
سلیمانی
ایران نے ثابت کردیا ہے کہ وہ قابل اعتماد ہمسایہ ملک ہے
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قطر کے وزير خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثآنی تہران کے دورے پر ہیں ، جہاں اس نے ایران کے نئے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ملاقات اورگفتگو کی ۔ اس ملاقات میں آیت اللہ رئیسی نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں قراردیا۔
ایران کے نئے صدر نے قطر کو ایران کا برادر اور دوست ملک قراردیتے ہوئے کہا کہ قطر ایران کا ہمسایہ ملک ہے اور ایران ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو مضبوط بنانے کی پالیسی پرگامزن ہے ۔ آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ ایران نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے لئے بہترین اور قابل اعتماد ہے۔
آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ ایران ہمسایہ ممالک کی سلامتی، ترقی و پیشرفت کا خواہاں ہے۔ قطر کے وزیر خآرجہ نے بھی اس ملاقات میں آیت اللہ رئیسی کو ایران کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی۔ قطر کے بادشاہ کا سلام بھی پیش کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط اور مستحکم بنانے پر زوردیا۔
حج اتحاد بین المسلمین کا عملی نمونہ
مقدمہ:
اسلام کی تمام تعلیمات اور احکام خواہ وہ عبادی ہوں یا اجتماعی، سب کے گونا گوں آثار اور فلسفے بیان کئے گئے ہیں۔ اسلام شناس افراد ہر دور میں ان تعلیمات کی آفاقیت اور ان کے ہماری زندگی پر اثرات سے بحث کرتے آئے ہیں۔ مثلاً اسلام کے عملی احکام نماز، روزہ، زکواۃ، خمس ، حج اور دیگر اعمال اگر ایک طرف ان میں عبادی پہلو ہیں تو دوسری طرف ان میں امت مسلمہ کے لئے اتحاد و اتفاق کا بصیرت افروز درس پنہاں ہے۔ ان ہی مہم اور وسیع انسانی زندگی پر اثرات کے حامل اعمال میں سے ایک حج ہے، جو کہ بہت سی خصوصیات کا حامل ہے۔ نماز جماعت اور حج بیت اللہ اتحاد امت کا مثالی نمونہ ہیں، حج دنیا بھر سے حجاز مقدس میں آئے ہوئے مسلمانوں کی ہم رنگی اور ہم آہنگی کے ساتھ امت کی وحدت کا بہترین اظہار ہے۔ زیر نظر مضمون میں حج کے اسی پہلو سے متعلق ان زاویوں سے گفتگو کی گئی ہے۔
1۔ اتحاد کی اہمیت اسلام کی نگاہ میں
2۔ حج کا اجتماعی پہلو قرآن سنت کی روشنی میں
3۔ حج کے اعمال میں وحدت کے آثار
1۔ اتحاد کی اہمیت اسلام کی نگاہ میں:
اسلام کی تعلیمات میں سے ایک اجتماعی حکم اتحاد ہے، اسلام مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی طرف بساط سے زیادہ توجہ رکھتا ہے اور اسلامی وحدت، اسلام کے منجملہ عظیم اہداف میں سے ایک ہدف شمار ہوتی ہے۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے: ’’واعتصمو ابحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا۔‘‘ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔(۱) اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: ’’ولاتکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ماجآء ہم البینات۔‘‘ اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا، جو واضح دلائل آنے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے۔(۲) یہ دونوں آیات مسلمانوں کی آپس میں اخوت اور اتحاد و ہم بستگی پر محکم دلیل ہیں، جن میں ہر قسم کے تفرقے اور اختلاف سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین کی احادیث اور ان کی عملی سیرت بھی اس بات کی گواہ ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے آپس میں اتحاد کو بہت ہی اہمیت دی ہے۔ احادیث میں تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا اور امور مسلمین سے غفلت برتنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج شمار کیا گیا ہے۔
یہاں اس موضوع کی مناسبت سے پیغمبرؐ کی ایک حدیث نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، آپ ؐنے فرمایا: ’’ایہا الناس ان ربکم واحد واباکم واحد کلکم لآدم وآدم من تراب ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ولیس لعربی علی عجمی فضل الا بالتقوی۔‘‘ اے لوگو! تمہارا پروردگار ایک، تمہارا باپ ایک ہے، تم سب فرزند آدم ہو اور آدم خاک سے ہیں، بے شک تم میں سے محترم وہی ہے، جو زیادہ پرہیزگار ہے، عرب کو عجم پر فضیلت حاصل نہیں مگر تقویٰ کے ذریعے۔(۳) یہ جملے وحدت و یگانگی اور ہم بستگی کی عام دعوت ہیں، جن کو پیغمبر ؐنے آخری حج کے موقع پر ارشاد فرمایا۔ کیوں اس مقام کو اس اعلان کے لئے منتخب کیا، اس لئے کہ عرصہ قیامت تک جو اعمال حج برپا ہیں، لوگ آئیں اور اپنے عظیم پیغمبر ؐ کی وصیت کو یاد کریں اور اس سے آگاہ ہوں اور اختلاف و تفرقہ میں نہ پڑیں۔ یہاں دوستی و برادری کے عنوان سے ایک دوسرے سے صمیمیت کے ساتھ ہاتھ ملائیں، اختلاف و موانع کو ختم کریں۔ مادی و معنوی عہد و پیمان اور مبادلات کے ذریعے آپس میں تحریری فرمان (agrement) برقرار کریں۔
