سلیمانی
وحدت، قوموں کی کامیاب کا راز
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام عالم کی ترقی اور ان کی فتح و کامیابی کا کلیدی عامل انکے وحدت و اتحاد وتعلقات میں پایا گیا ہے،جس طرح پانی کی بوند بوند ، ایک بڑے ڈیم کے ذخائر کی شکل لے لیتاہے ، اور چھوٹی بڑی ندیاں دوسرے بڑے دریاؤں میں مل کر خود کو بے کراں بنا لیتی ہیں ، اسی طرح انسانوں کے اتحاد سے انسانوں کی ناقابل نفوذ صفیں بھی تیار ہوجاتی ہیں،جسے دیکھ کر دشمن کا دل لرز اٹھے اور دشمن اس قدر گھبرا جائے کہ جارحیت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے:«….تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اَللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ وَ آخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لاٰ تَعْلَمُونَهُمُ اَللّٰهُ يَعْلَمُهُمْ ….»[الأنفال، 60] اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن -اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نہیں جانتے ہو اور اللہ جانتا ہے سب کو خوفزدہ کردو۔
قرآن مجید، ملّت اسلام کو وحدت کے سب سے ہم رکن حبل اللہ سےمتمسک ہونے کی دعوت دیتا ہے ، اور کسی بھی قسم کی تفریق کے خلاف انتباہ کرتا ہے:«وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُوا»[آل عمران (3) آيه 103]؛ اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو۔
قرآن، تمام مسلمانوں کو ایک ہی قوم کی حیثیت سے دیکھتا ہےاور ایک ہی خدا اور ایک ہی مقصد و ہدف والا مانتا ہے:«إِنَّ هَـذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَ حِدَةً وَ أَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ»[أنبياء (21) آيه 92]؛ بیشک یہ تمہارا دین ایک ہی دین اسلام ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں لہذا میری ہی عبادت کیا کرو۔
قرآن، امت مسلمہ کو ایک بھائی سمجھتا ہے اور توقع رکھتا ہے کہ ان کے مابین تعلقات دو بھائیوں کی طرح گہرے ہوں گے۔ اور اگر ذرا بھی اختلاف رائے ہو تو ، امن اور صلح کا حکم دیتا ہے:«إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللّه َ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ»[حجرات (49) آيه 10]؛ مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے
اسلامی مزاحمت کی طرف سے مقبوضہ فلسطین میں میزائل حملوں کی جدید لہر
الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تنظیموں نے مسجد الاقصی میں صہیونیوں کی بربریت کے جواب میں غزہ کے اطراف میں صہیونی بستیوں پر میزائل فائر کئے ہیں ،جس کے بعد مقبوضہ فلسطین میں خطرے کے آلارم بجنا شروع ہوگئے ہیں۔
عزالدین قسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ ہم مسجد الاقصی میں اسرائيلی بربریت کے جواب میں مقبوضہ فلسطین پر میزائل برسا رہے ہیں۔ صہیونی ذرائع کے مطابق کئی درجن میزائل مقبوضہ فلسطین میں گرے ہیں۔ عزالدین قسام بریگيڈ کے ترجمان نے کہا ہے کہ مسجد الاقصی میں اسرائیلی بربریت کا بھر پور جواب دیا جائےگا۔ واضح رہے کہ اسرائیلی فوج نے مسجد الاقصی کا محاصرہ کررکھا ہے اور مسجد الاقصی اور اس کے اطراف میں صہیونی فوج نے فائرنگ کرکے اب تک 350 سے زائد فلسطینیوں کو زخمی کردیا ہے۔
غزہ پر اسرائیل کے ہوائی حملوں میں 20 افراد شہید اور 65 زخمی ہوگئے
مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطین الیوم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی بربریت کا سلسلہ جاری ہے غزہ پر اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت 20 افراد شہید اور 65 زخمی ہوگئے ہیں۔ جبکہ عرب ممالک خاموش تماشائي بنے ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق غزہ میں طبی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے وحشیانہ ہوائی حملوں میں 20 افراد شہید ہوگئے ہیں جن میں 9 بچے بھی شامل ہیں جبکہ اسرائیلی جنگی طیارون کی بمباری کے نتیجے میں 65 افراد زخمی ہوگئے ہیں جن میں بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی بربریت کے جواب میں فلسطینی کیم زآحتمی تنظیموں نے بھی مقبوضہ علاقوں پر راکٹوں کی فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
معصومین کے حرم کے متعلق اہل سنت کی بزرگ شخصیات کا احترام کرنا
امیر المؤمنین کی قبر پر ہارون رشید کا احترام کرنا:
فأخبره بعض شیوخ الکوفة أنه قبر أمیر المؤمنین علی علیه السلام۔
کوفہ کے بعض علماء کا بیان ہے کہ: وہاں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی قبر ہے۔
ثم إن هارون أمر فبنی علیه قبة۔
ہارون رشید نے حکم دیا اور امیر المومنین علیہ السلام کی قبر مطہر پر گنبد بنایا گیا۔
وأخذ الناس فی زیارته والدفن لموتاهم حوله۔
