سلیمانی

سلیمانی

اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ کے ڈپٹی کمانڈرجنرل علی فدوی نے بقیۃ اللہ یونیورسٹی کے علم جینیٹکس کے خصوصی مرکز کے افتتاح کی تقریب میں کورونا ویکسین کی تیاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد کورونا ویکسین دیگر ممالک اور مظلوم اقوام کو فراہم کی جائےگی۔

جنرل فدوی  نے کہا کہ ہر ادارے کی طرح سپاہ کی سرگرمیاں بھی دو طرح کی ہیں کچھ سرگرمیاں قوانین پر مشتمل ہیں اور کچھ سرگرمیاں دکھائی نہیں دیتی ہیں جو سسٹم کار وح ہوتی ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ بقیۃ اللہ یونیورسٹی شہداء کے خون کی برکت سے معرض وجود میں آئی اور اس مرکز کی برکت اس وقت مزید نمایاں ہوجاتی ہے جب عام افراد اس سے بہرہ مند ہوں اور دیگر ممالک کو بھی اس سے فائدہ پہنچے۔ جنرل فدوی نے کہا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ تمام  زمین و آسمان انسان کے تابع اور مسخر ہیں جس کا مطلب یہ ہے علم بے انتہا اور نا محدود ہے جو انسان کے لئے خیر و برکت کا سبب بن سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جینیاتیات پر سپاہ کی خاص توجہ مرکوز ہے اور اس سلسلے میں خاطر خواہ پیشرفت بھی ہوئی ہے ۔

جنرل فدوی نے بقیۃ اللہ (عج) یونیورسٹی میں نورا ویکسین کی تیاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد ویکسین دیگر ممالک اور مظلوم اقوام کو فراہم کی جائےگی اور مظلوم اقوام کی حمایت کرنا سپاہ کے وظائف میں شامل ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت میں مجمع جہانی بیداری اسلامی کی جانب سے " افغانستان میں پائدار امن و صلح کے عنواں سے" کل ایک اہم اجلاس منعقد ہوگا۔  اس اجلاس سے مجمع جہانی بیداری اسلامی کے سربراہ اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کے عالمی امور کے مشیر ڈاکٹر علی اکبر ولایتی خطاب کریں گے۔  اس اجلاس میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزائی کی شرکت اور خطاب بھی متوقع ہے۔ مجمع جہانی بیداری اسلامی کے معاون حسین اکبری نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اجلاس میں چين، روس، قزاقستان اور بعض دیگر ماملک سے 40 اہم شخصیات شرکت کریں گی۔  انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و صلح ہمسایہ ممالک کے لئے اہم ہے اور امریکہ نے گذشتہ 20 برسوں میں افغانستان میں صرف دہشت گردی اور ناامنی کو فروغ دیا ہے۔

ہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے مسلمانوں کی علمی،  فکری اور ثقافتی بنیادوں کومضبوط اور مستحکم کیا ، آپ جو بات دوسروں سے کہتے تھے سب سے پہلے خود اس پر عمل کرتے تھے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بتاریخ یکم رجب المرجب ۵۷ ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے .

آپ کا اسم گرامی " لوح محفوظ" اورسرورکائنات کی تعیین کے مطابق " محمد" تھا اور آپ کی کنیت " ابوجعفر" تھی، اورآپ کے القاب کثیرتھے، جن میں باقر،شاکر،ہادی زیادہ مشہورہیں ۔ رسول اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) نے آپ کی پیدائش سے قبل ہی اپنے ایک خاص صحابی جناب جابر ابن عبداللہ انصاری کو آپ کی ولادت باسعادت کی خبر دیتے ہوئے آپ کو باقر کا لقب دیا تھا - امام محمد باقر علیہ السلام اپنے دور کی عظیم الشان علمی شخصیت اور ہر لحاظ سے رسول اسلام (ص) کے جانشین و وارث تھے - جب بھی ہاشمیوں کے علم و تقوی اور شجاعت و سخاوت کا ذکر ہوتا ، لوگ آپ کا نام لیتے تھے- شخصیت میں کشش ، عفو و درگذر، بے پناہ علم و تقوی آپ کی اہم خصوصیات ہیں -
آپ ۵۷ ھ میں معاویہ بن ابی سفیان کے عہد میں پیدا ہوئے ۔ ۶۰ ھ میں یزید بن معاویہ بادشاہ وقت رہا، ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزیداورمروان بن حکم بادشاہ رہے ۶۵ ھ تک عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت رہا ۔ پھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولید بن عبدالملک نے حکمرانی کی، اسی نے ۹۵ ھ میں آپ کے والد ماجد کو درجہ شہادت پرفائز کر دیا، اسی ۹۵ ھ سے آپ کی امامت کا آغاز ہوا، اور ۱۱۴ ھ تک آپ فرائض امامت ادا فرماتے رہے، اسی دور میں ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک ،عمربن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اورہشام بن عبدالملک بادشاہ وقت رہے ۔
حضرت امام باقر (ع) ہمیشہ انتہائی توجہ اور ظرافت کے ساتھ اپنے دور کے علوم کا تجزیہ و تحلیل کرتے تھے ۔حضرت امام محمد باقر (ع) کی امامت کے زمانے میں سنہ 96 ھ ق سے کہ جو بنی امیہ کی حکومت کے زوال کا زمانہ تھا ۔ آپ کو مسلمانوں کی فکری اور ثقافتی بنیادوں کو مستحکم کرنے کا موقع ملا ۔ آپ (ع) اور آپ کے فرزند حضرت امام جعفر صادق (ع) کے دور میں بہت سے علوم کو ترقی ملی ۔حضرت امام محمد باقر (ع) اعلیٰ اخلاق کا نمونہ تھے ۔آپ ہمیشہ نیکی، سخاوت، غربا کی امداد اور بیمار افراد کی عیادت کی تاکید فرماتے تھے ۔ آپ (ع) کے عظیم فرامین اور اخلاقی پند و نصیحت آپ کی عملی زندگي میں جلوہ گر تھے ۔ آپ جو بات دوسروں سے کہتے سب سے پہلے خود اس پر عمل کرتے تھے.

علامہ شبلنجی اورعلامہ ابن حجرمکی کا کہنا ہےکہ " مات مسموماکابیہ“ آپ اپنے پدربزرگوارامام زین العابدین علیہ السلام کی طرح زہرسے شہیدکردیئے گئے (نورالابصار ص ۳۱ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔
آپ کی شہادت ہشام کے حکم سے ابراہیم بن ولیدوالی مدینہ کی زہرخورانی کے ذریعہ واقع ہوئی ہے ایک روایت میں ہے کہ خلیفہ وقت ہشام بن عبدالملک کی مرسلہ زہرآلودزین کے ذریعہ سے واقع ہوئی تھی (جنات الخلودص ۲۶ ،دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۷۸) ۔
شہادت سے قبل آپ نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے بہت سی چیزوں کے متعلق وصیت فرمائی اورکہا کہ بیٹامیرے کانوں میں میرے والدماجدکی آوازیں آرہی ہیں وہ مجھے جلدبلارہے ہیں (نورالابصار ص ۱۳۱) ۔ آپ نے غسل وکفن کے متعلق خاص طورسے ہدایت کی کیونکہ امام را جزامام نشوید امام کوامام ہی غسل دے سکتاہے (شواہدالنبوت ص ۱۸۱) ۔
علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنی وصیتوں میں یہ بھی کہاکہ ۸۰۰/ درہم میری عزاداری اورمیرے ماتم پرصرف کرنااورایساانتظام کرناکہ دس سال تک منی میں بزمانہ حج میرے مظلمومیت کاماتم کیاجائے (جلاء العیون ص ۲۶۴) 

وجود مقدس حجت خدا آسمان امامت و ولایت کے پانچویں ستارے، امام محمد باقر (ع) اول رجب سن 57 ہجری کو شہر مقدس مدینہ منورہ میں دنیا میں آئے۔ آپکے والد گرامی امام زین العابدین (ع) اور مادر گرامی، امام حسن مجتبی (ع) کی دختر نیک اختر فاطمہ تھیں۔ لہذا آپ پہلے امام معصوم تھے کہ جنکے والدین ہر دو فاطمی و علوی تھے۔ سن 95 ہجری میں اپنے والد کی شہادت کے بعد آپ امامت کے بلند و الہی منصب پر فائز ہوئے۔ آپ 199 سال اور چند مہینے اس عظیم مقام پر اس امت کی امامت اور راہنمائی فرماتے رہے، اور آخر کار 7 ذی الحجہ سن 114 ہجری کو ہشام بن عبد الملک ملعون کے ہاتھوں شہید ہوئے اور قبرستان جنت البقیع میں امام حسن (ع) اور امام سجاد (ع) کے جوار میں دفن ہوئے۔

اس تحریر میں ہم باقر العلوم امام محمد باقر (ع) کی نورانی اور الہی شخصیت کو اہل سنت کے علماء کی نظر میں بیان کریں گے اور دیکھیں گے کہ تمام آئمہ طاہرین (ع) شیعیان نہ فقط یہ کہ خود علمائے شیعہ کی نظر میں ایک عظیم اور بلند مقام رکھتے ہیں، بلکہ خود اہل سنت کے علماء کے نزدیک بھی آئمہ اہل بیت ایک خاص مقام و احترام رکھتے ہیں:

عبد اللہ ابن عطاء:

عبد اللہ ابن عطاء یہ امام باقر کا ہمعصر بھی تھا، اس نے امام کے بارے میں کہا ہے کہ:

عن عبدالله بن عطاء قال ما رأيت العلماء عند أحد أصغر علما منهم عند أبي جعفر لقد رأيت الحكم عنده كأنه متعلم.

میں نے بزرگ علماء اور دانشمندوں کو ابو جعفر کے سامنے بہت ہی عام انسانوں کی طرح پایا ہے، میں نے خود دیکھا تھا کہ حکم ( ابن عتیبہ ) ابو جعفر کے سامنے ایک چھوٹے سے شاگرد کی طرح لگتا تھا۔

(الأصبهاني، ابونعيم أحمد بن عبد الله (متوفى430هـ)، حلية الأولياء و طبقات الأصفياء، ج 3 ص 186 ، ناشر: دار الكتاب العربي - بيروت، الطبعة: الرابعة، 1405هـ..

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفى571هـ)، تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 54 ص 278 ، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1995.

ابن الجوزي الحنبلي، جمال الدين ابوالفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد (متوفى 597 هـ)، صفة الصفوة، ج 2 ص 110 ، تحقيق: محمود فاخوري - د.محمد رواس قلعه جي، ناشر: دار المعرفة - بيروت، الطبعة: الثانية، 1399هـ – 1979م.ابن كثير الدمشقي، ابو الفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفى774هـ)، البداية والنهاية، ج 9 ص 311 ، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.)