2۔ حج کا اجتماعی پہلو قرآن سنت کی روشنی میں:
حج کے ارکان و مناسک اور اس سلسلے میں حاجی کے اوپر عائد ذمہ داریوں پر نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حج صرف اللہ سے انسان کا معنوی رابطہ ہی نہیں بلکہ اس میں امت مسلمہ کے مسائل، ان کا حل اور کفر و استکبار کے خلاف اظہار نفرت اور آپس میں تعاون و ہمکاری کی طرف بہت توجہ دی گئی ہے۔ سرزمین وحی کا یہ سالانہ اجتماع ایک بیش قیمت موقع ہے، اس میں اسلامی دینا کو درپیش مشکلات و مسائل کو بیان کیا جاسکتا ہے۔ باطل کے مقابلے میں حق کی تقویت کی راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ اسلامی فرقوں کے پیروکار و خصوصاً علماء باہمی تبادلہ خیال کے ذریعے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے اور امت واحدہ کی تشکیل کی طرف قدم بڑھائے جاسکتے ہیں۔
حج کا سب سے اہم فائدہ اتحاد امت:
’’واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق۔لیشہدوا منافع لہم ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی مارزقہم من بہیمۃ الانعام فکلوا منہاواطعموالبائس الفقیر۔‘‘ اور لوگوں میں حج کے لئے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں، تاکہ وہ ان فوائد کا مشاہدہ کریں، جو انہیں حاصل ہیں اور خاص دنوں میں اللہ کا نام لو ان جانوروں پر جو اللہ نے انہیں عنایت کیے ہیں، پس ان سے تم لوگ خود بھی کھاؤ اور مفلوک الحال ضرورت مندوں کو بھی کھلاؤ۔(۴) اس آیت میں ’’لیشہدوا‘‘ اس مقصد کی علت ہے۔ یہ آیہ بطور صراحت اعلان کر رہی ہے کہ حج دنیوی اور اخروی منافع پر مشتمل ہے اور مسلمانوں کو چاہیئے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں، اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ مختلف ممالک سے آئیں اور ایک دوسرے سے آشنا ہوں اور ایک دوسرے کے مسائل، مشکلات اور کمزوریوں سے آگاہ ہوں اور ان کو دور کرنے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ یعنی ہر فائدہ شامل ہے، لیکن ان میں سے سب سے بنیادی فائدہ مسلمانوں کی قدرت و شان و شوکت کا عملی اظہار ہے، جس سے ان میں ایک ہی امت کا تصور ابھرتا ہے اور ایک ہی مرکز سے اپنے اخوت و بھائی چارگی اور آپس میں ہمدردی کا احساس اپنے اندر پیدا کرتے ہیں اور ہر قسم کے اختلافات کا عملاً انکار ہوتا ہے۔
مسلمانوں کا آپس میں تعاون:
’’وتعاونوا علی البر والتقوی ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان۔‘‘ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو۔(۵) یہ آیت بھی احکام حج کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہر قسم کے نیک کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ہر قسم کی برائی سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حج ایک اہم موقع ہے، جہاں مسلمان پوری دنیا کو امن و محبت کا گہوا رہ بنانے کے لئے ایک عالمی منشور مرتب کریں اور اس منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہر سال حکمت عملی حج کے مبارک ایام میں ہی بنائیں اور تمام مسلمانوں کو اپنی زبان میں وہ منشور پیش کریں اور مسلمان علماء و دانشوروں کو اس سلسلے میں ایک بھاری ذمہ داری سونپ دیں، تاکہ ہر ایک علاقے، شہر اور ملک میں اس کو اجراء کرنے اور اس کو ہر فرد تک پہنچانے کی کوشش کریں، جس طرح پیغمبر نے حجۃ الوداع میں ایک عالمی منشور مسلمانوں کو پیش کیا اور حاظرین کی ذمہ داری لگائی کہ وہ یہ پیغام غائبین تک پہنچائیں۔
استکبار جہاں کیخلاف اتحاد کا عملی اظہار:
’’وآذان من اللہ ورسولہ الی الناس یوم الحج الاکبران اللہ بریء من المشرکین ورسولہ فان تبتم فہو خیر لکم۔‘‘ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لئے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول بھی مشرکین سے بیزار ہیں اور پس اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔(۶) اسلام دشمن عناصر اور مشرکین سے اظہار نفرت کا بہترین موقع حج ہے، کیونکہ اس میں دنیا کے تمام مسلمان جمع ہو کر ایک باعظمت اجتماع برپا کرتے ہیں اور ایسا اجتماع دوسرے کسی فریضے میں ممکن نہیں اور یہ اجتماع مسلمانوں کا مشترکہ اور متحد طور پر خدا و رسول کے دشمنوں سے اظہار نفرت اور برائت کے لئے بہت اہم فرصت ہے۔ جس میں اجتماعی طور پر اسلام دشمن اور استکبار جہاں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی مرتب کرسکتے ہیں۔
سیرت پیغمبر ؐ اور ائمہؑ:
حجۃ الوداع جو پیغمبرؐ کا پہلا اور آخری حج تھا، جسے آپ نے فتح مکہ کے بعد اپنے اصحاب کے ہمراہ بجا لایا، اس حج کی خصوصیت اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ پیغمبرؐ نے اعمال حج کی شکل میں اسلام کی طاقت، مسلمانوں کی عظمت و قیادت کی اہمیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور تجلی روح توحید کو، اتحاد و ہمبستگی، استحکام و استواری، یکجہتی و ہمدلی، اخلاص و طہارت نفس اور تمام کام صرف خدا کے لئے انجام دئیے جانے میں بتایا، پیغمبر اسلامؐ نے اس حج میں تمام مسلمانوں کو یہ سبق دیا کہ کس طرح بکھرے ہوئے افراد سے ایک متحدہ طاقت وجود میں لائی جاسکتی ہے، صحیح و سالم قیادت کے سائے میں اہداف و مقاصد کو متحد کیا جاسکتا ہے۔ آپ نے اس حج میں مکہ و منیٰ اور عرفات کی میدانوں میں خطبات دیئے، اس میں سب سے بنیادی نکتہ مسلمانوں کے آپس کی اخوت و بھائی چارگی اور ایک دوسرے پر عائد ہونے والے حقوق اور فرائض کو ذکر کیا ہے۔
حج اور قیادت امت:
حج کے دوران مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے پیغمبر ؐ کی قیادت کا مشاہدہ کیا اور اعمال حج کی بجاآوری میں اور اس کے اہداف تک پہنچنے میں آپ کی قیادت کے کردار کو اچھی طرح درک کیا اور آپؐ نے اس عظیم اجتماع کے اختتام پر اپنے بعد ایک الہیٰ قیادت کا اعلان کیا اور اس کی اہمیت اس قدر ہے کہ امت کو متحد رکھنے اور ایک منزل اور ایک ہی ہدف کے حصول کے لئے ایک صالح قیادت ضروری ہے، کیونکہ قائد کے بغیر نہ حرم کی حرمت باقی رہے گی، نہ عرفات کی معرفت حاصل ہوگی، نہ مشعر میں شعور ہوگا، نہ منیٰ میں ایثار و فداکاری نظر آئے گی، نہ زمزم میں زندگی کی علامت ہوگی، نہ صفا میں صدق و صفا ہوگا اور پیغمبرؐ کا یہ عمل مسلمانوں کے لئے پیغام دیتا ہے کہ امت اپنے اس عظیم اجتماع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک صالح قیادت کا انتخاب کرے۔
حضرت علی ؑ حج سے متعلق اپنے کلمات میں بعض اسلامی قوانین کے فلسفہ کے بیان کے ضمن میں فرماتے ہیں: ’’والحج تقویۃ للدین۔‘‘ یعنی فلسفہ حج تقویت دین ہے۔(۷) حج کا مقصد یہ ہے کہ حلقہ بگوشانِ اسلام اطراف و اکناف عالم سے سمٹ کر ایک مرکز پر جمع ہوں، تاکہ اس عالمی اجتماع سے اسلام کی عظمت کا مظاہرہ ہو اور اللہ کی پرستش و عبادت کا ولولہ تازہ اور آپس میں روابط کے قائم کرنے کا موقع حاصل ہو۔ حج کے اجتماع سے مسلمانوں کے روابط مستحکم ہوتے ہیں، مزید مسلمانوں کا ایمان قوی ہوتا ہے، اس وسیلہ سے اسلام زیادہ قدرت مند ہوتا ہے۔ ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے: ’’لایزال الدین قائما ماقامت الکعبہ۔‘‘ جب تک کعبہ قائم و دائم ہے، اسلام بھی قائم و دائم ہے۔ یعنی جب تک حج زندہ و پائندہ ہے، اسلام بھی زندہ و باقی ہے۔ کعبہ اسلام کا مقدس پرچم ہے، مسلمانوں کی وحدت اور استقلال کا رمز و راز ہے۔
یہیں سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگ بغیر سمجھے بوجھے مکہ جائیں اور صرف ایک قسم کی خود بخود بغیر سمجھے بوجھے عبادتیں اور اعمال بجا لائیں، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ کعبہ کے پرچم تلے یعنی وہی گھر جو پہلی مرتبہ لوگوں کے درمیان خدائے یگانہ کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا، ایک قوم و ملت کی صورت میں ہم عزم، ہم رزم اور ہم بزم ہونے کے لئے جمع ہوں۔ اسلام کا اصل اور بنیادی شعار ’’توحید‘‘ ہے، کعبہ مرکز توحید ہے۔(۸) اس کے علاوہ ائمہ ؑ نے حج کے ایام میں امت کی بیداری، احیاء اسلام اور ظالموں سے مقابلہ اور امت کے اتحاد کی دعوت دی ہے، ان میں وہ عظیم خطبہ جو امام حسین ؑ نے منیٰ کی میدان میں اصحاب و تابعین کے درمیان حج کے دوران ارشاد فرمایا۔
ہشام بن حکم امام صادق ؑکے اصحاب میں سے ہیں، کہتے ہیں: میں نے امام ؑ سے فلسفہ حج اور طواف کعبہ کے بارے میں سوال کیا تو امام ؑ نے فرمایا: ’’خداوند عالم نے ان تمام بندوں کو پیدا کیا۔۔ اور دین و دنیا کی مصلحت کے پیش نظر ان کے لئے احکام مقرر کئے، ان میں مشرق و مغرب سے (حج کے لئے) آنے والے لوگوں کے لئے واجب قرار دیا، تاکہ مسلمان ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان لیں اور اس کے حالات سے باخبر ہوں، ہر گروہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں تجارتی سامان منتقل کرے اور پیغمبر ؐ کی احادیث و آثار کی معرفت حاصل ہو اور حجاج ان کو ذہن نشین کر لیں، ان کو کبھی فراموش نہ کریں(دوسروں تک پہنچائیں)(۹) امام ؑ کی یہ حدیث بتاتی ہے کہ حج کے علمی، اقتصادی پہلو ہیں اور موسم حج مسلمانان جہاں کے درمیان ایک نقطہ اتصال ہے، جس کے ذریعے ایک دوسرے کے حالات، دنیا کے حالات، پیغمبر کے آثار سے آگہی جو علماء و مفکرین کے ذریعے شرق و غرب میں نشر ہوتے ہیں۔