لوگ اس کے بعد امیر المومنین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے اور ان کے پاک حرم سے تبرک کے طور پر وہاں اپنے مردوں کو دفن کیا کرتے تھے
عمدة الطالب فی انساب آل ابی طالب، احمد بن علی حسینی (ابن عنبة)، ص 62
امام موسی کاظم کے حرم کے متعلق "ابن خلکان" کی توصیف:
توفی فی الحبس ودفن فی مقابر الشونیزیین خارج القبة، وقبره هناک مشهور یزار۔
قید کے ایام میں ہی وہ دنیا سے رخصت ہو گئے اور شونیزین قبرستان مین دفن ہوئے اور اس وقت ان کی قبر معروف و زیارت کا مقام ہے
«وعلیه مشهد عظیم فیه قنادیل الذهب والفضة وأنواع الآلات والفرش ما لا یحد»
امام کاظم علیہ السلام کے مبارک روضہ پر گنبد اور بارگاہ تھی اور سونے چاندی کی قندیلیں وہاں آویزاں تھی اور بیش قیمت قالینیں وہاں بچھی تھیں
وفیات الاعیان؛ ابو العباس شمس الدین احمد بن محمد ابن خلکان (متوفی: 681 هـ)، محقق: احسان عباس، ناشر: دار صادر – بیروت، ج 5، ص 310
امام کاظم کے حرم سے "ابو علی خلال" کا توسل:
«ما همنی أمر فقصدت قبر موسی بن جعفر فتوسلت به الا سهل الله تعالی لی ما أحب»
جب بھی مجھے کو کوئی مشکل پیش آتی موسی بن جعفر کی قبر کے پاس آتا اور ان سے توسل کرتا تھا اور میری مشکل حل ہو جاتی تھی۔
تاریخ بغداد، مؤلف: أحمد بن علی ابو بکر خطیب بغدادی، ناشر: دار الکتب العلمیة - بیروت، ج 1، ص 120، باب ما ذکر فی مقابر بغداد المخصوصة بالعلماء والزهاد
امام رضا کے حرم کے سلسلے میں "ابن خزیمہ" کی تعظیم و تکریم:
خرجنا مع إمام أهل الحدیث أبی بکر بن خزیمة»
ہم اہل حدیث کے امام ابی بکر بن خزیمہ کے ساتھ باہر نکلے
«وعدیله أبی علی الثقفی مع جماعة من مشائخنا وهم إذ ذاک متوافرون إلی زیارة قبر علی بن موسی الرضی بطوس»
اور ان کے عدیل ابو علی ثقفی اور بزرگوں کی ایک جماعت کے ساتھ طوس میں امام رضا کی قبر پر جایا کرتے تھے۔
«قال فرأیت من تعظیمه یعنی بن خزیمة لتلک البقعة وتواضعه لها وتضرعه عندها ما تحیرنا»
وہ کہتا ہے: میں نے دیکھا کہ ابن خزیمہ اس مقبرہ کے سامنے وہ تعظیم اور اس کے مقابلے میں اس تواضع و فروتنی کا اظہار کرتے ہیں کے ہم حیرت زدہ رہ گئے۔
تهذیب التهذیب، مؤلف: احمد بن علی بن حجر ابو الفضل عسقلانی شافعی، ناشر: دار الفکر - بیروت - 1404 - 1984، پہلا ایڈیشن، ج 7، ص 339، ح 627
حرم امام رضا سے ابن حبان کا توسل اور مسلسل زیارت:
«قد زرته مرارا کثیرة»
میں نے آٹھویں امام کی قبر کی بہت زیادہ زیارت کی۔
«وما حلت بی شدة فی وقت مقامی بطوس فزرت قبر علی بن موسی الرضا صلوات الله علی جده وعلیه ودعوت الله إزالتها عنی إلا أستجیب لی وزالت عنی تلک الشدة»
جب میں طوس مین رہتا تھا تو جب بھی مجھے کوئی بڑی پریشانی یا مشکل درپیش ہوتی تو امام رضا کی قبر پر جاتا اور ان سے توسل کرتا اور میری مشکل حل ہو جایا کرتی تھی اور میری دعا مستجاب ہو جاتی تھی۔
«وهذا شیء جربته مرارا فوجدته کذلک»
میں نے کئی بار اس کا تجربہ کیا اور اس کا نتیجہ دیکھا تھا۔
الثقات، مؤلف: محمد بن حبان بن احمد ابو حاتم تمیمی، بستی، ناشر: دار الفکر - 1395 - 1975، پہلا ایڈیشن، تحقیق: سید شرف الدین احمد، ج 8، ص 457، ح 14411
قبور صحابی کی تعمیرات پر مسلمانوں کا رد عمل:
مدائن میں "سلمان فارسی" کی قبر:
«وقبره الآن ظاهر معروف بقرب ایوان کسری علیه بناء»
ان کی قبر مشخص اور مشہور ہے اور وہ ایوان کسری کے پاس ہے اور اس پر گنبد ہے ۔
تاریخ بغداد، مؤلف: احمد بن علی ابو بکر خطیب بغدادی، ناشر: دار الکتب العلمیة – بیروت، ج 1، ص 163، ح 12
"بصرہ" میں "طلحہ بن عبد اللہ" کی قبر!:
«ومن المشاهد المبارکة بالبصرة مشهد طلحة بن عبد الله أحد العشرة رضی الله عنهم وهو بداخل المدینة وعلیه قبة وجامع وزاویة فیها الطعام للوارد والصادر وأهل البصرة یعظمونه تعظیما شدیداً»
جب میں بصرہ پہونچا تو میں نے جنگ جمل میں شہید ہونے والے طلحہ بن عبد اللہ کا مزار دیکھا جس پر گنبد تھی، ان کی قبر کے پاس ایک مسجد ہے اور اس میں ایک باورچی خانہ ہے جس سے طلحہ کی قبر کے زائرین کے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا ہے اور بصرہ کے لوگ اس کا بہت احترام کرتے ہیں۔
پیغمبر کی دائی "حلیمہ سعدیہ" اور آنحضرت کے خادم "انس بن مالک" کی قبر:
«وعلی کل قبر منها قبة»
ان دونوں کی قبروں پر گنبد ہے
«مکتوب فیها اسم صاحب القبر ووفاته»
ان کا نام اور سال وفات بھی وہاں لکھا ہوا ہے
رحلة ابن بطوطة (تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار)؛ مؤلف: محمد بن عبد الله، ابن بطوطہ (متوفى: 779هـ)، ناشر: أكاديمية المملكة المغربية، الرباط، سال نشر: 1417 هـ؛ ج 2، ص 15، باب ذکر المشاهدة المبارکة بالبصرة
"بصرہ" میں "زبیر بن عوام" کی قبر:
«وجعل الموضع مسجداً ونقلت إلیه القنادیل والآلات والحصر والسمادات وأقیم فبه قوام وحفظة»
