہ آتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ وہ ہمارے کمزور ہمسایہ ممالک پر دباؤ ڈالتے ہیں اور انہیں روکتے ہیں، ان چیزوں کا ہم خود مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ مجھے ایسی کئی مثالیں یاد ہیں کہ جب ہمارے ہمسایہ ممالک کے اعلیٰ رتبہ حکام ایران کا سفر کرنا چاہتے تھے اور امریکیوں نے جاکر ان کا دورہ کینسل کروا دیا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ مغربی طاقتیں ایران کی ہر طرح کی سفارتی سرگرمیوں کے خلاف ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ ایران ان کی اس خواہش کو دیکھ کر پسپائی اختیار نہیں کرسکتا، ہمیں خودمختاری کے ساتھ، باعزت طریقے سے اور پوری محنت اور بھرپور توانائی سے کام کرنا ہے اور علاقے میں یہی کام قدس فورس نے کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس نکتے کا بھی ذکر کیا کہ دنیا میں کہیں بھی خارجہ پالیسی وزارت خارجہ میں وضع نہیں کی جاتی بلکہ ساری دنیا میں خارجہ پالیسی وزارت خارجہ سے بالاتر ادارے وضع کرتے ہیں اور ہمارے ملک میں وہ بالاتر ادارہ قومی سلامتی کی سپریم کونسل ہے، ان بالاتر اداروں میں ملک کے اعلی رتبہ حکام موجود ہوتے ہیں اور ملک کی خارجہ پالیسی وضع کرتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ بے شک خارجہ پالیسی طے کرنے میں وزارت خارجہ کی بھی شرکت ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ فیصلے وزارت خارجہ کی سطح پر ہوتے ہوں، نہیں، وزارت خارجہ پر اجراء کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
ماہ رمضان المبارک؛شب قدر کے اعمال
انیسویں شب کی رات |
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
یہ شب قدر کی راتوں میں سے پہلی رات ہے، شب قدر ایسی عظیم رات ہے کہ عام راتیں اس کی فضیلت کو نہیں پہنچ سکتیں کیونکہ اس رات کا عمل ہزارمہینوں کے عمل سے بہتر ہے۔ اسی رات تقدیر بنتی ہے اور روح کہ جو ملائکہ میں سب سے عظیم ہے وہ اسی رات پروردگار کے حکم سے فرشتوں کے ہمراہ زمین پر نازل ہوتا ہے۔یہ ملائکہ امام العصر (عج)کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ہر کسی کے مقدر میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی تفصیل حضرت(ع) کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ شب قدر کے اعمال دو قسم کے ہیں ۔ اعمال مشترکہ اور اعمال مخصوصہ ۔ اعمال مشترکہ وہ ہیں جو تینوں شب قدر میں بجالائے جاتے ہیں اور اعمال مخصوصہ وہ ہیں جو ہر ایک رات کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اعمال مشترکہ میں چند امور ہیں: (۱)غسل کرنا اور علامہ مجلسی کافرمان ہے کہ غروب آفتاب کے نزدیک غسل کیا جائے اور نماز مغرب اسی غسل کے ساتھ ادا کی جائے۔ (۲)دورکعت نماز بجا لائے جس کی ہررکعت میں سورۃ الحمد کے بعد سات مرتبہ سورۃ توحید پڑھے ، بعد ازنماز ستر مرتبہ کہے:
|
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حضرت رسول الله ﷺسے مروی ہے کہ ابھی وہ شخص اپنی جگہ سے اٹھا بھی نہ ہو گا کہ حق تعالی اس کے اور اس کے ماں باپ کے گناہ معاف کردے گا۔ (۳)قرآن کریم کو کھول کر اپنے سامنے رکھے اور کہے:
اس کے بعد جو حاجت چاہے طلب کرے (۴)قرآن پاک کو اپنے سرپر رکھے اور کہے:
|
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
(۸)اول شب میں کئے ہو ئے غسل کے علاوہ آخر شب پھر غسل کرے اور واضح رہے کہ اس رات غسل ، شب بیداری ، زیارت امام حسین (ع)اور سورکعت نماز کی بہت زیادہ تاکید اور فضیلت ہے۔تہذیب الاسلام میں شیخ نے ابوبصیر کے ذریعے امام جعفر صادق (ع)سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: جس رات کے بارے میں یقین ہو کہ وہ شب قدر ہے تو اس میں سورکعت نماز اس طرح کہ ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورۃ توحید پڑھو۔ میں نے عرض کیا آپ پر قربان ہوجاؤں ! اگر یہ نماز کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکوں تو بیٹھ کر پڑھ لوں ؟ فرمایا اگر کھڑے ہونے کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ سکتے ہو میں نے عرض کی اگر بیٹھ کر نہ پڑھ سکوں تو پھر کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا: بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتے ہو تو پشت کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔دعائم الاسلام میں روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول الله رمضان مبارک کے آخری عشرے میں اپنا بستر لپیٹ دیتے اور عبادت الہی میں مصروف ہو جاتے تئیسویں کی رات آپ اپنے اہل و عیال کو بیدار کرتے اور پھر جس پر نیند کا غلبہ ہوتا اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دیتے۔ حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیھا)بھی اس رات اپنے گھر کے کسی فرد کو سونے نہ دیتیں ، نیند کا علاج یوں کرتیں کہ دن کو کھانا کم دیتیں اور فرماتیں کہ دن کو سو جاؤ تاکہ رات کو بیدار رہ سکو، آپ فرماتی ہیں کہ بدقسمت ہے وہ شخص جو آج کی رات خیرونیکی سے محروم رہ جائے۔ایک روایت میں آیا ہے کہ امام جعفر صادق (ع)سخت علیل تھے کہ تئیسویں رمضان کی رات آگئی آپ نے اپنے کنبے والوں اور غلاموں کو حکم دیا کہ مجھ کو مسجد لے چلو اور پھر آپ نے مسجد میں شب بیداری فرمائی علامہ مجلسی (علیہ الرحمہ) کا ارشاد ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس رات تلاوت قرآن کرے اور صحیفہ کاملہ کی دعائیں بالخصوص دعاء مکارم الاخلاق اور دعا توبہ پڑھے:نیز یہ کہ شب قدر کے دنوں کی عظمت وحرمت کا بھی خیال رکھے اور انمیں عبادت الہی اور تلاوت قرآن کرتا رہے، معتبر احادیث میں ہے کہ شب قدر کادن بھی رات کی طرح عظمت اور فضیلت کا حامل ہے۔ |