
سلیمانی
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔
"بے شک اللہ اور اس کے فرشتے بنی ؐ پر درود بھیتجے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اس پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو۔"(سورہ الاحزاب:۳۳۔۵۶)
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات
انسان کی ایسی باطنی خصوصیات جو عادات میں بدل جائیں، انہیں اصطلاح میں خُلق کہتے ہیں۔ خُلق کا مادہ (خ،ل،ق) ہے اگر لفظ خ کے اوپر زبر پڑھیں، یعنی خَلق پڑھیں تو اس کے معنی ہیں ظاہری شکل و صورت اور اگر خ پر پیش پڑھیں یعنی خُلق پڑھیں تو باطنی اور داخلی و نفسانی شکل و صورت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاََ اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں انسان خُلق و خَلق دونوں اعتبار سے نیک ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ظاہری صورت بھی اچھی ہے اور باطنی صورت بھی، جس طرح انسانوں کی ظاہری شکل و صورت مختلف ہوتی ہے، اسی طرح باطنی شکل و صورت میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اخلاق انسانی زندگی کا جوہر ہے۔
اچھی عادات کی اہمیت
اگر ایک انسان میں اخلاق یعنی اچھی عادات نہیں تو گویا وہ کچھ بھی نہیں۔ آج معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ اخلاق سے دوری ہے۔ معاشرے میں بے راہ روی کی وجہ بھی اخلاقی بحران ہے۔ انسان جب تک خود کو اخلاقی حوالے سے بہتر نہیں بنائے گا، اس وقت تک معاشرہ بہتری کی طرف نہیں بڑھے گا۔
نبی اکرمﷺ کی عادات
انسانی شخصیت اپنی عادات سے پہچانی جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات یعنی اخلاقِ حسنہ کے بارے میں قرآن مجید کی گواہی موجود ہے: اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ ’’بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔‘‘ قرآنی شہادت کے بعد تخلیق کائنات کا سبب حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نورانی ارشاد اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق۔ یعنی ’’میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘ دوسری روایت میں حُسْنَ الْاَخْلَاق کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی کائنات کی سب سے عظیم ہستی کو مبعوث ہی اخلاق کے سدھار کیلئے کیا گیا ہے۔
ہماری عادات اور نبی ؐ کا اسوہِ حسنہ
آج کا ہمارا اسلامی معاشرہ اکثر و بیشتر اخلاق ِنبوی سے خالی اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عاری ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ جس نبیﷺ کا کلمہ پڑھ کر ہم مسلمان ہوئے ہیں، اُسی کی سیرت اور اخلاق سے ہم اجنبی کیوں ہیں؟ ہماری اصل مشکل یہاں ہے کہ ہم زبان سے جس کی رسالتﷺ کی گواہی دیتے ہیں، عملاً اُس کی تعلیمات کی پرواہ نہیں کرتے۔ چنانچہ جتنا ہم اپنے نبیﷺ کے اخلاق سے دور ہوتے جا رہے ہیں، اتنا ہی ہم تنزل کر رہے ہیں۔ سوچئے تو سہی کہ جس ہستی کا نام لینے سے انسان پاک ہو جاتا ہے (کافر اگر کلمہ پڑھے تو پاک ہو جاتا) تو ایسی ہستی کی سیرت و اخلاق پر عمل سے انسان کہاں پہنچ سکتا ہے۔۔۔؟؟؟ آئیے ہم فرموداتِ نبوی ؐ سے عاداتِ نبوی ؐ کو سمجھنے اور انہیں اپنانے کیلئے رہنمائی لیتے ہیں۔
فرموداتِ نبوی سے رہنمائی
روایت میں ہے کہ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَحْسَنَ النَّاسِ خُلْقًا "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انسانوں سے اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے۔" راوی بیان کرتا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلْقِ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتً اَنْ یطلع علیہ النَّاسُ۔ (مسلم) یعنی ’’نیکی اخلاق و کردار کی اچھائی کا نام ہے اور گناہ وہ ہے، جو تیرے دل میں خلش پیدا کرے اور تو اس بات کو ناپسند کرے کہ لوگ اس سے آگاہ ہوں۔‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ وہ کیا چیز ہے، جو کثرت سے لوگوں کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنے گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تَقوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلْقِ یعنی "خدا خوفی اور حسن خلق۔" پھر عرض کیا گیا کہ وہ کیا چیز ہے، جو لوگوں کو کثرت سے جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گی۔ فرمایا: الْفَمُ وَالْفَرْجُ یعنی "منہ اور شرمگاہ" (ترمذی) ایک اور روایت میں یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلُقًا (ترمذی) یعنی ’’مومنوں میں سے زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں، جو ان میں سے اخلاق کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘
عاداتِ نبویؐ اپنانے کا ثمر
مندرجہ بالا ارشادات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اخلاق کی پاکیزگی اور کردار کی اچھائی دراصل ایمان کی پختگی اور خدا خوفی کا ثمر ہے اور دراصل یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایمان کے بغیر اخلاقی پاکیزگی کا اور کردار کی اچھائی کے بغیر خدا ترسی اور خدا خوفی کا تصور بے معنی ہے۔ اسی حسنِ خلق کی بدولت مومن کو اطمینانِ قلب کی عظیم نعمت حاصل ہوتی ہے، اور اس کا یہی اطمینانِ قلب اس کو سیرت و کردار کی وہ عظمت عطا کرتا ہے کہ اس کے بعد نفس کی کوئی ترغیب، شیطان کی کوئی تحریک، دنیا کی کوئی تحریص اور اقتدارِ باطل کی کوئی دھمکی اس کو راہِ راست سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
ایک غلط فہمی
اَخلاق سے متعلق ایک سنگین غلطی اور بڑی غلط فہمی جس میں بعض لوگ مبتلا ہیں، وہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں نے صرف رحم و رأفت اور تواضع و انکساری کو پیغمبرانہ اخلاق کا مظہر سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ اخلاق یعنی اچھی عادات کا تعلق زندگی کے تمام پہلوؤں اور گوشوں سے ہے۔ دوست و دشمن، عزیز و بیگانہ، چھوٹے بڑے، مفلسی و توانگری، صلح و جنگ، گرفت و مؤاخذہ، عفو و درگزر اور خلوت و جلوت، غرض ہر جگہ اور ہر مورد تک دائرہ اخلاق کی وسعت ہے۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے والوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقام لینا احادیثِ مبارکہ میں صراحتاً موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگرچہ اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا، لیکن اگر کسی نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کیا اور حدودِ اسلام سے تجاوز کیا تو ضرور اسے کیفرِ کردار تک پہنچاتے تھے۔ چنانچہ صحیحین میں روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی بات میں کسی سے انتقام نہیں لیا، البتہ جس چیز کو خدا تعالیٰ نے حرام کیا ہے، اگر اس کو حلال کیا گیا تو آپ ضرور انتقام لیتے تھے۔
یہی مضمون مسلم میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کسی چیز کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، حتی اپنے خادم کو بھی، مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی راہ میں جہاد کرتے (تو اپنے ہاتھ سے دشمنوں کو مارتے تھے) اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی چیز سے (تکلیف) پہنچتی تو آپ اس کا انتقام نہ لیتے تھے۔ مگر جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کی حرام کردہ چیز کا ارتکاب کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی سزا ضرور دیتے تھے۔ صاحب بخاری نے اپنی صحیح میں ’’باب ما یجوز من الغضب والشدۃ لأمر اللّٰہ‘‘ کے عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے۔ محدثین تحریر فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لوگوں کی اذیت پر صبر کرنا اور اپنی ذات کے لئے ان سے انتقام نہ لینا اور ان سے شفقت اور نرمی والا برتاؤ کرنا اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ میں شامل تھا، تاہم دین اور شریعت اور اللہ کے احکام کے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رعایت نہیں فرماتے تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اللہ کے دشمنوں کفار کے ساتھ سخت برتاؤ کا حکم دیا۔ لہذا اخلاق و سیرت کے عناوین کو سمجھنا بھی ایک حقیقی عاشق رسول کی ذمہ داری ہے۔
نتیجہ:
مومن جب عاداتِ نبویﷺ کو اپنا لیتا ہے تو اس کا اخلاق جلالی پہلو بھی رکھتا ہے اور جمالی بھی۔ جلالی پہلو کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے کہ مومن مصارفِ زندگی میں کردار کی عظمت و صلابت کا مظاہرہ کرتا ہے اور جمالی پہلو یہ ہے کہ مومن اہل ایمان کے درمیان محبت و رافت کا ایک پیکر ہوتا ہے۔ اس کی گفتگو، اس کی نشست و برخاست، اس کی چال ڈھال اور اس کا باہمی میل جول ایک خاص قسم کے حسن و لطافت اور نفاست و ملائمت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی اخلاق حسنہ سے بھری پڑی ہے، جسے اپنانے کی ضرورت ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے ہم خود اخلاق نبویؐ سے مزین ہوں اور پھر دوسروں کو بھی اپنے عمل سے اس کی دعوت دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طرز عمل کو اپنے کردار میں ڈھالنے کا نام ہی عشقِ رسول ؐہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کو اپنانے کے بعد ہی ہمارے لیے اخلاقیات کی بلند اور دشوار گزار گھاٹی کو سر کرنا آسان ہو جائے گا اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کے ذریعہ سعادت مند زندگی اور قرب خداوندی کا حصول ممکن ہوگا۔
منابع:
قرآن مجید/ اخلاق شبر/ کتاب بخاری شریف/ مسلم شریف/ ترمذی شریف
تحریر: سید ذہین نجفی
حضرت محمد (ص) کی 110 اخلاقی خصوصیات
1۔ آپ ہمیشہ سلام میں پہل کرتے تھے۔
2۔ بڑوں کا ہمیشہ احترام اور چھوٹوں پر ہمیشہ شفقت کیا کرتے تھے۔
3۔ مسافروں کا ہمیشہ خیال رکھا کرتے تھے۔
4۔ راستہ چلتے وقت وقار و متانت سے قدم بڑھاتے تھے۔
5۔ آپ کی نگاہیں ہمیشہ جھکی رہتی تھیں۔
6۔ جب بھی کسی سے ہاتھ ملاتے تو جب تک دوسرا اپنا ہاتھ نہ کھینچتا تو اس وقت تک آپ اس کا ہاتھ تھامے رکھتے تھے۔
7۔ لوگوں سے اس طرح گھل مل کر رہتے تھے کہ ہر ایک یہ گمان کرتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے زیادہ مجھے چاہتے ہیں۔
8۔ ہمیشہ سکوت کو اپنا وطیرہ بناتے تھے اور ضرورت بھر سے زیادہ گفتگو کرنے سے اجتناب فرماتے تھے۔
9۔ جب بھی کسی سے ہم کلام ہوتے تو مکمل اس سے روبرو ہو کر گفت و شنید کیا کرتے تھے۔
10۔ جب بھی کسی سے محو گفتگو ہوتے تو اس کی باتوں کو غور سے سنا کرتے تھے۔
11۔ جب بھی کسی کے ساتھ بیٹھ جاتے تو جب تک وہ اپنی جگہ سے نہ اٹھتا، اس وقت تک آپ اس کے احترام میں بیٹھے رہتے تھے۔
12۔ آپ جہاں کہیں بھی تشریف لے جاتے تو ہمیشہ آپ کی زبان پر ذکر خدا ہوتا تھا اور جب بھی آپ کسی کے ہاں جاتے تو تین مرتبہ اجازت طلب کرتے تھے۔
13۔ آپ جب بھی کسی اجتماع میں تشریف لے جاتے تو دروازے کے قریب تشریف فرما ہوتے تھے۔
14۔ جب بھی آپ کے ہاں کوئی مہمان آتا تو آپ اسے خدا حافظی کرنے دروازے تک جایا کرتے تھے۔
15۔ آپ جب بھی جہاد کے لئے ایک گروہ کو بھیجتے تو ان میں سے ایک شخص کو اس لشکر کا سربراہ معین کرتے اور ان کے ساتھ اپنے کسی قابل اعتماد شخص کو بھی حالات سے آگاہ کرنے کے لئے بھیجتے تھے۔
16۔ آپ اپنے لیے کسی خاص جگہہ کا چناؤ کبھی بھی نہیں کرتے تھے۔
17۔ آپ دوسرے لوگوں کو بھی اجتماعی مقامات پر اپنے لئے خاص جگہہ کا چناؤ کرکے رکھنے سے سختی سے منع کرتے تھے۔
18۔ لوگوں کی موجودگی میں کبھی بھی آپ لیٹتے تھے۔
19۔ اکثر آپ قبلہ رو ہوکر تشریف فرما ہوتے تھے۔
20۔ آپ کے سامنے اگر کسی سے غلطی سے کوئی برا کام سرزد ہو جاتا تو آپ اسے نادیدہ قرار دیتے تھے۔
21۔ کسی کی غلطی کو کبھی بھی کسی اور کے سامنے نہیں دہراتے تھے۔
22۔ کسی سے باتیں کرنے میں اگر بے ادبی ہو جاتی تو آپ اس کا مؤاخدہ نہیں کرتے تھے۔
23۔ آپ کسی سے بھی جھگڑا فساد نہیں کرتے تھے۔
24۔ فضول اور لایعنی باتوں کے علاوہ آپ کسی کے کلام کو بھی قطع کلامی نہیں کرتے تھے۔
25۔ جب بھی آپ سے کوئی سوال ہوتا تو آپ اس کے جواب کو چند بار تکرار فرماتے تھے، تاکہ سننے والے کو جواب کے سننے میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
26۔ جب بھی کسی کی غلط بات آپ کی کانوں سے ٹکراتی تو آپ اس کا نام لیکر ملامت کرنے کے بجائے فرماتے تھے کہ بعض لوگوں کو کیا ہوا ہے، معلوم نہیں کہ ایسا کہتے ہیں۔
27۔ آپ کا رہن سہن اکثر غریبوں کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔
28۔ آپ اکثر و بیشتر غریبوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے۔
29۔ غلاموں اور کنیزوں کی دعوت کو آپ کبھی نہیں ٹھکراتے تھے۔
30۔ کوئی بھی جب آپ کو معمولی سا بھی تحفہ دیتا تو آپ اسے قبول فرماتے تھے، خواہ ایک گھونٹ دودھ ہی کیوں نہ ہو۔
31۔ سب سے زیادہ صلہ رحمی بجا لایا کرتے تھے۔
32۔ اپنے رشتہ داروں کو دوسروں پر برتری دیئے بغیر ان کے ساتھ نیکی کیا کرتے تھے۔
33۔ اچھے کام انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اور برائی کا ارتکاب کرنے والوں کو اس کام سے روکتے تھے۔
34۔ لوگوں کے دین و دنیا کی اصلاح سے متعلق امور ان کے لیے بیان فرماتے تھے اور حکم دیتے تھے کہ حاضرین غائبین تک میری ان باتوں کو پہنچا دیں۔