عطار نيشاپوری (متوفی 627 ہجری):

عطار نيشاپوری یہ اہل سنت کا ادیب اور شاعر ہے، اس نے امام باقر (ع) کے بارے میں لکھا ہے کہ:

وہ حجت خدا، رسول خدا (ص) کی اولاد میں سے اور علی (ع) کہ جو صاحب ظاہر و باطن ہیں، کہ پوتوں میں سے ہیں، وہ ابو جعفر محمد باقر ہیں، انکے بیٹے جعفر صادق ہیں کہ جنکی کنیت ابو عبد اللہ تھی۔ امام باقر علوم دقیق و لطیف کے عالم تھے اور انکی بہت سی کرامات بھی مشہور ہیں۔ اس نے خداوند کی راہ میں اپنی جان تسلیم کر دی تھی۔

رضي الله عنه و عن اسلافه و حشرنا الله مع اجداده و معه آمين يا رب العالمين و صلي الله علي خير خلقه محمد و آله اجمعين و نجنا برحمتک يا ارحم الراحمين.

(کدکني نيشابوري، فريد الدين ابو حامد محمد بن ابوبکر ابراهيم بن اسحاق عطار ، تذکرة الاولياء، ص 558-559،)

ابن ابی الحديد (متوفی 655 ہجری):

ابن ابي الحديد معتزلي، یہ اہل سنت کا بزرگ عالم ہے، اس نے امام باقر (ع) کے بارے میں ایسے لکھا ہے کہ:

وهو سيد فقهاء الحجاز ، ومنه ومن ابنه جعفر تعلم الناس الفقه ، وهو الملقب بالباقر ، باقر العلم ، لقبه به رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يخلق بعد ، وبشر به ، ووعد جابر بن عبد الله برؤيته ، وقال : ستراه طفلاً ، فإذا رأيته فأبلغه عني السلام ، فعاش جابر حتى رآه ، وقال له ما وصي به.

وہ [امام باقر سلام الله عليه] اہل حجاز کے بزرگ فقہاء میں سے تھے، ان سے اور انکے بیٹے جعفر صادق سے لوگوں نے علم فقہ کو سیکھا تھا، انکا لقب باقر تھا، وہ باقر علوم تھے اور رسول خدا نے انکو یہ لقب عطاء کیا تھا، اور رسول خدا نے اپنے صحابی جابر انصاری کو خوشخبری دی تھی کہ تم میرے بیٹے محمد باقر سے ملاقات کرو گے اور فرمایا کہ : تم میرے بیٹے کو بچہ ہونے کی حالت میں دیکھو گے، جب اسکو ملنا تو میرا  سلام اس تک پہچانا اور جابر کو خداوند نے اتنی زندگی عطا کی کہ اس نے ان [امام باقر سلام الله عليه] سے ملاقات کی اور جو ان سے کہا گیا تھا، جابر نے اس کام کو انجام دیا۔

(إبن أبي‌الحديد المدائني المعتزلي، ابوحامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفى655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 15 ص 164 ، تحقيق: محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ - 1998م.)

محی الدين نووی (متوفی 676 ہجری):

یہ اہل سنت کے شافعی مذہب کا عالم ہے، اس نے امام باقر (ع) کے بارے میں لکھا ہے کہ:

محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنهم القرشي الهاشمي المدني أبو جعفر المعروف بالباقر سمي بذلك لأنه بقر العلم اي شقه فعرف أصله وعلم خفيه ... وهو تابعي جليل إمام بارع مجمع على جلالته معدود في فقهاء المدينة وأئمتهم.

محمد بن علی بن حسين بن علی بن أبی طالب ہیں، کہ وہ بنی ہاشم کے قبیلے قریش میں سے تھے، وہ اہل مدینہ تھے۔ انکی کنیت ابو جعفر تھی کہ جو باقر کے نام سے مشہور ہو چکے تھے، کیونکہ انھوں نے علم کے خزانوں میں شگاف کیا تھا اور وہ اصل علم کے ظاہر و باطن سے آگاہ تھے..... وہ تابعین میں سے، ایک عظیم انسان اور علم میں ماہر امام تھے کہ جنکی عظمت اور جلالت پر علماء کا اجماع موجود ہے، کہ انکا شمار مدینہ کے فقہاء اور آئمہ میں سے ہوتا تھا۔

(النووي الشافعي، محيي الدين أبو زكريا يحيى بن شرف بن مر بن جمعة بن حزام (متوفى676 هـ)، تهذيب الأسماء واللغات، ج 1 ص 103 ، تحقيق: مكتب البحوث والدراسات، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولى، 1996م.

النووي الشافعي، محيي الدين أبو زكريا يحيى بن شرف بن مر بن جمعة بن حزام (متوفى676 هـ)، شرح النووي علي صحيح مسلم، ج 1 ص 102 ، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة الثانية، 1392 هـ..)

ابن خلکان (متوفی 681 ہجری):

ابن خلکان شافعی نے امام باقر (ع) کی عظمت کے بارے میں لکھا ہے کہ:

محمد الباقر أبو جعفر محمد بن زين العابدين علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله عنهم أجمعين الملقب الباقر أحد الأئمة الاثني عشر في اعتقاد الإمامية وهو والد جعفر الصادق.كان الباقر عالما سيدا كبيرا وإنما قيل له الباقر لأنه تبقر في العلم أي توسع.

محمد باقر ابو جعفر و محمد بن زين العابدين علی بن حسين بن علی بن أبی طالب ہیں کہ ان سب سے خدا راضی ہو، انکا لقب باقر تھا، وہ شیعہ اعتقاد کے مطابق بارہ آئمہ میں سے ایک امام ہیں، اور وہ جعفر صادق کے والد ہیں۔ [امام]  باقر ایک عالم و بزرگوار انسان تھے، انکو باقر کہا جاتا تھا، کیونکہ انھوں نے علم میں وسعت ایجاد کی تھی۔

(إبن خلكان، ابوالعباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفى681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج 4 ص 174 ، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.)

رازی (متوفی 721 ہجری):

رازی اہل سنت کے ادباء میں سے ہے، اس نے لفظ ب ق ر کے ذیل میں لکھا ہے کہ:

و التبقر التوسع في العلم ومنه محمد الباقر لتبقره في العلم.

تبقر یعنی علم میں وسعت ایجاد کرنا، اسی معنی میں محمد، کو باقر کہا جاتا ہے، کیونکہ انھوں نے مختلف علوم میں وسعت ایجاد کی تھی۔

(الرازي، محمد بن أبي بكر بن عبدالقادر، (متوفي 721هـ)، مختار الصحاح، ج 1 ص 24 ، الطبعة : طبعة جديدة ، تحقيق : محمود خاطر، دار النشر : مكتبة لبنان ناشرون - بيروت - 1415 – 1995.)

ابن تيميہ (متوفی 728 ہجری):

ابن تيميہ حرانی نے امام باقر (ع) کے بارے میں ایسے اعتراف کیا ہے کہ:

ابو جعفر محمد بن على من خيار اهل العلم والدين وقيل: انما سمي الباقر لانه بقر العلم.

ابو جعفر محمد بن على، وہ بہترین اہل علم و اہل دین میں سے تھے، کہا گیا ہے کہ انکا نام باقر رکھا گیا تھا، کیونکہ انھوں نے علم میں شگاف ( وسعت و ترقی ) ایجاد کیا تھا۔

(ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفى 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 4 ص 50 ، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ..)

 

سرزمین مقدس حجاز میں آل سعود رژیم منصوبہ بندی کے تحت انتہائی منظم انداز میں عریانی، فحاشی، لہو و لعب کی محافل اور غیر اسلامی اقدامات کے ذریعے لادینیت پھیلانے میں مصروف ہے۔ سعودی حکومت نے اس مقصد کیلئے باقاعدہ ایک ادارہ تشکیل دیا ہے جس کا نام General Entertainment Authority رکھا گیا ہے۔ اس ادارے کی بنیاد 2016ء میں رکھی گئی ہے۔ حال ہی میں اس ادارے نے سعودی شہریوں کو اپنے بقول یہ خوشخبری سنائی ہے کہ وہ "سالانہ جشن" میں شرکت کیلئے تیار ہو جائیں۔ یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حج کے انعقاد پر شدید محدودیت اور پابندی عائد ہوئے یہ دوسرا سال ہے۔ کرونا وائرس کے باعث پھیل جانے والی وبا کے پیش نظر حج کا انعقاد انتہائی محدود کر دیا گیا تھا اور یہ محدودیت اب تک جاری ہے۔
 
حال ہی میں سعودی عرب کی وزارت حج نے اعلان کیا ہے کہ اس سال بھی گذشتہ برس کی طرح حج کی اجازت صرف سعودی شہریوں کو دی جائے گی اور دیگر ممالک کے شہریوں کو حج کیلئے سفر کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دوسری طرف جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی نے وسیع پیمانے پر ناچ گانے کی محفلوں کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے تمام سعودی شہریوں کو اس میں شرکت کیلئے تیار رہنے کی تاکید کی ہے۔ یہ ادارہ ہر سال ملک کے مختلف شہروں میں ناچ گانے کی محافل کا انعقاد کرتا ہے جس میں بیرون ملک سے گلوکار، فنکار اور کھلاڑی بلائے جاتے ہیں۔ یہ ایسے افراد ہیں جنہیں celebrities کے نام سے جانا جاتا ہے۔ "موسمات الریاض" نامی ٹویٹر پیج پر ایک ویڈیو شائع کی گئی ہے جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ بہت جلد "موسم الریاض" نامی جشن کا آغاز کر دیا جائے گا۔
 
یاد رہے جشن کے عنوان سے منعقد ہونے والی ان محافل میں بہت زیادہ تعداد میں افراد شریک ہوتے ہیں جبکہ ان میں کرونا وائرس کی روک تھام کیلئے اعلان شدہ ایس او پیز کی پابندی بھی نہیں کی جاتی۔ 2016ء میں جب یہ محافل "موسم الریاض"، "موسم جدہ" اور "موسم الشرقیہ" کے نام سے منعقد ہوئیں اور ان میں مرد و خواتین کی شرکت، ناچ گانا اور حتی شراب خواری انجام پائی تو سعودی عرب کے مختلف حلقوں نے ان پر شدید تنقید کا اظہار کیا۔ یہ محفلیں سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے اعلان کردہ وژن 2030ء کے تحت منعقد ہوتی ہیں۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ ان محفلوں کے انعقاد کا بنیادی مقصد سعودی معاشرے میں "لادینیت" پھیلانا ہے۔ یہ محفلیں ایسے ملک میں منعقد کی جا رہی ہیں جس کے حکمران خود کو خادم الحرمین کہلواتے ہیں۔
 