زبیر کی قبر پر ایک مسجد بنائی ہے قندیلیں اور سجاوٹ کی ہے اور وہاں کچھ لوگوں کو مامور کیا ہے تا کہ وہ قبر، گنبد، فرش اور وہاں کی قیمتی چیزوں کی حفاظت کریں،
«ووقف علیه وقوفاً»
زبیر کے مقبرہ کے لئے زمینیں اور عمارتیں وقف کی ہیں تا کی ان کی آمدنی"زبیر بن عوام" کے مقبرہ پر خرچ ہو۔
المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم، مؤلف: عبد الرحمن بن علی بن محمد بن جوزی أبو الفرج، ناشر: دار صادر - بیروت - 1358، پہلا ایڈیشن، ج 14، ص 383
ترکی میں "ابو ایوب انصاری" کی قبر:
«فقالوا هذا قبر أبی أیوب الأنصاری صاحب النبی فأتیت تلک البنیة فرأیت قبره فی تلک البنیة وعلیه قندیل معلق بسلسلة»
لوگوں نے بتایا: یہاں پیغمبر کے ساتھ ابو ایوب انصاری کی قبر ہے، میں نے دیکھا وہان قندیلوں کو زنجیروں سے لٹکایا تھا۔
تاریخ بغداد، مؤلف: احمد بن علی ابو بکر خطیب بغدادی، ناشر: دار الکتب العلمیة – بیروت، ج 1، ص 154، ح 7
اپنے چار اماموں کی قبروں کے متعلق اہل سنت کی سیرت!
"بغداد" مین حنفییوں کے امام "ابو حنیفہ" کی قبر:
«وفی هذه الأیام بنی أبو سعد المستوفی الملقب شرف الملک مشهد الإمام أبی حنیفة رضی الله عنه،»
ان دنوں میں جناب ابو سعید مستوفی جن کا لقب شرف الملک ہے نے ابو حنیفہ کی قبر پر ایک بارگاہ بنائی اور اس کا نام ابوحنیفہ کی زیادت گاہ رکھا۔
«وعمل لقبره ملبناً، وعقد القبة، وعمل المدرسة بإزائه، وأنزلها الفقهاء، ورتب لهم مدرساً»
ان کی قبر پر ضریح اور گبند بنائی اور اس کے پاس ایک مدرسہ تعمیر کیا اور حکم دیا کہ فقہا وہاں آئیں اور تدریس کریں
المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم، مؤلف: عبد الرحمن بن علی بن محمد بن جوزی أبو الفرج، ناشر: دار صادر - بیروت - 1358، طبع: أول، ج 16، ص 100
"مدینہ" میں مالکیوں کے امام "مالک بن انس" کی مزار:
وأمامها قبر إمام المدینة أبی عبد الله مالک بن أنس رضی الله عنه وعلیه قبة صغیرة مختصرة البناء»
جب میں مدینہ گیا وہاں میں نے مدینہ کے امام ابی عبد اللہ مالک بن انس کا مزار دیکھا جس پر چھوٹی سی گنبد اور مختصر تعمیرات کی گئی تھیں۔
"مصر" میں "امام شافعی کی مزار":
«أنشأ الکامل دار الحدیث بالقاهرة وعمر قبة علی ضریح الشافعی»
ان لوگوں نے امام شافعی کی ضریح پر ایک بڑا گنبد تعمیر کیا تھا اور اس لئے موقوفات کا بھی انتظام کیا تھا۔
سیر أعلام النبلاء، مؤلف: محمد بن احمد بن عثمان بن قایماز ذہبی ابو عبد الله، ناشر: مؤسسہ رسالت - بیروت - 1413، نواں ایڈیشن، تحقیق: شعیب أرناؤوط, محمد نعیم عرقسوسی، ج 22، ص 128
"بغداد" میں وہابیوں کے چہیتے "احمد بن حنبل" کی مزار:
«ودفن ببغداد، وقبره مشهور معروف یتبرک به»
احمد بن حنبل دفن ہیں اور ان کی قبر معروف اور لوگ اس سے متوسل ہوتے ہیں۔
تهذیب الأسماء واللغات، مؤلف: ابو زکریا محیی الدین یحیی بن شرف نووی (متوفی: 676 هـ) ناشر ،دار الکتب العلمیة، بیروت، ج 1، ص 112
کابل میں بم دھماکے، امن مذاکرات میں تعطل اور امریکہ کا کردار
افغانستان ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات دارالحکومت کابل میں کئی بم دھماکوں کی صورت میں سامنے آئے۔ ان شدید دھماکوں نے پورے ملک پر غم و اندوہ کی فضا طاری کر دی ہے اور مختلف ذرائع ابلاغ میں پہلی سرخی کے طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ کابل کے مغربی حصے میں ہونے والے یہ بم دھماکے، دہشت گردانہ نوعیت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ تین دیگر اہم خصوصیات بھی رکھتے تھے: ایک یہ کہ یہ دھماکے کابل کے شیعہ اکثریتی علاقے میں انجام پائے ہیں، دوسرا ان بم دھماکوں سے "سید الشہداء" گرلز اسکول کی طالبات کو نشانہ بنایا گیا ہے اور تیسری خصوصیت یہ کہ یہ دہشت گردانہ اقدام رمضان کے مبارک مہینے اور عیدالفطر کے قریب واقع ہوئے ہیں۔
مندرجہ بالا تین خصوصیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دہشت گردانہ بم حملوں میں ملوث عناصر افغانستان میں فرقہ وارانہ اختلافات اور جنگ کو ہوا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق ان بم دھماکوں کے نتیجے میں 58 افراد شہید جبکہ 150 سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں سید الشہداء گرلز اسکول کی 50 طالبات شامل ہیں۔ زخمیوں کی کثیر تعداد کے پیش نظر شہداء کی تعداد میں اضافہ ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔ اسی طرح کافی زیادہ تعداد میں طالبات لاپتہ بھی ہیں۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والی طالبات کے اہلخانہ اپنے عزیزوں کی تلاش میں جگہ جگہ گھوم رہے ہیں۔ کبھی جائے حادثہ پر بچے کھچے ملبے میں تلاش کرتے ہیں اور کبھی اسپتالوں کے سرد خانوں میں اپنے عزیزوں کو ڈھونڈتے ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ تین دھماکے ہوئے ہیں۔ ایک دھماکہ بارود سے بھری ٹویوٹا کرولا میں ہوا جبکہ دو دیگر دھماکے ان مائنوں سے ہوئے جو طالبات کے راستے میں نصب کی گئی تھیں۔ افغان حکومت کی پوری کوشش ہے کہ ان دھماکوں کی ذمہ داری طالبان پر ڈال دی جائے۔ افغان صدر اشرف غنی نے اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "طالبان نے غیر قانونی جنگ میں شدت پیدا کر کے اور شدت پسندانہ اقدامات کے ذریعے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف موجودہ بحران کو پرامن طریقے سے بنیادی طور پر حل کرنے کے خواہاں نہیں بلکہ حالات کو مزید پیچیدہ بنا کر امن کیلئے فراہم کردہ موقع ضائع کر دینا چاہتے ہیں۔"