35۔ جب بھی کوئی اپنے کیے پر معذرت چاہتا تھا تو آپ اسے قبول فرماتے تھے۔
36۔ آپ کسی کو بھی حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔
37۔ آپ نے کبھی کسی کی بدگوئی نہیں کی۔
38۔ آپ نے کبھی کسی کو غلط نام سے نہیں پکارا۔
39۔ آپ کے ارد گرد بیٹھنے والوں میں سے کسی کے بارے میں بھی آپ نے نفرین نہیں کیں۔
40۔ لوگوں کی عیب جوئی سے آپ ہمیشہ اجتناب کرتے تھے۔
41۔ دوسروں کی کوتاہیوں کو صبر و تحمل سے برداشت کرتے تھے۔
42۔ بدی کا بدلہ اچھائی سے دیا کرتے تھے۔
43۔ مریضوں کی عیادت کیا کرتے تھے، خواہ اس امر کے لیے آپ کو مدینے کی دور ترین جگہہ تک ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
44۔ اپنے اصحاب سے مشاورت کیا کرتے تھے، انہیں اس امر کی تاکید بھی کرتے تھے اور آخر میں آپ اپنے فیصلے پر عمل کرتے تھے۔
45۔ اپنے ساتھیوں کے درمیان میں ایسے تشریف فرما ہوتے تھے کہ جب بھی کوئی اجنبی وہاں پہنچتا تو وہ نہیں پہچان سکتا تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے کون ہیں۔
46۔ اپنے عہد و پیمان کو ہمیشہ پورا کیا کرتے تھے۔
47۔ جب بھی کسی فقیر کی مالی مدد کرتے تو کسی کے حوالے کرنے کے بجائے آپ خود اپنے دست مبارک سے عطا فرماتے تھے۔
48۔ اگر نماز کے دوران میں کوئی آپ سے ملنے آتا تو آپ نماز کو مختصر کیا کرتے تھے۔
49۔ دوران نماز میں اگر کسی بچے کے رونے کی آواز آجاتی تو آپ نماز کو مختصر کیا کرتے تھے۔
50۔ جب بھی کسی بچے کو آپ کے پاس دعا کی خاطر یا نام گزاری کے لئے لے آتے تو آپ ان کے احترام میں بچے کو گود میں لیتے اور بسا اوقات بچہ آپ کی گود میں بول و براز کرتا تو اس کے گھر والوں کو اسے ڈانٹنے سے منع کرتے اور ان کے احترام میں ان کے واپس جانے کے بعد آپ اپنے لباس کو پاک کرتے تھے۔
51۔ آپ کو جب بھی کسی پریشانی کا سامنا ہوتا تو فوراً مشغول عبادت ہو جاتے تھے۔
52۔ آپ کے نزدیک زیادہ عزیز وہ افراد تھے، جو دوسروں کے ساتھ زیادہ اچھائی کیا کرتے تھے۔
53۔ کوئی بھی شخص آپ کے ہاں سے مایوس ہو کر واپس نہیں لوٹتا تھا۔
54۔ آپ حکم دیا کرتے تھے کہ جن لوگوں کی حاجتیں مجھ تک کوئی پہنچانے والا نہیں، ان کی حاجتیں مجھ تک پہنچایا کرو۔
55۔ جب بھی کوئی سائل آپ کے پاس کوئی حاجت لے کر حاضر ہوتا تو آپ مقدور بھر اس کی مدد فرماتے، بصورت دیگر آپ اپنی دلنشین باتوں اور آئندہ اس کی مدد کرنے کی یاد دہانی کے ذریعے اسے خوش کرکے واپس لوٹاتے تھے۔
56۔ آپ جنگ کے لئے جاتے وقت سب سے آخر میں نکلتے تھے، تاکہ چلنے میں کمزور افراد کو اپنے ہمراہ لے جاسکیں۔
57۔ جب بھی آپ کسی سواری پر سوار ہوتے تو کسی اور کو پیدل آپ کے ہمراہ آنے سے منع کرتے تھے، یا اسے اپنے ہمراہ سواری پر سوار کرتے، بصورت دیگر اسے حکم دیتے کہ جلدی آگے بڑھ کر اگلے پڑاؤ پر آپ کا انتظار کریں۔
58۔ جب بھی کسی نے آپ سے کسی چیز کا تقاضا کیا تو آپ نے اسے رد نہیں کیا، مگر یہ کہ اس کا یہ تقاضا غلط کام سے متعلق ہو۔
59۔ اچھے برتاؤ کے ذریعے برے لوگوں کو اپنی طرف جذب کر لیتے تھے۔
60۔ آپ کی زبان پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی، البتہ آپ کا قلب مبارک ہمیشہ خوف الہیٰ سے لبریز ہوتا تھا۔
61۔ آپ قہقہے سے ہمیشہ اجتناب کیا کرتے تھے۔
62۔ آپ مذاق بھی کرتے تھے۔ البتہ مذاق کے ضمن میں فضول باتوں سے اجتناب فرماتے تھے۔
63۔ کسی کا اگر نامناسب نام ہوتا تو اسے تبدیل کرکے آپ اس کے لیے اچھے نام کا انتخاب کیا کرتے تھے۔
64۔ آپ کا صبر و تحمل ہمیشہ غصے پر غالب رہتا تھا۔
65۔ دنیوی کسی چیز کے ہاتھ سے جانے سے نہ آپ پریشان ہوتے تھے اور نہ ہی آپ کو غصہ آتا تھا۔
66۔ آپ کے نزدیک سب سے منفور عادت جھوٹ تھی۔
67۔ خوشی اور غم دونوں حالتوں میں پل بھر کے لیے بھی آپ ذکر خدا سے غافل نہیں ہوتے تھے۔
68۔ آپ اپنے پاس درہم و دینار میں سے کوئی بھی چیز بچا کر نہیں رکھتے تھے۔
69۔ زمین پر تشریف فرما ہوتے، وہیں پر غذا تناول فرماتے اور زمین پر سویا کرتے تھے۔
70۔ لباس اور کھانے پینے والی چیزوں میں اپنے خدمت گاروں سے زیادہ کوئی چیز آپ کے پاس نہیں تھی۔
71۔ چھوٹی سی نعمت کو آپ بڑی نعمت سمجھتے تھے اور کسی بھی نعمت کی مذمت نہیں کرتے تھے۔
72۔ جو بھی کھانے پینے کی چیزیں آپ کے سامنے لائی جاتیں تو آپ بغیر کسی اعتراض و تمجید کے اسے تناول فرماتے تھے۔
73۔ دسترخوان پر جب آپ تشریف رکھتے تو اپنے سامنے سے غذا تناول فرماتے تھے۔
74۔ کھانے کے لئے دوسروں سے پہلے حاضر ہوتے اور سب سے آخر میں کھانے سے ہاتھ اٹھاتے تھے۔