مئی 2019ء میں "موسم جدہ" کے عنوان سے منعقد ہونے والی ایسی ہی ایک محفل میں امریکی پاپ سنگر "نیکی میناژ" نے بھی شرکت کی جس کے باعث اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی وقت کی بات ہے کہ سعودی عرب کی اعلی سطحی علماء کونسل کے تین اراکین کے اعتراضات مختلف ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے۔ ان علماء نے ایسی محافل کے انعقاد کو "منظم اخلاقی بے راہروی" قرار دیا تھا۔ شیخ عبداللہ المطلق جو اس اعلی سطحی کونسل کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ سلطنتی دربار میں مشیر بھی تھے نے ایسی محافل کو سعودی معاشرے کی روایات کے خلاف قرار دیتے ہوئے انہیں شیطان کی کارستانیاں کہا تھا۔ حال ہی میں ریاض میں ایک کنسرٹ منعقد کیا گیا جس میں لبنان کے پاپ سنگر نجوی کرم نے شرکت کی۔
 
اس سال اہم بات یہ ہے کہ "موسم ریاض" کے عنوان سے اسلام مخالف اقدامات اور سرگرمیوں پر مشتمل یہ محفل عین اسی وقت منعقد کی جا رہی ہے جو حج کا موقع ہے۔ اسی طرح حکومتی سطح پر اس کی بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف حج کے خلاف پابندیاں برقرار ہیں۔ اس وقت سعودی عرب میں یہ سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ کیا کرونا صرف حج کو محدود کرنے کا بہانہ ہے؟ کیا ویکسین لگوانے کی شرط پر دیگر ممالک کے شہریوں کو بھی حج کی اجازت دینا ممکن نہ تھا؟ کیوں حج پر تو پابندی عائد ہے جبکہ ناچ گانے اور شراب خواری کی محفلیں آزادی سے منعقد ہو رہی ہیں؟ "سعودی لیکس" نامی ویب سائٹ کے مطابق سعودی حکومت ان اقدامات کے ذریعے تین اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے۔
 
پہلا مقصد اسلامی دنیا میں حرمین شریفین کے تقدس کا خاتمہ ہے۔ دوسرا مقصد مسلمانان عالم کو یہ پیغام دینا ہے کہ حج کا انعقاد سعودی حکومت کے اختیار میں ہے اور وہ جب چاہے اس کے انعقاد کی اجازت دے اور جب چاہے نہ دے۔ آل سعود رژیم کے ان اقدامات کا تیسرا مقصد اپنے مغربی آقاوں، امریکہ، برطانیہ اور غاصب صہیونی رژیم کی رضامندی حاصل کرنا ہے۔ سعودی لیکس کے مطابق جوان سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے برسراقتدار آتے ہی ملک میں لادینیت پھیلانے کیلئے منصوبہ بندی کے تحت اقدامات اور سرگرمیاں انجام دینا شروع کر دی تھیں۔ ان سرگرمیوں میں شراب کی خریدوفروخت میں آسانی پیدا کرنا، ناچ گانے کی محافل کا انعقاد، امریکی گلوکاروں اور فنکاروں کو دعوت اور دوسری طرف سینکڑوں علماء دین اور امام مساجد کو قید کر دینا شامل ہیں۔

تحریر: علی احمدی

بدھ 14 جولائی کے روز تل ابیب میں متحدہ عرب امارات کے سفارتی مشن نے باضابطہ طور پر اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ اس اقدام کی ہر طرف سے مذمت ہو رہی ہے، تاہم افتتاح کے اس موقع پر متحدہ عرب امارات کے سفیر نے اپنے ایک خطاب میں  دعویٰ کیا کہ ہم نے جو مشن شروع کیا ہے، وہ علاقے میں قیام امن اور جاری تنازعات کے خاتمے کے لئے مثالی ہوگا۔ اس تقریب میں شریک صیہونی صدر اسحاق ہرٹزوگ نے بھی انتہائی ڈھٹائی سے دعویٰ کیا ہے کہ مغربی ایشیاء کے لئے ایک بڑا قدم اٹھا لیا گیا ہے اور اب ابراہیم سازشی منصوبے کے تحت دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات تیزی سے استوار کئیے جائیں گے۔ متحدہ عرب امارات نے یہ اقدام ایسے عالم میں انجام دیا ہے کہ "سیف القدس" کارروائی میں شہید ہونے والے فلسطینی شہیدوں کے کفن بھی ابھی میلے نہیں ہوئے ہیں۔ فلسطینی تنظیموں حماس اور جہاد اسلامی نے اسرائیل میں متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے کے افتتاح کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

حماس کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا یہ اقدام فلسطینی قوم اور خطے میں آباد تمام قوموں کے حق میں سب سے بڑا ظلم ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے اس اقدام سے اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف ظلم اور مقدس مقامات کی توہین کا سلسلہ جاری رکھنے کی مزید ترغیب ملے گی۔ حماس کے بیان میں آیا ہے کہ زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ صیہونی دشمن کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے ملکوں کو فلسطینی قوم اور علاقے کی دیگر اقوام کے خلاف اپنے اس مجرمانہ اقدام کے خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جہاد اسلامی فلسطین کے ترجمان طارق سلمی نے بھی تل ابیت میں متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے کے افتتاح کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھے گی کہ ابوظہبی کے حکام نے ایسے وقت میں مقبوضہ فلسطین میں اپنا سفارت خانہ قائم کیا ہے، جب اسرائیل نے القدس شریف اور مسجد الاقصیٰ کے خلاف اپنے مجرمانہ اقدامات اور فلسطینیوں کے گھروں کے انہدام کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا سفارت خانہ بھی سن انیس سو اڑتالیس میں بے گھر ہونے والے کسی فلسطینی کے تباہ شدہ مکان کے ملبے پر قائم ہوا ہو۔ جہاد اسلامی کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام فلسطینی عوام اور اسلامی دنیا کے خلاف سب سے بڑی خیانت ہے۔ واضح رہے کہ
متحدہ عرب امارات اور صیہونی حکام خطے میں تنازعات کے حل کی بات ایک ایسے وقت کر رہے ہیں کہ جب اس غاصب حکومت نے اوسلو امن معاہدے سے لے کر آج تک کسی بھی معاہدے کو درخور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے خود کو کسی قانون یا معاہدے کا پابند نہیں سمجھا ہے۔ غاصب اسرائیل کا ماضی گواہ ہے کہ اس نے آج تک کسی عالمی یا علاقائی ادارے کی بات، قرارداد یا فیصلے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی بیسیوں قراردادیں ہوں یا او آئی سی کے فیصلہ جات، غاصب اسرائیل انہیں اہمیت دینے کے لئیے تیار نہیں۔

 اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بعض عرب حکومتیں، عالمی ایجنسیاں اور عالم اسلام کے بعض مغرب زدہ افراد اس بات میں کوشاں ہیں کہ امت مسلمہ کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے عادی سازی کی جانب لے جائیں اور اسرائیل کی غاصب حکومت سے جوڑ دیں، لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو بھی غاصب اسرائیلی حکومت کے فریب کا شکار ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ تعلقات کی بحالی کے شکست خوردہ راہ و روش کے ذریعے مسلمانوں کے قبلہ اول کے مسئلہ میں کھلم کھلا خیانت کا ارتکاب کریں، انہیں جان لینا چاہیئے کہ جس کا رابطہ غاصب اسرائیل اور صہیونزم جیسے شجر ملعونہ سے ہوگا، ان کا انجام ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ایٹار ٹاس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ازبکتسان کے دارالحکومت تاشقند میں روس اور پانچ وسطی ایشیائی ممالک کے وزرائے خارجہ نے افغانستان کے بارے میں بیانیہ صادر کیا ہے جس میں افغانستان میں امن و صلح کے حصول کے لئے بین الافغانی مذاکرات پر زوردیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق روس ، قزاقستان، قرقیزستان، تاجیکستان،ترکمنستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ بیان میں افغانستان میں صلح کے حصول کے لئے بین الافغانی مذاکرات کی اہمیت پر زوردیا ہے۔ واضح رہے کہ  اس سے قبل روس کے وزیر خارجہ لاوروف نے ازبکستان میں وسط ایشیائی ممالک کی کانفرنس سے خطاب میں افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار امریکہ کو قراردیتے ہوئے کہا تھاکہ افغانستان میں امریکہ کا مشن ناکام ہوگیا ہے۔ اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور روس کےاتحادی ممالک نے امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کرنے  سے بھی انکار کردیا ہے۔ امریکہ نے افغانستان سے انخلاء کے بہانے پاکستان سمیت افغانستان کے ہمسایہ ممالک سے فوجی اڈے فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن پاکستان سمیت افغانستان کے ہمسایہ ممالک نے امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے انکار کردیا۔

خودی اور اپنائیت کا اظھار منافقین کو اپنی تخریبی اقدامات جاری رکھنے کے لئے تاکہ صاحب ایمان حضرات کی اعتقادی اور ثقافتی اعتبار سے تخریب کاری کرسکیں، انھیں ھر چیز سے اشد ضرورت مسلمانوں کے اعتماد و اعتبار کی ھے تاکہ مسلمان منافقین کو اپنوں میں سے تصور کریں اور ان کی اپنائیت میں شک سے کام نہ لیں، اس لئے کہ منافقین کے انحرافی القائات معاشرے میں اثر گذار ھوں اور ان کے منحوس مقاصد کی تکمیل ھوسکے۔
ان کی تمام سعی و کوشش یہ ھے کہ خود معاشرے میں اپنائیت کی جلوہ نمائی کرائیں، اس لئے کہ وہ جانتے ھیں اگر ان کے باطن کا افشا، اور ان کے اسرار آشکار ھوگئے تو کوئی شخص بھی منافقین کی باتوں کو قبول نھیں کریگا اور ان کی سازشیں جلد ھی ناکام ھوجائیں گی، ان کے راز افشا ھونے کی بنا پر اسلام کے خلاف ھر قسم کی تبلیغی فعالیت، نیز سیاسی سر گرمی سے ھاتھ دھو بیٹھیں گے، لھذا منافقین کا بنیادی اور ثقافتی ھدف اپنے خیر خواہ ھونے کی جلوہ نمائی اور عمومی مسلمانوں کے اعتماد کو کسب کرنا ھے اور یہ بھت عظیم خطرہ ھے کہ افراد و اشخاص، بیگانے اور اجنبی شخص کو اپنوں میں شمار کرنے لگیں، اور معاشرہ میں خواص کی نگاہ سے دیکھا جانے لگے، ثقافتی حادثہ اس وقت وجود میں آتا ھے کہ جب مسلمین منافقین کی ثقافتی روش طرز سے آشنائی نہ رکھتے ھوں اور ان کو اپنا دوست بھی تصور کریں، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام مختلف افراد کے ظواھر پر اعتماد کرنے کے خطرات اور اشخاص کی اھمیت پر توجہ کرنے کی ضرورت کے متعلق فرماتے ھیں۔
((انما اتا کبا لحدیث اربعة رجال لیس لهم خامس رجل منافق مظهر للایمان متصنع بالاسلام لا یتأثم ولا یتحرج یکذب علی رسول الله متعمدا فلو علم الناس انه منافق کاذب لم یقبلوا منه ولم یصدقوا قوله ولکنهم قالوا صاحب رسول الله رآه وسمع منه و لقف عنه فیاخذون بقوله) ([1])
یاد رکھو کہ حدیث کے بیان کرنے والے چار طرح کے افراد ھوتے ھیں جن کی پانچویں کوئی قسم نھیں ایک وہ منافق ھے جو ایمان کا اظھار کرتا ھے اسلام کی وضع و قطع اختیار کرتا ھے لیکن گناہ کرنے اور افترا میں پڑنے سے پرھیز نھیں کرتا ھے اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف قصداً جھوٹی روایتیں تیار کرتا ھے کہ اگر لوگوں کو معلوم ھوجائے کہ یہ منافق اور جھوٹا ھے تو یقیناً اس کے بیان کی تصدیق نھیں کریں گے لیکن مشکل یہ ھے کہ وہ سمجھتے ھیں کہ یہ صحابی ھیں انھوں نے حضور کو دیکھا ھے ان کے ارشاد کو سنا ھے اور ان سے حاصل کیا ھے اور اسی طرح اس کے بیان کو قبول کرلیتے ھے۔
اظھار اپنائیت کے لئے منافقین کی راہ و روش منافقین اظھار اپنائیت کے لئے مختلف روش و طریقے سے استفادہ کرتے ھیں، چونکہ یہ مبدا و معاد پر ایمان ھی نھیں رکھتے ھیں، لھذا راہ و روش کی مشروعیت یا عدم جواز ان کے لئے کوئی معنی نھیں رکھتا، اور ان کے نزدیک قابل بحث بھی نھیں ھے ان کی منطق میں ھدف کی تحصیل و تکمیل کے لئے، ھر وسائل سے استفادہ کیا جاسکتا ھے خواہ وسائل ضد انسانی ھی کیوں نہ ھوں یھاں منافقین کی اظھار اپنائیت کے سلسلہ میں فقط پانچ طریقوں کی جانب اشارہ کیا جارھا ھے۔