لیکن طالبان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان بم دھماکوں سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں انجام پانے والے اس دہشت گردانہ واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اس میں طالبان کے ملوث نہ ہونے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گردانہ اقدام تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی کارستانی ہے۔ اس کے باوجود افغان حکومت اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے اور ان بم دھماکوں میں طالبان کے ہی ملوث ہونے پر اصرار کر رہی ہے۔ افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا: "حالیہ بم دھماکے ماضی میں انجام پانے والے بم دھماکوں سے ملتے جلتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ طالبان نے انجام دیے ہیں۔" یاد رہے گذشتہ ہفتے بھی افغانستان کی ولایت لوگر میں ایسے ہی بم دھماکوں میں 27 افراد شہید اور 110 زخمی ہو گئے تھے۔
افغان حکومت اور طالبان کے مختلف موقف سے ہٹ کر دیکھیں تو یہ نکتہ انتہائی اہم نظر آتا ہے کہ ابھی تک کسی گروہ نے ان دہشت گردانہ بم حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے ساتھ ہی بعض خفیہ قوتیں گذشتہ بیس برس سے فوجی جارحیت اور اندرونی جھگڑوں کے شکار اس ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کو ناممکن ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ایک طرف یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن افغانستان میں اپنے فوجی قبضے کو جلد از جلد ختم کر دینا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف امریکی حکام خاص مقاصد کے تحت ایسے بیان دیتے نظر آتے ہیں کہ غیر ملکی افواج کی عدم موجودگی میں افغانستان جنگ اور بحران کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
امریکہ کے وزیر خارجہ اینتھونی بلینکن نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ہر قسم کا تصور ممکن ہے۔ دوسری طرف انٹرا افغان امن مذاکرات ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس تعطل کی بنیادی وجہ امریکہ کی وعدہ خلافیاں ہیں۔ امریکہ نے فروری 2020ء میں طالبان کے ساتھ انجام پانے والے معاہدے پر پوری طرح عملدرآمد نہیں کیا۔ اس معاہدے کی روشنی میں یہ طے پایا تھا کہ افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج مئی 2020ء تک ملک چھوڑ کر چلی جائیں گی جبکہ امریکہ نے حال ہی میں فوجی انخلاء کا آغاز کیا ہے۔ طالبان نے بھی اعلان کیا ہے کہ امریکہ کی وعدہ خلافی کے پیش نظر وہ ہر قسم کی مسلح کاروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ بعض خفیہ ہاتھ افغانستان میں دوبارہ بدامنی کا بازار گرم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تحریر: علی احمدی
امت مسلمہ کی کشتی نجات
امام خمینی (رح) کی نگاہ میں ایک اہم اور بنیادی موضوع طالب علم اور یونیورسٹی ہے۔ موضوعِ طالب علم امام خمینی (رح) کی گفتگو میں کافی نمایاں رہا ہے اور اس سلسلہ میں آپ (رح) نے بہت زیادہ تاکید کی ہے: امام (رح) فرماتے ہیں:
ملک کی تقدیر میں طالب علم کا کردار
طالب علم قوم کے خزانے ہیں، ہمارے ملک کی آئندہ تقدیر موجودہ طالب علموں کے ہاتھ میں ہے یعنی ملک کے مختلف پہلو طالب علموں کے ہاتھوں میں ہیں اور ملکی سعادت کی چابی استاد اور طالب علم کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ استاد ہی ہے جسے مختلف نوجوانوں کو تربیت کرنا چاہئے اور پھر نوجوان و طالب علم ہیں جنہیں ملک چلانا ہے اس بنا پر دنیا میں ہر ملک کی باگ ڈور استاد اور طالب علموں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
انبیاء کے راستہ کو دوام بخشنا