3۔ اعمالِ حج میں وحدت کے آثار:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، ان میں سے ایک حج ہے۔ حج اسلام کی وہ عظیم عبادی و سیاسی عبادت ہے، جس میں پورا عالم اسلام دنیا کے کونے کونے سے سمٹ کر ایک نقطہ پر جمع ہوتا ہے۔ تمام مسلمان ایک ہی رنگ، ایک ہی لباس پہنتے ہیں، سب ایک ہی لباس میں تلبیہ کہتے ہیں، ایک ہی روش پر طواف اور سعی بجا لاتے ہیں، تقصیر کرتے ہیں، عرفات، مزدلفہ اور منیٰ کے مناسک بجا لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت قاہرہ کے ذریعے سب کو ایک کر دیا ہے۔ اب یہاں سے مسلمانوں کا فریضہ شروع ہوتا ہے، جنہیں اللہ نے ایک انداز میں ایک محور پر جمع کر دیا ہو، ان کے دل بھی ایک دوسرے سے مل جانے چاہئیں اور ایک دوسرے کے لئے دھڑکنا چاہئیں، انہیں احساس ہونا چاہیئے کہ عالم اسلام میں جہاں مسلمان مشکلات کا شکار ہوں، گویا انہیں کے بھائی ہیں، جس دن حج کی اس روح کو مسلمانوں نے درک کر لیا، اس دن نہ صرف یہ زندہ عبادت ہو جائے بلکہ اللہ کی قدرت کے سایہ میں ہم بڑی طاقت سے بڑی طاقت بن جائیں گے۔(۱۰)
مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ حج کے اس پہلو کے احیاء کے لئے جدوجہد کریں اور حج کو صرف ایک رسم سے نکال کر اس روح اور حقیقت کو زندہ کریں اور عملاً مسلمانوں کے عالمی اتحاد کیلئے حج کے پلیٹ فارم کو موثر بنائے اور ان اوقات کو غنیمت شمار کرتے ہوئے عالم اسلام کے علماء، مفکرین، دانشور حج کے اس اہم پہلو پر اپنی توجہ کو مبذول کریں، تاکہ حج مسلمانوں کی تمام مشکلات و مسائل حل کرنے اور عالم استعمار کے خلاف امت کے اتحاد کا حقیقی مرکز بن سکے اور ان ایام میں ہر قسم کے ظلم و ستم اور اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا تدارک کیا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصادر و مراجع:
٭۔ البلاغ القرآن، شیخ محسن علی نجفی
۱۔ آل عمران، آیت۔۱۰۳
۲۔ آل عمران۔ ۱۰۵
۳۔ حج، ص۳۳ از شہید مطہری، ناشر مسجد جمکران قم
۴۔ الحج، ۲۷۔۲۸
۵۔ المائدہ۔۲
۶۔ التوبہ۔۳
۷۔ نہج البلاغہ،کلمات قصار نمبر۔۲۵۲ از مفتی جعفر حسین
۸۔ حج، ص ۳۷ از شہید مطہری
۹۔ ۱۱۰سوال و جواب، ناصر مکارم شیرازی
۱۰۔ سہ ماہی شعور اتحاد شمار ۔۵۔ستمبر، اکتوبر، نومبر۔ ۲۰۰۸ء
تحریر: سکندر علی بہشتی
ایرانی بحری کشتی سہند روسی بندرگاہ "سینٹ پیٹرزبرگ" پہنچ گئی
اسلامی جمہوریہ ایران کی بحری جنگی کشتی سہند روس کی بندگاہ "سینٹ پیٹرزبرگ" پہنچ گئی ہے، جہاں وہ روس میں منعقد ہونے والی بحری پریڈ میں شرکت کرےگی۔
۔ یہ پریڈ روسی بحریہ کی تشکیل کی سالگرہ کی مناسبت سے منعقد کی جارہی ہے۔ ایران کی دوسری بحری کشتی مکران پریڈ کی جگہ سے 25 میل کی دوری پر مستقر رہےگی۔ کیونکہ پریڈ کی جگہ پانی کی گہرائی کم ہے۔
آزاد کشمیر میں انتخابات کے لیے پولنگ کا سلسلہ جاری
پاکستان کے زیرانتظآم آزاد کشمیرمیں انتخابات کے لیے پولنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کی 45 نشستوں کے لیے 32 لاکھ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں جب کہ انتخابات میں 742 امیدوار حصہ لے رہے ہیں، پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔
ایران، 33 روزہ جنگ میں لبنانی مزاحمت کا سب سے بڑا حامی تھا
مہر خبررساں ایجنسی نے المنار کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کی اجرائی کونسل کے سربراہ سید ہاشم صفی الدین نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، لبنان پر اسرائیل کی مسلط کردہ 33 روزہ جنگ میں لبنانی مزاحمت کا سب سے بڑا حامی تھا۔ اطلاعات کے مطابق حزب اللہ کی اجرائی کونسل کے سربراہ نے کہا کہ ایران نے 33 روزہ جنگ میں لبنانی مزاحمت کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ شہید میجر جنرل سلیمانی نے 33 روزہ جنگ میں لبنان کی بھر پور حمایت کی ۔ انھوں نے اس جنگ میں اسرائیلیوں کو شکست دینے کے سلسلے میں شاندار کردار ادا کیا ۔ سید ہاشم صفی الدین نے کہا کہ جب میں نے حاج قاسم سلیمانی کو ٹیلیفون کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ میں لبنانی عوام کے ساتھ ہوں اور ان کا یہ جملہ میرے لئے بہت ہی مؤثر تھا۔ سید ہاشم صفی الدین نے کہا کہ حاج قاسم نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے لبنانی مزاحمت کی حمایت کے سلسلے میں تمام امکانات اور وسائل سے استفادہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس طرح 33 روزہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران نے اسرائیل کو شکست سے دوچار کرنے میں بنیادی اور اساسی کردار ادا کیا۔
افغانستان ایک، کھلاڑی متعدد
افغانستان امن و سلامتی کے جس بحران سے دوچار ہے، اس کے بارے میں کسی طرح کی پیشنگوئی ایک مشکل امر ہے۔ افغانستان میں سرگرم عمل اندرونی اور بیرونی کھلاڑیوں یا آج کی اصطلاح میں اسٹیک ہولڈروں نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس وقت افغانستان کے بارے میں تجزیہ کا اہم منبع فریقین کے بیانات ہیں۔ دوسری طرف بیانات میں محسوس تبدیلی خود ایک معمہ ہے۔ افغانستان کے اس وقت کے بڑے اور طاقتور فریق طالبان اپنے ماضی کے بیانیئے میں گرفتار ہیں، مرکزی قیادت اور مقامی قیادت میں موقف اور حکمت عملی کے حوالے سے نمایاں فرق محسوس ہو رہا ہے۔ تجزیہ نگار بھی مجبور ہیں کہ ان بدلتے روئیوں اور بیانیوں میں حقیقیت کو تلاش کرے۔ مثال کے طور پر روس کا موقف ایک طرف یہ ہے کہ طالبان ایران اور ہندوستان کو ساتھ لیکر چلیں تو دوسری طرف افغانستان میں روسی مندوب زامیر کوپوولوف نے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے آخری مراحل میں پہنچنے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر حملہ کرنے والی طالبان بیس برسوں کے بعد کسی بھی تصفیہ تک پہنچنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں موقف ہی میں نہیں ان کے خیالات کے بدلنے کی بات کر رہا ہوں۔ میں محسوس کرتا اور دیکھ رہا ہوں کہ وہ سیاسی تصفیہ کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیس سالوں کے بعد بہت سے طالبان رہنماء یقیناً جنگ سے تھک چکے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ موجودہ تعطل سے نکلنے کے لیے سیاسی حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ اسی دوران انہوں نے زور دے کر کہا طالبان کے چھوٹے گروہ مگر زیادہ "انتہاء پسند" جنگجو لڑائی روکنے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے، لیکن وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ جب تک کابل میں نئی حکومت کی تشکیل نہیں ہو جاتی اور صدر اشرف غنی کا عہدہ ختم نہیں ہو جاتا، تب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔
طالبان کے مرکزی ترجمان سہیل شاہین نے ایک انٹرویو میں طالبان کے موقف کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہوگی اور دونوں فریقین کے درمیان قابل قبول گفتگو کے بعد نئی حکومت تشکیل پائے گی، تب وہ مسلحانہ جدوجہد روکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم اقتدار پر قبضے میں یقین نہيں رکھتے، کیونکہ ماضی میں افغانستان میں اکیلے حکومت کرنے والے گروہ کی حکومت نہیں چل سکی، اسی لئے ہم اس کا اعادہ نہیں کرنا چاہتے۔ طالبان کے مرکزی ترجمان کا بیان اپنی جگہ، تاہم طالبان کے زیر قبضہ اضلاع سے بار بار ایسی مستند رپورٹس موصول ہوتی رہی ہیں کہ انہوں نے خواتین پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں، حتیٰ کہ اسکولوں میں آگ لگا دی۔ ایک لرزہ خیز ویڈیو سامنے بھی آئی ہے، جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ شمالی افغانستان میں طالبان نے گرفتار کیے گئے کمانڈوز کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
طالبان کے مرکزی ترجمان سہیل شاہین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ طالبان کمانڈروں نے جابرانہ اور سخت رویئے کے خلاف قیادت کے احکامات کو نظرانداز کیا ہے اور ان میں سے متعدد کو طالبان کے ایک فوجی ٹریبونل کے سامنے پیش بھی کیا گیا ہے اور انہیں سزا دی گئی ہے، تاہم انہوں نے سزاؤں کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا، چین کا لداخ میں گھسنا، بھارت کے طالبان کے ساتھ ناکام رابطے، طالبان کا ترکی کو کابل میں اپنی موجودگی کو محدود رکھنے کا مشورہ، پاکستان کا اپنی سرحدوں پر باڑ لگا کر مزید گشت بڑھانا، دوحا مذاکرات کا جاری رہنا، امریکہ کا پاکستان، ازبکستان و افغانستان پر مشتمل نیا ورکنگ گروپ تشکیل دینا اور روس کا اس سارے عمل میں خاموش کردار ادا کرنا خطے میں جاری نئی کشیدگی کا ایک واضح پیغام ہے۔ امریکہ خطے بالخصوص افغانستان کو اپنے مخالفین بالخصوص ایران و چین کو پلیٹ میں رکھ کر ہرگز نہیں پیش کرے گا، امریکہ کا بی پلان یقینی ہوگا، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے خدوخال کب سامنے آتے ہیں۔ امریکہ شکست خوردہ ہے، لیکن وہ اتنی آسانی سے خطے میں موجود اپنے مفادات کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
ایران اور پاکستان کے مابین بحری سیکورٹی کے تعاون کے فروغ پر تاکید
ارنا کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں تعینات ایرانی قونصل جنرل حسن نوریان نے کراچی میں ڈی جی پی ایم ایس اے ریئر ایڈمرل محمد شعیب سے ہونے والی ملاقات میں ان سے سمندری سلامتی کے شعبے میں تعاون پر تبادلہ خیال اور اس کا جائزہ لیا۔
اس ملاقات میں انہوں نے میری ٹائم سیکورٹی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل جنرل نے دوطرفہ تعاون ، امداد و نجات، سمندری تحفظ اور ماہی گیروں کی کشتیوں اور ان کے عملے کی واپسی جیسے امور پر تاکید کی۔
اس ملاقات میں، پاکستان کی میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی اور ایران کی بارڈر سیکورٹی فورس کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے جانے پر زور دیا گیا جس کا مسودہ سفارتی ذرائع سے پہلے ہی تیار کیا جاچکا ہے۔
انقلاب اسلامی نے ایرانی ساخت کی کورونا ویکسین کی دوسری ڈوز بھی لے لی