75۔ جب تک بھوک نہ لگے، اس وقت تک آپ کچھ تناول نہ فرماتے اور مکمل پیٹ بھرنے سے پہلے آپ کھانے کو ترک کرتے تھے۔
76۔ آپ نے کبھی بھی دو طرح کے کھانے ایک ساتھ تناول نہیں فرمائے۔
77۔ حتی الامکان آپ اکیلے کھانا کھانے سے اجتناب کرتے تھے۔
78۔ کھانے کے بعد ہاتھوں کو دھوتے اور ہاتھوں کو چہرے پر ملتے تھے۔
79۔ آپ اپنے لباس اور جوتوں کو خود پیوند لگایا کرتے تھے۔
80۔ آپ اپنے دست مبارک سے بکریوں کا دودھ دوہتے اور اونٹوں کے پیروں کو رسی باندھتے تھے۔
81۔ جو بھی سواری فراہم ہوتی، اسی پر سوار ہوتے تھے۔
82۔ جہاں بھی جاتے، آپ اپنی عبا کو بچھا کر سوتے تھے۔
83۔ آپ اکثر سفید لباس زیب تن فرماتے تھے۔
84۔ جب بھی آپ نیا کپڑا زیب تن کرتے تو پرانا لباس غریبوں کو عطا فرماتے تھے۔
85۔ آپ اپنے سب سے اچھے لباس کو جمعے کے دن کے لیے مختص کرکے رکھتے تھے۔
86۔ کپڑے اور جوتے پہنتے وقت ہمیشہ داہنے جانب سے پہننا شروع کرتے تھے۔
87۔ بالوں کو گھنگریالہ حالت میں چھوڑے دیکھ کر آپ کراہت محسوس کرتے تھے۔
88۔ آپ ہمیشہ خوشبو استعمال کیا کرتے تھے اور آپ کا سب سے زیادہ خرچہ عطر خریدنے کا تھا۔
89۔ آپ ہمیشہ باوضو رہتے تھے اور وضو کرتے وقت مسواک کیا کرتے تھے۔
90۔ آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز تھی اور نماز کی حالت میں آپ اطمینان و سکون کا احساس کرتے تھے۔
91۔ ہر مہینے کی چودھویں، پندرھویں اور سولہویں کو آپ روزہ رکھا کرتے تھے۔
92۔ اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی بھی نعمت کو آپ بہت بڑی نعمت سمجھتے تھے۔
93۔ نہ کسی کی ملامت کرتے تھے اور نہ کسی کی خوشامد کرتے تھے۔
94۔ لوگوں کے عیبوں کے بارے میں جستجو کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔
95۔ کسی کو بھی حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔
96۔ کسی کو بھی غلط لقب سے نہیں پکارتے تھے اور بدگوئی سے بھی ہمیشہ اجتناب کرتے تھے۔
97۔ آپ نے ذاتی امور میں کسی سے انتقام نہیں لیا، مگر یہ کہ حق کی بے حرمتی کا خطرہ ہو۔
98۔ آپ اپنے اصحاب کے احترام اور ان کا دل مول لینے کے لئے انہیں کنیہ و القاب سے پکارتے تھے، جن کے لئے کنیہ اور لقب نہ ہو تو ان کے لئے کنیہ قرار دیتے تھے۔ اسی طرح بے اولاد خواتین کے لئے بھی کنیہ معین کرتے تھے، تاکہ ان کی دل شکنی نہ ہو۔
99۔ آپ اپنے اصحاب کی طرف دیکھنے میں بھی مساوات سے کام لیتے تھے۔
100۔ آپ اپنے اصحاب کے سامنے کبھی پاؤں پھیلا کر نہیں رکھتے تھے۔
101۔ جب بھی آپ کی اکلوتی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام آپ کے پاس تشریف لے آتیں تو آپ ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے۔ ابن عباس کی نقل کے مطابق آیہ تطہیر کے نزول کے بعد سے 9 مہینے تک آپ ہر پنجگانہ نماز کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے گھر کے پاس جا کر اپنی اہل بیت کو سلام کرنے کے بعد آیہ تطہیر کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ اپنے آخری وقت میں دو گراں بہا چیزیں امت کے پاس امانت چھوڑ گئے، جن میں سے پہلی قرآن مجید اور دوسری آپ کی اہل بیت ہیں۔ آپ نے ان دونوں سے متمسک رہنے، دونوں میں جدائی نہ ڈالنے اور قرآن و اہل بیت کی پیروی کرتے رہنے کی وصیت فرمائی۔
102۔ آپ حضرت امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنی گود میں بٹھاتے، ان سے پیار کرتے، ان کا بوسہ لیتے اور فرماتے کہ یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد گرامی ان سے بھی افضل ہیں، یہ دونوں دنیا میں میری خوشبو ہیں۔ جو بھی ان دونوں سے محبت کرے تو اس نے مجھ سے محبت کی ہے۔
103۔ گھریلو اوقات کو آپ نے تین حصوں میں بانٹ رکھا تھا، ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لئے، ایک حصہ اہل و عیال کے لئے اور ایک حصہ اپنی ذات کے لئے۔ پھر اپنی ذات سے مختص وقت میں سے آپ لوگوں کے لئے بھی وقت نکالتے تھے۔
104۔ پردے دار دوشیزاؤں سے بھی زیادہ آپ باحیا تھے۔
105۔ آپ امانت کو واپس لوٹاتے تھے، خواہ وہ سوئی کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔
106۔ رمضان المبارک میں جو کچھ آپ کے پاس ہوتا، اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے تھے۔
107۔ آپ ہر وقت آئینے یا پانی میں دیکھ کر بالوں میں کنگھی کیا کرتے اور جب بھی گھر والوں کے پاس یا اصحاب کے پاس جاتے تو آراستہ ہوکر جاتے تھے۔