اے نوجوانو اور طالب علمو تم اس ملک کی امید ہو اس راستہ کو جاری رکھتے ہوئے اسے پایہ تکمیل تک پہونچانا ہے، اس تحریک میں بہت جانفشانی کی گئی ہے لہذا اسے جاری رکھنا پڑے گا، یہ سیدھا راستہ جسے انبیاء نے انسانوں تک پہونچایا ہے اور سب سے اشرف و اعلی آخری نبی حضرت محمدؐ نے بھی اسی راستہ کو دوام بخشا اور لوگوں کو سیدھے راستے کی جانب دعوت دیتے ہوئے انہیں ہدایت دی انبیاء نے انسانیت کو تمام قسم کے کفر و شرک اور ظلمات سے نکال کر نور مطلق کی جانب ہدایت کی، لہذا اے نوجوانو تمہیں اسی راستہ کو دوام بخشنا ہے تا کہ رسول اکرمؐ اور حضرت صادقؑ کے مذہب کے حقیقی پیروکار بن جاؤ۔
امت مسلمہ کی کشتی نجات
طول تاریخ میں ذمہ دار نوجوان اور بالخصوص موجودہ اور آئندہ نسل میں مسلمان طالب علم، اسلام اور اسلامی ممالک کی امید ہیں۔ یہی طالب علم و نوجوان ہیں جو اپنی ذمہ داری، ارادہ،استقامت اور پائداری کے ذریعہ اپنے ملک اور امت مسلمہ کی کشتی نجات بن سکتے ہیں، قومی ترقی، آزادی اور استقلال انہی عزیزوں کی زحمات کی مرہون منت ہے۔ استعمار اور استعماری طاقتوں کا نشانہ یہی عزیز ہیں اور سب انہیں شکار کرنا چاہتے ہیں اور ان کے شکار کے نتیجہ میں تمام ممالک اور قومیں کمزوری کا شکار بنتے ہوئے برباد ہوجاتی ہیں۔
طالب علم قوموں کی اصلاح یا بربادی کا سرچشمہ
یونیورسٹی کے عزیز جوانوں کو یونیورسٹی کے مسائل پہ توجہ رکھنا چاہئے کہ اسی کے ذریعہ ایک قوم کی اصلاح ہوتی ہے اور یونیورسٹی کے ذریعہ ہی ایک قوم برباد ہوتی ہے یہ یونیورسٹی ہی کی تربیت ہوتی ہے کہ ہمارے نوجوان کس جانب حرکت کریں مغرب کی طرف جائیں یا مشرق کی طرف۔ یا مغرب کا غلبہ آجائے یا مشرق کا۔ مغربی کلچر ہماری سب چیزیں ہم سے چھیننے کی کوشش میں ہے اور وہ ہماری قوم کو بربادی کی جانب لے جا رہا ہے۔ نوجوانوں و طالب علموں کو یونیورسٹیز میں اپنے ایمان کو تقویت پہونچانا چاہئے۔ ایسا ایمان جو انہیں شرافت سے لبریز کرتا ہے جس کے نتیجہ میں بارگاہِ خدا میں بھی صاحب عزت بنو گے۔
اسلام کا دفاع
تمام مسلمانوں اور بالخصوص علماء کرام اور یونیورسٹیز کے عہدیداروں کا فریضہ ہے کہ اسلام اور اس کے حیاتبخش احکامات پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے ان کا دفاع کریں کیونکہ اسلامی احکامات استقلال، آزادی کے ضامن ہیں۔ لہذا فرصت کو غنیمت سمجھ کر ان سے مستفید ہوں یونیورسٹیز میں موجودہ طلاب کو اپنی باتیں بیان کرنا اور تحریر کرنا چاہئے اور انہیں بین الاقوامی سطح پر تمام انسانی معاشروں تک پہونچانا چاہئے۔
یونیورسٹیز میں پرچم اسلام کو بلند کرنے کی کوشش کرنا چاہئے، مذہبی تبلیغ کرنا چاہئے، مسجدوں کی تعمیر کریں اور با جماعت نماز ادا کرنا چاہئے۔ مذہبی اتحاد ضروری ہے اسی مذہبی اتحاد کے نتیجہ میں عظیم الشان اتحاد قائم ہوتا ہے لہذا اگر ایرانی آزادی چاہئے تو مذہبی اتحاد قائم کرو۔
منحرف عناصر کے نفوذ میں رکاوٹ ایجاد کریں
آج ہمارا ملک آزاد ہوچکا ہے مغرب و مشرق کے قید سے ہم آزاد ہو چکے ہیں ملک اور یونیورسٹیز بھی آزاد ہیں لہذا یونیورسٹیز کے جوانوں کو زیادہ سے زیادہ ملکی ترقی کی خاطر علوم و فنون حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اور منحرف عناصر کے نفوذ میں رکاوٹ ایجاد کرنا چاہئے اور انہیں ہرگز یونیورسٹیز کے مقدس ماحول کو منحرف و استعمار سے وابستہ افراد کے منفی پروپگنڈوں سے آلودہ ہونے سے بچانا چاہئے
اسلام ترقی کا خواہاں ہے، اسلام ان تمام ادیان میں سرفہرست ہے جنہوں نے تعلیم و ترقی کی تعریف کی ہے اور لوگوں کو بھی دعوت دی ہے، اس نے دعوت دی ہے کہ علم جہاں بھی ہو اسے حاصل کرو حتی اگر کافر سے حاصل کرنا پڑے البتہ اسے اسلام اور ملک کی خدمت میں لگانا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو علم و تعلیم حاصک کرو اور اسے اپنے ملک کے خلاف استعمال کرو۔
تعلیم زندگی کی آخری سانسوں تک
انسان اپنی عمر کی آخری سانسوں تک تعلیم، تربیت اور پرورش کا محتاج ہے، کوئی انسان ایسا نہیں جو تعلیم، تربیت اور پرورش سے مستغنی ہو جیسا کہ بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ اب ہماری تعلیم کا وقت گزر چکا ہے یہ صحیح نہیں ہے۔ تعلیم کا کوئی معین وقت نہیں ہے، جیسا کہ تعلیم و تربیت کا کوئی معین وقت نہیں ہے، جیسا کہ حدیث میں ذکر ہوا ہے کہ گہوارہ سے لے کر قبر تک تعلیم حاصل کرو اگر انسان جان کنی کے عالم میں بھی ایک کلمہ سیکھ لے تو وہ اس سے بہتر ہے کہ جاہل اس دنیا سے جائے۔
حکومت اسلامی کا استقبال
یونیورسٹیز کے طلاب بہت ہوشیار ہوتے ہیں تمہیں مطمئن ہونا چاہئے کہ اگر اسلامی حکومت اور اسلامی مذہب کو حقیقی طور پر ان کے سامنے پیش کرو گے اور اسے انہیں متعارف کراؤ گے تو یقیناً وہ اس کا استقبال کریں گے، یونیورسٹیز کے طلاب ظلم و استبداد کے مخالف ہیں وہ لوگوں کے عمومی اموال کی غارتگری کے مخالف ہیں، حرام خوری اور جھوٹ کے مخالف ہیں جس اسلام میں اجتماعی حکومت اور تعلیم و تربیت پائی جاتی ہے اس اسلام کا نہ کوئی طالب علم مخالف ہے اور نہ ہی کوئی یونیورسٹی۔