۱۔ کذب و ریاکاری کے ذریعہ اظھار کرنا:

جیسا کہ پھلے اشارہ کیا گیا ھے نفاق کا اصلی جو ھر کذب اور اظھار کا ذبانہ ھے منافقین اظھار اپنائیت کے لئے وسیع پیمانہ پر حربۂ کذب سے استفادہ کرتے ھیں کبھی اجتماعی اور گروھی شکل میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے ھیں اور آپ کی رسالت کا اقرار کرتے ھیں، خداوند عالم با صراحت ان کو اس اقرار میں کاذب تعارف کراتا ھے اور پیامبر عظیم الشان سے فرماتا ھے، اگر چہ تم واقعاً فرستادہ الھی ھو لیکن وہ اس اقرار میں کاذب ھیں اور دل سے تمھاری رسالت پر ایمان نھیں رکھتے ھیں۔
(اذا جاءک المنافقون قالوا نشهد انک لرسول الله والله یعلم انک لرسوله والله یشهد ان المنافقون لکاذبون) ([2])
پیامبر! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ھیں تو کھتے ھیں کہ ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ اللہ کے رسول ھیں اور اللہ بھی جانتا ھے کہ آپ اس کے رسول ھیں لیکن اللہ گواھی دیتا ھے کہ یہ منافقین اپنے دعوے میں جھوٹے ھیں۔
جس وقت مومنین، منافقین کو ایجاد فساد و تباھی سے منع کرتے ھیں، خود کو تاکید کے ساتھ مصلح و آباد گر کھتے ھیں خداوند عالم ان کی گفتار کی تکذیب کرتے ھوئے ان کے مفسد ھونے کا اعلان کررھا ھے۔
(واذا قیل لهم لا تفسدوا فی الارض قالوا انما نحن مصلحون الا انهم هم المفسدون ولکن لا یشعرون) ([3])
جب ان سے کھا جاتا ھے کہ زمین میں فساد نہ برپا کرو تو کھتے ھیں کہ ھم تو صرف اصلاح کرنے والے ھیں حالانکہ یہ سب مفسد ھیں اور اپنے فساد کو سمجھتے بھی نھیں ھیں۔
منافقین اپنی کذب بیانی سے، پہلے کھی گئی بات کو آسانی سے انکار بھی کردیتے ھیں، تاریخی شواھد کے مطابق کسی مودر میں جب یہ کوئی بات کرتے تھے اور اس کی خبر رسول اسلا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ھوجاتی تھی تو یہ سرے ھی سے اس کا انکار اور شدت سے اس خبر کی تکذیب کردیتے تھے۔
نقل کیا گیا ھے کہ”جلاس” نام کا منافق جنگ تبوک کے زمانہ میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض خطبے کو سننے کے بعد اس کا انکار کرتے ھوئے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب بھی کی، حضور کی مدینہ واپسی کے بعد عامر ابن قیاس نے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جلاس کی حرکات کو بیان کیا، جب جلاس حضور کے خدمت میں پھونچا تو عامر بن قیس کی گزارش کو انکار کر بیٹھا، آپ نے دونوں کو حکم دیا کہ مسجد نبوی میں منبر کے نزدیک قسم کھائیں کہ جھوٹ نھیں بول رھے ھیں دونوں نے قسم کھائی، عامر نے قسم میں اضافہ کیا خدایا! اپنے پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آیت نازل کرکے جو صادق ھے اس کا تعارف کرادے، حضور اور مومنین نے آمین کھی، جبرئیل نازل ھوئے اور اس آیت کو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔
(یحلفون بالله ما قالوا ولقد قالوا کلمۃ الکفر وکفروا بعد اسلامهم) ([4])
یہ اپنی باتوں پر اللہ کی قسم کھاتے ھیں کہ ایسا نھیں کھا حالانکہ انھوں نے کلمہ کفر کھا اور اپنے اسلام کے بعد کافر ھوگئے ھیں۔
یہ اور مذکورہ آیات سے استفادہ ھوتا ھے کہ کذب اور تکذیب، منافقین کا ایک طرۂ امتیاز ھے تاکہ مومنین کی صفوف میں نفوذ کرکے اپنائیت کا اظھار کرسکیں۔
منافقین پیامبر عظیم الشان(ص) کے دور میں تصور کرتے تھے کہ کذب و تکذیب کے ذریعہ آپ کو فریب دے سکتے ھیں تاکہ اپنے باطن کو مخفی کرسکیں خداوند عالم منافقین کی اس روش کو افشا کرتے ھوئے تاکید کررھا ھے کہ ایسا نھیں ھے کہ پیامبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمھارے احوال و اوضاع سے بے خبر ھیں یا خوش خیالی کی بنا پر تمھاری باتوں پر اطمینان کرلیتے ھیں۔
نقل کیا جاتا ھے کہ جماعت نفاق کے افراد آپس میں بیٹھے ھوئے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناسزا الفاظ سے یاد کررھے تھے، ان میں سے ایک نے کھا: ایسا نہ کرو، ڈرتا ھوں کہ یہ بات (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں تک پہنچ جائے اور وہ ھم کو برا بھلا کھیں اور افراد کو ھمارے خلاف ورغلائیں، ان میں سے ایک نے کھا: کوئی اھم بات نھیں، جو ھمارا دل چاھے گا کھیں گے، اگر یہ بات ان کے کانوں تک پہنچ بھی جائے، تو ان کے پاس جاکر انکار کردیں گے چونکہ (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش خیال و منھ دیکھے ھیں، کوئی جو کچھ بھی کھتا ھے قبول کرلیتے ھیں اس موقع پر سورہ توبہ کی ذیل آیت نازل ھوئی اور ان کے اس غلط تصور و فکر کا سختی سے جواب دیا۔
(منهم الذین یوذون النبی ویقولون هو اذن) ([5])
ان (منافقین)میں سے جو پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دیتے ھیں اور کھتے ھیں وہ تو صرف کان (سادہ لوح و خوش باور) ھیں۔

۲۔ باطل قسمیں یاد کرنا:

دوسری وہ روش جس کو استعمال کرتے ھوئے منافقین مومنین کے حلقہ میں نفوذ کرتے ھیں، باطل قسمیں کھانا ھے، وہ ھمیشہ شدید قسموں کے ذریعہ سعی کرتے ھیں تاکہ اپنے باطن کو افشا ھونے سے بچا سکیں اور اسی کے سایہ میں تخریبی حرکتیں انجام دیتے ھیں۔
(اتخذوا ایمانهم جنة فصدوا عن سبیل الله) ([6])
انھوں نے اپنی قسموں کو سپر بنا لیا ھے اور لوگوں کو راہ خدا سے روک رھے ھیں۔ منافقین باطل اور جھوٹی قسموں کے ذریعہ کوشش کرتے ھیں کہ خود کو مومنین کا خیر خواہ ثابت کریں، اور صاحب ایمان کے حلقہ میں اپنا ایک مقام بنالیں۔
(ویحلفون بالله انهم لمنکم وما هم منکم و لکنهم قوم یفرقون) ([7])
اور یہ اللہ کی قسم کھاتے ھیں اس بات پر کہ یہ تمھیں میں سے ھیں حالانکہ یہ تم میں سے نھیں ھیں یہ بزدل لوگ ھیں۔
منافقین چونکہ واقعی ایمان کے حامل نھیں، رضائے الھی کا حصول ان کے لئے اھمیت نھیں رکھتا ھے اور معاشرے میں اپنی ساکھ اور اعتبار بھی بنائے رکھنا چاھتے ھیں اور معاشرہ کے افراد کی توجہ کی حصول کے لئے زیادہ اھتمام بھی کرتے ھیں لھذا مختلف میدان میں جھوٹی قسمیں کھاکر مومنین حضرات کی رضایت و خشنودی کو حاصل کرتے ھیں۔
خدا قرآن میں تصریح کررھا ھے کہ منافقین کا بنیادی مقصد مومنین کی رضایت کو حاصل کرنا ھے حالانکہ رضایت الھی کا حصول اھمیت کا حامل ھے جب تک خدا راضی نہ ھو بندگان خدا کی رضایت منافقین کے لئے سودمند ھو ھی نھیں سکتی ھے شاید مومنین کی رضایت سے سوء استفادہ کرتے ھوئے مزید کچھ دن تخریبی کاروائی انجام دے سکیں۔
(یحلفون بالله لکم لیرضوکم والله ورسوله احق ان یرضوه ان کانوا مومنین)[8]
یہ لوگ تم لوگوں کو راضی کرنے کے لئے خدا کی قسم کھاتے ھیں حالانکہ خدا و رسول اس بات کے زیادہ حق دار تھے اگر یہ صاحبان ایمان تھے تو واقعاً انھیں اپنے اعمال و کردار سے راضی کرتے۔
(یحلفون لکم لترضوا عنهم فان ترضوا عنهم فان اللہ لا یرضی عن القوم الفاسقین) [9]
یہ تمھارے سامنے قسم کھاتے ھیں کہ تم ان سے راضی ھوجاؤ اگر تم راضی بھی ھوجاؤ تو بھی خدا فاسق قوم سے راضی ھونے والا نھیں۔