108۔ پانی پیتے وقت داہنے ہاتھ میں پانی اٹھاتے، اسے تین گھونٹ کرکے پیتے اور ابتدا میں بسم اللہ اور آخر میں الحمد للہ کا ورد کرتے تھے۔
109۔ آپ جب بھی تین دن تک کسی برادر مؤمن کو نہ دیکھتے تو اس کا حال احوال دریافت کرتے، اگر وہ سفر پر ہو تو اس کے حق میں دعا کرتے، ورنہ اس سے ملنے جاتے۔ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرتے۔
110۔ آپ اللہ کے حضور آہ و زاری کرتے، نیک آداب اور مکارم اخلاق کے حصول اور بداخلاقی سے دور رکھنے کی دعا کرتے تھے۔
الغرض خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہر عمل ہمارے لئے بہترین اسوۂ حسنہ ہے اور آپ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب اور سرخرو ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں آپ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق اور آخرت میں آپ کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے، آمین
تحریر: ایس ایم شاہ
رہبر معظم انقلاب اسلامی کی بعض قیدیوں کی سزاؤں میں کمی اور عفو کی درخواست موافقت
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سےعام عدالتوں، انقلاب اسلامی عدالتوں ، فوجی اور خصوصی عدالتوں سے سزا پانے والے 3458 قیدیوں کی سزاؤں میں کمی اور عفو کی درخواست موافقت کی ہے۔
عدلیہ کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین محسنی اژہ نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے نام ایک خط میں درخواست کی تھی کہ قیدیوں کی سزاؤں میں کمی اور بخشش سے متعلق مرکزی کمیشن نے 3458 قیدیوں کو سزاؤں میں کمی اور بخشش کا مستحق قراردیا ہے ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بنیادی آئین کی دفعہ 110 کی شق 11 کے تحت اس درخواست کو منظور کرلیا۔
ایرانی صدر کا عید میلاد النبی (ص) کی مناسبت سے اسلامی ممالک کے سربراہان کو تہنیتی پیغام
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابرہیم رئیسی نے عید میلاد النبی (ص) اور حضرت امام جعفر صادق (ع) کی ولادت باسعادت اور ہفتہ وحدت کی مناسبت سے اسلامی ممالک کے سربراہان اور تمام مسلمانوں کو مبارکباد کا پیغام ارسال کیا ہے۔ ایرانی صدر رئیسی نے اپنے پیغام میں پیغمبر اسلام (ص) کی سیرت کو نمونہ عمل بنانے اور اسلامی مشترکات پر عمل کرنے کے سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی ممالک کے سربراہان کو پیغمبر اسلام (ص) کی سیرت پر عمل کرکے اسلام کی سرافراز اور سربلندی کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔
تہران میں 35 ویں عالمی اسلامی وحدت کانفرنس کا آغاز
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئيسی کی موجودگي میں تہران میں 35 ویں عالمی اسلامی وحدت کانفرنس کا آغاز ہوگيا ہے۔ تہران میں 35 ویں عالمی اسلامی وحدت کانفرنس میں 52 اسلامی ممالک کے علماء اور دانشور شریک ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 35 ویں عالمی اسلامی وحدت کانفرنس " اسلامی اتحاد، صلح اور عالم اسلام میں تفرقہ اور تنازعات سے پرہیز" کے عنوان سے منعقد ہورہی ہے۔
اسلامی وحدت کانفرنس پارسیان آزادی ہوٹل میں ہورہی ہے۔ عالمی اسلامی وحدت کانفرنس میں 52 ممالک کے علماء اور دانشور حضوری اور آن لائن شریک ہیں ۔ عالمی اسلامی وحدت کانفرنس کا سلسلہ 19 اکتوبر سے لیکر 24 اکتوبر تک جاری رہےگا۔
عالمی اسلامی وحدت کانفرنس میں 39 ممالک سے 514 تقریریں مختلف موضوعات پر پیش کی جائیں گی ، جن میں اسلامی اخوت اور دہشت گردی سے مقابلہ اور تفرقہ و تنازعات سے پرہیز کے موضوعات بھی شامل ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں نبی آخر الزمان ﷺ کے یومِ ولادت کا جشن مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق آج کے دن کا آغاز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 31 جبکہ صوبائی دارالحکومتوں لاہور، پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں 21، 21 توپوں کی سلامی سے ہوا۔
اس موقع پر مساجد میں دین اسلام کی سر بلندی، مسلم امہ کے اتحاد، یکجہتی، ترقی و فلاح کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔
میلاد مصطفیٰ ﷺ کے سلسلے میں حکومتی اور مذہبی تنظیموں، میلاد کمیٹیوں اور لوگوں کی جانب سے جلسے جلوس، سیرت النبی ﷺ کانفرنسز، سیمینار سمیت مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں علما، آئمہ حضرات مساجد میں سیرت النبی ﷺ اور حیات طیبہ پر روشنی ڈال رہے ہیں۔