تعلیم یافتہ بالخصوص یونیورسٹی کے طلاب کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہوشیاری کے ساتھ اسلام اور اپنے ملک کی خدمت کریں اور تمام قسم کے حالات و ماحول کو مد نظر رکھیں کہ ایسا نہ ہو کہ کہیں تعلیم و تربیت کے بڑے بڑے ادارے انہی مسائل کی جانب گامزن نہ ہو جائیں جن میں وہ پہلے مبتلا تھے۔
حوالہ: hawzeh.net
ایرانی وزارت خارجہ کی کابل میں بم دھماکوں کی مذمت
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ ترجمان سعید خطیب زادہ نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مغرب میں مدرسہ سید الشہداء کے قریب ہونے والے بم دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے افغان حکومت اور افغان قوم کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ خطیب زادہ نے کہا کہ عام شہریوں کو نشانہ بنانا دہشت گردوں کی بزدلی اور بربریت کی علامت ہے۔ واضح رہے کہ کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سید الشہداء مدرسہ کے قریب ہونے والے 3 بم دھماکوں میں 25 افراد جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے ۔
ادھر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بم دھماکوں کیم ذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کابل کے مغرب میںم درسہ سید الشہداء کے قریب ہونے والے بم دھماکوں میں داعش دہشت گرد ملوث ہیں جو خطے میں امریکی ایجنٹ ہیں۔
کابل میں خونریز بم دھماکے / امن مذاکرات میں تعطل اور امریکہ کا تخریبی کردار
مہر خبررساں ایجنسی کے بین الاقوامی امور کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں امریکی فوجیوں کے انخلا اور امن مذاکرات میں تعطل کے بعد افغانستان کے دارالحکومت کابل میں شیعہ نشین علاقہ میں خونریز بم دھماکے اس بات کا مظہر ہیں کہ سامراجی طاقتیں افغانستان کا بحران جاری رکھنے کی تلاش و کوشش کررہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق کل سہ پہر کو مقامی وقت کے مطابق پانچ بجے کابل کے شیعہ نشین علاقہ میں لڑکیوں کے سید الشہداء مدرسہ کے قریب تین بم دھماکے کئے گئے، جس کے بعد عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ان دھماکوں میں تین پہلو پیش نظر ہیں ایک پہلو یہ ہے کہ دھماکے شیعہ نشین علاقے میں ہوئے، دوسرا پہلو یہ کہ دھماکے میں لڑکیوں کے سید الشہداء مدرسہ کو نشانہ بنایا گیا اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ دھماکے رمضان المبارک کے اختتامی ایام اور عید سعید فطر سے چند روز پہلے کئے گئے۔ مذکورہ تین پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے دہشت گردوں کی پہچان کوئی مشکل کام نہیں ، دہشت گرد سب سے پہلے مذہبی اور قومی اتحاد کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں اس لئے انھوں نے شیعہ مدرسے کا انتخاب کیا۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں اب تک 58 افراد شہید ہوگئے ہیں جن میں 50 طالبات شامل ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق پہلا بم دھماکہ ایک گاڑی کے ذریعہ کیا گیا جبکہ دو بم دھماکے طالبات کے مدرسے سے نکلتے وقت دو بم پھٹنے سے ہوئے، افغان حکومت اس حادثے کا ذمہ دار طالبان کو قراردے رہی ہے ، افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ طالبان نے ملک میں جنگ اور تشدد کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور وہ افغان عوام کے دشمن ہیں اور انھیں امن و صلح سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکہ افغانستان میں پائدار امن کے خلاف ہے امریکہ افغانستان میں ایک طرف افغان حکومت اور دوسری طرف طالبان اور داعش دہشت گردوں کی بھی پشتپناہی کررہا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں شیعہ نشین علاقہ میں بم دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکوں میں امریکہ کے حامی داعش دہشت گرد ملوث ہیں۔ امریکہ افغانستان میں اس بار طالبان کے بجائے داعش دہشت گردوں کو مدد فراہم کررہا ہے اور وہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کے باقی رہنے کا جواز پیدا کررہا ہے۔ ادھر افغانستان کے امور میں امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمائے خلیل زاد نے کہا ہے کہ اگر طالبان نے تشدد کا راستہ ترک نہ کیا تو امریکی فوج دوبارہ افغانستان پہنچ سکتی ہے۔ خلیل زاد کے اس اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کی آڑ میں افغانتسان سے نکلنا نہیں چاہتا اور امریکہ کا افغانستان میں جاری دہشت گردی کے پیچھے ہاتھ نمایاں ہے۔
عالمی نہضت آزادی قدس اور مدافعین حرم کا کردار