رہبر انقلاب اسلامی نے 23 جولائی بروز جمعہ ایرانی کورونا کی ویکسین کی دوسری ڈوز لگوا کر ساری غلط فہمیوں پر لگام لگا دی۔ انقلاب اسلامی کے دشمنوں نے ملکی ساختہ کورونا ویکسین کے خلاف جم کر پروپیگینڈے کئے اور عوام کو اس سے دور رہنے اور نہ لگوانے کا صلاح و مشورہ تک دے ڈالا لیکن رہبر انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر اپنے اقدام سے دشمنوں کی ساری سازشوں پر پانی پھیر دیا۔
مسلم بن عقیل،انقلاب کربلا کا ہر اول دستہ
واقعہ کربلا کا آغاز یزید کی اعلان جانشینی سے ہی ہوگیا تھا۔ معاویہ نے اپنی موت کے بعد یزید کو تخت خلافت کے لیے منتخب کردیا تھا۔ یزید کرسی خلافت پر متمکن ہوتے ہی مطالبہ بیعت کرنے لگا ۔ لوگوں نے اس کی اطاعت قبول کرنا شروع کردی لیکن کردار کے سچے اور اسلام کے محافظ نے اس کی بیعت سے صریحی انکارکردیا۔ اس نے اما م حسین علیہ السلام کے انکار بیعت پر قتل کا حکم صادر کیا ہوا تھا۔ اس لیے اندرونی خطرات اور بیرونی حالات سے موافقت کرکے آپ نے جانب مکہ ہجرت فرمادی اور وہاں چار ماہ سے زائد قیام کیا ۔ اس مدت میں آپ نے متعدد بیانات سے بنی امیہ کے تشدد اور اسلام کی محافظت کی جانب لوگوں کوبلایا ۔آپ ایک بڑے فتنہ سے بچنے کے لیے لوگوں کوبیدارکرہے تھے۔اسی دوران اہل کوفہ نے آپ کے حمایت میں خطوط ارسال کرنا شروع کردیا ۔ خطوط کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا ۔ مکہ کے نامساعد حالات اور کوفہ کی ظاہرانہ حمایت سبب بنی کہ آپ جوابی خطوط کے طور پر اپنے قابل اعتماد شخص جناب مسلم بن عقیل کو جانب کوفہ روانہ کردیں۔
مسلم بن عقیل ، حضرت عقیل کے فرزند تھے ۔ جناب عقیل ، حضرت ابوطالب کے فرزند ۔ امام علی علیہ السلام ، حضرت ابوطالب کے فرزند ۔امام حسین علیہ السلام ، حضرت علی علیہ السلام کے فرزند ۔ اس اعتبار سے جناب عقیل اورامیر المومنین کے والد محترم ، حضرت ابوطالب ہوئے ۔ اب رشتہ داری کے منظر سے دیکھاجائے توجناب عقیل ، امام حسین علیہ السلام کے چچا زاد بھائی قرار پاتے ہیں۔آپ کی پرورش نے خاندان اہل بیت میں ہوئی ۔ آپ نے امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام ، امام حسین علیہ السلام سے بہت کچھ کسب فیض کیا۔ امام علی علیہ السلام کے دوران خلافت ، جنگ صفین میں شریک جنگ رہے ۔امام حسن علیہ السلام ، امام حسین علیہ السلام اور عبد اللہ بن جعفر کے ساتھ لشکر میمنہ میں دشمنوں سے نبردآزما رہے۔ امام حسن علیہ السلا م کے زمانہ میں بھی امام کے خاص اصحاب میںشمار کئے جاتے تھے ۔ امام دوم کی شہادت کے بعد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ راہی مکہ ہوگئے ۔
مکہ میں امام نے اپنا سفیر بنا کر کوفہ روانہ کردیا۔ نصف ماہ رمضان ۶۰ھ کو مخفیانہ طور سے جانب مدینہ کوچ کرگئے اور قیس بن مسہر صیداوی ، عبدالرحمان بن کدن ارحبی اور عمارہ بن عبید سلولی کو اپنا ہم سفر بنایا ۔ مدینہ پہونچنے پر مسجد نبی میں دو رکعت نماز ادا کی ۔ نصف شب میں اپنے اقرباکے یہاں گئے اور ان سے رخصت آخر لیا۔(تاریخ طبری، ابو جعفر، ج ؍ ۵، ص؍ ۳۵۴) ۔سا تھ ہی قیس عیلان قبیلہ کی دو فر د کو بطور رہنمائے سفر ساتھ لیا ۔ رات ہی کو کوفہ کی راہ پکڑلی ۔ شدت پیاس کے سبب راستہ میں ہی دونوںرہنمائے سفر کا انتقال ہوگیا۔اس لیے آپ اور آپ کے ہمراہیوںکے لیے کوفہ تک رسائی بہت مشکل ہوگئی ۔ آپ نے قیس بن مسہر کے وسیلہ امام کو راہ کے مشکلات سے آگاہ کیا۔ امام نے منفی جواب دیا اورسفر جاری کرنے کی ہدایت دی۔آپ ۵؍ شوال کو داخل شہر ہوئے اور مختار ثقفی کے گھر میں قیا م کیا۔
آپ کی آمد کی خوشحال خبر سنتے ہی شیعان اہل بیت کی آمد ورفت کا سلسلہ شروع ہوگیا اورمسلم بن مسیب کے گھر میں نائب امام کی بیعت کا تانتا بندھ گیا۔ آپ نے امام حسین علیہ السلام کے متن خط کو پڑھا ۔لوگ امام کے شوق دیدار میں گریہ کناں ہوگئے ۔ اس وقت عباس ابن ابی شبیب شاکری بلند ہوئے اور حمد الٰہی بجالانے کے بعد کہا: میں لوگوں کی جانب سے کچھ نہیں کہتا اور مجھے علم نہیں کہ ان کے دل میں کیا ہے لیکن میں اپنے باطن سے آگاہ کررہا ہوں ۔ اللہ کی قسم! جس وقت بھی مجھے آواز دیں گے ، حاضر خدمت رہوں گااور تادم حیات آپ کی رکاب میں دشمنوں سے جنگ کرتا رہوں گا اور سوائے انعام حق کے کسی شے کا طالب نہیں رہوں گا۔ اس کے بعد حبیب ابن مظاہراور سعید بن عبد اللہ حنفی بلند ہوئے اور عابس کی باتوں پر تائید لبیک کہا ۔ پھر لوگوں نے بیعت شروع کی۔ (الفتوح ، ابن عاصم ، ج؍ ۵ ، ص ؍ ۴۰۔تاریخ طبری، ابوجعفر ، ج ؍ ۵، ص ؍ ۳۵۵)
ابتدا میں بیعت کرنے والوں کی تعداد بارہ ہزار تھی لیکن بہت تیزی سے تعدا د میں اضافہ ہوا اور اٹھارہ ہزار تک پہونچ گئی ۔ اسی کے بعد آپ نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا اور کوفہ آنے کی دعوت دی۔ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر ، ج ؍ ۸، ص ؍۱۶۳)جب حاکم کوفہ نعمان بن بشیر کو اس بات کا علم ہوا تووہ مسجد گیااور لوگوں کو فتنہ، خون ریزی اور یزید کی مخالفت سے منع کیا مگر بنی امیہ کے بہی خواہوں کو یہ بات ’نرمی کا برتاؤ‘معلوم ہوئی ۔ سو عبد اللہ بن مسلم بن سعید حضرمی بلند ہوا اور اس نے کمزوری کا الزام لگا کر یزید کو ایک خط لکھا اور سارے حالات سے باخبر کردیا۔ یزید نے معاویہ کے غلام سرجون سے مشور ہ لے کر عبید اللہ بن زیاد کو کوفہ روانہ کردیا اور کوفہ کی حکومت اس کے ہاتھ میں دے رکھی۔ اسی طرح اس کو فرمان دیا کہ مسلم کو ایک’ گمشدہ مہرہ‘ کی مانند تلاش کرو اور جس وقت بھی ہاتھ آجائے ، اسے قتل کردو اور اس کے سر کو یزید کے پاس بھیج دو۔ (مناقب آل ابوطالب، ابن شہر آشوب ، ج ؍ ۳، ص ؍ ۲۴۲)