 

۳۔ غلط اقدامات کی توجیہ کرنا:

منافقین صاحبان ایمان کی تحصیل رضایت اور حسن نیت کی اثبات کے لئے اپنے غلط اقدامات و حرکات کی توجیہ کرتے ھیں کہ اپنائیت کا اظھار کرتے ھوئے فائدہ حاصل کرسکیں منافقین کی نفسیاتی خصوصیت میں یہ نکتہ مورد بحث قرار دیا گیا ھے اور تصریح کیا گیا ھے کہ منافقین تاویل و توجیہ کے ھتکنڈے کو تمام ھی موارد میں استعمال کرتے ھیں۔
منافقین عمومی افکار اور اعتماد کو ھاتھ سے جانے دینا نھیں چاھتے لھذا اظھار اپنائیت کرتے ھوئے اپنے غلط اقدامات و حرکات کی توجیہ کرتے ھیں اور اپنے باطل مقاصد کو حق کے لباس اور قالب میں پیش کرتے ھیں۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اھل نفاق کی توصیف کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
((یقولون فیشبهون ویصفون فیموهون))[10]
جب بات کرتے ھیں تو مشتبہ انداز میں اور جب تعریف کرتے ھیں تو باطل کو حق کا رنگ دے کر، کرتے ھیں۔
قرآن مجید نے منافقین کے مختلف عذر اور غلط اقدامات کا ذکر کیا ھے اور ان کی تکذیب بھی کی ھے، بطور مثال جنگ تبوک میں اپنے عدم حضور کی توجیہ، ناتوانی و عدم قدرت کی شکل میں پیش کرنا چاھتے تھے کہ خداوند عالم ان سے قبل ان کی اس توجیہ کی تکذیب کرتے ھوئے فرماتا ھے:
(لو کان عرضاً قریباً و سفرا قاصدا لا تبعونک ولکن بعدت علیهم الشقّه وسیحلفون بالله لو استطعنا لخرجنا معکم یهلکون انفسهم والله یعلم انهم لکاذبون)[11]
پیامبر! اگر کوئی فوری فائدہ یا آسان سفر ھوتا تو تمھارا اتباع کرتے لیکن ان کے لئے دور کا سفر مشکل بن گیا ھے اور عنقریب یہ خدا کی قسمیں کھائیں گے اس بات پر کہ اگر ممکن ھوتا تو ھم ضرور آپ کے ساتھ چل پڑتے، یہ اپنے نفس کو ھلاک کررھے ھیں اور خدا خوب جانتا ھے کہ یہ جھوٹے ھیں۔
منافقین کے غلط اقدام کی توجیہ کا ایک اور موقع یہ ھے کہ، تقریباً منافقین میں سے ایک سو اسّی افراد نے غزوہ تبوک میں شرکت نھیں کی، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمان وھاں سے واپس آئے تو منافقین مختلف توجیہ کرنے لگے۔
ذیل کی آیت منافقین کی اس غلط حرکات کی سرزنش کے لئے نازل ھوئی ھے خداوند عالم بطور واضح بیان کررھا ھے کہ ان کے جھوٹے عذر خدا کے لئے پوشیدہ نھیں ھیں ان کے حالات سے مومنین کو باخبر کرکے منافقین کے اسرار سے پردہ اٹھا رھا ھے۔
(یعتذرون الیکم اذا رجعتم الیهم قل لا تعتذروا لن نؤمن لکم قد نبّأنا الله من اخبارکم و سیری الله عملکم ورسوله ثم تردون الی عالم الغیب و الشهادۃ فینبئکم بما کنتم تعملون)[12]
یہ تخلف کرنے والے منافقین تم لوگوں کی واپسی پر طرح طرح کے عذر بیان کریں گے تو آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ عذر نہ بیان کرو ھم تصدیق کرنے والے نھیں ھیں اللہ نے ھمیں تمھارے حالات بتادیئے ھیں وہ یقیناً تمھارے اعمال کو دیکھ رھا ھے اور رسول بھی دیکھ رھا ھے اس کے بعد تم حاضر و غائب کے عالم (خدا) کی بارگاہ میں واپس کئے جاؤ گے اور وہ تمھیں تمھارے حال سے باخبر کرے گا۔

۴۔ ظاھر سازی کرنا:

ظواھر دینی کی شدید رعایت، خوش نما و اشخاص پسند گفتگو، اصلاح طلب نظریات و افکار کا اظھار، منافقین کے حربہ ھیں تاکہ طرف کے مقابل کو اپنا ھمنوا بناکر خودی ھونے کا القاء کرسکیں۔
امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام کے ھم عصر بعض منافقین ظاھر میں عبّاد و زہاّد دھر تھے نماز شب، قرآن کی تلاوت، ان سے طولانی ترین سجدے ترک نھیں ھوتے تھے، ان کی ظاھر سازی سے اکثر مومنین فریب کے شکار ھوجاتے تھے، بھت کم ھی تھے جو ان کے دین و ایمان میں شک رکھتے ھوں۔
منافقین کی ظاھر سازی کچھ اس نوعیت کی تھی کہ بقول قرآن، خود پیامبر عظیم الشان(ص) کے لئے بھی باعث حیرت و تعجب خیز تھی۔
(واذا رأیتهم تعجبک اجسامهم ان یقولوا تسمع لقولهم)[13]
اور جب آپ انھیں دیکھیں گے تو ان کے جسم بھت اچھے لگیں گے اور بات کریں گے تو اس طرح کہ آپ سننے لگیں گے۔
منافقین کی ظواھر سازی، رفتار و کردار سے اختصاص نھیں رکھتی بلکہ ان کی گفتار بھی فریب و جاذبیت سے لبریز ھے۔
(ومن الناس من یعجبک قوله فی الحیوة الدنیا و یشهد الله علی ما فی قلبه وهو الدّ الخصام)[14]
انسانوں میں ایسے لوگ بھی ھیں جن کی باتیں زندگانی دنیا میں بھلی لگتی ھیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر خدا کو گواہ بتاتے ھیں حالانکہ وہ بدترین دشمن ھیں۔

۵۔ جھوٹے عھد و پیمان کرنا:

خودی ظاھر کرنے کے لئے منافقین کا ایک اور وطیرہ وعدہ اور اس کی خلاف ورزی ھے بسا اوقات منافقین سے عادتاً ایسی خطائیں سرزد ھوتی تھیں کہ جس کی کوئی توجیہ و تاویل ممکن نھیں تھی یا مومنین کے لئے قابل قبول نھیں ھوتی تھی ایسے مقام پر وہ توبہ کو وسیلہ بناتے تھے اور عھد کرتے تھے اب ایسی خطائیں نھیں کریں گے اور صحیح راستہ پر مستحکم و ثابت قدم رھیں گے لیکن چونکہ دین اور دین کے اعتبارات کے لئے منافقین کے قلب میں کوئی جگہ تھی ھی نھیں جو اپنے عھد و پیمان پر باقی رھتے، تخلف وعدہ ایسے ھی تھا جیسے ان کے لئے کذب وغیرہ…… جنگ احزاب میں منافقین کی وعدہ خلافی کی بنا پر ذیل کی آیت کا نزول ھوا:
(ولقد کانوا عاهدوا الله من قبل لا یولون الأدبار وکان عهد الله مسئولا)[15]
اور ان لوگوں نے اللہ سے یقینی عھد کیا تھا کہ ھرگز پشت نھیں دکھائیں گے، اور اللہ کے عھد کے بارے میں بھر حال سوال کیا جائے گا۔
خداوند عالم “ثعلبہ بن حاطب” کی عھد گزاری نیز پیمان شکنی کے واقعہ کو یاد دھانی کے طور پر پیش کررھا ھے، ثعلبہ بن حاطب ایک فقیر مسلمان تھا اس نے پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کرنے کی خواھش کی تاکہ وہ صاحب ثروت ھوجائے حضرت نے فرمایا: وہ تھوڑا مال جس کا تم شکر ادا کرسکتے ھو اس زیادہ اموال سے بھتر ھے جس کی شکر گزاری نھیں کرسکتے ھو، ثعلبہ نے کھا: اگر خدا عطا کرے تو اس کے تمام واجب حقوق کو ادا کرتا رھوں گا۔
پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا سے اموال میں اضافہ ھونے لگا، یھاں تک کہ اس کے لئے مدینہ میں قیام، نماز جماعت نیز جمعہ میں شرکت کرنا مشکل ھوگیا اطراف مدینہ میں منتقل ھوگیا، جب زکوٰۃ لینے والے گئے تو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ مسلمان اس لئے ھوئے ھیں تاکہ جزیہ و خراج نہ دینا پڑے، اگر چہ بعد میں ثعلبہ پشیمان تو ھوا لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تنبیہ اور دوسروں کی عبرت کے لئے زکوٰۃ لینے سے انکار کردیا، ذیل کی آیت اسی واقعہ کو بیان کررھی ھے۔
(ومنهم من عاهد الله لئن آتانا من فضله لنصدقن و لنکونن من الصالحین فلما آتیهم من فضله بخلوا به وتولوا وهم معرضون فاعقبهم نفاقاً فی قلوبهم الی یوم یلقونه)[16]
ان میں سے وہ بھی ھیں جنھوں نے خدا سے عھد کیا اگر وہ اپنے فضل و کرم سے عطا کرے گا، تو اس کی راہ میں صدقہ دیں گے اور نیک بندوں میں شامل ھوجائیں گے، اس کے بعد جب خدا نے اپنے فضل سے عطا کردیا تو بخل سے کام لیا، اور کنارہ کش ھوکر پلٹ گئے تو ان کے بکل نے ان کے دلوں میں نفاق راسخ کردیا، اس دن تک کے لئے جب یہ خدا سے ملاقات کریں گے اس لئے کہ انھوں نے خدا سے کئے ھوئے وعدہ کی مخالفت کی ھے اور جھوٹ بولتے ھیں۔
پیمان گزاری و پیمان شکنی، وعدہ اور وعدہ کی خلاف ورزی، آئندہ صالح ھونے کا پیمان اور اس سے روگردانی وغیرہ……، یہ وہ طریقے ھیں جس سے منافقین استفادہ کرتے ھوئے مومنین کے حلقہ و دینی معاشرے میں خود کو مخفی؛ کئے رھتے ھیں اور عوام فریبی کے لئے زمین ھموار کرتے ھیں۔