جمعۃ الوداع کی اہمیت سب جانتے ہیں اور اس کا پہلا محرک یہ ہے کہ پیغمبرِ اسلامﷺ اِس جمعہ کو بہت اہتمام کیا کرتے تھے اور اس کی تاکید بھی فرماتے تھے۔ دوسری جو اہم مناسبت ہے، وہ یہ ہے کہ امام خمینی نے ماہِ صیام کے اس آخری جمعہ کو "یوم القدس یعنی آزادی قدس" کے عنوان سے موسوم کیا ہے اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اس دن کو قدس کے نام سے برپا کریں۔ یوم القدس صرف فلسطین سے مخصوص نہیں ہے، یہ اسلام کا دن ہے۔ بہت سارے اسلامی ممالک ایسے ہیں، جن میں لوگوں کو خبر بھی نہیں ہے کہ یہ کونسا دن ہے اور اِس کو کیوں برگزار کیا جاتا ہے؟ بلکہ اس کے بارے میں شبہات بھی رکھتے ہیں، مثلاً عام مسلمان سوچتے ہیں کہ ہم کیوں جمعۃ الوداع کو روزِ قدس، روزِ آزادی فلسطین، روزِ آزادی قبلہ اول کے طور پر برپا کریں۔؟ اس موضوع کی تفسیر و تبیین یعنی اس کی نظریاتی بنیادوں کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ کس پسِ منظر کے تحت امام خمینی نے روزِ قدس کو بعنوانِ یوم اللہ قرار دیا؟ تمام مسلمانوں سے توقع بھی نہیں ہے کہ وہ اتنی بصیرت کے ساتھ ایسے امور کو درک کر پائیں، جو کہ ایک طبعی بات ہے۔
جہانِ اسلام میں بصیرت بہت ہی کم ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طویل عرصہ سے مسلمانوں کو سیاسی دین سے دور کرکے خانقاہی اور صوفیانہ دین کی طرف مائل کیا گیا، یعنی دین کو ایسا بنا کر پیش کیا گیا، جس کا سیاسی امور میں کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ سیاسی امور کو ایک طرح کی بے دینی تصور کیا گیا۔ آج بھی ایسی شخصیات دیکھنے کو ملتی ہیں، جو سیاسی امور میں مداخلت کرنا خلاف ِ تقویٰ سمجھتی ہیں۔ کیا ستم ہے کہ مسجد کا محراب جسے حرب کی جگہ قرار دیا گیا، اُسی اسلام کے نام لیوا خود کو سیاسی امور میں مداخلت سے دور رکھیں۔ اس فکر نے یعنی دین کو سیاست سے جدا کرنے نے اسلام کو جتنا نقصان پہنچایا ہے، اتنا دشمنانِ اسلام نے بھی نہیں پہنچایا۔ اسی وجہ سے سیاسی دین کی بصیرت عوام، علماء اور خواص میں پیدا ہی نہیں ہوئی، جس کے نتائج جہانِ اسلام کے لیے تباہ کن نکلے اور اُس کی ایک عملی تصویر سالوں سے جاری فلسطین کی آزادی کی کوششوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔
راہ خدا میں قیام کا نام دین ہے۔ قیام کرنے اور کروانے کو نہضت کہتے ہیں۔ خداوند تعالیٰ نے امام خمینی کو جو صلاحیت دی تھی کہ جو قوم جمود کی حالت میں تھی، اُس کے اندر تحرک پیدا کیا اور اسی کام کو نہضت کہتے ہیں۔ نہض اٹھانے کو کہتے ہیں اور نہضت یعنی اٹھانا۔ کسی قوم کو مقصد کے حصول کے لیے قیام کرانے کو نہضت کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ایسی بہت ساری آیات ہیں، جن میں طاغوتوں، ظالموں اور غاصبوں کے خلاف قیام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے امام خمینی فرمایا کرتے تھے کہ اسلام مذہبِ قیام ہے۔ قیام سے مراد کسی مقصد کے لیے نکلنا، اٹھنا اور تحرک اور حرکت کرنا ہے۔ جو شخص مسلمین کے امور سے لاتعلق رہتا ہے، وہ مسلمان ہی نہیں بلکہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ رسولِ خداﷺ کی معروف حدیث ہے کہ:*من اصبح لایتھم بامور المسلمین فلیس بمسلم* "اگر کوئی مسلمان ایک دن گزارے اور اس دن مسلمانوں کے امور سے متعلق کوئی اہتمام نہ کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے۔"ایک اورحدیث میں فرمایا: من سمع عیال المسلمین۔۔۔۔۔ "اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مدد کے لیے فریاد سنے اور اس کی آواز پر لبیک نہ کہے تو وہ اسلام سے باہر ہے۔"
مسئلہ قدس کے اندر اتنی صلاحیت موجود ہے، لہذا اسے جہان اسلام کے لیے ایک عالمی نہضت قرار دیا گیا، کیونکہ قدس امتِ مسلمہ کے لیے ایک دینی اور خالصتاً اسلامی موضوع ہے اور یوم القدس کا تعلق فقط آزدی فلسطین کے ساتھ نہیں بلکہ یہ مسئلہ اہداف کے لحاظ سے پوری دنیائے اسلام کی حد تک وسیع ہے۔ یعنی شروع میں فلسطین، قدس اور مسجد اقصیٰ محرک ہیں، لیکن اس کا غایت و ہدف بہت وسیع ہے، یعنی یہ نہضت صرف فلسطین کو اسرائیل کے ناپاک وجود سے آزاد کروانے تک محدود نہیں بلکہ تمام اسلامی ممالک کو ہر اُس طاقت سے آزاد کرانے کے لیے ہے، جو اس پر غالب اور مسلط ہے۔ آج ہر اسلامی سرزمین بلآخر کسی نہ کسی طرح کسی بیرونی یا اندرونی شیطانی طاقت کے چنگل میں گرفتار ہے۔ اسی طرح عرب سرزمینیں جتنی بھی ہیں، یہ مغربی مہروں کے اختیار میں ہیں اور ان سرزمینوں کو بھی آزاد کروانا ہے۔