رحمت اللعالمین ﷺ کی ولادت کے دن کی خوشی میں گھروں، دفاتر، مساجد، پارکس، تفریحی مقامات، گلیوں، مارکیٹوں، بازاروں، شاہراہوں کو سبز پرچموں، برقی قمقموں، آرائشی محرابوں، خوبصورت فلیکس سائنز، بینرز، جھنڈیوں اور دیگر زیبائشی اشیا سے دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔
اس سال وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر 3 سے 12 ربیع الاول تک مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر عشرہ رحمت اللعالمین ﷺ منایا جارہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال بھی وزارت مذہبی امور کی طرف سے سرکار دوعالم ﷺ کی سیرت طیبہ اور حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے کتب سیرت، کتب نعت، مقالات سیرت اور خواتین کے لیے مذہبی کتب کے مقابلے منعقد کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں اور فارن مشنز میں بھی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے سیرت کانفرنسز کا انعقاد کیا جائے گا۔
12ربیع الاول کے موقع پر ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے، علاوہ ازیں حکومت کی جانب سے غیر سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کی سزاؤں میں 3 ماہ کی تخفیف بھی کی گئی۔
علاوہ ازیں عیدمیلاد النبی ﷺ کی تمام تقاریب کے انعقاد کے موقع پر کووڈ 19 کے ایس او پیز کا مکمل طور پر خیال رکھا جائے گا جبکہ اس سلسلے میں سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات اور ٹریفک پلانز جاری کیے گئے ہیں۔
یمن میں میلن مارچ ریلی اور جشن میلادالنبی(ص)
المسیرہ نیوز کے مطابق انصاراللہ اور حوثی رہنما سیدعبدالملک بدرالدین الحوثی نے پیغام میں گذشتہ روز کہا تھا کہ امید ہے اس سال بھی لاکھوں یمنی جشن میلاد النبی کی ریلی میں شرکت کریں گے اور عشق نبی آخر الزمان میں اپنی عقیدت کا ثبوت دیں گے۔
رپورٹ کے مطابق صنعا میں جشن میلاد میدان «السبعین» میں منایا گیا اور ریلی نکالی گئی۔
پیر کے روز صبح ہی سے لاکھوں افراد میدان میں جمع ہوئے جو مختلف شہروں سے پرچموں کے ساتھ شریک تھےاور انہوں نے مختلف بینرز اٹھائے ہوئے تھے۔
جشن کمیٹیوں کے مطابق صعدہ شہر میں بھی خصوصی طور پر جشن کا اہتمام کیا گیا تھا جبکہ میدان «المیناء» جو صوبہ «الحدیده»، «بنی مشطاء» جنوب مغربی شهر «شفر» صوبہ «حجة»، صوبہ عمران کے اسپورٹس اسٹیڈیم، شهر الحزم صوبہ الجوف، میدان «هران» صوبہ ذمار، یونیورسٹی میدان «إب» اور شهر «یریم» میں بھی جشن میلاد کا اہتمام کیا گیا تھا۔
کمیتههای سازماندهنده این مراسم پرشکوه در استانهای تعز، المحویت، ریمة، مأرب، البیضاء، الضالع نیز مکانهای اختصاص یافته برای این گردهمایی مردمی را اعلام کردهاند و در خصوص آن اطلاعرسانیهای لازم را انجام دادهاند.
دارالحکومت کے مرکزی میدان الثورہ اسٹیڈیم میں مرکزی جشن کا اہتمام تھا جبکہ خواتین کی ریلی بھی اس موقع پر نکالی گیی۔
علما کرام نے میلاد نبی مکرم اسلام(ص) نے یمنی عوام سے جشن میں بھرپور شرکت کی دعوت کی تھی۔
علما کے بیان میں کہا گیا تھا کہ میلاد پیامبر اکرم(ص) وحدت امت اور فرقہ واریت سے دوری کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
علما نے بیان میں افغانستان میں داعش کے حملوں کی بھی شدید مذمت کی ۔
جشن میلاد نبی گرامی اسلام(ص) یمن میں اس حال میں بھرپور طریقے سے منایا جارہا ہے جہاں یہ غریب پسماندہ ملک چھ سالوں سے سعودی الائنس کے حملوں کا سامنا کررہا ہے اور شدید اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے۔/
علامہ ساجدعلی نقوی کی جانب سے عید میلاد اور ہفتہ وحدت پر تہنیتی پیغام
ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شیعہ رہنما علامہ سید ساجد علی نقوی نے عید میلادالنبی کی مناسبت سے 12 تا 17 ربیع الاول ملک بھر میں ”ہفتہ وحدت و اخوت“ منانے کا اعلان کرتے ہوئے عالم اسلام سمیت مسلمانان پاکستان کو مبارک باد پیش کی ہے اور کہا کہ حکم قرآنی اورسنت خاتم النبین کا تقاضا ہے کہ امت محمدی کی وحدت اور اتحاد کے لئے کام کیا جائے اور موجودہ پرفتن اور سنگین حالات میں پیغمبر گرامی کی سیرت سے درس لیتے ہوئے باہمی اختلافات اور فروعی و جزوی مسائل کے حل کے لئے امن‘ محبت‘ رواداری‘ تحمل اور برداشت کا راستہ اختیار کیا جائے تاکہ امت مسلمہ میںمسلکی تفریق و اختلافات کے خاتمے‘ امن و آشتی کے فروغ کا راستہ اپنا کر ہم خالق کائنات اور منجی بشریت‘ رحمت اللعالمین کی خوشنودی حاصل کرسکیں۔