منافقین کی ثقافتی خصائص

دینی یقینیات و مسلّمات کی تضعیف منافقین کی ثقافتی رفتار و کردار کی دوسری خصوصیت دینی و مذھبی یقینیات و مسلّمات کی تضعیف ھے یقیناً جب تک انسان کا عقیدہ تحریف، تزلزل، ضعف سے دوچار نہ ھوا ھو۔ کوئی بھی طاقت اس کے عقیدہ کے خلاف زور آزمائی نھیں کرسکتی قدرت کا اقتدار، حکومت کی حاکمیت اجسام و ابدان پر تو ھوسکتی ھے دل میں نفوذ و قلوب پر مسلط نھیں ھوسکتی سر انجام انسان کی رسائی اس شی تک ھو ھی جا تی ھے جسے دل اور قلب پسند کرتا ھے اسلام کا اھم ترین اثر مسلمانوں پر، بلکہ تمام ھی ادیان کا اپنے پیروکاروں پر یہ رھا ھے کہ فرضی و خرافاتی رسم و رواج کو ختم کرتے ھوئے منطقی و محکم اعتقاد کی بنیاد ڈالیں، پہلے تو اسلام نے انسانوں کے اندرونی تحول و انقلاب کے لئے کام کیا ھے پھر اسلامی حکومت کے استقرار کی کوشش کی ھے تاکہ ایسا سماج و معاشرہ وجود میں آئے جو اسلام کے نظریہ کے مطابق اور مورد تایید ھو۔
پیامبر عظیم الشان(ص) پہلے مکہ میں تیرہ سال تک انسان سازی اور ان کے اخلاقی، فکری، اعتقادی ستون کو محکم مضبوط کرنے میں مصروف رھے اس کے بعد مدینہ میں اسلام کی سیاسی نظریات کی تابع ایک حکومت تشکیل دی منافقین جانتے تھے کہ جب تک مسلمان پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انسان ساز تعلیمات پر گامزن اور خالص اسلامی عقیدہ پر استوار و ثابت قدم رھیں گے، ان پر نہ تو حکومت کی جاسکتی ھے اور نہ ھی وہ تسلیم ھوسکتے ھیں، لھذا ان کی طرف سے ھمیشہ یہ کوشش رھی ھے کہ مومنین عقائد، دینی و مذھبی تعلمیات کے حوالہ سے ھمیشہ شک و شبہ میں مبتلا رھیں جیسا کہ آج بھی اغیار کے ثقافتی یلغار و حملہ کا اھم ترین ھدف یھی ھے۔
منافقین کے اھداف یہ ھیں کہ اھل اسلام سے روح اسلام اور ایمان کو سلب کرلیں، منافقین کی تمام تر سعی، دین کے راسخ عقائد اس کے اھداف و نتائج، مذھب کی حقانیت و مسلمات سے مسلمانوں کو دور کردینا ھے تاکہ شاید اس کے ذریعہ اسلامی حکومت کی عنان اپنے ھاتھ میں لے سکیں اور مسلمانوں پر تسلط و قبضہ کرسکیں لھذا منافقین کا اپنے باطل مقاصد کے تکمیل کے لئے بھترین طریقۂ کار یہ ھوتا ھے کہ لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے شکوک پیدا کریں، اور انواع و اقسام کے شبھات کے ذریعہ مسلمانوں کو دینی مسلّمات کے سلسلہ میں وادی تردید میں ڈال دینے کی کوشش کرتے ھیں، تاریخی شواھد اور وہ آیات جو منافقین کی اس روش کو اجاگر کرتی ھیں، بیان کرنے سے قبل، ایک مختصر وضاحت سوال اور ایجاد شبہ کے سلسلہ میں عرض کرنا لازم ھے، اس میں کوئی شک نھیں کہ سوال اور جستجو کی فکر ایک مستحسن اور مثبت پہلو ھے، تمام علوم و معارف انھیں سوالات کے رھین منت ھیں جو بشر کے لئے پیش آئے ھیں اور جس کے نتیجہ میں اس نے جوابات فراھم کئے ھیں، اگر انسان کے اندر جستجو و تلاش کا جذبہ نہ ھوتا جو اس کی فطرت کا تقاضا ھے نیز ان سوالات کا حل تلاش کرنے کی فکر دامن گیر نہ ھوتی تو یقیناً موجودہ علوم و دانش کی یہ ترقی کسی صورت سے حاصل نہ ھوتی۔
ان سوالات کے حل کے لئے جو انسان کے لئے پیش آتے ھیں دین اسلام میں فراوان تاکید کی گئی ھے، یہ کھا جاسکتا ھے جس قدر علم و تحصیل کی تشویق و ترغیب کی گئی ھے اسی طرح سوالات اور اس کے حل پر بھی زور دیا گیا ھے، قرآن مجید صریح حکم دے رھا ھے اگر کسی چیز کو نھیں جانتے ھو تو اس علم کے علماء اور دانشمندوں سے سوال کرو۔
(فاسئلوا اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون)[17]
اگر نھیں جانتے ھو تو اھل ذکر (علماء) سے سوال کرو۔
دوسرا وہ مطلب جو اسلام میں جواب و سوال کی اھمیت کو ظاھر کرتا ھے وہ جوابات ھیں جو خداوند عالم نے قرآن میں بیان کئے ھیں یہ سوالات پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئے جاتے تھے خدا نے قرآن میں “یسئلونک” سے بات آغاز کرتے ھوئے ان کے جوابات دئے ھیں[18]
پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب روح، ھلال، انفال شراب و قمار کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ سوال اور فکر سوال کی تشویق و تمجید کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
((العلم خزائن و مفاتیحها السوال فاسئلوا یرحمکم الله فانه یوجر فیه اربعة السائل والعالم و المستمع والمحب لهم))[19]
علم خزانہ ھے اور اس کی کنجیاں سوال کرنا ھے، سوال کرو، (جس چیز کو نھیں جانتے ھو) خداوند متعال تم کو اپنی خاص رحمت سے نوازے گا ھر سوال میں چار فرد کو فائدہ نفع حاصل ھوتا ھے سوال کرنے والے، جواب دینے والے، سننے والے اور اس فرد کو جو ان کو دوست رکھتا ھے۔
ائمہ حضرات کے بھت سارے دلائل، بحث و مباحثات نیز مختلف افراد کے سوالات کا جواب دینا، حتی دشمنوں اور کافرین کے مسائل کا حل پیش کرنا اس بات کی دلیل ھے کہ سوال ایک امر پسندیدہ و مطلوب شی ھے، ائمہ حضرات کی سیرت میں اس امر کا اھتمام کافی حد تک مشھور ھے[20]
ظاھر ھے کہ وہ سوالات جو درک و فھم اور استفادہ کے لئے کیا جائے، وہ مفید ھے اور فھم و کمال کو بلندی عطا کرتا ھے، لیکن وہ سوالات جو دوسروں کی اذیت، آزمایش یا ایسے علم کے حصول کے لئے ھو جو انسان کے لئے فائدہ مند نھیں ھے، صرف یھی نھیں کہ ایسے سوالات بے قدر و قیمت ھیں بلکہ ممنوع قرار دئے گئے ھیں۔
امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام نے ایک پیچیدہ اور بی فائدہ سوال کے جواب میں فرمایا:
((سل تفقها ولا تسأل تعنتا))[21]
سمجھنے کے لئے دریافت کرو الجھنے کے لئے نھیں۔
قرآن مجید میں بھی پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئے گئے بعض سوالوں کے جواب کے لحن و طرز سے اندازہ ھوتا ھے کہ ایسے سوالات نھیں کرنا چاھئے جن کے جوابات ثمر بخش نھیں ھیں۔
بعض مسلمانوں نے ھلال (ماہ) کے سلسلہ میں سوالات کئے کہ ماہ کیا ھے، وہ کیوں تدریجاً کامل ھوتا ھے، پھر کیوں پہلی حالت پر پلٹ آتا ھے[22]
اللہ اس سوال کے جواب میں پیامبر عظیم الشان کو حکم دیتا ھے کہ ھلال کے تغییرات کے آثار و فوائد کو بیان کریں، ھلال کے متعلق اس جواب کا مفھوم یہ ھے کہ وہ چیز جو سوال کرنے و جاننے کے قابل ھے وہ ھلال کی تغییرات کی بنا پر اس کے آثار و فوائد ھیں نہ یہ کہ، کیوں ماہ تغییر کرتا ھے اور اس کی علت کیا ھے (علت شناسی زیادہ اھمیت کی حامل نھیں)۔
سوال اور شبہ کا اساسی و بنیادی فرق یہ ھے کہ شبہ القا کرنے والے کا ھدف، جواب کا حاصل کرنا نھیں ھے بلکہ شبہ کا موجد اپنے باطل مطلب کو حق کے لباس میں ان افراد کے سامنے پیش کرتا ھے، جو حق و باطل میں تشخیص دینے کی صلاحیت نھیں رکھتے ھیں امیر المونین حضرت علی علیہ السلام شبہ کی اسم گزاری کے سلسلہ میں فرماتے ھیں:
((وانما سمیت الشبهة شبهة لانها تشبه الحق))[23]
شبہ کو اس لئے شبہ کا نام دیا گیا کہ حق سے شباھت رکھتا ھے۔
اگر شبہ ایجاد کرنے والے کو علم ھوجائے کہ کسی مقام پر ھمارا مغالطہ کشف ھوجائے گا اور اس کا باطن ھونا آشکار ھوجائے گا تو ایسی صورت میں وہ اس مقام یا فرد کے پاس اصلاً شبہ کو طرح و پیش ھی نھیں کرتا بلکہ وہاں پیش کرنے سے گریز کرتے ھیں سعی و کوشش یہ ھوتی ھے کہ شبہ کے احتمالی جواب کو بھی مخدوش کرکے پیش کرے۔
ایسے افراد کے اھداف بعض اشخاص کو اپنے میں جذب اور ان کے مبانی و اصول میں تزلزل پیدا کرنا ھوتا ھے، تاکہ حق کو دور و جدا کرسکیں، شبہ کرنے والے حضرات اپنے باطل کو حق میں اس طرح آمیزش کردیتے ھیں کہ وہ افراد جو تفریق و تمیز کی صلاحیت نھیں رکھتے ھیں وہ فریب کا شکار ھوجائیں۔
شبھات ھمیشہ حق کے لباس میں پیش کئے جاتے ھیں اور آسانی سے سادہ لوح افراد مجذوب ھوجاتے ھیں، شبہ خالص باطل نھیں ھے اس لئے کہ باطل محض اور خالص آسانی سے ظاھر ھوجاتا ھے۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فتنہ کا سر چشمہ حق و باطل کی آمیزش کو بیان کرتے ھیں، آپ مزید فرماتے ھیں کہ اگر حق و باطل ایک دوسرے سے جدا کردئے جائیں تو راستہ کی تشخیص بھت ھی آسان اور سھل ھوجاتی ھے۔
((انما بدء وقوع الفتن اهواء تتبع و احکام تبتدع یحلاف فیها کتاب الله ویتولی علیها رجال رجالا علی غیر دین الله فلو ان الباطل خلص من مزاج الحق لم یخف علی المرتادین ولو ان الحق خلص من لبس الباطل انقطعت عنه السن المعاندین ولکن یوخذ من هذا ضغث و من هذا ضغث فیمز جان))[24]
فتنہ کی ابتدا ان خواھشات سے ھوتی ھے جن کا اتباع کیا جاتا ھے اور ان جدید ترین احکام سے ھوتی ھے جو گڑھ لئے جاتے ھیں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف ھوتے ھیں اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ھوجاتے ھیں اور دین خدا سے الگ ھوجاتے ھیں کہ اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رھتا تو حق کے طلبگاروں پر مخفی نھیں رہ سکتا تھا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رھتا تو دشمنوں کی زبانیں کھل نھیں سکتی تھیں، لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ھے اور ایک اس میں سے، اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ھے۔
تحقیقی اور تخصصی مسائل کو علمی ظاھر کرتے ھوئے، غیر علمی حلقے و ماحول میں پیش کرنا ایجاد کرنے کا روشن ترین مصداق ھے۔