کیسے ممکن ہے کہ قدس کا تذکرہ ہو شہید قدس اور مدافعین حرم کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ آج جو ہم باآسانی "قدس قریب است" کے نعرے بلند ہوتے سن رہے ہیں، یہ شہید حاج قاسم سلیمانی اور مدافعین حرم کے مرہون منت ہیں۔ جنرل سلیمانی نے فلسطین اور تحریک مزاحمت کو عروج تک پہنچایا، اس کو مقتدر اور طاقتور بنایا اور اپنے آپ کو فلسطین اور فلسطینی عوام کی خاطر قربان کر دیا اور شاید یہی وجہ تھی کہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے شہید کے جنازے پہ حاضر ہو کر کہا: *شہید سلیمانی شہید قدس ہیں؛ شہید قدس ہیں، شہید قدس ہیں* آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ قدس کی ریلی میں جانے سے کیا ہوگا۔؟ کیا ہمارے جانے سے فلسطین آزاد ہو جائے گا؟ ایسے تمام لوگوں کے لیے مدافعانِ حرم شہید ساجد کی داستان قابل مطالعہ ہے، جو زینبیون کے سب سے کم عمر شہید تھے۔
شہید ساجد فرسٹ ائیر کے طالب علم تھے، جب اُنہیں معلوم ہوا کہ نواسی رسول کو ایک بار پھر اسیر کر لیا گیا ہے، آپ اپنا شرعی فریضہ سمجھتے ہوئے سیدہ زینب سلام علہیا کے حرم کی حفاظت پر گئے۔ آپ نے فقط حرمِ سیدہؑ کی حفاظت تک خود کو محدود نہ کیا بلکہ واپس آکر قدس کی ریلیوں میں شرکت کے لیے انتظامی امور میں بھی پیش پیش رہے۔ جب شہید کی والدہ نے شکوہ کرنا چاہا کہ آپ ابھی سوریا سے لوٹے ہیں، ریلی میں نہ جائیں تو بی بی زینبؑ کے اس حقیقی سپاہی نے کیا خوبصورت جملہ کہا کہ *فقط دفاع سوریا میں نہیں ہے، بلکہ جہاں جہاں مظلومین ہیں، چاہے وہ شام میں ہوں، فلسطین میں ہوں، یمن میں ہوں یا پاکستان میں، اُن سب کی حمایت اور اُن کا دفاع واجب ہے۔* مدافعین حرم کے اس کم عمر شہید کا جملہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے، جو بلاوجہ کی عذر خواہی کرتے ہیں۔ مدافعین حرم اور شہید قدس نے اپنا فریضہ ادا کیا اور آج وہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ کاش ہم اپنی ذمہ داریوں سے نہ بھاگے ہوتے۔ اپنے ذاتی اختلافات کو مکتب پر قربان کر دیتے تو شاید بیت اول کی آزادی میں جاری سالوں کی یہ کوششیں جلد رنگ لے آتیں۔
عالمی یوم قدس کے موقع پرہندوستان ، پاکستان ، کشمیر میں ریلیاں اور آن لائن پروگرام منعقد
عالمی یوم قدس کے موقع پر فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی اور اظہار یکجہتی کے سلسلے میں ہندوستان ، پاکستان ، کشمیر ، افغانستان اور دیگر اسلامی ممالک میں ریلیاں اور آن لائن پروگرام منعقد کئے گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مجلس علماء ہند نے آن لائن احتجاجی پروگرام منعقد کیا ، پروگرام کے شرکاء نے فلسطینیوں پر اسرائیل مظالم کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے بعض اسلامی اور عرب ممالک کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ادھر کشمیر کے مختلف شہروں میں بھی علماء اور دانشوروں نے یوم قدس کے موقع پر عوام کولائن پروگرام میں فلسطین میں ہونے والے اسرائیل مظالم سے آگاہ کیا ۔ کشمیر کے ضلع کرگل میں عوام نے خود جوش ریلی نکالی اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی اور فلسطین کی فتح کے سلسلے میں دعا کی۔ ادھر پاکستان کے مختلف صوبوں اور شہروں میں بھی عالمی یوم قدس کی مناسبت سے ریلیاں اور آن لائن پروگرام منعقد کئے مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے پاکستان کے تمام شہروں میں پروگرام منعقد کئے گئے۔ لاہور ، اسلام آباد، کراچی اور پشاور میں پاکستانی شہریوں نے فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا اور اسرائیل، امریکہ اور ان کے اتحادی عرب حکمرانوں کی گھناؤنی سازشوں کی بھر پور الفاظ میں مذمت کی۔ ادھر افغانستان، ترکی، شام، لبنان، فلسطین، یمن اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یوم قدس انسانی، مذہبی اور اخلاقی ہمدردی کے تحت منایا گيا۔
ایران کے روحانی پیشوا رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالمی یوم قدس کی مناسبت سے آن لائن خطاب میں اسرائیل کے اضمحلال اور زوال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسرائیل کے زوال کا آغاز ہوگيا ہے جس کا سلسلہ کسی وقفہ کے بغیر جاری رہےگا۔
دوسری طرف حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ فلسطینی اپنے حقوق کے حصول اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے جد وجہد میں مصروف ہیں اور ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
فلسطینیوں نے کبھی بھی اپنی سرزمین سے صرف نظر نہیں کیا بلکہ وہ اپنے وطن اور اپنے گھروں کی واپسی کے سلسلے میں بیشمار قربانیاں پیش کرچکے ہیں اور قربانیاں پیش کررہے ہیں، اور فلسطین کے موجودہ حالات اس بات کے گواہ ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ فلسطینی اتحاد، یکجہتی ، استقامت اور پائداری کی صورت میں اپنے اہداف تک پہنچ جائیں گے کیونکہ آج اسرائيلی حکومت داخلی بحران کا شکار ہے اور اسرائیل کی اندرونی سطح پر تباہی کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایران اسلامی مزاحمتی محور میں طاقتور ملک ہے جس نے خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کردیا ہے۔