انہوں نے تاکید کی کہ خاتم المرسلین اور حضرت امام جعفر صادق ؑکے میلا د کا جشن منانے کا سب سے بہتر اور موزوں طریقہ یہ ہے کہ امت مسلمہ بالخصوص اور عالم انسانیت بالعموم حضور اکرم اور خانوادہ رسالت کی سیرت اور فرامین پر عمل کرے اور اپنی انفرادی‘ اجتماعی‘ روحانی‘ دینی و دنیاوی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے حضور اکرم کے اسوہ حسنہ کو نمونہ عمل قرار دے۔
انکے پیغام میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم نے اپنی سیرت عالیہ کی شکل میں عمل کیلئے جو اثاثہ ہمارے لئے چھوڑا ہے اس پر صحیح معنوں میں عمل کرنا ہی ہمارے لئے باعث نجا ت ہے۔ قرآنی تعلیمات اور اسلام کی عملی تعبیر کے لئے ہمیں سیرت رسول اکرم سے استفادہ کرنا ہوگا ۔ بدقسمتی سے امت مسلمہ عملی طور پر ان تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہے جس کی وجہ سے مسلسل مصائب و آلام میں مبتلا ہے۔
علامہ ساجد نقوی نے عوام اور کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ ہفتہ وحدت کے دوران تمام مسالک اور مکاتب فکر کے مابین وحدت و یگانگت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لئے مشترکہ پروگرامز اور اجتماعات منعقد کریں اور سینکڑوں مشترکات کو بنیاد بناکر معمولی اور جزوی نوعیت کے اختلافی مسائل کو پس پشت ڈال کر ملت اسلامیہ کی وحدت کا عملی مظاہرہ کریں اور انسانیت دشمن عناصر پر واضح کردیں کہ وہ اتحاد و وحدت کو کسی صورت نقصان نہیں پہنچاسکتے۔
اسلامی حکومت کی ضرورت حدیث کی روشنی میں از امام خمینی
عقل، احکام اسلام کی ضرورت، رسول اکرمؐ اور امیر المومنینؑ کا رویہ اور آیات و حدیث کے مفاد سے، حکومت اسلامی کی تشکیل واجب اور لازم ہے۔ بطور نمونہ ایک روایت امام رضاؑ سے نقل کرتا ہوں۔ حدیث کا آخری حصہ ہمارےمطلب کے لئے مفید ہے اس لئے اس کا تذکرہ کرتا ہوں۔
خدا نے ’’اولی الامر‘‘ کیوں معین فرمایا؟
’’ اگر کوئی پوچھے کہ خدا نے ’’اولی الامر‘‘ کیوں معین فرمایا؟ جن کی اطاعت ہم پر واجب ہے۔ اس کا جواب یوں دینا چاہئے کہ بہت سی حکمتوں اور دلیلوں کے پیش نظر خدا نے ایسا کیا ہے، ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ لوگوں کو ایک طریقہ کا پابند کر دیا گیا ہے اور یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اس کے حدود و قوانین سے آگے نہ بڑھیں ورنہ مبتلائے فساد ہوجائیں گے۔ اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک فرد (یا قدرت) ان کے لئے امین و پاسبان نہ ہو، جس کا فریضہ ہو کہ لوگوں کو ان کے حقوق سے آگے نہ بڑھنے دیں۔ دوسروں کے حقوق پر کوئی ظلم و تعدی نہ کر سکے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو لوگ اپنی لذت و منفعت کے حصول کے لئے دوسروں پر ظلم سے باز نہیں آئیں گے۔
ایک دلیل یہ بھی کہ دنیا کہ دنیا کے مختلف فرقوں اور مذہبوں میں کسی بھی ملت یا مذہب یا فرقے کا وجود بغیر رئیس کے ممکن نہیں ہوا ہے (اس لئے مسلمانوں میں بھی ایک حاکم اور رئیس ہونا چاہئے) کیونکہ دین و دنیا کے امور میں ایسے شخص کا وجود ضروری ہے۔
اسی لئے خدا خدا وند عالم کی حکمت میں یہ بات نا جائز ہے اپنے بندوں کو بغیر رہبر اور سرپرست کے چھوڑ دے۔ کیونک خدا جانتا ہے کہ مخلوق کے لئے ایسا رہبر ہونا ضروری ہے جو دشمنوں سے جنگ کر کے آمدنی کو ان کے درمیان تقسیم کرے، ان کے جمعہ و جماعت قائم کرے، مظلوموں کے دامن تک ظالموں کے ہاتھوں کو نہ پہنچنے دیں۔ علاوہ بر ایں
رہبر و امام کے تعیین کا فلسفہ
خدا اگر مخلوق کے لئے امام، امین، رہبر اور حافظ معین نہ کرے تو ملت کہنہ ہوجائے، دین برباد ہوجائے، سنت اور اس کے احکام متغیر ہو جائیں، بدعتی لوگ دین میں اضافہ کر دیں، ملحدین کمی کر دیں۔ اور اس طرح کر دیں کہ دین مسلمانوں پر مشتبہ ہو کر رہ جائے، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ ناقص ہیں، کمال کے محتاج ہیں، اس کے علاوہ آپس میں اختلافات رکھتے ہیں، ان کے حالات ان کی خواہشیں الگ الگ ہیں۔
لہذا خدا اگر لوگوں کے لئے دین کا قیم اور محافظ معین نہ کرتا تو جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں لوگ فساد میں مبتلاء ہوجاتے، شریعتیں، سنن، احکام، ایمان سب میں تغیر ہوجاتا اور اس میں پوری مخلوق کا فساد ہی فساد ہوتا۔
کتاب: حکومت اسلامی، ص ۲۷ سے ۲۸، امام خمینی رح؛ سے اقتباس