 

شبہ کا القا

دینی و اعتقادی مسلّمات کو ضعیف و کمزور کرنے کے لئے منافقین کی اھم ترین روش، القا شبہ ھے جس کے ذریعہ دین و ایمان کی روح و فکر کو خدشہ دار کردیتے ھیں۔
منافقین سخت اور حساس مواقع پر خصوصاً جنگ و معرکہ کے ایام میں شبہ اندازی کرکے مومنین کی مشکلات میں اضافہ اور مجاھدین کی فکر و حوصلہ کو تباہ اور برباد کر دیتے ھیں تاکہ میدان جنگ و نبرد کے حساس مواقع پر شرکت کرنے سے روک سکیں۔
اس مقام پر منافقین کی طرف سے پیش کئے گئے دو شبہ قرآن مجید کے حوالہ سے پیش کئے جارھے ھیں۔

۱۔ دین کے لئے فریب کی نسبت دینا

منافقین جنگ بدر کے موقع پر خداوند عالم کی نصرت و مدد اور مسلمین کی کامیابی و فتح یابی کے وعدے کی تکذیب کرتے ھوئے، ان کے وعدے کو فریب و خوش خیالی قرار دے رھے تھے، قصد یہ تھا کہ ایجاد اضطراب کے ذریعہ وعدہ الھی کے سلسلہ میں مسلمانوں کے اعتقاد و ایمان میں ضعف و تزلزل پیدا کردیں، تاکہ وہ میدان جنگ میں حاضر نہ ھوسکیں۔
خداوند عالم اس مسئلہ کی یاد دھانی کرتے ھوئے مسلمانوں کے لئے تصریح کرتا ھے کہ خدا کا وعدہ یقینی ھے اگر توکل و اعتماد رکھو گے تو کامیاب و کامران ھوجاؤ گے۔
(واذ یقول المنافقون والذین فی قلوبهم مرض غرّ هولاء دینهم ومن یتوکل علی الله فان الله عزیز حکیم)[25]
جب منافقین اور جن کے دل میں کھوٹ تھا کہہ رھے تھے کہ ان لوگوں (مسلمان) کو ان کے دین نے دھوکہ دیا ھے حالانکہ جو شخص اللہ پر اعتماد کرتا ھے تو خدا ھر شی پر غالب آنے والا اور بڑی حکمت والا ھے۔
منافقین نے اسی سازش کو جنگ احزاب (خندق) میں بھی استعمال کیا۔
(واذ یقول المنافقون والذین فی قلوبهم مرض ما وعدنا الله ورسوله الا غرورا)[26]
اور جب منافقین اور جن کے دلوں میں مرض تھا یہ کہہ رھے تھے کہ خدا و رسول نے ھم سے صرف دھوکہ دینے والا وعدہ کیا ھے۔
آیت فوق کی شان نزول یہ ھے کہ مسلمان خندق کھودتے وقت ایک بڑے پتھر سے ٹکرائے، سعی فراوان کے بعد بھی پتھر کو نہ توڑ سکے، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد کے لئے درخواست کی، آپ نے الھی طاقت کا مظاھرہ کرتے ھوئے تین وار اور ضرب سے پتھر کو توڑ ڈالا، اور آپ نے فرمایا: یھاں سے حیرہ، مدائن، کسریٰ و روم کے قصر و محل میرے لئے واضح و آشکار ھیں، فرشتۂ وحی نے مجھے خبر دی ھے کہ میری امت ان پر کامیاب اور فتحیاب ھوگی نیز ان کے تمام قصر و محل زیر تصرف ھوں گے پھر آپ نے فرمایا: خوش خبری اور مبارک ھو تم مسلمانوں پر اور اس خدا کا شکر ھے کہ اس محاصرہ و مشکلات کے بعد فتح و ظفر ھے۔
اس موقع پر ایک منافق نے بعض مسلمانوں کو مخاطب کرتے ھوئے کھا: تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات پر تعجب نھیں کرتے ھو، کس طریقہ سے تم کو بے بنیاد وعدوں کے ذریعہ خوش کرتے ھیں اور کھتے ھیں کہ یھاں سے روم و حیرہ و مدائن کے قصر کو دیکھ رھا ھوں اور جلد ھی فتح نصیب ھوگی، یہ اس حال میں تم کو وعدہ دے رھے ھیں کہ تم دشمن سے مقابلہ کرنے میں خوف و ھراس کے شکار ھو [27]

 

۲۔ حق پر نہ ھونے کا شبہ ایجاد کرنا

دوسرا وہ القاء شبہ جسے ھمیشہ منافقین خصوصاً میدان جنگ اور معرکہ میں ایجاد کرتے تھے حق پر نہ ھونے کا شبہ تھا، جب جنگوں میں مسلمان خسارہ اور نقصان میں ھوتے تھے یا بعض مجاھدین درجہ شھادت پر فائز ھوتے تھے، یا اھل اسلام شکست سے دوچار ھوتے تھے تو منافقین اس کا بھانہ لے کر طرح طرح کے شبہ ایجاد کرتے تھے کہ اگر حق پر ھوتے تو شکست نھیں ھوتی، یا قتل نھیں کئے جاتے، اور اس طرح سے مسلمانوں کو شک اور تزلزل میں ڈال دیتے تھے۔
قرآن مجید سے استفادہ ھوتا ھے کہ منافقین نے جنگ احد اور اس کے بعد سے اس انحرافی فکر کو القا کرنے میں اپنی سعی تیز تر کردی تھی۔
(ویقولون لو کان لنا من الأمر شیء ما قتلنا ههنا)[28]
اور کھتے ھیں کہ اگر اختیار ھمارے ھاتھ میں ھوتا ھم یھاں نہ مارے جاتے۔
منافقین میدان جنگ میں شکست کو نبوت پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے آئین کی نا درست و ناسالم ھونے کی علامت سمجھتے تھے اور یہ شبہ ایجاد کرتے تھے اگر یہ (شھدا) میدان جنگ میں نہ جاتے تو شھید نہ ھوتے۔
(الذین قالوا لأخوانهم و قعدوا لو اطاعونا ما قتلوا)[29]
یھی (منافقین) وہ ھیں جنھوں نے اپنے مقتول بھائیوں کے بارے میں یہ کھنا شروع کردیا کہ وہ ھماری اطاعت کرتے تو ھرگز قتل نہ ھوتے۔
خداوند عالم ان کے اس شبہ (جنگ میں شرکت قتل کئے جانے کا سبب ھے) کا جواب بیان کررھا ھے، موت ایک الھی تقدیر و سر نوشت ھے موت سے فرار میسر نھیں، اور معرکہ احد میں قتل کیا جانا نبوت و پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نا سالم ھونے اور ان کے نادرست اقدام کی علامت نھیں، جن افراد نے اس جنگ میں شرکت نھیں کی ھے موت سے گریز و فرار نھیں کرسکتے ھیں یا اس کو موخر کرنے کی قدرت و توانائی نہیں رکھتے ھیں۔
(قل لو کانوا فی بیوتکم لبرز الذین کتب علیهم القتل الی مضاجعهم)[30]
تو آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم گھروں میں بھی رہ جاتے تو جن کے لئے شھادت لکھ دی گئی ھے وہ اپنے مقتل تک بہر حال جاتے۔
قرآن موت و حیات کو خدا کے اختیار میں بتاتا ھے معرکہ و جنگ کے میدان میں جانا موت کے آنے یا تاخیر سے آنے میں مؤثر نھیں ھے۔
(والله یحیی و یمیت والله بما تعملون بصیر)[31]
موت و حیات خدا کے ھاتھ میں ھے اور وہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ھے اس مطلب کی تاکید کی کہ موت و حیات انسان کے اختیار میں نھیں ھے منافقین کے لئے اعلان کیا جارھا ھے کہ اگر تمھارا عقیدہ یہ ھے کہ موت و حیات تمھارے اختیار میں ھے تو جب فرشتۂ مرگ نازل ھو تو اس کو اپنے سے دور کردینا اور اس سے نجات حاصل کرلینا۔
(قل فادرئوا عن انفسکم الموت ان کنتم صادقین)[32]
پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اپنے دعوے میں سچے ھو تو اب اپنی ھی موت کو ٹال دو۔
مسلمانوں کو اپنے مذھب و عقیدہ میں شک سے دوچار کرنے کے لئے منافقین ھمیشہ یہ نعرہ بلند کیا کرتے تھے، اگر ھم حق پر تھے تو کیوں قتل ھوئے اور کیوں اس قدر ھمیں قربانی دینی پڑی، ھمیں جو جنگ احد میں ضربات و شکست سے دوچار ھونا پڑا ھے اس کا مطلب یہ ھے کہ ھمارا دین اور آئین حق پر نھیں ھے۔
قرآن کے کچھ جوابات اس شبہ کے سلسلہ میں گزر چکے ھیں، اساسی و مرکزی مطلب اس شبہ کو باطل کرنے کے لئے مورد توجہ ھونا چاھئے وہ یہ کہ ظاھری شکست حق پر نہ ھونے کی علامت نھیں ھے جس طریقہ سے ظاھری کامیابی بھی حقانیت کی دلیل نھیں ھے۔
بھت سے انبیاء حضرات کہ جو یقیناً حق پر تھے، اپنے پروگرام کو جاری کرنے میں کامیابی سے ھم کنار نھیں ھوسکے، بنی اسرائیل نے بین الطلوعین ایک روز میں ستر انبیاء کو شھید کر ڈالا اور اس کے بعد اپنے کاموں میں مشغول ھوگئے جیسے کچھ ھوا ھی نھیں، کوئی حادثہ وجود میں آیا ھی نھیں، تو کیا ان پیامبران الھی کا شھید و مغلوب ھونا ان کے باطل ھونے کی دلیل ھے؟ اور بنی اسرائیل کا غالب ھوجانا ان کی حقانیت کی علامت ھے؟ یقیناً اس کا جواب نھیں میں ھے، دین کے سلسلہ میں فریب کی نسبت دینا اور حق پر نہ ھونے کے لئے شبہ پیدا کرنا، منافقین کے القاء شبھات کے دو نمونہ تھے جسے منافقین پیش کرتے تھے لیکن ان کے شبھات کی ایجاد ان دو قسموں پر منحصر و محصور نھیں ھے۔
دین کو اجتماع و معاشرت کے میدان سے جدا کرکے صرف آخرت کے لئے متعارف کرانا، دین کے تقدس کے بھانے دین و سیاست کی جدائی کا نعرہ بلند کرنا، تمام ادیان و مذاھب کے لئے حقانیت کا نظریہ پیش کرنا، صاحب ولایت کا تمام انسانوں کے برابر ھونا، صاحب ولایت کی درایت میں تردید اور اس کے اوامر میں مصلحت سنجی کے نظریہ کو پیش کرنا، احکام الھی کے اجرا ھونے کی ضرورت میں تشکیک وجود میں لانا، خدا محوری کے بجائے انسان محوری کی ترویج کرنا، اس قبیل کے ھزاروں شبھات ھیں جن کو منافقین ترویج کرتے تھے اور کررھے ھیں، تا کہ ان شبھات کے ذریعہ دین کے حقایق و مسلّمات کو ضعیف اور اسلامی معاشرہ سے روح ایمان کو خالی کردیں اور اپنے باطل و بیھودہ مقاصد کو حاصل کرلیں۔
البتہ یہ بات ظاھر و عیاں ھے کہ منافقین مسلمانوں کے اعتقادی و مذھبی یقینیات و مسلّمات میں القاء شبھات کے لئے اس نوع کے مسائل کا انتخاب کرتے ھیں جو اسلامی حکومت و معاشرے کی تشکیل میں مرکزی نقش رکھتے ھیں اور ان کے تسلط و قدرت کے لئے موانع ثابت ھوتے ھیں، اسی بنا پر منافقین کے القاء شبھات کے لئے زیادہ تر سعی و کوشش دین کے سیاسی و اجتماعی مبانی نیز دین و سیاست کی جدائی اور دین کو فردی مسائل سے مخصوص کردینے کے لئے ھوتی ھیں۔