۔۔۔عبیداللہ ابن زیاد جب کوفہ کے قریب پہنچا تو انتظار کیا تاکہ فضا میں تاریکی چھاجائے۔ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ اس حالت میں شہر میں داخل ہوا کہ اس کے سر پر سیاہ عمامہ تھا اور منھ پر تالے لٹکے ہوئے تھے۔ اُس راہ سے داخل ہوا جہاں سے اہل حجاز آتے ہیں ۔یہ چال اس لیے تھی تاکہ لوگوں کوچکمہ دے سکے کہ وہ حسین بن علی ہے۔ اہالیان کوفہ امام حسین علیہ السلام کے منتظر تھے ۔ خیال کیا کہ یہ حضرت امام حسین ؑ ہی ہیں ۔ خوشیاں منانے لگے اور سلام کا تسلسل بندھ گیا اور وہ کہتے :اے فرزند رسول! مرحبا! ہم آپ کے حامی و مددگارہیں اور ہماری تعداد چالیس ہزار سے زائدہے۔ لوگ اس کے گھوڑے کے گرد ریلا لگائے ہوئے تھے ۔اسی دوران عبید اللہ مجبور ہوا کہ کچھ بولے ۔ زبان کھولنا تھا کہ ایک شخص نے اس کی آواز پہچان لی اور کہا: خدائے کعبہ کی قسم! یہ ابن زیاد ہے۔ ۔۔۔بہرکیف، دیر سے ہی سہی سارا پردہ فاش ہوگیا کہ ابن زیاد کوفہ کا حاکم مقرر ہوچکا ہے۔ اس نے آتے ہی حالات پر مکمل دہشت پھیلادی اور حکومتی ہرکارے کو جاسوسی پر مقرر کردیا۔ اس وجہ سے جناب مسلم کو رات ہی میں سالم بن مسیب کے یہاں سے نقل مکانی کرکے ہانی بن عروہ کے مکان جانا پڑا۔ ظاہر ہے کہ اب لوگوں نے آپ کے یہاں بیعت شروع کردی۔
مسلم بن عقیل کا عزم تھا کہ ابن زیاد کے خلاف قیام کریں لیکن ہانی نے کہا: جلد ی نہ کریں ۔ (الفتوح ، ابن اعثم، ج ؍۵، ص ؍ ۴۱)جناب مسلم نے دوبارہ عباس بن ابی شبیب کے ذریعہ امام کے نام خط لکھا اور کہا: نامہ بر جھوٹ نہیں بول رہا ہے ۔ اٹھارہ ہزار لوگوں نے میرے ہاتھوں پر بیعت کی ہے ۔ جس وقت بھی میرا خط ملے ،تیزی سے میری طرف آجائیں ۔ تمام لوگ آپ کے ساتھ ہیں اور قلبی طور پر بھی خاندان معاویہ سے کوئی رغبت و دلچسپی نہیں رکھتے ہیں ۔ (تاریخ طبری، ابو جعفر، ج ؍ ۵، ص ؍ ۳۷۵)یہ خط آپ کی شہادت سے ۲۸؍ روز پہلے ، ذی قعدہ کے آخری ایام میں امام حسین علیہ السلام تک پہنچا ۔ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر ، ج ؍ ۸، ص ؍ ۱۷۰)
ابن زیاد نے اپنے غلام’ معقل‘کو لوگوں کے درمیان اتار دیا۔وہ مسجد کوفہ گیا اور مسلم بن عقیل کے قریبی فرد مسلم بن عوسجہ سے آشنائی حاصل کرلی اور رفتہ رفتہ دوستوں کی نشست میں شناسائی حاصل کرنے لگا ۔ اس نے ابو ثمامہ صائدی کواموال کی جمع آوری اور اسلحہ کی خریداری کے لیے تین ہزار درہم بھی دیئے ۔ اس طرح وہ مسلسل ان خبروں کو ابن زیادتک منتقل کرتا رہا۔ (ارشاد، شیخ مفید، ج ؍ ۲ ، ص ؍ ۴۸)ادھر دوسری سمت ’مالک بن یربوع‘ نے ’عبداللہ بن یقطر‘سے لیے خط کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا ۔ اس خط میں جناب مسلم نے لوگوں کی بیعت کے احوال لکھے تھے اور امام کو جلد آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ اس کے بعد ہی ابن زیاد نے ہانی کو دارالامارہ بلوا لیا ۔ اس نے ہانی سے کہا: اپنے گھر میں مسلم کو پناہ دی ہوئی ہے اور اس کے لیے اسلحہ اور لوگوں کو جمع کررہے ہو۔اس پر گمان ہے کہ یہ سب ہم سے مخفی رہے۔(مناقب آل ابی طالب ، ابن شہر آشوب م ج ؍ ۳، ص ؍ ۲۴۳)ہانی بن عروہ نے جواب دیا: اپنے خاندان کو اٹھاؤ اور شام چلے جاؤ۔ وہیں زندگی بسر کرنا ۔ چوں کہ تجھ اور یزید سے بہتر کی یہاں آمد ہوچکی ہے۔ اس جواب کو سن کر ابن زیاد سیخ پا ہوگیا اور آپ کو زد وکوب کرنے لگا۔ اس کے بعد زندان کے حوالہ کردیا۔
یہ المناک خبر جناب مسلم کے لیے ناقابل برداشت تھی ۔ آپ چارہزارشیعوں کے ساتھ اٹھے اور دارالامارہ کی جانب بڑھ گئے ۔عبد اللہ بن حازم نے ’یا منصور امۃ‘کا نعرہ لگایا ۔اسی نعرہ کے ساتھ لوگ دارالامارہ کی جانب بڑھنے لگے ۔ابن زیاد کو مسلم کی آمد کی خبر مل گئی۔ وہ مسجد کوفہ میں لوگوں کو اطاعت یزید کی جانب ورغلا رہا تھا۔ جیسے ہی اس نے یہ خبر سنی ، تیزی سے دارالامارہ کی جانب دوڑا اورمحل میں خود کو قید کرلیا۔ محل کے اندر تیس سپاہی ، بیس بزرگان کوفہ اور ابن زیاد کا خاندان موجود تھا۔ (تاریخ طبری، ابوجعفر، ج ؍ ۵، ص ؍ ۳۴۸۔۳۶۹،البدایہ والنہایہ ، ابن کثیر، ج؍ ۸، ص ؍ ۱۶۶، الامامہ والسیاسہ ، ابن قتیبہ ، ج ؍ ۲ ، ص ؍۸)
مسلم نے قصر دارالامارہ کا محاصرہ کرلیا تھا ۔ عبید اللہ بالائے محل پر چلا آیاتھا۔ لوگ اس کو دیکھتے اور اس پر پتھر پھینکتے اوراس کے باپ کو زیادہ برا کہتے۔ اس نے جناب مسلم کو گھیرنے کی سازش رچی۔’ کثیر بن شہاب حارثی ‘کو’ باب الرومیین‘ سے باہر نکالااور یہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ مل کر جناب مسلم کے ساتھیوں کے درمیان رخنہ انداز ی کرنے لگے ۔ انہیں حاکم وقت کی سلاخوں سے خوف دلانے لگے ۔دوسری جانب محمد بن اشعث اپنے ہرکاروں کو لیے پرچم امان بلند کئے ہوئے تھا اور لوگوں کو جنگ نہ کرنے کی دعوت دے رہا تھا۔ اس طرح دونوں جانب سے مجمع کو بٹور لیا گیا اور خوف نے جناب مسلم کے ہمراہیوںکو گھر میں ہی قید کرلیا۔کتنوں کو حاکم وقت نے زنجیر بھی پہنائی ۔ رات کے وقت چار ہزار سپاہیوں میں سے صرف تین سو افراد بچے اور نماز بعد صرف تیس آدمی۔ مسلم بن عقیل مسجد سے باہر نکلے ۔ ایک کوچہ تک تو دس آدمی ساتھ رہے ۔ اس کے بعد سب کی سب ندارد ۔
اب جناب مسلم کوفہ کی گلیوں میں گردش لگاتے محلہ بنی جبلہ میں پہنچے ۔ ایک گھر کے سامنے کھڑے ہوئے اورطلب آب کیا۔ طوعہ نامی ایک ضعیف عورت گھر سے نکلی اور اس نے تشنگی بجھائی ۔ آپ وہیں کھڑے رہے۔ سوالات وجوابات کے تبادلہ نے سارا ماجرا بیان کردیا۔ اب آپ طوعہ کے گھر میں ٹھہر گئے۔ اس ضعیفہ کا لڑکا’ بلال‘جب گھر آیا تو اسے آپ کے قیام کی خبر لگ گئی ۔ماں کی حکم عدولی کرتے ہوئے اس نے صبح کو عبدالرحمن بن اشعث کے سامنے سارے راز اگل دیئے ۔ عبد الرحمن نے بھی قصر دارلامارہ میں بیٹھے اپنے باپ کو بتادیا ۔اس کے بعد یہ خبر ابن زیاد کو معلوم ہوگئی ۔ اس نے ، مختلف روایات کی بناپر ، ساٹھ ، ستر یا تین سو سپاہیوں کو محمد ابن اشعث کے ہمراہ طوعہ کے گھرروانہ کردیا۔گھوڑوں اور فوجیوں کی آواز نے بتادیا کہ آپ کی گرفتاری کا ارادہ ہے۔ آپ نے اپنے گھوڑے کو آماد ہ کیا۔ لجام کسی ، زرہ زیب تن کی ،سر پر عمامہ رکھا اور ہاتھ میں تلوار لیے راہ خدا میں جہاد کے لیے نکل پڑے۔ لشکر گھر میں داخل ہوگیا۔آپ کو مجبوراً گھر میں ہی دفاع کرنا پڑااور آپ نے زور بازو سے ان کو گھر سے باہر نکل پھینکا۔ جب جنگ شدت پر آئی تو آپ کئی ایک کو واصل جہنم کرچکے تھے ۔ اب سپاہیوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔ ابن اشعث نے مزید فوج کا مطالبہ کرلیا ۔ ابن زیاد کے ہواس، باختہ ہوگئے کہ میں نے صرف ایک آدمی کی گرفتاری کے لیے اتنوں کو بھیجا ہے۔ اس نے امان نامہ کی تجویز پیش کی۔ جناب مسلم نے صریحی انکار کردیا۔ جب سارے حربے ناکام ہوگئے تو سب نے مل کر ایک ساتھ حملہ کردیا اور ابن زیاد کے بہی خواہوں نے آپ کو گرفتا رکرلیا۔ اس وقت آپ کی آنکھوں سے موتی کی لڑیا جد اہورہی تھیں ۔ موت کے خوف سے نہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے کوفہ آنے کے سبب۔
ابن زیاد نے آپ کے قتل کی ذمہ داری ابن حمران کو دی ہوئی تھی ۔ یہ وہی شخص تھا جس کو آپ نے (کاری) ضرب لگائی تھی۔ بُکیر ، جناب مسلم بن عقیل کو بالائے محل لے گیا ۔آپ کے سر کو تن سے جدا کردیااور جسم کو قصر کے باہر گرادیا۔ آپ کے سر کو ہانی بن عروہ کے سر کے ساتھ شام بھیج دیاگیا ۔ یزید نے حکم دیا کہ دمشق کے بارہ دروازوں میں سے کسی ایک دروازے پر لٹکادیں ۔ (الفتوح ، ابن عاثم ، ج ؍ ۵، ص ؍ ۶۲)آپ کے جسم کو بازار قصاب میں زمین پر کھینچا جا تارہا۔ تین دن بعد نماز جنازہ ادا ہوئی اور دارالامارہ کے قریب دفن کردیا گیا۔ تاریخ نے بتایا کہ ابن زیاد چاہتا تھا کہ شیعوں پر نگاہ رکھے ، اس لیے اپنے محل کے قریب قبر بنوائی یایہ انہیں ماتم اور سوگ و عزا سے دور رکھے ۔ اس لیے دفن کے لیے اس جگہ کا اہتمام کیا۔ ماہ شعبان سن ۶۵ھ میں مختار ثقفی کے حکم سے آپ کی قبر پر عمارت تعمیر ہوئی اور سنگ مرمر سے اس کا گنبد مزین کیاگیا۔ اس کے بعد مختلف عہد میں اس کی جدید تعمیرات ہوتی رہی ہیںاور اس وقت کوفہ میں آپ کا عالی شان روضہ دشمنوں کے منھ پر طمانچہ ہے۔
تحریر: عظمت علی
تہران میں " افغانستان میں پائدار امن و صلح کے عنواں سے" اجلاس منعقد
اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں مجمع جہانی بیداری اسلامی کی جانب سے " افغانستان میں پائدار امن و صلح کے عنواں سے" آن لائن اجلاس جاری ہے۔
افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں آن لائن اجلاس سے مجمع جہانی بیداری اسلامی کے سربراہ اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کے عالمی امور کے مشیر ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے خطاب کرتے ہوئے افغانستان میں امن و صلح کو ہمسایہ ممالک کے لئے اہم قراردیا۔ اس اجلاس میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزائی، افغانستان قومی مصالحتی کمیٹی کے سربراہ عبداللہ عبداللہ ،عطا نور محمد جواد محسنی افغانستان، وحید اللہ سباوون افغانستان ، ملا برادر افغانستان ، اسماعیل خآن حاکم ہرات افغانستان، حکمتیار افغانستان ، صلاح الدین ربانی سابق وزیر خارجہ افغانستان اور مسعود احمد شاہ مسعود افغانستان نے آن لائن شرکت کی۔ اس کے علاوہ چین ، روس اور بعض دیگر ممالک کے نمائندے بھی آن لائن اجلاس میں اپنے نظریات اور خیالات کا اظہار کریں گے۔