——–
[1] نھج البلاغہ، خطبہ ۲۱۰۔
[2] سورہ منافقون/۱۔
[3] سورہ بقرہ/۱۱، ۱۲۔
[4] سورہ توبہ/۷۴۔
[5] سورہ توبہ/۶۱۔
[6] سورہ منافقون/۲۔
[7] سورہ توبہ/۵۶۔
[8] سورہ توبہ/۶۲۔
[9] نھج البلاغہ، خطبہ۱۹۴۔
[10] نھج البلاغہ، خطبہ ۱۹۴۔
[11] سورہ توبہ/۴۲۔
[12] سورہ توبہ/۹۴۔
[13] سورہ منافقون/۲۔
[14] سورہ بقرہ/۲۰۴۔
[15] سورہ احزاب/۱۵۔
[16] سورہ توبہ/۷۵/۷۷۔
[17] سورہ نحل/۴۲ و سورہ انبیاء/۷۔
[18] رجوع کریں بقرہ/۸۹ /۲۱۵ /۲۱۷ /۲۱۹۔
[19] میزان الحکمۃ ج۴، ص۳۳۰۔
[20] بعض مطالب کو کتاب الاحتجاج، مرحوم طبرسی، ج۱، ۲ میں حاصل کیا جاسکتا ھے۔
[21] نھج البلاغہ، حکمت۳۲۰۔
[22] سورہ بقرہ/۱۸۹۔
[23] نھج البلاغہ، خطبہ۳۸۔
[24] نھج البلاغہ، خطبہ۵۰۔
[25] سورہ انفال/۴۹۔
[26] سورہ احزاب/۱۲۔
[27] سیرۃ ابن ھشام، ج۲، ص۲۱۹، منشور جاوید، ص۷۴، ۷۵۔
[28] سورہ آل عمران/۱۵۴۔
[29] سورہ آل عمران/۱۶۸۔
[30] سورہ آل عمران/۱۵۴۔
[31] سورہ آل عمران/۱۵۶۔
[32] سورہ آل عمران/۱۶۸۔

 

مہر خبررساں ایجنسی نے  فلسطین الیوم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے فلسطینیوں کے ساتھ خانت اور غداری کا ارتکب کرتے ہوئے اسرائیل میں سفارت خانہ کھول دیا ہے جس کے بعد امارات خلیج فارس کے عرب ممالک میں سفارت خانہ کھولنے والا پہلا ملک بن گيا ہے۔

اطلاعات کے مطابق متحدہ عرب امارات کے سفیر محمد محمود آل خاجہ نے اسرائیل میں ایک تقریب میں سفارت خانے کا افتتاح کر دیا اور دفتر کے باہر اماراتی پرچم لہرادیا۔ اماراتی سفارت خانہ تل ابیب اسٹاک ایکسچینج میں قائم کیا گیا ہے۔

 متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے پہلے سفیر محمد آل خاجہ نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی تعلقات کی بحالی کے بعد پہلی بار ہم نے معیشت، ہوائی سفر، ٹیکنالوجی اور ثقافت سمیت مختلف شعبوں میں بڑے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ محمد آل خاجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری پر کافی پیشرفت ہوئی ہے ۔ اس موقع پر اسرائیلی صدر آئزک ہرزگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ تل ابیب میں اماراتی جھنڈا لہرانے پر اسرائیل کو فخر ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ہی اسرائیلی وزیر خاجہ یائر لپید نے ابوظہبی میں اسرائیلی سفارت خانے اور دبئی میں اسرائیلی قونصل خانے کا افتتاح کیا تھا ۔ اسلامی ماہرین اور دانشوروں کے مطابق متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرکے فلسطینیوں اور مسلمانوں کے ساتھ غداری اور خیانت کی ہے جس کا اسے تاوان ادا کرنا پڑےگا۔

ارشاد رب العزت ہے: وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ

الْعَلِیْمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّکَ وَأَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ “(وہ وقت بھی یاد کرو)جب ابراہیم اور اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور دعا کر رہے تھے۔ اے ہمارے رب ہم سے (یہ عمل) قبول فرما کیونکہ تو خوب سننے اور جاننے والا ہے۔اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بنا۔اور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما اور ہماری توبہ قبول فرما۔یقینا تو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔”(بقرہ:۱۲۷ ،۱۲۸) امتحان میں کامیابی کے بعد امامت کا ملنا وَإِذِ ابْتَلٰی إِبْرَاہِیْمَ رَبُّہ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَایَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِیْنَ ۔ “اور(وہ وقت بھی یاد کرو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے ان کو پورا کر دیا۔تو ارشاد ہوا میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔انہوں نے کہا اور میری اولاد سے بھی۔ارشاد ہوا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔”(بقرہ :۱۲۴) کیا کہنا عظمت اور خلّت ِابراہیم کا،وہ واقعاً ایک امت تھے۔انہوں نے اللہ کے کاموں میں پوری وفا کی۔ارشاد ہوا۔ وَاِبرَہِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی “اور ابراہیم جس نے (حق اطاعت) پورا کیا۔” (نجم:۳۷) لیکن ان کی زوجہ محترمہ کی وفا مثالی اور کردار عالی تھا۔حضرت ابراہیم کے ہر قول پر امنا وصدقنا کی حقیقی مصداق تھیں،اور ہر تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار رہتیں۔ چھوٹے بچے اسماعیل اور ہاجرہ کو اکیلے مکہ جیسی بے آب و گیاہ زمین میں چھوڑ رہے ہیں نہ پینے کا پانی ہے اور نہ کھانے کیلئے خوراک بننے والی کوئی چیز ۔ سایہ کیلئے کوئی درخت بھی نہیں۔ نہ تو کوئی انسان موجود ہے اور نہ کوئی متنفس لیکن ہاجرہ رضائے خدا ، رضائے ابراہیم پر راضی کھڑی ہیں اللہ نے اس بی بی کو اس قدر عظمت دی کہ اسماعیل کے ایڑیاں رگڑنے سے زم زم جیسے پانی کا تحفہ میّسر ہوابیچاری ہاجرہ پانی کی تلاش کیلئے بھاگ دوڑ میں ہی مشغول رہیں۔ صفا و مروہ شعائر اللہ اور حج کا عظیم رکن بن گئے مکہ آباد ہوا اور اللہ والوں کا مرکز ٹھہرا ۔ ارشاد رب العزت ہوا : رَبَّنَا إِنِّیْ أَسْکَنتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ إِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوْنَ۔ “اے ہمارے پروردگار! میں اپنی اولادمیں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے قریب بے آب و گیا ہ وادی میں چھوڑ رہا ہوں تاکہ وہ یہاں نماز قائم کریں اور(اے اللہ)تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑ دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جائیں ۔” ( ابراہیم :۳۷) اب اس گرم تپتی ہوئی زمین پر صرف دو انسان موجود ہیں ایک عورت اور دوسرا چھوٹا سا بچہ، ماں اور بیٹے کو پیاس لگی۔ ماں صفا اور مروہ پہاڑ وں کے درمیان پانی کی تلاش میں بھاگ دوڑ کر رہی ہیں ارشاد رب العزت ہوتا ہے ۔ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللہ “بے شک صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔” (بقرہ :۱۵۸) ادھر اسماعیل رو رہے ہیں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں خدا نے پانی کا چشمہ جاری کر دیا ہاجرہ تھکی ہوئی آئیں پانی دیکھا تو خوش ہو گئیں ارد گرد مٹی رکھ دی اور کہا زم زم ( رک جا رک جا) تو چشمہ کا نام زم زم پڑ گیا ۔ جب حضرت ابراہیم جانے لگے تو بے چاری عورت نے صرف اتنا کہا۔ اِلیٰ مَنْ تَکِلُنِیْ مجھے کس کے سپرد کر کے جا رہے ہو ۔ ابراہیم ۔نے کہا اللہ۔یہ سن کر ہاجرہ مطمئن ہو گئیں ۔ عورت کا خلوص اور ماں کی مامتا اس بات کی موجب بنی کہ جب وہ پانی کی تلاش میں کبھی صفا اور کبھی مروہ کی طرف جاتی تو اللہ کو یہ کام اتنا پسند آیا کہ اس نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکروں کو حج کا واجب رکن قرار دیا ۔ پانی ملا اورجب اس پر ہر طرف سے بند باندھا تو زم زم کہلایا ،حج کے موقع پر یہاں سے پانی لینا مستحب ہے اس پانی سے منہ اور بدن دھونا بھی مستحب ہے۔ آج پوری دنیا میں آب زم زم تبرک کے طور پر پہنچ کر گواہی دے رہا ہے کہ جناب ہاجرہ نے خدا و رسول کی جو اطاعت کی اس کے صدقے میں ہاجرہ کی پیروی کس قدر ضروری ہے۔ پھر آب زم زم کو یہ قدر و منزلت اور عظمت اس بی بی (عورت) کی وجہ سے نصیب ہوئی ۔ ابراہیم ۔کا کام قابل احترام ہے لیکن زوجہ کا احترام بھی ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا